সুনানুদ্দারিমী (উর্দু)
مسند الدارمي (سنن الدارمي)
مقدمہ دارمی - এর পরিচ্ছেদসমূহ
মোট হাদীস ২০ টি
হাদীস নং: ১
مقدمہ دارمی
نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے پہلے لوگ جس جہالت اور گمراہی کا شکار تھے۔
حضرت عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں ایک شخص نے دریافت کیا یا رسول اللہ ! آدمی نے زمانہ جہالت میں جو عمل کیا ہو کیا اس پر مواخذہ ہوگا ؟ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا جو شخص اسلام لانے کے بعد اچھے کام کرے اس سے ان اعمال پر مواخذہ نہیں ہوگا جو اس نے زمانہ جاہلیت میں کئے تھے۔ اور جو شخص اسلام لانے کے بعد بھی برے عمل کرے اس سے پہلے اور بعد والے تمام اعمال کا مواخذہ ہوگا۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي وَائِلٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ جَاءَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَيُؤَاخَذُ الرَّجُلُ بِمَا عَمِلَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ قَالَ مَنْ أَحْسَنَ فِي الْإِسْلَامِ لَمْ يُؤَاخَذْ بِمَا كَانَ عَمِلَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ وَمَنْ أَسَاءَ فِي الْإِسْلَامِ أُخِذَ بِالْأَوَّلِ وَالْآخِرِ

তাহকীক:
হাদীস নং: ২
مقدمہ دارمی
نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے پہلے لوگ جس جہالت اور گمراہی کا شکار تھے۔
حضرت وضین (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ ہم جاہلیت میں مبتلا لوگوں اور بتوں کے پجاری تھے۔ ہم اپنی اولاد کو قتل کردیا کرتے تھے۔ میری ایک بیٹی تھی جب وہ کچھ بڑی ہوئی تو جب بھی میں اسے بلاتا تو وہ میرے بلانے پر خوش ہوتی تھی۔ ایک دن میں نے اسے بلایا وہ میرے پیچھے آئی میں چلتا ہوا اپنے گھر کے کنویں کے پاس آگیا جو زیادہ دور نہیں تھا۔ میں نے اس بچی کا ہاتھ پکڑا اور اسے کنویں میں پھینک دیا اس نے مجھ سے آخری بات یہ کہی اے اباجان اے اباجان (راوی کہتے ہیں) نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رونے لگے یہاں تک کہ آپ کی دونوں آنکھوں سے مسلسل آنسو جاری ہوگئے۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ بیٹھے ہوئے حضرات میں سے ایک صاحب نے اس شخص سے کہا تم نے اللہ کے رسول کو غم گین کردیا ہے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان صاحب سے کہا رہنے دیں۔ اس نے وہ بات دریافت کی ہے جسے اہم سمجھا ہے۔ پھر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس شخص سے کہا اپنی بات میرے سامنے دوبارہ بیان کرو۔ اس شخص نے دوبارہ بیان کی نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رونے لگے۔ یہاں تک کہ آپ کی دونوں آنکھوں سے آنسوجاری ہو کر آپ کی داڑھی مبارک پر گرنے لگے پھر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے فرمایا لوگوں نے زمانہ جاہلیت میں جو کام کئے تھے اللہ نے انھیں درگزر کردیا ہے۔ اب تم نئے سرے سے عمل کا آغاز کرو۔
أَخْبَرَنَا الْوَلِيدُ بْنُ النَّضْرِ الرَّمْلِيُّ عَنْ مَسَرَّةَ بْنِ مَعْبَدٍ مِنْ بَنِي الْحَارِثِ بْنِ أَبِي الْحَرَامِ مِنْ لَخْمٍ عَنْ الْوَضِينِ أَنَّ رَجُلًا أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّا كُنَّا أَهْلَ جَاهِلِيَّةٍ وَعِبَادَةِ أَوْثَانٍ فَكُنَّا نَقْتُلُ الْأَوْلَادَ وَكَانَتْ عِنْدِي ابْنَةٌ لِي فَلَمَّا أَجَابَتْ وَكَانَتْ مَسْرُورَةً بِدُعَائِي إِذَا دَعَوْتُهَا فَدَعَوْتُهَا يَوْمًا فَاتَّبَعَتْنِي فَمَرَرْتُ حَتَّى أَتَيْتُ بِئْرًا مِنْ أَهْلِي غَيْرَ بَعِيدٍ فَأَخَذْتُ بِيَدِهَا فَرَدَّيْتُ بِهَا فِي الْبِئْرِ وَكَانَ آخِرَ عَهْدِي بِهَا أَنْ تَقُولَ يَا أَبَتَاهُ يَا أَبَتَاهُ فَبَكَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى وَكَفَ دَمْعُ عَيْنَيْهِ فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ مِنْ جُلَسَاءِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحْزَنْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لَهُ كُفَّ فَإِنَّهُ يَسْأَلُ عَمَّا أَهَمَّهُ ثُمَّ قَالَ لَهُ أَعِدْ عَلَيَّ حَدِيثَكَ فَأَعَادَهُ فَبَكَى حَتَّى وَكَفَ الدَّمْعُ مِنْ عَيْنَيْهِ عَلَى لِحْيَتِهِ ثُمَّ قَالَ لَهُ إِنَّ اللَّهَ قَدْ وَضَعَ عَنْ الْجَاهِلِيَّةِ مَا عَمِلُوا فَاسْتَأْنِفْ عَمَلَكَ

তাহকীক:
হাদীস নং: ৩
مقدمہ دارمی
نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے پہلے لوگ جس جہالت اور گمراہی کا شکار تھے۔
مجاہد بیان کرتے ہیں کہ مجھے میرے غلام نے بتایا کہ اس کے گھر والوں نے اسے ایک پیالہ دے کر اپنے باطل معبودوں کے پاس بھیجا اس پیالے میں مکھن اور دودھ تھا۔ وہ غلام کہتا ہے ان معبودوں کے خوف کی وجہ سے میں نے وہ مکھن نہیں کھایا وہ مزید بیان کرتا ہے اسی دوران ایک کتا وہاں آیا اور اس نے وہ مکھن کھالیا اور دودھ پی لیا اور پھر اس بت کے اوپر پیشاب بھی کردیا۔ (راوی کہتے ہیں) وہ بت " اساف " اور " نائلہ " تھے۔ 
ہارون (نامی راوی) بیان کرتے ہیں۔ زمانہ جاہلیت میں جب کوئی شخص سفر پر روانہ ہوتا تو وہ اپنے ساتھ چار پتھر لے کرجاتا تھا جن میں سے تین پتھر چولہے کے طور پر استعمال کرنے کے لیے ہوتے تھے۔ اور چوتھے کی وہ عبادت کرتا تھا۔ (زمانہ جاہلیت سے تعلق رکھنے والاشخص) اپنے کتے کی پرورش کرتا تھا اور اپنی اولاد یعنی بیٹیوں کو دفن کردیتا تھا۔
ہارون (نامی راوی) بیان کرتے ہیں۔ زمانہ جاہلیت میں جب کوئی شخص سفر پر روانہ ہوتا تو وہ اپنے ساتھ چار پتھر لے کرجاتا تھا جن میں سے تین پتھر چولہے کے طور پر استعمال کرنے کے لیے ہوتے تھے۔ اور چوتھے کی وہ عبادت کرتا تھا۔ (زمانہ جاہلیت سے تعلق رکھنے والاشخص) اپنے کتے کی پرورش کرتا تھا اور اپنی اولاد یعنی بیٹیوں کو دفن کردیتا تھا۔
أَخْبَرَنَا هَارُونُ بْنُ مُعَاوِيَةَ عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سُلَيْمَانَ الْمُؤَدِّبِ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ مُجَاهِدٍ قَالَ حَدَّثَنِي مَوْلَايَ أَنَّ أَهْلَهُ بَعَثُوا مَعَهُ بِقَدَحٍ فِيهِ زُبْدٌ وَلَبَنٌ إِلَى آلِهَتِهِمْ قَالَ فَمَنَعَنِي أَنْ آكُلَ الزُّبْدَ لِمَخَافَتِهَا قَالَ فَجَاءَ كَلْبٌ فَأَكَلَ الزُّبْدَ وَشَرِبَ اللَّبَنَ ثُمَّ بَالَ عَلَى الصَّنَمِ وَهُوَ إِسَافٌ وَنَائِلَةُ قَالَ هَارُونُ كَانَ الرَّجُلُ فِي الْجَاهِلِيَّةِ إِذَا سَافَرَ حَمَلَ مَعَهُ أَرْبَعَةَ أَحْجَارٍ ثَلَاثَةً لِقِدْرِهِ وَالرَّابِعَ يَعْبُدُهُ وَيُرَبِّي كَلْبَهُ وَيَقْتُلُ وَلَدَهُ

তাহকীক:
হাদীস নং: ৪
مقدمہ دارمی
نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے پہلے (سابقہ آسمانی) کتابوں میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا تذکرہ۔
ابورجاء (رض) بیان کرتے ہیں زمانہ جاہلیت میں ہمارا یہ حال تھا کہ جب ہم کسی خوبصورت پتھر کے پاس پہنچتے تو ہم اس کی عبادت کرنے لگتے تھے اور اگر ہمیں کوئی پتھر نہ ملتا تو ہم ریت کا ایک ٹیلہ بنالیتے اور پھر زیادہ دودھ دینے والی ایک اونٹنی کو لا کر اس ٹیلے پر کھڑا کرتے۔ ہم اس اونٹنی کا دودھ اس ٹیلے پر دوھ لیتے اور پھر اسے سیراب کرتے پھر جب تک ہم اس مقام پر رہتے اس کی عبادت کرتے۔ امام ابو محمد دارمی فرماتے ہیں (اس روایت میں استعمال ہونے والا لفظ (صفی کا مطلب ہے بہت زیادہ دودھ دینے والی اونٹنی (جبکہ اس روایت میں استعمال ہونے والالفظ) فتفاج کا مطلب ہے جب کوئی اونٹنی اپنی دونوں ٹانگیں دودھ دوہنے کے لیے پھیلادے اور فج کھلے راستے کو کہتے ہیں اور اس کی جمع فجاج استعمال ہوتی ہے۔
حَدَّثَنَا مُجَاهِدُ بْنُ مُوسَى حَدَّثَنَا رَيْحَانُ هُوَ ابْنُ سَعِيدٍ السَّامِيُّ حَدَّثَنَا عَبَّادٌ هُوَ ابْنُ مَنْصُورٍ عَنْ أَبِي رَجَاءٍ قَالَ كُنَّا فِي الْجَاهِلِيَّةِ إِذَا أَصَبْنَا حَجَرًا حَسَنًا عَبَدْنَاهُ وَإِنْ لَمْ نُصِبْ حَجَرًا جَمَعْنَا كُثْبَةً مِنْ رَمْلٍ ثُمَّ جِئْنَا بِالنَّاقَةِ الصَّفِيِّ فَتَفَاجُّ عَلَيْهَا فَنَحْلُبُهَا عَلَى الْكُثْبَةِ حَتَّى نَرْوِيَهَا ثُمَّ نَعْبُدُ تِلْكَ الْكُثْبَةَ مَا أَقَمْنَا بِذَلِكَ الْمَكَانِ قَالَ أَبُو مُحَمَّد الصَّفِيُّ الْكَثِيرَةُ الْأَلْبَانِ

তাহকীক:
হাদীস নং: ৫
مقدمہ دارمی
نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے پہلے (سابقہ آسمانی) کتابوں میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا تذکرہ۔
حضرت کعب (رض) بیان کرتے ہیں ہم نے (اپنی آسمانی کتاب توراۃ میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا تذکرہ) ان الفاظ میں پایا۔ محمد اللہ کے رسول ہیں۔ وہ سخت مزاج اور سخت دل نہیں ہیں۔ بازاروں میں چیخ کے بولنے والے نہیں ہیں۔ برائی کا بدلہ برائی کے ذریعے نہیں دیتے بلکہ معاف کردیتے ہیں بخش دیتے ہیں۔ ان کی امت اللہ تعالیٰ کی بکثرت حمد کرنے والی ہوگی اور اللہ کی کبریائی کا تذکرہ ہر مقام پر کرنے والی ہوگی۔ وہ لوگ اللہ کی حمد ہر جگہ بیان کریں گے ان کے تہبند نصف پنڈلی تک ہوں گے وہ اپنے مخصوص اعضاء کو وضو کے دوران دھوئیں گے۔ ان کا موذن کھلی فضا میں اذان دیا کرے گا۔ جنگ کے دوران ان کی صفیں اور نماز کے دوران ان کی صفیں ایک جیسی ہوں گی۔ وہ لوگ رات کے وقت شہد کی مکھی کی بھنبھناہٹ کی طرح اللہ کی بارگاہ میں گریہ وزاری کریں گے۔ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیدائش مکہ میں ہوگی وہ ہجرت کرکے طیبہ جائیں گے اور ان کی بادشاہی شام میں ہوگی۔
أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ الرَّبِيعِ حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي صَالِحٍ قَالَ قَالَ كَعْبٌ نَجِدُهُ مَكْتُوبًا مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا فَظٌّ وَلَا غَلِيظٌ وَلَا صَخَّابٌ بِالْأَسْوَاقِ وَلَا يَجْزِي بِالسَّيِّئَةِ السَّيِّئَةَ وَلَكِنْ يَعْفُو وَيَغْفِرُ وَأُمَّتُهُ الْحَمَّادُونَ يُكَبِّرُونَ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ عَلَى كُلِّ نَجْدٍ وَيَحْمَدُونَهُ فِي كُلِّ مَنْزِلَةٍ وَيَتَأَزَّرُونَ عَلَى أَنْصَافِهِمْ وَيَتَوَضَّئُونَ عَلَى أَطْرَافِهِمْ مُنَادِيهِمْ يُنَادِي فِي جَوِّ السَّمَاءِ صَفُّهُمْ فِي الْقِتَالِ وَصَفُّهُمْ فِي الصَّلَاةِ سَوَاءٌ لَهُمْ بِاللَّيْلِ دَوِيٌّ كَدَوِيِّ النَّحْلِ وَمَوْلِدُهُ بِمَكَّةَ وَمُهَاجِرُهُ بِطَابَةَ وَمُلْكُهُ بِالشَّامِ

তাহকীক:
হাদীস নং: ৬
مقدمہ دارمی
نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے پہلے (سابقہ آسمانی) کتابوں میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا تذکرہ۔
حضرت ابن سلام (رض) بیان کرتے ہیں ہم نے اپنی آسمانی کتاب توراۃ میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا تذکرہ ان الفاظ میں پایا ہے۔ 
بےشک ہم نے تمہیں گواہ خوشخبری دینے والا، ڈرانے والا پناہ گاہ بنا کر بھیجا ہے اس قوم کے لیے جوان پڑھ ہے (اے محمد) تو میرا بندہ اور رسول ہے۔ میں نے اس یعنی نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نام متوکل رکھا ہے وہ سخت دل اور سخت مزاج نہیں ہوگا اور نہ ہی بازار میں اونچی آواز سے چیخے گا اور برائی کا بدلہ برائی کی صورت میں نہیں دے گا بلکہ معاف کرے گا اور درگزر کرے گا اور میں اس وقت تک اس کی روح قبض نہیں کروں گا جب تک وہ بگڑی ہوئی قوم یعنی کفر میں مبتلا قوم کو یہ اعتراف نہ کروا دے کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے ہم اس کے ذریعے اندھی آنکھوں بہرے کانوں اور پردے میں چھپے ہوئے دلوں کو کشادگی عطا کریں گے۔ عطاء بن یسار بیان کرتے ہیں کہ مجھے ابو واقد لیثی نے یہ بات بتائی کہ انھوں نے حضرت کعب (رض) کو بھی یہی بات بیان کرتے ہوئے سنا ہے جو حضرت ابن سلام (رض) نے بیان کی ہے۔
بےشک ہم نے تمہیں گواہ خوشخبری دینے والا، ڈرانے والا پناہ گاہ بنا کر بھیجا ہے اس قوم کے لیے جوان پڑھ ہے (اے محمد) تو میرا بندہ اور رسول ہے۔ میں نے اس یعنی نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نام متوکل رکھا ہے وہ سخت دل اور سخت مزاج نہیں ہوگا اور نہ ہی بازار میں اونچی آواز سے چیخے گا اور برائی کا بدلہ برائی کی صورت میں نہیں دے گا بلکہ معاف کرے گا اور درگزر کرے گا اور میں اس وقت تک اس کی روح قبض نہیں کروں گا جب تک وہ بگڑی ہوئی قوم یعنی کفر میں مبتلا قوم کو یہ اعتراف نہ کروا دے کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے ہم اس کے ذریعے اندھی آنکھوں بہرے کانوں اور پردے میں چھپے ہوئے دلوں کو کشادگی عطا کریں گے۔ عطاء بن یسار بیان کرتے ہیں کہ مجھے ابو واقد لیثی نے یہ بات بتائی کہ انھوں نے حضرت کعب (رض) کو بھی یہی بات بیان کرتے ہوئے سنا ہے جو حضرت ابن سلام (رض) نے بیان کی ہے۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَالِحٍ حَدَّثَنِي اللَّيْثُ حَدَّثَنِي خَالِدٌ هُوَ ابْنُ يَزِيدَ عَنْ سَعِيدٍ هُوَ ابْنُ أَبِي هِلَالٍ عَنْ هِلَالِ بْنِ أُسَامَةَ عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ عَنْ ابْنِ سَلَامٍ أَنَّهُ كَانَ يَقُولُ إِنَّا لَنَجِدُ صِفَةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِيرًا وَحِرْزًا لِلْأُمِّيِّينَ أَنْتَ عَبْدِي وَرَسُولِي سَمَّيْتُهُ الْمُتَوَكِّلَ لَيْسَ بِفَظٍّ وَلَا غَلِيظٍ وَلَا صَخَّابٍ بِالْأَسْوَاقِ وَلَا يَجْزِي بِالسَّيِّئَةِ مِثْلَهَا وَلَكِنْ يَعْفُو وَيَتَجَاوَزُ وَلَنْ أَقْبِضَهُ حَتَّى نُقِيمَ الْمِلَّةَ الْمُتَعَوِّجَةَ بِأَنْ تَشْهَدَ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ يَفْتَحُ بِهِ أَعْيُنًا عُمْيًا وَآذَانًا صُمًّا وَقُلُوبًا غُلْفًا قَالَ عَطَاءُ بْنُ يَسَارٍ وَأَخْبَرَنِي أَبُو وَاقِدٍ اللَّيْثِيُّ أَنَّهُ سَمِعَ كَعْبًا يَقُولُ مِثْلَ مَا قَالَ ابْنُ سَلَامٍ

তাহকীক:
হাদীস নং: ৭
مقدمہ دارمی
نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے پہلے (سابقہ آسمانی) کتابوں میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا تذکرہ۔
حضرت کعب (رض) بیان کرتے ہیں ( توراۃ میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعریف میں) پہلی لائن میں یہ تحریر ہے " محمد اللہ کے رسول ہیں۔ میرے اختیار کردہ بندے ہیں وہ سخت مزاج نہیں اور سخت دل نہیں ہیں اور بازار میں بلند آواز سے چیخنے والے نہیں ہیں وہ برائی کا بدلہ برائی کے ذریعے نہیں دے گا بلکہ معاف کردے گا بخش دے گا اس کی جائے پیدائش مکہ ہوگی اور وہ ہجرت کرکے طیبہ آئے گا اور اس کی بادشاہی شام میں ہوگی۔ دوسری سطر میں یہ تحریر " محمد اللہ کے رسول ہیں ان کی امت بکثرت اللہ کی حمد کرنے والی ہے وہ تنگی اور خوشحالی ہر حال میں اللہ کی حمد بیان کریں گے۔ جب نماز کا وقت آجائے گا تو نماز ضرور ادا کریں گے اگرچہ وہ کسی کناسہ پر ہوں ان کے تہبند نصف پندلی تک ہوں گے وہ اپنے مخصوص اعضاء پر وضو کریں گے رات کے وقت کھلی فضا میں ان کی آواز یوں ہوگی جیسے کسی شہد کی مکھی کی آواز ہوتی ہے۔
أَخْبَرَنَا زَيْدُ بْنُ عَوْفٍ قَالَ وَحَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ عَنْ ذَكْوَانَ أَبِي صَالِحٍ عَنْ كَعْبٍ فِي السَّطْرِ الْأَوَّلِ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ عَبْدِي الْمُخْتَارُ لَا فَظٌّ وَلَا غَلِيظٌ وَلَا صَخَّابٌ فِي الْأَسْوَاقِ وَلَا يَجْزِي بِالسَّيِّئَةِ السَّيِّئَةَ وَلَكِنْ يَعْفُو وَيَغْفِرُ مَوْلِدُهُ بِمَكَّةَ وَهِجْرَتُهُ بِطَيْبَةَ وَمُلْكُهُ بِالشَّامِ وَفِي السَّطْرِ الثَّانِي مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ أُمَّتُهُ الْحَمَّادُونَ يَحْمَدُونَ اللَّهَ فِي السَّرَّاءِ وَالضَّرَّاءِ يَحْمَدُونَ اللَّهَ فِي كُلِّ مَنْزِلَةٍ وَيُكَبِّرُونَ عَلَى كُلِّ شَرَفٍ رُعَاةُ الشَّمْسِ يُصَلُّونَ الصَّلَاةَ إِذَا جَاءَ وَقْتُهَا وَلَوْ كَانُوا عَلَى رَأْسِ كُنَاسَةٍ وَيَأْتَزِرُونَ عَلَى أَوْسَاطِهِمْ وَيُوَضِّئُونَ أَطْرَافَهُمْ وَأَصْوَاتُهُمْ بِاللَّيْلِ فِي جَوِّ السَّمَاءِ كَأَصْوَاتِ النَّحْلِ

তাহকীক:
হাদীস নং: ৮
مقدمہ دارمی
نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے پہلے (سابقہ آسمانی) کتابوں میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا تذکرہ۔
حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے حضرت کعب سے دریافت کیا آپ حضرات نے توراۃ میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا تذکرہ کن الفاظ میں پایا ہے ؟ تو حضرت کعب نے جواب دیا ہم نے ان الفاظ میں پایا ہے محمد بن عبداللہ (رض) مکہ میں پیدا ہوں گے وہ ہجرت کر کے طابہ میں جائیں گے ان کی حکومت شام میں بھی ہوگی وہ فحش گفتگو کرنے والے نہیں ہوں گے اور بازار میں چیخ کر نہیں بولیں گے برائی کا بدلہ برائی سے نہیں دیں گے بلکہ معاف کردیں گے بخش دیں گے۔ ان کی امت بکثرت حمد بیان کرنے والی ہوگی۔ وہ ہر پریشانی کے عالم میں بھی اللہ کی حمد بیان کریں گے اور ہر مقام پر اللہ کی کبریائی کا تذکرہ کریں گے وہ اپنے مخصوص اعضاء پر وضو کریں گے وہ اپنی نصف پنڈلی تک تہبند باندھیں گے۔ نماز میں ان کی صف اسی طرح ہوگی جیسے جنگ کے دوران ان کی صف ہوگی۔ ان کی مساجد میں ان کی آواز شہد کی مکھی کی آواز جیسی ان کے اذان دینے والے کی آواز کھلی فضا میں سنی جاسکے گی۔
أَخْبَرَنَا مُجَاهِدُ بْنُ مُوسَى حَدَّثَنَا مَعْنُ بْنُ عِيسَى حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ عَنْ أَبِي فَرْوَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّهُ سَأَلَ كَعْبَ الْأَحْبَارِ كَيْفَ تَجِدُ نَعْتَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي التَّوْرَاةِ فَقَالَ كَعْبٌ نَجِدُهُ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ يُولَدُ بِمَكَّةَ وَيُهَاجِرُ إِلَى طَابَةَ وَيَكُونُ مُلْكُهُ بِالشَّامِ وَلَيْسَ بِفَحَّاشٍ وَلَا صَخَّابٍ فِي الْأَسْوَاقِ وَلَا يُكَافِئُ بِالسَّيِّئَةِ السَّيِّئَةَ وَلَكِنْ يَعْفُو وَيَغْفِرُ أُمَّتُهُ الْحَمَّادُونَ يَحْمَدُونَ اللَّهَ فِي كُلِّ سَرَّاءَ وَضَرَّاءَ وَيُكَبِّرُونَ اللَّهَ عَلَى كُلِّ نَجْدٍ يُوَضِّئُونَ أَطْرَافَهُمْ وَيَأْتَزِرُونَ فِي أَوْسَاطِهِمْ يُصَفُّونَ فِي صَلَوَاتِهِمْ كَمَا يُصَفُّونَ فِي قِتَالِهِمْ دَوِيُّهُمْ فِي مَسَاجِدِهِمْ كَدَوِيِّ النَّحْلِ يُسْمَعُ مُنَادِيهِمْ فِي جَوِّ السَّمَاءِ

তাহকীক:
হাদীস নং: ৯
مقدمہ دارمی
نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے پہلے (سابقہ آسمانی) کتابوں میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا تذکرہ۔
حضرت جبیر بن نفیر حضرمی (رض) بیان کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا ہے تمہارے پاس ایک ایسا رسول آیا ہے جو سست اور کاہل نہیں ہے اس کی آمد کا مقصد یہ ہے کہ وہ غفلت میں مبتلا دلوں کو زندہ کردے۔ نابینا آنکھوں کی بینائی کو کشادہ کردے اور بہرے کانوں کو پیغام حق سنادے۔ وہ کفر پر قائم ملت کو درست کردے۔ یہاں تک کہ یہ اعتراف کرلیا جائے کہ اللہ کے سوا کوئی اور معبود نہیں ہے صرف وہی ایک معبود ہے۔
أَخْبَرَنَا حَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ بْنُ الْوَلِيدِ الْمِيثَمِيُّ حَدَّثَنَا بَحِيرُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ عَنْ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ الْحَضْرَمِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ إِلَيْكُمْ لَيْسَ بِوَهِنٍ وَلَا كَسِلٍ لِيَخْتِنَ قُلُوبًا غُلْفًا وَيَفْتَحَ أَعْيُنًا عُمْيًا وَيُسْمِعَ آذَانًا صُمًّا وَيُقِيمَ أَلْسِنَةً عُوجًا حَتَّى يُقَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ

তাহকীক:
হাদীস নং: ১০
مقدمہ دارمی
نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے پہلے (سابقہ آسمانی) کتابوں میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا تذکرہ۔
حضرت عامر بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ کرام میں سے ایک صحابی کو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کچھ کام تھا صحابی نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ چلتے ہوئے ان کے گھر تک تشریف لے گئے وہ صحابی بیان کرتے ہیں کہ ابھی نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ایک پاؤں گھر کے اندر تھا اور ایک پاؤں گھر کے باہر تھا اور یوں محسوس ہوا جیسے آپ کسی سے خفیہ طور پر بات کر رہے ہیں۔ پھر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس صحابی کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا کیا تمہیں پتہ ہے میں کس سے بات کررہا تھا کہ یہ ایک فرشتہ ہے جسے میں نے آج سے پہلے نہیں دیکھا اس نے اپنے پروردگار سے یہ اجازت مانگی کہ وہ مجھے سلام کرے (سلام کرنے کے بعد اس نے اللہ کا یہ پیغام مجھے پہنچایا ہے) ہم نے تمہیں قرآن دیا (راوی کو شک ہے یا شاید یہ الفاظ ہیں) ہم نے تم پر قرآن نازل کیا جو (حق و باطل) کے درمیان علیحدگی کرنے والا ہے اور سکینت نازل کی جو صبر دیتی ہے اور فرقان نازل کیا جو ملا دیتا ہے۔
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَزِيدَ الْحِزَامِيُّ حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ سُلَيْمَانَ عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِي قَيْسٍ عَنْ عَطَاءٍ قَالَ كَانَ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَهُ إِلَيْهِ حَاجَةٌ فَمَشَى مَعَهُ حَتَّى دَخَلَ قَالَ فَإِحْدَى رِجْلَيْهِ فِي الْبَيْتِ وَالْأُخْرَى خَارِجَهُ كَأَنَّهُ يُنَاجِي فَالْتَفَتَ فَقَالَ أَتَدْرِي مَنْ كُنْتُ أُكَلِّمُ إِنَّ هَذَا مَلَكٌ لَمْ أَرَهُ قَطُّ قَبْلَ يَوْمِي هَذَا اسْتَأْذَنَ رَبَّهُ أَنْ يُسَلِّمَ عَلَيَّ قَالَ إِنَّا آتَيْنَاكَ أَوْ أَنْزَلْنَا الْقُرْآنَ فَصْلًا وَالسَّكِينَةَ صَبْرًا وَالْفُرْقَانَ وَصْلًا

তাহকীক:
হাদীস নং: ১১
مقدمہ دارمی
نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے پہلے (سابقہ آسمانی) کتابوں میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا تذکرہ۔
حضرت عطیہ (رض) بیان کرتے ہیں انھوں نے حضرت ربیعہ جرشی کو بیان کرتے ہوئے سنا ہے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں کوئی فرشتہ آیا اور آپ سے یہ کہا گیا کہ آپ کی آنکھ تو سوتی ہے لیکن آپ کے کان سنتے رہیں گے اور آپ کا دل سمجھتا رہے گا تو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میری آنکھیں سوجاتی ہیں لیکن میرے کان سنتے رہتے ہیں اور دل سمجھ لیتا ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ارشاد فرماتے ہیں کہ پھر مجھ سے کہا گیا کہ ایک سردار نے گھر بنایا اس میں دسترخوان سجایا اور ایک دعوت دینے والے کو بھیجا تو جو شخص اس دعوت دینے والے کی دعوت کو قبول کرلے گا وہ اس گھر میں آئے گا اور اس دستر خوان سے کھائے گا۔ وہ سردار اس سے راضی ہوگا اور جو شخص اس دعوت دینے والے کی بات نہیں مانے گا وہ اس گھر میں داخل نہیں ہوگا اور اس دسترخوان سے نہیں کھائے گا اور وہ سردار اس سے ناراض ہوگا۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ارشاد فرماتے ہیں وہ سردار اللہ تعالیٰ ہیں وہ دعوت دینے والا شخص محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہے وہ گھر اسلام ہے اور وہ دسترخوان جنت ہے۔
أَخْبَرَنَا مُجَاهِدُ بْنُ مُوسَى حَدَّثَنَا رَيْحَانُ هُوَ ابْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا عَبَّادٌ هُوَ ابْنُ مَنْصُورٍ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ أَبِي قِلَابَةَ عَنْ عَطِيَّةَ أَنَّهُ سَمِعَ رَبِيعَةَ الْجُرَشِيَّ يَقُولُ أُتِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقِيلَ لَهُ لِتَنَمْ عَيْنُكَ وَلْتَسْمَعْ أُذُنُكَ وَلْيَعْقِلْ قَلْبُكَ قَالَ فَنَامَتْ عَيْنَايَ وَسَمِعَتْ أُذُنَايَ وَعَقَلَ قَلْبِي قَالَ فَقِيلَ لِي سَيِّدٌ بَنَى دَارًا فَصَنَعَ مَأْدُبَةً وَأَرْسَلَ دَاعِيًا فَمَنْ أَجَابَ الدَّاعِيَ دَخَلَ الدَّارَ وَأَكَلَ مِنْ الْمَأْدُبَةِ وَرَضِيَ عَنْهُ السَّيِّدُ وَمَنْ لَمْ يُجِبْ الدَّاعِيَ لَمْ يَدْخُلْ الدَّارَ وَلَمْ يَطْعَمْ مِنْ الْمَأْدُبَةِ وَسَخِطَ عَلَيْهِ السَّيِّدُ قَالَ فَاللَّهُ السَّيِّدُ وَمُحَمَّدٌ الدَّاعِي وَالدَّارُ الْإِسْلَامُ وَالْمَأْدُبَةُ الْجَنَّةُ

তাহকীক:
হাদীস নং: ১২
مقدمہ دارمی
نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے پہلے (سابقہ آسمانی) کتابوں میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا تذکرہ۔
حضرت ابوعثمان نہدی (رض) بیان کرتے ہیں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کھلے میدان کی طرف تشریف لے گئے حضرت ابن مسعود (رض) آپ کے ساتھ تھے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انھیں بٹھایا اور ان کے اردگرد ایک لائن کھینچ کر ارشاد فرمایا تم نے یہاں سے باہر نہیں آنا تمہارے پاس کچھ لوگ آئیں گے تم نے ان سے بات نہیں کرنی وہ بھی تمہارے ساتھ بات نہیں کریں گے پھر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جہاں جانا چاہتے تھے وہاں تشریف لے گئے پھر کچھ لوگ اس لکیر کے پاس آنے لگے لیکن اندر نہیں آتے تھے پھر وہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف چلے گئے جب رات کا آخری حصہ آیا تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے پاس تشریف لائے آپ نے میرے زانو کا تکیہ بنایاجب آپ سوتے تھے تو خراٹے لیا کرتے تھے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے زانو پر سو رہے تھے اسی دوران میرے پاس کچھ لوگ آئے جن کے قد اونٹ جتنے اونچے تھے انھوں نے سفید کپڑے پہن رکھے تھے اللہ بہتر جانتا ہے کہ ایسی خوبصورتی اور کسی میں نہیں ہوگی ان میں سے کچھ لوگ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سرہانے کی طرف بیٹھ گئے اور کچھ لوگ پاؤں کی طرف بیٹھ گئے وہ یہ بات کرنے لگے کہ اس نبی کو جو فضیلت عطا کی گئی ہے ہمارے خیال میں وہ اور کسی کو عطا نہیں کی گئی ان کی دونوں آنکھیں سوجاتی ہیں لیکن ان کا دل بیدار رہتا ہے ان کے لیے یہ مثال دی جاسکتی ہے کہ ایک سردار نے ایک محل بنایا پھر دستر خوان بچھا کر (دعوت عام) اس کھانے اور مشروبات کی طرف بلایا (حضرت عبداللہ فرماتے ہیں) پھر وہ لوگ چلے گئے اسی وقت نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیدار ہوئے تو آپ نے پوچھا کیا تم جانتے ہو کہ یہ کون لوگ تھے میں نے جواب دیا اللہ اور اس کا رسول زیادہ بہتر جانتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا یہ فرشتے تھے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دریافت کیا کیا تم جانتے ہو کہ انھوں نے جو مثال دی اس کا مطلب کیا ہے میں نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسول ہی زیادہ جانتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا رحمن نے جنت بنائی اس کی طرف اپنے بندوں کو دعوت دی جو اس دعوت کو قبول کرلے گا وہ اس کی جنت میں داخل ہوجائے گا جو قبول نہیں کرے گا اللہ اس سے ناراض ہوگا اور اسے عذاب کا شکار کرے گا۔
أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مَيْمُونٍ التَّمِيمِيِّ عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ إِلَى الْبَطْحَاءِ وَمَعَهُ ابْنُ مَسْعُودٍ فَأَقْعَدَهُ وَخَطَّ عَلَيْهِ خَطًّا ثُمَّ قَالَ لَا تَبْرَحَنَّ فَإِنَّهُ سَيَنْتَهِي إِلَيْكَ رِجَالٌ فَلَا تُكَلِّمْهُمْ فَإِنَّهُمْ لَنْ يُكَلِّمُوكَ فَمَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَيْثُ أَرَادَ ثُمَّ جَعَلُوا يَنْتَهُونَ إِلَى الْخَطِّ لَا يُجَاوِزُونَهُ ثُمَّ يَصْدُرُونَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى إِذَا كَانَ مِنْ آخِرِ اللَّيْلِ جَاءَ إِلَيَّ فَتَوَسَّدَ فَخِذِي وَكَانَ إِذَا نَامَ نَفَخَ فِي النَّوْمِ نَفْخًا فَبَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُتَوَسِّدٌ فَخِذِي رَاقِدٌ إِذْ أَتَانِي رِجَالٌ كَأَنَّهُمْ الْجِمَالُ عَلَيْهِمْ ثِيَابٌ بِيضٌ اللَّهُ أَعْلَمُ مَا بِهِمْ مِنْ الْجَمَالِ حَتَّى قَعَدَ طَائِفَةٌ مِنْهُمْ عِنْدَ رَأْسِهِ وَطَائِفَةٌ مِنْهُمْ عِنْدَ رِجْلَيْهِ فَقَالُوا بَيْنَهُمْ مَا رَأَيْنَا عَبْدًا أُوتِيَ مِثْلَ مَا أُوتِيَ هَذَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ عَيْنَيْهِ لَتَنَامَانِ وَإِنَّ قَلْبَهُ لَيَقْظَانُ اضْرِبُوا لَهُ مَثَلًا سَيِّدٌ بَنَى قَصْرًا ثُمَّ جَعَلَ مَأْدُبَةً فَدَعَا النَّاسَ إِلَى طَعَامِهِ وَشَرَابِهِ ثُمَّ ارْتَفَعُوا وَاسْتَيْقَظَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ ذَلِكَ فَقَالَ لِي أَتَدْرِي مَنْ هَؤُلَاءِ قُلْتُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ قَالَ هُمْ الْمَلَائِكَةُ قَالَ وَهَلْ تَدْرِي مَا الْمَثَلُ الَّذِي ضَرَبُوهُ قُلْتُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ قَالَ الرَّحْمَنُ بَنَى الْجَنَّةَ فَدَعَا إِلَيْهَا عِبَادَهُ فَمَنْ أَجَابَهُ دَخَلَ جَنَّتَهُ وَمَنْ لَمْ يُجِبْهُ عَاقَبَهُ وَعَذَّبَهُ

তাহকীক:
হাদীস নং: ১৩
مقدمہ دارمی
نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بچپن کیسا تھا
حضرت عتبہ بن عبدسلمی بیان کرتے ہیں یہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ کرام میں شامل ہیں ایک شخص نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا یا رسول اللہ آپ کا بچپن کیسا تھا نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا میری دایہ کا تعلق بنوسعد بن بکر سے تھا ایک مرتبہ میں اور ان کا بیٹا اپنی بکریاں چرانے کے لیے گئے ہمارے ساتھ کھانے کے لیے کچھ نہیں تھا میں نے کہا اے میرے بھائی تم جاؤ اور امی جان سے ہمارے لیے کچھ کھانا لاؤ میرا بھائی چلا گیا میں ان جانوروں کے پاس ٹھہر گیا اسی دوران دو سفید پرندے جو گدھوں کی مانند تھے آئے اور ان میں سے ایک نے اپنے ساتھی سے کہا کیا یہ وہی ہے ؟ دوسرے نے جواب دیا ہاں وہ دونوں تیزی سے میری طرف لپکے انھوں نے مجھے پکڑ لیا اور مجھے سیدھا لٹا کر میرے پیٹ کو چیر دیا پھر انھوں نے میرا دل نکال کر اسے چیر دیا اور اس میں سے سیاہ خون کے دو لوتھڑے نکالے ان میں ایک نے اپنے ساتھی سے کہا برف کا پانی لاؤ پھر اس نے اس پانی کے ذریعے میرے پیٹ کو دھویا پھر وہ بولا ٹھنڈا پانی لاؤ پھر اس نے اس کے ذریعے میرے دل کو دھویا پھر وہ بولا سکینت لاؤ وہ اس نے میرے دل پر چھڑک دیا پھر اس نے اپنے ساتھی سے کہا اسے سی دو ۔ اس نے اسے سی دیا۔ اس نے اس پر مہر نبوت لگادی۔ پھر اس نے کہا انھیں ایک پلڑے میں رکھو اور ان کی امت سے ایک ہزار افراد کو دوسرے پلڑے میں رکھو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرماتے ہیں جب میں نے دیکھا کہ ایک ہزار افراد میرے اوپر تھے اور مجھے یہ اندیشہ ہوا کہ کوئی میرے اوپر گر نہ جائے تو ان میں سے ایک شخص بولا اگر ان کی پوری امت کے ساتھ بھی ان کا وزن کیا جائے تو ان کا پلڑا بھاری ہوگا پھر وہ دونوں چلے گئے انھوں نے مجھے وہیں رہنے دیا۔ 
نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ارشاد فرماتے ہیں کہ مجھے بہت الجھن ہوئی میں اپنی والدہ کے پاس گیا اور انھیں اس صورتحال کے بارے میں بتایا جو مجھے پیش آئی تھی وہ ڈر گئیں کہ شاید مجھے کوئی ذہنی مرض لاحق ہوگیا ہے وہ بولیں میں تمہیں اللہ کی پناہ میں دیتی ہوں پھر وہ اپنے اونٹ پر سوار ہوئیں اور مجھے بھی سوار کیا یہاں تک کہ میری والدہ (سیدہ آمنہ) کے پاس آگئے میری دایہ نے کہا میں اپنی امانت اور اپنا ذمہ ادا کرچکی ہوں پھر انھوں نے میری والدہ کو وہ واقعہ بتایا جو میرے ساتھ پیش آیا تھا تو والدہ اس سے خوف زدہ نہیں ہوئیں اور بولیں جب ان کی ولادت ہوئی تھی تو میں نے دیکھا تھا کہ میرے اندر کوئی چیز نکلی ہے (راوی کہتے ہیں) یعنی نور نکلا جس کے ذریعے شام کے محلات روشن ہوگئے تھے۔
نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ارشاد فرماتے ہیں کہ مجھے بہت الجھن ہوئی میں اپنی والدہ کے پاس گیا اور انھیں اس صورتحال کے بارے میں بتایا جو مجھے پیش آئی تھی وہ ڈر گئیں کہ شاید مجھے کوئی ذہنی مرض لاحق ہوگیا ہے وہ بولیں میں تمہیں اللہ کی پناہ میں دیتی ہوں پھر وہ اپنے اونٹ پر سوار ہوئیں اور مجھے بھی سوار کیا یہاں تک کہ میری والدہ (سیدہ آمنہ) کے پاس آگئے میری دایہ نے کہا میں اپنی امانت اور اپنا ذمہ ادا کرچکی ہوں پھر انھوں نے میری والدہ کو وہ واقعہ بتایا جو میرے ساتھ پیش آیا تھا تو والدہ اس سے خوف زدہ نہیں ہوئیں اور بولیں جب ان کی ولادت ہوئی تھی تو میں نے دیکھا تھا کہ میرے اندر کوئی چیز نکلی ہے (راوی کہتے ہیں) یعنی نور نکلا جس کے ذریعے شام کے محلات روشن ہوگئے تھے۔
أَخْبَرَنَا نُعَيْمُ بْنُ حَمَّادٍ حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ عَنْ بَحِيرٍ عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَمْرٍو السُّلَمِيُّ عَنْ عُتْبَةَ بْنِ عَبْدٍ السُّلَمِيِّ أَنَّهُ حَدَّثَهُمْ وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَهُ رَجُلٌ كَيْفَ كَانَ أَوَّلُ شَأْنِكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ كَانَتْ حَاضِنَتِي مِنْ بَنِي سَعْدِ بْنِ بَكْرٍ فَانْطَلَقْتُ أَنَا وَابْنٌ لَهَا فِي بَهْمٍ لَنَا وَلَمْ نَأْخُذْ مَعَنَا زَادًا فَقُلْتُ يَا أَخِي اذْهَبْ فَأْتِنَا بِزَادٍ مِنْ عِنْدِ أُمِّنَا فَانْطَلَقَ أَخِي وَمَكَثْتُ عِنْدَ الْبَهْمِ فَأَقْبَلَ طَائِرَانِ أَبْيَضَانِ كَأَنَّهُمَا نَسْرَانِ فَقَالَ أَحَدُهُمَا لِصَاحِبِهِ أَهُوَ هُوَ قَالَ الْآخَرُ نَعَمْ فَأَقْبَلَا يَبْتَدِرَانِي فَأَخَذَانِي فَبَطَحَانِي لِلْقَفَا فَشَقَّا بَطْنِي ثُمَّ اسْتَخْرَجَا قَلْبِي فَشَقَّاهُ فَأَخْرَجَا مِنْهُ عَلَقَتَيْنِ سَوْدَاوَيْنِ فَقَالَ أَحَدُهُمَا لِصَاحِبِهِ ائْتِنِي بِمَاءِ ثَلْجٍ فَغَسَلَ بِهِ جَوْفِي ثُمَّ قَالَ ائْتِنِي بِمَاءِ بَرَدٍ فَغَسَلَ بِهِ قَلْبِي ثُمَّ قَالَ ائْتِنِي بِالسَّكِينَةِ فَذَرَّهُ فِي قَلْبِي ثُمَّ قَالَ أَحَدُهُمَا لِصَاحِبِهِ حُصْهُ فَحَاصَهُ وَخَتَمَ عَلَيْهِ بِخَاتَمِ النُّبُوَّةِ ثُمَّ قَالَ أَحَدُهُمَا لِصَاحِبِهِ اجْعَلْهُ فِي كِفَّةٍ وَاجْعَلْ أَلْفًا مِنْ أُمَّتِهِ فِي كِفَّةٍ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِذَا أَنَا أَنْظُرُ إِلَى الْأَلْفِ فَوْقِي أُشْفِقُ أَنْ يَخِرَّ عَلَيَّ بَعْضُهُمْ فَقَالَ لَوْ أَنَّ أُمَّتَهُ وُزِنَتْ بِهِ لَمَالَ بِهِمْ ثُمَّ انْطَلَقَا وَتَرَكَانِي قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَفَرِقْتُ فَرَقًا شَدِيدًا ثُمَّ انْطَلَقْتُ إِلَى أُمِّي فَأَخْبَرْتُهَا بِالَّذِي لَقِيتُ فَأَشْفَقَتْ أَنْ يَكُونَ قَدْ الْتَبَسَ بِي فَقَالَتْ أُعِيذُكَ بِاللَّهِ فَرَحَلَتْ بَعِيرًا لَهَا فَجَعَلَتْنِي عَلَى الرَّحْلِ وَرَكِبَتْ خَلْفِي حَتَّى بُلْغَتِنَا إِلَى أُمِّي فَقَالَتْ أَدَّيْتُ أَمَانَتِي وَذِمَّتِي وَحَدَّثَتْهَا بِالَّذِي لَقِيتُ فَلَمْ يَرُعْهَا ذَلِكَ وَقَالَتْ إِنِّي رَأَيْتُ حِينَ خَرَجَ مِنِّي يَعْنِي نُورًا أَضَاءَتْ مِنْهُ قُصُورُ الشَّامِ

তাহকীক:
হাদীস নং: ১৪
مقدمہ دارمی
نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بچپن کیسا تھا
حضرت ابوذر (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پہلی مرتبہ کب اس بات کا یقینی علم ہوا کہ آپ نبی ہیں ؟ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا اے ابوذر ( (رض) میرے پاس دو فرشتے آئے میں اس وقت مکہ کے کھلے میدان میں تھا ان میں ایک زمین پر اتر آیا اور دوسرا آسمان اور زمین کے درمیان رہا ان دونوں میں سے ایک نے اپنے ساتھی سے کہا یہ وہی ہیں ؟ اس نے جواب دیا ہاں وہ بولا ایک آدمی کے ساتھ ان کا وزن کرو اس آدمی کے ساتھ میرا وزن کیا گیا میرا پلڑا بھاری تھا پھر اس نے نے کہا دس آدمیوں کے ساتھ میرا وزن کرو ان کے ساتھ میرا وزن کیا گیا تو پھر میرا پلڑا بھاری تھا پھر وہ بولا سو آدمیوں کے ساتھ وزن کرو اس کے ساتھ میرا وزن کیا گیا تو بھی میں ہی بھاری تھا پھر وہ بولا ایک ہزار آدمیوں کے ساتھ میرا وزن کرو ان کے ساتھ میرا وزن کیا گیا تو بھی میرا پلڑا بھاری تھا مجھے یوں محسوس ہوا کہ ان لوگوں کا پلڑا ہلکا ہونے کی وجہ سے کوئی میرے اوپر نہ گرجائے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ارشاد فرماتے ہیں ان میں سے ایک نے اپنے ساتھی سے کہا اگر ان کی پوری امت کے مقابلے میں ان کا وزن کیا جائے تو بھی ان کا پلڑا بھاری ہوگا۔
أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عِمْرَانَ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ عُثْمَانَ الْقُرَشِيُّ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي ذَرٍّ الْغِفَارِيِّ قَالَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ كَيْفَ عَلِمْتَ أَنَّكَ نَبِيٌّ حَتَّى اسْتَيْقَنْتَ فَقَالَ يَا أَبَا ذَرٍّ أَتَانِي مَلَكَانِ وَأَنَا بِبَعْضِ بَطْحَاءِ مَكَّةَ فَوَقَعَ أَحَدُهُمَا عَلَى الْأَرْضِ وَكَانَ الْآخَرُ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ فَقَالَ أَحَدُهُمَا لِصَاحِبِهِ أَهُوَ هُوَ قَالَ نَعَمْ قَالَ فَزِنْهُ بِرَجُلٍ فَوُزِنْتُ بِهِ فَوَزَنْتُهُ ثُمَّ قَالَ فَزِنْهُ بِعَشَرَةٍ فَوُزِنْتُ بِهِمْ فَرَجَحْتُهُمْ ثُمَّ قَالَ زِنْهُ بِمِائَةٍ فَوُزِنْتُ بِهِمْ فَرَجَحْتُهُمْ ثُمَّ قَالَ زِنْهُ بِأَلْفٍ فَوُزِنْتُ بِهِمْ فَرَجَحْتُهُمْ كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَيْهِمْ يَنْتَثِرُونَ عَلَيَّ مِنْ خِفَّةِ الْمِيزَانِ قَالَ فَقَالَ أَحَدُهُمَا لِصَاحِبِهِ لَوْ وَزَنْتَهُ بِأُمَّتِهِ لَرَجَحَهَا

তাহকীক:
হাদীস নং: ১৫
مقدمہ دارمی
نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بچپن کیسا تھا
حضرت ابوصالح بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں کو بلند آواز سے مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا اے لوگو میں رحمت ہوں اور ہدایت دینے کے لیے آیا ہوں۔
أَخْبَرَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ خَلِيلٍ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ عَنْ أَبِي صَالِحٍ قَالَ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُنَادِيهِمْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّمَا أَنَا رَحْمَةٌ مُهْدَاةٌ

তাহকীক:
হাদীস নং: ১৬
مقدمہ دارمی
درختوں، جانوروں اور جنات کا نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانا اور اس کے ذریعے اللہ نے اپنے نبی کو جو عزت عطا کی اس کا بیان۔
حضرت ابن عمر بیان کرتے ہیں ایک سفر کے دوران ہم نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تھے۔ اسی دوران ایک صحابی آیاجب وہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قریب ہوا تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دریافت کیا تم کہاں جا رہے ہو۔ اس نے جواب دیا اپنے گھر جارہا ہوں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دریافت کیا ' کیا تمہیں بھلائی میں کوئی دلچسپی ہے۔ اس نے جواب دیا : وہ کیا ہے ؟ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم یہ گواہی دو کہ اللہ کے علاوہ کوئی اور معبود نہیں صرف وہی معبود ہے اس کے علاوہ کوئی اور معبود نہیں ہے۔ اس کا شریک نہیں ہے اور محمد اس کے خاص بندے اور رسول ہیں۔ وہ دیہاتی بولا آپ کی اس بات کی گواہی کون دے گا۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کیکر کا ایک درخت۔ پھر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس درخت کو بلایا وہ درخت وادی کے کنارے پر موجود تھا۔ وہ زمین کو چیرتا ہوا آپ کے پاس آیا اور آپ کے سامنے کھڑا ہوگیا۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے تین مرتبہ گواہی مانگی اور اس نے تین مرتبہ اس بات کی گواہی دی جو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا تھا پھر وہ واپس اس جگہ پر چلا آیا جہاں وہ موجود تھا۔ وہ دیہاتی اپنی قوم میں واپس جاتے ہوئے بولا۔ اگر ان لوگوں نے میری پیروی کی تو میں انھیں آپ کے پاس لاؤں گا اور اگر نہیں کی تو میں واپس آجاؤں گا اور میں آپ کے پاس رہوں گا۔
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ طَرِيفٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ حَدَّثَنَا أَبُو حَيَّانَ عَنْ عَطَاءٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ فَأَقْبَلَ أَعْرَابِيٌّ فَلَمَّا دَنَا مِنْهُ قَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيْنَ تُرِيدُ قَالَ إِلَى أَهْلِي قَالَ هَلْ لَكَ فِي خَيْرٍ قَالَ وَمَا هُوَ قَالَ تَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ قَالَ وَمَنْ يَشْهَدُ عَلَى مَا تَقُولُ قَالَ هَذِهِ السَّلَمَةُ فَدَعَاهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهِيَ بِشَاطِئِ الْوَادِي فَأَقْبَلَتْ تَخُدُّ الْأَرْضَ خَدًّا حَتَّى قَامَتْ بَيْنَ يَدَيْهِ فَاسْتَشْهَدَهَا ثَلَاثًا فَشَهِدَتْ ثَلَاثًا أَنَّهُ كَمَا قَالَ ثُمَّ رَجَعَتْ إِلَى مَنْبَتِهَا وَرَجَعَ الْأَعْرَابِيُّ إِلَى قَوْمِهِ وَقَالَ إِنْ اتَّبَعُونِي أَتَيْتُكَ بِهِمْ وَإِلَّا رَجَعْتُ فَكُنْتُ مَعَكَ

তাহকীক:
হাদীস নং: ১৭
مقدمہ دارمی
درختوں، جانوروں اور جنات کا نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانا اور اس کے ذریعے اللہ نے اپنے نبی کو جو عزت عطا کی اس کا بیان۔
حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں۔ ایک سفر کے دوران میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہمراہ جارہا تھا نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب بھی قضائے حاجت کے لیے جاتے تو اتنی دور چلے جاتے تھے کہ آپ کو دیکھا بھی نہیں جاسکتا تھا۔ ایک مرتبہ ہم نے ایک ایسی زمین پر پڑاؤ کیا جو آب وگیاہ تھی وہاں کوئی درخت نہیں تھا اور نہ ہی ٹیلہ تھا۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا اپنے برتن میں کچھ پانی رکھو اور میرے ساتھ چلو۔ حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں۔ ہم لوگ چل پڑے۔ یہاں تک کہ لوگوں کی نظروں سے دور ہوگئے۔ یہاں تک کہ ہم درختوں کے درمیان آئے جن کے درمیان چار ذراع کا فاصلہ تھا۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے جابر (رض) ! اس درخت کے پاس جاؤ اور اس سے کہو کہ اللہ کے رسول تمہیں حکم دے رہے ہیں کہ تم اپنے اس ساتھی درخت کے ساتھ مل جاؤ تاکہ میں تم دونوں کی اوٹ میں بیٹھ سکوں حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے ایسا ہی کیا تو وہ درخت اس دوسرے درخت کے پاس آگیا۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان دونوں کی اوٹ چلے گئے۔ پھر وہ دونوں اپنی اپنی جگہ واپس چلے گے۔ پھر ہم لوگ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہمراہ سوار ہو کر چلے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے درمیان ہی تھے۔ 
آپ کی ہیبت کی وجہ سے ہماری یہ کیفیت تھی کہ گویا ہمارے اوپر پرندے سایہ کئے ہوئے ہیں۔ ایک عورت نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے آئی اس کے ساتھ اس کا بچہ بھی تھا۔ اس نے عرض کی اے اللہ کے رسول یہ میرا بیٹا ہے۔ شیطان روزانہ تین مرتبہ اسے اپنے قبضے میں لے لیتا ہے۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس بچے کو پکڑا اسے اپنے اور پالان کے اگلے حصے کے درمیان بٹھا لیا۔ پھر ارشاد فرمایا اے اللہ کے دشمن دور ہوجا۔ میں اللہ کا رسول ہوں۔ اے اللہ کے دشمن دور ہوجا یہ بات آپ نے تین مرتبہ ارشاد فرمائی پھر بچے کو اس عورت کے سپرد کردیا راوی بیان کرتے ہیں واپسی کے سفر کے دوران جب ہم اسی جگہ سے گزرے تو وہی عورت سامنے آئے اس کے ساتھ اس کا بچہ بھی تھا اور ساتھ دو دنبے بھی تھے جنہیں وہ ہانک کر لا رہی تھی۔ اس نے عرض کی اے اللہ کے نبی میری طرف سے یہ تحفہ قبول کریں اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ہمراہ مبعوث کیا۔ شیطان دوبارہ اس بچے کی طرف نہیں آیا۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم دیا اس میں سے ایک دنبہ رکھ لو اور دوسرا اسے واپس کردو۔ راوی بیان کرتے ہیں پھر ہم لوگ سفر کرتے رہے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے درمیان تھے۔ آپ کی ہیبت کی وجہ سے ہماری یہ کیفیت تھی۔ گویا ہمارے اوپر پرندوں نے سایہ کیا ہوا ہے۔ اسی دوران ایک اونٹ جو بھاگا ہوا تھا آگیا۔ جب لوگوں کے درمیان آیا تو سجدے میں چلا گیا۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف فرما تھے۔ آپ نے لوگوں سے دریافت کیا۔ اس اونٹ کا مالک کون ہے۔ کچھ انصاری نوجوانوں نے عرض کی : یا رسول اللہ یہ ہمارا اونٹ ہے۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دریافت کیا۔ اسے کیا ہوا ہے۔ انھوں نے عرض کی ہم بیس برس سے اسے پانی لانے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ اب اس میں چربی زیادہ ہوگئی ہے۔ ہمارا یہ ارادہ ہے کہ ہم اسے ذبح کر کے اپنے لڑکوں کے درمیان تقسیم کردیں تو یہ ہم سے بھاگ کر آگیا ہے۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا اسے مجھے بیچ دو ان نوجوانوں نے عرض کی یا رسول اللہ : یہ آپ ہی کی ملکیت ہے۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا اگر تم یہ کہتے ہو تو ٹھیک ہے لیکن اس کے ساتھ اچھا سلوک کرتے رہو۔ یہاں تک کہ اس کا آخری وقت آجائے اس وقت مسلمانوں نے عرض کی یا رسول اللہ : جانوروں کے مقابلے میں ہم اس بات کے زیادہ حق دار ہیں کہ ہم آپ کو سجدہ کریں۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کسی کے لیے بھی کسی دوسرے کو سجدہ کرنا جائز نہیں ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو خواتین اپنے شوہروں کو سجدہ کرتیں۔
آپ کی ہیبت کی وجہ سے ہماری یہ کیفیت تھی کہ گویا ہمارے اوپر پرندے سایہ کئے ہوئے ہیں۔ ایک عورت نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے آئی اس کے ساتھ اس کا بچہ بھی تھا۔ اس نے عرض کی اے اللہ کے رسول یہ میرا بیٹا ہے۔ شیطان روزانہ تین مرتبہ اسے اپنے قبضے میں لے لیتا ہے۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس بچے کو پکڑا اسے اپنے اور پالان کے اگلے حصے کے درمیان بٹھا لیا۔ پھر ارشاد فرمایا اے اللہ کے دشمن دور ہوجا۔ میں اللہ کا رسول ہوں۔ اے اللہ کے دشمن دور ہوجا یہ بات آپ نے تین مرتبہ ارشاد فرمائی پھر بچے کو اس عورت کے سپرد کردیا راوی بیان کرتے ہیں واپسی کے سفر کے دوران جب ہم اسی جگہ سے گزرے تو وہی عورت سامنے آئے اس کے ساتھ اس کا بچہ بھی تھا اور ساتھ دو دنبے بھی تھے جنہیں وہ ہانک کر لا رہی تھی۔ اس نے عرض کی اے اللہ کے نبی میری طرف سے یہ تحفہ قبول کریں اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ہمراہ مبعوث کیا۔ شیطان دوبارہ اس بچے کی طرف نہیں آیا۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم دیا اس میں سے ایک دنبہ رکھ لو اور دوسرا اسے واپس کردو۔ راوی بیان کرتے ہیں پھر ہم لوگ سفر کرتے رہے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے درمیان تھے۔ آپ کی ہیبت کی وجہ سے ہماری یہ کیفیت تھی۔ گویا ہمارے اوپر پرندوں نے سایہ کیا ہوا ہے۔ اسی دوران ایک اونٹ جو بھاگا ہوا تھا آگیا۔ جب لوگوں کے درمیان آیا تو سجدے میں چلا گیا۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف فرما تھے۔ آپ نے لوگوں سے دریافت کیا۔ اس اونٹ کا مالک کون ہے۔ کچھ انصاری نوجوانوں نے عرض کی : یا رسول اللہ یہ ہمارا اونٹ ہے۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دریافت کیا۔ اسے کیا ہوا ہے۔ انھوں نے عرض کی ہم بیس برس سے اسے پانی لانے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ اب اس میں چربی زیادہ ہوگئی ہے۔ ہمارا یہ ارادہ ہے کہ ہم اسے ذبح کر کے اپنے لڑکوں کے درمیان تقسیم کردیں تو یہ ہم سے بھاگ کر آگیا ہے۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا اسے مجھے بیچ دو ان نوجوانوں نے عرض کی یا رسول اللہ : یہ آپ ہی کی ملکیت ہے۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا اگر تم یہ کہتے ہو تو ٹھیک ہے لیکن اس کے ساتھ اچھا سلوک کرتے رہو۔ یہاں تک کہ اس کا آخری وقت آجائے اس وقت مسلمانوں نے عرض کی یا رسول اللہ : جانوروں کے مقابلے میں ہم اس بات کے زیادہ حق دار ہیں کہ ہم آپ کو سجدہ کریں۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کسی کے لیے بھی کسی دوسرے کو سجدہ کرنا جائز نہیں ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو خواتین اپنے شوہروں کو سجدہ کرتیں۔
أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى عَنْ إِسْمَعِيلَ بْنِ عَبْدِ الْمَلِكِ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ قَالَ خَرَجْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ وَكَانَ لَا يَأْتِي الْبَرَازَ حَتَّى يَتَغَيَّبَ فَلَا يُرَى فَنَزَلْنَا بِفَلَاةٍ مِنْ الْأَرْضِ لَيْسَ فِيهَا شَجَرٌ وَلَا عَلَمٌ فَقَالَ يَا جَابِرُ اجْعَلْ فِي إِدَاوَتِكَ مَاءً ثُمَّ انْطَلِقْ بِنَا قَالَ فَانْطَلَقْنَا حَتَّى لَا نُرَى فَإِذَا هُوَ بِشَجَرَتَيْنِ بَيْنَهُمَا أَرْبَعُ أَذْرُعٍ فَقَالَ يَا جَابِرُ انْطَلِقْ إِلَى هَذِهِ الشَّجَرَةِ فَقُلْ يُقَلْ لَكِ الْحَقِي بِصَاحِبَتِكِ حَتَّى أَجْلِسَ خَلْفَكُمَا فَرَجَعَتْ إِلَيْهَا فَجَلَسَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَلْفَهُمَا ثُمَّ رَجَعَتَا إِلَى مَكَانِهِمَا فَرَكِبْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَسُولُ اللَّهِ بَيْنَنَا كَأَنَّمَا عَلَيْنَا الطَّيْرُ تُظِلُّنَا فَعَرَضَتْ لَهُ امْرَأَةٌ مَعَهَا صَبِيٌّ لَهَا فَقَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ ابْنِي هَذَا يَأْخُذُهُ الشَّيْطَانُ كُلَّ يَوْمٍ ثَلَاثَ مِرَارٍ قَالَ فَتَنَاوَلَ الصَّبِيَّ فَجَعَلَهُ بَيْنَهُ وَبَيْنَ مُقَدَّمِ الرَّحْلِ ثُمَّ قَالَ اخْسَأْ عَدُوَّ اللَّهِ أَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اخْسَأْ عَدُوَّ اللَّهِ أَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثًا ثُمَّ دَفَعَهُ إِلَيْهَا فَلَمَّا قَضَيْنَا سَفَرَنَا مَرَرْنَا بِذَلِكَ الْمَكَانِ فَعَرَضَتْ لَنَا الْمَرْأَةُ مَعَهَا صَبِيُّهَا وَمَعَهَا كَبْشَانِ تَسُوقُهُمَا فَقَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ اقْبَلْ مِنِّي هَدِيَّتِي فَوَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ مَا عَادَ إِلَيْهِ بَعْدُ فَقَالَ خُذُوا مِنْهَا وَاحِدًا وَرُدُّوا عَلَيْهَا الْآخَرَ قَالَ ثُمَّ سِرْنَا وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَنَا كَأَنَّمَا عَلَيْنَا الطَّيْرُ تُظِلُّنَا فَإِذَا جَمَلٌ نَادٌّ حَتَّى إِذَا كَانَ بَيْنَ سِمَاطَيْنِ خَرَّ سَاجِدًا فَحَبَسَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ عَلَيَّ النَّاسَ مَنْ صَاحِبُ الْجَمَلِ فَإِذَا فِتْيَةٌ مِنْ الْأَنْصَارِ قَالُوا هُوَ لَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ فَمَا شَأْنُهُ قَالُوا اسْتَنَيْنَا عَلَيْهِ مُنْذُ عِشْرِينَ سَنَةً وَكَانَتْ بِهِ شُحَيْمَةٌ فَأَرَدْنَا أَنْ نَنْحَرَهُ فَنَقْسِمَهُ بَيْنَ غِلْمَانِنَا فَانْفَلَتَ مِنَّا قَالَ بِيعُونِيهِ قَالُوا لَا بَلْ هُوَ لَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ أَمَّا لِي فَأَحْسِنُوا إِلَيْهِ حَتَّى يَأْتِيَهُ أَجَلُهُ قَالَ الْمُسْلِمُونَ عِنْدَ ذَلِكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ نَحْنُ أَحَقُّ بِالسُّجُودِ لَكَ مِنْ الْبَهَائِمِ قَالَ لَا يَنْبَغِي لِشَيْءٍ أَنْ يَسْجُدَ لِشَيْءٍ وَلَوْ كَانَ ذَلِكَ كَانَ النِّسَاءُ لِأَزْوَاجِهِنَّ

তাহকীক:
হাদীস নং: ১৮
مقدمہ دارمی
درختوں، جانوروں اور جنات کا نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانا اور اس کے ذریعے اللہ نے اپنے نبی کو جو عزت عطا کی اس کا بیان۔
حضرت جابر بیان کرتے ہیں۔ ایک مرتبہ ہم نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ جا رہے تھے۔ یہاں تک کہ ہم بنونجار کے ایک باغ کے پاس آئے اس میں ایک اونٹ تھا۔ باغ میں جو شخص بھی داخل ہوتا تھا۔ وہ اونٹ اس پر حملہ کردیتا تھا۔ لوگوں نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے تذکرہ کیا۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے پاس آئے۔ آپ نے اسے بلایا۔ وہ اپنا منہ زمین پر رکھ کر آگیا۔ یہاں تک کہ آپ کے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا۔ اس کی لگام لاؤ۔ پھر آپ نے اسے لگام پہنائی اور اسے اس کے مالک کے سپرد کردیا پھر آپ نے (ہماری طرف متوجہ ہو کر ارشاد فرمایا) گناہ گار جنات اور انسانوں کے علاوہ آسمان اور زمین میں موجود ہر چیز یہ بات جانتی ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں۔
حَدَّثَنَا يَعْلَى حَدَّثَنَا الْأَجْلَحُ عَنْ الذَّيَّالِ بْنِ حَرْمَلَةَ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ أَقْبَلْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى دُفِعْنَا إِلَى حَائِطٍ فِي بَنِي النَّجَّارِ فَإِذَا فِيهِ جَمَلٌ لَا يَدْخُلُ الْحَائِطَ أَحَدٌ إِلَّا شَدَّ عَلَيْهِ فَذَكَرُوا ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَتَاهُ فَدَعَاهُ فَجَاءَ وَاضِعًا مِشْفَرَهُ عَلَى الْأَرْضِ حَتَّى بَرَكَ بَيْنَ يَدَيْهِ فَقَالَ هَاتُوا خِطَامًا فَخَطَمَهُ وَدَفَعَهُ إِلَى صَاحِبِهِ ثُمَّ الْتَفَتَ فَقَالَ مَا بَيْنَ السَّمَاءِ إِلَى الْأَرْضِ إِلَّا يَعْلَمُ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَّا عَاصِيَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ

তাহকীক:
হাদীস নং: ১৯
مقدمہ دارمی
درختوں، جانوروں اور جنات کا نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانا اور اس کے ذریعے اللہ نے اپنے نبی کو جو عزت عطا کی اس کا بیان۔
حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں ایک خاتون اپنے بیٹے کو لے کر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئی اس نے عرض کیا اے اللہ کے رسول میرے بیٹے کو جنون لاحق ہوجاتا ہے اس پر یہ دورہ صبح وشام کے وقت پڑتا ہے تو یہ ہمیں بہت تنگ کرتا ہے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے سینے پر ہاتھ پھیرا اس کے لیے دعا کی تو اس نے قے کردی اور اس کے پیٹ میں سے سیاہ بلی جیسے کوئی چیز نکل کر بھاگ گئی۔
أَخْبَرَنَا الْحَجَّاجُ بْنُ مِنْهَالٍ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ فَرْقَدٍ السَّبَخِيِّ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ امْرَأَةً جَاءَتْ بِابْنٍ لَهَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ ابْنِي بِهِ جُنُونٌ وَإِنَّهُ يَأْخُذُهُ عِنْدَ غَدَائِنَا وَعَشَائِنَا فَيُخَبَّثُ عَلَيْنَا فَمَسَحَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَدْرَهُ وَدَعَا فَثَعَّ ثَعَّةً وَخَرَجَ مِنْ جَوْفِهِ مِثْلُ الْجِرْوِ الْأَسْوَدِ فَسَعَى

তাহকীক:
হাদীস নং: ২০
مقدمہ دارمی
درختوں، جانوروں اور جنات کا نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانا اور اس کے ذریعے اللہ نے اپنے نبی کو جو عزت عطا کی اس کا بیان۔
حضرت جابر بن سمرہ بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا مکہ میں موجود ایک پتھر کو میں آج بھی پہنچانتا ہوں جو میری بعثت سے پہلے مجھے سلام کیا کرتا تھا۔ میں اسے آج بھی پہچانتا ہوں۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَعِيدٍ أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي بُكَيْرٍ الْعَبْدِيُّ عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ طَهْمَانَ عَنْ سِمَاكٍ عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنِّي لَأَعْرِفُ حَجَرًا بِمَكَّةَ كَانَ يُسَلِّمُ عَلَيَّ قَبْلَ أَنْ أُبْعَثَ إِنِّي لَأَعْرِفُهُ الْآنَ

তাহকীক: