মুসান্নাফ ইবনু আবী শাইবাহ (উর্দু)

الكتاب المصنف في الأحاديث و الآثار

غزوات کا بیان - এর পরিচ্ছেদসমূহ

মোট হাদীস ২০ টি

হাদীস নং: ৩৭৬৮৮
غزوات کا بیان
ابو یکسوم اور ہاتھیوں کے بارے میں ذکر کی گئی روایات
(٣٧٦٨٩) حضرت سعید بن جُبیر بیان فرماتے ہیں کہ حبشہ کا امیر ابو یکسوم آیا اور اس کے ساتھ ہاتھی (بھی) تھے۔ پس جب وہ حرم تک پہنچا تو (اس کا) ہاتھی بیٹھ گیا اور اس نے حرم میں داخل ہونے سے انکار کردیا۔ راوی کہتے ہیں جب ابو یکسوم ہاتھی واپسی کے لیے متوجہ کرتا تو ہاتھی خوب تیز رفتار واپس چلتا اور جب حرم کا ارادہ کیا جاتا تو ہاتھی انکار دیتا۔ پس ان پر سفید رنگ کے چھوٹے چھوٹے پرندے بھیجے گئے جن کے منہ میں چنوں کے برابر پتھر تھے وہ پتھر جس پر بھی گرتے اس کو ہلاک کردیتے۔
(۳۷۶۸۹) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِی إِسْمَاعِیلَ ، قَالَ : حَدَّثَنِی سَعِیدُ بْنُ جُبَیْرٍ ، قَالَ : أَقْبَلَ أَبُو یَکْسُومَ صَاحِبُ الْحَبَشَۃِ وَمَعَہُ الْفِیلُ ، فَلَمَّا انْتَہَی إِلَی الْحَرَمِ ، بَرَکَ الْفِیلُ ، فَأَبَی أَنْ یَدْخُلَ الْحَرَمَ ، قَالَ : فَإِذَا وُجِّہَ رَاجِعًا أَسْرَعَ رَاجِعًا ، وَإِذَا أُرِیدَ عَلَی الْحَرَمِ أَبَی ، فَأُرْسِلَ عَلَیْہِمْ طَیْرٌ صِغَارٌ بِیضٌ ، فِی أَفْوَاہِہَا حِجَارَۃٌ أَمْثَالُ الْحِمَّصِ ، لاَ تَقَعُ عَلَی أَحَدٍ إِلاَّ ہَلَکَ۔
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৩৭৬৮৯
غزوات کا بیان
ابو یکسوم اور ہاتھیوں کے بارے میں ذکر کی گئی روایات
(٣٧٦٩٠) حضرت عکرمہ بیان کرتے ہیں کہ ان پرندوں نے لوگوں پر آسمان سے سایہ کردیا۔ پس جب اللہ تعالیٰ نے ان کو کھائے ہوئے بھوسے کی طرح کردیا تو اللہ تعالیٰ نے ایک سیلاب بھیجا۔ وہ سیلاب ان کو بہا کرلے گیا یہاں تک کہ وہ سیلاب انھیں سمندر میں لے گیا۔
(۳۷۶۹۰) قَالَ أَبُو أُسَامَۃَ : فَحَدَّثَنِی أَبُو مَکِینٍ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ، قَالَ : فَأَظَلَّتْہُمْ مِنَ السَّمَائِ ، فَلَمَّا جَعَلَہُمُ اللَّہُ کَعَصْفٍ مَأْکُولٍ ، أَرْسَلَ اللَّہُ غَیْثًا ، فَسَالَ بِہِمْ حَتَّی ذَہَبَ بِہِمْ إِلَی الْبَحْرِ۔
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৩৭৬৯০
غزوات کا بیان
ابو یکسوم اور ہاتھیوں کے بارے میں ذکر کی گئی روایات
(٣٧٦٩١) حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ انھوں نے { طَیْرًا أَبَابِیلَ } کی تفسیر میں فرمایا۔ ان کے ناک پرندوں کے ناک کی طرح تھے اور ان کی ہتھیلیاں کتوں کی ہتھیلیوں کی طرح تھیں۔
(۳۷۶۹۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ؛ {طَیْرًا أَبَابِیلَ} قَالَ : کَانَ لَہَا خَرَاطِیمُ کَخَرَاطِیمِ الطَّیْرِ ، وَأَکُفَّ کَأَکُفِّ الْکِلاَبِ۔
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৩৭৬৯১
غزوات کا بیان
ابو یکسوم اور ہاتھیوں کے بارے میں ذکر کی گئی روایات
(٣٧٦٩٢) حضرت عبید بن عمیر سے روایت ہے کہ یہ سیاہ رنگ کے پرندے تھے جنہوں نے اپنی چونچوں اور پنجوں میں پتھر اٹھائے ہوئے تھے۔
(۳۷۶۹۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِی سُفْیَانَ ، عَنْ عُبَیْدِ بْنِ عُمَیْرٍ ، قَالَ : طَیْرٌ سُودٌ تَحْمِلُ الْحِجَارَۃَ بِمَنَاقِیرِہَا وَأَظَافِیرِہَا۔
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৩৭৬৯২
غزوات کا بیان
ابو یکسوم اور ہاتھیوں کے بارے میں ذکر کی گئی روایات
(٣٧٦٩٣) حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی سواری پر سوار ہوئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے مکہ کو ہاتھیوں (والوں) سے روکے (محفوظ) رکھا اور اس مکہ پر اپنے رسول کو اور اہل ایمان کو تسلط عطا فرمایا۔
(۳۷۶۹۳) حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُوسَی ، عَنْ شَیْبَانَ ، عَنْ یَحْیَی ، قَالَ : أَخْبَرَنِی أَبُو سَلَمَۃَ ، أَنَّ أَبَا ہُرَیْرَۃَ أَخْبَرَہُ ؛ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَکِبَ رَاحِلَتَہُ فَخَطَبَ ، فَقَالَ : إِنَّ اللَّہَ حَبَسَ عَنْ مَکَّۃَ الْفِیلَ ، وَسَلَّطَ عَلَیْہَا رَسُولَہُ وَالْمُؤْمِنِینَ۔ (بخاری ۱۱۲۔ مسلم ۹۸۹)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৩৭৬৯৩
غزوات کا بیان
ابو یکسوم اور ہاتھیوں کے بارے میں ذکر کی گئی روایات
(٣٧٦٩٤) حضرت عبید بن عمیر سے روایت ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے اصحاب الفیل کو ہلاک کرنے کا ارادہ فرمایا تو اللہ تعالیٰ نے ان پر ان پرندوں کو بھیجا جن کو سمندر سے نکالا گیا تھا اور وہ ابابیلوں کے مشابہ تھے۔ ان میں سے ہر ایک پرندہ سفید و سیاہ رنگ کے تین پتھر اٹھائے ہوا تھا۔ دو پتھر اس کے پاؤں میں تھے اور ایک پتھر اس کی چونچ میں ۔ راوی کہتے ہیں۔ پس وہ پرندے آئے یہاں تک کہ انھوں نے اصحاب الفیل کے سروں پر صفیں بنالیں۔ پھر انھوں نے آواز نکالی اور جو پتھر ان کے پنجوں اور چونچوں میں تھے وہ انھوں نے پھینک دیے۔ پس کوئی پتھر کسی آدمی کے سر پر نہیں گرتا تھا مگر یہ کہ اس کی دبر سے خارج ہوتا۔ اور آدمی کے جسم کے کسی حصہ پر نہیں لگتا تھا مگر یہ کہ دوسری جانب سے نکل آتا تھا۔ راوی کہتے ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے تیز آندھی بھیجی اس نے (بھی) پتھر مارے پس پتھروں کی شدت بڑھ گئی۔ راوی کہتے ہیں۔ پس وہ تمام لوگ ہلاک کردیئے گئے۔
(۳۷۶۹۴) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِی سُفْیَانَ ، عَنْ عُبَیْدِ بْنِ عُمَیْرٍ ، قَالَ : لَمَّا أَرَادَ اللَّہُ أَنْ یُہْلِکَ أَصْحَابَ الْفِیلِ ، بَعَثَ عَلَیْہِمْ طَیْرًا أُنْشِئَتْ مِنَ الْبَحْرِ أَمْثَالَ الْخَطَاطِیفِ ، کُلُّ طَیْرٍ مِنْہَا یَحْمِلُ ثَلاَثَۃَ أَحْجَارٍ مُجَزَّعَۃٍ : حَجَرَیْنِ فِی رِجْلَیْہِ ، وَحَجَرًا فِی مِنْقَارِہِ ، قَالَ : فَجَائَتْ حَتَّی صَفَّتْ عَلَی رُؤُوسِہِمْ ، ثُمَّ صَاحَتْ ، فَأَلْقَتْ مَا فِی أَرْجُلِہَا وَمَنَاقِیرِہَا ، فَمَا یَقَعُ حَجَرٌ عَلَی رَأْسِ رَجُلٍ إِلاَّ خَرَجَ مِنْ دُبُرِہِ ، وَلاَ یَقَعُ عَلَی شَیْئٍ مِنْ جَسَدِہِ إِلاَّ خَرَجَ مِنَ الْجَانِبِ الآخَرِ ، قَالَ : وَبَعَثَ اللَّہُ رِیحًا شَدِیدَۃً ، فَضَرَبَتِ الْحِجَارَۃَ فَزَادَتْہَا شِدَّۃً ، قَالَ : فَأُہْلِکُوا جَمِیعًا۔
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৩৭৬৯৪
غزوات کا بیان
ان باتوں کا بیان جن کو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نبوت سے قبل دیکھا
(٣٧٦٩٥) حضرت عامر فرماتے ہیں کہ حضرت عمر یہود کے پاس گئے اور کہا میں تمہیں اس خدا کی قسم دیتا ہوں جس نے موسیٰ پر توراۃ اتاری۔ کیا تم محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (کی صفات) کو اپنی کتابوں میں پاتے ہو ؟ یہود نے کہا ۔ ہاں ۔ حضرت عمر نے فرمایا۔ پھر تمہیں ان کی اتباع کرنے سے کیا شئی روکتی ہے ؟ یہود نے کہا : اللہ تعالیٰ نے کوئی رسول مبعوث نہیں فرمایا مگر یہ کہ فرشتوں میں سے اس کا کوئی ساتھی ہوتا ہے۔ اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ساتھی جبرائیل ہے اور وہی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آتا ہے۔ اور فرشتوں میں سے یہ ہمارے دشمن ہیں۔ اور میکائیل سے ہماری مصالحت ہے۔ پس اگر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس میکائیل آیا کرتے تو ہم اسلام لے آتے۔ حضرت عمر نے فرمایا۔ میں تمہیں اس خدا کی قسم دیتا ہوں جس نے موسیٰ پر توراۃ نازل کی ہے۔ ان دونوں فرشتوں کی رب العالمین کے ہاں کیا قدر ومنزلت ہے ؟ یہود نے کہا۔ جبرائیل اللہ تعالیٰ کے دائیں طرف ہے اور میکائیل اللہ تعالیٰ کے بائیں طرف ہے۔ حضرت عمر نے فرمایا۔ پس بیشک میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ دونوں فرشتے اللہ تعالیٰ کے حکم ہی سے نازل ہوتے ہیں۔ اور میکائیل ایسا نہیں ہے جو جبرائیل کے دشمنوں سے مصالحت رکھتا ہو اور نہ ہی جبرائیل ایسا ہے کہ وہ میکائیل کے دشمنوں سے مصالحت رکھتا ہو۔ حضرت عمر ، یہود کے پاس ہی موجود تھے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے تو یہود نے کہا۔ یہ تمہارے ساتھی ہیں۔ اے ابن خطاب ! پس حضرت عمر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف کھڑے ہوئے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے درآنحالیکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر یہ آیات نازل ہوچکی تھیں۔ { مَنْ کَانَ عَدُوًّا لِجِبْرِیلَ فَإِنَّہُ نَزَّلَہُ عَلَی قَلْبِکَ بِإِذْنِ اللہِ ۔۔۔إِلَی قَوْلِہِ۔۔۔ فَإِنَّ اللَّہَ عَدُوٌّ لِلْکَافِرِینَ }۔
(۳۷۶۹۵) حدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا مُجَالِدٌ ، قَالَ : حَدَّثَنَا عَامِرٌ ، قَالَ : انْطَلَقَ عُمَرُ إِلَی یَہُودٍ ، فَقَالَ : أُنْشِدُکُمَ اللَّہَ ، الَّذِی أَنْزَلَ التَّوْرَاۃَ عَلَی مُوسَی ، ہَلْ تَجِدُونَ مُحَمَّدًا فِی کُتُبِکُمْ ؟ قَالُوا : نَعَمْ ، قَالَ : فَمَا یَمْنَعُکُمْ أَنْ تَتَّبِعُوہُ ؟ فَقَالُوا : إِنَّ اللَّہَ لَمْ یَبْعَثْ رَسُولاً إِلاَّ کَانَ لَہُ مِنْ الْمَلاَئِکَۃِ کِفْلٌ ، وَإِنَّ جِبْرِیلَ کِفْلُ مُحَمَّدٍ ، وَہُوَ الَّذِی یَأْتِیہِ ، وَہُوَ عَدُوُّنَا مِنْ بَیْنِ الْمَلاَئِکَۃِ ، وَمِیکَائِیلُ سِلْمُنَا ، فَلَوْ کَانَ مِیکَائِیلُ ہُوَ الَّذِی یَأْتِیہِ أَسْلَمْنَا ۔ قَالَ : فَإِنِّی أَنْشُدُکُمْ بِاللہِ الَّذِی أَنْزَلَ التَّوْرَاۃَ عَلَی مُوسَی ، مَا مَنْزِلَتُہُمَا مِنْ رَبِّ الْعَالَمِینَ ؟ قَالُوا : جِبْرِیلُ عَنْ یَمِینِہِ وَمِیکَائِیلُ عَنْ یَسَارِہِ ، قَالَ عُمَرُ : فَإِنِّی أَشْہَدُ مَا یَتَنَزَّلاَنِ إِلاَّ بِإِذْنِ اللہِ ، وَمَا کَانَ مِیکَائِیلُ لِیُسَالِمَ عَدُوَّ جِبْرِیلَ ، وَمَا کَانَ جِبْرِیلُ لِیُسَالِمَ عَدُوَّ مِیکَائِیلَ۔

فَبَیْنَمَا ہُوَ عِنْدَہُمْ ، إِذْ جَائَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالُوا : ہَذَا صَاحِبُک یَابْنَ الْخَطَّابِ ، فَقَامَ إِلَیْہِ ، فَأَتَاہُ وَقَدْ أُنْزِلَ عَلَیْہِ : {مَنْ کَانَ عَدُوًّا لِجِبْرِیلَ فَإِنَّہُ نَزَّلَہُ عَلَی قَلْبِکَ بِإِذْنِ اللہِ} إِلَی قَوْلِہِ : {فَإِنَّ اللَّہَ عَدُوٌّ لِلْکَافِرِینَ}۔
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৩৭৬৯৫
غزوات کا بیان
ان باتوں کا بیان جن کو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نبوت سے قبل دیکھا
(٣٧٦٩٦) حضرت ابوبکر بن ابو موسیٰ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ابو طالب شام کی طرف نکلے۔ اور ان کے ہمراہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قریش کے چند بڑی عمر کے لوگ تھے۔ پس جب یہ لوگ راہب کے پاس پہنچے۔ انھوں نے پڑاؤ ڈالا اور یہ اپنی سواری سے اترے۔ تو راہب ان کی طرف آیا۔ اور اس سے پہلے یہ لوگ راہب کے پاس سے گزرتے تھے لیکن وہ ان کی طرف نہیں آتا تھا اور نہ ہی ان کی طرف توجہ کرتا تھا۔ راوی کہتے ہیں : یہ لوگ اپنی سواریوں سے اتر رہے تھے تو راہب نے ان کے درمیان پھرنا شروع کیا۔ یہاں تک کہ راہب نے آ کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا۔ یہ جہانوں کے سردار ہیں اور یہ جہانوں کے پروردگار کے رسول ہیں۔ اور ان کو اللہ تعالیٰ نے رحمۃ للعالمین بنا کر مبعوث فرمایا ہے۔ قریش کے لوگوں نے راہب سے کہا۔ تمہیں کیا علم ہے ؟ اس نے کہا ۔ جب تم لوگ گھاٹی سے بلند ہوئے تو کوئی درخت اور پتھر باقی نہیں رہا مگر یہ کہ اس نے جھک کر سجدہ کیا۔ اور یہ چیزیں انبیاء ہی کو سجدہ کرتی ہیں اور میں ان کو مہر نبوت کی وجہ سے پہچانتا ہوں جو مہر ان کے کندھے کی نرم ہڈی کے نیچے مثل سیب کے ہے۔

٢۔ پھر راہب لوٹا اور اس نے ان (قافلہ والوں) کے لیے کھانا تیار کیا ۔ پس جب وہ قافلہ والوں کے پاس کھانا لے کر آیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اونٹوں کی حفاظت پر (مامور) تھے۔ راہب نے کہا۔ ان کی طرف (کوئی آدمی) بھیجو۔ پس آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایک بادل سایہ کیے ہوئے تھا۔ راہب نے کہا۔ تم انھیں دیکھو ! ان پر ایک بادل ہے جس نے ان پر سایہ کیا ہوا ہے۔ پھر جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں کے قریب پہنچے اور لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے ہی درخت کے سایہ میں تھے۔ پس جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیٹھے تو درخت کا سایہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف مائل ہوگیا۔ راہب نے کہا۔ تم درخت کے سایہ کی طرف دیکھو وہ (بھی) ان کی طرف جھک گیا ہے۔

٣۔ راوی کہتے ہیں : جب راہب قافلہ والوں کے پاس کھڑا تھا اور ان سے مطالبہ کررہا تھا کہ قافلے والے ان کو روم لے کر نہ جائیں۔ کیونکہ رومی لوگ انھیں دیکھ لیں گے تو انھیں (ان کی) صفات کی وجہ سے پہچان جائیں گے اور انھیں قتل کردیں گے۔ اس دوران اس نے مڑ کر دیکھا تو نو (٩) افراد کا گروہ جو کہ روم سے آیا تھا ، موجود تھا۔ راہب نے ان کی طرف رُخ پھیرا اور پوچھا۔ تمہیں کیا چیز یہاں لائی ہے ؟ انھوں نے کہا : ہمیں یہ بات پہنچی ہے کہ یہ نبی اسی شہر سے نکلے گا۔ پس کوئی راستہ باقی نہیں رہا مگر یہ کہ اس کی طرف لوگوں کو بھیج دیا گیا ہے۔ اور ہمیں اس کے متعلق خبر دی گئی ہے اور ہمیں تمہارے اس راستہ کی طرف بھیجا گیا ہے۔ راہب نے ان افراد سے کہا۔ تم لوگوں نے اپنے پیچھے کسی کو خود سے بہتر چھوڑا ہے ؟ انھوں نے کہا : نہیں ! ہمیں تو ان کی خبر کے بارے میں آپ کے راستہ کی طرف ہی مطلع کیا گیا ہے۔ راہب نے کہا : تم مجھے اس معاملہ کے بارے میں خبر دو جس کو اللہ تعالیٰ نے پورا کرنے کا ارادہ کرلیا ہے تو کیا لوگوں میں سے کوئی اس کو رد کرنے کی طاقت رکھتا ہے ؟ انھوں نے کہا : نہیں ! راوی کہتے ہیں : پس ان لوگوں نے راہب کی بات مان لی اور اسی کے پاس ٹھہر گئے۔

٤۔ پھر راہب قافلہ والوں کے پاس آیا اور کہا : میں تمہیں اللہ کی قسم دیتا ہوں ! اس (بچہ) کا ولی کون ہے ؟ ابو طالب نے کہا : میں ان کا ولی ہوں۔ پس راہب مسلسل ابو طالب سے مطالبہ کرتا رہا یہاں تک کہ ابو طالب نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو واپس کردیا اور حضرت ابوبکر نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ حضرت بلال کو بھیجا۔ راہب نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو زاد راہ کے لیے کیک اور زیتون پیش کیے۔
(۳۷۶۹۶) حَدَّثَنَا قُرَادٌ أَبُو نُوحٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا یُونُسُ بْنُ أَبِی إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِی بَکْرِ بْنِ أَبِی مُوسَی، عَنْ أَبِیہِ، قَالَ خَرَجَ أَبُو طَالِبٍ إِلَی الشَّامِ، وَخَرَجَ مَعَہُ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَشْیَاخٌ مِنْ قُرَیْشٍ، فَلَمَّا أَشْرَفُوا عَلَی الرَّاہِبِ، ہَبَطُوا فَحَلُّوا رِحَالَہُمْ، فَخَرَجَ إِلَیْہِمَ الرَّاہِبُ، وَکَانُوا قَبْلَ ذَلِکَ یَمُرُّونَ بِہِ فَلاَ یَخْرُجُ إِلَیْہِمْ وَلاَ یَلْتَفِتُ ، قَالَ : فَہُمْ یَحِلُّونَ رِحَالَہُمْ ، فَجَعَلَ یَتَخَلَّلُہُمْ حَتَّی جَائَ فَأَخَذَ بِیَدِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : ہَذَا سَیِّدُ الْعَالَمِینَ ، ہَذَا رَسُولُ رَبِّ الْعَالَمِینَ ، ہَذَا یَبْعَثُہُ اللَّہُ رَحْمَۃً لِلْعَالَمِینَ ، فَقَالَ لَہُ أَشْیَاخٌ مِنْ قُرَیْشٍ: مَا عِلْمُکَ؟ قَالَ: إِنَّکُمْ حِینَ أَشْرَفْتُمْ مِنَ الْعَقَبَۃِ لَمْ یَبْقَ شَجَرٌ ، وَلاَ حَجَرٌ إِلاَّ خَرَّ سَاجِدًا، وَلاَ یَسْجُدُونَ إِلاَّ لِنَبِی ، وَإِنِّی لأَعْرِفُہُ بِخَاتَمِ النُّبُوَّۃِ أَسْفَلَ مِنْ غُضْرُوفِ کَتِفِہِ مِثْلَ التُّفَّاحَۃِ۔

ثُمَّ رَجَعَ وَصَنَعَ لَہُمْ طَعَامًا ، فَلَمَّا أَتَاہُمْ بِہِ وَکَانَ ہُوَ فِی رَعِیَّۃِ الإِبِلِ ، قَالَ : أَرْسِلُوا إِلَیْہِ ، فَأَقْبَلَ وَعَلَیْہِ غَمَامَۃٌ تُظِلُّہُ ، قَالَ : اُنْظُرُوا إِلَیْہِ ، عَلَیْہِ غَمَامَۃٌ تُظِلُّہُ ، فَلَمَّا دَنَا مِنَ الْقَوْمِ ، وَجَدَہُمْ قَدْ سَبَقُوا إِلَی فَیْئِ الشَّجَرَۃِ ، فَلَمَّا جَلَسَ مَالَ فَیْئُ الشَّجَرَۃِ عَلَیْہِ ، فَقَالَ : اُنْظُرُوا إِلَی فَیْئِ الشَّجَرَۃِ مَالَ عَلَیْہِ۔

قَالَ : فَبَیْنَمَا ہُوَ قَائِمٌ عَلَیْہِمْ وَہُوَ یُنَاشِدُہُمْ أَنْ لاَ یَذْہَبُوا بِہِ إِلَی الرُّومِ ، فَإِنَّ الرُّومَ لَوْ رَأَوْہُ عَرَفُوہُ بِالصِّفَۃِ فَقَتَلُوہُ ، فَالْتَفَتَ فَإِذَا ہُوَ بِتِسْعَۃِ نَفَرٍ قَدْ أَقْبَلُوا مِنَ الرُّومِ ، فَاسْتَقْبَلَہُمْ ، فَقَالَ: مَا جَائَ بِکُمْ؟ قَالُوا: جِئْنَا، أَنَّ ہَذَا النَّبِیَّ خَارِجٌ فِی ہَذَا الشَّہْرِ، فَلَمْ یَبْقَ فِی طَرِیقٍ إِلاَّ قَدْ بُعِثَ إِلَیْہِ نَاسٌ، وَإِنَّا أُخْبِرْنَا خَبَرَہُ فَبُعِثْنَا إِلَی طَرِیقِکَ ہَذَا، فَقَالَ لَہُمْ: مَا خَلَّفْتُمْ خَلْفَکُمْ أَحَدًا ہُوَ خَیْرٌ مِنْکُمْ؟ قَالُوا: لاَ، إِنَّمَا أُخْبِرْنَا خَبَرَہُ بِطَرِیقِکَ ہَذَا، قَالَ: أَفَرَأَیْتُمْ أَمْرًا أَرَادَ اللَّہُ أَنْ یَقْضِیَہُ، ہَلْ یَسْتَطِیعُ أَحَدٌ مِنَ النَّاسِ رَدَّہُ؟ قَالُوا: لاَ، قَالَ: فَتَابَعُوہُ وَأَقَامُوا مَعَہُ۔

فَأَتَاہُمْ فَقَالَ : أَنْشُدُکُمْ بِاللہِ أَیُّکُمْ وَلِیُّہُ ؟ قَالَ أَبُو طَالِبٍ : أَنَا ، فَلَمْ یَزَلْ یُنَاشِدُہُ حَتَّی رَدَّہُ أَبُو طَالِبٍ ، وَبَعَثَ مَعَہُ أَبُو بَکْرٍ بِلاَلاً ، وَزَوَّدَہُ الرَّاہِبُ مِنَ الْکَعْکِ وَالزَّیْتِ۔ (ترمذی ۳۶۲۰۔ حاکم ۶۱۵)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৩৭৬৯৬
غزوات کا بیان
ان باتوں کا بیان جن کو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نبوت سے قبل دیکھا
(٣٧٦٩٧) حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ جنات کا کوئی قبیلہ نہیں تھا مگر یہ کہ ان کے لیے (آسمانی باتیں) سُننے کے لیے نشستیں تھیں۔ فرماتے ہیں : پس جب وحی نازل ہوتی تو فرشتے ایسی آواز سنتے جیسے اس لوہے کی آواز ہوتی ہے جس کو آپ صاف پتھر پر پھینکیں۔ فرماتے ہیں : پس جب فرشتے یہ آواز سنتے تو سجدہ میں گرپڑتے۔ وحی کے نازل ہونے تک وہ اپنے سر نہ اٹھاتے۔ پھر جب وحی نازل ہو چکتی تو بعض فرشتے ، بعض فرشتوں سے کہتے۔ تمہارے رب نے کیا کہا ہے ؟ پس اگر وحی کسی آسمانی معاملہ میں ہوتی تو فرشتے کہتے۔ حق کہا ہے اور وہ ذات بلند اور بڑی ہے اور اگر وحی کسی زمینی معاملہ میں۔ غیبی امر یا موت یا کوئی بھی زمینی معاملہ، ہوتی تو فرشتے باہم گفتگو کرتے اور کہتے کہ یوں یوں ہوگا۔ ان باتوں کو شیاطین سُن لیتے اور پھر یہ باتیں اپنے اولیاء (دوستوں) کو آ کر کہتے۔ پس جب اللہ تعالیٰ نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مبعوث فرمایا تو شیاطین کو ستاروں کے ذریعہ ہلاک کیا گیا۔ سب سے پہلے جس کو اس بات کا (ستارے گرنے کا) علم ہوا وہ (قبیلہ) ثقیف تھا۔ پس ان میں سے بکریوں والا اپنی بکریوں کے پاس جاتا اور ہر روز ایک بکری ذبح کردیتا۔ اور اونٹوں والا ہر روز ایک اونٹ ذبح کردیتا۔ پس لوگوں نے اپنے میں جلدی کرنا شروع کی ۔ تو ان میں سے بعض نے بعض سے کہا۔ (ایسا) نہ کرو۔ اگر تو یہ راہنمائی والے ستارے ہیں (تو پھر ٹھیک) وگرنہ یہ کوئی نئے حادثہ کی وجہ سے ہے۔ پس لوگوں نے دیکھا تو راہنمائی والے ستارے تو ویسے ہی تھے۔ ان میں سے کچھ بھی نہیں پھنکاک گیا تھا۔ لوگ رُک گئے۔ اور اللہ تعالیٰ نے جنات کو پھیرا اور انھوں نے قرآن کو سُنا۔ پس جب جنات (تلاوت) قرآن پر حاضر ہوئے تو انھوں نے کہا۔ خاموش ہو جاؤ۔ ابن عباس فرماتے ہیں۔ شیاطین ، ابلیس کے پاس گئے اور جا کر اس کو خبر دی اس نے کہا : زمین میں یہی واقعہ رونما ہوا ہے۔ پس تم میرے پاس ہر زمین کی مٹی لاؤ۔ شیاطین جب ابلیس کے پاس تہامہ کی مٹی لائے تو اس نے کہا ۔ یہیں پر یہ نیا واقعہ رونما ہوا ہے۔
(۳۷۶۹۷) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ؛ إِنَّہُ لَمْ تَکُنْ قَبِیلَۃٌ مِنَ الْجِنِّ إِلاَّ وَلَہُمْ مَقَاعِدُ لِلسَّمْعِ ، قَالَ : فَکَانَ إِذَا نَزَلَ الْوَحْیُ سَمِعَتِ الْمَلاَئِکَۃُ صَوْتًا کَصَوْتِ الْحَدِیدَۃِ أَلْقَیْتہَا عَلَی الصَّفَا، قَالَ : فَإِذَا سَمِعَتْہُ الْمَلاَئِکَۃُ خَرُّوا سُجَّدًا ، فَلَمْ یَرْفَعُوا رُؤُوسَہُمْ حَتَّی یَنْزِلَ ، فَإِذَا نَزَلَ ، قَالَ بَعْضُہُمْ لِبَعْضٍ: مَاذَا قَالَ رَبُّکُمْ ؟ فَإِنْ کَانَ مِمَّا یَکُونُ فِی السَّمَائِ ، قَالُوا : الْحَقَّ وَہُوَ الْعَلِیُّ الْکَبِیرُ ، وَإِنْ کَانَ مِمَّا یَکُونُ فِی الأَرْضِ مِنْ أَمْرِ الْغَیْبِ ، أَوْ مَوْتٍ ، أَوْ شَیْئٍ مِمَّا یَکُونُ فِی الأَرْضِ تَکَلَّمُوا بِہِ ، فَقَالُوا : یَکُونُ کَذَا وَکَذَا ، فَتَسْمَعُہُ الشَّیَاطِینُ ، فَیُنْزِلُونَہُ عَلَی أَوْلِیَائِہِمْ۔

فَلَمَّا بَعَثَ اللَّہُ مُحَمَّدًا صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ دُحِرُوا بِالنُّجُومِ ، فَکَانَ أَوَّلَ مَنْ عَلِمَ بِہَا ثَقِیفٌ ، فَکَانَ ذُو الْغَنَمِ مِنْہُمْ یَنْطَلِقُ إِلَی غَنَمِہِ فَیَذْبَحُ کُلَّ یَوْمٍ شَاۃً ، وَذُو الإِبِلِ یَنْحَرُ کُلَّ یَوْمٍ بَعِیرًا ، فَأَسْرَعَ النَّاسُ فِی أَمْوَالِہِمْ ، فَقَالَ بَعْضُہُمْ لِبَعْضٍ : لاَ تَفْعَلُوا ، فَإِنْ کَانَتِ النُّجُومُ الَّتِی یُہْتَدِی بِہَا وَإِلاَّ فَإِنَّہُ أَمْرٌ حَدَثَ ، فَنَظَرُوا فَإِذَا النُّجُومُ الَّتِی یُہْتَدِی بِہَا کَمَا ہِی ، لَمْ یُرْمَ مِنْہَا بِشَیْئٍ ، فَکَفُّوا ، وَصَرَفَ اللَّہُ الْجِنَ ، فَسَمِعُوا الْقُرْآنَ ، فَلَمَّا حَضَرُوہُ ، قَالُوا : أَنْصِتُوا ، قَالَ : وَانْطَلَقَتِ الشَّیَاطِینُ إِلَی إِبْلِیسَ فَأَخْبَرُوہُ ، فَقَالَ : ہَذَا حَدَثٌ حَدَثَ فِی الأَرْضِ ، فَأْتُونِی مِنْ کُلِّ أَرْضٍ بِتُرْبَۃٍ ، فَلَمَّا أَتَوْہُ بِتُرْبَۃِ تِہَامَۃَ ، قَالَ : ہَاہُنَا الْحَدَثُ۔
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৩৭৬৯৭
غزوات کا بیان
ان باتوں کا بیان جن کو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نبوت سے قبل دیکھا
(٣٧٦٩٨) حضرت صفوان بن عسال روایت کرتے ہیں کہ ایک یہودی نے اپنے ساتھی سے کہا۔ ہمیں اس نبی کے پاس لے چلو ! اس کے ساتھی نے کہا : نہیں ! نبی مت کہو کیونکہ اگر انھوں نے تجھے سُن لیا تو ان کی چار آنکھیں ہوجائیں گی۔ راوی کہتے ہیں : وہ دونوں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انھوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نو کھلی نشانیوں کے بارے میں سوال کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا۔ تم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور زنا نہ کرو اور چوری نہ کرو اور اس جان کو قتل نہ کرو جس کو اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے مگر حق کی وجہ سے ۔ اور کسی قوت والے کے پاس بےگناہ کی چغلی نہ کرو کہ وہ اس بےگناہ کو قتل کر دے اور جادو نہ کرو۔ اور سود نہ کھاؤ۔ اور پاکدامن عورت پر تہمت زنی مت کرو اور جنگ کے دن بھاگنے کے لیے پیٹھ مت پھیرو۔ اور اے خواص یہود تم پر یہ بھی لازم ہے کہ ہفتہ کے دن میں تعدی نہ کرو۔ راوی کہتے ہیں : یہودیوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھ، پاؤں چومے اور عرض کرنے لگے۔ ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ نبی برحق ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم لوگوں کو میری اتباع سے کیا چیز مانع ہے ؟ کہنے لگے : حضرت داؤد نے دعا مانگی تھی کہ ان کی ذریت میں مسلسل نبوت رہے ۔ اور ہمیں اس بات کا خوف ہے کہ ہمیں یہودی قتل کردیں گے۔
(۳۷۶۹۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إِدْرِیسَ ، وَأَبُو أُسَامَۃَ ، وَغُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ سَلِمَۃَ ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ عَسَّالٍ ، قَالَ : قَالَ یَہُودِیٌّ لِصَاحِبِہِ : اذْہَبْ بِنَا إِلَی ہَذَا النَّبِیِّ ، فَقَالَ صَاحِبُہُ : لاَ تَقُلْ نَبِیٌّ ، فَإِنَّہُ لَوْ قَدْ سَمِعَک کَانَ لَہُ أَرْبَعُ أَعْیُنٍ ، قَالَ : فَأَتَیَا رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَسَأَلاَہُ عَنْ تِسْعِ آیَاتٍ بَیِّنَاتٍ ، فَقَالَ : لاَ تُشْرِکُوا بِاللہِ شَیْئًا ، وَلاَ تَزْنُوا ، وَلاَ تَسْرِقُوا ، وَلاَ تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِی حَرَّمَ اللَّہُ إِلاَّ بِالْحَقِ ، وَلاَ تَمْشُوا بِبَرِیئٍ إِلَی ذِی سُلْطَانٍ فَیَقْتُلَہُ ، وَلاَ تَسْحَرُوا ، وَلاَ تَأْکُلُوا الرِّبَا ، وَلاَ تَقْذِفُوا الْمُحْصَنَۃَ ، وَلاَ تُوَلُّوا لِلْفِرَارِ یَوْمَ الزَّحْفِ ، وَعَلَیْکُمْ خَاصَّۃً یَہُودُ : لاَ تَعْدُوا فِی السَّبْتِ ، قَالَ : فَقَبَّلُوا یَدَیْہِ وَرِجْلَیْہِ ، وَقَالُوا : نَشْہَدُ أَنَّک نَبِیٌّ حَقٌ ، قَالَ : فَمَا یَمْنَعُکُمْ أَنْ تَتَّبِعُونِی ؟ قَالُوا : إِنَّ دَاوُدَ دَعَا لاَ یَزَالُ فِی ذُرِّیَّتِہِ نَبِیٌّ ، وَإِنَّا نَخَافُ أَنْ تَقْتُلَنَا یَہُودُ۔ (احمد ۲۳۹۔ حاکم ۱۰)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৩৭৬৯৮
غزوات کا بیان
ان روایتوں کا بیان جن میں یہ ذکر ہے کہ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر وحی کا نزول ہوا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عمر مبارک کیا تھی ؟
(٣٧٦٩٩) حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر وحی کا نزول ہوا جبکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چالیس سال کی عمر کے تھے پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ میں تیرہ سال ٹھہرے اور مدینہ میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دس سال رہے پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات ہوئی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عمر مبارک تریسٹھ سال کی تھی۔
(۳۷۶۹۹) حدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ زَائِدَۃَ ، عَنْ ہِشَامِ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : أُنْزِلَ عَلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہُوَ ابْنُ أَرْبَعِینَ سَنَۃً ، ثُمَّ مَکَثَ بِمَکَّۃَ ثَلاَثَ عَشْرَۃَ سَنَۃً ، وَکَانَ بِالْمَدِینَۃِ عَشْرَ سِنِینَ ، فَقُبِضَ وَہُوَ ابْنُ ثَلاَثٍ وَسِتِّینَ۔
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৩৭৬৯৯
غزوات کا بیان
ان روایتوں کا بیان جن میں یہ ذکر ہے کہ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر وحی کا نزول ہوا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عمر مبارک کیا تھی ؟
(٣٧٧٠٠) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر وحی کا نزول ہوا جبکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عمر مبارک چالیس سال کی تھی پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ میں دس سال ٹھہرے اور مدینہ میں دس سال ٹھہرے۔
(۳۷۷۰۰) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ زَائِدَۃَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، قَالَ : قَالَ الْحَسَنُ : أُنْزِلَ عَلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہُوَ ابْنُ أَرْبَعِینَ سَنَۃً ، فَمَکَثَ بِمَکَّۃَ عَشْرَ سِنِینَ ، وَبِالْمَدِینَۃِ عَشْرَ سِنِینَ۔
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৩৭৭০০
غزوات کا بیان
ان روایتوں کا بیان جن میں یہ ذکر ہے کہ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر وحی کا نزول ہوا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عمر مبارک کیا تھی ؟
(٣٧٧٠١) حضرت عائشہ اور ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ میں دس سال ٹھہرے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر قرآن نازل ہوتا تھا اور مدینہ میں دس سال ٹھہرے۔
(۳۷۷۰۱) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ، عَنْ ہِشَامٍ، قَالَ: حدَّثَنَا شَیْبَانُ، عَنْ یَحْیَی، عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ، عَنْ عَائِشَۃَ، وَابْنِ عَبَّاسٍ؛ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَبِثَ بِمَکَّۃَ عَشْرَ سِنِینَ ، یَنْزِلُ عَلَیْہِ الْقُرْآنُ ، وَبِالْمَدِینَۃِ عَشْرًا۔

(بخاری ۴۴۶۴۔ احمد ۲۹۶)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৩৭৭০১
غزوات کا بیان
ان روایتوں کا بیان جن میں یہ ذکر ہے کہ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر وحی کا نزول ہوا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عمر مبارک کیا تھی ؟
(٣٧٧٠٢) حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات ہوئی جبکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عمر مبارک پینسٹھ سال کی تھی۔
(۳۷۷۰۲) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ خَالِدٍ ، عَنْ عَمَّارٍ مَوْلَی بَنِی ہَاشِمٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : تُوُفِّیَ النَّبِیُّ علیہ الصلاۃ والسلام وَہُوَ ابْنُ خَمْسٍ وَسِتِّینَ۔
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৩৭৭০২
غزوات کا بیان
ان روایتوں کا بیان جن میں یہ ذکر ہے کہ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر وحی کا نزول ہوا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عمر مبارک کیا تھی ؟
(٣٧٧٠٣) حضرت سعید سے روایت ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر قرآن کا نزول ہوا جبکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عمر مبارک تینتالیس سال کی تھی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دس سال مکہ میں قیام پذیر رہے اور دس سال مدینہ میں ۔ اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات ہوئی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عمر تریسٹھ سال کی تھی۔
(۳۷۷۰۳) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ سَعِیدٍ ؛ أَنَّ النَّبِیَّ علیہ الصلاۃ والسلام أُنْزِلَ عَلَیْہِ الْقُرْآنُ وَہُوَ ابْنُ ثَلاَثٍ وَأَرْبَعِینَ ، وَأَقَامَ بِمَکَّۃَ عَشْرًا ، وَبِالْمَدِینَۃِ عَشْرًا ، وَتُوُفِّیَ وَہُوَ ابْنُ ثَلاَثٍ وَسِتِّینَ۔
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৩৭৭০৩
غزوات کا بیان
ان روایتوں کا بیان جن میں یہ ذکر ہے کہ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر وحی کا نزول ہوا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عمر مبارک کیا تھی ؟
(٣٧٧٠٤) حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مبعوث ہوئے جبکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عمر مبارک چالیس سال کی تھی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ میں پندرہ سال اور مدینہ میں دس سال قیام پذیر رہے۔ پس جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات ہوئی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عمر مبارک پینسٹھ سال کی تھی۔
(۳۷۷۰۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ خَالِدٍ ، عَنْ عَمَّارٍ مَوْلَی بَنِی ہَاشِمٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بُعِثَ وَہُوَ ابْنُ أَرْبَعِینَ ، وَأَقَامَ بِمَکَّۃَ خَمْسَ عَشْرَۃَ ، وَبِالْمَدِینَۃِ عَشْرًا ، فَقُبِضَ وَہُوَ ابْنُ خَمْسٍ وَسِتِّینَ۔
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৩৭৭০৪
غزوات کا بیان
ان روایتوں کا بیان جن میں یہ ذکر ہے کہ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر وحی کا نزول ہوا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عمر مبارک کیا تھی ؟
(٣٧٧٠٥) حضرت سعید بن جبیر بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی حضرت ابن عباس کے خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے کہا : نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر دس سال مکہ میں اور دس سال مدینہ میں قرآن کا نزول ہوا ہے ؟ آپ نے فرمایا : یہ کس نے کہا ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر مکہ میں دس سال اور پینسٹھ سال سے زیادہ نزول قرآن ہوا ہے۔
(۳۷۷۰۵) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا الْعَلاَئُ بْنُ صَالِحٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا الْمِنْہَالُ بْنُ عَمْرٍو ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، أَنَّ رَجُلاً أَتَی ابْنَ عَبَّاسٍ ، فَقَالَ : أُنْزِلَ عَلَی النَّبِیِّ علیہ الصلاۃ والسلام عَشْرًا بِمَکَّۃَ وَعَشْرًا بِالْمَدِینَۃِ ، فَقَالَ : مَنْ یَقُولُ ذَلِکَ ، لَقَدْ أُنْزِلَ عَلَیْہِ بِمَکَّۃَ عَشْرًا وَخَمْسًا وَسِتِّینَ وَأَکْثَرَ۔
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৩৭৭০৫
غزوات کا بیان
ان روایتوں کا بیان جن میں یہ ذکر ہے کہ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر وحی کا نزول ہوا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عمر مبارک کیا تھی ؟
(٣٧٧٠٦) حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر قرآن کا نزول ہوا جبکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عمر چالیس سال کی تھی ۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ میں تیرہ سال اور مدینہ میں دس سال اقامت پذیر رہے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات ہوئی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عمر مبارک تریسٹھ سال کی تھی۔
(۳۷۷۰۶) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ؛ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أُنْزِلَ عَلَیْہِ وَہُوَ ابْنُ أَرْبَعِینَ سَنَۃً ، فَأَقَامَ بِمَکَّۃَ ثَلاَثَ عَشْرَۃَ ، وَبِالْمَدِینَۃِ عَشْرَ سِنِینَ ، وَتُوُفِّیَ وَہُوَ ابْنُ ثَلاَثٍ وَسِتِّینَ۔
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৩৭৭০৬
غزوات کا بیان
ان روایتوں کا بیان جن میں یہ ذکر ہے کہ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر وحی کا نزول ہوا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عمر مبارک کیا تھی ؟
(٣٧٧٠٧) حضرت انس بن مالک بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو چالیس سال کی عمر میں مبعوث کیا گیا پس آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دس سال مکہ میں اور دس سال مدینہ میں مقیم رہے اور ساٹھ سال کی عمر میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وفات پائی۔
(۳۷۷۰۷) حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ بِلاَلٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِی رَبِیعَۃُ بْنُ أَبِی عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِکٍ ، یَقُولُ : بُعِثَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَی رَأْسِ أَرْبَعِینَ ، فَأَقَامَ بِمَکَّۃَ عَشْرًا ، وَبِالْمَدِینَۃِ عَشْرًا ، وَتُوُفِّیَ عَلَی رَأْسِ سِتِّینَ سَنَۃً۔
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৩৭৭০৭
غزوات کا بیان
نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے بارے میں آنے والی روایات کا بیان
(٣٧٧٠٨) حضرت عبداللہ بن شقیق روایت کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا۔ آپ کب سے نبی (بنائے گئے) ہیں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جوابًا فرمایا : میں نبی تھا جبکہ آدم روح اور جسد کے درمیان تھے۔
(۳۷۷۰۸) حدَّثَنَا عَفَّانَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا وُہَیْبٌ ، قَالَ : حَدَّثَنَا خَالِدٌ الْحَذَّائُ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ شَقِیقٍ ؛ أَنَّ رَجُلاً سَأَلَ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَتَی کُنْتَ نَبِیًّا ؟ قَالَ : کُنْتُ نَبِیًّا وَآدَمُ بَیْنَ الرُّوحِ وَالْجَسَدِ۔ (احمد ۶۶۔ ابن ابی عاصم ۲۹۱۸)
tahqiq

তাহকীক: