মুসান্নাফ ইবনু আবী শাইবাহ (উর্দু)

الكتاب المصنف في الأحاديث و الآثار

کتاب الجمل - এর পরিচ্ছেদসমূহ

মোট হাদীস ২০ টি

হাদীস নং: ৩৮৯১১
کتاب الجمل
فِی مسِیرِ عائِشۃ وعلِیٍّ وطلحۃ والزّبیرِ رضی اللہ عنہم
(٣٨٩١٢) عاصم بن کلیب جرمی فرماتے ہیں کہ میرے والد محترم بیان کرتے ہیں کہ ہم نے توج (شہر) کا محاصرہ کیا جبکہ ہمارے لشکر کے امیر بنی سلیم قبیلہ کے مجاشع بن مسعود تھے جب ہم اس شہر کو فتح کرچکے تو میرے بدن پر ایک بوسیدہ کرتا تھا تو میں عجم کے ان مقتولین کی طرف گیا جن کو ہم نے تہہ تیغ کیا تھا۔ ایک مقتول کی قمیص میں نے اتار لی جس پر خون کے نشان تھے میں نے اسے پتھروں کے درمیان دھویا اور خوب رگڑ کر اسے اچھی طرح صاف کرلیا اور پھر زیب تن کر کے آبادی کی طرف گیا اور مال غنیمت سے ایک سوئی اور دھاگہ لیا اور اپنی پھٹی ہوئی قمیص کی سلائی کی۔ مجاشع بن مسعود کھڑے ہوئے اور فرمانے لگے اے لوگو ! تم کسی بھی شئے میں خیانت نہ کرو جس نے خیانت کی قیامت کے دن اسے حساب دینا پڑے گا اگرچہ دھاگہ ہی کیوں نہ ہو۔ پس میں نے قمیص اتاردی اور اپنی قمیص کو پھاڑنے لگا تاکہ (مال غنیمت کا) دھاگہ ٹوٹ نہ جائے پھر میں سوئی اور قمیص کو لے کر مال غنیمت کے پاس پہنچا اور میں نے یہ چیزیں واپس رکھ دیں پھر میں نے لوگوں کو اس دنیا میں دیکھا کہ وہ کئی کئی وسق میں خیانت کرتے ہیں جب میں نے ان سے کہا کہ یہ کیا ہے تو وہ جواب دیتے مال غنیمت میں ہمارا اس سے بھی زیادہ حصہ بنتا ہے عاصم کہتے ہیں کہ میرے والد ماجد نے خواب دیکھا جب وہ خلافت عثمان کے زمانے میں توج کے محاصرہ کے لیے گئے ہوئے تھے۔ میرے والد نے جب یہ خواب دیکھا تو بڑے واضح طریقے سے دیکھا میرے والد نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صحبت کی سعادت بھی حاصل کی تھی۔ انھوں نے خواب میں دیکھا کہ ایک مریض آدمی ہے اس کے پاس لوگ جھگڑ رہے ہیں اور ان کے ہاتھ ایک دوسرے کی طرف اٹھ رہے ہیں اور آوازیں بلند ہو رہی ہیں۔ ان کے قریب ایک عورت سبز لباس میں ملبوس بیٹھی ہے اور ایسے معلوم ہو رہی ہے جیسے وہ ان کے درمیان صلح کرانے کی خواہاں ہے اسی اثنا میں ایک آدمی کھڑا ہوتا ہے اور اپنے جیسے کے استر پلٹتا ہے پھر کہتا ہے اے مسلمانو ! کیا تمہارا اسلام بوسیدہ ہوگیا جبکہ یہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کرتا ہے جو ابھی پرانا نہیں ہوا اسی دوران دوسرا شخص کھڑا ہوا اور قرآن کریم کی ایک جلد کو پکڑ کر جھٹکا جس کی وجہ سے قرآن کریم کے اوراق پھیلنے لگے۔ عاصم کہتے ہیں کہ میرے والد نے یہ خواب تعبیر بتانے والوں کے سامنے بیان کیا مگر کوئی اس خواب کی تعبیر نہ بتا سکا بلکہ تعبیر بتانے والے یہ خواب سن کر گھبرا جاتے تھے۔

عاصم کہتے ہیں کہ میرے والد نے فرمایا کہ میں بصرہ آیا تو دیکھا کہ لوگ لشکر تیار کر رہے ہیں میں نے پوچھا انھیں کیا ہوا تو مجھے لوگوں نے بتایا کہ ان لوگوں کو یہ اطلاع ملی ہے کہ کچھ لوگ حضرت عثمان کی طرف گئے ہیں (تا کہ ان کے خلاف شورش برپا کریں) اب یہ لوگ) اہل بصرہ) حضرت عثمان کی مدد کے لیے جارہے ہیں۔ پھر ابن عامر کھڑا ہوا اور کہنے لگا کہ امیر المومنین نے صلح کرلی ہے اور ان کے پاس جانے والا لشکر لوٹ چکا ہے (یہ سن کر) اہل بصرہ بھی اپنے گھروں کو لوٹ گئے اس کے بعد حضرت عثمان کی شہادت نے ان کو سخت رنج میں مبتلا کیا۔ میں نے اتنی کثیر تعداد میں بوڑھے لوگوں کو اتنا روتے ہوئے پہلے کبھی نہیں دیکھا کہ ان کی داڑھیاں آنسوؤں سے تر ہوں۔ پھر تھوڑا ہی عرصہ گزرا کہ حضرت زبیر اور طلحہ بصرہ تشریف لائے پھر کچھ ہی عرصہ بعد حضرت علی تشریف لائے اور ذی قار (جگہ کا نام) میں ٹھہرے۔ قبیلے کے دو بوڑھے مجھ سے کہنے لگے کہ آؤ ان کے (علی ) پاس چلتے اور دیکھتے ہیں کہ یہ کیا دعوت دیتے ہیں اور کیا موقف لے کر آئے ہیں۔ پس ہم نکلے اور ان کی طرف بڑھے جب ہم ان کے قریب ہوئے تو ان کے گروہ ہمیں نظر آنے لگے۔ اچانک ہماری ایک نوجوان پر نظر پڑی جو سخت کھال والا تھا اور لشکر کے ایک جانب تھا۔

جب میں نے اسے دیکھا تو یہ اس عورت سے بہت مشابہت رکھتا تھا جس کو میں نے خواب میں مریض کے پاس بیٹھے ہوئے دیکھا تھا۔ میں نے اپنے ساتھیوں کو کہا کہ اگر اس عورت جس کو میں نے خواب میں مریضے سرہانے بیٹھے ہوئے دیکھا تھا کا کوئی بھائی ہو تو یہ اسی کا بھائی ہے۔ مرھے ساتھ جو دو بزرگ شخص تھے ان میں سے ایک کہنے لگا آپ کی اس شخص سے کیا غرض ہے اور میری کہنی کو پکڑ کر دبایا۔ وہ جوان ہماری گفتگو سن کر کہنے لگا کہ آپ کیا فرما رہے ہیں میرے ایک ساتھی نے کہا کچھ نہیں آجائیں۔ مگر اس نوجوان نے اصرار کیا کہ آپ بتائیں آپ کیا کہہ رہے تھے۔ پس میں نے اس کو اپنا خواب سنادیا تو نوجوان کہنے لگا یہ خواب آپ نے دیکھا ہے پھر وہ گھبرایا اور گھبراہٹ میں یہی کہتا رہا کہ یہ خواب آپ نے دیکھا ہے ؟ یہ خواب آپ نے دیکھا ہے ؟ اسی طرح کہتا رہا حتیٰ کہ اس کی آواز ہم سے دور ہوتے ہوتے منقطع ہوگئی۔ میں نے کسی سے پوچھا یہ کون شخص تھا جو ہم سے ملا تو اس نے جواب دیا محمد بن ابی بکر عاصم کے والد محترم فرماتے ہیں کہ پھر ہم نے پہچان لیا کہ وہ عورت (جو خواب میں مریض کے سرہانے بیٹھی تھی) عائشہ تھی۔

پس جب میں لشکر میں پہنچا تو میں نے وہاں عرب کے سب سے زیادہ دانا انسان کو پایا یعنی کہ حضرت علی کو عاصم کے والد محترم بیان کرتے ہیں کہ اللہ کی قسم حضرت علی مجھ سے میری قوم کے متعلق گفت و شنید کرنا چاہتے تھے میں نے سوچا کہ وہ تو میری قوم کو مجھ سے زیادہ جانتے ہیں۔ حضرت علی نے فرمایا کہ بصرہ میں بنی راسب بنی قدامہ سے زیادہ ہیں ناں ! میں نے کہا جی ہاں۔ انھوں نے مجھ سے سوال کیا آپ اپنی قوم کے سردار ہیں میں نے جواب دیا جی نہیں۔ اگرچہ میری بھی قوم اطاعت کرتی ہے مگر مجھ سے بڑے اور قابل اطاعت سردار بھی میری قوم میں موجود ہیں۔ پس حضرت علی نے مجھ سے دریافت کیا بنی راسب کا سردار کون ہے میں نے کہا فلاں پھر انھوں نے بنی قدامہ کے بارے میں سوال کیا کہ ان کا سردار کون ہے میں نے جواب دیا فلاں۔ پھر فرمایا کیا میرے دو خط ان دونوں سرداروں کو پہنچا دوگے میں نے کہا جی ضرور، پھر فرمانے لگے کیا تم لوگ بیعت نہیں کرو گے تو حضرت عاصم کے والد ماجد فرماتے ہیں کہ میرے ساتھ جو دو بزرگ تھے انھوں نے بیعت کرلی۔

پس وہ لوگ جو ان کے پاس تھے ناراض ہوئے میرے والد نے اپنے ہاتھ کے اشارے سے کچھ کہا اور اپنے ہاتھ کو بند کیا اور حرکت دی گویا کہ ان لوگوں میں ایک طرح کی خفت تھی پس انھوں نے کہنا شروع کیا بیعت کرلو بیعت کرلو ان لوگوں کے چہرے پر سجدوں کے بڑے واضح نشان تھے۔ حضرت علی نے فرمایا تم اس آدمی کو چھوڑ دو پھر عاصم کے والد ماجد گویا ہوئے کہ مجھے میری قوم نے رہنما بنا کر بھیجا ہے اس لیے میں چاہتا ہوں کہ میں ان کو اس تمام معاملے سے آگاہ کردوں جو میں نے دیکھا ہے۔ اگر وہ آپ کے ہاتھ پر بیعت کے لیے تیار ہوئے تو میں بھی آپ سے بیعت کرلوں گا اور اگر انھوں نے آپ سے روگردانی کی تو میں بھی آپ سے علیحدہ ہوجاؤں گا۔ تو حضرت علی نے فرمایا دیکھو تمہاری قوم نے تمہیں رہنما بنا کر بھیجا ہے پس آپ نے باغ اور کنواں دیکھ لات پھر بھی تم اگر اپنی قوم سے گھاس اور پانی کی تلاش کا کہو تو اگر تمہاری قوم نے انکار کردیا تو پھر آپ خود پانی اور گھاس تلاش نہ کرسکو گے۔ میں نے ان کی انگلی پکڑی اور کہا ہم آپ سے بیعت کرتے ہیں کہ ہم آپ کی اطاعت کریں گے اس وقت تک جب تک اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر قائم رہیں گے۔ پس اگر آپ نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی تو پھر ہمارے اوپر آپ کی اطاعت لازم نہیں۔ تو حضرت علی نے جواب دیا ٹھیک ہے اور آواز کو لمبا کیا۔

پس میں نے ان کے ہاتھ پر ہاتھ مارا پھر محمد بن حاطب کی طرف متوجہ ہوا جو لوگوں کے ایک جانب بیٹھے تھے حضرت علی نے فرمایا بصرہ میں اپنی قوم کی طرف جا کر میرے دونوں خط اور دونوں باتیں ان تک پہنچا دینا۔ پھر محمد بن حاطب حضرت علی کی طرف آئے اور کہنے لگے۔ جب میں اپنی قوم کی طرف آیا تو میری قوم کے لوگ پوچھنے لگے کہ ان کا حضرت عثمان کے بارے میں کیا خیال ہے تو میں نے جواب دیا کہ حضرت علی کے آس پاس کے لوگ تو انھیں برا بھلا کہہ رہے تھے مگر حضرت علی کی پیشانی سے ناپسندیدگی کا اظہار ہو رہا تھا بوجہ ان لوگوں کے برا بھلا کہنے کے۔

تو محمد بن حاتم نے کہا اے لوگو ٹھہر جاؤ اللہ کی قسم نہ تم سے میں نے سوال کیا ہے اور نہ تمہارے بارے میں مجھ سے سوال کیا گیا ہے پس حضرت علی نے فرمایا کہ تم حضرت عثمان کے بارے میں میری سب سے اچھی بات ان کو بتا دینا کہ وہ اہل ایمان میں سے تھے نیک اعمال کرنے والے تھے پھر اللہ سے ڈرنے والے تھے اور حسن سلو ک کرنے والے تھے اور اللہ احسان کرنے والوں کو پسند کرتا ہے عاصم کہتے ہیں کہ میرے والد نے فرمایا میں وہاں ہی تھا کہ اہل کوفہ میرے پاس آئے اور مجھ سے ملاقات کرنے لگے پھر کہنے لگے کہ کیا آپ دیکھ رہے ہیں ہمارے بصرہ کے بھائی ہم سے قتال کرنا چاہتے ہیں یہ بات انھوں نے ہنستے ہوئے اور تعجب کرتے ہوئے کہی پھر کہنے لگے اللہ کی قسم اگر ہماری ان سے مڈ بھیڑ ہوئی تو ہم ضرور ان سے اپنا حق لیں گے عاصم کے والد ماجد فرماتے ہیں کہ وہ ایسے لگ رہے تھے جیسے قتال نہیں کریں گے میں حضرت علی کا خط لے کر نکلا پس جن دو سرداروں کی طرف حضرت علی نے خط لکھا تھا ان میں سے ایک نے خط لیا اور جواب دیا پھر مجھے دوسرے کا پتا بتایا گیا لوگ اسے کلیب کہتے تھے مجھے اجازت ملی اور میں نے خط اس تک پہنچایا اور بتایا کہ یہ خط حضرت علی کا ہے اور میں نے حضرت علی کو بتایا تھا کہ آپ قوم کے سردار ہیں پس اس نے خط لینے سے انکار کردیا اور کہا مجھے آج سرداری کی کوئی ضرورت نہیں بیشک تم لوگوں کی سرداری آج ایسی ہے جیسے گندگی، کمینوں اور مشکوک النسب لوگوں کی سرداری۔ پھر کہا آپ انھیں کہہ دینا مجھے سرداری کی کوئی ضرورت نہیں۔ اور خط کا جواب دینے سے انکار کردیا۔

کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم میں حضرت علی تک واپس پہنچ بھی نہیں پایا تھا کہ دونوں لشکر ایک دوسرے کے قریب ہوگئے اور لوگ لڑنے کے لیے سیدھے ہوگئے۔ پس حضرت علی کے ساتھ جو قراءت ہے وہ سوار ہوئے جب نیزہ بازی شروع ہوئی پھر میں حضرت علی سے اس وقت ملا جب لوگ قتال سے فارغ ہوچکے تھے۔ میں اشتر کے پاس گیا وہ زخمی تھے۔ عاصم کہتے ہیں ہمارے اور اس کے مابین عورتوں کی طرف سے کوئی رشتہ داری تھی جب اشتر نے میرے والد ماجد کی طرف دیکھا جب کہ اس کا گھر اس کے ساتھیوں سے بھرا ہوا تھا۔ اشتر نے کہا اے کلیب تم ہم سب سے زیادہ اہل بصرہ کو جانتے ہو۔ آپ جائیے اور میرے لیے ایک سریع الحرکت اونٹ خرید لو پس میں نے ایک سردار سے ایک جوان اونٹ پانچ سو درہم کے عوض خریدا۔ پھر کہنے لگا اسے عائشہ کے پاس لے جاؤ اور ان سے کہنا آپ کا بیٹا مالک آپ سے سلام عرض کررہا ہے اور کہہ رہا ہے کہ یہ اونٹ قبول کر لیجیے اور اس پر سوار ہو کر اپنے اونٹ کی جگہ پہنچ جائیں۔ پس حضرت عائشہ نے فرمایا اس پر سلامتی نہ ہو اور وہ میرا بیٹا نہیں ہے اور اونٹ لینے سے انھوں نے انکار کردیا۔ میں واپس اس کے پاس آیا اور اسے حضرت عائشہ کا فرمان پہنچا دیا۔

کلیب کہتے ہیں کہ وہ سیدھا ہو کر بیٹھ گیا پھر اپنی کلائی سے آستین ہٹائی پھر کہنے لگا حضرت عائشہ مرنے والے کی موت پر مجھے ملامت کررہی ہیں میں تو قلیل سی جماعت میں آیا تھا۔ پھر اچانک ابن عتاب آئے اور مجھ سے مقابلہ کیا اور کہنے لگا تم مجھے اور مالک کو قتل کردو پس میں نے مارا اور وہ بہت بری طرح گرا پھر میں ابن زبیر کی طرف لپکا انھوں نے مجھے کہا کہ مجھے اور مالک کو قتل کردو اور میں پسند نہیں کرتا کہ وہ یہ کہہ دے کہ مجھے اور اشتر کو قتل کردو اور نہ یہ پسند کرتا ہوں کہ ہماری عورتیں غلاموں کو جنم دیں عاصم کہتے ہیں کہ میرے والد ماجد فرماتے ہیں کہ پھر اکیلے میں اس سے ملا اور اس سے کہا کہ آپ کے غلام جننے والے قول نے آپ کو کیا فائدہ دیا وہ مجھ سے قریب ہوگیا اور کہنے لگا کہ آپ صاحب بصرہ (علی ) کے بارے میں مجھ کو وصیت کیجیے کیونکہ میرا مقام آپ کے بعد ہی ہے کلیب نے اسے کہا کہ اگر صاحب بصرہ نے آپ کو دیکھا تو آپ کا ضرور اکرام کریں گے۔ عاصم بن کلیب کے والد ماجد کہتے ہیں کہ وہ اپنے آپ کو امیر سمجھنے لگا۔ پس میرے والد محترم وہاں سے اٹھے اور باہر آگئے تو میرے والد کو ایک آدمی ملا اس نے خبر دی کہ امیر المومنین نے خطبہ دیا اور عبداللہ ابن عباس کو بصرہ کا عامل مقرر کیا ہے اور حضرت علی فلاں دن شام کی طرف جانے والے ہیں۔ پس میرے والد محترم کو کہا یہ بات تو نے خود سنی ہے تو میرے والد نے کہا نہیں تو اشتر نے میرے والد کو ڈانٹا اور کہا بیٹھ جاؤ بیشک یہ جھوٹی خبر ہے میرے والد کہتے ہیں کہ میں اسی جگہ بیٹھا تھا کہ ایک اور شخص نے ایسی ہی خبر دی ۔ اشتر نے اس سے بھی یہی سوال کیا کہ کیا تم نے خود دیکھا ہے اس نے کہا نہیں پھر اسے بھی کچھ کہا یہ بھی تمہارے جیسی خبر لے کر آیا ہے جبکہ میں لوگوں کی ایک سمت میں بیٹھا تھا۔ تھوڑی ہی دیر بعد عتاب تغلبی آیا اس کی گردن میں تلوار لٹک رہی تھی۔ یہ تمہارے مومنین کا امیر ہے ؟ فلاں فلاں دن وہ شام کی طرف جانے والا ہے۔ اشتر نے اس سے کہا اے کانے ! تو نے یہ بات خود سنی ہے ؟ اس نے کہا ہاں اشتر ! اللہ کی قسم میں نے خود اپنے ان دو کانوں سے سنی ہے۔ اشتر مسکرایا پھر کہنے لگا اگر ایسا ہوا تو ہم نہیں جانتے کہ ہم نے شیخ (امیر المومنین) کو مدینہ میں کیوں قتل کیا ؟ پھر اپنے لشکریوں کو سوار ہونے کا حکم دیا اور خود سوار ہوا کہنے لگا کہ ان کا معاویہ ہی کی طرف ارادہ ہے۔ علی اس کے لشکر سے فکر مند ہوئے پھر اس کی طرف خط لکھا کہ میں نے تم کو امیر اس لیے نہیں بنایا کہ مجھے اہل شام جو تمہاری ہی قوم ہے کے خلاف تمہاری مدد درکار ہے ورنہ امیر نہ بنانے کی یہ وجہ نہ تھی کہ تم اس کے لیے اہل نہ تھے پس پھر لوگوں میں کوچ کرنے کے لیے نداء لگائی پس اشتر کھڑا ہوا یہاں تک کہ سب سے آگے والے لوگوں کے ساتھ مل گیا۔ اس نے ان کے لیے پیر کا دن مقرر کیا تھا میرے خیال کے مطابق پس جب اشتر نے وہ کرلیا جو کرنا تھا تو اس نے لوگوں میں اس سے پہلے کوچ کرنے کے لیے آواز لگوائی۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ یُونُسَ ، قَالَ : حدَّثَنَا بَقِیُّ بْنُ مَخْلَدٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرٍ ، قَالَ :

(۳۸۹۱۲) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ : حَدَّثَنِی الْعَلاَئُ بْنُ الْمِنْہَالِ ، قَالَ : حَدَّثَنَا عَاصِمُ بْنُ کُلَیْبٍ الْجَرْمِیِّ ، قَالَ : حَدَّثَنِی أَبِی ، قَالَ : حَاصَرْنَا تَوَّجَ ، وَعَلَیْنَا رَجُلٌ مِنْ بَنِی سُلَیْمٍ یُقَالُ لَہُ : مُجَاشِعُ بْنُ مَسْعُودٍ ، قَالَ : فَلَمَّا أَنَ افْتَتَحْنَاہَا ، قَالَ : وَعَلَیَّ قَمِیصٌ خَلَقٌ انْطَلَقْتُ إِلَی قَتِیلٍ مِنَ الْقَتْلَی الَّذِینَ قَتَلْنَا مِنَ الْعَجَمِ ، قَالَ : فَأَخَذْتُ قَمِیصِ بَعْضِ أُولَئِکَ الْقَتْلَی ، قَالَ : وَعَلَیْہِ الدِّمَائُ ، فَغَسَلْتہ بَیْنَ أَحْجَارٍ ، وَدَلَّکْتہ حَتَّی أَنْقَیْتہ ، وَلَبِسْتہ وَدَخَلْتُ الْقَرْیَۃَ ، فَأَخَذْت إبْرَۃً وَخُیُوطًا ، فَخِطْت قَمِیصِی ، فَقَامَ مُجَاشِعٌ ، فَقَالَ : یَا أَیُّہَا النَّاسُ ، لاَ تَغُلُّوا شَیْئًا ، مَنْ غَلَّ شَیْئًا جَائَ بِہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَلَوْ کَانَ مِخْیَطًا ۔

۲۔ فَانْطَلَقْت إِلَی ذَلِکَ الْقَمِیصِ فَنَزَعْتہ وَانْطَلَقْت إِلَی قَمِیصِی فَجَعَلْتُ أَفْتُقُہُ حَتَّی وَاللہِ یَا بُنَیَّ جَعَلْت أُخَرِّقُ قَمِیصِی تَوَقِّیًا عَلَی الْخَیْطِ أَنْ یَنْقَطِعَ فَانْطَلَقْت بِالْخُیُوطِ وَالإِبْرَۃُ وَالْقَمِیصُ الَّذِی کُنْت أَخَذْتہ مِنَ الْمَقَاسِمِ فَأَلْقَیْتہ فِیہَا ، ثُمَّ مَا ذَہَبْتُ مِنَ الدُّنْیَا حَتَّی رَأَیْتہمْ یَغُلُّونَ الأَوْسَاقَ ، فَإِذَا قُلْتَ : أَیُّ شَیْئٍ ہَذَا ، قَالُوا : نَصِیبًا مِنَ الْفَیْئِ أَکْثَرَ مِنْ ہَذَا۔

۳۔ قَالَ عَاصِمٌ : وَرَأَی أَبِی رُؤْیَا وَہُمْ مُحَاصِرُو تَوَّجَ فِی خِلاَفَۃِ عُثْمَانَ ، وَکَانَ أَبِی إِذَا رَأَی رُؤْیَا کَأَنَّمَا یَنْظُرُ إلَیْہَا نَہَارًا ، وَکَانَ أَبِی قَدْ أَدْرَکَ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : فَرَأَی کَأَنَّ رَجُلاً مَرِیضًا وَکَأَنَّ قَوْمًا یَتَنَازَعُونَ عِنْدَہُ ، قد اخْتَلَفَتْ أَیْدِیہِمْ وَارْتَفَعَتْ أَصْوَاتُہُمْ وَکَانَت امْرَأَۃٌ عَلَیْہَا ثِیَابٌ خُضْرٌ جَالِسَۃً کَأَنَّہَا لَوْ تَشَائُ أَصْلَحَتْ بَیْنَہُمْ ، إذْ قَامَ رَجُلٌ مِنْہُمْ فَقَلَبَ بِطَانَۃَ جُبَّۃٍ عَلَیْہِ ، ثُمَّ قَالَ : أَیْ مَعَاشِرَ الْمُسْلِمِینَ ، أَیَخْلَقُ الإِسْلاَم فِیکُمْ ، وَہَذَا سِرْبَالُ نَبِیِّ اللہِ فِیکُمْ لَمْ یَخْلَقْ ، إذْ قَامَ آخَرُ مِنَ الْقَوْمِ فَأَخَذَ بِأَحَدِ لَوْحَی الْمُصْحَفِ فَنَفَضَہُ حَتَّی اضْطَرَبَ وَرَقُہُ ۔

۴۔ قَالَ : فَأَصْبَحَ أَبِی یَعْرِضُہَا وَلاَ یَجِدُ مَنْ یُعَبِّرُہَا ، قَالَ : کَأَنَّہُمْ ہَابُوا تَعْبِیرَہَا۔

قَالَ : قَالَ أَبِی : فَلَمَّا أَنْ قَدِمْت الْبَصْرَۃَ فَإِذَا النَّاسُ قَدْ عَسْکَرُوا ، قَالَ : قُلْتُ : مَا شَأْنُہُمْ ، قَالَ : فَقَالُوا : بَلَغَہُمْ أَنَّ قَوْمًا سَارُوا إِلَی عُثْمَانَ فَعَسْکَرُوا لِیُدْرِکُوہُ فَیَنْصُرُوہُ ، فَقَامَ ابْنُ عَامِرٍ ، فَقَالَ : إِنَّ أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ صَالِحٌ ، وَقَدِ انْصَرَفَ عَنْہُ الْقَوْمُ ، فَرَجَعُوا إِلَی مَنَازِلِہِمْ فَلَمْ یَفْجَأْہُمْ إِلاَّ قَتْلُہُ ، قَالَ : فَقَالَ أَبِی : فَمَا رَأَیْت یَوْمًا قَطُّ کَانَ أَکْثَرَ شَیْخًا بَاکِیًا تَخَلَّلُ الدُّمُوعُ لِحْیَتَہُ مِنْ ذَلِکَ الْیَوْمِ ۔

۵۔ فَمَا لَبِثْتُ إِلاَّ قَلِیلاً حَتَّی إِذَا الزُّبَیْرُ وَطَلْحَۃُ قَدْ قَدِمَا الْبَصْرَۃَ ، قَالَ : فَمَا لَبِثْت بَعْدَ ذَلِکَ إِلاَّ یَسِیرًا ، حَتَّی إِذَا عَلِیٌّ أَیْضًا قَدْ قَدِمَ ، فَنَزَلَ بِذِی قَارٍ ، قَالَ : فَقَالَ لِی شَیْخَانِ مِنَ الْحَیِّ : اذْہَبْ بِنَا إِلَی ہَذَا الرَّجُلِ ، فَلْنَنْظُرْ إِلَی مَا یَدْعُو ، وَأَیُّ شَیْئٍ الذی جَائَ بِہِ ، فَخَرَجْنَا حَتَّی إِذَا دَنَوْنَا مِنَ الْقَوْمِ وَتَبَیَّنَّا فَسَاطِیطَہُمْ إِذَا شَابٌّ جَلْدٌ غَلِیظٌ خَارِجٌ مِنَ الْعَسْکَرِ ، قَالَ الْعَلاَئُ :رَأَیْتُ أَنَّہُ قَالَ : عَلَی بَغْلٍ ، فَلَمَّا أَنْ نَظَرْت إلَیْہِ شَبَّہْتہ الْمَرْأَۃَ الَّتِی رَأَیْتہَا عِنْدَ رَأْسِ الْمَرِیضِ فِی النَّوْمِ ، فَقُلْتُ لِصَاحِبِیَّ : لَئِنْ کَانَ لِلْمَرْأَۃِ الَّتِی رَأَیْت فِی الْمَنَامِ عِنْدَ رَأْسِ الْمَرِیضِ أَخٌ إِنَّ ذَا لأَخُوہَا ،

۶۔ قَالَ : فَقَالَ لِی أَحَدُ الشَّیْخَیْنِ اللَّذَیْنِ مَعِی : مَا تُرِیدُ إِلَی ہَذَا ، قَالَ : وَغَمَزَنِی بِمِرْفَقِہِ ، فقَالَ الشَّابُّ : أَیَّ شَیْئٍ قُلْتَ؟ قَالَ : فَقَالَ أَحَدُ الشَّیْخَیْنِ : لَمْ یَقُلْ شَیْئًا ، فَانْصَرِفْ ، قَالَ : لِتُخْبِرَنِی مَا قُلْتَ ، قَالَ: فَقَصَصْت عَلَیْہِ الرُّؤْیَا ، قَالَ : لَقَدْ رَأَیْت ، قَالَ : وَارْتَاعَ ، ثُمَّ لَمْ یَزَلْ یَقُولُ : لَقَدْ رَأَیْت لَقَدْ رَأَیْت ، حَتَّی انْقَطَعَ عَنَّا صَوْتُہُ ، قَالَ : فَقُلْتُ لِبَعْضِ مَنْ لَقِیت مَنِ الرَّجُلِ الَّذِین رَأَیْنَا آنِفًا ، قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ أَبِی بَکْرٍ ، قَالَ: فَعَرَفْنَا ، أَنَّ الْمَرْأَۃَ عَائِشَۃُ۔

۷۔ قَالَ : فَلَمَّا أَنْ قَدِمْت الْعَسْکَرَ قَدِمْت عَلَی أَدْہَی الْعَرَبِ ، یَعْنِی عَلِیًّا ، قَالَ : وَاللہِ لَدَخَلَ عَلَیّ فِی نَسَبِ قَوْمِی حَتَّی جَعَلْت أَقُولُ : وَاللہِ لَہُوَ أَعْلَمُ بِہِمْ مِنِّی ، حَتَّی قَالَ : أَمَا إِنَّ بَنِی رَاسِبٍ بِالْبَصْرَۃِ أَکْثَرُ مِنْ بَنِی قُدَامَۃَ ، قَالَ : قُلْتُ أَجَلْ ، قَالَ : فَقَالَ : أَسَیِّدُ قَوْمِکَ أَنْتَ ؟ قُلْتُ : لاَ ، وَإِنِّی فِیہِمْ لَمُطَاعٌ ، وَلِغَیْرِی أَسُودُ ، وَأَطْوَعُ فِیہِمْ مِنِّی ، قَالَ : فَقَالَ : مَنْ سَیِّدُ بَنِی رَاسِبٍ ؟ قُلْتُ : فُلاَنٌ ، قَالَ : فَسَیِّدُ بَنِی قُدَامَۃَ ؟ قَالَ : قُلْتُ : فُلاَنٌ لآخَرَ ، قَالَ : ہَلْ أَنْتَ مُبَلِّغُہُمَا کِتَابَیْنِ مِنِّی قُلْتُ : نَعَمْ ۔

۸۔ قَالَ : أَلاَ تُبَایِعُونَ ، قَالَ : فَبَایَعَ الشَّیْخَانِ اللَّذَانِ مَعِی ، قَالَ : وَأَضَبَّ قَوْمٌ کَانُوا عِنْدَہُ ، قَالَ : وَقَالَ أَبِی بِیَدِہِ : فَقَبَضَہَا وَحَرَّکَہَا کَأَنَّ فِیہِمْ خِفَّۃٌ ، قَالَ : فَجَعَلُوا یَقُولُونَ : بَایِعْ بَایِعْ ، قَالَ : وَقَدْ أَکَلَ السُّجُودُ وُجُوہَہُمْ ، قَالَ : فَقَالَ عَلِیٌّ لِلْقَوْمِ : دَعُوا الرَّجُلَ ، فَقَالَ أَبِی : إنَّمَا بَعَثَنِی قَوْمِی رَائِدًا وَسَأُنْہِی إلَیْہِمْ مَا رَأَیْت ، فَإِنْ بَایَعُوک بَایَعْتُک ، وَإِنِ اعْتَزَلُوک اعْتَزَلْتُک ، قَالَ : فَقَالَ عَلِیٌّ : أَرَأَیْت لَوْ أَنَّ قَوْمَک بَعَثُوک رَائِدًا فَرَأَیْتَ رَوْضَۃً وَغَدِیرًا ، فَقُلْتُ : یَا قَوْمُ ، النُّجْعَۃَ النُّجْعَۃَ ، فَأَبَوْا ، مَا أَنْتَ مُنْتَجِعٌ بِنَفْسِکَ ، قَالَ : فَأَخَذْت بِإِصْبَعٍ مِنْ أَصَابِعِہِ ، ثُمَّ قُلْتُ : نُبَایِعُک عَلَی أَنْ نُطِیعَک مَا أَطَعْت اللَّہَ ، فَإِذَا عَصَیْتہ فَلاَ طَاعَۃَ لَکَ عَلَیْنَا ، فَقَالَ : نَعَمْ ، وَطَوَّلَ بِہَا صَوْتَہُ ، قَالَ : فَضَرَبْت عَلَی یَدِہِ ۔

۹۔ قَالَ : ثُمَّ الْتَفَتَ إِلَی مُحَمَّدِ بْنِ حَاطِبٍ وَکَانَ فِی نَاحِیَۃِ الْقَوْمِ ، قَالَ : فَقَالَ : إِمَا انْطَلَقْت إِلَی قَوْمِکَ بِالْبَصْرَۃِ فَأَبْلِغْہُمْ کُتُبِی وَقَوْلِی ، قَالَ : فَتَحَوَّلَ إلَیْہِ مُحَمَّدٌ ، فَقَالَ : إِنَّ قَوْمِی إِذَا أَتَیْتہمْ یَقُولُونَ : مَا قَوْلُ صَاحِبِکَ فِی عُثْمَانَ ، قَالَ : فَسَبَّہُ الَّذِینَ حَوْلَہُ ، قَالَ : فَرَأَیْتُ جَبِینَ عَلِیٍّ یَرْشَحُ کَرَاہِیَۃً لِمَا یَجِیئُونَ بِہِ ، قَالَ : فَقَالَ مُحَمَّدٌ : أَیُّہَا النَّاسُ ، کُفُّوا فَوَاللہِ مَا إیَّاکُمْ أَسْأَلُ ، وَلاَ عَنْکُمْ أُسْأَلُ ، قَالَ : فَقَالَ عَلِیٌّ : أَخْبِرْہُمْ ، أَنَّ قَوْلِی فِی عُثْمَانَ أَحْسَنُ الْقَوْلِ ، إِنَّ عُثْمَانَ کَانَ مَعَ {الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ ثُمَّ اتَّقَوْا وَآمَنُوا ثُمَّ اتَّقَوْا وَأَحْسَنُوا وَاللَّہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِینَ}۔

۱۰۔ قَالَ : قَالَ أَبِی : فَلَمْ أَبْرَحْ حَتَّی قَدِمَ عَلَیَّ الْکُوفَۃِ ، جَعَلُوا یَلْقونِی فَیَقُولُونَ : أَتَرَی إخْوَانَنَا مِنْ أَہْلِ الْبَصْرَۃِ یُقَاتِلُونَنَا ، قَالَ : وَیَضْحَکُونَ وَیَعْجَبُونَ ، ثُمَّ

قَالُوا : وَاللہِ لَوْ قَدَ الْتَقَیْنَا تَعَاطَیْنَا الْحَقَّ ، قَالَ : فَکَأَنَّہُمْ یَرَوْنَ أَنَّہُمْ لاَ یَقْتَتِلُونَ ، قَالَ : وَخَرَجْت بِکِتَابِ عَلِی، فَأَمَّا أَحَدُ الرَّجُلَیْنِ اللَّذَیْنِ کَتَبَ إلَیْہِمَا فَقَبِلَ الْکِتَابَ وَأَجَابَہُ ، وَدَلَلْت عَلَی الآخَرِ فَتَوَارَی ، فَلَوْ أَنَّہُمْ قَالُوا : کُلَیْبٌ ما أُذِنَ لِی ، فَدَفَعْت إلَیْہِ الْکِتَابَ ، فَقُلْتُ : ہَذَا کِتَابُ عَلِی ، وَأَخْبَرْتہ أَنِّی أَخْبَرْتہ أَنَّک سَیِّدُ قَوْمِکَ ، قَالَ : فَأَبَی أَنْ یَقْبَلَ الْکِتَابَ ، وَقَالَ : لاَ حَاجَۃَ لِی إِلَی السُّؤْدُدِ الْیَوْمَ ، إنَّمَا سَادَاتُکُمَ الْیَوْمَ شَبِیہٌ بِالأَوْسَاخِ ، أَوِ السَّفَلَۃِ ، أَو الأَدْعِیَائِ ، وَقَالَ : کَلِّمْہُ ، لاَ حَاجَۃَ لِی الْیَوْمَ فِی ذَلِکَ ، وَأَبَی أَنْ یُجِیبَہُ ۔

۱۱۔ قَالَ فَوَاللہِ مَا رَجَعْت إِلَی عَلِیٍّ حَتَّی إِذَا الْعَسْکَرَانِ قَدْ تَدَانَیَا فَاسْتَبَّت عِبْدَانُہُمْ ، فَرَکِبَ الْقُرَّائُ الَّذِینَ مَعَ عَلِیٍّ حِینَ أَطْعَنَ الْقَوْمُ ، وَمَا وَصَلْت إِلَی عَلِیٍّ حَتَّی فَرَغَ الْقَوْمُ مِنْ قِتَالِہِمْ ، دَخَلْتُ عَلَی الأَشْتَرِ فَإِذَا بِہِ جِرَاحٌ ، قَالَ عَاصِمٌ : وَکَانَ بَیْنَنَا وَبَیْنَہُ قَرَابَۃٌ مِنْ قِبَلِ النِّسَائِ ، فَلَمَّا أَنْ نَظَرَ إِلَی أَبِی ، قَالَ وَالْبَیْتُ مَمْلُوئٌ مِنْ أَصْحَابِہِ ، قَالَ : یَا کُلَیْبُ ، إنَّک أَعْلَمُ بِالْبَصْرَۃِ مِنَّا ، فَاذْہَبْ فَاشْتَرِ لِی أَفْرَہَ جَمَلٍ تَجْدہ فِیہَا ، قَالَ : فَاشْتَرَیْت مِنْ عَرِیفٍ لِمَہَرَۃَ جَمَلَہُ بِخَمْسِ مِئَۃٍ ، قَالَ : اذْہَبْ بِہِ إِلَی عَائِشَۃَ وَقُلْ : یُقْرِئُک ابْنُک مَالِکٌ السَّلاَمَ ، وَیَقُولُ : خُذِی ہَذَا الْجَمَلَ فَتَبَلَّغِی عَلَیْہِ مَکَانَ جَمَلِکَ ، فَقَالَتْ : لاَ سَلَّمَ اللَّہُ عَلَیْہِ ، إِنَّہُ لَیْسَ بِابْنِی ، قَالَ : وَأَبَتْ أَنْ تَقْبَلَہُ ۔

۱۲۔ قَالَ : فَرَجَعْت إلَیْہِ فَأَخْبَرْتہ بِقَوْلِہَا ، قَالَ : فَاسْتَوَی جَالِسًا

ثُمَّ حَسَرَ عَنْ سَاعِدِہِ ، قَالَ : ثُمَّ قَالَ : إِنَّ عَائِشَۃَ لَتَلُومُنِی عَلَی الْمَوْتِ الْمُمِیتِ ، إنِّی أَقْبَلْت فِی رِجْرِجَۃٍ مِنْ مَذْحِجٍ، فَإِذَا ابْنُ عَتَّابٍ قَدْ نَزَلَ فَعَانَقَنِی ، قَالَ ، فَقَالَ: اقْتُلُونِی وَمَالِکًا، قَالَ: فَضَرَبْتہ فَسَقَطَ سُقُوطًا أَمْرَدًا، قَالَ، ثُمَّ وَثَبَ إلَیّ ابْنِ الزُّبَیْرِ، فَقَالَ: اقْتُلُونِی وَمَالِکًا، وَمَا أُحِبُّ، أَنَّہُ قَالَ: اقْتُلُونِی وَالأَشْتَرَ، وَلاَ أَنَّ کُلَّ مِذْحَجِیَّۃٍ وَلَدَتْ غُلاَمًا، فَقَالَ أَبِی: إنِّی اعْتَمَرْتہَا فِی غَفْلَۃٍ، قُلْتُ: مَا یَنْفَعُک أَنْتَ إِذَا قُلْتَ أَنْ تَلِدَ کُلُّ مُذْحَجِیَّۃٍ غُلاَمًا ، فَقَالَ أَبِی : إِنِّی اعْتَمَرْتُہَا فِی غَفْلَۃ ، قُلْتُ : مَا یَنْفَعُکَ أَنْتَ إِذَا قُلْتُ : أَنْ تَلِدَ کُلّ مُذْحِجِیَّۃَ غُلاَمًا ۔

۱۳۔ قَالَ : ثُمَّ دَنَا مِنْہُ أَبِی ، فَقَالَ : أَوْصِ بِی صَاحِبَ الْبَصْرَۃِ فَإِنَّ لِی مَقَامًا بَعْدَکُمْ ، قَالَ : فَقَالَ : لَوْ قَدْ رَآک صَاحِبُ الْبَصْرَۃِ لَقَدْ أَکْرَمَک ، قَالَ : کَأَنَّہُ یَرَی ، أَنَّہُ الأَمِیرُ ، قَالَ : فَخَرَجَ أَبِی مِنْ عِنْدِہِ فَلَقِیَہُ رَجُلٌ ، قَالَ : فَقَالَ : قَدْ قَامَ أَمِیرُ الْمُؤْمِنِینَ قَبْلُ خَطِیبًا ، فَاسْتَعْمَلَ ابْنَ عَبَّاسٍ عَلَی أَہْلِ الْبَصْرَۃِ ، وَزَعَمَ أَنَّہُ سَائِرٌ إِلَی الشَّامِ یَوْمَ کَذَا وَکَذَا ، قَالَ : فَرَجَعَ أَبِی فَأَخْبَرَ الأَشْتَرَ ، قَالَ : فَقَالَ لأَبِی : أَنْتَ سَمِعْتہ ، قَالَ : فَقَالَ أَبِی : لاَ قَالَ : فَنَہَرَہُ وَقَالَ : اجْلِسْ ، إِنَّ ہَذَا ہُوَ الْبَاطِلُ ، قَالَ : فَلَمْ أَبْرَحْ أَنْ جَائَ رَجُلٌ فَأَخْبَرَہُ مِثْلَ خَبَرِی ، قَالَ : فَقَالَ : أَنْتَ سَمِعْت ذَاکَ ، قَالَ : فَقَالَ : لاَ ، فَنَہَرَہُ نَہْرَۃً دُونَ الَّتِی نَہَرَنِی ، قَالَ : وَلَحَظَ إلَیَّ وَأَنَا فِی جَانِبِ الْقَوْمِ ، أَیْ إِنَّ ہَذَا قَدْ جَائَ بِمِثْلِ خَبَرِکَ ۔

۱۴۔ قَالَ : فَلَمْ أَلْبَثْ أَنْ جَائَ عَتَّابٌ التَّغْلِبِیُّ وَالسَّیْفُ یَخْطِرُ ، أَوْ یَضْطَرِبُ فِی عُنُقِہِ ، فَقَالَ : ہَذَا أَمِیرُ مُؤْمِنِیکُمْ قَدِ اسْتَعْمَلَ ابْنُ عَمِّہِ عَلَی الْبَصْرَۃِ ، وَزَعَمَ أَنَّہُ سَائِرٌ إِلَی الشَّامِ یَوْمَ کَذَا وَکَذَا ، قَالَ : قَالَ لَہُ الأَشْتَرُ : أَنْتَ سَمِعْتہ یَا أَعْوَرُ ، قَالَ : إی وَاللہِ یَا أَشْتَرُ ، لأَنَا سَمِعْتہ بِأُذُنَیَّ ہَاتَیْنِ ، قَالَ : فَتَبَسَّمَ تَبَسُّمًا فِیہِ کُشُورٌ ، قَالَ : فَقَالَ : فَلاَ نَدْرِی إذًا عَلاَمَ قَتَلْنَا الشَّیْخَ بِالْمَدِینَۃِ ۔

۱۵۔ قَالَ : ثُمَّ قَالَ : لِمُذْحَجِیَّتِہِ قُومُوا فَارْکَبُوا ، فَرَکِبَ ، قَالَ : وَمَا أَرَاہُ یُرِیدُ یَوْمَئِذٍ إِلاَّ مُعَاوِیَۃَ ، قَالَ : فَہَمَّ عَلِیٌّ أَنْ یَبْعَثَ خَیْلاً تُقَاتِلُہُ ، قَالَ : ثُمَّ کَتَبَ إلَیْہِ ، أَنَّہُ لَمْ یَمْنَعَنِّی مِنْ تَأْمِیرِکَ أَنْ لاَ تَکُونَ لِذَلِکَ أَہْلاً ، وَلَکِنِّی أَرَدْت لِقَائَ أَہْلِ الشَّامِ وَہُمْ قَوْمُک ، فَأَرَدْت أَنْ أَسْتَظْہِرَ بِکَ عَلَیْہِمْ ، قَالَ : وَنَادَی فِی النَّاسِ بِالرَّحِیلِ ، قَالَ : فَأَقَامَ الأَشْتَرُ حَتَّی أَدْرَکَہُ أَوَائِلُ النَّاسِ ، قَالَ : وَکَانَ قَدْ وَقَّتَ لَہُمْ یَوْمَ الاِثْنَیْنِ ، فِیمَا رَأَیْت ، فَلَمَّا صَنَعَ الأَشْتَرُ مَا صَنَعَ نَادَی فِی النَّاسِ قَبْلَ ذَلِکَ بِالرَّحِیلِ۔
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৩৮৯১২
کتاب الجمل
فِی مسِیرِ عائِشۃ وعلِیٍّ وطلحۃ والزّبیرِ رضی اللہ عنہم
(٣٨٩١٣) حضرت اعمش نے ایک آدمی سے نقل کیا ہے اس کا نام بھی ذکر کیا تھا کہ میں یوم جمل کو جنگ میں حاضر ہوا تھا میں جب بھی ولید کے گھر میں داخل ہوتا ہوں یوم جمل مجھے ضرور یاد آتا ہے جس دن تلواریں خودوں پر لگ رہی تھیں۔ حضرت علی کو میں نے دیکھا تلوار اٹھائے ہوئے تلوار چلاتے ہوئے آگے جاتے پھر واپس لوٹتے اور کہتے مجھے ملامت نہ کرو اسے ملامت کرو پھر لوٹتے اور اسے سیدھا کرتے۔
(۳۸۹۱۳) حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ رَجُلٍ قَدْ سَمَّاہُ ، قَالَ : شَہِدْت یَوْمَ الْجَمَلِ فَمَا دَخَلْت دَارَ الْوَلِیدِ إِلاَّ ذَکَرْت یَوْمَ الْجَمَلِ ، وَوَقْعَ السُّیُوفِ عَلَی الْبِیضِ ، قَالَ : کُنْتُ أَرَی عَلِیًّا یَحْمِلُ فَیَضْرِبُ بِسَیْفِہِ حَتَّی یَنْثَنِیَ ، ثُمَّ یَرْجِعُ فَیَقُولُ : لاَ تَلُومُونِی ، وَلُومُوا ہَذَا ، ثُمَّ یَعُودُ فَیُقَوِّمُہُ۔
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৩৮৯১৩
کتاب الجمل
فِی مسِیرِ عائِشۃ وعلِیٍّ وطلحۃ والزّبیرِ رضی اللہ عنہم
(٣٨٩١٤) میسرہ ابی جمیلہ سے روایت ہے کہتے ہیں کہ میں پہلی دفعہ خوراج سے یوم جمل کو ملا وہ کہہ رہے تھے ہمارے لیے اللہ نے حلال نہیں کیا ان کے خون کو اور ہم پر ان کے اولاد و اموال کو حرام کیا ہے کہتے ہیں کہ حضرت علی نے فرمایا میرے اہل و عیال سینے اور گردن پر ہیں (یعنی جنگ میں پیش پیش ہیں) اور تمہارے لیے پانچ پانچ سو درہم مال غنیمت ہے جو تمہیں اہل و عیال سے بےنیاز کردے گا۔
(۳۸۹۱۴) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ حُصَیْنٍ ، عَنْ مَیْسَرَۃَ أَبِی جَمِیلَۃَ قَالَ : إِنَّ أَوَّلَ یَوْمٍ تَکَلَّمَتِ الْخَوَارِجُ یَوْمَ الْجَمَلِ ، قَالُوا : مَا أَحَلَّ لَنَا دِمَائَہُمْ وَحَرَّمَ عَلَیْنَا ذَرَارِیَّہَمْ وَأَمْوَالَہُمْ ، قَالَ : فَقَالَ عَلِیٌّ : إِنَّ الْعِیَالَ مِنِّی عَلَی الصَّدْرِ وَالنَّحْرِ ، وَلَکُمْ فِیء خَمْسُ مِئَۃٍ خَمْسُ مِئَۃٌ ، جَعَلْتہَا لَکُمْ مَا یُغْنِیکُمْ عَنِ الْعِیَالِ۔
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৩৮৯১৪
کتاب الجمل
فِی مسِیرِ عائِشۃ وعلِیٍّ وطلحۃ والزّبیرِ رضی اللہ عنہم
(٣٨٩١٥) حضرت حریث بن مخشی سے روایت ہے کہ جنگ جمل کے دن حضرت علی کا جھنڈا سیاہ تھا اور ان کے حریف کا جھنڈا اونٹ تھا۔
(۳۸۹۱۵) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِی عَدِیٍّ ، عَنِ التَّیْمِیِّ ، عَنْ حُرَیْثِ بْنِ مُخَشِّی ، قَالَ : کَانَتْ رَایَۃُ عَلِیٍّ سَوْدَائَ ، یَعْنِی یَوْمَ الْجَمَلِ ، وَرَایَۃُ أُولَئِکَ الْجَمَلِ۔
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৩৮৯১৫
کتاب الجمل
فِی مسِیرِ عائِشۃ وعلِیٍّ وطلحۃ والزّبیرِ رضی اللہ عنہم
(٣٨٩١٦) حضرت حذیفہ سے روایت ہے کہ انھوں نے ایک شخص سے کہا تمہاری ماں نے کیا کیا ؟ اس نے کہا وہ تو مرچکی حضرت حذیفہ نے فرمایا تم عنقریب اس سے قتال کروگے وہ شخص بڑا حیران ہوا حتیٰ کہ حضرت عائشہ (جنگ جمل کے لیے) نکلیں۔
(۳۸۹۱۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنِ الزُّبَیْرِ بْنِ عَدِیٍّ ، عَنْ حُذَیْفَۃَ ، أَنَّہُ قَالَ لِرَجُلٍ : مَا فَعَلَتْ أُمُّک ، قَالَ : قَدْ مَاتَتْ ، قَالَ : أَمَا إنَّک سَتُقَاتِلُہَا ، قَالَ : فَعَجِبَ الرَّجُلُ مِنْ ذَلِکَ حَتَّی خَرَجَتْ عَائِشَۃُ۔
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৩৮৯১৬
کتاب الجمل
فِی مسِیرِ عائِشۃ وعلِیٍّ وطلحۃ والزّبیرِ رضی اللہ عنہم
(٣٨٩١٧) حضرت شعبی سے منقول ہے کہ حضرت علی نے جنگ جمل کے دن جاں بحق ہونے والوں کی میراث مسلمانوں کے حصوں کی تقسیم کی طرح کی عورت کے لیے آٹھواں حصہ اور بیٹی کو اس کا حصہ دیا اور بیٹے کو اس کا حصہ اور ماں کو اس کا جتنا حصہ بنتا تھا دیا۔
(۳۸۹۱۷) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : قَسَمَ عَلِیٌّ مَوَارِیثَ مَنْ قُتِلَ یَوْمَ الْجَمَلِ عَلَی فَرَائِضِ الْمُسْلِمِینَ : لِلْمَرْأَۃِ ثُمُنُہَا ، وَلِلاِبْنَۃِ نَصِیبُہَا ، وَلِلاِبْنِ فَرِیضَتُہُ ، وَلِلأُمِّ سَہْمُہَا۔
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৩৮৯১৭
کتاب الجمل
فِی مسِیرِ عائِشۃ وعلِیٍّ وطلحۃ والزّبیرِ رضی اللہ عنہم
(٣٨٩١٨) حضرت ابو بختری سے روایت ہے کہ حضرت علی سے سوال کیا گیا اہل جمل کے بارے میں کہتے ہیں کہ ان سے کہا گیا کیا وہ مشرک تھے حضرت علی نے جواب دیا نہیں ! شرک سے تو وہ بھاگے تھے۔ پھر کہا گیا کیا وہ منافق تھے ؟ انھوں نے فرمایا نہیں منافق لوگ تو اللہ کو یاد نہیں کرتے مگر بہت کم پھر کہا گیا پھر کون تھے وہ ؟ حضرت علی نے فرمایا ہمارے بھائی تھے جنہوں نے ہمارے خلاف بغاوت کی۔
(۳۸۹۱۸) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ شَرِیکٍ ، عَنْ أَبِی الْعَنْبَسِ ، عَنْ أَبِی الْبَخْتَرِیِّ ، قَالَ : سُئِلَ عَلِیٌّ ، عَنْ أَہْلِ الْجَمَلِ ، قَالَ : قِیلَ : أَمُشْرِکُونَ ہُمْ ، قَالَ : مِنَ الشِّرْکِ فَرُّوا ، قِیلَ : أَمُنَافِقُونَ ہُمْ ، قَالَ : إِنَّ الْمُنَافِقِینَ لاَ یَذْکُرُونَ اللَّہَ إِلاَّ قَلِیلاً ، قِیلَ : فَمَا ہُمْ ، قَالَ : إخْوَانُنَا بَغَوْا عَلَیْنَا۔ (بیہقی ۱۷۳)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৩৮৯১৮
کتاب الجمل
فِی مسِیرِ عائِشۃ وعلِیٍّ وطلحۃ والزّبیرِ رضی اللہ عنہم
(٣٨٩١٩) حضرت شقیق بن سلمہ سے روایت ہے کہ جنگ جمل کے دوران حضرت علی نے نہ کسی کو قیدی بنایا اور نہ ہی کسی زخمی کو قتل کیا۔
(۳۸۹۱۹) حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ ، عَنِ الصَّلْتِ بْنِ بَہْرَامَ عْن شَقِیقِ بْنِ سَلَمَۃَ ، أَنَّ عَلِیًّا لَمْ یَسْبِ یَوْمَ الْجَمَلِ وَلَمْ یَقْتُلْ جَرِیحًا۔ (بیہقی ۱۸۲)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৩৮৯১৯
کتاب الجمل
فِی مسِیرِ عائِشۃ وعلِیٍّ وطلحۃ والزّبیرِ رضی اللہ عنہم
(٣٨٩٢٠) حضرت عبد خیر سے روایت ہے کہ حضرت علی نے جنگ جمل میں (جیتنے کے بعد) نہ تو کوئی قیدی بنایا اور نہ ہی خمس لیا۔ لوگوں نے عرض کیا ! کیا آپ ان کے مالوں کو پانچ حصوں میں تقسیم نہیں کریں گے تو حضرت علی نے فرمایا کہ حضرت عائشہ کے بارے میں مشورہ کرلو تو لوگوں نے انکار کیا (پھر مال غنیمت دستبردار ہوگئے)
(۳۸۹۲۰) حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ ، عَنِ الصَّلْتِ بْنِ بَہْرَامَ عْن عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ سَلْعٍ ، عَنْ عَبْدِ خَیْرٍ ، أَنَّ عَلِیًّا لَمْ یَسْبِ یَوْمَ الْجَمَلِ وَلَمْ یُخَمِّسْ ، قَالُوا : یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ ، أَلاَ تُخَمِّسُ أَمْوَالَہُمْ ، قَالَ : فَقَالَ : ہَذِہِ عَائِشَۃُ تَسْتَأْمِرُہَا ، قَالَ : قَالُوا : مَا ہُوَ إِلاَّ ہَذَا ، مَا ہُوَ إِلاَّ ہَذَا۔
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৩৮৯২০
کتاب الجمل
فِی مسِیرِ عائِشۃ وعلِیٍّ وطلحۃ والزّبیرِ رضی اللہ عنہم
(٣٨٩٢١) عبداللہ بن عبید بن عمیر روایت کرتے ہیں کہ اشتر اور ابن زبیرکا (جنگ جمل میں) آمنا سامنا ہوا۔ ابن زبیر فرماتے ہیں کہ میں نے اشتر پر ایک وار بھی نہ کیا یہاں تک کہ اسنے پانچ یا چھ وار مجھ پر کیے اور مجھے پاؤں میں گرا دیا پھر کہنے لگا اللہ کی قسم اگر تمہاری رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے رشتہ داری نہ ہوتی تو تمہارا ایک عضو بھی سلامت نہ چھوڑتا۔ حضرت عائشہ نے یہ منظر دیکھ کر پکارا ہائے اسمائ ! جب اشتر دور ہوگیا تو حضرت عائشہ نے اس شخص کو دس ہزار درہم دیا جس نے آکر یہ خوشخبری سنائی تھی کہ عبداللہ بن زبیر زندہ ہیں۔
(۳۸۹۲۱) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ، عَنْ ہَارُونَ بْنِ أَبِی إِبْرَاہِیمَ، عَن عَبْدِاللہِ بْنِ عُبَیْدِ بْنِ عُمَیْرٍ، أَنَّ الأَشْتَرَ، وَابْنَ الزُّبَیْرِ الْتَقَیَا، فَقَالَ ابْنُ الزُّبَیْرِ: فَمَا ضَرَبْتہ ضَرْبَۃً حَتَّی ضَرَبَنِی خَمْسًا ، أَوْ سِتًّا ، قَالَ : ثُمَّ قَالَ : وَأَلْقَانِی بِرِجْلِی، ثم قَالَ: وَاللہِ لَوْلاَ قَرَابَتُک مِنْ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا تَرَکْت مِنْک عُضْوًا مَعَ صَاحِبِہِ، قَالَ : وَقَالَتْ عَائِشَۃُ : وَاثُکْلَ أَسْمَائَ ، قَالَ : فَلَمَّا کَانَ بَعْدُ أَعْطَتِ الَّذِی بَشَّرَہَا بِہِ ، أَنَّہُ حَیٌّ عَشَرَۃَ آلاَفٍ۔
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৩৮৯২১
کتاب الجمل
فِی مسِیرِ عائِشۃ وعلِیٍّ وطلحۃ والزّبیرِ رضی اللہ عنہم
(٣٨٩٢٢) عبداللہ بن محمد فرماتے ہیں کہ میرے والد محترم نے مجھے یہ خبر دی کہ حضرت علی نے جنگ جمل کے دن فرمایا ہم ان لوگوں کے ساتھ حسن سلوک کریں گے بوجہ ” لاَ إلَہَ إِلاَّ اللَّہُ “ کی شہادت کے، اور ہم آباؤ اجداد کو بیٹوں کا وارث بنائیں گے۔
(۳۸۹۲۲) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ مُحَمَّدٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِی أَبِی ، أَنَّ عَلِیًّا قَالَ یَوْمَ الْجَمَلِ : نَمُنُّ عَلَیْہِمْ بِشَہَادَۃِ أَنْ لاَ إلَہَ إِلاَّ اللَّہُ نُوَرِّثُ الآبَائَ مِنَ الأَبْنَائِ۔ (بیہقی ۱۸۲)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৩৮৯২২
کتاب الجمل
فِی مسِیرِ عائِشۃ وعلِیٍّ وطلحۃ والزّبیرِ رضی اللہ عنہم
(٣٨٩٢٣) ثابت بن عبید نقل کرتے ہیں کہ میں نے ابو جعفر کو کہتے ہوئے سنا کہ جنگ جمل میں شریک ہونے والوں نے کفر نہیں کیا۔
(۳۸۹۲۳) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنَا مِسْعَرٌ ، عَنْ ثَابِتِ بْنِ عُبَیْدٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا جَعْفَرٍ یَقُولُ : لَمْ یَکْفُرْ أَہْلُ الْجَمَلِ۔
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৩৮৯২৩
کتاب الجمل
فِی مسِیرِ عائِشۃ وعلِیٍّ وطلحۃ والزّبیرِ رضی اللہ عنہم
(٣٨٩٢٤) عمرو بن مرہ سے مروی ہے کہ میں نے سوید بن حارث کو یہ کہتے ہوئے سنا ہم نے جنگ جمل کے دن دیکھا کہ ہمارے نیزے اور ان کے نیزے آپس میں ایسے گھسے ہوئے تھے کہ اگر لوگ چاہتے تو ان پر چل سکتے تھے۔ کچھ لوگ اللہ اکبر کے نعرے بلند کررہے تھے اور کچھ سبحان اللہ اللہ اکبر کے نعرے لگار ہے تھے اور کچھ لوگ کہہ رہے تھے کہ اس میں کوئی شک نہیں۔ کاش میں اس جنگ میں شریک نہ ہوتا۔ اور عبداللہ بن سلمہ فرمایا کرتے تھے مجھے یہ بات بھلی معلوم نہیں ہوتی کہ میں جنگ جمل میں شریک نہیں ہوا۔ میں پسند کرتا ہوں ہر اس حاضر ہونے کی جگہ حاضر ہوں جہاں حضرت علی شریک ہوں۔
(۳۸۹۲۴) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، قَالَ : سَمِعْتُ سُوَیْد بْنَ الْحَارِثِ ، قَالَ : لَقَدْ رَأَیْتنَا یَوْمَ الْجَمَلِ ، وَإِنَّ رِمَاحَنَا وَرِمَاحَہُمْ لَمُتَشَاجِرَۃٌ ، وَلَوْ شَائَت الرُّجَّالُ لَمَشَتْ عَلَیْہِمْ یَقُولُونَ : اللَّہُ أَکْبَرُ ، وَیَقُولُونَ : سُبْحَانَ اللہِ اللَّہُ أَکْبَرُ ، وَنَحْوَ ذَلِکَ ؛ لَیْسَ فِیہَا شَکٌّ وَلَیْتَنِی لَمْ أَشْہَد ، وَیَقُولُ عَبْدُ اللہِ بْنُ سَلِمَۃَ : وَلَکِنِّی مَا سَرَّنِی أَنِّی لَمْ أَشْہَد ، وَلَوَدِدْت ، أَنَّ کُلَّ مَشْہَدٍ شَہِدَہُ عَلِیٌّ شَہِدْتہ۔ (خلیفۃ بن خباط ۱۹۱)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৩৮৯২৪
کتاب الجمل
فِی مسِیرِ عائِشۃ وعلِیٍّ وطلحۃ والزّبیرِ رضی اللہ عنہم
(٣٨٩٢٥) قیس روایت کرتے ہیں کہ مروان بن حکم نے حضرت طلحہ کے گھٹنے میں ایک تیر مارا جنگ جمل کے دن۔ پس اس سے خون بہنا شروع ہوا جب سب اس کو روکتے رک جاتا اور اسے چھوڑ دیتے پھر خون جاری ہوجاتا پس حضرت طلحہ نے فرمایا اسے چھوڑ دو ۔ جب لوگوں نے زخم کے منہ کو روکنا چاہا تو گھٹنہ پھول گیا حضرت طلحہ نے فرمایا اسے چھوڑ دو یہ تیر اللہ عزوجل کی طرف سے تھا پھر آپ کا انتقال ہوگیا۔ ہم نے انھیں کلاء (دریا کنارے ایک بازار) کے ایک جانب دفن کردیا۔ ان کے گھر والوں میں سے کیپ نے انھیں خواب میں دیکھا کہ وہ فرما رہے ہیں ! کیا تم مجھے پانی سے نجات نہیں دلاؤ گے ؟ میں پانی میں ڈوب چکا ہوں یہ کلمات تین دفعہ فرمائے۔ ان کی قبر کو کھودا گیا تو وہ سبز ہوچکے تھے سلق (سبزی) کی طرح۔ لوگوں نے ان سے پانی کو دور کیا پھر ان کو وہاں سے نکالا تو جو حصہ زمین سے ملا ہوا تھا ان کی داڑھی اور چہرے میں سے اس کو زمین نے کھالیا تھا۔ ان کے لیے ابو بکرہ کی آل کے گھروں میں سے ایک گھر دس ہزار درہم کا خریدا اور اس میں حضرت طلحہ کو دفن کیا۔
(۳۸۹۲۵) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ بْنُ أَبِی خَالِدٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا قَیْسٌ ، قَالَ : رَمَی مَرْوَانُ بْنُ الْحَکَمِ یَوْمَ الْجَمَلِ طَلْحَۃَ بِسَہْمٍ فِی رُکْبَتِہِ ، قَالَ : فَجَعَلَ الدَّمُ یَغِذُّ الدَّم وَیَسِیلُ ، قَالَ : فَإِذَا أَمْسَکُوہُ امْتَسَکَ ، وَإِذَا تَرَکُوہُ سَالَ ، قَالَ : فَقَالَ : دَعُوہُ ، قَالَ : وَجَعَلُوا إِذَا أَمْسَکُوا فَمَ الْجُرْحِ انْتَفَخَتْ رُکْبَتُہُ ، فَقَالَ : دَعُوہُ فَإِنَّمَا ہُوَ سَہْمٌ أَرْسَلَہُ اللَّہُ ، قَالَ : فَمَاتَ ، قَالَ : فَدَفَنَّاہُ عَلَی شَاطِئِ الْکَلاَّئِ ، فَرَأَی بَعْضُ أَہْلِہِ ، أَنَّہُ قَالَ : أَلاَ تُرِیحُونَنِی مِنَ ہذا الْمَائِ ، فَإِنِّی قَدْ غَرِقْت ، ثَلاَثَ مِرَارٍ یَقُولُہَا ، قَالَ : فَنَبَشُوہُ فَإِذَا ہُوَ أَخْضَرُ کَأَنَّہُ السَّلْقِ ، فَنَزَفُوا عَنْہُ الْمَائَ ، ثُمَّ اسْتَخْرَجُوہُ فَإِذَا مَا یَلِی الأَرْضَ مِنْ لِحْیَتِہِ وَوَجْہِہِ قَدْ أَکَلَتْہُ الأَرْضُ ، فَاشْتَرَوْا لَہُ دَارًا مِنْ دُورِ آلِ أَبِی بَکْرَۃَ بِعَشَرَۃِ آلاَفٍ فَدَفَنُوہُ فِیہَا۔
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৩৮৯২৫
کتاب الجمل
فِی مسِیرِ عائِشۃ وعلِیٍّ وطلحۃ والزّبیرِ رضی اللہ عنہم
(٣٨٩٢٦) قیس سے روایت ہے جب عائشہ بنو عامر کے ایک چشمہ پر پہنچیں تو کتوں نے بھونکناشروع کردیا۔ حضرت عائشہ نے پوچھا یہ کونسا چشمہ ہے۔ لوگوں نے بتایا ” حواب “ چشمہ ہے۔ پس وہ ٹھہر گئیں اور فرمانے لگیں کہ مجھے واپس چلے جانا چاہیے۔ طلحہ اور زبیر نے ان سے عرض کی ٹھہریے اللہ آپ پر رحم کرے۔ آپ کو آگے جانا چاہیے مسلمان آپ سے امید لگائے ہوئے ہیں کہ آپ کے ذریعے اللہ تعالیٰ ان کی اصلاح فرمائیں گے۔ حضرت عائشہ نے فرمایا مجھے واپس ہی جانا چاہیے۔ میں نے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سنا ایک روز آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس دن کے بارے میں بتایا (کا حال ہوگا جب تم میں سے ایک پر حواب چشمے کے کتے بھونکیں گے)
(۳۸۹۲۶) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ ، عَنْ قَیْسٍ ، قَالَ : لَمَّا بَلَغَتْ عَائِشَۃُ بَعْضَ مِیَاہِ بَنِی عَامِرٍ لَیْلاً نَبَحَتِ الْکِلاَبُ عَلَیْہَا ، فَقَالَتْ : أَیُّ مَائٍ ہَذَا ، قَالُوا : مَائُ الْحَوْأَبِ ، فَوَقَفَتْ ، فَقَالَتْ : مَا أَظُنُّنِی إِلاَّ رَاجِعَۃً ، فَقَالَ لَہَا طَلْحَۃُ وَالزُّبَیْرُ : مَہْلاً رَحِمَک اللَّہُ ، بَلْ تَقْدُمِینَ فَیَرَاک الْمُسْلِمُونَ فَیُصْلِحُ اللَّہُ ذَاتَ بَیْنِہِمْ ، قَالَتْ: مَا أَظُنُّنِی إِلاَّ رَاجِعَۃً ، إنِّی سَمِعْت رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ لَنَا ذَاتَ یَوْمٍ : کَیْفَ بِإِحْدَاکُنَّ تَنْبَحُ عَلَیْہَا کِلاَبُ الْحَوْأَبِ۔ (احمد ۵۲۔ نعیم بن حماد ۱۸۸)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৩৮৯২৬
کتاب الجمل
فِی مسِیرِ عائِشۃ وعلِیٍّ وطلحۃ والزّبیرِ رضی اللہ عنہم
(٣٨٩٢٧) قیس سے روایت ہے کہ حضرت عائشہ نے قریب الوفات فرمایا کہ مجھے ازاوج مطہرات کے ساتھ دفنانا۔ میں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد ایک طریقہ اختیار کیا (قتال کے لیے خروج کیا)
(۳۸۹۲۷) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ ، عَنْ قَیْسٍ ، قَالَ : قَالَتْ عَائِشَۃُ لَمَّا حَضَرَتْہَا الْوَفَاۃُ : ادْفِنُونِی مَعَ أَزْوَاجِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَإِنِّی کُنْت أَحْدَثْت بَعْدَہُ حَدَثًا۔
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৩৮৯২৭
کتاب الجمل
فِی مسِیرِ عائِشۃ وعلِیٍّ وطلحۃ والزّبیرِ رضی اللہ عنہم
(٣٨٩٢٨) سعد بن ابراہیم اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت علی کو خبر ملی کہ حضرت طلحہ کہتے ہیں کہ میں نے بیعت اس حالت میں کی کہ میری گدی پر تلوار تھی۔ حضرت علی نے عبداللہ ابن عباس کو بھیجا کہ وہ لوگوں سے اس خبر کی تصدیق کریں پس اسامہ بن زید نے فرمایا کہ تلوار کے بارے میں مں نہیں جانتا لیکن انھوں نے بیعت ناپسندیدگی سے کی ہے لوگ ان کی طرف ایسے جھپٹے قریب تھا کہ ان کو قتل کردیں۔ راوی کہتے ہیں حضرت صہیب نکلے اس حال میں کہ میں ان کے ایک جانب میں تھا۔ پس انھوں نے میری طرف دیکھا اور فرمایا میرا خیال ہے کہ ام عوف سخت برہم ہے۔
(۳۸۹۲۸) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبِی ، قَالَ : بَلَغَ عَلِیُّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ ، أَنَّ طَلْحَۃَ یَقُولُ : إنَّمَا بَایَعْت وَاللُّجُّ عَلَی قَفَایَ ، قَالَ : فَأَرْسَلَ ابْنَ عَبَّاسٍ فَسَأَلَہُمْ ، قَالَ : فَقَالَ أُسَامَۃُ بْنُ زَیْدٍ : أَمَّا وَاللُّجُّ عَلَی قَفَاہُ فَلاَ ، وَلَکِنْ قَدْ بَایَعَ وَہُوَ کَارِہٌ ، قَالَ : فَوَثَبَ النَّاسُ إلَیْہِ حَتَّی کَادُوا أَنْ یَقْتُلُوہُ ، قَالَ : فَخَرَجَ صُہَیْبٌ وَأَنَا إِلَی جَنْبِہِ فَالْتَفَتَ إلَیَّ ، فَقَالَ : قَدْ ظَنَنْت ، أَنَّ أُمَّ عَوْفٍ حَائِنَۃٌ۔
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৩৮৯২৮
کتاب الجمل
فِی مسِیرِ عائِشۃ وعلِیٍّ وطلحۃ والزّبیرِ رضی اللہ عنہم
(٣٨٩٢٩) ابو جعفر سے روایت ہے کہ جنگ جمل کے دن حضرت علی اور ان کے ساتھی حضرت طلحہ اور حضرت زبیر پر رو رہے تھے۔
(۳۸۹۲۹) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ خَالِدِ بْنِ أَبِی کَرِیمَۃَ ، عَنْ أَبِی جَعْفَرٍ ، قَالَ : جَلَسَ عَلِیٌّ وَأَصْحَابُہُ یَوْمَ الْجَمَل یَبْکُونَ عَلَی طَلْحَۃَ وَالزُّبَیْرِ۔
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৩৮৯২৯
کتاب الجمل
فِی مسِیرِ عائِشۃ وعلِیٍّ وطلحۃ والزّبیرِ رضی اللہ عنہم
(٣٨٩٣٠) ابو نضرہ سے روایت ہے کہ قبیلہ ربیعہ والے بنو مسلمہ کی مسجد میں حضرت طلحہ سے ہم کلام ہوئے اور کہنے لگے کہ ہم تو دشمن کے گلے پر قابض تھے کہ ہم کو یہ اطلاع پہنچی کے آپ نے اس شخص (حضرت علی ) کی بیعت کرلی ہے پھر اب آپ اسی سے قتال کر رہے ہیں اور کچھ اس طرح کی باتیں کیں۔ حضرت طلحہ نے فرمایا کہ مجھے کھجور کے باغ میں داخل کیا گیا اور تلوار میری گردن پر رکھ دی گئی پھر کہا گیا کہ تم بیعت کرو وگرنہ ہم تمہیں قتل کردیں گے میں نے بیعت کرلی اور جان لیا کہ یہ گمراہی کی بیعت ہے۔ تیمی کہتے ہیں کہ ولید بن عبد الملک نے فرمایا کہ اہل عراق کے منافقین سے ایک منافق جبلہ بن حکیم نے حضرت زبیر سے کہا کہ آپ تو بیعت کرچکے ہیں (پھر یہ مخالفت کیسی) حضرت زبیر نے فرمایا کہ تلوار میری گدی پر تھی پھر مجھ سے کہا گیا کہ بیعت کرو وگرنہ ہم تم کو قتل کردیں گے پس میں نے بیعت کرلی۔
(۳۸۹۳۰) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنَا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : حَدَّثَنَا أَبُو نَضْرَۃَ ، أَنَّ رَبِیعَۃَ کَلَّمَتْ طَلْحَۃَ فِی مَسْجِدِ بَنِی مَسْلَمَۃَ فَقَالُوا : کُنَّا فِی نَحْرِ الْعَدُوِّ حَتَّی جَائَتْنَا بَیْعَتُک ہَذَا الرَّجُلَ ، ثُمَّ أَنْتِ الآنَ تُقَاتِلُہُ ، أَوْ کَمَا قَالُوا قَالَ : فَقَالَ : إنِّی أُدْخِلْت الْحُشَّ وَوُضِعَ عَلَی عُنُقِی اللُّجُّ ، وَقِیلَ : بَایِعْ وَإِلاَّ قَاتَلْنَاک ، قَالَ : فَبَایَعْت ، وَعَرَفْتُ أَنَّہَا بَیْعَۃُ ضَلاَلَۃٍ ، قَالَ التَّیْمِیُّ : وَقَالَ الْوَلِیدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِکِ : إِنَّ مُنَافِقًا مِنْ مُنَافِقِی أَہْلِ الْعِرَاقِ جَبَلَۃَ بْنُ حَکِیمٍ ، قَالَ لِلزُّبَیْرِ : فَإِنَّک قَدْ بَایَعْت ، فَقَالَ الزُّبَیْرُ : إِنَّ السَّیْفَ وُضِعَ عَلَی قَفَیَّ فَقِیلَ لِی : بَایِعْ وَإِلاَّ قَتَلْنَاک ، قَالَ : فَبَایَعْت۔
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৩৮৯৩০
کتاب الجمل
فِی مسِیرِ عائِشۃ وعلِیٍّ وطلحۃ والزّبیرِ رضی اللہ عنہم
(٣٨٩٣١) ام راشد سے روایت ہے فرماتی ہیں کہ میں ام ہانی کے پاس تھی حضرت علی ان کے پاس تشریف لائے پس ام ہانی نے ان کی کھانے پر دعوت کی حضرت علی نے فرمایا کہ کیا بات ہے مجھے تمہارے ہاں برکت (بکری) نظر نہیں آرہی۔ ام ہانی نے کہا سبحان اللہ کیوں نہیں ! اللہ کی قسم ہمارے ہاں برکت ہے حضرت علی نے فرمایا میری مراد بکری ہے۔ میں اتری تو سیڑھی میں دو آدمیوں سے ملاقات ہوئی میں نے ان دونوں میں سے ایک کوسنا کہ وہ دوسرے کو کہہ رہا تھا ہمارے ہاتھوں نے بیعت کی ہے ہمارے دلوں نے نہیں۔ ام راشد نے کہا یہ کون ہیں۔ پس لوگوں نے جواب دیا طلحہ اور زبیر میں نے سنا ان میں سے ایک دوسرے کو کہہ رہا تھا ہمارے ہاتھوں نے بیعت کی ہے ہمارے قلوب نے نہیں۔ پس حضرت علی نے یہ آیت پڑھی { فَمَنْ نَکَثَ فَإِنَّمَا یَنْکُثُ عَلَی نَفْسِہِ وَمَنْ أَوْفَی بِمَا عَاہَدَ عَلَیْہُ اللَّہَ فَسَیُؤْتِیہِ أَجْرًا عَظِیمًا }۔ (جو عہد شکنی کرے گا اس کا بوجھ اسی پر ہوگا جو اللہ سے کیا عہد پورا کرے گا اللہ اس کو اجر عظیم دے گا) ۔
(۳۸۹۳۱) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، قَالَ سَمِعْت حُمَیْدَ بْنَ عَبْدِ اللہِ بْنِ الأَصَمِّ یَذْکُرُ ، عَنْ أُمِّ رَاشِدٍ جَدَّتِہِ ، قَالَتْ: کُنْت عِنْدَ أُمِّ ہَانِئٍ فَأَتَاہَا عَلِی ، فَدَعَتْ لَہُ بِطَعَامٍ ، فَقَالَ : مَالِی لاَ أَرَی عِنْدَکُمْ بَرَکَۃً ، یَعْنِی الشَّاۃَ ، قَالَتْ: فَقَالَتْ: سُبْحَانَ اللہِ ، بَلَی وَاللہِ إِنَّ عِنْدَنَا لَبَرَکَۃً ، قَالَ : إنَّمَا أَعَنْیَ الشَّاۃَ ، قَالَتْ : وَنَزَلْتُ فَلَقِیتُ رَجُلَیْنِ فِی الدَّرَجَۃِ، فَسَمِعْتُ أَحَدہُمَا یَقُولُ لِصَاحِبِہِ: بَایَعَتْہُ أَیْدِینَا وَلَمْ تُبَایِعْہُ قُلُوبُنَا، قَالَتْ: فَقُلْتُ: مَنْ ہَذَانِ الرَّجُلاَنِ فَقَالُوا: طَلْحَۃُ وَالزُّبَیْرُ ، قَالَتْ : فَإِنِّی قَدْ سَمِعْت أَحَدَہُمَا یَقُولُ لِصَاحِبِہِ : بَایَعَتْہُ أَیْدِینَا وَلَمْ تُبَایِعْہُ قُلُوبُنَا ، فَقَالَ عَلِیٌّ : {فَمَنْ نَکَثَ فَإِنَّمَا یَنْکُثُ عَلَی نَفْسِہِ وَمَنْ أَوْفَی بِمَا عَاہَدَ عَلَیْہُ اللَّہَ فَسَیُؤْتِیہِ أَجْرًا عَظِیمًا}۔
tahqiq

তাহকীক: