সুনানুদ্দারা ক্বুতনী (উর্দু)
سنن الدار قطني
فیصلوں کا بیان - এর পরিচ্ছেদসমূহ
মোট হাদীস ২০ টি
হাদীস নং: ৪৩৭৭
فیصلوں کا بیان
(عدالتی) فیصلوں اور احکام وغیرہ کا بیان
4377 ۔ حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) بیان کرتے ہیں کہ دو آدمی اپنا مقدمہ لے کر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے تو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عمروبن العاص (رض) سے کہا : تم ان دونوں کے درمیان فیصلہ کرو ‘ انھوں نے عرض کی : یارسول اللہ ! آپ کی موجودگی میں ؟ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ہاں ! انھوں نے عرض کی : میں کیسے فیصلہ کروں ؟ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اگر تم اجتہاد کرتے ہو اور صحیح فیصلہ کرتے ہو ‘ تو تمہیں دس اجر ملیں گے اور اگر تم اجتہاد کرنے کے بعد غلطی کرجاتے ہو ‘ تو تمہیں ایک اجرملے گا۔
4377 - حَدَّثَنَا أَبُو الْحَسَنِ عَلِىُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُبَشِّرٍ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سِنَانٍ الْقَطَّانُ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ عَنْ فَرَجِ بْنِ فَضَالَةَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الأَعْلَى بْنِ عَدِىٍّ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ جَاءَ رَجُلاَنِ يَخْتَصِمَانِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- لِعَمْرِو بْنِ الْعَاصِ « اقْضِ بَيْنَهُمَا ». قَالَ وَأَنْتَ هَا هُنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ « نَعَمْ ». قَالَ عَلَى مَا أَقْضِى قَالَ « إِنِ اجْتَهَدْتَ فَأَصَبْتَ فَلَكَ عَشْرَةُ أُجُورٍ وَإِنِ اجْتَهَدْتَ فَأَخْطَأْتَ فَلَكَ أَجْرٌ وَاحِدٌ ».

তাহকীক:
হাদীস নং: ৪৩৭৮
فیصلوں کا بیان
(عدالتی) فیصلوں اور احکام وغیرہ کا بیان
4378 ۔ یہی روایت اور سند کے ہمراہ منقول ہے تاہم اس میں لفظ اجر کی بجائے نیکی استعمال ہوا ہے۔
4378 - حَدَّثَنَا ابْنُ مُبَشِّرٍ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سِنَانٍ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ حَدَّثَنَا فَرَجُ بْنُ فَضَالَةَ عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ يَزِيدَ عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ عَنِ النَّبِىِّ -صلى الله عليه وسلم- بِمِثْلِهِ إِلاَّ أَنَّهُ جَعَلَ مَكَانَ الأُجُورِ حَسَنَاتٍ.

তাহকীক:
হাদীস নং: ৪৩৭৯
فیصلوں کا بیان
(عدالتی) فیصلوں اور احکام وغیرہ کا بیان
4379 ۔ حضرت عقبہ بن عامر (رض) بیان کرتے ہیں کہ دو آدمی اپنا مقدمہ لے کر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے تو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے عقبہ ! تم اٹھو اور ان کے درمیان فیصلہ کرو۔ میں نے عرض کی : یارسول اللہ ! آپ اس کے زیادہ حق دار ہیں ‘ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اگر تم نے ان کے درمیان فیصلہ کرتے ہوئے اجتہاد سے کام لیا اور صحیح فیصلہ کیا تو تمہیں دس اجر ملیں گے اور اگر تم اجتہاد کرتے ہوئے غلطی کی تو تمہیں ایک اجر ملے گا۔
4379 - حَدَّثَنِى أَبُو سَهْلِ بْنُ زِيَادٍ أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زِيَادٍ حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ مُوسَى حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ مُحَمَّدُ بْنُ الْفَرَجِ بْنِ فَضَالَةَ حَدَّثَنِى أَبِى الْفَرَجُ بْنُ فَضَالَةَ عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ يَزِيدَ الدِّمَشْقِىِّ عَنْ عُقْبَةَ - يَعْنِى ابْنَ عَامِرٍ - قَالَ جَاءَ خَصْمَانِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- يَخْتَصِمَانِ فَقَالَ لِى « قُمْ يَا عُقْبَةُ اقْضِ بَيْنَهُمَا ». قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنْتَ أَوْلَى بِذَلِكَ مِنِّى. قَالَ « وَإِنْ كَانَ اقْضِ بَيْنَهُمَا فَإِنِ اجْتَهَدْتَ فَأَصَبْتَ فَلَكَ عَشْرَةُ أُجُورٍ وَإِنِ اجْتَهَدْتَ فَأَخْطَأْتَ فَلَكَ أَجْرٌ وَاحِدٌ ».

তাহকীক:
হাদীস নং: ৪৩৮০
فیصلوں کا بیان
(عدالتی) فیصلوں اور احکام وغیرہ کا بیان
4380 ۔ حضرت ابوہریرہ (رض) ‘ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں کہ جب کوئی شخص فیصلہ کرتے ہوئے اجتہاد کرے اور درست فیصلہ کردے تو اسے دس اجرملتے ہیں اور جب کوئی شخص فیصلہ کرتے ہوئے اجتہاد کرے اور غلطی کرجائے تو اسے دواجر ملتے ہیں۔
4380 - حَدَّثَنَا أَبُو عُبَيْدٍ الْقَاسِمُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ هَاشِمٍ حَدَّثَنَا عَلِىُّ بْنُ عَيَّاشٍ حَدَّثَنَا أَبُو مُطِيعٍ مُعَاوِيَةُ بْنُ يَحْيَى عَنِ ابْنِ لَهِيعَةَ عَنْ أَبِى الْمُصْعَبِ الْمَعَافِرِىِّ عَنْ مُحَرَّرِ بْنِ أَبِى هُرَيْرَةَ عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِىِّ -صلى الله عليه وسلم- قَالَ « إِذَا قَضَى الْقَاضِى فَاجْتَهَدَ فَأَصَابَ كَانَتْ لَهُ عَشْرَةُ أُجُورٍ وَإِذَا قَضَى فَاجْتَهَدَ فَأَخْطَأَ كَانَ لَهُ أَجْرَانِ ».

তাহকীক:
হাদীস নং: ৪৩৮১
فیصلوں کا بیان
(عدالتی) فیصلوں اور احکام وغیرہ کا بیان
4381 ۔ حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بات ارشاد فرمائی ہے : جو شخص قاضی بننا چاہتاہو ‘ اسے چھری کے بغیر ذبح کردیا گیا۔
4381 - حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ الْخَطَّابِىُّ حَدَّثَنَا الدَّرَاوَرْدِىُّ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَعِيدِ بْنِ أَبِى هِنْدٍ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ مُحَمَّدٍ الأَخْنَسِىِّ عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِى سَعِيدٍ الْمَقْبُرِىِّ عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- قَالَ « مَنِ اسْتُعْمِلَ عَلَى الْقَضَاءِ فَقَدْ ذُبِحَ بِغَيْرِ سِكِّينٍ ».

তাহকীক:
হাদীস নং: ৪৩৮২
فیصلوں کا بیان
(عدالتی) فیصلوں اور احکام وغیرہ کا بیان
4382 ۔ حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بات ارشاد فرمائی ہے : جس شخص کو قاضی بنادیا جائے اسے گویا چھری کے بغیر ذبح کردیا گیا۔
4382 - وَقُرِئَ عَلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدٍ وَأَنَا أَسْمَعُ حَدَّثَكُمْ أَبُو كَامِلٍ حَدَّثَنَا فُضَيْلُ بْنُ سُلَيْمَانَ حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ أَبِى عَمْرٍو عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِى سَعِيدٍ عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- « مَنْ وَلِىَ الْقَضَاءَ فَقَدْ ذُبِحَ بِغَيْرِ سِكِّينٍ ».

তাহকীক:
হাদীস নং: ৪৩৮৩
فیصلوں کا بیان
(عدالتی) فیصلوں اور احکام وغیرہ کا بیان
4383 ۔ حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بات ارشاد فرمائی ہے : جس شخص کو قاضی بنادیا جائے ‘ اسے چھری کے بغیر ذبح کردیا گیا۔
4383 - حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عَلِىٍّ الْجَوْهَرِىُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِمْرَانَ بْنِ حَبِيبٍ حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنِ الأَعْرَجِ وَالْمَقْبُرِىِّ عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- « مَنْ جُعِلَ قَاضِيًا فَقَدْ ذُبِحَ بِغَيْرِ سِكِّينٍ ».

তাহকীক:
হাদীস নং: ৪৩৮৪
فیصلوں کا بیان
(عدالتی) فیصلوں اور احکام وغیرہ کا بیان
4384 ۔ حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بات ارشاد فرمائی ہے : جب کوئی فیصلہ کرنے والا شخص فیصلہ کرتے ہوئے اجتہاد کرے اور درست فیصلہ کرے تو اسے دواجر ملتے ہیں اور جب وہ اجتہاد کرتے ہوئے غلط فیصلہ کردے تو اسے ایک اجرملتا ہے۔ ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں :
” جب کوئی قاضی فیصلہ کرتے ہوئے اجتہاد کرے اور درست فیصلہ کردے تو اسے دواجر ملتے ہیں اور جب وہ فیصلہ کرتے ہوئے غلطی کرجائے تو اسے ایک اجرملتا ہے “۔
” جب کوئی قاضی فیصلہ کرتے ہوئے اجتہاد کرے اور درست فیصلہ کردے تو اسے دواجر ملتے ہیں اور جب وہ فیصلہ کرتے ہوئے غلطی کرجائے تو اسے ایک اجرملتا ہے “۔
4384 - حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ النَّيْسَابُورِىُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى وَأَحْمَدُ بْنُ يُوسُفَ السُّلَمِىُّ ح وَأَخْبَرَنَا ابْنُ صَاعِدٍ وَإِسْمَاعِيلُ الْوَرَّاقُ قَالاَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ زَنْجَوَيْهِ قَالُوا حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِىِّ عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ عَنْ أَبِى بَكْرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ عَنْ أَبِى سَلَمَةَ عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- « إِذَا حَكَمَ الْحَاكِمُ فَاجْتَهَدَ فَأَصَابَ كَانَ لَهُ أَجْرَانِ وَإِذَا اجْتَهَدَ فَأَخْطَأَ كَانَ لَهُ أَجْرٌ ». هَذَا لَفْظُ النَّيْسَابُورِىِّ وَقَالَ ابْنُ صَاعِدٍ « إِذَا قَضَى الْقَاضِى فَاجْتَهَدَ فَأَصَابَ فَلَهُ أَجْرَانِ فَإِذَا قَضَى فَأَخْطَأَ فَلَهُ أَجْرٌ ».

তাহকীক:
হাদীস নং: ৪৩৮৫
فیصلوں کا بیان
(عدالتی) فیصلوں اور احکام وغیرہ کا بیان
4385 ۔ حضرت عبداللہ (رض) ‘ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں : جو بھی حاکم لوگوں کے درمیان فیصلے کرتا ہے جب قیامت کے دن اسے زندہ کیا جائے گا تو اسے ایک فرشتہ گدی سے پکڑے گا اور اسے جہنم کے کنارے پرلے جاکرکھڑاکردے گا ‘ پھر جب وہ فرشتہ (اس شخص پر) غصے کے عالم میں اللہ تعالیٰ کی طرف دیکھے گا تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا : اسے اس میں پھینک دو ‘ تو وہ فرشتہ اسے جہنم میں پھینک دے گا جس کی گہرائی چالیس برس کی مسافت جتنی ہوگی۔
مسروق نامی راوی بیان کرتے ہیں : میں اگر ایک دن حق کے مطابق فیصلے کرتا ہوں تو یہ میرے نزدیک ایک سو سال تک اللہ کی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ پسندیدہ ہے۔
مسروق نامی راوی بیان کرتے ہیں : میں اگر ایک دن حق کے مطابق فیصلے کرتا ہوں تو یہ میرے نزدیک ایک سو سال تک اللہ کی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ پسندیدہ ہے۔
4385 - أَخْبَرَنَا أَبُو حَامِدٍ مُحَمَّدُ بْنُ هَارُونَ الْحَضْرَمِىُّ حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِىٍّ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا مُجَالِدُ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنِى عَامِرٌ عَنْ مَسْرُوقٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ عَنِ النَّبِىِّ -صلى الله عليه وسلم- قَالَ « مَا مِنْ حَاكِمٍ يَحْكُمُ بَيْنَ النَّاسِ إِلاَّ ابْتُعِثَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَمَلَكٌ آخِذٌ بِقَفَاهُ حَتَّى يُوقِفَهُ عَلَى شَفِيرِ جَهَنَّمَ ثُمَّ يَلْتَفِتُ إِلَى اللَّهِ تَعَالَى مُغْضَبًا فَإِنْ قَالَ أَلْقِهِ . أَلْقَاهُ فِى الْمَهْوَى أَرْبَعِينَ خَرِيفًا ». وَقَالَ مَسْرُوقٌ لأَنْ أَقْضِىَ يَوْمًا بِحَقٍّ أَحَبُّ إِلَىَّ مِنْ أَنْ أَغْزُوَ سَنَةً فِى سَبِيلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ.

তাহকীক:
হাদীস নং: ৪৩৮৬
فیصلوں کا بیان
(عدالتی) فیصلوں اور احکام وغیرہ کا بیان
4386 ۔۔ سیدہ ام سلمہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بات ارشاد فرمائی ہے : جس شخص کو لوگوں کے درمیان فیصلہ کرنے کی آزمائش میں مبتلا کردیا جائے تو وہ لوگوں کے درمیان انصاف سے کام لے ‘ اپنے طرزعمل میں ‘ اپنے اشارے میں ‘ اپنے بیٹھنے کے طریقے میں (ہر اعتبار سے انصاف سے کام لے) ۔
4386 - وَأَخْبَرَنَا أَبُو عُبَيْدٍ الْقَاسِمُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ الْمَحَامِلِىُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى بْنِ أَبِى بُكَيْرٍ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِى بُكَيْرٍ حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ عَنْ عَبَّادِ بْنِ كَثِيرٍ عَنْ أَبِى عَبْدِ اللَّهِ عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ رضى الله عنها قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- « مَنِ ابْتُلِىَ بِالْقَضَاءِ بَيْنَ النَّاسِ فَلْيَعْدِلْ بَيْنَهُمْ فِى لَحْظِهِ وَإِشَارَتِهِ وَمَقْعَدِهِ ». –

তাহকীক:
হাদীস নং: ৪৩৮৭
فیصلوں کا بیان
(عدالتی) فیصلوں اور احکام وغیرہ کا بیان
4387 ۔ سیدہ ام سلمہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بات ارشاد فرمائی ہے : جو شخص لوگوں کے درمیان فیصلہ کرنے کی آزمائش میں مبتلا کردیا جائے وہ مقدمے کے دونوں فریقوں میں سے کسی کے سامنے بھی اپنی آواز بلندنہ کرے ‘ جب تک وہ دوسرے فریق کے سامنے بھی آوازبلند نہیں کرتا (یعنی دونوں کے ساتھ برابری کا برتاؤکرے) ۔
4387  وَبِإِسْنَادِهِ عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- « مَنِ ابْتُلِىَ بِالْقَضَاءِ بَيْنَ النَّاسِ فَلاَ يَرْفَعَنَّ صَوْتَهُ عَلَى أَحَدِ الْخَصْمَيْنِ مَا لاَ يَرْفَعُ عَلَى الآخَرِ ». –

তাহকীক:
হাদীস নং: ৪৩৮৮
فیصلوں کا بیان
(عدالتی) فیصلوں اور احکام وغیرہ کا بیان
4388 ۔ سیدہ ام سلمہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بات ارشاد فرمائی ہے : جس شخص کو مسلمانوں کے درمیان فیصلہ کرنے کی آزمائش میں مبتلا کردیا جائے ‘ وہ غصے کے عالم میں دوفریقوں کے درمیان فیصلہ نہ دے۔
4388 وَبِإِسْنَادِهِ عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- « مَنِ ابْتُلِىَ بِالْقَضَاءِ بَيْنَ الْمُسْلِمِينَ فَلاَ يَقْضِيَنَّ بَيْنَ اثْنَيْنِ وَهُوَ غَضْبَانُ ».

তাহকীক:
হাদীস নং: ৪৩৮৯
فیصلوں کا بیان
(عدالتی) فیصلوں اور احکام وغیرہ کا بیان
4389 ۔ حضرت ابوبکرہ (رض) کے بارے میں منقول ہے کہ انھوں نے سجستان میں موجوداپنے بیٹے کو ‘ جو قاضی تھا ‘ اسے خط میں یہ لکھا : میں نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ بات ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے : کوئی بھی قاضی دو آدمیوں کے درمیان غصے کے عالم میں فیصلہ نہ کرے اور کسی ایک معاملے میں دوفیصلے نہ دے۔
4389 - حَدَّثَنَا الْقَاضِى الْحُسَيْنُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ يَزِيدَ الْبَحْرَانِىُّ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ صَدَقَةَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ حُسَيْنٍ عَنْ أَبِى بِشْرٍ عَنِ ابْنِ جَوْشَنٍ عَنْ أَبِى بَكْرَةَ أَنَّهُ كَتَبَ إِلَى ابْنِهِ وَهُوَ قَاضِى سِجِسْتَانَ إِنِّى سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- يَقُولُ « لاَ يَقْضِى الْقَاضِى بَيْنَ اثْنَيْنِ وَهُوَ غَضْبَانُ وَلاَ يَقْضِى فِى أَمْرٍ قَضَائَيْنِ ».

তাহকীক:
হাদীস নং: ৪৩৯০
فیصلوں کا بیان
(عدالتی) فیصلوں اور احکام وغیرہ کا بیان
4390 ۔ حضرت ابوسعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بات ارشاد فرمائی ہے : فیصلہ کرنے والاشخص اس وقت فیصلہ دے جب وہ سیرہو اور کھاپی چکاہو (یعنی بےچینی اور بےقراری یاذہنی انتشار کے عالم میں فیصلہ نہ دے) ۔
4390 - حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ ثَابِتٍ الْبَزَّازُ حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ عَاصِمٍ حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ دَاوُدَ حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْعُمَرِىُّ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الأَنْصَارِىِّ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِى سَعِيدٍ الْخُدْرِىِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- « لاَ يَقْضِى الْقَاضِى إِلاَّ وَهُوَ شَبْعَانُ رَيَّانُ ».

তাহকীক:
হাদীস নং: ৪৩৯১
فیصلوں کا بیان
باب : حضرت عمر (رض) کا حضرت ابوموسیٰ اشعری (رض) کے نام مکتوب
4391 ۔ ابوالملیح ہذلی بیان کرتے ہیں : حضرت عمربن خطاب (رض) نے حضرت موسیٰ اشعری (رض) کو خط لکھا جس میں یہ تحریر تھا :
(امابعد ! ) قضا ایک ایسا فریضہ ہے جو انتہائی ضروری ہے اور ایک ایسا طریقہ ہے ‘ جسے برقرار رہنا چاہیے تو جب تمہارے سامنے ثبوت آجائے ‘ حق واضح ہوجائے تو تم اسے نافذکردو۔ اور ایسے حق کے بارے میں کلام کرنا کوئی فائدہ نہیں دیتا جسے نافذنہ کیا جاسکے۔ تم لوگوں کے ساتھ برابری کی سطح پر بیٹھو ‘ انھیں برابر سمجھو یہاں تک کہ کوئی کمزور شخص تمہاری امیدوانصاف سے ناامید نہ ہو اور کوئی صاحب حیثیت شخص تم سے کسی زیادتی کی امیدنہ رکھے۔ ثبوت پیش کرنا اس شخص پر لازم ہوگا جو دعوی کرتا ہے اور قسم اٹھانا اس پر لازم ہوگا جو اس کا انکار کرتا ہے ‘ مسلمانوں کے درمیان صلح کروادیناجائز ہے ‘ سوائے ایسی صلح کے ‘ جو حرام چیز کو حلال کردے اور حلال چیزکوحرام قراردیدے۔ اگلے دن فیصلہ کرتے ہوئے یہ چیزتمہارے لیے رکاوٹ نہ بنے کہ تم نے اس کے بارے میں دوبارہ غور و فکر کیا اور تمہیں اس مسئلے کا کوئی نیاحل سمجھ میں آگیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تم نے حق کی طرف رجوع کرنا ہے ‘ حق قدیم ہوتا ہے اور حق کی طرف واپس چلے جانا ‘ باطل کو مسلسل کرتے رہنے سے زیادہ بہتر ہے ‘ سمجھ سے کام لینا سمجھ سے کام لینا ‘ ہراس چیز کے بارے میں جس چیز کے بارے میں تمہارے ذہن میں کھٹکا ہواہو ‘ اور اس بارے میں تم تک کتاب یا سنت کا کوئی حکم نہ پہنچ چکاہو ‘ تو ایسی صورت میں اس کی ماننددوسری صورتوں کو سامنے رکھنا اور احکام کو قیاس کرنا اور اس کو ترجیح دینا ‘ جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک زیادہ پسندیدہ محسوس ہو ‘ اور حق سے زیادہ مشابہت رکھتاہو ‘ تمہاری رائے کے مطابق۔
جس شخص نے دعوی کیا ہواہو ‘ اگر وہ ثبوت پیش کرنے کے لیے مہلت مانگے تو اسے ثبوت پیش کرنے کے لیے مہلت دو۔ اور اگر ثبوت پیش ہوجائے تو اس کے حق کے مطابق فیصلہ دو اگر ایسا نہیں ہوتا تو اس شخص کے خلاف فیصلہ دے دو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ صورت حال تونابینا شخص کے لیے بھی واضح ہوگئی ہے۔ اور عذر کے حوالے سے زیادہ بلیغ ہے۔ ہر مسلمان عادل ہے ‘ وہ ایک دوسرے سے متعلق ہیں ‘ البتہ جس شخص کو حد کی سزا کے طورپرکوڑے لگائے گئے ہوں یا جس شخص کے بارے می تجربہ یہ ہو کہ وہ جھوٹی گواہی دیتا ہے ‘ یا جس کے بارے میں یہ گمان ہو کہ وہ ولی ہونے کی وجہ سے یارشتہ داری کی وجہ سے (جھوٹی گواہی دے رہا ہے) تو اس کا خیال رکھنا ‘ اس کی وجہ یہ ہے کہ باطن کی چیزوں کا ولی اللہ تعالیٰ ہے لیکن ثبوت کی بنیاد پر تم پر سزا کو تم سے دور کیا جائے گا ‘ اور ہاں لوگوں کو پریشان کرنے اور انھیں ستانے سے گریز کرنا اور ایسی جگہ کے بارے میں حق کے حوالے سے مخاصمت سے گریز کرنا ‘ اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ اجرکو واجب کردے گا ‘ یہ چیزتمہارے لیے ذخیرہ آخرت بن جائے گی ‘ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اور بندے کے درمیان معاملے میں جس شخص کی نیت ٹھیک ہوگی ‘ اگرچہ وہ چیز انسان کے اپنے خلاف کیوں نہ ہو ‘ اللہ تعالیٰ اس شخص کو لوگوں کے حوالے سے ضررپہنچنے سے محفوظ رکھے گا اور جو لوگوں کے بارے میں آراستہ ہوگا ‘ لیکن اللہ تعالیٰ کا اس کے بارے میں علم مختلف ہوگا تو اللہ تعالیٰ اس شخص کو رسواکردے گا ‘ تو تم نے اللہ تعالیٰ کے بجائے کسی دوسرے سے اجرکیوں حاصل کرنا ہے ؟ جبکہ اللہ تعالیٰ فوری رزق بھی عطاء فرماتا ہے اور اپنے رحمت کے خزانے بھی عطاء فرماتا ہے اور تم پر سلام ہو۔
(امابعد ! ) قضا ایک ایسا فریضہ ہے جو انتہائی ضروری ہے اور ایک ایسا طریقہ ہے ‘ جسے برقرار رہنا چاہیے تو جب تمہارے سامنے ثبوت آجائے ‘ حق واضح ہوجائے تو تم اسے نافذکردو۔ اور ایسے حق کے بارے میں کلام کرنا کوئی فائدہ نہیں دیتا جسے نافذنہ کیا جاسکے۔ تم لوگوں کے ساتھ برابری کی سطح پر بیٹھو ‘ انھیں برابر سمجھو یہاں تک کہ کوئی کمزور شخص تمہاری امیدوانصاف سے ناامید نہ ہو اور کوئی صاحب حیثیت شخص تم سے کسی زیادتی کی امیدنہ رکھے۔ ثبوت پیش کرنا اس شخص پر لازم ہوگا جو دعوی کرتا ہے اور قسم اٹھانا اس پر لازم ہوگا جو اس کا انکار کرتا ہے ‘ مسلمانوں کے درمیان صلح کروادیناجائز ہے ‘ سوائے ایسی صلح کے ‘ جو حرام چیز کو حلال کردے اور حلال چیزکوحرام قراردیدے۔ اگلے دن فیصلہ کرتے ہوئے یہ چیزتمہارے لیے رکاوٹ نہ بنے کہ تم نے اس کے بارے میں دوبارہ غور و فکر کیا اور تمہیں اس مسئلے کا کوئی نیاحل سمجھ میں آگیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تم نے حق کی طرف رجوع کرنا ہے ‘ حق قدیم ہوتا ہے اور حق کی طرف واپس چلے جانا ‘ باطل کو مسلسل کرتے رہنے سے زیادہ بہتر ہے ‘ سمجھ سے کام لینا سمجھ سے کام لینا ‘ ہراس چیز کے بارے میں جس چیز کے بارے میں تمہارے ذہن میں کھٹکا ہواہو ‘ اور اس بارے میں تم تک کتاب یا سنت کا کوئی حکم نہ پہنچ چکاہو ‘ تو ایسی صورت میں اس کی ماننددوسری صورتوں کو سامنے رکھنا اور احکام کو قیاس کرنا اور اس کو ترجیح دینا ‘ جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک زیادہ پسندیدہ محسوس ہو ‘ اور حق سے زیادہ مشابہت رکھتاہو ‘ تمہاری رائے کے مطابق۔
جس شخص نے دعوی کیا ہواہو ‘ اگر وہ ثبوت پیش کرنے کے لیے مہلت مانگے تو اسے ثبوت پیش کرنے کے لیے مہلت دو۔ اور اگر ثبوت پیش ہوجائے تو اس کے حق کے مطابق فیصلہ دو اگر ایسا نہیں ہوتا تو اس شخص کے خلاف فیصلہ دے دو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ صورت حال تونابینا شخص کے لیے بھی واضح ہوگئی ہے۔ اور عذر کے حوالے سے زیادہ بلیغ ہے۔ ہر مسلمان عادل ہے ‘ وہ ایک دوسرے سے متعلق ہیں ‘ البتہ جس شخص کو حد کی سزا کے طورپرکوڑے لگائے گئے ہوں یا جس شخص کے بارے می تجربہ یہ ہو کہ وہ جھوٹی گواہی دیتا ہے ‘ یا جس کے بارے میں یہ گمان ہو کہ وہ ولی ہونے کی وجہ سے یارشتہ داری کی وجہ سے (جھوٹی گواہی دے رہا ہے) تو اس کا خیال رکھنا ‘ اس کی وجہ یہ ہے کہ باطن کی چیزوں کا ولی اللہ تعالیٰ ہے لیکن ثبوت کی بنیاد پر تم پر سزا کو تم سے دور کیا جائے گا ‘ اور ہاں لوگوں کو پریشان کرنے اور انھیں ستانے سے گریز کرنا اور ایسی جگہ کے بارے میں حق کے حوالے سے مخاصمت سے گریز کرنا ‘ اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ اجرکو واجب کردے گا ‘ یہ چیزتمہارے لیے ذخیرہ آخرت بن جائے گی ‘ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اور بندے کے درمیان معاملے میں جس شخص کی نیت ٹھیک ہوگی ‘ اگرچہ وہ چیز انسان کے اپنے خلاف کیوں نہ ہو ‘ اللہ تعالیٰ اس شخص کو لوگوں کے حوالے سے ضررپہنچنے سے محفوظ رکھے گا اور جو لوگوں کے بارے میں آراستہ ہوگا ‘ لیکن اللہ تعالیٰ کا اس کے بارے میں علم مختلف ہوگا تو اللہ تعالیٰ اس شخص کو رسواکردے گا ‘ تو تم نے اللہ تعالیٰ کے بجائے کسی دوسرے سے اجرکیوں حاصل کرنا ہے ؟ جبکہ اللہ تعالیٰ فوری رزق بھی عطاء فرماتا ہے اور اپنے رحمت کے خزانے بھی عطاء فرماتا ہے اور تم پر سلام ہو۔
4391 - حَدَّثَنَا أَبُو جَعْفَرٍ مُحَمَّدُ بْنُ سُلَيْمَانَ بْنِ مُحَمَّدٍ النُّعْمَانِىُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الصَّمَدِ بْنِ أَبِى خِدَاشٍ حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِى حُمَيْدٍ عَنْ أَبِى الْمَلِيحِ الْهُذَلِىِّ قَالَ كَتَبَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ إِلَى أَبِى مُوسَى الأَشْعَرِىِّ أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ الْقَضَاءَ فَرِيضَةٌ مُحْكَمَةٌ وَسُنَّةٌ مُتَّبَعَةٌ فَافْهَمْ إِذَا أُدْلِىَ إِلَيْكَ بِحُجَّةٍ وَانْفُذِ الْحَقَّ إِذَا وَضُحَ فَإِنَّهُ لاَ يَنْفَعُ تَكَلُّمٌ بِحَقٍّ لاَ نَفَادَ لَهُ وَآسِ بَيْنَ النَّاسِ فِى وَجْهِكَ وَمَجْلِسِكَ وَعَدْلِكَ حَتَّى لاَ يَأْيَسَ الضَّعِيفُ مِنْ عَدْلِكَ وَلاَ يَطْمَعَ الشَّرِيفُ فِى حَيْفِكَ الْبَيِّنَةُ عَلَى مَنِ ادَّعَى وَالْيَمِينُ عَلَى مَنْ أَنْكَرَ وَالصُّلْحُ جَائِزٌ بَيْنَ الْمُسْلِمِينَ إِلاَّ صُلْحًا أَحَلَّ حَرَامًا أَوْ حَرَّمَ حَلاَلاً لاَ يَمْنَعَنَّكَ قَضَاءٌ قَضَيْتَهُ رَاجَعْتَ فِيهِ نَفْسَكَ وَهُدِيتَ فِيهِ لِرُشْدِكَ أَنْ تُرَاجِعَ الْحَقَّ فَإِنَّ الْحَقَّ قَدِيمٌ وَمُرَاجَعَةُ الْحَقِّ خَيْرٌ مِنَ التَّمَادِى فِى الْبَاطِلِ الْفَهْمَ الْفَهْمَ فِيمَا تَخَلَّجَ فِى صَدْرِكَ مِمَّا لَمْ يَبْلُغْكَ فِى الْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ اعْرِفِ الأَمْثَالَ وَالأَشْبَاهَ ثُمَّ قِسِ الأُمُورَ عِنْدَ ذَلِكَ فَاعْمَدْ إِلَى أَحَبِّهَا إِلَى اللَّهِ وَأَشْبَهِهَا بِالْحَقِّ فِيمَا تَرَى وَاجْعَلْ لِلْمُدَّعِى أَمَدًا يَنْتَهِى إِلَيْهِ فَإِنْ أَحْضَرَ بَيِّنَةً أَخَذَ بِحَقِّهِ وَإِلاَّ وَجَّهْتَ الْقَضَاءَ عَلَيْهِ فَإِنَّ ذَلِكَ أَجْلَى لِلْعَمَى وَأَبْلَغُ فِى الْعُذْرِ الْمُسْلِمُونَ عُدُولٌ بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ إِلاَّ مَجْلُودٍ فِى حَدٍّ أَوْ مُجَرَّبٍ فِى شَهَادَةِ زُورٍ أَوْ ظَنِينٍ فِى وَلاَءٍ أَوْ قَرَابَةٍ إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى تَوَلَّى مِنْكُمُ السَّرَائِرَ وَدَرَأَ عَنْكُمْ بِالْبَيِّنَاتِ ثُمَّ وَإِيَّاكَ وَالْقَلَقَ وَالضَّجَرَ وَالتَّأَذِّىَ بِالنَّاسِ وَالتَّنَكُّرَ لِلْخُصُومِ فِى مَوَاطِنِ الْحَقِّ الَّتِى يُوجِبُ اللَّهُ بِهَا الأَجْرَ وَيُحْسِنُ بِهَا الذُّخْرَ فَإِنَّهُ مَنْ يُصْلِحْ نِيَّتَهُ فِيمَا بَيْنَهُ وَبَيْنَ اللَّهِ وَلَوْ عَلَى نَفْسِهِ يَكْفِهِ اللَّهُ مَا بَيْنَهُ وَبَيْنَ النَّاسِ وَمَنْ تَزَيَّنَ لِلنَّاسِ بِمَا يَعْلَمُ اللَّهُ مِنْهُ غَيْرَ ذَلِكَ يُشِنْهُ اللَّهُ فَمَا ظَنُّكَ بِثَوَابِ غَيْرِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ فِى عَاجِلِ رِزْقِهِ وَخَزَائِنِ رَحْمَتِهِ وَالسَّلاَمُ عَلَيْكَ.

তাহকীক:
হাদীস নং: ৪৩৯২
فیصلوں کا بیان
باب : حضرت عمر (رض) کا حضرت ابوموسیٰ اشعری (رض) کے نام مکتوب
4392 ۔ سعید بن ابوبردہ کے بارے میں یہ بات منقول ہے کہ ایک مرتبہ انھوں نے حضرت عمر (رض) کا خط نکالا اور بولے : یہ حضرت عمر (رض) کا خط ہے ‘ پھر سفیان نامی راوی نے اس خط کو میرے سامنے پڑھاجس میں یہ تحریر تھا :
امابعد ! قضاء ایک ایسافرض ہے جو ضروری ہے اور ایک ایساطریقہ ہے ‘ جسے برقراررہنا چاہیے۔ تم یہ بات سمجھ لو کہ جب تمہارے سامنے کوئی مقدمہ آئے ‘ توای سے حق کے بارے میں کلام کرنا فائدہ نہیں دیتا ‘ جس حق کا نفاذنہ ہوسکے ‘ تم لوگوں کے درمیان بیٹھے ہوئے ان کی طرف رخ کرتے ہوئے ان سے انصاف کے ساتھ کام لیتے ہوئے اس چیز کا خیال رکھو کہ کوئی صاحب حیثیت شخص تم سے کسی زیادتی کی امیدنہ رکھے اور کسی کمزور شخص کو تم سے کسی ظلم کا اندیشہ نہ ہو ‘ جو شخص دعوی کرتا ہے اس پر ثبوت پیش کرنا لازم ہے۔ اور جو شخص انکار کردیتا ہے وہ قسم اٹھائے گا ‘ مسلمانوں کے درمیان صلح کرواناجائز ہے ‘ ماسوائے ایسی صلح کے جو کسی حرام چیز کو حلال قراردے یا جو کسی حلال چیزکوحرام قراردے۔ گزشتہ دن تم نے جو فیصلہ کیا تھا وہ فیصلہ تمہیں روکے نہیں ‘ جبکہ تم نے اس کے بارے میں غور و فکر کیا ہو ‘ پھر تمہاری درست چیز کی طرف رہنمائی کردی گئی ہو ‘ وہ تمہیں اس بات سے نہ روکے کہ تم حق کی طرف رجوع کرلو ‘ اس کی وجہ یہ ہے کہ حق قدیم ہے اور حق کو کوئی بھی چیزباطل نہیں کرسکتی اور حق کی طرف لوٹ جانا ‘ اس سے زیادہ بہتر ہے کہ انسان باطل پر گامزن رہے۔ جو معاملہ تمہارے ذہن میں کھٹک پیداکرے ‘ اس کو سمجھنے کی کوشش کرنا ‘ اس چیز کے حوالے سے جو قرآن اور سنت کے حوالے سے تم تک نہیں پہنچی ہے ‘ اس صورت میں تم اس جیسی دوسری مشابہہ اور ہم مثل صورت کا اندازہ لگانا پھر معاملات کو قیاس کرنا اور اس میں سے جو صورت حال اللہ تعالیٰ کے نزدیک زیادہ پسندیدہ ہو اور حق کے زیادہ قریب ہو ‘ اس کا ارادہ کرلینا جو تمہاری سمجھ میں آئے ‘ تم دعوی کرنے والے شخص کو مہلت دینا کہ اس دوران وہ اپنا ثبوت پیش کردے ‘ اگر کردیا ‘ توٹھیک ہے ‘ ورنہ اس کے خلاف فیصلہ کردینا۔ کیونکہ اب یہ صورت حال نابینا شخص کے لیے بھی روزن ہوجائے گی اور عذر کے حوالے سے زیادہ بلیغ ہوگی۔ سب مسلمان عادل ہیں ‘ ایک دوسرے سے متعلق ہیں۔ البتہ جس شخص کو حد کی سزا کے طورپرکوڑے لگائے گئے ہوں یا جس شخص کے بارے میں تجربہ یہ ہو کہ وہ جھوٹی گواہی دیتا ہے ‘ تو اس کا خیال رکھنا ‘ اس کی وجہ یہ ہے کہ باطن کی چیزوں کا ولی اللہ تعالیٰ ہے ‘ لیکن ثبوت کی بنیادپرتم سیمزاکودور کیا جائے گا۔ اور ہاں لوگوں کو پریشان کرنے ‘ ان کو ستانے سے گریز کرنا اور ایسی جگہ سے حق کے بارے میں مخالفت سے گریز کرنا ‘ اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ اجر کو واجب کر دے گا ‘ یہ چیزتمہارے لیے ذخیرہ آخرت بن جائے گی ‘ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اور بندے کے درمیان جس کی نیت ٹھیک ہوگی اگرچہ وہ چیز اس کے اپنے خلاف کیوں نہ ہو ‘ اللہ تعالیٰ اس پر لوگوں کے حوالے سے ضررپہنچانے سے محفوظ رکھے گا اور جو لوگوں کے بارے میں آراستہ ہوگا لیکن اللہ تعالیٰ کے بارے میں اس کا علم مختلف ہوگا ‘ اللہ تعالیٰ اس شخص کو رسواکردے گا ‘ تو تم نے اللہ تعالیٰ کے بجائے کسی دوسرے سے اجرکیوں حاصل کرنا ہے۔ جس شخص کی اللہ تعالیٰ کے معاملے میں نیت ٹھیک ہوتی ہے ‘ اللہ تعالیٰ اسے ہر معاملے میں محفوظ کرلیتا ہے ‘ اور جو شخص لوگوں کے بارے میں اچھا بنتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ایسا نہیں ہوتا ‘ اللہ تعالیٰ اس شخص کو رسوا کرتا ہے۔
امابعد ! قضاء ایک ایسافرض ہے جو ضروری ہے اور ایک ایساطریقہ ہے ‘ جسے برقراررہنا چاہیے۔ تم یہ بات سمجھ لو کہ جب تمہارے سامنے کوئی مقدمہ آئے ‘ توای سے حق کے بارے میں کلام کرنا فائدہ نہیں دیتا ‘ جس حق کا نفاذنہ ہوسکے ‘ تم لوگوں کے درمیان بیٹھے ہوئے ان کی طرف رخ کرتے ہوئے ان سے انصاف کے ساتھ کام لیتے ہوئے اس چیز کا خیال رکھو کہ کوئی صاحب حیثیت شخص تم سے کسی زیادتی کی امیدنہ رکھے اور کسی کمزور شخص کو تم سے کسی ظلم کا اندیشہ نہ ہو ‘ جو شخص دعوی کرتا ہے اس پر ثبوت پیش کرنا لازم ہے۔ اور جو شخص انکار کردیتا ہے وہ قسم اٹھائے گا ‘ مسلمانوں کے درمیان صلح کرواناجائز ہے ‘ ماسوائے ایسی صلح کے جو کسی حرام چیز کو حلال قراردے یا جو کسی حلال چیزکوحرام قراردے۔ گزشتہ دن تم نے جو فیصلہ کیا تھا وہ فیصلہ تمہیں روکے نہیں ‘ جبکہ تم نے اس کے بارے میں غور و فکر کیا ہو ‘ پھر تمہاری درست چیز کی طرف رہنمائی کردی گئی ہو ‘ وہ تمہیں اس بات سے نہ روکے کہ تم حق کی طرف رجوع کرلو ‘ اس کی وجہ یہ ہے کہ حق قدیم ہے اور حق کو کوئی بھی چیزباطل نہیں کرسکتی اور حق کی طرف لوٹ جانا ‘ اس سے زیادہ بہتر ہے کہ انسان باطل پر گامزن رہے۔ جو معاملہ تمہارے ذہن میں کھٹک پیداکرے ‘ اس کو سمجھنے کی کوشش کرنا ‘ اس چیز کے حوالے سے جو قرآن اور سنت کے حوالے سے تم تک نہیں پہنچی ہے ‘ اس صورت میں تم اس جیسی دوسری مشابہہ اور ہم مثل صورت کا اندازہ لگانا پھر معاملات کو قیاس کرنا اور اس میں سے جو صورت حال اللہ تعالیٰ کے نزدیک زیادہ پسندیدہ ہو اور حق کے زیادہ قریب ہو ‘ اس کا ارادہ کرلینا جو تمہاری سمجھ میں آئے ‘ تم دعوی کرنے والے شخص کو مہلت دینا کہ اس دوران وہ اپنا ثبوت پیش کردے ‘ اگر کردیا ‘ توٹھیک ہے ‘ ورنہ اس کے خلاف فیصلہ کردینا۔ کیونکہ اب یہ صورت حال نابینا شخص کے لیے بھی روزن ہوجائے گی اور عذر کے حوالے سے زیادہ بلیغ ہوگی۔ سب مسلمان عادل ہیں ‘ ایک دوسرے سے متعلق ہیں۔ البتہ جس شخص کو حد کی سزا کے طورپرکوڑے لگائے گئے ہوں یا جس شخص کے بارے میں تجربہ یہ ہو کہ وہ جھوٹی گواہی دیتا ہے ‘ تو اس کا خیال رکھنا ‘ اس کی وجہ یہ ہے کہ باطن کی چیزوں کا ولی اللہ تعالیٰ ہے ‘ لیکن ثبوت کی بنیادپرتم سیمزاکودور کیا جائے گا۔ اور ہاں لوگوں کو پریشان کرنے ‘ ان کو ستانے سے گریز کرنا اور ایسی جگہ سے حق کے بارے میں مخالفت سے گریز کرنا ‘ اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ اجر کو واجب کر دے گا ‘ یہ چیزتمہارے لیے ذخیرہ آخرت بن جائے گی ‘ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اور بندے کے درمیان جس کی نیت ٹھیک ہوگی اگرچہ وہ چیز اس کے اپنے خلاف کیوں نہ ہو ‘ اللہ تعالیٰ اس پر لوگوں کے حوالے سے ضررپہنچانے سے محفوظ رکھے گا اور جو لوگوں کے بارے میں آراستہ ہوگا لیکن اللہ تعالیٰ کے بارے میں اس کا علم مختلف ہوگا ‘ اللہ تعالیٰ اس شخص کو رسواکردے گا ‘ تو تم نے اللہ تعالیٰ کے بجائے کسی دوسرے سے اجرکیوں حاصل کرنا ہے۔ جس شخص کی اللہ تعالیٰ کے معاملے میں نیت ٹھیک ہوتی ہے ‘ اللہ تعالیٰ اسے ہر معاملے میں محفوظ کرلیتا ہے ‘ اور جو شخص لوگوں کے بارے میں اچھا بنتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ایسا نہیں ہوتا ‘ اللہ تعالیٰ اس شخص کو رسوا کرتا ہے۔
4392 - حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَخْلَدٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ حَدَّثَنِى أَبِى حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ حَدَّثَنَا إِدْرِيسُ الأَوْدِىُّ عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِى بُرْدَةَ وَأَخْرَجَ الْكِتَابَ فَقَالَ هَذَا كِتَابُ عُمَرَ ثُمَّ قُرِئَ عَلَى سُفْيَانَ مِنْ هَا هُنَا إِلَى أَبِى مُوسَى الأَشْعَرِىِّ أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ الْقَضَاءَ فَرِيضَةٌ مُحْكَمَةٌ وَسُنَّةٌ مُتَّبَعَةٌ فَافْهَمْ إِذَا أُدْلِىَ إِلَيْكَ فَإِنَّهُ لاَ يَنْفَعُ تَكَلُّمٌ بِحَقٍّ لاَ نَفَاذَ لَهُ آسِ بَيْنَ النَّاسِ فِى مَجْلِسِكَ وَوَجْهِكَ وَعَدْلِكَ حَتَّى لاَ يَطْمَعَ شَرِيفٌ فِى حَيْفِكَ وَلاَ يَخَافَ ضَعِيفٌ جَوْرَكَ الْبَيِّنَةُ عَلَى مَنِ ادَّعَى وَالْيَمِينُ عَلَى مَنْ أَنْكَرَ وَالصُّلْحُ جَائِزٌ بَيْنَ الْمُسْلِمِينَ إِلاَّ صُلْحًا أَحَلَّ حَرَامًا أَوْ حَرَّمَ حَلاَلاً لاَ يَمْنَعَنَّكَ قَضَاءٌ قَضَيْتَهُ بِالأَمْسِ رَاجَعْتَ فِيهِ نَفْسَكَ وَهُدِيتَ فِيهِ لِرُشْدِكَ أَنْ تُرَاجِعَ الْحَقَّ فَإِنَّ الْحَقَّ قَدِيمٌ وَإِنَّ الْحَقَّ لاَ يُبْطِلُهُ شَىْءٌ وَمُرَاجَعَةُ الْحَقِّ خَيْرٌ مِنَ التَّمَادِى فِى الْبَاطِلِ الْفَهْمَ الْفَهْمَ فِيمَا تَخَلَّجَ فِى صَدْرِكَ مِمَّا لَمْ يَبْلُغْكَ فِى الْقُرْآنِ وَالسُّنَّةِ اعْرِفِ الأَمْثَالَ وَالأَشْبَاهَ ثُمَّ قِسِ الأُمُورَ عِنْدَ ذَلِكَ فَاعْمَدْ إِلَى أَحَبِّهَا إِلَى اللَّهِ تَعَالَى وَأَشْبَهِهَا بِالْحَقِّ فِيمَا تَرَى وَاجْعَلْ لِلْمُدَّعِى أَمَدًا يَنْتَهِى إِلَيْهِ فَإِنْ أَحْضَرَ بَيِّنَتَهُ وَإِلاَّ وَجَّهْتَ عَلَيْهِ الْقَضَاءَ فَإِنَّ ذَلِكَ أَجْلَى لِلْعَمَى وَأَبْلَغُ فِى الْعُذْرِ الْمُسْلِمُونَ عُدُولٌ بَيْنَهُمْ بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ إِلاَّ مَجْلُودًا فِى حَدٍّ أَوْ مُجَرَّبًا فِى شَهَادَةِ زُورٍ أَوْ ظَنِينًا فِى وَلاَءٍ أَوْ فِى قَرَابَةٍ فَإِنَّ اللَّهَ تَوَلَّى مِنْكُمُ السَّرَائِرَ وَدَرَأَ عَنْكُمْ بِالْبَيِّنَاتِ ثُمَّ إِيَّاكَ وَالضَّجَرَ وَالْقَلَقَ وَالتَّأَذِّىَ بِالنَّاسِ وَالتَّنَكُّرَ لِلْخُصُومِ فِى مَوَاطِنِ الْحَقِّ الَّتِى يُوجِبُ اللَّهُ بِهَا الأَجْرَ وَيُحْسِنُ الذُّخْرَ فَإِنَّهُ مَنْ يُخْلِصْ نِيَّتَهُ فِيمَا بَيْنَهُ وَبَيْنَ اللَّهِ يَكْفِهِ اللَّهُ مَا بَيْنَهُ وَبَيْنَ النَّاسِ وَمَنْ تَزَيَّنَ لِلنَّاسِ بِمَا يَعْلَمُ اللَّهُ مِنْهُ غَيْرَ ذَلِكَ شَانَهُ اللَّهُ .

তাহকীক:
হাদীস নং: ৪৩৯৩
فیصلوں کا بیان
باب : حضرت عمر (رض) کا حضرت ابوموسیٰ اشعری (رض) کے نام مکتوب
4393 ۔ حضرت ابوہریرہ (رض) ‘ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں کہ تم پر ایسی روایات آئیں گی جو ایک دوسرے سے مختلف ہوں گی تو جس شخص کے پاس کوئی ایسی روایات آئیں جو اللہ تعالیٰ کی کتاب کے ساتھ موافقت رکھتی ہوں تو وہ میری طرف سے ہوں گی ‘ جس کے پاس ایسی چیز آئے جو میری سنت کی مخالف ہو ‘ تو وہ میری طرف سے نہیں ہوگی۔
4393 - حَدَّثَنِى أَبِى حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ عَبْدِ الْجَبَّارِ حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ عَمْرٍو حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ مُوسَى ح وَحَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَحْمَدَ الدَّقَّاقُ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَيْنِ بْنِ حَفْصٍ الْخَثْعَمِىُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ الْمُحَارِبِىُّ حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ مُوسَى عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ رُفَيْعٍ عَنْ أَبِى صَالِحٍ عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِىِّ -صلى الله عليه وسلم- قَالَ « سَيَأْتِيكُمْ عَنِّى أَحَادِيثُ مُخْتَلِفَةٌ فَمَا جَاءَكُمْ مُوَافِقًا لِكِتَابِ اللَّهِ وَلِسُنَّتِى فَهُوَ مِنِّى وَمَا جَاءَكُمْ مُخَالِفًا لِكِتَابِ اللَّهِ وَلِسُنَّتِى فَلَيْسَ مِنِّى ». صَالِحُ بْنُ مُوسَى ضَعِيفٌ لاَ يُحْتَجُّ بِهِ.

তাহকীক:
হাদীস নং: ৪৩৯৪
فیصلوں کا بیان
باب : حضرت عمر (رض) کا حضرت ابوموسیٰ اشعری (رض) کے نام مکتوب
4394 ۔ حضرت ابوہریرہ (رض) ‘ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں : اگر تمہیں میرے حوالے سے کوئی حدیث سنائی جائے جو تمہاری سمجھ میں آجائے ‘ اور تم اس کا انکار نہ کر سکوتوتم اس کی تصدیق کردو ‘ اور جس چیزکاتم انکار کررہے ہو ‘ جو تمہاری سمجھ میں نہ آئے اور تمہیں لگے کہ یہ میرا فرمان نہیں ہوگا (تو تم اس کا انکارکردو) ۔
4394 - حَدَّثَنَا أَبُو مُحَمَّدِ بْنُ صَاعِدٍ وَالْحُسَيْنُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ قَالاَ حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ سَهْلٍ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِى ذِئْبٍ عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِىِّ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِىِّ -صلى الله عليه وسلم- قَالَ « إِذَا حُدِّثْتُمْ عَنِّى بِحَدِيثٍ تَعْرِفُونَهُ وَلاَ تُنْكِرُونَهُ فَصَدِّقُوا بِهِ وَمَا تُنْكِرُونَهُ فَكَذِّبُوا بِهِ ».

তাহকীক:
হাদীস নং: ৪৩৯৫
فیصلوں کا بیان
باب : حضرت عمر (رض) کا حضرت ابوموسیٰ اشعری (رض) کے نام مکتوب
4395 ۔ یہی روایت ایک اور سند کے ہمراہ مقتول ہے ‘ تاہم اس میں یہ الفاظ زائد ہیں : اس کی وجہ یہ ہے کہ میں وہی بات کہوں گاجومعروف ہوگی اور جو ” منکر “ نہیں ہوگی۔ میں وہ بات نہیں کہوں گا جو ” منکر “ ہوگی اور معروف نہیں ہوگی۔
4395 - حَدَّثَنَا ابْنُ صَاعِدٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْمُخَرِّمِىُّ حَدَّثَنَا عَلِىُّ بْنُ الْمَدِينِىِّ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ بِإِسْنَادِهِ نَحْوَهُ وَزَادَ « فَإِنِّى أَقُولُ مَا يُعْرَفُ وَلاَ يُنْكَرُ وَلاَ أَقُولُ مَا يُنْكَرُ وَلاَ يُعْرَفُ ».

তাহকীক:
হাদীস নং: ৪৩৯৬
فیصلوں کا بیان
باب : حضرت عمر (رض) کا حضرت ابوموسیٰ اشعری (رض) کے نام مکتوب
4396 ۔ حضرت علی بن ابوطالب (رض) نقل کرتے ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بات ارشاد فرمائی ہے : میرے بعد کچھ ایسے لوگ ہوں گے جو میرے حوالے سے روایات نقل کریں گے تو تم ان روایات کو قرآن پر پیش کرنا اور جو قرآن کے مطابق ہوں گی ‘ ان کو حاصل کرلینا اور جو قرآن کے موافق نہیں ہوں گی ان کو حاصل نہ کرنا۔
(امام دارقطعی کہتے ہیں :) روایت وہم ہے ‘ صحیح یہ ہے کہ عاصم کے حوالے سے ‘ امام زید کے حوالے سے ‘ امام زین العابدین (رض) کے حوالے سے ” مرسل “ روایت کے طورپر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے منقول ہے۔
(امام دارقطعی کہتے ہیں :) روایت وہم ہے ‘ صحیح یہ ہے کہ عاصم کے حوالے سے ‘ امام زید کے حوالے سے ‘ امام زین العابدین (رض) کے حوالے سے ” مرسل “ روایت کے طورپر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے منقول ہے۔
4396 - حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ السَّمَّاكِ حَدَّثَنَا حَنْبَلُ بْنُ إِسْحَاقَ حَدَّثَنَا جُبَارَةُ بْنُ مُغَلِّسٍ حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ عَنْ عَاصِمِ بْنِ أَبِى النَّجُودِ عَنْ زِرِّ بْنِ حُبَيْشٍ عَنْ عَلِىِّ بْنِ أَبِى طَالِبٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- « إِنَّهَا سَتَكُونُ بَعْدِى رُوَاةٌ يَرْوُونَ عَنِّى الْحَدِيثَ فَاعْرِضُوا حَدِيثَهُمْ عَلَى الْقُرْآنِ فَمَا وَافَقَ الْقُرْآنَ فَخُذُوا بِهِ وَمَا لَمْ يُوَافِقِ الْقُرْآنَ فَلاَ تَأْخُذُوا بِهِ ». هَذَا وَهَمٌ. وَالصَّوَابُ عَنْ عَاصِمٍ عَنْ زَيْدِ بْنِ عَلِىِّ بْنِ الْحُسَيْنِ مُرْسَلاً عَنِ النَّبِىِّ -صلى الله عليه وسلم-.

তাহকীক: