মা'আরিফুল হাদীস (উর্দু)
معارف الحديث
کتاب الایمان - এর পরিচ্ছেদসমূহ
মোট হাদীস ২০ টি
হাদীস নং: ১
کتاب الایمان
صرف وہی عمل قابلِ قبول ہے جو اللہ کے لیے ہو
حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سُنا آپ فرماتے تھے کہ : “سب انسانی اعمال کا دارو مدار بس نیتوں پر ہے اور آدمی کو اس کی نیت ہی کے مطابق پھل ملتا ہے تو جس شخص نے اللہ اور رسول کی طرف ہجرت کی (اور خدا و رسول کی رضا جوئی و اطاعت کے سوا اس کی ہجرت کا اور کوئی باعث نہ تھا) تو اس کی ہجرت در حقیقت اللہ و رسول ہی کی طرف ہوئی (اور بے شک وہ اللہ و رسول کا سچا مہاجر ہے اور اس کو اس ہجرت الی اللہ والرسول کا مقرر اجر ملے گا) اور جو کسی دنیاوی غرض کے لیے یا کسی عورت سے نکاح کرنے کی خاطر “مہاجر” بنا تو (اس کی ہجرت اللہ و رسول کے لیے نہ ہو گی ، بلکہ) فی الواقع جس دوسری غرض اور نیت سے اس نے ہجرت اختیار کی ہے عند اللہ بس اسی کی طرف اس کی ہجرت مانی جائے گی ۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
حدیث کا جو ترجمہ اوپر کیا گیا ہے وہ خود مطلب خیز ہے اور نفسِ مفہوم کے بیان کے لیے اس کے بعد کسی مزید تشریح کی حاجت نہیں ، لیکن اس کی خصوصی اہمیت کا تقاضہ ہے کہ اس کے مطالب و فوائد پر کچھ اور بھی لکھا جائے ۔
حدیث کا اصل منشاء امت پر اس حقیقت کو واضح کرنا ہے کہ تمام اعمال کے صلاح و فساد اور مقبولیت و مردودیت کا مدار نیت پر ہے یعنی عملِ صالح وہی ہو گا اور اُسی کی اللہ کے یہاں قدر و قیمت ہو گی جو صالح نیت سے کیا گیا ہو اور جو “عملِ صالح” کسی بُری غرض اور فاسد نیت سے کیا گیا ہو وہ صالح اور مقبول نہ ہو گا ، بلکہ نیت کے مطابق فاسد اور مردود ہو گا ، اگرچہ ظاہری نظر میں “صالح” ہی معلوم ہو ۔۔۔ حاصل یہ کہ اللہ تعالیٰ عمل کے ساتھ نیت کا اور ظاہر کے ساتھ باطن کا بھی دیکھنے والا ہے اس کے یہاں ہر عمل کی قدر و قیمت عمل کرنے والے کی نیت کے حساب سے لگائی جائے گی ۔
ایک غلط فہمی
کسی کو اس سے یہ غلط فہمی نہ ہو کہ جب دار و مدار نیت ہی پر ہو تو اگر برے کام بھی کسی اچھی نیت سے کئے جائیں تو وہ اعمال صالحہ ہو جائیں گے اور ان پر بھی ثواب ملے گا مثلاً اگر کوئی شخص اس نیت سے چوری اور ڈاکہ زنی کرے کہ جو مال اس سے حاصل ہو گا اُس سے وہ غریبوں اور مسکینوں کی مدد کرے گا تو وہ بھی ثواب کا مستحق ہو سکے گا ۔
اصل بات یہ ہے کہ جو کام فی نفسہ برے ہیں اور جن سے اللہ اور اس کے رسول نے منع فرمایا ہے اُن میں حُسنِ نیت کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا ، وہ تو بہر حال قبیح اور موجبِ غضبِ الہی ہیں ، بلکہ ان کے ساتھ اچھی نیت کرنا اور اُن پر ثواب کی امید رکھنا شاید انکی مزید قباحت کا اور سزا میں زیادتی کا باعث ہو ، کیوں کہ یہ اللہ کے دین کے ساتھ ایک قسم کا تلاعب (کھیل) ہو گا ، بلکہ حدیث کا منشا “اعمال صالحہ” کے متعلق یہ جتلانا ہے کہ وہ بھی اگر کسی بری نیت سے کئے جائیں گے تو پھر “اعمال صالحہ” نہیں رہیں گے ، بلکہ بُری نیت کی وجہ سے انکا انجام بُرا ہی ہو گا ۔ مثلاً جو شخص نماز نہایت خشوع و خضوع کے ساتھ پڑھتا ہے جس کو ہم اعلیٰ درجہ کا عمل صالح سمجھتے ہیں وہ اگر یہ خشوع و خضوع اس لیے کرتا ہے کہ لوگ اس کی دینداری اور خدا پرستی کے متعلق اچھی رائے قائم کریں اور اس کا اعزاز و اکرام کیا جائے ، تو اس حدیث کی رو سے اس کی یہ خشوع و خضوع والی نماز اللہ کے یہاں کوئی قدر و قیمت نہیں رکھتی ، یا مثلاً ایک شخص دار الکفر سے دار الایمان کی طرف ہجرت کرتا ہے اور اس کے لیے ہجرت کی ساری مشقتیں اور مصیبتیں سہتا ہے لیکن اس کی غرض اس ہجرت سے اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی نہیں بلکہ کوئی اور دُنیاوی غرض پوشیدہ ہے ، مثلاً دار الہجرت میں رہنے والی کسی عورت سے نکاح کی خواہش اس ہجرت کے لیے محرک ہوئی ہے تو یہ ہجرت ہجرت اسلام نہ ہو گی اور اللہ کے ہاں اس کا کوئی اجر نہ ہو گا بلکہ اُلٹا گناہ ہو گا بس یہی ہے اس حدیث کا اصل منشاء ۔
بڑے سے بڑا عمل بھی اگر اخلاص اور للہیت سے خالی ہو گا تو وہ جہنم ہی میں لے جائے گا ۔
ایک حدیث میں وارد ہوا ہے کہ قیامت کے دن سب سے پہلے تین شخصوں کے متعلق عدالت الہیہ سے جہنم کا فیصلہ سنایا جائے گا ، سب سے پہلے ایسے شخص کی پیشی ہو گی جو جہاد میں شہید ہوا ہو گا ، وہ جب حاضرِ عدالت ہو گا تو اللہ تعالیٰ پہلے اس کو اپنی نعمتیں جتائے گا اور یاد دلائے گا وہ اس کو یاد آ جائیں گی پھر اس سے فرمایا جائے گا بتلا تو نے ان نعمتوں کا کیا حق ادا کیا ؟ اور کیا عمل کئے ؟ وہ عرض کرے گا خدا وند ! میں نے تیری راہ میں جہاد کیا اور تیری رضا طلبی میں جانِ عزیز تک قربان کر دی ، حق تعالیٰ فرمائے گا تو جھوٹ بولتا ہے تو نے تو صرف اس لیے جہاد کیا تھا کہ تو بہادر مشہور ہو ، تو دنیا میں تیری بہادری کا چرچا ہو چکا ، پھر اللہ کے حکم سے اس کو اوندھے منہ جہنم میں ڈال دیا جائے گا ، اسی طرح ایک “عالم دین” اور “عالمِ قرآن” حاضرِ عدالت کیا جائے گا اور اس سے بھی اللہ تعالیٰ پوچھے گا کہ تو نے کیا اعمال کئے ؟ وہ کہے گا میں نے تیرے دین اور تیری کتاب کے علم کو پڑھایا ، اور یہ سب تیری رضا کے لیے کیا ، حق تعالیٰ فرمائے گا تو جھوٹا ہے ، تو نے تو عالم ، قاری ، اور مولانا کہلانے کے لیے یہ سب کچھ کیا تھا پھر بحکمِ خداوندی اس کو بھی دوزخ میں ڈال دیا جائے گا ۔
پھر اس کے بعد ایک شخص پیش ہو گا جس کو اللہ نے بہت کچھ مال و دولت دیا ہو گا ، اس سے بھی سوال کیا جائے گا کہ تو نے کیا کیا ؟ وہ عرض کرے گا کہ خدا وندا میں نے خیر کا کوئی شعبہ ایسا نہیں چھوڑا جس میں تیری رضا جوئی کے لیے اپنا مال نہ خرچ کیا ہو ، حق تعالیٰ فرمائے گا تو جھوٹا ہے تو نے تو صرف اس لیے مال خرچ کیا تھا کہ دُنیا تجھ کو سخی کہے تو دنیا میں تیری سخاوت کا خوب چرچا ہو لیا ، پھر اس کو بھی اوندھے منہ جہنم میں ڈال دیا جائے گا ۔ (مسلم)
(اللہ پناہ میں رکھے نیتوں کے فساد بالخصوص ریا و نفاق سے ۔ آمین)
الغرض اللہ تعالیٰ کے ہاں وہی عمل کام آئے گا جو صالح نیت سے یعنی محض رضائے الہی کے لیے کیا گیا ہو ، دین کی خاص اصطلاح میں اسی کا نام اخلاص ہے ۔
قرآن مجید میں مخلصوں اور غیر مخلصوں کی ایک مثال
قرآن پاک کی ذیل کی دو آیتوں میں صدقات و خیرات کرنے والے دو قسم کے آدمیوں کا ذکر کیا گیا ہے ، ایک وہ لوگ جو مثلاً دنیا کے دکھاوے کے لیے اپنا مال مصارفِ خیر میں صرف کرتے ہیں اور دوسرے وہ جو محض اللہ کی رضا جوئی کی نیت سے غریبوں ، مسکینوں اور حاجت مندوں کی مدد کرتے ہیں ، ان دونوں گروہوں کے ظاہری عمل میں قطعی یک رنگی ہے اور ظاہر ہے کہ آنکھ ان کے درمیان کسی فرق کا حکم نہیں کر سکتی لیکن قرآن پاک بتلاتا ہے کہ چونکہ ان کی نیتیں مختلف ہیں اس لیے ان دونوں کے عمل کے نتیجے بھی مختلف ہیں ، ایک کا عمل سراسر برکت ہے اور دوسرے کا بالکل اکارت :
كَالَّذِي يُنفِقُ مَالَهُ رِئَاءَ النَّاسِ وَلَا يُؤْمِنُ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۖ فَمَثَلُهُ كَمَثَلِ صَفْوَانٍ عَلَيْهِ تُرَابٌ فَأَصَابَهُ وَابِلٌ فَتَرَكَهُ صَلْدًا ۖ لَّا يَقْدِرُونَ عَلَىٰ شَيْءٍ مِّمَّا كَسَبُوا ۗوَاللَّـهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ
اُس شخص کی طرح جو اپنا مال لوگوں کے دکھاوے کے لیے خرچ کرتا ہے ، اور اللہ اور یومِ آخر پر ایمان نہیں رکھتا تو اس کی مثال بالکل ایسی ہے جیسے پتھر کی ایک چٹان ہو جس پر کچھ مٹی آ گئی ہو ، (اور اس پر کچھ سبزہ جم آئے) پھر اس پر زوروں کی بارش گرے جو اس کو بالکل صاف کر دے ، تو ایسے ریا کار لوگ اپنی کمائی کا کچھ بھی پھل نہ لے سکیں گے اور ان منکر لوگوں کو اللہ اپنی ہدایت اور اسکے میٹھے پھل سے محروم ہی رکھے گا ۔
وَمَثَلُ الَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّـهِ وَتَثْبِيتًا مِّنْ أَنفُسِهِمْ كَمَثَلِ جَنَّةٍ بِرَبْوَةٍ أَصَابَهَا وَابِلٌ فَآتَتْ أُكُلَهَا ضِعْفَيْنِ
اور اُن لوگوں کی مثال جو محض اللہ کی رضا جوئی کے لیے اور اپنے نفسوں کو ایثار و انفاق اور راہِ خدا میں قربانی کا خوگر بنانے کے لیے اپنے مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اُس پھولنے پھلنے والے باغ کی سی ہے جو ٹیکری پر واقع ہو اُس پر جب زوروں کی بارش ہو تو دو گنا چوگنا پھل لائے ۔
تو اگرچہ ان دونوں نے بظاہر یکساں طور پر اپنا مال غریبوں ، مسکینوں اور حاجت مندوں پر خرچ کیا ، مگر چونکہ ایک کی نیت محض دکھاوے کی تھی اس لیے لوگوں کے دیکھ لینے یا زیادہ سے زیادہ اُن کی وقتی داد و تحسین کے سوا اس کو کچھ حاصل نہ ہوا ، کیوں کہ اس کی غرض اس انفاق سے اس کے سوا کچھ اور تھی ہی نہیں ۔۔۔ لیکن دوسرے نے چونکہ اس ایثار و انفاق سے صرف اللہ کی رضا مندی اور اس کا فضل و کرم چاہا تھا اس لیے اللہ نے اس کو اس کی نیت کے مطابق پھل دیا ۔
بس یہی وہ سنتُ اللہ اور قانون خداوندی ہے جس کا اعلان رسول اللہ ﷺ نے اس حدیث میں فرمایا ہے ۔
اس دنیا میں صرف ظاہر پر تمام فیصلے کئے جاتے ہیں اور آخرت میں نیتوں پر کئے جائیں گے ۔
یہ عالم جس میں ہم ہیں اور ہم کو جس میں کام کرنے کا موقع دیا گیا ہے “عالمِ ظاہر” اور “عالم، شہادت” ہے اور ہمارے حواس و ادراکات کا دائرہ بھی یہاں صرف ظاہر اور مظاہر ہی تک محدود ہے ، یعنی یہاں ہم ہر شخص کا صرف ظاہر چال چلن دیکھ کر ہی اس کے متعلق اچھی یا بُری رائے قائم کر سکتے ہیں ، اور اسی کی بنیاد پر اس کے ساتھ معاملہ کر سکتے ہیں ، ظاہری اعمال پر سے ان کی نیتوں ، دل کے بھیدوں اور سینوں کے رازوں کے دریافت کرنے سے ہم قاصر ہیں اسی لیے حضرت فاروق اعظمؓ نے فرمایا : نَحْنُ نَحْكُمُ بِالظَّاهِرِ وَاللهُ يَتَوَلَّى السَّرَائِر (یعنی ہمارا کام ظاہر پر حکم لگانا ہے اور مخفی راز اللہ کے سپرد ہیں) لیکن عالمِ آخرت میں فیصلہ کرنے والا اللہ تعالیٰ علام الغیوب ہو گا اور وہاں اس کافیصلہ نیتوں اور دل کے ارادوں کے لحاظ سے ہو گا ، گویا احکام کے بارے میں جس طرح یہاں ظاہری اعمال اصل ہیں اور کسی کی نیت پر یہاں کوئی فیصلہ نہیں کیا جاتا ، اسی طرح وہاں معاملہ اس کے برعکس ہو گا ، اور حق تعالیٰ کا فیصلہ نیتوں پر ہو گا ، اور ظاہری اعمال کو ان کے تابع رکھا جائے گا ۔
حدیث کی خصوصی اہمیت
یہ حدیث اُن “جوامع الکلم” میں سے یعنی رسول اللہ ﷺ کے اُن مختصر ، مگر جامع اور وسیع المعنی ارشادات میں سے ہے جو مختصر ہونے کے باوجود دین کے کسی بڑے اہم حصہ کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہیں اور “دریا بکوزہ” کے مصداق ہیں ، یہاں تک کہ بعض ائمہ نے کہا ہے کہ“اسلام” کا ایک تہائی حصہ اس حدیث میں آ گیا ہے اور واقعہ یہ ہے کہ جو کچھ ان ائمہ نے فرمایا مبالغہ نہیں ہے بلکہ عین حقیقت ہے ، کیوں کہ اصولی طور پر اسلام کے تین ہی شعبے ہیں ۔ ایمان (یعنی اعتقادیات) اعمال اور اخلاص ، چوں کہ یہ حدیث اخلاص کے پورے شعبہ پر حاوی ہے اس لیے کہا جاتا ہے کہ اسلام کا ایک تہائی حصہ اس میں آ گیا ۔۔۔ اور پھر اخلاص وہ چیز ہے جس کی ضرورت ہر کام میں اور ہر قدم پر ہے ، خاص کر جب بندہ کوئی اچھا سلسلہ شروع کرے خواہ وہ علمی ہو یا عملی تو وہ اس کا حاجت مند ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد اس کے سامنے ہو ، اس لئے بعض اکابر نے اپنی مؤلفات کو اسی حدیث سے شروع کرنا بہتر سمجھا ہے چناں چہ امام بخاری نے اپنی “جامع صحیح” کو اور ان کے بعد امام بغوی نے “مصابیح” کو اور اسی حدیث سے شروع کیا ہے ، گویا اسی کو “فاتحۃ الکتاب” بنایا ہے اور حافظ الحدیث ابن مہدیٰ سے منقول ہے کہ جو شخص کوئی دینی کتاب تصنیف کرے اچھا ہو کہ وہ اسی حدیث سے اپنی کتاب کا آغاز کرے (آگے فرمایا) اور اگر میں کوئی کتاب لکھوں تو اس کے ہر باب کو اسی حدیث پاک سے اپنی اس کتاب کا آغاز کیا ہے ، اللہ تعالیٰ بخیر اتمام کی توفیق دے اور قبول فرمائے نیز اس ناچیز کو اور کتاب کے تمام ناظرین کو اخلاص و حسنِ نیت نصیب فرمائے ۔
(اس کے بعد ایک خاص ترتیب سے وہ حدیثیں درج ہوں گی جن میں رسول اللہ ﷺ نے ایمان و اسلام کا یا ان کے ارکان اور شعبوں کا یا ان کے لوازم و شرائط کا یا ان کے برکات و ثمرات کا یا ان کے مفسدات و مناقضات کا ذکر فرمایا ہے ۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے “حدیث جبرئیل” درج کی جا رہی ہے جو اصولی طور پر دین کے سارے شعبوں پر حاوی ہونے کی وجہ سے “ام السنہ” کہی جاتی ہے)
تشریح
حدیث کا جو ترجمہ اوپر کیا گیا ہے وہ خود مطلب خیز ہے اور نفسِ مفہوم کے بیان کے لیے اس کے بعد کسی مزید تشریح کی حاجت نہیں ، لیکن اس کی خصوصی اہمیت کا تقاضہ ہے کہ اس کے مطالب و فوائد پر کچھ اور بھی لکھا جائے ۔
حدیث کا اصل منشاء امت پر اس حقیقت کو واضح کرنا ہے کہ تمام اعمال کے صلاح و فساد اور مقبولیت و مردودیت کا مدار نیت پر ہے یعنی عملِ صالح وہی ہو گا اور اُسی کی اللہ کے یہاں قدر و قیمت ہو گی جو صالح نیت سے کیا گیا ہو اور جو “عملِ صالح” کسی بُری غرض اور فاسد نیت سے کیا گیا ہو وہ صالح اور مقبول نہ ہو گا ، بلکہ نیت کے مطابق فاسد اور مردود ہو گا ، اگرچہ ظاہری نظر میں “صالح” ہی معلوم ہو ۔۔۔ حاصل یہ کہ اللہ تعالیٰ عمل کے ساتھ نیت کا اور ظاہر کے ساتھ باطن کا بھی دیکھنے والا ہے اس کے یہاں ہر عمل کی قدر و قیمت عمل کرنے والے کی نیت کے حساب سے لگائی جائے گی ۔
ایک غلط فہمی
کسی کو اس سے یہ غلط فہمی نہ ہو کہ جب دار و مدار نیت ہی پر ہو تو اگر برے کام بھی کسی اچھی نیت سے کئے جائیں تو وہ اعمال صالحہ ہو جائیں گے اور ان پر بھی ثواب ملے گا مثلاً اگر کوئی شخص اس نیت سے چوری اور ڈاکہ زنی کرے کہ جو مال اس سے حاصل ہو گا اُس سے وہ غریبوں اور مسکینوں کی مدد کرے گا تو وہ بھی ثواب کا مستحق ہو سکے گا ۔
اصل بات یہ ہے کہ جو کام فی نفسہ برے ہیں اور جن سے اللہ اور اس کے رسول نے منع فرمایا ہے اُن میں حُسنِ نیت کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا ، وہ تو بہر حال قبیح اور موجبِ غضبِ الہی ہیں ، بلکہ ان کے ساتھ اچھی نیت کرنا اور اُن پر ثواب کی امید رکھنا شاید انکی مزید قباحت کا اور سزا میں زیادتی کا باعث ہو ، کیوں کہ یہ اللہ کے دین کے ساتھ ایک قسم کا تلاعب (کھیل) ہو گا ، بلکہ حدیث کا منشا “اعمال صالحہ” کے متعلق یہ جتلانا ہے کہ وہ بھی اگر کسی بری نیت سے کئے جائیں گے تو پھر “اعمال صالحہ” نہیں رہیں گے ، بلکہ بُری نیت کی وجہ سے انکا انجام بُرا ہی ہو گا ۔ مثلاً جو شخص نماز نہایت خشوع و خضوع کے ساتھ پڑھتا ہے جس کو ہم اعلیٰ درجہ کا عمل صالح سمجھتے ہیں وہ اگر یہ خشوع و خضوع اس لیے کرتا ہے کہ لوگ اس کی دینداری اور خدا پرستی کے متعلق اچھی رائے قائم کریں اور اس کا اعزاز و اکرام کیا جائے ، تو اس حدیث کی رو سے اس کی یہ خشوع و خضوع والی نماز اللہ کے یہاں کوئی قدر و قیمت نہیں رکھتی ، یا مثلاً ایک شخص دار الکفر سے دار الایمان کی طرف ہجرت کرتا ہے اور اس کے لیے ہجرت کی ساری مشقتیں اور مصیبتیں سہتا ہے لیکن اس کی غرض اس ہجرت سے اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی نہیں بلکہ کوئی اور دُنیاوی غرض پوشیدہ ہے ، مثلاً دار الہجرت میں رہنے والی کسی عورت سے نکاح کی خواہش اس ہجرت کے لیے محرک ہوئی ہے تو یہ ہجرت ہجرت اسلام نہ ہو گی اور اللہ کے ہاں اس کا کوئی اجر نہ ہو گا بلکہ اُلٹا گناہ ہو گا بس یہی ہے اس حدیث کا اصل منشاء ۔
بڑے سے بڑا عمل بھی اگر اخلاص اور للہیت سے خالی ہو گا تو وہ جہنم ہی میں لے جائے گا ۔
ایک حدیث میں وارد ہوا ہے کہ قیامت کے دن سب سے پہلے تین شخصوں کے متعلق عدالت الہیہ سے جہنم کا فیصلہ سنایا جائے گا ، سب سے پہلے ایسے شخص کی پیشی ہو گی جو جہاد میں شہید ہوا ہو گا ، وہ جب حاضرِ عدالت ہو گا تو اللہ تعالیٰ پہلے اس کو اپنی نعمتیں جتائے گا اور یاد دلائے گا وہ اس کو یاد آ جائیں گی پھر اس سے فرمایا جائے گا بتلا تو نے ان نعمتوں کا کیا حق ادا کیا ؟ اور کیا عمل کئے ؟ وہ عرض کرے گا خدا وند ! میں نے تیری راہ میں جہاد کیا اور تیری رضا طلبی میں جانِ عزیز تک قربان کر دی ، حق تعالیٰ فرمائے گا تو جھوٹ بولتا ہے تو نے تو صرف اس لیے جہاد کیا تھا کہ تو بہادر مشہور ہو ، تو دنیا میں تیری بہادری کا چرچا ہو چکا ، پھر اللہ کے حکم سے اس کو اوندھے منہ جہنم میں ڈال دیا جائے گا ، اسی طرح ایک “عالم دین” اور “عالمِ قرآن” حاضرِ عدالت کیا جائے گا اور اس سے بھی اللہ تعالیٰ پوچھے گا کہ تو نے کیا اعمال کئے ؟ وہ کہے گا میں نے تیرے دین اور تیری کتاب کے علم کو پڑھایا ، اور یہ سب تیری رضا کے لیے کیا ، حق تعالیٰ فرمائے گا تو جھوٹا ہے ، تو نے تو عالم ، قاری ، اور مولانا کہلانے کے لیے یہ سب کچھ کیا تھا پھر بحکمِ خداوندی اس کو بھی دوزخ میں ڈال دیا جائے گا ۔
پھر اس کے بعد ایک شخص پیش ہو گا جس کو اللہ نے بہت کچھ مال و دولت دیا ہو گا ، اس سے بھی سوال کیا جائے گا کہ تو نے کیا کیا ؟ وہ عرض کرے گا کہ خدا وندا میں نے خیر کا کوئی شعبہ ایسا نہیں چھوڑا جس میں تیری رضا جوئی کے لیے اپنا مال نہ خرچ کیا ہو ، حق تعالیٰ فرمائے گا تو جھوٹا ہے تو نے تو صرف اس لیے مال خرچ کیا تھا کہ دُنیا تجھ کو سخی کہے تو دنیا میں تیری سخاوت کا خوب چرچا ہو لیا ، پھر اس کو بھی اوندھے منہ جہنم میں ڈال دیا جائے گا ۔ (مسلم)
(اللہ پناہ میں رکھے نیتوں کے فساد بالخصوص ریا و نفاق سے ۔ آمین)
الغرض اللہ تعالیٰ کے ہاں وہی عمل کام آئے گا جو صالح نیت سے یعنی محض رضائے الہی کے لیے کیا گیا ہو ، دین کی خاص اصطلاح میں اسی کا نام اخلاص ہے ۔
قرآن مجید میں مخلصوں اور غیر مخلصوں کی ایک مثال
قرآن پاک کی ذیل کی دو آیتوں میں صدقات و خیرات کرنے والے دو قسم کے آدمیوں کا ذکر کیا گیا ہے ، ایک وہ لوگ جو مثلاً دنیا کے دکھاوے کے لیے اپنا مال مصارفِ خیر میں صرف کرتے ہیں اور دوسرے وہ جو محض اللہ کی رضا جوئی کی نیت سے غریبوں ، مسکینوں اور حاجت مندوں کی مدد کرتے ہیں ، ان دونوں گروہوں کے ظاہری عمل میں قطعی یک رنگی ہے اور ظاہر ہے کہ آنکھ ان کے درمیان کسی فرق کا حکم نہیں کر سکتی لیکن قرآن پاک بتلاتا ہے کہ چونکہ ان کی نیتیں مختلف ہیں اس لیے ان دونوں کے عمل کے نتیجے بھی مختلف ہیں ، ایک کا عمل سراسر برکت ہے اور دوسرے کا بالکل اکارت :
كَالَّذِي يُنفِقُ مَالَهُ رِئَاءَ النَّاسِ وَلَا يُؤْمِنُ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۖ فَمَثَلُهُ كَمَثَلِ صَفْوَانٍ عَلَيْهِ تُرَابٌ فَأَصَابَهُ وَابِلٌ فَتَرَكَهُ صَلْدًا ۖ لَّا يَقْدِرُونَ عَلَىٰ شَيْءٍ مِّمَّا كَسَبُوا ۗوَاللَّـهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ
اُس شخص کی طرح جو اپنا مال لوگوں کے دکھاوے کے لیے خرچ کرتا ہے ، اور اللہ اور یومِ آخر پر ایمان نہیں رکھتا تو اس کی مثال بالکل ایسی ہے جیسے پتھر کی ایک چٹان ہو جس پر کچھ مٹی آ گئی ہو ، (اور اس پر کچھ سبزہ جم آئے) پھر اس پر زوروں کی بارش گرے جو اس کو بالکل صاف کر دے ، تو ایسے ریا کار لوگ اپنی کمائی کا کچھ بھی پھل نہ لے سکیں گے اور ان منکر لوگوں کو اللہ اپنی ہدایت اور اسکے میٹھے پھل سے محروم ہی رکھے گا ۔
وَمَثَلُ الَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّـهِ وَتَثْبِيتًا مِّنْ أَنفُسِهِمْ كَمَثَلِ جَنَّةٍ بِرَبْوَةٍ أَصَابَهَا وَابِلٌ فَآتَتْ أُكُلَهَا ضِعْفَيْنِ
اور اُن لوگوں کی مثال جو محض اللہ کی رضا جوئی کے لیے اور اپنے نفسوں کو ایثار و انفاق اور راہِ خدا میں قربانی کا خوگر بنانے کے لیے اپنے مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اُس پھولنے پھلنے والے باغ کی سی ہے جو ٹیکری پر واقع ہو اُس پر جب زوروں کی بارش ہو تو دو گنا چوگنا پھل لائے ۔
تو اگرچہ ان دونوں نے بظاہر یکساں طور پر اپنا مال غریبوں ، مسکینوں اور حاجت مندوں پر خرچ کیا ، مگر چونکہ ایک کی نیت محض دکھاوے کی تھی اس لیے لوگوں کے دیکھ لینے یا زیادہ سے زیادہ اُن کی وقتی داد و تحسین کے سوا اس کو کچھ حاصل نہ ہوا ، کیوں کہ اس کی غرض اس انفاق سے اس کے سوا کچھ اور تھی ہی نہیں ۔۔۔ لیکن دوسرے نے چونکہ اس ایثار و انفاق سے صرف اللہ کی رضا مندی اور اس کا فضل و کرم چاہا تھا اس لیے اللہ نے اس کو اس کی نیت کے مطابق پھل دیا ۔
بس یہی وہ سنتُ اللہ اور قانون خداوندی ہے جس کا اعلان رسول اللہ ﷺ نے اس حدیث میں فرمایا ہے ۔
اس دنیا میں صرف ظاہر پر تمام فیصلے کئے جاتے ہیں اور آخرت میں نیتوں پر کئے جائیں گے ۔
یہ عالم جس میں ہم ہیں اور ہم کو جس میں کام کرنے کا موقع دیا گیا ہے “عالمِ ظاہر” اور “عالم، شہادت” ہے اور ہمارے حواس و ادراکات کا دائرہ بھی یہاں صرف ظاہر اور مظاہر ہی تک محدود ہے ، یعنی یہاں ہم ہر شخص کا صرف ظاہر چال چلن دیکھ کر ہی اس کے متعلق اچھی یا بُری رائے قائم کر سکتے ہیں ، اور اسی کی بنیاد پر اس کے ساتھ معاملہ کر سکتے ہیں ، ظاہری اعمال پر سے ان کی نیتوں ، دل کے بھیدوں اور سینوں کے رازوں کے دریافت کرنے سے ہم قاصر ہیں اسی لیے حضرت فاروق اعظمؓ نے فرمایا : نَحْنُ نَحْكُمُ بِالظَّاهِرِ وَاللهُ يَتَوَلَّى السَّرَائِر (یعنی ہمارا کام ظاہر پر حکم لگانا ہے اور مخفی راز اللہ کے سپرد ہیں) لیکن عالمِ آخرت میں فیصلہ کرنے والا اللہ تعالیٰ علام الغیوب ہو گا اور وہاں اس کافیصلہ نیتوں اور دل کے ارادوں کے لحاظ سے ہو گا ، گویا احکام کے بارے میں جس طرح یہاں ظاہری اعمال اصل ہیں اور کسی کی نیت پر یہاں کوئی فیصلہ نہیں کیا جاتا ، اسی طرح وہاں معاملہ اس کے برعکس ہو گا ، اور حق تعالیٰ کا فیصلہ نیتوں پر ہو گا ، اور ظاہری اعمال کو ان کے تابع رکھا جائے گا ۔
حدیث کی خصوصی اہمیت
یہ حدیث اُن “جوامع الکلم” میں سے یعنی رسول اللہ ﷺ کے اُن مختصر ، مگر جامع اور وسیع المعنی ارشادات میں سے ہے جو مختصر ہونے کے باوجود دین کے کسی بڑے اہم حصہ کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہیں اور “دریا بکوزہ” کے مصداق ہیں ، یہاں تک کہ بعض ائمہ نے کہا ہے کہ“اسلام” کا ایک تہائی حصہ اس حدیث میں آ گیا ہے اور واقعہ یہ ہے کہ جو کچھ ان ائمہ نے فرمایا مبالغہ نہیں ہے بلکہ عین حقیقت ہے ، کیوں کہ اصولی طور پر اسلام کے تین ہی شعبے ہیں ۔ ایمان (یعنی اعتقادیات) اعمال اور اخلاص ، چوں کہ یہ حدیث اخلاص کے پورے شعبہ پر حاوی ہے اس لیے کہا جاتا ہے کہ اسلام کا ایک تہائی حصہ اس میں آ گیا ۔۔۔ اور پھر اخلاص وہ چیز ہے جس کی ضرورت ہر کام میں اور ہر قدم پر ہے ، خاص کر جب بندہ کوئی اچھا سلسلہ شروع کرے خواہ وہ علمی ہو یا عملی تو وہ اس کا حاجت مند ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد اس کے سامنے ہو ، اس لئے بعض اکابر نے اپنی مؤلفات کو اسی حدیث سے شروع کرنا بہتر سمجھا ہے چناں چہ امام بخاری نے اپنی “جامع صحیح” کو اور ان کے بعد امام بغوی نے “مصابیح” کو اور اسی حدیث سے شروع کیا ہے ، گویا اسی کو “فاتحۃ الکتاب” بنایا ہے اور حافظ الحدیث ابن مہدیٰ سے منقول ہے کہ جو شخص کوئی دینی کتاب تصنیف کرے اچھا ہو کہ وہ اسی حدیث سے اپنی کتاب کا آغاز کرے (آگے فرمایا) اور اگر میں کوئی کتاب لکھوں تو اس کے ہر باب کو اسی حدیث پاک سے اپنی اس کتاب کا آغاز کیا ہے ، اللہ تعالیٰ بخیر اتمام کی توفیق دے اور قبول فرمائے نیز اس ناچیز کو اور کتاب کے تمام ناظرین کو اخلاص و حسنِ نیت نصیب فرمائے ۔
(اس کے بعد ایک خاص ترتیب سے وہ حدیثیں درج ہوں گی جن میں رسول اللہ ﷺ نے ایمان و اسلام کا یا ان کے ارکان اور شعبوں کا یا ان کے لوازم و شرائط کا یا ان کے برکات و ثمرات کا یا ان کے مفسدات و مناقضات کا ذکر فرمایا ہے ۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے “حدیث جبرئیل” درج کی جا رہی ہے جو اصولی طور پر دین کے سارے شعبوں پر حاوی ہونے کی وجہ سے “ام السنہ” کہی جاتی ہے)
عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِىَ اللهُ عَنْهُ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَقُوْلُ «إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ، وَإِنَّمَا لِامْرِئٍ مَا نَوَى، فَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ فَهِجْرَتُهُ إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ، وَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَى دُنْيَا يُصِيبُهَا، أَوِ امْرَأَةٍ يَتَزَوَّجُهَا، فَهِجْرَتُهُ إِلَى مَا هَاجَرَ إِلَيْهِ ۔

তাহকীক:
হাদীস নং: ২
کتاب الایمان
اسلام ، ایمان اور احسان  (حدیث جبرئیل)
حضرت عمر بن الخطابؓ سے روایت ہے کہ ہم ایک دن رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر تھے (اسی حدیث کی ایک دوسری روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت مجلسِ مبارک میں صحابہ کا ایک مجمع تھا اور حضرت اُن سے خطاب فرما رہے تھے ۔ فتح) کہ اچانک ایک شخص سامنے سے نمودار ہوا ، جس کے کپڑے نہایت سفید اور بال بہت ہی زیادہ سیاہ تھے ۔ اور اُس شخص پر سفر کا کوئی اثر بھی معلوم نہیں ہوتا تھا ، (جس سے خیال ہوتا تھا کہ یہ کوئی بیرونی شخص نہیں ہے) اور اسی کے ساتھ یہ بات بھی تھی کہ ہم میں سے کوئی شخص اس نو وارد کو پہچانتا نہ تھا (جس سے خیال ہوتا تھا کہ یہ کوئی باہری آدمی ہے ، تو یہ حاضرین کے حلقہ میں سے گزرتا ہوا آیا) یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ کے سامنے آ کر دو زانو اس طرح بیٹھ گیا کہ اپنے گھٹنے آنحضرت کے گھٹنوں سے ملا دئیے ، اور اپنے ہاتھ حضور کی رانوں پر رکھ دئیے ار کہا اے محمد! مجھے بتلائیے کہ “اسلام” کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا “اسلام” یہ ہے (یعنی اس کے ارکان یہ ہیں کہ دل و زبان سے) تم یہ شہادت ادا کرو کہ “اللہ” کے سوا کوئی “الہ” (کوئی ذات عبادت و بندگی کے لائق) نہیں اور محمد اس کے رسول ہیں ، اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو ، اور ماہ رمضان کے روزے رکھو ، اور اگر حج بیتُ اللہ کی تم استطاعت رکھتے ہو تو حج کرو ، اس نو وارد سائل نے آپ کا یہ جواب سن کر کہا ، آپ نے سچ کہا ۔ راوئ حدیث حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ ہم کو اس پر تعجب ہوا کہ یہ شخص پوچھتا بھی اور پھر خود تصدیق و تصویب بھی کرتا جاتا ہے ، اس کے بعد اس شخص نے عرض کیا اب مجھے بتلائیے کہ “ایمان” کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا ایمان یہ ہے کہ تم اللہ کو اور اُس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں اور یوم آخر یعنی روزِ قیامت کو حق جانو اور حق مانو اور ہر خیر و شر کی تقدیر کو بھی حق جانو اور حق مانو ، (یہ سن کر بھی) اس نے کہا ، آپ نے سچ کہا ۔ اس کے بعد اس شخص نے عرض کیا ، مجھے بتلائیے کہ احسان کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا احسان یہ ہے کہ اللہ کی عبادت و بندگی تم اس طرح کرو گویا تم اس کو دیکھ رہے ہو ، کیوں کہ اگرچہ تماس کو نہیں دیکھتے ہو پر وہ تو تم کو دیکھتا ہی ہے ، پھر اُس شخص نے عرض کیا مجھے قیامت کی بابت بتلائیے (کہ وہ کب واقع ہو گی) آپ نے فرمایا کہ جس سے یہ سوال کیا جا رہا ہے وہ اس کو سوال کرنے والے سے زیادہ نہیں جانتا ۔ پھر اس نے عرض کیا تو مجھے اس کی کچھ نشانیاں ہی بتلائیے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا (اس کی ایک نشانی تو یہ ہے کہ) لونڈی اپنی مالکہ اور آقا جو جنے گی ، (اور دوسری نشانی یہ ہے کہ) تم دیکھو گے کہ جن کے پاؤں میں جوتا اور تن پر کپڑا نہیں ہے ، اور جو تہی دست اور بکریاں چرانے والے ہیں وہ بڑی بڑی عمارتیں بنانے لگیں گے اور اس میں ایک دوسرے پر بازی لے جانے کی کوشش کریں گے ، حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ یہ باتیں کر کے یہ نو وارد شخص چلا گیا ، پھر مجھے کچھ عرصہ گزر گیا ، تو حضور ﷺ نے مجھ سے فرمایا ، اے عمر! کیا تمہیں پتہ ہے کہ وہ سوال کرنے والا شخص کون تھا ؟ میں نے عرض کیا ، اللہ اور اس کا رسول ہی زیادہ جاننے والے ہیں ، آپ نے فرمایا کہ وہ جبرئیل تھے ، تمہاری اس مجلس میں اس لیے آئے تھے کہ تم لوگوں کو تمہارا دین سکھا دیں ۔
(یہ حدیث صحیح مسلم کی ہے اور صحیح بخاری و مسلم میں یہی واقعہ حضرت ابو ہریرہؓ کی روایت سے بھی مروی ہے)
تشریح
اس حدیث میں سائل کے سوال کے جواب میں آنحضرتﷺ نے پانچ امور کا بیان فرمایا ہے ، اسلام ، دوسرے ایمان ، تیسرے احسان ، چوتھے قیامت کے متعلق انتباہ کہک اس کا وقتِ خاص اللہ کے سوا کسی کے علم میں نہیں ، اور پانچویں قیامت سے پہلے ظاہر ہونے والی بعض علامات ۔۔۔ ان پانچوں چیزوں کے متعلق جو کچھ اس حدیث میں بیان فرمایا ہے وہ تشریح طلب ہے ۔
اسلام ۔۔۔۔ کے اصل معنی ہیں اپنے کو کسی کے سپرد کر دینا ، اور بالکل اُسی کے تابع فرمان ہو جانا ۔۔۔ اور اللہ کے بھیجے ہوئے اور اس کے رسولوں کے لائے ہوئے “دین” کا نام اسلام اسی لیے ہے کہ اُس میں بندہ اپنے آپ کو بالکل مولا کے سپرد کر دیتا ہے ، اور اس کی مکمل اطاعت کو اپنا دستور زندگی قرار دے لیتا ہے ، اور یہی اصل حقیقت “دینِ اسلام” کی اور اسی کا مطالبہ ہے ہم سے ۔ فرمایا گیا “فَإِلَـٰهُكُمْ إِلَـٰهٌ وَاحِدٌ فَلَهُ أَسْلِمُوا” (حج ۳۴:۲۲) (تمہارا اللہ وہی الٰہ واحد ہے ، لہذا تم اسی کے “مسلم” یعنی مطیع ہو جاؤ) اور اسی اسلام کے متعلق فرمایا گیا ہے “وَمَنْ أَحْسَنُ دِينًا مِّمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّـهِ” (نساء ۱۲۵:۴) (اور اس سے بہتر کون ہو سکتا ہے جس نے اپنے کو خدا کے سپرد کر دیا اور وہ اس طرح “مسلم بندہ” ہو گیا) اور اسی اسلام کے متعلق اعلان فرمایا گیا ہے “وَمَن يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَن يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ” (آلِ عمران ۸۵:۳) (یعنی جس نے “اسلام” کے سوا کوئی اور دین اختیار کرنا چاہا تو وہ ہرگز قبول نہ ہو گا اور وہ آدمی آخرت میں بڑے گھاٹے اور ٹوٹے والوں میں سے ہو گا) بہر حال “اسلام” کی اصل روح اور حقیقت یہی ہے کہ بندہ اپنے کو کلی طور پر اللہ کے سپرد کر دے اور ہر پہلو سے اس کا مطیع فرمان بن جائے ۔
پھر انبیاء علیہم السلام کی لائی ہوئی شریعتوں میں اس “اسلام” کے لیے کچھ مخصوص ارکان بھی ہوتے ہیں جن کی حیثیت اس “حقیقت اسلام” کے “پیکر محسوس” کی سی ہوتی ہے ، ااور اس حقیقت کا نشوونما اور اس کی تازگی بھی انہی سے ہوتی ہے ، اور وہ صرف تعبّدی امور وتے ہیں ، اور ظاہری نظر انہی “ارکان” کے ذریعہ فرق و امتیاز کرتی ہے ۔ ان لوگوں کے درمیان جنہوں نے اپنا دستورِ حیات “اسلام” کو بنایا ہے ، اور ان کے درمیان جنہوں نے نہیں بنایا ۔
تو خاتم الانبیاء حضرت محمدﷺ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے “اسلام” کا جو آخری اور مکمل دستور ہمارے پاس آیا ہے اس میں توحید خداوندی اور رسالت محمدی کی شہادت ، نماز ، زکوٰۃ ، روزہ اور حج بیت اللہ کو “ارکانِ اسلام” قرار دیا گیا ہے ۔ ایک دوسری حدیث میں وارد ہوا ہے “بُنِىَ الْاِسْلَامُ عَلىٰ خَمْسٍ الخ” (یعنی اسلام کی بنیاد ان پانچ چیزوں پر ہے)
بہر حال یہ پانچ چیزیں جن کو آپ نے یہاں اس حدیث میں “اسلام” کے جواب میں بیان فرمایا “ارکانِ اسلام” ہیں اور یہی گویا “اسلام” کے لیے “پیکرِ محسوس” ہیں ۔ اسی واسطے اس حدیث میں انہی کے ذریعہ اسلام کا تعارف کرایا گیا ہے ۔
ایمان ۔۔۔ کے اصل معنی کسی کے اعتبار اور اعتماد پر کسی بات کو سچ ماننے کے ہیں اور دین کی خاص اصطلاح میں ایمان کی حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے پیغمبر ایسی حقیقتوں کے متعلق جو ہمارے حواس اور آلات ادراک کے حدود سے ما وراء ہوں جو کچھ بتلائیں اور ہمارے پاس جو علم اور جو ہدایت اللہ تعالیٰ کی طرف سے لائیں ہم ان کو سچا مان کر اس میں ان کی تصدیق کریں اور اس کو حق مان کر قبول کر لیں ۔ بہر حال شرعی ایمان کا تعلق اصولاً امور غیب ہی سے ہوتا ہے جن کو ہم اپنے آلاتِ احساس و ادراک (آنکھ ، ناک ، کان وغیرہ) کے ذریعہ معلوم نہیں کر سکتے ۔ مثلاً اللہ اور اس کی صفات اور اس کے احکام اور رسولوں کی رسالت اور ان پر وحی کی آمد ، اور مبداء و معاد کے متعلق ان کی اطلاعات ، وغیرہ وغیرہ تو اس قسم کی جتنی باتیں اللہ کے رسول نے بیان فرمائیں ان سب کو ان کی سچائی کے اعتماد پر حق جان کر ماننے کا نام اصطلاح شریعت میں ایمان ہے ، اور پیغمبر کی اس قسم کی کسی ایک بات کو نہ مانن یا اس کو حق نہ سمجھنا ہی اس کی تکذیب ہے ، جو آدمی کو ایمان سے دائرہ سے نکال کر کفر کی سرحد میں داخل کر دیتی ہے پس آدمی کے مؤمن ہونے کے لیے یہ ضروری ہے کہ “كُلُّ مَا جَاءَ بِهِ الرَّسُوْلُ مِنْ عِنْدِ اللهِ” کی (یعنی تمام ان چیزوں اور حقیقتوں کی جو اللہ کے پیغمبر اللہ کی طرف سے لائے) تصدیق کی جائے اور ان کو حق مان کر قبول کیا جائے ۔۔۔ لیکن ان سب چیزوں کی پوری تفصیل معلوم ہونی ضروری نہیں ہے ، بلکہ نفسِ ایمان کے لیے یہ اجمالی تصدیق بھی کافی ہے ، البتہ کچھ خاص اہل اور بنیادی چیزیں ایسی بھی ہیں کہ ایمانی دائرہ میں آنے کے لیے ان کی تصدیق تعین کے ساتھ ضروری ہے ، چنانچہ حدیث زیر تشریح میں ایمان سے متعلق سوال کے جعاب میں جن امور کا ذکر فرمایا گیا ہے (یعنی اللہ ، ملائکہ ، اللہ کی کتابیں ، اللہ کے رسول ، روزِ قیامت اور ہر خیر و شر کی تقدیر) تو ایمانیات میں سے یہ وہی اہم اور بنیادی امور ہیں جن پر تعین کے ساتھ ایمان لانا ضروری ہے ، اور اسی واسطے آنحضرتﷺ نے ان کا ذکر صراحۃً اور تعین کے ساتھ فرمایا ، اور قرآنِ پاک میں بھی یہ ایمانی امور اسی تفصیل اور تعین کے ساتھ مذکور ہیں ، سورہ بقرہ کے آخری رکوع میں ارشاد ہے :آمَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنزِلَ إِلَيْهِ مِن رَّبِّهِ وَالْمُؤْمِنُونَ (۱) (بقرہ ۲۸۵:۲)
وَمَن يَكْفُرْ بِاللَّـهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا بَعِيدًا (۲) (نساء ۱۳۶:۴)
ان امورِ ششگانہ میں سے “تقدیر خیر وہ شر” کا ذکر قرآن پاک میں اگرچہ ان ایمانیات کے ساتھ ان آیات میں نہیں آیا ہے ، لیکن دوسرے موقع پر قرآن پاک نے اس کو بھی صراحۃً بیان فرمایا ہے ۔
ایک اور جگہ ارشاد ہے :
قُلْ كُلٌّ مِّنْ عِندِ اللَّـهِ (۳) (نساء ۷۸:۴)
اور دوسری جگہ ارشاد ہے :
فَمَن يُرِدِ اللَّـهُ أَن يَهْدِيَهُ يَشْرَحْ صَدْرَهُ لِلْإِسْلَامِ ۖ وَمَن يُرِدْ أَن يُضِلَّهُ يَجْعَلْ صَدْرَهُ ضَيِّقًا حَرَجًا(۴) (انعام ۱۲۵:۶)
اب مختصراً یہ بھی معلوم کرنا چاہئے کہ ان سب پر ایمان لانے کا کیا مطلب ہے ؟
سو اللہ پر ایمان لانے کا مطلب تو یہ ہے کہ اس کے موجود وحدہ لا شریک خالقِ کائنات اور رب العالمین ہونے کا یقین کیا جائے ، عیب و نقص کی ہر بات سے پاک ، ار ہر صفتِ کمال سے اس کو متصف سمجھا جائے ۔ اور ملائکہ پر ایمان لانا یہ ہے کہ مخلوقات میں ایک مستقل نوع کی حیثیت سے ان کے وجود کو حق مانا جائے اور یقین کیا جائے کہ وہ اللہ کی ایک پاکیزہ اور محترم مخلوق ہےبَلْ عِبَادٌ مُّكْرَمُونَ (۱) (انبیاء ۲۶:۲۱) جس میں شر اور شرارت اور عصیان و بغاوت کا عنصر ہی نہیں بلکہ ان کا کام صرف اللہ کی بندگی اور اطاعت ہے لَّا يَعْصُونَ اللَّـهَ مَا أَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ (۲) (تحریم ۶۶:۶) ان کے متعلق کام ہیں اور ان کی ڈیوٹیاں (فرائض) ہیں جن کو وہ خوبی سے انجام دیتے ہیں ۔
ملائکہ کے متعلق ایک شبہ اور اس کا ازالہ
ملائکہ کے وجود پر یہ شبہ کہ اگر وہ موجود ہوتے تو نظر آتے سخت جاہلانہ شبہ ہے ۔ دنیا میں کتنی ہی چیزیں ہیں جو باوجود موجود ہونے کے ہم کو نظر نہیں آتیں ، کیا زمانہ حال کی خورد بینوں کی ایجاد سے پہلے کسی نے پانی میں ، ہوا میں اور خون کے قطرہ میں وہ جراثیم دیکھے تھے جن کو خوردبین سے آج ہر آنکھ والا دیکھ سکتا ہے اور کیا کسی آلہ سے بھی ہم اپنی روح کو دیکھ پاتے ہیں ۔ تو جس طرح ہماری آنکھ خود اپنی روح کو دیکھنے سے اور بغیر خوردبین کے پانی وغیرہ کے جراثیم دیکھنے سے عاجز ہے ، اسی طرح فرشتوں کو دیکھنے سے بھی وہ قاصر ہے ۔۔۔ اور پھر کیا اس کی کوئی دلیل ہے کہ جس چیز کو ہم اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھ سکتے وہ موجود نہیں ہو سکتی ؟ کیا ہماری آنکھوں اور ہمارے حواس نے کل عالم موجودات کا احاطہ کر لیا ہے ؟ ایسی بات خاص کر اس زمانہ میں جب کہ روز روز نئے انکشافات ہو رہے ہیں ، کوئی بڑا احمق ہی کہہ سکتا ہے ، دراصل انسان کا علم اور اس کے علمی ذرائع بہت ہی ناقص اور محدود ہیں ۔ اسی کو قرآن مجید میں فرمایا گیا ہےوَمَا أُوتِيتُم مِّنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِيلًا (بنی اسرائیل ۸۵:۱۷)
اور اللہ کی کتابوں پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ یقین کیا جائے کہ اللہ پاک نے اپنے رسولوں کے ذریعہ وقتاً فوقتاً ہدایت نامے بھیجے ، ان میں سب سے آخر اور سب کا خاتم قرآن مجید ہے ۔ جو پہلی سب کتابوں کا مصدق اور مہیمن بھی ہے ، یعنی اُن کتابوں میں جتنی ایسی باتیں تھیں جن کی تعلیم و تبلیغ ہمیشہ اور ہر زمانہ میں ضروری ہوتی ہے وہ سب اس قرآن میں لے لی گئی ہیں ، گویا یہ تمام کتبِ سماویہ کے ضروری مضامین پر حاوی اور سب سے مستغنی کر دینے والی خدا کی آخری کتاب ہے اور چونکہ وہ کتابیں اب محفوظ بھی نہیں رہیں اس لئے اب صرف یہی کتاب ہدایت ہے جو سب کے قائم مقام اور سب سے زیادہ مکمل ہے اور زمانہ آخر تک اس کی حفاظت کی ذمہ داری اسی لیے خود اللہ تعالیٰ نے لی ہے إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ (حجر ۹:۱۵)
اور “اللہ کے رسولوں” پر ایمان لانا یہ ہے کہ اس واقعی حقیقت کا یقین کیا جائے کہ اللہ نے اپنے بندوں کی ہدایت و رہنمائی کے لیے وقتاً فوقتاً اور مختلف علاقوں میں اپنے برگزیدہ بندوں کو اپنی “ہدایت” اور اپنی رضامندی کا دستور دے کر بھیجا ہے ، اور انہوں نے پوری امانت و دیانت کے ساتھ خدا کا وہ پیغام بندوں کو پہنچا دیا ، اور لوگوں کو راہ راست پر لانے کی پوری پوری کوششیں کیں ، یہ سب پیغمبر اللہ کے برگزیدہ اور صادق بندے تھے (ان میں سے چند کے نام اور کچھ حالات بھی قرآن کریم میں ہم کو بتلائے گئے ہیں اور بہت سوں کے نہیں بتلائے گئے) مِنْهُم مَّن قَصَصْنَا عَلَيْكَ وَمِنْهُم مَّن لَّمْ نَقْصُصْ عَلَيْكَ (مؤمن ۷۸:۴۰)
بہر حال خدا کے ان سب رسولوں کی تصدیق کرنا اور بحیثیت پیغمبری ان کا پورا پورا احترام کرنا ایمان کے شرائط میں سے ہے ، اور اسی کے ساتھ اس پر بھی ایمان لانا ضروری ہے کہ اللہ نے اس سلسلہ نبوت و رسالت کو حضرت محمدﷺ پر ختم کر دیا ، آپ خاتم الانبیاء اور خدا کے آخری رسول ہیں اور اب قیامت تک پیدا ہونے والے انسانوں کے لئے نجات و فلاح آپ ہی کی اتباع اور آپ ہی کی ہدایت کی پیروی میں ہے ۔ صَلىَّ اللهُ وَسَلَّمَ عَلَيْهِ وَعَلىٰ سَائِرِ الْاَنْبِيَاءِ وَالْمُرْسَلِيْنَ وَعَلىٰ كُلِّ مَنِ اتَّبَعَهُمْ بِاِحْسَانٍ اِلىٰ يَوْمِ الدِّيْنِ ۔
اور “ایمان بالیوم الآخر” یہ ہے کہ اس حقیقت کا یقین کیا جائے کہ یہ دُنیا ایک دن قطعی طور پر فنا کر دی جائے گی اور اس کے بعد اللہ تعالیٰ اپنی خاص قدرت سے پھر سارے مُردوں کو جِلائے گا اور یہاں جس نے جیسا کچھ کیا ہے اسی کے مطابق جزا یا سزا اس کو دی جائے گی ۔
معلوم ہونا چاہیئے کہ چوں کہ دین و مذہب کے سارے نظام کی بنیاد اس حیثیت سے جزا و سزا ہی کے عقیدہ پر ہے کہ اگر آدمی اس کا قائل نہ ہو تو پھر وہ کسی دین و مذہب اور اس کی تعلیمات و ہدایات کو ماننے اور اس پر عمل کرنے ہی کی ضرورت کا قائل نہ ہو گا ، اس لیے ہر مذہب میں خواہ وہ انسانوں کا خود ساختہ ہو یا اللہ کا بھیجا ہوا ، “جزا و سزا” کو بطور بنیادی عقیدہ کے تسلیم کیا گیا ہے ۔ پھر انسانی دماغوں کے بنائے ہوئے مذاہب میں اس کی شکل تناسخ وغیرہ تجویز کی گئی ہے ، لیکن خدا کی طرف سے آئے ہوئے ادیان و مذاہب کُل کے کُل اس پر متفق ہیں کہ اس کی صورت وہی حشر و نشر کی ہو گی جو اسلام بتلاتا ہے اور قرآن پاک میں اُس پر اس قدر استدلالی روشنی ڈالی گئی ہے کہ کوئی اعلیٰ درجہ کا احمق اور انتہائی قسم کا ناسمجھ ہی ہو گا جو اُن قرآنی دلائل و براہین کے سامنے آ جانے کے بعد بھی حشر و نشر اور بعث بعد الموت کو ناممکن اور محال یا مستبعد بھی کہے ۔
اور “ایمان بالقدر” یہ ہے کہ پر یقین لایا جائے اور مانا جائے کہ دنیا میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے (خواہ وہ خیر ہو یا شر) وہ سب اللہ کے حکم اور اس کی مشیت سے ہے ۔ جس کو وہ پہلے ہی طے کر چکا ہے ، ایسا نہیں ہے کہ وہ تو کچھ اور چاہتا ہو اور دُنیا کا یہ کارخانہ اُس کی منشاء کے خلاف اور اس کی مرضی کے علی الرغم چل رہا ہو ، ایسا ماننے میں خدا کی انتہائی عاجزی اور بےچارگی لازم آئے گی ۔
(۳) احسان ۔۔۔ اسلام و ایمان کے بعد سائل نے تیسرا سوال رسول اللہ ﷺ سے “احسان” کے متعلق کیا تھا کہ “مَا الْاِحْسَانُ؟” یعنی “احسان” کی کیا حقیقت ہے ؟
یہ “احسان” بھی ایمان و اسلام کی طرح خاص دینی اور بالخصوص قرآنی اصطلاح ہے ۔ فرمایا گیا ہے “بَلٰى ١ۗ مَنْ اَسْلَمَ وَجْهَهٗ لِلّٰهِ وَ هُوَ مُحْسِنٌ فَلَهٗۤ اَجْرُهٗ عِنْدَ رَبِّهٖ” وہاں جس نے اپنے خدا کے سپرد کر دیا اور اس کے ساتھ “احسان” کا وصف بھی اس میں ہوا تو اس کے رب کے پاس اس کے لیے خاص (اجر ہے) ۔ اسی طرح دوسری جگہ فرمایا گیا ہے : “وَ مَنْ اَحْسَنُ دِيْنًا مِّمَّنْ اَسْلَمَ وَجْهَهٗ لِلّٰهِ وَ هُوَ مُحْسِنٌ” (اور اس سے اچھا دین میں کون ہو سکتا ہے جس نے اپنے کو خدا کے سپرد کر دیا اور ساتھ ہی وہ محسن (یعنی صاحب احسان بھی ہے) ۔
ہماری زبان اور ہمارے محاورہ میں تو “احسان” کے معنی کسی کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کے ہیں ، لیکن یہاں جس “احسان” کا ذکر ہے وہ اس کے علاوہ ایک خاص اصطلاح ہے اور اس کی حقیقت وہی ہے جو حدیث زیر تشریح میں آنحضرتﷺ نے بیان فرمائی یعنی خدا کی بندگی اس طرح کرنا جیسے کہ وہ قہار و قدوس اور ذوالجلال والجبروت ہماری آنکھوں کے سامنے ہے اور گویا ہم اس کو دیکھ رہے ہیں ۔
اس کو یوں سمجھئے کہ غلام ایک تو اپنے آقا کے احکام کی تعمیل اس وقت کرتا ہے جب کہ وہ اس کے سامنے موجود ہو اور اس کو یقین ہو کہ وہ مجھے اچھی طرح دیکھ رہا ہے اور ایک رویہ اس کا اس وقت ہوتا ہے جب کہ وہ آقا کی غیر موجودگی میں کام کرتا ہے ، عموماً اُن دونوں وقتوں کے طرز عمل میں فرق ہوتا ہے ، اور عام طور سے یہی ہوتا ہے کہ جس قدر دلی دھیان اور محنت اور خوبصورتی کے ساتھ وہ آقا کی آنکھوں کے سامنے کام کرتا اور جس خوش اسلوبی سے اس وقت وظائف خدمت کو انجام دیتا ہے ، مالک کی عدم موجودگی میں اس کا حال وہ نہیں ہوتا ، یہی حال بندوں کا اپنے حقیقی مولیٰ کے ساتھ بھی ہے جس وقت بندہ یہ محسوس کرے کہ میرا وہ مولیٰ حاضر ناظر ہے ، میرے ہر کام بلکہ میری ہر ہر حرکت اور ہر ہر سکون کو وہ دیکھ رہا ہے ، تو اس کی ایک خاص کیفیت اور اس کی بندگی میں ایک خاص شان نیاز مندی ہو گی ، جو اُس وقت میں نہیں ہو سکتی جب کہ اس کا دل اس تصور اور اس احساس سے خالی ہو ۔۔ تو “احسان”یہی ہے کہ اللہ کی بندگی اس طرح کی جائے گویا کہ وہ ہماری آنکھوں کے سامنے ہے ، اور ہم اس کے سامنے ہیں اور وہ ہم کو دیکھ رہا ہے ۔ یہی مطلب ہے اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ کے اس ارشاد کا کہ :
(الإِحْسَانُ) أَنْ تَعْبُدَ اللَّهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ، فَإِنْ لَمْ تَكُنْ تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاكَ
احسان اس کا نام ہے کہ تم اللہ کی بندگی اس طرح کرو گویا کہ اس کو دیکھ رہے ہو ۔ کیوں کہ اگرچہ تم اس کو نہیں دیکھتے ہو مگر وہ تو تم کو دیکھتا ہی ہے ۔ (۱)
ایک انتباہ ۔۔۔ حدیث کے اس ٹکڑے کی تقریر و توضیح بہت سے حضرات اس طرح کرتے ہیں کہ گویا اس کا تعلق “نماز” ہی سے ہے ، اور گویا اس کا مطلب بس یہ ہے کہ نماز پورے خصوع و خشوع سے پڑھی جائے ۔ حالانکہ حدیث کے الفاظ میں اس خصوصیت کے لئے کوئی قرینہ موجود نہیں ہے ، حدیث میں تو “تَعْبُدَ” کا لفظ ہے جس کے معنی مطلق عبادت اور بندگی کے ہیں لہذا نماز کے ساتھ آنحضرت کے اس ارشاد کو مخصوص کرنے کی کوئی وجہ نہیں ۔ بلکہ اسی حدیث کی ایک اور روایت میں بجائے “تَعْبُدَ” کے “تَخْشىٰ” کا لفظ بھی آیا ہے یعنی (الاحسان) اَنْ تَخْشَى اللهُ كَاَنَّكَ تَرَاهُ الخ جس کا ترجمہ یہ ہو گا کہ “احسان” یہ ہے کہ تم خدا سے اس طرح ڈرو کہ گویا اس کو دیکھ رہے ہو ۔ الخ اور اسی واقعہ کی ایک روایت میں اس موقع پر یہ الفاظ بھی آئے ہیں کہ الْاِحْسَانُ اَنْ تَعْمَلَ لِلهِ كَاَنَّكَ تَرَاهُ الخ جس کا ترجمہ یہ ہو گا کہ “احسان” اس کا نام ہے کہ تم ہر کام اللہ کے لئے اس طرح کرو کہ گویا تم اس کو دیکھ رہے ہو الخ ۔ ان دونوں روایتوں سے یہ بات اور زیادہ واضح ہو جاتی ہے کہ “احسان” کا تعلق صرف نماز ہی سے نہیں ہے بلکہ انسان کی پوری زندگی سے ہے ۔ اور اس کی حقیقت یہ ہے کہ اللہ کی ہر عبادت و بندگی اور اس کے ہر حکم کی اطاعت و فرمانبرداری اس طرح کی جائے اور اس کے مواخذہ سے اس طرح ڈرا جائے کہ گویا وہ ہمارے سامنے ہے اور اور ہماری ہر حرکت و سکون کو دیکھ رہا ہے ۔
۴۔ الساعۃ ۔۔۔ یعنی “قیامت” ، اسلام ، ایمان اور احسان کے متعلق سوالوں کے بعد آنحضرت ﷺ سے سائل نے عرض کیا تھا “فَأَخْبِرْنِي عَنِ السَّاعَةِ” یعنی مجھے قیامت کی بابت بتلائیے کہ کب آئیگی ؟ آپ نے جواب دیا “مَا الْمَسْئُولُ عَنْهَا بِأَعْلَمَ مِنَ السَّائِلِ” (یعنی جس سے سوال کیا جا رہا ہے اس کو خود اس بارہ میں سائل سے زیادہ علم نہیں ہے) یعنی قیامت کے وقت خاص کا علم جس طرح سائل کو نہیں ہے مجھے بھی نہیں ہے ۔
اس حدیث کی ابو ہریرہؓ والی روایت میں (جو صحیح بخاری میں بھی ہے) اس موقعہ پر یہ الفاظ اور ہیں “فِىْ خَمْسٍ لَا يَعْلَمُهَا اِلَّا الله إِنَّ اللَّـهَ عِندَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْأَرْحَامِ ۖ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ مَّاذَا تَكْسِبُ غَدًا ۖ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ ۚ إِنَّ اللَّـهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ ” (یعنی رسول اللہ ﷺ نے یہ فرمانے کے بعد کہ قیامت کے بارے میں (یہ فرمانے کے بعد کہ میرا علم سائل سے زیادہ نہیں ہے) یہ مزید افادہ فرمایا کہ یہ (وقت قیامت تو) ان پانچ چیزوں میں سے ہے جن کے متعلق قرآن کریم کی اس آیت (إِنَّ اللَّـهَ عِندَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ الخ) میں اعلان کر دیا گیا ہے کہ ان کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہی ہے اس کے سوا ان کو کوئی نہیں جانتا ۔
شارحین حدیث نے لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے قیامت کے سوال کے جواب میں بجائے یہ فرمانے کے کہ “مجھے اس کا علم نہیں” یہ پیرایہ بیان (کہ اس بارے میں مسئول عنہ کا علم سائل سے زیادہ نہیں ہے) اس لئے اختیار فرمایا کہ لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ کسی سائل اور کسی مسئول کو بھی اس کا علم نہیں ہے ، اور آیت قرآنی تلاوت کر کے آپ نے اس کو اور زیادہ محکم فرما دیا ۔
۵۔ علاماتِ قیامت ۔۔۔ وقت قیامت کے متعلق مذکورہ بالا جواب پانے کے بعد سائل نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا تھا کہ “فَاَخْبِرْنِىْ عَنْ اِمَارَاتِهَا” (مجھے قیامت کی کچھ نشانیاں ہی بتلائیے!) اس کے جواب میں آنحضرت ﷺ نے دو خاص نشانیاں بیان فرمائیں ۔
ایک یہ کہ “لونڈی اپنی مالکہ اور آقا کو جنے گی” اور دوسری یہ کہ نادار اور ننگے اور بھوکے لوگ جن کا کام بکریاں چرانا ہو گا وہ بھی بڑی بڑی شاندار عمارتیں بنائیں گے ۔
پہلی جو نشانی آپ نے بیان فرمائی اس کا مطلب شارحین حدیث نے کئی طرح سے بیان کیا ہے ، راقم کے نزدیک سب سے زیادہ راجح توجیہ یہ ہے کہ قرب قیامت میں ماں باپ کی نافرمانی عام ہو جائے گی حتیٰ کہ لڑکیاں جن کی سرشت میں ماؤں کی اطاعت اور وفاداری کا عنصر بہت غالب ہوتا ہے اور جن سے ماں کے مقابلہ میں سرکشی بظاہر بہت ہی مشکل اور مستبعد ہے ، وہ بھی نہ صرف یہ کہ ماؤں کے مقابلہ میں نافرمان ہو جائیں گی بلکہ الٹی اس طرح ان پر حکومت چلائیں گی جس طرح ایک مالکہ اور رسیدہ اپنی زر خرید باندی پر حکومت کرتی ہے ۔ اسی کو حضرت نے اس عنوان سے تعبیر سے تعبیر فرمایا ہے کہ “عورت اپنی مالکہ اور آقا کو جنے گی” ۔ یعنی عورت سے جو لڑکی پیدا ہو گی وہ بڑی ہو کر خود اس ماں پر اپنی حکومت چلائے گی اور کوئی شک نہیں کہ اس نشانی کے ظہور کی ابتدا ہو چکی ہے ۔
اور دوسری جو نشانی حضرت نے بیان فرمائی کہ “بھوکے ننگے اور بکریوں کے چرانے والے اونچے اونچے محل بنوائیں گے” ۔ تو یہ اس طرف اشارہ ہے کہ قرب قیامت میں دنیوی دولت و بالا تری ان اراذل کے ہاتھوں میں آئے گی جو ان کے اہل نہ ہوں گے ۔ اور ان کو بس اونچے اونچے شاندار محل بنوانے سے شغف ہو گا اور اسی کو وہ سرمایہ فخر و مباہات سمجھیں گے اور اس میں اپنی اولوالعزمی دکھائیں گے اور ایک دوسرے پر بازی لے جانے کی کوشش کریں گے ۔
ایک دوسری حدیث میں اسی مضمون کو ان الفاظ مین بیان فرمایا گیا ہے “اِذَا وُسِّدَ الْاَمْرُ اِلىٰ غَيْرِ اَهْلِهِ فَانْتَظِرِ السَّاعَةَ” (یعنی جب حکومتی اختیارات اور مناصب و معاملات نااہلوں کے سپرد ہونے لگیں تو پھر قیامت کا انتظار کرو ۔)
زیرِ تشریح حدیث کے آخر میں ہے کہ اس سائل کے چلے جانے کے بعد رسول اللہ ﷺ نے بتلایا کہ یہ سائل جبرئیل امین تھے اور اس لئے سائل بن کر آئے تھے کہ اس سوال و جواب کے ذریعے صحابہؓ کو دین کی تعلیم و تذکیر ہو جائے ۔
اس حدیث کی بعض روایات میں یہ تصریح بھی ہے کہ حضرت جبرئیل کی یہ آمد اور گفتگو رسول اللہ ﷺ کی عمر شریف کے آخری حصہ میں ہوئی تھی ۔ (فتح الباری و عمدۃ القاری)
گویا تئیس سال کی مدت میں جس دین کی تعلیم مکمل ہوئی تھی اللہ تعالیٰ کی رحمت نے چاہا کہ جبرئیل کے ان سوالات کے جواب میں رسول اللہ ﷺ کی زبانِ مبارک سے پورے دین کا خلاصہ اور لب لباب بیان کرا کے صحابہؓ کے علم کی تکمیل کر دی جائے اور اُن کو اس امانت کا امین بنا دیا جائے ۔
واقعہ یہ ہے کہ دین کا حاصل بس تین ہی باتیں ہیں :
۱۔ یہ کہ بندہ اپنے کو بالکل اللہ تعالیٰ کا مطیع و فرمانبردار بنا دے اور اس کی بندگی کو اپنی زندگی بنا لے ، اور اسی کا نام اسلام ہے اور ارکان اسلام اسی حقیقت کے مظاہر ہیں ۔
۲۔ اُن اہم غیبی حقیقتوں کو مانا جائے اور اُن پر یقین کیا جائے جو اللہ کے پیغمبروں نے بتلائیں اور جن کو ماننے کی دعوت دی اور اسی کا نام ایمان ہے ۔
۳۔ اور اللہ نصیب فرمائے تو اسلام و ایمان کی منزلیں طے کر لینے کے بعد تیسری اور آخری تکمیلی منزل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ہستی کا یسا استحضار اور دل کو مراقبہ حضور و شہود کی ایسی کیفیت نصیب ہو جائے کہ اس کے احکام کی تعمیل اور اُس کی فرمانبرداری و بندگی اس طرح ہونے لگے کہ گویا اپنے پورے جمال و جلال کے ساتھ وہ ہماری آنکھوں کے سامنے ہے اور ہم کو دیکھ رہا ہے اور اسی کیف و حال کا نام احسان ہے ۔
اسی طرح اس سوال و جواب میں گویا پورے دین کا خلاصہ اور عطر آ گیا ، اور اس لئے اس حدیث کو علما نے “ام السنہ” بھی کہا ہے ، گویا جس طرح قرآن مجید کے تمام اہم مطلب اور مضامین پر بالا جمال حاوی ہونے کی وجہ سے سورہ فاتحہ کا نام “ام الکتاب” ہے اسی طرح یہ حدیث اپنی اس جامع حیثیت کی وجہ سے “ام السنہ” کہی جانے کی مستحق ہے اور اس کی اسی خصوصیت کی وجہ سے امام مسلم نے اپنی جلیل القدر کتاب صحیح مسلم کو مقدمہ کے بعد اسی حدیث سے شروع کیا ہے ، اور امام بغوی نے بھی اپنی دونوں تالیفوں “مصابیح” اور “شرح السنہ” کا آغاز اسی حدیث سے کیا ہے ۔
یہ حدیث حضرت عمرؓ کی روایت سے جس طرح کہ یہاں نقل کی گئی صحیح مسلم میں ہے اور صحیح مسلم اور صحیح بخاری دونوں میں حضرت ابو ہریرہؓ کی روایت سے بھی یہ واقعہ مروی ہے اور دوسری کتب حدیث میں اور بھی چند صحابہ کرام سے یہ واقعہ روایت کیا گیا ہے ۔
(یہ حدیث صحیح مسلم کی ہے اور صحیح بخاری و مسلم میں یہی واقعہ حضرت ابو ہریرہؓ کی روایت سے بھی مروی ہے)
تشریح
اس حدیث میں سائل کے سوال کے جواب میں آنحضرتﷺ نے پانچ امور کا بیان فرمایا ہے ، اسلام ، دوسرے ایمان ، تیسرے احسان ، چوتھے قیامت کے متعلق انتباہ کہک اس کا وقتِ خاص اللہ کے سوا کسی کے علم میں نہیں ، اور پانچویں قیامت سے پہلے ظاہر ہونے والی بعض علامات ۔۔۔ ان پانچوں چیزوں کے متعلق جو کچھ اس حدیث میں بیان فرمایا ہے وہ تشریح طلب ہے ۔
اسلام ۔۔۔۔ کے اصل معنی ہیں اپنے کو کسی کے سپرد کر دینا ، اور بالکل اُسی کے تابع فرمان ہو جانا ۔۔۔ اور اللہ کے بھیجے ہوئے اور اس کے رسولوں کے لائے ہوئے “دین” کا نام اسلام اسی لیے ہے کہ اُس میں بندہ اپنے آپ کو بالکل مولا کے سپرد کر دیتا ہے ، اور اس کی مکمل اطاعت کو اپنا دستور زندگی قرار دے لیتا ہے ، اور یہی اصل حقیقت “دینِ اسلام” کی اور اسی کا مطالبہ ہے ہم سے ۔ فرمایا گیا “فَإِلَـٰهُكُمْ إِلَـٰهٌ وَاحِدٌ فَلَهُ أَسْلِمُوا” (حج ۳۴:۲۲) (تمہارا اللہ وہی الٰہ واحد ہے ، لہذا تم اسی کے “مسلم” یعنی مطیع ہو جاؤ) اور اسی اسلام کے متعلق فرمایا گیا ہے “وَمَنْ أَحْسَنُ دِينًا مِّمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّـهِ” (نساء ۱۲۵:۴) (اور اس سے بہتر کون ہو سکتا ہے جس نے اپنے کو خدا کے سپرد کر دیا اور وہ اس طرح “مسلم بندہ” ہو گیا) اور اسی اسلام کے متعلق اعلان فرمایا گیا ہے “وَمَن يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَن يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ” (آلِ عمران ۸۵:۳) (یعنی جس نے “اسلام” کے سوا کوئی اور دین اختیار کرنا چاہا تو وہ ہرگز قبول نہ ہو گا اور وہ آدمی آخرت میں بڑے گھاٹے اور ٹوٹے والوں میں سے ہو گا) بہر حال “اسلام” کی اصل روح اور حقیقت یہی ہے کہ بندہ اپنے کو کلی طور پر اللہ کے سپرد کر دے اور ہر پہلو سے اس کا مطیع فرمان بن جائے ۔
پھر انبیاء علیہم السلام کی لائی ہوئی شریعتوں میں اس “اسلام” کے لیے کچھ مخصوص ارکان بھی ہوتے ہیں جن کی حیثیت اس “حقیقت اسلام” کے “پیکر محسوس” کی سی ہوتی ہے ، ااور اس حقیقت کا نشوونما اور اس کی تازگی بھی انہی سے ہوتی ہے ، اور وہ صرف تعبّدی امور وتے ہیں ، اور ظاہری نظر انہی “ارکان” کے ذریعہ فرق و امتیاز کرتی ہے ۔ ان لوگوں کے درمیان جنہوں نے اپنا دستورِ حیات “اسلام” کو بنایا ہے ، اور ان کے درمیان جنہوں نے نہیں بنایا ۔
تو خاتم الانبیاء حضرت محمدﷺ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے “اسلام” کا جو آخری اور مکمل دستور ہمارے پاس آیا ہے اس میں توحید خداوندی اور رسالت محمدی کی شہادت ، نماز ، زکوٰۃ ، روزہ اور حج بیت اللہ کو “ارکانِ اسلام” قرار دیا گیا ہے ۔ ایک دوسری حدیث میں وارد ہوا ہے “بُنِىَ الْاِسْلَامُ عَلىٰ خَمْسٍ الخ” (یعنی اسلام کی بنیاد ان پانچ چیزوں پر ہے)
بہر حال یہ پانچ چیزیں جن کو آپ نے یہاں اس حدیث میں “اسلام” کے جواب میں بیان فرمایا “ارکانِ اسلام” ہیں اور یہی گویا “اسلام” کے لیے “پیکرِ محسوس” ہیں ۔ اسی واسطے اس حدیث میں انہی کے ذریعہ اسلام کا تعارف کرایا گیا ہے ۔
ایمان ۔۔۔ کے اصل معنی کسی کے اعتبار اور اعتماد پر کسی بات کو سچ ماننے کے ہیں اور دین کی خاص اصطلاح میں ایمان کی حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے پیغمبر ایسی حقیقتوں کے متعلق جو ہمارے حواس اور آلات ادراک کے حدود سے ما وراء ہوں جو کچھ بتلائیں اور ہمارے پاس جو علم اور جو ہدایت اللہ تعالیٰ کی طرف سے لائیں ہم ان کو سچا مان کر اس میں ان کی تصدیق کریں اور اس کو حق مان کر قبول کر لیں ۔ بہر حال شرعی ایمان کا تعلق اصولاً امور غیب ہی سے ہوتا ہے جن کو ہم اپنے آلاتِ احساس و ادراک (آنکھ ، ناک ، کان وغیرہ) کے ذریعہ معلوم نہیں کر سکتے ۔ مثلاً اللہ اور اس کی صفات اور اس کے احکام اور رسولوں کی رسالت اور ان پر وحی کی آمد ، اور مبداء و معاد کے متعلق ان کی اطلاعات ، وغیرہ وغیرہ تو اس قسم کی جتنی باتیں اللہ کے رسول نے بیان فرمائیں ان سب کو ان کی سچائی کے اعتماد پر حق جان کر ماننے کا نام اصطلاح شریعت میں ایمان ہے ، اور پیغمبر کی اس قسم کی کسی ایک بات کو نہ مانن یا اس کو حق نہ سمجھنا ہی اس کی تکذیب ہے ، جو آدمی کو ایمان سے دائرہ سے نکال کر کفر کی سرحد میں داخل کر دیتی ہے پس آدمی کے مؤمن ہونے کے لیے یہ ضروری ہے کہ “كُلُّ مَا جَاءَ بِهِ الرَّسُوْلُ مِنْ عِنْدِ اللهِ” کی (یعنی تمام ان چیزوں اور حقیقتوں کی جو اللہ کے پیغمبر اللہ کی طرف سے لائے) تصدیق کی جائے اور ان کو حق مان کر قبول کیا جائے ۔۔۔ لیکن ان سب چیزوں کی پوری تفصیل معلوم ہونی ضروری نہیں ہے ، بلکہ نفسِ ایمان کے لیے یہ اجمالی تصدیق بھی کافی ہے ، البتہ کچھ خاص اہل اور بنیادی چیزیں ایسی بھی ہیں کہ ایمانی دائرہ میں آنے کے لیے ان کی تصدیق تعین کے ساتھ ضروری ہے ، چنانچہ حدیث زیر تشریح میں ایمان سے متعلق سوال کے جعاب میں جن امور کا ذکر فرمایا گیا ہے (یعنی اللہ ، ملائکہ ، اللہ کی کتابیں ، اللہ کے رسول ، روزِ قیامت اور ہر خیر و شر کی تقدیر) تو ایمانیات میں سے یہ وہی اہم اور بنیادی امور ہیں جن پر تعین کے ساتھ ایمان لانا ضروری ہے ، اور اسی واسطے آنحضرتﷺ نے ان کا ذکر صراحۃً اور تعین کے ساتھ فرمایا ، اور قرآنِ پاک میں بھی یہ ایمانی امور اسی تفصیل اور تعین کے ساتھ مذکور ہیں ، سورہ بقرہ کے آخری رکوع میں ارشاد ہے :آمَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنزِلَ إِلَيْهِ مِن رَّبِّهِ وَالْمُؤْمِنُونَ (۱) (بقرہ ۲۸۵:۲)
وَمَن يَكْفُرْ بِاللَّـهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا بَعِيدًا (۲) (نساء ۱۳۶:۴)
ان امورِ ششگانہ میں سے “تقدیر خیر وہ شر” کا ذکر قرآن پاک میں اگرچہ ان ایمانیات کے ساتھ ان آیات میں نہیں آیا ہے ، لیکن دوسرے موقع پر قرآن پاک نے اس کو بھی صراحۃً بیان فرمایا ہے ۔
ایک اور جگہ ارشاد ہے :
قُلْ كُلٌّ مِّنْ عِندِ اللَّـهِ (۳) (نساء ۷۸:۴)
اور دوسری جگہ ارشاد ہے :
فَمَن يُرِدِ اللَّـهُ أَن يَهْدِيَهُ يَشْرَحْ صَدْرَهُ لِلْإِسْلَامِ ۖ وَمَن يُرِدْ أَن يُضِلَّهُ يَجْعَلْ صَدْرَهُ ضَيِّقًا حَرَجًا(۴) (انعام ۱۲۵:۶)
اب مختصراً یہ بھی معلوم کرنا چاہئے کہ ان سب پر ایمان لانے کا کیا مطلب ہے ؟
سو اللہ پر ایمان لانے کا مطلب تو یہ ہے کہ اس کے موجود وحدہ لا شریک خالقِ کائنات اور رب العالمین ہونے کا یقین کیا جائے ، عیب و نقص کی ہر بات سے پاک ، ار ہر صفتِ کمال سے اس کو متصف سمجھا جائے ۔ اور ملائکہ پر ایمان لانا یہ ہے کہ مخلوقات میں ایک مستقل نوع کی حیثیت سے ان کے وجود کو حق مانا جائے اور یقین کیا جائے کہ وہ اللہ کی ایک پاکیزہ اور محترم مخلوق ہےبَلْ عِبَادٌ مُّكْرَمُونَ (۱) (انبیاء ۲۶:۲۱) جس میں شر اور شرارت اور عصیان و بغاوت کا عنصر ہی نہیں بلکہ ان کا کام صرف اللہ کی بندگی اور اطاعت ہے لَّا يَعْصُونَ اللَّـهَ مَا أَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ (۲) (تحریم ۶۶:۶) ان کے متعلق کام ہیں اور ان کی ڈیوٹیاں (فرائض) ہیں جن کو وہ خوبی سے انجام دیتے ہیں ۔
ملائکہ کے متعلق ایک شبہ اور اس کا ازالہ
ملائکہ کے وجود پر یہ شبہ کہ اگر وہ موجود ہوتے تو نظر آتے سخت جاہلانہ شبہ ہے ۔ دنیا میں کتنی ہی چیزیں ہیں جو باوجود موجود ہونے کے ہم کو نظر نہیں آتیں ، کیا زمانہ حال کی خورد بینوں کی ایجاد سے پہلے کسی نے پانی میں ، ہوا میں اور خون کے قطرہ میں وہ جراثیم دیکھے تھے جن کو خوردبین سے آج ہر آنکھ والا دیکھ سکتا ہے اور کیا کسی آلہ سے بھی ہم اپنی روح کو دیکھ پاتے ہیں ۔ تو جس طرح ہماری آنکھ خود اپنی روح کو دیکھنے سے اور بغیر خوردبین کے پانی وغیرہ کے جراثیم دیکھنے سے عاجز ہے ، اسی طرح فرشتوں کو دیکھنے سے بھی وہ قاصر ہے ۔۔۔ اور پھر کیا اس کی کوئی دلیل ہے کہ جس چیز کو ہم اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھ سکتے وہ موجود نہیں ہو سکتی ؟ کیا ہماری آنکھوں اور ہمارے حواس نے کل عالم موجودات کا احاطہ کر لیا ہے ؟ ایسی بات خاص کر اس زمانہ میں جب کہ روز روز نئے انکشافات ہو رہے ہیں ، کوئی بڑا احمق ہی کہہ سکتا ہے ، دراصل انسان کا علم اور اس کے علمی ذرائع بہت ہی ناقص اور محدود ہیں ۔ اسی کو قرآن مجید میں فرمایا گیا ہےوَمَا أُوتِيتُم مِّنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِيلًا (بنی اسرائیل ۸۵:۱۷)
اور اللہ کی کتابوں پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ یقین کیا جائے کہ اللہ پاک نے اپنے رسولوں کے ذریعہ وقتاً فوقتاً ہدایت نامے بھیجے ، ان میں سب سے آخر اور سب کا خاتم قرآن مجید ہے ۔ جو پہلی سب کتابوں کا مصدق اور مہیمن بھی ہے ، یعنی اُن کتابوں میں جتنی ایسی باتیں تھیں جن کی تعلیم و تبلیغ ہمیشہ اور ہر زمانہ میں ضروری ہوتی ہے وہ سب اس قرآن میں لے لی گئی ہیں ، گویا یہ تمام کتبِ سماویہ کے ضروری مضامین پر حاوی اور سب سے مستغنی کر دینے والی خدا کی آخری کتاب ہے اور چونکہ وہ کتابیں اب محفوظ بھی نہیں رہیں اس لئے اب صرف یہی کتاب ہدایت ہے جو سب کے قائم مقام اور سب سے زیادہ مکمل ہے اور زمانہ آخر تک اس کی حفاظت کی ذمہ داری اسی لیے خود اللہ تعالیٰ نے لی ہے إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ (حجر ۹:۱۵)
اور “اللہ کے رسولوں” پر ایمان لانا یہ ہے کہ اس واقعی حقیقت کا یقین کیا جائے کہ اللہ نے اپنے بندوں کی ہدایت و رہنمائی کے لیے وقتاً فوقتاً اور مختلف علاقوں میں اپنے برگزیدہ بندوں کو اپنی “ہدایت” اور اپنی رضامندی کا دستور دے کر بھیجا ہے ، اور انہوں نے پوری امانت و دیانت کے ساتھ خدا کا وہ پیغام بندوں کو پہنچا دیا ، اور لوگوں کو راہ راست پر لانے کی پوری پوری کوششیں کیں ، یہ سب پیغمبر اللہ کے برگزیدہ اور صادق بندے تھے (ان میں سے چند کے نام اور کچھ حالات بھی قرآن کریم میں ہم کو بتلائے گئے ہیں اور بہت سوں کے نہیں بتلائے گئے) مِنْهُم مَّن قَصَصْنَا عَلَيْكَ وَمِنْهُم مَّن لَّمْ نَقْصُصْ عَلَيْكَ (مؤمن ۷۸:۴۰)
بہر حال خدا کے ان سب رسولوں کی تصدیق کرنا اور بحیثیت پیغمبری ان کا پورا پورا احترام کرنا ایمان کے شرائط میں سے ہے ، اور اسی کے ساتھ اس پر بھی ایمان لانا ضروری ہے کہ اللہ نے اس سلسلہ نبوت و رسالت کو حضرت محمدﷺ پر ختم کر دیا ، آپ خاتم الانبیاء اور خدا کے آخری رسول ہیں اور اب قیامت تک پیدا ہونے والے انسانوں کے لئے نجات و فلاح آپ ہی کی اتباع اور آپ ہی کی ہدایت کی پیروی میں ہے ۔ صَلىَّ اللهُ وَسَلَّمَ عَلَيْهِ وَعَلىٰ سَائِرِ الْاَنْبِيَاءِ وَالْمُرْسَلِيْنَ وَعَلىٰ كُلِّ مَنِ اتَّبَعَهُمْ بِاِحْسَانٍ اِلىٰ يَوْمِ الدِّيْنِ ۔
اور “ایمان بالیوم الآخر” یہ ہے کہ اس حقیقت کا یقین کیا جائے کہ یہ دُنیا ایک دن قطعی طور پر فنا کر دی جائے گی اور اس کے بعد اللہ تعالیٰ اپنی خاص قدرت سے پھر سارے مُردوں کو جِلائے گا اور یہاں جس نے جیسا کچھ کیا ہے اسی کے مطابق جزا یا سزا اس کو دی جائے گی ۔
معلوم ہونا چاہیئے کہ چوں کہ دین و مذہب کے سارے نظام کی بنیاد اس حیثیت سے جزا و سزا ہی کے عقیدہ پر ہے کہ اگر آدمی اس کا قائل نہ ہو تو پھر وہ کسی دین و مذہب اور اس کی تعلیمات و ہدایات کو ماننے اور اس پر عمل کرنے ہی کی ضرورت کا قائل نہ ہو گا ، اس لیے ہر مذہب میں خواہ وہ انسانوں کا خود ساختہ ہو یا اللہ کا بھیجا ہوا ، “جزا و سزا” کو بطور بنیادی عقیدہ کے تسلیم کیا گیا ہے ۔ پھر انسانی دماغوں کے بنائے ہوئے مذاہب میں اس کی شکل تناسخ وغیرہ تجویز کی گئی ہے ، لیکن خدا کی طرف سے آئے ہوئے ادیان و مذاہب کُل کے کُل اس پر متفق ہیں کہ اس کی صورت وہی حشر و نشر کی ہو گی جو اسلام بتلاتا ہے اور قرآن پاک میں اُس پر اس قدر استدلالی روشنی ڈالی گئی ہے کہ کوئی اعلیٰ درجہ کا احمق اور انتہائی قسم کا ناسمجھ ہی ہو گا جو اُن قرآنی دلائل و براہین کے سامنے آ جانے کے بعد بھی حشر و نشر اور بعث بعد الموت کو ناممکن اور محال یا مستبعد بھی کہے ۔
اور “ایمان بالقدر” یہ ہے کہ پر یقین لایا جائے اور مانا جائے کہ دنیا میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے (خواہ وہ خیر ہو یا شر) وہ سب اللہ کے حکم اور اس کی مشیت سے ہے ۔ جس کو وہ پہلے ہی طے کر چکا ہے ، ایسا نہیں ہے کہ وہ تو کچھ اور چاہتا ہو اور دُنیا کا یہ کارخانہ اُس کی منشاء کے خلاف اور اس کی مرضی کے علی الرغم چل رہا ہو ، ایسا ماننے میں خدا کی انتہائی عاجزی اور بےچارگی لازم آئے گی ۔
(۳) احسان ۔۔۔ اسلام و ایمان کے بعد سائل نے تیسرا سوال رسول اللہ ﷺ سے “احسان” کے متعلق کیا تھا کہ “مَا الْاِحْسَانُ؟” یعنی “احسان” کی کیا حقیقت ہے ؟
یہ “احسان” بھی ایمان و اسلام کی طرح خاص دینی اور بالخصوص قرآنی اصطلاح ہے ۔ فرمایا گیا ہے “بَلٰى ١ۗ مَنْ اَسْلَمَ وَجْهَهٗ لِلّٰهِ وَ هُوَ مُحْسِنٌ فَلَهٗۤ اَجْرُهٗ عِنْدَ رَبِّهٖ” وہاں جس نے اپنے خدا کے سپرد کر دیا اور اس کے ساتھ “احسان” کا وصف بھی اس میں ہوا تو اس کے رب کے پاس اس کے لیے خاص (اجر ہے) ۔ اسی طرح دوسری جگہ فرمایا گیا ہے : “وَ مَنْ اَحْسَنُ دِيْنًا مِّمَّنْ اَسْلَمَ وَجْهَهٗ لِلّٰهِ وَ هُوَ مُحْسِنٌ” (اور اس سے اچھا دین میں کون ہو سکتا ہے جس نے اپنے کو خدا کے سپرد کر دیا اور ساتھ ہی وہ محسن (یعنی صاحب احسان بھی ہے) ۔
ہماری زبان اور ہمارے محاورہ میں تو “احسان” کے معنی کسی کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کے ہیں ، لیکن یہاں جس “احسان” کا ذکر ہے وہ اس کے علاوہ ایک خاص اصطلاح ہے اور اس کی حقیقت وہی ہے جو حدیث زیر تشریح میں آنحضرتﷺ نے بیان فرمائی یعنی خدا کی بندگی اس طرح کرنا جیسے کہ وہ قہار و قدوس اور ذوالجلال والجبروت ہماری آنکھوں کے سامنے ہے اور گویا ہم اس کو دیکھ رہے ہیں ۔
اس کو یوں سمجھئے کہ غلام ایک تو اپنے آقا کے احکام کی تعمیل اس وقت کرتا ہے جب کہ وہ اس کے سامنے موجود ہو اور اس کو یقین ہو کہ وہ مجھے اچھی طرح دیکھ رہا ہے اور ایک رویہ اس کا اس وقت ہوتا ہے جب کہ وہ آقا کی غیر موجودگی میں کام کرتا ہے ، عموماً اُن دونوں وقتوں کے طرز عمل میں فرق ہوتا ہے ، اور عام طور سے یہی ہوتا ہے کہ جس قدر دلی دھیان اور محنت اور خوبصورتی کے ساتھ وہ آقا کی آنکھوں کے سامنے کام کرتا اور جس خوش اسلوبی سے اس وقت وظائف خدمت کو انجام دیتا ہے ، مالک کی عدم موجودگی میں اس کا حال وہ نہیں ہوتا ، یہی حال بندوں کا اپنے حقیقی مولیٰ کے ساتھ بھی ہے جس وقت بندہ یہ محسوس کرے کہ میرا وہ مولیٰ حاضر ناظر ہے ، میرے ہر کام بلکہ میری ہر ہر حرکت اور ہر ہر سکون کو وہ دیکھ رہا ہے ، تو اس کی ایک خاص کیفیت اور اس کی بندگی میں ایک خاص شان نیاز مندی ہو گی ، جو اُس وقت میں نہیں ہو سکتی جب کہ اس کا دل اس تصور اور اس احساس سے خالی ہو ۔۔ تو “احسان”یہی ہے کہ اللہ کی بندگی اس طرح کی جائے گویا کہ وہ ہماری آنکھوں کے سامنے ہے ، اور ہم اس کے سامنے ہیں اور وہ ہم کو دیکھ رہا ہے ۔ یہی مطلب ہے اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ کے اس ارشاد کا کہ :
(الإِحْسَانُ) أَنْ تَعْبُدَ اللَّهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ، فَإِنْ لَمْ تَكُنْ تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاكَ
احسان اس کا نام ہے کہ تم اللہ کی بندگی اس طرح کرو گویا کہ اس کو دیکھ رہے ہو ۔ کیوں کہ اگرچہ تم اس کو نہیں دیکھتے ہو مگر وہ تو تم کو دیکھتا ہی ہے ۔ (۱)
ایک انتباہ ۔۔۔ حدیث کے اس ٹکڑے کی تقریر و توضیح بہت سے حضرات اس طرح کرتے ہیں کہ گویا اس کا تعلق “نماز” ہی سے ہے ، اور گویا اس کا مطلب بس یہ ہے کہ نماز پورے خصوع و خشوع سے پڑھی جائے ۔ حالانکہ حدیث کے الفاظ میں اس خصوصیت کے لئے کوئی قرینہ موجود نہیں ہے ، حدیث میں تو “تَعْبُدَ” کا لفظ ہے جس کے معنی مطلق عبادت اور بندگی کے ہیں لہذا نماز کے ساتھ آنحضرت کے اس ارشاد کو مخصوص کرنے کی کوئی وجہ نہیں ۔ بلکہ اسی حدیث کی ایک اور روایت میں بجائے “تَعْبُدَ” کے “تَخْشىٰ” کا لفظ بھی آیا ہے یعنی (الاحسان) اَنْ تَخْشَى اللهُ كَاَنَّكَ تَرَاهُ الخ جس کا ترجمہ یہ ہو گا کہ “احسان” یہ ہے کہ تم خدا سے اس طرح ڈرو کہ گویا اس کو دیکھ رہے ہو ۔ الخ اور اسی واقعہ کی ایک روایت میں اس موقع پر یہ الفاظ بھی آئے ہیں کہ الْاِحْسَانُ اَنْ تَعْمَلَ لِلهِ كَاَنَّكَ تَرَاهُ الخ جس کا ترجمہ یہ ہو گا کہ “احسان” اس کا نام ہے کہ تم ہر کام اللہ کے لئے اس طرح کرو کہ گویا تم اس کو دیکھ رہے ہو الخ ۔ ان دونوں روایتوں سے یہ بات اور زیادہ واضح ہو جاتی ہے کہ “احسان” کا تعلق صرف نماز ہی سے نہیں ہے بلکہ انسان کی پوری زندگی سے ہے ۔ اور اس کی حقیقت یہ ہے کہ اللہ کی ہر عبادت و بندگی اور اس کے ہر حکم کی اطاعت و فرمانبرداری اس طرح کی جائے اور اس کے مواخذہ سے اس طرح ڈرا جائے کہ گویا وہ ہمارے سامنے ہے اور اور ہماری ہر حرکت و سکون کو دیکھ رہا ہے ۔
۴۔ الساعۃ ۔۔۔ یعنی “قیامت” ، اسلام ، ایمان اور احسان کے متعلق سوالوں کے بعد آنحضرت ﷺ سے سائل نے عرض کیا تھا “فَأَخْبِرْنِي عَنِ السَّاعَةِ” یعنی مجھے قیامت کی بابت بتلائیے کہ کب آئیگی ؟ آپ نے جواب دیا “مَا الْمَسْئُولُ عَنْهَا بِأَعْلَمَ مِنَ السَّائِلِ” (یعنی جس سے سوال کیا جا رہا ہے اس کو خود اس بارہ میں سائل سے زیادہ علم نہیں ہے) یعنی قیامت کے وقت خاص کا علم جس طرح سائل کو نہیں ہے مجھے بھی نہیں ہے ۔
اس حدیث کی ابو ہریرہؓ والی روایت میں (جو صحیح بخاری میں بھی ہے) اس موقعہ پر یہ الفاظ اور ہیں “فِىْ خَمْسٍ لَا يَعْلَمُهَا اِلَّا الله إِنَّ اللَّـهَ عِندَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْأَرْحَامِ ۖ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ مَّاذَا تَكْسِبُ غَدًا ۖ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ ۚ إِنَّ اللَّـهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ ” (یعنی رسول اللہ ﷺ نے یہ فرمانے کے بعد کہ قیامت کے بارے میں (یہ فرمانے کے بعد کہ میرا علم سائل سے زیادہ نہیں ہے) یہ مزید افادہ فرمایا کہ یہ (وقت قیامت تو) ان پانچ چیزوں میں سے ہے جن کے متعلق قرآن کریم کی اس آیت (إِنَّ اللَّـهَ عِندَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ الخ) میں اعلان کر دیا گیا ہے کہ ان کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہی ہے اس کے سوا ان کو کوئی نہیں جانتا ۔
شارحین حدیث نے لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے قیامت کے سوال کے جواب میں بجائے یہ فرمانے کے کہ “مجھے اس کا علم نہیں” یہ پیرایہ بیان (کہ اس بارے میں مسئول عنہ کا علم سائل سے زیادہ نہیں ہے) اس لئے اختیار فرمایا کہ لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ کسی سائل اور کسی مسئول کو بھی اس کا علم نہیں ہے ، اور آیت قرآنی تلاوت کر کے آپ نے اس کو اور زیادہ محکم فرما دیا ۔
۵۔ علاماتِ قیامت ۔۔۔ وقت قیامت کے متعلق مذکورہ بالا جواب پانے کے بعد سائل نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا تھا کہ “فَاَخْبِرْنِىْ عَنْ اِمَارَاتِهَا” (مجھے قیامت کی کچھ نشانیاں ہی بتلائیے!) اس کے جواب میں آنحضرت ﷺ نے دو خاص نشانیاں بیان فرمائیں ۔
ایک یہ کہ “لونڈی اپنی مالکہ اور آقا کو جنے گی” اور دوسری یہ کہ نادار اور ننگے اور بھوکے لوگ جن کا کام بکریاں چرانا ہو گا وہ بھی بڑی بڑی شاندار عمارتیں بنائیں گے ۔
پہلی جو نشانی آپ نے بیان فرمائی اس کا مطلب شارحین حدیث نے کئی طرح سے بیان کیا ہے ، راقم کے نزدیک سب سے زیادہ راجح توجیہ یہ ہے کہ قرب قیامت میں ماں باپ کی نافرمانی عام ہو جائے گی حتیٰ کہ لڑکیاں جن کی سرشت میں ماؤں کی اطاعت اور وفاداری کا عنصر بہت غالب ہوتا ہے اور جن سے ماں کے مقابلہ میں سرکشی بظاہر بہت ہی مشکل اور مستبعد ہے ، وہ بھی نہ صرف یہ کہ ماؤں کے مقابلہ میں نافرمان ہو جائیں گی بلکہ الٹی اس طرح ان پر حکومت چلائیں گی جس طرح ایک مالکہ اور رسیدہ اپنی زر خرید باندی پر حکومت کرتی ہے ۔ اسی کو حضرت نے اس عنوان سے تعبیر سے تعبیر فرمایا ہے کہ “عورت اپنی مالکہ اور آقا کو جنے گی” ۔ یعنی عورت سے جو لڑکی پیدا ہو گی وہ بڑی ہو کر خود اس ماں پر اپنی حکومت چلائے گی اور کوئی شک نہیں کہ اس نشانی کے ظہور کی ابتدا ہو چکی ہے ۔
اور دوسری جو نشانی حضرت نے بیان فرمائی کہ “بھوکے ننگے اور بکریوں کے چرانے والے اونچے اونچے محل بنوائیں گے” ۔ تو یہ اس طرف اشارہ ہے کہ قرب قیامت میں دنیوی دولت و بالا تری ان اراذل کے ہاتھوں میں آئے گی جو ان کے اہل نہ ہوں گے ۔ اور ان کو بس اونچے اونچے شاندار محل بنوانے سے شغف ہو گا اور اسی کو وہ سرمایہ فخر و مباہات سمجھیں گے اور اس میں اپنی اولوالعزمی دکھائیں گے اور ایک دوسرے پر بازی لے جانے کی کوشش کریں گے ۔
ایک دوسری حدیث میں اسی مضمون کو ان الفاظ مین بیان فرمایا گیا ہے “اِذَا وُسِّدَ الْاَمْرُ اِلىٰ غَيْرِ اَهْلِهِ فَانْتَظِرِ السَّاعَةَ” (یعنی جب حکومتی اختیارات اور مناصب و معاملات نااہلوں کے سپرد ہونے لگیں تو پھر قیامت کا انتظار کرو ۔)
زیرِ تشریح حدیث کے آخر میں ہے کہ اس سائل کے چلے جانے کے بعد رسول اللہ ﷺ نے بتلایا کہ یہ سائل جبرئیل امین تھے اور اس لئے سائل بن کر آئے تھے کہ اس سوال و جواب کے ذریعے صحابہؓ کو دین کی تعلیم و تذکیر ہو جائے ۔
اس حدیث کی بعض روایات میں یہ تصریح بھی ہے کہ حضرت جبرئیل کی یہ آمد اور گفتگو رسول اللہ ﷺ کی عمر شریف کے آخری حصہ میں ہوئی تھی ۔ (فتح الباری و عمدۃ القاری)
گویا تئیس سال کی مدت میں جس دین کی تعلیم مکمل ہوئی تھی اللہ تعالیٰ کی رحمت نے چاہا کہ جبرئیل کے ان سوالات کے جواب میں رسول اللہ ﷺ کی زبانِ مبارک سے پورے دین کا خلاصہ اور لب لباب بیان کرا کے صحابہؓ کے علم کی تکمیل کر دی جائے اور اُن کو اس امانت کا امین بنا دیا جائے ۔
واقعہ یہ ہے کہ دین کا حاصل بس تین ہی باتیں ہیں :
۱۔ یہ کہ بندہ اپنے کو بالکل اللہ تعالیٰ کا مطیع و فرمانبردار بنا دے اور اس کی بندگی کو اپنی زندگی بنا لے ، اور اسی کا نام اسلام ہے اور ارکان اسلام اسی حقیقت کے مظاہر ہیں ۔
۲۔ اُن اہم غیبی حقیقتوں کو مانا جائے اور اُن پر یقین کیا جائے جو اللہ کے پیغمبروں نے بتلائیں اور جن کو ماننے کی دعوت دی اور اسی کا نام ایمان ہے ۔
۳۔ اور اللہ نصیب فرمائے تو اسلام و ایمان کی منزلیں طے کر لینے کے بعد تیسری اور آخری تکمیلی منزل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ہستی کا یسا استحضار اور دل کو مراقبہ حضور و شہود کی ایسی کیفیت نصیب ہو جائے کہ اس کے احکام کی تعمیل اور اُس کی فرمانبرداری و بندگی اس طرح ہونے لگے کہ گویا اپنے پورے جمال و جلال کے ساتھ وہ ہماری آنکھوں کے سامنے ہے اور ہم کو دیکھ رہا ہے اور اسی کیف و حال کا نام احسان ہے ۔
اسی طرح اس سوال و جواب میں گویا پورے دین کا خلاصہ اور عطر آ گیا ، اور اس لئے اس حدیث کو علما نے “ام السنہ” بھی کہا ہے ، گویا جس طرح قرآن مجید کے تمام اہم مطلب اور مضامین پر بالا جمال حاوی ہونے کی وجہ سے سورہ فاتحہ کا نام “ام الکتاب” ہے اسی طرح یہ حدیث اپنی اس جامع حیثیت کی وجہ سے “ام السنہ” کہی جانے کی مستحق ہے اور اس کی اسی خصوصیت کی وجہ سے امام مسلم نے اپنی جلیل القدر کتاب صحیح مسلم کو مقدمہ کے بعد اسی حدیث سے شروع کیا ہے ، اور امام بغوی نے بھی اپنی دونوں تالیفوں “مصابیح” اور “شرح السنہ” کا آغاز اسی حدیث سے کیا ہے ۔
یہ حدیث حضرت عمرؓ کی روایت سے جس طرح کہ یہاں نقل کی گئی صحیح مسلم میں ہے اور صحیح مسلم اور صحیح بخاری دونوں میں حضرت ابو ہریرہؓ کی روایت سے بھی یہ واقعہ مروی ہے اور دوسری کتب حدیث میں اور بھی چند صحابہ کرام سے یہ واقعہ روایت کیا گیا ہے ۔
أَبِي عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ قَالَ: بَيْنَمَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ، إِذْ طَلَعَ عَلَيْنَا رَجُلٌ شَدِيدُ بَيَاضِ الثِّيَابِ، شَدِيدُ سَوَادِ الشَّعَرِ، لَا يُرَى عَلَيْهِ أَثَرُ السَّفَرِ، وَلَا يَعْرِفُهُ مِنَّا أَحَدٌ، حَتَّى جَلَسَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَسْنَدَ رُكْبَتَيْهِ إِلَى رُكْبَتَيْهِ، وَوَضَعَ كَفَّيْهِ عَلَى فَخِذَيْهِ، وَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ أَخْبِرْنِي عَنِ الْإِسْلَامِ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الْإِسْلَامُ أَنْ تَشْهَدَ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَتُقِيمَ الصَّلَاةَ، وَتُؤْتِيَ الزَّكَاةَ، وَتَصُومَ رَمَضَانَ، وَتَحُجَّ الْبَيْتَ إِنِ اسْتَطَعْتَ إِلَيْهِ سَبِيلًا»، قَالَ: صَدَقْتَ، قَالَ: فَعَجِبْنَا لَهُ يَسْأَلُهُ، وَيُصَدِّقُهُ، قَالَ: فَأَخْبِرْنِي عَنِ الْإِيمَانِ، قَالَ: «أَنْ تُؤْمِنَ بِاللهِ، وَمَلَائِكَتِهِ، وَكُتُبِهِ، وَرُسُلِهِ، وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، وَتُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ خَيْرِهِ وَشَرِّهِ»، قَالَ: صَدَقْتَ، قَالَ: فَأَخْبِرْنِي عَنِ الْإِحْسَانِ، قَالَ: «أَنْ تَعْبُدَ اللهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ، فَإِنْ لَمْ تَكُنْ تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاكَ»، قَالَ: فَأَخْبِرْنِي عَنِ السَّاعَةِ، قَالَ: «مَا الْمَسْئُولُ عَنْهَا بِأَعْلَمَ مِنَ السَّائِلِ» قَالَ: فَأَخْبِرْنِي عَنْ أَمَارَتِهَا، قَالَ: «أَنْ تَلِدَ الْأَمَةُ رَبَّتَهَا، وَأَنْ تَرَى الْحُفَاةَ الْعُرَاةَ الْعَالَةَ رِعَاءَ الشَّاءِ يَتَطَاوَلُونَ فِي الْبُنْيَانِ»، قَالَ: ثُمَّ انْطَلَقَ فَلَبِثْتُ مَلِيًّا، ثُمَّ قَالَ لِي: «يَا عُمَرُ أَتَدْرِي مَنِ السَّائِلُ؟» قُلْتُ: اللهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: «فَإِنَّهُ جِبْرِيلُ أَتَاكُمْ يُعَلِّمُكُمْ دِينَكُمْ»

তাহকীক:
হাদীস নং: ৩
کتاب الایمان
ارکانِ اسلام
حضرت عبداللہ بن عمر (رضی اللہ عنہما) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : “اسلام کی بنیاد پانچ ستونوں پر قائم کی گئی ہے ، ایک اس حقیقت کی شہادت دینا کہ اللہ کے سوا کوئی الہ نہیں ، (کوئی عبادت اور بندگی کے لائق نہیں) اور محمد اُس کے بندے اور اُس کے رسول ہیں ، دوسرے نماز قائم کرنا ، تیسرے زکوٰۃ ادا کرنا ، چوتھے حج کرنا ، پانچویں رمضان کے روزے رکھنا ”۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
اس حدیث میں رسول اللہ (ﷺ) نے استعارہ کے طور پر اسلام کو ایسی عمارت سے تشبیہ دی ہے ، جو چند ستونوں پر قائم ہو ، اور بتلایا ہے کہ عمارتِ اسلام ان پانچ ستونوں پر قائم ہے ، لہذا کسی مسلمان کے لئے اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ وہ ان ارکان کے ادا کرنے اور قائم کرنے میں غفلت کرے ، کیوں کہ یہ اسلام کے بنیادی ستون ہیں ۔ واضح رہے کہ اسلام کے فرائض ان ارکانِ خمسہ ہی میں منحصر نہیں ہیں ، بلکہ ان کے علاوہ اور بھی ہیں ، مثلاً جہاد فی سبیل اللہ ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر وغیرہ ، لیکن جو اہمیت اور جو خصوصیت ان پانچ کو حاصل ہے ، وہ چونکہ اوروں میں نہیں ہے اس لئے اسلام کا رکن صرف ان ہی کو قرار دیا گیا ہے ، اور خصوصیت و اہمیت وہی ہے جو پچھلے اوراق میں “حدیث جبرئیل” کی تشریح کے ضمن میں لکھی جا چکی ہے ، جس کا حاصل یہ ہے کہ یہ “ارکانِ خمسہ” اسلام کے لیے بمنزلہ پیکر محسوس کے ہیں ، نیز یہی وہ خاص تعبدی امور ہیں جو بالذات مطلوب و مقصود ہیں ، اور ان کی فرضیت کسی عارض کی وجہ سے ، اور کسی خاص حالت سے وابستہ نہیں ہے ، بلکہ یہ مستقل اور دوامی فرائض ہیں ، بخلاف جہاد اور امر بالمعروف کے ، کہ اُن کی یہ حیثیت نہیں ہے اور وہ خاص حالات میں اور خاص موقعوں پر فرض ہوتے ہیں۔
تشریح
اس حدیث میں رسول اللہ (ﷺ) نے استعارہ کے طور پر اسلام کو ایسی عمارت سے تشبیہ دی ہے ، جو چند ستونوں پر قائم ہو ، اور بتلایا ہے کہ عمارتِ اسلام ان پانچ ستونوں پر قائم ہے ، لہذا کسی مسلمان کے لئے اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ وہ ان ارکان کے ادا کرنے اور قائم کرنے میں غفلت کرے ، کیوں کہ یہ اسلام کے بنیادی ستون ہیں ۔ واضح رہے کہ اسلام کے فرائض ان ارکانِ خمسہ ہی میں منحصر نہیں ہیں ، بلکہ ان کے علاوہ اور بھی ہیں ، مثلاً جہاد فی سبیل اللہ ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر وغیرہ ، لیکن جو اہمیت اور جو خصوصیت ان پانچ کو حاصل ہے ، وہ چونکہ اوروں میں نہیں ہے اس لئے اسلام کا رکن صرف ان ہی کو قرار دیا گیا ہے ، اور خصوصیت و اہمیت وہی ہے جو پچھلے اوراق میں “حدیث جبرئیل” کی تشریح کے ضمن میں لکھی جا چکی ہے ، جس کا حاصل یہ ہے کہ یہ “ارکانِ خمسہ” اسلام کے لیے بمنزلہ پیکر محسوس کے ہیں ، نیز یہی وہ خاص تعبدی امور ہیں جو بالذات مطلوب و مقصود ہیں ، اور ان کی فرضیت کسی عارض کی وجہ سے ، اور کسی خاص حالت سے وابستہ نہیں ہے ، بلکہ یہ مستقل اور دوامی فرائض ہیں ، بخلاف جہاد اور امر بالمعروف کے ، کہ اُن کی یہ حیثیت نہیں ہے اور وہ خاص حالات میں اور خاص موقعوں پر فرض ہوتے ہیں۔
عَنِ ابْنِ عُمَرَ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " بُنِيَ الإِسْلاَمُ عَلَى خَمْسٍ: شَهَادَةِ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عبده ورَسُولُهُ ، وَإِقَامِ الصَّلاَةِ، وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ، وَالحَجِّ، وَصَوْمِ رَمَضَانَ (رواه البخارى و مسلم)

তাহকীক:
হাদীস নং: ৪
کتاب الایمان
ارکانِ اسلام پر جنت کی بشارت
حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے ، وہ کہتے ہیں کہ ہم کو ممانعت کر دی گئی تھی کہ رسول اللہ ﷺ سے (بلا خاص ضرورت کے) کچھ پوچھیں ، تو ہم کو اس بات سے خوشی ہوتی تھی کہ کوئی سمجھدار بدوی حضرتﷺ کی خدمت میں آئے اور آپ سے کچھ پوچھے ، اور ہم سنیں ۔ تو ان ہی ایام میں ایک بدوی خدمتِ نبویﷺ میں حاضر ہوا ، اور عرض کیا : “اے محمدﷺ ! تمہارا ۳قاصد (یا مُبلغ) ہمارے پاس پہنچا تھا ، اس نے ہم سے بیان کیا کہ تمہارا کہنا ہے کہ اللہ نے تم کو اپنا رسول بنا کر بھیجا ہے ؟ ” حضور ﷺ نے فرمایا : “اس نے تم سے ٹھیک کہا ” ۔ اس کے بعد اُس بدوی نے کہا : “تو بتلاؤ کہ آسمان کس نے بنایا ہے ؟” آپ ﷺ نے فرمایا “اللہ نے!” اس نے کہا : “زمین کس نے بنائی؟” آپ ﷺ نے فرمایا “اللہ نے” ۔ اس نے کہا “زمین پر یہ پہاڑ کس نے کھڑے کئے ہیں ، اور ان پہاڑوں میں اور جوکچھ بنا ہے وہ کس نے بنایا ہے؟” آپ ﷺ نے فرمایا : “اللہ نے!” اُ کے بعد اُس بدوی سائل نے آپ ﷺ سے کہا : “پس قسم ہے اُس ذات کی جس نے آسمان بنایا ، زمین بنائی اور اس پر پہاڑ نصب کئے ، کیا للہ ہی نے تم کو بھیجا ہے؟” آپ ﷺ نے فرمایا : “بےشک مجھے اللہ ہی نے بھیجا ہے ” ۔ پھر اس نے کہا “تمہارے اُس قاصد نے ہم سے یہ بھی بیان کیا تھا ، کہ ہم پر دن رات میں پانچ نمازیں بھی فرض ہیں ؟ ” حضور ﷺ نے فرمایا : “یہ بھی اُس نے تم سے ٹھیک کہا !” اُس بدوی نے کہا : “تو قسم ہے آپ کے بھیجنے والے کی ، کیا اللہ نے ہی آپ کو ان نمازوں کا بھی حکم دیا ہے ؟” آپ ﷺ نے فرمایا : “ہاں! یہ اللہ ہی کا حکم ہے !” پھر بدوی نے کہا : “اور آپ کے قاصد نے بیان کیا تھا کہ ہمارے مالوں میں زکوٰۃ بھی مقرر کی گئی ہے ؟” آپ ﷺ نے فرمایا : “یہ بھی اس نے تم سے سچ کہا!” اعرابی نے کہا : “تو قسم ہے آپ کو بھیجنے والے کی ، کیا اللہ نے آپ کو اس کا حکم کیا ہے ؟” آپ ﷺ نے فرمایا : “ہاں! یہ بھی اللہ ہی کا حکم ہے !” پھر اُس اعرابی نے کہا ، کہ : “آپ ﷺ کے قاصد نے بیان کیا تھا کہ سال میں ماہ رمضان کے روزے بھی ہم پر فرض ہوئے ہیں ؟” آپ ﷺ نے فرمایا : “یہ بھی اُس نے سچ کہا ” اعرابی نے عرض کیا : “تو قسم ہے آپ کے بھیجنے والے کی ، کیا اللہ نے آپ کو اس کا حکم کیا ہے ؟” آپ ﷺ نے فرمایا : “ہاں! یہ بھی اللہ ہی کا حکم ہے !” اس کے بعد اعرابی نے کہا : “آپ ﷺ کے قاصد نے ہم سے یہ بھی بیان کیا ، کہ ہم میں سے جو حج کے لئے مکہ پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو ، اُس پر بیت اللہ کا حج بھی فرض ہے ؟” آپ ﷺ نے فرمایا : “ہاں! یہ بھی اس نے سچ کہا ” (راوی کا بیان ہے کہ) یہ سوال و جواب ختم کر کے وہ اعرابی چل دیا ، اور چلتے ہوئے اُس نے کہا : “اُس ذات کی قسم! جس نے آپ (ﷺ) کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے ، میں ان میں نہ کوئی زیادتی کروں گا اور نہ کوئی کمی” ۔ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا “اگر یہ صادق ہے ، تو ضرور جنت میں جائے گا”۔
تشریح
شروع حدیث میں “سوال کی ممانعت” کا جو ذکر آیا ہے ، اُس کا اشارہ قرآن پاک کی آیت : “يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَسْأَلُوا عَنْ أَشْيَاءَ إِن تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ ” کی طرف ہے ، بات یہ ہے کہ نئے نئے سوالات کرنا انسان کی فطرت ہے ، لیکن اس عادت کو آزاد چھوڑ دیا جائے تو نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ طبائع کا رجحان موشگافیوں ہی کی طرف زیادہ بڑھ جاتا ہے ، اور ان میں باتوں کی کھود کرید زیادہ پیدا ہو جاتی ہے ، اور عمل اسی نسبت سے کم ، نیز اس میں وقت بھی ضائع ہوتا ہے ، اور بالخصوص پیغمبرِ وقت سے زیادہ سوال کرنے میں ایک خرابی یہ بھی ہوتی ہے کہ اُس کی جانب سے جواب ملنے کے بعد اُمت کی پابندیوں میں اضافہ ہوجاتا ہے ، غرض ان ہی وجوہ سے غیر ضروری سوالات کرنے کی صحابہ کرامؓ کو بھی ممانعت فرما دی گئی تھی جس کے بعد وہ بہت ہی کم سوال کرتے تھے ، اور اس کے آرزو مند رہا کرتے تھے ، کہ کوئی بدوی آئے اور وہ آپ سے کچھ پوچھے ، تو ہم کو بھی کچھ سننے کو مل جائے ، کیوں کہ بے چارے بدویوں کے لیے حضور ﷺ کے یہاں بڑی وسعت تھی ، اور اسی حدیث کی ایک روایت حضرت انسؓ ہی کی یہ تصریح بھی اس بارے میں مروی ہے کہ “بدوی آپ کے یہاں سوالات میں بڑے جری تھے ، اور جو چاہتے تھے بے دھڑک پوچھتے تھے” ۔ (فتح الباری بحوالہ صحیح ابی عوانہ)
صحیح بخاری کی اسی حدیث کی روایت میں ہے کہ آخر میں چلتے ہوئے سائل نے یہ بھی بتلایا کہ میں قبیلہ بنی سعد بن بکر کا ایک فرد ہوں میرا نام ضمام بن ثعلبہ ہے ، اور میں اپنی قوم کی طرف سے نمائندہ ہو کر آیا ہوں ۔
نیز بخاری ہی کی روایت میں ہے کہ اُنہوں نے آ کر پہلے ہی آنحضرتﷺ سے عرض کر دیا تھا کہ :
إِنِّي سَائِلُكَ فَمُشَدِّدٌ عَلَيْكَ فِي المَسْأَلَةِ، فَلاَ تَجِدْ عَلَيَّ فِي نَفْسِكَ؟ فَقَالَ: «سَلْ عَمَّا بَدَا لَكَ»
میں آپ سے کچھ سوالات کرنا چاہتا ہوں ، مگر سوال میں میرا رویہ سخت ہو گا تو آپ مجھ پر خفا نہ ہوں ، حضور ﷺ نے فرمایا کہ “پوچھو جو تمہارے جی میں آئے”۔
اس کے بعد وہ سوال و جواب ہوئے جو حدیث میں مذکور ہوئے ۔ اس سائل نے چلتے ہوئے آخر میں قسم کھا کر جو یہ کہا کہ :
لَا أَزِيدُ عَلَيْهِنَّ، وَلَا أَنْقُصُ مِنْهُنَّکہ میں ان میں کوئی کمی بیشی نہیں کروں گا ۔
تو غالباً اس کا مطلب یہی تھا کہ میں آپ کی اس تعلیم و ہدایت کا پورا پورا اتباع کروں گا اور اپنی طبیعت اور اپنے جی سے اُس میں کوئی زیادتی کمی نہیں کروں گا ، اور دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ میں آپ کا یہ پیغام جوں کا توں ہی پانے اپنی قوم کو پہنچاؤں کا ، اور اپنی طرف سے اس میں کوئی کمی بیشی نہیں کروں گا ۔
دوسری روایت میں ہے کہ انہون نے اپنی قوم میں پہنچ کر بڑے جوش اور سرگرمی کےساتھ تبلیغ شروع کی ، بُت پرستی کے خلاف اتنی کھل کر تقریریں کیں کہ اُن کے بعض عزیزوں نے ان سے کہا کہ :
يَا ضِمَامُ، اتَّقِ الْبَرَصَ وَالْجُذَامَ، اتَّقِ الْجُنُونَ
اے ضمام! برص ، کوڑھ اور جنون سے ڈر (دیوتاؤں کی مخالفت سے کہیں تو کوڑھی اور دیوانا نہ بن جائے) ۔
مگر اللہ پاک نے ان کی تبلیغ میں اتنی برکت دی کہ صبح کو جو لوگ ضمام کو کوڑھ اور دماغ کی خرابی سے ڈرا رہے تھے شام کو وہ بھی بُت پرستی سے بیزار اور توحید کے حلقہ بگوش ہو گئے ، اور سارے قبیلے میں ایک متنفس بھی غیر مومن نہیں رہا ۔ فَرَضَى اللهُ عَنْهُمْ وَعَنَّا اَجْمَعِيْنَ۔
تشریح
شروع حدیث میں “سوال کی ممانعت” کا جو ذکر آیا ہے ، اُس کا اشارہ قرآن پاک کی آیت : “يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَسْأَلُوا عَنْ أَشْيَاءَ إِن تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ ” کی طرف ہے ، بات یہ ہے کہ نئے نئے سوالات کرنا انسان کی فطرت ہے ، لیکن اس عادت کو آزاد چھوڑ دیا جائے تو نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ طبائع کا رجحان موشگافیوں ہی کی طرف زیادہ بڑھ جاتا ہے ، اور ان میں باتوں کی کھود کرید زیادہ پیدا ہو جاتی ہے ، اور عمل اسی نسبت سے کم ، نیز اس میں وقت بھی ضائع ہوتا ہے ، اور بالخصوص پیغمبرِ وقت سے زیادہ سوال کرنے میں ایک خرابی یہ بھی ہوتی ہے کہ اُس کی جانب سے جواب ملنے کے بعد اُمت کی پابندیوں میں اضافہ ہوجاتا ہے ، غرض ان ہی وجوہ سے غیر ضروری سوالات کرنے کی صحابہ کرامؓ کو بھی ممانعت فرما دی گئی تھی جس کے بعد وہ بہت ہی کم سوال کرتے تھے ، اور اس کے آرزو مند رہا کرتے تھے ، کہ کوئی بدوی آئے اور وہ آپ سے کچھ پوچھے ، تو ہم کو بھی کچھ سننے کو مل جائے ، کیوں کہ بے چارے بدویوں کے لیے حضور ﷺ کے یہاں بڑی وسعت تھی ، اور اسی حدیث کی ایک روایت حضرت انسؓ ہی کی یہ تصریح بھی اس بارے میں مروی ہے کہ “بدوی آپ کے یہاں سوالات میں بڑے جری تھے ، اور جو چاہتے تھے بے دھڑک پوچھتے تھے” ۔ (فتح الباری بحوالہ صحیح ابی عوانہ)
صحیح بخاری کی اسی حدیث کی روایت میں ہے کہ آخر میں چلتے ہوئے سائل نے یہ بھی بتلایا کہ میں قبیلہ بنی سعد بن بکر کا ایک فرد ہوں میرا نام ضمام بن ثعلبہ ہے ، اور میں اپنی قوم کی طرف سے نمائندہ ہو کر آیا ہوں ۔
نیز بخاری ہی کی روایت میں ہے کہ اُنہوں نے آ کر پہلے ہی آنحضرتﷺ سے عرض کر دیا تھا کہ :
إِنِّي سَائِلُكَ فَمُشَدِّدٌ عَلَيْكَ فِي المَسْأَلَةِ، فَلاَ تَجِدْ عَلَيَّ فِي نَفْسِكَ؟ فَقَالَ: «سَلْ عَمَّا بَدَا لَكَ»
میں آپ سے کچھ سوالات کرنا چاہتا ہوں ، مگر سوال میں میرا رویہ سخت ہو گا تو آپ مجھ پر خفا نہ ہوں ، حضور ﷺ نے فرمایا کہ “پوچھو جو تمہارے جی میں آئے”۔
اس کے بعد وہ سوال و جواب ہوئے جو حدیث میں مذکور ہوئے ۔ اس سائل نے چلتے ہوئے آخر میں قسم کھا کر جو یہ کہا کہ :
لَا أَزِيدُ عَلَيْهِنَّ، وَلَا أَنْقُصُ مِنْهُنَّکہ میں ان میں کوئی کمی بیشی نہیں کروں گا ۔
تو غالباً اس کا مطلب یہی تھا کہ میں آپ کی اس تعلیم و ہدایت کا پورا پورا اتباع کروں گا اور اپنی طبیعت اور اپنے جی سے اُس میں کوئی زیادتی کمی نہیں کروں گا ، اور دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ میں آپ کا یہ پیغام جوں کا توں ہی پانے اپنی قوم کو پہنچاؤں کا ، اور اپنی طرف سے اس میں کوئی کمی بیشی نہیں کروں گا ۔
دوسری روایت میں ہے کہ انہون نے اپنی قوم میں پہنچ کر بڑے جوش اور سرگرمی کےساتھ تبلیغ شروع کی ، بُت پرستی کے خلاف اتنی کھل کر تقریریں کیں کہ اُن کے بعض عزیزوں نے ان سے کہا کہ :
يَا ضِمَامُ، اتَّقِ الْبَرَصَ وَالْجُذَامَ، اتَّقِ الْجُنُونَ
اے ضمام! برص ، کوڑھ اور جنون سے ڈر (دیوتاؤں کی مخالفت سے کہیں تو کوڑھی اور دیوانا نہ بن جائے) ۔
مگر اللہ پاک نے ان کی تبلیغ میں اتنی برکت دی کہ صبح کو جو لوگ ضمام کو کوڑھ اور دماغ کی خرابی سے ڈرا رہے تھے شام کو وہ بھی بُت پرستی سے بیزار اور توحید کے حلقہ بگوش ہو گئے ، اور سارے قبیلے میں ایک متنفس بھی غیر مومن نہیں رہا ۔ فَرَضَى اللهُ عَنْهُمْ وَعَنَّا اَجْمَعِيْنَ۔
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: نُهِينَا أَنْ نَسْأَلَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ شَيْءٍ، فَكَانَ يُعْجِبُنَا أَنْ يَجِيءَ الرَّجُلُ مِنْ أَهْلِ الْبَادِيَةِ الْعَاقِلُ، فَيَسْأَلَهُ، وَنَحْنُ نَسْمَعُ، فَجَاءَ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْبَادِيَةِ، فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ، أَتَانَا رَسُولُكَ فَزَعَمَ لَنَا أَنَّكَ تَزْعُمُ أَنَّ اللهَ أَرْسَلَكَ، قَالَ: «صَدَقَ»، قَالَ: فَمَنْ خَلَقَ السَّمَاءَ؟ قَالَ: «اللهُ»، قَالَ: فَمَنْ خَلَقَ الْأَرْضَ؟ قَالَ: «اللهُ»، قَالَ: فَمَنْ نَصَبَ هَذِهِ الْجِبَالَ، وَجَعَلَ فِيهَا مَا جَعَلَ؟ قَالَ: «اللهُ»، قَالَ: فَبِالَّذِي خَلَقَ السَّمَاءَ، وَخَلَقَ الْأَرْضَ، وَنَصَبَ هَذِهِ الْجِبَالَ، آللَّهُ أَرْسَلَكَ؟ قَالَ: «نَعَمْ»، قَالَ: وَزَعَمَ رَسُولُكَ أَنَّ عَلَيْنَا خَمْسَ صَلَوَاتٍ فِي يَوْمِنَا، وَلَيْلَتِنَا، قَالَ: «صَدَقَ»، قَالَ: فَبِالَّذِي أَرْسَلَكَ، آللَّهُ أَمَرَكَ بِهَذَا؟ قَالَ: «نَعَمْ»، قَالَ: وَزَعَمَ رَسُولُكَ أَنَّ عَلَيْنَا زَكَاةً فِي أَمْوَالِنَا، قَالَ: «صَدَقَ»، قَالَ: فَبِالَّذِي أَرْسَلَكَ، آللَّهُ أَمَرَكَ بِهَذَا؟ قَالَ: «نَعَمْ»، قَالَ: وَزَعَمَ رَسُولُكَ أَنَّ عَلَيْنَا صَوْمَ شَهْرِ رَمَضَانَ فِي سَنَتِنَا، قَالَ: «صَدَقَ»، قَالَ: فَبِالَّذِي أَرْسَلَكَ، آللَّهُ أَمَرَكَ بِهَذَا؟ قَالَ: «نَعَمْ»، قَالَ: وَزَعَمَ رَسُولُكَ أَنَّ عَلَيْنَا حَجَّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا، قَالَ: «صَدَقَ»، قَالَ: ثُمَّ وَلَّى، قَالَ: وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ، لَا أَزِيدُ عَلَيْهِنَّ، وَلَا أَنْقُصُ مِنْهُنَّ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَئِنْ صَدَقَ لَيَدْخُلَنَّ الْجَنَّةَ»

তাহকীক:
হাদীস নং: ৫
کتاب الایمان
ارکانِ اسلام پر جنت کی بشارت
حضرت ابو ایوبؓ راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ایک سفر میں تھے ، کہ ایک بدوی سامنے آ کھڑا ہوا ، اور اس نے آپ کے ناقہ کی مُہار پکڑ لی پھر کہا اے اللہ کے رسول! (یا آپ کا نام لے کر کہا کہ اے محمد!) مجھے وہ بات بتاؤ جو جنت سے مجھے قریب اور آتش دوزخ سے دور کر دے ؟ راوی کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ رُک گئے (یعنی آپ نے اس سوال کا جواب دینے کے لئے اپنی ناقہ کو روک لیا) پھر اپنے رفقاء کی طرف آپ نے دیکھا اور (اُن کو متوجہ کرتے ہوئے) فرمایا کہ اس کو اچھی توفیق ملی (یا فرمایا کہ اس کو خوب ہدایت ملی) پھر آپ نے اس اعرابی سائل سے فرمایا کہ “ہاں ! ذرا پھر کہنا تم نے کس طرح کہا؟” سائل نے اپنا وہی سوال پھر دُہرایا (مجھے وہ بات بتا دو ، جو جنت سے مجھے نزدیک اور دوزخ سے دور کر دے) حضور ﷺ نے فرمایا “عبادت اور بندگی کرتے رہو صرف اللہ کی اور کسی چیز کو اُس کے ساتھ کسی طرح بھی شریک نہ کرو ، اور نماز قائم کرتے رہو اور زکوٰۃ ادا کرتے رہو ، اور صلہ رحمی کرو ۔ (یعنی اپنے اہل قرابت کے ساتھ حسبِ مراتب اچھا سلوک رکھو ، اور اُنکے حقوق ادا کرو) یہ بات ختم فرما کر حضرت نے اس بدوی سے فرمایا کہ “اب ہماری ناقہ کی مہار چھوڑ دو” ۔ (مسلم)
تشریح
اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے جنت سے قریب اور جہنم سے بعید کرنے والے اعمال میں سے صرف اللہ کی خالص عبادت ، اقامتِ صلوٰۃ اور ادائے زکوٰۃ اور صلہ رحمی ہی کا ذکر فرمایا ۔ حتیٰ کہ روزہ اور حج کا بھی ذکر نہیں کیا ، تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آدمی کے لیے بس یہی چار باتیں کافی ہیں ، اور ان کے علاوہ جو فرائض و واجبات ہیں وہ غیر ضروری یا غیر اہم ہیں ۔ ایسا سمجھنا اور احادیث میں اس قسم کی موشگافیاں پیدا کرنا فی الحقیقت سلامتِ فہم اور خوش مذاقی سے بہت دور ہے ۔ حدیث کے طالبعلم کو یہ اصول ہمیشہ ملحوظ رکھنا چاہئے کہ رسول اللہ ﷺ امت کے لیے ایک شفیق معلم اور مشفق مربی ہیں آپ کوئی مصنف اور مؤلف نہیں ہیں ۔ اور شفیق معلم کا طریقہ یہی ہوتا ہے اور یہی اُس کے لیے صحیح بھی ہے کہ وہ جس موقع پر جس بات کی تلقین و تعلیم زیادہ مناسب سمجھتا ہے بس اُس وقت اُتنی ہی بات بتلاتا ہے ۔ یہ طریقہ “مصنفوں” کا ہے کہ جہاں وہ جس موضوع پر کلام کرتے ہیں اُسکے تمام اطراف و جوانب اور مالہ وما علیہ کو اسی جگہ بیان کرتے ہیں کسی شفیق و معلم مربی کی تعلیم و تلقین میں بھی مصنفین و اربابِ فنون کا یہی طرز بیان تلاش کرنا درحقیقت خود اپنی بدذوقی ہے ۔ پس روزہ ، حج اور جہاد وغیرہ کا اس حدیث میں جو ذکر نہیں ہے تو اس کی وجہ یہی ہے کہ اُس وقت اس سائل کو ان ہی چار باتوں کی تذکیر و ترغیب کی خاص ضرورت تھی ، اور شاید اس کا سبب یہ ہو کہ عموماً ان ہی چار چیزوں میں لوگوں سے کوتاہی زیادہ ہوتی ہے ، یعنی اقامتِ صلوٰۃ ، ادائے زکوٰۃ اور صلہ رحمی میں غفلت و کوتاہی اور اللہ کے ساتھ شرک کا خطرہ دوسری قسم کی کوتاہیوں سے زیادہ رہتا ہے ۔ آج بھی ہم دیکھ رہے ہیں کہ روزہ اور حج جن پر فرض ہے اُن میں اُن کے تارک اتنے نہیں ہیں جتنے نماز و زکوٰۃ اور صلہ رحمی وغیرہ حقوق العباد کی ادائیگی میں غفلت کرنے والے ہیں یا جو کسی قسم کے جلی یا خفی شرک میں ملوث ہیں ۔ ایسے آدمی تو شائد تلاش کرنے سے بھی نہ مل سکیں جو مماز و زکوٰۃ اور حقوق العباد کی ادائیگی کے تو کما حقہ پابند ہوں لیکن روزہ اور حج باوجود فرضیت کے ادا نہ کرتے ہوں ، لیکن آپ ایسوں کو گن بھی نہیں سکتے جو رمضان آنے پر روزے تو رکھ لیتے ہیں ، مگر نماز کے پابند نہیں ، یا اگرچہ حج تو انہوں نے کر لیا ہے لیکن زکوٰۃ اور صلہ رحم جیسے حقوق عباد کے معاملے میں وہ سخت کوتاہ کار ہیں ۔ الغرض بہت ممکن ہے کہ اسی وجہ سے آنحضرتﷺ نے اس وقت صرف ان ہی چار باتوں کی تلقین پر اکتفا فرمایا ہو ۔ واللہ اعلم ۔
صحیح مسلم ہی کی اسی حدیث کی دوسری رووایت کے آخر میں ایک فقرہ یہ بھی ہے کہ جب وہ اعرابی چلا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ “اگر یہ مضبوطی سے ان احکام پر عمل کرتا رہا تو یقیناً جنت میں جائے گا”۔
اس حدیث کی روایت میں تین جگہ راوی نے اپنے شک کو ظاہر کیا ہے :
۱۔ ایک یہ کہ ناقہ کی مہار کے لئے اُوپر کے راوی نے “خطام” کا لفظ بولا تھا یا “زمام” کا ۔
۲۔ دوسرے یہ کہ سائل نے آنحضرتﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے “یا رسول اللہ” کہا تھا یا “یا محمد!” ۔
۳۔ تیسرے یہ کہ حضور ﷺ نے اُس کی بابت صحابہؓ سے “لَقَدْ وُفِّقَ” کہا تھا یا “لَقَدْ هُدِى” ۔
راوی کے اس اظہارِ شک سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ہمارے راویانِ حدیث نقل حدیث و روایت میں کس درجہ محتاط اور خدا ترس تھے ، کہ تین جگہ صرف لفظوں میں ان کو شک ہے کہ اوپر کے راوی نے یہ لفظ بولا تھا یا یہ لفظ ، تو اپنے اس شک کو بھی ظاہر کر دیا ، حالاں کہ تینوں جگہ معنی میں خفیف سی کوئی تبدیلی بھی نہیں ہوتی تھی ۔
ف : اس حدیث سے آنحضرتﷺ کی شفقتِ پیغمبرانہ کا بھی کچھ اندازہ کیا جا سکتا ہے، کہ آپ سفر میں ہیں ، ناقہ پر سوار چلے جا رہے ہیں (اور ظاہر ہے کہ آپ ﷺ کا سفر یقیناً کسی دینی مہم ہی کے سلسلے کا سفر ہو گا) اثناء راہ میں ایک بالکل نا آشنا بدوی سامنے آ کر ناقہ کی مُہار پکڑ کے کھڑا ہو جاتا ہے اور پوچھتا ہے کہ “مجھے جنت سے قریب اور دوزخ سے دُور کرنے والی بات بتلاؤ” ۔ آپ ﷺ اُس کے اس طرز عمل سے ناراض نہیں ہوتے ، بلکہ اُس کی دینی حرص کی ہمت افزائی فرماتے ہیں ، اور اپنے رفقاء سفر کو متوجہ کر کے ارشاد فرماتے ہیں ، کہ “اس کو اچھی توفیق ملی” ۔ پھر اپنے ان رفیقوں کو بھی سائل کی زبان ہی سے اس کا سوال سُنوانے کے لئے اُس سے فرماتے ہیں ۔ “ذرا پھر کہو ، تم نے کیسے کہا؟” اس کے بعد جواب دیتے ہیں اور آخر میں فرماتے ہیں “دَعِ النَّاقَةَ” (اچھا اب ہماری ناقہ کی مُہار چھوڑ دو) اللہ اکبر! پیغمبری کیا ہے ، شفقت و رحمت کا ایک مجسم پیکر ہے ۔ (فصلى الله تعالى عليه وسلم سعة رحمته ورافته) مگر یہاں یہ بھی ملحوظ رکھنا چاہئے کہ یہ سائل “اعرابی” تھا ۔ ع “موسیا آداب دانا دیگر اند”
تشریح
اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے جنت سے قریب اور جہنم سے بعید کرنے والے اعمال میں سے صرف اللہ کی خالص عبادت ، اقامتِ صلوٰۃ اور ادائے زکوٰۃ اور صلہ رحمی ہی کا ذکر فرمایا ۔ حتیٰ کہ روزہ اور حج کا بھی ذکر نہیں کیا ، تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آدمی کے لیے بس یہی چار باتیں کافی ہیں ، اور ان کے علاوہ جو فرائض و واجبات ہیں وہ غیر ضروری یا غیر اہم ہیں ۔ ایسا سمجھنا اور احادیث میں اس قسم کی موشگافیاں پیدا کرنا فی الحقیقت سلامتِ فہم اور خوش مذاقی سے بہت دور ہے ۔ حدیث کے طالبعلم کو یہ اصول ہمیشہ ملحوظ رکھنا چاہئے کہ رسول اللہ ﷺ امت کے لیے ایک شفیق معلم اور مشفق مربی ہیں آپ کوئی مصنف اور مؤلف نہیں ہیں ۔ اور شفیق معلم کا طریقہ یہی ہوتا ہے اور یہی اُس کے لیے صحیح بھی ہے کہ وہ جس موقع پر جس بات کی تلقین و تعلیم زیادہ مناسب سمجھتا ہے بس اُس وقت اُتنی ہی بات بتلاتا ہے ۔ یہ طریقہ “مصنفوں” کا ہے کہ جہاں وہ جس موضوع پر کلام کرتے ہیں اُسکے تمام اطراف و جوانب اور مالہ وما علیہ کو اسی جگہ بیان کرتے ہیں کسی شفیق و معلم مربی کی تعلیم و تلقین میں بھی مصنفین و اربابِ فنون کا یہی طرز بیان تلاش کرنا درحقیقت خود اپنی بدذوقی ہے ۔ پس روزہ ، حج اور جہاد وغیرہ کا اس حدیث میں جو ذکر نہیں ہے تو اس کی وجہ یہی ہے کہ اُس وقت اس سائل کو ان ہی چار باتوں کی تذکیر و ترغیب کی خاص ضرورت تھی ، اور شاید اس کا سبب یہ ہو کہ عموماً ان ہی چار چیزوں میں لوگوں سے کوتاہی زیادہ ہوتی ہے ، یعنی اقامتِ صلوٰۃ ، ادائے زکوٰۃ اور صلہ رحمی میں غفلت و کوتاہی اور اللہ کے ساتھ شرک کا خطرہ دوسری قسم کی کوتاہیوں سے زیادہ رہتا ہے ۔ آج بھی ہم دیکھ رہے ہیں کہ روزہ اور حج جن پر فرض ہے اُن میں اُن کے تارک اتنے نہیں ہیں جتنے نماز و زکوٰۃ اور صلہ رحمی وغیرہ حقوق العباد کی ادائیگی میں غفلت کرنے والے ہیں یا جو کسی قسم کے جلی یا خفی شرک میں ملوث ہیں ۔ ایسے آدمی تو شائد تلاش کرنے سے بھی نہ مل سکیں جو مماز و زکوٰۃ اور حقوق العباد کی ادائیگی کے تو کما حقہ پابند ہوں لیکن روزہ اور حج باوجود فرضیت کے ادا نہ کرتے ہوں ، لیکن آپ ایسوں کو گن بھی نہیں سکتے جو رمضان آنے پر روزے تو رکھ لیتے ہیں ، مگر نماز کے پابند نہیں ، یا اگرچہ حج تو انہوں نے کر لیا ہے لیکن زکوٰۃ اور صلہ رحم جیسے حقوق عباد کے معاملے میں وہ سخت کوتاہ کار ہیں ۔ الغرض بہت ممکن ہے کہ اسی وجہ سے آنحضرتﷺ نے اس وقت صرف ان ہی چار باتوں کی تلقین پر اکتفا فرمایا ہو ۔ واللہ اعلم ۔
صحیح مسلم ہی کی اسی حدیث کی دوسری رووایت کے آخر میں ایک فقرہ یہ بھی ہے کہ جب وہ اعرابی چلا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ “اگر یہ مضبوطی سے ان احکام پر عمل کرتا رہا تو یقیناً جنت میں جائے گا”۔
اس حدیث کی روایت میں تین جگہ راوی نے اپنے شک کو ظاہر کیا ہے :
۱۔ ایک یہ کہ ناقہ کی مہار کے لئے اُوپر کے راوی نے “خطام” کا لفظ بولا تھا یا “زمام” کا ۔
۲۔ دوسرے یہ کہ سائل نے آنحضرتﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے “یا رسول اللہ” کہا تھا یا “یا محمد!” ۔
۳۔ تیسرے یہ کہ حضور ﷺ نے اُس کی بابت صحابہؓ سے “لَقَدْ وُفِّقَ” کہا تھا یا “لَقَدْ هُدِى” ۔
راوی کے اس اظہارِ شک سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ہمارے راویانِ حدیث نقل حدیث و روایت میں کس درجہ محتاط اور خدا ترس تھے ، کہ تین جگہ صرف لفظوں میں ان کو شک ہے کہ اوپر کے راوی نے یہ لفظ بولا تھا یا یہ لفظ ، تو اپنے اس شک کو بھی ظاہر کر دیا ، حالاں کہ تینوں جگہ معنی میں خفیف سی کوئی تبدیلی بھی نہیں ہوتی تھی ۔
ف : اس حدیث سے آنحضرتﷺ کی شفقتِ پیغمبرانہ کا بھی کچھ اندازہ کیا جا سکتا ہے، کہ آپ سفر میں ہیں ، ناقہ پر سوار چلے جا رہے ہیں (اور ظاہر ہے کہ آپ ﷺ کا سفر یقیناً کسی دینی مہم ہی کے سلسلے کا سفر ہو گا) اثناء راہ میں ایک بالکل نا آشنا بدوی سامنے آ کر ناقہ کی مُہار پکڑ کے کھڑا ہو جاتا ہے اور پوچھتا ہے کہ “مجھے جنت سے قریب اور دوزخ سے دُور کرنے والی بات بتلاؤ” ۔ آپ ﷺ اُس کے اس طرز عمل سے ناراض نہیں ہوتے ، بلکہ اُس کی دینی حرص کی ہمت افزائی فرماتے ہیں ، اور اپنے رفقاء سفر کو متوجہ کر کے ارشاد فرماتے ہیں ، کہ “اس کو اچھی توفیق ملی” ۔ پھر اپنے ان رفیقوں کو بھی سائل کی زبان ہی سے اس کا سوال سُنوانے کے لئے اُس سے فرماتے ہیں ۔ “ذرا پھر کہو ، تم نے کیسے کہا؟” اس کے بعد جواب دیتے ہیں اور آخر میں فرماتے ہیں “دَعِ النَّاقَةَ” (اچھا اب ہماری ناقہ کی مُہار چھوڑ دو) اللہ اکبر! پیغمبری کیا ہے ، شفقت و رحمت کا ایک مجسم پیکر ہے ۔ (فصلى الله تعالى عليه وسلم سعة رحمته ورافته) مگر یہاں یہ بھی ملحوظ رکھنا چاہئے کہ یہ سائل “اعرابی” تھا ۔ ع “موسیا آداب دانا دیگر اند”
عَنْ أَبِىْ أَيُّوبَ أَنَّ أَعْرَابِيًّا عَرَضَ لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ فِي سَفَرٍ، فَأَخَذَ بِخِطَامِ نَاقَتِهِ - أَوْ بِزِمَامِهَا ثُمَّ قَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ - أَوْ يَا مُحَمَّدُ - أَخْبِرْنِي بِمَا يُقَرِّبُنِي مِنَ الْجَنَّةِ، وَمَا يُبَاعِدُنِي مِنَ النَّارِ، قَالَ: فَكَفَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ نَظَرَ فِي أَصْحَابِهِ، ثُمَّ قَالَ: «لَقَدْ وُفِّقَ، أَوْ لَقَدْ هُدِيَ»، قَالَ: كَيْفَ قُلْتَ؟ قَالَ: فَأَعَادَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «تَعْبُدُ اللهَ لَا تُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا، وَتُقِيمُ الصَّلَاةَ، وَتُؤْتِي الزَّكَاةَ، وَتَصِلُ الرَّحِمَ، دَعِ النَّاقَةَ» (رواه مسلم)

তাহকীক:
হাদীস নং: ৬
کتاب الایمان
ارکانِ اسلام پر جنت کی بشارت
حضرت طلحہ بن عبید اللہؓ سے روایت ہے کہتے ہیں کہ ایک شخص جو علاقہ نجد کا رہنے والا تھا ، اور اُسکے سر کے بال بکھرے ہوئے تھے(کچھ کہتا ہوا) رسول اللہ ﷺ کی طرف کو آیا ، ہم اُس کی بھنبھناہٹ (گونج) تو سنتے تھے مگر (آواز صاف نہ ہونے کی وجہ سے اور شاید فاصلے کی زیادتی بھی اس کی وجہ ہو) ہم اُس کی بات کو سمجھ نہیں رہے تھے ، یہاں تک کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے قریب آ گیا ، اب وہ سوال کرتا ہے ، اسلام کے بارے میں (یعنی اُس نے حضور ﷺ سے عرض کیا کہ “مجھے اسلام کے وہ خاص احکام بتلائیے جن پر عمل کرنا بحیثیت مسلمان کے میرے لئے اور ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے”) آپ ﷺ نے فرمایا “پانچ تو نمازیں ہیں دن رات میں (جو فرض کی گئی ہیں اور اسلام میں یہ سب سے اہم اور اول فریضہ ہے) ” اُس نے عرض کیا کہ “کیا ان کے علاوہ اور کوئی نماز بھی میرے لئے لازم ہو گی؟” آپ ﷺ نے فرمایا “نہیں! (فرض تو بس یہی پانچ نمازیں ہیں) مگر تمہیں حق ہے اپنی طرف سے اور اپنے دل کی خوشی سے (ان پانچ فرضوں کے علاوہ) اور بھی زائد نمازیں پڑھو (اور مزید ثواب حاصل کرو) ” پھر آپ ﷺ نے فرمایا “اور سال میں پورے مہینے رمضان کے روزے فرض کئے گئے ہیں (اور یہ اسلام کا دوسرا عمومی فریضہ ہے) ” ۔ اُس نے عرض کیا “کیا رمضان کے علاوہ کوئی اور روزہ بھی میرے لئے لازم ہو گا ؟” آپ ﷺ نے فرمایا “نہیں! (فرض تو بس رمضان ہی کے روزے ہیں) مگر تمہیں حق ہے کہ اپنے دل کی خوشی سے تم اور نفلی روزے رکھو (اور اللہ تعالیٰ کا مزید قرب اور ثواب حاصل کرو) ”راوی کہتے ہیں کہ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے اُس شخص سے فریضہ زکوٰۃ کا بھی ذکر فرمایا ، اس پر بھی اس نے یہی کہا کہ “کیا زکوٰۃ کے علاوہ کوئی اور صدقہ ادا کرنا بھی میرے لئے ضروری ہو گا ؟” آپ ﷺ نے فرمایا “نہیں! (فرض تو بس زکوٰۃ ہی ہیں) مگر تمہیں حق ہے کہ اپنے دل کی خوشی سے تم نفلی صدقے دو (اور مزید ثواب حاصل کرو) ” ۔ راوی حدیث طلحہ بن عبیداللہ کہتے ہیں کہ اس کے بعد وہ سوال کرنے والا شخص واپس لوٹ گیا اور وہ کہتا جا رہا تھا کہ (مجھے جو کچھ رسول اللہ ﷺ نے بتلایا ہے) میں اُس میں (اپنی طرف سے) کوئی زیادتی کمی نہیں کروں گا ۔
رسول اللہ ﷺ نے (اُس کی یہ بات سُن کر) فرمایا “فلاح پا لی اس نے اگر یہ سچا ہے” ۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
اس حدیث میں بھی ارکان اسلام میں سے آخری رکن “حج” کا ذکر نہیں ہے ، اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ یہ واقعہ حج فرض ہونے سے پہلے کا ہو ، حج کی فرضیت کا حکم بنا بر قولِ مشہور ۸ ھ یا ۹ ھ میں آیاہے ، پس ممکن ہے کہ یہ واقعہ اس سے پہلے کا ہو ۔
اور دوسری بات یہ بھی کہی جا سکتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے تو اس موقعہ پر حج کا اور اسلام کے دوسرے احکام کا بھی ذکر فرمایا ہو ، مگر روایت کے وقت صحابیؓ نے اختصار کر دیا ہو ، اور واقعہ ایسا ہی معلوم ہوتا ہے ، چناں چہ اسی حدیث کی صحیح بخاری کی ایک روایت میں نماز ، اور زکوٰۃ کے ذکر کے بعد راوی حدیث طلحہ بن عبیداللہؓ کی طرف سے یہالفاظ بھی روایت کئے گئے ہیں ، “فَأَخْبَرَهُ عَنْ شَرَائِعِ الإِسْلاَمِ” رسول اللہ ﷺ نے اس شخص کو اسلام کے احکام بتلائے ۔)
رسول اللہ ﷺ نے (اُس کی یہ بات سُن کر) فرمایا “فلاح پا لی اس نے اگر یہ سچا ہے” ۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
اس حدیث میں بھی ارکان اسلام میں سے آخری رکن “حج” کا ذکر نہیں ہے ، اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ یہ واقعہ حج فرض ہونے سے پہلے کا ہو ، حج کی فرضیت کا حکم بنا بر قولِ مشہور ۸ ھ یا ۹ ھ میں آیاہے ، پس ممکن ہے کہ یہ واقعہ اس سے پہلے کا ہو ۔
اور دوسری بات یہ بھی کہی جا سکتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے تو اس موقعہ پر حج کا اور اسلام کے دوسرے احکام کا بھی ذکر فرمایا ہو ، مگر روایت کے وقت صحابیؓ نے اختصار کر دیا ہو ، اور واقعہ ایسا ہی معلوم ہوتا ہے ، چناں چہ اسی حدیث کی صحیح بخاری کی ایک روایت میں نماز ، اور زکوٰۃ کے ذکر کے بعد راوی حدیث طلحہ بن عبیداللہؓ کی طرف سے یہالفاظ بھی روایت کئے گئے ہیں ، “فَأَخْبَرَهُ عَنْ شَرَائِعِ الإِسْلاَمِ” رسول اللہ ﷺ نے اس شخص کو اسلام کے احکام بتلائے ۔)
عَنْ طَلْحَةَ بْنَ عُبَيْدِ اللَّهِ يَقُولُ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ أَهْلِ نَجْدٍ ثَائِرَ الرَّأْسِ يُسْمَعُ دَوِيُّ صَوْتِهِ وَلَا يُفْقَهُ مَا يَقُولُ: حَتَّى دَنَا، فَإِذَا هُوَ يَسْأَلُ عَنِ الْإِسْلَامِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «خَمْسُ صَلَوَاتٍ فِي الْيَوْمِ وَاللَّيْلَةِ». قَالَ: هَلْ عَلَيَّ غَيْرُهُنَّ؟ قَالَ: «لَا إِلَّا أَنْ تَطَّوَّعَ». قَالَ: وَذَكَرَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «صِيَامَ شَهْرِ رَمَضَانَ». قَالَ: هَلْ عَلَيَّ غَيْرُهُ؟ قَالَ: «لَا إِلَّا أَنْ تَطَّوَّعَ». قَالَ: وَذَكَرَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّدَقَةَ. قَالَ: فَهَلْ عَلَيَّ غَيْرُهَا؟ قَالَ: «لَا إِلَّا أَنْ تَطَّوَّعَ». فَأَدْبَرَ الرَّجُلُ وَهُوَ يَقُولُ: وَاللَّهِ لَا أَزِيدُ عَلَى هَذَا وَلَا أَنْقُصُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَفْلَحَ إِنْ صَدَقَ» (رواه البخارى و مسلم)

তাহকীক:
হাদীস নং: ৭
کتاب الایمان
ارکانِ اسلام کی دعوت میں ترتیب و تدریج
حضرت عبداللہ ابن عباسؓ سے روایت ہے ، وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے جب معاذ بن جبلؓ کو یمن کی طرف بھیجا ، تو (رخصت کرتے ہوئے) اُن سے فرمایا : “تم وہاں اہلِ کتاب میں سے ایک قوم کے پاس پہنچو گے ، پس جب تم اُن کے پاس جاؤ ، تو (سب سے پہلے) اُن کو اس کی دعوت دینا ، کہ وہ شہادت دیں (یعنی دل و زبان سے قبول کریں) کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے ، اور محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں ، پس اگر وہ تمہاری یہ بات مان لیں ، اور شہادت ادا کریں ، تو پھر تم اُن کو بتلانا ، کہ اللہ نے دن رات میں تم پر پانچ نمازیں فرض کی ہیں ؟ پھر جب وہ اس میں بھی تمہاری اطاعت کریں ، تو اس کے بعد تم اُن کو بتلانا ، کہ اللہ نے تم پر زکوٰۃ بھی فرض کی ہے ، جو قوم کے مالداروں سے لی جائے گی ، اور اسی کے فقراء و مساکین کو دے دی جائے گی ، پھر اگر وہ تمہاری یہ بات بھی مال لیں ، تو پھر (زکوٰۃ وصول کرتے وقت چھانٹ چھانٹ کے) ان کے نفیس نفیس اموال نہ لینا ، اور مظلوم کی بد دُعا سے بہت بچنا ، کیوں کہ اُس کے اور اللہ کے درمیان کوئی پردہ نہیں ہے”۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
امام بخاری وغیرہ بعض علماء کی تحقیق کے مطابق ۱۰ ھ میں ، اور اکثر علماءِ سیر و اہلِ مغازی کے نزدیک ۹ ھ میں ، رسول اللہ ﷺ نے حضرت معاذ کو یمن کا حاکم بنا کر بھیجا تھا ، اور رخصت کرتے وقت ، اہلِ یمن کو اسلام کی دعوت دینے کے متعلق آپ نے ان کو یہ ہدایات دی تھیں ۔۔۔ بعض لوگوں کو اس حدیث میں بھی یہ اشکال ہوا ہے کہ اس میں حضور ﷺ نے صرف نماز اور زکوٰۃ کا ذکر فرمایا ، حالانکہ اُس وقت روزہ اور حج کی فرضیت کا حکم بھی آ چکا تھا ۔ شارحین نے اپنے اپنے مذاق کے مطابق اس کی مختلف توجیہیں کی ہیں ، اس ناچیز کے نزدیک ان میں سب سے زیادہ قرینِ قیاس توجیہ یہ ہے کہ حضرت معاذ کو آپ ﷺ نے جو یہ ہدایت دی ، اس سے آپ کا مقصد اسلام کے ان تمام احکام و فرائض کو بتلانا نہ تھا جو اسلام لانے کے بعد ایک مسلمان پر عائد ہوتے ہیں ، بلکہ آپ کا مقصد و مطلب صرف یہ تھا کہ دین کی دعوت اور اسلام کی تعلیم میں داعی اور معلم کو جو ترتیب اور تدریج اختیار کرنی چاہئے وہ حضرت معاذؓ کو بتلا دیں ، اوعر وہ یہ ہے کہ ایک دم سارے اسلامی احکام و مطالبات اور شریعت کے تمام اوامر و نواہی لوگوں کے سامنے نہ رکھے جائیں ، اس صورت میں اسلام کو قبول کرنا اُن کے لئے بڑا مشکل ہو گا ، بلکہ سب سے پہلے اُن کے سامنے توحید و رسالت کو پیش کیا جائے ، جب وہ اس کو مان لیں تو انہیں بتلایا جائے کہ ا للہ تعالیٰ جو ہمارا اور تمہارا واحد رَب اور لا شریک مالک و مولیٰ ہے ، اس نے ہم سب پر پانچ وقت کی نماز فرض کی ہے ، پھر جب وہ اس کو مان لیں ، تو ان کو بتلایا جائے ، کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے مالوں میں زکوٰۃ بھی فرض کی ہے ، جو قوم کے مالداروں سے وصول کی جائے گی اور اُس کے حاجت مند طبقہ میں تقسیم کر دی جائے گی ۔
بہر حال حضرت معاذؓ کو یہ ہدایت دینے سے حضور ﷺ کا مقصد دعوت و تعلیم میں ترتیب و تدریج کا حکیمانہ اصول ان کو بتلانا تھا ، باقی اسلام کے ضروری احکام اور ارکان حضرت معاذؓ کو معلوم ہی تھے ، اس لئے اس موقع پر سب کے بیان کرنے کی ضرورت نہ تھی ۔
علاوہ ازیں اس میں بھی شبہ نہیں ، کہ اسلام کے ارکان و فرائض میں نماز اور زکوٰۃ ہی سب سے زیادہ اہم ہیں ، اور قرآن مجید میں انہی دو پر سب سے زیادہ زور دیا گیا ہے ۔ جس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے ، کہ جو شخص ان دو کو ادا کرنے لگے ، اُس کے لئے باقی تمام ارکان و فرائض کا ادا کرنا آسان ہو جاتا ہے ، جیسا کہ تجربہ اور مشاہدہ بھی ہے ، نیز نفسِ انسانی کی طبیعت میں ان دونوں کو بہت خاص دخل ہے ۔ اور غالباًٍ اسی واسطے کتاب و سنت میں بہت سے مقامات پر صرف ان ہی دو رکنوں کا ذکر کیا جاتا ہے ۔۔۔ مثلاً سورہ بینہ میں فرمایا گیا :۔
وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللَّـهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ حُنَفَاءَ وَيُقِيمُوا الصَّلَاةَ وَيُؤْتُوا الزَّكَاةَ ۚ وَذَٰلِكَ دِينُ الْقَيِّمَةِ اور سورہ توبہ میں فرمایا گیا : فَإِن تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ اور حضرت عبداللہ بن عمرؓ کی یہ حدیث آگے آنے والی ہے :۔ أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ حَتَّى يَشْهَدُوا أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ , وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللَّهِ وَيُقِيمُوا الصَّلَاةَ , وَيُؤْتُوا الزَّكَاةَ ۔۔ پس ان آیات و احادیث میں ارکانِ اسلام میں سے صرف نماز اور زکوٰۃ ہی کے ذکر کی ایک توجیہ یہ بھی ہے ۔ واللہ اعلم
اسلام کی دعوت و تعلیم کے متعلق یہ ہدایت دینے کے بعد آنحضرتﷺ نے حجرت معاذؓ کو ایک نصیحت فرمائی ، کہ جب زکوٰۃ کی وسولی کا وقت آئے ، تو ایسا نہ کیا جائے کہ لوگوں کے اموال (مثلاً پیداوار ، اور چوپایوں) میں سے بہتر بہتر زکوٰۃ میں لینے کے لئے چھانٹ لئے جائیں ، بلکہ جیسا مال ہو اسی کے اوسط سے زکوٰۃ وصول کی جائے ۔
سب سے آخری نصیحت آپ نے یہ فرمائی کی دیکھو ! مظلوم کی بددُعا سے بچنا (مطلب یہ ہے کہ تم ایک علاقے کے حاکم بن کر جا رہے ہو ، دیکھو کبھی کسی پر ظلم اور زیادتی نہ کرنا) کیوں کہ مظلوم کی دُعا اور اللہ کے درمیان کوئی پردہ حائل نہیں ہے ، وہ قبول ہو کے رہتی ہے ۔
بترس از آہِ مظلوماں کہ ہنگامِ دُعا کردن
اجابت از درحق بہرِ استقبال می آید
بلکہ مسند احمد میں حضرت ابو ہریرہؓ کی روایت سے رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد بھی مروی ہے ۔
دَعْوَةُ الْمَظْلُومِ مُسْتَجَابَةٌ، وَإِنْ كَانَ فَاجِرًا فَفُجُورُهُ عَلَى نَفْسِهِ
مظلوم کی دُعا قبول ہی ہوتی ہے ، اگرچہ وہ بدکار بھی ہو، تو اس کی بدکاری کا وبال اس کی ذات پر ہے ۔ (فتح و عمدہ)
(یعنی فسق و فجور کے باوجود ظالم کے حق میں اُس کی بددعا قبول ہوتی ہے) ۔
اور مسند احمد ہی میں حضرت انسؓ کی ایک روایت میں یہ الفاظ بھی وارد ہوئے ہیں :۔
دَعْوَةُ الْمَظْلُومِ مُسْتَجَابَةٌ، وَإِنْ كَانَ كَافِرًا لَيْسَ دُوْنَهُ حِجَابٌ
مظلوم کی بددُعا قبول ہوتی ہے ، اگرچہ وہ کافر ہی کیوں نہ ہو ، اس کے لئے کوئی روک نہیں ہے ۔ (عمدہ)
ف :۔۔۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا ، کہ رسول اللہ ﷺ کی رسالت پر ایمان لانا ، اور آُپ کی لائی ہوئی شریعت پر چلنا اگلے پیغمبروں اور اگلی کتابوں کے ماننے والے اہلِ کتاب کے لئے بھی ضروری ہے ۔ اور اپنے سابقپ ادیان پر قائم رہنا اب اُن کی نجات کے لئے کافی نہیں ۔ ہمارے اس زمانہ میں مسلمان کہلانے والوں میں سے بعض لکھے پڑھے جو اس خیال کا اظہار کرتے ہیں کہ “یہود و نصاریٰ جیسی امتیں ان پرانی شریعتوں پر چل کر بھی اللہ کی رضا اور نجات حاصل کر سکتی ہیں اور ان کے لئے شریعتِ اسلام کا اتباع ضروری نہیں” ۔ وہ یا تو دین اور اصولِ دین سے جاہل ہیں یا دراصل منافق ہین ، آئندہ حدیث میں یہی مسئلہ اور زیادہ صراحت اور وضاحت سے بیان فرمایا گیا ہے ۔
تشریح
امام بخاری وغیرہ بعض علماء کی تحقیق کے مطابق ۱۰ ھ میں ، اور اکثر علماءِ سیر و اہلِ مغازی کے نزدیک ۹ ھ میں ، رسول اللہ ﷺ نے حضرت معاذ کو یمن کا حاکم بنا کر بھیجا تھا ، اور رخصت کرتے وقت ، اہلِ یمن کو اسلام کی دعوت دینے کے متعلق آپ نے ان کو یہ ہدایات دی تھیں ۔۔۔ بعض لوگوں کو اس حدیث میں بھی یہ اشکال ہوا ہے کہ اس میں حضور ﷺ نے صرف نماز اور زکوٰۃ کا ذکر فرمایا ، حالانکہ اُس وقت روزہ اور حج کی فرضیت کا حکم بھی آ چکا تھا ۔ شارحین نے اپنے اپنے مذاق کے مطابق اس کی مختلف توجیہیں کی ہیں ، اس ناچیز کے نزدیک ان میں سب سے زیادہ قرینِ قیاس توجیہ یہ ہے کہ حضرت معاذ کو آپ ﷺ نے جو یہ ہدایت دی ، اس سے آپ کا مقصد اسلام کے ان تمام احکام و فرائض کو بتلانا نہ تھا جو اسلام لانے کے بعد ایک مسلمان پر عائد ہوتے ہیں ، بلکہ آپ کا مقصد و مطلب صرف یہ تھا کہ دین کی دعوت اور اسلام کی تعلیم میں داعی اور معلم کو جو ترتیب اور تدریج اختیار کرنی چاہئے وہ حضرت معاذؓ کو بتلا دیں ، اوعر وہ یہ ہے کہ ایک دم سارے اسلامی احکام و مطالبات اور شریعت کے تمام اوامر و نواہی لوگوں کے سامنے نہ رکھے جائیں ، اس صورت میں اسلام کو قبول کرنا اُن کے لئے بڑا مشکل ہو گا ، بلکہ سب سے پہلے اُن کے سامنے توحید و رسالت کو پیش کیا جائے ، جب وہ اس کو مان لیں تو انہیں بتلایا جائے کہ ا للہ تعالیٰ جو ہمارا اور تمہارا واحد رَب اور لا شریک مالک و مولیٰ ہے ، اس نے ہم سب پر پانچ وقت کی نماز فرض کی ہے ، پھر جب وہ اس کو مان لیں ، تو ان کو بتلایا جائے ، کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے مالوں میں زکوٰۃ بھی فرض کی ہے ، جو قوم کے مالداروں سے وصول کی جائے گی اور اُس کے حاجت مند طبقہ میں تقسیم کر دی جائے گی ۔
بہر حال حضرت معاذؓ کو یہ ہدایت دینے سے حضور ﷺ کا مقصد دعوت و تعلیم میں ترتیب و تدریج کا حکیمانہ اصول ان کو بتلانا تھا ، باقی اسلام کے ضروری احکام اور ارکان حضرت معاذؓ کو معلوم ہی تھے ، اس لئے اس موقع پر سب کے بیان کرنے کی ضرورت نہ تھی ۔
علاوہ ازیں اس میں بھی شبہ نہیں ، کہ اسلام کے ارکان و فرائض میں نماز اور زکوٰۃ ہی سب سے زیادہ اہم ہیں ، اور قرآن مجید میں انہی دو پر سب سے زیادہ زور دیا گیا ہے ۔ جس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے ، کہ جو شخص ان دو کو ادا کرنے لگے ، اُس کے لئے باقی تمام ارکان و فرائض کا ادا کرنا آسان ہو جاتا ہے ، جیسا کہ تجربہ اور مشاہدہ بھی ہے ، نیز نفسِ انسانی کی طبیعت میں ان دونوں کو بہت خاص دخل ہے ۔ اور غالباًٍ اسی واسطے کتاب و سنت میں بہت سے مقامات پر صرف ان ہی دو رکنوں کا ذکر کیا جاتا ہے ۔۔۔ مثلاً سورہ بینہ میں فرمایا گیا :۔
وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللَّـهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ حُنَفَاءَ وَيُقِيمُوا الصَّلَاةَ وَيُؤْتُوا الزَّكَاةَ ۚ وَذَٰلِكَ دِينُ الْقَيِّمَةِ اور سورہ توبہ میں فرمایا گیا : فَإِن تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ اور حضرت عبداللہ بن عمرؓ کی یہ حدیث آگے آنے والی ہے :۔ أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ حَتَّى يَشْهَدُوا أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ , وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللَّهِ وَيُقِيمُوا الصَّلَاةَ , وَيُؤْتُوا الزَّكَاةَ ۔۔ پس ان آیات و احادیث میں ارکانِ اسلام میں سے صرف نماز اور زکوٰۃ ہی کے ذکر کی ایک توجیہ یہ بھی ہے ۔ واللہ اعلم
اسلام کی دعوت و تعلیم کے متعلق یہ ہدایت دینے کے بعد آنحضرتﷺ نے حجرت معاذؓ کو ایک نصیحت فرمائی ، کہ جب زکوٰۃ کی وسولی کا وقت آئے ، تو ایسا نہ کیا جائے کہ لوگوں کے اموال (مثلاً پیداوار ، اور چوپایوں) میں سے بہتر بہتر زکوٰۃ میں لینے کے لئے چھانٹ لئے جائیں ، بلکہ جیسا مال ہو اسی کے اوسط سے زکوٰۃ وصول کی جائے ۔
سب سے آخری نصیحت آپ نے یہ فرمائی کی دیکھو ! مظلوم کی بددُعا سے بچنا (مطلب یہ ہے کہ تم ایک علاقے کے حاکم بن کر جا رہے ہو ، دیکھو کبھی کسی پر ظلم اور زیادتی نہ کرنا) کیوں کہ مظلوم کی دُعا اور اللہ کے درمیان کوئی پردہ حائل نہیں ہے ، وہ قبول ہو کے رہتی ہے ۔
بترس از آہِ مظلوماں کہ ہنگامِ دُعا کردن
اجابت از درحق بہرِ استقبال می آید
بلکہ مسند احمد میں حضرت ابو ہریرہؓ کی روایت سے رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد بھی مروی ہے ۔
دَعْوَةُ الْمَظْلُومِ مُسْتَجَابَةٌ، وَإِنْ كَانَ فَاجِرًا فَفُجُورُهُ عَلَى نَفْسِهِ
مظلوم کی دُعا قبول ہی ہوتی ہے ، اگرچہ وہ بدکار بھی ہو، تو اس کی بدکاری کا وبال اس کی ذات پر ہے ۔ (فتح و عمدہ)
(یعنی فسق و فجور کے باوجود ظالم کے حق میں اُس کی بددعا قبول ہوتی ہے) ۔
اور مسند احمد ہی میں حضرت انسؓ کی ایک روایت میں یہ الفاظ بھی وارد ہوئے ہیں :۔
دَعْوَةُ الْمَظْلُومِ مُسْتَجَابَةٌ، وَإِنْ كَانَ كَافِرًا لَيْسَ دُوْنَهُ حِجَابٌ
مظلوم کی بددُعا قبول ہوتی ہے ، اگرچہ وہ کافر ہی کیوں نہ ہو ، اس کے لئے کوئی روک نہیں ہے ۔ (عمدہ)
ف :۔۔۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا ، کہ رسول اللہ ﷺ کی رسالت پر ایمان لانا ، اور آُپ کی لائی ہوئی شریعت پر چلنا اگلے پیغمبروں اور اگلی کتابوں کے ماننے والے اہلِ کتاب کے لئے بھی ضروری ہے ۔ اور اپنے سابقپ ادیان پر قائم رہنا اب اُن کی نجات کے لئے کافی نہیں ۔ ہمارے اس زمانہ میں مسلمان کہلانے والوں میں سے بعض لکھے پڑھے جو اس خیال کا اظہار کرتے ہیں کہ “یہود و نصاریٰ جیسی امتیں ان پرانی شریعتوں پر چل کر بھی اللہ کی رضا اور نجات حاصل کر سکتی ہیں اور ان کے لئے شریعتِ اسلام کا اتباع ضروری نہیں” ۔ وہ یا تو دین اور اصولِ دین سے جاہل ہیں یا دراصل منافق ہین ، آئندہ حدیث میں یہی مسئلہ اور زیادہ صراحت اور وضاحت سے بیان فرمایا گیا ہے ۔
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِمُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ حِينَ بَعَثَهُ إِلَى اليَمَنِ: «إِنَّكَ سَتَأْتِي قَوْمًا مِنْ أَهْلِ الكِتَابِ، فَإِذَا جِئْتَهُمْ فَادْعُهُمْ إِلَى أَنْ يَشْهَدُوا أَنْ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ ، فَإِنْ هُمْ طَاعُوا لَكَ بِذَلِكَ، فَأَخْبِرْهُمْ أَنَّ اللَّهَ قَدْ فَرَضَ عَلَيْهِمْ خَمْسَ صَلَوَاتٍ فِي كُلِّ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ، فَإِنْ هُمْ طَاعُوا لَكَ بِذَلِكَ فَأَخْبِرْهُمْ أَنَّ اللَّهَ قَدْ فَرَضَ عَلَيْهِمْ صَدَقَةً، تُؤْخَذُ مِنْ أَغْنِيَائِهِمْ فَتُرَدُّ عَلَى فُقَرَائِهِمْ، فَإِنْ هُمْ طَاعُوا لَكَ بِذَلِكَ فَإِيَّاكَ وَكَرَائِمَ أَمْوَالِهِمْ، وَاتَّقِ دَعْوَةَ المَظْلُومِ، فَإِنَّهُ لَيْسَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ اللَّهِ حِجَابٌ» (رواه البخارى ومسلم)

তাহকীক:
হাদীস নং: ৮
کتاب الایمان
اللہ کے رسول ﷺ پر جو شخص ایمان نہ لائے ، اور اُن کے لائے ہوئے دین کو اپنا دین نہ بنائے ، وہ نجات نہیں پا سکتا
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے ، وہ رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : “قسم اُس ذاتِ پاک کی ، جس کے قبضہ قدرت میں محمد کی جان ہے ، اس اُمت کا (یعنی اس دور کا) جو کوئی بھی یہودی یا نصرانی میری خبر سُن لے (یعنی میری نبوت و رسالت کی دعوت اُس تک پہنچ جائے) اور پھر وہ مجھ پر اور میرے لائے ہوئے دین پر ایمان لائے بغیر مر جائے ، تو ضرور وہ دوزخیوں میں ہو گا” ۔ (رواہ مسلم)
تشریح
اس حدیث میں یہودی اوعر نصرانی کا ذکر صرف تمثیل کے طور پر اوعر یہ ظاہر کرنے کے واسطے کیا گیا ہے کہ جب یہود و نصاریٰ جیسے مسلّم اہلِ کتاب بھی خاتم الانبیاء پر ایمان لائے بغیر اور ان کی شریعت کو قبول کئے بغیر نجات نہیں پا سکتے ، تو دوسرے کافروں ، مشرکوں کا انجام اسی سے سمجھ لیا جائے ۔
بہر حال حدیث کا مضمون عام ہے ، اور مطلب یہ ہے ، کہ اس دورِ محمدی میں (جو حضور ﷺ کی بعثت سے شروع ہوا ہے ، اور قیامت تک جاری رہے گا) جس شخص کو آپ کی نبوت و رسالت کی دعوت پہنچ جائے ، اور وہ آپ پر ایمان نہ لائے ، اور آپ کے لائے ہوئے دین کو اپنا دین نہ بنائے اور اسی حال میں مر جائے ، تو وہ دوزخ میں جائے گا ، اگرچہ وہ کسی سابق پیغمبر کے دین اور اس کی کتاب و شریعت کا ماننے والا کوئی یہودی یا نصرانی ہی کیوں نہ ہو ، الغرض خاتم الانبیاءﷺ کی بعثت کے بعد آپ پر ایمان لائے اور آپ کی شریعت کو قبول کئے بغیر نجات ممکن نہیں ، ہاں جس بےچارہ کو آپ کی نبوت کی اطلاع اور اسلام کی دعوت ہی نہ پہنچی وہ معذور ہے ۔ یہ مسئلہ دین اسلام کے قطعیات اور بدیہیات میں سے ہے جس میں شک و شبہ رسول اللہ ﷺ کی نبوت و رسالت کی حیثیت کو نہ سمجھنے ہی سے ہو سکتا ہے ۔
تشریح
اس حدیث میں یہودی اوعر نصرانی کا ذکر صرف تمثیل کے طور پر اوعر یہ ظاہر کرنے کے واسطے کیا گیا ہے کہ جب یہود و نصاریٰ جیسے مسلّم اہلِ کتاب بھی خاتم الانبیاء پر ایمان لائے بغیر اور ان کی شریعت کو قبول کئے بغیر نجات نہیں پا سکتے ، تو دوسرے کافروں ، مشرکوں کا انجام اسی سے سمجھ لیا جائے ۔
بہر حال حدیث کا مضمون عام ہے ، اور مطلب یہ ہے ، کہ اس دورِ محمدی میں (جو حضور ﷺ کی بعثت سے شروع ہوا ہے ، اور قیامت تک جاری رہے گا) جس شخص کو آپ کی نبوت و رسالت کی دعوت پہنچ جائے ، اور وہ آپ پر ایمان نہ لائے ، اور آپ کے لائے ہوئے دین کو اپنا دین نہ بنائے اور اسی حال میں مر جائے ، تو وہ دوزخ میں جائے گا ، اگرچہ وہ کسی سابق پیغمبر کے دین اور اس کی کتاب و شریعت کا ماننے والا کوئی یہودی یا نصرانی ہی کیوں نہ ہو ، الغرض خاتم الانبیاءﷺ کی بعثت کے بعد آپ پر ایمان لائے اور آپ کی شریعت کو قبول کئے بغیر نجات ممکن نہیں ، ہاں جس بےچارہ کو آپ کی نبوت کی اطلاع اور اسلام کی دعوت ہی نہ پہنچی وہ معذور ہے ۔ یہ مسئلہ دین اسلام کے قطعیات اور بدیہیات میں سے ہے جس میں شک و شبہ رسول اللہ ﷺ کی نبوت و رسالت کی حیثیت کو نہ سمجھنے ہی سے ہو سکتا ہے ۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: «وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، لَا يَسْمَعُ بِي أَحَدٌ مِنْ هَذِهِ الْأُمَّةِ يَهُودِيٌّ، وَلَا نَصْرَانِيٌّ، ثُمَّ يَمُوتُ وَلَمْ يُؤْمِنْ بِالَّذِي أُرْسِلْتُ بِهِ، إِلَّا كَانَ مِنْ أَصْحَابِ النَّارِ (رواه مسلم)

তাহকীক:
হাদীস নং: ৯
کتاب الایمان
اللہ کے رسول ﷺ پر جو شخص ایمان نہ لائے ، اور اُن کے لائے ہوئے دین کو اپنا دین نہ بنائے ، وہ نجات نہیں پا سکتا
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے ، کہ انہوں نے بیان کیا ، کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا ، اور اس نے سوال کیا ، کہ “یا رسول اللہ! ایک نصرانی شخص ہے جو انجیل کے موافق عمل کرتا ہے ، اور اسی طرح ایک یہودی شخص ہے ، جو تورات کے احکام پر چلتا ہے ، اور وہ اللہ پر اس کے رسول پر ایمان بھی رکھتا ہے ، مگر اس کے باوجود وہ آپ کے دین اور آپ کی شریعت پر نہیں چلتا ، تو فرمائیے کہ اس کا کیا حکم ہے ؟” رسول اللہ ﷺ نے فرمایا “جس یہودی یا نصرانی نے میری بات کو سُن لیا (یعنی میری دعوت اُس تک پہنچ گئی) اور اس کے بعد بھی اس نے میری پیروی اختیار نہیں کی ، تو وہ دوزخ میں جانے والا ہے”۔ (دار قطنی)
تشریح
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کی یہ حدیث حضرت ابو ہریرہؓ والی اوپر کی حدیث سے بھی زیادہ واضح ہے ، اس میں تصریح ہے کہ اگر کوئی یہودی یا نصرانی اللہ کو اور اس کے رسول کو مانتا بھی ہو (یعنی توحید کا قائل اور رسول اللہ ﷺ کی بھی تصدیق کرتا ہو) مگر پیروی آپ کی لائی ہوئی شریعت کے بجائے تورات اور انجیل ہی کی کرتا ہو ، اور اسی کو اپنی نجات کے لئے کافی سمجھتا ہو ، تو وہ نجات نہیں پا سکے گا”۔
اسی حقیقت کا اعلان قرآن مجید کی اس آیت میں بھی کیا گیا ہے ۔
تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِيْ۠ يُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَ يَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْ (آل عمران ۳۱:۳)
اے نبی (جو لوگ آپ کی شریعت کا اتباع اختیار کئے بغیر اللہ کو چاہتے ہیں ، اور اس کی بخشش حاصل کر سکنے کی خام خیالی میں مبتلا ہیں ، اُن سے) آپ کہہ دیجئے کہ اگر تم واقعۃً اللہ کو چاہتے ہو ، تو (اس کے سوا اب اُس کا کوئی راستہ نہیں ہے کہ) میری شریعت کی پیروی اختیار کرو (اگر ایسا کرو گے ، تو) اللہ تم سے محبت کرے گا ، اور تمہارے گناہ بخش دے گا ۔ (اور اگر تم میری پیروی اختیار نہیں کرو گے ، تو اللہ کی محبت اور مغفرت کے تم مستحق نہیں ہو سکو گے) ۔
تشریح
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کی یہ حدیث حضرت ابو ہریرہؓ والی اوپر کی حدیث سے بھی زیادہ واضح ہے ، اس میں تصریح ہے کہ اگر کوئی یہودی یا نصرانی اللہ کو اور اس کے رسول کو مانتا بھی ہو (یعنی توحید کا قائل اور رسول اللہ ﷺ کی بھی تصدیق کرتا ہو) مگر پیروی آپ کی لائی ہوئی شریعت کے بجائے تورات اور انجیل ہی کی کرتا ہو ، اور اسی کو اپنی نجات کے لئے کافی سمجھتا ہو ، تو وہ نجات نہیں پا سکے گا”۔
اسی حقیقت کا اعلان قرآن مجید کی اس آیت میں بھی کیا گیا ہے ۔
تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِيْ۠ يُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَ يَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْ (آل عمران ۳۱:۳)
اے نبی (جو لوگ آپ کی شریعت کا اتباع اختیار کئے بغیر اللہ کو چاہتے ہیں ، اور اس کی بخشش حاصل کر سکنے کی خام خیالی میں مبتلا ہیں ، اُن سے) آپ کہہ دیجئے کہ اگر تم واقعۃً اللہ کو چاہتے ہو ، تو (اس کے سوا اب اُس کا کوئی راستہ نہیں ہے کہ) میری شریعت کی پیروی اختیار کرو (اگر ایسا کرو گے ، تو) اللہ تم سے محبت کرے گا ، اور تمہارے گناہ بخش دے گا ۔ (اور اگر تم میری پیروی اختیار نہیں کرو گے ، تو اللہ کی محبت اور مغفرت کے تم مستحق نہیں ہو سکو گے) ۔
عَن عبد الله بن مَسْعُود رَضِي الله عَنهُ قَالَ جَاءَ رجل إِلَى النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم فَقَالَ يَا رَسُول الله أَرَأَيْت رَجُلًا من النَّصَارَى متمسكا بِالْإِنْجِيْلِ وَرَجُلًا مِنَ الْيَهُودِ مُتَمَسِّكًا بِالتَّوْرَاةِ يُؤمِنُ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ ثمَّ لَمْ يَتَّبِعْكَ قَالَ رَسُولُ الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم مَنْ سَمِعَ بِِيْ مِنْ يَهُودِيّ أَو نَصْرَانِيّ ثمَّ لم يَتَّبِعْنِيْ فَهُوَ فِي النَّارِ (أخرجه (۱) الدَّارَقُطْنِيّ فِي الْأَفْرَاد)

তাহকীক:
হাদীস নং: ১০
کتاب الایمان
سچا ایمان و اسلام نجات کی ضمانت ہے
اعمش تابعی نے اپنے استاذ ابو صالح سے اس شک کے ساتھ نقل کیا کہ انہوں نے حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت کیا تھا ، یا (ابو سعید خدریؓ سے) کہ غزوہ تبوک کے دنوں میں (جب سامانِ خوراک ختم ہو گیا ، اور) لوگوں کو بھوک نے ستایا ، تو انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا ، کہ : “حضرت! اگر اجازت دیں ، تو ہم پانی لانے والے اپنے اونٹوں کو ذبخ کر لیں ، پھر ان کو کھا بھی لیں ، اور ان سے روغن بھی حاصل کر لیں”۔ حضور نے فرمایا : “اچھا کر لو!” راوی کہتے ہیں کہ پھر حضرت عمرؓ آئے اور انہوں نے عرض کیا کہ : یا رسول اللہ! اگر آپ نے ایسا کیا (یعنی لوگوں کو اگر اونٹ ذبح کرنے کی اجازت دے دی ، اور لوگوں نے ذبح کر ڈالے) تو سواریاں کم ہو جائیں گی (لہذا ایسا تو نہ کیا جائے) “البتہ لوگوں کو آپ ان کے بچے کچھے سامانِ خوراک کے ساتھ بلا لیجئے ، پھر ان کے واسطے اللہ سے اسی میں برکت کر دینے کی دُعا کیجئے ، امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اسی میں برکت فرما دے گا” ۔ حضور (ﷺ) نے فرمایا “ہاں ٹھیک ہے” ۔ چنانچہ آپ نے چمڑے کا بڑا دسترخوان طلب فرمایا ، پس وہ بچھا دیا گیا ، پھر آپ نے لوگوں سے اُن کا بچا کچھا سامانِ خوراک منگوایا ، پس کوئی آدمی مٹھی چینا کے دانے ہی لئے آ رہا ہے ، کوئی ایک مٹھی کھجوریں لا رہا ہے ، اور کوئی روٹی کا ایک ٹکڑا ہی لیے چلا آ رہا ہے ، حتیٰ کہ دسترخوان پر تھوڑی سی مقدار میں یہ چیزیں جمع ہو گئیں ، راوی کہتے ہیں ، کہ رسول اللہ (ﷺ) نے پھر برکت کی دُعا فرمائی ، اس کے بعد فرمایا : “اب تم سب اس میں سے اپنے اپنے برتنوں میں بھر لو”۔ چنانچہ سب نے اپنے اپنے برتن بھر لیے ، حتی کے (قریباً ۳۰ ہزار کے لشکر میں) لوگوں نے ایک برتن بھی بغیر بھرے ہوئے نہیں چھوڑا ، راوی کہتے ہیں ، کہ پھر سب نے کھایا ، حتی کے خوب سیر ہو گئے ، اور کچھ فاضل بھی بچ رہا ، اس پر رسول اللہ(ﷺ) نے فرمایا : “میں شہادت دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ، اور میں اللہ کا رسول ہوں ، نہیں ہے کوئی بندہ جو بغیر کسی شک شبہ کے کامل یقین و اذعان کے ساتھ ان دو شہادتوں کے ساتھ اللہ کے سامنے جائے ، پھر وہ جنت سے روکا جائے”۔
تشریح
حدیث کا مضمون ظاہر ہے ، جس مقصد سے اس حدیث کو یہاں در کیا گیا ہے اس کا تعلق حدیث کے صرف آخری جز سے ہے ، جس میں رسول اللہ (ﷺ) نے اللہ کی توحید اور اپنی رسالت کی شہادت ادا کر کے اعلان فرمایا ہے کہ جو شخص بھی ان دو شہادتوں کو مخلصانہ طور پر ادا کرے ، اور شک شبہ کی کوئی بیماری اُس کے دل دماغ کو نہ ہو ، اور اسی ایمانی حال میں اُس کو موت آئے ، تو وہ جنت میں ضرور جائے گا ۔
جو لوگ قرآن و حدیث کے محاورہ اور طرز بیان سے کچھ واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ ایسے موقعوں پر “اللہ کی توحید و رسول اللہ ﷺ کی رسالت کی شہادت” ادا کرنے کا مطلب رسول اللہ ﷺ کی دعوت ایمان کو قبول کر لینا ، اور آپ کے لائے ہوئے دین اسلام کو اپنا دین بنا لینا ہوتا ہے اور اسی لئے ان دو شہادتوں کے ادا کرنے کا مطلب ہمیشہ سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ اس شخص نے رسول اللہ ﷺ کی ایمانی دعوت کو قبول کر لیا ، اور اسلام کو اپنا دینا بنا لیا ۔ پس رسول اللہ ﷺ کے ارشاد کا مطلب یہ ہے ہے ، کہ جو شخص “لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللهِ ” کی شہادت ادا کر کے میری ایمانی دعوت کو قبول کر لے ، اور اسلام کو اپنا دین بنا لے ، اور اس بارے میں وہ مخلص اور صاحب یقین ہو ، تو اگر اسی حال میں وہ مر جائے گا ، تو جنت میں ضرور جائے گا ۔
پس اگر کوئی شخص “لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللهِ ” کا اقرار کرے لیکن اسلام کو اپنا دین نہ بنائے بلکہ کسی اور دین و مذہب پر قائم رہے ، یا توحید و رسالت کے علاوہ دوسرے ایمانیات کا انکار کرے مثلاً قیامت کو یا قرآن مجید کو نہ مانے تو وہ ہرگز اس بشارت کا مستحق نہ ہو گا ۔
الغرض اس حدیث میں توحید و روسالت کی شہادت ادا کرنے کا مطلب رسول اللہ ﷺ کی ایمانی دعوت کو قبول کرنا اور اسلام کو اپنا دین بنانا ہے ، اسی طرح جن حدیثوں میں صرف توحید پر ، اور صرف “ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ ” کے اقرار پر جنت کی بشارت دی گئی ہے ، ان کا مطلب بھی یہی ہے ، دراصل یہ سب رسول اللہ ﷺ کی دعوت ایمان کو قبول کر لینے اور اسلام کو اپنا دین بنا لینے کے بعد مشہور و معروف عنوانات ہیں ، ان شاء اللہ اس کی کچھ مزید تفصیل اگلی حدیثوں کی تشریح میں بھی کی جائے گی ۔
اس حدیث سے ضمنی طور پر اور بھی چند سبق ملتے ہیں:
۱۔ اگر کوئی بڑا ، حتیٰ کہ اللہ کا نبی و رسول بھی کسی معاملہ میں اپنی رائے ظاہر کرے ، اور کسی صاحبِ رائے خادم کو اس میں مضرت کا کوئی پہلو نظر آئے ، تو وہ ادب کے ساتھ اپنی رائے اور اپنا مشورہ پیش کرنے سے دریغ نہ کرے ، اور اس بڑے کو چاہئے کہ وہ اس پر غور کرے ، اور اگر وہی رائے بہتر اور انسب معلومہو ، تو اپنی رائے سے رجوع کرنے اور اس کو اختیار کرنے میں ادنیٰ تامل نہ کرے ۔
۲۔ دُعا کا قبول ہونا ، اور بالخصوص اس قبولیت کا خرقِ عادت کی شکل میں ظاہر ہونا اللہ کی نشانیوں اور مقبولیت اور تعلق باللہ کی خاص علامتوں میں (۱) سے ہے ، جس سے مؤمنین کے انشراح صدر اور اطمینان قلبی میں ترقی ہونا برحق بلکہ نبوت کی میراث ہے (جیسا کہ اس موقع پر رسول اللہ ﷺ کے کلمہ شہادت پڑھنے سے ظاہر ہے) پس جن لوگوں کو اس طرح کے انعاماتِ الہیہ کے تذکرہ سے بجائے انشراح کے انقباض ہوتا ہے ، یا جو اس قسم کے خوارق کو طنز و تضحیک اور استخفاف و استحقار کے لائق سمجھتے ہیں ، ان کے دل ایک بڑی بیماری کے بیمار ہیں ۔
تشریح
حدیث کا مضمون ظاہر ہے ، جس مقصد سے اس حدیث کو یہاں در کیا گیا ہے اس کا تعلق حدیث کے صرف آخری جز سے ہے ، جس میں رسول اللہ (ﷺ) نے اللہ کی توحید اور اپنی رسالت کی شہادت ادا کر کے اعلان فرمایا ہے کہ جو شخص بھی ان دو شہادتوں کو مخلصانہ طور پر ادا کرے ، اور شک شبہ کی کوئی بیماری اُس کے دل دماغ کو نہ ہو ، اور اسی ایمانی حال میں اُس کو موت آئے ، تو وہ جنت میں ضرور جائے گا ۔
جو لوگ قرآن و حدیث کے محاورہ اور طرز بیان سے کچھ واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ ایسے موقعوں پر “اللہ کی توحید و رسول اللہ ﷺ کی رسالت کی شہادت” ادا کرنے کا مطلب رسول اللہ ﷺ کی دعوت ایمان کو قبول کر لینا ، اور آپ کے لائے ہوئے دین اسلام کو اپنا دین بنا لینا ہوتا ہے اور اسی لئے ان دو شہادتوں کے ادا کرنے کا مطلب ہمیشہ سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ اس شخص نے رسول اللہ ﷺ کی ایمانی دعوت کو قبول کر لیا ، اور اسلام کو اپنا دینا بنا لیا ۔ پس رسول اللہ ﷺ کے ارشاد کا مطلب یہ ہے ہے ، کہ جو شخص “لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللهِ ” کی شہادت ادا کر کے میری ایمانی دعوت کو قبول کر لے ، اور اسلام کو اپنا دین بنا لے ، اور اس بارے میں وہ مخلص اور صاحب یقین ہو ، تو اگر اسی حال میں وہ مر جائے گا ، تو جنت میں ضرور جائے گا ۔
پس اگر کوئی شخص “لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللهِ ” کا اقرار کرے لیکن اسلام کو اپنا دین نہ بنائے بلکہ کسی اور دین و مذہب پر قائم رہے ، یا توحید و رسالت کے علاوہ دوسرے ایمانیات کا انکار کرے مثلاً قیامت کو یا قرآن مجید کو نہ مانے تو وہ ہرگز اس بشارت کا مستحق نہ ہو گا ۔
الغرض اس حدیث میں توحید و روسالت کی شہادت ادا کرنے کا مطلب رسول اللہ ﷺ کی ایمانی دعوت کو قبول کرنا اور اسلام کو اپنا دین بنانا ہے ، اسی طرح جن حدیثوں میں صرف توحید پر ، اور صرف “ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ ” کے اقرار پر جنت کی بشارت دی گئی ہے ، ان کا مطلب بھی یہی ہے ، دراصل یہ سب رسول اللہ ﷺ کی دعوت ایمان کو قبول کر لینے اور اسلام کو اپنا دین بنا لینے کے بعد مشہور و معروف عنوانات ہیں ، ان شاء اللہ اس کی کچھ مزید تفصیل اگلی حدیثوں کی تشریح میں بھی کی جائے گی ۔
اس حدیث سے ضمنی طور پر اور بھی چند سبق ملتے ہیں:
۱۔ اگر کوئی بڑا ، حتیٰ کہ اللہ کا نبی و رسول بھی کسی معاملہ میں اپنی رائے ظاہر کرے ، اور کسی صاحبِ رائے خادم کو اس میں مضرت کا کوئی پہلو نظر آئے ، تو وہ ادب کے ساتھ اپنی رائے اور اپنا مشورہ پیش کرنے سے دریغ نہ کرے ، اور اس بڑے کو چاہئے کہ وہ اس پر غور کرے ، اور اگر وہی رائے بہتر اور انسب معلومہو ، تو اپنی رائے سے رجوع کرنے اور اس کو اختیار کرنے میں ادنیٰ تامل نہ کرے ۔
۲۔ دُعا کا قبول ہونا ، اور بالخصوص اس قبولیت کا خرقِ عادت کی شکل میں ظاہر ہونا اللہ کی نشانیوں اور مقبولیت اور تعلق باللہ کی خاص علامتوں میں (۱) سے ہے ، جس سے مؤمنین کے انشراح صدر اور اطمینان قلبی میں ترقی ہونا برحق بلکہ نبوت کی میراث ہے (جیسا کہ اس موقع پر رسول اللہ ﷺ کے کلمہ شہادت پڑھنے سے ظاہر ہے) پس جن لوگوں کو اس طرح کے انعاماتِ الہیہ کے تذکرہ سے بجائے انشراح کے انقباض ہوتا ہے ، یا جو اس قسم کے خوارق کو طنز و تضحیک اور استخفاف و استحقار کے لائق سمجھتے ہیں ، ان کے دل ایک بڑی بیماری کے بیمار ہیں ۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَوْ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ - شَكَّ الْأَعْمَشُ - قَالَ: لَمَّا كَانَ غَزْوَةُ تَبُوكَ أَصَابَ النَّاسَ مَجَاعَةٌ، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللهِ، لَوْ أَذِنْتَ لَنَا فَنَحَرْنَا نَوَاضِحَنَا، فَأَكَلْنَا وَادَّهَنَّا، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «افْعَلُوا»، قَالَ: فَجَاءَ عُمَرُ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ، إِنْ فَعَلْتَ قَلَّ الظَّهْرُ، وَلَكِنْ ادْعُهُمْ بِفَضْلِ أَزْوَادِهِمْ، ثُمَّ ادْعُ اللهَ لَهُمْ عَلَيْهَا بِالْبَرَكَةِ، لَعَلَّ اللهَ أَنْ يَجْعَلَ فِي ذَلِكَ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «نَعَمْ»، قَالَ: فَدَعَا بِنِطَعٍ، فَبَسَطَهُ، ثُمَّ دَعَا بِفَضْلِ أَزْوَادِهِمْ، قَالَ: فَجَعَلَ الرَّجُلُ يَجِيءُ بِكَفِّ ذُرَةٍ، قَالَ: وَيَجِيءُ الْآخَرُ بِكَفِّ تَمْرٍ، قَالَ: وَيَجِيءُ الْآخَرُ بِكَسْرَةٍ حَتَّى اجْتَمَعَ عَلَى النِّطَعِ مِنْ ذَلِكَ شَيْءٌ يَسِيرٌ، قَالَ: فَدَعَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَيْهِ بِالْبَرَكَةِ، ثُمَّ قَالَ: «خُذُوا فِي أَوْعِيَتِكُمْ»، قَالَ: فَأَخَذُوا فِي أَوْعِيَتِهِمْ، حَتَّى مَا تَرَكُوا فِي الْعَسْكَرِ وِعَاءً إِلَّا مَلَئُوهُ، قَالَ: فَأَكَلُوا حَتَّى شَبِعُوا، وَفَضَلَتْ فَضْلَةٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، وَأَنِّي رَسُولُ اللهِ، لَا يَلْقَى اللهَ بِهِمَا عَبْدٌ غَيْرَ شَاكٍّ، فَيُحْجَبَ عَنِ الْجَنَّةِ» (رواه مسلم)

তাহকীক:
হাদীস নং: ১১
کتاب الایمان
سچا ایمان و اسلام نجات کی ضمانت ہے
حضرت عبادہ بن صامتؓ سے روایت ہے کہ میں نے خود رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے ، آپ ارشاد فرماتے تھے ، کہ : “جو کوئی شہادت دے کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت و بندگی کے لائق نہیں ہے ، اور محمد اس کے رسول ہیں ، تو اللہ نے اس شخص پر دوزخ کی آگ حرام کر دی ہے” ۔
تشریح
جیسا کہ اس سے پہلی حدیث کی تشریح میں تفصیل سے بتلایا جا چکا ہے ، اس حدیث میں بھی “توحید و رسالت کی شہادت” مراد ، دعوت اسلام کو قبول کرنا اور اس پر چلنا ہے ، اسی کو دوسرے لفظوں میں یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ : “لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللهِ” کی شہادت پورے اسلام کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے ۔ جس نے یہ شہادت سوچ سمجھ کے ادا کی ، درحقیقت اس نے پورے اسلام کو اپنا دین بنا لیا ، اب اگر بالفرض اس سے بہ تقاضائے بشریت کوئی کوتاہی بھی ہو گی تو اس کا ایمانی شعور ، کفارہ اور توبہ وغیرہ کے مقررہ طریقوں سے اس کی تلافی کرنے پر اس کو مجبور کرے گا ، اور اس لئے ان شاء اللہ وہ عذاب دوزخ سے محفوظ ہی رہے گا ۔
تشریح
جیسا کہ اس سے پہلی حدیث کی تشریح میں تفصیل سے بتلایا جا چکا ہے ، اس حدیث میں بھی “توحید و رسالت کی شہادت” مراد ، دعوت اسلام کو قبول کرنا اور اس پر چلنا ہے ، اسی کو دوسرے لفظوں میں یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ : “لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللهِ” کی شہادت پورے اسلام کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے ۔ جس نے یہ شہادت سوچ سمجھ کے ادا کی ، درحقیقت اس نے پورے اسلام کو اپنا دین بنا لیا ، اب اگر بالفرض اس سے بہ تقاضائے بشریت کوئی کوتاہی بھی ہو گی تو اس کا ایمانی شعور ، کفارہ اور توبہ وغیرہ کے مقررہ طریقوں سے اس کی تلافی کرنے پر اس کو مجبور کرے گا ، اور اس لئے ان شاء اللہ وہ عذاب دوزخ سے محفوظ ہی رہے گا ۔
عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: «مَنْ شَهِدَ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللهِ، حَرَّمَ اللهُ عَلَيْهِ النَّارَ»

তাহকীক:
হাদীস নং: ১২
کتاب الایمان
سچا ایمان و اسلام نجات کی ضمانت ہے
حضرت معاذ بن جبلؓ سے روایت ہے ، کہ ایک دفعہ میں حضور ﷺ کے ساتھ ایک ہی سواری پر تھا اور میرے اور آپ ﷺ کے درمیان کجاوے کے پچھلے حصے کے سوا اور کوئی چیز حائل نہ تھی (یعنی میں حضور ﷺ کے پیچھے بالکل ملا ہوا بیٹھا تھا کہ چلتے ہی چلتے) آپ ﷺ نے مجھے پکارا ، اور فرمایا : معاذ بن جبل! ۔۔۔ میں نے عرض کیا : “لبیک یا رسول اللہ (ﷺ) وسعدیک” (یعنی میں حاضر ہوں ، ارشاد فرمائیں) ۔۔۔ پھر کچھ دیرچلنے کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا : “معاذ بن جبل!” میں نے عرض کیا : “لبیک یا رسول اللہ (ﷺ) وسعدیک” پھر کچھ دیر چلنے کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا : “معاذ بن جبل!” میں نے عرض کیا : “لبیک یا رسول اللہ (ﷺ) وسعدیک” (اس تیسری دفعہ میں) آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : “تم جانتے ہو ، کہ بندوں پر اللہ کا کیا حق ہے؟” میں نے عرض کیا : “اللہ و رسول ﷺ کو ہی زیادہ علم ہے” ارشاد فرمایا : “اللہ کا حق بندوں پر یہ ہے کہ اس کی عبادت و بندگی کریں ، اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں” پھر کچھ دیر چلنے کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا : “معاذ بن جبل!” میں نے عرض کیا : “لبیک یا رسول اللہ (ﷺ) وسعدیک” آپ ﷺ نے فرمایا : “تم جانتے ہو کہ جب بندے اللہ کا یہ حق ادا کریں ، تو پھر اللہ پر ان کا کیا حق ہے؟” میں نے عرض کیا : “اللہ و رسول ﷺ کو ہی زیادہ علم ہے” آپ ﷺ نے فرمایا : “یہ کہ انہیں عذاب میں نہ ڈالے”۔
تشریح
حضرت معاذؓ نے اصل حدیث بیان کرنے سے پہلے حضور ﷺ کے ساتھ ایک ہی سواری آپ کے پیچھے بالکل آپ سے مل کر بیٹھنے کو جس خاص انداز سے بیان کیا ہے ، اس کی چند وجہیں ہو سکتی ہیں : ایک یہ کہ حضور ﷺ کی جو خاص شفقت اور عنایت حضرت معاذؓ پر تھی ، اور بارگاہِ نبویﷺ میں جو خاص مقامِ قرب ان کو حاصل تھا ، وہ سامعین کے پیشِ نظر رہے ، تاکہ وہ یہ سمجھ سکیں کہ حضور ﷺ نے حضرت معاذؓ سے ایک ایسی بات کیوں فرمائی ، جس کی عوام مسلمین میں اشاعت کے آپ روادار نہ تھے ، جیسا کہ اگلی روایت میں تصریح ہے ۔
دوسری بات اس کی توجیہ میں یہ بھی کہی جا سکتی ہے ، کہ ممکن ہے حضرت معاذؓ کا مقصد اس تفصیل کے بیان کرنے سے اس حدیث کے بارے میں اپنا اتقان بھی ظاہر کرنا ہو ، یعنی لوگوں پر یہ واضح کرنا ہو کہ مجھے یہ حدیث ایسی یاد ہے ، کہ اُس وقت کی یہ جزئی باتیں بھی مجھے محفوظ ہیں ۔
اور تیسری وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے ، کہ جس طرح عشاق و محبین کی عادت ہوتی ہے کہ وہ محبت کی یادگار صحبتوں کو والہانہ انداز میں اور مزے لے لے کر تفصیل کے ساتھ بیان کرتے ہیں ، اسی جذبے کے ما تحت حضرت معاذؓ نے حضور ﷺ کے ساتھ اہپنے سوار ہونے کی یہ تفصیل بیان کی ہو ۔
۲۔ حضور ﷺ نے تھوڑے تھوڑے وقفہ کے بعد حضرت معاذؓ کو تین دفعہ مخاطب کیا ، اور پھر جو کچھ آپ فرمانا چاہتے تھے اس کا ایک حصہ آپ نے تیسری دفعہ فرمایا ، اور دوسرا جز کچھ دیر توقف کے بعد چوتھی دفعہ فرمایا ۔۔۔ اس کی توجیہ میں شارحین نے لکھا ہے ، کہ غالباً آنحضرتﷺ اس طرح حضرت معاذؓ کو پوری طرح اپنی طرف متوجہ فرمانا چاہتے تھے ، تا کہ وہ ہمہ تن گوش ہو کر پوری رغبت و توجہ اور غور و تامل کے ساتھ آپ کا ارشاد سنیں ۔۔۔ دوسری توجیہ یہ بھی کی گئی ہے کہ حضور ﷺ کو اس میں تردد اور توقف تھا ، کہ حضرت معاذؓ سے بھی یہ بات بیان کر دی جائے یا نہ کی جائے ، اس وجہ سے آپ نے ابتداء میں تو تین دفعہ توقف فرمایا ، اور جب بیان فرما دینے ہی کے متعلق آپ کا شرح صدر ہو گیا تب آپ نے بیان فرمایا ۔۔۔ لیکن راقم کے نزدیک ان دونوں توجیہوں میں تکلف ہے ، اور زیادہ قرین قیاس یہ معلوم ہوتا ہے ، کہ حضور ﷺ پر اس وقت کوئی خاص استغراقی حالت طاری تھی ، آپ حضرت معاذؓ کو مخاطب کرتے تھے ، اور کچھ فرمانے سے پہلے پھر اسی کیفیت میں استغراق ہو جاتا تھا ، اس وجہ سے درمیان میں یہ وقفے ہوئے ۔ واللہ تعالیٰ اعلم ۔
۳۔ اصل حدیث کا حاصل صرف یہ ہے کہ بندوں پر اللہ تعالیٰ کا حق یہ ہے ، کہ وہ اس کی عبادت اور بندگی کریں ، اور کسی چیز کو اس کے ساتھ شرین نہ کریں ، اور جب وہ اللہ کا یہ حق ادا کریں گے ، تو االلہ تعالیٰ نے ان کا یہ حق اپنے پر مقرر کر لیا ہے کہ وہ ان کو عذاب میں نہ ڈالے گا ۔
اس حدیث میں “اللہ کی عبادت کرنے اور شرک سے بچنے” سے مراد بھی درحقیقت دینِ توحید (یعنی اسلام) کو اختیار کرنا ، اور اس پر چلنا ہے ، اور چونکہ اس وقت اسلام و کفر کے درمیان سب سے بڑا اور واضح فرق و امتیاز توحید اور شرک ہی کا تھا ، اس لئے اس حدیث میں (اور بعض ، اور حدیثوں میں بھی) اسی عنوان کو اختیار کیا گیا ہے ، نیز یہ بھی واقعہ ہے کہ اللہ کی عبادت و بندگی کرنا ، اور شرک سے بچنا اسلام کی رُوح ، اور اس کا مرکزی مسئلہ ہے ، اس لئے بھی کبھی کبھی اسلام کے لیے یہ عنوان اختیار کر لیا جاتا ہے ، اس بات کی تائید (کہ اس حدیث میں اللہ کی عبادت کرنے اور شرک سے بچنے سے مراد دین اسلام قبول کرنا ہے) اس سے بھی ہوتی ہے ، کہ صحیحین (بخاری و مسلم) ہی میں حضرت معاذؓ کی اسی حدیث کی ایک روایت میں (جو اگلے ہی نمبر پر ذکر کی جارہی ہے) توحید و رسالت دونوں پر ایمان لانے اور دونوں کی شہادت ادا کرنے کا ذکر ہے ، اور ایک روایت میں شہادت توحید و رسالت کے علاوہ نماز اور روزہ کا بھی ذکر ہے ۔
تشریح
حضرت معاذؓ نے اصل حدیث بیان کرنے سے پہلے حضور ﷺ کے ساتھ ایک ہی سواری آپ کے پیچھے بالکل آپ سے مل کر بیٹھنے کو جس خاص انداز سے بیان کیا ہے ، اس کی چند وجہیں ہو سکتی ہیں : ایک یہ کہ حضور ﷺ کی جو خاص شفقت اور عنایت حضرت معاذؓ پر تھی ، اور بارگاہِ نبویﷺ میں جو خاص مقامِ قرب ان کو حاصل تھا ، وہ سامعین کے پیشِ نظر رہے ، تاکہ وہ یہ سمجھ سکیں کہ حضور ﷺ نے حضرت معاذؓ سے ایک ایسی بات کیوں فرمائی ، جس کی عوام مسلمین میں اشاعت کے آپ روادار نہ تھے ، جیسا کہ اگلی روایت میں تصریح ہے ۔
دوسری بات اس کی توجیہ میں یہ بھی کہی جا سکتی ہے ، کہ ممکن ہے حضرت معاذؓ کا مقصد اس تفصیل کے بیان کرنے سے اس حدیث کے بارے میں اپنا اتقان بھی ظاہر کرنا ہو ، یعنی لوگوں پر یہ واضح کرنا ہو کہ مجھے یہ حدیث ایسی یاد ہے ، کہ اُس وقت کی یہ جزئی باتیں بھی مجھے محفوظ ہیں ۔
اور تیسری وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے ، کہ جس طرح عشاق و محبین کی عادت ہوتی ہے کہ وہ محبت کی یادگار صحبتوں کو والہانہ انداز میں اور مزے لے لے کر تفصیل کے ساتھ بیان کرتے ہیں ، اسی جذبے کے ما تحت حضرت معاذؓ نے حضور ﷺ کے ساتھ اہپنے سوار ہونے کی یہ تفصیل بیان کی ہو ۔
۲۔ حضور ﷺ نے تھوڑے تھوڑے وقفہ کے بعد حضرت معاذؓ کو تین دفعہ مخاطب کیا ، اور پھر جو کچھ آپ فرمانا چاہتے تھے اس کا ایک حصہ آپ نے تیسری دفعہ فرمایا ، اور دوسرا جز کچھ دیر توقف کے بعد چوتھی دفعہ فرمایا ۔۔۔ اس کی توجیہ میں شارحین نے لکھا ہے ، کہ غالباً آنحضرتﷺ اس طرح حضرت معاذؓ کو پوری طرح اپنی طرف متوجہ فرمانا چاہتے تھے ، تا کہ وہ ہمہ تن گوش ہو کر پوری رغبت و توجہ اور غور و تامل کے ساتھ آپ کا ارشاد سنیں ۔۔۔ دوسری توجیہ یہ بھی کی گئی ہے کہ حضور ﷺ کو اس میں تردد اور توقف تھا ، کہ حضرت معاذؓ سے بھی یہ بات بیان کر دی جائے یا نہ کی جائے ، اس وجہ سے آپ نے ابتداء میں تو تین دفعہ توقف فرمایا ، اور جب بیان فرما دینے ہی کے متعلق آپ کا شرح صدر ہو گیا تب آپ نے بیان فرمایا ۔۔۔ لیکن راقم کے نزدیک ان دونوں توجیہوں میں تکلف ہے ، اور زیادہ قرین قیاس یہ معلوم ہوتا ہے ، کہ حضور ﷺ پر اس وقت کوئی خاص استغراقی حالت طاری تھی ، آپ حضرت معاذؓ کو مخاطب کرتے تھے ، اور کچھ فرمانے سے پہلے پھر اسی کیفیت میں استغراق ہو جاتا تھا ، اس وجہ سے درمیان میں یہ وقفے ہوئے ۔ واللہ تعالیٰ اعلم ۔
۳۔ اصل حدیث کا حاصل صرف یہ ہے کہ بندوں پر اللہ تعالیٰ کا حق یہ ہے ، کہ وہ اس کی عبادت اور بندگی کریں ، اور کسی چیز کو اس کے ساتھ شرین نہ کریں ، اور جب وہ اللہ کا یہ حق ادا کریں گے ، تو االلہ تعالیٰ نے ان کا یہ حق اپنے پر مقرر کر لیا ہے کہ وہ ان کو عذاب میں نہ ڈالے گا ۔
اس حدیث میں “اللہ کی عبادت کرنے اور شرک سے بچنے” سے مراد بھی درحقیقت دینِ توحید (یعنی اسلام) کو اختیار کرنا ، اور اس پر چلنا ہے ، اور چونکہ اس وقت اسلام و کفر کے درمیان سب سے بڑا اور واضح فرق و امتیاز توحید اور شرک ہی کا تھا ، اس لئے اس حدیث میں (اور بعض ، اور حدیثوں میں بھی) اسی عنوان کو اختیار کیا گیا ہے ، نیز یہ بھی واقعہ ہے کہ اللہ کی عبادت و بندگی کرنا ، اور شرک سے بچنا اسلام کی رُوح ، اور اس کا مرکزی مسئلہ ہے ، اس لئے بھی کبھی کبھی اسلام کے لیے یہ عنوان اختیار کر لیا جاتا ہے ، اس بات کی تائید (کہ اس حدیث میں اللہ کی عبادت کرنے اور شرک سے بچنے سے مراد دین اسلام قبول کرنا ہے) اس سے بھی ہوتی ہے ، کہ صحیحین (بخاری و مسلم) ہی میں حضرت معاذؓ کی اسی حدیث کی ایک روایت میں (جو اگلے ہی نمبر پر ذکر کی جارہی ہے) توحید و رسالت دونوں پر ایمان لانے اور دونوں کی شہادت ادا کرنے کا ذکر ہے ، اور ایک روایت میں شہادت توحید و رسالت کے علاوہ نماز اور روزہ کا بھی ذکر ہے ۔
عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، قَالَ: كُنْتُ رِدْفَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْسَ بَيْنِي وَبَيْنَهُ إِلَّا مُؤْخِرَةُ الرَّحْلِ، فَقَالَ: «يَا مُعَاذُ بْنَ جَبَلٍ»، قُلْتُ: لَبَّيْكَ رَسُولَ اللهِ، وَسَعْدَيْكَ، ثُمَّ سَارَ سَاعَةً، ثُمَّ قَالَ: «يَا مُعَاذُ بْنَ جَبَلٍ» قُلْتُ: لَبَّيْكَ رَسُولَ اللهِ وَسَعْدَيْكَ، ثُمَّ سَارَ سَاعَةً، ثُمَّ قَالَ: «يَا مُعَاذُ بْنَ جَبَلٍ» قُلْتُ: لَبَّيْكَ رَسُولَ اللهِ وَسَعْدَيْكَ، قَالَ: «هَلْ تَدْرِي مَا حَقُّ اللهِ عَلَى الْعِبَادِ؟» قَالَ: قُلْتُ: اللهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: «فَإِنَّ حَقُّ اللهِ عَلَى الْعِبَادِ أَنْ يَعْبُدُوهُ، وَلَا يُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا»، ثُمَّ سَارَ سَاعَةً، ثُمَّ قَالَ: «يَا مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ» قُلْتُ: لَبَّيْكَ رَسُولَ اللهِ، وَسَعْدَيْكَ، قَالَ: «هَلْ تَدْرِي مَا حَقُّ الْعِبَادِ عَلَى اللهِ إِذَا فَعَلُوا ذَلِكَ؟» قَالَ: قُلْتُ: اللهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: «أَنْ لَا يُعَذِّبَهُمْ» (رواه البخارى ومسلم واللفظ له)

তাহকীক:
হাদীস নং: ১৩
کتاب الایمان
سچا ایمان و اسلام نجات کی ضمانت ہے
حضرت انس بن مالکؓ راوی ہیں ، کہ رسول اللہ ﷺ حضرت معاذؓ کو جب کہ وہ حضور کے ساتھ ایک ہی کجاوے پر سوار تھے ، پکارا اور فرمایا : “یا معاذ!” انہوں نے عرض کیا : “لبیک یا رسول اللہ (ﷺ) وسعدیک” حضور نے پکارا: “یا معاذ!” انہوں نے عرض کیا : “لبیک یا رسول اللہ (ﷺ) وسعدیک” حضور نے پکارا : “یا معاذ!” انہوں نے عرض کیا : “لبیک یا رسول اللہ (ﷺ) وسعدیک” ۔ تین دفعہ ایسا ہوا ، پھر حضور نے (اس آخری دفعہ میں فرمایا) “جو کوئی سچے دل سے شہادت دے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ، اور محمد اس کے رسول ہیں ، تو اللہ نے دوزخ پر ایسے شخص کو حرام کر دیا ہے” ۔ حضرت معاذؓ نے (یہ خوش خبری سن کر) عرض کیا : “کیا میں لوگوں کو اس کی خبر نہ کر دوں ، تا کہ وہ سب خوش ہو جائیں ؟”۔ حضور نے فرمایا : “پھر وہ اسی پر بھروسہ کر کے بیٹھ جائیں گے”۔ پھر حضرت معاذؓ نے کتمانِ علم کے گناہ کے خوف سے اپنے آخری وقت میں یہ حدیث لوگوں سے بیان کی ۔
تشریح
ان دونوں روایتوں (۱۲ ، ۱۳) کے ابتدائی تمہیدی حصے کی مطابقت و یکسانیت سے ظاہر ہے کہ ان دونوں کا تعلق ایک ہی واقعہ سے ہے ، اور فرق صرف یہ ہے کہ پہلی روایت میں دعوتِ اسلام قبول کرنے کے لئے اللہ کی عبادت کرنے اور شرک سے بچنے کا عنوان استعمال کیا گیا ہے ، اور دوسری میں اسی حقیقت کو توحید و رسالت کی شہادت کے عنوان سے تعبیر کیا گیا ہے ۔
اس کی مزید تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ اسی بشارت کی تیسری روایت میں حضرت معاذؓ نے توحید کے ساتھ نماز اور روزہ کا بھی ذکر کیا ہے ، یہ روایت “مشکوٰۃ” میں “مسند احمد” کے حوالہ سے نقل کی گئی ہے ، اس کے الفاظ یہ ہیں :
مَنْ لَقِيَ اللهَ لَا يُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا يُصَلِّي الْخَمْسَ، وَيَصُومُ رَمَضَانَ غُفِرَ لَهُ " قُلْتُ: أَفَلَا أُبَشِّرُهُمْ يَا رَسُولَ اللهِ؟ قَالَ: " دَعْهُمْ يَعْمَلُوا
جو شخص اللہ کے سامنے اس حال میں جائے گا ، کہ شرک سے اُس کا دامن پاک ہو ، اور وہ پانچوں نمازیں پڑھتا ہو ، اور روزے رکھتا ہو تو وہ بخش ہی دیا جائے گا (معاذ کہتے ہیں) میں نے عرض کیا : حضور ﷺ! اجازت ہو تو میں سب کو یہ بشارت سُنا دوں ؟ آپ نے فرمایا : “جانے دو ، انہیں عمل کرنے دو!”
ان تینوں روایتوں کا عنوان اگرچہ مختلف ہے ، اور ظاہری الفاظ میں اجمالی و تفصیل کا کسی قدر فرق ہے ۔ لیکن درحقیقت ہر روایت کا مطلب یہ ہی ہے کہ جو کوئی دعوتِ ایمان و اسلام کو قبول کر لے گا (جس کے بنیادی اصول و احکام ، شرک سے بچنا ، توحید و رسالت کی شہادت دینا ، اور نماز پڑھنا ، روزہ رکھنا) تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی نجات کا حتمی وعدہ ہے ۔
پس جو لوگ اس قسم کی روایات سے یہ نتیجہ نکالتے ہیں ، کہ توحید و رسالت کی شہادت ادا کرنے اور شرک سے بچنے کے بعد آدمی خواہ کیسا ہی بدعقیدہ اور بد عمل کیوں نہ ہو ، بہر حال وہ اللہ کے عذاب سے مامون و محفوظ ہی رہے گا ، اور دوزخ کی آگ اس کو چھو ہی نہ سکے گی ، وہ ان بشارتی حدیثوں کا صحیح مفہوم اور مدعا سمجھنے سے محروم ہیں ، نیز دوسرے ابواب کی جو سینکڑوں حدیثیں (بلکہ قرآن کی آیتیں بھی) ان کی اس خام خیالی کے صریح خلاف ہیں ، وہ ان سے منحرف ہیں ۔
(اعاذنا الله من ذالك)
تشریح
ان دونوں روایتوں (۱۲ ، ۱۳) کے ابتدائی تمہیدی حصے کی مطابقت و یکسانیت سے ظاہر ہے کہ ان دونوں کا تعلق ایک ہی واقعہ سے ہے ، اور فرق صرف یہ ہے کہ پہلی روایت میں دعوتِ اسلام قبول کرنے کے لئے اللہ کی عبادت کرنے اور شرک سے بچنے کا عنوان استعمال کیا گیا ہے ، اور دوسری میں اسی حقیقت کو توحید و رسالت کی شہادت کے عنوان سے تعبیر کیا گیا ہے ۔
اس کی مزید تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ اسی بشارت کی تیسری روایت میں حضرت معاذؓ نے توحید کے ساتھ نماز اور روزہ کا بھی ذکر کیا ہے ، یہ روایت “مشکوٰۃ” میں “مسند احمد” کے حوالہ سے نقل کی گئی ہے ، اس کے الفاظ یہ ہیں :
مَنْ لَقِيَ اللهَ لَا يُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا يُصَلِّي الْخَمْسَ، وَيَصُومُ رَمَضَانَ غُفِرَ لَهُ " قُلْتُ: أَفَلَا أُبَشِّرُهُمْ يَا رَسُولَ اللهِ؟ قَالَ: " دَعْهُمْ يَعْمَلُوا
جو شخص اللہ کے سامنے اس حال میں جائے گا ، کہ شرک سے اُس کا دامن پاک ہو ، اور وہ پانچوں نمازیں پڑھتا ہو ، اور روزے رکھتا ہو تو وہ بخش ہی دیا جائے گا (معاذ کہتے ہیں) میں نے عرض کیا : حضور ﷺ! اجازت ہو تو میں سب کو یہ بشارت سُنا دوں ؟ آپ نے فرمایا : “جانے دو ، انہیں عمل کرنے دو!”
ان تینوں روایتوں کا عنوان اگرچہ مختلف ہے ، اور ظاہری الفاظ میں اجمالی و تفصیل کا کسی قدر فرق ہے ۔ لیکن درحقیقت ہر روایت کا مطلب یہ ہی ہے کہ جو کوئی دعوتِ ایمان و اسلام کو قبول کر لے گا (جس کے بنیادی اصول و احکام ، شرک سے بچنا ، توحید و رسالت کی شہادت دینا ، اور نماز پڑھنا ، روزہ رکھنا) تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی نجات کا حتمی وعدہ ہے ۔
پس جو لوگ اس قسم کی روایات سے یہ نتیجہ نکالتے ہیں ، کہ توحید و رسالت کی شہادت ادا کرنے اور شرک سے بچنے کے بعد آدمی خواہ کیسا ہی بدعقیدہ اور بد عمل کیوں نہ ہو ، بہر حال وہ اللہ کے عذاب سے مامون و محفوظ ہی رہے گا ، اور دوزخ کی آگ اس کو چھو ہی نہ سکے گی ، وہ ان بشارتی حدیثوں کا صحیح مفہوم اور مدعا سمجھنے سے محروم ہیں ، نیز دوسرے ابواب کی جو سینکڑوں حدیثیں (بلکہ قرآن کی آیتیں بھی) ان کی اس خام خیالی کے صریح خلاف ہیں ، وہ ان سے منحرف ہیں ۔
(اعاذنا الله من ذالك)
عَنْ أَنَس أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَمُعاذٌ رَدِيفُهُ عَلَى الرَّحْلِ، قَالَ: «يَا مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ»، قَالَ: لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَسَعْدَيْكَ، قَالَ: «يَا مُعَاذُ»، قَالَ: لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَسَعْدَيْكَ ثَلاَثًا، قَالَ: «مَا مِنْ أَحَدٍ يَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ [ص:38] مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، صِدْقًا مِنْ قَلْبِهِ، إِلَّا حَرَّمَهُ اللَّهُ عَلَى النَّارِ»، قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ: أَفَلاَ أُخْبِرُ بِهِ النَّاسَ فَيَسْتَبْشِرُوا؟ قَالَ: «إِذًا يَتَّكِلُوا» وَأَخْبَرَ بِهَا مُعَاذٌ عِنْدَ مَوْتِهِ تَأَثُّمًا (رواه البخارى ومسلم)

তাহকীক:
হাদীস নং: ১৪
کتاب الایمان
سچا ایمان و اسلام نجات کی ضمانت ہے
حضرت معاذ بن جبلؓ سے مروی ہے ، کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے ارشاد فرمایا : “لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ” کی شہادت دینا ، جنت کی کنجی ہے ۔ (مسند احمد)
تشریح
اس حدیث میں بھی صرف شہادتِ توحید کا ذکر ہے ، اور یہ بھی دعوتِ ایمان کو قبول کر لینے ، اور اسلام کو اپنا دین بنا لینے کی ایک تعبیر ہے ، اور یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے کہ اردو محاورہ میں اسلام قبول کرنے کو “کلمہ پڑھ لینے” سے بھی تعبیر کر دیتے ہیں ۔ جس ماحول اور جس فضا کے رسول اللہ ﷺ کے یہ ارشادات ہیں ، اس میں مسلمان بھی غیر مسلم کافر و مشرک بھی “توحید و رسالت کی شہادت” اور “لا الہ الا اللہ کی شہادت” کا مطلب ایمان لانا ، اور اسلام قبول کرنا ہی سمجھتے تھے۔
تشریح
اس حدیث میں بھی صرف شہادتِ توحید کا ذکر ہے ، اور یہ بھی دعوتِ ایمان کو قبول کر لینے ، اور اسلام کو اپنا دین بنا لینے کی ایک تعبیر ہے ، اور یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے کہ اردو محاورہ میں اسلام قبول کرنے کو “کلمہ پڑھ لینے” سے بھی تعبیر کر دیتے ہیں ۔ جس ماحول اور جس فضا کے رسول اللہ ﷺ کے یہ ارشادات ہیں ، اس میں مسلمان بھی غیر مسلم کافر و مشرک بھی “توحید و رسالت کی شہادت” اور “لا الہ الا اللہ کی شہادت” کا مطلب ایمان لانا ، اور اسلام قبول کرنا ہی سمجھتے تھے۔
عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ قَالَ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَفَاتِيحُ الْجَنَّةِ شَهَادَةُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ» (رواه احمد)

তাহকীক:
হাদীস নং: ১৫
کتاب الایمان
سچا ایمان و اسلام نجات کی ضمانت ہے
حضرت ابو ذر غفاریؓ سے مروی ہے ، کہتے ہیں کہ میں (ایک دن) حضورکی خدمت میں پہنچا ، تو آپ اس وقت سفید کپڑا اوڑھے سوئے ہوئے تھے ، پھر (کچھ دیر بعد) میں حاضر ہوا ، تو آپ بیدار ہو چکے تھے ، اس وقت آپ نے فرمایا : “جو کوئی بندہ لا الہ الا اللہ کہے اور پھر اسی پر اس کو موت آ جائے ، تو وہ جنت میں ضرور جائے گا” ۔ ابو ذر کہتے ہیں ، میں نے عرض کیا : “اگرچہ اس نے زنا کیا ہو ، اور اگرچہ اس نے چوری کی ہو ؟” آپ نے ارشاد فرمایا : “ہاں اگرچہ اس نے زنا کیا ہو ، اور اگرچہ اس نے چوری کی ہو!” (ابو ذر کہتے ہیں) میں نے پھر عرض کیا : “اگرچہ اس نے زنا کیا ہو ، اور اگرچہ اس نے چوری کی ہو؟” آپ نے پھر ارشاد فرمایا : “(ہاں!)اگرچہ اس نے زنا کیا ہو ، اور اگرچہ اس نے چوری کی ہو” (ابوذرؓ کہتے ہیں) میں نے (پھر تعجب سے) عرض کیا ، کہ : (یا رسول اللہ! لا الہ الا اللہ کی شہادت دینے والا جنت میں ضرور جائے گا) اگرچہ اس نے زنا کیا ہو ، اور اگرچہ اس نے چوری کی ہو؟ ۔ آپ نے پھر ارشاد فرمایا : “(ہاں!)ابو ذر کے علی الرغم ّ(۱) (وہ جنت میں جائے گا) اگرچہ اس نے زنا کیا ہو ، اور اگرچہ اس نے چوری کی ہو!”۔
تشریح
اس حدیث میں بھی “لا الہ الا اللہ” کہتے سے مراد پورے دینِ توحید (یعنی اسلام) پر ایمان لانا ، اور اس کو اختیار کرنا ہے ، اور بے شک جو شخص اس دینِ توحید پر صدقِ دل سے ایمان رکھتا ہو گا ، وہ ضرور جنت میں جائے گا ، اب اگر بالفرض ایمان کے باوجود اس نے گناہ بھی کئے ہوں گے ، تو اگر کسی وجہ سے وہ معافی کا مستحق ہو گا ، تو اللہ تعالیٰ گناہوں کو معاف فرما کے بغیر کسی عذاب ہی کے اُس کو جنت می داخل کر دے گا اور اگر وہ معافی کا مستحق نہ ہو گا تو گناہوں کی سزا پانے کے بعد وہ جنت میں جا سکے گا ، بہرحال دین اسلام پر صدق دل سے ایمان رکھنے والا ہر شخص جنت میں ضرور جائے گا ، اگرچہ دوزخ میں گناہوں کی سزا بھگتنے کے بعد ہی جائے ۔ حضرت ابو ذرؓ کی اس روایت کا مطلب اور مفاد یہی ہے ۔
حضرت ابو ذرؓ نے جو بار بار اپنا سوال دُہرایا ، تو اس کی وجہ غالباً یہ تھی کہ چوری اور زنا کو سخت ناپاک گناہ جاننے کی وجہ سے اُن کو اس پر تعجب تھا ، کہ ایسے ناپاک گناہ کرنے والے بھی جنت میں جا سکیں گے ، گویا اُس وقت تک انہیں یہ مسئلہ معلوم نہ تھا ، آج ہم جیسوں کو حضرت ابو ذرؓ کے اس تعجب اور اس سوال کی وجہ سمجھنا اس لئے مشکل ہو گیا ہے کہ ہم نے اسلام ہی میں آنکھ کھولی ہے ، اور یہ موٹی موٹی باتیں ہم کو گھروں ہی میں معلوم ہو جاتی ہیں ۔ واللہ اعلم ۔
تشریح
اس حدیث میں بھی “لا الہ الا اللہ” کہتے سے مراد پورے دینِ توحید (یعنی اسلام) پر ایمان لانا ، اور اس کو اختیار کرنا ہے ، اور بے شک جو شخص اس دینِ توحید پر صدقِ دل سے ایمان رکھتا ہو گا ، وہ ضرور جنت میں جائے گا ، اب اگر بالفرض ایمان کے باوجود اس نے گناہ بھی کئے ہوں گے ، تو اگر کسی وجہ سے وہ معافی کا مستحق ہو گا ، تو اللہ تعالیٰ گناہوں کو معاف فرما کے بغیر کسی عذاب ہی کے اُس کو جنت می داخل کر دے گا اور اگر وہ معافی کا مستحق نہ ہو گا تو گناہوں کی سزا پانے کے بعد وہ جنت میں جا سکے گا ، بہرحال دین اسلام پر صدق دل سے ایمان رکھنے والا ہر شخص جنت میں ضرور جائے گا ، اگرچہ دوزخ میں گناہوں کی سزا بھگتنے کے بعد ہی جائے ۔ حضرت ابو ذرؓ کی اس روایت کا مطلب اور مفاد یہی ہے ۔
حضرت ابو ذرؓ نے جو بار بار اپنا سوال دُہرایا ، تو اس کی وجہ غالباً یہ تھی کہ چوری اور زنا کو سخت ناپاک گناہ جاننے کی وجہ سے اُن کو اس پر تعجب تھا ، کہ ایسے ناپاک گناہ کرنے والے بھی جنت میں جا سکیں گے ، گویا اُس وقت تک انہیں یہ مسئلہ معلوم نہ تھا ، آج ہم جیسوں کو حضرت ابو ذرؓ کے اس تعجب اور اس سوال کی وجہ سمجھنا اس لئے مشکل ہو گیا ہے کہ ہم نے اسلام ہی میں آنکھ کھولی ہے ، اور یہ موٹی موٹی باتیں ہم کو گھروں ہی میں معلوم ہو جاتی ہیں ۔ واللہ اعلم ۔
عَنْ أَبىْ ذَرٍّ قَالَ: أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَلَيْهِ ثَوْبٌ أَبْيَضُ، وَهُوَ نَائِمٌ، ثُمَّ أَتَيْتُهُ وَقَدِ اسْتَيْقَظَ، فَقَالَ: " مَا مِنْ عَبْدٍ قَالَ: لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، ثُمَّ مَاتَ عَلَى ذَلِكَ إِلَّا دَخَلَ الجَنَّةَ " قُلْتُ: وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ؟ قَالَ: «وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ» قُلْتُ: وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ؟ قَالَ: «وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ» قُلْتُ: وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ؟ قَالَ: «وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ عَلَى رَغْمِ أَنْفِ أَبِي ذَرٍّ» (رواه البخارى ومسلم)

তাহকীক:
হাদীস নং: ১৬
کتاب الایمان
سچا ایمان و اسلام نجات کی ضمانت ہے
حضرت عثمان بن عفانؓ سے مروی ہے ، کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : “جو شخص اس حال میں مرا ، کہ وہ یقین کے ساتھ جانتا تھا ، کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے ، تو وہ جنت میں جائے گا ” ۔
تشریح
اس حدیث میں بھی “لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ” پر یقین ہونے سے مراد وہی دینِ توحید پر ایمان رکھنا ہے ، اور دخولِ جنت کے وعدہ کا مطلب بھی وہی ہے ، جو اوپر مذکور ہوا ، کہ اپنے پورے اعمالنامہ کے تقاضے کے مطابق اللہ کی رحمت سے ابتداء ہی میں ، یا گناہوں کی کچھ سزا بھگت کر ہر صاحبِ ایمان جنت میں ضرور جائے گا ۔
تشریح
اس حدیث میں بھی “لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ” پر یقین ہونے سے مراد وہی دینِ توحید پر ایمان رکھنا ہے ، اور دخولِ جنت کے وعدہ کا مطلب بھی وہی ہے ، جو اوپر مذکور ہوا ، کہ اپنے پورے اعمالنامہ کے تقاضے کے مطابق اللہ کی رحمت سے ابتداء ہی میں ، یا گناہوں کی کچھ سزا بھگت کر ہر صاحبِ ایمان جنت میں ضرور جائے گا ۔
عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّان ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ مَاتَ وَهُوَ يَعْلَمُ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، دَخَلَ الْجَنَّةَ» (رواه مسلم)

তাহকীক:
হাদীস নং: ১৭
کتاب الایمان
سچا ایمان و اسلام نجات کی ضمانت ہے
عتبان بن مالکؓ سے روایت ہے (اور وہ رسول اللہ ﷺ کے ان اصحابؓ میں سے ہیں ، جو انصار میں سے غزوہ بدر میں شریک تھے) کہ وہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے ، اور عرض کیا ، کہ : “میری نگاہ میں فرق آ گیا ہے (یعنی مجھے کم دکھائی دینے لگا ہے) اور میں اپنی قوم کو نماز پڑھاتا ہوں ، سو جب بارشیں ہوتی ہیں اور میرے اور میری قوم والوں کے درمیان جو نالہ ہے ، وہ بہنے لگتا ہے ، تو میں ان کی مسجد تک جا کر نماز نہیں پڑھا سکتا اور یا رسول اللہ ﷺ ! میری یہ خواہش ہے ، کہ حضور میرے یہاں تشریف لائیں اور میرے گھر میں نماز پڑھیں ، تا کہ میں اُسی جگہ کو اپنی مستقل نماز گاہ بنا لوں”۔ کہتے ہیں کہ حضور نے فرمایا : “ان شاء اللہ تعالیٰ میں ایسا کروں گا” ۔ (عتبان کہتے ہیں) کہ صبح ہی کو جب کچھ دن چڑھا تھا رسول اللہ اور ابو بکرؓ میرے یہاں پہنچ گئے ، اور رسول اللہ ﷺ نے اندر آنے کی اجازت چاہی ، میں نے آپ کو اجازت دی ، پس جب آپ گھر میں تشریف لائے ، تو بیٹھے نہیں ، اور مجھ سے فرمایا : “تم اپنے گھر میں سے کون سی جگہ پسند کرتے ہو ، کہ میں وہاں نماز پڑھوں ؟ ” کہتے ہیں کہ میں نے گھر کی ایک جانب کی طرف اشارہ کر دیا ، پس رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوئے ، اور اللہ اکبر کہہ کر آپ نے نماز شروع کر دی ، ہم بھی صف باندھ کے آپ کے پیچھے کھڑے ہو گئے ، پس آپ نے دو رکعتیں پڑھیں ، اور سلام پھیر دیا ، (عتبان کہتے ہیں) اور ہم نے آپ کو خزیرہ (۱) کھانے کے لئے روک لیا ، جو آپ کے واسطے ہم نے تیار کیا تھا ، اور (آپ کی اطلاع پا کے) محلہ والوں میں سے بھی چند آدمی آ کے جڑ گئے ، پس انہی میں سے کسی کہنے والے نے کہا ، کہ مالک بن دخیشن (یا ابنِ دخشن) کہاں ہے؟ انہی میں سے کسی نے جواب دیا ، کہ “وہ تو منافق ہے ، اللہ اور اس کے رسول سے اُسے محبت ہی نہیں ہے”۔ پس رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : “یہ مت کہو ! کیا تم نہیں دیکھتے ہو کہ وہ “لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ” کا قائل ہے ، اور اس سے وہ اللہ کی رضا ہی چاہتا ہے”۔ اس کہنے والے شخص نے کہا ، کہ “اللہ اور اس کے رسول ہی کو زیادہ علم ہے ، ہم تو اُس کا رخ اور اُس کی خیر خواہی منافقوں کی طرف دیکھتے ہیں”۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : “یقیناً اللہ عز وجل نے دوزخ کی آگ پر اُس شخص کو حرام کر دیا ہے ، جس نے اخلاص کے ساتھ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ” کہا ہو ، اور اُس کا ارادہ اس کلمہ سے اللہ تعالی کی رضا مندی حاصل کرنا ہی ہو ”
تشریح
اس حدیث میں بھی “لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ ” کہنے والے پر آتشِ دوزخ حرام ہونے کا مطلب وہی ہے ، جو اسی مضمون کی سابقہ احادیث کی تشریح کے ضمن میں تفصیل سے لکھا جا چکا ہے ۔ بلکہ اس حدیث کی صحیح مسلم کی روایت میں بجائے “لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ ” کے “يشهد ان لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وانى رَسُولُ اللهِ ” ہے اور مراد ان دونوں ہی عنوانوں سے دعوتِ اسلام کو قبول کرنا اور دین اسلام کو بحیثیت دین کے اختیار کر لینا ہے ، دراصل جیسا کہ پہلے عرض کیا جا چکا ہے عہدِ نبوی میں اسلام قبول کرنے اور اسلام کو اختیار کرنے کی یہ عام تعبیر رتھی ۔
یہاں ایک بات یہ بھی ملحوظ رکھنی چاہیے ، کہ جن صحابی نے مالک بنِ دخشن کو منافق کہا تھا ، اُن کی نظر میں بھی مالک بنِ دخشن میں نفاق یا فسق و فجور کی کوئی بات اس کے سوا نہ تھی ، کہ اُن کے خیال میں مالک بنِ دخشن ، منافقین سے تعلقات اور میل ملاقات رکھتے تھے ۔
اس سے ایک طرف تو صحابہ کرامؓ کے ایمانی جذبے کا اندازہ ہوتا ہے ، کہ وہ اتنہ سی بات سے بھی اس قدر ناراض ہوتے تھے ، اور اس کو منافقت سمجھتے تھے ۔ اور دوسری طرف آنحضرتﷺ کی تنبیہ سے سبق ملتا ہے کہ جن لوگوں میں اس طرح کی کچھ کمزوریاں ہوں ، مگر اپنے ایمان اور توحید و رسالت کی شہادت میں وہ مخلص ہوں ، تو ان کے بارے میں ایسی بدگمانیاں اور اتنی سخت باتیں کرنی جائز نہیں ، بلکہ ایمان کا پہلو زیادہ قابلِ لحاظ اور واجب الاحترام ہے ۔
یہ بھی یاد رہنا چاہیے کہ یہ مالک بن دخیشن بھی رسول اللہ ﷺ کے اُن صحابہ میں سے ہیں ، جو عام غزوات میں حتی کہ بدر میں بھی شریک رہے ہیں ، ممکن ہے کہ منافقین سے تعلقات رکھنے میں ، حاطب بنِ ابھی بلتعہؓ کی طرح ان کی بھی کچھ مجبوریاں ہوں ۔ واللہ اعلم ۔
تشریح
اس حدیث میں بھی “لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ ” کہنے والے پر آتشِ دوزخ حرام ہونے کا مطلب وہی ہے ، جو اسی مضمون کی سابقہ احادیث کی تشریح کے ضمن میں تفصیل سے لکھا جا چکا ہے ۔ بلکہ اس حدیث کی صحیح مسلم کی روایت میں بجائے “لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ ” کے “يشهد ان لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وانى رَسُولُ اللهِ ” ہے اور مراد ان دونوں ہی عنوانوں سے دعوتِ اسلام کو قبول کرنا اور دین اسلام کو بحیثیت دین کے اختیار کر لینا ہے ، دراصل جیسا کہ پہلے عرض کیا جا چکا ہے عہدِ نبوی میں اسلام قبول کرنے اور اسلام کو اختیار کرنے کی یہ عام تعبیر رتھی ۔
یہاں ایک بات یہ بھی ملحوظ رکھنی چاہیے ، کہ جن صحابی نے مالک بنِ دخشن کو منافق کہا تھا ، اُن کی نظر میں بھی مالک بنِ دخشن میں نفاق یا فسق و فجور کی کوئی بات اس کے سوا نہ تھی ، کہ اُن کے خیال میں مالک بنِ دخشن ، منافقین سے تعلقات اور میل ملاقات رکھتے تھے ۔
اس سے ایک طرف تو صحابہ کرامؓ کے ایمانی جذبے کا اندازہ ہوتا ہے ، کہ وہ اتنہ سی بات سے بھی اس قدر ناراض ہوتے تھے ، اور اس کو منافقت سمجھتے تھے ۔ اور دوسری طرف آنحضرتﷺ کی تنبیہ سے سبق ملتا ہے کہ جن لوگوں میں اس طرح کی کچھ کمزوریاں ہوں ، مگر اپنے ایمان اور توحید و رسالت کی شہادت میں وہ مخلص ہوں ، تو ان کے بارے میں ایسی بدگمانیاں اور اتنی سخت باتیں کرنی جائز نہیں ، بلکہ ایمان کا پہلو زیادہ قابلِ لحاظ اور واجب الاحترام ہے ۔
یہ بھی یاد رہنا چاہیے کہ یہ مالک بن دخیشن بھی رسول اللہ ﷺ کے اُن صحابہ میں سے ہیں ، جو عام غزوات میں حتی کہ بدر میں بھی شریک رہے ہیں ، ممکن ہے کہ منافقین سے تعلقات رکھنے میں ، حاطب بنِ ابھی بلتعہؓ کی طرح ان کی بھی کچھ مجبوریاں ہوں ۔ واللہ اعلم ۔
أَنَّ عِتْبَانَ بْنَ مَالِكٍ، وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِمَّنْ شَهِدَ بَدْرًا مِنَ الأَنْصَارِ: أَنَّهُ أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي أَنْكَرْتُ بَصَرِي، وَأَنَا أُصَلِّي لِقَوْمِي، فَإِذَا كَانَتِ الأَمْطَارُ سَالَ الوَادِي الَّذِي بَيْنِي وَبَيْنَهُمْ، لَمْ أَسْتَطِعْ أَنْ آتِيَ مَسْجِدَهُمْ فَأُصَلِّيَ لَهُمْ، فَوَدِدْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَنَّكَ تَأْتِي فَتُصَلِّي فِي بَيْتِي فَأَتَّخِذُهُ مُصَلًّى، فَقَالَ: «سَأَفْعَلُ إِنْ شَاءَ اللَّهُ» قَالَ عِتْبَانُ: فَغَدَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَكْرٍ حِينَ ارْتَفَعَ النَّهَارُ، فَاسْتَأْذَنَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَذِنْتُ لَهُ، فَلَمْ يَجْلِسْ حَتَّى دَخَلَ البَيْتَ، ثُمَّ قَالَ لِي: «أَيْنَ تُحِبُّ أَنْ أُصَلِّيَ مِنْ بَيْتِكَ؟» فَأَشَرْتُ إِلَى نَاحِيَةٍ مِنَ البَيْتِ، فَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكَبَّرَ فَصَفَفْنَا، فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ [ص:73] سَلَّمَ، وَحَبَسْنَاهُ عَلَى خَزِيرٍ صَنَعْنَاهُ، فَثَابَ فِي البَيْتِ رِجَالٌ مِنْ أَهْلِ الدَّارِ ذَوُو عَدَدٍ فَاجْتَمَعُوا، فَقَالَ قَائِلٌ مِنْهُمْ: أَيْنَ مَالِكُ بْنُ الدُّخْشُنِ؟ فَقَالَ بَعْضُهُمْ: ذَلِكَ مُنَافِقٌ، لاَ يُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لاَ تَقُلْ، أَلاَ تَرَاهُ قَالَ: لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، يُرِيدُ بِذَلِكَ وَجْهَ اللَّهِ؟ " قَالَ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: قُلْنَا: فَإِنَّا نَرَى وَجْهَهُ وَنَصِيحَتَهُ إِلَى المُنَافِقِينَ، فَقَالَ: " فَإِنَّ اللَّهَ قَدْ حَرَّمَ عَلَى النَّارِ مَنْ قَالَ: لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، يَبْتَغِي بِذَلِكَ وَجْهَ اللَّهِ (رواه البخارى و مسلم)

তাহকীক:
হাদীস নং: ১৮
کتاب الایمان
سچا ایمان و اسلام نجات کی ضمانت ہے
حضرت ابو ہریرہؓ راوی ہیں کہ ایک دن ہم لوگ رسول اللہ ﷺ (کی خدمت میں حاضر تھے ، اور) آپ کے ارد گرد بیٹھے ہوئے تھے ، اور حضرت ابو بکرؓ و عمرؓ بھی ہمارے ساتھ ہی اس مجلس میں تھے ، کہ آنحضرتﷺ ہمارے درمیان سے اٹھے (اور کسی طرف کو نکل گئے) اور پھر آپ کی واپسی میں بہت دیر ہو گئی ، تو ہمیں ڈر ہوا ، کہیں ہم سے علیحدہ آپ کو کوئی تکلیف نہ پہنچائی جائے ، (یعنی ہماری عدم موجودگی میں کسی دشمن وغیرہ سے آپ کو کوئی ایذا نہ پہنچ جائے) ۔ پس اس خیال سے ہمیں سخت گھبراہٹ اور فکر لاحق ہوئی ، اور ہم لوگ (آپ کی جستجو میں) نکل کھڑے ہوئے ، اور سب سے پہلے میں ہی گھبرا کے حضور کی تلاش میں نکلا ، یہاں تک کہ انصار کے خاندان بھی النجار کے ایک باغ پر پہنچ گیا ، جو چہار دیواری سے گھرا ہوا تھا ،اور میں نے اس کے چاروں طرف چکر لگایا ، کہ اندر جانے کے لئے مجھے راستہ مل جائے ، لیکن نہیں ملا ، پھر مجھے پانی کی ایک گول (چھوٹی سی نہری) نظر پڑی ، جو باہر کے ایک کنوئیں سے باغ کے اندر جاتی تھی (ابو ہریرہؓ کہتے ہیں) میں سمٹ اور سکڑ کر اس میں سے باغ کے اندر گھس گیا ، اور رسول اللہ ﷺ کے پاس جا پہنچا ، حضور نے فرمایا : “ابو ہریرہ!” میں نے عرض کیا “ہاں ! یا رسول اللہ میں ہی ہوں” آپ نے فرمایا “تم کیسے آئے ؟” میں نے عرض کیا : “یا رسول اللہ! آپ ہمارے درمیان تشریف رکھتے تھے ، پھر وہاں سے اُٹھ کر چلے آئے ، اور جب دیر تک آپ کی واپسی نہیں ہوئی تو ہمیں خطرہ ہوا ، کہ مبادا ہم سے علیحدہ آپ کو کوئی ایذا پہنچائی جائے ، اسی خطرے سے گھبرا کے ہم سب چل پڑے ، اور سب سے پہلے گھبرا کے میں ہی نکلا تھا، یہاں تک کہ میں اس باغ تک پہنچا ، اور (جب مجھے کوئی دراوزہ نہیں ملا ، تو) لومڑی کی طرح سمٹ سکڑ کے ، میں (اس گول میں سے کسی طرح) گھس آیا ہوں اور دوسرے لوگ نھی میرے پیچھے آ رہے ہیں” ۔ پھر حضور ﷺ نے اپنے نعلین مبارک مجھے عطا فرمائے اور ارشاد فرمایا کہ “میرے یہ جوتے لے کر جاؤ ، اور اس باغ سے نکل کے جو آدمی بھی تمہیں ایسا ملے ، جو دل کے پورے یقین کے ساتھ لا الہ الا اللہ کی شہادت دیتا ہو ، اس کو جنت کی خوشخبری سنا دو”۔
(ابو ہریرہؓ کہتے ہیں ، میں وہاں سے چلا) تو سب سے پہلے میری ملاقات حضرت عمرؓ سے ہوئی ، انہوں نے مجھ سے پوچھا : “ابو ہریرہؓ ! تمہارے ہاتھ میں یہ دو جوتیاں کیسی ہیں؟” ۔ میں نے کہا : “یہ حضور (ﷺ) کے نعلین مبارک ہیں ، حضور ﷺ نے مجھے یہ دے کر بھیجا ہے ، کہ جو کوئی بھی دل سے “لا الہ الا اللہ” کی شہادت دینے والا مجھے ملے ، میں اس کو جنت کی خوشخبری سنا دوں” ۔ (ابو ہریرہؓ کہتے ہیں ، کہ) پس عمرؓ نے میرے سینے پر ایک ہاتھ مارا جس میں اپنی سرینوں کے بل پیچھے کو گر پڑا ، اور مجھ سے انہوں نے کہا : “پیچھے کو لوٹو” ۔میں روتا ہوا حضور ﷺ کے پاس واپس آیا ، اور عمرؓ بھی میرے پیچھے پیچھے آئے ، رسول اللہ ﷺ نے (مجھے اس حالت میں دیکھ کر) پوچھا : “ابو ہریرہ تمہیں کیا ہوا ؟” میں نے عرض کیا کہ : عمرؓ مجھے ملے تھے ، حضور ﷺ نے مجھے جو پیغام دے کر بھیجا تھا ، میں نے وہ انہیں بتلایا ، تو انہوں نے میرے سینے پر ایک ایسی ضرب لگائی جس سے میں اپنی سرینوں کے بل گر پڑا ، اور مجھ سے کہا ، کہ پیچھے کو لوٹو” رسول اللہ ﷺ نے عمرؓ کو مخاطب کر کے فرمایا : “عمر! تم نے ایسا کیو ں کیا ؟” انہوں نے عرض کیا : حضور ﷺ پر میرے ماں باپ قربان ہوں ! کیا آپ نے ابو ہریرہؓ کو اپنے نعلین مبارک دے کر اس لئے بھیجا تھا ، کہ جو کوئی بھی دل کے یقین کے ساتھ “لا الہ الا اللہ” کی شہادت دینے والا ان کو ملے ، وہ اس کو جنت کی بشارت دے دیں ؟” حضور ﷺ نے فرمایا : “ہاں ! میں نے ہی یہ کہہ کر بھیجا تھا” ۔ عمرؓ نے عرض کیا : “حضور ! ایسا نہ کیجئے ، مجھے خطرہ ہے کہ کہیں لوگ بس اس شہادت ہی پر بھروسہ کر کے (سعی و عمل سے بے پرواہ ہو کے) نہ بیٹھ جائیں ، لہذا انہیں اسی طرح عمل کرنے دیجئے ۔” حضور ﷺ نے فرمایا : “تو جانے دو!”۔
تشریح
اس حدیث میں چند چیزیں وضاحت طلب ہیں:
۱۔ رسول اللہ ﷺ نے اس موقع پر حضرت ابو ہریرہؓ کو اپنی نعلین مبارک کیوں عطا فرمائیں ؟ شارحین نے اس کی توجیہ میں اگرچہ کئی باتیں کہی ہیں ، لیکن ان سب میں زیادہ قرین قیاس یہ وجہ معلوم ہوتی ہے کہ حضرت ابو ہریرہؓ کو آپ نے جس بشارتِ عظمیٰ کے اعلان کے لئے بھیجا تھا ، اس کی غیر معمولی اہمیت کی وجہ سے آپ نے اپنی کوئی خاص نشانی بھی اُن کے ساتھ کر دینا مناسب سمجھا اور اس وقت آپ کے پاس ایسی چیز جو اس مقصد کے لیے آپ ان کو دے سکتے تھے ، یہ نعلین مبارک ہی تھیں ، اس لئے وہی آپ نے اُن کو عطا فرما دیں ۔ واللہ اعلم ۔
۲۔ حضرت عمرؓ نے اس واقعہ میں حضرت ابو ہریرہؓ کے ساتھ جو سختی کا معاملہ فرمایا ، اس کی صحیح نوعیت کو سمجھنے کے لئے حضرت عمرؓ کی اُس امتیازی حیثیت کو پیشِ نظر رکھنا چاہئے ، جو صحابہ کرامؓ کی جماعت میں اُن کو حاصل تھی ، یعنی وہ (اور حضرت ابو بکرؓ بھی) حضور (ﷺ) کے خاص شریک کار ، محرمِ راز ، مشیرِ خصوصی ، اور گویا آپ کے وزیر نائب تھے اورع صحابہ کرامؓ عام طور سے اُن کے اس امتیازی مقام کو پہچانتے تھے اورع جس طرح ہر جماعت اور ہر خاندان کا بڑا ، اپنے چھوٹوں کو تنبیہ اور سرزنش کا حق رکھتا ہے ، اسی طرح حضرت عمرؓ بھی یہ حق رکھتے تھے اور بسا اوقات حسبِ ضرورت اس حق کو آپ استعمال بھی فرماتے تھے ، اورع واقعہ یہ ہے کہ چھوٹوں کی اصلاح و تربیت کے لیے بڑوں کے واسطے اس حق کا ماننا ضروری بھی ہے ، پس حضرت عمرؓ نے اس واقعہ میں حضرت ابو رہریرہؓ کے ساتھ جو تشدد کیا ، وہ درحقیقت اسی قبیل سے ہے ، اور معلوم ایسا ہوتا ہے کہ حضرت عمرؓ نے ابتداءً ان سے واپس ہونے کو کہا ہو گا ، لیکن وہ چونکہ تمام اہلِ ایمان کے لئے ایک بشارتِ عظمیٰ کا پروانہ لے کر آ رہے تھے ، اور اُن کے نزدیک یہ ایک بڑی سعادت تھی جو انہیں حاصل ہو رہی تھی ، اس لئے انہوں نے واپس ہونے سے انکار کیا ہو گا ، اور بالآخر حضرت عمرؓ نے ان کو واپس لوٹانے کے لئے اس جبر و تشدد سے کام لیا ہو گا ، کیوں کہ ان کو مقامِ نبوت اور شئونِ نبوت کی پوری شناسائی کی وجہ سے اس کا کامل یقین تھا ، کہ اس بشارتِ عامہ کا مضر پہلو جب حضور ﷺ کے سامنے آئے گا ، تو آپ بھی اس کو خلافِ مصلحت ہی سمجھیں گے ، اور ابو ہریرہؓ کو اس کی عام اشاعت سے منع فرما دیں گے ، چناں چہ ایسا ہی ہوا ۔
یہاں یہ بھی ملحوظ رہنا چاہئے ، کہ ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت معاذؓ کو بھی ایسی ہی بشارت سنائی تھی (وہ حدیث اوپر گزر چکی ہے) اس وقت حضرت معاذؓ نے رسول اللہ ﷺ سے اجازت مانگی تھی ، کہ وہ سب مسلمانوں کو یہ خوشخبری سنا دیں ، تو حضور نے اجازت نہیں دی تھی ، اور اجازت نہ دینے کی وجہ یہی بیان فرمائی تھی کہ لوگ اسی پر بھروسہ کر کے دینی ترقیوں سے رہ جائیں گے ۔
۳۔ اس حدیث میں بھی صرف “لا الہ الا اللہ” کی شہادت پر جنت کی خوشخبری دی گئی ہے ، سو اس کی عام توجیہ تو وہی ہے ، جو مندرجہ بالا احادیث کے ذیل میں ذکر کی جا چکی ہے ۔ ما سوا اُسکے ، اس حدیث کے الفاظ میں اس احتمال کی بھی کافی گنجائش ہے ، کہ حضور ﷺ کا مطلب اس ارشاد سے صرف یہ ہو کہ جو کوئی “لا الہ الا اللہ” کی شہادت دے ، یعنی صدق دل سے دینِ توحید (اسلام) پر ایمان لائے ، اس کو خوشخبری دے دی جائے کہ وہ ضرور جنت میں جائے گا ، اگرچہ گناہوں کی سزا پزنے کے بعد ہی جائے ، اس صورت میں کوئی اشکال نہیں رہتا ۔
اس کے سوا ایک خاص نکتہ یہاں یہ بھی قابلِ ذکر ہے ، کہ مقربین بارگاہِ قدس پر بعض اوقات اللہ تعالیٰ کے بے پناہ قہر و جلال اور شانِ غضب و انتقام کا جب خاص انکشاف ہوتا ہے ، تو اُن پر ہیبت اور خوف کا غلبہ ہو جاتا ہے ، اور اُس وقت کا ادراک و احساس یہ ہوتا ہے کہ شاید کسی بھی نافرمان کی نجات نہ ہو سکے گی ، اور اُس خاص حال میں اُن کے ارشادات اِس طرح کے ہوتے ہیں ، کہ جو یہ گناہ کرے گا جنت میں نہیں جا سکے گا ، جو وہ گناہ کرے گا ، جنت کی ہوا بھی نہیں پا سکے گا ، وغیرہ وغیرہ ۔۔۔ اور اسی طرح جب دوسرے بعض اوقات میں اُن پر اللہ تعالیٰ کی شان رحمت اور اس کے بے حساب اور بے اندازہ فضل و کرم کا انکشاف ہوتا ہے ، تو اُن پر رجا اور امیدِ رحمت کا غلبہ ہو جاتا ہے ، اور اُس عالم میں اُن کا ادراک و احساس یہ ہوتا ہے کہ جس میں کچھ بھی ذرہ خیر ہو گا وہ بخشا ہی جائے گا ، اور ایسے ہی احوال میں اُن حضرات کی زبانوں سے اس طرح کی عام بشارتیں نکلتی ہیں ۔۔۔ اسی نکتے کو عارف شیرازیؒ نے اس طرح ادا کیا ہے ۔ ؎
بہ تہدید گر برکشد تیغ حکم بمانند کروبیاں صم و بکم
وگردردہد یک صلائے کرم عزازیل گوید نصیبے برم
پس حدیث مندرجہ بالا کے بارے میں یہ بھی بہت زیادہ قرین قیاس ہے کہ حضرت ابو ہریرہؓ جس وقت بنی النجار کے اس باغ میں حضور ﷺ کے پاس پہنچے ہوں ، تو اس وقت آپ اللہ تعالیٰ کی بے پایاں شئونِ رحمت اور تجلیاتِ کرم کے مراقبے و مشاہدے میں مستغرق ہوں ، اور اسی حالت میں آپ نے حضرت ابو ہریرہؓ کو بطور نشانی اپنی نعلینِ مبارک عطا فرما کر ہر شاہدِ توحید کو جنت کی خوشخبری سنا دینے کا حکم دے فیا ہو ، لیکن حجرت عمرؓ چونکہ اس پوری حقیقت کے رازداں اور ان احوال و کیفیات کے اُتار چڑھاؤ سے باخبر تھے ، اس لئے انہوں نے حضور ﷺ سے براہِ راست مراجعت و تحقیق تک حضرت ابو ہریرہؓ کو اس کے اعلانِ عام سے روکا ہو ، دوسرے طور پر اس کو یوں بھی کہا جا سکتا ہے ، کہ حضرت عمرؓ پر اُس وقت رسول اللہ ﷺ کے قلبِ مبارک کی اس خاص کیفیت (یعنی غلبہ رجا و رحمت) کا انکشاف منجانب اللہ ہو چکا تھا ، اور اُن کو اپنے نورِ فراست سے اس بات کا یقین تھا ، کہ جب آنحضرتﷺ پر اس کیفیت کا غلبہ نہیں رہے گا ، اور اس اعلان کا دوسرا پہلو آپ کے سامنے رکھا جائے گا ، تو خود آپ اُس کو منع فرما دیں گے ، جیسا کہ ظہور میں آیا ۔۔۔ اس طرحکے مواقع پر صحیح حقیقت کا ادراک و انکشاف حضرت عمرؓ کی امتیازی فضیلت ہے ، جس کو حدیثِ نبوی میں “مقام محدثیت” سے تعبیر کیا گیا ہے ۔
ایک اور اصولی بات جس سے اس طرح کی بہت سی حدیثوں کا اشکال حل ہو جاتا ہے
اس قسم کی آیات اور احادیث پر غور کرتے وقت ایک اصولی بات یہ بھی ملحوظ رکھنے کے قابل ہے کہ اس قسم کی بشارتوں میں متکلم کا مقصد اور مطمح نظر کسی عمل خیر کی ذات خاصیت اور اس کا اصلی اثر بتلانا ہوتا ہے ، قطع نظر اس سے کہ اگر دوسرے اعمال کا تقاضا اس کے خلاف ہو ، تو پھر انجام کیا ہو گا اور یہ ایسا ہی ہے جیسے کہ طب کی کتابوں میں اسی اصول پر دواؤں کے خواص بیان کئے جاتے ہیں ، مثلاًً لکھا جاتا ہے ، کہ جو شخص اطریفل استعمال کرتا رہے گا ، وہ ہمیشہ نزلہ سے محفوظ رہے گا ، اب اس سے یہ سمجھ لینا کہ جو شخص اطریفل کھانے کے ساتھ ساتھ تیل ، ترشی وغیرہ انتہائی درجے کی نزلہ پیدا کرنے والی چیزیں بھی برابر کھاتا رہے ، اس کو بھی کبھی نزلہ نہیں ہو گا ، سخت نافہمی اور اطبا کے طرزِ کلام سے ناواقفی ہے ۔
اس اصول کی روشنی میں اس قسم کی حدیثوں کا مدعا صرف اتنا ہی ہے کہ توحید و رسالت کی شہادت کا ذاتی اقتضاء یہی ہے کہ ایسا آدمی عذاب دوزخ سے محفوظ رہے ، اور جنت میں جائے ، لیکن اگر اس نے اپنی بدبختی سے کچھ ایسے بداعمال بھی کئے ہیں جن کا ذاتی اقتضاء قرآن و حدیث میں عذاب پانا ، اور دوزخ میں جانا ہی بتلایا گیا ہے ، تو ظاہر ہے کہ وہ بھی اپنا کچھ نہ کچھ اثر ضرور ہی دکھائیں گے ۔
اگر یہ چھوٹا سا نکتہ ملحوظ رکھا جائے ، تو وعدہ و وعید اور ترغیب و ترہیب کے سلسلہ کی صدہا حدیثوں کے بارے میں لوگوں کو غلط فہمی اور اس کی وجہ سے جو الجھن ہوتی ہے ، وہ ان شاء اللہ نہ ہو گی ۔
(ابو ہریرہؓ کہتے ہیں ، میں وہاں سے چلا) تو سب سے پہلے میری ملاقات حضرت عمرؓ سے ہوئی ، انہوں نے مجھ سے پوچھا : “ابو ہریرہؓ ! تمہارے ہاتھ میں یہ دو جوتیاں کیسی ہیں؟” ۔ میں نے کہا : “یہ حضور (ﷺ) کے نعلین مبارک ہیں ، حضور ﷺ نے مجھے یہ دے کر بھیجا ہے ، کہ جو کوئی بھی دل سے “لا الہ الا اللہ” کی شہادت دینے والا مجھے ملے ، میں اس کو جنت کی خوشخبری سنا دوں” ۔ (ابو ہریرہؓ کہتے ہیں ، کہ) پس عمرؓ نے میرے سینے پر ایک ہاتھ مارا جس میں اپنی سرینوں کے بل پیچھے کو گر پڑا ، اور مجھ سے انہوں نے کہا : “پیچھے کو لوٹو” ۔میں روتا ہوا حضور ﷺ کے پاس واپس آیا ، اور عمرؓ بھی میرے پیچھے پیچھے آئے ، رسول اللہ ﷺ نے (مجھے اس حالت میں دیکھ کر) پوچھا : “ابو ہریرہ تمہیں کیا ہوا ؟” میں نے عرض کیا کہ : عمرؓ مجھے ملے تھے ، حضور ﷺ نے مجھے جو پیغام دے کر بھیجا تھا ، میں نے وہ انہیں بتلایا ، تو انہوں نے میرے سینے پر ایک ایسی ضرب لگائی جس سے میں اپنی سرینوں کے بل گر پڑا ، اور مجھ سے کہا ، کہ پیچھے کو لوٹو” رسول اللہ ﷺ نے عمرؓ کو مخاطب کر کے فرمایا : “عمر! تم نے ایسا کیو ں کیا ؟” انہوں نے عرض کیا : حضور ﷺ پر میرے ماں باپ قربان ہوں ! کیا آپ نے ابو ہریرہؓ کو اپنے نعلین مبارک دے کر اس لئے بھیجا تھا ، کہ جو کوئی بھی دل کے یقین کے ساتھ “لا الہ الا اللہ” کی شہادت دینے والا ان کو ملے ، وہ اس کو جنت کی بشارت دے دیں ؟” حضور ﷺ نے فرمایا : “ہاں ! میں نے ہی یہ کہہ کر بھیجا تھا” ۔ عمرؓ نے عرض کیا : “حضور ! ایسا نہ کیجئے ، مجھے خطرہ ہے کہ کہیں لوگ بس اس شہادت ہی پر بھروسہ کر کے (سعی و عمل سے بے پرواہ ہو کے) نہ بیٹھ جائیں ، لہذا انہیں اسی طرح عمل کرنے دیجئے ۔” حضور ﷺ نے فرمایا : “تو جانے دو!”۔
تشریح
اس حدیث میں چند چیزیں وضاحت طلب ہیں:
۱۔ رسول اللہ ﷺ نے اس موقع پر حضرت ابو ہریرہؓ کو اپنی نعلین مبارک کیوں عطا فرمائیں ؟ شارحین نے اس کی توجیہ میں اگرچہ کئی باتیں کہی ہیں ، لیکن ان سب میں زیادہ قرین قیاس یہ وجہ معلوم ہوتی ہے کہ حضرت ابو ہریرہؓ کو آپ نے جس بشارتِ عظمیٰ کے اعلان کے لئے بھیجا تھا ، اس کی غیر معمولی اہمیت کی وجہ سے آپ نے اپنی کوئی خاص نشانی بھی اُن کے ساتھ کر دینا مناسب سمجھا اور اس وقت آپ کے پاس ایسی چیز جو اس مقصد کے لیے آپ ان کو دے سکتے تھے ، یہ نعلین مبارک ہی تھیں ، اس لئے وہی آپ نے اُن کو عطا فرما دیں ۔ واللہ اعلم ۔
۲۔ حضرت عمرؓ نے اس واقعہ میں حضرت ابو ہریرہؓ کے ساتھ جو سختی کا معاملہ فرمایا ، اس کی صحیح نوعیت کو سمجھنے کے لئے حضرت عمرؓ کی اُس امتیازی حیثیت کو پیشِ نظر رکھنا چاہئے ، جو صحابہ کرامؓ کی جماعت میں اُن کو حاصل تھی ، یعنی وہ (اور حضرت ابو بکرؓ بھی) حضور (ﷺ) کے خاص شریک کار ، محرمِ راز ، مشیرِ خصوصی ، اور گویا آپ کے وزیر نائب تھے اورع صحابہ کرامؓ عام طور سے اُن کے اس امتیازی مقام کو پہچانتے تھے اورع جس طرح ہر جماعت اور ہر خاندان کا بڑا ، اپنے چھوٹوں کو تنبیہ اور سرزنش کا حق رکھتا ہے ، اسی طرح حضرت عمرؓ بھی یہ حق رکھتے تھے اور بسا اوقات حسبِ ضرورت اس حق کو آپ استعمال بھی فرماتے تھے ، اورع واقعہ یہ ہے کہ چھوٹوں کی اصلاح و تربیت کے لیے بڑوں کے واسطے اس حق کا ماننا ضروری بھی ہے ، پس حضرت عمرؓ نے اس واقعہ میں حضرت ابو رہریرہؓ کے ساتھ جو تشدد کیا ، وہ درحقیقت اسی قبیل سے ہے ، اور معلوم ایسا ہوتا ہے کہ حضرت عمرؓ نے ابتداءً ان سے واپس ہونے کو کہا ہو گا ، لیکن وہ چونکہ تمام اہلِ ایمان کے لئے ایک بشارتِ عظمیٰ کا پروانہ لے کر آ رہے تھے ، اور اُن کے نزدیک یہ ایک بڑی سعادت تھی جو انہیں حاصل ہو رہی تھی ، اس لئے انہوں نے واپس ہونے سے انکار کیا ہو گا ، اور بالآخر حضرت عمرؓ نے ان کو واپس لوٹانے کے لئے اس جبر و تشدد سے کام لیا ہو گا ، کیوں کہ ان کو مقامِ نبوت اور شئونِ نبوت کی پوری شناسائی کی وجہ سے اس کا کامل یقین تھا ، کہ اس بشارتِ عامہ کا مضر پہلو جب حضور ﷺ کے سامنے آئے گا ، تو آپ بھی اس کو خلافِ مصلحت ہی سمجھیں گے ، اور ابو ہریرہؓ کو اس کی عام اشاعت سے منع فرما دیں گے ، چناں چہ ایسا ہی ہوا ۔
یہاں یہ بھی ملحوظ رہنا چاہئے ، کہ ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت معاذؓ کو بھی ایسی ہی بشارت سنائی تھی (وہ حدیث اوپر گزر چکی ہے) اس وقت حضرت معاذؓ نے رسول اللہ ﷺ سے اجازت مانگی تھی ، کہ وہ سب مسلمانوں کو یہ خوشخبری سنا دیں ، تو حضور نے اجازت نہیں دی تھی ، اور اجازت نہ دینے کی وجہ یہی بیان فرمائی تھی کہ لوگ اسی پر بھروسہ کر کے دینی ترقیوں سے رہ جائیں گے ۔
۳۔ اس حدیث میں بھی صرف “لا الہ الا اللہ” کی شہادت پر جنت کی خوشخبری دی گئی ہے ، سو اس کی عام توجیہ تو وہی ہے ، جو مندرجہ بالا احادیث کے ذیل میں ذکر کی جا چکی ہے ۔ ما سوا اُسکے ، اس حدیث کے الفاظ میں اس احتمال کی بھی کافی گنجائش ہے ، کہ حضور ﷺ کا مطلب اس ارشاد سے صرف یہ ہو کہ جو کوئی “لا الہ الا اللہ” کی شہادت دے ، یعنی صدق دل سے دینِ توحید (اسلام) پر ایمان لائے ، اس کو خوشخبری دے دی جائے کہ وہ ضرور جنت میں جائے گا ، اگرچہ گناہوں کی سزا پزنے کے بعد ہی جائے ، اس صورت میں کوئی اشکال نہیں رہتا ۔
اس کے سوا ایک خاص نکتہ یہاں یہ بھی قابلِ ذکر ہے ، کہ مقربین بارگاہِ قدس پر بعض اوقات اللہ تعالیٰ کے بے پناہ قہر و جلال اور شانِ غضب و انتقام کا جب خاص انکشاف ہوتا ہے ، تو اُن پر ہیبت اور خوف کا غلبہ ہو جاتا ہے ، اور اُس وقت کا ادراک و احساس یہ ہوتا ہے کہ شاید کسی بھی نافرمان کی نجات نہ ہو سکے گی ، اور اُس خاص حال میں اُن کے ارشادات اِس طرح کے ہوتے ہیں ، کہ جو یہ گناہ کرے گا جنت میں نہیں جا سکے گا ، جو وہ گناہ کرے گا ، جنت کی ہوا بھی نہیں پا سکے گا ، وغیرہ وغیرہ ۔۔۔ اور اسی طرح جب دوسرے بعض اوقات میں اُن پر اللہ تعالیٰ کی شان رحمت اور اس کے بے حساب اور بے اندازہ فضل و کرم کا انکشاف ہوتا ہے ، تو اُن پر رجا اور امیدِ رحمت کا غلبہ ہو جاتا ہے ، اور اُس عالم میں اُن کا ادراک و احساس یہ ہوتا ہے کہ جس میں کچھ بھی ذرہ خیر ہو گا وہ بخشا ہی جائے گا ، اور ایسے ہی احوال میں اُن حضرات کی زبانوں سے اس طرح کی عام بشارتیں نکلتی ہیں ۔۔۔ اسی نکتے کو عارف شیرازیؒ نے اس طرح ادا کیا ہے ۔ ؎
بہ تہدید گر برکشد تیغ حکم بمانند کروبیاں صم و بکم
وگردردہد یک صلائے کرم عزازیل گوید نصیبے برم
پس حدیث مندرجہ بالا کے بارے میں یہ بھی بہت زیادہ قرین قیاس ہے کہ حضرت ابو ہریرہؓ جس وقت بنی النجار کے اس باغ میں حضور ﷺ کے پاس پہنچے ہوں ، تو اس وقت آپ اللہ تعالیٰ کی بے پایاں شئونِ رحمت اور تجلیاتِ کرم کے مراقبے و مشاہدے میں مستغرق ہوں ، اور اسی حالت میں آپ نے حضرت ابو ہریرہؓ کو بطور نشانی اپنی نعلینِ مبارک عطا فرما کر ہر شاہدِ توحید کو جنت کی خوشخبری سنا دینے کا حکم دے فیا ہو ، لیکن حجرت عمرؓ چونکہ اس پوری حقیقت کے رازداں اور ان احوال و کیفیات کے اُتار چڑھاؤ سے باخبر تھے ، اس لئے انہوں نے حضور ﷺ سے براہِ راست مراجعت و تحقیق تک حضرت ابو ہریرہؓ کو اس کے اعلانِ عام سے روکا ہو ، دوسرے طور پر اس کو یوں بھی کہا جا سکتا ہے ، کہ حضرت عمرؓ پر اُس وقت رسول اللہ ﷺ کے قلبِ مبارک کی اس خاص کیفیت (یعنی غلبہ رجا و رحمت) کا انکشاف منجانب اللہ ہو چکا تھا ، اور اُن کو اپنے نورِ فراست سے اس بات کا یقین تھا ، کہ جب آنحضرتﷺ پر اس کیفیت کا غلبہ نہیں رہے گا ، اور اس اعلان کا دوسرا پہلو آپ کے سامنے رکھا جائے گا ، تو خود آپ اُس کو منع فرما دیں گے ، جیسا کہ ظہور میں آیا ۔۔۔ اس طرحکے مواقع پر صحیح حقیقت کا ادراک و انکشاف حضرت عمرؓ کی امتیازی فضیلت ہے ، جس کو حدیثِ نبوی میں “مقام محدثیت” سے تعبیر کیا گیا ہے ۔
ایک اور اصولی بات جس سے اس طرح کی بہت سی حدیثوں کا اشکال حل ہو جاتا ہے
اس قسم کی آیات اور احادیث پر غور کرتے وقت ایک اصولی بات یہ بھی ملحوظ رکھنے کے قابل ہے کہ اس قسم کی بشارتوں میں متکلم کا مقصد اور مطمح نظر کسی عمل خیر کی ذات خاصیت اور اس کا اصلی اثر بتلانا ہوتا ہے ، قطع نظر اس سے کہ اگر دوسرے اعمال کا تقاضا اس کے خلاف ہو ، تو پھر انجام کیا ہو گا اور یہ ایسا ہی ہے جیسے کہ طب کی کتابوں میں اسی اصول پر دواؤں کے خواص بیان کئے جاتے ہیں ، مثلاًً لکھا جاتا ہے ، کہ جو شخص اطریفل استعمال کرتا رہے گا ، وہ ہمیشہ نزلہ سے محفوظ رہے گا ، اب اس سے یہ سمجھ لینا کہ جو شخص اطریفل کھانے کے ساتھ ساتھ تیل ، ترشی وغیرہ انتہائی درجے کی نزلہ پیدا کرنے والی چیزیں بھی برابر کھاتا رہے ، اس کو بھی کبھی نزلہ نہیں ہو گا ، سخت نافہمی اور اطبا کے طرزِ کلام سے ناواقفی ہے ۔
اس اصول کی روشنی میں اس قسم کی حدیثوں کا مدعا صرف اتنا ہی ہے کہ توحید و رسالت کی شہادت کا ذاتی اقتضاء یہی ہے کہ ایسا آدمی عذاب دوزخ سے محفوظ رہے ، اور جنت میں جائے ، لیکن اگر اس نے اپنی بدبختی سے کچھ ایسے بداعمال بھی کئے ہیں جن کا ذاتی اقتضاء قرآن و حدیث میں عذاب پانا ، اور دوزخ میں جانا ہی بتلایا گیا ہے ، تو ظاہر ہے کہ وہ بھی اپنا کچھ نہ کچھ اثر ضرور ہی دکھائیں گے ۔
اگر یہ چھوٹا سا نکتہ ملحوظ رکھا جائے ، تو وعدہ و وعید اور ترغیب و ترہیب کے سلسلہ کی صدہا حدیثوں کے بارے میں لوگوں کو غلط فہمی اور اس کی وجہ سے جو الجھن ہوتی ہے ، وہ ان شاء اللہ نہ ہو گی ۔
عَنْ أَبِىْ هُرَيْرَةَ، قَالَ: كُنَّا قُعُودًا حَوْلَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مَعَنَا أَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ فِي نَفَرٍ، فَقَامَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ بَيْنِ أَظْهُرِنَا، فَأَبْطَأَ عَلَيْنَا، وَخَشِينَا أَنْ يُقْتَطَعَ دُونَنَا، وَفَزِعْنَا، فَقُمْنَا، فَكُنْتُ أَوَّلَ مَنْ فَزِعَ، فَخَرَجْتُ أَبْتَغِي رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى أَتَيْتُ حَائِطًا لِلْأَنْصَارِ لِبَنِي النَّجَّارِ، فَدُرْتُ بِهِ هَلْ أَجِدُ لَهُ بَابًا؟ فَلَمْ أَجِدْ، فَإِذَا رَبِيعٌ يَدْخُلُ فِي جَوْفِ حَائِطٍ مِنْ بِئْرٍ خَارِجَةٍ - وَالرَّبِيعُ الْجَدْوَلُ - فَاحْتَفَزْتُ، فَدَخَلْتُ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: «أَبُو هُرَيْرَةَ» فَقُلْتُ: نَعَمْ يَا رَسُولَ اللهِ، قَالَ: «مَا شَأْنُكَ؟» قُلْتُ: كُنْتَ بَيْنَ أَظْهُرِنَا، فَقُمْتَ فَأَبْطَأْتَ عَلَيْنَا، فَخَشِينَا أَنْ تُقْتَطَعَ دُونَنَا، فَفَزِعْنَا، فَكُنْتُ أَوَّلَ مَنْ فَزِعَ، فَأَتَيْتُ هَذَا الْحَائِطَ، فَاحْتَفَزْتُ كَمَا يَحْتَفِزُ الثَّعْلَبُ، وَهَؤُلَاءِ النَّاسُ وَرَائِي، فَقَالَ: «يَا أَبَا هُرَيْرَةَ» وَأَعْطَانِي نَعْلَيْهِ، قَالَ: «اذْهَبْ بِنَعْلَيَّ هَاتَيْنِ، فَمَنْ لَقِيتَ مِنْ وَرَاءِ هَذَا الْحَائِطَ يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُسْتَيْقِنًا بِهَا قَلْبُهُ، فَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ»، فَكَانَ أَوَّلَ مَنْ لَقِيتُ عُمَرُ، فَقَالَ: مَا هَاتَانِ النَّعْلَانِ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ؟ فَقُلْتُ: هَاتَانِ نَعْلَا رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بَعَثَنِي بِهِمَا مَنْ لَقِيتُ يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُسْتَيْقِنًا بِهَا قَلْبُهُ، بَشَّرْتُهُ بِالْجَنَّةِ، فَضَرَبَ عُمَرُ بِيَدِهِ بَيْنَ ثَدْيَيَّ فَخَرَرْتُ لِاسْتِي، فَقَالَ: ارْجِعْ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ، فَرَجَعْتُ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَجْهَشْتُ بُكَاءً، وَرَكِبَنِي عُمَرُ، فَإِذَا هُوَ عَلَى أَثَرِي، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا لَكَ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ؟» قُلْتُ: لَقِيتُ عُمَرَ، فَأَخْبَرْتُهُ بِالَّذِي بَعَثْتَنِي بِهِ، فَضَرَبَ بَيْنَ ثَدْيَيَّ ضَرْبَةً خَرَرْتُ لِاسْتِي، قَالَ: ارْجِعْ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَا عُمَرُ، مَا حَمَلَكَ عَلَى مَا فَعَلْتَ؟» قَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ، بِأَبِي أَنْتَ، وَأُمِّي، أَبَعَثْتَ أَبَا هُرَيْرَةَ بِنَعْلَيْكَ، مَنْ لَقِيَ يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُسْتَيْقِنًا بِهَا قَلْبُهُ بَشَّرَهُ بِالْجَنَّةِ؟ قَالَ: «نَعَمْ»، قَالَ: فَلَا تَفْعَلْ، فَإِنِّي أَخْشَى أَنْ يَتَّكِلَ النَّاسُ عَلَيْهَا، فَخَلِّهِمْ يَعْمَلُونَ، قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «فَخَلِّهِمْ» (رواه مسلم)

তাহকীক:
হাদীস নং: ১৯
کتاب الایمان
سچا ایمان و اسلام نجات کی ضمانت ہے
حضرت انسؓ سے مروی ہے ، کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : “دوزخ میں سے وہ سب لوگ نکال لئے جائیں گے جنہوں نے “لا الہ الا اللہ” کہا ، اور ان کے دل میں جَو کے دانے کے برابر بھی بھلائی تھی ، پھر وہ لوگ بھی نکال لئے جائیں گے جنہوں نے “لا الہ الا اللہ” کہا اور ان کے دل میں گیہوں کے دانے برابر بھی بھلائی تھی اور اس کے بعد وہ لوگ بھی نکلا لئے جائیں گے جنہوں نے “لا الہ الا اللہ” کہا ، اور ان کے دل میں ذرہ برابر بھی بھلائی تھی”۔
تشریح
کے علاوہ حضرت ابو بکرؓ اور حضرت ابو موسیٰ وغیرہ متعدد صحابہ کرامؓ سے روایت کیا گیا ہے ، بہر حال فنِ حدیث کی معرفت اوعر علوم حدیث میں بصیرت رکھنے والوں کے نزدیک یہ مضمون آنحضرتﷺ سے تواتر کے ساتھ ثابت ہے ، بلکہ صحیحین میں حضرت ابو سعید حدریؓ کی جو مفصل روایت ہے ، اُس میں صراحت کے ساتھ یہ بھی مذکور ہے کہ جو گنہگار مسلمان دوزخ میں دالے جائیں گے ، اُن کے حق میں نجات یافتہ مومنین اللہ تعالیٰ سے بڑے الحاح کے ساتھ عفو درگزر اور بخشش و کرم کی استدعا کریں گے ۔ اور اللہ تعالیٰ اُن کی اس اتدعا و التجا کو قبول فرما کر اُنہی کو اجازت دیدیں گے ، کہ جاؤ جس میں ایک دینار برابر بھی خیر تمہیں نظر آئے اس کو نکال لو ، چنانچہ ایک بہت کثیر تعداد ایسے لوگوں کی بھی نکال لی جائے گی ، پھر ان کو اجازت دی جائے گی کہ جاؤ ایسے لوگوں کو بھی نکال لو جن میں نصف دینار کے برابر خیر بھی تمہیں نظر آئے چنانچہ ایک بہت بڑی تعداد ایسے لوگوں کی بھی نکال لی جائے گی ، پھر حکم ہو گا کہ جاؤ ایسے لوگوں کو بھی نکال لو جن کے اندر ذرہ برابر خیر بھی تمہیں نظر آئے ، چنانچہ بہت بڑی تعداد اس درجے لوگوں کی بھی نکال لی جائے گی ، اور اس کے بعد یہ سفارش کرنے والے خود عرض کریں گے : رَبَّنَا لَمْ نَذَرْ فِيْهَا خَيْرًا (خدا وند! اب دوزخ میں ہم نے کچھ بھی خیر رکھنے والا کوئی آدمی نہیں چھوڑا ہے) ۔۔۔ اس کے بعد حق تعالیٰ کا ارشاد ہو گا :۔
“شَفَعَتِ الْمَلٰئِكَةُ وَشَفَعَ النَّبِيُّوْنَ وَلَمْ يَبْقَ اِلَّا اَرْحَمُ الرَّاحِمِيْنَ فَيَقْبِضُ قَبْضَةً فَيُخْرِجُ مِنْهَا قَوْمًا لَمْ يَعْمَلُوْا خَيْرًا قَطُّ”
(فرشتوں کی بھی سفارش ہو چکی ، اور نبیوں کی بھی سفارش ہو چکی ، اور مومنین کی بھی سفارش ہو چکی اور ان کی سفارشیں بھی قبول کی جا چکیں ، اور اب بس ارحم الراحمین ہی کی باری رہ گئی ہے ، پھر اللہ تعالیٰ خود اپنی مغفرت و رحمت کے ہاتھ سے ایسے لوگوں کو بھی دوزخ سے نکالیں گے ، جنہوں نے کبھی کوئی نیک عمل کیا ہی نہ ہو گا) ۔
آگے حضرت ابو سعیدؓ کی اسی حدیث کے آخر میں ان لوگوں کے متعلق یہ بھی ہے کہ :
هَؤُلَاءِ عُتَقَاءُ اللَّهِ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنَ النَّارِ بِغَيْرِ عَمَلٍ عَمِلُوهُ وَلَا خَيْرٍ قَدَّمُوهُ
(یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے چھوڑے ہوئے ہوں گے اللہ اُن کو جنت میں داخل کرے گا بغیر عمل کے ، جو انہوں نے کیا ہو ، اور بغیر خیر کے جو انہوں نے پیش کیا ہو) ۔
گویا یہ وہ لوگ ہوں گے جن کے پاس بہت ہی ضعیف اور نہایت ہی خفی ایمان کے سوا عملِ صالح اور خیر کا کوئی سرمایہ بالکل نہ ہو گا ، مگر اللہ تعالیٰ بالآخر اُن کو بھی اپنے رحم و کرم سے دوزخ سے نکال کر جنت میں داخل کر دیں گے ۔
اس مسئلہ میں اسلام کی ابتدائی صدیوں میں مرجیہ اور خوارج نے افراط اور تفریط کی راہ اختیار کی تھی ، اور آج کل بھی بعض حلقوں کا رجحان افراط کی طرف اور بعض کا تفریط کی طرف ہو رہا ہے۔ اس لیے ہم نے حدیث کی نفسِ تشریح سے زیادہ چند سطریں لکھنی ضروری سمجھیں ۔
وَاللَّهُ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ
تشریح
کے علاوہ حضرت ابو بکرؓ اور حضرت ابو موسیٰ وغیرہ متعدد صحابہ کرامؓ سے روایت کیا گیا ہے ، بہر حال فنِ حدیث کی معرفت اوعر علوم حدیث میں بصیرت رکھنے والوں کے نزدیک یہ مضمون آنحضرتﷺ سے تواتر کے ساتھ ثابت ہے ، بلکہ صحیحین میں حضرت ابو سعید حدریؓ کی جو مفصل روایت ہے ، اُس میں صراحت کے ساتھ یہ بھی مذکور ہے کہ جو گنہگار مسلمان دوزخ میں دالے جائیں گے ، اُن کے حق میں نجات یافتہ مومنین اللہ تعالیٰ سے بڑے الحاح کے ساتھ عفو درگزر اور بخشش و کرم کی استدعا کریں گے ۔ اور اللہ تعالیٰ اُن کی اس اتدعا و التجا کو قبول فرما کر اُنہی کو اجازت دیدیں گے ، کہ جاؤ جس میں ایک دینار برابر بھی خیر تمہیں نظر آئے اس کو نکال لو ، چنانچہ ایک بہت کثیر تعداد ایسے لوگوں کی بھی نکال لی جائے گی ، پھر ان کو اجازت دی جائے گی کہ جاؤ ایسے لوگوں کو بھی نکال لو جن میں نصف دینار کے برابر خیر بھی تمہیں نظر آئے چنانچہ ایک بہت بڑی تعداد ایسے لوگوں کی بھی نکال لی جائے گی ، پھر حکم ہو گا کہ جاؤ ایسے لوگوں کو بھی نکال لو جن کے اندر ذرہ برابر خیر بھی تمہیں نظر آئے ، چنانچہ بہت بڑی تعداد اس درجے لوگوں کی بھی نکال لی جائے گی ، اور اس کے بعد یہ سفارش کرنے والے خود عرض کریں گے : رَبَّنَا لَمْ نَذَرْ فِيْهَا خَيْرًا (خدا وند! اب دوزخ میں ہم نے کچھ بھی خیر رکھنے والا کوئی آدمی نہیں چھوڑا ہے) ۔۔۔ اس کے بعد حق تعالیٰ کا ارشاد ہو گا :۔
“شَفَعَتِ الْمَلٰئِكَةُ وَشَفَعَ النَّبِيُّوْنَ وَلَمْ يَبْقَ اِلَّا اَرْحَمُ الرَّاحِمِيْنَ فَيَقْبِضُ قَبْضَةً فَيُخْرِجُ مِنْهَا قَوْمًا لَمْ يَعْمَلُوْا خَيْرًا قَطُّ”
(فرشتوں کی بھی سفارش ہو چکی ، اور نبیوں کی بھی سفارش ہو چکی ، اور مومنین کی بھی سفارش ہو چکی اور ان کی سفارشیں بھی قبول کی جا چکیں ، اور اب بس ارحم الراحمین ہی کی باری رہ گئی ہے ، پھر اللہ تعالیٰ خود اپنی مغفرت و رحمت کے ہاتھ سے ایسے لوگوں کو بھی دوزخ سے نکالیں گے ، جنہوں نے کبھی کوئی نیک عمل کیا ہی نہ ہو گا) ۔
آگے حضرت ابو سعیدؓ کی اسی حدیث کے آخر میں ان لوگوں کے متعلق یہ بھی ہے کہ :
هَؤُلَاءِ عُتَقَاءُ اللَّهِ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنَ النَّارِ بِغَيْرِ عَمَلٍ عَمِلُوهُ وَلَا خَيْرٍ قَدَّمُوهُ
(یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے چھوڑے ہوئے ہوں گے اللہ اُن کو جنت میں داخل کرے گا بغیر عمل کے ، جو انہوں نے کیا ہو ، اور بغیر خیر کے جو انہوں نے پیش کیا ہو) ۔
گویا یہ وہ لوگ ہوں گے جن کے پاس بہت ہی ضعیف اور نہایت ہی خفی ایمان کے سوا عملِ صالح اور خیر کا کوئی سرمایہ بالکل نہ ہو گا ، مگر اللہ تعالیٰ بالآخر اُن کو بھی اپنے رحم و کرم سے دوزخ سے نکال کر جنت میں داخل کر دیں گے ۔
اس مسئلہ میں اسلام کی ابتدائی صدیوں میں مرجیہ اور خوارج نے افراط اور تفریط کی راہ اختیار کی تھی ، اور آج کل بھی بعض حلقوں کا رجحان افراط کی طرف اور بعض کا تفریط کی طرف ہو رہا ہے۔ اس لیے ہم نے حدیث کی نفسِ تشریح سے زیادہ چند سطریں لکھنی ضروری سمجھیں ۔
وَاللَّهُ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ
عَنْ أَنَسٍ ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " يَخْرُجُ مِنَ النَّارِ مِنْ قَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَكَانَ فِي قَلْبِهِ مِنَ الْخَيْرِ مَا يَزِنُ شَعِيرَةً، ثُمَّ يَخْرُجُ مِنَ النَّارِ مِنْ قَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَكَانَ فِي قَلْبِهِ مِنَ الْخَيْرِ مَا يَزِنُ بُرَّةً، ثُمَّ يَخْرُجُ مِنَ النَّارِ مِنْ قَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَكَانَ فِي قَلْبِهِ مِنَ الْخَيْرِ مَا يَزِنُ ذَرَّةً (رواه البخارى ومسلم واللفظ له)

তাহকীক:
হাদীস নং: ২০
کتاب الایمان
اسلام لانے سے پچھلے سب گناہ معاف ہو جاتے ہیں
حضرت عمرو بن العاضؓ سے مروی ہے ، کہ جب اللہ تعالیٰ نے اسلام لانے کا خیال میرے دل میں ڈالا ، تو میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا ، اور میں نے عرض کیا ، اپنا ہاتھ بڑھائیے تا کہ میں آپ سے بیعت کروں ، پس آپ نے اپنا داہنا ہاتھ آگے کر دیا ، پس میں نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا ، تو آپ نے فرمایا : عمرو! تمہیں کیا ہوا ؟ (یعنی تم نے اپنا ہاتھ کیوں کھینچ لیا؟) میں نے عرض کیا : میں ایک شرط لگانا چاہتا ہوں ، آپ نے فرمایا : تم کیا شرط لگانا چاہتے ہو ؟ میں نے عرض کیا : یہ کہ میری خطائیں بخش دی جائیں ۔ آپ نے ارشاد فرمایا : اے عمرو! کیا تمہیں معلوم نہیں ہے ، کہ اسلام قبول کرنا پہلے سب گناہوں کو ڈھا دیتا ہے ، اور ہجرت بھی پہلے گناہوں کو ختم کر دیتی ہے اور حج بھی پہلے گناہوں کو زائل کر دیتا ہے ۔
تشریح
آنحضرتﷺ نے گناہوں کی مغفرت کے بارے میں اسلام کے علاوہ ہجرت اور حج کی تاثیر کا ذکر اس موقع پر یہ ظاہر کرنے کے لیے فرمایا کہ اسلام تو اسلام ، اس کے بعض اعمال میں بھی گناہوں سے پاک صاف کر دینے کی خاصیت ہے ۔۔۔ لیکن دو باتیں یہاں خاص طور قابلِ لحاظ ہیں ، ایک یہ کہ اسلام لانے اور ہجرت یا حج کرنے کی یہ تاثیر اس صورت میں ہے جبکہ یہ کام صدقِ نیت اور اخلاص کے ساتھ کئے جائیں ، دوسرے یہ کہ دلائلِ شرعیہ سے یہ بات اپنی جگہ ثابت شدہ ہے ، کہ اگر کسی کے ذمے اللہ کے بندوں کے حقوق ہیں ، خصوصاً مالی حقوق تو اسلام یا ہجرت یا حج سے وہ معاف نہیں ہوتے ، اُن کا معاملہ حقداروں ہی سے صاف کرنا ضروری ہے ۔
کفر و شرک کی زندگی سے تائب ہو کر اسلام قبول کرنے والوں کے پچھلے گناہوں کی معافی کا وعدہ قرآن مجید میں بھی کیا گیا ہے ، ارشاد ہے :
قُلْ لِّلَّذِيْنَ كَفَرُوْۤا اِنْ يَّنْتَهُوْا يُغْفَرْ لَهُمْ مَّا قَدْ سَلَفَ
اے رسول ! اُن لوگوں سے کہہ دیجئے جنہوں نے کفر کا ارتکاب کیا ، کہ اگر وہ باز آ جائیں ، تو اُن کے پچھلے گناہ بخش دئیے جائیں گے ۔
تشریح
آنحضرتﷺ نے گناہوں کی مغفرت کے بارے میں اسلام کے علاوہ ہجرت اور حج کی تاثیر کا ذکر اس موقع پر یہ ظاہر کرنے کے لیے فرمایا کہ اسلام تو اسلام ، اس کے بعض اعمال میں بھی گناہوں سے پاک صاف کر دینے کی خاصیت ہے ۔۔۔ لیکن دو باتیں یہاں خاص طور قابلِ لحاظ ہیں ، ایک یہ کہ اسلام لانے اور ہجرت یا حج کرنے کی یہ تاثیر اس صورت میں ہے جبکہ یہ کام صدقِ نیت اور اخلاص کے ساتھ کئے جائیں ، دوسرے یہ کہ دلائلِ شرعیہ سے یہ بات اپنی جگہ ثابت شدہ ہے ، کہ اگر کسی کے ذمے اللہ کے بندوں کے حقوق ہیں ، خصوصاً مالی حقوق تو اسلام یا ہجرت یا حج سے وہ معاف نہیں ہوتے ، اُن کا معاملہ حقداروں ہی سے صاف کرنا ضروری ہے ۔
کفر و شرک کی زندگی سے تائب ہو کر اسلام قبول کرنے والوں کے پچھلے گناہوں کی معافی کا وعدہ قرآن مجید میں بھی کیا گیا ہے ، ارشاد ہے :
قُلْ لِّلَّذِيْنَ كَفَرُوْۤا اِنْ يَّنْتَهُوْا يُغْفَرْ لَهُمْ مَّا قَدْ سَلَفَ
اے رسول ! اُن لوگوں سے کہہ دیجئے جنہوں نے کفر کا ارتکاب کیا ، کہ اگر وہ باز آ جائیں ، تو اُن کے پچھلے گناہ بخش دئیے جائیں گے ۔
عَنْ عَمْرِو بْنَ الْعَاصِ قَالَ لَمَّا جَعَلَ اللهُ الْإِسْلَامَ فِي قَلْبِي أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: ابْسُطْ يَمِينَكَ فَلْأُبَايِعْكَ، فَبَسَطَ يَمِينَهُ، قَالَ: فَقَبَضْتُ يَدِي، قَالَ: «مَا لَكَ يَا عَمْرُو؟» قَالَ: قُلْتُ: أَرَدْتُ أَنْ أَشْتَرِطَ، قَالَ: «تَشْتَرِطُ بِمَاذَا؟» قُلْتُ: أَنْ يُغْفَرَ لِي، قَالَ: «أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ الْإِسْلَامَ يَهْدِمُ مَا كَانَ قَبْلَهُ؟ وَأَنَّ الْهِجْرَةَ تَهْدِمُ مَا كَانَ قَبْلَهَا؟ وَأَنَّ الْحَجَّ يَهْدِمُ مَا كَانَ قَبْلَهُ؟» (رواه مسلم)

তাহকীক: