মা'আরিফুল হাদীস (উর্দু)

معارف الحديث

کتاب الرقاق - এর পরিচ্ছেদসমূহ

মোট হাদীস ২০ টি

হাদীস নং: ১৪১
کتاب الرقاق
اگر عالم غیب ہم پر منکشف ہو جائے تو ہمارا کیا حال ہو
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، سیدنا ابو القاسم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : قسم اُس ذات ، پاک کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے ، اگر (اللہ کے قہر و جلال اور قیامت و آخرت کے لرزہ خیز ہولناک احوال کے متعلق) تمہیں وہ سب معلوم ہو جائے ، جو مجھے معلوم ہے ، تو تہمارا ہنسنا بہت کم ہو جائے ، اور رونا بہت بڑھ جائے ۔ (بخاری)

تشریح
مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی شانِ بے نیازی ، اور اس کے قہر و جلال ، اور قیامت و آخرت کے ہولناک لرزہ خیز احوال کے متعلق جو کچھ مجھے معلوم ہے ، اور اللہ تعالیٰ نے جو کچھ مجھ پر منکشف کر دیا ہے ، اگر تم کو بھی اس کا پورا علم ہو جائے ، اور تمہاری آنکھوں کو بھی وہ سب نظر آنے لگے جو میں دیکھتا ہوں ، اور تمہارے کان بھی وہ سب کچھ سننے لگیں جو میں سنتا ہوں ، تو تمہارا چین و سکون ختم ہو جائے ، تم بہت کم ہنسو اور بہت زیادہ رؤں ۔ اس کی مزید تفصیل حضرت ابوذر غفاریؓ کی اگلی حدیث سے معلوم ہوگی ۔

حدیث کی کتابوں میں جس طرح کتاب الایمان ، کتاب الصلوٰۃ ، کتاب الزکوٰۃ ، کتاب النکاح ، کتاب البیوع وغیرہ عنوانات ہوتے ہیں ، جن کے تحت ان ابواب کی حدیثیں درج کی جاتی ہیں ، اسی طرح ایک عنوان “ کتاب الرقاق ” کا ہوتا ہے ، جس کے ذیل میں وہ حدیثیں درج کی جاتی ہیں جن سے دل میں رقّت اور گداز کی کیفیت پیدا ہو ، دنیا سے وابستگی کم ہو ، اور آخرت کی فکر بڑھے ، اور آدمی اللہ تعالیٰ کی رضا اور اخروی فلاح کو اپنی زندگی کا نصب العین بنائے ، اس کے علاوہ اسی عنوان کے تحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مؤثر خطبات و نصائح اور مواعظ بھی درج کئے جاتے ہیں ۔
یہ واقعہ ہے کہ حدیث کے ذخیرے میں سب سے زیادہ مؤثر اور زندگی کے رُخ کو بدلنے کی سب سے زیادہ طاقت رکھنے والا حصہ یہی ہوتا ہے ، جو کُتبِ حدیث میں “ کتاب الرقاق ” کے زیرِ عنوان درج ہوتا ہے ، اس لئے اس کی خاص اہمیت ہے ، اور کہا جا سکتا ہے کہ حقیقی اسلامی تصوف کی یہی اساس و بنیا ہے ۔
ہم اس سلسلہ کو اُن حدیثوں سے شروع کرتے ہیں جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خدا کا خوف و خشیت اور آخرت کی فکر دلوں میں پیدا کرنے کی کوشش فرمائی ہے ، یا کسی عنوان سے اس کی فضیلت اور اہمیت بیان فرمائی ہے ۔
دعا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ان ارشادات کے جو اثرات اُن خوش نصیب اہلِ ایمان کے قلوب پر پڑتے تھے جنہوں نے سب سے پہلے خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ مبارک سے یہ ارشادات سُنے تھے ، اللہ تعالیٰ ان کا کوئی ذرہ ہم کو بھی نصیب فرمائے ۔
خدا کا خوف اور فکر آخرت
ایمان کے بعد انسان کی زندگی کو سنوارنے اور فلاح کے مقام تک اُس کو پہنچانے میں چونکہ سب سے بڑا دخل اللہ تعالیٰ کے خوف و خشیت اور آخرت کی فکر کو ہے ، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انی امت میں ان دو چیزوں کے پیدا کرنے کی خاص کوشش فرمائی ، کبھی اِس خوف و فکر کے فوائد اور فضائل بیان فرماتے ، اور کبھی اللہ تعالیٰ کے قہر و جلال اور آخرت کے ان سخت احوال کو یاد دلاتے ، جن کی یاد سے دلوں میں یہ دونوں کیفیتیں پیدا ہوتی ہیں ۔ آپ کے مشہور صحابی حضرت حنظلہ ابن الربیع کی حدیث جو چند صفحات کے بعد آپ پڑھیں گے ، اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجالس کا خاص موضوع گویا یہی تھا ، اور صحابہ کرام جب آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے ، اور آخرت اور دوزخ و جنت کے متعلق آپ کے ارشادات سنتے تھے ، تو اُن کا حال یہ ہو جاتا تھا کہ دوزخ و جنت گویا اُن کی آنکھوں کے سامنے ہیں ۔ حدیث کے صرف موجودہ ذخیرے ہی سے اگر ایسی جمع کی جائیں ، جن کا مقصد خدا کا خوف اور آخرت کی فکر پیدا کرنا ہے ، تو بلا شبہ ایک پوری کتاب صرف ان ہی حدیثوں سے تیار ہو سکتی ہے ۔ یہاں صرف چند ہی حدیثیں اس سلسلہ کی درج کی جاتی ہیں ۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ : قَالَ أَبُو القَاسِمِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : « وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ ، لَوْ تَعْلَمُونَ مَا أَعْلَمُ ، لَبَكَيْتُمْ كَثِيرًا وَلَضَحِكْتُمْ قَلِيلًا » (رواه البخارى)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৪২
کتاب الرقاق
اگر عالم غیب ہم پر منکشف ہو جائے تو ہمارا کیا حال ہو
حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : میں علمِ غیب کی وہ چیزیں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے اور وہ آوازیں سنتا ہوں جو تم نہیں سنتے ، آسمان چرچرا رہا ہے ، اور حق ہے کہ وہ چرچرائے ۔ قسم ہے اُس ربِّ ذوالجلال کی ، جس کے قبضہ میں میری جان ہے ، آسمان میں چار انگل جگہ بھی نہیں ہے ، جہاں کوئی نہ کوئی فرشتہ اللہ کے حضور میں اپنا ماتھا رکھے سجدے میں نہ پڑا ہو ، اگر تم وہ باتیں جانتے ، جو میں جانتا ہوں ، تو تم بہت کم ہنستے اور بہت زیادہ روتے ، اور بستروں پر بیویوں سے بھی لطف اندوز نہ ہو سکتے ، اور اللہ سے نالہ و فریاد اور گریہ و زاری کرتے ہوئے بیابانوں اور جنگلوں کی طرف نکل جاتے ۔ (اس حدیث کو نقل کر کے) ابوذرؓ فرماتے ہیں کاش ! میں ایک درخت ہوتا ، جو کاٹ دیا جاتا ۔ (مسند احمد ، جامع ترمذی ، سنن ابن ماجہ)

تشریح
اس سلسلہ کی پہلی جلد (کتاب الایمان) میں جیسا کہ تفصیل سے بیان ہو چکا ہے خدا کے پیغمبر کا اصل کام اور مقام یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ جو غیبی حقائق اُس پر منکشف فرمائے ، اور جن احکام کی اس کی طرف وضی کی جائے ، وہ اللہ کے دوسرے بندوں کو پہنچائے ، اور اس پر ایمان لانے والے اُس کے امتیوں کا مقام اور کام یہ ہے کہ اُس پیغمبر کے اعتماد و اعتبار پر اُن سب باتوں کو وہ حق جانیں ، مانیں اور ان ہی حقائق کو اپنی زندگی کی بنیاد بنائیں ۔ اللہ تعالیٰ نے عام انسانوں کو علم کے جو ذروائع ، عقل و حواس وغیرہ عطا فرمائے ، ان کی دسترس صرف اسی عالمِ شہود تک محدود ہے ، عالمِ غیب تک اُن کی رسائی نہیں ہے ، اس لئے غیبی حقائق کی دریافت اور ان کے بارے میں علم و یقین حاصل کرنے کی راہ ہمارے لئے یہی ہے کہ اللہ کے پیغمبروں کے سماع و مشاہدہ اور اُن کی خبر پر ہم اعتماد کریں ، اور یقین لائیں اسی نام ایمان ہے ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں عالمِ غیب کے اپنے اس ہیبت ناک انکشاف کا ذکر فرمایا ہے ، کہ اللہ کے جلال اور فرشتوں کی کثرت سے آسمان چرچرا رہا ہے ، اور چار انگل بھر جگہ بھی اُس میں ایسی نہیں ہے جہاں کوئی فرشتہ سر بسجود نہ ہو ۔ اللهُ اَكْبَرُ ! اَللهُ اَعْظَمُ !! اَللهُ اَجَلُّ !!! ۔ آگے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : اگر میری طرح تم بھی وہ سب کچھ جان لو ، جو میں جانتقا ہوں ، ا ور جو دیکھتا سنتا ہوں ، تو تم اس دنیا میں اس طرح ہنسی خوشی نہ رہ سکو ، بستروں پر بیویوں سے لطف اندوزی کا بھی تم کو ہوش نہ رہے ، اور گھروں سے نکل کر جنگلوں میں اللہ کے سامنے نالہ و فریاد اور گریہ و زاری کرتے پھرو ۔ حدیث کے راوی حضرت ابوذر غفاریؓ پر اس حدیث کا اتنا اثر پڑا تھا کہ بعض اوقات اس حدیث کے بیان کرنے کے ساتھ ان کے دل کی یہ آواز زبان سے نکل جاتی تھی ، کہ : اے کاش ! میں ایک درخت ہوتا ، جس کو جڑ سے کاٹ ڈالا جاتا ، اور پھر آخرت میں حساب کے لئے میری پیشہ نہ ہوتی ۔
ف ۔ ۔ ۔ اللہ تعالیٰ کو انسانوں سے چونکہ خلافتِ ارضی کا کام لینا ہے ، اور وہ جب ہی ممکن ہے کہ انسان اس دنیا میں اطمینان اور سکون کے ساتھ رہ سکے ، اس لئے وہ حقیقتیں اور وہ چیزیں عام انسانوں سے پردہ غیب میں رکھی گئی ہیں جن کے انکشاف کے بعد آدمی اس دنیا میں سکون سے نہیں رہ سکتا ، مثلاً قبر کا یا دوزخ کا عذاب ، اور اسی طرح قیامت کے لرزہ خیز مناظر اگر اس دنیا میں ہم جیسے انسانوں پر منکشف کر دئیے جائیں ، اور ہم لوگ ان کو برأی العین دیکھ سکیں ، تو پھر اس دنیا میں ہم کوئی کام نہیں کر سکتے ، بلکہ زیادہ دنوں تک زندہ بھی نہیں رہ سکتے ، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اللہ تعالیٰ کو جو خاص کام لینا تھا ، اس کے لئے ضروری رتھا کہ آپ پر ان چیزوں کا انکشاف کر دیا جائے ، اور ایک درجہ پر ان حقائق کا مشاہدہ آپ کو کرا دیا جائے ، تا کہ آپ کے اندر وہ عین الیقین اور حق الیقین پیدا ہو جائے ، جس کی آپ کے منصبِ عالی اور کارِ عظیم کے لئے ضرورت تھی ، اس لئے اس قسم کے بہت سے غیبی حقائق آپ پر منکشف کئے گئے ، اور اسی کے ساتھ حکمتِ خداوندی نے آپ کے قلبِ مبارک کو وہ غیر معمولی طاقت بھی بخشی ، کہ اس انکشاف اور مشاہدہ کے باوجود آپ اپنے تمام فرائضِ منصبی کو بحسن و خوبی انجام دے سکیں ، اور دنیا میں ایسی جامع اور معتدل زندگی گزار سکیں ، جو قیامت تک پیدا ہونے والے ہر قسم اور ہر طبقے کے انسانوں کے لئے نمونہ بن سکے ۔ صلی اللہ علیہ وسلم ۔
عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : « إِنِّي أَرَى مَا لَا تَرَوْنَ ، وَأَسْمَعُ مَا لَا تَسْمَعُونَ ، إِنَّ السَّمَاءَ أَطَّتْ ، وَحَقَّ لَهَا أَنْ تَئِطَّ ، مَا فِيهَا مَوْضِعُ أَرْبَعِ أَصَابِعَ إِلَّا وَمَلَكٌ وَاضِعٌ جَبْهَتَهُ سَاجِدًا لِلَّهِ ، وَاللَّهِ لَوْ تَعْلَمُونَ مَا أَعْلَمُ لَضَحِكْتُمْ قَلِيلًا ، وَلَبَكَيْتُمْ كَثِيرًا ، وَمَا تَلَذَّذْتُمْ بِالنِّسَاءِ عَلَى الْفُرُشَاتِ ، وَلَخَرَجْتُمْ إِلَى الصُّعُدَاتِ ، تَجْأَرُونَ إِلَى اللَّهِ ، وَاللَّهِ لَوَدِدْتُ أَنِّي كُنْتُ شَجَرَةً تُعْضَدُ » (رواه احمد والترمذى وابن ماجه)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৪৩
کتاب الرقاق
غفلت کو دور کرنے کے لئے موت کو زیادہ یاد کرو
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن نماز کے لئے گھر سے مسجد تشریف لائے ، تو آپ نے لوگوں کو اس حال میں دیکھا کہ گویا (وہاں مسجد ہی میں) وہ کِھل کِھلا کر ہنس رہے ہیں ، (اور یہ حالت علامت تھی غفلت کی زیادتی کی) اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ان کی اس حالت کی اصلاح کے لئے) ارشاد فرمایا : میں تمہیں بتاتا ہوں کہ اگر تم لوگ لذتوں کو توڑ دینے والی موت کو زیادہ یاد رکرو ، تو وہ تمہیں اس غفلت میں مبتلا نہ ہونے دے ، لذتوں کو توڑنے والی موت کو زیادہ یاد کرو ۔ (اس کے بعد فرمایا) حقیقت یہ ہے کہ قبر (یعنی زمین کا وہ حصہ جس کو مرنے کے بعد آدمی کا آخری ٹھکانا بننا ہے) ہر روز پکارتی ہے ۔ (ظاہر یہ ہے کہ زبانإ قال سے پکارتی ہے ، اور اس کی اس پکار کو وہی سُن سکتے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ سنانا چاہے ، اور یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ ہر روز قبر زبانِ حال سے پکارتی ہے) کہ میں مسافرت اور تنہائی کا گھر ہوں ، میں مٹی اور کیڑوں کا گھر ہوں (اور قبر کی زبان حال کی اس پکار کو تو ہر بندہ ہر وقت سن سکتا ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے زبانِ حال کی باتیں سننے والے کان عطا فرمائے ہوں) ۔ (اس کے بعد آپ نے اس کی تفصیل بیان فرمائی کہ مرنے کے بعد جب بندہ کا واسطہ اس زمین سے پڑتا ہے اور وہ اس کے سپرد ہوتا ہے ، تو ایمان و عمل کے فرق کے لحاظ سے زمین کا برتاؤ اس کے ساتھ کتنا مختلف ہوتا ہے ، چنانچہ آپ نے فرمایا) جب وہ بندہ زمینی کے سپرد کیا جاتا ہے جو حقیقی مؤمن و مسلم ہو ، تو زمین (کسی عزیز اور محترم مہمان کی طرح اس کا استقبال کرتی ہے ، اور) کہتی ہے مرحبا ! (میرا دل دیدہ و دل فرش ، راہ) خوب آئے ، اور اپنے ہی گھر آئے ، تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ جتنے لوگ میرے اوپر چلتے تھے ان میں سب سے زیادہ محبوب اور چہیتے مجھے تم ہی تھے ، اور آج جب تم میرے سپرد کر دئیے گئے ہو ، اور میرے پاس آ گئے ہو ، تو تم دیکھو گے کہ (تمہاری خدمت اور راحت رسانی کے لئے) میں تمہارے ساتھ کیا معاملہ کرتی ہوں ، پھر وہ زمین اُس بندہ مؤمن کے لئے حد نگاہ تک وسیع ہو جاتی ہے ، اور اُس کے واسطے جنت کی طرف ایک دروازہ کھول دیا جاتا ہے ۔ اور جب کوئی سخت بدکار قسم کا آدمی ، یا (آپ نے فرمایا ، کہ) ایمان نہ لانے والا آدمی زمین کے سپرد کیا جاتا ہے ، تو زمین اُس سے کہتی ہے کہ جتنے آدمی میرے اوپر چلتے پھرتے تھے تو مجھے ان سب سے زیادہ مبغوض تھا ، اور آج جب تو میرے حوالہ کر دیا گیا ہے ، اور میرے قبضے میں آگیا ہے ، تو ابھی تو دیکھے گا کہ میں تیرے ساتھ کیا کرتی ہوں ۔ آپ نے فرمایا کہ پھر وہ زمین ہر طرف سے اُس کو بھینچتی اور دباتی ہے ، یہاں تک کہ اس دباؤ سے اس کی پسلیاں ادھر اُدھر ہو جاتی ہیں ۔ ابو سعید خدریؓ کا بیان ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک ہاتھ کی انگلیوں میں دوسرے ہاتھ کی انگلیاں ڈال کر ہم کو اس کا نقشہ دکھایا ۔ اس کے بعد فرمایا “ پھر اس پر ستر اژدھے مسلط کر دئیے جاتے ہیں ، جن میں سے ایک اگر زمین میں پھنکار مارے ، تو رہتی دنیا تک وہ زمین کوئی سبزہ نہ اگا سکے ، پھر یہ اژدھے اسے برابر کاٹتے نوچتے رہیں گے ، یہاں تک کہ قیامت اور حشر کے بعد وہ حساب کے مقام تک پہنچا دیا جائے ۔ ابو سعید خدری بیان کرتے ہیں کہ اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ : اس کے سوا کچھ نہیں کہ قبر یا تو جنت کے باغیچوں میں سے ایک باغیچہ ہے ، یا دوزخ کے خندقوں میں سے ایک خندق ۔ ” (جامع ترمذی)

تشریح
قبر کے عذاب و ثواب کے متعلق پوری تفصیل سے گفتگو پہلی جلد میں کی جا چکی ہے ، اور عقل کی خامی کسے جو سوالات اور شبہات اس بارہ میں پیدا ہو سکتے ہیں ، ان کا جواب بھی وہیں دیا جا چکا ہے ، یہ بھی وہیں بتایا جا چکا ہے کہ قبر سے مراد عالمِ برزخ کا ٹھکانا ہے ، خواہ وہ اصطلاحی قبر ہو یا کچھ اور ، نیز وہیں یہ بھی بتایا جا چکا ہے کہ ثواب یا عذاب کی تفصیلات میں جہاں جہاں حدیثوں میں ستر کا ، یا اسی طرح کا کوئی دوسرا بڑا عدد آتا ہے تو اس سے مراد صرف کثرت اور بہتات بھی ہو سکتی ہے ، الغرض ان سب پہلوؤں پر تفصیل سے گفتگو پہلی جلد میں کی جا چکی ہے ، یہاں تو حدیث کی اس روح کو سمجھنا چاہئے کہ بندے کو خدا سے ، اور آخرت کے اپنے انجام سے کسی وقت بھی غافل نہ ہونا چاہئے ، اور موت اور قبر کو یاد کرنے اور یاد رکھنے کے ذریعہ غفلت کا علاج کرتے رہنا چاہئے ، اور بلا شبہ یہ تیر بہدف علاج ہے ۔ صحابہ میں جو تقویٰ ، جو خوفِ خدا اور آخرت کی جو فکر تھی ، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسی طریقِ علاج کا نتیجہ تھا ، اور آج بھی یہ اوصاف کچھ اُن ہی بندگانِ خدا میں نظر آتے ہیں ، جنہوں نے موت اور قبر کی یاد کو اپنا وظیفہ بنا رکھا ہے ۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق دے ، کہ موت اور قبر کی یاد کے ذریعہ اپنی غفلتوں کا علاج کریں ، اور خدا کے خوف اور خشیت اور آخرت کی فکر کو اپنی زندگی کی اساس بنائیں ۔
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ ، قَالَ : دَخَلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُصَلاَّهُ فَرَأَى نَاسًا كَأَنَّهُمْ يَكْتَشِرُونَ قَالَ : أَمَا إِنَّكُمْ لَوْ أَكْثَرْتُمْ ذِكْرَ هَاذِمِ اللَّذَّاتِ لَشَغَلَكُمْ عَمَّا أَرَى ، فَأَكْثِرُوا مِنْ ذِكْرِ هَاذِمِ اللَّذَّاتِ الْمَوْتِ ، فَإِنَّهُ لَمْ يَأْتِ عَلَى القَبْرِ يَوْمٌ إِلاَّ تَكَلَّمَ فِيهِ فَيَقُولُ : أَنَا بَيْتُ الغُرْبَةِ وَأَنَا بَيْتُ الوَحْدَةِ ، وَأَنَا بَيْتُ التُّرَابِ ، وَأَنَا بَيْتُ الدُّودِ ، فَإِذَا دُفِنَ العَبْدُ الْمُؤْمِنُ قَالَ لَهُ القَبْرُ : مَرْحَبًا وَأَهْلاً أَمَا إِنْ كُنْتَ لأَحَبَّ مَنْ يَمْشِي عَلَى ظَهْرِي إِلَيَّ ، فَإِذْ وُلِّيتُكَ اليَوْمَ وَصِرْتَ إِلَيَّ فَسَتَرَى صَنِيعِيَ بِكَ قَالَ : فَيَتَّسِعُ لَهُ مَدَّ بَصَرِهِ وَيُفْتَحُ لَهُ بَابٌ إِلَى الجَنَّةِ . وَإِذَا دُفِنَ العَبْدُ الفَاجِرُ أَوِ الكَافِرُ قَالَ لَهُ القَبْرُ : لاَ مَرْحَبًا وَلاَ أَهْلاً أَمَا إِنْ كُنْتَ لأَبْغَضَ مَنْ يَمْشِي عَلَى ظَهْرِي إِلَيَّ ، فَإِذْ وُلِّيتُكَ اليَوْمَ وَصِرْتَ إِلَيَّ فَسَتَرَى صَنِيعِيَ بِكَ قَالَ : فَيَلْتَئِمُ عَلَيْهِ حَتَّى تَلْتَقِيَ عَلَيْهِ وَتَخْتَلِفَ أَضْلاَعُهُ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : بِأَصَابِعِهِ ، فَأَدْخَلَ بَعْضَهَا فِي جَوْفِ بَعْضٍ قَالَ : وَيُقَيِّضُ اللَّهُ لَهُ سَبْعِينَ تِنِّينًا لَوْ أَنْ وَاحِدًا مِنْهَا نَفَخَ فِي الأَرْضِ مَا أَنْبَتَتْ شَيْئًا مَا بَقِيَتِ الدُّنْيَا فَيَنْهَشْنَهُ وَيَخْدِشْنَهُ حَتَّى يُفْضَى بِهِ إِلَى الْحِسَابِ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : إِنَّمَا القَبْرُ رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الجَنَّةِ أَوْ حُفْرَةٌ مِنْ حُفَرِ النَّارِ . (رواه الترمذى)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৪৪
کتاب الرقاق
غفلت کو دور کرنے کے لئے موت کو زیادہ یاد کرو
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ جب دو تہائی رات گذر جاتی تو آپ اٹھتے ، اور فرماتے : اے لوگو ! اللہ کو یاد کرو ، اللہ کو یاد کرو ، قریب آ گیا ہے ہلا ڈالنے والا ، قیامت کا بھونچال (یعنی نفخہ اولیٰ) اور اس کے پیچھے آ رہا ہے دوسرا (نفخہ ثانیہ) موت اُن سب احوال کو ساتھ لے کر سر پر آ چکی ہے ، جو اس کے ساتھ آتے ہین ، موت اپنے متعلقات و مضمرات کے ساتھ سر پر آ چکی ہے ۔ (ترمذی)

تشریح
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رات کے معمولات کے متعلق جو مختلف احادیث مروی ہیں ، ان سب کو پیشِ نظر رکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا اکثری معمول اور عام عادتِ مبارکہ یہ تھی کہ شروع میں قریب تہائی رات تک آپ اپنے خاص مشاغل و مصروفیات اور نمازِ عشاء وغیرہ سے فارغ ہوتے تھے ، اس کے بعد کچھ آرام فرماتے تھے ، اور پھر تہجد کے لئے اُٹھ کھڑے ہوتے تھے ، اور جب رات کا آخری تہائی حصہ رہ جاتا ، تو جیسا کہ حضرت اُبی بن کعبؓ کی اس حدیث میں ذکر کیا گیا ہے ، آپ اپنے متعلقین اور عام اہلِ ایمان کو بھی ذکر و عبادت کے لئے بیدار کر دینا چاہتے تھے ، اور نیند کی پیدا کی ہوئی غفلت کو دور کرنے کے لئے اس وقت آپ ان کو قیامت کی لرزہ خیز ہولناکیاں اور موت کی بے پناہ سختیاں یاد دلاتے تھے ۔ بلا شبہ خوابِ غفلت کو دور کرنے کے لئے اور اللہ کے بندوں میں فکر اور چونک پیدا کر کے ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ کر دینے اور اُس کی عبادت اور ذکر میں مشغول کر دینے کے لئے ، یہ نسخہ بڑا اکسیر ہے ۔ آج بھی جس شخص کو آخری رات میں تہجد کے لئے بستر سے اٹھنا مشکل ہو ، وہ اگر اس وقت موت اور قبر اور قیامت کی سختیوں کو یاد کر لیا کرے ، تو تجربہ ہے کہ نیند کا نشہ کافور ہو جاتا ہے ۔
عَنِ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ ، قَالَ : كَانَ النَّبِىُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا ذَهَبَ ثُلُثَا اللَّيْلِ قَامَ فَقَالَ : يَا أَيُّهَا النَّاسُ اذْكُرُوا اللَّهَ اذْكُرُوا اللَّهَ جَاءَتِ الرَّاجِفَةُ تَتْبَعُهَا الرَّادِفَةُ جَاءَ الْمَوْتُ بِمَا فِيهِ جَاءَ الْمَوْتُ بِمَا فِيهِ . (رواه الترمذى)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৪৫
کتاب الرقاق
خوف اور فکر والے ہی کامیاب ہونے والے ہیں
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : جو شخص ڈرتا ہے ، وہ شروع رات میں چل دیتا ہے ، اور جو شروع رات میں چل دیتا ہے ، وہ عافیت کے ساتھ اپنی منزل پر پہنچ جاتا ہے یاد رکھو ، اللہ کا سودا سستا نہیں بہت مہنگا اور بہت قیمتی ہے ، یاد رکھو اللہ کا وہ سودا جنت ہے ۔ (ترمذی)

تشریح
عرب کا عام دستور تھا کہ مسافروں کے قافلے رات کے آخری حصہ میں چلتے تھے ، اور اس وجہ سے قزاقوں اور رہزنوں کے حملے بھی عموماً سحر ہی میں ہوتے تھے ، اس کا قدرتی نتیجہ یہ تھا کہ جس مسافر یا جس قافلے کو رہزنوں کے حملے کا خوف ہوتا ، وہ بجائے آخری رات کے شروع رات میں چل دیتا ، اور اس تدبیر سے بحفاظت و عافیت اپنی منزل پر پہنچ جاتا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مثال سے سمجھایا ، کہ جس طرح رہزنوں کے حملہ سے ڈرنے والے مسافر ، اپنے آرام اور اپنی نیند کو قربان کر کے چل دیتے ہیں ، اسی طرح انجام کا فکر رکھنے والے اور دوزخ سے ڈرنے والے مسافرِ آخرت کو چاہئے کہ اپنی منزل (یعنی جنت) تک پہنچنے کے لئے اپنی راحتوں لذتوں اور خواہشوں کو قربان کرے ، اور منزلِ مقصود کی طرف تیز گامی سے چلے ۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتلایا ، کہ : بندہ اللہ تعالیٰ سے جو کچھ لینا چاہتا ہے ، وہ کوئی سستی اور کم قیمت چیز نہیں ہے کہ یوں ہی مفت دے دی جائے ، بلکہ وہ نہایت گرانقدر اور بیش قیمت چیز ہے ، جو جان و مال اور خواہشاتِ نفس کی قربانی سے ہی حاصل کی جا سکتی ہے ، اور وہ چیز جنت ہے ۔ قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے ۔ إِنَّ اللَّهَ اشْتَرَى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنْفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ الاية ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اہلِ ایمان سے اُن کے جان و مال جنت کے عوض میں خرید لئے ہیں ، وہ اپنا جان و مال اللہ کی راہ میں قربان کر دیں تو جنت کے مستحق ہوں گے ، گویا جنت وہ سودا ہے جس کی قیمت بندوں کا جان و مال ہے ۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : مَنْ خَافَ أَدْلَجَ ، وَمَنْ أَدْلَجَ بَلَغَ الْمَنْزِلَ ، أَلاَ إِنَّ سِلْعَةَ اللهِ غَالِيَةٌ ، أَلاَ إِنَّ سِلْعَةَ اللهِ الجَنَّةُ . (رواه الترمذى)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৪৬
کتاب الرقاق
موت اور آخرت کی تیاری کرنے والے ہی ہوشیار اور دور اندیش ہیں
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ : اے اللہ کے پیغمبر ! بتلائیے کہ آدمیوں میں کون زیادہ ہوشیار اور دور اندیش ہے ؟ آپ نے ارشاد فرمایا : وہ جو موت کو زیادہ یاد کرتا ہے ، اور موت کے لئے زیادہ سے زیادہ تیاری کرتا ہے جو لوگ ایسے ہیں وہی دانشمند اور ہوشیار ہیں ، انہوں نے دنیا کی عزت بھی حاصل کی ، اور آخرت کا اعزاز و اکرام بھی ۔ (معجم صغیر للطبرانی)

تشریح
جب یہ حقیقت ہے کہ اصل زندگی آخرت ہی کی زندگی ہے ، جس کے لیے کبھی فنا نہیں ، تو اس میں کیا شبہ کہ دانشمند اور دور اندیش اللہ کے وہی بندے ہیں جو ہمیشہ موت کو پیشِ نظر رکھ کر اس کی تیاری کرتے رہتے ہیں ، اور اس کے برعکس وہ لوگ بڑے ناعاقبت اندیش اور احمق ہیں جنہیں اپنے مرنے کا تو پورا یقین ہے لیکن وہ اس سے اور اس کی تیاریوں سے غافل رہ کر دنیا کی لذتوں میں مصروف اور منہمک رہتے ہیں ۔
عَنِ عَبْدُاللهِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : رَجُلٌ يَا نَبِيَّ اللَّهِ , مَنْ أَكْيَسُ النَّاسِ وَأَحْزَمُ النَّاسِ؟ قَالَ : « أَكْثَرَهُمْ ذِكْرًا لِلْمَوْتِ , وَأَشَدُّهُمُ اسْتِعْدَادًا لِلْمَوْتِ قَبْلَ نُزُولِ الْمَوْتِ , أُولَئِكَ هُمُ الْأَكْيَاسُ ذَهَبُوا بِشَرَفِ الدُّنْيَا وَكَرَامَةِ الْآخِرَةِ » (رواه الطبرانى فى معجم الصغير)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৪৭
کتاب الرقاق
موت اور آخرت کی تیاری کرنے والے ہی ہوشیار اور دور اندیش ہیں
شداد بن اوس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ہوشیار اور توانا وہ ہے جو اپنے نفس کو قابو میں رکھے ، اور موت کے بعد کے لئے (یعنی آخرت کی نجات و کامیابی کے لئے) عمل کرے ، اور نادان و ناتواں وہ ہے جو انے کو اپنی خواہشاتِ نفس کا تابع کر دے (اور بجائے احکامِ خداوندی کے اپنے نفس کے تقاضوں پر چلے) اور اللہ سے امیدیں باندھے ۔ (ترمذی ، ابن ماجہ)

تشریح
دنیا میں كَيِّس (چالاک و ہوشیار اور کامیاب) وہ سمجھا جاتا ہے ، جو دنیا کمانے میں چست و چالاک ہو ، خوب دونوں ہاتھوں سے دنیا سمیٹتا ہو ، اور جو کرنا چاہے کر سکتا ہو ، اور بے وقوف و ناتواں وہ سمجھا جاتا ہے جو دنیا کمانے میں تیز اور چالاک نہ ہو ۔ اور اہلِ دنیا جو اس دنیوی زندگی ہی کو سب کچھ سجھتے ہیں ، اُن کو ایسا ہی سمجھنا بھی چاہئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں بتلایا کہ چونکہ اصل زندگی یہ چند روزہ زندگی نہیں ہے بلکہ آخرت کی نہ ختم ہونے والی زندگی ہی اصل زندگی ہے ، اور اُس زندگی میں کامیابی اُن ہی کے لئے ہے جو اس دنیا میں اللہ کی اطاعت اور بندگی والی زندگی گزار دیں ، اس لئے درحقیقت دانشمند اور کامیاب اللہ کے وہ بندے ہیں جو آخرت کی تیاری میں لگے ہوئے ہیں ، اور جنہوں نے اپنے نفس پر قابو پا کر اس کو اللہ کا مطیع و فرمانبردار بنا رکھا ہے ۔ اور اس کے برعکس جن احمقوں کا حال یہ ہے کہ انہوں نے اپنے کو نفس کا بندہ بنا لیا ہے ، اور وہ اس دینوی زندگی میں اللہ کے احکام و اوامر کی پابندی کے بجائے اپنے نفس کے تقاضوں پر چلتے ہیں ، اور اس کے باوجود اللہ سے اچھے انجام کی امیدیں باندھتے ہیں ، وہ یقیناً بڑے نادان اور ہمیشہ ناکام رہنے والے ہیں ، خواہ دنیا کمانے میں وہ کتنے ہی چست و چالاک اور پھرتیلے نظر آتے ہوں ، لیکن فی الحقیقت وہ بڑے ناعاقبت اندیش ، کم عقلے اور ناکامیاب و نامراد ہیں ، کہ جو حقیقی اور واقعی زندگی آنے والی ہے اس کی تیاری سے غافل ہیں ، اور نفس پرستی کی زندگی گزارنے کے باوجود اللہ سے خداپرستی والے انجام کی امید رکھتے ہیں ، نادان اتنی موٹی بات نہیں سمجھتے کہ :
گندم از گندم بروید جو ز جو از مکافاتِ عمل غافل مشو
اس حدیث میں ان لوگوں کو خاص آگاہی دی گئی ہے ، جو اپنی عملی زندگی میں اللہ کے احکام اور آخرت کے انجام سے بے پروا اور بے فکر ہو کر اپنی نفسانی خواہشات کی پیروی کرتے ہیں ، اور اس کے باوجود اللہ کی رحمت اور اس کے کرم سے امیدیں رکھتے ہیں ، اور جب اللہ کا کوئی بندہ ٹوکتا ہے تو کہتے ہیں اللہ کی رحمت بڑی وسیع ہے ، اس حدیث نے بتلایا کہ ایسے لوگ دھوکے میں ہیں ، اور اُن کا انجام نامرادی ہے ۔ پس معلوم ہوا کہ رجاء یعنی اللہ سے رحمت اور کرم کی امید وہی محمود ہے جو عمل کے ساتھ ہو ، اور جو امید بے عملی اور بد عملی اور آخرت کی طرف سے بے فکری کے ساتھ ہو ، وہ رجاءِ محمود نہیں ہے بلکہ نفس شیطان کا فریب ہے ۔
عَنْ أَبِي يَعْلَى شَدَّادِ بْنِ أَوْسٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : « الْكَيِّسُ مَنْ دَانَ نَفْسَهُ ، وَعَمِلَ لِمَا بَعْدَ الْمَوْتِ ، وَالْعَاجِزُ ، مَنْ أَتْبَعَ نَفْسَهُ هَوَاهَا ، وَتَمَنَّى عَلَى اللَّهِ » (رواه الترمذى وابن ماجه)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৪৮
کتاب الرقاق
نیکی اور عبادت کر کے ڈرنے والے بندے
حضرت عاوشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قرآن مجید کی آیت “ وَالَّذِينَ يُؤْتُونَ مَا آتَوْا وَقُلُوبُهُمْ وَجِلَةٌ ” کے بارے میں دریافت کیا ، کہ : کیا یہ وہ لوگ ہیں جو شراب پیتے ہیں ، اور دوری کرتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا : اے میرے صدیق کی بیٹی ! نہیں ، بلکہ وہ اللہ کے وہ خدا ترس بندے ہیں ، جو روزے رکھتے ہیں اور نمازیں پڑھتے ہیں ، اور صدقہ و خیرات کرتے ہیں ، اور اس کے باوجود وہ اس سے ڈرتے ہیں کہ کہیں اُن کی یہ عباتیں قبول نہ کی جائیں ، یہی لوگ بھلائیوں کی طرف تیزی سے دوڑتے ہیں ۔ (ترمذی وابن ماجہ)

تشریح
سورہ مومنون کے چوتھے رکوع میں اللہ تعالیٰ نے اپنے اُن بندوں کے کچھ اوصاف بیان فرمائے ہیں ، جو بھلائی اور خوش انجامی کی طرف تیزی سے جانے والے اور سبقت کرنے والے ہیں ، اس سلسلہ میں اُن کا ایک وصف یہ بھی بیان فرمایا گیا ہے ۔ “ وَالَّذِينَ يُؤْتُونَ مَا آتَوْا وَقُلُوبُهُمْ وَجِلَةٌ ” (جس کا لفظی ترجمہ یہ ہے کہ “ وہ لوگ جو دیتے ہیں جو کچھ کہ دیتے ہیں ، اور اُن کے دل ترساں رہتے ہیں ”) ۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ نے اسی آیت کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا تھا ، کہ : کیا اس سے مُراد وہ لوگ ہیں جو شامتِ نفس سے گناہ تو کرتے ہیں ، مگر گناہوں کے بارے میں نڈر اور بے باک نہیں ہوتے بلکہ گناہگاری کے باوجود ان کے دلوں میں خدا کا خوف ہوتا ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے جواب میں ارشاد فرمایا : کہ نہیں ! اس آیت سے مُراد ایسے لوگ نہیں ہیں ، بلکہ اللہ کے وہ عبادت گزار اور اطاعت شعار بندے مراد ہیں ، جن کا حال یہ ہے کہ وہ نماز ، روزہ اور صدقہ و خیرات جیسے اعمالِ صالحہ کرتے ہیں ، اور اس کے باوجود ان کے دلوں میں اس کا خوف اور اندیشہ رہتا ہے کہ معلوم نہیں ہمارے یہ اعمال بارگاہِ خداوندی میں قبول بھی ہوں گے ، یا نہیں ۔ قرآن مجید میں ان بندوں کا یہ وصف بیان کرنے کے بعد فرمایا گیا ہے “ أُولَئِكَ يُسَارِعُونَ فِي الْخَيْرَاتِ وَهُمْ لَهَا سَابِقُونَ ” (یہی بندے حقیقی بھلائیوں اور خوش حاملیوں کی طرف تیز گام ہیں ، اور حقیقی کامیابی کی اس راہ میں آگے نکل جانے والے ہیں) ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہؓ کو جواب دیتے ہوئے اس سلسلہ کی اس آخری آیت کی طرف بھی اشارہ فرمایا ، اور بتلایا کہ دلوں کا یہی خوف اور فکر بھلائی اور خوش انجامی سے ہمکنار کرانے والا ہے ۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اللہ کی شانِ بے نیازی اور اس کا قہر و جلال اس قدر ڈرنے کے لائق ہے ، کہ بندہ بڑی سے بڑی نیکی اور عبادت کرنے کے باوجود ہرگز مطمئن نہ ہو ، اور برابر ڈرتا رہے ، کہ کہیں میرا یہ عمل کسی کھوٹ کی وجہ سے میرے مُنہ پر نہ مار دیا جائے ، کسی کے دل میں جس قدر خوف ہو گا ، اُسی قدر و خیر و فلاح کی راہ میں آگے بڑھتا رہے گا ۔
عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ : سَأَلْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ هَذِهِ الآيَةِ : {وَالَّذِينَ يُؤْتُونَ مَا آتَوْا وَقُلُوبُهُمْ وَجِلَةٌ} قَالَتْ عَائِشَةُ : أَهُمُ الَّذِينَ يَشْرَبُونَ الخَمْرَ وَيَسْرِقُونَ؟ قَالَ : لاَ يَا بِنْتَ الصِّدِّيقِ ، وَلَكِنَّهُمُ الَّذِينَ يَصُومُونَ وَيُصَلُّونَ وَيَتَصَدَّقُونَ ، وَهُمْ يَخَافُونَ أَنْ لاَ تُقْبَلَ مِنْهُمْ {أُولَئِكَ يُسَارِعُونَ فِي الْخَيْرَاتِ . (رواه الترمذى وابن ماجه)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৪৯
کتاب الرقاق
قیامت کے دن بڑے سے بڑا عبادت گزار بھی اپنی عبادت کو ہیچ سمجھے گا
عتبہ بن عبید سے روایت ہے ، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے ارشاد فرمایا : اگر کوئی شخص اپنی پیدائش کے دن سے ، موت کے دن تک برابر اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے لئے سجدہ میں پڑا رہے ، تو قیامت کے دن اپنے اس عمل کو بھی وہ حقیر سمجھے گا ۔ (مسند احمد)

تشریح
مطلب یہ ہے کہ قیامت کے دن جب انسان پر وہ حقیقتیں منکشف ہوں گی ، اور جزاو وسزا اور عذاب و ثواب کے وہ مناظر آنکھوں کے سامنے آ جائیں گے ، جو یہاں پردہ غیب میں ہیں ، تو اللہ کے وہ بندے بھی جنہوں نے اپنی زندگی کا زیادہ سے زیادہ حصہ اللہ تعالیٰ کی عبادت میں گزارا ہو گا یہی محسوس کریں گے کہ ہم نے کچھ بھی نہیں کیا ، حتی کہ اگر کوئی بندہ ایسا ہو جو پیدائش کے دن سے موت کی گھڑی تک برابر سجدہ ہی میں پڑا رہا ہو ، اُس کا احساس بھی یہی ہو گا اور وہ اپنے اس عمل کو بھی ہیچ سمجھے گا ۔
عَنْ عُتْبَةَ بْنِ عُبَيْدٍ ، رَفَعَهُ « لَوْ أَنَّ رَجُلًا يَخِرُّ عَلَى وَجْهِهِ ، مِنْ يَوْمِ وُلِدَ إِلَى يَوْمِ يَمُوتُ ، فِي مَرْضَاةِ اللَّهِ ، لَحَقَّرَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ » (رواه احمد)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৫০
کتاب الرقاق
قیامت کے دن معمولی سمجھے جانے والے گناہوں کی بھی باز پرس ہوگی
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا : اے عائشہ ! انے کو اُن گناہوں سے بچانے کی خاص طور سے کوشش اور فکر کرو ، جن کو حقیر اور معمولی سمجھا جاتا ہے ، کیوں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کی بھی باز پرس ہونے والی ہے ۔ (سنن ابن ماجہ ، مسند دارمی ، شعب الايمان للبیہقی)

تشریح
جن لوگوں کو آخرت اور حساب کتاب کی کچھ فکر ہوتی ہے ، اور جو اللہ کے عذاب اور اس کی پکڑ سے ڈرتے ہیں ، وہ کبیرہ یعنی بڑے گناہوں سے بچنے کا تو عام طور سے اہتمام کرتے ہیں ، لیکن جو گناہ ہلکے اور صغیرہ سمجھے جاتے ہیں ، ان کو خفیف اور معمولی سمجھنے کی وجہ سے اللہ کے بہت سے خدا ترس بندے بھی ان سے بچنے کی فکر زیادہ نہیں کرتے ، حالانکہ اس حیثیت سے کہ وہ گناہ ہیں ، اور ان کے کرنے میں بھی اللہ تعالیٰ کے حکم کی خلاف ورزی ہوتی ہے ، اور آخرت میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کی بھی باز پرس ہونی ہے ، ہمیں ان سے بچنے کی بھی پوری پوری فکر اور کوشش کرنی چاہئے ، اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ صدیقہؓ کو یہی نصیحت فرمائی ہے اگرچہ اس کی خاص مخاطب حضرت عائشہ صدیقہؓ ہیں لیکن درحقیقت یہ انتباہ اور یہ ہدایت و نصیحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اپنی امت کے سب مردوں اور عورتوں کے لیے ہے ، جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خاص گھر والوں کو بھی اس فکر اور احتیاط کی ضرورت ہے ، تو ہما شما کے لئے اس میں غفلت اور بے پروائی کی کیا گنجائش ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ صغیرہ گناہ اگرچہ کبیرہ کے مقابلہ میں صغیرہ ہے ، لیکن اللہ تعالیٰ کی ناراضی کا باعث ہونے کی حیثیت سے اور اس حیثیت سے کہ آخرت میں اس کی بھی باز پرس ہونے والی ہے ہرگز صغیرہ اور ہلکا نہیں ہے ، دونوں میں بس اتنا ہی فرق ہے جتنا کہ زیادہ زہریلے اور کم زہریلے سانپوں میں ہوتا ہے ، پس جس طرح کم زہر والے سانپ سے بھی ہم بچتے ہیں اور بھاگتے ہیں ، اسی طرح ہمیں صغیرہ گناہوں سے بھی اپنے کو بچانے اور محفوظ رکھنے کی پوری کوشش کرنی چاہئے ، یہی اس حدیث کا منشا اور مقصد ہے ۔
عَنْ عَائِشَةَ اَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ يَاعَائِشَةُ إِيَّاكِ وَمُحَقَّرَاتِ الذُّنُوبِ فَإِنَّ لها من الله طالبا . (رواه ابن ماجه والدارمى والبيهقى فى شعب الايمان)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৫১
کتاب الرقاق
قیامت کے دن معمولی سمجھے جانے والے گناہوں کی بھی باز پرس ہوگی
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا : اے عائشہ ! انے کو اُن گناہوں سے بچانے کی خاص طور سے کوشش اور فکر کرو ، جن کو حقیر اور معمولی سمجھا جاتا ہے ، کیوں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کی بھی باز پرس ہونے والی ہے ۔ (سنن ابن ماجہ ، مسند دارمی ، شعب الايمان للبیہقی)

تشریح
جن لوگوں کو آخرت اور حساب کتاب کی کچھ فکر ہوتی ہے ، اور جو اللہ کے عذاب اور اس کی پکڑ سے ڈرتے ہیں ، وہ کبیرہ یعنی بڑے گناہوں سے بچنے کا تو عام طور سے اہتمام کرتے ہیں ، لیکن جو گناہ ہلکے اور صغیرہ سمجھے جاتے ہیں ، ان کو خفیف اور معمولی سمجھنے کی وجہ سے اللہ کے بہت سے خدا ترس بندے بھی ان سے بچنے کی فکر زیادہ نہیں کرتے ، حالانکہ اس حیثیت سے کہ وہ گناہ ہیں ، اور ان کے کرنے میں بھی اللہ تعالیٰ کے حکم کی خلاف ورزی ہوتی ہے ، اور آخرت میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کی بھی باز پرس ہونی ہے ، ہمیں ان سے بچنے کی بھی پوری پوری فکر اور کوشش کرنی چاہئے ، اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ صدیقہؓ کو یہی نصیحت فرمائی ہے اگرچہ اس کی خاص مخاطب حضرت عائشہ صدیقہؓ ہیں لیکن درحقیقت یہ انتباہ اور یہ ہدایت و نصیحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اپنی امت کے سب مردوں اور عورتوں کے لیے ہے ، جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خاص گھر والوں کو بھی اس فکر اور احتیاط کی ضرورت ہے ، تو ہما شما کے لئے اس میں غفلت اور بے پروائی کی کیا گنجائش ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ صغیرہ گناہ اگرچہ کبیرہ کے مقابلہ میں صغیرہ ہے ، لیکن اللہ تعالیٰ کی ناراضی کا باعث ہونے کی حیثیت سے اور اس حیثیت سے کہ آخرت میں اس کی بھی باز پرس ہونے والی ہے ہرگز صغیرہ اور ہلکا نہیں ہے ، دونوں میں بس اتنا ہی فرق ہے جتنا کہ زیادہ زہریلے اور کم زہریلے سانپوں میں ہوتا ہے ، پس جس طرح کم زہر والے سانپ سے بھی ہم بچتے ہیں اور بھاگتے ہیں ، اسی طرح ہمیں صغیرہ گناہوں سے بھی اپنے کو بچانے اور محفوظ رکھنے کی پوری کوشش کرنی چاہئے ، یہی اس حدیث کا منشا اور مقصد ہے ۔
عَنْ عَائِشَةَ اَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ يَاعَائِشَةُ إِيَّاكِ وَمُحَقَّرَاتِ الذُّنُوبِ فَإِنَّ لها من الله طالبا . (رواه ابن ماجه والدارمى والبيهقى فى شعب الايمان)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৫২
کتاب الرقاق
گناہوں کے انجام کا خوف اور رحمتِ خداوندی سے اُمید
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک جوان کے پاس اس کے آخری وقت میں جب کہ وہ اس دنیا سے رخصت ہو رہا تھا ، تشریف لے گئے ، اور آپ نے اُس سے دریافت فرمایا ، کہ اس وقت تم اپنے کو کس حال میں پاتے ہو ؟ اس نے عرض کیا کہ : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) ! میرا حال یہ ہے کہ میں اللہ تعالیٰ سے رحمت کی امید بھی رکھتا ہوں ، اور اسی کے ساتھ مجھے اپنے گناہوں کی سزا اور عذاب کا ڈر بھی ہے ۔ آپ نے ارشاد فرمایا : یقین کرو جس دل میں امید اور خوف کی یہ دونوں کیفیتیں ایسے عالم میں (یعنی موت کے وقت میں) جمع ہوں ، تو اللہ تعالیٰ اس کو وہ ضرور عطا فرما دیں گے ، جس کی اس کو اللہ کی رحمت سے امید ہے ، اور اس عذاب سے اُس کو ضرور محفوظ رکھیں گے جس کا اس کے دل میں خوف و ڈر ہے ۔ (جامع ترمذی)

تشریح
بے شک اللہ کا خوف اور اس کے عذاب اور اس کی پکڑ سے ڈرنا ہی نجات کی کُنجی ہے ۔
عَنْ أَنَسٍ ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ عَلَى شَابٍّ وَهُوَ فِي الْمَوْتِ ، فَقَالَ : كَيْفَ تَجِدُكَ؟ ، قَالَ : أَرْجُو اللَّهَ يَا رَسُولَ اللهِ ، وَإِنِّي أَخَافُ ذُنُوبِي ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : لاَ يَجْتَمِعَانِ فِي قَلْبٍ فِي مِثْلِ هَذَا الْمَوْطِنِ إِلاَّ أَعْطَاهُ اللَّهُ مَا يَرْجُو مِنْهُ وَآمَنَهُ مِمَّا يَخَافُ . (رواه الترمذى)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৫৩
کتاب الرقاق
جس کے دل میں کسی موقع پر بھی اللہ کا خوف پیدا ہو ، وہ دوزخ سے نکلوا لیا جائے گا
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ قیامت کے دن (ان فرشتوں کو جو دوزخ پر مقرر ہوں گے) حکم دے گا ، کہ جس شخص نے کبھی مجھے یاد کیا ، یا کسی موقع پر جو بندہ مجھ سے ڈرا ، اُس کو دوزخ سے نکال لیا جائے ۔ (جامع ترمذی ، کتاب البعث والنشور للبیہقی)

تشریح
کتاب الایمان میں جیسا کہ تفصیل سے بتایا جا چکا ہے ، یہ بات کتاب و سنت کی تصریحات سے قطعی اور یقینی طور پر معلوم ہو چکی ہے ، کہ جو شخص کفر یا شرک کی ھالت میں اس دنیا سے جائے گا ، وہ ہمیشہ ہمیشہ دوزخ ہی میں رہے گا ، اور اُس کا کوئی عمل بھی اُس کو دوزخ سے نہ نکلوا سکے گا ، ، اس لئے حضرت انسؓ کی اس حدیث کا مطلب یہ ہوا ، کہ جو شخص دنیا سے اس حالت میں گیا ، کہ وہ کافر یا مشرک نہیں تھا ، بلکہ ایمان ان کو نصیب تھا لیکن گناہ اس کے بہت تھے اور اعمالِ صالحہ کا ذخیرہ اس کے ساتھ نہیں تھا ، بجاز اس کے کہ اس نے کبھی اللہ کو یاد کیا تھا ، یا کسی موقع پر اس کے دل میں خدا کے خوف کی کچھ کیفیت پیدا ہوئی تھی ، تو قیامت کے دن وہ اپنے قصوروں کی سزا بھگتنے کے لئے دوزخ میں ڈال تو دیا جائے گا ، لیکن پھر کسی دن کے اللہ کے ذکر اور خوف کی برکت سے اُس کو نجات مل ہی جائے گی ، اور وہ دوزخ سے نکال لیا جائے گا ۔ واللہ اعلم ۔
عَنْ أَنَسٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : يَقُولُ اللَّهُ جَلَّ ذِكْرُهُ أَخْرِجُوا مِنَ النَّارِ مَنْ ذَكَرَنِي يَوْمًا أَوْ خَافَنِي فِي مَقَامٍ . (رواه الترمذى والبيهقى فى كتاب البعث والنشور)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৫৪
کتاب الرقاق
اللہ کے خوف سے نکلنے والے آنسوؤں کی برکت
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ کے خوف اور ہیبت سے جس بندہ مومن کی آنکھوں سے کچھ آنسو نکلیں ، اگرچہ وہ مقدار میں بہت کم ، مثلاً مکھی کے سر برابر (یعنی ایک قطرہ ہی کے بقدر) ہوں ، پھر وہ آنسو بہہ کر اس کے چہرہ پر پہنچ جائیں تو اللہ تعالیٰ اس چہرہ کو آتشِ دوزخ کے لئے حرام کر دے گا ۔ (سنن ابن ماجہ)

تشریح
مطلب یہ ہے کہ جو چہرہ خوفِ خدا کے آنسوؤں سے کبھی تر ہوا ہو ، اس کو دوزخ کی آگ سے بالکل محفوظ رکھا جائے گا ، اور دوزخ کی آنچ کبھی اس کو نہ لگ سکے گی ۔ “ کتاب الایمان ” میں تفصیل سے بتایا جا چکا ہے ، کہ جن احادیث کسی خاص نیک عمل پر آتشِ دوزخ کے حرام ہو جانے کی خوشخبری دی جاتی ہے ، ان کا مطلب و مقصد عام طور سے یہ ہوتا ہے کہ اس نیک عمل کا ذاتی تقاجہ اور خاصہ یہی ہے ، اور اللہ تعالیٰ اس عمل کرنے والے کو جہنم کی آگ سے بالکل محفوظ رکھے گا ، بشرطیکہ اس شخص سے کوئی ایسا بڑا گناہ سرزد نہ ہوا ہو جس سے تقاضا اس کے برعکس جہنم میں ڈالا جانا ہو ، یا اگر کبھی ایسا گناہ اس سے ہوا ہو تو وہ اس سے تائب ہو چکا ہو ، اور اللہ تعالیٰ سے اس کی معافی مانگ چکا ہو ۔ یہ نہ سمجھا جائے ، کہ یہ محض تاویل ہے بلکہ واقعہ یہ ہے کہ ہمارے عرف اور محاورات میں بھی اس قسم کے وعدوں اور بشارتوں میں یہ شرط ہمیشہ محفوظ ہوتی ہے ۔
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : « مَا مِنْ عَبْدٍ مُؤْمِنٍ يَخْرُجُ مِنْ عَيْنَيْهِ دُمُوعٌ ، وَإِنْ كَانَ مِثْلَ رَأْسِ الذُّبَابِ ، مِنْ خَشْيَةِ اللَّهِ ، ثُمَّ تُصِيبُ شَيْئًا مِنْ حُرِّ وَجْهِهِ ، إِلَّا حَرَّمَهُ اللَّهُ عَلَى النَّارِ » (رواه ابن ماجه)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৫৫
کتاب الرقاق
اللہ کے خوف سے جسم کے رونگٹے کھڑے ہونے جانے کی سعادت
حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کے خوف اور اس کی ہیبت سے کسی بندہ کے رونگٹے کھڑے ہوتے ہیں ، تو اس وقت اس کے گناہ ایسے جھڑتے ہیں ، جیسے کہ کسی پرانے سوکھے درخت کے پتے جھڑ جاتے ہیں ۔

تشریح
خوف و خشیت اور ہیبت دراصل قلبی کیفیات ہیں ، لیکن انسان ایسا بنایا گیا ہے کہ اس کی قلبی کیفیات کا ظہور اس کے جسم پر بھی ہوتا ہے ، مثلاً جب دل میں خوشی کی کیفیت ہو تو چہرے پر بشاشت ظاہر ہوتی ہے ، اور بعض اوقات وہ اس کیفیت کے اثر سے ہنستا یا مسکراتا ہے ، اسی طرح جب دل میں حزن و غم ہو ، تو وہ بھی اس کے چہرے سے ظاہر ہوتا ہے ، اور کبھی کبھی وہ اس کے اثر سے روتا بھی ہے ، اور اس کی آنکھوں سے آنسوگرتے ہیں ، اسی طرح جب دل پر خشیت اور ہیبت کی کیفیت طاری ہو ، تو جسم پر اس کا اثر یہ ظاہر ہوتا ہے کہ سارے بدن کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں ، پس جس طرح حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کی اس سے پہلی حدیث میں اللہ کے خوف سے آنسو گرنے پر آتش دوزخ کے حرام ہو جانے کی خوشخبری اہلِ ایمان کو سنائی گئی ہے ، اسی طرح حضرت عباسؓ کیب اس حدیث میں بشارت سنائی گئی ہے کہ اللہ کی خشیت و ہیبت سے جب کسی بندہ کے بدن کے رونگٹے کھڑے ہوتے ہیں ، تو اس وقت اس کے گناہ ایسے جھڑتے ہیں جیسے خزاں کے موسم میں سوکھے درختوں کے پتے جھڑتے ہیں ۔
عَنْ الْعَبَّاسِ رَفَعَهُ « إِذَا اقْشَعَرَّ جِلْدُ [ص : 149] الْعَبْدِ مِنْ خَشْيَةِ اللَّهِ ، تَحَاتَّتْ عَنْهُ خَطَايَاهُ كَمَا تَحَاتُّ عَنِ الشَّجَرَةِ الْبَالِيَةِ وَرَقُهَا » (رواه البزار)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৫৬
کتاب الرقاق
ایک گناہگار نے خوفِ خدا سے بہت بڑی جاہلانہ غلطی کی ، اور وہ بخشا گیا
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ایک شخص نے اپنے نفس پر بڑی زیادتی کی (اور بڑا ظلم کیا ، یعنی غفلت سے اللہ کی نافرمانی والی زندگی گزارتا رہا) جب اس کی موت کا وقت آیا تو (اپنی پچھلی زندگی کو یاد کر کے اس پر اللہ کے خوف کا بہت زیادہ غلبہ ہوا ، اور آخرت کے بُرے انجام سے وہ بہت ڈرا ، یہاں تک کہ) اس نے اپنے بیٹوں کو وصیت کی ، کہ جب میں مر جاؤں ، تو تم مجھے جلا کر راکھ کر دینا ، پھر تم میری اس راکھ مین سے آدھی تو کہیں خشکی میں بکھیر دینا ، اور آدھی کہیں دریا میں بہا دینا (تا کہ میرا کہیں پتہ نشان بھی نہ رہے ، اور میں جزا سزا کے لئے دوبارہ زندہ نہ کیا جاؤں ، اس نے کہا کہ میں ایسا گناہگار ہوں ، کہ) اللہ کی قسم ! اگر خدا نے مجھے پکڑ لیا ، تو وہ مجھے ایسا سخت عذاب دے گا ، جو دنیا جہان میں کسی کو بھی نہ دے گا ۔ اس کے بعد جب وہ مر گیا ، تو اس کے بیٹوں نے اس کی وصیت پر عمل کیا (جلا کر اُس کی راکھ کو کچھ ہوا میں اڑا دیا ، اور کچھ دریا میں بہا دیا) ۔ پھر اللہ کے حکم سے خشکی اور تری سے اس کے اجزاء جمع ہوئے (اور اس کو دوبارہ زندہ گیا گیا) پھر اس سے پوچھا گیا ، تو نے ایسا کیوں کیا ؟ اس نے عرض کیا : اے میرے مالک ! تو خوب جانتا ہے کہ تیرے ڈر سے ہی میں نے ایسا کیا تھا (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ واقعہ بیان فرما کر ارشاد فرمایا کہ) اللہ تعالیٰ نے اس بندہ کی بخشش کا فیصلہ فرما دیا ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے زمانہ کے جس شخص کا یہ واقعہ ذکر فرمایا ہے ، یہ بیچارہ خدا کی شان اور اس کی صفات سے بھی ناواقف تھا ، اور اعمال بھی اچھے نہ تھے ، لیکن مرنے سے پہلے اس پر خدا کے خوف کی کیفیت اتنی غالب ہوئی کہ اس نے اپنے بیٹوں کو ایسی جاہلانہ وصیت کر دی ، اور بے چارہ سمجھا کہ میری راکھ کے اس طررح خشکی اور تَری میں منتشر ہو جانے کے بعد میرے پھر زندہ ہونے کا کوئی امکان نہیں رہے گا ۔ لیکن اس جاہلانہ غلطی کا منشا اور سبب چونکہ خدا کا خوف اور اس کے عذاب کا ڈر تھا ، اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس کو بخش دیا ۔
حدیث کے لفظ “ لَئِنْ قَدَرَ اللهُ عَلَيْهِ ” کے بارے میں شارحین نے بہت کچھ علمی موشگافیاں کی ہیں ، لیکن اس عاجز کے نزدیک سیدھی بات یہ ہے ، کہ خدا کے خوف سے ڈرے سہمے ہوئے بے چارے ایک جاہل کی یہ جاہلانہ تعبیر تھی ، اللہ تعالیٰ کے کرم نے اس کو بھی معاف کر دیا ، مطلب بے چارہ کا وہی تھا جو ترجمہ میں لکھا گیا ہے ۔ واللہ اعلم ۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ : قَالَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، : " اَسْرَفَ رَجُلٌ عَلَى نَفْسِهِ فَلَمَّا حَضَرَهُ الْمَوْتُ اَوْصَى بَيْنَهُ إِذَا مَاتَ فَحَرِّقُوهُ ، ثُمَّ اذْرُوا نِصْفَهُ فِي الْبَرِّ وَنِصْفَهُ فِي الْبَحْرِ ، فَوَاللهِ لَئِنْ قَدَرَ اللهُ عَلَيْهِ لَيُعَذِّبَنَّهُ عَذَابًا لَا يُعَذِّبُهُ أَحَدًا مِنَ الْعَالَمِينَ ، فَلَمَّا مَاتَ الرَّجُلُ فَعَلُوا مَا أَمَرَهُمْ ، فَأَمَرَ اللهُ الْبَرَّ فَجَمَعَ مَا فِيهِ ، وَأَمَرَ الْبَحْرَ فَجَمَعَ مَا فِيهِ ، ثُمَّ قَالَ : لِمَ فَعَلْتَ هَذَا؟ قَالَ : مِنْ خَشْيَتِكَ ، يَا رَبِّ وَأَنْتَ أَعْلَمُ ، فَغَفَرَ اللهُ لَهُ " (رواه البخارى ومسلم)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৫৭
کتاب الرقاق
خدا کا خوف اور تقویٰ ہی فضیلت اور قرب کا معیار ہے
حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا : تم کو اپنی ذات سے نہ کسی گورے کے مقابلہ میں بڑائی حاصل ہے نہ کسی کالے کے مقابلہ میں ۔ البتہ تقویٰ ، یعنی خوفِ خدا کی وجہ سے تم کسی کے مقابلے میں بڑے ہو سکتے ہو ۔ (مسند احمد)

تشریح
مطلب یہ ہے کہ مال و دولت ، شکل و صورت ، نسل و رنگ اور زبان و وطن جیسی کسی چیز کی وجہ سے کسی کو کسی دوسرے کے مقابلے میں کوئی فضیلت حاصل نہیں ہوتی فضیلت کا معیار بس تقویٰ ہے (یعنی خوفِ خدا اور وہ زندگی جو خدا کے خوف سے بنتی ہے) پس اس تقویٰ میں جو جتنا بڑھا ہوا ہے ، وہ اللہ کے نزدیک اتنا ہی بڑا اور بلند ہے ۔ اسی حقیقت کو قرآن مجید ان الفاظ میں بیان فرماتا ہے : إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ .
عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَهُ : « إِنَّكَ لَسْتَ بِخَيْرٍ مِنْ أَحْمَرَ وَلَا أَسْوَدَ إِلَّا أَنْ تَفْضُلَهُ بِتَقْوَى » (رواه احمد)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৫৮
کتاب الرقاق
خدا کا خوف اور تقویٰ ہی فضیلت اور قرب کا معیار ہے
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ان کو یمن کے لئے (قاضی یا عامل بنا کر) روانہ فرمایا (اور وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق وہاں کے لئے روانہ ہونے لگے) تو (ان کو رخصت کرنے کے لئے) حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی اُن کو کچھ نصیحتیں اور وصیتیں فرماتے ہوئے اُن کے ساتھ چلے ، اس وقت حضرت معاذؓ تو (حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے) اپنی سواری پر سوار تھے ، اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم خود ان کی سواری کے نیچے پیدل چل رہے تھے ۔ جب آپ ضروری نصیحتوں اور وصیتوں سے فارغ ہو چکے ، تو آخری بات آپ نے یہ فرمائی ، کہ : اے معاذ ! شاید میری زندگی کے اس سال کے بعد میری تمہاری ملاقات اب نہ ہو ۔ (گویا آپ نے ان کو اشارہ فرمایا ، کہ میری زندگی کا یہی آخری سال ہے ، اور میں عنقریب ہی اس دنیا سے دوسرے عالم کی طرف منتقل کیا جانے والا ہوں ۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا) اور شاید ایسا ہو کہ (اب جب کبھی تم یمن سے واپس آؤ ، تو بجائے مجھ سے ملنے کے اس مدینہ میں) تم میری اس مسجد اور میری قبر پہ گذرو ۔ یہ سن کر حضرت معاذؓ (حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے تصور ، اور) آپ کے فراق کے صدمہ سے رونے لگے ، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف سے منہ پھیر کے ، اور مدینہ کی طرف رخ کر کے فرمایا : مجھ سے زیادہ قریب اور مجھ سے زیادہ تعلق رکھنے والے وہ سب بندے ہیں ، جو خدا سے ڈرتے ہیں (اور تقوے والی زندگی گزارتے ہیں) وہ جو بھی ہوں ، اور جہاں کہیں بھی ہوں ۔ (مسند احمد)

تشریح
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے اس آخری حصہ کا مطلب یہ ہے کہ اصل چیز روحانی تعلق اور قرب ہے ، اور میرے ساتھ اس تعلق کا دارو مدار تقوے پر ہے ، پس اگر اللہ کا کوئی بندہ جسمانی طور پر مجھ سے کتنا ہی دور یمن میں یا دنیا کے کسی بھی حصہ میں ہو ، لیکن اس کو خوفِ خدا اور تقویٰ نصیب ہو ، تو وہ مجھ سے قریب ہے ، اور گویا میرے ساتھ ہے ، اور اس کے برعکس کوئی شخص ظاہری اور جسمانی طور پر میرے ساتھ ہو ، لیکن اس کا دل تقوے کی دولت سے خالی ہو ، تو اس ظاہری قرب کے باوجود وہ مجھ سے دور ہے ، اور میں اس سے دور ہوں ۔ آپ نے اس ارشاد کے ذریعہ حضرت معاذؓ کو تسلی دی ، کہ اس ظاہری جدائی کا غم نہ کرو ، جب خوفِ خدا اور تقویٰ تمہارے دل ، اور تمہاری روح کو نصیب ہے ، تو پھر تم یمن میں رہتے ہوئے بھی مجھ سے دور نہ ہو گے ۔ اس کے علاوہ دنیا کی یہ زندگانی تو بس چند روزہ ہے ، ہمیشہ رہنے کی جگہ تو دارِ آخرت ہے ، اور وہاں اللہ کے سارے تقویٰ والے بندے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے میرے ساتھ اور میرے قریب رہیں گے ، اور پھر اس قرب و وصال کے بعد کسی فراق کا اندیشہ نہ ہو گا ۔
اس آخری بات کے فرماتے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا رُخ غالباً اس لئے حضرت معاذؓ کی طرف سے پھیر کے مدینہ کی طرف کر لیا تھا ، کہ معاذ کے رونے سے غالباً آپ خود آبدیدہ ہو گئے تھے ، آپ نے چاہا کہ معاذؓ آپ کے بہتے ہوئے آنسو نہ دیکھ لیں ، نیز یہ بھی وجہ ہو سکتی ہے کہ اپنے ایک سچے محبت کا رونا دیکھ کر آپ کا دل دکھتا ہو ، اور اس لئے اس وقت آپ نے ان کی طرف سے منہ پھیر لیا ہو ، محبت و عقیدت کی دنیا میں اس طرح کے تجربے ہوتے ہی رہتے ہیں ۔
حضرت معاذؓ کو رخصت کرتے وقت ااپ نے اُن کو تو حکم دے کے سواری پر سوار کر دیا اور خود بات کرتے ہوئے پیدل نیچے چلتے رہے ۔ اس میں کتنا بڑا سبق ، ار کیسا نمونہ ہے ، ان سب لوگوں کے لیے جو دینی حیثیت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نائب سمجھے جاتے ہیں ۔
اللہ تعالیٰ دنیا میں اپنا خوف اور تقویٰ ہمارے دلوں کو نصیب فرما کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ روحانی قرب اور آخرت میں آپ کی وہ رفاقت نصیب فرمائے ، جس کی بشارت حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں دی ہے ۔
عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ قَالَ : لَمَّا بَعَثَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْيَمَنِ خَرَجَ مَعَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُوصِيهِ وَمُعَاذٌ رَاكِبٌ وَرَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمْشِي تَحْتَ رَاحِلَتِهِ ، فَلَمَّا فَرَغَ قَالَ : " يَا مُعَاذُ إِنَّكَ عَسَى أَنْ لَا تَلْقَانِي بَعْدَ عَامِي هَذَا وَلَعَلَّكَ أنَ تَمُرَّ بِمَسْجِدِي هَذَا ، وَقَبْرِي " . فَبَكَى مُعَاذٌ جَشَعًا لِفِرَاقِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، ثُمَّ الْتَفَتَ فَأَقْبَلَ بِوَجْهِهِ نَحْوَ الْمَدِينَةِ فَقَالَ : " إِنَّ أَوْلَى النَّاسِ بِي الْمُتَّقُونَ مَنْ كَانُوا وَحَيْثُ كَانُوا " (رواه احمد)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৫৯
کتاب الرقاق
خوف و خشیت اور فکرِ آخرت کے لحاظ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ کا حال
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : “ تم میں سے کسی کا عمل اس کو جنت میں نہ لے جا سکے گا ، اور نہ دوزخ سے بچا سکے گا ، اور میرا بھی یہی حال ہے ، مگر اللہ کی رحمت اور اس کے کرم سے ” ۔ (صحیح مسلم)

تشریح
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ، کہ میں بھی اپنے عمل اور اپنی عبادت سے نہیں ، بلکہ اللہ تعالیٰ کے رحم و کرم سے جنت میں جا سکوں گا ، آپ کے دل کی خوف و خشیت کی کیفیت کا اندازہ کرنے کے لیے کافی ہے ۔
عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : « لَا يُدْخِلُ أَحَدًا مِنْكُمْ عَمَلُهُ الْجَنَّةَ ، وَلَا يُجِيرُهُ مِنَ النَّارِ ، وَلَا أَنَا ، إِلَّا بِرَحْمَةٍ مِنَ اللهِ » (رواه مسلم)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৬০
کتاب الرقاق
خوف و خشیت اور فکرِ آخرت کے لحاظ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ کا حال
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حال یہ تھا کہ جب ہوا زیادہ تیز چلتی تو آپ کی زبان پر یہ دیا جاری ہو جاتی “ اللهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الخ ” (اے میرے اللہ ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اس ہوا کی بھلائی کا اور اس میں جو کچھ ہے اس کی بھلائی کا اور جس مقصد کے لیے یہ بھیجی گئی ہے اس کی بھلائی کا اور میں تجھ سے پناہ مانگتا ہوں اس کے شر سے ، اور اس میں جو کچھ ہے اس کے شر سے ، اور جس مقصد کے لیے یہ بھیجی گئی ہے اس کے شر سے) اور جب آسمان پر ابر آتا تو آپ کا رنگ بدل جاتا اور (اضطراب کی یہ حالت ہوتی کہ) کبھی باہر آتے ، کبھی اندر جاتے ، کبھی آگے آتے کبھی پیچھے ہٹتے ، پھر جب بارش ہو جاتی (اور خیریت سے گذر جاتی) تو یہ کیفیت آپ سے دور ہوتی ۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ نے آپ کی اس حالت اور واردات کو سمجھ لیا اور آپ سے پوچھا (کہ تیز ہوا کو اور اَبر کو دیکھ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ کیفیت کیوں ہو جاتی ہے ؟) آپ نے ارشاد فرمایا : عائشہ ! (میں ڈرتا ہوں کہ) شاید یہ ابر و باد اس طرح کا ہو جو (حضرت ہود پیغمبر کی قوم) عاد کی طرف بھیجا گیا تھا (جس کا ذکر قرآن مجید میں اس طرح کیا گیا ہے) کہ جب ان لوگوں نے اس بادل کو اپنی وادیوں کی طرف بڑھتے ہوئے دیکھا تو خوشی ظاہر کرتے ہوئے کہا یہ ابر ہمارے لئے بارش لانے والا ہے ۔ (حالانکہ وہ بارش والا ابر نہ تھا ، بلکہ آندھی کا ہلاکت خیز طوفان تھا ، جو ان کو تباہ کرنے ہی کے لیے آیا تھا) ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
حضرت عائشہؓ کی اس حدیث کا حاصل اور مقصد صرف یہی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قلبِ مبارک پر اللہ کے خوف و خشیت کا ایسا غلبہ تھا کہ ذرا ہوا تیز چلتی تو آپ گھبرا کر اللہ تعالیٰ سے اس کے خیر کے حاصل ہونے کی اور اس کے شر سے محفوظ ہرنے کی دعا کرتے اور جب آسمان پر ابر نمودار ہوتا تو اللہ کے جلال کی دہشت و ہیبت سے آپ کا یہ حال ہو جاتا کہ کبھی اندر جاتے کبھی باہر آتے کبھی آگے بڑھتے کبھی پیچھے ہٹتے اور آپ کی یہ کیفیت اس خوف اور ڈر سے ہوتی کہ کہیں بادل کی شکل میں اللہ کا ویسا عذاب نہ ہو جیسا کہ حضرت ہودؑ کی سرکش قوم عاد پر ابر ہی کی شکل میں بھیجا گیا تھا ، جسے اپنے علاقہ کی طرف بڑھتا ہوا دیکھ کر نادانی سے وہ خوش ہوئے تھے اور انہوں نے اس کو ابرِ رحمت سمجھا تھا ، حالانکہ وہ عذاب کی آندھی تھی ۔ حدیث میں آیت کے جو الفاظ نقل کئے گئے ہیں وہ ناتمام ہیں ۔ آخری حصہ یہ ہے “ بَلْ هُوَ مَا اسْتَعْجَلْتُمْ بِهِ ، رِيحٌ فِيهَا عَذَابٌ أَلِيمٌ ”
عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ : كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا عَصَفَتِ الرِّيحُ ، قَالَ : « اللهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ خَيْرَهَا ، وَخَيْرَ مَا فِيهَا ، وَخَيْرَ مَا أُرْسِلَتْ بِهِ ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّهَا ، وَشَرِّ مَا فِيهَا ، وَشَرِّ مَا أُرْسِلَتْ بِهِ » ، قَالَتْ : وَإِذَا تَخَيَّلَتِ السَّمَاءُ ، تَغَيَّرَ لَوْنُهُ ، وَخَرَجَ وَدَخَلَ ، وَأَقْبَلَ وَأَدْبَرَ ، فَإِذَا مَطَرَتْ ، سُرِّيَ عَنْهُ ، فَعَرَفْتُ ذَلِكَ فِي وَجْهِهِ ، قَالَتْ عَائِشَةُ : فَسَأَلْتُهُ ، فَقَالَ : " لَعَلَّهُ ، يَا عَائِشَةُ كَمَا قَالَ قَوْمُ عَادٍ : {فَلَمَّا رَأَوْهُ عَارِضًا مُسْتَقْبِلَ أَوْدِيَتِهِمْ قَالُوا هَذَا عَارِضٌ مُمْطِرُنَا} (رواه البخارى ومسلم)
tahqiq

তাহকীক: