মা'আরিফুল হাদীস (উর্দু)
معارف الحديث
کتاب الطہارت - এর পরিচ্ছেদসমূহ
মোট হাদীস ২০ টি
হাদীস নং: ৪০৪
کتاب الطہارت
طہارت جزو ایمان ہے
ابو مالک اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ کہ طہارت و پاکیزگی جوز ایمان ہے اور کلمہ الحمد للہ میزان عمل کر بھر دیتا ہے اور سبحان اللہ والحمدللہ بھر دیتے ہیں آسمان کو اور زمین کو ، اور نماز نور ہے اور صدقہ دلیل و برہان ہے اور صبر اجالا ہے اور قرآن یا تو حجت ہے تمہارے حق میں یا حجت ہے ہے تمہارے خلاف ، ہر آدمی صبح کرتا ہے پھر وہ اپنی جان کا سودا کرتا ہے پھر یا تو اسے نجات دلا دیتا ہے یا اس کو ہلاک کر دیتا ہے ۔ (صحیح مسلم)
تشریح
طہارت و پاکیزگی کی حقیقت اور دین میں اس کا مقام
اسلام میں طہارت و پاکیزگی کی حیثیت صرف یہی نہیں ہے کہ وہ نماز ، تلاوتِ قرآن اور طوافِ کعبہ جیسی عبادات کے لئے لازمی شرط ہے ، بلکہ قرآن و حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بجائے خود بھی دین کا ایک اہم شعبہ اور بذات خود بھی مطلوب ہے ۔ قرآن مجید کی آیت ١ ؕ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ التَّوَّابِيْنَ وَ يُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِيْنَ۰۰۲۲۲ (۱) (اللہ توبہ کرنے والوں سے محبت کرتا ہے اور پاک و صاف رہنے والے اپنے بندوں کو محبوب رکھتا ہے) ۔
اور قبا کی بستی میں رہنے والے اہل ایمان کی تعریف میں قرآن مجید کا ارشاد فِيْهِ رِجَالٌ يُّحِبُّوْنَ اَنْ يَّتَطَهَّرُوْا١ؕ وَ اللّٰهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِيْنَ (۲) (اس میںہمارے ایسے بندے ہیں ۔ جو بڑے پاکیزگی پسند ہیں اور اللہ تعالیٰ خوب پاک و صاف رہنے والے بندوں سے محبت کرتا ہے) ۔ صرف ان ہی دو آیتوں سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اسلام میں طہارت و پاکیزگی کی بجائے خود کتنی اہمیت ہے ۔ اس طرح آگے پہلے ہی نمبر صحیح مسلم کی جو حدیث درج کی جارہی ہے اس کے پہلے فقرے “ الطُّهُوْرُ شَطْرُ الْإِيْمَانِ ” کا گویا لفظی ترجمہ ہی یہ ہے کہ طہارت و پاکیزگی اسلام کا ایک حکم ہی نہیں بلکہ وہ دین و ایمان کا ایک اہم جزو ہے ۔ اور ایک دوسری حدیث میں اس کو “ نصف ایمان ” فرمایا گیا ۔ ہمارے استاذ الاساتذہ اور شیخ المشائخ حضرت شاہ ولی اللہ قدس سرہ کی ایک نفیس تحقیق قابل ذکر ہے ، اپنی بے نظیر کتاب “ حجۃ اللہ البالغۃ ” میں فرماتے ہیں :
“ کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنے خاص فضل سے یہ حقیقت سمجھا دی ہے کہ فلاح و سعادت جس شاہراہ کی طرف انبیاء علیہم السلام کی بعثت ہوئی (جس کا نام شریعت ہے) اگرچہ اس کے بہت سے ابواب ہیں اور ہر باب کے تحت سینکڑوں احکام ہیں لیکن اپنی بے پناہ کثرت کے باوجود وہ سب بس ان چار اصولی عنوانوں کے تحت آتے ہیں طہارت ، اخبات ، سماحت ، عدالت ۔ (۳)
پھر شاہ صاحب نے ان میں سے ہر ایک کی حقیقت بیان کی ہے جس کے مطالعے کے بعد یہ بات بالکل واضح ہو کر سامنے آتی ہے کہ بلا شبہ ساری شریعت بس ان ہی چار حصوں میں منقسم ہے ۔ یہاں ہم شاہ صاحب کے کلام کے صرف اس حصے کا خلاصہ درج کرتے ہیں جس میں انھوں نے طہارت کی حقیقت بیان فرمائی ہے ۔ فرماتے ہیں کہ :
ایک سلیم الفطرت اور صحیح المزاج انسان جس کا قلب بہیمت کے سفلی تقاضوں سے مغلوب اور ان میں مشغول نہ ہو ، جب وہ کسی نجاست سے آلودہ ہو جاتا ہے یا اس کو پیشاب یا پاخانہ کا سخت تقاضا ہوتا ہے یا وہ جماع وغیرہ سے فارغ ہوا ہوتا ہے وہ اپنے نفس میں ایک خاص قسم کا انقباض و تکدر اور گرانی و بے لطفی اور اپنی طبیعت میں سخت ظلمت کی ایک کیفیت محسوس کرتا ہے ، پھر جب وہ اس حالت سے نکل جاتا ہے مثلاً پیشاب یا پاخانہ کا جو سخت تقاضا تھا اس سے وہ فارغ ہو جاتا ہے اور اچھی طرح استنجا اور طہارت کر لیتا ہے یا اگر وہ جماع سے فارغ ہوا تھا تو غسل کر لیتا اور اچھے صاف ستھرے کپڑے پہن لیتا ہے اور خوشبو لگا لیتا ہے تو نفس کے انقباض و تکدر اور طبیعت کی ظلمت کی وہ کیفیت جاتی رہتی ہے اور اس کے بجائے اپنی طبیعت میں وہ ایک انشراح و انبساط اور سرور فروخت کی کیفیت محسوس کرتا ہے ۔ بس دراصل پہلی کیفیت کا نام “ حدث ” (ناپاکی) اور دوسری کا نام “ طہارت ” (پاکی و پاکیزگی) ہے ، اور انسانوں میں جن کی فطرت سلیم اور جن کا وجدان صحیح ہے وہ ان دونوں حالتوں اور کیفیتوں کے فرق کو واضح طور پر محسوس کرتے ہیں اور اپنی طبیعت و فطرت کے تقاضے سے “ حدث ” کی حالت کو ناپسند اور دوسری کو (یعنی “ طہارت ” کی حالت) پسند کرتے ہیں ۔
اور نفس انسانی کی یہ طہارت کی حالت ملاء اعلیٰ یعنی “ ملئكة الله ” کی حالت سے بہت مشابہت و مناسبت رکھتی ہے کیوں کہ وہ دائمی طور پر بہیمی آلودگیوں سے پاک و صاف اور نورانی کیفیات سے شاداں و فرحاں رہتے ہیں اور اسی لئے حسبِ امکان طہارت و پاکیزگی کا اہتمام و دوام انسانی روح کو ملکوتی کمالات حاصل کرنے اور الہامات و منامات کے ذریعے ملاء اعلیٰ سے استفادہ کرنے کے قابل بنا دیتا ہے ۔ اور اس کے برعکس جب آدمی حدث اور ناپاکی کی حالت میں ڈوبا رہتا ہے تو اس کو شیاطین سے ایک مناسبت و مشابہت حاصل ہو جاتی ہے اور شیطانی وساوس کی قبولیت کی ایک خاص استعداد اور صلاحیت اس میں پیدا ہو جاتی ہے اور اس کی روح کو ظلمت گھیر لیتی ہے ” ۔ (حجۃ اللہ البالغہ ص ۵۴ ج ۱)
شاہ صاحب کی اس عبارت سے معلوم ہوا کہ طہارت اور حدث دراصل انسانی روح اور طبیعت کی مذکورہ بالا دو حالتوں کا نام ہے اور ہم جن چیزوں کو حدث یا ناپاکی اور طہارت یا پاکیزگی کہتے ہیں وہ دراصل ان کے اسباب و موجبات ہیں اور شریعت ان ہی اسباب پر احکام جاری کرتی ہے اور انہی سے بحث کرتی ہے ۔
امید ہے کہ طہارت کی حقیقت اور روح انسانی کے لئے اس کی ضرورت و اہمیت سمجھنے کے لئے شاہ صاحب کا یہ کلام ان شاء اللہ کافی ہو گا ۔ نیز اس سے یہ بھی معلوم ہو گیا کہ طہارت و پاکیزگی شریعت کا پورا چوتھائی حصہ ہے۔
پھر اسی کتاب “ حجۃ اللہ البالغہ ” کے ایک دوسرے مقام پر جہاں طہارت کے احکام اور ان کے اسرار ہی کا بیان ہے فرماتے ہیں : طہارت کی تین قسمیں ہیں ، ایک حدث سے طہارت (یعنی جن حالتوں میں غسل یا وضو واجب یا مستحب ہے ۔ ان حالتوں میں غسل یا وضو کر کے شرعی طہارت و پاکیزگی حاصل کرنا ۔
دوسرے ظاہری نجاست اور پلیدی سے جسم یا اپنے کپڑوں کو یا جگہ کو پاک کرنا ۔۔۔ تیسرے جسم کے مختلف حصوں میں جو گندگیاں اور میل و کچیل پیدا ہوتا رہتا ہے اس کی صفائی کرنا (جیسے دانتوں کی صفائی ناک کے نتھنوں کی صفائی ، ناخن اور زیر ناف بالوں کی صفائی) آگے طہارت کے متعلق جو حدیثیں درج ہوں گی ان میں سے بعض کا تعلق مطلق طہارت سے ہو گا جو ان تینوں قسموں پر حاوی ہے اور بعض کا تعلق کسی ایک خاص قسم سے ہو گا ....... اس تمہیدی بیان کے بعد اب طہارت سے متعلق حدیثیں پڑھئے ۔
تشریح ۔۔۔ جیسا کہ ظاہر ہے کہ یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک خطبہ ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دین کے بہت سے حقائق بیان فرمائے ہیں اس کا صرف پہلا جزو اور پہلا فقرہ (الطُّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ) طہارت سے متعلق ہے اور اسی وجہ سے یہ حدیث کتب حدیث میں “ كتاب الطهارة ” میں درج کی جاتی ہے شطر کے معنی نصف اور آدھے کے ہیں بلکہ اسی مضمون کی ایک اور حدیث جو امام ترمذی نے ایک دوسرے صحابی سے روایت ہے اس میں “ الطُّهُورُ نِصْفُ الْإِيمَانِ ” (۱) ہی کے الفاظ ہیں لیکن اس عاجز کے نزدیک شطر و نصف دونوں لفظوں کا مطلب یہاں یہی ہے کہ طہارت و پاکیزگی ایمان کا خاص جزو اور اس کا اہم شعبہ اور حصہ ہے اور حضرت شاہ ولی اللہ کا جو کلام اوپر نقل ہوا ہے اس سے یہ حقیقت اتنی واضح اور روشن ہو چکی ہے جس پر کسی اضافہ کی ضرورت نہیں ۔
طہارت و پاکیزگی کی یہ اہمیت بیان فرمانے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی تسبیح اور تمہید کا اجر و ثواب اور اس کی فضیلت بیان فرمائی ہے ، تسبیح یعنی سبحان اللہ کہنے کا مطلب اپنے اس یقین کا اظہار اور اس کی شہادت ادا کرنا ہوتا ہے کہ اللہ کی مقدس ذات ہر اس بات سے پاک اور برتر ہے جو اس کی شان الوہیت کے مناسب نہ ہو اور تحمید یعنی الحمدللہ کہنے کا مطلب اپنے یقین کا اظہار اور اس شہادت کا ادا کرنا ہوتا ہے کہ ساری خوبیاں اور سارے کمالات جن کی بنا پر کسی کی حمد و ثناء کی جا سکتی ہے صرف اللہ تعالیٰ ہی کی ذات میں ہے اور اس لئے بس ساری حمد و ستائش بس اسی کے لئے ہے یہی تسبیح و حمد حق تعالیٰ کی نورانی اور معصوم مخلوق فرشتوں کا خاص وظیفہ ہے ۔ قرآن مجید میں خود فرشتوں کا یہ بیان خود ان ہی کی زبانی نقل کیا گیا ہے ۔ “ نَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ ” (خدا وندا ! ہم تیری حمد و تسبیح میں مصروف رہتے ہیں) ۔
پس انسانوں کے لئے بھی بہترین وظیفہ اور مقدس ترین شغل یہی ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے اور سارے عالم کے خالق و پروردگار کی تسبیح کریں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی ترغیب کے لئے اس حدیث میں فرمایا ہے کہ ایک کلمہ سبحان اللہ میزان عمل کو بھر دیتا ہے اور اس سبھان اللہ کے ساتھ الحمدللہ بھی مل جائے تو ان دونوں کا نور زمین و آسمان کی ساری فضاؤں کو معمور و منور کر دیتا ہے ۔
“ سبحان الله ” سے میزان اعمال کا بھر جانا اور “ سبحان الله والحمدلله ” سے آسمان و زمین کا معمور ہو جانا یہ ان حقائق میں سے ہے جن کے ادراک کا حاسہ یہاں ہم کو نہیں دیا گیا ۔ ہاں اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں پر اس قسم کی حقیقتوں کو کبھی کبھی یہاں بھی منکشف فرما دیتا ہے ، ہم عوام کا حصہ یہی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیان فرمائی ہوئی ان حقیقتوں پر ایمان لائیں ، انکا یقین کریں اور ان سے عمل کا فائدہ اٹھائیں ۔ حمد و تسبیح کی اس فضیلت اور ترغیب کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے بارے میں فرمایا ہے کہ “ وہ نور ہے ” اس دنیا میں نماز کی اس خصوصیت کا ظہور اس طرح ہوتا ہے کہ اس کی برکت سے قلب میں ایک نور پیدا ہوتا ہے جس کو اللہ کے وہ بندے خود محسوس کرتے ہیں جن کی نمازیں حقیقی نمازیں ہیں پھر اسی نور کا ایک اثر یہ ہوتا ہے کہ آدمی فواحش و منکرات سے بچتا ہوا چلتا ہے اسی کو قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے “ اِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِ ” (بلا شبہ نماز میں یہ خاصیت ہے کہ وہ آدمی کو فواحش و منکرات سے روکتی ہے) اور آخرت کی منزلوں میں نماز کی اس نورانیت کا ظہور اس طرح ہو گا کہ وہاں کی اندھیریوں میں نماز روشنی اور اجالا بن کر نمازی کے ساتھ ہو گی ۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے کہ “ نُوْرُهُمْ يَسْعٰى بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ وَ بِاَيْمَانِهِمْ ” (اللہ کے نیک صالح بندوں کے آگے آگے اور داہنی جانب ان کے اعمال کا نور دوڑتا ہو گا)
اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقے کے بارے میں فرمایا ہے کہ وہ دلیل و برہان ہے اس دنیا میں صدقے کے برہان ہونے کا مطلب بظاہر یہی ہو سکتا ہے کہ وہ اس امر کی کھلی ہوئی دلیل ہے کہ صدقہ کرنے والا بندہ مومن و مسلم ہے ، اگر دل میں ایمان نہ ہو تو اپنی کمائی کا صدقہ کرنا آسان نہیں ہے ۔ “ گر زر طلبی سخن درین است ” اور آخرت میں اس خصوصیت کا ظہور اس طرح ہو گا کہ صدقہ کرنے والے مخلص بندے کے صدقے کو اس کے ایمان اور اس کی خدا پرستی اور نشانی مان کر اس کو انعامات سے نوازا جائے گا ۔
اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبر کے بارے میں فرمایا ہے کہ وہ “ ضیاء ” یعنی روشنی اور اجالا ہے بعض حضرات نے نماز اور صدقہ کی مناسبت سے یہاں لفظ صبر سے مراد روزہ لیا ہے ، لیکن ناچیز کے نزدیک راجح یہ ہے کہ صبر یہاں اپنے اصل وسیع معنی ہی میں استعمال ہوا ہے قرآن و حدیث کی زبان میں صبر کے اصل معنی ہیں “ اللہ کے حکم کے تحت نفس کی خواہشات کو دبانا اور اس راہ میں تلخیاں اور ناگواریاں برداشت کرتے رہنا ” اس لحاظ سے صبر گویا پوری دینی زندگی کو اپنے اندر لئے ہوئے ہے اور اس میں نماز ، صدقہ ، روزہ ، حج اور جہاد اور ان کے علاوہ اللہ کے لئے اور دین کے احکام کی پابندی میں ہر قسم کی تکلیفیں برداشت کرنا اور اپنی نفسانی خواہشات کو دبائے رکھنا ، سب ہی اس کے مفہوم میں داخل ہے اور اسی کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ یہ صبر “ ضیاء ” ہے قرآن مجید میں چاند کی روشنی “ نور ” اور سورج کی روشنی کو “ ضیاء ” فرمایا گیا ہے “ هُوَ الَّذِيْ جَعَلَ الشَّمْسَ ضِيَآءً وَّ الْقَمَرَ ” (یونس ۵ : ۱۰) اس لحاظ سے صبر اور نماز سے پیدا ہونے والی روشنیوں میں نسبت ہو گی جو سورج اور چاند میں ہے ، واللہ تعالیٰ اعلم ۔
اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن مجید کے بارے میں فرمایا ہے کہ یا تو وہ تمہارے واسطے اور تمہارے حق میں دلیل یا تمہارے خلاف ! ...... مطلب یہ ہے کہ قرآن مجید اللہ تعالیٰ کا کلام اور اس کا ہدایت نامہ ہے اب اگر تمہارا تعلق اور رویہ اس کے ساتھ عظمت و احترام اور اتباع کا ہو گا جیسا کہ ایک صاحب ایمان کا ہونا چاہئے تو وہ تمہارے لئے شاہد و دلیل بنے گا اور اگر تمہارا رویہ اس کے برخلاف ہو گا تو پھر اس کی شہادت تمہارے خلاف ہو گی ۔
ان تنبیہات و ترغیبات کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آخرت میں ارشاد فرمایا ہے کہ “ اس دنیا کا ہر انسان خواہ وہ کسی حال اور کسی مشغلہ میں زندگی گزار رہا ہو وہ روزانہ اپنے نفس اور اپنی جان کا سودا کرتا ہے ، پھر یا تو وہ اس کو نجات دلانے والا ہے یا ہلاک کرنے والا ہے ” ۔ مطلب یہ ہے کہ انسان کی زندگی ایک مسلسل تجارت اور سودا گری ہے ، اگر وہ اللہ کی بندگی اور رضا طلبی والی زندگی گزار رہا ہے تو اپنی ذات کے لئے بڑی اچھی کمائی کر رہا ہے اور اس کی نجات کا سامان فراہم کر رہا ہے اور اگر اس کے برعکس وہ نفس پرستی اور خدا فراموشی کی زندگی گزار رہا ہے تو وہ اپنی تباہی اور بربادی کما رہا ہے اور اپنی دوزخ بنا رہا ہے ۔
اللہ تعالیٰ ہم کو ان حقیقتوں کا یقین نصیب فرمائے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ان ترغیبات و تنبیہات سے فائدہ اٹھانے کی توفیق دے ۔
تشریح
طہارت و پاکیزگی کی حقیقت اور دین میں اس کا مقام
اسلام میں طہارت و پاکیزگی کی حیثیت صرف یہی نہیں ہے کہ وہ نماز ، تلاوتِ قرآن اور طوافِ کعبہ جیسی عبادات کے لئے لازمی شرط ہے ، بلکہ قرآن و حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بجائے خود بھی دین کا ایک اہم شعبہ اور بذات خود بھی مطلوب ہے ۔ قرآن مجید کی آیت ١ ؕ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ التَّوَّابِيْنَ وَ يُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِيْنَ۰۰۲۲۲ (۱) (اللہ توبہ کرنے والوں سے محبت کرتا ہے اور پاک و صاف رہنے والے اپنے بندوں کو محبوب رکھتا ہے) ۔
اور قبا کی بستی میں رہنے والے اہل ایمان کی تعریف میں قرآن مجید کا ارشاد فِيْهِ رِجَالٌ يُّحِبُّوْنَ اَنْ يَّتَطَهَّرُوْا١ؕ وَ اللّٰهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِيْنَ (۲) (اس میںہمارے ایسے بندے ہیں ۔ جو بڑے پاکیزگی پسند ہیں اور اللہ تعالیٰ خوب پاک و صاف رہنے والے بندوں سے محبت کرتا ہے) ۔ صرف ان ہی دو آیتوں سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اسلام میں طہارت و پاکیزگی کی بجائے خود کتنی اہمیت ہے ۔ اس طرح آگے پہلے ہی نمبر صحیح مسلم کی جو حدیث درج کی جارہی ہے اس کے پہلے فقرے “ الطُّهُوْرُ شَطْرُ الْإِيْمَانِ ” کا گویا لفظی ترجمہ ہی یہ ہے کہ طہارت و پاکیزگی اسلام کا ایک حکم ہی نہیں بلکہ وہ دین و ایمان کا ایک اہم جزو ہے ۔ اور ایک دوسری حدیث میں اس کو “ نصف ایمان ” فرمایا گیا ۔ ہمارے استاذ الاساتذہ اور شیخ المشائخ حضرت شاہ ولی اللہ قدس سرہ کی ایک نفیس تحقیق قابل ذکر ہے ، اپنی بے نظیر کتاب “ حجۃ اللہ البالغۃ ” میں فرماتے ہیں :
“ کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنے خاص فضل سے یہ حقیقت سمجھا دی ہے کہ فلاح و سعادت جس شاہراہ کی طرف انبیاء علیہم السلام کی بعثت ہوئی (جس کا نام شریعت ہے) اگرچہ اس کے بہت سے ابواب ہیں اور ہر باب کے تحت سینکڑوں احکام ہیں لیکن اپنی بے پناہ کثرت کے باوجود وہ سب بس ان چار اصولی عنوانوں کے تحت آتے ہیں طہارت ، اخبات ، سماحت ، عدالت ۔ (۳)
پھر شاہ صاحب نے ان میں سے ہر ایک کی حقیقت بیان کی ہے جس کے مطالعے کے بعد یہ بات بالکل واضح ہو کر سامنے آتی ہے کہ بلا شبہ ساری شریعت بس ان ہی چار حصوں میں منقسم ہے ۔ یہاں ہم شاہ صاحب کے کلام کے صرف اس حصے کا خلاصہ درج کرتے ہیں جس میں انھوں نے طہارت کی حقیقت بیان فرمائی ہے ۔ فرماتے ہیں کہ :
ایک سلیم الفطرت اور صحیح المزاج انسان جس کا قلب بہیمت کے سفلی تقاضوں سے مغلوب اور ان میں مشغول نہ ہو ، جب وہ کسی نجاست سے آلودہ ہو جاتا ہے یا اس کو پیشاب یا پاخانہ کا سخت تقاضا ہوتا ہے یا وہ جماع وغیرہ سے فارغ ہوا ہوتا ہے وہ اپنے نفس میں ایک خاص قسم کا انقباض و تکدر اور گرانی و بے لطفی اور اپنی طبیعت میں سخت ظلمت کی ایک کیفیت محسوس کرتا ہے ، پھر جب وہ اس حالت سے نکل جاتا ہے مثلاً پیشاب یا پاخانہ کا جو سخت تقاضا تھا اس سے وہ فارغ ہو جاتا ہے اور اچھی طرح استنجا اور طہارت کر لیتا ہے یا اگر وہ جماع سے فارغ ہوا تھا تو غسل کر لیتا اور اچھے صاف ستھرے کپڑے پہن لیتا ہے اور خوشبو لگا لیتا ہے تو نفس کے انقباض و تکدر اور طبیعت کی ظلمت کی وہ کیفیت جاتی رہتی ہے اور اس کے بجائے اپنی طبیعت میں وہ ایک انشراح و انبساط اور سرور فروخت کی کیفیت محسوس کرتا ہے ۔ بس دراصل پہلی کیفیت کا نام “ حدث ” (ناپاکی) اور دوسری کا نام “ طہارت ” (پاکی و پاکیزگی) ہے ، اور انسانوں میں جن کی فطرت سلیم اور جن کا وجدان صحیح ہے وہ ان دونوں حالتوں اور کیفیتوں کے فرق کو واضح طور پر محسوس کرتے ہیں اور اپنی طبیعت و فطرت کے تقاضے سے “ حدث ” کی حالت کو ناپسند اور دوسری کو (یعنی “ طہارت ” کی حالت) پسند کرتے ہیں ۔
اور نفس انسانی کی یہ طہارت کی حالت ملاء اعلیٰ یعنی “ ملئكة الله ” کی حالت سے بہت مشابہت و مناسبت رکھتی ہے کیوں کہ وہ دائمی طور پر بہیمی آلودگیوں سے پاک و صاف اور نورانی کیفیات سے شاداں و فرحاں رہتے ہیں اور اسی لئے حسبِ امکان طہارت و پاکیزگی کا اہتمام و دوام انسانی روح کو ملکوتی کمالات حاصل کرنے اور الہامات و منامات کے ذریعے ملاء اعلیٰ سے استفادہ کرنے کے قابل بنا دیتا ہے ۔ اور اس کے برعکس جب آدمی حدث اور ناپاکی کی حالت میں ڈوبا رہتا ہے تو اس کو شیاطین سے ایک مناسبت و مشابہت حاصل ہو جاتی ہے اور شیطانی وساوس کی قبولیت کی ایک خاص استعداد اور صلاحیت اس میں پیدا ہو جاتی ہے اور اس کی روح کو ظلمت گھیر لیتی ہے ” ۔ (حجۃ اللہ البالغہ ص ۵۴ ج ۱)
شاہ صاحب کی اس عبارت سے معلوم ہوا کہ طہارت اور حدث دراصل انسانی روح اور طبیعت کی مذکورہ بالا دو حالتوں کا نام ہے اور ہم جن چیزوں کو حدث یا ناپاکی اور طہارت یا پاکیزگی کہتے ہیں وہ دراصل ان کے اسباب و موجبات ہیں اور شریعت ان ہی اسباب پر احکام جاری کرتی ہے اور انہی سے بحث کرتی ہے ۔
امید ہے کہ طہارت کی حقیقت اور روح انسانی کے لئے اس کی ضرورت و اہمیت سمجھنے کے لئے شاہ صاحب کا یہ کلام ان شاء اللہ کافی ہو گا ۔ نیز اس سے یہ بھی معلوم ہو گیا کہ طہارت و پاکیزگی شریعت کا پورا چوتھائی حصہ ہے۔
پھر اسی کتاب “ حجۃ اللہ البالغہ ” کے ایک دوسرے مقام پر جہاں طہارت کے احکام اور ان کے اسرار ہی کا بیان ہے فرماتے ہیں : طہارت کی تین قسمیں ہیں ، ایک حدث سے طہارت (یعنی جن حالتوں میں غسل یا وضو واجب یا مستحب ہے ۔ ان حالتوں میں غسل یا وضو کر کے شرعی طہارت و پاکیزگی حاصل کرنا ۔
دوسرے ظاہری نجاست اور پلیدی سے جسم یا اپنے کپڑوں کو یا جگہ کو پاک کرنا ۔۔۔ تیسرے جسم کے مختلف حصوں میں جو گندگیاں اور میل و کچیل پیدا ہوتا رہتا ہے اس کی صفائی کرنا (جیسے دانتوں کی صفائی ناک کے نتھنوں کی صفائی ، ناخن اور زیر ناف بالوں کی صفائی) آگے طہارت کے متعلق جو حدیثیں درج ہوں گی ان میں سے بعض کا تعلق مطلق طہارت سے ہو گا جو ان تینوں قسموں پر حاوی ہے اور بعض کا تعلق کسی ایک خاص قسم سے ہو گا ....... اس تمہیدی بیان کے بعد اب طہارت سے متعلق حدیثیں پڑھئے ۔
تشریح ۔۔۔ جیسا کہ ظاہر ہے کہ یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک خطبہ ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دین کے بہت سے حقائق بیان فرمائے ہیں اس کا صرف پہلا جزو اور پہلا فقرہ (الطُّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ) طہارت سے متعلق ہے اور اسی وجہ سے یہ حدیث کتب حدیث میں “ كتاب الطهارة ” میں درج کی جاتی ہے شطر کے معنی نصف اور آدھے کے ہیں بلکہ اسی مضمون کی ایک اور حدیث جو امام ترمذی نے ایک دوسرے صحابی سے روایت ہے اس میں “ الطُّهُورُ نِصْفُ الْإِيمَانِ ” (۱) ہی کے الفاظ ہیں لیکن اس عاجز کے نزدیک شطر و نصف دونوں لفظوں کا مطلب یہاں یہی ہے کہ طہارت و پاکیزگی ایمان کا خاص جزو اور اس کا اہم شعبہ اور حصہ ہے اور حضرت شاہ ولی اللہ کا جو کلام اوپر نقل ہوا ہے اس سے یہ حقیقت اتنی واضح اور روشن ہو چکی ہے جس پر کسی اضافہ کی ضرورت نہیں ۔
طہارت و پاکیزگی کی یہ اہمیت بیان فرمانے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی تسبیح اور تمہید کا اجر و ثواب اور اس کی فضیلت بیان فرمائی ہے ، تسبیح یعنی سبحان اللہ کہنے کا مطلب اپنے اس یقین کا اظہار اور اس کی شہادت ادا کرنا ہوتا ہے کہ اللہ کی مقدس ذات ہر اس بات سے پاک اور برتر ہے جو اس کی شان الوہیت کے مناسب نہ ہو اور تحمید یعنی الحمدللہ کہنے کا مطلب اپنے یقین کا اظہار اور اس شہادت کا ادا کرنا ہوتا ہے کہ ساری خوبیاں اور سارے کمالات جن کی بنا پر کسی کی حمد و ثناء کی جا سکتی ہے صرف اللہ تعالیٰ ہی کی ذات میں ہے اور اس لئے بس ساری حمد و ستائش بس اسی کے لئے ہے یہی تسبیح و حمد حق تعالیٰ کی نورانی اور معصوم مخلوق فرشتوں کا خاص وظیفہ ہے ۔ قرآن مجید میں خود فرشتوں کا یہ بیان خود ان ہی کی زبانی نقل کیا گیا ہے ۔ “ نَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ ” (خدا وندا ! ہم تیری حمد و تسبیح میں مصروف رہتے ہیں) ۔
پس انسانوں کے لئے بھی بہترین وظیفہ اور مقدس ترین شغل یہی ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے اور سارے عالم کے خالق و پروردگار کی تسبیح کریں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی ترغیب کے لئے اس حدیث میں فرمایا ہے کہ ایک کلمہ سبحان اللہ میزان عمل کو بھر دیتا ہے اور اس سبھان اللہ کے ساتھ الحمدللہ بھی مل جائے تو ان دونوں کا نور زمین و آسمان کی ساری فضاؤں کو معمور و منور کر دیتا ہے ۔
“ سبحان الله ” سے میزان اعمال کا بھر جانا اور “ سبحان الله والحمدلله ” سے آسمان و زمین کا معمور ہو جانا یہ ان حقائق میں سے ہے جن کے ادراک کا حاسہ یہاں ہم کو نہیں دیا گیا ۔ ہاں اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں پر اس قسم کی حقیقتوں کو کبھی کبھی یہاں بھی منکشف فرما دیتا ہے ، ہم عوام کا حصہ یہی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیان فرمائی ہوئی ان حقیقتوں پر ایمان لائیں ، انکا یقین کریں اور ان سے عمل کا فائدہ اٹھائیں ۔ حمد و تسبیح کی اس فضیلت اور ترغیب کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے بارے میں فرمایا ہے کہ “ وہ نور ہے ” اس دنیا میں نماز کی اس خصوصیت کا ظہور اس طرح ہوتا ہے کہ اس کی برکت سے قلب میں ایک نور پیدا ہوتا ہے جس کو اللہ کے وہ بندے خود محسوس کرتے ہیں جن کی نمازیں حقیقی نمازیں ہیں پھر اسی نور کا ایک اثر یہ ہوتا ہے کہ آدمی فواحش و منکرات سے بچتا ہوا چلتا ہے اسی کو قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے “ اِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِ ” (بلا شبہ نماز میں یہ خاصیت ہے کہ وہ آدمی کو فواحش و منکرات سے روکتی ہے) اور آخرت کی منزلوں میں نماز کی اس نورانیت کا ظہور اس طرح ہو گا کہ وہاں کی اندھیریوں میں نماز روشنی اور اجالا بن کر نمازی کے ساتھ ہو گی ۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے کہ “ نُوْرُهُمْ يَسْعٰى بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ وَ بِاَيْمَانِهِمْ ” (اللہ کے نیک صالح بندوں کے آگے آگے اور داہنی جانب ان کے اعمال کا نور دوڑتا ہو گا)
اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقے کے بارے میں فرمایا ہے کہ وہ دلیل و برہان ہے اس دنیا میں صدقے کے برہان ہونے کا مطلب بظاہر یہی ہو سکتا ہے کہ وہ اس امر کی کھلی ہوئی دلیل ہے کہ صدقہ کرنے والا بندہ مومن و مسلم ہے ، اگر دل میں ایمان نہ ہو تو اپنی کمائی کا صدقہ کرنا آسان نہیں ہے ۔ “ گر زر طلبی سخن درین است ” اور آخرت میں اس خصوصیت کا ظہور اس طرح ہو گا کہ صدقہ کرنے والے مخلص بندے کے صدقے کو اس کے ایمان اور اس کی خدا پرستی اور نشانی مان کر اس کو انعامات سے نوازا جائے گا ۔
اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبر کے بارے میں فرمایا ہے کہ وہ “ ضیاء ” یعنی روشنی اور اجالا ہے بعض حضرات نے نماز اور صدقہ کی مناسبت سے یہاں لفظ صبر سے مراد روزہ لیا ہے ، لیکن ناچیز کے نزدیک راجح یہ ہے کہ صبر یہاں اپنے اصل وسیع معنی ہی میں استعمال ہوا ہے قرآن و حدیث کی زبان میں صبر کے اصل معنی ہیں “ اللہ کے حکم کے تحت نفس کی خواہشات کو دبانا اور اس راہ میں تلخیاں اور ناگواریاں برداشت کرتے رہنا ” اس لحاظ سے صبر گویا پوری دینی زندگی کو اپنے اندر لئے ہوئے ہے اور اس میں نماز ، صدقہ ، روزہ ، حج اور جہاد اور ان کے علاوہ اللہ کے لئے اور دین کے احکام کی پابندی میں ہر قسم کی تکلیفیں برداشت کرنا اور اپنی نفسانی خواہشات کو دبائے رکھنا ، سب ہی اس کے مفہوم میں داخل ہے اور اسی کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ یہ صبر “ ضیاء ” ہے قرآن مجید میں چاند کی روشنی “ نور ” اور سورج کی روشنی کو “ ضیاء ” فرمایا گیا ہے “ هُوَ الَّذِيْ جَعَلَ الشَّمْسَ ضِيَآءً وَّ الْقَمَرَ ” (یونس ۵ : ۱۰) اس لحاظ سے صبر اور نماز سے پیدا ہونے والی روشنیوں میں نسبت ہو گی جو سورج اور چاند میں ہے ، واللہ تعالیٰ اعلم ۔
اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن مجید کے بارے میں فرمایا ہے کہ یا تو وہ تمہارے واسطے اور تمہارے حق میں دلیل یا تمہارے خلاف ! ...... مطلب یہ ہے کہ قرآن مجید اللہ تعالیٰ کا کلام اور اس کا ہدایت نامہ ہے اب اگر تمہارا تعلق اور رویہ اس کے ساتھ عظمت و احترام اور اتباع کا ہو گا جیسا کہ ایک صاحب ایمان کا ہونا چاہئے تو وہ تمہارے لئے شاہد و دلیل بنے گا اور اگر تمہارا رویہ اس کے برخلاف ہو گا تو پھر اس کی شہادت تمہارے خلاف ہو گی ۔
ان تنبیہات و ترغیبات کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آخرت میں ارشاد فرمایا ہے کہ “ اس دنیا کا ہر انسان خواہ وہ کسی حال اور کسی مشغلہ میں زندگی گزار رہا ہو وہ روزانہ اپنے نفس اور اپنی جان کا سودا کرتا ہے ، پھر یا تو وہ اس کو نجات دلانے والا ہے یا ہلاک کرنے والا ہے ” ۔ مطلب یہ ہے کہ انسان کی زندگی ایک مسلسل تجارت اور سودا گری ہے ، اگر وہ اللہ کی بندگی اور رضا طلبی والی زندگی گزار رہا ہے تو اپنی ذات کے لئے بڑی اچھی کمائی کر رہا ہے اور اس کی نجات کا سامان فراہم کر رہا ہے اور اگر اس کے برعکس وہ نفس پرستی اور خدا فراموشی کی زندگی گزار رہا ہے تو وہ اپنی تباہی اور بربادی کما رہا ہے اور اپنی دوزخ بنا رہا ہے ۔
اللہ تعالیٰ ہم کو ان حقیقتوں کا یقین نصیب فرمائے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ان ترغیبات و تنبیہات سے فائدہ اٹھانے کی توفیق دے ۔
عَنْ أَبِي مَالِكٍ الْأَشْعَرِيِّ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : « الطُّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ تَمْلَأُ الْمِيزَانَ ، وَسُبْحَانَ اللهِ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ تَمْلَآَنِ - أَوْ تَمْلَأُ - مَا بَيْنَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ، وَالصَّلَاةُ نُورٌ ، وَالصَّدَقَةُ بُرْهَانٌ وَالصَّبْرُ ضِيَاءٌ ، وَالْقُرْآنُ حُجَّةٌ لَكَ أَوْ عَلَيْكَ ، كُلُّ النَّاسِ يَغْدُو فَبَايِعٌ نَفْسَهُ فَمُعْتِقُهَا أَوْ مُوبِقُهَا » (رواه مسلم)

তাহকীক:
হাদীস নং: ৪০৫
کتاب الطہارت
ناپاکی سے عذابِ قبر
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر دو قبروں پر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو دو آدمی ان قبروں میں مدفون ہیں ان پر عذاب ہو رہا ہے ، اور کسی ایسے گناہ کی وجہ سے یہ عذاب نہیں ہو رہا ہے جس کا معاملہ بہت مشکل ہوتا (یعنی جس سے بچنا بہت دشوار ہوتا) بلکہ یہ دونوں اپنے ایسے گناہ کی پاداش میں عذاب دئیے جا رہے ہیں جس سے بچنا کچھ مشکل نہ تھا) ان میں سے ایک کا گناہ تو یہ تھا کہ وہ پیشاب کی گندگی سے بچاؤ یا پاک رہنے کی کوشش اور فکر نہیں کرتا تھا اور دوسرے کا گناہ یہ تھا کہ چغلیاں لگاتا پھرتا تھا ۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھجور کی ایک تر شاخ لی اور اس کو بیچ سے چیر کر دو ٹکڑے کیا ، پھر ہر ایک کی قبر پر ایک ٹکڑا گاڑھ دیا ۔ صحابہؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ یہ آپ نے کس مقصد سے کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، امید ہے کہ جس وقت تک شاخ کے یہ ٹکڑے بالکل خشک نہ ہو جائیں ان دونوں کے عذاب میں تخفیف کر دی جائے ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
تشریح
عذاب قبر کے بارے میں اصولی بحث اس سلسلے کی پہلی جلد میں کی جا چکی ہے اور وہیں وہ حدیثیں بھی ذکر کی جا چکی ہیں جن میں صراحۃً فرمایا گیا ہے کہ عذاب قبر کی چیخ و پکار کو آس پاس کی دوسری سب مخلوق سنتی ہے لیکن جن و انس عام طور سے نہیں سنتے اور وہیں اس کی حکمت بھی تفصیل سے بیان کی جا چکی ہے ، نیز وہیں صحیح مسلم کی ایک حدیث نقل کی جا چکی ہے جس میں بعض قبروں کے عذاب پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مطلع ہونے کا ایک واقعہ بیان کیا گیا ہے ۔ پس یہ واقعہ جو اس حدیث میں بیان ہوا ہے یہ بھی اسی طرح کا ایک دوسرا واقعہ ہے اللہ تعالیٰ انبیاء علیہم السلام کو عالم غیب کی بہت سی ایسی چیزوں کا مشاہدہ کراتا ہے اور بہت سی ایسی آوازیں سنوا دیتا ہے جن کو عام انسانوں کی آنکھیں اس عالم میں نہیں دیکھتیں اور ان کے کان نہیں سنتے ۔بہر حال یہ بھی اسی قبیل کی ایک چیز ہے ۔
اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں صاحبوں کے عذاب کا سبب ان کے دو خاص گناہوں کا بتایا ہے ایک کے متعلق بتایا کہ وہ چغلی کرتا تھا جو ایک سنگین اخلاقی جرم ہے اور قرآن مجید میں بھی ایک جگہ اس کا ذکر ایک کافرانہ خصلت یا منافقانہ عادت کے طور پر کیا گیا ہے ۔ فرمایا گیا (۱) “ وَ لَا تُطِعْ كُلَّ حَلَّافٍ مَّهِيْنٍۙ۰۰۱۰ ” (قلم) اور کتب قدیمہ کے بہت بڑے عالم کعب احبار سے مروی ہے کہ تورات میں چغلخوری کو سب سے بڑا گناہ بتایا گیا ہے ۔ (۲) اور دوسرے کے عذاب کا سبب آپ نے یہ بتایا کہ وہ پیشاب کی گندگی سے بچاؤ اور پاک صاف رہنے میں بے احتیاطی کرتا (لاَ يَسْتَتِرُ اور لَا يَسْتَنْزِهُ) دونوں کا حاصل مطلب یہی ہے اور صحیح بخاری کی روایت میں اس واقعہ پر “ لَا يستبرئ ” بھی آیا ہے اور حاصل اس کا بھی یہی ہے ، بہرحال اس سے معلوم ہوا کہ پیشاب کی گندگی سے (اور اسی طرح دوسری ناپاکیوں سے) بچنا یعنی اپنے جسم اور اپنے کپڑوں کو محفوظ رکھنے کی کوشش کرنا اللہ تعالیٰ کے اہم احکامات میں سےہے اور اس میں کوتاہی اور بےاحتیاطی ایسی معصیت ہے کہ جس کی سزا آدمی کو قبر میں بھگتنی پڑے گی ۔
آگے حدیث میں جو یہ ذکر ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھجور کی ایک تر شاخ منگوائی اور بیچ میں سے اس کے دو ٹکڑے کر کے ایک ایک ٹکڑا ان دونوں کی قبر پر گاڑ دیا ۔ اور بعض صحابہؓ نے جب اس کی بابت دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ “ مجھے امید ہے کہ جب تک ان ٹکڑوں میں کچھ تری رہے گی اس وقت تک کے لئے ان کے عذاب میں تخفیف کر دی جائے گی ” ..... اس کی ایک توجیح بعض شارحین نے یہ ذکر کی ہے کہ کسی درخت کی شاخ میں جب تک کچھ تری یا نمی رہتی ہے اس وقت تک وہ زندہ رہتی ہے اور اس وقت تک وہ اللہ کی تسبیح و حمد کرتی رہتی ہے ... گویا قرآن مجید کی آیت “ وَ اِنْ مِّنْ شَيْءٍ اِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهٖ ” کا مطلب ان حضرات کے نزدیک یہ ہے کہ ہر چیز اس وقت تک جب تک کہ اس میں کچھ زندگی ہو اللہ تعالیٰ کی حمد و تسبیح کرتی رہتی ہے اور جب اس چیز کی زندگی ختم ہو جاتی ہے تو اس کی حمد و تسبیح بھی ختم ہو جاتی ہے ..... بہر حال اسی بنا پر ان حضرات نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فعل اور آپ کے اس ارشاد کی توجیہ یہ کی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھجور کی شاخ کے یہ ٹکڑے ان قبروں پر اس لئے گاڑھے کہ ان کی تسبیح و حمد کی برکت سے عذاب میں تخفیف ہو جائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان ٹکڑوں کے خشک ہونے تک تخفیف کی جو امید ظاہر فرمائی اس کی بنیاد بس یہی تھی ۔ لیکن اکثر شارحین نے اس توجیہ کو غلط قرار دیا ہے ، اور ہمارے نزدیک بھی یہ توجیہ بالکل غلط بلکہ مہمل ہے ۔ ذرا غور کرنے سے ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کام اس نقطہ نظر سے کیا ہوتا تو کھجور کی شاخ چیر کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے ٹکڑے قبروں پر نصب نہ کرتے کیوں کہ وہ تو دو چار دن میں خشک ہوجاتے ہیں بلکہ اس صورت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان قبروں پر کوئی پودا نصب کرا دیتے جو برسہا برس تک ہرا رہتا ۔ دوسری واضح دلیل اس توجیہ کے غلط ہونے کی یہ ہے کہ اگر صحابہ کرامؓ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا منشاء اور نقطہ نظر یہ سمجھا ہوتا تو وہ سب ایسا ہی کرتے اور ہر قبر پر شاخ نصب کرنے بلکہ درخت لگانے کا اس دور میں عام رواج ہوتا حالانکہ ایسا نہیں ہوا بہر حال حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عمل اور اس ارشاد کی یہ توجیہ بالکل غلط ہے اور پھر اس توجیہ پر بزرگان دین کے مزارات پر ہار پھول چڑھانے کی مشرکانہ رسم کا جواز نکالنا تو روح اسلام پر سخت ظلم ہے ۔
پس صحیح توجیہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عمل اور ارشاد کی یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ سے ان مردوں کے لئے تخفیف عذاب کے لئے دعا فرمائی تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بتایا گیا کہ آپ اس طرح ایک ہری شاخ کے دو حصے کر کے ان قبروں پر ایک ایک گاڑھ دیجئے ۔ جب تک اس میں تری رہے گی اس وقت تک کے لئے ان کے عذاب میں تخفیف کر دی جائے گی ..... صحیح مسلم کے آخر میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی ایک طویل حدیث ہے اس میں بھی دو قبروں کے عذاب کا ذکر ہے اور وہ دوسرا واقعہ ہے وہاں حضرت جابر رضی اللہ عنہ کا یہ بیان ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے یہ حکم دیا کہ جاؤ ان درختوں میں سے دو شاخیں کاٹ کے فلاں جگہ ڈال آؤ ! حضرت جابرؓ فرماتے ہیں کہ میں نے آپ کے حکم کی تعمیل کی اور جب آپ سے اس کی بابت میں نے دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہاں دو قبریں ہیں جن پر عذاب ہو رہا ہے ، میں نے اللہ تعالیٰ سے تخفیف عزاب کی استدعا کی تھی ، اللہ تعالیٰ نے اتنی بات قبول فرمائی کہ جب تک یہ شاخیں تر رہیں گی ان کے عذاب میں تخفیف رہے گی .....بہر حال حضرت جابرؓ کی اس روایت سے یہ بات صراحۃً معلوم ہو گئی کہ ہری شاخوں کو یا ان کی تری کو عذاب کی تخفیف میں کوئی دخل نہیں تھا ، بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ بات فرمائی گئی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کی وجہ سے ہم اتنی مدت کے لئے ان کے عذاب میں تخفیف کر دیں گے ۔ پس اصلی چیز تھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی بنا پر ایک محدود مدت تک کے لئے تخفیف کا فیصلہ ۔
شارحین نے اس حدیث کی شرح میں اس پر بھی گفتگو کی ہوئ ہے کہ یہ دو قبریں جن پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھجور کی شاخ کے ٹکڑے گاڑھے ، مسلمانوں کی تھیں یا غیر مسلموں کی ؟ اور پھر ترجیح اس کو دی ہے کہ یہ قبریں مسلمانوں کی تھیں ، اس کا ایک واضح قرینہ خود اسی حدیث میں یہ موجود ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عذاب کا سبب چغل خوری کی عادت اور پیشاب کے معاملے میں بے احتیاطی اور لاپروائی بتایا ہے حالانکہ یہ قبریں کافروں کی ہوتیں تو عذاب کا سب سے بڑا سبب ان کا کفر اور شرک بتلایا جاتا ..... علاوہ ازیں مسند احمد میں حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ کی ایک روایت ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ قبریں بقیع میں تھیں اور آپص نے بقیع سے گزرتے ہوئے ان قبروں کے عذاب کو محسوس کیا تھا ، اور معلوم ہے کہ مدینہ طیبہ میں بقیع مسلمانوں ہی کا قبرستان ہے ..... بہرحال ان سب قرائن سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ قبریں مسلمانوں ہی کی تھیں ..... واللہ تعالیٰ اعلم ۔
اس حدیث کا خاص سبق اور خاص ہدایت یہ ہے کہ پیشاب وغیرہ کی نجاست سے اپنے کو محفوظ رکھنے کی پوری کوشش اور فکر کی جائے اور جسم اور کپڑوں کے پاک صاف رکھنے کا اہتمام کیا جائے اور چغلخوری جیسی منافقانہ اور مفسدانہ عادت سے بچا جائے ورنہ ان دونوں باتوں میں کوتاہی اور بے احتیاطی کا خمیازہ بھگتنا ہو گا ۔ اَللَّهُمَّ احْفَظْنَا.....
تشریح
عذاب قبر کے بارے میں اصولی بحث اس سلسلے کی پہلی جلد میں کی جا چکی ہے اور وہیں وہ حدیثیں بھی ذکر کی جا چکی ہیں جن میں صراحۃً فرمایا گیا ہے کہ عذاب قبر کی چیخ و پکار کو آس پاس کی دوسری سب مخلوق سنتی ہے لیکن جن و انس عام طور سے نہیں سنتے اور وہیں اس کی حکمت بھی تفصیل سے بیان کی جا چکی ہے ، نیز وہیں صحیح مسلم کی ایک حدیث نقل کی جا چکی ہے جس میں بعض قبروں کے عذاب پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مطلع ہونے کا ایک واقعہ بیان کیا گیا ہے ۔ پس یہ واقعہ جو اس حدیث میں بیان ہوا ہے یہ بھی اسی طرح کا ایک دوسرا واقعہ ہے اللہ تعالیٰ انبیاء علیہم السلام کو عالم غیب کی بہت سی ایسی چیزوں کا مشاہدہ کراتا ہے اور بہت سی ایسی آوازیں سنوا دیتا ہے جن کو عام انسانوں کی آنکھیں اس عالم میں نہیں دیکھتیں اور ان کے کان نہیں سنتے ۔بہر حال یہ بھی اسی قبیل کی ایک چیز ہے ۔
اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں صاحبوں کے عذاب کا سبب ان کے دو خاص گناہوں کا بتایا ہے ایک کے متعلق بتایا کہ وہ چغلی کرتا تھا جو ایک سنگین اخلاقی جرم ہے اور قرآن مجید میں بھی ایک جگہ اس کا ذکر ایک کافرانہ خصلت یا منافقانہ عادت کے طور پر کیا گیا ہے ۔ فرمایا گیا (۱) “ وَ لَا تُطِعْ كُلَّ حَلَّافٍ مَّهِيْنٍۙ۰۰۱۰ ” (قلم) اور کتب قدیمہ کے بہت بڑے عالم کعب احبار سے مروی ہے کہ تورات میں چغلخوری کو سب سے بڑا گناہ بتایا گیا ہے ۔ (۲) اور دوسرے کے عذاب کا سبب آپ نے یہ بتایا کہ وہ پیشاب کی گندگی سے بچاؤ اور پاک صاف رہنے میں بے احتیاطی کرتا (لاَ يَسْتَتِرُ اور لَا يَسْتَنْزِهُ) دونوں کا حاصل مطلب یہی ہے اور صحیح بخاری کی روایت میں اس واقعہ پر “ لَا يستبرئ ” بھی آیا ہے اور حاصل اس کا بھی یہی ہے ، بہرحال اس سے معلوم ہوا کہ پیشاب کی گندگی سے (اور اسی طرح دوسری ناپاکیوں سے) بچنا یعنی اپنے جسم اور اپنے کپڑوں کو محفوظ رکھنے کی کوشش کرنا اللہ تعالیٰ کے اہم احکامات میں سےہے اور اس میں کوتاہی اور بےاحتیاطی ایسی معصیت ہے کہ جس کی سزا آدمی کو قبر میں بھگتنی پڑے گی ۔
آگے حدیث میں جو یہ ذکر ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھجور کی ایک تر شاخ منگوائی اور بیچ میں سے اس کے دو ٹکڑے کر کے ایک ایک ٹکڑا ان دونوں کی قبر پر گاڑ دیا ۔ اور بعض صحابہؓ نے جب اس کی بابت دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ “ مجھے امید ہے کہ جب تک ان ٹکڑوں میں کچھ تری رہے گی اس وقت تک کے لئے ان کے عذاب میں تخفیف کر دی جائے گی ” ..... اس کی ایک توجیح بعض شارحین نے یہ ذکر کی ہے کہ کسی درخت کی شاخ میں جب تک کچھ تری یا نمی رہتی ہے اس وقت تک وہ زندہ رہتی ہے اور اس وقت تک وہ اللہ کی تسبیح و حمد کرتی رہتی ہے ... گویا قرآن مجید کی آیت “ وَ اِنْ مِّنْ شَيْءٍ اِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهٖ ” کا مطلب ان حضرات کے نزدیک یہ ہے کہ ہر چیز اس وقت تک جب تک کہ اس میں کچھ زندگی ہو اللہ تعالیٰ کی حمد و تسبیح کرتی رہتی ہے اور جب اس چیز کی زندگی ختم ہو جاتی ہے تو اس کی حمد و تسبیح بھی ختم ہو جاتی ہے ..... بہر حال اسی بنا پر ان حضرات نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فعل اور آپ کے اس ارشاد کی توجیہ یہ کی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھجور کی شاخ کے یہ ٹکڑے ان قبروں پر اس لئے گاڑھے کہ ان کی تسبیح و حمد کی برکت سے عذاب میں تخفیف ہو جائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان ٹکڑوں کے خشک ہونے تک تخفیف کی جو امید ظاہر فرمائی اس کی بنیاد بس یہی تھی ۔ لیکن اکثر شارحین نے اس توجیہ کو غلط قرار دیا ہے ، اور ہمارے نزدیک بھی یہ توجیہ بالکل غلط بلکہ مہمل ہے ۔ ذرا غور کرنے سے ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کام اس نقطہ نظر سے کیا ہوتا تو کھجور کی شاخ چیر کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے ٹکڑے قبروں پر نصب نہ کرتے کیوں کہ وہ تو دو چار دن میں خشک ہوجاتے ہیں بلکہ اس صورت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان قبروں پر کوئی پودا نصب کرا دیتے جو برسہا برس تک ہرا رہتا ۔ دوسری واضح دلیل اس توجیہ کے غلط ہونے کی یہ ہے کہ اگر صحابہ کرامؓ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا منشاء اور نقطہ نظر یہ سمجھا ہوتا تو وہ سب ایسا ہی کرتے اور ہر قبر پر شاخ نصب کرنے بلکہ درخت لگانے کا اس دور میں عام رواج ہوتا حالانکہ ایسا نہیں ہوا بہر حال حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عمل اور اس ارشاد کی یہ توجیہ بالکل غلط ہے اور پھر اس توجیہ پر بزرگان دین کے مزارات پر ہار پھول چڑھانے کی مشرکانہ رسم کا جواز نکالنا تو روح اسلام پر سخت ظلم ہے ۔
پس صحیح توجیہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عمل اور ارشاد کی یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ سے ان مردوں کے لئے تخفیف عذاب کے لئے دعا فرمائی تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بتایا گیا کہ آپ اس طرح ایک ہری شاخ کے دو حصے کر کے ان قبروں پر ایک ایک گاڑھ دیجئے ۔ جب تک اس میں تری رہے گی اس وقت تک کے لئے ان کے عذاب میں تخفیف کر دی جائے گی ..... صحیح مسلم کے آخر میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی ایک طویل حدیث ہے اس میں بھی دو قبروں کے عذاب کا ذکر ہے اور وہ دوسرا واقعہ ہے وہاں حضرت جابر رضی اللہ عنہ کا یہ بیان ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے یہ حکم دیا کہ جاؤ ان درختوں میں سے دو شاخیں کاٹ کے فلاں جگہ ڈال آؤ ! حضرت جابرؓ فرماتے ہیں کہ میں نے آپ کے حکم کی تعمیل کی اور جب آپ سے اس کی بابت میں نے دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہاں دو قبریں ہیں جن پر عذاب ہو رہا ہے ، میں نے اللہ تعالیٰ سے تخفیف عزاب کی استدعا کی تھی ، اللہ تعالیٰ نے اتنی بات قبول فرمائی کہ جب تک یہ شاخیں تر رہیں گی ان کے عذاب میں تخفیف رہے گی .....بہر حال حضرت جابرؓ کی اس روایت سے یہ بات صراحۃً معلوم ہو گئی کہ ہری شاخوں کو یا ان کی تری کو عذاب کی تخفیف میں کوئی دخل نہیں تھا ، بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ بات فرمائی گئی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کی وجہ سے ہم اتنی مدت کے لئے ان کے عذاب میں تخفیف کر دیں گے ۔ پس اصلی چیز تھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی بنا پر ایک محدود مدت تک کے لئے تخفیف کا فیصلہ ۔
شارحین نے اس حدیث کی شرح میں اس پر بھی گفتگو کی ہوئ ہے کہ یہ دو قبریں جن پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھجور کی شاخ کے ٹکڑے گاڑھے ، مسلمانوں کی تھیں یا غیر مسلموں کی ؟ اور پھر ترجیح اس کو دی ہے کہ یہ قبریں مسلمانوں کی تھیں ، اس کا ایک واضح قرینہ خود اسی حدیث میں یہ موجود ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عذاب کا سبب چغل خوری کی عادت اور پیشاب کے معاملے میں بے احتیاطی اور لاپروائی بتایا ہے حالانکہ یہ قبریں کافروں کی ہوتیں تو عذاب کا سب سے بڑا سبب ان کا کفر اور شرک بتلایا جاتا ..... علاوہ ازیں مسند احمد میں حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ کی ایک روایت ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ قبریں بقیع میں تھیں اور آپص نے بقیع سے گزرتے ہوئے ان قبروں کے عذاب کو محسوس کیا تھا ، اور معلوم ہے کہ مدینہ طیبہ میں بقیع مسلمانوں ہی کا قبرستان ہے ..... بہرحال ان سب قرائن سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ قبریں مسلمانوں ہی کی تھیں ..... واللہ تعالیٰ اعلم ۔
اس حدیث کا خاص سبق اور خاص ہدایت یہ ہے کہ پیشاب وغیرہ کی نجاست سے اپنے کو محفوظ رکھنے کی پوری کوشش اور فکر کی جائے اور جسم اور کپڑوں کے پاک صاف رکھنے کا اہتمام کیا جائے اور چغلخوری جیسی منافقانہ اور مفسدانہ عادت سے بچا جائے ورنہ ان دونوں باتوں میں کوتاہی اور بے احتیاطی کا خمیازہ بھگتنا ہو گا ۔ اَللَّهُمَّ احْفَظْنَا.....
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : مَرَّ النَّبِىُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يِقَبْرَيْنِ ، فَقَالَ : " إِنَّهُمَا لَيُعَذَّبَانِ ، وَمَا يُعَذَّبَانِ فِي كَبِيرٍ ، أَمَّا أَحَدُهُمَا فَكَانَ لاَ يَسْتَتِرُ (وَفِىْ رِوَايَةٍ لِمُسْلِمٍ لَا يَسْتَنْزِهُ) مِنَ البَوْلِ ، وَأَمَّا الآخَرُ فَكَانَ يَمْشِي بِالنَّمِيمَةِ » ، ثُمَّ أَخَذَ جَرِيدَةً رَطْبَةً ، فَشَقَّهَا بِنِصْفَيْنِ ، ثُمَّ غَرَزَ فِي كُلِّ قَبْرٍ وَاحِدَةً ، فَقَالُوا : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، لِمَ صَنَعْتَ هَذَا؟ فَقَالَ : « لَعَلَّهُ أَنْ يُخَفَّفَ عَنْهُمَا مَا لَمْ يَيْبَسَا » (رواه البخارى ومسلم)

তাহকীক:
হাদীস নং: ৪০৬
کتاب الطہارت
قضاء حاجت اور استنجاء سے متعلق ہدایات
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ، میں تم لوگوں کے لئے مثل ایک باپ کے ہوں اپنی اولاد کے لئے (یعنی جس طرح اولاد کی خیر خواہی اور ان کو زندگی کے اصول و آداب سکھنا ہر باپ کی ذمہ داری ہے اسی طرح تمہاری تعلیم و تربیت میرا کام ہے اس لئے) میں تمہیں بتاتا ہوں کہ جب تم قضائے حاجت کے لئے جاؤ تو نہ قبلہ کی طرف منہ کر کے بیٹھو نہ اس کی طرف پشت (بلکہ اس طرح بیٹھو کہ قبلہ کی جانب نہ تمہارا منہ ہو نہ تمہاری پیٹھ) ۔ (حضرت ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے استنجے میں تین پتھروں کے استعمال کرنے کا حکم دیا اور منع فرمایا استنجے میں لید اور ہڈی استعمال کرنے سے اور منع فرمایا داہنے ہاتھ سے استنجا کرنے سے ۔ (سنن ابن ماجہ ، دارمی)
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : « إِنَّمَا أَنَا لَكُمْ مِثْلُ الْوَالِدِ لِوَلَدِهِ ، أُعَلِّمُكُمْ ، إِذَا أَتَيْتُمُ الْغَائِطَ فَلَا تَسْتَقْبِلُوا الْقِبْلَةَ ، وَلَا تَسْتَدْبِرُوهَا. وَأَمَرَ بِثَلَاثَةِ أَحْجَارٍ. وَنَهَى عَنِ الرَّوْثِ ، وَالرِّمَّةِ. وَنَهَى أنْ يَسْتَطِيبَ الرَّجلُ بِيَمِينِهِ » (رواه ابن ماجه والدارمى)

তাহকীক:
হাদীস নং: ৪০৭
کتاب الطہارت
قضاء حاجت اور استنجاء سے متعلق ہدایات
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے ، بیان فرماتے ہیں کہ (بعض مشرکوں کی طرف سے تمسخر اور طنز کے طور پر) ان سے کہا گیا کہ تمہارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے تو تم لوگوں کو ساری ہی باتیں سکھائی ہیں ۔ یہاں تک کہ پاخانہ پھرنے کا طریقہ بھی ! حضرت سلمان نے ان سے کہا ہاں بے شک (انہوں نے ہم کو سب ہی کچھ سکھایا ہے اور استنجے کے متعلق بھی ضروری ہدایتیں دی ہیں ۔ چنانچہ) انھوں نے ہم کو اس سے منع فرمایا ہے کہ پاخانہ یا پیشاب کے وقت ہم قبلہ کی طرف رخ کریں یا یہ کہ ہم داہنے ہاتھ سے استنجا کریں یا یہ کہ ہم استنجے میں تین پتھروں سے کم استعمال کریں یا یہ کہ ہم استنجا کریں (اونٹ ، گھوڑے یا بیل وغیرہ) کسی چوپائے کے فضلے یا ہڈی سے) ۔ (صحیح مسلم)
تشریح
جس طرح کھانا پینا انسان کی بنیادی ضرورتوں میں سے ہے اسی طرح پاخانہ پیشاب بھی ہر انسان کے ساتھ لگا ہوا ہے ۔ نبی برحق حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے جس طرح زندگی کے دوسرے کاموں اور شعبوں میں ہدایات دی ہیں اسی طرح پاخانہ و پیشاب اور طہارت و استنجا کے بارے میں بھی بتایا ہے کہ یہ مناسب ہے اور یہ نامناسب ، یہ درست ہے ، اور یہ نادرست ..... ۔
مندجہ بالا دونوں حدیثوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو ہدایات اس باب میں دی ہیں وہ چار ہیں ۔
۱۔ ایک یہ کہ پاخانہ کے لئے اس طرح بیٹھا جائے کہ قبلے کی طرف نہ منہ ہو نہ پیٹھ ۔ یہ قبلے کے ادب واحترام کا تقاضا ہے ۔ ہر مہذب آدمی جس کو لطیف اور روحانی حقیقتوں کا کچھ شعور و احساس ہو ۔ پیشاب یا پاخانے کے وقت کسی مقدس اور محترم چیز کی طرف منہ یا پیٹھ کر کے بیٹھنا بے ادبی اور گنوار ہپن سمجھتا ہے ۔
۲۔ دوسری ہدایت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دی کہ داہنا ہاتھ جو عام طور پر کھانے پینے ، لکھنے پڑھنے ، لینے دینے وغیرہ سارے کاموں میں استعمال ہوتا ہے اور جس کو ہمارے پیدا کرنے والے نے پیدائشی طور پر بائیں ہاتھ کے مقابلے میں زیادہ صلاحیت اور خاص فوقیت بخشی ہے اس کو استنجے کی گندگی کی صفائی کے لئے استعمال نہ کیا جائے ۔ یہ بات بھی ایسی ہے کہ ہر مہذب آدمی جس کو انسانی شرف کا کچھ شعور و احساس ہے ، اپنے بچوں کو یہ بات سکھانی ضروری سمجھتا ہے ۔
۳۔ تیسری ہدایت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دی ہے کہ استنجے میں صفائی کے لئے کم سے کم تین پتھر استعمال کرنے چاہئیں ، کیونکہ عام حال یہی ہے کہ تین سے کم میں پوری صفائی نہیں ہوتی ۔ پس اگر کوئی شخص محسوس کرے کہ اس کو صفائی کے لئے تین سے زیادہ پتھروں یا ڈھیلوں کے استعمال کرنے کی ضرورت ہے تو اپنی ضرورت کے مطابق زیادہ استعمال کرے ۔ یہ بھی ملحوظ رہے کہ حدیثوں میں استنجے کے لئے خاص پتھر کا ذکر اس لئے آتا ہے کہ عرب میں پتھر کے ٹکڑے ہی اس مقصد کے لئے استعمال ہوتے تھے ، ورنہ پتھر کی کوئی خصوصیت نہیںہے ۔ مٹی اور اسی طرح ہر ایسی پاک چیز سے یہ کام لیا جا سکتا ہے جس سے صفائی کا مقصد حاصل ہو سکتا ہو اس کا استعمال اس کام کے لئے نامناسب نہ ہو ۔
۴۔ چوتھی ہدایت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سلسلے میں یہ دی کہ کسی جانور کی گری پڑی ہڈی سے اور اسی طرح کسی جانور کے خشک فضلے سے یعنی لید وغیرہ سے استنجا نہ کیا جائے ۔ کیوں کہ زمانہ جاہلیت میں عرب کے بعض لوگ ان چیزوں سے بگھی استنجا کر لیا کرتے تھے اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صراحۃً اس سے منع فرما دیا ۔ اور ظاہر ہے کہ ایسی چیزوں سے استنجا کرنا سلیم الفطرت اور صاحب تمیز آدمی کے نزدیک بڑے گنوار پن کی بات ہے ۔
تشریح
جس طرح کھانا پینا انسان کی بنیادی ضرورتوں میں سے ہے اسی طرح پاخانہ پیشاب بھی ہر انسان کے ساتھ لگا ہوا ہے ۔ نبی برحق حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے جس طرح زندگی کے دوسرے کاموں اور شعبوں میں ہدایات دی ہیں اسی طرح پاخانہ و پیشاب اور طہارت و استنجا کے بارے میں بھی بتایا ہے کہ یہ مناسب ہے اور یہ نامناسب ، یہ درست ہے ، اور یہ نادرست ..... ۔
مندجہ بالا دونوں حدیثوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو ہدایات اس باب میں دی ہیں وہ چار ہیں ۔
۱۔ ایک یہ کہ پاخانہ کے لئے اس طرح بیٹھا جائے کہ قبلے کی طرف نہ منہ ہو نہ پیٹھ ۔ یہ قبلے کے ادب واحترام کا تقاضا ہے ۔ ہر مہذب آدمی جس کو لطیف اور روحانی حقیقتوں کا کچھ شعور و احساس ہو ۔ پیشاب یا پاخانے کے وقت کسی مقدس اور محترم چیز کی طرف منہ یا پیٹھ کر کے بیٹھنا بے ادبی اور گنوار ہپن سمجھتا ہے ۔
۲۔ دوسری ہدایت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دی کہ داہنا ہاتھ جو عام طور پر کھانے پینے ، لکھنے پڑھنے ، لینے دینے وغیرہ سارے کاموں میں استعمال ہوتا ہے اور جس کو ہمارے پیدا کرنے والے نے پیدائشی طور پر بائیں ہاتھ کے مقابلے میں زیادہ صلاحیت اور خاص فوقیت بخشی ہے اس کو استنجے کی گندگی کی صفائی کے لئے استعمال نہ کیا جائے ۔ یہ بات بھی ایسی ہے کہ ہر مہذب آدمی جس کو انسانی شرف کا کچھ شعور و احساس ہے ، اپنے بچوں کو یہ بات سکھانی ضروری سمجھتا ہے ۔
۳۔ تیسری ہدایت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دی ہے کہ استنجے میں صفائی کے لئے کم سے کم تین پتھر استعمال کرنے چاہئیں ، کیونکہ عام حال یہی ہے کہ تین سے کم میں پوری صفائی نہیں ہوتی ۔ پس اگر کوئی شخص محسوس کرے کہ اس کو صفائی کے لئے تین سے زیادہ پتھروں یا ڈھیلوں کے استعمال کرنے کی ضرورت ہے تو اپنی ضرورت کے مطابق زیادہ استعمال کرے ۔ یہ بھی ملحوظ رہے کہ حدیثوں میں استنجے کے لئے خاص پتھر کا ذکر اس لئے آتا ہے کہ عرب میں پتھر کے ٹکڑے ہی اس مقصد کے لئے استعمال ہوتے تھے ، ورنہ پتھر کی کوئی خصوصیت نہیںہے ۔ مٹی اور اسی طرح ہر ایسی پاک چیز سے یہ کام لیا جا سکتا ہے جس سے صفائی کا مقصد حاصل ہو سکتا ہو اس کا استعمال اس کام کے لئے نامناسب نہ ہو ۔
۴۔ چوتھی ہدایت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سلسلے میں یہ دی کہ کسی جانور کی گری پڑی ہڈی سے اور اسی طرح کسی جانور کے خشک فضلے سے یعنی لید وغیرہ سے استنجا نہ کیا جائے ۔ کیوں کہ زمانہ جاہلیت میں عرب کے بعض لوگ ان چیزوں سے بگھی استنجا کر لیا کرتے تھے اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صراحۃً اس سے منع فرما دیا ۔ اور ظاہر ہے کہ ایسی چیزوں سے استنجا کرنا سلیم الفطرت اور صاحب تمیز آدمی کے نزدیک بڑے گنوار پن کی بات ہے ۔
عَنْ سَلْمَانَ ، قَالَ : قِيلَ لَهُ : قَدْ عَلَّمَكُمْ نَبِيُّكُمْ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كُلَّ شَيْءٍ حَتَّى الْخِرَاءَةَ قَالَ : فَقَالَ : أَجَلْ « لَقَدْ نَهَانَا أَنْ نَسْتَقْبِلَ الْقِبْلَةَ لِغَائِطٍ ، أَوْ بَوْلٍ ، أَوْ أَنْ نَسْتَنْجِيَ بِالْيَمِينِ ، أَوْ أَنْ نَسْتَنْجِيَ بِأَقَلَّ مِنْ ثَلَاثَةِ أَحْجَارٍ ، أَوْ أَنْ نَسْتَنْجِيَ بِرَجِيعٍ أَوْ بِعَظْمٍ » (رواه مسلم)

তাহকীক:
হাদীস নং: ৪০৮
کتاب الطہارت
قضاء حاجت اور استنجاء سے متعلق ہدایات
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب استنجے کو جاتے تھے تو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پانی لا کے دیتا تھا ، پانی کے برتن تور میں (جو کانسی یا پتھر سے بنا ہوا ایک برتن ہوتا تھا) یا کوہ میں (یعنی چمڑے کے چھوٹے مشکیزے میں) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے طہارت کرتے تھے ، پھر اپنے ہاتھ کو زمین کی مٹی پر ملتے تھے ، پھر دوسرا برتن پانی کا لاتا تھا تو اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم وضو کرتے تھے ۔ (سنن ابی داؤد)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پتھر وغیرہ سے استنجا کرنے کے بعد پانی سے بھی طہارت فرماتے تھے ، پھر اس کے بعد ہاتھ کو زمین پر مل کر دھوتے تھے ، اس کے بعد وضو بھی فرماتے تھے ..... حدیث کے راوی حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے استنجے اور وضو کے لئے پانی لا کر دینے کی سعادت عموماً مجھے حاصل ہوتی تھی ..... صحیحین کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اس خدمت میں حضرت انس رضی اللہ عنہ کا بھی خاص حصہ تھا ۔
جیسا کہ اس حدیث سے معلوم ہوا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادتِ مبارکہ یہی تھی کہ قضائے حاجت اور استنجے سے فارغ ہر کر وضو بھی فرماتے تھے لیکن کبھی کبھی یہ ظاہر کرنے کے لئے کہ یہ وضو کرنا صرف اولیٰ و افضل ہے فرض یا واجب نہیں ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو ترک بھی کیا ۔ چنانچہ سنن ابی داؤد اور سنن ابن ماجہ میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پیشاب سے فارغ ہوئے تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وضو کے لئے پانی لے کر کھڑے ہو گئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ؑ نے فرمایا کہ “ عمر یہ کیا ہے ، کس کے لئے پانی لئے کھڑے ہو ؟ ” حضرت عمرؓ نے عرض کیا ، آپ کے وضو کے لئے پانی لایا ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں اس کے لئے مامور نہیں ہوں کہ پیشاب کروں تو ضرور ہی وضو کروں اور اگر میں پابندی اور مداومت کروں تو امت کے لیے ایک قانون اور دستور بن جائے گا ۔
اس حدیث سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسئلہ کی صحیح نوعت اپنے عمل سے واضح کرنے کے لئے اور امت کو غلط فہمی اور مشقت سے بچانے کے لئے کبھی کبھی اولیٰ اور افضل کو ترک بھی فرما دیتے تھے ۔
تشریح
مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پتھر وغیرہ سے استنجا کرنے کے بعد پانی سے بھی طہارت فرماتے تھے ، پھر اس کے بعد ہاتھ کو زمین پر مل کر دھوتے تھے ، اس کے بعد وضو بھی فرماتے تھے ..... حدیث کے راوی حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے استنجے اور وضو کے لئے پانی لا کر دینے کی سعادت عموماً مجھے حاصل ہوتی تھی ..... صحیحین کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اس خدمت میں حضرت انس رضی اللہ عنہ کا بھی خاص حصہ تھا ۔
جیسا کہ اس حدیث سے معلوم ہوا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادتِ مبارکہ یہی تھی کہ قضائے حاجت اور استنجے سے فارغ ہر کر وضو بھی فرماتے تھے لیکن کبھی کبھی یہ ظاہر کرنے کے لئے کہ یہ وضو کرنا صرف اولیٰ و افضل ہے فرض یا واجب نہیں ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو ترک بھی کیا ۔ چنانچہ سنن ابی داؤد اور سنن ابن ماجہ میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پیشاب سے فارغ ہوئے تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وضو کے لئے پانی لے کر کھڑے ہو گئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ؑ نے فرمایا کہ “ عمر یہ کیا ہے ، کس کے لئے پانی لئے کھڑے ہو ؟ ” حضرت عمرؓ نے عرض کیا ، آپ کے وضو کے لئے پانی لایا ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں اس کے لئے مامور نہیں ہوں کہ پیشاب کروں تو ضرور ہی وضو کروں اور اگر میں پابندی اور مداومت کروں تو امت کے لیے ایک قانون اور دستور بن جائے گا ۔
اس حدیث سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسئلہ کی صحیح نوعت اپنے عمل سے واضح کرنے کے لئے اور امت کو غلط فہمی اور مشقت سے بچانے کے لئے کبھی کبھی اولیٰ اور افضل کو ترک بھی فرما دیتے تھے ۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ : « كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَتَى الْخَلَاءَ ، أَتَيْتُهُ بِمَاءٍ فِي تَوْرٍ أَوْ رَكْوَةٍ فَاسْتَنْجَى ثُمَّ مَسَحَ يَدَهُ عَلَى الْأَرْضِ ، ثُمَّ أَتَيْتُهُ بِإِنَاءٍ آخَرَ فَتَوَضَّأَ » (رواه ابوداؤد)

তাহকীক:
হাদীস নং: ৪০৯
کتاب الطہارت
قضاء حاجت اور استنجاء سے متعلق ہدایات
حضرت ابو ایوب انصاری اور حضرت جابر اور حضرت انس رضی اللہ عنہم سے روایت ہے تینوں حضرات بیان فرماتے ہیں کہ مسجد قبا کے بارے میں جب (سورہ توبہ) کی یہ آیت نازل ہوئی “ فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ ” (اس مسجد میں ہمارے ایسے بندے ہیں جو پاکیزگی پسند کرتے ہیں اور اللہ ایسے پاکیزگی پسند لوگوں سے محبت کرتا ہے) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اس مسجد میں نمازیں پڑھنے والے اور اس کو آباد کرنے والے انصار سے) فرمایا ۔ اے گروہ انصار اللہ تعالیٰ نے طہارت و پاکیزگی کے بارے میں تمہاری تعریف فرمائی ہے تو وہ تمہاری کیا صفائی اور پاکیزگی ہے ؟ انہوں نے عرض کیا کہ (طہارت و پاکیزگی کی کوئی خاص بات اس کے سوا تو ہم اپنے میں نہیں پاتے) کہ نماز کے لئے وضو کرتے ہیں ، جنابت کا غسل کرتے ہیں اور پانی سے استنجا کرتے ہیں (یعنی صرف پتھر وغیرہ کے استعمال پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ بعد میں پانی سے بھی استنجا کرتے ہیں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : بس یہی بات ہے ، پس تم اس کو اپنے اوپر لازم کر لو ۔ (سنن ابن ماجہ)
تشریح
عرب کے بہت سے لوگ صرف ڈھیلے پتھر سے استنجا کرنے پر اکتفا کرتے تھے ، اور حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ (موٹی جھوٹی غذا اور ہاضمے کی درستی کی وجہ سے) ان لوگوں کو اجابت اونٹ کی مینگنیوں کی طرح خشک ہوتی تھی اس لئے استنجے میں ان کو پانی کے استعمال کی خاص ضرورت بھی نہیں ہوتی تھی ۔ اور پتھر کے استعمال پر اکتفا کر لیتے تھے لیکن انصار کی عادت پانی کے استعمال کی بھی تھی ، قرآن مجید میں ان کی اس پاکیزگی پسندی کی تحسین و تعریف نازل ہوئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو ہدایت فرمائی کہ وہ اس کو اپنے اوپر لازم کر لیں ..... اور خود آپ کا طرز عمل تو یہ تھا ہی ..... الغرض قرآن مجید نے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد اور طرز عمل نے امت مسلمہ کو ہداسیت دی کہ اگر بالفرض کسی کا حال یہ ہو کہ اجابت کی خشکی کی وجہ سے ڈھیلے ، پتھر وغیرہ کا استعمال کافی ہو ، تب بھی وہ پانی سے استنجا کرے اور ہاتھ کو مٹی وغیرہ سے مانجھے ۔ پاکیزگی پسندی کا تقاضا یہی ہے اور اللہ تعالیٰ کو یہی طریقہ پسند ہے ۔
تشریح
عرب کے بہت سے لوگ صرف ڈھیلے پتھر سے استنجا کرنے پر اکتفا کرتے تھے ، اور حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ (موٹی جھوٹی غذا اور ہاضمے کی درستی کی وجہ سے) ان لوگوں کو اجابت اونٹ کی مینگنیوں کی طرح خشک ہوتی تھی اس لئے استنجے میں ان کو پانی کے استعمال کی خاص ضرورت بھی نہیں ہوتی تھی ۔ اور پتھر کے استعمال پر اکتفا کر لیتے تھے لیکن انصار کی عادت پانی کے استعمال کی بھی تھی ، قرآن مجید میں ان کی اس پاکیزگی پسندی کی تحسین و تعریف نازل ہوئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو ہدایت فرمائی کہ وہ اس کو اپنے اوپر لازم کر لیں ..... اور خود آپ کا طرز عمل تو یہ تھا ہی ..... الغرض قرآن مجید نے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد اور طرز عمل نے امت مسلمہ کو ہداسیت دی کہ اگر بالفرض کسی کا حال یہ ہو کہ اجابت کی خشکی کی وجہ سے ڈھیلے ، پتھر وغیرہ کا استعمال کافی ہو ، تب بھی وہ پانی سے استنجا کرے اور ہاتھ کو مٹی وغیرہ سے مانجھے ۔ پاکیزگی پسندی کا تقاضا یہی ہے اور اللہ تعالیٰ کو یہی طریقہ پسند ہے ۔
عَنْ أَبِىْ أَيُّوبَ ، وَجَابِرُ ، وَأَنَسُ ، أَنَّ هَذِهِ الْآيَةَ نَزَلَتْ {فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ} قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : « يَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ ، إِنَّ اللَّهَ قَدْ أَثْنَى عَلَيْكُمْ فِي الطُّهُورِ ، فَمَا طُهُورُكُمْ؟ » قَالُوا : نَتَوَضَّأُ لِلصَّلَاةِ ، وَنَغْتَسِلُ مِنَ الْجَنَابَةِ ، وَنَسْتَنْجِي بِالْمَاءِ. قَالَ : « فَهُوَ ذَاكَ ، فَعَلَيْكُمُوهُ » (رواه ابن ماجه)

তাহকীক:
হাদীস নং: ৪১০
کتاب الطہارت
قضاء حاجت اور استنجاء سے متعلق ہدایات
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ لعنت کا سبب بننے والی دو باتوں سے بچو ، صحابہؓ نے عرض کیا کہ حضرت ! وہ دو باتیں کیا ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک یہ کہ آدمی لوگوں کے راستے میں قضائے حاجت کرے اور دوسرے یہ کہ ان کے سائے کی جگہ میں ایس کرے ۔ (صحیح مسلم)
تشریح
مطلب یہ کہ لوگ جس راستے پر چلتے ہوں یا سائے کی جگہ آرام کرنے کے لئے بیٹھتے ہوں اگر کوئی گنوار آدمی وہاں قضائے حاجت کرے گا تو لوگوں کو اس سے اذیت اور تکلیف پہنچے گی اور وہ اس کو برا بھلا کہیں گے اور لعنت کریں گے ۔ لہذا ایسی باتوں سے بچنا چاہئے ..... اور سنن ابی داؤد میں حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اس مضمون کی ایک حدیث مروی ہے ، اس میں راستے اور سائے کے علاوہ ایک تیسری جگہ موارد کا بھی ذکر ہے ۔ جس سے مراد وہ مقامات ہیں جہاں پانی کا کوئی انتظام ہو اور اس کی وجہ سے لوگ وہاں آتے ہوں ۔ اصل مقصد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کا بس یہ ہے کہ اگر گھر کے علاوہ جنگل وغیرہ میں ضرورت پیش آ جائے تو ایسی جگہ تلاش کرنی چاہئے جہاں لوگوں کی آمدورفت نہ ہو اور ان کے لیے باعث تکلیف نہ بنے ۔
تشریح
مطلب یہ کہ لوگ جس راستے پر چلتے ہوں یا سائے کی جگہ آرام کرنے کے لئے بیٹھتے ہوں اگر کوئی گنوار آدمی وہاں قضائے حاجت کرے گا تو لوگوں کو اس سے اذیت اور تکلیف پہنچے گی اور وہ اس کو برا بھلا کہیں گے اور لعنت کریں گے ۔ لہذا ایسی باتوں سے بچنا چاہئے ..... اور سنن ابی داؤد میں حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اس مضمون کی ایک حدیث مروی ہے ، اس میں راستے اور سائے کے علاوہ ایک تیسری جگہ موارد کا بھی ذکر ہے ۔ جس سے مراد وہ مقامات ہیں جہاں پانی کا کوئی انتظام ہو اور اس کی وجہ سے لوگ وہاں آتے ہوں ۔ اصل مقصد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کا بس یہ ہے کہ اگر گھر کے علاوہ جنگل وغیرہ میں ضرورت پیش آ جائے تو ایسی جگہ تلاش کرنی چاہئے جہاں لوگوں کی آمدورفت نہ ہو اور ان کے لیے باعث تکلیف نہ بنے ۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : « اتَّقُوا اللَّاعِنَيْنِ » ، قَالُوا : وَمَا اللَّاعِنَانِ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ : « الَّذِي يَتَخَلَّى فِي طَرِيقِ النَّاسِ أَوْ ظِلِّهِمْ » (رواه مسلم)

তাহকীক:
হাদীস নং: ৪১১
کتاب الطہارت
قضاء حاجت اور استنجاء سے متعلق ہدایات
حضرت ابو ایوب انصاری اور حضرت جابر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دستور تھا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قضائے حاجت کے لئے باہر جانا ہوتا تو اتنی دور اور ایسی جگہ تشریف لے جاتے کہ کسی کی نظر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نہ پڑ سکتی ۔ (سنن ابی داؤد)
تشریح
اللہ تعالیٰ نے انسان کی فطرت میں شرم و حیا اور شرافت کا جو مادہ ودیعت رکھا ہے اس کا تقاضا ہے کہ انسان اس کی کوشش کرے کہ اپنے اس قسم کی بشری ضرورتیں اس طرح پوری کرے کہ کوئی آنکھ اس کو نہ دیکھے ، اگرچہ اس کے لئے اس کو دور سے دور جانے کی تکلیف اٹھانی پڑے ، یہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل تھا اور یہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم تھی ۔
تشریح
اللہ تعالیٰ نے انسان کی فطرت میں شرم و حیا اور شرافت کا جو مادہ ودیعت رکھا ہے اس کا تقاضا ہے کہ انسان اس کی کوشش کرے کہ اپنے اس قسم کی بشری ضرورتیں اس طرح پوری کرے کہ کوئی آنکھ اس کو نہ دیکھے ، اگرچہ اس کے لئے اس کو دور سے دور جانے کی تکلیف اٹھانی پڑے ، یہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل تھا اور یہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم تھی ۔
عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، « أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا أَرَادَ الْبَرَازَ انْطَلَقَ ، حَتَّى لَا يَرَاهُ أَحَدٌ » (رواه ابوداؤد)

তাহকীক:
হাদীস নং: ৪১২
کتاب الطہارت
قضاء حاجت اور استنجاء سے متعلق ہدایات
حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا ، آپ کو پیشاب کا تقاضا ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دیوار کے نیچے نرم اور نشیبی زمین کی طرف آئے اور وہاں پیشاب سے فارغ ہوئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم میں سے کسی کو پیشاب کرنا ہو تو اس کے لئے مناسب جگہ تلاش کرے ۔ (سنن ابی داؤد)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ پیشاب کے لئے ایسی جگہ تلاش کر کے بیٹھنا چاہئے جہاں پردہ بھی ہو اور اپنے اوپر چھینٹے پڑنے کا خطرہ نہ ہو اور رخ بھی غلط نہ ہو ۔
اللہ تعالیٰ کی بے شمار رحمتیں اسکے پاک پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم پر جس نے امت کو پیشاب پاخانے تک کے آداب سکھائے ۔
تشریح
مطلب یہ ہے کہ پیشاب کے لئے ایسی جگہ تلاش کر کے بیٹھنا چاہئے جہاں پردہ بھی ہو اور اپنے اوپر چھینٹے پڑنے کا خطرہ نہ ہو اور رخ بھی غلط نہ ہو ۔
اللہ تعالیٰ کی بے شمار رحمتیں اسکے پاک پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم پر جس نے امت کو پیشاب پاخانے تک کے آداب سکھائے ۔
عَنْ أَبِي مُوسَى قَالَ كُنْتُ مَعَ النَّبِىِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ فَأَرَادَ أَنْ يَبُولَ ، فَأَتَى دَمِثًا فِي أَصْلِ جِدَارٍ فَبَالَ ، ثُمَّ قَالَ : صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ « إِذَا أَرَادَ أَحَدُكُمْ أَنْ يَبُولَ فَلْيَرْتَدْ لِبَوْلِهِ مَوْضِعًا » (رواه ابوداؤد)

তাহকীক:
হাদীস নং: ৪১৩
کتاب الطہارت
قضاء حاجت اور استنجاء سے متعلق ہدایات
حضرت عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہدایت فرمائی کہ تم میں سے کوئی ہرگز ایسا نہ کرے کہ اپنے غسل خانے میں پہلے پیشاب کرے پھر اس میں غسل یا وضو کرے اکثر وسوسے اسی سے پیدا ہوتے ہیں ۔
تشریح
مطلب یہ ہے کہ ایسا کرنا بہت ہی غلط اور بڑی بدتمیزی کی بات ہے کہ آدمی اپنے غسل کرنے کی جگہ میں پہلے پیشاب کرے اور پھر وہیں غسل یا وضو کرے ، ایسا کرنے کا ایک برا نتیجہ یہ ہے کہ اس سے پیشاب کی چھینٹوں کے وسوسے پیدا ہوتے ہیں ..... اس آخری جملے سے یہ بھی معلوم ہو گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کا تعلق اسی صورت سے ہے کہ جب غسل خانہ میں پیشاب کے بعد غسل یا وضو کرنے سے ناپاک جگہ کی چھینٹوں کے اپنے اوپر پڑنے کا اندیشہ ہو ورنہ اگر غسل خانہ کی بناوٹ ایسی ہے کہ اس میں پیشاب کے لئے اگل جگہ بنی ہوئی ہے یا اس کا فرش ایسا بنایا گیا ہے کہ پیشاب کرنے کے بعد پانی بہا دینے سے اس کی پوری صفائی اور طہارت ہو جاتی ہے تو پھر اس کا حکم یہ نہیں ہے ۔
تشریح
مطلب یہ ہے کہ ایسا کرنا بہت ہی غلط اور بڑی بدتمیزی کی بات ہے کہ آدمی اپنے غسل کرنے کی جگہ میں پہلے پیشاب کرے اور پھر وہیں غسل یا وضو کرے ، ایسا کرنے کا ایک برا نتیجہ یہ ہے کہ اس سے پیشاب کی چھینٹوں کے وسوسے پیدا ہوتے ہیں ..... اس آخری جملے سے یہ بھی معلوم ہو گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کا تعلق اسی صورت سے ہے کہ جب غسل خانہ میں پیشاب کے بعد غسل یا وضو کرنے سے ناپاک جگہ کی چھینٹوں کے اپنے اوپر پڑنے کا اندیشہ ہو ورنہ اگر غسل خانہ کی بناوٹ ایسی ہے کہ اس میں پیشاب کے لئے اگل جگہ بنی ہوئی ہے یا اس کا فرش ایسا بنایا گیا ہے کہ پیشاب کرنے کے بعد پانی بہا دینے سے اس کی پوری صفائی اور طہارت ہو جاتی ہے تو پھر اس کا حکم یہ نہیں ہے ۔
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " لَا يَبُولَنَّ أَحَدُكُمْ فِي مُسْتَحَمِّهِ ثُمَّ يَغْتَسِلُ فِيهِ أَوْ يَتَوَضَّأُ فِيهِ فَإِنَّ عَامَّةَ الْوَسْوَاسِ مِنْهُ " (رواه ابوداؤد)

তাহকীক:
হাদীস নং: ৪১৪
کتاب الطہارت
قضاء حاجت اور استنجاء سے متعلق ہدایات
حضرت عبداللہ بن سرجس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تم میں سے کوئی ہرگز کسی سوراخ میں پیشاب نہ کرے ۔ (سنن ابی داؤد و سنن نسائی)
تشریح
جنگل میں اور اسی طرح گھروں میں جو سوراخ ہوتے ہین وہ عموماً حشرات الارض کے ہوتے ہیں ۔ اگر کوئی گنوار آدمی یا نادان بچہ کسی سوراخ میں پیشاب کرے تو ایک تو اس میں رہنے والے حشرات الارض کو بے ضرورت اور بے فائدہ تکلیف ہو گی ، دوسرے یہ خطرہ ہے کہ وہ سوراخ سانپ یا بچھو جیسی کسی زہریلی چیز کا ہو اور وہ اچانک نکل کر کاٹ لے ایسے واقعات بکثرت نقل بھی کئے گئے ہیں ، بہر حال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (جو امت کے ہر طبقے کے لئے اصل مربی اور معلم ہیں) سوراخ میں پیشاب کرنے سے ان ہی وجوہ سے بتاکید منع فرمایا ہے ۔
تشریح
جنگل میں اور اسی طرح گھروں میں جو سوراخ ہوتے ہین وہ عموماً حشرات الارض کے ہوتے ہیں ۔ اگر کوئی گنوار آدمی یا نادان بچہ کسی سوراخ میں پیشاب کرے تو ایک تو اس میں رہنے والے حشرات الارض کو بے ضرورت اور بے فائدہ تکلیف ہو گی ، دوسرے یہ خطرہ ہے کہ وہ سوراخ سانپ یا بچھو جیسی کسی زہریلی چیز کا ہو اور وہ اچانک نکل کر کاٹ لے ایسے واقعات بکثرت نقل بھی کئے گئے ہیں ، بہر حال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (جو امت کے ہر طبقے کے لئے اصل مربی اور معلم ہیں) سوراخ میں پیشاب کرنے سے ان ہی وجوہ سے بتاکید منع فرمایا ہے ۔
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَرْجِسَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : « لَا يَبُولَنَّ أَحَدُكُمْ فِي جُحْرٍ » (رواه ابوداؤد والنسائى)

তাহকীক:
হাদীস নং: ৪১৫
کتاب الطہارت
قضاء حاجت کے مقام پر جانے کی دُعا
حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا حاجت کے ان مقامات میں خبیث مخلوق شیاطین وغیرہ رہتے ہیں ، پس تم میں سے کوئی جب بیت الخلاء جاوے تو چاہئے کہ پہلے یہ دیا کرے کہ میں اللہ کی پناہ لیتا ہوں خبیثوں سے اور خبیثیوں سے ۔ (سنن ابی داؤد و سنن ابن ماجہ)
تشریح
جس طرح ملئکہ کو طہارت و نظافت اور ذکر اللہ سے اور ذکر و عبادات کے مقامات سے خاص مناسبت ہے اور وہیں ان کا جی لگتا ہے اسی طرح شیاطین جیسی خبیث خلوقات کو گندگیوں سے اور گندے مقامات سے خاص مناسبت ہے اور وہی ان کے مراکز اور دلچسپی کے مقامات ہیں ، اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو یہ تعلیم دی کہ قضائے حاجت کی مجبوری سے جب کسی کو ان گندے مقامات میں جانا ہو تو پہلے وہاں رہنے والے خبیثوں اور خبیثیوں کے شر سے اللہ سے پناہ مانگے اس کے بعد وہاں قدم رکھے ..... ہم عوام کا حال یہ ہے کہ نہ ذکر و عبادت کے مقامات میں ہم فرشتوں کی آمد اور ان کا نزول محسوس کرتے ہیں اور نہ گندے مقامات پر ہمیں شیاطین کے وجود کا احساس ہوتا ہے لیکن صادق و مصدوق حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی خبر دی ہے اور اللہ کے بعض بندے اس کے خاص فضل سے ان حقیقتوں کو کبھی کبھی خود بھی اسی طرح محسوس کرتے ہیں اور اس سے ان کے ایمان میں بڑی ترقی ہوتی ہے ۔
تشریح
جس طرح ملئکہ کو طہارت و نظافت اور ذکر اللہ سے اور ذکر و عبادات کے مقامات سے خاص مناسبت ہے اور وہیں ان کا جی لگتا ہے اسی طرح شیاطین جیسی خبیث خلوقات کو گندگیوں سے اور گندے مقامات سے خاص مناسبت ہے اور وہی ان کے مراکز اور دلچسپی کے مقامات ہیں ، اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو یہ تعلیم دی کہ قضائے حاجت کی مجبوری سے جب کسی کو ان گندے مقامات میں جانا ہو تو پہلے وہاں رہنے والے خبیثوں اور خبیثیوں کے شر سے اللہ سے پناہ مانگے اس کے بعد وہاں قدم رکھے ..... ہم عوام کا حال یہ ہے کہ نہ ذکر و عبادت کے مقامات میں ہم فرشتوں کی آمد اور ان کا نزول محسوس کرتے ہیں اور نہ گندے مقامات پر ہمیں شیاطین کے وجود کا احساس ہوتا ہے لیکن صادق و مصدوق حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی خبر دی ہے اور اللہ کے بعض بندے اس کے خاص فضل سے ان حقیقتوں کو کبھی کبھی خود بھی اسی طرح محسوس کرتے ہیں اور اس سے ان کے ایمان میں بڑی ترقی ہوتی ہے ۔
عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِنَّ هَذِهِ الْحُشُوشَ مُحْتَضَرَةٌ ، فَإِذَا أَتَى أَحَدُكُمُ الْخَلَاءَ فَلْيَقُلْ : أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الْخُبُثِ وَالْخَبَائِثِ " (رواه ابوداؤد وابن ماجه)

তাহকীক:
হাদীস নং: ৪১৬
کتاب الطہارت
قضائے حاجت سے فارغ ہونے کے بعد کی دُعا
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دستور تھا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم حاجت سے فارغ ہو کر بیت الخلاء سے باہر آتے تو اللہ تعالیٰ سے عرض کرتے “ غُفْرَانَكَ ” (اے اللہ تیری پوری مغفرت کا طالب و سائل ہوں) ۔ (ترمذی و سنن ابن ماجہ)
تشریح
قضاء حاجت سے فارغ ہونے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس مغفرت طلبی کی متعدد توجیہیں کی گئی ہیں ، ان میں سب سے زیادہ لطیف اور دل کو لگنے والی توجیہ اس عاجز کے نزدیک یہ ہے کہ انسان کے پیٹ میں جو گندہ فُضلہ ہوتا ہے وہ ہر انسان کے لئے ایک قسم کے انقباض اور گرانی کا باعث ہوتا ہے اور اگر وہ وقت پر خارج نہ ہو تو اس سے طرح طرح کی تکلیفیں اور بیماریاں پیدا ہو جاتی ہیں ۔ اور اگر طبعی تقاضے کے مطابق پوری طرح خارج ہو جائے تو آدمی ایک ہلکا پن اور ایک خاص قسم کا انشراح محسوس کرتا ہے اور اس کا تجربہ ہر انسان کو ہوتا ہے ..... اسی طرح سمجھنا چاہئے کہ صحیح احساس رکھنے والے عارفین کے لئے بالکل یہی حال گناہوں کا ہے وہ ہر طبعی انقباض اور دنیا کے ہر اندرونی اور بیرونی بوجھ اور ہر گرانی سے زیادہ گناہوں کے بوجھ اور ان کی گرانی اور اذیت کو محسوس کرتے ہیں اور گناہوں کے بارے اپنی پیٹھ کے ہلکا ہونے کی فکر ان کو بالکل ویسی ہی ہوتی ہے جیسی کہ ہم جیسے عام انسانوں کو پیٹ کی آنتوں سے گندے فضلے کے خارج ہو جانے کی ، پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اس بشری تقاضے سے فارغ ہوتے اور انسانی فطرت کے مطابق طبیعت ہلکی اور منشرح ہوتی تو مذکورہ بالا احساس کے مطابق اللہ تعالیٰ سے دعا فرماتے کہ جس طرح تو نے اس گندے فضلے کو میرے جسم سے خارج کر کے میری طبیعت کو ہلکا کر دیا اور مجھے راحت و عافیت عطا فرمائی اسی طرح میرے گناہوں کی پوری پوری مغفرت فرما کر میری روح کو پاک صاف اور گناہوں کے بوجھ سے میری پیٹھ کو ہلکا کر دے ۔
رہا یہ سوال کہ گناہوں سے معصوم ہونے کے باوجود اور “ لِّيَغْفِرَ لَكَ اللّٰهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْۢبِكَ وَ مَا تَاَخَّرَ ” کے قرآنی اعلان کے بعد بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گناہوں سے استغفار کیوں فرماتے تھے تو اس کا جواب تفصیل سے ان شاء اللہ آگے کتاب الصلاۃ میں تہجد کے بیان میں آئے گا ۔
تشریح
قضاء حاجت سے فارغ ہونے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس مغفرت طلبی کی متعدد توجیہیں کی گئی ہیں ، ان میں سب سے زیادہ لطیف اور دل کو لگنے والی توجیہ اس عاجز کے نزدیک یہ ہے کہ انسان کے پیٹ میں جو گندہ فُضلہ ہوتا ہے وہ ہر انسان کے لئے ایک قسم کے انقباض اور گرانی کا باعث ہوتا ہے اور اگر وہ وقت پر خارج نہ ہو تو اس سے طرح طرح کی تکلیفیں اور بیماریاں پیدا ہو جاتی ہیں ۔ اور اگر طبعی تقاضے کے مطابق پوری طرح خارج ہو جائے تو آدمی ایک ہلکا پن اور ایک خاص قسم کا انشراح محسوس کرتا ہے اور اس کا تجربہ ہر انسان کو ہوتا ہے ..... اسی طرح سمجھنا چاہئے کہ صحیح احساس رکھنے والے عارفین کے لئے بالکل یہی حال گناہوں کا ہے وہ ہر طبعی انقباض اور دنیا کے ہر اندرونی اور بیرونی بوجھ اور ہر گرانی سے زیادہ گناہوں کے بوجھ اور ان کی گرانی اور اذیت کو محسوس کرتے ہیں اور گناہوں کے بارے اپنی پیٹھ کے ہلکا ہونے کی فکر ان کو بالکل ویسی ہی ہوتی ہے جیسی کہ ہم جیسے عام انسانوں کو پیٹ کی آنتوں سے گندے فضلے کے خارج ہو جانے کی ، پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اس بشری تقاضے سے فارغ ہوتے اور انسانی فطرت کے مطابق طبیعت ہلکی اور منشرح ہوتی تو مذکورہ بالا احساس کے مطابق اللہ تعالیٰ سے دعا فرماتے کہ جس طرح تو نے اس گندے فضلے کو میرے جسم سے خارج کر کے میری طبیعت کو ہلکا کر دیا اور مجھے راحت و عافیت عطا فرمائی اسی طرح میرے گناہوں کی پوری پوری مغفرت فرما کر میری روح کو پاک صاف اور گناہوں کے بوجھ سے میری پیٹھ کو ہلکا کر دے ۔
رہا یہ سوال کہ گناہوں سے معصوم ہونے کے باوجود اور “ لِّيَغْفِرَ لَكَ اللّٰهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْۢبِكَ وَ مَا تَاَخَّرَ ” کے قرآنی اعلان کے بعد بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گناہوں سے استغفار کیوں فرماتے تھے تو اس کا جواب تفصیل سے ان شاء اللہ آگے کتاب الصلاۃ میں تہجد کے بیان میں آئے گا ۔
عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ : كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا خَرَجَ مِنَ الْخَلاَءِ ، قَالَ : غُفْرَانَكَ. (رواه الترمذى وابن ماجه)

তাহকীক:
হাদীস নং: ৪১৭
کتاب الطہارت
قضائے حاجت سے فارغ ہونے کے بعد کی دُعا
حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب قضاء حاجت سے فارغ ہو کر بیت الخلاء سے باہر تشریف لاتے تو کہتے “ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي ” الخ الخ (اس اللہ کے لئے حمد و شکر جس نے مجھ سے گندگی دور فرمائی اور مجھے عافیت بخشی) ۔ (سنن نسائی)
تشریح
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی اوپر والی حدیث سے معلوم ہوا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیت الخلاء سے باہر آ کر “ غُفْرَانَكَ ” کہتے تھے اور حضر ابو ر غفاریؓ کی اس حدیث سے یہ دوسری دعا معلوم ہوئی ۔ واقعہ یہ ہے کہ مضمون کے لحاظ سے یہ دونوں دعائیں موقع کے بہت مناسب اور بر محل ہیں ، اس لئے خیال یہ ہے کہ کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ کہتے ہوں گے اور کبھی وہ ۔ واللہ اعلم ۔
تشریح
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی اوپر والی حدیث سے معلوم ہوا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیت الخلاء سے باہر آ کر “ غُفْرَانَكَ ” کہتے تھے اور حضر ابو ر غفاریؓ کی اس حدیث سے یہ دوسری دعا معلوم ہوئی ۔ واقعہ یہ ہے کہ مضمون کے لحاظ سے یہ دونوں دعائیں موقع کے بہت مناسب اور بر محل ہیں ، اس لئے خیال یہ ہے کہ کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ کہتے ہوں گے اور کبھی وہ ۔ واللہ اعلم ۔
عَنْ أَبِىْ ذَرٍّ قَالَ : كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : إِذَا خَرَجَ مِنَ الْخَلَاءِ ، قَالَ : « الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَذْهَبَ عَنِّي الْأَذَى وَعَافَانِي » (رواه النسائى)

তাহকীক:
হাদীস নং: ৪১৮
کتاب الطہارت
وضو اور اس کے فضائل و برکات: وضو گناہوں کی صفائی اور معافی کا ذریعہ
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص نے وضو کیا اور (بتائے ہوئے طریقہ کے مطابق) خوب اچھی طرح وضو کیا تو اس کے سارے گناہ نکل جائیں گے یہاں تک کہ اس کے ناخنوں کے نیچے سے بھی ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
تشریح
حضرت شاہ والی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے یہ بات پہلے ذکر کی جا چکی ہے کہ جن سلیم الفطرت انسانوں کی روحانیت بہیمت سے مغلوب نہیں ہوئی ہے وہ حدث کی حالت میں ..... یعنی جب پیشاب پاخانے جیسے کسی سبب سے ان کا وضو ٹوٹ جائے تو اپنے باطن میں وہ ایک گونہ ظلمت و کدورت اور ایک طرح کی گندگی محسوس کرتے ہیں ۔ (اور اصل حدث یہی کیفیت ہے) اور شریعت اسلامی نے اسی کے ازالہ کے لئے وضو مقرر فرمایا ہے ..... جن بندوں نے بہیمیت کے سفلی تقاضوں سے مغلوب ہو کر اپنے لطیف روحانی احساسات کو فنا نہیں کر دیا ہے وہ حدث کی حالت میں اس باطنی گندگی اور ظلمت کو بھی محسوس کرتے ہیں اور یہ بھی محسوس کرتے ہیں کہ وضو سے یہ کیفیت زائل ہو کر ایک روحانی پاکیزگی و نورانیت پیدا ہو جاتی ہے ۔ وضو کا اصل مقصد و موضوع تو یہی ہے اور اسی وجہ سے اس کو نماز یعنی بارگاہِ الٰہی کی خاص حضوری کی لازمی شرط قرار دیا گیا ہے ۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اس میں اپنے فضل سے اس کے علاوہ بھی بہت سی برکات رکھی ہیں ..... رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس طرح امت کو وضو کا طریقہ اور اس کے متعلق احکام بتلائے ہیں اُسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے فضائل و برکات بھی بیان فرمائے ہیں ۔ پہلے چند حدیثیں اسی سلسلہ کی پڑھ لی جائیں ۔
مطلب یہ ہے کہ جو شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم و ہدایت کے مطابق باطنی پاکیزگی حاصل کرنے کے لئے آداب و سنن وغیرہ کی رعایت کے ساتھ اچھی طرح وضو کرے گا تو اس سے صرف اعضائے وضو کی میل کچیل اور حدث والی باطنی ناپاکی ہی دور نہ ہو گی بلکہ اس کی برکت سے اس کے سارے جسم کے گناہوں کی ناپاکی بھی نکل جائے گی اور وہ شخص حدث سے پاک ہونے کے علاوہ گناہوں سے بھی پاک صاف ہو جائے گا ۔ آگے آنے والی بعض حدیثوں سے اس کی مزید تفصیل معلوم ہو گی ۔
تشریح
حضرت شاہ والی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے یہ بات پہلے ذکر کی جا چکی ہے کہ جن سلیم الفطرت انسانوں کی روحانیت بہیمت سے مغلوب نہیں ہوئی ہے وہ حدث کی حالت میں ..... یعنی جب پیشاب پاخانے جیسے کسی سبب سے ان کا وضو ٹوٹ جائے تو اپنے باطن میں وہ ایک گونہ ظلمت و کدورت اور ایک طرح کی گندگی محسوس کرتے ہیں ۔ (اور اصل حدث یہی کیفیت ہے) اور شریعت اسلامی نے اسی کے ازالہ کے لئے وضو مقرر فرمایا ہے ..... جن بندوں نے بہیمیت کے سفلی تقاضوں سے مغلوب ہو کر اپنے لطیف روحانی احساسات کو فنا نہیں کر دیا ہے وہ حدث کی حالت میں اس باطنی گندگی اور ظلمت کو بھی محسوس کرتے ہیں اور یہ بھی محسوس کرتے ہیں کہ وضو سے یہ کیفیت زائل ہو کر ایک روحانی پاکیزگی و نورانیت پیدا ہو جاتی ہے ۔ وضو کا اصل مقصد و موضوع تو یہی ہے اور اسی وجہ سے اس کو نماز یعنی بارگاہِ الٰہی کی خاص حضوری کی لازمی شرط قرار دیا گیا ہے ۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اس میں اپنے فضل سے اس کے علاوہ بھی بہت سی برکات رکھی ہیں ..... رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس طرح امت کو وضو کا طریقہ اور اس کے متعلق احکام بتلائے ہیں اُسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے فضائل و برکات بھی بیان فرمائے ہیں ۔ پہلے چند حدیثیں اسی سلسلہ کی پڑھ لی جائیں ۔
مطلب یہ ہے کہ جو شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم و ہدایت کے مطابق باطنی پاکیزگی حاصل کرنے کے لئے آداب و سنن وغیرہ کی رعایت کے ساتھ اچھی طرح وضو کرے گا تو اس سے صرف اعضائے وضو کی میل کچیل اور حدث والی باطنی ناپاکی ہی دور نہ ہو گی بلکہ اس کی برکت سے اس کے سارے جسم کے گناہوں کی ناپاکی بھی نکل جائے گی اور وہ شخص حدث سے پاک ہونے کے علاوہ گناہوں سے بھی پاک صاف ہو جائے گا ۔ آگے آنے والی بعض حدیثوں سے اس کی مزید تفصیل معلوم ہو گی ۔
عَنْ عُثْمَانَ رَضِىَ اللهُ عَنْهُ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : « مَنْ تَوَضَّأَ فَأَحْسَنَ الْوُضُوءَ خَرَجَتْ خَطَايَاهُ مِنْ جَسَدِهِ ، حَتَّى تَخْرُجَ مِنْ تَحْتِ أَظْفَارِهِ » (رواه البخارى ومسلم)

তাহকীক:
হাদীস নং: ৪১৯
کتاب الطہارت
وضو اور اس کے فضائل و برکات: وضو گناہوں کی صفائی اور معافی کا ذریعہ
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب کوئی مسلم بندہ وضو کرتا ہے اور اس میں اپنے چہرہ کو دھوتا ہے اور اس پر پانی ڈالتا ہے تو پانی کے ساتھ اس کے چہرہ سے وہ سارے گناہ نکل جاتے ہیں (اور گویا دُھل جاتے ہیں) جو اس کی آنکھ سے ہوئے تھے اس کے بعد جب وہ اپنے ہاتھ دھوتا ہے تو وہ سارے گناہ اس کے ہاتھوں سے خارج ہو جاتے ہیں اور دُھل جاتے ہیں جو اس کے ہاتھوں سے ہوئے ، اس کے بعد جب وہ اپنے پاؤں دھوتا ہے تو وہ سارے گناہ اس کے پاؤں سے خارج ہو جاتے ہیں جو اس کے پاؤں سے ہوئے اور جن کے لے اس کے پاؤں استعمال ہوئے یہاں تک کہ وضو سے فارگ ہونے کے ساتھ وہ گناہوں سے بالکل پاک صاف ہو جاتا ہے ۔ (صحیح مسلم)
تشریح
یہاں چند باتیں وضاحت طلب ہیں :
۱۔ مندرجہ بالا دونوں حدیثوں میں وضو کے پانی کے ساتھ گناہوں کے جسم سے نکل جانے اور دُھل جانے کا ذکر ہے ، حالانکہ گناہ میل کچیل اور ظاہری نجاست جیسی کوئی چیز نہیں ہے جو پانی کے ساتھ نکل جائے اور دُھل جائے ..... بعض شارحین حدیث نے اس کی توجیہ میں کہا ہے کہ گناہوں کے نکل جانے کا مطلب صرف معافی اور بخشش ہے ..... اور بعض دوسرے حضرات نے فرمایا ہے کہ بندہ جو گناہ جس عضو سے کرتا ہے اس کا ظلمانی اثر اور اس کی نحوست پہلے اس عضو میں اور پھر اس شخص کے دل میں قائم ہو جاتی ہے ، پھر جب اللہ کے حکم سے اور اپنے کا پاک کرنے کے لئے وہ بندہ سنن و آداب کے مطابق وضو کرتا ہے تو جس جس عضو سے اس نے گناہ کئے ہوتے ہیں اور گناہوں کے جو گندے اثرات اور ظلمتیں اس کے اعضاء اور اس کے قلب میں قائم ہو چکی ہوتی ہیں وضو کے پانی کے ساتھ وہ سب دھل جاتی اور زائل ہو جاتی ہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کی معافی اور مغفرت بھی ہو جاتی ہے ..... یہی دوسری توجیہ اس عاجز نے نزدیک حدیث کے الفاظ سے زیادہ قریب ہے ۔ واللہ اعلم ۔
۲۔ حضرت ابو ہریرہؓ والی اس حدیث میں چہرہ کے دھونے کے ساتھ صرف آنکھوں کے گناہوں کے دُھل جانے اور نکل جانے کا ذکر فرمایا گیا ہے حالانکہ چہرہ میں آنکھوں کے علاوہ ناک اور زبان و دہن بھی ہیں اور بعضے گناہوں کا تعلق انہی سے ہوتا ہے ..... اس کا جواب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں اعضاء وضو کا استیعاب نہیں فرمایا ہے بطور تمثیل کے آنکھوں اور ہاتھوں پاؤں کا ذکر فرمایا ہے ..... اس مضمون کی ایک دوسری حدیث میں (جس کو امام مالک اور امام نسائی نے عبداللہ الصنابحی سے روایت کیا ہے) اس سے زیادہ تفصیل ہے ۔ اس میں کلی اور ناک کے پانی (مضمضہ و استنشاق) کے ساتھ زبان و دہن اور ناک کے گناہوں کے نکل جانے اور دُھل جانے کا اور اسی طرح کانوں کے مسح کے ساتھ کانوں کے گناہوں کے نکل جانے کا بھی ذکر ہے ۔
۳۔ نیک اعمال کی یہ تاثیر ہے کہ وہ گناہوں کو مٹاتے اور ان کے داغ دھبوں کو دھو ڈالتے ہیں قرآن مجید میں بھی مذکور ہے ارشاد فرمایا گیا ہے “ اِنَّ الْحَسَنٰتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّاٰتِ ” (ھود ۱۱۴ : ۱۱) یعنی نیک اعمال گناہوں کو مٹا دیتے ہیں ..... اور احادیث میں خاص خاص اعمالِ حسنہ کا نام لے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تفصیل سے بیان فرمایا ہے کہ فلاں نیک عمل گناہوں کو مٹا دیتا ہے ، فلاں نیک عمل گناہوں کو معاف کرا دیتا ہے فلاں نیک عمل گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے ، اس قسم کی بعض حدیثیں اس سلسلہ میں پہلے گذر چکی ہیں ، اور آئندہ بھی مختلف ابواب میں آئیں گی ۔ ان میں سے بعض حدیثوں میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تصریح بھی فرمائی ہے کہ ان نیک اعمال کی برکت سے صرف صغیرہ گناہ معاف ہوتے ہیں ، اسی بنا پر اہل حق اہل السنۃ اس کے قائل ہیں کہ اعمالِ حسنہ سے صرف صغائر ہی کی تطہیر ہوتی ہے ، قرآن مجید میں بھی فرمایا گیا ہے :
اِنْ تَجْتَنِبُوْا كَبَآىِٕرَ مَا تُنْهَوْنَ عَنْهُ نُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَيِّاٰتِكُمْ (النساء ۳۱ : ۴)
اگر تم کبائر منہیات (بڑے بڑے گناہوں) سے بچتے رہو گے تو تمہاری (معمولی) برائیاں اور غلطیاں ہم تم سے دفع کر دیں گے ۔
الغرض مندرجہ بالا دونوں حدیثوں میں وضو کی برکت سے جن گناہوں کے نکل جانے اور دُھل جانے کا ذکر ہے ان سے مراد صغائر ہی ہیں کبائر کا معاملہ بہت سنگین ہے اس زہر کا تریاق صرف توبہ ہی ہے ۔
تشریح
یہاں چند باتیں وضاحت طلب ہیں :
۱۔ مندرجہ بالا دونوں حدیثوں میں وضو کے پانی کے ساتھ گناہوں کے جسم سے نکل جانے اور دُھل جانے کا ذکر ہے ، حالانکہ گناہ میل کچیل اور ظاہری نجاست جیسی کوئی چیز نہیں ہے جو پانی کے ساتھ نکل جائے اور دُھل جائے ..... بعض شارحین حدیث نے اس کی توجیہ میں کہا ہے کہ گناہوں کے نکل جانے کا مطلب صرف معافی اور بخشش ہے ..... اور بعض دوسرے حضرات نے فرمایا ہے کہ بندہ جو گناہ جس عضو سے کرتا ہے اس کا ظلمانی اثر اور اس کی نحوست پہلے اس عضو میں اور پھر اس شخص کے دل میں قائم ہو جاتی ہے ، پھر جب اللہ کے حکم سے اور اپنے کا پاک کرنے کے لئے وہ بندہ سنن و آداب کے مطابق وضو کرتا ہے تو جس جس عضو سے اس نے گناہ کئے ہوتے ہیں اور گناہوں کے جو گندے اثرات اور ظلمتیں اس کے اعضاء اور اس کے قلب میں قائم ہو چکی ہوتی ہیں وضو کے پانی کے ساتھ وہ سب دھل جاتی اور زائل ہو جاتی ہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کی معافی اور مغفرت بھی ہو جاتی ہے ..... یہی دوسری توجیہ اس عاجز نے نزدیک حدیث کے الفاظ سے زیادہ قریب ہے ۔ واللہ اعلم ۔
۲۔ حضرت ابو ہریرہؓ والی اس حدیث میں چہرہ کے دھونے کے ساتھ صرف آنکھوں کے گناہوں کے دُھل جانے اور نکل جانے کا ذکر فرمایا گیا ہے حالانکہ چہرہ میں آنکھوں کے علاوہ ناک اور زبان و دہن بھی ہیں اور بعضے گناہوں کا تعلق انہی سے ہوتا ہے ..... اس کا جواب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں اعضاء وضو کا استیعاب نہیں فرمایا ہے بطور تمثیل کے آنکھوں اور ہاتھوں پاؤں کا ذکر فرمایا ہے ..... اس مضمون کی ایک دوسری حدیث میں (جس کو امام مالک اور امام نسائی نے عبداللہ الصنابحی سے روایت کیا ہے) اس سے زیادہ تفصیل ہے ۔ اس میں کلی اور ناک کے پانی (مضمضہ و استنشاق) کے ساتھ زبان و دہن اور ناک کے گناہوں کے نکل جانے اور دُھل جانے کا اور اسی طرح کانوں کے مسح کے ساتھ کانوں کے گناہوں کے نکل جانے کا بھی ذکر ہے ۔
۳۔ نیک اعمال کی یہ تاثیر ہے کہ وہ گناہوں کو مٹاتے اور ان کے داغ دھبوں کو دھو ڈالتے ہیں قرآن مجید میں بھی مذکور ہے ارشاد فرمایا گیا ہے “ اِنَّ الْحَسَنٰتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّاٰتِ ” (ھود ۱۱۴ : ۱۱) یعنی نیک اعمال گناہوں کو مٹا دیتے ہیں ..... اور احادیث میں خاص خاص اعمالِ حسنہ کا نام لے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تفصیل سے بیان فرمایا ہے کہ فلاں نیک عمل گناہوں کو مٹا دیتا ہے ، فلاں نیک عمل گناہوں کو معاف کرا دیتا ہے فلاں نیک عمل گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے ، اس قسم کی بعض حدیثیں اس سلسلہ میں پہلے گذر چکی ہیں ، اور آئندہ بھی مختلف ابواب میں آئیں گی ۔ ان میں سے بعض حدیثوں میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تصریح بھی فرمائی ہے کہ ان نیک اعمال کی برکت سے صرف صغیرہ گناہ معاف ہوتے ہیں ، اسی بنا پر اہل حق اہل السنۃ اس کے قائل ہیں کہ اعمالِ حسنہ سے صرف صغائر ہی کی تطہیر ہوتی ہے ، قرآن مجید میں بھی فرمایا گیا ہے :
اِنْ تَجْتَنِبُوْا كَبَآىِٕرَ مَا تُنْهَوْنَ عَنْهُ نُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَيِّاٰتِكُمْ (النساء ۳۱ : ۴)
اگر تم کبائر منہیات (بڑے بڑے گناہوں) سے بچتے رہو گے تو تمہاری (معمولی) برائیاں اور غلطیاں ہم تم سے دفع کر دیں گے ۔
الغرض مندرجہ بالا دونوں حدیثوں میں وضو کی برکت سے جن گناہوں کے نکل جانے اور دُھل جانے کا ذکر ہے ان سے مراد صغائر ہی ہیں کبائر کا معاملہ بہت سنگین ہے اس زہر کا تریاق صرف توبہ ہی ہے ۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : « إِذَا تَوَضَّأَ الْعَبْدُ الْمُسْلِمُ - أَوِ الْمُؤْمِنُ - فَغَسَلَ وَجْهَهُ ، خَرَجَتْ مِنْ وَجْهِهِ كُلُّ خَطِيئَةٍ نَظَرَ إِلَيْهَا بِعَيْنِهِ مَعَ الْمَاءِ ، أَوْ مَعَ آخِرِ قَطْرِ الْمَاءِ ، فَإِذَا غَسَلَ يَدَيْهِ ، خَرَجَتْ مِنْ يَدَيْهِ كُلُّ خَطِيئَةٍ بَطَشَتْهَا يَدَاهُ مَعَ الْمَاءِ ، أَوْ مَعَ آخِرِ قَطْرِ الْمَاءِ فَإِذَا غَسَلَ رِجْلَيْهِ ، خَرَجَ كُلُّ خَطِيئَةٍ مِنْ رِجْلَاهُ مَعَ الْمَاءِ أَوْ مَعَ آخِرِ قَطْرِ الْمَاءِ ، حَتَّى يَخْرُجَ نَقِيًّا مِنَ الذُّنُوبِ » (رواه مسلم)

তাহকীক:
হাদীস নং: ৪২০
کتاب الطہارت
وضو جنت کے سارے دروازوں کی کنجی ہے
حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ایک سلسلہ کلام میں) فرمایا جو کوئی تم میں سے وضو کرے (اور پورے آداب کے ساتھ خوب اچھی طرح) اور مکمل وضو کرے ، پھر وضو کے بعد کہے “ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ ” تو لازمی طور پر اس کے لئے جنت کے آٹھوں دروازے کھل جائیں گے وہ جس دروازے سے بھی چاہے گا جنت میں جا سکے گا ۔ (صحیح مسلم)
تشریح
وضو کرنے سے بظاہر صرف اعضاء وضو کی صفائی ہوتی ہے اس لئے مومن بندہ وضو کرنے کے بعد محسوس کرتا ہے کہ میں نے حکم کی تعمیل میں اعضاء وضو تو دھو لئے اور ظاہری طہارت اور صفائی کر لکی لیکن اصل گندگی تو ایمان کی کمزوری ، اخلاص کی کمی اور اعمال کی خرابی کی گندگی ہے ، اس احساس کے تحت وہ کلمہ شہادت پڑھ کے ایمان کی تجدید اور اللہ تعالیٰ کی خالص بندگی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری پیروی کا گویا نئے سرے سے عہد کرتا ہے ، اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی کامل مغفرت کا فیصلہ ہو جاتا ہے اور جیسا کہ حدیث میں فرمایا گیا ہے اس کے لئے جنت کے سارے دروازے کھل جاتے ہیں ۔
امام مسلم ہی نے ایک دوسری روایت میں اسی موقع پر کلمہ شہادت کے یہ الفاظ بھی نقل کئے ہیں “ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ ” نیز اسی حدیث کی ترمذی کی روایت میں اس کلمہ شہادت کے بعد “ اللَّهُمَّ اجْعَلْنِي مِنَ التَّوَّابِينَ ، وَاجْعَلْنِي مِنَ الْمُتَطَهِّرِينَ ” کا بھی اضافہ ہے ۔
تشریح
وضو کرنے سے بظاہر صرف اعضاء وضو کی صفائی ہوتی ہے اس لئے مومن بندہ وضو کرنے کے بعد محسوس کرتا ہے کہ میں نے حکم کی تعمیل میں اعضاء وضو تو دھو لئے اور ظاہری طہارت اور صفائی کر لکی لیکن اصل گندگی تو ایمان کی کمزوری ، اخلاص کی کمی اور اعمال کی خرابی کی گندگی ہے ، اس احساس کے تحت وہ کلمہ شہادت پڑھ کے ایمان کی تجدید اور اللہ تعالیٰ کی خالص بندگی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری پیروی کا گویا نئے سرے سے عہد کرتا ہے ، اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی کامل مغفرت کا فیصلہ ہو جاتا ہے اور جیسا کہ حدیث میں فرمایا گیا ہے اس کے لئے جنت کے سارے دروازے کھل جاتے ہیں ۔
امام مسلم ہی نے ایک دوسری روایت میں اسی موقع پر کلمہ شہادت کے یہ الفاظ بھی نقل کئے ہیں “ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ ” نیز اسی حدیث کی ترمذی کی روایت میں اس کلمہ شہادت کے بعد “ اللَّهُمَّ اجْعَلْنِي مِنَ التَّوَّابِينَ ، وَاجْعَلْنِي مِنَ الْمُتَطَهِّرِينَ ” کا بھی اضافہ ہے ۔
عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِىَ اللهُ عَنْهُ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " مَا مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ يَتَوَضَّأُ فَيُبْلِغُ - أَوْ فَيُسْبِغُ - الْوَضُوءَ ثُمَّ يَقُولُ : أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُ اللهِ وَرَسُولُهُ إِلَّا فُتِحَتْ لَهُ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ الثَّمَانِيَةُ يَدْخُلُ مِنْ أَيِّهَا شَاءَ ". (رواه مسلم)

তাহকীক:
হাদীস নং: ৪২১
کتاب الطہارت
قیامت میں اعضاء وضو کی نورانیت
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے امتی قیامت کے دن بلائے جائیں گے تو وضو کے اثر سے ان کے چہرے اور ہاتھ اور پاؤں روشن اور منور ہوں گے ۔ پس تم میں سے جو کوئی اپنی وہ روشنی اور نورانیت بڑھا سکے اور مکمل کر سکے تو ایسا ضرور کرے ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
تشریح
وضو کا اثر اس دنیا میں تو اتنا ہی ہوتا ہے کہ چہرے اور ہاتھ پاؤں کی دھلائی صفائی ہو جاتی ہے اور اہل ادراک و معرفت کو ایک خاص قسم کی روحانی نشاط و انبساط کی کیفیت بھی حاصل ہوتی ہے ۔ لیکن جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں (اور اس کے علاوہ بھی متعدد حدیثوں میں) فرمایا ہے ۔ قیامت میں وضو کا ایک مبارک اثر یہ بھی ظاہر ہو گا کہ وضو کرنے والے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے امتیوں کے چہرے اور ہاتھ پاؤں وہاں روشن اور تاباں ہوں گے اور یہ ان کا امتیازی نشان ہو گا ۔ پھر جس کا وضو جتنا کامل و مکمل ہو گا اس کی یہ نورانیت اور تابانی اسی درجہ کی ہو گی ، اسی لئے حدیث کے آخر میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جس سے ہو سکے وہ اپنی اس نورانیت کو مکمل کرنے کی امکانی کوشش کرتا رہے جس کی صورت یہی ہے کہ وضو ہمیشہ فکر اور اہتمام کے ساتھ مکمل کیا کرے اور آداب کی پوری نگہداشت رکھے ۔
تشریح
وضو کا اثر اس دنیا میں تو اتنا ہی ہوتا ہے کہ چہرے اور ہاتھ پاؤں کی دھلائی صفائی ہو جاتی ہے اور اہل ادراک و معرفت کو ایک خاص قسم کی روحانی نشاط و انبساط کی کیفیت بھی حاصل ہوتی ہے ۔ لیکن جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں (اور اس کے علاوہ بھی متعدد حدیثوں میں) فرمایا ہے ۔ قیامت میں وضو کا ایک مبارک اثر یہ بھی ظاہر ہو گا کہ وضو کرنے والے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے امتیوں کے چہرے اور ہاتھ پاؤں وہاں روشن اور تاباں ہوں گے اور یہ ان کا امتیازی نشان ہو گا ۔ پھر جس کا وضو جتنا کامل و مکمل ہو گا اس کی یہ نورانیت اور تابانی اسی درجہ کی ہو گی ، اسی لئے حدیث کے آخر میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جس سے ہو سکے وہ اپنی اس نورانیت کو مکمل کرنے کی امکانی کوشش کرتا رہے جس کی صورت یہی ہے کہ وضو ہمیشہ فکر اور اہتمام کے ساتھ مکمل کیا کرے اور آداب کی پوری نگہداشت رکھے ۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : « إِنَّ أُمَّتِي يُدْعَوْنَ يَوْمَ القِيَامَةِ غُرًّا مُحَجَّلِينَ مِنْ آثَارِ الوُضُوءِ ، فَمَنِ اسْتَطَاعَ مِنْكُمْ أَنْ يُطِيلَ غُرَّتَهُ فَلْيَفْعَلْ » (رواه البخارى ومسلم)

তাহকীক:
হাদীস নং: ৪২২
کتاب الطہارت
تکلیف اور ناگواری کے باوجود کامل وضو
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا میں تم کو وہ اعمال نہ بتاؤں جن کی برکت سے اللہ گناہوں کو مٹاتا ہے اور درجے بلند فرماتا ہے ؟ حاضرین صحابہؓ نے عرض کیا ، حضرت ضرور بتلائیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا (۱) تکلیف اور ناگواری کے باوجود پوری طرح کامل وضو کرنا ۔ (۲) اور مسجدوں کی طرف قدم زیادہ پڑنا (۳) اور ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا منتظر رہنا ، پس یہی ہے حقیقی رباط یہی ہے اصلی رباط ۔ (صحیح مسلم)
تشریح
اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین عملوں کی ترغیب دی ہے اور فرمایا ہے کہ ان اعمال سے گناہ معاف ہوتے ہیں ۔ اور درجوں میں ترقی ہوتی ہے ایک یہ کہ وضو کرنے میں اگر کسی وجہ سے تکلیف اور مشقت ہو تو اس کے باوجود وضو پورا پورا کیا جائے اور اس میں خلاف سنت اختصار سے کام نہ لیا جائے ۔ مثلاً سردی کا موسم ہے اور پانی ٹھنڈا ہے ، یا پانی کم ہے جو پورا وضو سنت کے مطابق کرنے اور ہر عضو کو تین تین دفعہ دھونے کے لئے کافی نہیں ہو سکتا ، بلکہ ایسا کرنے کے لیے پانی کچھ دور چل کر لانا پڑتا ہے تو ایسی صورت میں تکلیف اور مشقت اٹھا کر سنت کے مطابق کامل وضو کرنا ایسا محبوب عمل ہے جس کی برکت سے بندے کو گناہوں سے پاک صاف کر دیا جاتا ہے اور اس کے درجے بلند کر دئیے جاتے ہیں ..... دوسرا عمل آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا “ مسجد کی طرف قدموں کا زیادہ پڑنا ” یعنی مسجد سے زیادہ تعلق رکھنا اور نماز کے لئے بار بار مسجد کی طرف جانا اور ظاہر ہے کہ جس مکان مسجد سے جتنے زیادہ فاصلے پر ہو گا اس کا حصہ اس سعادت میں اسی حساب سے زیادہ ہو گا ..... اور تیسرا عمل آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا “ ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا منتظر رہنا ” اور دل کا اسی میں لگا رہنا ۔ اور ظاہر ہے کہ یہ حال اسی بندہ کا ہو گا جس کے دل کو نماز سے چین و سکون ملتا ہو گا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی “ قُرَّةُ عَيْنِي فِي الصَّلَاةِ ” والی کیفیت کا کوئی ذرہ جس کو نصیب ہو گا ۔
حدیث کے آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا “ یہی حقیقی رباط ہے ، یہی اصلی رباط ہے ” رباط کے معروف معنی اسلامی سرحد پر پڑاؤ کے ہیں ۔ دشمن کے حملہ سے حفاظت کے لئے جو مجاہدین سرحد پر متعین کر دئیے جاتے ہیں ان کے پڑاؤ کو رباط کہا جاتا ہے اور ظاہر ہے کہ یہ بڑا عظیم الشان عمل ہے ، ہر وقت جان خطرہ میںٰ رہتی ہے ..... اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تین اعمال کو غالباً اس لحاظ سے “ رباط ” فرمایا ہے کہ ان تینوں عملوں کا اہتمام شیطان کی غارت گری سے حفاظت کی بڑی محکم تدبیر ہے اور شیطانی حملوں سے اپنے ایمان کی حفاظت مقصدی لحاظ سے ملکی سرحدات کی حفاظت سے بھی اہم ہے ۔ واللہ اعلم ۔
تشریح
اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین عملوں کی ترغیب دی ہے اور فرمایا ہے کہ ان اعمال سے گناہ معاف ہوتے ہیں ۔ اور درجوں میں ترقی ہوتی ہے ایک یہ کہ وضو کرنے میں اگر کسی وجہ سے تکلیف اور مشقت ہو تو اس کے باوجود وضو پورا پورا کیا جائے اور اس میں خلاف سنت اختصار سے کام نہ لیا جائے ۔ مثلاً سردی کا موسم ہے اور پانی ٹھنڈا ہے ، یا پانی کم ہے جو پورا وضو سنت کے مطابق کرنے اور ہر عضو کو تین تین دفعہ دھونے کے لئے کافی نہیں ہو سکتا ، بلکہ ایسا کرنے کے لیے پانی کچھ دور چل کر لانا پڑتا ہے تو ایسی صورت میں تکلیف اور مشقت اٹھا کر سنت کے مطابق کامل وضو کرنا ایسا محبوب عمل ہے جس کی برکت سے بندے کو گناہوں سے پاک صاف کر دیا جاتا ہے اور اس کے درجے بلند کر دئیے جاتے ہیں ..... دوسرا عمل آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا “ مسجد کی طرف قدموں کا زیادہ پڑنا ” یعنی مسجد سے زیادہ تعلق رکھنا اور نماز کے لئے بار بار مسجد کی طرف جانا اور ظاہر ہے کہ جس مکان مسجد سے جتنے زیادہ فاصلے پر ہو گا اس کا حصہ اس سعادت میں اسی حساب سے زیادہ ہو گا ..... اور تیسرا عمل آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا “ ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا منتظر رہنا ” اور دل کا اسی میں لگا رہنا ۔ اور ظاہر ہے کہ یہ حال اسی بندہ کا ہو گا جس کے دل کو نماز سے چین و سکون ملتا ہو گا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی “ قُرَّةُ عَيْنِي فِي الصَّلَاةِ ” والی کیفیت کا کوئی ذرہ جس کو نصیب ہو گا ۔
حدیث کے آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا “ یہی حقیقی رباط ہے ، یہی اصلی رباط ہے ” رباط کے معروف معنی اسلامی سرحد پر پڑاؤ کے ہیں ۔ دشمن کے حملہ سے حفاظت کے لئے جو مجاہدین سرحد پر متعین کر دئیے جاتے ہیں ان کے پڑاؤ کو رباط کہا جاتا ہے اور ظاہر ہے کہ یہ بڑا عظیم الشان عمل ہے ، ہر وقت جان خطرہ میںٰ رہتی ہے ..... اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تین اعمال کو غالباً اس لحاظ سے “ رباط ” فرمایا ہے کہ ان تینوں عملوں کا اہتمام شیطان کی غارت گری سے حفاظت کی بڑی محکم تدبیر ہے اور شیطانی حملوں سے اپنے ایمان کی حفاظت مقصدی لحاظ سے ملکی سرحدات کی حفاظت سے بھی اہم ہے ۔ واللہ اعلم ۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : « أَلَا أَدُلُّكُمْ عَلَى مَا يَمْحُو اللهُ بِهِ الْخَطَايَا ، وَيَرْفَعُ بِهِ الدَّرَجَاتِ؟ » قَالُوا بَلَى يَا رَسُولَ اللهِ قَالَ : « إِسْبَاغُ الْوُضُوءِ عَلَى الْمَكَارِهِ ، وَكَثْرَةُ الْخُطَا إِلَى الْمَسَاجِدِ ، وَانْتِظَارُ الصَّلَاةِ بَعْدَ الصَّلَاةِ ، فَذَلِكُمُ الرِّبَاطُ » (رواه مسلم)

তাহকীক:
হাদীস নং: ৪২৩
کتاب الطہارت
وضو کا اہتمام کمال ایمان کی نشانی
حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ ٹھیک ٹھیک چلو ، صراط مستقیم پر قائم رہو ۔ لیکن چونکہ یہ استقامت بہت مشکل ہے اس لئے ، تم اس پر پورا قابو ہرگز نہ پا سکو گے (لہذا ہمیشہ اپنے کو قصور وار اور خطا کار بھی سمجھتے رہو) اور اچھی طرح جان لو کہ تمہارے سارے اعمال میں سب سے بہتر عمل نماز ہے ۔ (اس لئے اس کا سب سے زیادہ اہتمام کرو) اور وضو کی پوری نگہداشت بس بندہ مومن ہی کر سکتا ہے ۔ (موطا امام مالک ، مسند احمد ، سنن ابن ماجہ ، سنن دارمی)
تشریح
وضو کی محافظت و نگہداشت کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ہمیشہ سنت کے مطابق اور آداب کی رعایت کے ساتھ کامل وضو کیا جائے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بندہ برابر باوضو رہے ، شارحین نے یہ دونوں ہی مطلب بیان کئے ہیں اور اس عاجز کے نزدیک محافظت کا لفظ ان دونوں ہی باتوں پر حاوی ہے ۔ بہر حال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں “ محافظت علی الوضو ” کو کمال ایمان کی نشانی اور اہل ایمان و یقین کا عمل بتایا ہے ۔
تشریح
وضو کی محافظت و نگہداشت کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ہمیشہ سنت کے مطابق اور آداب کی رعایت کے ساتھ کامل وضو کیا جائے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بندہ برابر باوضو رہے ، شارحین نے یہ دونوں ہی مطلب بیان کئے ہیں اور اس عاجز کے نزدیک محافظت کا لفظ ان دونوں ہی باتوں پر حاوی ہے ۔ بہر حال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں “ محافظت علی الوضو ” کو کمال ایمان کی نشانی اور اہل ایمان و یقین کا عمل بتایا ہے ۔
عَنْ ثَوْبَانَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " اسْتَقِيمُوا وَلَنْ تُحْصُوا ، وَاعْلَمُوا أَنَّ خَيْرَ أَعْمَالِكُمُ الصَّلَاةُ ، وَلَنْ يُحَافِظَ عَلَى الْوُضُوءِ إِلَّا مُؤْمِنٌ " (رواه مالك واحمد وابن ماجه والدارمى)

তাহকীক: