মা'আরিফুল হাদীস (উর্দু)

معارف الحديث

کتاب الصلوٰۃ - এর পরিচ্ছেদসমূহ

মোট হাদীস ২০ টি

হাদীস নং: ৪৭৪
کتاب الصلوٰۃ
نماز ترک کرنا ایمان کے منافی اور کافرانہ عمل ہے
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ بندہ کے اور کفر کے درمیان نماز چھوڑ دینے ہی کا فاصلہ ہے ۔ (صحیح مسلم)

تشریح
نماز کی عظمت و اہمیت اور اس کا امتیاز
حضرات انبیاء علیہم السلام ، اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات ، کمالات و احسانات اور اس کی تقدیس و توحید کے بارے میں جو کچھ بتلاتے ہیں اس کو مان لینے اور اس پر ایمان لے آنے کا پہلا قدرتی اور بالکل فطری تقاضا یہ ہے کہ انسان اس کے حضور میں اپنی فدویت و بندگی ، محبت و شیفتگی اور محتاجی و دریوزہ گری کا اظہار کر کے اس کا قرب اور اس کی رحمت و رضا حاصل کرے ۔ نماز کا اصل موضوع دراصل یہی ہے ۔ اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ نماز اس مقصد کے حصول کا بہترین وسیلہ ہے ۔ اسی لیے ہر نبی کی تعلیم میں اور ہر آسمانی شریعت میں ایمان کے بعد پہلا حکم نماز ہی کا رہا ہے ۔ اور اسی لیے اللہ کی نازل کی ہوئی آخری شریعت (شریعت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم) میں نماز کے شرائط و ارکان اور سنن و آداب اور اسی طرح کے مفسدات و مکروہات وغیرہ کے بیان کا اتنا اہتمام کیا گیا ہے اور اس کو اتنی اہمیت دی گئی ہے جو اس کے علاوہ کسی دوسری طاعت و عبادت کو بھی نہیں دی گئی ۔
حضرت شاہ والی اللہ رحمۃ اللہ علیہ حجۃ اللہ البالغہ میں نماز کا بیان شروع کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
اعْلَم أَن الصَّلَاة أعظم الْعِبَادَات شَأْنًا وأوضحها برهانا وأشهرها فِي النَّاس وأنفعها فِي النَّفس ، وَلذَلِك اعتنى الشَّارِع بِبَيَان فَضلهَا وَتَعْيِين أَوْقَاتهَا وشروطها وأركانها وآدابها ورخصها ونوافلها اعتناء عَظِيم لم يفعل فِي سَائِر أَنْوَاع الطَّاعَات ، وَجعلهَا من أعظم شَعَائِر الدّين. (ص 186)
یعنی نماز اپنی عظمت شان اور مقتضائے عقل و فطرت ہونے کے لحاظ سے تمام عبادات میں کاص امتیاز رکھتی ہے اور خدا شناس و خدا پرست انسانوں میں سب سے زیادہ معروف و مشہور اور نفس کے تزکیہ اور تربیت کے لیے سب سے زیادہ نفع مند ہے اور اسی لئے شریعت نے اس کی فضیلت اس کے اوقات کے تعیین و تحدید اور اس کے شرائط و ارکان اور آداب و نوافل اور اس کی رخصتوں کے بیان کا وہ اہتمام کیا ہے جو عبادات و طاعات کی کسی دوسری قسم کے لیے نہیں کیا اور انہی خصوصیات و امتیازات کی وجہ سے نماز کو دین کا عظیم ترین شعار اور امتیازی نشان قرار دیا گیا ہے ۔
اور اسی کتاب میں ایک دوسرے مقام پر نماز کے اجزاء اصلیہ اور اس کی حقیقت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
وأصل الصَّلَاة ثَلَاثَة أَشْيَاء أَن يخضع الْقلب عِنْد مُلَاحظَة جلال الله وعظمته ، ويعبر اللِّسَان عَن تِلْكَ العظمة ، وَذَلِكَ الخضوع أفْصح عبارَة وَأَن يُؤَدب الْجَوَارِح حسب ذَلِك الخضوع.
یعنی ۔ نماز کے اصل عناصر تین ہیں : ایک یہ کہ قلب اللہ تعالیٰ کی لا انتہا عظمت و جلال کے دھیان سے سرافگند ہو ۔ اور دوسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ کی اس عظمت و کبریائی اور اپنی عاجزی و سرافگندگی کو بہتر سے بہتر الفاظ میں اپنی زبان سے ادا کرے اور تیسرے یہ کہ باقی تمام ظاہری اعضاء کو بھی اللہ تعالیٰ کی عظمت و جبروت اور اپنی عاجزی و بندگی کی شہادت کے لئے استعمال کرے ۔ پھر اسی سلسلہ کلام میں چند سطر کے بعد فرماتے ہیں :
أما الصَّلَاة فَهِيَ المعجون الْمركب من الْفِكر المصروف تِلْقَاء عَظمَة الله .....وَمن الْأَدْعِيَة المبينة إخلاص عمله لله وتوجيه وَجهه تِلْقَاء الله وَقصر الِاسْتِعَانَة فِي الله ، وَمن أَفعَال تعظيمية كالسجود وَالرُّكُوع يصير كل وَاحِد عضد الآخر ومكمله والمنبه عَلَيْهِ.
یعنی نماز کی حقیقت تین اجزاء سے مرکب ہے ۔ ایک اللہ تعالیٰ کی عظمت و کبریائی کا تفکر و استحضار ۔ دوسرے چند ایسی دعائیں اور ایسے اذکار جن سے یہ بات ظاہر ہو کہ بندہ کی بندگی اور اس کے اعمال خالص اللہ کے لئے ہیں اور وہ اپنا رخ یکسوئی کے ساتھ اللہ تعالیٰ ہی کی طرف کر چکا ہے اور اپنی حاجات میں صرف اللہ تعالیٰ ہی کی مدد چاہتا ہے اور تیسرے چند تعظیمی افعال جیسے رکوع و سجدہ وغیرہ ، ان میں سے ہر ایک دوسرے کی تکمیل کرتا ہے اور اس کی طرف دعوت و ترغیب کا ذریعہ بنتا رہتا ہے ۔ آگے فرماتے ہیں :
وَالصَّلَاة مِعْرَاج الْمُؤمن معدة للتجليات الأخروية..... وَسبب عَظِيم لمحبة الله وَرَحمته..... وَإِذا تمكنت من العَبْد اضمحل فِي نور الله ، وكفرت عَنهُ خطاياه..... وَلَا شَيْء أَنْفَع من سوء الْمعرفَة مِنْهَا لَا سِيمَا إِذا فعلت أفعالها وأقوالها على حُضُور الْقلب وَالنِّيَّة الصَّالِحَة..... وَإِذا جعلت رسما مَشْهُورا انفعت من غوائل الرَّسْم نفعا بَينا ، وَصَارَت شعار للْمُسلمِ يتَمَيَّز بِهِ من الْكَافِر..... وَلَا شَيْء فِي تمرين النَّفس على انقياد الطبيعة لِلْعَقْلِ وجريانها فِي حِكْمَة مثل الصَّلَاة. ص 72 ، 73 جلد (1)
اس عبارت میں حضرت شاہ صاحب نے نماز کی مندرجہ ذیل چند خصوصیات اور تاثیرات بیان کی ہیں ، اول یہ کہ وہ اہل ایمان کی معراج ہے اور آخرت میں تجلیات الہی کے جو نظارے اہل ایمان کو نصیب ہونے والے ہیں ، ان کی استعداد اور صلاحیت پیدا کرنے کا وہ خاص ذریعہ ہے ۔ دوم یہ کہ وہ اللہ تعالیٰ کی محبت و رحمت کے حصول کا وسیلہ ہے ۔ سوم یہ کہ نماز کی حقیقت جب کسی بندہ کو حاصل ہو جاتی ہے اور اس کی روح پر نماز کی کیفیت کا غلبہ ہو جاتا ہے تو وہ بندہ نور الہی کی موجوں میں ڈوب کر گناہوں سے پاک صاف ہو جاتا ہے (جیسے کہ کوئی میلی کچیلی چیز دریا کی موجوں میں پڑ کر پاک صاف ہو جاتی ہے یا جیسے لوہا آگ کی بھٹی میں رکھ کر صاف کیا جاتا ہے) ۔۔۔ چہارم یہ کہ نماز جب حضور قلب اور صادق نیت کے ساتھ پڑھی جائے تو غفلت اور برے خیالات و وساوس کے ازالہ کی وہ بہترین اور بے مثل دوا ہے ۔ پنجم یہ کہ نماز کو جب پوری امت مسلمہ کے لیے ایک معروف و مقرر رسم اور عمومی وظیفہ بنا دیا گیا تو اس کی وجہ سے کفر و شرک اور فسق و ضلال کی بہت سی تباہ کن رسوم سے حفاظت کا فائدہ بھی حاصل ہو گیا اور مسلمانوں کا وہ ایک ایسا امتیازی شعار اور دینی نشان بن گیا ، جس سے کافر اور مسلم کو پہچانا جا سکتا ہے ۔
ششم یہ کہ طبیعت کو عقل کی رہنمائی کا پابند اور اس کا بابع فرمان بنانے کی مشق کا بہترین ذریعہ یہی نماز کا نظام ہے ۔
حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے نماز کی یہ تمام خصوصیات و تاثیرات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مختلف ارشادات سے اخذ کی ہیں اور ہر ایک کا حوالہ بھی دیا ہے ، لیکن چونکہ وہ پوری حدیثیں آگے اپنی اپنی جگہ پر آنے والی ہیں اس لئے ہم نے شاہ صاحب کے حوالوں کو اس عبارت سے حذف کر دیا ہے ۔
نماز کی عظمت و اہمیت اور اس کے امتیاز کے بارے میں جو کچھ مذکورہ بالا اقتباسات میں شاہ صاحب نے فرمایا ہے ہم اس کو بالکل کافی سمجھتے ہوئے اسی پر اکتفا کرتے ہیں ۔ اب ناظرین کرام شاہ صاحب کے ان ارشادات کو ذہن میں رکھ کر نماز سے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات پڑھیں ۔

تشریح ..... مطلب یہ ہے کہ نماز دین اسلام کا ایسا شعار ہے اور حقیقت ایمان سے اس کا ایسا گہرا تعلق ہے کہ اس کو چھوڑ دینے کے بعد آدمی گویا کفر کی سرحد میں پہنچ جاتا ہے ۔
عَنْ جَابِرٍ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : « بَيْنَ الْعَبْدِ وَبَيْنَ الْكُفْرِ تَرْكُ الصَّلَاةِ » (رواه مسلم)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৪৭৫
کتاب الصلوٰۃ
نماز ترک کرنا ایمان کے منافی اور کافرانہ عمل ہے
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ہمارے اور اسلام قبول کرنے والے عام لوگوں کے درمیان نماز کا عہد و میثاق ہے ، (یعنی ہر اسلام لانے والے سے ہم نماز کا عہد لیتے ہیں جو ایمان کی خاص نشانی اور اسلام کا شعار ہے) پس جو کوئی نماز چھوڑ دے تو گویا اس نے اسلام کی راہ چھوڑ کے کافرانہ طریقہ اختیار کر لیا ۔
عَنْ بُرَيْدَةَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : « الْعَهْدُ الَّذِي بَيْنَنَا وَبَيْنَهُمُ الصَّلَاةُ ، فَمَنْ تَرَكَهَا فَقَدْ كَفَرَ » (رواه احمد والترمذى والنسائى وابن ماجه)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৪৭৬
کتاب الصلوٰۃ
نماز ترک کرنا ایمان کے منافی اور کافرانہ عمل ہے
حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میرے خلیل و محبوب صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے وصیت فرمائی ہے کہ اللہ کے ساتھ کبھی کسی چیز کو شریک نہ کرنا اگرچہ تمہارے ٹکڑے کر دئیے جائیں اور تمہیں آگ میں بھون دیا جائے ، اور خبردار کبھی بالارادہ نماز نہ چھوڑنا ، کیوں کہ جس نے دیدہ و دانستہ اور عمداً نماز چھوڑ دی تو اس کے بارہ میں وہ ذمہ داری ختم ہو گئی جو اللہ کی طرف سے اس کے وفادار اور صاحب ایمان بندوں کے لیے ہے ، اور خبردار شراب کبھی نہ پینا کیوں کہ وہ ہر برائی کی کنجی ہے ۔ (سنن ابن ماجہ)

تشریح
جس طرح ہر حکومت پر اس کی رعایا کے کچھ حقوق ہوتے ہیں ، اور رعایا جب تک بغاوت جیسا کوئی سنگین جرم نہ کرے ان حقوق کی مستحق سمجھی جاتی ہے ، اسی طرح مالک الملک حق تعالیٰ شانہ نے تمام ایمان والوں اور دین اسلام قبول کرنے والوں کے لیے کچھ خاص احسانات و انعامات کی ذمہ داری محض اپنے لطف و کرم سے لے لی جاتی ہے (جس کا ظہور ان شاء اللہ آخرت میں ہو گا) اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ کو مخاطب کر کے بتا دیا ہے کہ دیدہ و دانستہ اور بالارادہ نماز چھوڑ دینا دوسرے تمام گناہوں کی طرح صرف ایک گناہ نہیں ہے بلکہ باغیانہ قسم کی ایک سرکشی ہے جس کے بعد وہ شخص رب کریم کی عنایت کا مستحق نہیں رہتا اور رحمت خداوندی اس سے بری الذمہ ہو جاتی ہے ۔
اسی مضمون کی ایک حدیث بعض دوسری کتابوں میں حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی روایت سے بھی ذکر کی گئی ہے ، اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے بارہ میں قریب قریب انہی الفاظ میں تاکید و تنبیہ فرمائی ہے ، لیکن اس کے آخری الفاظ تارک نماز کے بارہ میں یہ ہے :
فَمَنْ تَرَكَهَا مُتَعَمِّدًا فَقَدْ خَرَجَ مِنَ الْمِلَّةِ
جس نے دیدہ و دانستہ اور عمداً نماز چھوڑ دی تووہ ہماری ملت سے خارج ہو گیا ۔ (رواہ الطبرانی ، الترغیب للمنذری)
ان حدیثوں میں ترک نماز کو کفریا ملت سے خروج اسی بناء پر فرمایا ہے کہ نماز ایمان کی ایسی اہم نشانی اور اسلام کا ایسا خاص الخاص شعار ہے کہ اس کو چھوڑ دینا بظاہر اس بات کی علامت ہے کہ اس شخص کو اللہ و رسول سے اور اسلام سے تعلق نہیں رہا اور اس نے اپنے کو ملت اسلامیہ سے الگ کر لیا ہے ۔ خاص کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد سعادت میں چونکہ اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا کہ کوئی شخص مومن اور مسلمان ہونے کے بعد تارک نماز بھی ہو سکتا ہے اس لئے اس دور میں کسی کا تاررک نماز ہونا اس کے مسلمان نہ ہونے کی عام نشانی تھی ۔ اور اس عاجز کا خیال ہے کہ جلیل القدر تابعی عبد اللہ بن شفیق نے صحابہ کرام کے بارے میں جو یہ فرمایا ہے کہ :
كَانَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَرَوْنَ شَيْئًا مِنَ الْاَعْمَالِ تَرْكَهُ كُفْرًا غَيْرَ الصَّلَاةِ.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کرام نماز کے سوا کسی عمل کے ترک کرنے کو بھی کفر نہیں سمجھتے تھے ۔ (مشکوٰۃ بحوالہ جامع ترمذی) تو اس عاجز کے نزدیک اس کا مطلب بھی یہی ہے کہ صحابہ کرام دین کے دوسرے ارکان و اعمال مثلاً روزہ ، حج ، زکوٰۃ ، جہاد اور اسی طرح اخلاق و معاملات وغیرہ ابواب کے احکام میں کوتاہی کرنے کو تو بس گناہ اور معصیت سمجھتے تھے ، لیکن نماز چونکہ ایمان کی نشانی اور اس کا عملی ثبوت ہے اور ملت اسلامیہ کا خاص شعار ہے ، اس لیے اس کے ترک کو وہ دین اسلام بے تعلقی اور اسلامی ملت سے خروج کی علامت سمجھتے تھے ۔ واللہ تعالیٰ اعلم ۔
ان حدیثوں سے امام احمد بن حنبلؒ اور بعض دوسرے اکابر امت نے تو یہ سمجھا ہے کہ نماز چھوڑ دینے سے آدمی قطعاً کافر اور مرتد ہو جاتا ہے اور اسلام سے اس کا کوئی تعلق نہیں رہتا حتی کہ اگر وہ اسی حال میں مر جائے تو اس کی نماز جنازہ بھی نہیں پڑھی جائے گی اور مسلمانوں کے قبرستان میں دفن ہونے کی اجازت بھی نہیں دی جائے گی ۔ بہر حال اس کے احکام وہی ہوں گے جو مرتد کے ہوتے ہیں ۔ گویا ان حضرات کے نزدیک کسی مسلمان کا نماز چھوڑ دینا بت یا صلیب کے سامنے سجدہ کرنے یا اللہ تعالیٰ یا اس کے رسول کی شان میں گستاخی کرنے کی طرح کا ایک عمل ہے جس سے آدمی قطعاً کافر ہو جاتا ہے خواہ اس کے عقیدہ میں کوئی تبدیلی نہ ہوئی ہو ۔
لیکن ۔۔۔ دوسرے اکثر ائمہ حق کی رائے یہ ہے کہ ترک نماز اگرچہ ایک کافرانہ عمل ہے ، جس کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ، لیکن اگر کسی بدبخت نے صرف غفلت سے نماز چھوڑ دی ہے مگر اس کے دل میں نماز سے انکار اور عقیدہ میں کوئی انحراف نہیں پیدا ہوا ہے تو اگرچہ وہ دنیا و آخرت میں سخت سے سخت سزا کا مستحق ہے لیکن اسلام سے اور ملت اسلامیہ سے اس کا تعلق بالکل ٹوٹ نہیں گیا ہے اور اس پر مرتد کے احکام جاری نہیں ہو گے ، ان حضرات کے نزدیک مندرجہ بالا احادیث میں ترک نماز کو جو کفر کہا گیا ہے اس کا مطلب کافرانہ عمل ہے اور اس گناہ کی انتہائی شدت اور خباثت ظاہر کرنے کےلئے یہ انداز بیان اختیار کیا گیا ہے ، جس طرح کسی مضر غذا یا دوا کے لیے کہہ دیا جاتا ہے کہ یہ بالکل زہر ہے ۔
عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ ، قَالَ : أَوْصَانِي خَلِيلِي أَنْ : « لَا تُشْرِكْ بِاللَّهِ شَيْئًا ، وَإِنْ قُطِّعْتَ وَحُرِّقْتَ ، وَلَا تَتْرُكْ صَلَاةً مَكْتُوبَةً مُتَعَمِّدًا ، فَمَنْ تَرَكَهَا مُتَعَمِّدًا ، فَقَدْ بَرِئَتْ مِنْهُ الذِّمَّةُ ، وَلَا تَشْرَبِ الْخَمْرَ ، فَإِنَّهَا مِفْتَاحُ كُلِّ شَرٍّ » (رواه ابن ماجه)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৪৭৭
کتاب الصلوٰۃ
نماز ترک کرنا ایمان کے منافی اور کافرانہ عمل ہے
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے بارے میں گفتگو فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ جو بندہ نماز اہتمام سے ادا کرے گا تو وہ قیامت کے دن اس کے واسطے نور ہو گی ، (جس سے قیامت کی اندھیریوں میں اس کو روشنی ملے گی اور اس کے ایمان اور اللہ تعالیٰ سے اس کی وفاداری اور اطاعت شعاری کی نشانی) اور دلیل ہو گی ، اور اس کے لیے نجات کا ذریعہ بنے گی ، اور جس شخص نے نماز کی ادائیگی کا اہتمام نہیں کیا (اور اس سے غفلت اور بے پروائی برتی) تو وہ اس کے واسطے نہ نور بنے گی ، نہ برہان اور نہ ذریعہ نجات ، اور وہ بدبخت قیامت میں قارون ، فرعون ، ہامان اور مشرکین مکہ کے سرغنہ) ابی بن خلف کے ساتھ ہو گا ۔ (مسند احمد ، مسند دارمی ، شعب الایمان للبیہقی)

تشریح
مطلب یہ ہے کہ نماز سے لاپرواہی وہ جرم عظیم ہے جو آدمی کو اس جہنم میں پہنچائے گا جہاں فرعون و ہامان اور قارون اور ابی بن خلف جیسے خدا کے باغی ڈالے جائیں گے ۔ لیکن ظاہر ہے کہ جہنم میں جانے والے سب لوگوں کا عذاب ایک ہی درجہ کا نہ ہو گا ، ایک قید خانہ میں بہت سے قیدی ہوتے ہیں اور اپنے اپنے جرائم کے مطابق ان کی سزائیں مختلف ہوتی ہیں ۔ ظلمات بعضها فوق بعض
عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو بْنِ الْعَاصِ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ : ذَكَرَ اَمْرَ الصَّلَاةَ يَوْمًا فَقَالَ : " مَنْ حَافَظَ عَلَيْهَا؟ كَانَتْ لَهُ نُورًا ، وَبُرْهَانًا ، وَنَجَاةً يَوْمَ الْقِيَامَةِ ، وَمَنْ لَمْ يُحَافِظْ عَلَيْهَا لَمْ يَكُنْ لَهُ نُورٌ ، وَلَا بُرْهَانٌ ، وَلَا نَجَاةٌ ، وَكَانَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مَعَ قَارُونَ ، وَفِرْعَوْنَ ، وَهَامَانَ ، وَأُبَيِّ بْنِ خَلَفٍ " (رواه احمد والدارمى والبيهقى فى شعب الايمان)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৪৭৮
کتاب الصلوٰۃ
نماز پنجگانہ کی فرضیت اور ان پر وعدہ مغفرت
پانچ نمازیں اللہ تعالیٰ نے فرض کی ہیں جس نے ان کے لیے اچھی طرح وضو کیا اور ٹھیک وقت پر ان کو پڑھا اور رکوع سجود بھی جیسے کرنے چاہئیں ویسے ہی کئے اور خشوع کی صفت کے ساتھ ان کو ادا کیا تو ایسے شخص کے لئے اللہ تعالیٰ کا پکا وعدہ ہے کہ وہ اس کو بخش دے گا اور جس نے ایسا نہیں کیا (اور نماز کے بارہ میں اس نے کوتاہی کی) تو اس کے لیے اللہ تعالیٰ کا کوئی وعدہ نہیں ہے چاہے تو اس کو بخش دے گا اور چاہے گا تو سزا دے گا ۔ (مسند احمد ، سنن ابی داؤد)

تشریح
مطلب یہ ہے کہ جو صاحب ایمان بندہ اہتمام اور فکر کے ساتھ نماز اچھی طرح ادا کرے گا تو اولاً تو وہ خود ہی گناہوں سے پرہیز کرنے والا ہو گا اور اگر شیطان یا نفس کے فریب سے کبھی اس سے گناہ سرزد ہوں گے تو نماز کی برکت سے اس کو توبہ و استغفار کی توفیق ملتی رہے گی (جیسا کہ عام تجربہ اور مشاہدہ بھی ہے) اور اس سب کے علاوہ نماز اس کے لئے کفارہ سیئات بھی بنتی رہے گی اور پھر نماز خود گناہوں کے میل کچیل کو صاف کرنے والی اور بندہ کو اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت و عنایت کا مستحق بنانے والی وہ عبادت ہے جو فرشتوں کے لئے بھی باعث رشک ہے ، اس لئے جو بندے نماز کے شرائط و آداب کا پورا اہتمام کرتے ہوئے خشوع کے ساتھ نماز ادا کرنے کے عادی ہوں گے ان کی مغفرت بالکل یقینی ہے ، اور جو لوگ دعوائے اسلام کے باوجود نماز کے بارے میں کوتاہی کریں گے (ان کے حالات کے مطابق) اللہ تعالیٰ جو فیصلہ چاہے گا کرے گا ، چاہے ان کو سزا دے یا اپنی رحمت سے معاف فرما دے اور بخش دے ۔ بہر حال وہ سخت خطرہ میں ہیں اور ان کی مغفرت اور بخشش کی کوئی گارنٹی نہیں ۔
عَنْ عُبَادَةُ بْنُ الصَّامِتِ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : « خَمْسُ صَلَوَاتٍ افْتَرَضَهُنَّ اللَّهُ تَعَالَى مَنْ أَحْسَنَ وُضُوءَهُنَّ وَصَلَّاهُنَّ لِوَقْتِهِنَّ وَأَتَمَّ رُكُوعَهُنَّ وَخُشُوعَهُنَّ كَانَ لَهُ عَلَى اللَّهِ عَهْدٌ أَنْ يَغْفِرَ لَهُ ، وَمَنْ لَمْ يَفْعَلْ فَلَيْسَ لَهُ عَلَى اللَّهِ عَهْدٌ ، إِنْ شَاءَ غَفَرَ لَهُ وَإِنْ شَاءَ عَذَّبَهُ » (رواه احمد وابوداؤد)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৪৭৯
کتاب الصلوٰۃ
نماز گناہوں کی معافی اور تطہیر کا ذریعہ
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن ارشاد فرمایا بتلاؤ اگر تم میں سے کسی کے دروازہ پر نہر جاری ہو جس میں روزانہ پانچ دفعہ وہ نہاتا ہو تو کیا اس کے جسم پر کچھ میل کچیل باقی رہے گا ؟ صحابہ نے عرض کیا کہ کچھ بھی نہیں باقی رہے گا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا بالکل یہی مثال پانچ نمازوں کی ہے ، اللہ تعالیٰ ان کے ذریعہ سے خطاؤں کو دھوتا اور مٹاتا ہے ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
صاحب ایمان بندہ جس کو نماز کی حقیقیت نصیب ہو ۔ جب نماز میں مشغول ہوتا ہے تو اس کی روح گویا اللہ تعالیٰ کے بحر جلال و جمال میں غوطہ زن ہوتی ہے ، اور جس طرح کوئی میلا کچیلا اور گندہ کپڑا دریا کی موجوں پر پڑ کر پاک و صاف اور اجلا ہو جاتا ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ کے جلال و جمال کے انوار کی موجیںاس بندہ کے سارے میل کچیل کو صاف کر دیتی ہیں ، اور جب دن میں پانچ دفعہ یہ عمل ہو تو ظاہر ہے کہ اس بندہ میں میل کچیل کا نام و نشان بھی نہ رہ سکے گا پس یہی حقیقیت ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مثال کے ذریعہ سمجھائی ہے ۔ اگلی حدیث نمبر ۷ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی بات ایک دوسرے انداز میں اور دوسری مثال کے ذریعہ سمجھانے کی کوشش فرمائی ہے ۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : « أَرَأَيْتُمْ لَوْ أَنَّ نَهْرًا بِبَابِ أَحَدِكُمْ يَغْتَسِلُ مِنْهُ كُلَّ يَوْمٍ خَمْسَ مَرَّاتٍ ، هَلْ يَبْقَى مِنْ دَرَنِهِ شَيْءٌ؟ » قَالُوا : لَا يَبْقَى مِنْ دَرَنِهِ شَيْءٌ ، قَالَ : « فَذَلِكَ مَثَلُ الصَّلَوَاتِ الْخَمْسِ ، يَمْحُو اللهُ بِهِنَّ الْخَطَايَا » (رواه البخارى ومسلم)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৪৮০
کتاب الصلوٰۃ
نماز گناہوں کی معافی اور تطہیر کا ذریعہ
حضرت ابو ذررضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن سردی کے ایام میں باہر تشریف لے گئے اور درختو ں کے پتے (خزاں کے سبب سے) از خود جھڑ رہے تھے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک درخت کی دوٹہنیوں کو پکڑا (اور ہلایا) تو ایک دم اس کے پتے جھڑنے لگے ، پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا : اے ابو ذر ! میں نے عرض کیا حاضر ہوں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب مؤمن بندہ خالص اللہ تعالیٰ کے لئے نماز پڑھتا ہے تو اس کے گناہ ان پتوں کی طرح جھڑ جاتے ہیں۔

تشریح
یعنی جس طرح آفتاب کی شعاعوں اور موسم کی خاص ہواؤں نے ان پتوں کو خشک کر دیا ہے اور اب یہ ہوا کے معمولی جھونکوں سے ذرا حرکت دینے سے اس طرح جھڑتے ہیں اسی طرح جب بندہ مومن پوری طرح اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہو کر صرف اس کی رض وجوئی کے لئے نماز پڑھتا ہے تو انوارِ الٰہی کی شعاعیں اور رحمت الہی کے جھونکے اس کے گناہوں کی گندگی کو فنا اور اس کے قصوروں کے خس و خاشاک کو اس سے جدا کر کے اس کو پاک صاف کر دیتے ہیں ۔
عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ زَمَنَ الشِّتَاءِ وَالْوَرَقُ يَتَهَافَتُ ، فَأَخَذَ بِغُصْنَيْنِ مِنْ شَجَرَةٍ ، قَالَ : فَجَعَلَ ذَلِكَ الْوَرَقُ يَتَهَافَتُ ، قَالَ : فَقَالَ : « يَا أَبَا ذَرٍّ » قُلْتُ : لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ. قَالَ : « إِنَّ الْعَبْدَ الْمُسْلِمَ لَيُصَلِّي الصَّلَاةَ يُرِيدُ بِهَا وَجْهَ اللَّهِ ، فَتَهَافَتُ عَنْهُ ذُنُوبُهُ كَمَا يَتَهَافَتُ هَذَا الْوَرَقُ عَنْ هَذِهِ الشَّجَرَةِ » (رواه احمد)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৪৮১
کتاب الصلوٰۃ
نماز گناہوں کی معافی اور تطہیر کا ذریعہ
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو مسلمان آدمی فرض ۔۔۔

تشریح
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نماز کی یہ تاثیر اور برکت کہ وہ سابقہ گناہوں کا کفارہ بن جاتی ہے اور پہلے گناہوں کی گندگی کو دھو ڈالتی ہے اس شرط کے ساتھ مشروط ہے کہ وہ آدمی کبیرہ گناہوں سے آلودہ نہ ہو ، کیوں کہ کبیرہ گناہوں کی نحوست اتنی غلیظ ہوتی ہے اور اس کے ناپاک اثرات اتنے گہرے ہوتے ہیں جن کا ازالہ صرف توبہ ہی سے ہو سکتا ہے ، ہاں اللہ تعالیٰ چاہے تو یونہی معاف فرما دے اس کا کوئی ہاتھ پکڑنے والا نہیں ۔
عَنْ عُثْمَانَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : « يَقُولُ مَا مِنَ امْرِئٍ مُسْلِمٍ تَحْضُرُهُ صَلَاةٌ مَكْتُوبَةٌ فَيُحْسِنُ وُضُوءَهَا وَخُشُوعَهَا وَرُكُوعَهَا ، إِلَّا كَانَتْ كَفَّارَةً لِمَا قَبْلَهَا مِنَ الذُّنُوبِ مَا لَمْ يُؤْتِ كَبِيرَةً وَذَلِكَ الدَّهْرَ كُلَّهُ » (رواه مسلم)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৪৮২
کتاب الصلوٰۃ
نماز پر جنت اور مغفرت کا وعدہ
حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو مسلمان اچھی طرح وضو کرے ، پھر اللہ کے حضور میں کھڑے ہو کر پوری قلبی اور توجہ کے ساتھ دو رکعت نماز پڑھے ، تو جنت اس کے لیے ضرور واجب ہو جائے گی ۔ (صحیح مسلم)
عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : « مَا مِنْ مُسْلِمٍ يَتَوَضَّأُ فَيُحْسِنُ وُضُوءَهُ ، ثُمَّ يَقُومُ فَيُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ مُقْبِلًا عَلَيْهِمَا بِقَلْبِهِ وَوَجْهِهِ ، إِلَّا وَجَبَتْ لَهُ الْجَنَّةُ » (رواه مسلم)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৪৮৩
کتاب الصلوٰۃ
نماز پر جنت اور مغفرت کا وعدہ
حضرت زید بن خالد جہنی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : اللہ تعالیٰ کا جو بندہ ایسی دورکعت نماز پڑھے جس میں اس کو غفلت بالکل نہ ہو تو اللہ تعالیٰ اس نماز ہی کے صلہ میں اس کے سارے سابقہ گناہ معاف فرمادےگا۔

تشریح
مندرجہ بالا حدیثوں کی تشریح میں اوپر جو کچھ لکھا جا چکا ہے ، وہی اس حدیث کی تشریح کے لیے بھی کافی ہے ۔
افسوس کیسی بد بختی ہے کہ نماز کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ان ترہیبی اور ترغیبی ارشادات کے باوجود امت کی بڑی تعداد آج نماز سے غافل اور بے پروا ہو کر اپنے کو اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کے الطاف و عنایات سے محروم اور اپنی دنیا و آخرت کو برباد کر رہی ہے ۔ وَمَا ظَلَمْنَاهُمْ ، وَلَكِنْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُوْنَ
عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " مَنْ صَلَّى سَجْدَتَيْنِ ، لَا يَسْهُو فِيهِمَا ، غَفَرَ اللهُ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ " (رواه احمد)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৪৮৪
کتاب الصلوٰۃ
نماز محبوب ترین عمل
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ دینی اعمال میں سے کو ن سا عمل اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ محبوب ہے …؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ٹھیک وقت پر نماز پڑھنا۔ پھر میں نے عرض کیا کہ اس کے بعد کون سا عمل زیادہ محبوب ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ماں باپ کی خدمت کرنا ۔ میں نے عرض کیا کہ اس کے بعد کون سا عمل زیادہ محبوب ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا راہ خدا میں جہاد کرنا ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے والدین کی خدمت اور جہاد سے افضل اور محبوب ترین “ نماز ” کو بتلایا ہے ، ار بلا شبہ نماز کا مقام یہی ہے ۔ اور اس کی کچھ تفصیل اس ناچیز کے سالہ “ حقیقت نماز ” میں بھی دیکھی جا سکتی ہے ۔
عَنْ بْنِ مَسْعُودٍ ، قَالَ : سَأَلْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : أَيُّ الْعَمَلِ أَفْضَلُ؟ قَالَ : « الصَّلَاةُ لِوَقْتِهَا » قَالَ : قُلْتُ ثُمَّ أَيٌّ؟ قَالَ : « بِرُّ الْوَالِدَيْنِ » قَالَ : قُلْتُ : ثُمَّ أَيٌّ؟ قَالَ : « الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللهِ » (رواه البخارى ومسلم)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৪৮৫
کتاب الصلوٰۃ
نماز کے اوقات
حضرت عبداللہ ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز کے اوقات کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کہ فجر کی نماز کا وقت تو اس وقت تک رہتا ہے جب تک کہ سورج کا ابتدائی کنارہ نمودار نہ ہو ، (یعنی صبح کو سورج جب طلوع ہونے لگے اور افق پر اس کا کنارہ ذرا بھی نمودار ہو جائے تو فجر کا وقت ختم ہو جاتا ہے) اور ظہر کا وقت اس وقت تک ہوتا ہے جب آفتاب بیچ آسمان سے مغرب کی جانب ڈھل جائے اور جب تک کہ عصر کا وقت نہیں آ جاتا اور عصر کی نماز کا وقت اس وقت تک رہتا ہے جب تک کہ سورج زرد نہ پڑ جائے اور اس سورج کا پہلا کنارہ ڈوبنے لگے اور مغرب کی نماز کا وقت اس وقت ہوتا ہے جب آفتاب ڈوب کر بالکل غائب ہو جائے اور اس وقت تک رہتا ہے جب تک شفق غائب نہ ہو ، اور عشاء کی نماز کا وقت آدھی رات تک ہے۔

تشریح
نماز کے اوقات
نماز سے جو اعلیٰ مقاصد اور منافع وابستہ ہیں ، اور اللہ کے خوش نصیب بندں کے لیے اس میں جو لذتیں ہیں ان کا تقاضا تو یہ تھا کہ زندگی کے اگر سارے لمحات نہیں تو کم از کم دن رات کے اکثر اوقات نماز میں ضرف کرنے ضروری قرار دئیے جاتے ، لیکن چونکہ حکمت الٰہی نے انسانوں پر اور بھی بہت سی ذمہ داریاں ڈالی ہیں ، اس لئے دن رات میں صرف پانچ وقت کی نمازیں فرض کی گئی ہیں ۔ اور ان کے اوقات ایسی حکمت سے مقرر کئے گئے ہیں کہ نماز سے جو مقاصد وابستہ ہیں وہ بھی پورے ہوں اور دوسری ذمہ داریوں کی ادائیگی میں بھی خلل نہ پڑے ۔
صبح نیند سے اٹھنے کے وقت (یعنی صبح صادق کے بعد طلوع آفتاب سے پہلے) فجر کی نماز فرض کی گئی ہے تا کہ صبح کو سب سے پہلا کام بارگاہِ قدوسیت میں حاضری و اظہار نیاز اور بندگی کے میثاق کی تجدید ہو ، پھر دوپہر یعنی زوال آفتاب تک کوئی نماز فرض نہیں کی گئی تا کہ ہر شخص اپنے حالات کے مطابق اپنے کام کاج اور دوسری ذمہ داریوں کو اس طویل وقفہ میں انجام دے سکے ۔ پورے آدھے دن کے اس وقفہ کے کے بعد ظہر کی نماز فرض کی گئی اور اس میں بھی یہ سہولت دی گئی کہ خواہ اول وقت ادا کی جائے یا اپنے حالات کے مطابق گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ تاخیر کر کے پڑھی جائے ۔ بہرحال یہ لازم قرار دیا گیا ہے کہ اس طویل وقفہ کے بعد نماز ظہر ادا کی جائے تا کہ غفلت یا بارگاہ خداوندی سے غیر حاضری کی مدت اس سے زیادہ طویل نہ ہو ، پھر شام کے آثار شروع ہونے کے وقت عصر کی نماز فرض کی گئی تا کہ اس خاص وقت میں بھی جو اکثر لوگوں کے لیے اپنے اپنے کاموں سے فرصت پانے اور تفریحی مشاغل مشغول ہونے کا وقت ہوتا ہے ، ایمان والے بندے اپنے ظاہر و باطن سے رب قدوس کی بارگاہ میں حاضر اور اس کی عبادت میں مشغول ہوں ۔ پھر دن کے ختم ہونے پر غروب آفتاب کے بعد مغرب کی نماز فرض کی گئ ، تا کہ دن کے خاتمہ اور رات کے آغاز کے وقت ہم پھر بارگاہ قدوسیت میں حاضر ہو کر اس کی حمد و تسبیح اور بندگی کے عہد کی تجدید کریں ۔ اس کے بعد سونے کے وقت سے پہلے عشاء کی نماز لازم کی گئی ، تا کہ روزانہ کی زندگی کا ہمارا آخری عمل یہی ہو ، اور ہم اپنے مالک سے رابطہ نیاز قائم کر کے اور ایمان و عبدیت کے عہد کی تجدید کر کے سوئیں اور ہماری سہولت کے لیے پانچوں نمازوں کے ان وقتوں میں کافی وسعت بھی دی گئی ہے اپنے وقتی حالات کے مطابق ہم اول وقت بھی پڑھ سکتے ہیں اور درمیانی وقت میں بھی اور آخرت وقت میں بھی ۔
اس پوری تفصیل پر غور کر کے ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ ظہر سے لے کر عشاء تک کی نمازوں کے درمیانی وقفے تو اتنے مختصر مختصر ہیں کہ ایک سچے مومن کے لیے جو نماز کی قدر و قیمت سے واقف ہو اور اس کی لذت سے آشنا ہو ، ظہر پڑھنے کے بعد عصر کا ، عصر کے بعد مغرب کا اور مغرب کے بعد عشاء کا منتظر اور اس کے لیے فکر مند رہنا قدرتی طور پر بالکل ناگزیر ہے اور اس طرح گویا اس پورے وقفہ میں اس کا دل اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ اور نماز سے متعلق ہی رہے گا ۔ البتہ فجر سے ظہر تک کا وقفہ خاصا طویل ہے اور جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا ، اس کو اس لئے اتنا طویل رکھا گیا ہے کہ بندے اپنی دوسری ضروریات اور دوسرے کاموں کو اس وقفہ میں اطمینان سے انجام دے سکیں تاہم اس کی ترغیب دی گئی ے ک جن خوش نصیب بندوں سے ہو سکے وہ اس وقفہ کے درمیان چاشت کی چند رکعتیں پڑھ لیا کریں ۔ اسی طرح رات کے سونے کو انسان کی ایک فطری اور حقیقی ضرورت قرار دے کر عشاء سے فجر تک کوئی نماز فرض نہیں کی گئی ہے ، اور یہ وقفہ سب سے زیادہ طویل رکھا گیا ہے لیکن یہاں بھی اس کی ترغیب دی گئی ہے کہ اللہ کے بندے آدھی رات گزرنے کے بعد کسی وقت اٹھ کر تہجد کی چند رکعتیں پڑھ لیا کریں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی بڑی بڑی فضیلتیں بیان فرمائی ہیں اور خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ایسا دائمی معمول تھا کہ سجر میں بھی قضا نہیں ہوتا تھا ۔ چاشت اور تہجد کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ترغیبی ارشادات ان شاء اللہ اپنے موقع پر آئیں گے ، یہاں تو یہ تمہیدی اشارے صرف نماز پنجگانہ کے بارے میں کیے گئے یں ۔ اس کے بعد اس سلسلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث پڑھی جائیں ۔

تشریح ..... رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں سائل کے سوال کے جواب میں اکثر نمازوں کا آخری اور انتہائی وقت ہی بیان فرمایا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سائل غالباً یہی دریافت کرنا چاہتا ہے کہ ان پانچوں نمازوں کے وقتوں میں کہاں تک وسعت ہے اور ہر نماز کس وقت تک پڑھی جا سکتی ہے اور اس کا آخری وقت کیا ہے ؟ ابتدائی وقت غالباً اس کو معلوم ہو گا ۔ واللہ اعلم ۔
مغرب کی نماز کے بارہ میں اس حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ “ اس کا وقت اس وقت تک رہتا ہے جب تک شفق غائب نہ ہو ” ۔ اس شفق کی تعین اور تحقیق میں ہمارے ائمہ کی رائیں کچھ مختلف ہیں ، اتنی بات تو لوگ عام طور سے جانتے ہیں کہ غروب آفتاب کے بعد مغرب کی جانت کچھ دیر تک سرخی رہتی ہے (1) ، اس کے بعد وہ سرخی ختم ہو جاتی ہے اور اس کی جگہ کچھ دیر تک سفیدی رہتی ہے (2) ، پھر وہ سفیدی بھی غائب ہو جاتی ہے اور سیاہی آ جاتی ہے ۔ پس اکثر ائمہ کی تحقیق تو یہ ہے کہ شفق غروب آفتاب کے بعد والی سرخی کا نام ہے اس لئے ان حضرات کے نزدیک سرخی ختم ہونے پر مغرب کا وقت ختم ہو کر عشاء کا وقت آ جاتا ہے ۔ اور امام ابو حنیفہؒ کا مشہور قول یہ ہے کہ غروب آفتاب کے بعد والی سرخی اور اس کے بعد والی سفیدی دونوں کو شفق کہا جاتا ہے اس لئے ان کے قول کے مطابق مغرب کا وقت اس وقت ختم ہوتا ہے ، جب مغربی افق پر سفیدی بھی باقی نہ رہے اور سیاہی آ جائے اور اسی وقت ان کے نزدیک عچاء کا وقت آتا ہے ، لیکن امام ابو حنیفہؒ سے ایک روایت دوسرے ائمہ کی تحقیق کے مطابق بھی منقول ہے ، اور وہی اس مسئلہ میں ان کے دونوں مشہور شاگردوں امام ابو یوسفؒ اور امام محمدؒ کی بھی تحقیق ہے ۔ اسی لیے بہت سے اکابر احناف نے اسی پر فتویٰ بھی دیا ہے ۔
عشاء کا آخری وقت اس حدیث میں اور اس کے علاوہ بھی بعض دوسری حدیثوں میں آدھی رات تک بتایا گیا ہے لیکن دوسری بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ صبح صادق تک عشاء کا وقت باقی رہتا ہے اس لئے جن حدیثوں میں عشاء کا وقت آدھی رات تک بتایا گیا ہے ، ان کا مطلب یہ سمجھا گیا ہے کہ آدھی رات تک عشاء کی نماز پڑھنا جائز ہے اور اس کے بعد پڑھنامکروہ ہے ۔ واللہ اعلم ۔
عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ، أَنَّهُ قَالَ : سُئِلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ وَقْتِ الصَّلَوَاتِ ، فَقَالَ « وَقْتُ صَلَاةِ الْفَجْرِ مَا لَمْ يَطْلُعْ قَرْنُ الشَّمْسِ الْأَوَّلُ ، وَوَقْتُ صَلَاةِ الظُّهْرِ إِذَا زَالَتِ الشَّمْسِ عَنْ بَطْنِ السَّمَاءِ ، مَا لَمْ تَحْضُرِ الْعَصْرُ ، وَوَقْتُ صَلَاةِ الْعَصْرِ مَا لَمْ تَصْفَرَّ الشَّمْسُ ، وَيَسْقُطْ قَرْنُهَا الْأَوَّلُ ، وَوَقْتُ صَلَاةِ الْمَغْرِبِ إِذَا غَابَتِ الشَّمْسُ ، مَا لَمْ يَسْقُطِ الشَّفَقُ ، وَوَقْتُ صَلَاةِ الْعِشَاءِ إِلَى نِصْفِ اللَّيْلِ » (رواه البخارى ومسلم واللفظ لمسلم)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৪৮৬
کتاب الصلوٰۃ
نماز کے اوقات
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک صاحب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز کے اوقات کے بارے میں سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا ان دونوں دن (آج اور کل) تم ہمارے ساتھ نماز پڑھو۔ پھر (دوپہر کے بعد) جیسے ہی آفتاب ڈھل گیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا ، انہوں نے اذان دی ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا تو انہوں ظہر کی نماز کے لئے اقامت کہی (اور ظہر کی نماز پڑھی گئی) ، پھر (عصر کا وقت آنے پر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا ، انہوں نے (قاعدہ کے مطابق پہلے اذان اور پھر) عصر کے لئے اقامت کہی (اور عصر کی نماز ہوئی) اور یہ اذان اور پھر نماز ایسے وقت ہوئی کہ آفتاب خوب اونچا اور پوری طرح روشن اور صاف تھا (یعنی اس کی روشنی میں وہ فرق نہیں رہا رتھا جو شام کو ہو جاتا ہے) پھر آفتاب غروب ہوتے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال کو حکم دیا تو انہوں مغرب کی اقامت کہی (اور مغرب کی نماز ہوئی) جب جیسے ہی شفق غائب ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو حکم دیا تو انہوں عشاء کی اقامت کہی (اور عشاء کی نماز پڑھی گئی) پھر رات کے ختم پر جیسے ہی صبح صادق نمودار ہوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو حکم دیا اور انہوں نے فجر کی اقامت کہی (اور فجر کی نماز پڑھی گئی) ، پھر جب دوسرا دن ہوا ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال کو ٹھنڈے وقت ظہر کی نماز قائم کرنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ ظہر (آج تاخیر کر کے) ٹھنڈے وقت پڑھی جائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حسب حکم انہوں نے ٹھنڈے وقت پر ظہر کی اقامت کہی اور خوب اچھی طرح ٹھنڈا وقت کر دیا (یعنی کافی تاخیر کر کے ظہر اس دن بالکل آخری وقت پڑھی گئی) اور اور عصر کی نماز ایسے وقت پڑھی گئی کہ آفتاب اگرچہ نیچے ہی تھا ، لیکن کل گزشتہ کے مقابلہ میں زیادہ مؤخر کر کے پڑھی اور مغرب کی نماز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شفق کے غائب ہو جانے سے پہلے پڑھی اور عشاء تہائی رات گزر جانے کے بعد پڑھی اور فجر کی نماز اسفار کے وقت یعنی (دن کا اجالا پھیل جانے پر) پڑھی ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا : ” وہ صاحب کہاں ہے جو نماز کے اوقات کے بارے میں سوال کرتے تھے ؟ “ ، اس شخص نے عرض کیا کہ میں حاضر ہوں یا رسول اللہ ! ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا تمہاری نمازوں کا وقت اس کے درمیان ہےجو تم نے دیکھا ۔

تشریح
ان سائل کو نماز کے اوقات کا اول و آخر سمجھانے کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف زبانی تعلیم و تفہیم کے بجائے یہ بہتر سمجھا کہ عمل کر کے دکھا دیا جائے ، اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ دو دن ہمارے ساتھ پانچوں نمازیں پڑھو ، پھر پہلے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر نماز اول وقت پڑھی اور دوسرے دن ہر نماز جائز حد تک مؤخر کر کے پڑھی اور ان سے فرمایا کہ ہر نماز کے وقت کا اول و آخر یہ ہے جس میں تم نے ہم کو نماز پڑھتا دیکھا ۔
عَنْ بُرَيْدَةَ قَالَ إِنَّ رَجُلًا سَأَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ وَقْتِ الصَّلَاةِ ، فَقَالَ لَهُ : « صَلِّ مَعَنَا هَذَيْنِ - يَعْنِي الْيَوْمَيْنِ - فَلَمَّا زَالَتِ الشَّمْسُ أَمَرَ بِلَالًا فَأَذَّنَ ، ثُمَّ أَمَرَهُ ، فَأَقَامَ الظُّهْرَ ، ثُمَّ أَمَرَهُ ، فَأَقَامَ الْعَصْرَ وَالشَّمْسُ مُرْتَفِعَةٌ بَيْضَاءُ نَقِيَّةٌ ، ثُمَّ أَمَرَهُ فَأَقَامَ الْمَغْرِبَ حِينَ غَابَتِ الشَّمْسُ ، ثُمَّ أَمَرَهُ فَأَقَامَ الْعِشَاءَ حِينَ غَابَ الشَّفَقُ ، ثُمَّ أَمَرَهُ فَأَقَامَ الْفَجْرَ حِينَ طَلَعَ الْفَجْرَ ، فَلَمَّا أَنْ كَانَ الْيَوْمُ الثَّانِي أَمَرَهُ فَأَبْرَدَ بِالظُّهْرِ ، فَأَبْرَدَ بِهَا ، فَأَنْعَمَ أَنْ يُبْرِدَ بِهَا ، وَصَلَّى الْعَصْرَ وَالشَّمْسُ مُرْتَفِعَةٌ أَخَّرَهَا فَوْقَ الَّذِي كَانَ ، وَصَلَّى الْمَغْرِبَ قَبْلَ أَنْ يَغِيبَ الشَّفَقُ ، وَصَلَّى الْعِشَاءَ بَعْدَمَا ذَهَبَ ثُلُثُ اللَّيْلِ ، وَصَلَّى الْفَجْرَ فَأَسْفَرَ بِهَا » ، ثُمَّ قَالَ : « أَيْنَ السَّائِلُ عَنْ وَقْتِ الصَّلَاةِ؟ » فَقَالَ الرَّجُلُ : أَنَا ، يَا رَسُولَ اللهِ ، قَالَ : « وَقْتُ صَلَاتِكُمْ بَيْنَ مَا رَأَيْتُمْ » (رواه مسلم)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৪৮৭
کتاب الصلوٰۃ
نماز کے اوقات
سیار بن سلامہ سے روایت ہے کہ میں اپنے والد کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ابوبرزہ اسلمی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ تو میرے والد نے ان سے دریافت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرض نمازیں کیسے پڑھا کرتے تھے؟ (یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نماز پڑھنے کے اوقات کیا تھے ؟) تو انہوں نے فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دوپہر والی نماز جس کو تم “ نماز اولیٰ ” کہتے ہو (یعنی ظہر) اس وقت پڑھتے تھے جب سورج ڈھل جاتا تھا ۔ اور عصر ایسے وقت پڑھتے تھے کہ اس کے بعد ہم میں سے کوئی آدمی مدینہ کے بالکل آخری سے پر اپنے گھر واپس جاتا تو ایسے وقت پہنچ جاتا تھا کہ آفتاب زندہ ہوتا تھا (یعنی اس میں روشنی و حرارت باقی ہی رہتی تھی ۔ وہ زرد اور ٹھنڈا نہیں ہو جاتا تھا آگے سیار بن سلامہ کہتے ہیں) اور میں یہ بھول گیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مغرب کی نماز کے بارے میں انہوں نے کیا بتایا تھا (آگے ابو برزہ اسلمی کا بیان نقل کرتے ہیں کہ) اور عشاء (جسے تم لوگ عتمہ کہتے ہو) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دیر کر کے پڑھنا پسند فرماتے تھے اور اس سے پہلے سونے کو اور اس کے بعد باتیں کرنے کو ناپسند فرماتے تھے ۔ اور صبح کی نماز سے ایسے وقت فارغ ہوتے تھے جب آدمی (صبح کے اجالے میں) اپنے پاس بیٹھنے والوں کو پہچان لیتا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم (فجر کی نماز میں) ساٹھ سے لے کر سو تک آیتیں پڑھتے تھے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
اس حدیث کے راوی سیار بن سلامہ کو یہ یاد نہیں رہا کہ ابو برزہ اسلمی رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مغرب کی نماز کا وقت کیا بتایا تھا ، دوسری حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مغرب کی نماز عام طور سے اول وقت یعنی آفتاب غروب ہوتے ہی پڑھا کرتے تھے ، کبھی کسی خاص ضرورت ار مصلحت ہی سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مغرب کی نماز کی تاخیر کر کے پڑھی ہے ۔
عَنْ سَيَّارِ بْنِ سَلاَمَةَ ، قَالَ : دَخَلْتُ أَنَا وَأَبِي عَلَى أَبِي بَرْزَةَ الأَسْلَمِيِّ ، فَقَالَ لَهُ أَبِي : كَيْفَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي المَكْتُوبَةَ؟ فَقَالَ : « كَانَ يُصَلِّي الهَجِيرَ ، الَّتِي تَدْعُونَهَا الأُولَى ، حِينَ تَدْحَضُ الشَّمْسُ ، وَيُصَلِّي العَصْرَ ، ثُمَّ يَرْجِعُ أَحَدُنَا إِلَى رَحْلِهِ فِي أَقْصَى المَدِينَةِ ، وَالشَّمْسُ حَيَّةٌ - وَنَسِيتُ مَا قَالَ فِي المَغْرِبِ - وَكَانَ يَسْتَحِبُّ أَنْ يُؤَخِّرَ العِشَاءَ ، الَّتِي تَدْعُونَهَا العَتَمَةَ ، وَكَانَ يَكْرَهُ النَّوْمَ قَبْلَهَا ، وَالحَدِيثَ بَعْدَهَا ، وَكَانَ يَنْفَتِلُ مِنْ صَلاَةِ الغَدَاةِ حِينَ يَعْرِفُ الرَّجُلُ جَلِيسَهُ ، وَيَقْرَأُ بِالسِّتِّينَ إِلَى المِائَةِ » (رواه البخارى)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৪৮৮
کتاب الصلوٰۃ
نماز کے اوقات
حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہ کے پوتے محمد بن عمرو بن حسن سے روایت ہے کہ ہم نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نمازوں کے بارے میں سوال کیا۔ (یعنی یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پنجگانہ نمازیں کس وقت پڑھتے تھے) تو انہوں نے بتایا کہ ظہر کی نماز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نصف النہار میں (یعنی زوال ہوتے ہی) پڑھتے تھے۔ اور عصر ایسے وقت کہ سورج بالکل زندہ ہوتا تھا ، (اس کی گرمی اور روشنی میں کوئی فرق نہیں پڑتا تھا) اور مغرب اس وقت جب آفتاب غروب ہوتا ، اور ” عشاء (کے بارے میں معمول یہ تھا کہ) جب لوگ زیادہ تعداد میں آ جاتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سویرا پڑھ لیتے تھے اور لوگ کم ہوتے تو مؤخر کر کے پڑھتے تھے ۔ اور صبح کی نماز اندھیرے میں پڑھتے تھے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
حضرت جابرؓ کی اس حدیث میں اور اس سے پہلی ابو برزہ اسلمیؓ والی حدیث میں بھی ظہر کی نماز کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول یہ بتایا گیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم زوال ہوتے ہی نصف النہار میں پڑھ لیا کرتے تھے ، لیکن آگے آنے والی بعض دوسری حدیثوں سے پتہ چلتا ہے کہ یہ معمول آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا گرمی کے موسم کے علاوہ تھا ۔ جب گرمی سخت پڑتی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر میں اتنی تاخیر فرماتے تھے کہ گرمی کی حدت ختم ہو جائے اور وقت کچھ ٹھنڈا ہو جائے اور اسی کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو بھی ہدایت فرمائی ہے ۔
عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ ، قَالَ : سَأَلْنَا جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ صَلاَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : « كَانَ يُصَلِّي الظُّهْرَ بِالهَاجِرَةِ ، وَالعَصْرَ وَالشَّمْسُ [ص : 118] حَيَّةٌ ، وَالمَغْرِبَ إِذَا وَجَبَتْ ، وَالعِشَاءَ إِذَا كَثُرَ النَّاسُ عَجَّلَ ، وَإِذَا قَلُّوا أَخَّرَ ، وَالصُّبْحَ بِغَلَسٍ » (رواه البخارى ومسلم)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৪৮৯
کتاب الصلوٰۃ
نماز کے اوقات
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ جب گرمی ہوتی تو دیر کر کے ٹھنڈے وقت (ظہر کی) نماز پڑھتے اور جب سردی کا موسم ہوتا تو جلدی (یعنی اول ہی وقت میں) پڑھ لیتے ۔ (نسائی)
عَنْ أَنَسٍ قَالَ : « كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا كَانَ الْحَرُّ أَبْرَدَ بِالصَّلَاةِ ، وَإِذَا كَانَ الْبَرْدُ عَجَّلَ » (رواه النسائى)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৪৯০
کتاب الصلوٰۃ
نماز کے اوقات
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : جب گرمی سخت ہو تو ظہر کو ٹھنڈے وقت پڑھا کرو ، کیونکہ گرمی کی شدت آتش دوزخ کے جوش سے ہے۔ (صحیح بخاری)
(یہ حدیث صحیح بخاری اور صحیح مسلم دونوں میں حضرت ابو ہریرہ کی روایت سے بھی مروی ہے ، لیکن اس میں “ فَأَبْرِدُوا بِالصَّلاَةِ ” کا لفظ ہے ، اگرچہ مراد اس سے بھی ظہر ہی ہے)

تشریح
دنیا میں ہم جو کچھ دیکھتے ہیں اور محسوس کرتے ہین اس کے کچھ تو ظاہری اسباب ہوتے ہیں جنہیں ہم خود بھی جانتے ہیں اور سمجھتے ہیں اور کچھ باطنی اسباب ہوتے ہیں جو ہمارے احساس و ادراک کی دسترس سے باہر ہوتے ہیں ۔ انبیاء علیہم السلام کبھی کبھی ان کی طرف اشارے فرماتے ہیں ، اس حدیث میں جو فرمایا گیا ہے کہ “ گرمی کی شدت آتش دوزخ کے جوش سے ہے ” یہ اسی قبیل کی چیز ہے ، گرمی کی شدت کا ظاہری سبب تو آفتاب ہے اور اس بات کو ہر شخص جانتا ہے اور کوئی بھی اس سے انکار نہیں کر سکتا ، لیکن عالم باطن ، اور عالم غیب میں اس کا تعلق جہنم کی آگ سے بھی ہے ، اور یہ ان حقائق میں سے ہے جو انبیاء علیہم السلام ہی کے ذریعہ معلوم ہو سکتے ہیں ۔ دراصل ہر راحت اور لذت کا مرکز اور سرچشمہ جنت ہے ، اور ہر تکلیف و مصیبت کا اصل خزانہ اور سرچشمہ جہنم ہے ، اس دنیا میں جو کچھ راحت و لذت یا تکلیف و مصیبت ہے وہ وہیں کے لامحدود خزانہ کا کوئی ذرہ اور اسی اتہاہ سمندر کا کوئی قطرہ اور وہیں کی ہواؤں کا کوئی جونکا ہے ، اور اس کو اس مرکز و مخزن سے خاص نسبت ہے ، اسی بنیاد پر اس حدیث میں گرمی کی شدت کو جہنم کی تیزی اور اس کے جوش و خروش سے منسوب کیا گیا ہے ، اور اصل مقصد بس اتنا ہے کہ گرمی کی شدت کو جہنم سے ایک خاص نسبت ہے اور وہ غضب خداوندی کا ایک مظہر ہے اور خنکی و ٹھنڈک رحمت خداوندی کی لہر ہے اس لئے جس موسم میں نصف النہار کے وقت سخت گرمی ہو اور گرمی کی شدت سے فضا جہنم بن رہی ہو تو ظہر کی نماز کچھ تاخیر کر کے ایسے وقت پڑھی جائے جب گرمی کی شدت ٹوٹ جائے وقت کچھ ٹھنڈا ہو جائے ۔ واللہ تعالیٰ اعلم ۔
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : « أَبْرِدُوا بِالظُّهْرِ ، فَإِنَّ شِدَّةَ الحَرِّ مِنْ فَيْحِ جَهَنَّمَ » (رواه البخارى)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৪৯১
کتاب الصلوٰۃ
وقت عصر کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عصر کی نماز ایسے وقت پڑھتے تھے کہ آفتاب بلند اور زندہ ہوتا تھا۔ پس عوالی (یعنی مدینہ کی بالائی آبادیوں) کی طرف جانے والا آدمی (حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز عصر پڑھ کے) چلتا تھا تو وہ عوالی ایسے وقت پہنچ جاتا تھا کہ آفتاب اس وقت بھی اونچا ہوتا تھا ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
حضرت انس رضی اللہ عنہ کو اللہ تعالیٰ نے بہت طویل عمر عطا فرمائی (1) ۔ پہلی صدی ہجری کے اواخر میں ان کی وفات ہوئی ہے ۔ خلافت راشدہ کے خاتمہ کے بعد اموی حکومت کے بھی تقریباً پچاس سال انہوں نے دیکھے ہیں ، ان کے زمانے میں بنو امیہ کے بعض خلفا اور امراء عصر کی نماز میں بہت تاخیر کرتے تھے ، حضرت انس رضی اللہ عنہ ان کے اس طرزِ عمل کو بہت غلط اور خلاف سنت سمجھتے تھے ، اور حسب موقع اپنی اس رائے کا اظہار فرماتے تھے ، اس حدیث کے بیان کرنے سے بھی ان کا مقصد یہی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول عصر کی نماز میں اتنی تاخیر کا نہیں تھا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایسے وقت عصر پڑھتے تھے کہ آفتاب خوب بلند اور اپنی حرارت اور روشنی کے لحاظ سے بالکل زندہ ہوتا تھا ، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عصر پڑھ کر اگر کوئی شخص عوالی کی طرف جاتا تو جس وقت وہ وہاں پہنچتا اس وقت بھی آفتاب بلندی پر ہوتا ۔
عوالی مدینہ طیبہ کے قریب کی وہ آبادیاں کہلاتی ہیں جو بجانب مشرق تھوڑے فاصلہ پر ہیں ۔ ان مین سے جو قریب ہیں وہ دو تین میل پر ہیں اور جو دور ہین وہ پانچ چھ میل پر ہیں
عَنْ أَنَسٍ قَالَ : كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ « يُصَلِّي الْعَصْرَ ، ثُمَّ يَذْهَبُ الذَّاهِبُ إِلَى الْعَوَالِي فَيَأْتِي العَوَالِيَ وَالشَّمْسُ مُرْتَفِعَةٌ » (رواه البخارى ومسلم)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৪৯২
کتاب الصلوٰۃ
وقت عصر کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : یہ منافق والی نماز ہے کہ آدمی بیٹھا ہوا آفتاب کا انتظار کرتا رہے یہاں تک کہ وہ زرد پڑ جائے اور شیطان کے دونوں قرنوں کے درمیان ہو جائے تو کھڑا ہو اور چار ٹھونگیں مارے اور ان میں اللہ کو بہت ہی تھوڑا یاد کرے ۔ (صحیح مسلم)

تشریح
مطلب یہ ہے کہ عصر کی نماز میں بلا کسی مجبوری کے اتنی تاخیر کرنا کہ آفتاب میں زردی آ جائے اور اس آخری اور تنگ وقت میں مرغ کی ٹھونگوں کی طرح جلدی جلدی چار رکعتیں پڑھنا جن میں اللہ کے ذکر کی مقدار بھی بہت کم اور ب مطلب یہ ہے کہ عصر کی نماز میں بلا کسی مجبوری کے اتنی تاخیر کرنا کہ آفتاب میں زردی آ جائے اور اس آخری اور تنگ وقت میں مرغ کی ٹھونگوں کی طرح جلدی جلدی چار رکعتیں پڑھنا جن میں اللہ کے ذکر کی مقدار بھی بہت کم اور ب مطلب یہ ہے کہ عصر کی نماز میں بلا کسی مجبوری کے اتنی تاخیر کرنا کہ آفتاب میں زردی آ جائے اور اس آخری اور تنگ وقت میں مرغ کی ٹھونگوں کی طرح جلدی جلدی چار رکعتیں پڑھنا جن میں اللہ کے ذکر کی مقدار بھی بہت کم اور بس برائے نام ہو ، ایک منافقانہ عمل ہے ، مؤمن کو چاہئے کہ ہر نماز خاص کر عصر کی نماز اپنے صحیح وقت پر اور طمانیت اور تعدیل کے ساتھ پڑھے جلدی جلدی رکوع سجدہ کرنے کی کیفیت کو مرغ کی ٹھونگوں سے تشبیہ دی گئی ہے ، غالبا اس سے بہتر کوئی تشبیہ نہیں ہو سکتی ۔
“ شیطان کے دو قرنوں ” کے درمیان آفتاب کے طلوع اور غروب ہونے کا ذکر بعض احادیث میں بھی آیا ہے ، ہم جس طرح شیطان کی پوری حقیقت نہیں جانتے ، اسی طرح اس کے دو قرنوں اور ان کے درمیان آفتاب کے طلوع و غروب کی حقیقت بھی ہمارے معلومات کے دائرے سے باہر کی چیز ہے اور جیسا کہ بعض شارحین نے لکھا ہے یہ بھی ممکن ہے کہ یہ کوئی تشبیہ و تمثیل ہو ۔ واللہ اعلم ۔
وَعَنْهُ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : « تِلْكَ صَلَاةُ الْمُنَافِقِ ، يَجْلِسُ يَرْقُبُ الشَّمْسَ حَتَّى إِذَا كَانَتْ بَيْنَ قَرْنَيِ الشَّيْطَانِ ، قَامَ فَنَقَرَهَا أَرْبَعًا ، لَا يَذْكُرُ اللهَ فِيهَا إِلَّا قَلِيلًا » (رواه مسلم)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৪৯৩
کتاب الصلوٰۃ
وقت مغرب کے بارے میں
حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میری امت ہمیشہ خیر کے ساتھ رہے گی ، جب تک کہ مغرب کی نماز اتنی مؤخر کر کے نہ پڑھے کہ ستارے گنجان ہو جائیں ۔ (سنن ابی داؤد)

تشریح
مغرب کی نماز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عموماً اول وقت میں پڑھتے تھے ، جیسا کہ اس حدیث سے معلوم ہوا ، بلا کسی عذر اور مجبوری کے اس میں اتنی تاخیر کرنا کہ ستاروں کا جال آسمان پر پھیل جائے ناپسندیدہ اور مکروہ ہے ، اگرچہ اس کا وقت جیسا کہ پہلے ذکر کیا جا چکا شفق غائب ہونے تک باقی رہتا ہے ۔ تاہم اگر کبھی کسی اہم دینی مشغولیت کی وجہ سے مغرب میں کچھ تاخیر ہو جائے تو اس کی گنجائش ہے ، صحیح بخاری میں عبداللہ بن شقیق سے مروی ہے کہ ایک دفعہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے عصر کے بعد وعظ شروع فرمایا یہاں تک کہ آفتاب غروب ہو گیا اور آسمان پر ستارے نکل آئے اور آپ کی بات جاری رہی ، حاضرین میں سے بعض نے کہا “ الصلوٰۃ الصلوٰۃ ” تو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے ان کو ڈانٹا اور کبھی کبھی کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طرز عمل کا حوالہ دے کر ان کو بتلایا کہ ایسے مواقع پر تاخیر بھی کی جا سکتی ہے ۔
عَنْ أَبِىْ أَيُّوب قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : « لَا يَزَالُ أُمَّتِي بِخَيْرٍ » - أَوْ قَالَ : عَلَى الْفِطْرَةِ - مَا لَمْ يُؤَخِّرُوا الْمَغْرِبَ إِلَى أَنْ تَشْتَبِكَ النُّجُومُ ". (رواه ابوداؤد)
tahqiq

তাহকীক: