মা'আরিফুল হাদীস (উর্দু)
معارف الحديث
کتاب الزکوٰۃ - এর পরিচ্ছেদসমূহ
মোট হাদীস ২০ টি
হাদীস নং: ৮২৫
کتاب الزکوٰۃ
ایمان اور نماز کے بعد زکوٰۃ کی دعوت
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ بن جبل رضی الله عنہ کو یمن کی طرف بھیجا (رو رخصت کرتے ہوئے ان سے) فرمایا : کہ تم ایک صاحبِ کتاب قوم کے پاس پہنچو گے ، (جب تم ان کے پاس پہنچو) تو (سب سے پہلے) ان کو اس کی دعوت دینا کہ وہ (اس حقیقت کو مانیں اور) اس کی شہادت ادا کریں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت اور بندگی کے لائق نہیں ، اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں ، پھر اگر وہ تمہاری یہ بات مان لیں تو تم ان کو بتلانا کہ اللہ نے تم پر دن رات میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں ، پھر اگر وہ اس کو بھی مان لیں تو ان کو بتلانا کہ اللہ نے ان پر صدقہ (زکوٰۃ) فرض کی ہے ، جو ان میں کے مالداروں سے وصول کی جائے گی اور انہی میں کے فقراء و غرباء کو دےدی جائے گی پھر اگر وہ اس کو بھی مان لیں تو (زکوٰۃ کی اس وصولیابی کے سلسلے میں چھانٹ چھاٹ کے) ان کے اچھے نفیس اموال لینے سے پرہیز کرنا (بلکہ اوسط کے حساب سے وصول کرنا ، اور اس کے بارے میں کوئی ظلم و زیادتی کسی پر نہ کرنا) اور مظلوم کی بد دعا سے بچنا ، کیوں کہ اس کے اور اللہ کے درمیان کوئی روک نہیں ہے۔ (وہ بلا روک ٹوک سیدھی بارگاہِ خداوندی میں پہنچتی ہے اور قبول ہوتی ہے) ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
تشریح
بسم اللہ الرحمن الرحیم
دین میں زکوٰۃ کی اہمیت اور اس کا مقام
یہ ایک معلوم و معروف حقیقت ہے کہ شہادت توحید و رسالت اور اقامت صلوٰۃ کے بعد زکوٰۃ اسلام کا تیسرا رکن ہے ۔ قرآن مجید میں ستر سے زیادہ مقامات پر اقامت صلوٰۃ اور اداء زکوٰۃ کا ذکر اس طرح ساتھ ساتھ کیا گیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ دین میں ان دونوں کا مقام اور درجہ قریب قریب ایک ہی ہے ۔ اسی لیے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد بعض علاقوں کے ایسے لوگوں نے جو بظاہر اسلام قبول کر چکے تھے اور توحید و رسالت کا اقرار کرتے اور نمازیں پڑھتے تھے زکوٰۃ سے انکار کیا تو صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے ان کے خلاف جہاد کا اسی بنیاد پر فیصلہ کیا تھا کہ یہ نماز اور زکوٰۃ کے حکم میں تفریق کرتے ہیں جو اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دین سے انحراف اور ارتداد ہے ..... صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی مشہور روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے فرمایا :
وَاللَّهِ لَأُقَاتِلَنَّ مَنْ فَرَّقَ بَيْنَ الصَّلاةِ وَالزَّكَاةِ
خدا کی قسم نماز اور زکوٰۃ کے درمیان جو لوگ تفریق کریں گے ، میں ضرور ان کے خلاف جہاد کروں گا ۔
پھر تمام صحابہ کرامؓ نے ان کے اس نقطہ نظر کو قبول کر لیا اور اس پر سب کا اجماع ہو گیا ۔
اسی سلسلہ “ معارف الحدیث ” کی پہلی جلد کے بالکل شروع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ حدیثیں ذکر کی جا چکی ہیں جن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کے ارکان اور بنیادی احکام و مطالبات کا ذکر کرتے ہوئے توحید و رسالت کی شہادت کے بعد اقامت صلوٰۃ اور ایتاء زکوٰۃ ہی کا ذکر کیا ہے ۔ بہر حال قرآن پاک اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات و خطبات میں اقامت صلوٰۃ اور ایتاء زکوٰۃ کا ذکر عموماً اس طرح ساتھ ساتھ کیا گیا ہے جس سے مفہوم ہوتا ہے کہ ان دونوں کا درجہ قریب قریب ایک ہی ہے اور ان دونوں کے درمیان کوئی خاص رابطہ ہے ۔
زکوٰۃ کے تین پہلو
زکوٰۃ میں نیکی اور افادیت کے تین پہلو ہیں : ایک یہ کہ مومن بندہ جس طرح نماز کے قیام اور رکوع و سجود کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کے حضور میں اپنی بندگی اور تذلل و نیاز مندی کا مظاہر جسم و جان اور زبان سے کرتا ہے تا کہ اللہ تعالیٰ کی رضا و رحمت اور اس کا قرب اس کو حاصل ہو اسی طرح زکوٰۃ ادا کر کے وہ اسکی بارگاہ میں اپنی مالی نذر اسی غرض سے پیش کرتا ہے اور اس بات کا عملی ثبوت دیتا ہے کہ اس کے پاس جو کچھ ہے وہ اسے اپنا نہیں بلکہ خدا کو سمجھتا اور یقین کرتا ہے ، اور اسکی رضا اور اس کا قرب حاصل کرنے کے لیے وہ اس کو قربان کرتا اور نذرانہ چڑھاتا ہے ..... زکوٰۃ کا شمار “ عبادات ” میں اس پہلو سے ہے ۔ دین و شریعت کی خاص اصطلاح میں “ عبادات ” (جیسے کہ پہلے بھی اپنے موقع پر ذکر کیا جا چکا ہے) بندے کے انہی اعمال کو کہا جاتا ہے جن کا خاص مقصد و موضوع اللہ تعالیٰ کے حضور میں اپنی عبدیت اور بندگی کے تعلق کو ظاہر کرنا اور اس کے ذریعہ اس کا رحم و کرم اور اس کا قرب ڈھونڈھنا ہو ۔
دوسرا پہلو زکوٰۃ میں یہ ہے کہ اس کے ذریعے اللہ کے ضرورت مند اور پریشان حال بندوں کی خدمت و اعانت ہوتی ہے ۔ اس پہلو سے زکوٰۃ اخلاقیات کا نہایت ہی اہم باب ہے ۔
تیسرا پہلو اس میں افادیت کا یہ ہے کہ حب مال اور دولت پرستی جو ایک ایمان کش اور نہایت مہلک روحانی بیماری ہے ، زکوٰۃ اس کا علاج اور اس کے گندے اور زہریلے اثرات سے نفس کی تطہیر اور تزکیہ کا ذریعہ ہے ۔ اسی بنا پر قرآن مجید میں ایک جگہ فرمایا گیا ہے :
خُذْ مِنْ اَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَ تُزَكِّيْهِمْ بِهَا (سوره توبه ، 103 : 9)
اے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) آپ مسلمانوں کے اموال میں سے صدقہ (زکوٰۃ) وصول کیجئے جس کے ذریعہ ان کے قلوب کی تطہیر اور ان کے نفوس کی تطہیر اور ان کے نفوس کا تزکیہ ہو ۔
دوسری جگہ فرمایا گیا ہے :
وَ سَيُجَنَّبُهَا الْاَتْقَىۙ۰۰۱۷ الَّذِيْ يُؤْتِيْ مَالَهٗ يَتَزَكّٰى ۚ۰۰۱۸ (سورة الليل)
اور اس آتش دوزخ سے نہایت متقی بندہ دور رکھا جائے گا جو اپنا مال راہ خدا میں اس لیے دیتا ہو کہ اس کی روح اور اس کے دل کو پاکیزگی حاصل ہو ۔
بلکہ زکوٰۃ کا نام غالباً اسی پہلو سے زکوٰۃ رکھا گیا ہے ، کیوں کہ زکوٰۃ کے اصل معنی ہی پاکیزگی کے ہیں ۔
زکوٰۃ کا حکم اگلی شریعتوں میں
زکوٰۃ کی اس غیر معمولی اہمیت اور افادیت کی وجہ سے اس کا حکم اگلے پیغمبروں کی شریعتوں میں بھی نماز کے ساتھ ہی ساتھ برابر رہا ہے ۔
سورہ انبیاء میں حضرت ابراہیمؑ اور ان کے صاحبزادے حضرت اسحٰق اور پھر ان کے صاحبزادے حضرت یعقوب علیہم السلام کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا ہے :
وَ اَوْحَيْنَاۤ اِلَيْهِمْ فِعْلَ الْخَيْرٰتِ وَ اِقَامَ الصَّلٰوةِ وَ اِيْتَآءَ الزَّكٰوةِ١ۚ وَ كَانُوْا لَنَا عٰبِدِيْنَۚۙ۰۰۷۳
(سوره انبياء 3 : 21)
اور ہم نے ان کو حکم بھیجا نیکیوں کے کرنے کا (خاص کر) نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ دینے کا اور وہ ہمارے عبادت گزار بندے تھے ۔
اور سورہ مریم میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کے بارے میں فرمایا گیا ہے :
وَ كَانَ يَاْمُرُ اَهْلَهٗ بِالصَّلٰوةِ وَ الزَّكٰوةِ (مريم 55 : 19)
اور وہ اپنے گھر والوں کو نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیتے ہیں ۔
اور اسرائیلی سلسلے کے آخری پیغمبر حضرت عیسیٰ بن مریمؑ کے متعلق ہے کہ انہوں نے اپنی قوم کے لوگوں سے فرمایا :
اِنِّيْ عَبْدُ اللّٰهِ١ؕ۫ اٰتٰىنِيَ الْكِتٰبَ وَ جَعَلَنِيْ نَبِيًّاۙ۰۰۳۰ وَّ جَعَلَنِيْ مُبٰرَكًا اَيْنَ مَا كُنْتُ١۪ وَ اَوْصٰنِيْ بِالصَّلٰوةِ وَ الزَّكٰوةِ مَا دُمْتُ حَيًّا٢۪ۖ۰۰۳۱ (سوره مريم 31 : 19)
میں اللہ کا بندہ ہوں اس نے مجھے کتاب عطا فرمائی ہے اور نبی بنایا ہے اور میں جہاں کہیں میں ہوں مجھے اس نے بابرکت بنایا ہے اور جب تک میں زندہ رہوں گا مجھے نماز اور زکوٰة کی وصیت فرمائی ہے۔
اور سورہ بقرہ میں جہاں بنی اسرائیل کے ایمانی میثاق اور بنیادی احکام کا ذکر کیا گیا ہے جن کی ادائیگی اور ان سے عہد لیا گیا تھا ان میں ایک حکم یہ بھی بیان کیا گیا ہے :
وَاَقِيْمُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَ (سوره بقره 83 : 2)
اور نماز قائم کرتے رہنا اور زکوٰۃ ادا کیا کرنا ۔
اسی طرح جہاں سورہ مائدہ میں بنی اسرائیل کے اس عہد و میثاق کا ذکر کیا گیا ہے ، وہاں یہ بھی فرمایا گیا ہے :
وَقَالَ اللَّـهُ إِنِّي مَعَكُمْ ۖ لَئِنْ أَقَمْتُمُ الصَّلَاةَ وَآتَيْتُمُ الزَّكَاةَ وَآمَنتُم بِرُسُلِي
پھر اللہ نے فرمایا میں (اپنی مدد کے ساتھ) تمہارے ساتھ ہوں اگر تم قائم کرتے رہے نماز اور ادا کرتے رہے زکوٰة اور ایمان لاتے رہے میرے رسولوں پر ۔
قرآن مجید کی ان آیات سے ظاہر ہے کہ نماز اور زکوٰۃ ہمیشہ سے آسمانی شریعتوں کے خاص ارکان اور شعائر رہے ہیں ، ہاں ان کے حدود اور تفصیلی احکام و تعینات میں فرق رہا ، اور یہ فرق تو خود ہماری شریعت کے بھی ابتدائی اور آخری تکمیلی دور میں رہا ہے ۔ مثلاً یہ کہ پہلے نماز تین وقت کی تھی پھر پانچ وقت کی ہو گئی اور مثلاً یہ کہ پہلے ہر فرض نماز صرف دو رکعت پڑھی جاتی تھی پھر فجر کے علاوہ باقی چاروں وقتوں میں رکعتیں بڑھ گئیں ، اورمثلاً یہ کہ ابتدائی دور میں نماز پڑھے ہوئے سلام کلام کی اجازت تھی اس کے بعد اس کی ممانعت ہو گئی ۔ اسی طرح ہجرت سے پہلے مکہ کے زمانہ قیام میں زکوٰۃ کا حکم تھا ۔ (چنانچہ سورہ مومنون ، سورہ نمل ، اور سورہ لقمان) کی بالکل ابتدائی آیتوں میں اہل ایمان کی لازمی صفات کے طور پر اقامت صلوٰۃ اور ایتاء زکوٰۃ کا ذکر موجود ہے ۔ حالانکہ یہ تینوں سورتیں مکی دور کی ہیں) لیکن اس دور میں زکوٰۃ کا مطلب صرف یہ تھا کہ اللہ کے حاجت مند بندوں پر اور خیر کی دوسری راہوں میں اپنی کمائی صرف کی جائے ۔ نظام زکوٰۃ کے تفصیلی احکام اس وقت نہیں آئے تھے وہ ہجرت کے بعد مدینہ طیبہ میں آئے ۔ پس جن مورخین اور مصنفین نے یہ لکھا ہے کہ زکوٰۃ کا حکم ہجرت ک ے بعد دوسرے سال میں یا اس کے بھی بعد میں آیا ، اس کا مطلب غالباً یہی ہے کہ اس کی حدود تعینات اور تفصیلی احکام اس وقت آئے ، ورنہ زکوٰۃ کا مطلق حکم تو یقیناً اسلام کے ابتدائی دور میں ہجرت سے کافی پہلے آ چکا تھا ۔ یہ بات قرآن مجید کی محولہ بالا مکی سورتوں کی ان آیات کے علاوہ جن کی طرف ابھی اشارہ کیا گیا ہے ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنھا کی اس سے بھی ثابت ہوتی ہے جس میں انہوں نے حبشہ کی ہجرت کا واقعہ بیان کرتے ہوئے حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ کی اس گفتگو کا ذکر کیا ہے جو انہوں نے حبشہ کے بادشاہ نجاشی کے سوال کے جواب میں اسلام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت و تعلیم کے بارے میں ان کے یہ الفاظ بھی ہیں :
وَيَامُرُنَا بِالصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ ..... الخ
اور وہ ہمیں نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیتے ہیں ۔
اور یہ معلوم ہے کہ حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ اور ان کے رفقاء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت مدینہ سے بہت پہلے اسلام کے ابتدائی دور میں حبشہ جا چکے تھے ۔
اسی طرح صحیح بخاری وغیرہ کی روایت کے مطابق شاہ روم کے سوال کے جواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق (اس وقت کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے شدید دشمن) ابو سفیان کا بیان کہ :
وَيَامُرُنَا بِالصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ وَالصِّلَةِ وَالْعَفَافِ ..... الخ
وہ نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیتے ہیں ، اور صلہ رحمی اور پاکدامنی کی ہدایت کرتے ہیں ۔
اس کا واضح ثبوت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت سے پہلے مککہ معظمہ کے زمانہ قیام میں بھی نماز اور زکوٰۃ کی دعوت دیتے تھے ..... ہاں نظام زکوٰۃ کے تفصیلی مسائل اور حدود و تعینات ہجرت کے بعد آئے ، اور مرکزی طور پر اس کی تحصیل وصول کا نظام تو ۸ھ کے بعد قائم ہوا ..... اس تمہید کے بعد زکوٰۃ کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات پڑھئے ۔
تشریح ..... یہ حدیث اگرچہ اس سلسلہ معارف الحدیث کی پہلی جلد کتاب الایمان میں گذر چکی ہے اور وہاں اس کی تشریح بھی کافی تفصیل سے کی جا چکی ہے لیکن امام بخاریؒ وغیرہ کے طریقے پر یہی مناسب معلوم ہوا کہ کتاب الزکاۃ کا آغاز بھی اسی حدیث سے کیا جائے ۔
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن کا والی اور قاضی بنا کر بھیجنے کا یہ واقعہ جس کا ذکر اس حدیث میں ہے اکثر علماء اور اہل سیر کی تحقیق کے مطابق ۹ھ کا ہے اور امام بخاری اور بعض دوسرے اہل علم کی رائے یہ ہے کہ ۱۰ھ کا واقعہ ہے ۔ یمن میں اگرچہ اہل کتاب کے علاوہ بت پرست مشرکین بھی تھے ، لیکن اہل کتاب کی خاص اہمیت کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا ذکر کیا اور اسلام کی دعوت و تبلیغٖ کا یہ حکیمانہ اصول تعلیم فرمایا کہ اسلام کے سارے احکام و مطالبات ایک ساتھ مخاطبین کے سامنے نہ رکھے جائیں ، اس صورت میں اسلام نہیں بہت کٹھن اور ناقابل برداشت بوجھ محسوس ہو گا ، اس لیے پہلے ان کے سامنے اسلام کی اعتقادی بنیاد صرف توحید و رسالت کی شہادت رکھی جائے جس کو ہر معقولیت پسند اور ہر سلیم الفطرت اور نیک دل انسان آسانی سے ماننے پرآمادہ ہو سکتا ہے ، خصوصاً اہل کتاب کے لیے وہ جانی بوجھی بات ہے ..... پھر جب مخاطب کا ذہن اور دل اس کو قبول کر لے اور وہ اس فطری اور بنیادی بات کو مان لے تو اس کے سامنے فریضہ نماز رکھا جائے جو جانی ، جسمانی اور زبانی عبادت کا نہایت حسین اور بہترین مرقع ہے اور جب وہ اس کو قبول کر لے تو اس کے سامنے فریضہ زکوٰۃ رکھا جائے اور اس کے بارے میں خصوصیت سے یہ وضاحت کر دی جائے کہ یہ زکوٰۃ اور صدقہ اسلام کا داعی اور مبلغ تم سے اپنے لئے نہیں مانگتا بلکہ ایک مقررہ حساب اور قاعدے کے مطابق جس قوم اور علاقہ کے دولت مندوں سے یہ لی جائے گی اسی قوم اور علاقہ کے پریشان حال ضرورت مندوں میں خرچ کر دی جائے گی ۔ دعوت اسلام کے بارے میں اس ہدایت کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو یہ تاکید بھی فرمائی کہ زکوٰۃ کی وصولی میں پورے انصاف سے کام لیا جائے ، ان کے مویشی اور ان کی پیداوار میں بھی چھانٹ چھانٹ کے بہتر مال نہ لیا جائے ۔
سب سے آخر میں نصیحت فرمائی کہ تم ایک علاقے کے حاکم اور والی بن کر جا رہے ہو ، ظلم و زیادتی سے بہت بچنا ، اللہ کا مظلوم بندہ جب ظالم کے حق میں بد دعا کرتا ہے تو وہ سیدھی عرش پر پہنچتی ہے ؎
بہ ترس از آہ مظلوماں کہ ہنگام دعا کردن
اجابت از در حق بہر استقبال می آید
اس حدیث میں دعوت اسلام کے سلسلے میں صرف شہادت توحید و رسالت ، نماز اور زکوٰۃ کا ذکر کیا گیا ہے ، اسلام کے دوسرے احکام حتیٰ کے روزہ اور حج کا بھی ذکر نہیں فرمایا گیا ہے ، جو نماز اور زکوٰۃ ہی کی طرح اسلام کی ارکان خمسہ میں سے ہیں ، حالانکہ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ جس زمانہ میں یمن بھیجے گئے ہیں روزہ اور حج دونو۳ں کی فرضیت کا حکم آ چکا تھا ۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کا مقصد دعوت اسلام کے اصول اور حکیمانہ طریقے کی تعلیم دینا تھا اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف ان تین ارکان کا ذکر فرمایا ، اگر ارکان اسلام کی تعلیم دینا مقصود ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب ارکان کا ذکر فرماتے ، لیکن حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو اس کی تعلیم کی ضرورت نہیں تھی ، وہ ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے تھے جو علم دین میں خاص امتیاز رکھتے تھے ۔
تشریح
بسم اللہ الرحمن الرحیم
دین میں زکوٰۃ کی اہمیت اور اس کا مقام
یہ ایک معلوم و معروف حقیقت ہے کہ شہادت توحید و رسالت اور اقامت صلوٰۃ کے بعد زکوٰۃ اسلام کا تیسرا رکن ہے ۔ قرآن مجید میں ستر سے زیادہ مقامات پر اقامت صلوٰۃ اور اداء زکوٰۃ کا ذکر اس طرح ساتھ ساتھ کیا گیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ دین میں ان دونوں کا مقام اور درجہ قریب قریب ایک ہی ہے ۔ اسی لیے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد بعض علاقوں کے ایسے لوگوں نے جو بظاہر اسلام قبول کر چکے تھے اور توحید و رسالت کا اقرار کرتے اور نمازیں پڑھتے تھے زکوٰۃ سے انکار کیا تو صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے ان کے خلاف جہاد کا اسی بنیاد پر فیصلہ کیا تھا کہ یہ نماز اور زکوٰۃ کے حکم میں تفریق کرتے ہیں جو اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دین سے انحراف اور ارتداد ہے ..... صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی مشہور روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے فرمایا :
وَاللَّهِ لَأُقَاتِلَنَّ مَنْ فَرَّقَ بَيْنَ الصَّلاةِ وَالزَّكَاةِ
خدا کی قسم نماز اور زکوٰۃ کے درمیان جو لوگ تفریق کریں گے ، میں ضرور ان کے خلاف جہاد کروں گا ۔
پھر تمام صحابہ کرامؓ نے ان کے اس نقطہ نظر کو قبول کر لیا اور اس پر سب کا اجماع ہو گیا ۔
اسی سلسلہ “ معارف الحدیث ” کی پہلی جلد کے بالکل شروع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ حدیثیں ذکر کی جا چکی ہیں جن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کے ارکان اور بنیادی احکام و مطالبات کا ذکر کرتے ہوئے توحید و رسالت کی شہادت کے بعد اقامت صلوٰۃ اور ایتاء زکوٰۃ ہی کا ذکر کیا ہے ۔ بہر حال قرآن پاک اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات و خطبات میں اقامت صلوٰۃ اور ایتاء زکوٰۃ کا ذکر عموماً اس طرح ساتھ ساتھ کیا گیا ہے جس سے مفہوم ہوتا ہے کہ ان دونوں کا درجہ قریب قریب ایک ہی ہے اور ان دونوں کے درمیان کوئی خاص رابطہ ہے ۔
زکوٰۃ کے تین پہلو
زکوٰۃ میں نیکی اور افادیت کے تین پہلو ہیں : ایک یہ کہ مومن بندہ جس طرح نماز کے قیام اور رکوع و سجود کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کے حضور میں اپنی بندگی اور تذلل و نیاز مندی کا مظاہر جسم و جان اور زبان سے کرتا ہے تا کہ اللہ تعالیٰ کی رضا و رحمت اور اس کا قرب اس کو حاصل ہو اسی طرح زکوٰۃ ادا کر کے وہ اسکی بارگاہ میں اپنی مالی نذر اسی غرض سے پیش کرتا ہے اور اس بات کا عملی ثبوت دیتا ہے کہ اس کے پاس جو کچھ ہے وہ اسے اپنا نہیں بلکہ خدا کو سمجھتا اور یقین کرتا ہے ، اور اسکی رضا اور اس کا قرب حاصل کرنے کے لیے وہ اس کو قربان کرتا اور نذرانہ چڑھاتا ہے ..... زکوٰۃ کا شمار “ عبادات ” میں اس پہلو سے ہے ۔ دین و شریعت کی خاص اصطلاح میں “ عبادات ” (جیسے کہ پہلے بھی اپنے موقع پر ذکر کیا جا چکا ہے) بندے کے انہی اعمال کو کہا جاتا ہے جن کا خاص مقصد و موضوع اللہ تعالیٰ کے حضور میں اپنی عبدیت اور بندگی کے تعلق کو ظاہر کرنا اور اس کے ذریعہ اس کا رحم و کرم اور اس کا قرب ڈھونڈھنا ہو ۔
دوسرا پہلو زکوٰۃ میں یہ ہے کہ اس کے ذریعے اللہ کے ضرورت مند اور پریشان حال بندوں کی خدمت و اعانت ہوتی ہے ۔ اس پہلو سے زکوٰۃ اخلاقیات کا نہایت ہی اہم باب ہے ۔
تیسرا پہلو اس میں افادیت کا یہ ہے کہ حب مال اور دولت پرستی جو ایک ایمان کش اور نہایت مہلک روحانی بیماری ہے ، زکوٰۃ اس کا علاج اور اس کے گندے اور زہریلے اثرات سے نفس کی تطہیر اور تزکیہ کا ذریعہ ہے ۔ اسی بنا پر قرآن مجید میں ایک جگہ فرمایا گیا ہے :
خُذْ مِنْ اَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَ تُزَكِّيْهِمْ بِهَا (سوره توبه ، 103 : 9)
اے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) آپ مسلمانوں کے اموال میں سے صدقہ (زکوٰۃ) وصول کیجئے جس کے ذریعہ ان کے قلوب کی تطہیر اور ان کے نفوس کی تطہیر اور ان کے نفوس کا تزکیہ ہو ۔
دوسری جگہ فرمایا گیا ہے :
وَ سَيُجَنَّبُهَا الْاَتْقَىۙ۰۰۱۷ الَّذِيْ يُؤْتِيْ مَالَهٗ يَتَزَكّٰى ۚ۰۰۱۸ (سورة الليل)
اور اس آتش دوزخ سے نہایت متقی بندہ دور رکھا جائے گا جو اپنا مال راہ خدا میں اس لیے دیتا ہو کہ اس کی روح اور اس کے دل کو پاکیزگی حاصل ہو ۔
بلکہ زکوٰۃ کا نام غالباً اسی پہلو سے زکوٰۃ رکھا گیا ہے ، کیوں کہ زکوٰۃ کے اصل معنی ہی پاکیزگی کے ہیں ۔
زکوٰۃ کا حکم اگلی شریعتوں میں
زکوٰۃ کی اس غیر معمولی اہمیت اور افادیت کی وجہ سے اس کا حکم اگلے پیغمبروں کی شریعتوں میں بھی نماز کے ساتھ ہی ساتھ برابر رہا ہے ۔
سورہ انبیاء میں حضرت ابراہیمؑ اور ان کے صاحبزادے حضرت اسحٰق اور پھر ان کے صاحبزادے حضرت یعقوب علیہم السلام کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا ہے :
وَ اَوْحَيْنَاۤ اِلَيْهِمْ فِعْلَ الْخَيْرٰتِ وَ اِقَامَ الصَّلٰوةِ وَ اِيْتَآءَ الزَّكٰوةِ١ۚ وَ كَانُوْا لَنَا عٰبِدِيْنَۚۙ۰۰۷۳
(سوره انبياء 3 : 21)
اور ہم نے ان کو حکم بھیجا نیکیوں کے کرنے کا (خاص کر) نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ دینے کا اور وہ ہمارے عبادت گزار بندے تھے ۔
اور سورہ مریم میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کے بارے میں فرمایا گیا ہے :
وَ كَانَ يَاْمُرُ اَهْلَهٗ بِالصَّلٰوةِ وَ الزَّكٰوةِ (مريم 55 : 19)
اور وہ اپنے گھر والوں کو نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیتے ہیں ۔
اور اسرائیلی سلسلے کے آخری پیغمبر حضرت عیسیٰ بن مریمؑ کے متعلق ہے کہ انہوں نے اپنی قوم کے لوگوں سے فرمایا :
اِنِّيْ عَبْدُ اللّٰهِ١ؕ۫ اٰتٰىنِيَ الْكِتٰبَ وَ جَعَلَنِيْ نَبِيًّاۙ۰۰۳۰ وَّ جَعَلَنِيْ مُبٰرَكًا اَيْنَ مَا كُنْتُ١۪ وَ اَوْصٰنِيْ بِالصَّلٰوةِ وَ الزَّكٰوةِ مَا دُمْتُ حَيًّا٢۪ۖ۰۰۳۱ (سوره مريم 31 : 19)
میں اللہ کا بندہ ہوں اس نے مجھے کتاب عطا فرمائی ہے اور نبی بنایا ہے اور میں جہاں کہیں میں ہوں مجھے اس نے بابرکت بنایا ہے اور جب تک میں زندہ رہوں گا مجھے نماز اور زکوٰة کی وصیت فرمائی ہے۔
اور سورہ بقرہ میں جہاں بنی اسرائیل کے ایمانی میثاق اور بنیادی احکام کا ذکر کیا گیا ہے جن کی ادائیگی اور ان سے عہد لیا گیا تھا ان میں ایک حکم یہ بھی بیان کیا گیا ہے :
وَاَقِيْمُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَ (سوره بقره 83 : 2)
اور نماز قائم کرتے رہنا اور زکوٰۃ ادا کیا کرنا ۔
اسی طرح جہاں سورہ مائدہ میں بنی اسرائیل کے اس عہد و میثاق کا ذکر کیا گیا ہے ، وہاں یہ بھی فرمایا گیا ہے :
وَقَالَ اللَّـهُ إِنِّي مَعَكُمْ ۖ لَئِنْ أَقَمْتُمُ الصَّلَاةَ وَآتَيْتُمُ الزَّكَاةَ وَآمَنتُم بِرُسُلِي
پھر اللہ نے فرمایا میں (اپنی مدد کے ساتھ) تمہارے ساتھ ہوں اگر تم قائم کرتے رہے نماز اور ادا کرتے رہے زکوٰة اور ایمان لاتے رہے میرے رسولوں پر ۔
قرآن مجید کی ان آیات سے ظاہر ہے کہ نماز اور زکوٰۃ ہمیشہ سے آسمانی شریعتوں کے خاص ارکان اور شعائر رہے ہیں ، ہاں ان کے حدود اور تفصیلی احکام و تعینات میں فرق رہا ، اور یہ فرق تو خود ہماری شریعت کے بھی ابتدائی اور آخری تکمیلی دور میں رہا ہے ۔ مثلاً یہ کہ پہلے نماز تین وقت کی تھی پھر پانچ وقت کی ہو گئی اور مثلاً یہ کہ پہلے ہر فرض نماز صرف دو رکعت پڑھی جاتی تھی پھر فجر کے علاوہ باقی چاروں وقتوں میں رکعتیں بڑھ گئیں ، اورمثلاً یہ کہ ابتدائی دور میں نماز پڑھے ہوئے سلام کلام کی اجازت تھی اس کے بعد اس کی ممانعت ہو گئی ۔ اسی طرح ہجرت سے پہلے مکہ کے زمانہ قیام میں زکوٰۃ کا حکم تھا ۔ (چنانچہ سورہ مومنون ، سورہ نمل ، اور سورہ لقمان) کی بالکل ابتدائی آیتوں میں اہل ایمان کی لازمی صفات کے طور پر اقامت صلوٰۃ اور ایتاء زکوٰۃ کا ذکر موجود ہے ۔ حالانکہ یہ تینوں سورتیں مکی دور کی ہیں) لیکن اس دور میں زکوٰۃ کا مطلب صرف یہ تھا کہ اللہ کے حاجت مند بندوں پر اور خیر کی دوسری راہوں میں اپنی کمائی صرف کی جائے ۔ نظام زکوٰۃ کے تفصیلی احکام اس وقت نہیں آئے تھے وہ ہجرت کے بعد مدینہ طیبہ میں آئے ۔ پس جن مورخین اور مصنفین نے یہ لکھا ہے کہ زکوٰۃ کا حکم ہجرت ک ے بعد دوسرے سال میں یا اس کے بھی بعد میں آیا ، اس کا مطلب غالباً یہی ہے کہ اس کی حدود تعینات اور تفصیلی احکام اس وقت آئے ، ورنہ زکوٰۃ کا مطلق حکم تو یقیناً اسلام کے ابتدائی دور میں ہجرت سے کافی پہلے آ چکا تھا ۔ یہ بات قرآن مجید کی محولہ بالا مکی سورتوں کی ان آیات کے علاوہ جن کی طرف ابھی اشارہ کیا گیا ہے ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنھا کی اس سے بھی ثابت ہوتی ہے جس میں انہوں نے حبشہ کی ہجرت کا واقعہ بیان کرتے ہوئے حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ کی اس گفتگو کا ذکر کیا ہے جو انہوں نے حبشہ کے بادشاہ نجاشی کے سوال کے جواب میں اسلام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت و تعلیم کے بارے میں ان کے یہ الفاظ بھی ہیں :
وَيَامُرُنَا بِالصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ ..... الخ
اور وہ ہمیں نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیتے ہیں ۔
اور یہ معلوم ہے کہ حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ اور ان کے رفقاء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت مدینہ سے بہت پہلے اسلام کے ابتدائی دور میں حبشہ جا چکے تھے ۔
اسی طرح صحیح بخاری وغیرہ کی روایت کے مطابق شاہ روم کے سوال کے جواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق (اس وقت کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے شدید دشمن) ابو سفیان کا بیان کہ :
وَيَامُرُنَا بِالصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ وَالصِّلَةِ وَالْعَفَافِ ..... الخ
وہ نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیتے ہیں ، اور صلہ رحمی اور پاکدامنی کی ہدایت کرتے ہیں ۔
اس کا واضح ثبوت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت سے پہلے مککہ معظمہ کے زمانہ قیام میں بھی نماز اور زکوٰۃ کی دعوت دیتے تھے ..... ہاں نظام زکوٰۃ کے تفصیلی مسائل اور حدود و تعینات ہجرت کے بعد آئے ، اور مرکزی طور پر اس کی تحصیل وصول کا نظام تو ۸ھ کے بعد قائم ہوا ..... اس تمہید کے بعد زکوٰۃ کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات پڑھئے ۔
تشریح ..... یہ حدیث اگرچہ اس سلسلہ معارف الحدیث کی پہلی جلد کتاب الایمان میں گذر چکی ہے اور وہاں اس کی تشریح بھی کافی تفصیل سے کی جا چکی ہے لیکن امام بخاریؒ وغیرہ کے طریقے پر یہی مناسب معلوم ہوا کہ کتاب الزکاۃ کا آغاز بھی اسی حدیث سے کیا جائے ۔
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن کا والی اور قاضی بنا کر بھیجنے کا یہ واقعہ جس کا ذکر اس حدیث میں ہے اکثر علماء اور اہل سیر کی تحقیق کے مطابق ۹ھ کا ہے اور امام بخاری اور بعض دوسرے اہل علم کی رائے یہ ہے کہ ۱۰ھ کا واقعہ ہے ۔ یمن میں اگرچہ اہل کتاب کے علاوہ بت پرست مشرکین بھی تھے ، لیکن اہل کتاب کی خاص اہمیت کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا ذکر کیا اور اسلام کی دعوت و تبلیغٖ کا یہ حکیمانہ اصول تعلیم فرمایا کہ اسلام کے سارے احکام و مطالبات ایک ساتھ مخاطبین کے سامنے نہ رکھے جائیں ، اس صورت میں اسلام نہیں بہت کٹھن اور ناقابل برداشت بوجھ محسوس ہو گا ، اس لیے پہلے ان کے سامنے اسلام کی اعتقادی بنیاد صرف توحید و رسالت کی شہادت رکھی جائے جس کو ہر معقولیت پسند اور ہر سلیم الفطرت اور نیک دل انسان آسانی سے ماننے پرآمادہ ہو سکتا ہے ، خصوصاً اہل کتاب کے لیے وہ جانی بوجھی بات ہے ..... پھر جب مخاطب کا ذہن اور دل اس کو قبول کر لے اور وہ اس فطری اور بنیادی بات کو مان لے تو اس کے سامنے فریضہ نماز رکھا جائے جو جانی ، جسمانی اور زبانی عبادت کا نہایت حسین اور بہترین مرقع ہے اور جب وہ اس کو قبول کر لے تو اس کے سامنے فریضہ زکوٰۃ رکھا جائے اور اس کے بارے میں خصوصیت سے یہ وضاحت کر دی جائے کہ یہ زکوٰۃ اور صدقہ اسلام کا داعی اور مبلغ تم سے اپنے لئے نہیں مانگتا بلکہ ایک مقررہ حساب اور قاعدے کے مطابق جس قوم اور علاقہ کے دولت مندوں سے یہ لی جائے گی اسی قوم اور علاقہ کے پریشان حال ضرورت مندوں میں خرچ کر دی جائے گی ۔ دعوت اسلام کے بارے میں اس ہدایت کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو یہ تاکید بھی فرمائی کہ زکوٰۃ کی وصولی میں پورے انصاف سے کام لیا جائے ، ان کے مویشی اور ان کی پیداوار میں بھی چھانٹ چھانٹ کے بہتر مال نہ لیا جائے ۔
سب سے آخر میں نصیحت فرمائی کہ تم ایک علاقے کے حاکم اور والی بن کر جا رہے ہو ، ظلم و زیادتی سے بہت بچنا ، اللہ کا مظلوم بندہ جب ظالم کے حق میں بد دعا کرتا ہے تو وہ سیدھی عرش پر پہنچتی ہے ؎
بہ ترس از آہ مظلوماں کہ ہنگام دعا کردن
اجابت از در حق بہر استقبال می آید
اس حدیث میں دعوت اسلام کے سلسلے میں صرف شہادت توحید و رسالت ، نماز اور زکوٰۃ کا ذکر کیا گیا ہے ، اسلام کے دوسرے احکام حتیٰ کے روزہ اور حج کا بھی ذکر نہیں فرمایا گیا ہے ، جو نماز اور زکوٰۃ ہی کی طرح اسلام کی ارکان خمسہ میں سے ہیں ، حالانکہ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ جس زمانہ میں یمن بھیجے گئے ہیں روزہ اور حج دونو۳ں کی فرضیت کا حکم آ چکا تھا ۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کا مقصد دعوت اسلام کے اصول اور حکیمانہ طریقے کی تعلیم دینا تھا اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف ان تین ارکان کا ذکر فرمایا ، اگر ارکان اسلام کی تعلیم دینا مقصود ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب ارکان کا ذکر فرماتے ، لیکن حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو اس کی تعلیم کی ضرورت نہیں تھی ، وہ ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے تھے جو علم دین میں خاص امتیاز رکھتے تھے ۔
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ مُعَاذًا إِلَى الْيَمَنِ ، فَقَالَ :  " إِنَّكَ تَأْتِي قَوْمًا أَهْلَ كِتَابٍ فَادْعُهُمْ إِلَى شَهَادَةِ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّداً رَسُولُ اللَّهِ ، فَإِنْ هُمْ أَطَاعُوا لِذَلِكَ ، فَأَعْلِمْهُمْ أَنَّ اللَّهَ قَدْ فَرَضَ عَلَيْهِمْ خَمْسَ صَلَوَاتٍ فِي الْيَوْمِ وَاللَّيْلَةِ ، فَإِنْ هُمْ أَطَاعُوا لِذَلِكَ ، فَأَعْلِمْهُمْ أَنَّ اللَّهَ قَدْ فَرَضَ عَلَيْهِمْ صَدَقَةً فِي أَمْوَالِهِمْ ، تُؤْخَذُ مِنْ أَغْنِيَائِهِمْ وَتُرَدُّ عَلَى فُقَرَائِهِمْ ، فَإِنْ هُمْ أَطَاعُوا لِذَلِكَ ، فَإِيَّاكَ وَكَرَائِمَ أَمْوَالِهِمْ ، وَاتَّقِ دَعْوَةَ الْمَظْلُومِ ، فَإِنَّهَا لَيْسَ بَيْنَهَا وَبَيْنَ اللَّهِ حِجَابٌ ". 
(رواه البخارى ومسلم)
(رواه البخارى ومسلم)

তাহকীক:
হাদীস নং: ৮২৬
کتاب الزکوٰۃ
زکوٰۃ ادا نہ کرنے کا عذاب
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس آدمی کو اللہ تعالیٰ نے دولت عطا فرمائی اور اس نے اس کی زکوٰۃ نہیں ادا کی تو وہ دولت قیامت کے دن اس آدمی کے سامنے ایسے زہریلے ناگ کی شکل میں آئے گا۔ جس کے انتہائی زہریلے پن سے اس کے سر کے بال جھڑ گئے ہوں اور اس کی آنکھوں کے اوپر دو سفید نقطے ہوں ۔ (جس سانپ میں یہ دو باتیں پائی جائیں ، وہ انتہائی زہریلا سمجھا جاتا ہے) پھر وہ سانپ اس (زکوٰۃ ادا نہ کرنے والے بخیل) کے گلے کا طوق بنا دیا جائے گا (یعنی اس کے گلے میں لپٹ جائے گا) پھر اس کی دونوں باچھیں پکڑے گا (اور کاٹے گا) اور کہے گا کہ میں تیری دولت ہوں ، میں تیرا خزانہ ہوں۔ یہ فرمانے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی 
وَلَا يَحْسَبَنَّ الَّذِينَ يَبْخَلُونَ بِمَا آتَاهُمُ اللَّـهُ مِن فَضْلِهِ هُوَ خَيْرًا لَّهُم ۖ بَلْ هُوَ شَرٌّ لَّهُمْ ۖ سَيُطَوَّقُونَ مَا بَخِلُوا بِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ
“ اور نہ گمان کریں وہ لوگ جو بخل کرتے ہیں اس مال و دولت میں جو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل کرم سے ان کو دیا ہے (اور اس کی زکوٰۃ نہیں نکالتے) کہ وہ مال و دولت ان کے حق میں بہتر ہے۔ بلکہ انجام کے لحاظ سے وہ ان کے لیے بدتر ہے اور شر ہے ۔ قیامت کے دن ان کے گلوں میں طوق بنا کے ڈالی جائے گی وہ دولت جس میں میں انہوں نے بخل کیا ۔ “ (اور جس کی زکوٰۃ ادا نہیں کی) ۔
(اور جامع ترمذی ، سنن نسائی اور سنن ابن ماجہ میں قریب قریب یہی مضمون لفظوں کے معمولی فرق کے ساتھ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت سے بھی مروی ہے) ۔
تشریح
قرآن و حدیث میں خاص خاص اعمال کی جو مخصوص جزائیں یا سزائیں بیان کی گئی ییں ان اعمال اور ان کی ان جزاؤں اور سزاؤں میں ہمیشہ کوئی خاص مناسبت ہوتی ہے ۔ بعض اوقات وہ ایسی واضح ہوتی ہے جس کا سمجھنا ہم جیسے عوام کے لیے بھی زیادہ مشکل نہیں ہوتا اور کبھی کبھی وہ ایسی دقیق اور خفی مناسبت ہوتی ہے جس کو صرف خواص عرفاء اور امت کے اذکیاء ہی سمجھ سکتے ہیں..... اس حدیث میں زکوٰۃ نہ دینے کے گناہ کی جو خاص سزا بیان ہوئی ہے یعنی اس دولت کا ایک زہریلے ناگ کی شکل میں اس کے گلے میں لپٹ جانا اور اس کی دونوں باچھوں کو کاٹنا یقیناً اس گناہ اور اس کی اس سزا میں بھی ایک خاص مناسبت ہے یہ وہی لطیف مناسبت ہے جس کی وجہ سے اس بخیل آدمی کی جو حب مال کی وجہ سے اپنی دولت سے چمٹا رہے اور خرچ کرنے کے موقعوں پر خرچ نہ کرے ، کہتے ہیں کہ وہ اپنی دولت اور اپنے خزانے پہ سانپ بنا بیٹھا رہتا ہے اور اسی مناسبت کی وجہ سے بخیل و خسیس آدمی کبھی کبھی اس طرح کے خواب بھی دیکھتے ہیں ۔
اس حدیث میں نیز آل عمران کی مندرجہ بالا آیت میں یوم القیمۃ کا جو لفظ ہے ، اس سے مفہوم ہوتا ہے کہ یہ عذاب دوزخ یا جنت کے فیصلے سے پہلے محشر میں ہو گا ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ہی کی ایک دوسری میں (جس کو امام مسلم نے روایت کیا ہے) زکوٰۃ ادانہ کرنے والے ایک خاص طبقہ کے اسی طرح کے اییک خاص عذاب کے بیان کے ساتھ آخر میں یہ الفاظ بھی ہیں :
حَتَّى يُقْضَى بَيْنَ الْعِبَادِ ، فَيَرَى سَبِيلَهُ إِمَّا إِلَى الْجَنَّةِ ، وَإِمَّا إِلَى النَّارِ
اس عذاب کا سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک کہ حساب کتاب کے بعد بندوں کے بارے میں فیصلہ کیا جائے گا ۔ اس فیصلے کے بعد یہ آدمی یا جنت کی طرف چلا جائے گا یا دوزخ کی طرف (جیسا بھی اس کے حق میں فیصلہ ہو گا) ۔
یعنی جتنا عذاب و حساب وہ آخری فیصلہ سے پہلے اٹھا چکے گا اگر اس کی بد اعمالی کی سزا کے لیے اللہ کے نزدیک وہی کافی ہو گا تو اس کے بعد اس کی چھٹی اور نجات مل جائے گی اور وہ جنت میں بھیج دیا جائے گا ، اور اگر محشر کے اس عذاب سے اس کا حساب بے باق نہ ہوا ہو گا تو مزید سزا اور عذاب پانے کے لیے وہ دوزخ میں بھی بھیجا جائے گا ۔ اللهم احفظنا واغفر لنا ولا تعذبنا ۔
قیامت اور جنت دوزخ کے عذاب و ثواب کے بارے میں جو اصولی باتیں معارف الحدیث جلد اول میں لکھی جا چکی ہیں جن حضرات کی نظر سے نہ گزری ہوں وہ ان کا ضرور مطالعہ کریں ، ان چیزوں کے بارے میں جو ذہنی الجھنیں بہت سوں کے لیے خلجان کا باعث بنتی ہیں ، انشاء اللہ اس کے مطالعہ سے دور ہو جائیں گی ۔
وَلَا يَحْسَبَنَّ الَّذِينَ يَبْخَلُونَ بِمَا آتَاهُمُ اللَّـهُ مِن فَضْلِهِ هُوَ خَيْرًا لَّهُم ۖ بَلْ هُوَ شَرٌّ لَّهُمْ ۖ سَيُطَوَّقُونَ مَا بَخِلُوا بِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ
“ اور نہ گمان کریں وہ لوگ جو بخل کرتے ہیں اس مال و دولت میں جو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل کرم سے ان کو دیا ہے (اور اس کی زکوٰۃ نہیں نکالتے) کہ وہ مال و دولت ان کے حق میں بہتر ہے۔ بلکہ انجام کے لحاظ سے وہ ان کے لیے بدتر ہے اور شر ہے ۔ قیامت کے دن ان کے گلوں میں طوق بنا کے ڈالی جائے گی وہ دولت جس میں میں انہوں نے بخل کیا ۔ “ (اور جس کی زکوٰۃ ادا نہیں کی) ۔
(اور جامع ترمذی ، سنن نسائی اور سنن ابن ماجہ میں قریب قریب یہی مضمون لفظوں کے معمولی فرق کے ساتھ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت سے بھی مروی ہے) ۔
تشریح
قرآن و حدیث میں خاص خاص اعمال کی جو مخصوص جزائیں یا سزائیں بیان کی گئی ییں ان اعمال اور ان کی ان جزاؤں اور سزاؤں میں ہمیشہ کوئی خاص مناسبت ہوتی ہے ۔ بعض اوقات وہ ایسی واضح ہوتی ہے جس کا سمجھنا ہم جیسے عوام کے لیے بھی زیادہ مشکل نہیں ہوتا اور کبھی کبھی وہ ایسی دقیق اور خفی مناسبت ہوتی ہے جس کو صرف خواص عرفاء اور امت کے اذکیاء ہی سمجھ سکتے ہیں..... اس حدیث میں زکوٰۃ نہ دینے کے گناہ کی جو خاص سزا بیان ہوئی ہے یعنی اس دولت کا ایک زہریلے ناگ کی شکل میں اس کے گلے میں لپٹ جانا اور اس کی دونوں باچھوں کو کاٹنا یقیناً اس گناہ اور اس کی اس سزا میں بھی ایک خاص مناسبت ہے یہ وہی لطیف مناسبت ہے جس کی وجہ سے اس بخیل آدمی کی جو حب مال کی وجہ سے اپنی دولت سے چمٹا رہے اور خرچ کرنے کے موقعوں پر خرچ نہ کرے ، کہتے ہیں کہ وہ اپنی دولت اور اپنے خزانے پہ سانپ بنا بیٹھا رہتا ہے اور اسی مناسبت کی وجہ سے بخیل و خسیس آدمی کبھی کبھی اس طرح کے خواب بھی دیکھتے ہیں ۔
اس حدیث میں نیز آل عمران کی مندرجہ بالا آیت میں یوم القیمۃ کا جو لفظ ہے ، اس سے مفہوم ہوتا ہے کہ یہ عذاب دوزخ یا جنت کے فیصلے سے پہلے محشر میں ہو گا ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ہی کی ایک دوسری میں (جس کو امام مسلم نے روایت کیا ہے) زکوٰۃ ادانہ کرنے والے ایک خاص طبقہ کے اسی طرح کے اییک خاص عذاب کے بیان کے ساتھ آخر میں یہ الفاظ بھی ہیں :
حَتَّى يُقْضَى بَيْنَ الْعِبَادِ ، فَيَرَى سَبِيلَهُ إِمَّا إِلَى الْجَنَّةِ ، وَإِمَّا إِلَى النَّارِ
اس عذاب کا سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک کہ حساب کتاب کے بعد بندوں کے بارے میں فیصلہ کیا جائے گا ۔ اس فیصلے کے بعد یہ آدمی یا جنت کی طرف چلا جائے گا یا دوزخ کی طرف (جیسا بھی اس کے حق میں فیصلہ ہو گا) ۔
یعنی جتنا عذاب و حساب وہ آخری فیصلہ سے پہلے اٹھا چکے گا اگر اس کی بد اعمالی کی سزا کے لیے اللہ کے نزدیک وہی کافی ہو گا تو اس کے بعد اس کی چھٹی اور نجات مل جائے گی اور وہ جنت میں بھیج دیا جائے گا ، اور اگر محشر کے اس عذاب سے اس کا حساب بے باق نہ ہوا ہو گا تو مزید سزا اور عذاب پانے کے لیے وہ دوزخ میں بھی بھیجا جائے گا ۔ اللهم احفظنا واغفر لنا ولا تعذبنا ۔
قیامت اور جنت دوزخ کے عذاب و ثواب کے بارے میں جو اصولی باتیں معارف الحدیث جلد اول میں لکھی جا چکی ہیں جن حضرات کی نظر سے نہ گزری ہوں وہ ان کا ضرور مطالعہ کریں ، ان چیزوں کے بارے میں جو ذہنی الجھنیں بہت سوں کے لیے خلجان کا باعث بنتی ہیں ، انشاء اللہ اس کے مطالعہ سے دور ہو جائیں گی ۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ،  قَالَ :  قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ :  "مَنْ آتَاهُ اللَّهُ مَالًا فَلَمْ يُؤَدِّ زَكَاتَهُ ، مُثِّلَ لَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ شُجَاعًا أَقْرَعَ لَهُ زَبِيبَتَانِ يُطَوَّقُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ، ثُمَّ يَأْخُذُ بِلِهْزِمَتَيْهِ (يَعْنِي شِدْقَيْهِ) ثُمَّ يَقُولُ أَنَا مَالُكَ أَنَا كَنْزُكَ ، ثُمَّ تَلَا :  وَلا يَحْسَبَنَّ الَّذِينَ يَبْخَلُونَ الآية. 
(رواه البخارى)
(رواه البخارى)

তাহকীক:
হাদীস নং: ৮২৭
کتاب الزکوٰۃ
زکوٰۃ ادا نہ کرنے کا عذاب
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ مال زکوٰۃ جب دوسرے مال میں مخلوط ہو گا تو ضرور اس کو تباہ کر دے گا ۔ (مسند شافعی ، تاریخ کبیر ، بخاری ، مسند حمیدی)
تشریح
امام حمیدیؒ جو امام بخاریؒ کے استاد ہیں انہوں نے اپنی مسند میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی یہ روایت نقل کر کے اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ اگر کسی آدمی پر زکوٰۃ واجب ہو اور وہ اس کو ادا نہ کرے تو بے برکتی سے اس کا باقی مال بھی تباہ ہو جائے گا ۔ (1)
اور امام بیہقی نے شعب الایمان میں امام احمد بن حنبلؒ کی سند سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی یہی روایت نقل کر کے لکھا ہے کہ امام احمدؒ فرماتے ہیں کہ اس حدیث کا مطلب اور مصداق یہ ہے کہ اگر ایک غنی آدمی (جو زکوٰۃ کا مستحق نہیں ہے) غلط طریقے پر زکوٰۃ وصول کر لے تو یہ زکوٰۃ اس کے باقی مال میں شامل ہو کر اس کو بھی تباہ کر دے گی .... راقم سطور عرض کرتا ہے کہ حدیث کے الفاظ میں ان دونوں تشریحوں کی گنجائش ہے ، اور ان دونوں میں کوئی تناقض اور منافات بھی نہیں ہے ۔
تشریح
امام حمیدیؒ جو امام بخاریؒ کے استاد ہیں انہوں نے اپنی مسند میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی یہ روایت نقل کر کے اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ اگر کسی آدمی پر زکوٰۃ واجب ہو اور وہ اس کو ادا نہ کرے تو بے برکتی سے اس کا باقی مال بھی تباہ ہو جائے گا ۔ (1)
اور امام بیہقی نے شعب الایمان میں امام احمد بن حنبلؒ کی سند سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی یہی روایت نقل کر کے لکھا ہے کہ امام احمدؒ فرماتے ہیں کہ اس حدیث کا مطلب اور مصداق یہ ہے کہ اگر ایک غنی آدمی (جو زکوٰۃ کا مستحق نہیں ہے) غلط طریقے پر زکوٰۃ وصول کر لے تو یہ زکوٰۃ اس کے باقی مال میں شامل ہو کر اس کو بھی تباہ کر دے گی .... راقم سطور عرض کرتا ہے کہ حدیث کے الفاظ میں ان دونوں تشریحوں کی گنجائش ہے ، اور ان دونوں میں کوئی تناقض اور منافات بھی نہیں ہے ۔
عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، يَقُوْلَ :  مَا خَالَطَتِ الصَّدَقَةُ مَالًا قَطُّ اِلَّا اَهْلَكَتْهُ.
(رواه الشافعى والبخارى فى تاريخه والحميدى فى مسنده)
(رواه الشافعى والبخارى فى تاريخه والحميدى فى مسنده)

তাহকীক:
হাদীস নং: ৮২৮
کتاب الزکوٰۃ
زکوٰۃ ، مال کی تطہیر اور تزکیہ کا ذریعہ ہے
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ جب (سورہ توبہ) کی یہ آیت نازل ہوئی : 
وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَا يُنفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللَّـهِ فَبَشِّرْهُم بِعَذَابٍ أَلِيمٍ ﴿٣٤﴾ يَوْمَ يُحْمَىٰ عَلَيْهَا فِي نَارِ جَهَنَّمَ فَتُكْوَىٰ بِهَا جِبَاهُهُمْ وَجُنُوبُهُمْ وَظُهُورُهُمْ ۖ هَـٰذَا مَا كَنَزْتُمْ لِأَنفُسِكُمْ فَذُوقُوا مَا كُنتُمْ تَكْنِزُونَ.
اور جو لوگ سونا چاندی (وغیرہ مال و دولت) بطور ذخیرے کے جمع کرتے اور جوڑتے رہتے ہیں اور اس کو خدا کی راہ میں خرچ نہیں کرتے۔ تو اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وسلم) آپ ان کو (پرستاران دولت کو آخرت کے) درد ناک عذاب کی خبر سنادیجئے (یہ عذاب انہیں اس دن ہو گا) جس دن کہ ان کی جمع کردہ دولت کو آگ میں تپایا جائے گا۔ پھر ان سے ان کے ماتھے ، ان کے پہلو اور ان کی پیٹھیں داغی جائیں گی (اور ان سے) کہا جائے گاکہ یہ ہے (تمہاری وہ دولت) جس کو تم نے اپنے لیے جوڑا تھا اور ذخیرہ کیا تھا ، پس مزہ چکھو تم اپنی دولت اندوزی کا ۔
(تو جب یہ آیت نازل ہوئی جس میں ذخیرے کے طور پر مال و دولت جمع کرنے والوں کے لیے آخرت کے سخت درد ناک عذاب کی وعید ہے) تو صحابہ رضی اللہ عنہم پر اس کا بہت بوجھ پڑا (اور وہ بڑی فکر میں پڑ گئے) حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے کہا : تمہاری اس فکر اور پریشانی کو دور کرنے کی کوشش کروں گا ، چنانچہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے اور عرض کیاکہ حضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) ! آپ کے صحابہ پر اس آیت کا بڑا بوجھ ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ پاک نے زکاۃ تو اسی لیے فرض کی ہے کہ اس کی ادائیگی کے بعد جو مال باقی رہ جائے وہ پاک ہو جائے اور (اسی طرح) اور میراث کا قانون اس لیے مقرر کیا ہے ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ یہاں ایک کلمہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا تھا جو مجھے یاد نہیں رہا (لیکن میراث کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ میراث کا قانون اس لیے مقرر کیا گیا ہے کہ) تمہارے پسمندگان کے لیے سہارا ہو ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ جواب سن کر خوشی میں) کہا اللہ اکبر ۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے فرمایا : میں تم کو وہ بہترین دولت بتاؤں جو اس کی مستحق ہے کہ اس کو حاصل کیا جائے اور قدر کے ساتھ رکھا جائے
وہ نیک خصلت اور صالح زندگی والی رفیقہ حیات ہے جس کو آدمی دیکھے تو وہ روح اور دل خوش ہو اور اس سے کسی کام کو کہے تو وہ اطاعت کرے اور اس کو انجام دے ، اور جب شوہر کہیں باہر جائے تو اس کے عدم موجودگی میں اس کے گھر بار اور ہر امانت کی حفاظت کرے “ ۔
تشریح
سورہ توبہ کی جس آیت کا حدیث میں ذکر ہے جب وہ نازل ہوئی تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس کے ظاہری الفاظ اور انداز سے یہ سمجھا کہ اس کا مطلب اور مطالبہ یہ ہے کہ اپنی کمائی میں سے کچھ بھی پس انداز نہ کیا جائے اور دولت بالکل ہی جمع نہ کی جائے ، جو ہو سب خدا کی راہ میں خرچ کر دیا جائے اور ظاہر ہے کہ یہ بات انسانوں کے لیے بہت ہی بھاری اور بڑی دشوار ہے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ہمت کی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں استفسار کیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اس آیت کا تعلق ان لوگوں سے ہے جو مال و دولت جمع کریں اور اس کی زکوٰۃ ادا نہ کریں ، لیکن زکوٰۃ ادا کی جائے تو پھر باقی مال حلال اور طیب ہو جاتا ہے .... آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر فرمایا کہ : اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ اسی لیے فرض کی ہے کہ اس کے نکالنے سے باقی مال پاک ہو جائے ۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزید فرمایا : اسی طرح اللہ تعالیٰ نے قانون میراث اس لیے رکھا ہے کہ آدمی کے اٹھ جانے کے بعد اس کے پسماندگان کے لیے ایک سہارا ہو .... اس جواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی اشارہ فرمایا ہے کہ اگر پس انداز کرنا اور مال و دولت کا جمع کرنا مطلقاً منع ہوتا تو شریعت میں زکوٰۃ کا حکم اور میراث کا حکم ہی نہ ہوتا ، کیوں کہ شریعت کے ان دونوں حکموں کا تعلق جمع شدہ مال ہی سے ہھ ، اگر مال و دولت رکھنے کی بالکل اجازت نہ ہو تو زکوٰۃ اور میراث کا سوال ہی پیدا نہ ہو گا ۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اصل سوال کے جواب کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ذہنی تربیت کے لیے ایک مزید بات یہ بھی فرمائی کہ مال و زر سے زیادہ کام آنے والی چیز جو اس دنیا میں دل کے سکون اور روح کی راحت کا سب سے بڑا سرمایہ ہے ، اچھی صاحب صلاح ، نیک سیرت اور اطاعت شعار رفیقہ حیات ہے ، اس کی قدر مال و دولت سے بھی زیادہ کرو ، اور اس کو اللہ تعالیٰ کی خاص نعمت سمجھو .... یہ بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر اس لیے فرمائی کہ اس دور میں عورتوں کی بڑی ناقدری اور ان کے ساتھ بڑی بے انصافی کی جاتی تھی ۔
وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَا يُنفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللَّـهِ فَبَشِّرْهُم بِعَذَابٍ أَلِيمٍ ﴿٣٤﴾ يَوْمَ يُحْمَىٰ عَلَيْهَا فِي نَارِ جَهَنَّمَ فَتُكْوَىٰ بِهَا جِبَاهُهُمْ وَجُنُوبُهُمْ وَظُهُورُهُمْ ۖ هَـٰذَا مَا كَنَزْتُمْ لِأَنفُسِكُمْ فَذُوقُوا مَا كُنتُمْ تَكْنِزُونَ.
اور جو لوگ سونا چاندی (وغیرہ مال و دولت) بطور ذخیرے کے جمع کرتے اور جوڑتے رہتے ہیں اور اس کو خدا کی راہ میں خرچ نہیں کرتے۔ تو اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وسلم) آپ ان کو (پرستاران دولت کو آخرت کے) درد ناک عذاب کی خبر سنادیجئے (یہ عذاب انہیں اس دن ہو گا) جس دن کہ ان کی جمع کردہ دولت کو آگ میں تپایا جائے گا۔ پھر ان سے ان کے ماتھے ، ان کے پہلو اور ان کی پیٹھیں داغی جائیں گی (اور ان سے) کہا جائے گاکہ یہ ہے (تمہاری وہ دولت) جس کو تم نے اپنے لیے جوڑا تھا اور ذخیرہ کیا تھا ، پس مزہ چکھو تم اپنی دولت اندوزی کا ۔
(تو جب یہ آیت نازل ہوئی جس میں ذخیرے کے طور پر مال و دولت جمع کرنے والوں کے لیے آخرت کے سخت درد ناک عذاب کی وعید ہے) تو صحابہ رضی اللہ عنہم پر اس کا بہت بوجھ پڑا (اور وہ بڑی فکر میں پڑ گئے) حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے کہا : تمہاری اس فکر اور پریشانی کو دور کرنے کی کوشش کروں گا ، چنانچہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے اور عرض کیاکہ حضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) ! آپ کے صحابہ پر اس آیت کا بڑا بوجھ ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ پاک نے زکاۃ تو اسی لیے فرض کی ہے کہ اس کی ادائیگی کے بعد جو مال باقی رہ جائے وہ پاک ہو جائے اور (اسی طرح) اور میراث کا قانون اس لیے مقرر کیا ہے ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ یہاں ایک کلمہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا تھا جو مجھے یاد نہیں رہا (لیکن میراث کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ میراث کا قانون اس لیے مقرر کیا گیا ہے کہ) تمہارے پسمندگان کے لیے سہارا ہو ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ جواب سن کر خوشی میں) کہا اللہ اکبر ۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے فرمایا : میں تم کو وہ بہترین دولت بتاؤں جو اس کی مستحق ہے کہ اس کو حاصل کیا جائے اور قدر کے ساتھ رکھا جائے
وہ نیک خصلت اور صالح زندگی والی رفیقہ حیات ہے جس کو آدمی دیکھے تو وہ روح اور دل خوش ہو اور اس سے کسی کام کو کہے تو وہ اطاعت کرے اور اس کو انجام دے ، اور جب شوہر کہیں باہر جائے تو اس کے عدم موجودگی میں اس کے گھر بار اور ہر امانت کی حفاظت کرے “ ۔
تشریح
سورہ توبہ کی جس آیت کا حدیث میں ذکر ہے جب وہ نازل ہوئی تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس کے ظاہری الفاظ اور انداز سے یہ سمجھا کہ اس کا مطلب اور مطالبہ یہ ہے کہ اپنی کمائی میں سے کچھ بھی پس انداز نہ کیا جائے اور دولت بالکل ہی جمع نہ کی جائے ، جو ہو سب خدا کی راہ میں خرچ کر دیا جائے اور ظاہر ہے کہ یہ بات انسانوں کے لیے بہت ہی بھاری اور بڑی دشوار ہے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ہمت کی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں استفسار کیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اس آیت کا تعلق ان لوگوں سے ہے جو مال و دولت جمع کریں اور اس کی زکوٰۃ ادا نہ کریں ، لیکن زکوٰۃ ادا کی جائے تو پھر باقی مال حلال اور طیب ہو جاتا ہے .... آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر فرمایا کہ : اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ اسی لیے فرض کی ہے کہ اس کے نکالنے سے باقی مال پاک ہو جائے ۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزید فرمایا : اسی طرح اللہ تعالیٰ نے قانون میراث اس لیے رکھا ہے کہ آدمی کے اٹھ جانے کے بعد اس کے پسماندگان کے لیے ایک سہارا ہو .... اس جواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی اشارہ فرمایا ہے کہ اگر پس انداز کرنا اور مال و دولت کا جمع کرنا مطلقاً منع ہوتا تو شریعت میں زکوٰۃ کا حکم اور میراث کا حکم ہی نہ ہوتا ، کیوں کہ شریعت کے ان دونوں حکموں کا تعلق جمع شدہ مال ہی سے ہھ ، اگر مال و دولت رکھنے کی بالکل اجازت نہ ہو تو زکوٰۃ اور میراث کا سوال ہی پیدا نہ ہو گا ۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اصل سوال کے جواب کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ذہنی تربیت کے لیے ایک مزید بات یہ بھی فرمائی کہ مال و زر سے زیادہ کام آنے والی چیز جو اس دنیا میں دل کے سکون اور روح کی راحت کا سب سے بڑا سرمایہ ہے ، اچھی صاحب صلاح ، نیک سیرت اور اطاعت شعار رفیقہ حیات ہے ، اس کی قدر مال و دولت سے بھی زیادہ کرو ، اور اس کو اللہ تعالیٰ کی خاص نعمت سمجھو .... یہ بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر اس لیے فرمائی کہ اس دور میں عورتوں کی بڑی ناقدری اور ان کے ساتھ بڑی بے انصافی کی جاتی تھی ۔
عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ :  لَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ :  وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ الآية ، كَبُرَ ذَلِكَ عَلَى الْمُسْلِمِينَ ، فَقَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَا أُفَرِّجُ عَنْكُمْ ، فَانْطَلَقَ ، فَقَالَ :  يَا نَبِيَّ اللَّهِ ، إِنَّهُ كَبُرَ عَلَى أَصْحَابِكَ هَذِهِ الْآيَةُ ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ :  "إِنَّ اللَّهَ لَمْ يَفْرِضْ الزَّكَاةَ إِلَّا لِيُطَيِّبَ مَا بَقِيَ مِنْ أَمْوَالِكُمْ وَإِنَّمَا فَرَضَ الْمَوَارِيثَ .....وَذَكَرَ كَلِمَةً ..... لِتَكُونَ لِمَنْ بَعْدَكُمْ" ، فَقَالَ فَكَبَّرَ عُمَرُ..... ثُمَّ قَالَ :  "أَلَا أُخْبِرُكَ بِخَيْرِ مَا يَكْنِزُ الْمَرْءُ :  الْمَرْأَةُ الصَّالِحَةُ إِذَا نَظَرَ إِلَيْهَا سَرَّتْهُ وَإِذَا أَمَرَهَا أَطَاعَتْهُ وَإِذَا غَابَ عَنْهَا حَفِظَتْهُ".
(رواه ابوداؤد)
(رواه ابوداؤد)

তাহকীক:
হাদীস নং: ৮২৯
کتاب الزکوٰۃ
کم سے کم کتنے مال پر زکوٰۃ فرض ہے؟
حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پانچ وسق سے کم کھجوروں پر زکوٰۃ نہیں ہے اور پانچ اوقیہ سے کم چاندی میں زکوٰۃ نہیں ہے ، اور پانچ راس اونٹوں سے کم میں زکوٰۃ نہیں ہے۔ (صحیح بخاری و مسلم)
تشریح
زکوٰۃ کے تفصیلی احکام اور ضوابط
زکوٰۃ کی اجمالی اور بنیادی حقیقت تو یہی ہے کہ اپنی دولت اور اپنی کمائی میں سے اللہ کی رضا کے لیے اس کی راہ میں خرچ کیا جائے .... (وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ) اور جیسا کہ عنقریب میں ہی ذکر کیا جا چکا ہے ، اسلام کے بالکل ابتدائی دور میں یہی مجمل حکم تھا ۔ بعد میں اس کے تفصیلی احکام آئے اور ضوابط مقرر ہوئے ۔ مثلاً یہ کہ مال کی کن اقسام پر زکوٰۃ واجب ہو گی ۔ کم از کم کتنے پر زکوۃ واجب ہو گی ، کتنی مدت گزر جانے کے بعد واجب ہو گی ، کن کن راہوں میں وہ خرچ ہو سکے گا ۔
اب وہ حدیثیں پڑھی جائیں جن میں زکوٰۃ کے یہ تفصیلی احکام اور ضوابط بیان فرمائے گئے ہیں ۔
تشریح ..... عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں خاص کر مدینہ طیبہ کے قرب و جوار میں جو لوگ خوش حال اور دولت مند ہوتے تھے ان کے پاس دولت زیادہ تر تین جنسوں میں سے کسی جنس کی صورت میں ہوتی تھی ۔ یا تو ان کے باغوں کی پیداوار اور کھجوروں کی شکل میں ، یا چاندی کی شکل میں ، یا اونٹوں کی شکل میں .... رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں ان تینوں جنسوں کا نصاب زکوٰۃ بیان فرمایا ہے ۔ یعنی ان چیزوں کی کم سے کم کتنی مقدار پر زکوٰۃ واجب ہو گی .... کھجوروں کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا کہ پانچ وسق سے کم پر زکوٰۃ واجب نہیں ہو گی ، ایک سوق قریباً چھ من ہوتا ہے ، اس حساب پانچ وسق کھجوریں تیس من کے قریب ہوں گی ، اور چاندی کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پانچ اوقیہ سے کم میں زکوٰۃ واجب نہیں ہو گی ، ایک اوقیہ چاندی چالیس رہم کے برابر ہوتی ہے ، اس بناء پر پانچ اوقیہ دو سو درہم کے برابر ہو گی ۔ جس کا وزن مشہور قول کی بناء پر ساڑھے باون تولے ہوتا ہے ۔ اور اونٹوں کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا کہ پانچ راسوں سے کم میں زکوٰۃ واجب نہ ہو گی ۔
اس حدیث میں صرف ان ہی تین جنسوں میں زکوٰۃ واجب ہونے کا کم سے کم نصاسب بیان فرمایا گیا ہے ۔
حضرت شاہ ولی اللہؒ نے لکھا ہے کہ پانچ وسق (۳۰ من) کھجوریں ایک مختصر گھرانے کے سال بھر کے گذارے کے لیے کافی ہو جاتی ہیں ، اسی طرح دو سو درہم میں سال بھر کا خرچ چل سکتا ہے اور مالیت کے لحاظ سے قریب قریب یہی حیثیت پانچ اونٹوں کی ہوتی ہے ، اس لیے مقدار کے مالک کو خوش حال اور صاحب مال قرار دے کر زکوٰۃ واجب کر دی گئی ہے ۔
تشریح
زکوٰۃ کے تفصیلی احکام اور ضوابط
زکوٰۃ کی اجمالی اور بنیادی حقیقت تو یہی ہے کہ اپنی دولت اور اپنی کمائی میں سے اللہ کی رضا کے لیے اس کی راہ میں خرچ کیا جائے .... (وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ) اور جیسا کہ عنقریب میں ہی ذکر کیا جا چکا ہے ، اسلام کے بالکل ابتدائی دور میں یہی مجمل حکم تھا ۔ بعد میں اس کے تفصیلی احکام آئے اور ضوابط مقرر ہوئے ۔ مثلاً یہ کہ مال کی کن اقسام پر زکوٰۃ واجب ہو گی ۔ کم از کم کتنے پر زکوۃ واجب ہو گی ، کتنی مدت گزر جانے کے بعد واجب ہو گی ، کن کن راہوں میں وہ خرچ ہو سکے گا ۔
اب وہ حدیثیں پڑھی جائیں جن میں زکوٰۃ کے یہ تفصیلی احکام اور ضوابط بیان فرمائے گئے ہیں ۔
تشریح ..... عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں خاص کر مدینہ طیبہ کے قرب و جوار میں جو لوگ خوش حال اور دولت مند ہوتے تھے ان کے پاس دولت زیادہ تر تین جنسوں میں سے کسی جنس کی صورت میں ہوتی تھی ۔ یا تو ان کے باغوں کی پیداوار اور کھجوروں کی شکل میں ، یا چاندی کی شکل میں ، یا اونٹوں کی شکل میں .... رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں ان تینوں جنسوں کا نصاب زکوٰۃ بیان فرمایا ہے ۔ یعنی ان چیزوں کی کم سے کم کتنی مقدار پر زکوٰۃ واجب ہو گی .... کھجوروں کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا کہ پانچ وسق سے کم پر زکوٰۃ واجب نہیں ہو گی ، ایک سوق قریباً چھ من ہوتا ہے ، اس حساب پانچ وسق کھجوریں تیس من کے قریب ہوں گی ، اور چاندی کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پانچ اوقیہ سے کم میں زکوٰۃ واجب نہیں ہو گی ، ایک اوقیہ چاندی چالیس رہم کے برابر ہوتی ہے ، اس بناء پر پانچ اوقیہ دو سو درہم کے برابر ہو گی ۔ جس کا وزن مشہور قول کی بناء پر ساڑھے باون تولے ہوتا ہے ۔ اور اونٹوں کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا کہ پانچ راسوں سے کم میں زکوٰۃ واجب نہ ہو گی ۔
اس حدیث میں صرف ان ہی تین جنسوں میں زکوٰۃ واجب ہونے کا کم سے کم نصاسب بیان فرمایا گیا ہے ۔
حضرت شاہ ولی اللہؒ نے لکھا ہے کہ پانچ وسق (۳۰ من) کھجوریں ایک مختصر گھرانے کے سال بھر کے گذارے کے لیے کافی ہو جاتی ہیں ، اسی طرح دو سو درہم میں سال بھر کا خرچ چل سکتا ہے اور مالیت کے لحاظ سے قریب قریب یہی حیثیت پانچ اونٹوں کی ہوتی ہے ، اس لیے مقدار کے مالک کو خوش حال اور صاحب مال قرار دے کر زکوٰۃ واجب کر دی گئی ہے ۔
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : "لَيْسَ فِيمَا دُونَ خَمْسَةِ أَوْسُقٍ مِنَ التَّمْرِ صَدَقَةٌ ، وَلَيْسَ فِيمَا دُونَ خَمْسِ أَوَاقٍ مِنَ الْوَرِقِ صَدَقَةٌ ، وَلَيْسَ فِيمَا دُونَ خَمْسِ ذَوْدٍ مِنَ الْإِبِلِ صَدَقَةٌ"
(رواه البخارى ومسلم)
(رواه البخارى ومسلم)

তাহকীক:
হাদীস নং: ৮৩০
کتاب الزکوٰۃ
کم سے کم کتنے مال پر زکوٰۃ فرض ہے؟
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ” گھوڑوں میں اور غلاموں میں زکاۃ واجب نہیں کی گئی ہے پس ادا کرو تم زکاۃ چاندی کی ہر چالیس درہم میں سے ایک درہم ، اور ایک سو نوے درہم میں کچھ واجب نہیں ہے ، اور جب دو سو پورے ہو جائیں تو ان میں سے پانچ درہم واجب ہوں گے “ ۔ (جامع ترمذی ، سنن ابی داؤد)
تشریح
گھوڑے اور غلام اگر کسی کے پاس تجارت کے لیے ہوں تو حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کی آگے درج ہونے والی حدیث کے مطابق ان پر بھی زکوٰۃ واجب ہو گی ۔ لیکن اگر تجارت کے لیے نہ ہوں بلکہ سواری کے لیے اور خدمت کے لیے ہوں تو خواہ ان کی قیمت کتنی ہی ہو ان پر زکوٰۃ واجب نہ ہو گی ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اس حدیث میں غلاموں اور گھوڑوں پر زکوٰۃ واجب نہ ہونے کا جو بیان ہے اس کا تعلق اسی صورت مین سے ہے .... آگے چاندی کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ جب تک کسی کے پاس پورے دو سو درہم برابر چاندی نہ ہو اس پر زکوٰۃ واجب نہ ہو گی اور دو سو درہم کے بقدر ہو جانے پر (۴۰/۱) کے حساب سے پانچ درہم ادا کرنے ہوں گے ۔
تشریح
گھوڑے اور غلام اگر کسی کے پاس تجارت کے لیے ہوں تو حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کی آگے درج ہونے والی حدیث کے مطابق ان پر بھی زکوٰۃ واجب ہو گی ۔ لیکن اگر تجارت کے لیے نہ ہوں بلکہ سواری کے لیے اور خدمت کے لیے ہوں تو خواہ ان کی قیمت کتنی ہی ہو ان پر زکوٰۃ واجب نہ ہو گی ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اس حدیث میں غلاموں اور گھوڑوں پر زکوٰۃ واجب نہ ہونے کا جو بیان ہے اس کا تعلق اسی صورت مین سے ہے .... آگے چاندی کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ جب تک کسی کے پاس پورے دو سو درہم برابر چاندی نہ ہو اس پر زکوٰۃ واجب نہ ہو گی اور دو سو درہم کے بقدر ہو جانے پر (۴۰/۱) کے حساب سے پانچ درہم ادا کرنے ہوں گے ۔
عَنْ عَلِيٍّ قَالَ :  قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ :  "قَدْ عَفَوْتُ عَنِ الْخَيْلِ وَالرَّقِيقِ فَهَاتُوا صَدَقَةَ الرِّقَةِ مِنْ كُلِّ أَرْبَعِينَ دِرْهَمًا دِرْهَمٌ ، وَلَيْسَ فِي تِسْعِينَ وَمِائَةٍ شَيْءٌ ، فَإِذَا بَلَغَتْ مِائَتَيْنِ فَفِيهَا خَمْسَةُ دَرَاهِمَ".
(رواه الترمذى وابوداؤد)
(رواه الترمذى وابوداؤد)

তাহকীক:
হাদীস নং: ৮৩১
کتاب الزکوٰۃ
اموالِ تجارت پر زکوٰۃ
حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہم کو حکم تھا کہ ہم ہر اس چیز میں زکوٰۃ نکالیں جو ہم نے بیع و فروخت (یعنی تجارت) کے لیے مہیا کی ہو ۔ (سنن ابی داؤد)
تشریح
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آدمی جس مال کی بھی تجارت اور سودا گری کرے اس پر زکوٰۃ واجب ہوگی ۔
تشریح
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آدمی جس مال کی بھی تجارت اور سودا گری کرے اس پر زکوٰۃ واجب ہوگی ۔
عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدُبٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ"يَأْمُرُنَا أَنْ نُخْرِجَ الصَّدَقَةَ مِنَ الَّذِي نُعِدُّ لِلْبَيْعِ".
(رواه ابوداؤد)
(رواه ابوداؤد)

তাহকীক:
হাদীস নং: ৮৩২
کتاب الزکوٰۃ
سال گزرنے پر زکوٰۃ واجب ہو گی
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس کسی کو کسی راہ سے مال حاصل ہو تو اس پر اس کی زکوٰۃ اس وقت تک واجب نہیں ہو گی جب تک اس مال پر سال نہ گزر جائے ۔ (جامع ترمذی)
عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " مَنِ اسْتَفَادَ مَالًا فَلَا زَكَاةَ فِيهِ حَتَّى يَحُولَ عَلَيْهِ الْحَوْلُ.
(رواه الترمذى)
(رواه الترمذى)

তাহকীক:
হাদীস নং: ৮৩৩
کتاب الزکوٰۃ
زیورات پر زکوٰۃ کا حکم
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک خاتون اپنی ایک لڑکی کو لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں ، اور اس لڑکی کے ہاتھوں میں سونے کے موٹے اور بھاری کنگن تھے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا : تم ان کنگنوں کی زکاۃ ادا کرتی ہو؟ اس نے عرض کیا کہ : میں اس کی زکوٰۃ تو نہیں دیتی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تو کیا تمہارے لیے یہ بات خوشی کی ہو گی کہ اللہ تعالیٰ تمہیں کنگنوں کی (زکوٰۃ نہ دینے کی) وجہ سے قیامت کے دن آگ کے کنگن پہنائے؟ اللہ کی اس بندی نے وہ دونوں کنگن ہاتھوں سے اتار کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ڈال دئیے اور عرض کیا کہ : اب یہ اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہیں۔ (سنن ابی داؤد ، جامع ترمذی ، سنن نسائی ، سنن ابن ماجہ)
عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، أَنَّ امْرَأَةً أَتَتِ النَّبِىَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِابْنَةٌ لَهَا وَفِي يَدِ ابْنَتِهَا مَسَكَتَانِ غَلِيظَتَانِ مِنْ ذَهَبٍ ، فَقَالَ :  "أَتُعْطِينَ زَكَاةَ هَذَا؟"قَالَتْ :  لَا ، قَالَ :  "أَيَسُرُّكِ أَنْ يُسَوِّرَكِ اللَّهُ بِهِمَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ سِوَارَيْنِ مِنْ النَارِ؟" فَخَلَعَتْهُمَا ، فَأَلْقَتْهُمَا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، وَقَالَتْ :  هُمَا لِلَّهِ وَلِرَسُولِهِ.
(رواه ابوداؤد وغيره من اصحاب السنن)
(رواه ابوداؤد وغيره من اصحاب السنن)

তাহকীক:
হাদীস নং: ৮৩৪
کتاب الزکوٰۃ
زیورات پر زکوٰۃ کا حکم
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں سونے کے “ اوضاح ” (ایک خاص زیور کا نام ہے) پہنتی تھی ، میں نے ان کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا یہ بھی اس “ کنز ” میں داخل ہے؟ (جس پر سورہ توبہ کی آیت وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ .... الاية میں دوزخ کی وعید آئی ہے؟) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو مال اتنا ہو جائے کہ اس کی زکاۃ ادا کرنے کا حکم ہو ، پھر حکم کے مطابق اس کی زکاۃ ادا کر دی جائے وہ کنز نہیں ہے۔ (موطا امام مالک ، سنن ابی داؤد)
تشریح
ان حدیثوں ہی کی بنیاد پر امام ابو حنیفہؒ سونے چاندی کے زیورات پر (اگر وہ بقدر نصاب ہوں) زکوٰۃ فرض ہونے کے قائل ہیں لیکن دوسرے ائمہ امام مالکؒ ، امام شافعیؒ اور امام احمدؒ کے نزدیک زیورات پر زکوٰۃ صرف اس صورت میں فرض ہے جب وہ تجارت کے لیے ہوں ، یا مال کو محفوظ کرنے کے لیے بنوائے گئے ہوں ، لیکن جو زیورات صرف استعمال اور آرائش کے لیے ہوں ، ان ائمہ کے نزدیک ان پر زکوٰۃ واجب نہیں ہے ۔ اس مسئلہ میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی رائے بھی مختلف رہی ہے ۔ لیکن احادیث سے زیادہ تائید امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ ہی کے مسلک کی ہوتی ہے ۔ اسی لیے بعض شافعی المسالک علماء محققین نے بھی اس مسئلہ میں حنفی مسلک کو ترجیح دی ہے ۔ چنانچہ تفسیر کبیر میں امام رازیؒ نے یہی رویہ اختیار کیا ہے اور لکھا ہے کہ ظاہر نصوص اسی کی تائید کرتے ہیں ۔ واللہ اعلم ۔
تشریح
ان حدیثوں ہی کی بنیاد پر امام ابو حنیفہؒ سونے چاندی کے زیورات پر (اگر وہ بقدر نصاب ہوں) زکوٰۃ فرض ہونے کے قائل ہیں لیکن دوسرے ائمہ امام مالکؒ ، امام شافعیؒ اور امام احمدؒ کے نزدیک زیورات پر زکوٰۃ صرف اس صورت میں فرض ہے جب وہ تجارت کے لیے ہوں ، یا مال کو محفوظ کرنے کے لیے بنوائے گئے ہوں ، لیکن جو زیورات صرف استعمال اور آرائش کے لیے ہوں ، ان ائمہ کے نزدیک ان پر زکوٰۃ واجب نہیں ہے ۔ اس مسئلہ میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی رائے بھی مختلف رہی ہے ۔ لیکن احادیث سے زیادہ تائید امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ ہی کے مسلک کی ہوتی ہے ۔ اسی لیے بعض شافعی المسالک علماء محققین نے بھی اس مسئلہ میں حنفی مسلک کو ترجیح دی ہے ۔ چنانچہ تفسیر کبیر میں امام رازیؒ نے یہی رویہ اختیار کیا ہے اور لکھا ہے کہ ظاہر نصوص اسی کی تائید کرتے ہیں ۔ واللہ اعلم ۔
عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ ، قَالَتْ :  كُنْتُ أَلْبَسُ أَوْضَاحًا مِنْ ذَهَبٍ ، فَقُلْتُ :  يَا رَسُولَ اللَّهِ ، أَكَنْزٌ هُوَ؟ فَقَالَ :  "مَا بَلَغَ أَنْ تُؤَدَّى زَكَاتُهُ ، فَزُكِّيَ فَلَيْسَ بِكَنْزٍ".
(رواه مالک وابوداؤد)
(رواه مالک وابوداؤد)

তাহকীক:
হাদীস নং: ৮৩৫
کتاب الزکوٰۃ
زکوٰۃ پیشگی بھی ادا کی جا سکتی ہے
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے پیشگی اپنی زکوٰۃ ادا کرنے کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اس کی اجازت دے دی ۔ (سنن ابی داؤد ، جامع ترمذی ، سنن ابن ماجہ ، سنن دارمی)
عَنْ عَلِيٍّ ، أَنَّ الْعَبَّاسَ سَأَلَ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي تَعْجِيلِ صَدَقَتِهِ قَبْلَ أَنْ تَحِلَّ ، فَرَخَّصَ لَهُ فِي ذَلِكَ". 
(رواه ابوداؤد والترمذى وابن ماجه والدارمى)
(رواه ابوداؤد والترمذى وابن ماجه والدارمى)

তাহকীক:
হাদীস নং: ৮৩৬
کتاب الزکوٰۃ
زکوٰۃ اور صدقات کے مستحقین
زیاد بن حارث صدائی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی ، زیاد نے اس موقع پر ایک طویل حدیث ذکر کی ، اور اسی سلسلہ میں یہ واقعہ نقل کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اس وقت ایک شخص حاضر ہوا اور عرض کیا : زکوٰۃ کے مال میں سے مجھے کچھ عنایت فرمائیے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایاکہ : اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ کے مصارف کو نہ تو کسی نبی کی مرضی پر چھوڑا ہے اور نہ کسی غیر نبی کی مرضی پر ، بلکہ خود ہی فیصلہ فرما دیا ہے اور ان کے آٹھ حصے (یعنی آٹھ قسمیں) کر دی ہیں تو اگر تم ان قسموں میں سے کسی قسم کے آدمی ہو تو میں زکوٰۃ میں سے تم کو دے دوں گا “ ۔ (سنن ابی داؤد)
تشریح
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں مصارف زکوٰۃ کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے جس حکم کا حوالہ دیا ہے وہ سورہ توبہ کی اس آیت میں مذکور ہے :
إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّـهِ وَابْنِ السَّبِيلِ
(سورہ توبہ ۶۰ : ۹)
زکوٰة بس حق ہے مفلسوں اور محتاجوں کا اور تحصیل وصول کا کام کرنے والوں کا اور مؤلفۃ القلوب کا ، اور نیز وہ صرف کی جا سکتی ہے غلاموں کی آزادی دلانے اور ان کی گلو خلاصی کرانے اور ان لوگوں کی مدد میں جو قرض وغیرہ کی مصیبت میں مبتلا ہوں ، اور (اسی طرح) مجاہدوں اور مسافروں کی مدد میں ۔
فقراء : یعنی عام غریب اور مفلس لوگ .... فقیر عربی زبان میں غنی کے مقابلے میں بولا جاتا ہے ، اس لحاظ سے وہ تمام ٖغریب لوگ اس میں آ جاتے ہیں جو غنی نہیں ہیں (یعنی جن کے پاس اتنا سرمایہ نہیں ہے جس پر زکوٰۃ واجب ہو جاتی ہے) ۔ شریعت میں غناء کا معیار ییہ ہے ۔ کتاب الزکوٰۃ کے بالکل شروع میں حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کی حدیث گزر چکی ہے جس میں زکوٰۃ کے بارے میں ارشاد ہوا ہے ۔ تُؤْخَذُ مِنْ أَغْنِيَائِهِمْ فَتُرَدُّ اِلَى فُقَرَائِهِمْ
مساکین : وہ حاجت مند جن کے پاس اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے کچھ نہ ہو ار بالکل خالی ہاتھ ہوں ۔
عاملین : یعنی زکوٰۃ کی تحصیل وصول کرنے والا عملہ .... یہ لوگ اگر بالفرض غنی بھی ہوں جب بھی ان کی محنت اور ان کے وقت کا معاوضہ زکوٰۃ سے دیا جا سکتا ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں یہی دستور تھا ۔
مؤلفۃ القلوب : ایسے لوگ جن کی تالیف قلب اور دلجوئی اہم دینی و ملی مصالح کے لیے ضروری ہو ، وہ اگر دولت مند بھی ہوں تب بھی اس مقصد کے لیے زکوٰۃ کی مد سے ان پر خرچ کیا جا سکتا ہے ۔
رقاب : یعنی غلاموں اور باندیوں کی آزادی اور گلو خلاصی .... اس مد میں بھی زکوٰۃ خرچ کی جا سکتی ہے ۔
غارمین : جن لوگوں پر کوئی ایسا مالی بار آ پڑا ہو ، جس کے اٹھانے کی ان میں طاقت نہ ہو ، جیسے اپنی مالی حیثیت سے زیادہ قرض کا بوجھ یا کوئی دوسرا مالی تاوان .... ان لوگوں کی مدد بھی زکوٰۃ سے کی جا سکتی ہے ۔
فی سبیل اللہ : علماء اور ائمہ کے نزدیک اس سے مراد دین کی نصرت و حفاظت اور اعلاء کلمۃ اللہ کے سلسلے کی ضروریات ہیں ۔
ابن السبیل : اس سے مراد وہ مسافر ہیں جنہیں مسافرت میں ہونے کی وجہ سے مدد کی ضرورت ہو ۔
زیاد بن حارث صدائی کی اس حدیث میں جن صاحب کے متعلق یہ ذکر کیا گیا ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم زکوٰۃ کے مال میں سے مجھے کچھ عنایت فرما دیجئے ! انہیں جواب دیتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ نے زکوٰۃ کے یہ آٹھ مصارف خود ہی مقرر فرما دئیے ہیں ، اگر تم ان میں سے کسی طبقہ میں داخل ہو تو میں دے سکتا ہوں ، اور اگر ایسا نہیں ہے پھر مجھے یہ حق اور اختیار نہیں ہے کہ اس مد میں سے تم کو کچھ دے سکوں ..... (یہاں صرف حدیث کی تشریح اور تفہیم کے لیے مصارف کا مختصر بیان کر دیا گیا ہے ۔ تفصیلی مسائل فقہ کی کتابوں میں دیکھے جائیں ، یا علماء و اصحاب فتویٰ سے دریافت کئے جائیں) ۔
تشریح
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں مصارف زکوٰۃ کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے جس حکم کا حوالہ دیا ہے وہ سورہ توبہ کی اس آیت میں مذکور ہے :
إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّـهِ وَابْنِ السَّبِيلِ
(سورہ توبہ ۶۰ : ۹)
زکوٰة بس حق ہے مفلسوں اور محتاجوں کا اور تحصیل وصول کا کام کرنے والوں کا اور مؤلفۃ القلوب کا ، اور نیز وہ صرف کی جا سکتی ہے غلاموں کی آزادی دلانے اور ان کی گلو خلاصی کرانے اور ان لوگوں کی مدد میں جو قرض وغیرہ کی مصیبت میں مبتلا ہوں ، اور (اسی طرح) مجاہدوں اور مسافروں کی مدد میں ۔
فقراء : یعنی عام غریب اور مفلس لوگ .... فقیر عربی زبان میں غنی کے مقابلے میں بولا جاتا ہے ، اس لحاظ سے وہ تمام ٖغریب لوگ اس میں آ جاتے ہیں جو غنی نہیں ہیں (یعنی جن کے پاس اتنا سرمایہ نہیں ہے جس پر زکوٰۃ واجب ہو جاتی ہے) ۔ شریعت میں غناء کا معیار ییہ ہے ۔ کتاب الزکوٰۃ کے بالکل شروع میں حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کی حدیث گزر چکی ہے جس میں زکوٰۃ کے بارے میں ارشاد ہوا ہے ۔ تُؤْخَذُ مِنْ أَغْنِيَائِهِمْ فَتُرَدُّ اِلَى فُقَرَائِهِمْ
مساکین : وہ حاجت مند جن کے پاس اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے کچھ نہ ہو ار بالکل خالی ہاتھ ہوں ۔
عاملین : یعنی زکوٰۃ کی تحصیل وصول کرنے والا عملہ .... یہ لوگ اگر بالفرض غنی بھی ہوں جب بھی ان کی محنت اور ان کے وقت کا معاوضہ زکوٰۃ سے دیا جا سکتا ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں یہی دستور تھا ۔
مؤلفۃ القلوب : ایسے لوگ جن کی تالیف قلب اور دلجوئی اہم دینی و ملی مصالح کے لیے ضروری ہو ، وہ اگر دولت مند بھی ہوں تب بھی اس مقصد کے لیے زکوٰۃ کی مد سے ان پر خرچ کیا جا سکتا ہے ۔
رقاب : یعنی غلاموں اور باندیوں کی آزادی اور گلو خلاصی .... اس مد میں بھی زکوٰۃ خرچ کی جا سکتی ہے ۔
غارمین : جن لوگوں پر کوئی ایسا مالی بار آ پڑا ہو ، جس کے اٹھانے کی ان میں طاقت نہ ہو ، جیسے اپنی مالی حیثیت سے زیادہ قرض کا بوجھ یا کوئی دوسرا مالی تاوان .... ان لوگوں کی مدد بھی زکوٰۃ سے کی جا سکتی ہے ۔
فی سبیل اللہ : علماء اور ائمہ کے نزدیک اس سے مراد دین کی نصرت و حفاظت اور اعلاء کلمۃ اللہ کے سلسلے کی ضروریات ہیں ۔
ابن السبیل : اس سے مراد وہ مسافر ہیں جنہیں مسافرت میں ہونے کی وجہ سے مدد کی ضرورت ہو ۔
زیاد بن حارث صدائی کی اس حدیث میں جن صاحب کے متعلق یہ ذکر کیا گیا ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم زکوٰۃ کے مال میں سے مجھے کچھ عنایت فرما دیجئے ! انہیں جواب دیتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ نے زکوٰۃ کے یہ آٹھ مصارف خود ہی مقرر فرما دئیے ہیں ، اگر تم ان میں سے کسی طبقہ میں داخل ہو تو میں دے سکتا ہوں ، اور اگر ایسا نہیں ہے پھر مجھے یہ حق اور اختیار نہیں ہے کہ اس مد میں سے تم کو کچھ دے سکوں ..... (یہاں صرف حدیث کی تشریح اور تفہیم کے لیے مصارف کا مختصر بیان کر دیا گیا ہے ۔ تفصیلی مسائل فقہ کی کتابوں میں دیکھے جائیں ، یا علماء و اصحاب فتویٰ سے دریافت کئے جائیں) ۔
عَنْ زِيَادِ بْنِ الْحَارِثِ الصُّدَائِيَّ ، قَالَ :  أَتَيْتُ النَّبِىَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَبَايَعْتُهُ ، فَذَكَرَ حَدِيثًا طَوِيلًا ، فَأَتَاهُ رَجُلٌ ، فَقَالَ :  أَعْطِنِي مِنَ الصَّدَقَةِ ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ :  "إِنَّ اللَّهَ لَمْ يَرْضَ بِحُكْمِ نَبِيٍّ وَلَا غَيْرِهِ فِي الصَّدَقَاتِ حَتَّى حَكَمَ هُوَ فَجَزَّأَهَا ثَمَانِيَةَ أَجْزَاءٍ فَإِنْ كُنْتَ مِنْ تِلْكَ الْأَجْزَاءِ أَعْطَيْتُكَ حَقَّكَ". 
(رواه ابوداؤد)
(رواه ابوداؤد)

তাহকীক:
হাদীস নং: ৮৩৭
کتاب الزکوٰۃ
زکوٰۃ اور صدقات کے مستحقین
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : اصلی مسکین (جس کی صدقہ سے مدد کرنی چاہئے) وہ آدمی نہیں ہے جو (مانگنے کے لیے) لوگوں کے پاس آتا جاتا ہے (در در پھرتا ہے اور سائلانہ چکر لگاتا ہے) اور دو لقمے یا دو ایک دو کھجوریں (جب اس کے ہاتھ میں رکھ دی جاتی ہیں تو) لے کر واپس لوٹ جاتا ہے۔ بلکہ اصل مسکین وہ بندہ ہے جس کے پاس جس کے پاس اپنی ضرورتیں پوری کرنے کا سامان بھی نہیں ہے ۔ اور (چونکہ وہ اپنے اس حال کو لوگوں سے چھپاتا ہے اس لیے) کسی کو اس کی حاجت مندی کا احساس بھی نہیں ہوتا کہ صدقہ سے اس کی مدد کی جائے ، اور نہ وہ چل پھر کر لوگوں سے سوال کرتا ہے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
تشریح
حدیث کا مدعا یہ ہے کہ وہ پیشہ ور سائل اور گدا گر جو در در پھر کر لوگوں سے مانگتے ہیں ، اصلی مسکین اور صدقہ کے اصلی مستحق نہیں ہیں ، بلکہ صدقہ کے لیے ایسے باعفت ضرورت مندوں کو تلاش کرناچاہئے جو شرم و حیا اور عفت نفس کی وجہ سے لوگوں پر اپنی حاجت مندی ظاہر نہیں کرتے اور کسی سے سوال نہیں کرتے .....یہی لوگ اصل مسکین ہیں ۔ جن کی خدمت اور مدد نہایت مقبول اور پسندیدہ عمل ہے ۔
تشریح
حدیث کا مدعا یہ ہے کہ وہ پیشہ ور سائل اور گدا گر جو در در پھر کر لوگوں سے مانگتے ہیں ، اصلی مسکین اور صدقہ کے اصلی مستحق نہیں ہیں ، بلکہ صدقہ کے لیے ایسے باعفت ضرورت مندوں کو تلاش کرناچاہئے جو شرم و حیا اور عفت نفس کی وجہ سے لوگوں پر اپنی حاجت مندی ظاہر نہیں کرتے اور کسی سے سوال نہیں کرتے .....یہی لوگ اصل مسکین ہیں ۔ جن کی خدمت اور مدد نہایت مقبول اور پسندیدہ عمل ہے ۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : « لَيْسَ المِسْكِينُ الَّذِي يَطُوفُ عَلَى النَّاسِ تَرُدُّهُ اللُّقْمَةُ وَاللُّقْمَتَانِ ، وَالتَّمْرَةُ وَالتَّمْرَتَانِ ، وَلَكِنِ المِسْكِينُ الَّذِي لاَ يَجِدُ غِنًى يُغْنِيهِ ، وَلاَ يُفْطَنُ بِهِ ، فَيُتَصَدَّقُ عَلَيْهِ وَلاَ يَقُومُ فَيَسْأَلُ النَّاسَ » 
(رواه البخارى ومسلم)
(رواه البخارى ومسلم)

তাহকীক:
হাদীস নং: ৮৩৮
کتاب الزکوٰۃ
زکوٰۃ اور صدقات کے مستحقین
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : زکوٰۃ حلال نہیں ہے (مالدار) کو اور توانا و تندرست کو ۔ (جامع ترمذی ، سنن ابی داؤد ، سنن دارمی)
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ « لَا تَحِلُّ الصَّدَقَةُ لِغَنِيٍّ ، وَلَا لِذِي مِرَّةٍ سَوِيٍّ » 
(رواه الترمذى وابوداؤد والدارمى)
(رواه الترمذى وابوداؤد والدارمى)

তাহকীক:
হাদীস নং: ৮৩৯
کتاب الزکوٰۃ
زکوٰۃ اور صدقات کے مستحقین
حضرت عبید اللہ بن الخیار تابعی نقل کرتے ہیں کہ مجھے دو آدمیوں نے بتایا کہ وہ دونوں حجۃ الوداع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت زکوٰۃ کے اموال تقسیم فرما رہے تھے ، تو ہم دونوں نے بھی اس میں سے کچھ مانگا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نظر اٹھا کر ہمیں اوپر سے نیچے تک دیکھا ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو تندرست و توانا محسوس کیا ، پھر فرمایا کہ اگر تم چاہو تو میں تمہیں دے دوں (مگر یہ سمجھ لو کہ) ان اموال میں مالداروں کا اور ایسے تندرست و توانا لوگوں کا حصہ نہیں ہے ، جو اپنی معاش کمانے کے قابل ہوں ۔ (سنن ابی داؤد ، سنن نسائی)
تشریح
ان دونوں حدیثوں میں غنی سے مراد غالباً وہ آدمی ہے جس کے پاس اپنے کھانے ، کپڑے جیسی ضروریات کے لیے کچھ سامان موجود ہو اور اسے فی الحال ضرورت نہ ہو ، ایسے آدمی کو اگر وہ مالک نصاب نہیں ہے زکوٰۃ دی جائے ، تو اگچہ ادا ہو جائے گی ، لیکن خود اس آدمی کو زکوٰۃ لینے سے پرہیز کرنا چاہئے ۔ اسی طرح جو آدمی تندرست و توانا ہو اور محنت کر کے روزی کما سکتا ہو اس کو بھی زکوٰۃ لینے سے بچنا چاہئے .... عام ضابطہ یہی ہے ، اور ان دونوں حدیثوں میں اسی عام ضابطہ کی ہدایت فرمائی گئی ہے ۔ لیکن خاص حالات میں ایسے لوگوں کو بھی زکوٰۃ لینے کی گنجائش ہے ۔ اسی لیے عبیداللہ بن عدی والی دوسری حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں صاحبوں سے یہ بھی فرمایا کہ : “ اگر تم لینا چاہو تو میں دے دوں گا ” ۔ إِنَّ شِئْتُمَا أَعْطَيْتُكُمَا
تشریح
ان دونوں حدیثوں میں غنی سے مراد غالباً وہ آدمی ہے جس کے پاس اپنے کھانے ، کپڑے جیسی ضروریات کے لیے کچھ سامان موجود ہو اور اسے فی الحال ضرورت نہ ہو ، ایسے آدمی کو اگر وہ مالک نصاب نہیں ہے زکوٰۃ دی جائے ، تو اگچہ ادا ہو جائے گی ، لیکن خود اس آدمی کو زکوٰۃ لینے سے پرہیز کرنا چاہئے ۔ اسی طرح جو آدمی تندرست و توانا ہو اور محنت کر کے روزی کما سکتا ہو اس کو بھی زکوٰۃ لینے سے بچنا چاہئے .... عام ضابطہ یہی ہے ، اور ان دونوں حدیثوں میں اسی عام ضابطہ کی ہدایت فرمائی گئی ہے ۔ لیکن خاص حالات میں ایسے لوگوں کو بھی زکوٰۃ لینے کی گنجائش ہے ۔ اسی لیے عبیداللہ بن عدی والی دوسری حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں صاحبوں سے یہ بھی فرمایا کہ : “ اگر تم لینا چاہو تو میں دے دوں گا ” ۔ إِنَّ شِئْتُمَا أَعْطَيْتُكُمَا
عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَدِيِّ بْنِ الْخِيَارِ ، قَالَ : أَخْبَرَنِي رَجُلَانِ : أَنَّهُمَا أَتَيَا النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ ، وَهُوَ يُقَسِّمُ الصَّدَقَةَ ، فَسَأَلَاهُ مِنْهَا ، فَرَفَعَ فِينَا الْبَصَرَ وَخَفَضَهُ ، فَرَآنَا جَلْدَيْنِ ، فَقَالَ : « إِنَّ شِئْتُمَا أَعْطَيْتُكُمَا ، وَلَا حَظَّ فِيهَا لِغَنِيٍّ ، وَلَا لِقَوِيٍّ مُكْتَسِبٍ »
(رواه ابوداؤد والنسائى)
(رواه ابوداؤد والنسائى)

তাহকীক:
হাদীস নং: ৮৪০
کتاب الزکوٰۃ
زکوۃ و صدقات اور خاندان نبوت
عبدالمطلب بن ربیعہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ صدقات لوگوں کے مال و دولت کا میل کچیل ہیں ، اور وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے حلال نہیں ہیں ۔ (صحیح مسلم)
تشریح
اس حدیث میں زکوٰۃ و صدقات کو میل کچیل اس لحاظ سے کہا گیا ہے کہ جس طرح میل کچیل نکل جانے کے بعد کپڑا ظاہری نظر میں صاف ہو جاتا ہے اسی طرح زکوٰۃ نکلنے کے بعد باقی مال عنداللہ اور باطنی نظر میں پاک ہو جاتا ہے ۔ اس میں اس طرف سے بھی اشارہ ہے کہ جہاں تک ہو سکے مال زکوٰۃ کے استعمال سے پرہیز ہی کیا جائے ۔ اسی بناء پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنے لیے اور قیامت تک کے واسطے اپنے اہل خاندان ان بنی ہاشم کے لیے زکوٰۃ کو ناجائز قرار دے دیا ۔
تشریح
اس حدیث میں زکوٰۃ و صدقات کو میل کچیل اس لحاظ سے کہا گیا ہے کہ جس طرح میل کچیل نکل جانے کے بعد کپڑا ظاہری نظر میں صاف ہو جاتا ہے اسی طرح زکوٰۃ نکلنے کے بعد باقی مال عنداللہ اور باطنی نظر میں پاک ہو جاتا ہے ۔ اس میں اس طرف سے بھی اشارہ ہے کہ جہاں تک ہو سکے مال زکوٰۃ کے استعمال سے پرہیز ہی کیا جائے ۔ اسی بناء پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنے لیے اور قیامت تک کے واسطے اپنے اہل خاندان ان بنی ہاشم کے لیے زکوٰۃ کو ناجائز قرار دے دیا ۔
عَنْ عَبْدَ الْمُطَّلِبِ بْنَ رَبِيعَةَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : « إِنَّ هَذِهِ الصَّدَقَاتِ إِنَّمَا هِيَ أَوْسَاخُ النَّاسِ ، وَإِنَّهَا لَا تَحِلُّ لِمُحَمَّدٍ ، وَلَا لِآلِ مُحَمَّدٍ » 
(رواه مسلم)
(رواه مسلم)

তাহকীক:
হাদীস নং: ৮৪১
کتاب الزکوٰۃ
زکوۃ و صدقات اور خاندان نبوت
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گزر رہے تھے ، راستے میں پڑی ہوئی اویک کھجور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھی تو فرمایا کہ اگر مجھے یہ اندیشہ نہ ہوتا کہ شاید یہ زکوٰۃ کی ہو تو میں اس کو اٹھا کے کھا لیتا ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
تشریح
اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا دراصل لوگوں کو یہ سبق دینے کے لیے تھا کہاگر اللہ کا رزق اور اس کی کوئی نعمت (اگرچہ کیسی ہی کم حیثیت اور کم قیمت ہو) کہیں گری پڑی نظر آئے تو اس کا احترام اور اس کی قدر کی جائے اور اس سے وہ کام لیا جائے جس کے لیے اللہ نے وہ بنائی ہے ۔ اسی کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بتا کے کہ : “ میں اس کو اس لیے نہیں کھا سکتا کہ شاید یہ زکوٰۃ کی کھجوروں میں سے گر گئی ہو ۔ ” مشکوک اور مشتبہ چیزوں کے استعمال کرنے سے پرہیز اور احتیاط کا سبق بھی اہل تقویٰ کو دے دیا ہے ۔
تشریح
اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا دراصل لوگوں کو یہ سبق دینے کے لیے تھا کہاگر اللہ کا رزق اور اس کی کوئی نعمت (اگرچہ کیسی ہی کم حیثیت اور کم قیمت ہو) کہیں گری پڑی نظر آئے تو اس کا احترام اور اس کی قدر کی جائے اور اس سے وہ کام لیا جائے جس کے لیے اللہ نے وہ بنائی ہے ۔ اسی کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بتا کے کہ : “ میں اس کو اس لیے نہیں کھا سکتا کہ شاید یہ زکوٰۃ کی کھجوروں میں سے گر گئی ہو ۔ ” مشکوک اور مشتبہ چیزوں کے استعمال کرنے سے پرہیز اور احتیاط کا سبق بھی اہل تقویٰ کو دے دیا ہے ۔
عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، قَالَ : مَرَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِتَمْرَةٍ فِي الطَّرِيقِ ، قَالَ : « لَوْلاَ أَنِّي أَخَافُ أَنْ تَكُونَ مِنَ الصَّدَقَةِ لَأَكَلْتُهَا » 
(رواه البخارى ومسلم)
(رواه البخارى ومسلم)

তাহকীক:
হাদীস নং: ৮৪২
کتاب الزکوٰۃ
زکوۃ و صدقات اور خاندان نبوت
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے حسن بن علی رضی اللہ عنہ نے (اپنے بچپن میں) زکوٰۃ کی کھجوروں میں سے ایک کھجور اٹھا کر اپنے منہ میں رکھ لی ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھ لیا اور فرمایا : كخ كخ (اخ اخ) تا کہ وہ اس کو منہ سے نکال دیں اور تھوک دیں ۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : بیٹا ! کیا تمہیں معلوم نہیں ہے کہ ہم لوگ (بنی ہاشم) زکوٰۃ نہیں کھاتے ہیں ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ : أَخَذَ الحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا ، تَمْرَةً مِنْ تَمْرِ الصَّدَقَةِ ، فَجَعَلَهَا فِي فِيهِ ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : « كِخْ كِخْ » لِيَطْرَحَهَا ، ثُمَّ قَالَ : « أَمَا شَعَرْتَ أَنَّا لاَ نَأْكُلُ الصَّدَقَةَ »
(رواه البخارى ومسلم)
(رواه البخارى ومسلم)

তাহকীক:
হাদীস নং: ৮৪৩
کتاب الزکوٰۃ
زکوۃ و صدقات اور خاندان نبوت
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول اور دستور تھا کہ جب کوئی کھانے کی چیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بارے میں دریافت فرماتے کہ : یہ ہدیہ ہے کہ صدقہ ؟ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا جاتا کہ یہ صدقہ ہے ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب رضی اللہ عنہم سے (یعنی ان اصحاب رضی اللہ عنہم سے جن کے لیے صدقہ کھانے میں کوئی مضائقہ نہ ہوتا ، جیسے کہ اصحاب صفہ رضی اللہ عنہم) فرما دیتے کہ تم لوگ کھاؤ ، اور خود اس میں سے نہ کھاتے ۔ اور اگر آپ کو بتایا جاتا کہ یہ کھانا ہدیہ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس کی طرف ہاتھ بڑھاتے اور ان اصحاب رضی اللہ عنہم کے ساتھ اس کے کھانے میں شرکت فرماتے ۔ (صحیح مسلم ، صحیح بخاری)
تشریح
کسی شخص کو غریب اور ضرورت مند سمجھ اعانت و امداد کے طور پر ثواب کی نیت سے جو کچھ دیا جائے وہ شریعت کی اصطلاح میں صدقہ کہلاتا ہے ، خواہ وہ فرض و واجب ہو ، جیسے زکوٰۃ یا صدقہ فطر ، یا نفلی ہو (جس کو ہماری زبان میں امداد اور خیرات کہا جاتا ہے) .... (اور اگر عقیدے اور تعلق و محبت کی وجہ سے اور اس کے تقاضے سے کسی اپنے محترم اور محبوب کی خدمت میں کچھ پیش کیا جائے تو وہ ہدیہ کہلاتا ہے .... صدقہ میں دینے والے کی پوزیشن اونچی اور بلند ہوتی ہے اور بےچارے لینے والی کی نیچی اور پست ، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی قسم کا صدقہ استعمال نہیں فرماتے تھے .... اور ہدیہ دینے والا اس کے ذریعے احترام و عقیدت اور تعلق و محبت کا اظہار کرتا ہے اور اس کو اپنی ذاتی ضرورت سمجھتا ہے اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو خوشی سے قبول فرماتے تھے ، پیش کرنے والے کو دعائیں دیتے تھے ، اور بسا اوقات اپنی طرف سے اس کو ہدیہ دے کر اس کی مکافات بھی کرتے تھے ۔ (1) ..... اور جب کوئی صدقہ کے طور پر کچھ لاتا تو وہ اپنے اصحاب مستحقین کو دے دیتے تھے ۔
تشریح
کسی شخص کو غریب اور ضرورت مند سمجھ اعانت و امداد کے طور پر ثواب کی نیت سے جو کچھ دیا جائے وہ شریعت کی اصطلاح میں صدقہ کہلاتا ہے ، خواہ وہ فرض و واجب ہو ، جیسے زکوٰۃ یا صدقہ فطر ، یا نفلی ہو (جس کو ہماری زبان میں امداد اور خیرات کہا جاتا ہے) .... (اور اگر عقیدے اور تعلق و محبت کی وجہ سے اور اس کے تقاضے سے کسی اپنے محترم اور محبوب کی خدمت میں کچھ پیش کیا جائے تو وہ ہدیہ کہلاتا ہے .... صدقہ میں دینے والے کی پوزیشن اونچی اور بلند ہوتی ہے اور بےچارے لینے والی کی نیچی اور پست ، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی قسم کا صدقہ استعمال نہیں فرماتے تھے .... اور ہدیہ دینے والا اس کے ذریعے احترام و عقیدت اور تعلق و محبت کا اظہار کرتا ہے اور اس کو اپنی ذاتی ضرورت سمجھتا ہے اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو خوشی سے قبول فرماتے تھے ، پیش کرنے والے کو دعائیں دیتے تھے ، اور بسا اوقات اپنی طرف سے اس کو ہدیہ دے کر اس کی مکافات بھی کرتے تھے ۔ (1) ..... اور جب کوئی صدقہ کے طور پر کچھ لاتا تو وہ اپنے اصحاب مستحقین کو دے دیتے تھے ۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، قَالَ : كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أُتِيَ بِطَعَامٍ سَأَلَ عَنْهُ : « أَهَدِيَّةٌ أَمْ صَدَقَةٌ؟ » ، فَإِنْ قِيلَ صَدَقَةٌ ، قَالَ لِأَصْحَابِهِ : « كُلُوا » ، وَلَمْ يَأْكُلْ ، وَإِنْ قِيلَ هَدِيَّةٌ ، ضَرَبَ بِيَدِهِ ، فَأَكَلَ مَعَهُمْ. 
(رواه البخارى ومسلم)
(رواه البخارى ومسلم)

তাহকীক:
হাদীস নং: ৮৪৪
کتاب الزکوٰۃ
زکوۃ و صدقات اور خاندان نبوت
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام ابو رافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی مخزوم کے ایک آدمی کو زکوٰۃ وصول کرنے کے لیے مقرر فرمایا ۔ اس مخزومی نے ابورافع سے کہا : تم بھی میرے ساتھ چلو تاکہ تمہیں بھی (حق المحنت کے طور پر) اس میں سے کچھ مل جائے جس طرح مجھے ملے گا ، ابو رافع نے ان سے کہا کہ : جب تک کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں دریافت نہ کر لوں تمہارے ساتھ نہیں چل سکتا ، اس کے بعد ابو رافع انہوں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں دریافت کیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ہمارے گھر اور ہمارے خاندان کے لیے زکوٰۃ میں سے کچھ لینا جائز نہیں ہے ، اور کسی گھرانے کے غلام بھی ان ہی میں سے ہیں ۔ (اس لیے ہماری طرح تمہارے لیے بھی یہ جائز نہیں ہے) ۔
تشریح
اس حدیث سے ایک بات تو یہ معلوم ہوئی کہ جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل خاندان کے لیے زکوٰۃ حلال نہیں ہے ، اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان والوں کے غلاموں کے لیے بھی حلال نہیں ہے ۔ حتیٰ کہ آزاد ہونے کے بعد بھی وہ زکوٰۃ فنڈ سے کچھ نہیں لے سکتے .... دوسری بات اس حدیث سے یہ معلوم ہوئی کہ زکوٰۃ کی تحصیل وصول کی اجرت اور حق المحنت کے طور پر اسی زکوٰۃ میں سے ہر عامل کو دیا جا سکتا ہے (حتیٰ کہ عامل اگر اپنے گھر کا دولت مند ہو اور خود اس پر زکوٰۃ واجب ہوتی ہو ، تب بھی اس کو بطور اجرت زکوٰۃ سے دیا جاتا ہے) لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان والوں اور ان کے غلاموں کے لیے اس کی گنجائش نہیں ہے .... ایک تیسری بات اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہو گئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور اسلامی قانون نے غلاموں کو اس زمانہ میں جب دنیا میں ان کی کوئی بھی حیثیت نہیں تھی کتنا بلند درجہ دیا تھا ، اور قانونی مالکوں کی خاندانی خصوصیات تک میں ان کو کس حد تک شریک کر دیا تھا ۔
تشریح
اس حدیث سے ایک بات تو یہ معلوم ہوئی کہ جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل خاندان کے لیے زکوٰۃ حلال نہیں ہے ، اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان والوں کے غلاموں کے لیے بھی حلال نہیں ہے ۔ حتیٰ کہ آزاد ہونے کے بعد بھی وہ زکوٰۃ فنڈ سے کچھ نہیں لے سکتے .... دوسری بات اس حدیث سے یہ معلوم ہوئی کہ زکوٰۃ کی تحصیل وصول کی اجرت اور حق المحنت کے طور پر اسی زکوٰۃ میں سے ہر عامل کو دیا جا سکتا ہے (حتیٰ کہ عامل اگر اپنے گھر کا دولت مند ہو اور خود اس پر زکوٰۃ واجب ہوتی ہو ، تب بھی اس کو بطور اجرت زکوٰۃ سے دیا جاتا ہے) لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان والوں اور ان کے غلاموں کے لیے اس کی گنجائش نہیں ہے .... ایک تیسری بات اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہو گئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور اسلامی قانون نے غلاموں کو اس زمانہ میں جب دنیا میں ان کی کوئی بھی حیثیت نہیں تھی کتنا بلند درجہ دیا تھا ، اور قانونی مالکوں کی خاندانی خصوصیات تک میں ان کو کس حد تک شریک کر دیا تھا ۔
عَنْ ابْنِ أَبِي رَافِعٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ رَجُلًا مِنْ بَنِي مَخْزُومٍ عَلَى الصَّدَقَةِ ، فَقَالَ لِأَبِي رَافِعٍ : اصْحَبْنِي كَيْمَا تُصِيبَ مِنْهَا ، فَقَالَ : لَا ، حَتَّى آتِيَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَسْأَلَهُ ، فَانْطَلَقَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَسَأَلَهُ فَقَالَ : « إِنَّ الصَّدَقَةَ لَا تَحِلُّ لَنَا ، وَإِنَّ مَوَالِيَ القَوْمِ مِنْ أَنْفُسِهِمْ » 
(رواه الترمذى وابوداؤد والنسائى)
(رواه الترمذى وابوداؤد والنسائى)

তাহকীক: