মা'আরিফুল হাদীস (উর্দু)

معارف الحديث

کتاب الصوم - এর পরিচ্ছেদসমূহ

মোট হাদীস ২০ টি

হাদীস নং: ৮৮৫
کتاب الصوم
ماہ رمضان کے فضائل و برکات
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب رمضان آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کر دئیے جاتے ہیں اور شیاطین جکڑ دئیے جاتے ہیں .... (اور ایک روایت میں بجائے “ ابواب جنت ” کے “ ابوب رحمت ” کا لفظ ہے) ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
بسم اللہ الرحمن الرحیم
توحید و رسالت کی شہادت کے بعد نماز ، زکوٰۃ ، روزہ اور حج اسلام کے عناصر اربعہ ہیں ۔
وہ حدیثیں اسی سلسلہ “ معارف الحدیث ” کے بالکل شروع میں ذکر کی جا چکی ہیں جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پانچوں چیزوں کو اسلام کے ارکان اور بنیادی ستون بتایا ہے ۔ ان کے ارکان اور عناصر ہونے کا مطلب جیسا کہ پہلے بھی ذکر کیا جا چکا ہے کہ اسلام اللہ کی فرمانبرداری والے جس طرز حیات کا نام ہے اس کی تخلیق و تعمیر اور نشوو نما میں ان پانچوں کو خاص الخاص دخل ہے .... اس لحاظ سے نماز اور زکوٰۃ کی جو تاثیری خصوصیات ہیں وہ اپنے موقع پر ذکر کی جا چکی ہیں .... روزے کی اس تاثیر و خصوصیت کا ذکر خود قرآن مجید میں صراحت اور وضاحت کے ساتھ فرمایا گیا ہے .... سورہ بقرہ میں رمضان کے روزوں کی فرضیت کا اعلان فرمانے کے ساتھ ہی ارشاد فرمایا گیا ہے ۔ ” لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ “ یعنی اس حکم کا مقصد یہ ہے کہ تم میں تقویٰ پیدا ہو ۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو روحانیت اور حیوانیت کا یا دوسرے الفاظ میں کہئے کہ ملکوتیت اور بہیمیت کا نسخہ جامعہ بنایا ہے ، اس کی طبیعت اور جبلت میں وہ سارے مادی اور سفلی تقاضے بھی ہیں جو دوسرے حیوانوں میں ہوتے ہیں ، اور اسی کے ساتھ اس کی فطرت میں روحانیت اور ملکوتیت کا وہ نورانی جوہر بھی ہے جو ملاء اعلیٰ کی لطیف مخلوق فرشتوں کی خاص دولت ہے ۔ انسان کی سعادت کا دار و مدار اس پر ہے کہ اس کا یہ روحانی اور ملکوتی عنصر بہیمی اور حیوانی عنصر پر غالب اور حاوی رہے اور اس کو حدود کا پابند رکھے ، اور یہ تب ہی ممکن ہے جب کہ بہیمی پہلو روحانی اور ملکوتی پہلو کی فرمانبرداری اور اطاعت شعاری کا عادی ہو جائے اور اس کے مقابلے میں سرکشی نہ کر سکے .... روزہ کی ریاضت کا خاص مقصد و موضوع یہی ہے کہ اس کے ذریعے انسان کی حیوانیت اور بہیمیت کو اللہ کے احکام کی پابندی اور ایمانی و روحانی تقاضوں کی تابعداری و فرمانبرداری کا خوگر بنایا جائے اور چونکہ یہ چیز نبوت اور شریعت کے خاص مقاصد میں سے ہے اس لیے پہلی تمام شریعتوں میں بھی روزے کا حکم رہا ہے ۔ قرآن مجید میں اس امت کو روزے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا گیا ہے :
“ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ ”
(البقرۃ آیت ۱۸۳)
اے ایمان والوں ! تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں ، جس طرح تم سے پہلی امتوں پر بھی فرض کئے گئے تھے ، تا کہ تمہارے اندر تقویٰ اور پرہیزگاری پیدا ہو ۔
بہر حال روزہ چونکہ انسان کی قوت بہیمی کو اس کی ملکوتی اور روحانی قوت کے تابع رکھنے اور اللہ کے احکام کے مقابلہ میں نفس کی خواہشات اور پیٹ اور شہوت کے تقاضوں کو دبانے کی عادت ڈالنے کا خاص ذریعہ اور وسیلہ ہے ، اس لیے اگلی امتوں کو بھی اس کا حکم دیا گیا ہے ۔ اگرچہ روزوں کی م دت اور بعض دوسرے تفصیلی احکام میں ان امتوں کے خاص حالات اور ضروریات کے لحاظ سے کچھ فرق بھی تھا .... اس آخری امت کے لیے جس کا دور دنیا کے آخری دن تک ہے سال میں ایک مہینے کے روزے فرض کئے گئے ہیں اور روزے کا وقت طلوع سحر سے غروب آفتاب تک رکھا گیا ہے ، اور بلا شبہ یہ مدت اور یہ وقت مذکورہ بالا مقصد کے لیے اس دور کے واسطے مناسب ترین اور نہایت معتدل مدت اور وقت ہے ، اس سے میں ریاضت اور نفس کی تربیت کا مقصد حاصل نہیں ہوتا ، اور اگر اس سے زیادہ رکھا جاتا ۔ مثلاً روزے میں دن کے ساتھ رات بھی شامل کر دی جاتی ، اور بس سحر کے وقت کھانے پینے کی اجازت ہوتی ، یا سال میں دو چار مہینے مسلسل روزے رکھنے کا حکم ہوتا ، تو انسانوں کی اکثریت کے ناقابل برداشت اور صحتوں کے لیے مضر ہوتا .... بہر حال طلوع سحر سے غروب آفتاب تک کا وقت اور سال میں ایک مہینے کی مدت اس دور کے عام انسانوں کے حالات کے لحاظ سے ریاضت و تربیت کے مقصد کے لیے بالکل مناسب اور معتدل ہے ۔
پھر اس کے لیے مہینہ وہ مقرر کیا گیا ہے جس میں قرآن مجید کا نزول ہوا ، اور جس میں بے حساب برکتوں اور رحمتوں والی رات (لیلۃ القدر) ہوتی ہے ۔ ظاہر ہے کہ یہی مبارک مہینہ اس کے لیے سب سے زیادہ موزوں اور مناسب ہو سکتا تھا .... پھر اس مہینے میں دن کے روزوں کے علاوہ رات میں بھی ایک خاص عبادت کا عمومی اور اجتماعی نظام قائم کیا گیا ہے جو تراویح کی شکل میں امت پر رائج ہے .... دن کے روزوں کے ساتھ رات کی تراویح کی برکات مل جانے کی برکات مل جانے سے اس مہینے کی نورانیت اور تاثیر میں وہ اضافہ ہو جاتا ہے جس کو اپنے اپنے ادراک و احساس کے مطابق ہر وہ بندہ محسوس کرتا ہے جو ان باتوں سے کچھ بھی تعلق اور مناسبت رکھتا ہے ۔
ان مختصر تمہیدی اشارات کے بعد رمضان اور روزوں وغیرہ کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات ذیل میں پڑھئے ۔

تشریح .....استاذ الاساتذہ حضرت شاہ ولی اللہؒ نے “ حجۃ اللہ البالغہ ” میں اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے جو کچھ تحریر فرمایا ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ .... اللہ کے صالح اور اطاعت شعار بندے رمضان میں چونکہ طاعات و حسنات میں مشغول و منہمک ہو جاتے ہیں وہ دنوں کو روزہ رکھ کے ذکر و تلاوت میں گزارتے ہیں اور راتوں کا بڑا حصہ تراویح و تہجد اور دعا و استغفار میں بسر کرتے ہیں اور ان کے انوار و برکات سے متاثر ہو کر عوام مومنین کے قلوب بھی رمضان میں عبادات اور نیکیوں کی طرف زیادہ راغب اور بہت سے گناہوں سے کنارہ کش ہو جاتے ہیں ، تو اسلام اور ایمان کے حلقے میں سعادت اور تقوے کے اس عمومی رجحان اور نیکی اور عبادت کی اس عام فضاء کے پیدا ہو جانے کی وجہ سے وہ تمام طبائع جن میں کچھ بھی صلاحیت ہوتی ہے ۔ اللہ کی مرضیات کی جانب مائل اور شر و خباثت سے متنفر ہو جاتی ہیں ، اور پھر اس ماہ مبارک میں تھوڑے سے عمل خیر کی قیمت بھی اللہ تعالیٰ کی جانب سے دوسرے دنوں کی بہ نسبت بہت زیادہ بڑھا دی جاتی ہے ، تو ان سب باتوں کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان لوگوں کے لیے جنت کے دروازے کھل جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے ان پر بند کر دئیے جاتے ہیں ، اور شیاطین ان کو گمراہ کرنے سے عاجز اور بے بس ہو جاتے ہیں ۔
اس تشریح کے مطابق ان تینوں باتوں (یعنی جنت و رحمت کے دروازے کھل جانے ، دوزخ کے دروازے بند ہو جانے اور شیاطین کے مقید اور بے بس کر دئیے جانے) کا تعلق صرف ان اہل ایمان سے ہے جو رمضان مبارک میں خیر و سعادت حاصل کرنے کی طرف مائل ہوتے اور رمضان کی رحمتوں اور برکتوں سے مستفید ہونے کے لیے عبادات و طاعات کو اپنا شغل بناتے ہیں .... باقی رہے وہ کفار اور خدا ناشناس اور وہ خدا فراموش اور غفلت شعار لوگ جو رمضان اور اس کے احکام و برکات سے کوئی سرو کار ہی نہیں رکھتے اور نہ اس کے آنے پر ان کی زندگیوں میں کوئی تبدیلی ہوتی ہے ، ظاہر ہے کہ اس قسم کی بشارتوں کا ان سے کوئی تعلق نہیں ، انہوں نے جب اپنے آپ کو خود ہی محروم کر لیا ہے اور بارہ مہینے شیطان کی پیروی پر وہ مطمئن ہیں تو پھر اللہ کے یہاں بھی ان کے لیے محرومی کے سوا اور کچھ نہیں ۔
عَنِ أَبِىْ هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : « إِذَا دَخَلَ رَمَضَانُ فُتِّحَتْ أَبْوَابُ الجَنَّةِ ، وَغُلِّقَتْ أَبْوَابُ جَهَنَّمَ وَسُلْسِلَتِ الشَّيَاطِينُ » وفى رواية أَبْوَابُ الرَّحْمَةِ...
(رواه البخارى ومسلم)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৮৮৬
کتاب الصوم
ماہ رمضان کے فضائل و برکات
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جب رمضان کی پہلی رات ہوتی ہے تو شیاطین اور سرکش جنات جکڑ دئیے جاتے ہیں اور دوزخ کے سارے دروازے بند کر دئیے جاتے ہیں اور ان میں سے کوئی دروازہ بھی کھلا نہیں رہتا اور جنت کے تمام دروازے کھول دئیے جاتے ہیں ، ان کا کوئی دروازہ بھی بند نہیں کیا جاتا ، اور اللہ کا منادی پکارتا ہے کہ اے خیر اور نیکی کے طالب قدم بڑھا کے آ ، اور اے بدی اور بدکرداری کے شائق رک ، آگے نہ آ ، اور اللہ کی طرف سے بہت سے (گناہ گار) بندوں کو دوزخ سے رہائی دی جاتی ہے (یعنی ان کی مغفرت کا فیصلہ فرما دیا جاتا ہے) اور یہ سب رمضان کی ہر رات میں ہوتا رہتا ہے ۔ (جامع ترمذی ، سنن ابن ماجہ)

تشریح
اس حدیث کے ابتدائی حصے کا مضمون تو وہی ہے جو اس سے پہلی حدیث کا تھا ، آخر میں عالم غیب کے منادی کی جس کی ندا کا ذکر ہے اگرچہ ہم اس کو اپنے کانوں سے نہیں سنتے اور نہیں سن سکتے ، لیکن اس کا یہ اثر اور یہ ظہور ہم اس دنیا میں بھی اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں کہ رمضان میں عموماً اہل ایمان کا رجحان اور میلان خیر و سعادت والے اعمال کی طرف بڑھ جاتا ہے ، یہاں تک کہ بہت سے غیر محتاط اور آزاد منش عامی مسلمان بھی رمضان میں اپنی روش کو کچھ بدل لیتے ہیں ۔ ہمارے نزدیک ایک یہ ملاء اعلیٰ کی اس ندا اور پکار ہی کا ظہور اور اثر ہے ۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِذَا كَانَتْ أَوَّلُ لَيْلَةٍ مِنْ رَمَضَانَ ، صُفِّدَتِ الشَّيَاطِينُ ، وَمَرَدَةُ الْجِنِّ ، وَغُلِّقَتْ أَبْوَابُ النَّارِ ، فَلَمْ يُفْتَحْ مِنْهَا بَابٌ ، وَفُتِحَتْ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ ، فَلَمْ يُغْلَقْ مِنْهَا بَابٌ ، وَيُنَادِي مُنَادٍ : يَا بَاغِيَ الخَيْرِ أَقْبِلْ ، وَيَا بَاغِيَ الشَّرِّ أَقْصِرْ ، وَلِلَّهِ عُتَقَاءُ مِنَ النَّارِ ، وَذَلكَ كُلُّ لَيْلَةٍ "
(رواه الترمذى وابن ماجه)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৮৮৭
کتاب الصوم
ماہ رمضان کے فضائل و برکات
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خیر کی بخشش اور خلق اللہ کی نفع رسانی میں اللہ تعالیٰ کے سب بندوں سے فائق تھے اور رمضان مبارک میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ کریمانہ صفت اور زیادہ ترقی کر جاتی تھی ۔ رمضان کی ہر رات میں جبرائیل امین آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو قرآن مجید سناتے تھے ۔ تو جب روزانہ جبرئیل آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس کریمانہ نفع رسانی اور خیر کی بخشش میں اللہ تعالیٰ کی بھیجی ہوئی ہواؤں سے بھی زیادہ تیزی آ جاتی اور زور پیدا ہو جاتا ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
گویا رمضان مبارک کا مہینہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طبع مبارک کے لیے بہار و نشاط اور نشر خیر کی صفت میں ترقی کا مہینہ تھا ، اور اس میں اس چیز کو بھی دخل تھا کہ اس مہینے کی ہر رات میں اللہ کے خاص پیغامبر جبرئیل امین آتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو قرآن مجید سناتے تھے ۔
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : « كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَجْوَدَ النَّاسِ بِالخَيْرِ ، وَكَانَ أَجْوَدُ مَا يَكُونُ فِي رَمَضَانَ حِينَ يَلْقَاهُ جِبْرِيلُ ، يَلْقَاهُ كُلَّ لَيْلَةٍ فِي رَمَضَانَ ، يَعْرِضُ عَلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ القُرْآنَ ، فَإِذَا لَقِيَهُ جِبْرِيلُ كَانَ أَجْوَدَ بِالخَيْرِ مِنَ الرِّيحِ المُرْسَلَةِ »
(رواه البخارى ومسلم)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৮৮৮
کتاب الصوم
رمضان کی آمد پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک خطبہ
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ماہ شعبان کی آخری تاریخ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو ایک خطبہ دیا .... اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اے لوگو ! تم پر ایک عظمت اور برکت والا مہینہ سایہ افگن ہو رہا ہے ، اس مبارک مہینہ کی ایک رات (شب قدر) ہزار مہینوں سے بہتر ہے ، اس مہینے کے روزے اللہ تعالیٰ نے فرض کئے ہیں اور اس کی راتوں میں بارگاہ خداوندی میں کھڑا ہونے (یعنی نماز تراویح پڑھنے) کو نفل عبادت مقرر کیا ہے (جس کا بہت بڑا ثواب رکھا ہے) جو شخص اس مہینے میں اللہ کی رضا اور اس کا قرب حاصل کرنے کے لیے کوئی غیر فرض عبادت (یعنی سنت یا نفل) ادا کرے گا تو اس کو دوسرے زمانہ کے فرضوں کے برابر اس کا ثواب ملے گا ۔ اور اس مہینے میں فرض ادا کرنے کا ثواب دوسرے زمانے کے ستر فرضوں کے برابر ہے ۔ یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے ۔ یہ ہمددی اور غمخواری کا مہینہ ہے ، اور یہی وہ مہینہ ہے جس میں مومن بندوں کے رزق میں اضافہ کیا جاتا ہے ۔ جس نے اس مہینے میں کسی روزہ دار کو (اللہ کی رضا اور ثواب حاصل کرنے کے لیے) افطار کرایا تو اس کے لیے گناہوں کی مغفرت اور آتش دوزخ سے آزادی کا ذریعہ ہو گا اور اس کو روزہ دار کے برابر ثواب دیا جائے گا ۔ بغیر اس کے کہ روزہ دار کے ثواب میں کوئی کمی کی جائے .... آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا گیا کہ : یا رسول اللہ ! ہم میں سے ہر ایک کو تو افطار کرانے کا سامان نیسر نہیں ہوتا (تو کیا غرباء اس عظیم ثواب سے محروم رہیں گے ؟) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : اللہ تعالیٰ یہ ثواب اس شخص کو بھی دے گا جو دودھ کی تھوڑی سی لسی پر یا صرف پانی ہی کے ایک گھونٹ پر کسی روزہ دار کا روزہ افطار کرا دے (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے آگے ارشاد فرمایا کہ) اور جو کوئی کسی روزہ دار کو پورا کھانا کھلا دے اس کو اللہ تعالیٰ میرے حوض (یعنی کوثر) سے ایسا سیراب کرے گا جس کے بعد اس کو کبھی پیاس ہی نہیں لگے گی تا آنکہ وہ جنت میں پہنچ جائے گا .... (اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا) اس ماہ مبارک کا ابتدائی حصہ رحمت ہے اور درمیانی حصہ مغفرت ہے اور آخری حصہ آتش دوزخ سے آزادی ہے (اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا) اور اور جو آدمی اس مہینے میں اپنے غلام و خادم کے کام میں تخفیف اور کمی کر دے گا اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت فرما دے گا اور اس کو دوزخ سے رہائی اور آزادی دے دے گا ۔ (شعب الایمان للبیہقی)

تشریح
اس خطبہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا مطلب و مدعا واضح ہے ، تاہم اس کے چند اجزاء کی مزید وضاحت کے لیے کچھ عرض کیا جاتا ہے :
۱۔ اس خطبہ میں ماہ رمضان کی سب سے بڑی اور پہلی عظمت کی فضیلت یہ بیان کی گئی ہے کہ اس میں ایک ایسی رات ہوتی ہے جو ہزار دنوں اور راتوں سے نہیں بلکہ ہزار مہینوں سے بہتر ہے ۔ یہ بات جیسا کہ معلوم ہے قرآن مجید سورۃ القدر میں بھی فرمائی گئی ہے بلکہ اس پوری سورۃ میں اس مبارک رات کی عطمت اور فضیلت ہی کا بیان ہے ، اور اس رات کی عظمت و اہمیت سمجھنے کے لیے بس یہی کافی ہے ۔
ایک ہزار مہینوں میں تقریباً تیس ہزار راتیں ہوتی ہیں ، اس لیلۃ القدر کے ایک ہزار مہینوں سے بہتر ہونے کا مطلب یہ سمجھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ سے تعلق رکھنے والے اور اس کے قرب و رضا کے طالب بندے اس ایک رات میں قرب الہی کی اتنی مسافت طے کر سکتے ہیں جو دوسری ہزاروں راتوں میں طے نہیں ہو سکتی ۔ ہم جس طرح اپنی اس مادی دنیا میں دیکھتے ہیں کہ تیز رفتار ہوئی جہاز یا راکٹ کے ذریعہ اب ایک دن بلکہ ایک گھنٹہ میں اس سے زیادہ مسافت طے کی جا سکتی ہے جتنی پرانے زمانے میں سینکڑوں برس میں طے ہوا کرتی تھی ۔ اسی طرح حصول رضائے خداوندی اور قرب الہی کے سفر کی رفتار لیلۃ القدر میں اتنی تیز کر دی جاتی ہے کہ جو بات صادق طالبوں کو سینکڑوں مہینوں میں حاصل نہیں ہو سکتی ، وہ اس مبارک رات میں حاصل ہو جاتی ہے ۔
اسی طرح اور اسی کی روشنی میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کا مطلب بھی سمجھنا چاہیے کہ اس مبارک مہینہ میں جو شخص کسی قسم کی نفلی نیکی کرے گا اس کا ثواب دوسرے زمانہ کی فرض نیکی کے برابر ملے گا اور فرض نیکی کرنے والے کو دوسرے زمانہ کے ستر فرض ادا کرنے کا ثواب ملے گا .... گویا “ لیلۃ القدر ” کی خصوصیت تو رمضان مبارک کی ایک مخصوص رات کی خصوصیت ہے لیکن نیکی کا ثواب ستر گنا ملنا یہ رمضان مبارک کے ہر دن اور ہر رات کی برکت اور فضیلت ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان حقیقتوں کا یقین نصیب فرمائے ، اور ان سے مستفید اور متمتع ہونے کی توفیق دے ۔
۲۔ اس خطبہ میں رمضان کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ یہ صبر اور غمخواری کا مہینہ ہے ۔ دینی زبان میں صبر کے اصل معنی ہیں اللہ کی رضا کے لیے اپنے نفس کی خواہشوں کو دبانا اور تلخیوں اور ناگواریوں کو جھیلنا ۔ ظاہر ہے کہ روزہ کا اول و آخر بالکل یہی ہے ، اسی طرح روزہ رکھ کر ہر روزہ دار کو تجربہ ہوتا ہے کہ فاقہ کیسی تکلیف کی چیز ہے ، اس سے اس کے اندر ان غرباء اور مساکین کی ہمدردی اور غمخواری کا جذبہ پیدا ہونا چاہئے جو بے چارے ناداری کی وجہ سے فاقوں پہ فاقے کرتے ہیں ۔ اس لیے رمضان کا مہینہ بلاشبہ صبر اور غمخواری کا مہینہ ہے ۔
۳۔ یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ : “ اس بابرکت مہینہ میں اہل ایمان کے رزق میں اضافہ کیا جاتا ہے ۔ ” اس کا تجربہ تو بلا استثناء ہر صاحب ایمان روزہ دار کو ہوتا ہے کہ رمضان مبارک میں جتنا اچھا اور جتنی فراغت سے کھانے پینے کو ملتا ہے باقی گیارہ مہینوں میں اتنا نصیب نہیں ہوتا ۔ خواہ اس عالم اسباب میں وہ کسی بھی راستے سے آئے ، سب اللہ ہی کے حکم سے اور اسی کے فیصلے سے آتا ہے ۔
۴۔ خطبہ کے آخر میں فرمایا گیا ہے کہ : “ رمضان کا ابتدائی حصہ رحمت ہے ، درمیانہ حصہ مغفرت ہے ، اور آخری حصہ جہنم سے آزادی کا وقت ہے ” ۔
اس عاجز کے نزدیک اس کی راجح اور دل کو زیادہ لگنے والی توجیہ اور تشریح یہ ہے کہ رمضان کی برکتوں سے مستفید ہونے والے بندے تین طرح کے ہو سکتے ہیں ، ایک وہ اصحاب صلاح و تقویٰ جو ہمیشہ گناہوں سے بچنے کا اہتمام رکھتے ہیں اور جب کبھی ان سے کوئی خطا اور لغزش ہو جاتی ہے تو اسی وقت توبہ و استغفار سے اس کی صفائی تلافی کر لیتے ہیں ، تو ان بندوں پر تو شروع مہینہ ہی سے بلکہ اس کی پہلی ہی رات سے اللہ کی رحمتوں کی بارش ہونے لگتی ہے ۔ دوسرا طبقہ ان لوگوں کا ہے جو ایسے متقی اور پرہیز گار تو نہیں ہیں لیکن اس لحاظ سے بالکل گئے گزرے بھی نہیں ہیں ، تو ایسے لوگ جب رمضان کے ابتدائی حصے میں روزوں اور دوسرے اعمال خیر اور توبہ و استغفار کے ذریعے اپنے حال کو بہتر اور اپنے کو رحمت و مغفرت کے لائق بنا لیتے ہیں ، تو درمیانی حصے میں ان کی بھی مغفرت اور معافی کا فیصلہ فرما دیا جاتا ہے .... اور تیسرا طبقہ ان لوگوں کا ہے جو اپنے نفسوں پر بہت ظلم کر چکے ہیں اور ان کا حال بڑا ابتر رہا ہے اور اپنی بداعمالیوں سے وہ گویا دوزخ کے پورے پورے مستحق ہو چکے ہیں ، وہ بھی جب رمضان کے پہلے اور درمیانی حصے میں عام مسلمانوں کے ساتھ روزے رکھ کے اور توبہ و استغفار کر کے اپنی سیاہ کاریوں کی کچھ صفائی اور تلافی کر لیتے ہیں تو اخیر عشرہ میں (جو دریائے رحمت کے جوش کا عشرہ ہے) اللہ تعالیٰ دوزخ سے ان کی بھی نجات اور رہائی کا فیصلہ فرما دیتا ہے .... اس کی تشریح کی بناء پر رمضان مبارک کے ابتدائی حصے کی رحمت ، درمیانی حصے کی مغفرت اور آخری حصے میں جہنم سے آزادی کا تعلق بالترتیب امت مسلمہ کے ان مذکورہ بالا تین طبقوں سے ہو گا ۔ واللہ اعلم ۔
عَنْ سَلْمَانَ الْفَارِسِيَّ ، قَالَ : خَطَبَنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي آخِرِ يَوْمٍ مِنْ شَعْبَانَ فَقَالَ : " يا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ أَظَلَّكُمْ شَهْرٌ عَظِيمٌ ، شَهْرٌ مُبَارَكٌ ، شَهْرٌ فِيهِ لَيْلَةٌ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ ، جَعَلَ اللهُ صِيَامَهُ فَرِيضَةً ، وَقِيَامَ لَيْلِهِ تَطَوُّعًا ، مَنْ تَقَرَّبَ فِيهِ بِخَصْلَةٍ مِنَ الْخَيْرِ كَانَ كَمَنْ أَدَّى فَرِيضَةً فِيمَا سِوَاهُ ، وَمَنْ أَدَّى فَرِيضَةً فِيهِ كَانَ كَمَنْ أَدَّى سَبْعِينَ فَرِيضَةً فِيمَا سِوَاهُ ، وَهُوَ شَهْرُ الصَّبْرِ ، وَالصَّبْرُ ثَوَابُهُ الْجَنَّةُ ، وَشَهْرُ الْمُوَاسَاةِ ، وَشَهْرٌ يُزَادُ فِي رِزْقِ الْمُؤْمِنِ ، مَنْ فَطَّرَ فِيهِ صَائِمًا كَانَ لَهُ مَغْفِرَةً لِذُنُوبِهِ ، وَعِتْقَ رَقَبَتِهِ مِنَ النَّارِ ، وَكَانَ لَهُ مِثْلُ أَجْرِهِ مِنْ غَيْرِ أَنْ يُنْقَصَ مِنْ أَجْرِهِ شَيْءٌ " قُلْنَا : يَا رَسُولَ اللهِ ، لَيْسَ كُلُّنَا يَجِدُ مَا يُفْطِرُ الصَّائِمَ ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " يُعْطِي اللهُ هَذَا الثَّوَابَ مَنْ فَطَّرَ صَائِمًا عَلَى مَذْقَةِ لَبَنٍ أَوْ تَمْرَةٍ أَوْ شَرْبَةٍ مِنْ مَاءٍ ، وَمَنْ أَشْبَعَ صَائِمًا سَقَاهُ اللهُ مِنْ حَوْضِي شَرْبَةً لَا يَظْمَأُ حَتَّى يَدْخُلَ الْجَنَّةَ ، وَهُوَ شَهْرٌ أَوَّلُهُ رَحْمَةٌ ، وَأَوْسَطُهُ مَغْفِرَةٌ ، وَآخِرُهُ عِتْقٌ مِنَ النَّارِ مَنْ خَفَّفَ عَنْ مَمْلُوكِهِ فِيهِ غَفَرَ اللهُ لَهُ وَأَعْتَقَهُ مِنَ النَّارِ "
(رواه البيهقى فى شعب الايمان)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৮৮৯
کتاب الصوم
روزہ کی قدر و قیمت اور اس کا صلہ
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (روزہ کی فضیلت اور قدر و قیمت بیان کرتے ہوئے) ارشاد فرمایا کہ آدمی کے ہر اچھے عمل کا ثواب دن گنا سے سات سو گنا تک بڑھایا جاتا ہے ۔ (یعنی اس امت مرحومہ کے اعمال خیر کے متعلق عام قانون الہی یہی ہے ک ایک نیکی کا اجر اگلی امتوں کے لحاظ سے کم از کم دس گنا ضرور عطا ہو گا اور بعض اوقات عمل کرنے کے خاص حالات اور اخلاص و خشیت وغیرہ کیفیات کی وجہ سے اس سے بھی بہت زیادہ عطا ہو گا ، یہاں تک کہ بعض مقبول بندوں کو ان کے اعمالِ حسنہ کا اجر سات سو گنا عطا فرمایا جائے گا ۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے اس عام قانون رحمت کا ذکر فرمایا) مگر اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ : روزہ اس عام قانون سے مستثنیٰ اور بالا تر ہے وہ بندہ کی طرف سے خاص میرے لیے ایک تحفہ ہے ، اور میں ہی (جس طرح چاہوں گا) اس کا اجر و ثواب دوں گا ۔ میرا بندہ میری رضا کے واسطے اپنی خواہش نفس اور اپنا کھانا پینا چھوڑ دیتا ہے (پس میں خود ہی اپنی مرضی کے مطابق اس کی اس قربانی اور نفس کشی کا صلہ دوں گا) روزہ دار کے لیے دو مسرتیں ہیں : ایک افطار کے وقت اور دوسری اپنے مالک و مولیٰ کی بارگاہ میں حضور ی اور شرف باریابی کے وقت اور قسم ہے کہ روزہ دار کے منہ کی بو اللہ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے بھی بہتر ہے (یعنی انسانوں کے لیے مشک کی خوشبو جتنی اچھی اور جتنیپیاری ہے اللہ کے ہاں روزہ دار کے منہ کی بو اس سے بھی اچھی ہے) اور روزہ (دنیا میں شیطان و نفس کے حملوں سے بچاؤ کے لیے اور آخرت میں آتش دوزخ سے حفاظت کے لیے ڈھال ہے ۔ اور جب تم میں سے کسی کا روزہ ہو تو چاہئے کہ وہ بے ہودہ اور فحش باتیں بکے اور شور و شغب نہ کرے ، اور اگر کوئی دوسرا اس سے گالی گلوچ یا جھگڑا کرے تو کہہ دے کہ میں روزہ دار ہوں ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
حدیث کے اکثر وضاحت طلب اجزاء کی تشریح ترجمہ کے ضمن میں کر دی گئی ہے ۔ آخر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو یہ ہدایت فرمائی ہے کہ : “ جب کسی کا روزہ ہو تو وہ فحش اور گندی باتیں اور شور و شغب بالکل نہ کرے ، اور اگر بالفرض کوئی دوسرا اس سے الجھے اور گالیاں بکے جب بھی یہ کوئی سخت بات نہ کہے ، بلکہ صرف اتنا کہہ دے کہ : بھائی میرا روزہ ہے ۔ اس آخری ہدایت میں اشارہ ہے کہ اس حدیث میں روزہ کی جو خاص فضیلتیں اور برکتیں بیان کی گئی ہیں یہ انہی روزوں کی فضیلتیں اور برکتیں بیان کی گئی ہیں یہ انہی روزوں کی ہیں جن میں شہوت نفس اور کھانے پینے کے علاوہ گناہوں سے حتیٰ کہ بری اور نا پسند باتوں سے بھی پرہیز کیا گیا ہے ۔ ایک دوسری حدیث میں (جو عنقریب درج ہو گی) فرمایا گیا ہے ک جو شخص روزہ رکھے لیکن برے کاموں اور غلط باتوں سے پرہیز نہ کرے تو اس کے بھوکے پیاسے رہنے کی اللہ کو کوئی احتیاج نہیں ہے ۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " كُلُّ عَمَلِ ابْنِ آدَمَ يُضَاعَفُ الْحَسَنَةُ ، بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا إِلَى سَبْعِ مِائَةِ ضِعْفٍ ، قَالَ اللهُ تَعَالَى فَإِنَّهُ لِي وَأَنَا أَجْزِي بِهِ ، يَدَعُ شَهْوَتَهُ وَطَعَامَهُ مِنْ أَجْلِي لِلصَّائِمِ فَرْحَتَانِ : فَرْحَةٌ عِنْدَ فِطْرِهِ ، وَفَرْحَةٌ عِنْدَ لِقَاءِ رَبِّهِ وَلَخُلُوفُ فَمِ الصَّائِمِ أَطْيَبُ عِنْدَ اللهِ مِنْ رِيحِ الْمِسْكِ ، وَالصِّيَامُ جُنَّةٌ ، وَإِذَا كَانَ يَوْمُ صَوْمِ أَحَدِكُمْ ، فَلَا يَرْفُثْ يَوْمَئِذٍ ، وَلَا يَصْخَبْ ، فَإِنْ سَابَّهُ أَحَدٌ أَوْ قَاتَلَهُ ، فَلْيَقُلْ : إِنِّي امْرُؤٌ صَائِمٌ"
(رواه البخارى ومسلم)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৮৯০
کتاب الصوم
روزہ کی قدر و قیمت اور اس کا صلہ
حضرت سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : جنت کے دروازوں میں ایک خاص دروازہ ہے جس کو “ باب الریان ” کہا جاتا ہے ۔ اس دروازے سے قیامت کے دن صرف روزہ داروں کا داخلہ ہو گا ، ان کے سوا کوئی اس دروازے سے داخل نہیں ہو سکے گا ۔ اس دن پکارا جائے گا کہ کدھر ہیں وہ بندے جو اللہ کے لیے روزے رکھا کرتے گھے اور بھوک پیاس کی تکلیف اٹھایا کرتے تھے ؟ وہ اس پکار پر چل پڑیں گے ۔ اس کے سوا کسی اور کا اس دروازے سے داخلہ نہیں ہو سکے گا ۔ جب وہ روزہ دار اس دروازے سے جنت میں پہنچ جائیں گے تو یہ دروازہ بند کر دیا جائے گا ، پھر کسی کا اس سے دخلہ نہیں ہو سکے گا ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
روزہ میں جس تکلیف کا احساس سب سے زیادہ ہوتا ہے اور جو روزہ دار کی سب سے بڑی قربانی ہے وہ اس کا پیاسا رہنا ہے ، اس لیے اس کو جو صلہ اور انعام دیا جاے گا اس میں سب سے زیادہ نمایاں اور غالب پہلو سیرابی کا ہونا چاہئے ۔ اسی مناسبت سے جنت میں روزہ داروں کے داخلہ کے لیے جو مخصوص دروازہ مقرر کیا گیا ہے اس کی خاطر صفت سیرابی و شادابی ہے ۔ ریان کے لغوی معنی ہیں “ پورا پورا سیراب ” یہ بھرپور سیرابی تو اس دروازہ کی صفت ہے جس سے روزہ داروں کا داخلہ ہو گا ، آگے جنت میں پہنچ کر جو کچھ اللہ تعالیٰ کے انعامات ان پر ہوں گے ان کا علم تو بس اس اللہ تعالیٰ کو ہی ہے جس کا ارشاد ہے کہ : الصَّوْمُ لِي وَأَنَا أَجْزِي بِهِ .... “ بندہ کا روزہ بس میرے لیے ہے اور میں خود ہی اس کا صلہ دوں گا ” ۔
عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ : " إِنَّ فِي الجَنَّةِ بَابًا يُقَالُ لَهُ الرَّيَّانُ ، يَدْخُلُ مِنْهُ الصَّائِمُونَ يَوْمَ القِيَامَةِ ، لاَ يَدْخُلُ مِنْهُ أَحَدٌ غَيْرُهُمْ ، يُقَالُ : أَيْنَ الصَّائِمُونَ؟ فَيَقُومُونَ لاَ يَدْخُلُ مِنْهُ أَحَدٌ غَيْرُهُمْ ، فَإِذَا دَخَلُوا أُغْلِقَ فَلَمْ يَدْخُلْ مِنْهُ أَحَدٌ "
(رواه البخارى ومسلم)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৮৯১
کتاب الصوم
روزہ کی قدر و قیمت اور اس کا صلہ
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ : مجھے کسی عمل کا حکم فرمائیے ، جس سے اللہ تعالیٰ مجھے نفع دے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ روزہ رکھا کرو ، اس کی مثل کوئی بھی عمل نہیں ہے ۔ (سنن نسائی)

تشریح
نماز ، روزہ ، صدقہ ، حج اور خلق اللہ کی خدمت وغیرہ اعمال صالحہ میں یہ بات مشترک ہونے کے باوجود کہ یہ سب تقرب الی اللہ کا ذریعہ اور وسیلہ ہیں ان کی الگ الگ کچھ خاص تاثیرات اور خصوصیات بھی ہیں جن میں یہ ایک دوسرے سے ممتاز اور منفرد ہیں ۔ گویا ؎
“ ہر گلے را رنگ و بوئے دیگر است ”
ان انفرادی اور امتیازی خصوصیات کے لحاظ سے ان میں سے ہر ایک کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ : “ اس جکے مثل کوئی عمل نہیں ہے ” مثلاً نفس کو مغلوب اور مقہور کرنے اور اس کی خواہشوں کو دبانے کے لحاظ سے کہا جا سکتا ہے کہ اس صفت میں کوئی دوسرا عمل روزہ کے مثل نہیں ہے ۔ پس حضرت ابو امامہؓ کی اس حدیث میں روزہ کے بارے میں جو فرمایا گیا ہے کہ : “ اس کے مثل کوئی عمل نہیں ہے ” اس کی حقیقت یہی سمجھنی چاہئے ۔ نیز ملحوظ رہنا چاہئے کہ ابو امامہؓ کے خاص حالات میں ان کے لیے زیادہ نفع مند روزہ ہی تھا ، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اسی کی ہدایت فرمائی .... اور اسی حدیث کی بعض روایات میں ہے کہ ابو امامہ نے یہ جواب پانے کے بع دوبارہ اور سہ بارہ بھی عرض کیا کہ : “ مجھے کسی عمل کا حکم فرمائیے جس کو میں کیا کروں ” تو دونوں دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ ہی کی ہدایت فرمائی اور ارشاد فرمایا کہ : بس روزہ رکھا کرو ، اس کے مثل کوئی دوسرا عمل نہیں ہے ۔ یعنی تمہارے خاص حالات میں تم کو اسی سے زیادہ نفع ہو گا ۔ واللہ اعلم ۔
عَنْ أَبِىْ أُمَامَةَ قَالَ : قُلْتُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ مُرْنِي بِأَمْرٍ يَنْفَعُنِي اللَّهُ بِهِ ، قَالَ : « عَلَيْكَ بِالصِّيَامِ فَإِنَّهُ لَا مِثْلَ لَهُ »
(رواه النسائى)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৮৯২
کتاب الصوم
روزے اور تراویح باعث مغفرت
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : جو لوگ رمضان کے روزے ایمان و احتساب کے ساتھ رکھیں گے ان کے سب گزشتہ گناہ معاف کر دئیے جائیں گے اور ایسے ہی جو لوگ ایمان و احتساب کے ساتھ رمضان کی راتوں میں نوافل (تراویح و تہجد) پڑھیں گے ان کے بھی سب پچھلے گناہ معاف کر دئیے جائیں گے ، اور اسی طرح جو لوگ شب قدر میں ایمان و احتساب کے ساتھ نوافل پڑھیں گے ان کے بھی سارے پہلے گناہ معاف کر دئیے جائیں گے ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
اس حدیث میں رمضان کے روزوں ، اس کی راتوں کے نوافل اور خصوصیت سے شب قدر کے نوافل کو پچھلے گناہوں کی مغفرت اور معافی کا یقینی وسیلہ بتایا گیا ہے بشرطیکہ یہ روزے اور نوافل ایمان و احتساب کے ساتھ ہوں .... یہ ایمان و احتساب خاص دینی اصطلاحیں ہیں ، اور ان کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ جو نیک عمل کیا جائے اس کی بنیاد اور اس کا محرک بس اللہ و رسول کو ماننا اور اس کے وعدہ وعید پر یقین لانا اور ان کو بتائے ہوئے اجر و ثواب کی طمع اور امید ہی ہو ، کوئی دوسرا جذبہ اور مقصد اس کا محرک نہ ہو ۔ اسی ایمان و احتساب سے ہمارے اعمال کا تعلق اللہ تعالیٰ سے جڑتا ہے ، بلکہ یہی ایمان و احتساب ہمارے اعمال کے قلب و روح ہیں ، اگر یہ نہ ہوں تو پھر ظاہر کے لحاظ سے بڑے سے بڑے اعمال بھی بے جان اور کھوکھلے ہیں جو خدانخواستہ قیامت کے دن کھوٹے سکے ثابت ہوں گے اور ایمان و احتساب کے ساتھ بندوں کا ایک عمل بھی اللہ کے ہاں اتنا عزیز اور قیمتی ہے کہ اس کے صدقہ اور طفیل میں اس کے برسہا برس کے گناہ معاف ہو سکتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ایمان و احتساب کی یہ صفت اپنےفضل سے نصیب فرمائے ۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : « مَنْ صَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ ، وَمَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ وَمَنْ قَامَ لَيْلَةَ القَدْرِ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ »
(رواه البخارى ومسلم)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৮৯৩
کتاب الصوم
روزہ اور قرآن کی شفاعت
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : روزہ اور قرآن دونوں بندے کی سفارش کریں گے (یعنی اس بندے کی جو دن میں روزے رکھے گا اور رات میں اللہ کے حضور میں کھڑے ہوکر اس کا پاک کلام قران مجید پڑھے گا یا سنے گا) روزہ عرض کرے گا : اے میرے پروردگار ! میں نے اس بندے کو کھانے پینے اور نفس کی خواہش پورا کرنے سے روکے رکھا تھا ، آج میری سفارش اس کے حق میں قبول فرما (اور اس کے ساتھ مغفرت و رحمت کا معاملہ فرما) اور قرآن کہے گا کہ میں نے اس کو رات کو سونے اور آرام کرنے سے روکے رکھا تھا ، خداوندا ! آج اس کی حق میں میری سفارش قبول فرما (اور اس کے ساتھ بخشش اور عنایت کا معاملہ فرما) چنانچہ روزہ اور قرآن دونوں کی سفارش اس بندہ کے حق میں قبول فرمائی جائے گی (اور اس کے لیے جنت اور مغفرت کا فیصلہ فرما دیا جائے گا) اور خاص مراحم خسروانہ سے اس کو نوازا جائے گا ۔ (شعب الایمان للبیہقی)

تشریح
کیسے خوش نصیب ہیں وہ بندے جن کے حق میں ان کے روزوں کی اور نوافل میں ان کے پڑھے ہوئے یا سنے ہوئے قرآن پاک کی سفارش قبول ہو گی ، یہ ان کے لیے کیسی مسرت اور فرحت کا وقت ہو گا .... اللہ تعالیٰ اپنے اس سیاہ کار بندے کو بھی محض اپنے کرم سے ان خوش بختوں کے ساتھ کر دے ۔
عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " الصِّيَامُ وَالْقُرْآنُ يَشْفَعَانِ لِلْعَبْدِ يَقُولُ الصِّيَامُ : أَيْ رَبِّ ، إِنِّي مَنَعْتُهُ الطَّعَامَ وَالشَّهَوَاتِ بِالنَّهَارِ فَشَفِّعْنِي فِيهِ ، وَيَقُولُ الْقُرْآنُ : مَنَعْتُهُ النَّوْمَ بِاللَّيْلِ فَشَفِّعْنِي فِيهِ فَيُشَفَّعَانِ "
(رواه البيهقى فى شعب الايمان)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৮৯৪
کتاب الصوم
رمضان کا ایک روزہ چھوڑنے کا نقصان باقابل تلافی
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو آدمی سفر وغیرہ کی شرعی رخصت کے بغیر اور بیماری (جیسے کسی عذر کے بغیر رمضان کا ایک روزہ بھی چھوڑے گا) وہ اگر اس کے بجائے عمر بھر بھی روزے رکھے تو جو چیز فوت ہو گئی وہ پوری ادا نہیں ہو سکتی .... (مسند احمد ، جامع ترمذی ، سنن ابی داؤد ، سنن ابن ماجہ ، سنن دارمی) (اور صحیح بخاری میں بھی بغیر سند کے ایک ترجمہ باب میں اس حدیث کا ذکر کیا گیا ہے) ۔

تشریح
حدیث کا مدعا اور مطلب یہ ہے کہ شرعی عذر اور رخصت کے بغیر رمضان کا ایک روزہ دانستہ چھوڑنے سے رمضان مبارک کی خاص برکتوں اور اللہ تعالیٰ کی خاص الخاص رحمتوں سے جو محرومی ہوتی ہے ، عمر بھر نفل روزے رکھنے سے بھی اس محرومی اور خسران کی تلافی نہیں ہو سکتی ، اگرچہ ایک روزے کی قانونی قضا ایک ہی دن کا روزہ ہے ، لیکن اس سے وہ ہرگز حاصل نہیں ہو سکتا جو روزہ چھوڑنے سے کھو گیا .... پس جو لوگ بے پروائی کے ساتھ رمضان کے روزے چھوڑتے ہیں وہ سوچیں کہ اپنے کو وہ کتنا نقصان پہنچاتے ہیں ۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : مَنْ أَفْطَرَ يَوْمًا مِنْ رَمَضَانَ مِنْ غَيْرِ رُخْصَةٍ وَلاَ مَرَضٍ ، لَمْ يَقْضِ عَنْهُ صَوْمُ الدَّهْرِ كُلِّهِ وَإِنْ صَامَهُ.
(رواه احمد والترمذى وابوداؤد وابن ماجه والدارمى والبخارى فى ترجمة باب)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৮৯৫
کتاب الصوم
روزے میں معصیتوں سے پرہیز
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : جو آدمی روزہ رکھتے ہوئے باطل کلام اور باطل کام نہ چھوڑے ، تو اللہ کو اس کے بھوکے پیاسے رہنے کی کوئی ضرورت نہیں ۔ (صحیح بخاری)

تشریح
معلوم ہوا کہ اللہ کے ہاں روزے کے مقبول ہونے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی کھانا پینا چھوڑنے کے علاوہ معصیات و منکرات سے بھی زبان و دہن اور دوسرے اعضاء کی حفاظت کرے ۔ اگر کوئی شخص روزہ رکھے اور گناہ والے اعمال کرتا رہے تو اللہ تعالیٰ کو اس کے کو اس کے روزے کی کوئی پرواہ نہیں ۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : « مَنْ لَمْ يَدَعْ قَوْلَ الزُّورِ وَالعَمَلَ بِهِ ، فَلَيْسَ لِلَّهِ حَاجَةٌ فِي أَنْ يَدَعَ طَعَامَهُ وَشَرَابَهُ »
(رواه البخارى)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৮৯৬
کتاب الصوم
عشرہ اخیر اور لیلۃ القدر
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرہ میں عبادت وغیرہ میں مجاہدہ کرتے اور وہ مشقت اٹھاتے جو دوسرے دنوں میں نہیں کرتے تھے ۔ (صحیح مسلم)

تشریح
جس طرح رمضان المبارک کو دوسرے مہینوں کے مقابلے میں فضیلت حاصل ہے اسی طرح اس کا آخری عشرہ پہلے دونوں عشروں سے بہتر ہے اور لیلۃ القدر اکثر و بیشتر اسی عشرہ میں ہوتی ہے ۔ اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عبادت وغیرہ کا اہتمام اس میں اور زیادہ کرتے تھے اور دوسروں کو بھی اس کی ترغیب دیتے تھے ۔
عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ : " كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَجْتَهِدُ فِي الْعَشْرِ ، مَا لَا يَجْتَهِدُ فِي غَيْرِهِ "
(رواه مسلم)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৮৯৭
کتاب الصوم
عشرہ اخیر اور لیلۃ القدر
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ جب رمضان کا عشرہ اخیر شروع ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کمر کس لیتے اور شب بیداری کرتے (یعنی پوری رات عبادت اور ذکر و دعا میں مشغول رہتے) اور اپنے گھر کے لوگوں (یعنی ازواج مطہرات اور دوسرے متعلقین) کو بھی جگا دیتے (تا کہ وہ بھی ان راتوں کی برکتوں اور سعادتوں میں حصہ لیں) ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا ، قَالَتْ : « كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا دَخَلَ العَشْرُ شَدَّ مِئْزَرَهُ ، وَأَحْيَا لَيْلَهُ ، وَأَيْقَظَ أَهْلَهُ »
(رواه البخارى ومسلم)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৮৯৮
کتاب الصوم
عشرہ اخیر اور لیلۃ القدر
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : شب قدر کو تلاش کرو رمضان کی آخری دس راتوں میں سے طاق راتوں میں ۔ (صحیح بخاری)

تشریح
مطلب یہ ہے کہ شب قدر زیادہ تر عشرہ اخیر کی طاق راتوں میں سے کوئی ایک رات ہوتی ہے ، یعنی اکیسویں یا تئیسویں یا پچیسویں یا ستائیسویں یا انتیسویں .... شب قدر کی اگر اس طرح تعین کر دی جاتی کہ وہ خاص فلاں رات ہے تو بہت سے لوگ بس اسی رات میں عبادت وغیرہ کا خاص اہتمام کیا کرتے ۔ اللہ تعالیٰ نے اس کو اس طرح مبہم رکھا کہ قرآن مجید میں ایک جگہ فرمایا گیا کہ قرآ ن شب قدر میں نازل ہوا ۔ اور دوسری جگہ فرمایا گیا کہ قرآن کا نزول ماہ رمضان میں ہوا ۔ س سے اشارہ ملا کہ وہ شب قدر رمضان کی راتوں میں سے کوئی رات تھی .... پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزید نشاندہی کی طور پر فرمایا کہ : رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں سے اس کا زیادہ امکان ہے ، لہذا ان راتوں کا خاص اہتمام کیا جائے ۔ اس مضمون کی حدیثیں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے علاوہ دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی مروی ہیں .... اور بعض صحابہ رضی اللہ عنہم کا خیال تھا کہ شب قدر عموماً رمضان کی ستائیسویں ہی ہوتی ہے ۔
عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : « تَحَرَّوْا لَيْلَةَ القَدْرِ فِي الوِتْرِ ، مِنَ العَشْرِ الأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ »
(رواه البخارى)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৮৯৯
کتاب الصوم
عشرہ اخیر اور لیلۃ القدر
زرابن حبیش جو اکابر تابعین میں سے ہیں بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا کہ آپ کے دینی بھائی عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جو کوئی پورے سال کی راتوں میں کھڑا ہو گا (یعنی ہر رات عبادت کیا کرے گا) اس کو شب قدر نصیب ہو ہی جائے گی (یعنی لیلۃ القدر سال کی کوئی نہ کوئی رات ہے ، پس جو اس کی برکات کا طالب ہو اسے چاہئے کہ سال کی ہر رات کو عبادت سے معمور کرے اس طرح وہ یقینی طور پر شب قدر کی برکات پا سکے گا .... زر ابن حبیش نے حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی یہ بات نقل کر کے حضرت ابی بن کعب سے دریافت کیا کہ آپ کا اس بارے میں کیا ارشاد ہے ؟ انہوں نے فرمایا کہ بھائی ابن مسعود پر خدا کی رحمت ہو ، ان کا مقصد اس بات سے یہ تھا کہ لوگ (کسی ایک ہی رات کی عبادت پر) قناعت نہ کر لیں ورنہ ان کو یہ بات یقیناً معلوم تھی کہ شب قدر رمضان ہی کے مہینہ میں ہوتی ہے اور اس کے بھی خاص آخری عشرہ ہی میں ہوتی ہے (یعنی اکیسویں سے انتیسویں یا تیسویں تک) اور وہ معین ستائیسویں شب ہے ۔ پھر انہوں نے پوری قطعیت کے ساتھ قسم کھا کر کہا کہ : وہ بلا شبہ ستائیسویں شب ہی ہوتی ہے (اور اپنے یقین و اطمینان کے اظہار کے لیے قسم کے ساتھ) انہوں نے ان شاء اللہ بھی نہیں کہا (زر ابن حبیش کہتے ہیں کہ) میں نے عرض کیا کہ اے ابو المنذر ! (یہ حضرت ابی کی کنیت ہے) یہ آپ کس بناء پر فرماتے ہیں ؟ انہوں نے فرمایا کہ : میں یہ بات اس نشانی کی بناء پر کہتا ہوں جس کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو خبر دی تھی ، اور وہ یہ کہ شب قدر کی صبح کو جب سورج نکلتا ہے تو اس کی شعاع نہیں ہوتی ۔ (صحیح مسلم)

تشریح
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے جواب سے معلوم ہوا کہ انہوں نے جو قطعیت کے ساتھ یہ بات کہی کہ شب قدر معین طور پر ستائیسویں شب ہی ہوتی ہے ۔ یہ بات نہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں سنی تھی ، بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی جو ایک خاص نشانی بتائی تھی انہوں نے چونکہ وہ نشانی عموماً سائیسویں شب کی صبح ہی کو دیکھی تھی ، اس لیے یقین کے ساتھ انہوں نے رائے قائم کر لی تھی ..... رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی تو یہ فرمایا کہ اس کو آخری عشرہ میں تلاش کرو ، اور کبھی فرمایا کہ آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو ، کبھی عشرہ اخیرہ کی پانچ طاق راتوں میں سے چار یا تین راتوں کے لیے فرمایا ، کسی خاص رات کی تعیین آپ نے نہیں فرمائی ۔ ہاں بہت سے اصحاب ادراک کا تجربہ یہی ہے کہ وہ زیادہ تر ستائیسویں شب ہی ہوتی ہے .... اس عدم تعیین کی بڑی حکمت یہی ہے کہ طالب بندے مختلف راتوں میں عبادت و ذکر و دعا کا اہتمام کریں ، ایسا کرنے والوں کی کامیابی یقینی ہے ۔
عَنْ زِرَّ بْنَ حُبَيْشٍ ، يَقُولُ : سَأَلْتُ أُبَيَّ بْنَ كَعْبٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ ، فَقُلْتُ : إِنَّ أَخَاكَ ابْنَ مَسْعُودٍ يَقُولُ : مَنْ يَقُمِ الْحَوْلَ يُصِبْ لَيْلَةَ الْقَدْرِ؟ فَقَالَ رَحِمَهُ اللهُ : أَرَادَ أَنْ لَا يَتَّكِلَ النَّاسُ ، أَمَا إِنَّهُ قَدْ عَلِمَ أَنَّهَا فِي رَمَضَانَ ، وَأَنَّهَا فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ ، وَأَنَّهَا لَيْلَةُ سَبْعٍ وَعِشْرِينَ ، ثُمَّ حَلَفَ لَا يَسْتَثْنِي ، أَنَّهَا لَيْلَةُ سَبْعٍ وَعِشْرِينَ ، فَقُلْتُ : بِأَيِّ شَيْءٍ تَقُولُ ذَلِكَ؟ يَا أَبَا الْمُنْذِرِ ، قَالَ : بِالْعَلَامَةِ ، أَوْ بِالْآيَةِ الَّتِي « أَخْبَرَنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهَا تَطْلُعُ يَوْمَئِذٍ ، لَا شُعَاعَ لَهَا »
(رواه مسلم)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৯০০
کتاب الصوم
عشرہ اخیر اور لیلۃ القدر
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جب شب قدر ہوتی ہے تو جبرئیل علیہ السلام فرشتوں کے جھرمٹ میں نازل ہوتے ہیں اور ہر اس بندے کے لیے دعائے رحمت کرتے ہیں جو کھڑا یا بیٹھا اللہ کے ذکر و عبادت میں مشغول ہوتا ہے ۔ (شعب الایمان للبیہقی)
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِذَا كَانَ لَيْلَةُ الْقَدْرِ نَزَلَ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَامُ فِي كَبْكَبَةٍ مِنَ الْمَلَائِكَةِ يُصَلُّونَ عَلَى كُلِّ عَبْدٍ قَائِمٍ أَوْ قَاعِدٍ يَذْكُرُ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ.
(رواه البيهقى فى شعب الايمان)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৯০১
کتاب الصوم
شب قدر کی خاص دعا
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ مجھے بتائیے کہ اگر مجھے معلوم ہو جائے کہ کون رات شب قدر ہے تو میں اس رات اللہ سے کیا عرض کروں اور کیا دعا مانگوں ؟ آپ نے فرمایا یہ عرض کرو :
إِنَّكَ عُفُوٌّ كَرِيْمٌ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّي
اے میرے اللہ ! تو بہت معاف فرمانے والا اور بڑا کرم فرما ہے ، اور معاف کر دینا تجھے پسند ہے ۔ پس تو میری خطائیں معاف فرما دے ۔ (مسند احمد ، جامع ترمذی ، سنن ابن ماجہ)

تشریح
اس حدیث کی بناء پر اللہ کے بہت سے بندوں کا یہ معمول ہے کہ وہ ہر رات میں یہ دعا خصوصیت سے کرتے ہیں ، اور رمضان مبارک کی راتوں میں اور ان میں سے بھی خاص کر آخری عشرہ کی طاق راتوں میں اس دعا کا اور بھی زیادہ اہتمام کرتے ہیں ۔
عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ : قُلْتُ : يَا رَسُولَ اللهِ أَرَأَيْتَ إِنْ عَلِمْتُ أَيُّ لَيْلَةٍ لَيْلَةُ القَدْرِ مَا أَقُولُ فِيهَا؟ قَالَ : قُولِي : اللَّهُمَّ إِنَّكَ عُفُوٌّ كَرِيْمٌ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّي.
(رواه احمد والترمذى وابن ماجة)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৯০২
کتاب الصوم
رمضان کی آخری رات
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : رمضان کی آخری رات میں آپ کی امت کے لیے مغفرت اور بخشش کا فیصلہ کیا جاتا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا : یا رسول اللہ ! کیا وہ شب قدر ہوتی ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : شب قدر تو نہیں ہوتی ، لیکن بات یہ ہے کہ عمل کرنے والا جب اپنا عمل پورا کر دے تو اس کو پوری اجرت مل جاتی ہے ۔ (مسند احمد)

تشریح
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رمضان المبارک کی آخری رات بھی خاص مغفرت کے فیصلہ کی رات ہے لیکن اس رات میں مغفرت اور بخشش کا فیصلہ انہی بندوں کے لیے ہو گا جو رمضان مبارک کے عملی مطالبات کسی دررجہ میں پورے کر کے اس کا استحقات پیدا کر لیں ، اللہ تعالی ہم سب کو اس کی توفیق دے ۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَن النَّبِىِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ : يُغْفَرُ لِأُمَّتِهِ فِي آخِرِ لَيْلَةٍ مِنْ رَمَضَانَ" قِيلَ : يَا رَسُولَ اللهِ ، أَهِيَ لَيْلَةُ الْقَدْرِ؟ قَالَ : " لَا ، وَلَكِنَّ الْعَامِلَ إِنَّمَا يُوَفَّى أَجْرَهُ إِذَا قَضَى عَمَلَهُ "
(رواه احمد)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৯০৩
کتاب الصوم
اعتکاف
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف فرماتے تھے ، وفات تک آپ کا یہ معمول رہا ، آپ کے بعد آپ کی ازواج مطہرات اہتمام سے اعتکاف کرتی رہیں ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
رمضان مبارک اور بالخصوص اس کے آخری عشرہ کے اعمال میں سے ایک اعتکاف بھی ہے .... اعتکاف کی حقیقت یہ ہے کہ ہر طرف سے یکسو اور سب سے منقطع ہو کر بس اللہ سے لو لگا کے اس کے در پہ (یعنی کسی مسجد کے کونہ میں) پڑ جانے ، اور سب سے الگ تنہائی میں اس کی عبادت اور اسی کے ذکر و فکر میں مشغول رہے ، یہ خواص بلکہ اخص الخواص کی عبادت ہے ۔ اس عبادت کے لیے بہترین وقت رمضان مبارک اور خاص کر اس کا آخری عشرہ ہی ہو سکتا ہے ۔ اس لیے اس کو اس کے لیے انتخاب کیا گیا ۔
نزول قرآن سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طبیعت مبارک میں سب سے یکسو اور الگ ہو کر تنہائی میں اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس کے ذکر و فکر کا جو بیتابانہ جذبہ پیدا ہوا تھا جس کے نتیجہ میں آپ مسلسل کئی مہینے غارِ حرا میں میں خلوت کزینی کرتے رہے ، یہ گویا آپ کا پہلا اعتکاف تھا اور اس اعتکاف ہی میں آپ کی روحانیت اس مقام تک پہنچ گئی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن کا نزول شروع ہو جائے ۔ چنانچہ حرا کے اس اعتکام کے آخری ایام ہی میں اللہ کے حامل وحی فرشتے جبرئیل اورہ اقرأ کی ابتدائی آیتیں لے کر نازل ہوئے .... تحقیق یہ ہے کہ یہ رمضان المبارک کا مہینہ (1) اور اس کا آخری عشرہ تھا اور وہ رات شب قدر تھی ، اس لیے بھی اعتکاف کے لیے رمضان مبارک کے آخری عشرہ کا انتخاب کیا گیا ۔
روح کی تریبیت و ترقی اور نفسانی قوتوں پر اس کو غالب کرنے کے لیے پورے مہینے رمضان کے روزے تو تمام افراد امت پر فرض کیے گئے ، گویا کہ اپنے باطن میں ملکوتیت کو غالب اور بہیمیت کو مغلوب کرنے کے لیے اتنا مجاہدہ اور نفسانی کواہشات کی اتنی قربانی تو ہر مسلمان کے لیے لازم کر دی گئی کہ وہ اس پورے محترم اور مقدس مہینے میں اللہ کے حکم کی تعمیل اور اس کی عبادت کی نیت سے دن کو نہ کھائے نہ پئے ، نہ بیوی سے متمتع ہو ، اور اسی کے ساتھ ہر قسم کے گناہوں بلکہ فضول باتوں سے بھی پرہیز کرےاور یہ پورا مہینہ ان پابندیوں کے ساتھ گزارے ..... جپس یہ تو رمضان مبارک میں روحانی تربیت و تزکیہ کا عوامی اور کمپلسری کورس مقرر کیا گیا ، اور اس سے آگے تعلق باللہ میں ترقی اور ملاء اعلیٰ سے خصوصی مناسبت پیدا کرنے کے لیے اعتکاف رکھا گیا ۔ اس اعتکاف میں اللہ کا بندہ سب سے کٹ کے اور سب سے ہٹ کر اپنے مالک و مولا کے آستانے پر اور گویا اسی کے قدموں میں پڑ جاتا ہے ، اس کو یاد کرتا ہے ، اسی کے دھیان میں رہتا ہے ، اس کی تسبیح و تقدیس کرتا ہے ، اس کے حضور میں توبہ و استغفار کرتا ہے ، اپنے گناہوں اور قصوروں پر روتا ہے ، اور رحیم و کریم مالک سے رحمت و مغفرت مانگتا ہے ، اس کی رضا اور اس کا قرب چاہتا ہے ۔ اسی حال میں اس کے دن گزرتے ہیں اور اسی حال میں اس کی راتیں .... ظاہر ہے کہ اس سے بڑھ کر کسی بندے کی سعادت اور کیا ہو سکتی ہے ....
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اہتمام سے ہر سال رمضان کے آخری عشرہ کا اعتکاف فرماتے تھے ، بلکہ ایک سال کسی وجہ سے رہ گیا تو اگلے سال آپ نے دو عشروں کا اعتکاف فرمایا .... اس تمہید کے بعد اس سلسلے کی حدیثیں پڑھئے ۔

تشریح ..... ازواج مطہرات اپنے حجروں میں اعتکاف فرماتی تھیں ، اور خواتین کے لیے اعتکاف کی جگہ ان کے گھر کی وہی جگہ ہے جو انہوں نے نماز پڑھنے کی مقرر کر رکھی ہو ، اگر گھر میں نماز کی کوئی خاص جگہ مقرر نہ ہو تو اعتکاف کرنے والی خواتین کو ایسی جگہ مقرر کر لینی چاہئے ۔
عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ : « أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، كَانَ يَعْتَكِفُ العَشْرَ الأَوَاخِرَ مِنْ رَمَضَانَ حَتَّى تَوَفَّاهُ اللَّهُ ، ثُمَّ اعْتَكَفَ أَزْوَاجُهُ مِنْ بَعْدِهِ »
(رواه البخارى ومسلم)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৯০৪
کتاب الصوم
اعتکاف
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف فرمایا کرتے تھے ۔ ایک سال آپ اعتکاف نہیں کر سکے ، تو اگلے سال بیس دن تک اعتکاف فرمایا ۔ (جامع ترمذی)

تشریح
حضرت انس رضی اللہ عنہ کی اس روایت میں یہ مذکور نہیں ہے کہ ایک سال اعتکاف نہ ہو سکنے کی کیا وجہ پیش ائی تھی ۔ سنن نسائی اور سنن ابی داؤد وغیرہ میں حضرت ابی بن کعب کی ایک حدیث مروی ہے اس میں تصریح ہے کہ ایک سال رمضان کے عشرہ اخیر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی سفر کرنا پڑ گیا تھا اس کی وجہ سے اعتکاف نہیں ہو سکا تھا اس لیے اگلے سال آپ نے بیس دن کا اعتکاف فرمایا ۔
اور صحیح بخاری میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت سے مروی ہے کہ جس سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوا اس سال کے رمضان میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیس دن کا اعتکاف فرمایا تھا ۔ یہ بیس دن کا اعتکاف غالباً اس وجہ سے فرمایا تھا کہ آپ کو یہ اشارہ مل چکا تھا کہ عنقریب آپ کو اس دنیا سے اٹھا لیا جائے گا اس لیے اعتکاف جیسے اعمال کا شغف بڑھ جانا بالکل قدرتی بات تھی ؎
وعدہ وصل چوں شود نزدیک
آتش شوق تیز تر گردد
عَنْ أَنَسٍ قَالَ : كَانَ النَّبِىُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "يَعْتَكِفُ فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ ، فَلَمْ يَعْتَكِفْ عَامًا ، فَلَمَّا كَانَ الْعَامُ الْمُقْبِلُ ، اعْتَكَفَ عِشْرِينَ".
(رواه الترمذى)
tahqiq

তাহকীক: