মা'আরিফুল হাদীস (উর্দু)

معارف الحديث

کتاب الحج - এর পরিচ্ছেদসমূহ

মোট হাদীস ২০ টি

হাদীস নং: ৯৬৯
کتاب الحج
حج کی فرضیت اور فضیلت
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن خطبہ دیا اور اس میں فرمایا : اے لوگو ! تم پر حج فرض کر دیا گیا ہے لہٰذا اس کو ادا کرنے کی فکر کرو .... ایک شخص نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! کیا ہر سال حج کرنا فرض کیا گیا ہے ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے جواب میں سکوت فرمایا اور کوئی جواب نہیں دیا ، یہاں تک کہ اس شخص نے تین دفعہ اپنا وہ سوال دوہرایا ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ناگواری کے ساتھ) فرمایا کہ : اگر میں تمہارے اس سوال کے جواب میں کہہ دیتا کہ : “ ہاں ! ہر سال حج کرنا فرض کیا گیا ” تو اسی طرح فرض ہو جاتا ، اور تم ادا نہ کر سکتے .... اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہدایت فرمائی کہ : کسی معاملہ میں جب میں خود تم کو کوئی حکم نہ دوں تم مجھ سے حکم لینے (اور سوال کر کر کے اپنی پابندیوں میں اضافہ کرنے) کی کوشش نہ کرو .... تم سے پہلی امتوں کے لوگ اسی لیے تباہ ہوئے کہ وہ اپنے نبیوں سے سوال بہت کرتے تھے اور پھر ان کے احکام کی خلاف ورزی کرتے تھے .... لہذا (میری ہدایت تم کو یہ ہے کہ) جب میں تم کو کسی چیز کا حکم دوں تو جہاں تک تم سے ہو سکے اس کی تعمیل کرو اور جب تم کو کسی چیز سے منع کروں تو اس کو چھوڑ دو ۔ (صحیح مسلم)

تشریح
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
جیسا کہ معلوم ہو چکا ہے اسلام کے پانچ ارکان میں سے آخری اور تکمیلی رکن “ حج بیت اللہ ” ہے ۔ حج کیا ہے ؟ .... ایک معین اور مقررہ وقت پر اللہ کے دیوانوں کی طرح اس کے دربار میں حاضر ہونا ، اور اس کے خلیل حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اداؤں ، اور طور طریقوں کی نقل کر کے ان کے سلسلے اور مسلک سے اپنی وابستگی اور وفاداری کا ثبوت دینا اور اپنی استعداد کے بقدر ابراہیمی جذبات اور کیفیات سے حصہ لینا اور اپنے کو ان کے رنگ میں رنگنا ۔
مزید وضاحت کے لیے کہا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ایک شان یہ ہے کہ وہ ذو الجلال والجبروت ، احکم الحاکمین اور شہنشاہ کل ہے ، اور ہم اس کے عاجز و محتاج بندے اور مملوک و محکوم ہیں ۔ اور دوسری شان اس کی یہ ہے کہ ان تمام صفات جمال سے بدرجہ اتم متصف ہے جس کی وجہ سے انسان کو کسی سے محبت ہوتی ہے اور اس لحاظ سے وہ .... بلکہ صرف وہی .... محبوب حقیقی ہے ۔ اس کی پہلی حاکمانہ اور شاہانہ شان کا تقاضا یہ ہے کہ بندے اس کے حضور میں ادب و نیاز کی تصویر بن کر حاضر ہوں .... ارکان اسلام میں پہلا عملی رکن نماز اسی کا خاص مرقع ہے اور اس میں یہی رنگ غالب ہے ۔ اور زکوٰۃ بھی اسی نسبت کے ایک دوسرے رخ کو ظاہر کرتی ہے .... اور اس کی دوسری شان محبوبیت کا تقاضا یہ ہے کہ بندوں کا تعلق اس کے ساتھ محبت اور والہیت کا ہو ۔ روزے میں بھی کسی قدر یہ رنگ ہے ، کھانا پینا چھوڑ دینا اور نفسانی خواہشات سے منہ موڑ لینا عشق و محبت کی منزلوں میں سے ہے ، مگر حج اس کا پورا پورا مرقع ہے ۔ سلے کپڑوں کے بجائے ایک کفن نما لباس پہن لینا ، ننگے سر رہنا ، حجامت نہ بنوانا ، ناخن نہ ترشوانا ، بالوں میں کنگھا نہ کرنا ، تیل نہ لگانا ، خوشبو کا استعمال نہ کرنا ، میل کچیل سے جسم کی صفائی نہ کرنا ، چیخ چیخ کے لبیک لبیک پکارنا ، بیت اللہ کے گرد چکر لگانا ، اس کے ایک گوشے میں لگے ہوئے سیاہ پتھر (حجر اسود) کو چومنا ، اس کے در و دیوار سے لپٹنا اور آہ و زاری کرنا ، پھر صفا و مروہ کے پھیرے کرنا ، پھر مکہ شہر سے بھی نکل جانا اور منیٰ اور کبھی عرفات اور کبھی مزدلفہ کے صحراؤں میں جا پڑنا ، پھر جمرات پہ بار بار کنکریاں مارنا ، یہ سارے اعمال وہی ہیں جو محبت کے دیوانوں سے سرزد ہوا کرتے ہیں ، اور حضرت ابراہیم علیہ السلام گویا اس رسم عاشقی کے بانی ہیں .... اللہ تعالیٰ کو ان کی یہ ادائیں اتنی پسند آئیں کہ اپنے دربار کی خاص الخاص حاضری حج و عمرہ کے ارکان و مناسک ان کو قرار دے دیا ۔ انہی سب کے مجموعہ کا نام گویا حج ہے ، اور یہ اسلام کا آخری اور تکمیلی رکن ہے ۔
اس سلسلہ معارف الحدیث کی پہلی جلد “ کتاب الایمان ” میں وہ حدیثیں گزر چکی ہیں جن میں اسلام کے ارکان پنجگانہ کا بیان ہے ، اور ان میں آخری رکن “ حج بیت اللہ ” بتایا گیا ہے ۔
حج کی فرضیت کا حکم راجح قول کے مطابق ۹؁ھ میں آیا ، اور اس کے اگلے سال ۱۰؁ھ میں اپنی وفات سے صرف تین مہینے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی بڑی تعداد کے ساتھ حج فرمایا ، جو “ حجۃ الوداع ” کے نام سے مشہور ہے ۔ اور اسی حجۃ الوداع میں خاص عرفات کے میدان میں آپ پر یہ آیت نازل ہوئی ۔
أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي (المائدة5 : 3)
آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا ، اور تم پر اپنی نعمت کا اتمام کر دیا ۔
اس میں اس طرف ایک لطیف اشارہ ہے کہ حج اسلام کا تکمیلی رکن ہے ۔
اگر بندہ کو صحیح اور مخلصانہ حج نصیب ہو جائے جس کو دین و شریعت کی زبان میں “ حج مبرور ” کہتے ہیں اور ابراہیمیؑ و محمدیؑ نسبت کا کوئی ذرہ اس کو عطا ہو جائے تو گویا اس کو سعادت کا اعلیٰ مقام حاصل ہو گیا ، اور وہ نعمت عظمیٰ اس کے ہاتھ آ گئی جس سے بڑی کسی نعمت کا اس دنیا میں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا ، اس کو حق ہے کہ تحدیث نعمت کے طور پر کہے اور مست ہو ہو کر کہے ؎
نازم بچشم خود کہ جمالِ تو دیدہ استافتم بہ پائے خود کہ مکویت رسیدہ است
ہر دم ہزار بوسہ زنم دست خویش راکہ دامنت گرفتہ بسویم کشیدہ است
اس مختصر تمہید کے بعد حج کے متعلق ذیل کی حدیثیں پڑھئے ۔

تشریح ..... جامع ترمذی وغیرہ میں قریب قریب اسی مضمون کی ایک حدیث حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے ۔ اس میں یہ تصریح ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے حج کی فرضیت کا یہ اعلان اور اس پر یہ سوال و جواب جو حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی مندرجہ بالا حدیث میں ذکر کیا گیا ہے سورہ آل عمران کی اس آیت کے نازل ہونے پر پیش آیا تھا ۔
وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ البَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا
اللہ کے واسطے بیت اللہ کا حج کرنا فرض ہے ان لوگوں پر جو اس کی استطاعت رکھتے ہوں ۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی اس حدیث میں ان صحابی کا نام مذکور نہیں ہے جنہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گھا کہ : “ کیا ہر سال حج کرنا فرض کیا گیا ہے ؟ ” لیکن حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی اسی مضمون کی حدیث جس کو امام احمد اور دارمی اور نسائی وغیرہ نے روایت کیا ہے ، اس میں تصریح ہے کہ یہ سوال کرنے والے اقرع بن حابس تمیمی تھے ، یہ ان لوگوں میں ہیں جنہوں نے فتح مکہ کے بعد اسلام قبول کیا ، ان کو تعلیم و تربیت حاصل کرنے کا ابھی پورا موقع نہیں ملا تھا ، اسی لیے ان سے یہ لغزش ہوئی کہ ایسا سوال کر بیٹھے اور جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی جواب نہیں دیا تو پھر دوبارہ اور سہ بارہ سوال کیا ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو یہ فرمایا کہ : “ اگر میں ہاں کہہ دیتا تو ہر سال حج کرنا واجب ہو جاتا ” ۔ اس کا منشاء اور مطلب یہ ہے کہ سوال کرنے والے کو سوچنا سمجھنا چاہئے تھا کہ میں نے حج کے فرض ہونے کا جو حکم سنایا تھا اس کا تقاضا اور مطالبہ عمر بھر میں بس ایک حج کا تھا ، اس کے بعد ایسا سوال کرنے کا نتیجہ یہ بھی ہو سکتا تھا کہ اگر میں ہاں کہہ دیتا (اور ظاہر ہے کہ آپ ہاں جب ہی کہتے جب اللہ تعالیٰ کا حکم ہوتا) تو ہر سال حج کرنا فرض ہو جاتا ، اور امت سخت مشکل میں پڑ جاتی .... اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : اگلی امتوں کے بہت سےلوگ کثرت سوال اور قیل و قال کی اسی بری عادت کی وجہ سے تباہ ہوئے ، انہوں نے اپنے نبیوں سے سوال کر کر کے شرعی پابندیوں میں اضافہ کرایا اور پھر اس کے مطابق عمل کر نہیں سکے ۔
حدیث کے آخر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بڑی اور اصولی بات فرمائی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ : “ جب میں تم کو کسی چیز کا حکم دوں تو جہاں تک تم سے ہو سکے اس کی تعمیل کرو ، اور جس چیز سے منع کروں اس کو ترک کر دو ” ۔
مطلب یہ ہے کہ میری لائی ہوئی شریعت کا مزاج سختی اور تنگی نہیں ہے بلکہ سہولت اور وسعت کا ہے ، جس حد تک تم سے تعمیل ہو سکے اس کی کوشش کرو ، بشری کمزوریوں کی وجہ سے جو کمی کسر رہ جائے گی اللہ تعالیٰ کے رحم و کرم سے اس کی معافی کی امید ہے ۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ : خَطَبَنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : « يَأَيُّهَا النَّاسُ قَدْ فَرَضَ اللهُ عَلَيْكُمُ الْحَجَّ ، فَحُجُّوا » ، فَقَالَ رَجُلٌ : أَكُلَّ عَامٍ يَا رَسُولَ اللهِ؟ فَسَكَتَ حَتَّى قَالَهَا ثَلَاثًا ، فَقَالَ : " لَوْ قُلْتُ : نَعَمْ لَوَجَبَتْ ، وَلَمَا اسْتَطَعْتُمْ " ، ثُمَّ قَالَ : « ذَرُونِي مَا تَرَكْتُكُمْ ، فَإِنَّمَا هَلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ بِكَثْرَةِ سُؤَالِهِمْ وَاخْتِلَافِهِمْ عَلَى أَنْبِيَائِهِمْ ، فَإِذَا أَمَرْتُكُمْ بِشَيْءٍ فَأْتُوا مِنْهُ مَا اسْتَطَعْتُمْ ، وَإِذَا نَهَيْتُكُمْ عَنْ شَيْءٍ فَدَعُوهُ » (رواه مسلم)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৯৭০
کتاب الحج
حج کی فرضیت اور فضیلت
حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس کے پاس سفر حج کا ضروری سامان ہو اور اس کو سواری میسر ہو جو بیت اللہ تک اس کو پہنچا سکے اور پھر وہ حج نہ کرے ، تو کوئی فرق نہیں کہ وہ یہودی ہو کر مرے یا نصرانی ہو کر ، اور یہ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ : “ اللہ کے لیے بیت اللہ کا حج فرض ہے ان لوگوں پر جو اس تک جانے کی استطاعت رکھتے ہوں ۔ ” (جامع ترمذی)

تشریح
اس حدیث میں ان لوگوں کے لیے بڑی سخت وعید ہے جو حج کرنے کی استطاعت رکھنے کے باوجود حج نہ کریں ۔ فرمایا گیا ہے کہ ان کا اس حال میں مرنا اور یہودی یا نصرانی ہو کر مرنا گویا برابر ہے (معاذ اللہ) یہ اس طرح کی وعید ہے جس طرح ترک نماز کو کفر و شرک کے قریب کہا گیا ہے .... قرآن مجید میں بھی ارشاد ہے :
أَقِيمُوا الصَّلاَةَ وَلاَ تَكُونُوا مِنَ المُشْرِكِينَ
جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ترک صلوٰۃ مشرکوں والا عمل ہے ۔
حج فرض ہونے کے باوجود حج نہ کرنے والوں کو مشرکین کے بجائے یہود و نصاریٰ سے تشبیہہ دینے کا راز یہ ہے کہ حج نہ کرنا یہود و نصاریٰ کی خصوصیت تھی کیوں کہ مشرکین عرب حج کیا کرتے تھے لیکن وہ نماز نہیں پڑھتے تھے ، اس لیے ترک نماز کو مشرکوں والا عمل بتلایا گیا ۔
اس حدیث میں استطاعت کے باوجود حج نہ کرنے والوں کے لیے جو سخت وعید ہے اس کے لیے سورہ آل عمران کی اس آیت کا جو حوالہ دیا گیا ہے اور اس کی سند پیش کی گئی ہے جس میں حج کی فرضیت کا بیان ہے ، یعنی
“ وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ البَيْتِ مَنْ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلاً ” لیکن معلوم ہوتا ہے کہ راوی نے صرف حوالہ کے طور پر آیت کا یہ ابتدائی حصہ پڑھنے پر اکتفا کیا ، یہ وعید آیت کے جس حصے سے نکلتی ہے وہ اس کے آگے والا حصہ ہے ، یعنی “ وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ عَنِ العَالَمِينَ ” (جس کا مطلب یہ ہے کہ اس حکم کے بعد جو کوئی کافرانہ رویہ اختیار کرے یعنی باوجود استطاعت کے حج نہ کرے تو اللہ کو کوئی پرواہ نہیں ، وہ ساری دنیا اور ساری کائنات سے بے نیاز ہے) .... اس میں استطاعت کے باوجود حج نہ کرنے والوں کے رویہ کو “ وَمَنْ كَفَرَ ” کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے ، اور “ فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ عَنِ العَالَمِينَ ” کی وعید سنائی گئی ہے ، اس کا مطلب یہی ہوا کہ ایسے ناشکرے اور نافرمان جو کچھ بھی کریں اور جس حال میں مریں اللہ کو ان کی کوئی پرواہ نہیں ۔
قریب قریب اسی مضمون کی ایک حدیث مسند دارمی وغیرہ میں حضرت ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ۔
عَنْ عَلِيٍّ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : مَنْ مَلَكَ زَادًا وَرَاحِلَةً تُبَلِّغُهُ إِلَى بَيْتِ اللهِ وَلَمْ يَحُجَّ فَلاَ عَلَيْهِ أَنْ يَمُوتَ يَهُودِيًّا ، أَوْ نَصْرَانِيًّا ، وَذَلِكَ أَنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى يَقُولُ : وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ البَيْتِ مَنْ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلاً. (رواه الترمذى)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৯৭১
کتاب الحج
حج کی فرضیت اور فضیلت
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا ، اور اس نے پوچھا کہ : کیا چیز حج کو واجب کر دیتی ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : سامان سفر اور سواری ۔ (جامع ترمذی ، سنن ابن ماجہ)

تشریح
قرآن مجید میں فرضیت حج کی شرط کے طور پر “ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا ” فرمایا گیا ہے ، یعنی حج ان لوگوں پر فرض ہے جو سفر کر کے مکہ معظمہ تک پہنچنے کی استطاعت رکھتے ہوں .... اس میں جو اجمالی ہے غالباً سوال کرنے والے صحابی نے اس کی وضاحت چاہی اور دریافت کیا کہ اس کی استطاعت کا متعین معیار کیا ہے ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : ایک تو سواری کا انتظام ہو جس میں مکہ معظمہ تک سفر کیا جا سکے اور اس کے علاوہ کھانے پینے جیسی ضروریات کے لیے اتنا سرمایہ ہو جو اس زمانہ سفر کے گزارے کے لیے کافی ہو .... فقہائے کرام نے اس گزارے میں ان لوگوں کے گزارے کو بھی شامل کیا ہے جن کی کفالت جانے والے کے ذمہ ہو ۔
عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : قَامَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا يُوجِبُ الْحَجَّ؟ قَالَ : « الزَّادُ وَالرَّاحِلَةُ » (رواه الترمذى وابن ماجه)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৯৭২
کتاب الحج
حج کی فرضیت اور فضیلت
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس آدمی نے حج کیا اور اس میں نہ تو کسی شہوانی اور فحش بات کا ارتکاب کیا ، اور نہ اللہ کی کوئی نافرمانی کی تو وہ گناہوں سے ایسا پاک و صاف ہو کر واپس ہو گا جیسا اس دن تھا جس دن اس کی ماں نے اس کو جنا تھا ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے : الْحَجُّ أَشْهُرٌ مَّعْلُومَاتٌ ۚ فَمَن فَرَضَ فِيهِنَّ الْحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوقَ وَلَا جِدَالَ فِي الْحَجِّ اس آیت میں حج کرنے والوں کو ہدایت فرمائی گئی ہے کہ خاص کر زمانہ حج میں وہ شہوت کی باتوں اور اللہ کی نافرمانی والے سارے کاموں اور آپس کی جھگڑے بازی سے بچیں ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی اس حدیث میں اس ہدایت پر عمل کرنے ولوں کو بشارت سنائی گئی ہے اور فرمایا گیا ہے کہ جو شخص حج کرے اور ایام حج میں نہ شہوت کی باتیں کرے ، اور نہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی کوئی ایسی حرکت کرے جو جسق کی حد میں آتی ہو ، تو حج کی برکت سے اس کے سارے گناہ معاف کر دئیے جائیں گے اور وہ گنوہوں سے بالکل ایسا پاک و صاف ہو کر واپس ہو گا جیسا کہ وہ اپنی پیدائش کے دن بے گناہ تھا ۔ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے یہ دولت نصیب فرمائے ۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : « مَنْ حَجَّ فَلَمْ يَرْفُثْ ، وَلَمْ يَفْسُقْ رَجَعَ كَيَوْمِ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ » (رواه البخارى ومسلم)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৯৭৩
کتاب الحج
حج کی فرضیت اور فضیلت
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ایک عمرہ سے دوسرے عمرہ تک کفارہ ہو جاتا ہے اس کے درمیان کے گناہوں کا ۔ اور “ حج مبرور ” (پاک اور مخلصانہ حج) کا بدلہ تو بس جنت ہے ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : « العُمْرَةُ إِلَى العُمْرَةِ كَفَّارَةٌ لِمَا بَيْنَهُمَا ، وَالحَجُّ المَبْرُورُ لَيْسَ لَهُ جَزَاءٌ إِلَّا الجَنَّةُ » (رواه البخارى ومسلم)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৯৭৪
کتاب الحج
حج کی فرضیت اور فضیلت
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : پے در پے کیا کرو حج اور عمرہ کیوں کہ حج اور عمرہ دونوں فقر و محتاجی اور گناہوں کو اس طرح دور کر دیتے ہیں جس طرح لوہا اور سنار کی بھٹی لوہے اور سونے چاندی کا میل کچیل دور کر دیتی ہے اور “ حج مبرور ” کا صلہ اور ثواب تو بس جنت ہی ہے .... (جامع ترمذی ، سنن نسائی)

تشریح
جو شخص اخلاص کے ساتھ حج یا عمرہ کرتا ہے وہ گویا اللہ تعالیٰ کے دریائے رحمت میں غوطہ لگاتا اور غسل کرتا ہے جس کے نتیجہ میں وہ گناہوں کے گندے اثرات سے پاک صاف ہو جاتا ہے اور اس کے علاوہ دنیا میں بھی اس پر اللہ تعالیٰ کا یہ فضل ہوتا ہے کہ فقر و محتاجی اور پریشان حالی سے اس کو نجات مل جاتی ہے اور خوش حالی اور اطمینان قلب کی دولت نصیب ہو جاتی ہے اور مزید برآں “ حج مبرور ” کے صلہ میں جنت کا عطا ہونا اللہ تعالیٰ کا قطعی فیصلہ ہے ۔
عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : تَابِعُوا بَيْنَ الحَجِّ وَالعُمْرَةِ ، فَإِنَّهُمَا يَنْفِيَانِ الفَقْرَ وَالذُّنُوبَ كَمَا يَنْفِي الكِيرُ خَبَثَ الحَدِيدِ ، وَالذَّهَبِ ، وَالفِضَّةِ ، وَلَيْسَ لِلْحَجَّةِ الْمَبْرُورَةِ ثَوَابٌ إِلاَّ الجَنَّةُ. (رواه الترمذى والنسائى)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৯৭৫
کتاب الحج
حج کی فرضیت اور فضیلت
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : حج اور عمرہ کرنے والے اللہ تعالیٰ کے مہمان ہیں ، اگر وہ اللہ سے دعا کریں تو وہ ان کی دعا قبول فرمائے ، اور اگر وہ اس سے مغفرت مانگیں تو وہ ان کی مغفرت فرمائے ۔ (سنن ابن ماجہ)
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، أَنَّهُ قَالَ : " الحَاجُّ وَالْعُمَّارُ وَفْدُ اللهِ ، إِنْ دَعَوْهُ أَجَابُوهُ ، وَإِنِ اسْتَغْفَرُوهُ غَفَرَ لَهُمْ ". (رواه ابن ماجه)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৯৭৬
کتاب الحج
حج کی فرضیت اور فضیلت
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جب کسی حج کرنے والے سے تمہاری ملاقات ہو تو اس کے اپنے گھر میں پہنچنے سے پہلے اس کو سلام کرو اور مصافحہ کرو اور اس سے مغفرت کی دعا کے لئے کہو ، کیوں کہ وہ اس حال میں ہے کہ اس کے گناہوں کی مغفرت کا فیصلہ ہو چکا ہے (اس لیے اس کی دعا کے قبول ہونے کی کاص توقع ہے) ۔ (مسند احمد)
عَن ابْنِ عُمَرَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : « إِذَا لَقِيتَ الْحَاجَّ فَسَلِّمْ عَلَيْهِ وَصَافِحْهُ ، وَمُرْهُ أَنْ يَسْتَغْفِرَ لَكَ قَبْلَ أَنْ يَدْخُلَ بَيْتَهُ ، فَإِنَّهُ مَغْفُورٌ لَهُ » (رواه احمد)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৯৭৭
کتاب الحج
حج کی فرضیت اور فضیلت
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کا جو بندہ حج یا عمرہ کی نیت سے یا راہ خدا میں جہاد کے لیے نکلا پھر راستہ ہی میں اس کو موت آ گئی تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے واسطے وہی اجر و ثواب لکھ دیا جاتا ہے جو حج و عمرہ کرنے کے لیے اور راہ جہاد کرنے والے کے لیے مقرر ہے ۔ (شعب الایمان للبیہقی)

تشریح
تشریح ..... اللہ تعالیٰ کے اس کریمانہ دستور و قانون کا اعلان خود قرآن مجید میں بھی کیا گیا ہے ۔ ارشاد ہے :
وَمَن يَخْرُجْ مِن بَيْتِهِ مُهَاجِرًا إِلَى اللَّـهِ وَرَسُولِهِ ثُمَّ يُدْرِكْهُ الْمَوْتُ فَقَدْ وَقَعَ أَجْرُهُ عَلَى اللَّـهِ ۗ وَكَانَ اللَّـهُ غَفُورًا رَّحِيمًا (النساء 100 : 4)
اور جو بندہ اپنا گھر بار چھوڑ کے اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہجرت کی نیت سے نکل پڑے ، پھر آ جائے اس کو موت (راستہ ہی میں) تو مقرر ہو گیا اس کا اجر اللہ کے ہاں ، اور اللہ تعالیٰ بہت بخشنے والا اور بڑا مہربان ہے ۔
اس سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی بندہ اللہ کی رضا کا کوئی کام کرنے کے لیے گھر سے نکلے اور اس کے عمل میں آنے سے پہلے راستہ ہی میں اس کی زندگی ختم ہو جائے تو اللہ تعالیی کے ہاں اس عمل کا پورا اجر اس بندہ کے لئے مقرر ہو جاتا ہے ، اور یہ اللہ تعالیٰ کی شان رحمت کا تقاضا ہے ۔ وَكَانَ اللَّـهُ غَفُورًا رَّحِيمًا
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ مَنْ خَرَجَ حَاجًّا أَوْ مُعْتَمِرًا أَوْ غَازِيًا ثُمَّ مَاتَ فِي طَرِيقِهِ كَتَبَ اللهُ لَهُ أَجْرَ الْغَازِي وَالْحَاجِّ وَالْمُعْتَمِرِ..... (رواه البيهقى فى شعب الايمان)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৯৭৮
کتاب الحج
میقات ، احرام ، تلبیہ: مواقیت
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ذو الحلیفہ کو اہل مدینہ کا میقات مقرر کیا ، اور جحفہ کو اہل شام کا اور قرن المنازل کو اہل نجد کا ، اور یلملم کو اہل یمن کا ۔ پس یہ چاروں مقامات خود ان کے رہنے والوں کے لیے میقات ہیں ، اور ان سے لوگوں کے لیے جو دوسرے علاقوں سے ان مقامات پر ہوئے ہوئے آئیں جن کا ارادہ حج یا عمرہ کا ہو ۔ پس جو لوگ ان مقامات کے ورے ہوں (یعنی ان مقامات سے مکہ معظمہ کی طرف سے رہنے والے ہوں) تو وہ اپنے گھر ہی سے احرام باندھیں گے ۔ اور یہ قاعدہ اسی طرح چلے گا ، یہاں تک کہ خاص مکہ کے رہنے والے مکہ ہی سے احرام باندھیں گے ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
کعبہ مکہ مکرمہ کو اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کا قبلہ اور اپنا محترم و مقدس “ بیت ” (گھر) قرار دیا ہے ، اور جیسا کہ بیان کیا جا چکا ہے ، جو لوگ وہاں ھاضری کی استطاعت رکھتے ہوں ، ان پر عمر میں ایک دفعہ حاضر ہونا اور حج کرنا فرض کیا ہے ، اور اس حاضری اور حج کے کچھ لازمی آداب مقرر کئے ہیں ۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ یہ حاضر ہونے والے اپنے روزمرہ کے اور عام عادی لباس مین حاضر نہ ہوں بلکہ ایسے فقیرانہ لباس میں حاضر ہوں جو مردوں کے کفن سے مشابہت رکھتا ہو ، اور آخرتمیں میدان حشر کی حاضری کو یاد دلاتا ہو ...... کرتا ، پاجامہ ، صدری ، شیروانی ، کوٹ ، پتلون کچھ نہ ہو بس ایک تہبند باندھ لیں ، اور ایک چادر جسم کے اوپر کے حصے میں ڈال لیں ، سر بھی کھلا ہو ، پاؤںمیں موزہ بلکہ ایسا جوتا بھی نہ ہو جس سے پورا پاؤں ڈھک جائے ۔ (1) اسی قسم کی کچھ اور بھی پابندیاں عائد کی گئی ہیں جن کا منشاء یہ ہے کہ بندہ ایسی ہیئت اور صورت میں حاضر ہو جس سے اس کی عاجزی اور بےچارگی اور بے حیثیتی و بے مائگی اور عیش دنیوی سے بے رغبتی ظاہر ہو .... لیکن بندوں کے ضعف کا لحاظ رکھتے ہوئے اس کو اس کا مکلف نہیں کیا گیا کہ وہ اپنے گھر ہی سے احرام بند اور ان آداب کے پابند ہو کے روانہ ہوں ، اگر یہ حکم دیا جاتا تو اللہ کے بندے بڑی مشکل میں پڑ جاتے ۔ اب سے کچھ ہی زمانہ پہلے تک بہت سے ملکوں کے حاجی کئی کئی مہینے سفر کرنے کے بعد مکہ معظمہ پہنچا کرتے تھے ، اور اب بھی بہت سے ملکوں کے حجاج کئی کئی ہفتے کا بری اور بحری سفر کر کے وہاں پہنچتے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ اتنی طویل مدت تک احرام کی پابندیوں کا نبھانا اکثر لوگوں کے لیے سخت مشکل ہوتا ہے ، اس لیے مختلف راستوں سے آنے والے حجاج کے لیے مکہ معظمہ کے قریب مختلف سمتوں میں کچھ مقامات مقرر کر دئیے گئے ہیں اور حکم دیا گیا ہے کہ حج یا عمرہ کے لیے آنے والے جب ان میں سے کسی مقام پہ پہنچیں تو “ بیت اللہ ” اور “ بلد اللہ الحرام ” کے ادب میں وہیں سے احرام بن ہو جائیں .... مختلف سمتوں کے یہ معین مقامات جن کی تفصیل آگے آئے گی “ میقات ” کہلاتے ہیں ۔
یہ بھی سمجھ لینا چاہئے کہ احرام باندھنے کا مطلب صرف احرام والے کپڑے پہن لینا نہیں ہے ، بلکہ یہ کپڑے پہن کے پہلے دو رکعت نماز (دوگانہ احرام) پڑھی جاتی ہے اس کے بعد پکار کر تلبیہ پڑھا جاتا ہے :
لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ ، لَبَّيْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ ، إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ وَالْمُلْكَ ، لَا شَرِيكَ لَكَ
اس تلبیہ کے پڑھنے کے بعد آدمی محرم (احرام بند) ہو جاتا ہے ، اور اسی سے حج کا عمل شروع ہو جاتا ہے ، اور احرام والی ساری پابندیاں اس پر عائد ہو اجاتیں ہیں .... جس طرح تکبیر تحریمہ کہنے کے بعد نماز کا عمل شروع ہو جاتا ہے اور نماز والی ساری پابندیاں عائد ہو جاتی ہیں ۔
اس تمہید کے بعد مواقیت ، احرام اور تلبیہ کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مندرجہ ذیل احادیث پڑھئے :
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا ، قَالَ : « وَقَّتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَهْلِ المَدِينَةِ ذَا الحُلَيْفَةِ ، وَلِأَهْلِ الشَّأْمِ الجُحْفَةَ ، وَلِأَهْلِ نَجْدٍ قَرْنَ المَنَازِلِ ، وَلِأَهْلِ اليَمَنِ يَلَمْلَمَ ، فَهُنَّ لَهُنَّ ، وَلِمَنْ أَتَى عَلَيْهِنَّ مِنْ غَيْرِ أَهْلِهِنَّ لِمَنْ كَانَ يُرِيدُ الحَجَّ وَالعُمْرَةَ ، فَمَنْ كَانَ دُونَهُنَّ ، فَمُهَلُّهُ مِنْ أَهْلِهِ ، وَكَذَاكَ وَكَذَاكَ حَتَّى أَهْلُ مَكَّةَ يُهِلُّونَ مِنْهَا » (رواه البخارى ومسلم)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৯৭৯
کتاب الحج
میقات ، احرام ، تلبیہ: مواقیت
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اہل مدینہ کا میقات (جہاں سے ان کو احرام باندھنا چاہئے) ذو الحلیفہ ہے ، اور دورے راستہ سے جانے والوں کا میقات جحفہ ہے ، اور اہل عراق کا میقات ، ذات عرق ہے ، اور اہل نجد کا میقات قرن المنازل ہے ، اور اہل یمن کا میقات یلملم ہے ۔ (صحیح مسلم)

تشریح
اوپر والی حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت میں صرف چار میقاتوں کا ذکر ہے ۔ (۱) ذو الحلیفہ (۲) جحفہ (۳) قرن المنازل (۴) یلملم .... اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی اس روایت میں پانچویں میقات “ ذات عرق ” کا بھی ذکر ہے جس کو اہل عراق کا میقات قرار دیا گیا ہے ۔ دونوں روایتوں میں ایک خفیف سا فرق یہ بھی ہے کہ پہلی روایت میں جحفہ کو اہل شام کا میقات بتایا گیا ہے اور دوسری روایت میں اس کو “ دوسرے راستہ والوں کا ” میقات کہا گیا ہے ، جس کا مطلب بظاہر یہ ہے کہ اہل مدینہ بھی اگر دوسرے راستہ سے (یعنی جحفہ کی طرف سے) مکہ معظمہ جائیں تو وہ جحفہ سے بھی احرام باندھ سکتے ہیں ، اور ان کے علاوہ جو دوسرے علاقوں کے لوگ مثلاً اہل شام جحفہ کی طرف سے آئیں وہ بھی جحفہ سے احرام باندھیں ۔ اور بعض شارحیں نے “ دوسرے طریقہ والوں سے ” مراد اہل شام ہی لیے ہیں ، اس صورت میں دونوں روایتوں میں صرف تعبیر اور لفظ ہی کا فرق رہے گا .... بہر حال یہ پانچوں مقامات معین اور متفق علیہ میقات ہیں ۔ جن علاقوں کے لیے یہ میقات قرار دئیے گئے ہیں ان سے مکہ مکرمہ آنے والوں کے راستہ میں یہ پڑتے تھے ۔ ان کا مختصر تعارف یہ ہے :
ذو الحلیفہ : جو اہل مدینہ کے لیے میقات مقرر کیا گیا ہے ، مدینہ طیبہ سے مکہ معظمہ جاتے ہوئے صرف پانچ چھ میل پہ پڑتا ہے ، یہ مکہ معظمہ سے سب سے زیادہ بعید میقات ہے ۔ یہاں سے مکہ مکرمہ قریباً دو سو میل ہے ، بلکہ آج کل کے راستے سے قریباً ڈھائی سو میل ہے .... چونکہ اہل مدینہ کا دین سے خاص تعلق ہے اس لیے ان کا میقات اتنی بعید مسافت پر مقرر کیا گیا ہے ، دین میں جس کا مرتبہ جتنا بڑا ہے اس کو مشقت بھی اتنی ہی زیادہ اٹھانی پڑتی ہے ؎
جن کے رتبے میں سوا ان کو سوا مشکل ہے
جحفہ : یہ شام وغیرہ مغربی علاقوں سے آنے والوں کے لیے میقات ہے ، یہ موجودہ رابغ کے قریب ایک بستی تھی ، اب اس نام کی کوئی بستی موجود نہیں ہے ، لیکن یہ معلوم ہے کہ اس کا محل وقوع رابغ کے قریب تھا جو مکہ معظمہ سے قریباً سو میل کے فاصلہ پر بجانب مغرب ساحل کے قریب ہے ۔
قرن المنازل : یہ نجد کی طرف سے آنے والوں کا میقات ہے ۔ مکہ معظمہ سے قریباًٍ ۳۰ ، ۳۵ میل مشرق میں نجد جانے والے راستہ پر ایک پہاڑی ہے ۔
ذات عرق : یہ عراق کی طرف سے آنے والوں کے لیے میقات ہے ۔ مکہ معظمہ سے شمال مشرق میں عراق جانے والے راستہ پر واقع ہے ۔ مسافت مکہ معظمہ سے ۵۰ میل کے قریب ہے ۔
یلملم : یہ یمن کی طرف سے آنے والوں کے لیے میقات ہے ۔ یہ تہامہ کی پہاڑیوں میں سے ایک معروف پہاڑی ہے ، جو مکہ معظمہ سے قریباً ۴۰ میل جنوب مشرق میں یمن سے مکہ آنے والے راستہ پر پڑتی ہے ۔
جیسا کہ مندجہ بالا دونوں حدیثوں سے معلوم ہوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پانچوں مقامات کو خود اب کے باشندوں کے لیے اور دوسرے تمام علاقوں کے ان لوگوں کے لیے جو حج یا عمرہ کے واسطے ان مقامات کی طرف سے آئیں “ میقات ” مقرر فرمایا ہے ۔ فقہائے امت کا اس پر اتفاق اور اجماع ہے کہ جو شخص حج یا عمرہ کے لیے ان مقامات میں سے کسی مقام کی طرف سے آئے اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ احرام باند کر اس مقام سے آگے بڑھے ۔ احرام باندھنے کا مطلب اور اس کا طریقہ ابھی اوپر ذکر کیا جا چکا ہے ۔
عَنْ جَابِرٍ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : « مُهَلُّ أَهْلِ الْمَدِينَةِ ، مِنْ ذِي الْحُلَيْفَةِ ، وَالطَّرِيقُ الْآخَرُ الْجُحْفَةُ ، وَمُهَلُّ أَهْلِ الْعِرَاقِ مِنْ ذَاتِ عِرْقٍ ، وَمُهَلُّ أَهْلِ نَجْدٍ مِنْ قَرْنٍ ، وَمُهَلُّ أَهْلِ الْيَمَنِ مِنْ يَلَمْلَمَ » (رواه مسلم)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৯৮০
کتاب الحج
احرام کا لباس
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے بیان فرماتے ہیں کہ : ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ : محرم (حج یا عمرہ کا احرام باندھنے والا) کیا کیا کپڑے پہن سکتا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کہ (حالت احرام میں) نہ تو کرتا قمیض پہنو اور نہ سر پر عمامہ اور نہ شلوار پاجامہ پہنو اور نہ بارانی پہنو اور نہ پاؤں میں موزے پہنو ، سوائے اس کے کہ کسی آدمی کے پاس پہننے کے لیے چپل جوتا نہ ہو تو وہ مجبوراً پاؤں کی حفاظت کے لیے موزے پہن لے اور ان کو ٹخنوں کے نیچے سے کاٹ کے جوتا سا بنا لے (آگے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حالت احرام میں) ایسا بھی کوئی کپڑا نہ پہنو جس کو زعفران یا ورس لگا ہو ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں قمیض ، شلوار ، عمامہ وغیرہ صرف ان چند کپڑوں کا نام لیا ہے جن کا اس وقت رواج تھا یہی حکم ان تمام کپڑوں کا ہے جو مختلف زمانوں میں اور مختلف قوموں اور ملکوں میں ان مقاصد کے لیے استعمال ہوتے ہیں یا آئندہ استعمال ہوں گے جن مقاصد کے لیے قمیض ، شلوار ، عمامہ وغیرہ استعمال ہوتے تھے ۔
زعفران تو معروف ہے ، ورس بھی ایک خوشبودار رنگ کی پتی ہے ۔ یہ دونوں چیزیں چونکہ خوشبو کے لیے استعمال ہوتی تھیں اس لیے حالت احرام میں ایسے کپڑے کے استعمال کی بھی ممانعت کر دئی گئی ہے جس کو زعفران یا ورس لگی ہو ۔
سوال کرنے والے شخص نے پوچھا تھا کہ : مُحرم کون سے کپڑے پہنے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جوجواب میں فرمایا کہ : “ فلاں فلاں کپڑے نہ پہنے ” ۔ اس جواب میں گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی بھی تلقین فرمائی کہ پوچھنے کی بات یہ نہیں ہے کہ محرم کون سے کپڑے پہنے ؟ بلکہ یہ دریافت کرنا چاہئے کہ کس قسم کے کپڑنے پہننے کی اس کو ممانعت ہے ، کیوں کہ احرام کا اثر یہی پڑتا ہے کہ کچھ کپڑے اور کچھ چیزیں جن کا استعمال عام حالات میں جائز ہے احرام کی وجہ سے ان کا استعمال ناجائز ہو جاتا ہے ، اس لیے یہ دریافت کرنا چاہئے کہ احرام میں کن کپڑوں اور کن چیزوں کا استعمال ممنوع اور ناجائز ہو جاتا ہے ۔
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : مَا يَلْبَسُ الْمُحْرِمُ مِنَ الثِّيَابِ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : « لَا تَلْبَسُوا الْقُمُصَ ، وَلَا الْعَمَائِمَ ، وَلَا السَّرَاوِيلَاتِ ، وَلَا الْبَرَانِسَ ، وَلَا الْخِفَافَ ، إِلَّا أَحَدٌ لَا يَجِدُ النَّعْلَيْنِ ، فَلْيَلْبَسِ الْخُفَّيْنِ ، وَلْيَقْطَعْهُمَا أَسْفَلَ مِنَ الْكَعْبَيْنِ ، وَلَا تَلْبَسُوا مِنَ الثِّيَابِ شَيْئًا مَسَّهُ الزَّعْفَرَانُ وَلَا الْوَرْسُ » (رواه البخارى ومسلم)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৯৮১
کتاب الحج
احرام کا لباس
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، فرماتے ہیں کہ : میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں عورتوں کو احرام کی حالت میں دستانے پہننے اور چہرے پر نقاب ڈالنے اور ان کپڑوں کے استعمال سے جن کو زعفران یا ورس لگی ہو اور ان کے بعد اور ان کے علاوہ جو رنگین کپڑے وہ چاہیں پہن سکتی ہیں کسمبی کپڑا ہو یا ریشمی ، اور اسی طرح وہ چاہیں تو زیور بھی پہن سکتی ہیں اور شلوار اور قمیض اور موزے بھی پہن سکتی ہیں ۔ (سنن ابی داؤد)

تشریح
اس حدیث سے معلوم ہو گیا کہ احرام کی حالت میں قمیض ، شلوار وغیرہ سلے کپڑے پہننے کی ممانعت صرف مردوں کو ہے ، عورتوں کو پردہ کی وجہ سے ان سب کپڑوں کے استعمال کی اجازت ہے اور موزے پہننے کی بھی اجازت ہے ، ہوں دستانے پہننے کی ان کو بھی ممانعت ہے اور منہ پر نقاب ڈالنے کی بھی ممانعت ہے .... لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ اجنبی مردوں کے سامنے بھی اپنے چہرے بالکل کھلے رکھیں ۔ حدیث میں ممانعت چہرے پر باقاعدہ نقاب ڈالنے کی ہے ، لیکن جب اجنبی مردوں کا سامنا ہو تو اپنی چادر سے یا کسی اور چیز سے ان کو آڑ کر لینی چاہیے .... سنن ابی داؤد میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی روایت ہے ، فرماتی ہیں کہ :
“ ہم عورتیں حج میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ احرام کی حالت میں تھیں (تو احرام کی وجہ سے ہم چہروں پر نقاب نہیں ڈالتی تھیں) جب ہمارے سامنے سے مرد گزرتے تو ہم اپنی چادر سر کے اوپر سے لٹکا لیتی تھیں اور اس طرح پردہ کر لیتی تھیں ، پھر جب وہ مرد آگے بڑھ جاتے تو ہم اپنے چہرے کھول دیتی تھیں ” ۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے اس بیان سے یہ بات بالکل واضح ہو گئی کہ احرام کی حالت میں عورتوں کو نقاب کے استعمال کی ممانعت ہے ، لیکن جب اجنبی مردوں کا سامنا ہو تو چادر سے یا کسی اور چیز سے ان کو آڑ کر لینی چاہئے ۔
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ « نَهَى النِّسَاءَ فِي إِحْرَامِهِنَّ عَنِ القُفَّازَيْنِ وَالنِّقَابِ ، وَمَا مَسَّ الْوَرْسُ وَالزَّعْفَرَانُ مِنَ الثِّيَابِ ، وَلْتَلْبَسْ بَعْدَ ذَلِكَ مَا أَحَبَّتْ مِنْ أَلْوَانِ الثِّيَابِ مُعَصْفَرًا أَوْ خَزًّا أَوْ حُلِيٍّ أَوْ سَرَاوِيلَ أَوْ قَمِيصٍ أَوْ خُفٍّ » (رواه ابوداؤد)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৯৮২
کتاب الحج
احرام سے پہلے غسل
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ نے کپڑے اتارے اور غسل فرمایا احرام باندھنے کے لیے ۔ (جامع ترمذی ، مسند دارمی)

تشریح
اس حدیث کی بناء پر احرام سے پہلے غسل کو سنت کہا گیا ہے ، لیکن اگر کسی نے دوگانہ احرام پڑھنے کے لیے صرف وضو کر لیا تب بھی کافی ہے اور اس کا احرام صحیح ہو گا ۔
عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ أَنَّهُ رَأَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَجَرَّدَ لِإِهْلاَلِهِ وَاغْتَسَلَ. (رواه الترمذى والدارمى)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৯৮৩
کتاب الحج
تلبیہ احرام
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تلبیہ پڑھتے ہوئے سنا اس حال مین کہ آپ کے سر کے بال جمے ہوئے اور مرتب طور پر لگے ہوئے تھے (جیسا کہ غسل کے بعد سر کے بالوں کا حال ہوتا ہے) آپ اس طرح تلبیہ پڑھتے تھے :
لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ ، لَبَّيْكَ لاَ شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ ، إِنَّ الحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ وَالمُلْكَ ، لاَ شَرِيكَ لَكَ.
” میں حاضر ہوں خدا وندا تیرے حضور حاضر ہوں ، حاضر ہوں ، تیرا کوئی شریک ساتھی نہیں ، میں تیرے حضور حاضر ہوں ، ساری حمد و ستائش کا تو ہی سزاوار ہے اور ساری نعمتیں تیری ہی ہیں ، اور ساری کائنات میں فرماں روائی بھی بس تیری ہی ہے ، ، تیرا کوئی شریک نہیں “
یہی کلمات تلبیہ آپ پڑھتے تھے ، ان پر کسی اور کلمہ کا اضافہ نہیں فرماتے تھے ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
شارحین حدیث نے لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خلیل ابراہیم (علیہ السلام) کے ذریعہ اپنے بندوں کو حج یعنی اپنے دربار کی حاضری کا بلاوا دلوایا تھا (جس کا ذکر قرآن مجید میں بھی ہے) تو حج کو جانے والا بندہ جب احرام باند کے یہ تلبیہ پڑھتا ہے تو گویا وہ ابراہیم علیہ السلام کی اس پکار اور اللہ تعالیٰ کے اس بلاوے کے جواب میں عرض کرتا ہے کہ خداوندا تو نے اپنے دربار کی حاضری کے لیے بلوایا تھا اور اپنے خلیل علیہ السلام سے ندا دلوائی تھی ۔ میں ھاضر ہو اور سر کے بل حاضر ہوں .... لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ.... الخ
عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُهِلُّ مُلَبِّدًا يَقُولُ : « لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ ، لَبَّيْكَ لاَ شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ ، إِنَّ الحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ وَالمُلْكَ ، لاَ شَرِيكَ لَكَ » لاَ يَزِيدُ عَلَى هَؤُلاَءِ الكَلِمَاتِ. (رواه البخارى ومسلم)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৯৮৪
کتاب الحج
احرام کا پہلا تلبیہ کس وقت
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ (ذو الحلیفہ کی مسجد میں دو رکعت نماز پڑھنے کے بعد) جب آپ مسجد کے پاس ہی ناقہ کی رکاب میں پاؤں رکھتے اور ناقہ آپ کو لیکر سیدھی کھڑی ہو جاتی تو اس وقت آپ احرام کا تلبیہ پڑھتے ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
صحابہ کرام کی روایات اور ان کے اقوال اس بارے میں مختلف ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع مین احرام کا پہلا تلبیہ کس وقت اور کس جگہ پڑھا تھا ۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا بیان (جیسا کہ اس حدیث میں بھی مذکور ہے) یہ ہے کہ : ذو الحلیفہ کی مسجد میں دو رکعت نماز پڑھنے کے بعد آپ وہیں اپنی ناقہ پر سوار ہوئے ، اور ج ب ناقہ آپ کو لے کر سیدھی کھڑی ہوئی تو اس وقت آپ نے پہلی دفعہ احرام کا تلبیہ پڑھا اور گویا اس وقت سے آپ محرم ہوئے ، اور بعض دوسرے صحابہ کا بیان ہے کہ جب آپ ناقہ پر سوار ہو کر کچھ آگے بڑھے اور مقام “ بیداء ” پر پہنچے (جو ذو الحلیفہ کے بالکل قریب کسی قدر بلند میدان سا تھا) تو اس وقت آپ نے پہلا تلبیہ کہا ۔ اور بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ جب آپ نے مسجد ذو الحلیفہ میں دو گانہ احرام پڑھا تو اسی وقت ناقہ پر سوار ہونے سے پہلے آپ نے پہلا تلبیہ پڑھا .... سنن ابی داؤد اور مستدرک حاکم وغیرہ میں مشہور جلیل القدر تابعی حضرت سعید بن جبیر کا ایک بیان مروی ہے کہ میں نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے صحابہ کرام کے اختلاف کے بارے میں دریافت کیا تھا تو انہوں نے بتایا کہ : “ اصل واقعہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد ذو الحلیفہ میں دو گانہ احرام پڑھنے کے بعد متصلاً پہلا تلبیہ پڑھا تھا ، لیکن اس کا علم صرف ان چند لوگوں کو ہوا جو اس قت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب وہاں موجود تھے اس کے جب آپ وہیں ناقہ پر سوار ہوئے اور ناقہ سیدھی کھڑی ہوئی تو اس وقت پھر آپ نے تلبیہ پڑھا اور ناقہ پر سوار ہونے کے بعد یہ آپ کا پہلا تلبیہ تھا تو جن لوگوں نے یہ تلبیہ آپ سے سنا اور پہلا نہیں سنا تھا ، انہوں نے سمجھا کہ پہلا تلبیہ آپ نے ناقہ پر سوار ہو کر پڑھا ۔ پھر جب ناقہ چل دی اور مقام بیداء پر پہنچی تو آپ نے تلبیہ پڑھا ، تو جن لوگوں نے پہلا اور دوسرا تلبیہ آپ سے نہیں سنا تھا انہوں نے سمجھا کہ آپ نے پہلا تلبیہ اس وقت پڑھا جب آپ بیداء پر پہنچے ” ۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے اس بیان سے اصل حقیقت پوری طرح واضح ہو جاتی ہے ۔
عَنِ عَبْدُاللهِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : إِذَا أَدْخَلَ رِجْلَهُ فِي الغَرْزِ ، وَاسْتَوَتْ بِهِ نَاقَتُهُ قَائِمَةً ، أَهَلَّ مِنْ عِنْدِ مَسْجِدِ ذِي الحُلَيْفَةِ. (رواه البخارى ومسلم)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৯৮৫
کتاب الحج
تلبیہ بلند آواز سے پڑھا جائے
خلاد بن سائب تابعی اپنے والد سائب بن خلاد انصاری سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : میرے پاس جبرئیل آئے اور انہوں نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجھے حکم پہنچایا کہ میں اپنے ساتھیوں کو حکم دوں کہ تلبیہ بلند آواز سے پڑھیں ۔ (موطا امام مالک ، جامع ترمذی ، سنن ابی داؤد ، سنن نسائی ، سنن ابن ماجہ ، مسند دارمی)
عَنْ خَلَّادِ بْنِ السَّائِبِ ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : « أَتَانِي جِبْرِيلُ ، فَأَمَرَنِي أَنْ آمُرَ أَصْحَابِي أَنْ يَرْفَعُوا أَصْوَاتَهُمْ بِالْإِهْلَالِ اَوْالتَّلْبِيَةِ » (رواه مالك والترمذى وابوداؤد والنسائى وابن ماجه والدارمى)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৯৮৬
کتاب الحج
تلبیہ بلند آواز سے پڑھا جائے
حضرت سہل بن سعد سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ کا مؤمن و مسلم بندہ جب حج یا عمرہ کا تلبیہ پکارتا ہے (اور کہتا ہے : لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ ، لَبَّيْكَ الخ) تو اس کے داہنی طرف اور بائیں طرف اللہ کی جو بھی مخلوق ہوتی ہے ، خواہ وہ بے جان پتھر اور درخت یا ڈھیلے ہی ہوں ، وہ بھی اس بندے کے ساتھ لبیک کہتی ہیں ، یہاں تک کہ زمین اس طرف اور اس طرف سے تمام ہو جاتی ہے ۔ (جامع ترمذی ، سنن ابن ماجہ)

تشریح
یہ حقیقت واضح طور پر قرآن مجید میں بیان کی گئی ہے کہ کائنات کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کی تسبیح اور حمد کرتی ہے ، لیکن اس حمد و تسبیح کو انسان نہیں سمجھ سکتے .... بس اسی طرح سمجھنا چاہیے کہ لبیک کہنے والے صاحب ایمان بندہ کے ساتھ اس کے داہنے اور بائیں کی ہر چیز لَبَّيْكَ کہتی ہے ، لیکن ہم انسان اس لبیک کو نہیں سن سکتے ۔
عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : مَا مِنْ مُسْلِمٍ يُلَبِّي إِلاَّ لَبَّى مَنْ عَنْ يَمِينِهِ وَشِمَالِهِ مِنْ حَجَرٍ أَوْ مُدَرَ حَتَّى تَنْقَطِعَ الْأَرْضُ مِنْ هَهُنَا وَمِنْ هَهُنَا. (رواه الترمذى وابن ماجه)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৯৮৭
کتاب الحج
تلبیہ کے بعد کی خاص دعا
عمارہ بن خزیمہ بن ثابت انصاری اپنے والد سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب تلبیہ سے فارغ ہوتے (یعنی تلبیہ پڑھ کر محرم ہوتے) تو اللہ تعالیٰ سے اس کی رضا اور جنت کی دعا کرتے اور اس کی رحمت سے دوزخ سے خلاصی اور پناہ مانگتے ۔ (مسند شافعی)

تشریح
اس حدیث کی بناء پر علماء نے تلبیہ کے بعد ایسی دعا کو افضل اور مسنون کہا ہے جس میں اللہ تعالیٰ سے اس کی رضا اور جنت کا سوال کیا جائے اور دوزخ کے عذاب سے پناہ مانگی جائے ..... ظاہر ہے کہ مومن بندہ کی سب سے بڑی حاجت اور اس کا سب سے اہم مقصد یہی ہو سکتا ہے کہ اس کو اللہ تعالیٰ کی رضا اور جنت نصیب ہو جائے ، اور اللہ کے غضب اور دوزخ کے عذاب سے اس کو پناہ مل جائے ، اس لیے اس موقع کی سب سے اہم اور مقدم دعا یہی ہے ، اس کے بعد اس کے علاوہ بھی جو چاہے دعا کرے ۔ اَللَّهُمَّ اِنَّا نَسْأَلُكَ رِضَاكَ وَالْجَنَّةَ وَنَعُوْذُبِكَ مِنْ غَضَبِكَ وَالنَّار.
عَنْ عُمَارَةَ بْنِ خُزَيْمَةَ بْنِ ثَابِتٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ كَانَ إِذَا فَرَغَ مِنْ تَلْبِيَتِهِ سَأَلَ اللَّهَ رِضْوَانَهُ وَالْجَنَّةَ وَاسْتَعْفَاهُ بِرَحْمَتِهِ مِنَ النَّارِ. (رواه الشافعى)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৯৮৮
کتاب الحج
حجۃ الوداع یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا رخصتی حج
جعفر بن محمد (جو سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کے پرپوتے ہیں ، اور امام جعفر صادق کے لقب سے معروف ہیں) اپنے والد ماجد محمد بن علی (معروف بہ امام باقر) سے روایت کرتے ہیں کہ : ہم چند ساتھی جابر بن عبداللہ کی خدمت میں پہنچے ، انہوں نے ہم سے دریافت کیا کہ ہم کون کون ہیں ؟ (ہم میں سے ر ایک نے اپنے متعلق بتلایا) یہاں تک کہ جب میری باری آئی تو میں نے کہا کہ میں محمد بن علی بن حسین ہوں (وہ اس وقت بہت بوڑھے تھے اور نابینا ہو چکے تھے انہوں نے شفقت اور محبت سے) اپنا ہاتھ میرے سر پر رکھا ، پھر میرے کرتے کی اوپر والی گھنڈی کھولی ، اس کے نیچے والی گھنڈی کھولی ، پھر اپنا ہاتھ (کرتے کے اندر لے جا کر) میرے بیچ سینے پر رکھا ، اور میں ان دنوں بالکل جوان تھا (1) ، اور (میرے آنے پر اپنی مسرت کا اظہار کرتے ہوئے) مجھ سے فرمایا : مَرْحَبًا بِكَ ، يَا ابْنَ أَخِي (مرحبا ! میرے بھتیجے ، میرے بھائی حسین کی یادگار ! !) جو کچھ تمہیں مجھ سے پوچھنا ہے بے تکلف پوچھو ! (امام باقرؒ کہتے ہیں) کہ اس اثناء میں نماز کا وقت آ گیا ۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ ایک چھوٹی سی چادر لپیٹے ہوئے تھے ، وہ اسی میں لپٹے ہوئے نماز کے لیے کھڑے ہو گئے ، اور اس کے چھوٹے ہونے کی وجہ سے حالت یہ تھی کہ جب وہ اس کو اپنے مونڈھوں پر رکھتے تو اس کے کنارے اٹھ کر ان کی طرف آ جاتے ، حالانکہ ان کی رداء (یعنی بڑی چادر) ان کے قریب ہی لٹکن پر رکھی ہوئی تھی (مگر انہوں نے اس کو اوڑھ کر نماز پڑھنا ضروری نہیں سمجھا ، بلکہ وہی چھوٹی چادر لپیٹ کر ہمیں نماز پڑھائی) نماز سے فارغ ہونے کے بعد میں نے کہا کہ : “ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حج (حجۃ الوداع) کی تفصیلات بتائیے ؟ ” .... انہوں نے ہاتھ کی انگلیوں سے نو کی گنتی کا اشارہ کرتے ہوئے مجھ سے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ آ کر نو سال تک کوئی حج نہیں کیا ۔ پھر ۱۰؁ھ میں آپ نے اعلان کرایا کہ اس سال آپ کا ارادہ حج کرنے کا ہے ۔ یہ اطلاع پا کر لوگ بہت بڑی تعداد میں مدینہ آ گئے ۔ ہر ایک کی خواہش اور آرزو یہ تھی کہ اس مبارک سفر میں آپ کے ساتھ رہ کر آپ کی پوری پوری پیروی کرے اور آپ کے نقش قدم پر چلے ..... (حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ : پھر جب روانگی کا دن آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں) یہ پورا قافلہ مدینہ سے روانہ ہو کر ذو الحلیفہ آیا ، اور اس دن یہیں قیام کیا ۔ یہاں پہنچ کر ایک واقعہ یہ پیش آیا کہ اسماء بنت عمیس (جو ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بیوی تھیں ، اور وہ بھی اس قافلہ میں تھیں) ان کے یہاں بچہ پیدا ہوا (یعنی محمد بن ابی بکر) ۔ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ ایسی حالت میں میں کیا کروں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کہ اسی حالت میں احرام کے لیے غسل کر لیں ، اور جس طرح عورتیں ایسی حالت میں کپڑے کا لنگوٹ استعمال کرتی ہیں اسی طرح استعمال کریں ، اور احرام باندھ لیں ..... پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ذو الحلیفہ کی مسجد میں آخری نماز (ظہر کی) پڑھی ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ناقہ قصواء پر سوار ہوئے ، یہاں تک کہ جب ناقہ (مسجد ذو الحلیفہ سے کچھ آگے بڑھ کر) بیداء پر پہنچی (جو ذوالحلیفہ کے قریب ہی ذرا بلند اور ہموار میدان سا تھا) تو میں نے اس بلندی سے ہر طرف نگاہ دوڑائی تو آگے پیچھے دائیں بائیں حد نظر تک سوار اور پیادے آدمی ہی آدمی نظر آئے ، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان میں تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن نازل ہوتا تھا اور آپ اس کی حقیقت اور اس کا صحیح مطلب و مدعا جانتے تھے (اس لیے آپ جو کچھ بھی کرتے تھے اللہ کے حکم اور اس کی وحی کے مطابق کرتے تھے) اور ہمارا رویہ یہ تھا کہ جو کچھ آپ کو کرتے دیکھتے تھے وہی ہم بھی کرتے تھے (تو جب آپ کی ناقہ بیداء پر پہنچی) اس وقت آپ نے بلند آواز میں توحید کا یہ تلبیہ کہا :
لَبَّيْكَ اللهُمَّ ، لَبَّيْكَ ، لَبَّيْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ ، إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ ، وَالْمُلْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ.
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رفقاء صحابہ جو تلبیہ پڑھتے تھے (جس میں بعض الفاظ کا اضافہ بھی ہوتا تھا) انہوں نے اپنا وہی تلبیہ بلند آواز سے کہا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے تلبیہ کی کوئی تردید اور تغلیظ نہیں کی اور خود اپنا ہی تلبیہ پڑھتے رہے (مطلب یہ ہے کہ آپ کے بعد صحابہ تلبیہ میں بعض تعظیمی اور تعبدی کلمات کا اضافہ کر کے پکارتے تھے ، اور چونکہ اس کی اجازت اور گنجائش ہے اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اس سے منع نہیں فرمایا ، لیکن آپ نے اپنے تلبیہ میں کوئی کمی زیادتی نہیں فرمائی) ۔

تشریح
اس بارے میں علماء کے اختلاف رائے کا پہلے ذکر کیا جا چکا ہے کہ حج کی فرضیت کا حکم کس سنہ میں آیا ، اور یہ بھی لکھا جا چکا ہے کہ راجح قول یہ ہے کہ ۸؁ھ میں مکہ معظمہ پر اسلامی اقتدار قائم ہو جانے کے بعد ۹؁ھ میں حج کی فرضیت کا حکم آیا ۔ اس سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود تو حج نہیں فرمایا ، لیکن حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو امیر حج بنا کر بھیجا اور ان کی امارت میں اس سال حج ادا ہوا ، اور آئندہ کے لیے چند اہم اعلانات کئے گئے جن میں سے ایک یہ بھی تھا کہ آئندہ کوئی مشرک اور کافر حج میں شرکت نہیں کر سکے گا اور جاہلیت کے گندے اور مشرکانہ طور طریقوں کی کسی کو اجازت نہیں ہو گی .... غالباً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس سال خود حج نہ کرنے کی خاص حکمت یہ بھی تھی کہ آپ چاہتے تھے کہ آپ کا حج ایسا مثالی حج ہو جس میں کوئی ایک آدمی بھی کفر و شرک اور جاہلیت کے طور طریقوں سے حج کو مکدر کرنے والا نہ ہو ، بلکہ از اول تا آخر بس نور ہی نور اور خیر ہی خیر ہو ، اور آپ کی دعوت ہدایت اور تعلیم و تربیت کے نتائج کا صحیح آئینہ ہو .... اس طرح گویا ۹؁ھ کا یہ حج جو صدیق اکبر کی امارت میں ادا ہوا اگلے سال ہونے والے آپ کے حج کا پیش خیمہ اور اس کی تیاری کے سلسلہ ہی کا ایک قدر تھا ۔
پھر اگلے سال ۱۰؁ھ میں جو آپ کی حیا مبارکہ کا آخری سال ہے آپ نے حج کا ارادہ فرمایا ، اور چونکہ آپ کو یہ اشارہ مل چکا تھا کہ اب دنیا میں آپ کے قیام اور کام کا وقت تھوڑا ہی باقی رہ گیا ہے اس لیے آپ نے اس ارادہ حج کی خاص اہتمام سے اطلاع اور تشہیر کرائی تا کہ زیادہ سے زیادہ مسلمان اس مبارک سفر میں آپ کے ساتھ رہ کر مناسک حج اور دین کے دوسرے مسائل و احکام سیکھ سکیں اور سفر حج کی صحبت و رفاقت کے خاص برکات حاصل کر سکیں ۔ چنانچہ دور و قریب کے ہزارہا مسلمان جن کو اس کی اطلاع ہوئی اور ان کو کوئی خاص مجبوری نہیں تھی مدینہ طیبہ آ گئے ۔ ۲۴ ذی قعدہ کو جمعہ تھا اس دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ میں حج اور سفر حج کے متعلق خصوصیت سے ہدایتیں دیں اور اگلے دن ۲۵ ذیقعدہ ۱۰؁ھ بروز شنبہ بعد نماز ظہر مدینہ طیبہ سے یہ عظیم الشان قافلہ روانہ ہوا ، اور عصر کی نماز ذو الحلیفہ جا کر پڑھی ، جہاں آپ کو پہلی منزل کرنی تھی ، اور یہیں سے احرام باندھنا تھا ، رات بھی وہیں گزاری ار اگلے دن یکشنبہ کو ظہر کی نماز کے بعد آپ نے اور کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے احرام باندھا اور مکہ معظمہ کی طرف روانہ ہو گئے اور نویں دن ۴ ذی الحجہ کو مکہ معظمہ میں داخل ہوئے .... رفقاء سفر کی تعداد میں راستہ میں بھی اضافہ ہوتا رہا ۔
اس سفر میں آپ کے ساتھ حج کرنے والوں کی تعداد کے بارے میں روایات میں بہت اختلاف ہے ۔ چالیس ہزار سے لے کر ایک لاکھ بیس ہزار اور ایک لاکھ تیس ہزار تک کے بیانات روایتوں میں موجود ہیں ۔ اس عاجز کے نزدیک یہ اختلاف ایسا ہی ہے جیسا کہ بڑے مجمعوں اور میلوں میں شرکت کرنے والوں کی تعداد کے بارے میں لوگوں کے اندازے آج بھی مختلف ہوتے ہین ، جس نے جو عدد بتایا اپنے اندازے کے مطابق بتایا ۔ باقاعدہ حساب لگا کے اور شمار کر کے کسی نے بھی نہیں بتایا ، تاہم اتنی بات بطور قدر مشترک کے تمام ہی روایات میں ہے کہ مجمع بے حد و حساب تھا ، جدھر نظر جاتی تھی آدمی ہی آدمی نظر پڑتے تھے ۔
اس حج میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف مواقع پر خطبے دئیے اور بالکل اس انداز سے بلکہ صاف صاف یہ آگاہی دے کے یہ خطبے دئیے ک اب میرا وقت موعود قریب ہے اور تمہیں دین کی تعلیم و تربیت مجھ سے حاصل کرنے کا موقع اس کے بعد نہیں مل سکے گا ۔ بہر حال اس پورے سفر میں آپ نے تعلیم و تلقین اور ہدایت و ارشاد کا خاص اہتمام فرمایا ۔
حجۃ الوداع کے سلسلے مین جو روایات کتب حدیث میں ہیں (جن میں سے چند یہاں بھی درج کی جا رہی ہیں) ان سے حج کے مناسک و احکام اور اس کا تفصیلی طریقہ معلوم ہونے کے علاوہ دین اور شریعت کے دوسرے بہت سے ابواب اور شعبوں کے بارے میں نہایت اہم تعلیمات اور ہدایات بھی امت کو مل جاتی ہیں ..... حقیقت یہ ہے کہ قریباًٍ ایک مہینے کے اس سفر میں دین کی تعلیم و تبلیغ اور ہدایت و ارشاد کا اتنا کام ہوا ، اور اتنے وسیع پیمانے پر ہوا کہ اس کے بغیر برسوں بھی انجام نہیں پا سکتا .... اسی سے بعض باتوفیق اکابر امت نے سمجھا ہے کہ دین اور برکات دین حاصل کرنے کا موثر ترین ذریعہ دینی سفروں کی رفاقت اور صحبت ہے ۔
اس تمہید کے بعد حجۃ الوداع کے سلسلہ میں سب سے پہلے حضرت جابر بن عبداللہ کی حدیث صحیح مسلم سے نقل کی جاتی ہے ، لیکن چونکہ یہ حدیث بہت طویل ہے اس لیے ناظرین کی سہولت فہم کے لیے اس کے ایک ایک حصہ کا ترجمہ کر کے تشریح کی جائے گی ۔
عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ : دَخَلْنَا عَلَى جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ ، فَسَأَلَ عَنِ الْقَوْمِ حَتَّى انْتَهَى إِلَيَّ ، فَقُلْتُ : أَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنٍ ، فَأَهْوَى بِيَدِهِ إِلَى رَأْسِي فَنَزَعَ زِرِّي الْأَعْلَى ، ثُمَّ نَزَعَ زِرِّي الْأَسْفَلَ ، ثُمَّ وَضَعَ كَفَّهُ بَيْنَ ثَدْيَيَّ وَأَنَا يَوْمَئِذٍ غُلَامٌ شَابٌّ ، فَقَالَ : مَرْحَبًا بِكَ ، يَا ابْنَ أَخِي ، سَلْ عَمَّا شِئْتَ ، فَسَأَلْتُهُ ، وَهُوَ أَعْمَى ، وَحَضَرَ وَقْتُ الصَّلَاةِ ، فَقَامَ فِي نِسَاجَةٍ مُلْتَحِفًا بِهَا ، كُلَّمَا وَضَعَهَا عَلَى مَنْكِبَيْهِ رَجَعَ طَرَفَاهَا إِلَيْهِ مِنْ صِغَرِهَا ، وَرِدَاؤُهُ عَلَى جَنْبِهِ ، عَلَى الْمِشْجَبِ ، فَصَلَّى بِنَا ، فَقُلْتُ : أَخْبِرْنِي عَنْ حَجَّةِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : بِيَدِهِ فَعَقَدَ تِسْعًا ، فَقَالَ : إِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَكَثَ تِسْعَ سِنِينَ لَمْ يَحُجَّ ، ثُمَّ أَذَّنَ فِي النَّاسِ فِي الْعَاشِرَةِ ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَاجٌّ ، فَقَدِمَ الْمَدِينَةَ بَشَرٌ كَثِيرٌ ، كُلُّهُمْ يَلْتَمِسُ أَنْ يَأْتَمَّ بِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، وَيَعْمَلَ مِثْلَ عَمَلِهِ ، فَخَرَجْنَا مَعَهُ ، حَتَّى أَتَيْنَا ذَا الْحُلَيْفَةِ ، فَوَلَدَتْ أَسْمَاءُ بِنْتُ عُمَيْسٍ مُحَمَّدَ بْنَ أَبِي بَكْرٍ ، فَأَرْسَلَتْ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : كَيْفَ أَصْنَعُ؟ قَالَ : « اغْتَسِلِي ، وَاسْتَثْفِرِي بِثَوْبٍ وَأَحْرِمِي » فَصَلَّى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَسْجِدِ ، ثُمَّ رَكِبَ الْقَصْوَاءَ ، حَتَّى إِذَا اسْتَوَتْ بِهِ نَاقَتُهُ عَلَى الْبَيْدَاءِ ، نَظَرْتُ إِلَى مَدِّ بَصَرِي بَيْنَ يَدَيْهِ ، مِنْ رَاكِبٍ وَمَاشٍ ، وَعَنْ يَمِينِهِ مِثْلَ ذَلِكَ ، وَعَنْ يَسَارِهِ مِثْلَ ذَلِكَ ، وَمِنْ خَلْفِهِ مِثْلَ ذَلِكَ ، وَرَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ أَظْهُرِنَا ، وَعَلَيْهِ يَنْزِلُ الْقُرْآنُ ، وَهُوَ يَعْرِفُ تَأْوِيلَهُ ، وَمَا عَمِلَ مِنْ شَيْءٍ عَمِلْنَا بِهِ ، فَأَهَلَّ بِالتَّوْحِيدِ « لَبَّيْكَ اللهُمَّ ، لَبَّيْكَ ، لَبَّيْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ ، إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ ، وَالْمُلْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ » وَأَهَلَّ النَّاسُ بِهَذَا الَّذِي يُهِلُّونَ بِهِ ، فَلَمْ يَرُدَّ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَيْهِمْ شَيْئًا مِنْهُ ، وَلَزِمَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَلْبِيَتَهُ.
tahqiq

তাহকীক: