মা'আরিফুল হাদীস (উর্দু)
معارف الحديث
کتاب الاذکار والدعوات - এর পরিচ্ছেদসমূহ
মোট হাদীস ২০ টি
হাদীস নং: ১০৫০
کتاب الاذکار والدعوات
ذکر اللہ کی عظمت اور اس کی برکات
حضرت ابو ہریرہ اور ابو سعید خدری رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب بھی اور جہاں بھی بیٹھ کے کچھ بندگانِ خدا اللہ کا ذکر کرتے ہیں تو لازمی طور پر فرشتے ہر طرف سے ان کے گرد جمع ہو جاتے ہیں اور ان کو گھیر لیتے ہیں اور رحمت الہی ان پر چھا جاتی ہے اور ان کو اپنے سایہ میں لے لیتی ہے اور ان پر سکینہ کی کیفیت نازل ہوتی ہے اور اللہ اپنے ملائکہ مقربین میں کا ذکر فرماتا ہے ۔ (صحیح مسلم)
تشریح
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اسی سلسلہ معارف الحدیث میں “کتاب الطہارۃ” کے بالکل شروع میں “حجۃ اللہ البالغہ” کے حوالے سے حضرت شاہ ولی اللہؒ کا یہ ارشاد نقل کیا جا چکا ہے کہ :
“اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص فضل سے مجھے یہ حقیقت سمجھا دی ہے کہ فلاح و سعادت کی شاہراہ کی طرف دعوت دینے کے لئے انبیاء علیہم السلام کی بعثت ہوئی (جس کا نام شریعت ہے) اگرچہ اس کے بہت سے ابواب ہیں ، اور ہر باب کے تحت سینکڑوں ہزاروں احکام ہیں لیکن اپنی اس بے پناہ کثرت کے باوجود وہ سب بس ان چار اصولی عنوانوں کے تحت آ جاتے ہیں :
۱۔ طہارت
۲۔ اخبات
۳۔ سماحت
۴۔ عدالت
یہ لکھنے کے بعد شاہ صاحبؒ نے ان چاروں میں سے ہر ایک کی حقیقت بیان کی ہے جس کے مطالعہ سے یہ بات بالکل واضح ہو کر سامنے آ جاتی ہے کہ بلا شبہ ساری شریعت ان ہی چار شعبوں میں منقسم ہے ۔
جلد سوم میں (کتاب الطہارۃ) کے شروع میں حضرت شاہ صاحبؒ کے اس سلسلہ کلام کا صرف وہ حصہ تلخیص کے ساتھ نقل کیا گیا تھا جس میں انہوں نے طہارت کی حقیقت بیان فرمائی تھی ۔
اخبات کی حقیقت کے بارے میں جو کچھ انہوں نے فرمایا ہے اس کو مختصر الفاظ میں اس طرح کہا جا سکتا ہے کہ وہ :
“تحیر اور خوف و محبت کی کیفیات اور رضا جوئی و عنایت طلبی کے جذبہ کے ساتھ ساتھ اللہ ذوالجلال والجبروت کے حضور میں ظاہر و باطن سے اپنی بندگی و نیاز مندی اور محتاجی و رحمت طلبی کا اظہار ہے ۔”
اسی کا دوسرا معروفِ عام عنوان عبادت ہے ، اور وہی انسانوں کی تخلیق کا خاص مقصد ہے ۔ وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ
حضرت شاہ صاحبؒ نے سعادت کے ان چاروں شعبوں میں “حجۃ اللہ البالغہ” مقصد دوم میں ابواب الاحسان کے ذیل میں بھی کلام فرمایا ہے ، وہاں فرماتے ہیں کہ :
“ان میں سے پہلی چیز یعنی طہارت کی تحصیل کے لئے وضو اور غسل وغیرہ کا حکم دیا گیا ہے ، اور دوسری بنیات یعنی اخبات کی تحصیل کا خاص وسیلہ نماز اور اذکار اور قرآن مجید کی تلاوت ہے”۔ (1)
بلکہ کہا جا سکتا ہے کہ فی الحقیقت ذکر اللہ ہی اخبات کا مخصوص وسیلہ ہے اور نماز اور تلاوت اور اسی طرح دُعا بھی اس کی خاص خاص شکلیں ہیں ۔
بہرحال نماز اور ذکر اللہ اور تلاوتِ کلام مجید ، ان سب کی غرض و غایت اس مبارک صفت کی تحصیل و تکمیل ہے جس کو حضرت شاہ ولی اللہؒ نے اخبات کے عنوان سے ادا کیا ہے ، اس لئے یہ سب ایک ہی قبیل کی چیزیں ہیں ۔
نماز کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کی احادیث اور آپ ﷺ کے ارشادات و معمولات اللہ کی توفیق سے اس سلسلہ کی تیسری جلد میں پیش کئے جا چکے ہیں ۔ اذکار و دعوات اور تلاوتِ قرآن مجید سے متعلق حدیثیں اب اس پانچویں جلد میں پیش کی جا رہی ہیں ۔ اللہ تعالیٰ لکھنے والے اپنے اس گنہگار بندے کو اور پڑھنے والے حضرات کو ان احادیث پاک پر عمل کرنے اور پورا نفع اٹھانے کی توفیق عطا فرمائے ۔
ذکر اللہ کی عظمت اور اس کی برکات
جیسا کہ پہلے لکھا جا چکا ہے “ذکر اللہ” اپنے وسیع معنی کے لحاظ سے نماز ، تلاوتِ قرآن اور دُعا و استغفار وغیرہ سب ہی کو شامل ہے ، اور یہ سب اس کی خاص خاص شکلیں ہیں ۔ لیکن مخصوص عرف و اصطلاح میں اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تقدیس ، توحید و تمجید ، اس کی عظمت و کبریائی اور اس کی صفات کمال کے بیان اور دھیان کو “ذکر اللہ” کہا جاتا ہے اور جیسا کہ آگے درج ہونے والی بعض احادیث سے صراحۃً معلوم ہو گا یہ اللہ تعالیٰ کے قرب و رضا اور انسان کی روحانی ترقی اور ملاءِ اعلیٰ سے اس کے ربط کا خاص الخاص وسیلہ ہے ۔
شیخ ابن القیم نے “مدارج السالکین” میں ذکر اللہ کی عظمت و اہمیت اور اس کی برکات پر ایک بڑا بصیرت افروز اور روح پرور مضمون لکھا ہے ، اس کے ایک حصہ کا خلاصہ ہم یہاں بھی درج کرتے ہیں ۔
آگے درج ہونے والی احادیث میں ذِکراللہ کی جو عظمت بیان ہو گی اس مضمون کے مطالعہ کے بعد اس کا سمجھنا ان شاء اللہ آسان ہو گا ۔ فرماتے ہیں :
قرآن مجید میں ذِکراللہ کی تاکید و ترغیب کے ہم کو مندرجہ ذیل دس عنوانات ملتے ہیں :
۱۔ بعض آیات میں اہل ایمان کو تاکید کے ساتھ اس کا حکم دیا گیا ہے ، مثلاً ارشاد فرمایا گیا ہے :
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اذْكُرُوا اللّٰهَ ذِكْرًا كَثِيْرًا وَّ سَبِّحُوْهُ بُكْرَةً وَّ اَصِيْلًا (الاحزاب۳۳: ۴۱، ۴۲)
اے ایمان والو! اللہ کو بہت یاد کیا کرو ، اور صبح و شام اس کی پاکی بیان کرو ۔
دوسری جگہ ارشاد فرمایا گیا ہے :
وَ اذْكُرْ رَّبَّكَ فِيْ نَفْسِكَ تَضَرُّعًا وَّ خِيْفَةً
اور اپنے رب کا ذکر کرو اپنے جی میں (یعنی دل سے) گِڑگِڑا کر اور خوف کی کیفیت کے ساتھ ۔
۲۔ بعض آیات میں اللہ کو بھولنے اور اس کی یاد سے غافل ہونے سے شدت کے ساتھ منع فرمایا گیا ہے ۔ یہ بھی ذِکراللہ کی تاکید ہی کا ایک عنوان ہے ۔ مثلاً ارشاد ہے :
وَ لَا تَكُنْ مِّنَ الْغٰفِلِيْنَ (اعفار ۷ : ۲۰۵)
اور نہ ہونا تم غفلت والوں میں سے
دوسری جگہ ارشاد ہے :
وَ لَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِيْنَ نَسُوا اللّٰهَ فَاَنْسٰىهُمْ اَنْفُسَهُمْ (الحشر ۵۹ : ۱۹)
اور تم ان میں سے نہ ہو جاؤ ، جنہوں نے اللہ کو بُھلا دیا پھر (اس کی پاداش میں) اللہ نے ان کو ان کے نفس بھلا دئیے (اور خدا فراموشی کے نتیجہ میں وہ خود فراموش ہو گئے)
۳۔ بعض آیات میں فرمایا گیا ہے کہ فلاح اور کامیابی اللہ کے ذکر کی کثرت کے ساتھ وابستہ ہے ۔ ارشاد ہے :
وَ اذْكُرُوا اللّٰهَ كَثِيْرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ (سورۃ الجمعہ ۶۲ : ۱۰)
اور کثرت کے ساتھ اللہ کا ذکر کرو ، پھر تم فلاح و کامیابی کی امید کر سکتے ہو ۔
۴۔ بعض آیات میں حق تعالیٰ کی طرف سے اہلِ ذکر کی تعریف کی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ ذکر کے صلہ میں ان کے ساتھ رحمت و مغفرت کا خاص معاملہ کیا جائے گا اور ان کو اجرِ عظیم سے نوازا جائے گا ۔ چنانچہ سورہ احزاب میں ایمان والے بندوں اور بندیوں کے چند دوسرے ایمانی اوصاف بیان کرنے کے بعد ارشاد فرمایا گیا ہے :
وَ الذّٰكِرِيْنَ اللّٰهَ كَثِيْرًا وَّ الذّٰكِرٰتِ١ۙ اَعَدَّ اللّٰهُ لَهُمْ مَّغْفِرَةً وَّ اَجْرًا عَظِيْمًا
اور کثرت سے اللہ کا ذکر کرنے والے اس کے بندے اور اس کی بندیاں اللہ تعالیٰ نے اپنے ان بندوں اور بندیوں کے لئے تیار کر رکھی ہے خاص بخشش اور عظیم ثواب ۔
۵۔ اسی طرح بعض آیات میں آگاہی دی گئی ہے کہ جو لوگ دنیا کی بہاروں اور لذتوں میں منہمک اور مست ہو کر اللہ کی یاد سے غافل ہو جائیں گے وہ ناکام اور نامراد رہیں گے ۔ مثلا سورہ منافقون میں ارشاد فرمایا گیا ہے :
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُلْهِكُمْ اَمْوَالُكُمْ وَ لَاۤ اَوْلَادُكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ١ۚ وَ مَنْ يَّفْعَلْ ذٰلِكَ فَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْخٰسِرُوْنَ
اے ایمان والو ! تمہاری دولت اولاد تم کو اللہ کے ذکر سے غافل نہ کرے ، اور جو لوگ اس غفلت میں مبتلا ہوں گے وہ بڑے گھاٹے اور نقصان میں رہیں گے ۔
یہ تینوں عنوان بھی ذِکراللہ کی تاکید اور ترغیب کے لئے بلاشبہ بڑے مؤثر ہیں ۔
۶۔ بعض آیات میں فرمایا گیا ہے کہ جو بندے ہمیں یاد کریں گے ہم ان کویاد کریں گے اور یاد رکھیں گے ۔
فَاذْكُرُوْنِيْۤ۠ اَذْكُرْكُمْ وَ اشْكُرُوْا لِيْ وَ لَا تَكْفُرُوْنِ (بقرہ : ۲ : ۱۵۲)
میرے بندو ! تم مجھے یاد کرو ، میں تم کو یاد رکھوں گا اور میرے احسان مانو اور ناشکری نہ کرو ۔
سبحان اللہ وبحمدہ ۔ بندے کی اس سے بڑی سعادت و کامیابی اور کیا ہو سکتی ہے کہ پوری کائنات کا خالق و مالک اس کو یاد کرے اور یاد رکھے ۔
۷۔ بعض آیات میں فرمایا گیا ہے کہ اللہ کے ذکر کو ہر چیز کے مقابلہ میں عظمت و فوقیت حاصل ہے اور اس کائنات میں وہ ہر چیز سے بالاتر اور بزرک تر ہے ۔
وَ لَذِكْرُ اللّٰهِ اَكْبَرُ (عنکبوت ع : ۵)
“اور یقین کرو کہ اللہ کا ذکر ہر چیز سے بزرک تر ہے”
بےشک اگر بندے کو عرفان نصیب ہو تو اللہ کا ذکر اس کے لئے اس ساری کائنات سے عظیم تر ہے ۔
۸۔ بعض آیات میں بڑے اونچے درجہ کے اعمال کے بارے میں ہدایت فرمائی گئی ہے کہ ان کے اختتام پر اللہ کا ذکر ہونا چاہئے گویا ذکر اللہ ہی کو ان اعمال کا “خاتمہ” بنانا چاہئے ۔ مثلا نماز کے بارے میں ارشاد فرمایا گیا ہے :
فَاِذَا قَضَيْتُمُ الصَّلٰوةَ فَاذْكُرُوا اللّٰهَ قِيٰمًا وَّ قُعُوْدًا وَّ عَلٰى جُنُوْبِكُمْ
جب تم نماز ادا کر لو تو اللہ کا ذکر کرو (ہر حال میں) کھڑے بیٹھے اور پہلوؤں کے بل لیٹے ۔
اور خاص کر جمعہ کی نماز کے بارے میں ارشاد ہے :
فَاِذَا قُضِيَتِ الصَّلٰوةُ فَانْتَشِرُوْا فِي الْاَرْضِ وَ ابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللّٰهِ وَ اذْكُرُوا اللّٰهَ كَثِيْرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ
جب جمعہ کی نماز ختم ہو جائے تو (اجازت ہے) کہ تم (مسجد سے نکل کر اپنے کام کاج کے سلسلہ میں) زمین میں چلو پھرو ، اور اللہ کا فضل تلاش کرو ، اور اس حالت میں بھی اللہ کا خوب ذکر کرو ، پھر تم فلاح کی امید کر سکتے ہو ۔
اور حج کے بارے میں ارشاد ہے :
فَاِذَا قَضَيْتُمْ مَّنَاسِكَكُمْ فَاذْكُرُوا اللّٰهَ كَذِكْرِكُمْ اٰبَآءَكُمْ اَوْ اَشَدَّ ذِكْرًا
پھر جب تم اپنے مناسک ادا کر کے فارغ ہو جاؤ تو اللہ کا ذکر کرو جیسے کہ تم (تفاخر کے طور پر) اپنے باپ داداؤں کا ذکر کیا کرتے تھے بلکہ اس سے بھی بہت زیادہ اللہ کا ذکر کرو ۔
ان آیات سے معلوم ہوا کہ نماز اور حج جیسی اعلیٰ درجہ کی عبادات سے فارغ ہونے کے بعد بھی بندہ کے لئے اللہ کے ذکر سے غافل ہونے کی گنجائش نہیں ہے ، بلکہ ان سے فراغت کے بعد بھی اس کے دل میں اور اس کی زبان پر اللہ کا ذکر ہونا چاہئے اور اسی کو ان اعمال کا خاتمہ بننا چاہئے ۔
۹۔ بعض آیات میں ذکراللہ کی ترغیب اس عنوان سے دی گئی ہے کہ دانش مند اور صاحب بصیرت بندے وہی ہیں جو ذکراللہ سے غافل نہیں ہوتے ۔ جس کا لازمی مفہوم یہ ہے کہ جو ذکراللہ سے غافل ہوں وہ عقل و بصیرت سے محرورم ہیں ۔ مثلاً سورہ آل عمرا کے آخری رکوع میں ارشاد فرمایا گیا ہے :
اِنَّ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ اخْتِلَافِ الَّيْلِ وَ النَّهَارِ لَاٰيٰتٍ لِّاُولِي الْاَلْبَابِۚۙ۰۰۱۹۰ الَّذِيْنَ يَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ قِيٰمًا وَّ قُعُوْدًا وَّ عَلٰى جُنُوْبِهِمْ (آل عمران : ۳ : ۱۹۰ ، ۱۹۱)
یقیناً زمین و آسمان کی تخلیق میں اور رات اور دن کی تبدیلیوں سے کھلی نشانیاں ہیں ان ارباب دانش کے لئے جو کھڑے بیٹھے اور لیٹنے کی حالت میں بھی اللہ کو یاد کرتے ہیں (اور اس سے غافل نہیں ہوتے) ۔
۱۰۔ بعض آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ اونچے سے اونچے اعمالِ صالحہ کا مقصد اور ان کی روح ذکراللہ ہے ۔ مثلاً نماز کے بارے میں ارشاد ہے :
اَقِمِ الصَّلٰوةَ لِذِكْرِيْ (طہ ۲۰ : ۱۴)
میری یاد کے لئے نماز قائم کرو ۔
اور مناسک کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے :
إِنَّمَا جُعِلَ الطَّوَافَ بِالْبَيْتِ، وَالسَّعْىُ بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ وَرَمْيُ الْجِمَارِ لِإِقَامَةِ ذِكْرِ اللَّهِ.
بیت اللہ کا طواف اور صفا ومروہ کے درمیان سعی ، اور جمرات کی رمی یہ سب چیزیں ذکراللہ ہی کے لئے مقرر ہوئی ہیں ۔
اور جہاد کے بارے میں ارشادِ خداوندی ہے :
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا لَقِيْتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوْا وَ اذْكُرُوا اللّٰهَ كَثِيْرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ
اے ایمان والو! جب تمہاری مڈ بھیڑ ہو جائے کسی دشمن فوج سے تو ثابت قدم رہو (اور قدم جما کے جنگ کرو) اور اللہ کا ذکر کرو ، امید ہے کہ تم فلاح یاب ہو گے ۔
اور ایک حدیث قدسی میں ہے :
إِنَّ عَبْدِي كُلَّ عَبْدِيَ الَّذِي يَذْكُرُنِي وَهُوَ مُلاَقٍ قِرْنَهُ
میرا بندہ مکمل بندہ وہ ہے جو اپنے حریف مقابل سے جنگ کے وقت بھی مجھے یاد کرتا ہے ۔
قرآن حدیث کے ان نصوص سے ظاہر ہے کہ نماز سے لے کر جہاد تک تمام اعمال صالحہ کی روح اور جان ذکراللہ ہے ۔ اور یہی ذکر اور دل و زبان سے اللہ کی یاد وہ پروانہ ولایت ہے جس کو عطا ہو گیا وہ واصل ہو گیا اور جس کو عطا نہیں ہوا وہ دور اور مہجور رہا ۔ یہ ذکراللہ والوں کے قلوب کی غذا اور ذریعہ حیات ہے ، اگر وہ ان کو نہ ملے تو جسم ان قلوب کے لئے قبور بن جائیں ۔ اور ذکر ہی سے دلوں کی دنیا کی آبادی ہے ، اگر دلوں کی دنیا اس سے خالی ہو جائے تو بالکل ویرانہ ہو کر رہ جائے اور ذکر ہی ان کا وہ ہتھیار ہے جس سے وہ روحانیت کے رہزنوں سے جنگ کرتے ہیں اور وہی ان کے لیے وہ ٹھنڈا پانی ہے جس سے وہ اپنے باطن کی آگ بجھاتے ہیں اور وہی ان کی بیماریوں کی وہ دوا ہے کہ اگر ان کو نہ ملے تو ان کے دل گرنے لگیں اور وہی وسیلہ رابط ہے ان کے اور ان کے علام الغیوب رب کے درمیان ۔ کیا خوب کہا گیا ہے ؎
اِذَا مَرِضْنَا تَدَاوَيْنَا بِذِكْرِكُمْفَنَتْرُكُ الذِّكْرَ اَحْيَانًا فَنَتَكَّسُ
جب ہم بیمار پڑ جاتے ہیں تو تمہاری یاد سے اپنا علاج کرتے ہیں اور جب کسی وقت یاد سے غافل ہو جائیں تو مرنے لگتے ہیں ۔
اللہ تعالیٰ نے جس طرح بینا آنکھوں کو روشنی اور بینائی سے منور کیا ہے اسی طرح ذکر کرنے والی زبانوں کو ذکر سے مزین رمایا ہے ، اسی لئے اللہ کی یاد سے غافل زبان اس آنکھ کی طرح ہے جو بینائی سے محروم ہے اور اس کان کی طرح ہے جو شنوائی کی صلاحیت کھو چکا ہے ، اور اس ہاتھ کی طرح ہے جو مفلوج ہو کر بیکار ہو گیا ہے ۔
ذکراللہ ہی وہ راستہ اور دروازہ ہے جو حق جل جلالہ اور اس کے بندے کے درمیان کھلا ہوا ہے اور اس سے بندہ اس کی بارگاہ عالی تک پہنچ سکتا ہے اور جب بندہ اللہ کے ذکر سے غافل ہوتا ہے تو یہ دروازہ بند ہو جاتا ہے ۔ کیا خوب کہا ہے کہنے والے نے ؎ فنسيان ذكر الله موت قلوبهم واجسامهم قبل القبور قبور
وارواحهم فى وحشة من جسومهموليس لهم حتى النشور نشور
اللہ کی یاد سے غافل ہو جانا اور فراموش کر دینا ان کے قلوب کی موت ہے ، اور ان کے جسم زمین والی قبروں سے پہلے ان کے مردہ دلوں کی قبریں ہیں ۔
اور ان کی روحیں سخت وحشت میں ہیں ان کے جسموں سے اور ان کے لئے قیامت اور حشر سے پہلے زندگی نہیں ۔(ملخصا من كلام الشيخ ابن القيم فى مدارج السالكين)
ناچیز راقم سطور عرض کرتا ہے کہ مندرجہ بالا اقتباس میں ذکراللہ کی تاکید و ترغیب کے جن دس عنوانات کا ذکر کیا گیا ہے ، قرآن مجید میں ان کے علاوہ بھی بعض عنوانات سے ذکراللہ کی ترغیب دی گئی ہے ۔ مثلاً فرمایا گیا ہے کہ :
“قلوب کو (یعنی اللہ سے رابطہ رکنے والوں کے دلوں اور ان کی روحوں کو) اللہ کے ذکر ہی سے چین و اطمینان حاصل ہوتا ہے ۔” اَلَا بِذِكْرِ اللّٰهِ تَطْمَىِٕنُّ الْقُلُوْبُ (جان لو کہ اللہ کے ذکر ہی سے دلوں کو چین اور سکون ملتا ہے)۔
ذکراللہ کی تاخیر اور برکت کے بارے میں ایک دوسرے ربانی محقق اور صرفی صاحب “سترصيع الجواهر الملكيه” کے چند فقروں کا ترجمہ بھی پڑھ لیا جائے ۔ آگے درج ہونے والی اس باب کی احادیث کے سمجھنے میں ان شاء اللہ اس سے بھی خاص مدد ملے گی ۔
فرماتے ہیں :
“قلوب کو نورانی بنانے اور اوصاف ردیہ کو اوصاف حمیدہ میں تبدیل کر دینے میں سب طاعات و عبادات سے زیادہ زوداثر اللہ تعالیٰ کا ذکر ہے”
خود اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
اِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِ١ؕ وَ لَذِكْرُ اللّٰهِ اَكْبَرُ
بلاشبہ نماز گندی اور ناشائستہ باتوں سے روکتی ہے اور یہ یقینی حقیقت ہے کہ اللہ کا ذکر بہت ہی بڑی چیز ہے ۔
اور اکابر نے فرمایاہے کہ :
“ذکر کا عمل قلب کو صاف کرنے میں بالکل ویسا ہی کام کرتا ہے جیسا کہ تانبے کو صاف کرنے اور مانجھنے میں بال ۔ اور باقی دوسری عبادات کا عمل قلوب کی صفائی کے بارے میں ویسا ہے جیسا کہ تانبے کے صاف کرنے میں صابن کا عمل ۔” (ترصیع الجواہر المکیہ)
اس تمہید کے بعد ذکراللہ کی عظمت اور برکات کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کے ارشادات پڑھئے :
تشریح ..... اس حدیث سے صراحۃً معلوم ہوا کہ اللہ کے کچھ بندوں کے ایک جگہ جمع ہو کر ذکر کرنے کی خاص برکات ہیں ۔ حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے اسی حدیث کی شرح میں فرمایا ہے :
“اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے کہ مسلمانوں کا جمع ہو کر ذکر وغیرہ کرنا رحمت و سکینت اور قرب ملائکہ کا خاص وسیلہ ہے”۔ (حجۃ اللہ البالغہ ، ص ۷۰ ، جلد :۲)
اس حدیث میں اللہ کا ذکر کرنے والے بندوں کے لیے چار خاص نعمتوں کا ذکر کیا گیا ہے ۔ ایک یہ کہ ہر طرف سے اللہ کے فرشتے ان کو گھیر لیتے ہیں ۔ دوسرے یہ کہ رحمت الٰہی ان کو اپنے آغوش اور سایہ میں لے لیتی ہے ، اور ان دونوں نعمتوں کے لازمی نتیجہ کے طور پر تیسری نعمت ان کو یہ حاصل ہوتی ہے کہ ان کے قلب پر “سکینت” نازل ہوتی ہے، جو عظیم ترین روحانی نعمتوں میں سے ہے ۔ یہاں سکینت سے مراد خاص درجہ کا قلبی اطمینان اور روحانی سکون ہے جو اللہ کے خاس بندوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے خصوصی عطیہ کے طور پر نصیب ہوتا ہے ، اسی کو اہلِ سلوک “جمعیت قلبی” بھی کہتے ہیں ۔ اس دولت اور نعمت کا صاحبِ سکینہ کو احساس اور شعور بھی ہوتا ہے ۔اور ذاکر بندوں کو ملنے والی چوتھی نعمت جس کا اس حدیث میں سب سے آخر میں ذکر کیا گیا ہے ۔ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے ملائکہ مقربین کے حلقہ میں ان ذاکر بندوں کا ذکر فرماتے ہیں ۔ مثلاً فرماتے ہیں کہ : “دیکھو آدمؑ کی اولاد میں سے میرے یہ بھی بندے ہیں جنہوں نے مجھے دیکھا نہیں غائبانہ ہی ایمان لائے ہیں ، اس کے باوجود محبت و خشیت کی کیسی کیفیت اور کیسے ذوق و شوق اور کیسے سوز و گداز کے ساتھ میرا ذکر کر رہے ہیں ۔ بلاشبہ مالک الملک کا اپنے مقرب فرشتوں کے سامنے اپنے بندوں کا اس طرح ذکر فرمانا وہ سب سے بڑی نعمت ہے جس سے آگے کسی نعمت کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا ۔ اللہ تعالیٰ اس سے محروم نہ رکھے ۔”
فائدہ ...... اس حدیث سے یہ بھی اشارہ ملا کہ اگر اللہ کا کوئی ذاکر بندہ اپنے قلب و باطن میں “سکینت” کی کیفیت محسوس نہ کرے (جو ایک محسوس کی جانے والی چیز ہے) تو اس کو سمجھنا چاہئے کہ ابھی وہ ذِکر کے اس مقام تک نہیں پہنچ سکا جس پر یہ نعمتیں موجود ہیں ، یا اس کی زندگی میں کچھ ایسی خرابیاں ہیں جو آثارِ ذکر کے حصول میں رکاوٹ بنی ہوئی ہیں ۔ بہرحال اسے اپنی اصلاح کی فکر کرنی چاہئے ۔ ربِ کریم کے وعدے برحق ہیں ۔
تشریح
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اسی سلسلہ معارف الحدیث میں “کتاب الطہارۃ” کے بالکل شروع میں “حجۃ اللہ البالغہ” کے حوالے سے حضرت شاہ ولی اللہؒ کا یہ ارشاد نقل کیا جا چکا ہے کہ :
“اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص فضل سے مجھے یہ حقیقت سمجھا دی ہے کہ فلاح و سعادت کی شاہراہ کی طرف دعوت دینے کے لئے انبیاء علیہم السلام کی بعثت ہوئی (جس کا نام شریعت ہے) اگرچہ اس کے بہت سے ابواب ہیں ، اور ہر باب کے تحت سینکڑوں ہزاروں احکام ہیں لیکن اپنی اس بے پناہ کثرت کے باوجود وہ سب بس ان چار اصولی عنوانوں کے تحت آ جاتے ہیں :
۱۔ طہارت
۲۔ اخبات
۳۔ سماحت
۴۔ عدالت
یہ لکھنے کے بعد شاہ صاحبؒ نے ان چاروں میں سے ہر ایک کی حقیقت بیان کی ہے جس کے مطالعہ سے یہ بات بالکل واضح ہو کر سامنے آ جاتی ہے کہ بلا شبہ ساری شریعت ان ہی چار شعبوں میں منقسم ہے ۔
جلد سوم میں (کتاب الطہارۃ) کے شروع میں حضرت شاہ صاحبؒ کے اس سلسلہ کلام کا صرف وہ حصہ تلخیص کے ساتھ نقل کیا گیا تھا جس میں انہوں نے طہارت کی حقیقت بیان فرمائی تھی ۔
اخبات کی حقیقت کے بارے میں جو کچھ انہوں نے فرمایا ہے اس کو مختصر الفاظ میں اس طرح کہا جا سکتا ہے کہ وہ :
“تحیر اور خوف و محبت کی کیفیات اور رضا جوئی و عنایت طلبی کے جذبہ کے ساتھ ساتھ اللہ ذوالجلال والجبروت کے حضور میں ظاہر و باطن سے اپنی بندگی و نیاز مندی اور محتاجی و رحمت طلبی کا اظہار ہے ۔”
اسی کا دوسرا معروفِ عام عنوان عبادت ہے ، اور وہی انسانوں کی تخلیق کا خاص مقصد ہے ۔ وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ
حضرت شاہ صاحبؒ نے سعادت کے ان چاروں شعبوں میں “حجۃ اللہ البالغہ” مقصد دوم میں ابواب الاحسان کے ذیل میں بھی کلام فرمایا ہے ، وہاں فرماتے ہیں کہ :
“ان میں سے پہلی چیز یعنی طہارت کی تحصیل کے لئے وضو اور غسل وغیرہ کا حکم دیا گیا ہے ، اور دوسری بنیات یعنی اخبات کی تحصیل کا خاص وسیلہ نماز اور اذکار اور قرآن مجید کی تلاوت ہے”۔ (1)
بلکہ کہا جا سکتا ہے کہ فی الحقیقت ذکر اللہ ہی اخبات کا مخصوص وسیلہ ہے اور نماز اور تلاوت اور اسی طرح دُعا بھی اس کی خاص خاص شکلیں ہیں ۔
بہرحال نماز اور ذکر اللہ اور تلاوتِ کلام مجید ، ان سب کی غرض و غایت اس مبارک صفت کی تحصیل و تکمیل ہے جس کو حضرت شاہ ولی اللہؒ نے اخبات کے عنوان سے ادا کیا ہے ، اس لئے یہ سب ایک ہی قبیل کی چیزیں ہیں ۔
نماز کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کی احادیث اور آپ ﷺ کے ارشادات و معمولات اللہ کی توفیق سے اس سلسلہ کی تیسری جلد میں پیش کئے جا چکے ہیں ۔ اذکار و دعوات اور تلاوتِ قرآن مجید سے متعلق حدیثیں اب اس پانچویں جلد میں پیش کی جا رہی ہیں ۔ اللہ تعالیٰ لکھنے والے اپنے اس گنہگار بندے کو اور پڑھنے والے حضرات کو ان احادیث پاک پر عمل کرنے اور پورا نفع اٹھانے کی توفیق عطا فرمائے ۔
ذکر اللہ کی عظمت اور اس کی برکات
جیسا کہ پہلے لکھا جا چکا ہے “ذکر اللہ” اپنے وسیع معنی کے لحاظ سے نماز ، تلاوتِ قرآن اور دُعا و استغفار وغیرہ سب ہی کو شامل ہے ، اور یہ سب اس کی خاص خاص شکلیں ہیں ۔ لیکن مخصوص عرف و اصطلاح میں اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تقدیس ، توحید و تمجید ، اس کی عظمت و کبریائی اور اس کی صفات کمال کے بیان اور دھیان کو “ذکر اللہ” کہا جاتا ہے اور جیسا کہ آگے درج ہونے والی بعض احادیث سے صراحۃً معلوم ہو گا یہ اللہ تعالیٰ کے قرب و رضا اور انسان کی روحانی ترقی اور ملاءِ اعلیٰ سے اس کے ربط کا خاص الخاص وسیلہ ہے ۔
شیخ ابن القیم نے “مدارج السالکین” میں ذکر اللہ کی عظمت و اہمیت اور اس کی برکات پر ایک بڑا بصیرت افروز اور روح پرور مضمون لکھا ہے ، اس کے ایک حصہ کا خلاصہ ہم یہاں بھی درج کرتے ہیں ۔
آگے درج ہونے والی احادیث میں ذِکراللہ کی جو عظمت بیان ہو گی اس مضمون کے مطالعہ کے بعد اس کا سمجھنا ان شاء اللہ آسان ہو گا ۔ فرماتے ہیں :
قرآن مجید میں ذِکراللہ کی تاکید و ترغیب کے ہم کو مندرجہ ذیل دس عنوانات ملتے ہیں :
۱۔ بعض آیات میں اہل ایمان کو تاکید کے ساتھ اس کا حکم دیا گیا ہے ، مثلاً ارشاد فرمایا گیا ہے :
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اذْكُرُوا اللّٰهَ ذِكْرًا كَثِيْرًا وَّ سَبِّحُوْهُ بُكْرَةً وَّ اَصِيْلًا (الاحزاب۳۳: ۴۱، ۴۲)
اے ایمان والو! اللہ کو بہت یاد کیا کرو ، اور صبح و شام اس کی پاکی بیان کرو ۔
دوسری جگہ ارشاد فرمایا گیا ہے :
وَ اذْكُرْ رَّبَّكَ فِيْ نَفْسِكَ تَضَرُّعًا وَّ خِيْفَةً
اور اپنے رب کا ذکر کرو اپنے جی میں (یعنی دل سے) گِڑگِڑا کر اور خوف کی کیفیت کے ساتھ ۔
۲۔ بعض آیات میں اللہ کو بھولنے اور اس کی یاد سے غافل ہونے سے شدت کے ساتھ منع فرمایا گیا ہے ۔ یہ بھی ذِکراللہ کی تاکید ہی کا ایک عنوان ہے ۔ مثلاً ارشاد ہے :
وَ لَا تَكُنْ مِّنَ الْغٰفِلِيْنَ (اعفار ۷ : ۲۰۵)
اور نہ ہونا تم غفلت والوں میں سے
دوسری جگہ ارشاد ہے :
وَ لَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِيْنَ نَسُوا اللّٰهَ فَاَنْسٰىهُمْ اَنْفُسَهُمْ (الحشر ۵۹ : ۱۹)
اور تم ان میں سے نہ ہو جاؤ ، جنہوں نے اللہ کو بُھلا دیا پھر (اس کی پاداش میں) اللہ نے ان کو ان کے نفس بھلا دئیے (اور خدا فراموشی کے نتیجہ میں وہ خود فراموش ہو گئے)
۳۔ بعض آیات میں فرمایا گیا ہے کہ فلاح اور کامیابی اللہ کے ذکر کی کثرت کے ساتھ وابستہ ہے ۔ ارشاد ہے :
وَ اذْكُرُوا اللّٰهَ كَثِيْرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ (سورۃ الجمعہ ۶۲ : ۱۰)
اور کثرت کے ساتھ اللہ کا ذکر کرو ، پھر تم فلاح و کامیابی کی امید کر سکتے ہو ۔
۴۔ بعض آیات میں حق تعالیٰ کی طرف سے اہلِ ذکر کی تعریف کی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ ذکر کے صلہ میں ان کے ساتھ رحمت و مغفرت کا خاص معاملہ کیا جائے گا اور ان کو اجرِ عظیم سے نوازا جائے گا ۔ چنانچہ سورہ احزاب میں ایمان والے بندوں اور بندیوں کے چند دوسرے ایمانی اوصاف بیان کرنے کے بعد ارشاد فرمایا گیا ہے :
وَ الذّٰكِرِيْنَ اللّٰهَ كَثِيْرًا وَّ الذّٰكِرٰتِ١ۙ اَعَدَّ اللّٰهُ لَهُمْ مَّغْفِرَةً وَّ اَجْرًا عَظِيْمًا
اور کثرت سے اللہ کا ذکر کرنے والے اس کے بندے اور اس کی بندیاں اللہ تعالیٰ نے اپنے ان بندوں اور بندیوں کے لئے تیار کر رکھی ہے خاص بخشش اور عظیم ثواب ۔
۵۔ اسی طرح بعض آیات میں آگاہی دی گئی ہے کہ جو لوگ دنیا کی بہاروں اور لذتوں میں منہمک اور مست ہو کر اللہ کی یاد سے غافل ہو جائیں گے وہ ناکام اور نامراد رہیں گے ۔ مثلا سورہ منافقون میں ارشاد فرمایا گیا ہے :
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُلْهِكُمْ اَمْوَالُكُمْ وَ لَاۤ اَوْلَادُكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ١ۚ وَ مَنْ يَّفْعَلْ ذٰلِكَ فَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْخٰسِرُوْنَ
اے ایمان والو ! تمہاری دولت اولاد تم کو اللہ کے ذکر سے غافل نہ کرے ، اور جو لوگ اس غفلت میں مبتلا ہوں گے وہ بڑے گھاٹے اور نقصان میں رہیں گے ۔
یہ تینوں عنوان بھی ذِکراللہ کی تاکید اور ترغیب کے لئے بلاشبہ بڑے مؤثر ہیں ۔
۶۔ بعض آیات میں فرمایا گیا ہے کہ جو بندے ہمیں یاد کریں گے ہم ان کویاد کریں گے اور یاد رکھیں گے ۔
فَاذْكُرُوْنِيْۤ۠ اَذْكُرْكُمْ وَ اشْكُرُوْا لِيْ وَ لَا تَكْفُرُوْنِ (بقرہ : ۲ : ۱۵۲)
میرے بندو ! تم مجھے یاد کرو ، میں تم کو یاد رکھوں گا اور میرے احسان مانو اور ناشکری نہ کرو ۔
سبحان اللہ وبحمدہ ۔ بندے کی اس سے بڑی سعادت و کامیابی اور کیا ہو سکتی ہے کہ پوری کائنات کا خالق و مالک اس کو یاد کرے اور یاد رکھے ۔
۷۔ بعض آیات میں فرمایا گیا ہے کہ اللہ کے ذکر کو ہر چیز کے مقابلہ میں عظمت و فوقیت حاصل ہے اور اس کائنات میں وہ ہر چیز سے بالاتر اور بزرک تر ہے ۔
وَ لَذِكْرُ اللّٰهِ اَكْبَرُ (عنکبوت ع : ۵)
“اور یقین کرو کہ اللہ کا ذکر ہر چیز سے بزرک تر ہے”
بےشک اگر بندے کو عرفان نصیب ہو تو اللہ کا ذکر اس کے لئے اس ساری کائنات سے عظیم تر ہے ۔
۸۔ بعض آیات میں بڑے اونچے درجہ کے اعمال کے بارے میں ہدایت فرمائی گئی ہے کہ ان کے اختتام پر اللہ کا ذکر ہونا چاہئے گویا ذکر اللہ ہی کو ان اعمال کا “خاتمہ” بنانا چاہئے ۔ مثلا نماز کے بارے میں ارشاد فرمایا گیا ہے :
فَاِذَا قَضَيْتُمُ الصَّلٰوةَ فَاذْكُرُوا اللّٰهَ قِيٰمًا وَّ قُعُوْدًا وَّ عَلٰى جُنُوْبِكُمْ
جب تم نماز ادا کر لو تو اللہ کا ذکر کرو (ہر حال میں) کھڑے بیٹھے اور پہلوؤں کے بل لیٹے ۔
اور خاص کر جمعہ کی نماز کے بارے میں ارشاد ہے :
فَاِذَا قُضِيَتِ الصَّلٰوةُ فَانْتَشِرُوْا فِي الْاَرْضِ وَ ابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللّٰهِ وَ اذْكُرُوا اللّٰهَ كَثِيْرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ
جب جمعہ کی نماز ختم ہو جائے تو (اجازت ہے) کہ تم (مسجد سے نکل کر اپنے کام کاج کے سلسلہ میں) زمین میں چلو پھرو ، اور اللہ کا فضل تلاش کرو ، اور اس حالت میں بھی اللہ کا خوب ذکر کرو ، پھر تم فلاح کی امید کر سکتے ہو ۔
اور حج کے بارے میں ارشاد ہے :
فَاِذَا قَضَيْتُمْ مَّنَاسِكَكُمْ فَاذْكُرُوا اللّٰهَ كَذِكْرِكُمْ اٰبَآءَكُمْ اَوْ اَشَدَّ ذِكْرًا
پھر جب تم اپنے مناسک ادا کر کے فارغ ہو جاؤ تو اللہ کا ذکر کرو جیسے کہ تم (تفاخر کے طور پر) اپنے باپ داداؤں کا ذکر کیا کرتے تھے بلکہ اس سے بھی بہت زیادہ اللہ کا ذکر کرو ۔
ان آیات سے معلوم ہوا کہ نماز اور حج جیسی اعلیٰ درجہ کی عبادات سے فارغ ہونے کے بعد بھی بندہ کے لئے اللہ کے ذکر سے غافل ہونے کی گنجائش نہیں ہے ، بلکہ ان سے فراغت کے بعد بھی اس کے دل میں اور اس کی زبان پر اللہ کا ذکر ہونا چاہئے اور اسی کو ان اعمال کا خاتمہ بننا چاہئے ۔
۹۔ بعض آیات میں ذکراللہ کی ترغیب اس عنوان سے دی گئی ہے کہ دانش مند اور صاحب بصیرت بندے وہی ہیں جو ذکراللہ سے غافل نہیں ہوتے ۔ جس کا لازمی مفہوم یہ ہے کہ جو ذکراللہ سے غافل ہوں وہ عقل و بصیرت سے محرورم ہیں ۔ مثلاً سورہ آل عمرا کے آخری رکوع میں ارشاد فرمایا گیا ہے :
اِنَّ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ اخْتِلَافِ الَّيْلِ وَ النَّهَارِ لَاٰيٰتٍ لِّاُولِي الْاَلْبَابِۚۙ۰۰۱۹۰ الَّذِيْنَ يَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ قِيٰمًا وَّ قُعُوْدًا وَّ عَلٰى جُنُوْبِهِمْ (آل عمران : ۳ : ۱۹۰ ، ۱۹۱)
یقیناً زمین و آسمان کی تخلیق میں اور رات اور دن کی تبدیلیوں سے کھلی نشانیاں ہیں ان ارباب دانش کے لئے جو کھڑے بیٹھے اور لیٹنے کی حالت میں بھی اللہ کو یاد کرتے ہیں (اور اس سے غافل نہیں ہوتے) ۔
۱۰۔ بعض آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ اونچے سے اونچے اعمالِ صالحہ کا مقصد اور ان کی روح ذکراللہ ہے ۔ مثلاً نماز کے بارے میں ارشاد ہے :
اَقِمِ الصَّلٰوةَ لِذِكْرِيْ (طہ ۲۰ : ۱۴)
میری یاد کے لئے نماز قائم کرو ۔
اور مناسک کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے :
إِنَّمَا جُعِلَ الطَّوَافَ بِالْبَيْتِ، وَالسَّعْىُ بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ وَرَمْيُ الْجِمَارِ لِإِقَامَةِ ذِكْرِ اللَّهِ.
بیت اللہ کا طواف اور صفا ومروہ کے درمیان سعی ، اور جمرات کی رمی یہ سب چیزیں ذکراللہ ہی کے لئے مقرر ہوئی ہیں ۔
اور جہاد کے بارے میں ارشادِ خداوندی ہے :
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا لَقِيْتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوْا وَ اذْكُرُوا اللّٰهَ كَثِيْرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ
اے ایمان والو! جب تمہاری مڈ بھیڑ ہو جائے کسی دشمن فوج سے تو ثابت قدم رہو (اور قدم جما کے جنگ کرو) اور اللہ کا ذکر کرو ، امید ہے کہ تم فلاح یاب ہو گے ۔
اور ایک حدیث قدسی میں ہے :
إِنَّ عَبْدِي كُلَّ عَبْدِيَ الَّذِي يَذْكُرُنِي وَهُوَ مُلاَقٍ قِرْنَهُ
میرا بندہ مکمل بندہ وہ ہے جو اپنے حریف مقابل سے جنگ کے وقت بھی مجھے یاد کرتا ہے ۔
قرآن حدیث کے ان نصوص سے ظاہر ہے کہ نماز سے لے کر جہاد تک تمام اعمال صالحہ کی روح اور جان ذکراللہ ہے ۔ اور یہی ذکر اور دل و زبان سے اللہ کی یاد وہ پروانہ ولایت ہے جس کو عطا ہو گیا وہ واصل ہو گیا اور جس کو عطا نہیں ہوا وہ دور اور مہجور رہا ۔ یہ ذکراللہ والوں کے قلوب کی غذا اور ذریعہ حیات ہے ، اگر وہ ان کو نہ ملے تو جسم ان قلوب کے لئے قبور بن جائیں ۔ اور ذکر ہی سے دلوں کی دنیا کی آبادی ہے ، اگر دلوں کی دنیا اس سے خالی ہو جائے تو بالکل ویرانہ ہو کر رہ جائے اور ذکر ہی ان کا وہ ہتھیار ہے جس سے وہ روحانیت کے رہزنوں سے جنگ کرتے ہیں اور وہی ان کے لیے وہ ٹھنڈا پانی ہے جس سے وہ اپنے باطن کی آگ بجھاتے ہیں اور وہی ان کی بیماریوں کی وہ دوا ہے کہ اگر ان کو نہ ملے تو ان کے دل گرنے لگیں اور وہی وسیلہ رابط ہے ان کے اور ان کے علام الغیوب رب کے درمیان ۔ کیا خوب کہا گیا ہے ؎
اِذَا مَرِضْنَا تَدَاوَيْنَا بِذِكْرِكُمْفَنَتْرُكُ الذِّكْرَ اَحْيَانًا فَنَتَكَّسُ
جب ہم بیمار پڑ جاتے ہیں تو تمہاری یاد سے اپنا علاج کرتے ہیں اور جب کسی وقت یاد سے غافل ہو جائیں تو مرنے لگتے ہیں ۔
اللہ تعالیٰ نے جس طرح بینا آنکھوں کو روشنی اور بینائی سے منور کیا ہے اسی طرح ذکر کرنے والی زبانوں کو ذکر سے مزین رمایا ہے ، اسی لئے اللہ کی یاد سے غافل زبان اس آنکھ کی طرح ہے جو بینائی سے محروم ہے اور اس کان کی طرح ہے جو شنوائی کی صلاحیت کھو چکا ہے ، اور اس ہاتھ کی طرح ہے جو مفلوج ہو کر بیکار ہو گیا ہے ۔
ذکراللہ ہی وہ راستہ اور دروازہ ہے جو حق جل جلالہ اور اس کے بندے کے درمیان کھلا ہوا ہے اور اس سے بندہ اس کی بارگاہ عالی تک پہنچ سکتا ہے اور جب بندہ اللہ کے ذکر سے غافل ہوتا ہے تو یہ دروازہ بند ہو جاتا ہے ۔ کیا خوب کہا ہے کہنے والے نے ؎ فنسيان ذكر الله موت قلوبهم واجسامهم قبل القبور قبور
وارواحهم فى وحشة من جسومهموليس لهم حتى النشور نشور
اللہ کی یاد سے غافل ہو جانا اور فراموش کر دینا ان کے قلوب کی موت ہے ، اور ان کے جسم زمین والی قبروں سے پہلے ان کے مردہ دلوں کی قبریں ہیں ۔
اور ان کی روحیں سخت وحشت میں ہیں ان کے جسموں سے اور ان کے لئے قیامت اور حشر سے پہلے زندگی نہیں ۔(ملخصا من كلام الشيخ ابن القيم فى مدارج السالكين)
ناچیز راقم سطور عرض کرتا ہے کہ مندرجہ بالا اقتباس میں ذکراللہ کی تاکید و ترغیب کے جن دس عنوانات کا ذکر کیا گیا ہے ، قرآن مجید میں ان کے علاوہ بھی بعض عنوانات سے ذکراللہ کی ترغیب دی گئی ہے ۔ مثلاً فرمایا گیا ہے کہ :
“قلوب کو (یعنی اللہ سے رابطہ رکنے والوں کے دلوں اور ان کی روحوں کو) اللہ کے ذکر ہی سے چین و اطمینان حاصل ہوتا ہے ۔” اَلَا بِذِكْرِ اللّٰهِ تَطْمَىِٕنُّ الْقُلُوْبُ (جان لو کہ اللہ کے ذکر ہی سے دلوں کو چین اور سکون ملتا ہے)۔
ذکراللہ کی تاخیر اور برکت کے بارے میں ایک دوسرے ربانی محقق اور صرفی صاحب “سترصيع الجواهر الملكيه” کے چند فقروں کا ترجمہ بھی پڑھ لیا جائے ۔ آگے درج ہونے والی اس باب کی احادیث کے سمجھنے میں ان شاء اللہ اس سے بھی خاص مدد ملے گی ۔
فرماتے ہیں :
“قلوب کو نورانی بنانے اور اوصاف ردیہ کو اوصاف حمیدہ میں تبدیل کر دینے میں سب طاعات و عبادات سے زیادہ زوداثر اللہ تعالیٰ کا ذکر ہے”
خود اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
اِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِ١ؕ وَ لَذِكْرُ اللّٰهِ اَكْبَرُ
بلاشبہ نماز گندی اور ناشائستہ باتوں سے روکتی ہے اور یہ یقینی حقیقت ہے کہ اللہ کا ذکر بہت ہی بڑی چیز ہے ۔
اور اکابر نے فرمایاہے کہ :
“ذکر کا عمل قلب کو صاف کرنے میں بالکل ویسا ہی کام کرتا ہے جیسا کہ تانبے کو صاف کرنے اور مانجھنے میں بال ۔ اور باقی دوسری عبادات کا عمل قلوب کی صفائی کے بارے میں ویسا ہے جیسا کہ تانبے کے صاف کرنے میں صابن کا عمل ۔” (ترصیع الجواہر المکیہ)
اس تمہید کے بعد ذکراللہ کی عظمت اور برکات کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کے ارشادات پڑھئے :
تشریح ..... اس حدیث سے صراحۃً معلوم ہوا کہ اللہ کے کچھ بندوں کے ایک جگہ جمع ہو کر ذکر کرنے کی خاص برکات ہیں ۔ حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے اسی حدیث کی شرح میں فرمایا ہے :
“اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے کہ مسلمانوں کا جمع ہو کر ذکر وغیرہ کرنا رحمت و سکینت اور قرب ملائکہ کا خاص وسیلہ ہے”۔ (حجۃ اللہ البالغہ ، ص ۷۰ ، جلد :۲)
اس حدیث میں اللہ کا ذکر کرنے والے بندوں کے لیے چار خاص نعمتوں کا ذکر کیا گیا ہے ۔ ایک یہ کہ ہر طرف سے اللہ کے فرشتے ان کو گھیر لیتے ہیں ۔ دوسرے یہ کہ رحمت الٰہی ان کو اپنے آغوش اور سایہ میں لے لیتی ہے ، اور ان دونوں نعمتوں کے لازمی نتیجہ کے طور پر تیسری نعمت ان کو یہ حاصل ہوتی ہے کہ ان کے قلب پر “سکینت” نازل ہوتی ہے، جو عظیم ترین روحانی نعمتوں میں سے ہے ۔ یہاں سکینت سے مراد خاص درجہ کا قلبی اطمینان اور روحانی سکون ہے جو اللہ کے خاس بندوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے خصوصی عطیہ کے طور پر نصیب ہوتا ہے ، اسی کو اہلِ سلوک “جمعیت قلبی” بھی کہتے ہیں ۔ اس دولت اور نعمت کا صاحبِ سکینہ کو احساس اور شعور بھی ہوتا ہے ۔اور ذاکر بندوں کو ملنے والی چوتھی نعمت جس کا اس حدیث میں سب سے آخر میں ذکر کیا گیا ہے ۔ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے ملائکہ مقربین کے حلقہ میں ان ذاکر بندوں کا ذکر فرماتے ہیں ۔ مثلاً فرماتے ہیں کہ : “دیکھو آدمؑ کی اولاد میں سے میرے یہ بھی بندے ہیں جنہوں نے مجھے دیکھا نہیں غائبانہ ہی ایمان لائے ہیں ، اس کے باوجود محبت و خشیت کی کیسی کیفیت اور کیسے ذوق و شوق اور کیسے سوز و گداز کے ساتھ میرا ذکر کر رہے ہیں ۔ بلاشبہ مالک الملک کا اپنے مقرب فرشتوں کے سامنے اپنے بندوں کا اس طرح ذکر فرمانا وہ سب سے بڑی نعمت ہے جس سے آگے کسی نعمت کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا ۔ اللہ تعالیٰ اس سے محروم نہ رکھے ۔”
فائدہ ...... اس حدیث سے یہ بھی اشارہ ملا کہ اگر اللہ کا کوئی ذاکر بندہ اپنے قلب و باطن میں “سکینت” کی کیفیت محسوس نہ کرے (جو ایک محسوس کی جانے والی چیز ہے) تو اس کو سمجھنا چاہئے کہ ابھی وہ ذِکر کے اس مقام تک نہیں پہنچ سکا جس پر یہ نعمتیں موجود ہیں ، یا اس کی زندگی میں کچھ ایسی خرابیاں ہیں جو آثارِ ذکر کے حصول میں رکاوٹ بنی ہوئی ہیں ۔ بہرحال اسے اپنی اصلاح کی فکر کرنی چاہئے ۔ ربِ کریم کے وعدے برحق ہیں ۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ وَأَبِي سَعِيدٍ قَالَا: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا يَقْعُدُ قَوْمٌ يَذْكُرُونَ اللهَ إِلَّا حَفَّتْهُمُ الْمَلَائِكَةُ، وَغَشِيَتْهُمُ الرَّحْمَةُ، وَنَزَلَتْ عَلَيْهِمِ السَّكِينَةُ، وَذَكَرَهُمُ اللهُ فِيمَنْ عِنْدَهُ. (رواه ومسلم)

তাহকীক:
হাদীস নং: ১০৫১
کتاب الاذکار والدعوات
ذکر اللہ کی عظمت اور اس کی برکات
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ مسجد میں قائم ایک حلقہ پر پہنچے تو آپ نے ان اہلِ حلقہ سے پوچھا: تم کس لئے بیٹھے ہو؟ انہوں نے کہا: ہم بیٹھ کر اللہ کو یاد کر رہے ہیں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا اللہ کی قسم! تم صرف ذِکر اللہ ہی کے لیےبیٹھے ہو ؟ انہوں نے کہا : قسم بخدا ! ہمارے بیٹھنے کا کوئی اور مقصد اللہ کے ذِکر کے سوا نہیں ہے ۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا: آپ لوگوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ میں نے کسی بدگمانی کی بناء پر آپ لوگوں سے قسم نہیں لی ہے ، اصل بات یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جس درجہ کا تعلق اور قرب مجھے حاصل تھا اس درجہ کے تعلق والا آدمی آپ کو حدیثیں مجھ سے کم بیان کرنے والا نہیں ہے (یعنی میں روایت حدیث میں بہت زیادہ احتیاط کرتا ہوں اس لئے اپنے جیسے دوسرے لوگوں کی بہ نسبت بہت کم حدیثیں بیان کرتا ہوں اور میں نے اسی کی پیروی میں آپ لوگوں سے قسم لی ہے ۔ وہ حدیث یہ ہے کہ “رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن اپنے اصحاب کے ایک حلقہ کے پاس پہنچے آپ ﷺ نے ان سے پوچھا ۔ “آپ لوگ یہاں کیوں جڑے بیٹھے ہیں ؟ ” انہوں نے عرض کیا: ہم اللہ کو یاد کر رہے ہیں اور اس نے جو ہم کو ہدایت سے نوازا اور ایمان و اسلام کی توفیق دے کر احسانِ عظیم فرمایا اس پر اس کی حمد و ثناء کر رہے ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہیں معلوم ہے کہ میں نے تمہارے ساتھ کسی بدگمانی کی بناء پر تم سے قسم نہیں لی ، بلکہ واقعہ یہ ہے کہ ابھی جبرئیل امین علیہ السلام میرے پاس آئے اور انہوں نے بتایا کہ اللہ تعالیٰ فخر و مباہات کے ساتھ فرشتوں سے تم لوگوں کا ذکر فرما رہے ہیں ۔ (صحیح مسلم)
تشریح
معلوم ہوا کہ اللہ کے کچھ بندوں کا ایک جگہ بیٹھ کے اخلاص کے ساتھ اللہ کو یاد کرنا ، اس کی باتیں کرنا ، اس کی حمد و تسبیح کرنا اللہ کو بےحد پسند ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے خاص فرشتوں کے سامنے ایسے بندوں کے لئے اپنی رضا کا اظہار فرماتا ہے ۔ اَللَّهُمَّ اجْعَلْنَا مِنْهُمْ
تشریح
معلوم ہوا کہ اللہ کے کچھ بندوں کا ایک جگہ بیٹھ کے اخلاص کے ساتھ اللہ کو یاد کرنا ، اس کی باتیں کرنا ، اس کی حمد و تسبیح کرنا اللہ کو بےحد پسند ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے خاص فرشتوں کے سامنے ایسے بندوں کے لئے اپنی رضا کا اظہار فرماتا ہے ۔ اَللَّهُمَّ اجْعَلْنَا مِنْهُمْ
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ: خَرَجَ مُعَاوِيَةُ عَلَى حَلْقَةٍ فِي الْمَسْجِدِ، فَقَالَ: مَا أَجْلَسَكُمْ؟ قَالُوا: جَلَسْنَا نَذْكُرُ اللهَ، قَالَ آللَّهِ مَا أَجْلَسَكُمْ إِلَّا ذَاكَ؟ قَالُوا: وَاللهِ مَا أَجْلَسَنَا إِلَّا ذَاكَ، قَالَ: أَمَا إِنِّي لَمْ أَسْتَحْلِفْكُمْ تُهْمَةً لَكُمْ، وَمَا كَانَ أَحَدٌ بِمَنْزِلَتِي مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَقَلَّ عَنْهُ حَدِيثًا مِنِّي، وَإِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ عَلَى حَلْقَةٍ مِنْ أَصْحَابِهِ، فَقَالَ: «مَا أَجْلَسَكُمْ؟» قَالُوا: جَلَسْنَا نَذْكُرُ اللهَ وَنَحْمَدُهُ عَلَى مَا هَدَانَا لِلْإِسْلَامِ، وَمَنَّ بِهِ عَلَيْنَا، قَالَ: «آللَّهِ مَا أَجْلَسَكُمْ إِلَّا ذَاكَ؟» قَالُوا: وَاللهِ مَا أَجْلَسَنَا إِلَّا ذَاكَ، قَالَ: «أَمَا إِنِّي لَمْ أَسْتَحْلِفْكُمْ تُهْمَةً لَكُمْ، وَلَكِنَّهُ أَتَانِي جِبْرِيلُ فَأَخْبَرَنِي، أَنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ يُبَاهِي بِكُمُ الْمَلَائِكَةَ»

তাহকীক:
হাদীস নং: ১০৫২
کتاب الاذکار والدعوات
ذکر اللہ کی عظمت اور اس کی برکات
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : “اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ جس وقت بندہ میرا ذکر کرتا ہے اور میری یاد میں اس کے ہونٹ حرکت کرتے ہیں تو اس وقت میں اپنے اس بندہ کے ساتھ ہوتا ہوں ۔” (صحیح بخاری)
تشریح
اللہ تعالیٰ کی ایک معیت وہ ہے جو اس کائنات کی ہر اچھی بری چیز کو اور ہر مؤمن و کافر کو ہر وقت حاصل ہے ۔ کوئی چیز بھی کسی وقت اللہ سے دور نہیں ، اللہ ہر چیز کو محیط ہے ، ہر جگہ اور ہمہ وقت حاضر و ناظر ہے ۔ اور ایک معیت رضا اور قبول والی معیت ہے ۔ اس حدیث قدسی میں جس معیت کا ذکر ہے وہ یہی رضا اور قبول والی معیت ہے ۔ اور حدیث کا مدعا یہ ہے کہ جب میرا بندہ میرا قرب اور میری رضا حاصل کرنے کے لئے میرا ذکر کرتا ہے تو اس کو میرے قرب و رضا کی دولت فوراً مل جاتی ہے جو وہ ذکر کے ذریعہ حاصل کرنا چاہتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ اس دولت کی طلب ، اس کا ذوق و شوق اور پھر وہ دولت نصیب فرمائے ۔
تشریح
اللہ تعالیٰ کی ایک معیت وہ ہے جو اس کائنات کی ہر اچھی بری چیز کو اور ہر مؤمن و کافر کو ہر وقت حاصل ہے ۔ کوئی چیز بھی کسی وقت اللہ سے دور نہیں ، اللہ ہر چیز کو محیط ہے ، ہر جگہ اور ہمہ وقت حاضر و ناظر ہے ۔ اور ایک معیت رضا اور قبول والی معیت ہے ۔ اس حدیث قدسی میں جس معیت کا ذکر ہے وہ یہی رضا اور قبول والی معیت ہے ۔ اور حدیث کا مدعا یہ ہے کہ جب میرا بندہ میرا قرب اور میری رضا حاصل کرنے کے لئے میرا ذکر کرتا ہے تو اس کو میرے قرب و رضا کی دولت فوراً مل جاتی ہے جو وہ ذکر کے ذریعہ حاصل کرنا چاہتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ اس دولت کی طلب ، اس کا ذوق و شوق اور پھر وہ دولت نصیب فرمائے ۔
عَنْ أَبِىْ هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ اللهَ تَعَالَى يَقُولُ أَنَا مَعَ عَبْدِي إِذَا ذَكَرَنِي، وَتَحَرَّكَتْ بِي شَفَتَاهُ. (رواه البخارى)

তাহকীক:
হাদীস নং: ১০৫৩
کتاب الاذکار والدعوات
ذکر اللہ کی عظمت اور اس کی برکات
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : “اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ میرا معاملہ بندے کے ساتھ اس کے یقین کے مطابق ہے ۔ اور میں اس کے بالکل ساتھ ہوتا ہوں جب وہ مجھے یاد کرتا ہے ۔ اگر وہ مجھے اپنے جی میں اس طرح یاد کرے کہ کسی اور کو خبر بھی نہ ہو تو میں بھی اس کو اسی طرح یاد کروں گا ۔ اور اگر وہ دوسرے لوگوں کے سامنے مجھے یاد کرے تو میں ان سے بہتر بندوں کی جماعت میں اس کا ذکر کروں گا (یعنی ملائکہ کی جماعت میں اور ان کے سامنے)” ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
تشریح
حدیث کے پہلے جملے (أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِي بِي) کا مطلب یہ ہے کہ بندہ میرے بارے میں جیسا یقین قائم کرے گا تو میرا معاملہ اس کے ساتھ بالکل اسی کے مطابق ہو گا ۔ مثلاً وہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں رحم اور کرم کا یقین کرے تو اللہ تعالیٰ کو رحیم کریم ہی پائے گا ۔ اسی لئے بندہ کو چاہئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ اچھا یقین کرے اور اسی کے مطابق عمل کرے ۔ حدیث کے آخری حصہ میں جو فرمایا گیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ جب بندہ مجھے خلوت میں اس طرح یاد کرتا ہے کہ اس کے اور میرے سوا کسی کو اس کی خبر نہیں ہوتی تو میری عنایت بھی اس کے ساتھ اسی طرح مخفی ہوتی ہے ۔ ؎
میانِ عاشق و معشوق رمزیستکراماً کاتبین را ہم خبر نیست
اور جب بندہ جلوت میں اور دوسروں کے سامنے میرا ذکر کرتا ہے (جس میں دعوت اور ارشاد اور وعظ و نصیحت بھی داخل ہے) تو اس بندہ کے ساتھ اپنے تعلق اور اس کی قبولیت کا ذکر میں فرشتوں کے سامنے بھی کرتا ہوں ، جس کے بعد وہ بندہ فرشتوں میں مقبول و محبوب ہو جاتا ہے ، اور اس کے بعد اس دنیا میں بھی اس کو قبولِ عام اور محبوبیت عامہ حاصل ہو جاتی ہے ۔
اسی سنت اللہ کا ظہور ہے کہ بہت سے عرفاء کاملین جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ اپنے خاص تعلق کا اخفا کرتے ہیں اگرچہ اللہ کے ہاتھ اُن کو مقبولیت کا خاص الخاص مقام حاصل ہوتا ہے ۔ لیکن دنیا میں ان کو پہچانا ہی نہیں جاتا ، اور جن کا تعلق باللہ اور دعوتِ الی اللہ ظاہر اور جلی قسم کی ہوتی ہے ان کو دنیا میں بھی مقبولیت امہ حاصل ہو جاتی ہے ۔
تشریح
حدیث کے پہلے جملے (أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِي بِي) کا مطلب یہ ہے کہ بندہ میرے بارے میں جیسا یقین قائم کرے گا تو میرا معاملہ اس کے ساتھ بالکل اسی کے مطابق ہو گا ۔ مثلاً وہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں رحم اور کرم کا یقین کرے تو اللہ تعالیٰ کو رحیم کریم ہی پائے گا ۔ اسی لئے بندہ کو چاہئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ اچھا یقین کرے اور اسی کے مطابق عمل کرے ۔ حدیث کے آخری حصہ میں جو فرمایا گیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ جب بندہ مجھے خلوت میں اس طرح یاد کرتا ہے کہ اس کے اور میرے سوا کسی کو اس کی خبر نہیں ہوتی تو میری عنایت بھی اس کے ساتھ اسی طرح مخفی ہوتی ہے ۔ ؎
میانِ عاشق و معشوق رمزیستکراماً کاتبین را ہم خبر نیست
اور جب بندہ جلوت میں اور دوسروں کے سامنے میرا ذکر کرتا ہے (جس میں دعوت اور ارشاد اور وعظ و نصیحت بھی داخل ہے) تو اس بندہ کے ساتھ اپنے تعلق اور اس کی قبولیت کا ذکر میں فرشتوں کے سامنے بھی کرتا ہوں ، جس کے بعد وہ بندہ فرشتوں میں مقبول و محبوب ہو جاتا ہے ، اور اس کے بعد اس دنیا میں بھی اس کو قبولِ عام اور محبوبیت عامہ حاصل ہو جاتی ہے ۔
اسی سنت اللہ کا ظہور ہے کہ بہت سے عرفاء کاملین جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ اپنے خاص تعلق کا اخفا کرتے ہیں اگرچہ اللہ کے ہاتھ اُن کو مقبولیت کا خاص الخاص مقام حاصل ہوتا ہے ۔ لیکن دنیا میں ان کو پہچانا ہی نہیں جاتا ، اور جن کا تعلق باللہ اور دعوتِ الی اللہ ظاہر اور جلی قسم کی ہوتی ہے ان کو دنیا میں بھی مقبولیت امہ حاصل ہو جاتی ہے ۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَقُولُ اللَّهُ تَعَالَى: أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِي بِي، وَأَنَا مَعَهُ إِذَا ذَكَرَنِي، فَإِنْ ذَكَرَنِي فِي نَفْسِهِ ذَكَرْتُهُ فِي نَفْسِي، وَإِنْ ذَكَرَنِي فِي مَلَإٍ ذَكَرْتُهُ فِي مَلَإٍ خَيْرٍ مِنْهُمْ. (رواه البخارى ومسلم)

তাহকীক:
হাদীস নং: ১০৫৪
کتاب الاذکار والدعوات
ذکر اللہ کی عظمت اور اس کی برکات
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک سفر میں مکہ مکرمہ کی طرف تشریف لے جا رہے تھے ، راستے میں جَمْدان نامی پہاڑ پر سے گزر ہوا تو آپ ﷺنے فرمایا : یہ پہاڑ جمدان ہے ، مُفَرِّدُونَ سبقت لے گئے ۔ عرض کیا گیا : مُفَرِّدُونَ کون لوگ ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ کا زیادہ ذکر کرنے والے بندے اور زیادہ ذکرنے والی بندیاں ۔ (صحیح مسلم)
تشریح
جمدان ایک پہاڑی کا نام ہے جو مدینہ طیبہ کے قریب ہی ایک دن کی مسافت پر ہے ۔ متعدد حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ زمین کے جس حصہ پر اللہ کا نام لیا جاتا ہے اس کا شعور و احساس اس حصہ زمین کو ہوتا ہے ۔ چنانچہ ایک حدیث میں ہے کہ “ایک پہاڑ دوسرے پہاڑ پوچھتا ہے کہ کیا آج اللہ کا نام لینے والا کوئی بندہ تجھ پر سے گزرا ؟” جب وہ بتاتا ہے کہ ہاں گزرا ، تو وہ کہتا ہے کہ “تجھے بشارت ہو ، مبارک ہو !” معلوم ہوتا ہے کہ جمدان پہاڑ پر سے گزرتے ہوئے رسول اللہ ﷺ پر یہ بات منکشف ہوئی کہ جو زیادہ ذکر کرنے والے بندے اور بندیاں ہیں اُنہوں نے قبول و رضا کے بڑے مقامات حاصل کر لئے اور وہ بہت آگے بڑھ گئے ، تو آپ ﷺ نے یہ بات فرمائی کہ مُفَرِّدُونَ یعنی بہت زیادہ ذکر کرنے والے سبقت لے گئے ۔
مُفَرِّدُونَ کے لغوی معنی ہیں اپنے کو سب سے الگ اور اکیلا اور ہلکا پھلکا کر لینے والے ۔ اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو اللہ کے قرب و رضا کی طلب میں اپنے کو اس دنیا کی الجھنوں سے ہلکا کر لیں ، اور سب طرف سے کٹ کے اکیلے اللہ کے ہو جائیں ، یہی مقام تفرید ہے ، اور یہی قرآن مجید کی خاص اصطلاح میں تَبَتُّلْ ہے (وَ اذْكُرِ اسْمَ رَبِّكَ وَ تَبَتَّلْ اِلَيْهِ تَبْتِيْلًا) پس “الذَّاكِرُونَ اللهَ كَثِيرًا، وَالذَّاكِرَاتُ” کے مصداق وہی بندے ہیں جن کا یہ حال ہوا اور جنہوں نے ہر طرف سے کٹ کر اللہ جل جلالہ کو اپنا قبلہ مقصود بنا لیا ہو ۔
تشریح
جمدان ایک پہاڑی کا نام ہے جو مدینہ طیبہ کے قریب ہی ایک دن کی مسافت پر ہے ۔ متعدد حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ زمین کے جس حصہ پر اللہ کا نام لیا جاتا ہے اس کا شعور و احساس اس حصہ زمین کو ہوتا ہے ۔ چنانچہ ایک حدیث میں ہے کہ “ایک پہاڑ دوسرے پہاڑ پوچھتا ہے کہ کیا آج اللہ کا نام لینے والا کوئی بندہ تجھ پر سے گزرا ؟” جب وہ بتاتا ہے کہ ہاں گزرا ، تو وہ کہتا ہے کہ “تجھے بشارت ہو ، مبارک ہو !” معلوم ہوتا ہے کہ جمدان پہاڑ پر سے گزرتے ہوئے رسول اللہ ﷺ پر یہ بات منکشف ہوئی کہ جو زیادہ ذکر کرنے والے بندے اور بندیاں ہیں اُنہوں نے قبول و رضا کے بڑے مقامات حاصل کر لئے اور وہ بہت آگے بڑھ گئے ، تو آپ ﷺ نے یہ بات فرمائی کہ مُفَرِّدُونَ یعنی بہت زیادہ ذکر کرنے والے سبقت لے گئے ۔
مُفَرِّدُونَ کے لغوی معنی ہیں اپنے کو سب سے الگ اور اکیلا اور ہلکا پھلکا کر لینے والے ۔ اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو اللہ کے قرب و رضا کی طلب میں اپنے کو اس دنیا کی الجھنوں سے ہلکا کر لیں ، اور سب طرف سے کٹ کے اکیلے اللہ کے ہو جائیں ، یہی مقام تفرید ہے ، اور یہی قرآن مجید کی خاص اصطلاح میں تَبَتُّلْ ہے (وَ اذْكُرِ اسْمَ رَبِّكَ وَ تَبَتَّلْ اِلَيْهِ تَبْتِيْلًا) پس “الذَّاكِرُونَ اللهَ كَثِيرًا، وَالذَّاكِرَاتُ” کے مصداق وہی بندے ہیں جن کا یہ حال ہوا اور جنہوں نے ہر طرف سے کٹ کر اللہ جل جلالہ کو اپنا قبلہ مقصود بنا لیا ہو ۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَسِيرُ فِي طَرِيقِ مَكَّةَ فَمَرَّ عَلَى جَبَلٍ يُقَالُ لَهُ جُمْدَانُ، فَقَالَ: «سِيرُوا هَذَا جُمْدَانُ سَبَقَ الْمُفَرِّدُونَ» قَالُوا: وَمَا الْمُفَرِّدُونَ؟ يَا رَسُولَ اللهِ قَالَ: «الذَّاكِرُونَ اللهَ كَثِيرًا، وَالذَّاكِرَاتُ» (رواه مسلم)

তাহকীক:
হাদীস নং: ১০৫৫
کتاب الاذکار والدعوات
دوسرے تمام اعمال کے مقابلہ میں ذکر اللہ کی افضلیت
حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : “کیا میں تم کو وہ عمل بتاؤں جو تمہارے سارے اعمال میں بہتر اور تمہارے مالک کی نگاہ میں پاکیزہ تر ہے اور تمہارے درجوں کو دوسرے تمام اعمال سے زیادہ بلند کرنے والا ہے ، اور راہِ خدا میں سونا اور چاندی خرچ کرنے سے بھی زیادہ اس میں خیر ہے ، اور اس جہاد سے بھی زیادہ تمہارے لئے اس میں خیر ہے جس میں تم اپنے دشمنوں اور خدا کے دشمنوں کو موت کے گھاٹ اُتارو اور وہ تمہیں ذبح کریں اور شہید کریں ؟ صحابہؓ نے عرض کیا ۔ “ہاں یا رسول اللہ ! ایسا قیمتی عمل ضرور بتائیے ۔” آپ ﷺ نے فرمایا ۔ “وہ اللہ کا ذِکر ہے ۔” (مسند احمد ، جامع ترمذی ، سنن ابن ماجہ)
تشریح
یہ حدیث دراصل قرآن مجید کی آیت “ولذكر الله اكبر” کی تشریح و تفسیر ہے ۔ بےشک “ذکراللہ” اس لحاظ سے کہ وہ اصلاً بالذات مقصد اعلیٰ ہے اور اللہ کی رضا اور اس کے تقرب کا سب سے قریبی ذریعہ ہے ۔ وہ دوسرے تمام اعمال سے بہتر اور بالاتر ہے ۔ اور یہ اس کے منافی نہیں ہے کہ کسی خاص حالت میں اور کسی ہنگامی موقع پر صدقہ اور انفاق لوجہ اللہ یا جہاد و قتال فی سبیل اللہ کو زیادہ اہمیت حاصل ہو جائے ۔ اسی طرح یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایک عمل ایک اعتبار سے افضل و اہم ہو اور دوسرے اعتبار سے کوئی دوسرا عمل زیادہ اہمیت رکھتا ہو ۔ آگے درج ہونے والی حضرت ابو سعید خدریؓ اور حضرت عبداللہ بن عمرؓ کی حدیثوں کا مطلب و مدعا بھی قریب قریب یہی ہے اور ان میں سے ہر حدیث سے دوسری حدیث کی شرح اور تائید ہوتی ہے ۔
تشریح
یہ حدیث دراصل قرآن مجید کی آیت “ولذكر الله اكبر” کی تشریح و تفسیر ہے ۔ بےشک “ذکراللہ” اس لحاظ سے کہ وہ اصلاً بالذات مقصد اعلیٰ ہے اور اللہ کی رضا اور اس کے تقرب کا سب سے قریبی ذریعہ ہے ۔ وہ دوسرے تمام اعمال سے بہتر اور بالاتر ہے ۔ اور یہ اس کے منافی نہیں ہے کہ کسی خاص حالت میں اور کسی ہنگامی موقع پر صدقہ اور انفاق لوجہ اللہ یا جہاد و قتال فی سبیل اللہ کو زیادہ اہمیت حاصل ہو جائے ۔ اسی طرح یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایک عمل ایک اعتبار سے افضل و اہم ہو اور دوسرے اعتبار سے کوئی دوسرا عمل زیادہ اہمیت رکھتا ہو ۔ آگے درج ہونے والی حضرت ابو سعید خدریؓ اور حضرت عبداللہ بن عمرؓ کی حدیثوں کا مطلب و مدعا بھی قریب قریب یہی ہے اور ان میں سے ہر حدیث سے دوسری حدیث کی شرح اور تائید ہوتی ہے ۔
عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَلاَ أُنَبِّئُكُمْ بِخَيْرِ أَعْمَالِكُمْ، وَأَزْكَاهَا عِنْدَ مَلِيكِكُمْ، وَأَرْفَعِهَا فِي دَرَجَاتِكُمْ وَخَيْرٌ لَكُمْ مِنْ إِنْفَاقِ الذَّهَبِ وَالوَرِقِ، وَخَيْرٌ لَكُمْ مِنْ أَنْ تَلْقَوْا عَدُوَّكُمْ فَتَضْرِبُوا أَعْنَاقَهُمْ وَيَضْرِبُوا أَعْنَاقَكُمْ؟ قَالُوا: بَلَى. قَالَ: ذِكْرُ اللهِ. (رواه احمد والترمذى وابن ماجة)

তাহকীক:
হাদীস নং: ১০৫৬
کتاب الاذکار والدعوات
دوسرے تمام اعمال کے مقابلہ میں ذکر اللہ کی افضلیت
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا گیا کہ یا رسول اللہ! بندوں میں کون (یعنی کس عمل کا کرنے والا) سب سے افضل ہے ، اور قیامت میں کس کو اللہ کے ہاں زیادہ بلند درجہ ملنے والا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : “اللہ کو زیادہ یاد کرنے والے بندے اور زیادہ یاد کرنے والی بندیاں ”۔ (یعنی افضلیت اور قیامت میں درجہ کی بلندی انہیں کے لئے ہے) عرض کیا گیا : “یا رسول اللہ! کیا ان لوگوں کا درجہ اس بندے سے بھی اُونچا ہے جو (سربکف ہو کر) راہِ خدا میں جہاد کرے ؟” آپ ﷺ نے فرمایا : “اگر کسی بندہ نے (اس طرح جہاد میں جانبازی کی کہ) دشمنانِ حق (کفار و مشرکین) کی صفوں میں گھس کر تلوار چلائی یہاں تک کہ اس کی تلوار ٹوٹ گئی اور وہ دشمنوں کے ہاتھوں سے زخمی ہو کر خون میں شرابور ہو گیا ، جب بھی اللہ کا ذکر کرنے والا بندہ درجہ میں اس سے افضل ہے۔” (مسند احمد ، جامع ترمذی)
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُئِلَ أَيُّ العِبَادِ أَفْضَلُ دَرَجَةً عِنْدَ اللهِ يَوْمَ القِيَامَةِ؟ قَالَ: الذَّاكِرُونَ اللَّهَ كَثِيرًا وَالذَّاكِرَاتُ. قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ وَمِنَ الغَازِي فِي سَبِيلِ اللهِ؟ قَالَ: لَوْ ضَرَبَ بِسَيْفِهِ فِي الكُفَّارِ وَالمُشْرِكِينَ حَتَّى يَنْكَسِرَ وَيَخْتَضِبَ دَمًا لَكَانَ الذَّاكِرَ لِلَّهَ كَثِيرًا أَفْضَلَ مِنْهُ دَرَجَةً. (رواه احمد والترمذى)

তাহকীক:
হাদীস নং: ১০৫৭
کتاب الاذکار والدعوات
دوسرے تمام اعمال کے مقابلہ میں ذکر اللہ کی افضلیت
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کرتے تھے کہ : “ہر چیز کی صفائی کے لئے کوئی صیقل ہے ، اور قلوب کی صیقل (یعنی ان کی صفائی کا خاص مسالہ) ذِکراللہ ہے ، اور اللہ کے عذاب سے بچانے اور نجات دلانے میں اللہ کا ذکر جس قدر موثر ہے اتنی کوئی دوسری چیز موثر نہیں ۔” لوگوں نے عرض کیا : “یا رسول اللہ! کیا جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں ؟” آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : “ہاں ! وہ جہاد بھی عذاب خداوندی سے نجات دلانے میں ذِکر کے برابر مؤثر نہیں جس کا کرنے والا ایسی جانبازی سے جہاد کرے کہ تلوار چلاتے چلاتے اس کی تلوار بھی ٹوٹ جائے ۔ (دعوات کبیر للبیہقی)”
تشریح
اصل حقیقت یہی ہے کہ سارے اعمالِ صالحہ کے مقابلہ میں “ذکر اللہ” افضل اور عنداللہ محبوب تر ہے (وَ لَذِكْرُ اللّٰهِ اَكْبَرُ) بندے کو اللہ تعالیٰ کا جو قرب اور اس کی وجہ سے جو سعادت اور شرف ذکر کے وقت حاصل ہوتا ہے وہ کسی دوسرے عمل کے وقت نہیں ہوتا ، بشرطیکہ یہ ذکر عظمت اور محبت و خشیت اور دل کی توجہ کے ساتھ ہو ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد : فَاذْكُرُوْنِيْۤ اَذْكُرْكُمْ (تم مجھے یاد کرو میں تم کو یاد کروں گا) اور حدیث قدسی : “أَنَا جَلِيْسُ مَنْ ذَكَرَنِي...... وَأَنَا مَعَ عَبْدِي إِذَا هُوَ ذَكَرَنِي، وَتَحَرَّكَتْ بِي شَفَتَاهُ” (میں اپنے ذکر کرنے والے بندے کے ساتھ اور اس کا ہم نشین رہتا ہوں) ۔۔۔۔۔ اور میرا بندہ جب میرا ذکر کرتا ہے اور اس کے لب میرا ذکر کرنے سے حرکت کرتے ہیں تو بس اس کے بالکل پاس اور ساتھ ہوتا ہوں) بہرحال قرآن و حدیث کے ان واضح نصوص کا مدعا یہی ہے کہ تمام اعمالِ صالحہ میں ذکر اللہ ہی افضل اور عنداللہ محبوب تر اور اس کے قرب و رضا کا خاص الخاص وسیلہ ہے ۔ البتہ یہ ملحوظ رہے کہ اس ذکر میں اور نماز اور تلاوت قرآن وغیرہ اس قسم کی عبادات سب داخل ہیں ۔
تشریح
اصل حقیقت یہی ہے کہ سارے اعمالِ صالحہ کے مقابلہ میں “ذکر اللہ” افضل اور عنداللہ محبوب تر ہے (وَ لَذِكْرُ اللّٰهِ اَكْبَرُ) بندے کو اللہ تعالیٰ کا جو قرب اور اس کی وجہ سے جو سعادت اور شرف ذکر کے وقت حاصل ہوتا ہے وہ کسی دوسرے عمل کے وقت نہیں ہوتا ، بشرطیکہ یہ ذکر عظمت اور محبت و خشیت اور دل کی توجہ کے ساتھ ہو ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد : فَاذْكُرُوْنِيْۤ اَذْكُرْكُمْ (تم مجھے یاد کرو میں تم کو یاد کروں گا) اور حدیث قدسی : “أَنَا جَلِيْسُ مَنْ ذَكَرَنِي...... وَأَنَا مَعَ عَبْدِي إِذَا هُوَ ذَكَرَنِي، وَتَحَرَّكَتْ بِي شَفَتَاهُ” (میں اپنے ذکر کرنے والے بندے کے ساتھ اور اس کا ہم نشین رہتا ہوں) ۔۔۔۔۔ اور میرا بندہ جب میرا ذکر کرتا ہے اور اس کے لب میرا ذکر کرنے سے حرکت کرتے ہیں تو بس اس کے بالکل پاس اور ساتھ ہوتا ہوں) بہرحال قرآن و حدیث کے ان واضح نصوص کا مدعا یہی ہے کہ تمام اعمالِ صالحہ میں ذکر اللہ ہی افضل اور عنداللہ محبوب تر اور اس کے قرب و رضا کا خاص الخاص وسیلہ ہے ۔ البتہ یہ ملحوظ رہے کہ اس ذکر میں اور نماز اور تلاوت قرآن وغیرہ اس قسم کی عبادات سب داخل ہیں ۔
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ كَانَ يَقُولُ: «إِنَّ لِكُلِّ شَيْءٍ صِقَالَةً، وَإِنَّ صِقَالَةَ الْقُلُوبِ ذِكْرُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، وَمَا مِنْ شَىْءٍ أَنْجَى مِنْ عَذَابِ اللَّهِ مِنْ ذِكْرِ اللَّهِ " قَالُوا: وَلَا الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ؟ قَالَ: «وَلَا الْجِهَادُ، إِلَّا أَنْ يَضْرِبَ بِسَيْفِهِ حَتَّى يَنْقَطِعَ» (رواه البيهقى فى الدعوات الكبير)

তাহকীক:
হাদীস নং: ১০৫৮
کتاب الاذکار والدعوات
خاص ذِکر لسانی کی فضیلت
حضرت عبداللہ بسر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک اعرابی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور پوچھا کہ : “یا رسول اللہ! آدمیوں میں کون بہتر ہے”؟ (یعنی کس قسم کے آدمیوں کا انجام زیادہ اچھا ہونے والا ہے) آپ ﷺ نے فرمایا : “وہ لوگ جن کی عمر زیادہ ہو اور عمل اچھے ہوں” ۔ پھر انہوں نے پوچھا کہ : “یا رسول اللہ ! اعمال میں کون سا عمل افٖضل ہے” ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : “یہ کہ تم دنیا کو خیرباد کہو اور اس وقت تمہاری زبان اللہ کے ذکر دے تر ہو ۔ ” (مسند احمد ، جامع ترمذی)
تشریح
پہلے سوال کے جواب میں رسول اللہ ﷺ نے جو کچھ فرمایا اس کی وجہ ظاہر ہے کہ اچھے اعمال کے ساتھ عمر جتنی زیادہ ہو گی بندہ اتنی ہی ترقی کرے گا اور اللہ تعالیٰ کی رضا و رحمت کا اسی قدر زیادہ مستحق ہو گا ۔ دوسرے سوال کے جواب میں آپ ﷺ نے سب سے اچھا عمل یہ بتایا کہ مرتے دم تک اور خاص کر آخری وقت بندہ اللہ کے ذکر سے رطب اللسان ہو ۔ یعنی اس کی زبان پر ذوق اور لذت کے ساتھ اللہ کا نام ہو ۔ بلا شبہ یہ عمل اور یہ حال بڑا ہی عزیز اور قیمتی ہے ، اور جو بندہ اس کی قدر جانتا ہو وہ سب کچھ دے کے بھی اس کو لینے کے لئے خوشی سے آمادہ ہو گا ۔ اور یہ بھی ظاہر ہے کہ یہ بات اسی بندے کو نصیب ہو گی جو زندگی میں اللہ کے ذکر سے خاص مناسبت پیدا کر لے ، اور ذِکر اللہ اس کی روح کی غذا بن جائے ۔
تشریح
پہلے سوال کے جواب میں رسول اللہ ﷺ نے جو کچھ فرمایا اس کی وجہ ظاہر ہے کہ اچھے اعمال کے ساتھ عمر جتنی زیادہ ہو گی بندہ اتنی ہی ترقی کرے گا اور اللہ تعالیٰ کی رضا و رحمت کا اسی قدر زیادہ مستحق ہو گا ۔ دوسرے سوال کے جواب میں آپ ﷺ نے سب سے اچھا عمل یہ بتایا کہ مرتے دم تک اور خاص کر آخری وقت بندہ اللہ کے ذکر سے رطب اللسان ہو ۔ یعنی اس کی زبان پر ذوق اور لذت کے ساتھ اللہ کا نام ہو ۔ بلا شبہ یہ عمل اور یہ حال بڑا ہی عزیز اور قیمتی ہے ، اور جو بندہ اس کی قدر جانتا ہو وہ سب کچھ دے کے بھی اس کو لینے کے لئے خوشی سے آمادہ ہو گا ۔ اور یہ بھی ظاہر ہے کہ یہ بات اسی بندے کو نصیب ہو گی جو زندگی میں اللہ کے ذکر سے خاص مناسبت پیدا کر لے ، اور ذِکر اللہ اس کی روح کی غذا بن جائے ۔
عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ بُسْرٍ قَالَ: جَاءَ أَعْرَابِيٌّ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: أَيُّ النَّاسِ خَيْرٌ، فَقَالَ: طوبى لمن مَنْ طَالَ عُمُرُهُ، وَحَسُنَ عَمَلُهُ، قَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ أَيُّ الْأَعْمَالِ أَفْضَلُ؟ قَالَ: «أَنْ تُفَارِقَ الدُّنْيَا وَلِسَانُكَ رَطْبٌ مِنْ ذِكْرِ اللهِ. (رواه احمد والترمذى)

তাহকীক:
হাদীস নং: ১০৫৯
کتاب الاذکار والدعوات
خاص ذِکر لسانی کی فضیلت
حضرت عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں عرض کیا کہ : “اے اللہ کے پیغمبر (ﷺ) نیکی کے ابواب (یعنی ثواب کے کام) بہت ہیں اور یہ بات میری طاقت سے باہر ہے کہ میں ان سب کو بجا لاؤں ، لہذا آپ مجھے کوئی ایسی بات بتا دیجئے جس کو میں مضبوطی سے تھام لوں اور اس پر کاربند ہو جاؤں (اور بس وہی میرے لئے کافی ہو جائے) اسی کے ساتھ یہ بھی عرض ہے کہ جو کچھ آپ ﷺ بتائیں وہ بہت زیادہ بھی نہ ہو ، کیوں کہ خطرہ ہے کہ میں اس کو یاد بھی نہ رکھ سکوں ؟” آپ ﷺ نے فرمایا : (بس اس کا اہتمام کرو اور اس کی عادت ڈالو کہ) تمہاری زبان اللہ کے ذکر سے تر رہے ۔ (جامع ترمذی)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ تمہاری فلاح و کامیابی کے لئے بس یہی کافی ہے کہ اللہ کے ذکر سے رطب اللسان رہو ۔
تشریح
مطلب یہ ہے کہ تمہاری فلاح و کامیابی کے لئے بس یہی کافی ہے کہ اللہ کے ذکر سے رطب اللسان رہو ۔
عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ بُسْرٍ، أَنَّ رَجُلاً قَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ إِنَّ اَبْوَابَ الْخَيْرِ كَثِيْرَةٌ وَلَا اَسْتَطِيْعُ الْقِيَامَ بِكُلِّهَا فَأَخْبِرْنِي عَنْ شَيْءٍ أَتَشَبَّثُ بِهِ، وَلَا تُكْثِرْ عَلَىَّ فَاَنْسَى قَالَ: لاَ يَزَالُ لِسَانُكَ رَطْبًا مِنْ ذِكْرِ اللَّهِ. (رواه الترمذى)

তাহকীক:
হাদীস নং: ১০৬০
کتاب الاذکار والدعوات
خاص ذِکر لسانی کی فضیلت
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : اللہ کا ذکر اتنا اور اس طرح کرو کہ لوگ کہیں کہ یہ دیوانہ ہے ۔
تشریح
اہل دنیا جو تعلق باللہ کی دولت سے محروم ہیں جب کسی ایسے اللہ والے کو دیکھتے ہیں جس کو یہ دولت نصیب ہے ،اور اس کی وجہ سے وہ دنیا کی طرف سے کسی قدر بےفکر اور اللہ کی یاد اور اس کی رضا طلبی میں منہمک ہے ، اور اسی کے نام کی رَٹ لگا رہا ہے تو اپنے خیال کے مطابق وہ اس کو دیوانہ کہتے ہیں ، حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ وہ خود ہی دیوانے ہیں ؎
اوست دیوانہ کہ دیوانہ نہ شداوست فرزانہ کہ فرزانہ نہ شد
تشریح
اہل دنیا جو تعلق باللہ کی دولت سے محروم ہیں جب کسی ایسے اللہ والے کو دیکھتے ہیں جس کو یہ دولت نصیب ہے ،اور اس کی وجہ سے وہ دنیا کی طرف سے کسی قدر بےفکر اور اللہ کی یاد اور اس کی رضا طلبی میں منہمک ہے ، اور اسی کے نام کی رَٹ لگا رہا ہے تو اپنے خیال کے مطابق وہ اس کو دیوانہ کہتے ہیں ، حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ وہ خود ہی دیوانے ہیں ؎
اوست دیوانہ کہ دیوانہ نہ شداوست فرزانہ کہ فرزانہ نہ شد
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَكْثِرُوا ذِكْرَ اللهِ حَتَّ}ى يَقُولُوا: مَجْنُونٌ. (رواه احمد وابو يعلى)

তাহকীক:
হাদীস নং: ১০৬১
کتاب الاذکار والدعوات
ذکراللہ سے غفلت کا انجام حسرت و محرومی اور دل کی قساوت
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص کہیں بیٹھا اور اس نشست میں اس نے اللہ کو یاد نہیں کیا تو یہ نشست اس کے لئے بڑی حسرت اور خسران کا باعث ہو گی ، اور اسی طرح جو شخص کہیں لیٹا اور اس میں اس نے اللہ کو یاد نہیں کیا تو یہ لیٹنا اس کے لئے بڑی حسرت اور خسران کا باعث ہو گا ۔ (سنن ابی داؤد)
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ قَعَدَ مَقْعَدًا لَمْ يَذْكُرِ اللَّهَ فِيهِ كَانَتْ عَلَيْهِ مِنَ اللَّهِ تِرَةٌ، وَمَنْ اضْطَجَعَ مَضْجَعًا، لَا يَذْكُرُ اللَّهَ فِيهِ كَانَتْ عَلَيْهِ مِنَ اللَّهِ تِرَةٌ. (رواه ابوداؤد)

তাহকীক:
হাদীস নং: ১০৬২
کتاب الاذکار والدعوات
ذکراللہ سے غفلت کا انجام حسرت و محرومی اور دل کی قساوت
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : “اللہ کے ذکر کے بغیر زیادہ کلام نہ کیا کرو ، کیوں کہ اس سے دل میں قساوت (سختی اور بےحسی) پیدا ہوتی ہے اور لوگوں میں وہ آدمی اللہ سے زیادہ دو ر ہے جس کے قلب میں قساوت ہو ۔” (جامع ترمذی)
تشریح
حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جو آدمی اللہ کے ذکر کے بغیر زبان زیادہ چلانے کا عادی ہو گا اس کے دل میں قساوت یعنی بےحسی اور بےنوری پیدا ہو گی اور وہ اللہ کے قرب اور اس کی خاص رحمت سے محروم رہے گا ۔ اعاذنا الله منه
تشریح
حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جو آدمی اللہ کے ذکر کے بغیر زبان زیادہ چلانے کا عادی ہو گا اس کے دل میں قساوت یعنی بےحسی اور بےنوری پیدا ہو گی اور وہ اللہ کے قرب اور اس کی خاص رحمت سے محروم رہے گا ۔ اعاذنا الله منه
عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لاَ تُكْثِرُوا الكَلاَمَ بِغَيْرِ ذِكْرِ اللهِ فَإِنَّ كَثْرَةَ الكَلاَمِ بِغَيْرِ ذِكْرِ اللهِ قَسْوَةٌ لِلْقَلْبِ، وَإِنَّ أَبْعَدَ النَّاسِ مِنَ اللهِ القَلْبُ القَاسِي. (رواه الترمذى)

তাহকীক:
হাদীস নং: ১০৬৩
کتاب الاذکار والدعوات
کلمات ذِکر اور ان کی فضیلت و برکت
حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تمام کلموں میں افضل یہ چار کلمے ہیں : سُبْحَانَ اللَّهِ اور الْحَمْدُ لِلَّهِ اور لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ اور اللَّهُ أَكْبَرُ. (صحیح مسلم)
تشریح
رسول اللہ ﷺ نے جس طرح اللہ کے ذکر کی ترغیب دی اور تاکید فرمائی اُسی طرح اس کے خاص کلمات بھی تلقین فرمائے ، اگر یہ نہ ہوتا تو اس کا امکان تھا کہ علم و معرفت کی کمی کی وجہ سے بہت سے لوگ اللہ کا ذکر اس طرح کرتے جو اس کے شایان شان نہ ہوتا ، یا جس سے بجائے حمد و ثناء کے معاذ اللہ اس کی تنقیص ہوتی ۔ عارف رومی نے اپنی مثنوی میں حضرت موسیٰؑ اور ایک چرواہے کی جو حکایت بیان کی ہے وہ اسی کی ایک مثال ہے ۔
رسول اللہ ﷺ نے جو کلمات ذِکر تلقین فرمائے ہیں وہ معنوی لحاظ سے مندرجہ ذیل چند قسموں میں سے کسی ایک قسم کے ہیں : یا تو ان میں اللہ تعالیٰ کی تنزیہ اور تقدیس ہے (یعنی ان کا مفہوم اور مدعا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر اس بات سے منزہ اور پاک ہے جس میں عیب و نقص کا شائبہ بھی ہو) (سُبْحَانَ اللهِ) کا یہی مفہوم اور مدعا ہے ۔ یا ان میںٰ اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء ہے (یعنی ان کا مفہوم اور مدعا یہ ہے کہ ساری خوبیاں اور تمام کمالی صفات اللہ تعالیٰ میں ہیں اور اس لئے حمد و ثناء اسی کو سزاوار ہے ۔ (الْحَمْدُ لِلَّهِ) کی یہی خصوصیت ہے ۔ یا ان میں اللہ تعالیٰ کی توحید اور اس کی شانِ یکتائی کا بیان ہے ۔ چنانچہ (لَا إِلَهَ إِلا اللهُ) کی یہی شان ہے ۔ یا ان میں اللہ تعالیٰ کی اس شانِ عالی کا اظہار ہے کہ ہم نے اس کے بارے میں منفی اور مثبت طور پر جو کچھ جانا اور سمجھا ہے اللہ تعالیٰ اس سے بھی بلند و بالا اور وراء الوراء ہے ، (اللهُ أَكْبَرُ) کا یہی مفہوم و مدعا ہے ۔ یا ان کلمات میں اس حقیقت کا اظہار ہے کہ سب کچھ کرنے والا اللہ ہی ہے اس کے سوا کسی کے بس میں کچھ نہیں ، لہذا وہی اس کا حقدار ہے کہ اس سے مدد مانگی جائے اور اس پر بھروسہ کیا جائے ۔ (لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ) کی یہی نوعیت اور خصوصیت ہے ۔
اس طرح کے کلماتِ ذکر کے علاوہ مختلف اوقات اور مختلف حاجتوں کے لئے دعائیں آپ ﷺ نے تعلیم فرمائیں ۔ ان کے بارے میں ان شاء اللہ آگے مستقلاً لکھا جائے گا ۔
رسول اللہ ﷺ نے آگے درج ہونے والی حدیثوں میں جن کلماتِ ذکر کی تلقین فرمائی ہے وہ اختصار کے باوجود اللہ تعالیٰ کی تنزیہ و تقدیس اور تحمید و توحید اور اس کی شانِ کبریائی و صمدیت کے بیان میں بلاشبہ معجزانہ شان رکھتے ہیں اور اس کی معرفت کے گویا دروازے ہیں ۔
اس مختصر تمہید کے بعد اس سلسلہ کے رسول اللہ ﷺ کے چند ارشادات ذیل میں پڑھئے ۔
تشریح ..... اسی حدیث کی ایک دوسری روایت میں “أَفْضَلُ الْكَلَامِ أَرْبَعٌ” کے بجائے “أَحَبُّ الْكَلَامِ إِلَى اللهِ أَرْبَعٌ” کے الفاظ بھی نقل کئے گئے ہیں ، جس کا ترجمہ یہ ہو گا کہ سب کلموں مین اللہ تعالیٰ کو زیادہ پیارے یہ چار کلمے ہیں ۔
تشریح
رسول اللہ ﷺ نے جس طرح اللہ کے ذکر کی ترغیب دی اور تاکید فرمائی اُسی طرح اس کے خاص کلمات بھی تلقین فرمائے ، اگر یہ نہ ہوتا تو اس کا امکان تھا کہ علم و معرفت کی کمی کی وجہ سے بہت سے لوگ اللہ کا ذکر اس طرح کرتے جو اس کے شایان شان نہ ہوتا ، یا جس سے بجائے حمد و ثناء کے معاذ اللہ اس کی تنقیص ہوتی ۔ عارف رومی نے اپنی مثنوی میں حضرت موسیٰؑ اور ایک چرواہے کی جو حکایت بیان کی ہے وہ اسی کی ایک مثال ہے ۔
رسول اللہ ﷺ نے جو کلمات ذِکر تلقین فرمائے ہیں وہ معنوی لحاظ سے مندرجہ ذیل چند قسموں میں سے کسی ایک قسم کے ہیں : یا تو ان میں اللہ تعالیٰ کی تنزیہ اور تقدیس ہے (یعنی ان کا مفہوم اور مدعا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر اس بات سے منزہ اور پاک ہے جس میں عیب و نقص کا شائبہ بھی ہو) (سُبْحَانَ اللهِ) کا یہی مفہوم اور مدعا ہے ۔ یا ان میںٰ اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء ہے (یعنی ان کا مفہوم اور مدعا یہ ہے کہ ساری خوبیاں اور تمام کمالی صفات اللہ تعالیٰ میں ہیں اور اس لئے حمد و ثناء اسی کو سزاوار ہے ۔ (الْحَمْدُ لِلَّهِ) کی یہی خصوصیت ہے ۔ یا ان میں اللہ تعالیٰ کی توحید اور اس کی شانِ یکتائی کا بیان ہے ۔ چنانچہ (لَا إِلَهَ إِلا اللهُ) کی یہی شان ہے ۔ یا ان میں اللہ تعالیٰ کی اس شانِ عالی کا اظہار ہے کہ ہم نے اس کے بارے میں منفی اور مثبت طور پر جو کچھ جانا اور سمجھا ہے اللہ تعالیٰ اس سے بھی بلند و بالا اور وراء الوراء ہے ، (اللهُ أَكْبَرُ) کا یہی مفہوم و مدعا ہے ۔ یا ان کلمات میں اس حقیقت کا اظہار ہے کہ سب کچھ کرنے والا اللہ ہی ہے اس کے سوا کسی کے بس میں کچھ نہیں ، لہذا وہی اس کا حقدار ہے کہ اس سے مدد مانگی جائے اور اس پر بھروسہ کیا جائے ۔ (لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ) کی یہی نوعیت اور خصوصیت ہے ۔
اس طرح کے کلماتِ ذکر کے علاوہ مختلف اوقات اور مختلف حاجتوں کے لئے دعائیں آپ ﷺ نے تعلیم فرمائیں ۔ ان کے بارے میں ان شاء اللہ آگے مستقلاً لکھا جائے گا ۔
رسول اللہ ﷺ نے آگے درج ہونے والی حدیثوں میں جن کلماتِ ذکر کی تلقین فرمائی ہے وہ اختصار کے باوجود اللہ تعالیٰ کی تنزیہ و تقدیس اور تحمید و توحید اور اس کی شانِ کبریائی و صمدیت کے بیان میں بلاشبہ معجزانہ شان رکھتے ہیں اور اس کی معرفت کے گویا دروازے ہیں ۔
اس مختصر تمہید کے بعد اس سلسلہ کے رسول اللہ ﷺ کے چند ارشادات ذیل میں پڑھئے ۔
تشریح ..... اسی حدیث کی ایک دوسری روایت میں “أَفْضَلُ الْكَلَامِ أَرْبَعٌ” کے بجائے “أَحَبُّ الْكَلَامِ إِلَى اللهِ أَرْبَعٌ” کے الفاظ بھی نقل کئے گئے ہیں ، جس کا ترجمہ یہ ہو گا کہ سب کلموں مین اللہ تعالیٰ کو زیادہ پیارے یہ چار کلمے ہیں ۔
عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدَبٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَفْضَلُ الْكَلَامِ أَرْبَعٌ سُبْحَانَ اللَّهِ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ، وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ. (رواه مسلم)

তাহকীক:
হাদীস নং: ১০৬৪
کتاب الاذکار والدعوات
کلمات ذِکر اور ان کی فضیلت و برکت
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : “اس دنیا کی وہ تمام چیزیں جن پر سورج کی روشنی اور اس کی شعاعیں پڑتی ہیں ، ان سب چیزوں کے مقابلے میں مجھے یہ زیادہ محبوب ہے کہ میں ایک دفعہ “سُبْحَانَ اللهِ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ، وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، وَاللهُ أَكْبَرُ” کہوں ۔ (صحیح مسلم)
تشریح
ان چاروں کلموں کا اجمالی مفہوم اوپر کی تمہیدی سطروں میں ذکر کیا جا چکا ہے اس سے یہ اندازہ بھی ہو گیا ہو گا کہ یہ نہایت مختصر اور ہلکے پھلکے چار کلمے اللہ تعالیٰ کی تمام مثبت و منفی صفاتِ کمال پر کس قدر حاوی ہیں ۔ بعض عرفاء کاملین نے لکھا ہے کہ :
اللہ تعالیٰ کے تمام اسماء حسنیٰ جو اس کی تمام صفات کمال کی ترجمانی کرتے ہین ان میں سے کسی کا مفہوم بھی ان چار کلموں سے باہر نہیں ہے ۔ مثلاً الْقُدُّوسُ، السَّلامُ الظَّاهِرُ جیسے اسماء جو اللہ تعالیٰ کی ذاتِ پاک سے ہر عیب و نقص کی نفی کرتے ہیں ۔ سبحان اللہ کا مفہوم ان سب پر حاوی ہے ۔ اسی طرح الرَّحْمَنُ الرَّحِيمُ الْكَرِيْمُ الْعَلِيمُ اَلْقَدِيْرُ السَّمِيعُ، الْبَصِيرُ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ جیسے وہ تمام اسماء حسنیٰ جو اللہ تعالیٰ کی ایجابی صفاتِ کمال پر دلالت کرتے ہیں ، وہ سب الحمدللہ کے احاطے میں آ جاتے ہیں ۔ اسی طرح جو اسماء حسنیٰ اس کی وحدانیت و یکتائی اور اس کی شانِ لاشریکی و بےمثالی پر فلالت کرتے ہیں ، جیسے الْوَاحِدُ، الْأَحَدُ وغیرہ ، ان کی پوری ترجمانی کلمہ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ کرتا ہے ۔ علیٰ ہذا الْعَلِيُّ الْاَعْلَى الْكَبِيْرُ الْمُتَعَالِي جیسے اسماء حسنیٰ جن کا مفہوم و مدعا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو جو کچھ کسی نے جانا اور سمجھا ہے اللہ تعالیٰ اس سے بھی بلند و بالا اور وراء الوراء ہے ۔ بلا شبہ الله اكبر اس حقیقت کی بہترین تعبیر ہے ۔
پس جس نے دل کے شعور و یقین کے ساتھ کہا سُبْحَانَ اللهِ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ، وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، وَاللهُ أَكْبَرُ اس نے اللہ کی ساری ثناء و صفت بیان کر دی اور تمام اسماء حسنیٰ میں اللہ تعالیٰ کی جن ایجابی یا سلبی صفاتِ کمال کا بیان ہے دل سے ان سب کی شہادت دے دی ، اس لئے یہ چار کلمے اپنی قدر و قیمت اور عظمت و برکت کے لحاظ سے بلاشبہ اس ساری کائنات کے مقابلے میں فائق ہیں جس پر سورج کی روشنی یا اس کی شعاعیں پڑتی ہیں ۔ جن قلوب کو ایمان کی دولت نصیب ہے ان کے لئے یہ حقیقت بالکل وجدانی ہے ۔ اللہ تعالیٰ ایمان کی یہ دولت نصیب فرمائے ۔
تشریح
ان چاروں کلموں کا اجمالی مفہوم اوپر کی تمہیدی سطروں میں ذکر کیا جا چکا ہے اس سے یہ اندازہ بھی ہو گیا ہو گا کہ یہ نہایت مختصر اور ہلکے پھلکے چار کلمے اللہ تعالیٰ کی تمام مثبت و منفی صفاتِ کمال پر کس قدر حاوی ہیں ۔ بعض عرفاء کاملین نے لکھا ہے کہ :
اللہ تعالیٰ کے تمام اسماء حسنیٰ جو اس کی تمام صفات کمال کی ترجمانی کرتے ہین ان میں سے کسی کا مفہوم بھی ان چار کلموں سے باہر نہیں ہے ۔ مثلاً الْقُدُّوسُ، السَّلامُ الظَّاهِرُ جیسے اسماء جو اللہ تعالیٰ کی ذاتِ پاک سے ہر عیب و نقص کی نفی کرتے ہیں ۔ سبحان اللہ کا مفہوم ان سب پر حاوی ہے ۔ اسی طرح الرَّحْمَنُ الرَّحِيمُ الْكَرِيْمُ الْعَلِيمُ اَلْقَدِيْرُ السَّمِيعُ، الْبَصِيرُ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ جیسے وہ تمام اسماء حسنیٰ جو اللہ تعالیٰ کی ایجابی صفاتِ کمال پر دلالت کرتے ہیں ، وہ سب الحمدللہ کے احاطے میں آ جاتے ہیں ۔ اسی طرح جو اسماء حسنیٰ اس کی وحدانیت و یکتائی اور اس کی شانِ لاشریکی و بےمثالی پر فلالت کرتے ہیں ، جیسے الْوَاحِدُ، الْأَحَدُ وغیرہ ، ان کی پوری ترجمانی کلمہ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ کرتا ہے ۔ علیٰ ہذا الْعَلِيُّ الْاَعْلَى الْكَبِيْرُ الْمُتَعَالِي جیسے اسماء حسنیٰ جن کا مفہوم و مدعا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو جو کچھ کسی نے جانا اور سمجھا ہے اللہ تعالیٰ اس سے بھی بلند و بالا اور وراء الوراء ہے ۔ بلا شبہ الله اكبر اس حقیقت کی بہترین تعبیر ہے ۔
پس جس نے دل کے شعور و یقین کے ساتھ کہا سُبْحَانَ اللهِ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ، وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، وَاللهُ أَكْبَرُ اس نے اللہ کی ساری ثناء و صفت بیان کر دی اور تمام اسماء حسنیٰ میں اللہ تعالیٰ کی جن ایجابی یا سلبی صفاتِ کمال کا بیان ہے دل سے ان سب کی شہادت دے دی ، اس لئے یہ چار کلمے اپنی قدر و قیمت اور عظمت و برکت کے لحاظ سے بلاشبہ اس ساری کائنات کے مقابلے میں فائق ہیں جس پر سورج کی روشنی یا اس کی شعاعیں پڑتی ہیں ۔ جن قلوب کو ایمان کی دولت نصیب ہے ان کے لئے یہ حقیقت بالکل وجدانی ہے ۔ اللہ تعالیٰ ایمان کی یہ دولت نصیب فرمائے ۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَأَنْ أَقُولَ سُبْحَانَ اللهِ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ، وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، وَاللهُ أَكْبَرُ، أَحَبُّ إِلَيَّ مِمَّا طَلَعَتْ عَلَيْهِ الشَّمْسُ» (رواه مسلم)

তাহকীক:
হাদীস নং: ১০৬৫
کتاب الاذکار والدعوات
کلمات ذِکر اور ان کی فضیلت و برکت
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک ایسے درضت کے پاس سے گزرے جس کے پتے سوکھ چکے تھے ، آپ ﷺ نے اس پر اپنا عصائے مبارک مارا تو اس کے سوکھے پتے جھڑ پڑے (اور ساتھ والوں نے وہ منظر دیکھا) پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ : یہ کلمے : “سُبْحَانَ اللهِ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ، وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، وَاللهُ أَكْبَرُ” بندے کے گناہوں کو اس طرح جھاڑ دیتے ہیں جس طرح تم نے اس درخت کے پتے جھڑتے دیکھے ۔ (جامع ترمذی)
تشریح
نیک اعمال کی اس خاصیت کا ذکر قرآن مجید میں بھی فرمایا گیا ہے کہ ان کی برکت اور تاثیر سے گناہ مِٹ جاتے ہیں ۔ ارشاد ہے : “اِنَّ الْحَسَنٰتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّاٰتِ ” (یقینی بات ہے کہ نیکیاں گناہوں کا صفایا کر دیتی ہیں) ۔
احادیث میں رسول اللہ ﷺ نے نماز اور صدقہ وغیرہ بہت سے اعمالِ صالحہ کی اس تاثیر کا خصوصیت سے بیان فرمایا ہے ۔ اس حدیث میں آپ ﷺ نے ان چار کلموں کی یہ تاثیر بیان فرمائی اور درخت کے سوکھے پتے عصا کی ایک ضرب سے جھاڑ کے صحابہ کرامؓ کو اس کا ایک نمونہ بھی دکھایا ۔ اللہ تعالیٰ ان حقیقتوں کا یقین نصیب فرمائے ، اور ان کلموں کی عظمت و تاثیر سے استفادہ کی توفیق دے ۔
تشریح
نیک اعمال کی اس خاصیت کا ذکر قرآن مجید میں بھی فرمایا گیا ہے کہ ان کی برکت اور تاثیر سے گناہ مِٹ جاتے ہیں ۔ ارشاد ہے : “اِنَّ الْحَسَنٰتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّاٰتِ ” (یقینی بات ہے کہ نیکیاں گناہوں کا صفایا کر دیتی ہیں) ۔
احادیث میں رسول اللہ ﷺ نے نماز اور صدقہ وغیرہ بہت سے اعمالِ صالحہ کی اس تاثیر کا خصوصیت سے بیان فرمایا ہے ۔ اس حدیث میں آپ ﷺ نے ان چار کلموں کی یہ تاثیر بیان فرمائی اور درخت کے سوکھے پتے عصا کی ایک ضرب سے جھاڑ کے صحابہ کرامؓ کو اس کا ایک نمونہ بھی دکھایا ۔ اللہ تعالیٰ ان حقیقتوں کا یقین نصیب فرمائے ، اور ان کلموں کی عظمت و تاثیر سے استفادہ کی توفیق دے ۔
عَنْ أَنَسٍ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ عَلَى شَجَرَةٍ يَابِسَةِ الوَرَقِ فَضَرَبَهَا بِعَصَاهُ فَتَنَاثَرَ الوَرَقُ، فَقَالَ: إِنَّ الحَمْدُ لِلَّهِ وَسُبْحَانَ اللهِ وَلاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَاللَّهُ أَكْبَرُ لَتُسَاقِطُ مِنْ ذُنُوبِ العَبْدِ كَمَا تَسَاقَطَ وَرَقُ هَذِهِ الشَّجَرَةِ. (رواه الترمذى)

তাহকীক:
হাদীস নং: ১০৬৬
کتاب الاذکار والدعوات
کلمات ذِکر اور ان کی فضیلت و برکت
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے روزانہ سو دفعہ کہا (سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ) اس کے قصور معاف کر دئیے جائیں گے اگرچہ کثرت میں سمندر کے جھاگوں کے برابر ہوں ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
تشریح
“سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ” کا مطلب وہی ہے جو “سُبْحَانَ اللهِ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ” کا ہے ، یعنی ہر اس بات سے اللہ تعالیٰ کی تنزیہہ و تقدیس جو اس کے شایان شان نہیں ہے اور جس میں ذرا بھی قصور یا عیب کا کوئی شائبہ ہے ، اور اسی کے ساتھ تمام صفات کمال کا اس کی ذات عالی کے لئے اثبات اور اس کی بناء پر اس کی حمد و ثناء اس طرح یہ مختصر کلمہ “سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ” اس سب پر حاوی ہے جو سلبی یا ایجابی طور پر اللہ تعالیٰ کی ثناء و صفت کہا جا سکتا ہے ۔ حدیث سابق کی طرح اس حدیث میں مختصر دو حرفی کلمہ کی یہ تاثیر بیان کی گئی ہے کہ جو بندہ روزانہ یہ کلمہ سو دفعہ پڑھے تو اس کے سارے گناہ دور ہو جائیں گے اور وہ گناہوں کی گندگی سے پاک صاف ہو جائے گا ، اگرچہ اس کے گناہ سمندر کے جھاگوں کے برابر حد و حساب سے باہر ہوں ۔ گویا جس طرح تیز روشنی اندھیرے کو ایک دم ختم کر دیتے ہے اور جس طرح سخت تپش بالخاصہ نمی اور رطوبت کو فنا کر دیتی ہے اسی طرح اللہ کا ذکر اور دوسری نیکیاں گناہوں کے گندے اثرات کو فنا کر دیتی ہیں ۔ لیکن جیسا کہ اسی سلسلہ (معارف الحدیث) میں کئی بار پہلے ذکر کیا جا چکا ہے قرآن مجید کی بعض آیات اور رسول اللہ ﷺ کے بعض ارشادات سے معلوم ہوتا ہے کہ نیکیوں کی برکت اور تاثیر سے صرف وہ خطائیں معاف ہوتی ہیں جو “کبیرہ” درجہ کی نہ ہوں ، اس لئے بڑے درجہ کے گناہ جن کو خاص اصطلاح میں گناہ کبیرہ کہا جاتا ہے ۔ ان کی معافی کے لئے توبہ و استغفار ضروری ہے ۔ واللہ اعلم ۔
تشریح
“سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ” کا مطلب وہی ہے جو “سُبْحَانَ اللهِ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ” کا ہے ، یعنی ہر اس بات سے اللہ تعالیٰ کی تنزیہہ و تقدیس جو اس کے شایان شان نہیں ہے اور جس میں ذرا بھی قصور یا عیب کا کوئی شائبہ ہے ، اور اسی کے ساتھ تمام صفات کمال کا اس کی ذات عالی کے لئے اثبات اور اس کی بناء پر اس کی حمد و ثناء اس طرح یہ مختصر کلمہ “سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ” اس سب پر حاوی ہے جو سلبی یا ایجابی طور پر اللہ تعالیٰ کی ثناء و صفت کہا جا سکتا ہے ۔ حدیث سابق کی طرح اس حدیث میں مختصر دو حرفی کلمہ کی یہ تاثیر بیان کی گئی ہے کہ جو بندہ روزانہ یہ کلمہ سو دفعہ پڑھے تو اس کے سارے گناہ دور ہو جائیں گے اور وہ گناہوں کی گندگی سے پاک صاف ہو جائے گا ، اگرچہ اس کے گناہ سمندر کے جھاگوں کے برابر حد و حساب سے باہر ہوں ۔ گویا جس طرح تیز روشنی اندھیرے کو ایک دم ختم کر دیتے ہے اور جس طرح سخت تپش بالخاصہ نمی اور رطوبت کو فنا کر دیتی ہے اسی طرح اللہ کا ذکر اور دوسری نیکیاں گناہوں کے گندے اثرات کو فنا کر دیتی ہیں ۔ لیکن جیسا کہ اسی سلسلہ (معارف الحدیث) میں کئی بار پہلے ذکر کیا جا چکا ہے قرآن مجید کی بعض آیات اور رسول اللہ ﷺ کے بعض ارشادات سے معلوم ہوتا ہے کہ نیکیوں کی برکت اور تاثیر سے صرف وہ خطائیں معاف ہوتی ہیں جو “کبیرہ” درجہ کی نہ ہوں ، اس لئے بڑے درجہ کے گناہ جن کو خاص اصطلاح میں گناہ کبیرہ کہا جاتا ہے ۔ ان کی معافی کے لئے توبہ و استغفار ضروری ہے ۔ واللہ اعلم ۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ قَالَ: سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ، فِي يَوْمٍ مِائَةَ مَرَّةٍ، حُطَّتْ خَطَايَاهُ، وَإِنْ كَانَتْ مِثْلَ زَبَدِ البَحْرِ " (رواه البخارى ومسلم)

তাহকীক:
হাদীস নং: ১০৬৭
کتاب الاذکار والدعوات
کلمات ذِکر اور ان کی فضیلت و برکت
حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا گیا کہ : کلاموں میں کون سا کلام افضل ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : وہ کلام جو اللہ تعالیٰ نے اپنے ملائکہ کے لئے منتخب فرمایا ہے ۔ یعنی “سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ”. (صحیح مسلم)
تشریح
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ فرشتوں کا خاص ذکر یہی “سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ” ہے ۔ اس حدیث مین اس کلمہ کو سب سے افضل کہا گیا ہے ۔ اور حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کی حدیث میں جودو ہی ورق پہلے درج ہو چکی ہے فرمایا گیا ہے کہ سب سے افضل یہ چار کلمے ہیں : “سُبْحَانَ اللهِ، الْحَمْدُ لِلَّهِ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، اللهُ أَكْبَرُ” اور ایک دوسری حدیث میں “لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ” کو افضل الذکر فرمایا گیا ہے ۔ ظاہر ہے کہ ان تینوں باتوں میں کوئی منافات نہیں ہے ۔ اصل بات یہ ہے کہ یہ سب کلمے دوسرے سب کلاموں کے مقابلے میں افضل اور اللہ کو زیادہ محبوب ہیں ۔
تشریح
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ فرشتوں کا خاص ذکر یہی “سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ” ہے ۔ اس حدیث مین اس کلمہ کو سب سے افضل کہا گیا ہے ۔ اور حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کی حدیث میں جودو ہی ورق پہلے درج ہو چکی ہے فرمایا گیا ہے کہ سب سے افضل یہ چار کلمے ہیں : “سُبْحَانَ اللهِ، الْحَمْدُ لِلَّهِ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، اللهُ أَكْبَرُ” اور ایک دوسری حدیث میں “لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ” کو افضل الذکر فرمایا گیا ہے ۔ ظاہر ہے کہ ان تینوں باتوں میں کوئی منافات نہیں ہے ۔ اصل بات یہ ہے کہ یہ سب کلمے دوسرے سب کلاموں کے مقابلے میں افضل اور اللہ کو زیادہ محبوب ہیں ۔
عَنْ أَبِي ذَرٍّ قَالَ: سُئِلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيُّ الْكَلَامِ أَفْضَلُ؟ قَالَ: " مَا اصْطَفَى اللهُ لِمَلَائِكَتِهِ: سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ " (رواه مسلم)

তাহকীক:
হাদীস নং: ১০৬৮
کتاب الاذکار والدعوات
کلمات ذِکر اور ان کی فضیلت و برکت
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : “دو کلمے زبان پر ہلکے پھلکے ، میزانِ اعمال میں بڑے بھاری اور خدا وند مہربان کو بہت پیارے ۔ “سُبْحَانَ اللَّهِ العَظِيمِ، سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ”. (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
تشریح
ان دو کلموں کا زبان پر ہلکا ہونا تو ظاہر ہے ، اور اللہ تعالیٰ کو محبوب ہونا بھی آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے ، لیکن میزانِ اعمال مین بھاری ہونے والی بات کا سمجھنا شاید بعض لوگوں کے لئے آسان نہ ہو ۔ واقعہ یہ ہے کہ جس طرح مادی چیزیں ہلکی اور بھاری ہوتی ہیں اور ان کا وزن معلوم کرنے کے لئے آلات ہوتے ہیں جن کو میزان (ترازو یا کانٹا) کہا جاتا ہے ۔ اسی طرح بہت سی غیر مادی چیزیں بھی ہلکی اور بھاری ہوتی ہیں اور ان کا ہلکا اور بھاری پن بتانے والا آلہ ہوتا ہے ۔ وہی اس کی میزان ہوتی ہے ۔ مثلاً حرارت اور برودت یعنی گرمی اور ٹھنڈک ظاہر ہے کہ مادی چیزیں نہیں ہیں بلکہ کیفیات ہیں ، لیکن ان کا ہلکا اور بھاری پن تھرمامیٹر کے ذریعہ معلوم کیا جاتا ہے ۔ اسی طرح قیامت مین اللہ کے نام کا وزن ہو گا ، کلمات ذکر کا وزن ہو گا ، تلاوتِ قرآن کا وزن ہو گا ، نماز کا وزن ہو گا ۔ ایمان کا اور اللہ تعالیٰ کے خوف اور اس کی محبت کا وزن ہو گا ۔ اس وقت یہ بات کھل کر سامنے آئے گی کہ بعض بہت ہلکے پھلکے کلمے بےحد وزنی ہوں گے ۔ ایک دوسری حدیث میں ہے حضور ﷺ نے فرمایا کہ : “اللہ کے نام کے مقابلے میں کوئی چیز بھی بھاری اور وزنی نہ ہو گی ۔ ” لَا يَزِنُ مَعَ اسْمِ اللهِ شَيْئٌ.
اس کلمہ “سُبْحَانَ اللَّهِ العَظِيمِ، سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ ” کا مطلب یہ ہے کہ میں اللہ کی پاکی بیان کرتا ہوں اس کی حمد و ستائش کے ساتھ ، میں اللہ کی پاکی بیان کرتا ہوں جو بڑی عظمت والا ہے ۔
تشریح
ان دو کلموں کا زبان پر ہلکا ہونا تو ظاہر ہے ، اور اللہ تعالیٰ کو محبوب ہونا بھی آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے ، لیکن میزانِ اعمال مین بھاری ہونے والی بات کا سمجھنا شاید بعض لوگوں کے لئے آسان نہ ہو ۔ واقعہ یہ ہے کہ جس طرح مادی چیزیں ہلکی اور بھاری ہوتی ہیں اور ان کا وزن معلوم کرنے کے لئے آلات ہوتے ہیں جن کو میزان (ترازو یا کانٹا) کہا جاتا ہے ۔ اسی طرح بہت سی غیر مادی چیزیں بھی ہلکی اور بھاری ہوتی ہیں اور ان کا ہلکا اور بھاری پن بتانے والا آلہ ہوتا ہے ۔ وہی اس کی میزان ہوتی ہے ۔ مثلاً حرارت اور برودت یعنی گرمی اور ٹھنڈک ظاہر ہے کہ مادی چیزیں نہیں ہیں بلکہ کیفیات ہیں ، لیکن ان کا ہلکا اور بھاری پن تھرمامیٹر کے ذریعہ معلوم کیا جاتا ہے ۔ اسی طرح قیامت مین اللہ کے نام کا وزن ہو گا ، کلمات ذکر کا وزن ہو گا ، تلاوتِ قرآن کا وزن ہو گا ، نماز کا وزن ہو گا ۔ ایمان کا اور اللہ تعالیٰ کے خوف اور اس کی محبت کا وزن ہو گا ۔ اس وقت یہ بات کھل کر سامنے آئے گی کہ بعض بہت ہلکے پھلکے کلمے بےحد وزنی ہوں گے ۔ ایک دوسری حدیث میں ہے حضور ﷺ نے فرمایا کہ : “اللہ کے نام کے مقابلے میں کوئی چیز بھی بھاری اور وزنی نہ ہو گی ۔ ” لَا يَزِنُ مَعَ اسْمِ اللهِ شَيْئٌ.
اس کلمہ “سُبْحَانَ اللَّهِ العَظِيمِ، سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ ” کا مطلب یہ ہے کہ میں اللہ کی پاکی بیان کرتا ہوں اس کی حمد و ستائش کے ساتھ ، میں اللہ کی پاکی بیان کرتا ہوں جو بڑی عظمت والا ہے ۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " كَلِمَتَانِ خَفِيفَتَانِ عَلَى اللِّسَانِ، ثَقِيلَتَانِ فِي المِيزَانِ، حَبِيبَتَانِ إِلَى الرَّحْمَنِ: سُبْحَانَ اللَّهِ العَظِيمِ، سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ " (رواه البخارى ومسلم)

তাহকীক:
হাদীস নং: ১০৬৯
کتاب الاذکار والدعوات
کلمات ذِکر اور ان کی فضیلت و برکت
ام المؤمنین حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک دن نمازِ فجر پڑھنے کے بعد ان کے پاس سے باہر نکلے ، وہ اس وقت اپنی نماز پڑھنے کی جگہ بیٹھی کچھ پڑھ رہی تھیں ۔ پھر آپ ﷺ دیر کے بعد جب چاشت کا وقت آ چکا تھا واپس تشریف لائے ، حضرت جویریہؓ اسی طرح بیٹھی اپنے وظیفہ میں مشغول تھیں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : “تمہارے پاس سے جانے کے بعد میں نے چار کلمے تین دفعہ کہے ، اگر وہ تمہارے اس پورے وظیفے کے ساتھ تولے جائیں جو تم نے آج صبح سے پڑھا ہے تو ان کا وزن بڑھ جائے گا ، وہ کلمے یہ ہیں : سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ، عَدَدَ خَلْقِهِ وَرِضَا نَفْسِهِ وَزِنَةَ عَرْشِهِ وَمِدَادَ كَلِمَاتِهِ (اللہ کی تسبیح اور اس کی حمد اس کی ساری مخلوقات کی تعداد کے برابر اور اس کے عرش عظیم کے وزن کے برابر ، اور اس کی ذاتِ پاک کی رضا کے مطابق اور اس کے کلموں کی مقدار کے مطابق ۔ (صحیح مسلم)
عَنْ جُوَيْرِيَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ مِنْ عِنْدِهَا بُكْرَةً حِينَ صَلَّى الصُّبْحَ، وَهِيَ فِي مَسْجِدِهَا، ثُمَّ رَجَعَ بَعْدَ أَنْ أَضْحَى، وَهِيَ جَالِسَةٌ، فَقَالَ: «مَا زِلْتِ عَلَى الْحَالِ الَّتِي فَارَقْتُكِ عَلَيْهَا؟» قَالَتْ: نَعَمْ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَقَدْ قُلْتُ بَعْدَكِ أَرْبَعَ كَلِمَاتٍ، ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، لَوْ وُزِنَتْ بِمَا قُلْتِ مُنْذُ الْيَوْمِ لَوَزَنَتْهُنَّ: سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ، عَدَدَ خَلْقِهِ وَرِضَا نَفْسِهِ وَزِنَةَ عَرْشِهِ وَمِدَادَ كَلِمَاتِهِ " (رواه مسلم)

তাহকীক: