মা'আরিফুল হাদীস (উর্দু)
معارف الحديث
کتاب المعاملات والمعاشرت - এর পরিচ্ছেদসমূহ
মোট হাদীস ২০ টি
হাদীস নং: ১৩৭১
کتاب المعاملات والمعاشرت
ماں باپ کی ابتدائی ذمہ داریاں: نو مولود بچہ کے کان میں اذان
رسول اللہ ﷺ کے آزاد کردہ غلام حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو (اپنے نواسے حسن بن علی کے کان میں نماز والی اذان پڑھتے ہوئے دیکھا(جب آپ ﷺ کی صاحبزادی) فاطمہؓ کے ہاں ان کی ولادت ہوئی ۔ (جامع ترمذی ، سنن ابی داؤد)
تشریح
بسم اللہ الرحمن الرحیم
خاتم النبیین سیدنا حضرت محمد ﷺ کی لائی ہوئی شریعت کا یہ امتیاز ہے کہ اس میں انسانی زندگی کے تمام شعبوں کے متعلق واضح ہدایات دی گئی ہیں ۔ اس سلسلہ معارف الحدیث کی اس سے پہلی پانچ جلدوں میں رسول اللہ ﷺ کی جو احادیث اور آپ ﷺ کے جو ارشادات مرتب کر کے پیش کئے جا چکے ہیں ان کا تعلق یا عقائد و ایمانیات سے تھا یا اخلاق و جذبات اور قلب و روح کی کیفیات سے یا طہارت اور نماز ، روزہ ، حج و زکوٰۃ و عبادات اور اذکار و دعوات سے ۔ اب ان احادیث کا سلسلہ شروع کیا جا رہا ہے جن کا تعلق معاشرتی حقوق اور آداب اور معاشی معاملات سے ہے اور جن سے معلوم ہو گا کہ ہم اپنے ابناء جنس اور عزیزوں ، قریبوں چھوٹوں اور بڑوں ، اپنوں اور پرایوں کے ساتھ ، جن سے زندگی میں ہمارا واسطہ پڑتا ہے کس طرح پیش آئیں ، کیسا برتاؤ کریں اور کس کے کس پر کیا حقوق ہیں اور لین دین ، خرید و فروخت ، قرض و امانت ، تجارت و زراعت ، مزدوری و دستکاری ، کارخانہ داری و کرایہ داری اور اسی طرح دوسرے معاشی مشغلوں کے بارے میں اللہ و رسول کے کیا احکام ہیں اور ان کی کون سی شکلیں جائز اور کون سی ناجائز ہیں ۔
معاشرت و معاملات کی خصوصی اہمیت
یہ دونوں باب (معاشرت و معاملات) اس لحاظ سے شریعت کے نہایت اہم ابواب ہیں کہ ان میں ہدایتِ ربانی اور خواہشاتِ نفسانی اور احکام شریعت اور دنیوی مصلحت و منفعت کی کشمکش ، عبادات وغیرہ دوسرے تمام ابواب سے زیادہ ہوتی ہے اس لئے اللہ کی بندگی و فرمانبرداری اور اس کے رسول ﷺ اور اس کی شریعت کی تابعداری کا جیسا امتحان ان میدانوں میں ہوتا ہے دوسرے کسی میدان میں نہیں ہوتا ۔ اور یہی وہ چیز ہے جس کی وجہ سے بنی آدم کو فرشتوں پر نوعی فضیلت حاصل ہوئی ، ورنہ ظاہر ہے کہ ایمان و یقین اور ہمہ وقتی ذکر و عبادت اور روح کی لطافت و طہارت میں انسان فرشتوں کی برابری بھی نہیں کر سکتا ۔
معاشرت سے متعلق احکام و ہدایات
اس تمہید کے بعد ہم پہلے معاشرت کے سلسلہ کی حدیثیں پیش کرتے ہیں ۔
نکاح و طلاق اور عدت و نفقہ وغیرہ سے متعلق اھادیث بھی اس ضمن میں درج ہوں گی ۔
معاشرتی احکام و ہدایات کا سلسلہ بچے کی پیدائش ہی سے شروع ہو جاتا ہے ۔ اس لئے ہم انہی حدیثوں سے اس سلسلہ کا آغاز کر رہے ہیں جن میں پیدائشی ہی کے سلسلہ میں ہدایات دی گئی ہیں اور بتلایا گیا ہے کہ پیدا ہونے ولاے بچے کے بارے میں ماں باپ کی ذمہ داریاں کیا ہیں ۔
تشریح ..... حضرت ابو رافعؓ کی اس حدیث میں حضرت حسنؓ کے کان میں صرف اذان پڑھنے کا ذکر ہے لیکن ایک دوسری حدیث سے جو “کنز العمال” میں مسند ابو یعلی موصلی کی تخریج سے حضرت حسین بن علی (رضی اللہ عنہما) سے روایت کی گئی ہے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے نومولود بچہ کے داہنے کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت پڑھنے کی تعلیم و ترغیب دی ، اور اس برکت اور تاثیر کا بھی ذکر فرمایا کہ اس کی وجہ سے بچہ ام الصبیان کے ضرر سے محفوظ رہے گا (جو شیطانی اثرات سے بھی ہوتا ہے) ۔
ان حدیثوں سے معلوم ہوا کہ نومولود بچہ کا پہلا حق گھر والوں پر یہ ہے کہ سب سے پہلے اس کے کانوں کو اور کانوں کے ذریعہ اس کے دل و دماغ کو اللہ کے نام اور اس کی توحید اور ایمان و نماز کی دعوت و پکار سے آشنا کریں ۔ اس کا بہتر سے بہتر طریقہ یہی ہو سکتا ہے کہ اس کے کانوں میں اذان و اقامت پڑھی جائے ۔ اذان و اقامت میں دین حق کی بنیادی تعلیم اور دعوت نہایت مؤثر طریقے سے دی گئی ہے نیز ان دونوں کی یہ تاثیر اور خاصیت بہت سی احادیث میں بیان کی گئی ہے کہ اس سے شیطان بھاگتا ہے اس لئے بچہ کی حفاظت کی بھی یہ ایک تدبیر ہے ۔
رسول اللہ ﷺ نے پیدائش کے وقت نومولود مسلمان بچے کے کان میں اذان و اقامت پڑھنے کی تعلیم دی ، اور جب عمر پوری کرنے کے بعد اس کو موت آ جائے تو غسل دے کر اور کفنا کر اس پر نماز جنازہ پڑھنے کی ہدایت فرمائی ۔ اس طرح یہ بتلا دیا اور جتلا دیا کہ مؤمن کی زندگی اذان اور نماز کے درمیان کی زندگی ہے اور بس اس طرح گزرنی چاہئے جس طرح اذان کے بعد نماز کے انتظار اور اس کی تیاری میں گزرتی ہے ۔ نیز یہ کہ مسلمان بچے کا پہلا حق یہ ہے کہ پیدائش کے ساتھ ہی اس کے کان میں اذان دی جائے اور آخری حق یہ ہے کہ اس پر نماز جنازہ پڑھی جائے ۔
تشریح
بسم اللہ الرحمن الرحیم
خاتم النبیین سیدنا حضرت محمد ﷺ کی لائی ہوئی شریعت کا یہ امتیاز ہے کہ اس میں انسانی زندگی کے تمام شعبوں کے متعلق واضح ہدایات دی گئی ہیں ۔ اس سلسلہ معارف الحدیث کی اس سے پہلی پانچ جلدوں میں رسول اللہ ﷺ کی جو احادیث اور آپ ﷺ کے جو ارشادات مرتب کر کے پیش کئے جا چکے ہیں ان کا تعلق یا عقائد و ایمانیات سے تھا یا اخلاق و جذبات اور قلب و روح کی کیفیات سے یا طہارت اور نماز ، روزہ ، حج و زکوٰۃ و عبادات اور اذکار و دعوات سے ۔ اب ان احادیث کا سلسلہ شروع کیا جا رہا ہے جن کا تعلق معاشرتی حقوق اور آداب اور معاشی معاملات سے ہے اور جن سے معلوم ہو گا کہ ہم اپنے ابناء جنس اور عزیزوں ، قریبوں چھوٹوں اور بڑوں ، اپنوں اور پرایوں کے ساتھ ، جن سے زندگی میں ہمارا واسطہ پڑتا ہے کس طرح پیش آئیں ، کیسا برتاؤ کریں اور کس کے کس پر کیا حقوق ہیں اور لین دین ، خرید و فروخت ، قرض و امانت ، تجارت و زراعت ، مزدوری و دستکاری ، کارخانہ داری و کرایہ داری اور اسی طرح دوسرے معاشی مشغلوں کے بارے میں اللہ و رسول کے کیا احکام ہیں اور ان کی کون سی شکلیں جائز اور کون سی ناجائز ہیں ۔
معاشرت و معاملات کی خصوصی اہمیت
یہ دونوں باب (معاشرت و معاملات) اس لحاظ سے شریعت کے نہایت اہم ابواب ہیں کہ ان میں ہدایتِ ربانی اور خواہشاتِ نفسانی اور احکام شریعت اور دنیوی مصلحت و منفعت کی کشمکش ، عبادات وغیرہ دوسرے تمام ابواب سے زیادہ ہوتی ہے اس لئے اللہ کی بندگی و فرمانبرداری اور اس کے رسول ﷺ اور اس کی شریعت کی تابعداری کا جیسا امتحان ان میدانوں میں ہوتا ہے دوسرے کسی میدان میں نہیں ہوتا ۔ اور یہی وہ چیز ہے جس کی وجہ سے بنی آدم کو فرشتوں پر نوعی فضیلت حاصل ہوئی ، ورنہ ظاہر ہے کہ ایمان و یقین اور ہمہ وقتی ذکر و عبادت اور روح کی لطافت و طہارت میں انسان فرشتوں کی برابری بھی نہیں کر سکتا ۔
معاشرت سے متعلق احکام و ہدایات
اس تمہید کے بعد ہم پہلے معاشرت کے سلسلہ کی حدیثیں پیش کرتے ہیں ۔
نکاح و طلاق اور عدت و نفقہ وغیرہ سے متعلق اھادیث بھی اس ضمن میں درج ہوں گی ۔
معاشرتی احکام و ہدایات کا سلسلہ بچے کی پیدائش ہی سے شروع ہو جاتا ہے ۔ اس لئے ہم انہی حدیثوں سے اس سلسلہ کا آغاز کر رہے ہیں جن میں پیدائشی ہی کے سلسلہ میں ہدایات دی گئی ہیں اور بتلایا گیا ہے کہ پیدا ہونے ولاے بچے کے بارے میں ماں باپ کی ذمہ داریاں کیا ہیں ۔
تشریح ..... حضرت ابو رافعؓ کی اس حدیث میں حضرت حسنؓ کے کان میں صرف اذان پڑھنے کا ذکر ہے لیکن ایک دوسری حدیث سے جو “کنز العمال” میں مسند ابو یعلی موصلی کی تخریج سے حضرت حسین بن علی (رضی اللہ عنہما) سے روایت کی گئی ہے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے نومولود بچہ کے داہنے کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت پڑھنے کی تعلیم و ترغیب دی ، اور اس برکت اور تاثیر کا بھی ذکر فرمایا کہ اس کی وجہ سے بچہ ام الصبیان کے ضرر سے محفوظ رہے گا (جو شیطانی اثرات سے بھی ہوتا ہے) ۔
ان حدیثوں سے معلوم ہوا کہ نومولود بچہ کا پہلا حق گھر والوں پر یہ ہے کہ سب سے پہلے اس کے کانوں کو اور کانوں کے ذریعہ اس کے دل و دماغ کو اللہ کے نام اور اس کی توحید اور ایمان و نماز کی دعوت و پکار سے آشنا کریں ۔ اس کا بہتر سے بہتر طریقہ یہی ہو سکتا ہے کہ اس کے کانوں میں اذان و اقامت پڑھی جائے ۔ اذان و اقامت میں دین حق کی بنیادی تعلیم اور دعوت نہایت مؤثر طریقے سے دی گئی ہے نیز ان دونوں کی یہ تاثیر اور خاصیت بہت سی احادیث میں بیان کی گئی ہے کہ اس سے شیطان بھاگتا ہے اس لئے بچہ کی حفاظت کی بھی یہ ایک تدبیر ہے ۔
رسول اللہ ﷺ نے پیدائش کے وقت نومولود مسلمان بچے کے کان میں اذان و اقامت پڑھنے کی تعلیم دی ، اور جب عمر پوری کرنے کے بعد اس کو موت آ جائے تو غسل دے کر اور کفنا کر اس پر نماز جنازہ پڑھنے کی ہدایت فرمائی ۔ اس طرح یہ بتلا دیا اور جتلا دیا کہ مؤمن کی زندگی اذان اور نماز کے درمیان کی زندگی ہے اور بس اس طرح گزرنی چاہئے جس طرح اذان کے بعد نماز کے انتظار اور اس کی تیاری میں گزرتی ہے ۔ نیز یہ کہ مسلمان بچے کا پہلا حق یہ ہے کہ پیدائش کے ساتھ ہی اس کے کان میں اذان دی جائے اور آخری حق یہ ہے کہ اس پر نماز جنازہ پڑھی جائے ۔
عَنْ أَبِي رَافِعٍ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَذَّنَ فِي أُذُنِ الحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ حِينَ وَلَدَتْهُ فَاطِمَةُ بِالصَّلاَةِ. (رواه الترمذى وابوداؤد)

তাহকীক:
হাদীস নং: ১৩৭২
کتاب المعاملات والمعاشرت
تحنیک اور دعائے برکت
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ لوگ اپنے بچوں کو رسول اللہ ﷺ کے پاس لایا کرتے تھے آپ ﷺ ان کے لئے خیر و برکت کی دعا فرماتے تھے اور تحنیک فرماتے تھے ۔ (صحیح مسلم)
تشریح
رسول اللہ ﷺ کی معرفت اور صحبت کے نتیجہ میں صحابہ کرامؓ کو آپ ﷺ کے ساتھ عقیدت کا جو تعلق تھا اس کا ایک ظہور یہ بھی تھا کہ نومولود بچے آپ ﷺ کی خدمت میں لائے جاتے تھے تا کہ آپ ﷺ ان کے لئے خیر و برکت کی دعا فرمائیں اور کھجور یا ایسی ہی کوئی چیز چبا کر بچے کے تالو پر مل دیں اور اپنا لعاب دہن اس کے منہ میں ڈال دیں جو خیر و برکت کا باعث ہو ۔ اس عمل کو تحنیک کہتے ہیں ۔
تشریح
رسول اللہ ﷺ کی معرفت اور صحبت کے نتیجہ میں صحابہ کرامؓ کو آپ ﷺ کے ساتھ عقیدت کا جو تعلق تھا اس کا ایک ظہور یہ بھی تھا کہ نومولود بچے آپ ﷺ کی خدمت میں لائے جاتے تھے تا کہ آپ ﷺ ان کے لئے خیر و برکت کی دعا فرمائیں اور کھجور یا ایسی ہی کوئی چیز چبا کر بچے کے تالو پر مل دیں اور اپنا لعاب دہن اس کے منہ میں ڈال دیں جو خیر و برکت کا باعث ہو ۔ اس عمل کو تحنیک کہتے ہیں ۔
عَنْ عَائِشَةَ: «أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُؤْتَى بِالصِّبْيَانِ فَيُبَرِّكُ عَلَيْهِمْ وَيُحَنِّكُهُمْ» (رواه مسلم)

তাহকীক:
হাদীস নং: ১৩৭৩
کتاب المعاملات والمعاشرت
تحنیک اور دعائے برکت
حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ وہ ہجرت سے پہلے مکہ میں حمل سے تھیں جب ہجرت کر کے مدینہ آئیں تو قباء میں ان کی ولادت ہوئی اور عبداللہ بن زبیر پیدا ہوئے کہتی ہیں کہ میں بچے کو لے کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور میں نے اس کو آپ ﷺ کی گود میں رکھ دیا ۔ آپ ﷺ نے چھوہارا منگوایا اور اس کو چبایا پھر اپنا لعاب دہن اس کے منہ میں دالا اور پھر اس کے تالو پر ملا ، پھر اس کے لئے دعا کی اور برکت سے نوازا ، اور یہ اسلام میں پہلا بچہ تھا (جو ہجرت کے بعد ایک مہاجر کے گھر پیدا ہوا) ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
تشریح
صحیح بخاری کی اس حدیث کی ایک روایت میں یہ اضافہ بھی ہے کہ حضرت عبداللہ بن زبیرؓ کے پیدا ہونے سے مسلمانوں کو خاص کر اس لئے بہت زیادہ خوشی ہوئی تھی کہ یہ بات مشہور ہو گئی تھی کہ یہودیوں نے مسلمانوں پر ایسا جادو کر دیا ہے کہ ان کے بچے پیدا ہی نہ ہوں گے ۔ عبداللہ بن زبیرؓ کی پیدائش نے اس کو غلط ثابت کر دیا اور مسلمانوں کے جو دشمن یہ جادو والی بات مشہور کر رہے تھے وہ ذلیل ہوئے ۔
کتب حدیث میں “تحنیک” کے بہت سے واقعات مروی ہیں ۔ ان سے معلوم ہوا کہ جب کسی گھرانے میں بچہ پیدا ہو تو چاہئے کہ اللہ کے کسی مقبول اور صالح بندے کے پاس اس کو لے جائیں ، اس کے لئے خیر و برکت کی دعائیں بھی کرائیں اور “تحنیک” بھی کرائیں ۔ یہ ان سنتوں میں سے ہے جن کا رواج بہت ہی کم رہ گیا ہے ۔
تشریح
صحیح بخاری کی اس حدیث کی ایک روایت میں یہ اضافہ بھی ہے کہ حضرت عبداللہ بن زبیرؓ کے پیدا ہونے سے مسلمانوں کو خاص کر اس لئے بہت زیادہ خوشی ہوئی تھی کہ یہ بات مشہور ہو گئی تھی کہ یہودیوں نے مسلمانوں پر ایسا جادو کر دیا ہے کہ ان کے بچے پیدا ہی نہ ہوں گے ۔ عبداللہ بن زبیرؓ کی پیدائش نے اس کو غلط ثابت کر دیا اور مسلمانوں کے جو دشمن یہ جادو والی بات مشہور کر رہے تھے وہ ذلیل ہوئے ۔
کتب حدیث میں “تحنیک” کے بہت سے واقعات مروی ہیں ۔ ان سے معلوم ہوا کہ جب کسی گھرانے میں بچہ پیدا ہو تو چاہئے کہ اللہ کے کسی مقبول اور صالح بندے کے پاس اس کو لے جائیں ، اس کے لئے خیر و برکت کی دعائیں بھی کرائیں اور “تحنیک” بھی کرائیں ۔ یہ ان سنتوں میں سے ہے جن کا رواج بہت ہی کم رہ گیا ہے ۔
عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ أَنَّهَا حَمَلَتْ بِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ بِمَكَّةَ، قَالَتْ: فَوَلَدْتُ بِقُبَاءٍ، ثُمَّ «أَتَيْتُ بِهِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَوَضَعْتُهُ فِي حَجْرِهِ، ثُمَّ دَعَا بِتَمْرَةٍ فَمَضَغَهَا، ثُمَّ تَفَلَ فِي فِيهِ، ثُمَّ حَنَّكَهُ بِالتَّمْرَةِ، ثُمَّ دَعَا لَهُ فَبَرَّكَ عَلَيْهِ» وَكَانَ أَوَّلَ مَوْلُودٍ وُلِدَ فِي الإِسْلاَمِ. (رواه البخارى ومسلم)

তাহকীক:
হাদীস নং: ১৩৭৪
کتاب المعاملات والمعاشرت
عقیقہ
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ زمانہ جاہلیت میں ہم لوگوں کا یہ دستور تھا کہ جب کسی کے لڑکا پیدا ہوتا و وہ بکری یا بکرا ذبح کرتا اور اس کے خون سے بچے کے سر کو رنگ دیتا ، پھر جب اسلام آیا تو (رسول اللہ ﷺ کی تعلیم و ہدایت کے مطابق) ہمارا طریقہ یہ ہو گیا کہ ہم ساتویں دن عقیقہ کی بکری یا بکرے کی قربانی کرتے اور بچے کا سر صاف کرا کے اس کے سر پر زعفران لگا دیتے ہیں ۔ (سنن ابی داؤد)
اور اسی حدیث کی رزین کی روایت میں یہ اضافہ ہے کہ ساتویں دن عقیقہ کے ساتھ ہم بچے کا نام بھی رکھتے ہیں ۔
تشریح
دنیا کی قریب قریب سب ہی قوموں اور ملتوں میں یہ بات مشترکہ ہے بچہ پیدا ہونے کو ایک نعمت اور خوشی کی بات سمجھا جاتا ہے اور کسی تقریب کے ذریعہ اس خوشی کا اظہار بھی کیا جاتا ہے ۔ یہ انسانی فطرت کا تقاضا بھی ہے اور اس میں ایک بڑی مصلحت یہ ہے کہ اس سے نہایت لطیف اور خوبصورت طریقے پر یہ بات ظاہر ہو جاتی ہے کہ باپ اس بچے کو اپنا ہی بچہ سمجھتا ہے ، اور اس بارے میں اس کو اپنی بیوی پر کوئی شک و شبہ نہیں ہے ۔ اس سے بہت سے فتنوں کا دروازہ بند ہو جاتا ہے ۔ عربوں میں اس کے لئے جاہلیت میں بھی عقیقہ کارواج تھا ۔ دستور یہ تھا کہ پیدائش کے چند روز بعد نومولود بچے کے سر کے وہ بال جو وہ ماں کے پیٹ سے لے کے پیدا ہوا ہے صاف کرا دئیے جاتے اور اس دن خوشی میں کسی جانور کی قربانی کی جاتی (جو ملتِ ابراہیمیؑ کی نشانیوں میں سے ہے) رسول اللہ ﷺ نے اصولی طور پر اس کو باقی رکھتے ہوئے بلکہ اس کی ترغیب دیتے ہوئے اس کے بارے میں مناسب ہدایات دیں اور خود عقیقے کر کے عملی نمونہ بھی پیش فرمایا ۔
اور اسی حدیث کی رزین کی روایت میں یہ اضافہ ہے کہ ساتویں دن عقیقہ کے ساتھ ہم بچے کا نام بھی رکھتے ہیں ۔
تشریح
دنیا کی قریب قریب سب ہی قوموں اور ملتوں میں یہ بات مشترکہ ہے بچہ پیدا ہونے کو ایک نعمت اور خوشی کی بات سمجھا جاتا ہے اور کسی تقریب کے ذریعہ اس خوشی کا اظہار بھی کیا جاتا ہے ۔ یہ انسانی فطرت کا تقاضا بھی ہے اور اس میں ایک بڑی مصلحت یہ ہے کہ اس سے نہایت لطیف اور خوبصورت طریقے پر یہ بات ظاہر ہو جاتی ہے کہ باپ اس بچے کو اپنا ہی بچہ سمجھتا ہے ، اور اس بارے میں اس کو اپنی بیوی پر کوئی شک و شبہ نہیں ہے ۔ اس سے بہت سے فتنوں کا دروازہ بند ہو جاتا ہے ۔ عربوں میں اس کے لئے جاہلیت میں بھی عقیقہ کارواج تھا ۔ دستور یہ تھا کہ پیدائش کے چند روز بعد نومولود بچے کے سر کے وہ بال جو وہ ماں کے پیٹ سے لے کے پیدا ہوا ہے صاف کرا دئیے جاتے اور اس دن خوشی میں کسی جانور کی قربانی کی جاتی (جو ملتِ ابراہیمیؑ کی نشانیوں میں سے ہے) رسول اللہ ﷺ نے اصولی طور پر اس کو باقی رکھتے ہوئے بلکہ اس کی ترغیب دیتے ہوئے اس کے بارے میں مناسب ہدایات دیں اور خود عقیقے کر کے عملی نمونہ بھی پیش فرمایا ۔
عَنْ أَبِي بُرَيْدَةَ قَالَ: كُنَّا فِي الْجَاهِلِيَّةِ إِذَا وُلِدَ لِأَحَدِنَا غُلَامٌ ذَبَحَ شَاةً وَلَطَخَ رَأْسَهُ بِدَمِهَا، فَلَمَّا جَاءَ اللَّهُ بِالْإِسْلَامِ كُنَّا «نَذْبَحُ شَاةً، وَنَحْلِقُ رَأْسَهُ وَنُلَطِّخُهُ بِزَعْفَرَانٍ» (رواه ابوداؤد)

তাহকীক:
হাদীস নং: ১৩৭৫
کتاب المعاملات والمعاشرت
عقیقہ
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ زمانہ جاہلیت میں لوگوں کا یہ دستور تھا کہ جب وہ بچے کا عقیقہ کرتے تو روئی کے ایک پھوئے میں عقیقہ کے جانور کا خون بھر لیتے ، پھر جب بچے کا سر منڈوا دیتے تو وہ خون بھرا پھویا اس کے سر پر رکھ دیتے (اور اس کے سر کو عقیقہ کے خون سے رنگین کر دیتے ، یہ ایک جاہلانہ رسم تھی) تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ :“بچے کے سر پر خون نہیں بلکہ اس کی جگہ خلوق لگایا کرو”۔ (صحیح حبان)
تشریح
خلوق ایک مرکب خوشبو کا نام ہے جو زعفران وغیرہ سے تیار کی جاتی ہے ۔ حضرت بریدہ اور ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہما کی ان حدیثوں سے معلوم ہوا کہ عقیقہ کا رواج عربوں میں زمانہ جاہلیت میں بھی تھا چونکہ اس میں بہت سی مصلحتیں تھیں جن کی طرف اوپر اشارہ کیا جا چکا ہے ، اور یہ بنیادی طور پر شریعت اسلامی کے مزاج کے مطابق تھا ، اور غالباً مناسکِ حج کی طرح ملتِ ابراہیمی کے بقایا میں سے تھا اس لئے رسول اللہ ﷺ نے اس کی اصل کو باقی رکھا اور جاہلانہ رسوم کی اصلاح فرمائی ۔
اسی طرح بیہقی کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ عقیقہ کا رواج یہود میں بھی تھا لیکن وہ صرف لڑکوں کی طرف سے عقیقہ کی قربانی کرتے تھے لڑکیوں کی طرف سے نہیں کرتے تھے جس کی وجہ سے غالباً لڑکیوں کی ناقدری تھی ۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کی بھی اصلاح فرمائی اور حکم دیا کہ لڑکوں کی طرح لڑکیوں کی طرف سے بھی عقیقہ کیا جائے ۔ (1) البتہ دونوں صنفوں میں قدرتی اور فطری فرق ہے (جس کا لحاظ میراث اور قانونِ شہادت وغیرہ میں بھی کیا گیا ہے) اس کی بناء پر آپ ﷺ نے فرمایا کہ لڑکی کے عقیقہ میں ایک بکری اور لڑکے کے عقیقہ میں (اگر استطاعت اور وسعت ہو) تو دو بکریوں کی قربانی کی جائے ۔
تشریح
خلوق ایک مرکب خوشبو کا نام ہے جو زعفران وغیرہ سے تیار کی جاتی ہے ۔ حضرت بریدہ اور ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہما کی ان حدیثوں سے معلوم ہوا کہ عقیقہ کا رواج عربوں میں زمانہ جاہلیت میں بھی تھا چونکہ اس میں بہت سی مصلحتیں تھیں جن کی طرف اوپر اشارہ کیا جا چکا ہے ، اور یہ بنیادی طور پر شریعت اسلامی کے مزاج کے مطابق تھا ، اور غالباً مناسکِ حج کی طرح ملتِ ابراہیمی کے بقایا میں سے تھا اس لئے رسول اللہ ﷺ نے اس کی اصل کو باقی رکھا اور جاہلانہ رسوم کی اصلاح فرمائی ۔
اسی طرح بیہقی کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ عقیقہ کا رواج یہود میں بھی تھا لیکن وہ صرف لڑکوں کی طرف سے عقیقہ کی قربانی کرتے تھے لڑکیوں کی طرف سے نہیں کرتے تھے جس کی وجہ سے غالباً لڑکیوں کی ناقدری تھی ۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کی بھی اصلاح فرمائی اور حکم دیا کہ لڑکوں کی طرح لڑکیوں کی طرف سے بھی عقیقہ کیا جائے ۔ (1) البتہ دونوں صنفوں میں قدرتی اور فطری فرق ہے (جس کا لحاظ میراث اور قانونِ شہادت وغیرہ میں بھی کیا گیا ہے) اس کی بناء پر آپ ﷺ نے فرمایا کہ لڑکی کے عقیقہ میں ایک بکری اور لڑکے کے عقیقہ میں (اگر استطاعت اور وسعت ہو) تو دو بکریوں کی قربانی کی جائے ۔
عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: كَانُوا فِي الْجَاهِلِيَّةِ إِذَا عَقُّوا عَنِ الصَّبِيِّ خَضَبُوا قُطْنَةً بِدَمِ العقيقة, فإذا حلقوا رأس الصي, وَضَعُوهَا عَلَى رَأْسَهُ, فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "اجعلوا مكان الدم خلوقا" (رواه ابن حبان فى صحيحه)

তাহকীক:
হাদীস নং: ১৩৭৬
کتاب المعاملات والمعاشرت
عقیقہ
ام کرز رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ، آپ ﷺ (عقیقہ کے بارے میں) فرما رہے تھے کہ لڑکے کی طرف سے دو بکریاں کی جائیں اور لڑکی طرف سے ایک بکری اور اس میں کوئی حرج نہیں کہ عقیقہ کے جانور نر ہوں یا مادہ ۔ (جامع ترمذی ، سنن نسائی)
عَنْ أُمَّ كُرْزٍ قَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: عَنِ الغُلاَمِ شَاتَانِ، وَعَنِ الجَارِيَةِ شَاةٌ، وَلاَ يَضُرُّكُمْ ذُكْرَانًا كُنَّ أَوْ إِنَاثًا. (رواه الترمذى والنسائى)

তাহকীক:
হাদীস নং: ১৩৭৭
کتاب المعاملات والمعاشرت
عقیقہ
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس کے بچہ پیدا ہوا اور وہ اس کی طرف سے عقیقہ کی قربانی کرنا چاہے تو لڑکے کی طرف سے دو بکریاں اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری کی قربانی کرے ۔ (سنن ابی داؤد ، سنن نسائی)
تشریح
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عقیقہ فرائض و واجبات کی طرح کوئی لازمی چیز نہیں ہے ، بلکہ اس کا درجہ استحباب کا ہے جیسا کہ حدیث کے خط کشیدہ الفاظ سے معلوم ہوتا ہے ۔ واللہ اعلم ۔ اسی طرح لڑکے کے عقیقہ میں دو بکریاں کرنا بھی کچھ ضروری نہیں ہے ، ہاں اگر وسعت ہو تو دو کی قربانی بہتر ہے ورنہ ایک بھی کافی ہے ۔
آگے درج ہونے والی ایک حدیث سے معلوم ہو گا کہ خود رسول اللہ ﷺ نے حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ کے عقیقہ میں ایک ایک ہی بکری کی قربانی کی تھی ۔
تشریح
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عقیقہ فرائض و واجبات کی طرح کوئی لازمی چیز نہیں ہے ، بلکہ اس کا درجہ استحباب کا ہے جیسا کہ حدیث کے خط کشیدہ الفاظ سے معلوم ہوتا ہے ۔ واللہ اعلم ۔ اسی طرح لڑکے کے عقیقہ میں دو بکریاں کرنا بھی کچھ ضروری نہیں ہے ، ہاں اگر وسعت ہو تو دو کی قربانی بہتر ہے ورنہ ایک بھی کافی ہے ۔
آگے درج ہونے والی ایک حدیث سے معلوم ہو گا کہ خود رسول اللہ ﷺ نے حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ کے عقیقہ میں ایک ایک ہی بکری کی قربانی کی تھی ۔
عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: «مَنْ وُلِدَ لَهُ وَلَدٌ، فَأَحَبَّ أَنْ يَنْسُكَ عَنْهُ، عَنِ الْغُلَامِ شَاتَيْنِ ، فَلْيَنْسُكْ وَعَنِ الْجَارِيَةِ شَاةٌ» (رواه ابوداؤد والنسائى)

তাহকীক:
হাদীস নং: ১৩৭৮
کتاب المعاملات والمعاشرت
عقیقہ
حضرت حسن بصری نے حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ہر بچہ اپنے عقیقہ کے جانور کے عوض رہن ہوتا ہے جو ساتویں دن اس کی طرف سے قربانی کیا جائے اور اس کا سر منڈوا دیا جائے اور نام رکھا جائے ۔ (سنن ابی داؤد ، جامع ترمذی ، سنن نسائی)
تشریح
عقیقہ کے جانور کے عوض بچے کے رہن ہونے کے شارحین نے کئی مطلب بیان کئے ہیں ۔ اس عاجز کے نزدیک دل کو زیادہ لگنے والی بات یہ ہے کہ بچہ اللہ تعالیٰ کی ایک بڑی نعمت ہے اور صاحب استطاعت کے لئے عقیقہ کی قربانی اس کا شکرانہ اور گویا اس کا فدیہ ہے ۔ جب تک یہ شکریہ پیش پیش نہ کیا جائے اور فدیہ ادا نہ کر دیا جائے وہ بار باقی رہے گا اور گویا بچہ اس کے عوض رہن رہے گا ۔
پیدائش ہی کے دن عقیقہ کرنے کا حکم غالبا اس لئے نہیں دیا گیا کہ اس وقت گھر والوں کو زچہ کی دیکھ بھال کی فکر ہوتی ہے علاوہ ازیں اسی دن بچے کا سر صاف کرا دینے میں طبی اصول پر ضرر کا بھی خطرہ ہے ۔ ایک ہفتہ کی مدت ایسی ہے کہ اس میں زچہ بھی عموماً ٹھیک ہو جاتی ہے اور بچہ بھی سات دن تک اس دنیا کی ہوا کھا کے ایسا ہو جاتا ہے کہ اس کا سر صاف کرا دینے میں ضرر کا خطرہ نہیں رہتا ۔ واللہ اعلم ۔
اس حدیث سے اور بعض دوسری احادیث سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ عقیقہ کے ساتھ ساتویں دن بچے کا نام بھی رکھا جائے ۔ لیکن بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بعض بچوں کا نام پیدائش کے دن ہی رکھ دیا تھا اس لئے ساتویں دن سے پہلے نام رکھ دینے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں ہے ، ہاں اگر پہلے نام نہ رکھا گیا ہو تو ساتویں دن عقیقہ کے ساتھ بھی نام رکھ دیا جائے ۔ جن حدیثوں میں ساتویں دن عقیقہ کے ساتھ نام رکھنے کا ذکر ہے ان کا مطلب یہی سمجھنا چاہئے ۔
تشریح
عقیقہ کے جانور کے عوض بچے کے رہن ہونے کے شارحین نے کئی مطلب بیان کئے ہیں ۔ اس عاجز کے نزدیک دل کو زیادہ لگنے والی بات یہ ہے کہ بچہ اللہ تعالیٰ کی ایک بڑی نعمت ہے اور صاحب استطاعت کے لئے عقیقہ کی قربانی اس کا شکرانہ اور گویا اس کا فدیہ ہے ۔ جب تک یہ شکریہ پیش پیش نہ کیا جائے اور فدیہ ادا نہ کر دیا جائے وہ بار باقی رہے گا اور گویا بچہ اس کے عوض رہن رہے گا ۔
پیدائش ہی کے دن عقیقہ کرنے کا حکم غالبا اس لئے نہیں دیا گیا کہ اس وقت گھر والوں کو زچہ کی دیکھ بھال کی فکر ہوتی ہے علاوہ ازیں اسی دن بچے کا سر صاف کرا دینے میں طبی اصول پر ضرر کا بھی خطرہ ہے ۔ ایک ہفتہ کی مدت ایسی ہے کہ اس میں زچہ بھی عموماً ٹھیک ہو جاتی ہے اور بچہ بھی سات دن تک اس دنیا کی ہوا کھا کے ایسا ہو جاتا ہے کہ اس کا سر صاف کرا دینے میں ضرر کا خطرہ نہیں رہتا ۔ واللہ اعلم ۔
اس حدیث سے اور بعض دوسری احادیث سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ عقیقہ کے ساتھ ساتویں دن بچے کا نام بھی رکھا جائے ۔ لیکن بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بعض بچوں کا نام پیدائش کے دن ہی رکھ دیا تھا اس لئے ساتویں دن سے پہلے نام رکھ دینے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں ہے ، ہاں اگر پہلے نام نہ رکھا گیا ہو تو ساتویں دن عقیقہ کے ساتھ بھی نام رکھ دیا جائے ۔ جن حدیثوں میں ساتویں دن عقیقہ کے ساتھ نام رکھنے کا ذکر ہے ان کا مطلب یہی سمجھنا چاہئے ۔
عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدُبٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «كُلُّ غُلَامٍ رَهِينَةٌ بِعَقِيقَتِهِ تُذْبَحُ عَنْهُ يَوْمَ سَابِعِهِ وَيُحْلَقُ وَيُسَمَّى» (رواه ابوداؤد والترمذى والنسائى)

তাহকীক:
হাদীস নং: ১৩৭৯
کتاب المعاملات والمعاشرت
عقیقہ
حضرت سلمان بن عامر الضبی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ بچے کے ساتھ عقیقہ ہے (یعنی اللہ تعالیٰ جس کو بچہ عطا فرمائے وہ عقیقہ کرے) لہذا بچے کی طرف سے قربانی کرو اور اس کا سر صاف کرا دو ۔ (صحیح بخاری)
تشریح
عقیقہ میں جیسا کہ ان حدیثوں سے ظاہر ہے دو ہی کام ہوتے ہیں ۔ ایک بچے کا سر منڈوا دینا اور دوسرا اس کی طرف سے شکرانہ اور فدیہ کے طور پر جانور قربان کر دینا ۔ ان دونوں عملوں میں ایک خاص ربط اور مناسبت ہے اور یہ ملت ابراہیمیؑ کے شعائر میں سے ہیں ۔ حج میں بھی ان دونوں کا اسی طرح جوڑ ہے اور حاجی قربانی کرنے کے بعد سر صاف کراتا ہے ۔ اس لحاظ سے عقیقہ عملی طور پر اس کا بھی اعلان ہے کہ ہمارا رابطہ اللہ کے خلیل حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ہے اور یہ بچہ بھی ملت ابراہیمیؑ کا ایک فرد ہے ۔
تشریح
عقیقہ میں جیسا کہ ان حدیثوں سے ظاہر ہے دو ہی کام ہوتے ہیں ۔ ایک بچے کا سر منڈوا دینا اور دوسرا اس کی طرف سے شکرانہ اور فدیہ کے طور پر جانور قربان کر دینا ۔ ان دونوں عملوں میں ایک خاص ربط اور مناسبت ہے اور یہ ملت ابراہیمیؑ کے شعائر میں سے ہیں ۔ حج میں بھی ان دونوں کا اسی طرح جوڑ ہے اور حاجی قربانی کرنے کے بعد سر صاف کراتا ہے ۔ اس لحاظ سے عقیقہ عملی طور پر اس کا بھی اعلان ہے کہ ہمارا رابطہ اللہ کے خلیل حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ہے اور یہ بچہ بھی ملت ابراہیمیؑ کا ایک فرد ہے ۔
عَنْ سَلْمَانُ بْنُ عَامِرٍ الضَّبِّيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «مَعَ الغُلاَمِ عَقِيقَةٌ، فَأَهْرِيقُوا عَنْهُ دَمًا، وَأَمِيطُوا عَنْهُ الأَذَى» (رواه البخارى)

তাহকীক:
হাদীস নং: ১৩৮০
کتاب المعاملات والمعاشرت
عقیقہ
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے (اپنے نواسوں) حسن اور حسینؓ کا عقیقہ کیا اور ایک ایک مینڈھا ذبح کیا ۔ (سنن ابی داؤد)
تشریح
حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ کے عقیقہ میں رسول اللہ ﷺ نے صرف ایک ایک مینڈھے کی قربانی غالبا اس لئے کی کہ اس وقت اتنی وسعت تھی ۔ اور اس طرح ان لوگوں کے لئے جن کو زیادہ وسعت حاصل نہ ہو ایک نظیر بھی قائم ہو گئی ۔ اس حدیث کی بعض روایات میں بجائے ایک ایک مینڈھے کے دو دو مینڈھوں کا بھی ذکر کیا گیا ہے ۔ لیکن محدثین کے نزدیک سنن ابی داؤد کی یہی روایت قابلِ ترجیح ہے جس میں ایک ایک مینڈھے کا ذکر کیا گیا ہے ۔
تشریح
حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ کے عقیقہ میں رسول اللہ ﷺ نے صرف ایک ایک مینڈھے کی قربانی غالبا اس لئے کی کہ اس وقت اتنی وسعت تھی ۔ اور اس طرح ان لوگوں کے لئے جن کو زیادہ وسعت حاصل نہ ہو ایک نظیر بھی قائم ہو گئی ۔ اس حدیث کی بعض روایات میں بجائے ایک ایک مینڈھے کے دو دو مینڈھوں کا بھی ذکر کیا گیا ہے ۔ لیکن محدثین کے نزدیک سنن ابی داؤد کی یہی روایت قابلِ ترجیح ہے جس میں ایک ایک مینڈھے کا ذکر کیا گیا ہے ۔
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، «أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَقَّ عَنِ الْحَسَنِ، وَالْحُسَيْنِ كَبْشًا كَبْشًا» (رواه ابوداؤد)

তাহকীক:
হাদীস নং: ১৩৮১
کتاب المعاملات والمعاشرت
عقیقہ
حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حسن کے عقیقہ میں ایک بکری کی قربانی کی اور آپ ﷺ نے (اپنی صاحبزادی سیدہ) فاطمہؓ سے فرمایا کہ اس کا سر صاف کر دو اور بالوں کے وزن بھر چاندی صدقہ کر دو ہم نے وزن کیا تو ایک درہم کے برابر یا اس سے بھی کچھ کم تھے ۔ (جامع ترمذی)
تشریح
اس حدیث میں عقیقہ کے سلسلے میں قربانی کے علاوہ بچے کے بالوں کے وزن بھر چاندی صدقہ کرنے کا بھی ذکر ہے ، یہ بھی مستحب ہے ۔
اس حدیث کے بیان کے مطابق رسول اللہ ﷺ نے صاحبزادہ حسنؓ کے بالوں کے وزن بھر چاندی صدقہ کرنے کا حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو جو حکم دیا تھا بعض حضرات نے اس کی توجیہ یہ کی ہے کہ حضرت حسنؓ کی پیدائش کے دنوں میں ان کے ماں باپ (حضرت فاطمہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہما) کے ہاں اتنی وسعت نہیں تھی کہ وہ عقیقہ کی قربانی کر سکتے ، اس لئے رسول اللہ ﷺ نے بکری کی قربانی تو اپنی طرف سے کر دی ، لیکن حضرت فاطمہؓ سے فرما دیا کہ بچے کے بالوں کے وزن بھر چاندی وہ صدقہ کر دیں ، تا کہ ان کی طرف سے بھی کچھ شکرانہ صدقے کی شکل میں اللہ کے حضور میں گزر جائے ۔
تشریح
اس حدیث میں عقیقہ کے سلسلے میں قربانی کے علاوہ بچے کے بالوں کے وزن بھر چاندی صدقہ کرنے کا بھی ذکر ہے ، یہ بھی مستحب ہے ۔
اس حدیث کے بیان کے مطابق رسول اللہ ﷺ نے صاحبزادہ حسنؓ کے بالوں کے وزن بھر چاندی صدقہ کرنے کا حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو جو حکم دیا تھا بعض حضرات نے اس کی توجیہ یہ کی ہے کہ حضرت حسنؓ کی پیدائش کے دنوں میں ان کے ماں باپ (حضرت فاطمہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہما) کے ہاں اتنی وسعت نہیں تھی کہ وہ عقیقہ کی قربانی کر سکتے ، اس لئے رسول اللہ ﷺ نے بکری کی قربانی تو اپنی طرف سے کر دی ، لیکن حضرت فاطمہؓ سے فرما دیا کہ بچے کے بالوں کے وزن بھر چاندی وہ صدقہ کر دیں ، تا کہ ان کی طرف سے بھی کچھ شکرانہ صدقے کی شکل میں اللہ کے حضور میں گزر جائے ۔
عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ قَالَ: عَقَّ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الحَسَنِ بِشَاةٍ، وَقَالَ: يَا فَاطِمَةُ، احْلِقِي رَأْسَهُ، وَتَصَدَّقِي بِزِنَةِ شَعْرِهِ فِضَّةً، قَالَ: فَوَزَنَتْهُ فَكَانَ وَزْنُهُ دِرْهَمًا أَوْ بَعْضَ دِرْهَمٍ. (رواه الترمذى)

তাহকীক:
হাদীস নং: ১৩৮২
کتاب المعاملات والمعاشرت
تسمیہ (نام رکھنا)
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : باپ پر بچے کا یہ بھی حق ہے کہ اس کا اچھا نام رکھے اور اس کو حسن ادب سے آراستہ کرے ۔ (شعب الایمان للبیہقی)
تشریح
بچے کا اچھا نام رکھنا بھی ایک حق ہے ۔ احادیث نبویﷺ میں اس بارے میں بھی واضح ہدایات وارد ہوئی ہیں ۔
تشریح
بچے کا اچھا نام رکھنا بھی ایک حق ہے ۔ احادیث نبویﷺ میں اس بارے میں بھی واضح ہدایات وارد ہوئی ہیں ۔
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " حَقُّ الْوَلَدِ عَلَى وَالِدِهِ أَنْ يُحْسِنَ اسْمَهُ، وَيُحْسِنَ أَدَبَهُ " (رواه البيهقى فى شعب الايمان)

তাহকীক:
হাদীস নং: ১৩৮৩
کتاب المعاملات والمعاشرت
تسمیہ (نام رکھنا)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : آدمی اپنے بچے کو سب سے پہلا تحفہ نام کا دیتا ہے اس لئے چاہئے کہ اس کا نام اچھا رکھے ۔ (ابو الشیخ)
عن أبي هريرة قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أول ما ينحل الرجل ولده اسمه فليحسن أسمه. (رواه أبو الشيخ)

তাহকীক:
হাদীস নং: ১৩৮৪
کتاب المعاملات والمعاشرت
تسمیہ (نام رکھنا)
حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ : قیامت کے دن تم اپنے اور اپنے آباء کے نام کے ساتھ پکارے جاؤ گے (یعنی پکارا جائے گا فلاں بن فلاں) لہذا تم اچھے نام رکھا کرو ۔ (مسند احمد ، سنن ابی داؤد)
عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «تُدْعَوْنَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِأَسْمَائِكُمْ وَأَسْمَاءِ آبَائِكُمْ، فَأَحْسِنُوا أَسْمَاءَكُمْ» (رواه احمد وابوداؤد)

তাহকীক:
হাদীস নং: ১৩৮৫
کتاب المعاملات والمعاشرت
تسمیہ (نام رکھنا)
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : تمہارے ناموں میں اللہ کو سب سے زیادہ محبوب اور پسندیدہ نام عبداللہ اور عبدالرحمن ہیں ۔ (صحیح مسلم)
تشریح
عبداللہ اور عبدالرحمن کے زیادہ پسندیدہ ہونے کی وجہ ظاہر ہے اس میں بندے کی عبدیت کا اعلان ہے اور وہ چیز اللہ کو پسند ہے ۔ اسی طرح انبیاء علیہم السلام کے نام بھی پسندیدہ ناموں میں سے ہیں وہ انبیاء علیہم السلام کے ساتھ نسبت کو ظاہر کرتے ہیں ۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے صاحبزادے کا نام ابراہیم رکھا تھا ۔ اور سنن ابی داؤد وغیرہ میں آپ ﷺ کا یہ ارشاد بھی مروی ہے : “سَمُّوْا بِاَسْمَاءِ الْاَنْبِيَاء” (یعنی پیغمبروں کے نام پہ نام رکھو) اس کے علاوہ رسول اللہ ﷺ نے بعض بچوں کے نام ایسے رکھے جو معنوی لحاظ سے اچھے ہیں ، اگرچہ وہ پیغمبروں کے معروف ناموں میں سے نہیں ہیں مثلاً اپنے نواسوں کا نام حسن اور حسین رکھا ، اور ایک انصاری صحابی کے بچے کا نام مُنذِر رکھا ۔ الغرض اس باب میں رسول اللہ ﷺ کے طرز عمل اور آپ کے ارشادات سے یہی رہنمائی ملتی ہے کہ باپ کی ذمہ داری ہے کہ بچے کا اچھا نام رکھے یا اپنے کسی بزرگ سے رکھوائے ۔
تشریح
عبداللہ اور عبدالرحمن کے زیادہ پسندیدہ ہونے کی وجہ ظاہر ہے اس میں بندے کی عبدیت کا اعلان ہے اور وہ چیز اللہ کو پسند ہے ۔ اسی طرح انبیاء علیہم السلام کے نام بھی پسندیدہ ناموں میں سے ہیں وہ انبیاء علیہم السلام کے ساتھ نسبت کو ظاہر کرتے ہیں ۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے صاحبزادے کا نام ابراہیم رکھا تھا ۔ اور سنن ابی داؤد وغیرہ میں آپ ﷺ کا یہ ارشاد بھی مروی ہے : “سَمُّوْا بِاَسْمَاءِ الْاَنْبِيَاء” (یعنی پیغمبروں کے نام پہ نام رکھو) اس کے علاوہ رسول اللہ ﷺ نے بعض بچوں کے نام ایسے رکھے جو معنوی لحاظ سے اچھے ہیں ، اگرچہ وہ پیغمبروں کے معروف ناموں میں سے نہیں ہیں مثلاً اپنے نواسوں کا نام حسن اور حسین رکھا ، اور ایک انصاری صحابی کے بچے کا نام مُنذِر رکھا ۔ الغرض اس باب میں رسول اللہ ﷺ کے طرز عمل اور آپ کے ارشادات سے یہی رہنمائی ملتی ہے کہ باپ کی ذمہ داری ہے کہ بچے کا اچھا نام رکھے یا اپنے کسی بزرگ سے رکھوائے ۔
عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ أَحَبَّ أَسْمَائِكُمْ إِلَى اللهِ عَبْدُ اللهِ وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ» (رواه مسلم)

তাহকীক:
হাদীস নং: ১৩৮৬
کتاب المعاملات والمعاشرت
حسنِ ادب اور دینی تربیت
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اپنے بچوں کی زبان سے سب سے پہلے “لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ” کہلواؤ ، اور موت کے وقت ان کو اسی کلمہ “لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ” کی تلقین کرو ۔ (شعب الایمان للبیہقی)
تشریح
اللہ کے سارے پیغمبروں نے اور ان سب کے آخر میں ان کے خاتم سیدنا حضرت محمدﷺ نے اس چند روزہ دنیوی زندگی کے بارے میں یہی بتایا ہے کہ یہ دراصل آنے والی اس اخروی زندگی کی تمہید اور اس کی تیاری کے لئے ہے جو اصل اور حقیقی زندگی ہے اور جو کبھی ختم نہ ہو گی ۔ اس نقطہ نظر کا قدرتی اور لازمی تقاضا ہے کہ دنیا کے سارے مسئلوں سے زیادہ آخرت کو بنانے اور وہاں فوز و فلاح حاصل کرنے کی فکر کی جائے ، اس لئے رسول اللہ ﷺ نے ہر صاحبِ اولاد پر اس کی اولاد کا یہ حق بتایا ہے کہ وہ بالکل شروع ہی سے اس کی دینی تعلیم و تربیت کی فکر کرے ، اگر وہ اس میں کوتاہی کرے گا تو قصوروار ہو گا ۔
اس سلسلہ کی چند حدیثیں ذیل میں پڑھئے :
انسانی ذہن کی صلاحیتوں کے بارے میں جدید تجربات اور تحقیقات سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے اور اب گویا تسلیم کر لی گئی ہے کہ پیدائش کے وقت ہی سے بچے کے ذہن میں یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ جو آوازیں وہ کان سے سنے اور آنکھوں سے جو کچھ دیکھے اس سے اثر لے ، اور وہ اثر لیتا ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے پیدا ہونے کے بعد یہ بچے کے کان میں (خاص کان میں) اذان و اقامت پڑھنے کی جو ہدایت فرمائی ہے (جیسا کہ حضرت ابو رافع اور حضرت حسین بن علی کی متذکرہ بالا روایات سے معلوم ہو چکا ہے) اس سے بھی یہ صاف اشارہ ملتا ہے ۔ حضرت عبداللہ بن عباس کی اس حدیث میں ہدایت فرمائی گئی ہے کہ بچے کی زبان جب بولنے کے لئے کھلنے لگے تو سب سے پہلے اس کو کلمہ “لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ” کی تلقین کی جائے اور اسی سے زبانی تعلیم و تلقین کا افتتاح ہو ۔ آگے بھی یہ ہدایت فرمائی گئی کہ جب آدمی کا وقتِ آخر آئے تو اس وقت بھی اس کو اسی کلمہ کی تلقین کی جائے ۔ بڑا خوش نصیب ہے اللہ کا وہ بندہ جس کی زبان سے دنیا میں آنے کے بعد سب سے پہلے یہی کلمہ نکلے اور دنیا سے جاتے وقت یہی اس کا آخری کلمہ ہو ۔
اللہ تعالیٰ نصیب فرمائے ۔
تشریح
اللہ کے سارے پیغمبروں نے اور ان سب کے آخر میں ان کے خاتم سیدنا حضرت محمدﷺ نے اس چند روزہ دنیوی زندگی کے بارے میں یہی بتایا ہے کہ یہ دراصل آنے والی اس اخروی زندگی کی تمہید اور اس کی تیاری کے لئے ہے جو اصل اور حقیقی زندگی ہے اور جو کبھی ختم نہ ہو گی ۔ اس نقطہ نظر کا قدرتی اور لازمی تقاضا ہے کہ دنیا کے سارے مسئلوں سے زیادہ آخرت کو بنانے اور وہاں فوز و فلاح حاصل کرنے کی فکر کی جائے ، اس لئے رسول اللہ ﷺ نے ہر صاحبِ اولاد پر اس کی اولاد کا یہ حق بتایا ہے کہ وہ بالکل شروع ہی سے اس کی دینی تعلیم و تربیت کی فکر کرے ، اگر وہ اس میں کوتاہی کرے گا تو قصوروار ہو گا ۔
اس سلسلہ کی چند حدیثیں ذیل میں پڑھئے :
انسانی ذہن کی صلاحیتوں کے بارے میں جدید تجربات اور تحقیقات سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے اور اب گویا تسلیم کر لی گئی ہے کہ پیدائش کے وقت ہی سے بچے کے ذہن میں یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ جو آوازیں وہ کان سے سنے اور آنکھوں سے جو کچھ دیکھے اس سے اثر لے ، اور وہ اثر لیتا ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے پیدا ہونے کے بعد یہ بچے کے کان میں (خاص کان میں) اذان و اقامت پڑھنے کی جو ہدایت فرمائی ہے (جیسا کہ حضرت ابو رافع اور حضرت حسین بن علی کی متذکرہ بالا روایات سے معلوم ہو چکا ہے) اس سے بھی یہ صاف اشارہ ملتا ہے ۔ حضرت عبداللہ بن عباس کی اس حدیث میں ہدایت فرمائی گئی ہے کہ بچے کی زبان جب بولنے کے لئے کھلنے لگے تو سب سے پہلے اس کو کلمہ “لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ” کی تلقین کی جائے اور اسی سے زبانی تعلیم و تلقین کا افتتاح ہو ۔ آگے بھی یہ ہدایت فرمائی گئی کہ جب آدمی کا وقتِ آخر آئے تو اس وقت بھی اس کو اسی کلمہ کی تلقین کی جائے ۔ بڑا خوش نصیب ہے اللہ کا وہ بندہ جس کی زبان سے دنیا میں آنے کے بعد سب سے پہلے یہی کلمہ نکلے اور دنیا سے جاتے وقت یہی اس کا آخری کلمہ ہو ۔
اللہ تعالیٰ نصیب فرمائے ۔
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: افْتَحُوا عَلَى صِبْيَانِكُمْ أَوَّلَ كَلِمَةٍ بِلَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، وَلَقِّنُوهُمْ عِنْدَ الْمَوْتِ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ. (رواه البيهقى فى شعب الايمان)

তাহকীক:
হাদীস নং: ১৩৮৭
کتاب المعاملات والمعاشرت
حسنِ ادب اور دینی تربیت
حضرت سعید بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : کسی باپ نے اپنی اولاد کو کوئی عطیہ اور تحفہ حسن ادب اور اچھی سیرت سے بہتر نہیں دیا ۔ (جامع ترمذی)
تشریح
یعنی باپ کی طرف سے اولاد کے لئے سب سے اعلیٰ اور بیش بہا تحفہ یہی ہے کہ ان کی ایسی تربیت کرے کہ وہ شائستگی اور اچھے اخلاق و سیرت کے حامل ہوں ۔
تشریح
یعنی باپ کی طرف سے اولاد کے لئے سب سے اعلیٰ اور بیش بہا تحفہ یہی ہے کہ ان کی ایسی تربیت کرے کہ وہ شائستگی اور اچھے اخلاق و سیرت کے حامل ہوں ۔
عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْعَاصِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا نَحَلَ وَالِدٌ وَلَدَهُ أَفْضَلَ مِنْ أَدَبٍ حَسَنٍ» (رواه الترمذى)

তাহকীক:
হাদীস নং: ১৩৮৮
کتاب المعاملات والمعاشرت
حسنِ ادب اور دینی تربیت
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : اپنی اولاد کا اکرام کرو ، اور (اچھی تربیت کے ذریعہ) ان کو حسنِ ادب سے آراستہ کرو ۔ (سنن ابن ماجہ)
تشریح
اولاد کا اکرام یہ ہے کہ ان کو اللہ تعالیٰ کا عطیہ اور اس کی امانت سمجھ کر ان کی قدر اور ان کا لحاظ کیا جائے حسبِ استطاعت ان کی ضروریات حیات کا بندوبست کیا جائے ۔ ان کو بوجھ اور مصیبت نہ سمجھا جائے ۔
تشریح
اولاد کا اکرام یہ ہے کہ ان کو اللہ تعالیٰ کا عطیہ اور اس کی امانت سمجھ کر ان کی قدر اور ان کا لحاظ کیا جائے حسبِ استطاعت ان کی ضروریات حیات کا بندوبست کیا جائے ۔ ان کو بوجھ اور مصیبت نہ سمجھا جائے ۔
عَنْ أَنَسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَكْرِمُوا أَوْلَادَكُمْ وَأَحْسِنُوا أَدَبَهُمْ» (رواه ابن ماجه)

তাহকীক:
হাদীস নং: ১৩৮৯
کتاب المعاملات والمعاشرت
حسنِ ادب اور دینی تربیت
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تمہارے بچے جب سات سال کے ہو جائیں تو ان کو نماز کی تاکید کرو اور جب دس سال کے ہو جائیں تو نماز مین کوتاہی کرنے پر ان کو سزا دو اور ان کے بستر بھی الگ کر دو ۔ (سنن ابی داؤد)
تشریح
عام طور سے بچے سات سال کی عمر میں سمجھدار اور باشعور ہو جاتے ہین ، اس وقت سے ان کو خدا پرستی کے راستے پر ڈالنا چاہئے ، اور اس کے لے ان سے نماز کی پابندی کرانی چاہئے ۔ دس سال کی عمر میں ان کا شعور کافی ترقی کر جاتا ہے اور بلوغ کا زمانہ قریب آ جاتا ہے ، اس وقت نماز کے بارے میں ان پر سختی کرنی چاہئے اور اگر وہ کوتاہی کریں تو مناسب طور پر ان کو سرزنش بھی کرنی چاہئے ۔ نیز اس دعمر کو پہنچ جانے پر ان کو الگ الگ سلانا چاہئے ۔ ایک ساتھ اور ایک بستر پر نہ سلانا چاہئے (دس سال سے پہلے اس کی گنجائش ہے) ۔
حدیث کا مدعا یہ ہے کہ ماں باپ پر یہ سب اولاد کے حقوق ہیں ، لڑکوں کے بھی اور لڑکیوں کے بھی اور قیامت کے دن ان سب کے بارے میں باز پرس ہو گی ۔
تشریح
عام طور سے بچے سات سال کی عمر میں سمجھدار اور باشعور ہو جاتے ہین ، اس وقت سے ان کو خدا پرستی کے راستے پر ڈالنا چاہئے ، اور اس کے لے ان سے نماز کی پابندی کرانی چاہئے ۔ دس سال کی عمر میں ان کا شعور کافی ترقی کر جاتا ہے اور بلوغ کا زمانہ قریب آ جاتا ہے ، اس وقت نماز کے بارے میں ان پر سختی کرنی چاہئے اور اگر وہ کوتاہی کریں تو مناسب طور پر ان کو سرزنش بھی کرنی چاہئے ۔ نیز اس دعمر کو پہنچ جانے پر ان کو الگ الگ سلانا چاہئے ۔ ایک ساتھ اور ایک بستر پر نہ سلانا چاہئے (دس سال سے پہلے اس کی گنجائش ہے) ۔
حدیث کا مدعا یہ ہے کہ ماں باپ پر یہ سب اولاد کے حقوق ہیں ، لڑکوں کے بھی اور لڑکیوں کے بھی اور قیامت کے دن ان سب کے بارے میں باز پرس ہو گی ۔
عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مُرُوا أَوْلَادَكُمْ بِالصَّلَاةِ وَهُمْ أَبْنَاءُ سَبْعِ سِنِينَ، وَاضْرِبُوهُمْ عَلَيْهَا، وَهُمْ أَبْنَاءُ عَشْرٍ وَفَرِّقُوا بَيْنَهُمْ فِي الْمَضَاجِعِ» (رواه ابوداؤد و رواه فى شرح السنة عن ابن معبد)

তাহকীক:
হাদীস নং: ১৩৯০
کتاب المعاملات والمعاشرت
خاص کر لڑکیوں کے ساتھ حسن سلوک کی اہمیت
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس شخص کے ہاں لڑکی پیدا ہو ، پھر وہ نہ تو اسے کوئی ایذاء پہنچائے اور نہ اس کی توہین اور ناقدری کرے ، اور نہ محبت اور برتاؤ میں لڑکوں کو اس پر ترجیح دے (یعنی اس کے ساتھ ویسا ہی برتاؤ کرے جیسا کہ لڑکوں کے ساتھ کرتا ہے) تو اللہ تعالیٰ لڑکی کے ساتھ اس حسنِ سلوک کے صلے میں اس کو جنت عطا فرمائے گا ۔ (مسند احمد ، مستدرک حاکم)
تشریح
آج تک بھی بہت سے علاقوں میں لڑکی کو ایک بوجھ اور مصیبت سمجھا جاتا ہے ، اور اس کے پیدا ہونے پر گھر میں بجائے خوشی کے افسردگی اور غمی کی فضاء ہو جاتی ہے ۔ یہ حالت تو آج ہے لیکن اسلام سے پہلے عربوں میں تو بےچاری لڑکی کو باعث ننگ و عار تصور کیا جاتا تھا اور اس کا یہ حق بھی نہیں سمجھا جاتا تھا کہ اس کو زندہ ہی رہنے دیا جائے ۔ بہت سے شقی القلب خود اپنے ہاتھوں سے اپنی بچی کا گلا گھونٹ کر اس کا خاتمہ کر دیتے تھے ، یا اس کو زندہ زمین میں دفن کر دیتے تھے ۔
ان کا یہ حال قرآن مجید میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے :
وَإِذَا بُشِّرَ أَحَدُهُم بِالْأُنثَىٰ ظَلَّ وَجْهُهُ مُسْوَدًّا وَهُوَ كَظِيمٌ ﴿٥٨﴾ يَتَوَارَىٰ مِنَ الْقَوْمِ مِن سُوءِ مَا بُشِّرَ بِهِ ۚأَيُمْسِكُهُ عَلَىٰ هُونٍ أَمْ يَدُسُّهُ فِي التُّرَابِ (النحل 59:16)
جب ان میں سے کسی کو لڑکی پیدا ہونے کی خبر سنائی جاتی ہے تو وہ دل مسوس کر رہ جاتا ہے لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے ، ان کو منہ نہیں دکھانا چاہتا ، اس برائی کی وجہ سے جس کی اسے خبر ملی ہے ، سوچتا ہے کیا اس نومولود بچی کو ذلت کے ساتھ باقی رکھے یا اس کو کہیں لے جا کر مٹی میں دبا دے ۔
یہ تھا لڑکیوں کے بارے میں ان عربوں کا ظالمانہ رویہ جن میں رسول اللہ ﷺ مبعوث ہوئے ۔ اس فضا اور اس پس منظر کو پیش نظر رکھ کے اس بارے میں رسول اللہ ﷺ کے مندرجہ ذیل ارشادات پرھئے :
تشریح
آج تک بھی بہت سے علاقوں میں لڑکی کو ایک بوجھ اور مصیبت سمجھا جاتا ہے ، اور اس کے پیدا ہونے پر گھر میں بجائے خوشی کے افسردگی اور غمی کی فضاء ہو جاتی ہے ۔ یہ حالت تو آج ہے لیکن اسلام سے پہلے عربوں میں تو بےچاری لڑکی کو باعث ننگ و عار تصور کیا جاتا تھا اور اس کا یہ حق بھی نہیں سمجھا جاتا تھا کہ اس کو زندہ ہی رہنے دیا جائے ۔ بہت سے شقی القلب خود اپنے ہاتھوں سے اپنی بچی کا گلا گھونٹ کر اس کا خاتمہ کر دیتے تھے ، یا اس کو زندہ زمین میں دفن کر دیتے تھے ۔
ان کا یہ حال قرآن مجید میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے :
وَإِذَا بُشِّرَ أَحَدُهُم بِالْأُنثَىٰ ظَلَّ وَجْهُهُ مُسْوَدًّا وَهُوَ كَظِيمٌ ﴿٥٨﴾ يَتَوَارَىٰ مِنَ الْقَوْمِ مِن سُوءِ مَا بُشِّرَ بِهِ ۚأَيُمْسِكُهُ عَلَىٰ هُونٍ أَمْ يَدُسُّهُ فِي التُّرَابِ (النحل 59:16)
جب ان میں سے کسی کو لڑکی پیدا ہونے کی خبر سنائی جاتی ہے تو وہ دل مسوس کر رہ جاتا ہے لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے ، ان کو منہ نہیں دکھانا چاہتا ، اس برائی کی وجہ سے جس کی اسے خبر ملی ہے ، سوچتا ہے کیا اس نومولود بچی کو ذلت کے ساتھ باقی رکھے یا اس کو کہیں لے جا کر مٹی میں دبا دے ۔
یہ تھا لڑکیوں کے بارے میں ان عربوں کا ظالمانہ رویہ جن میں رسول اللہ ﷺ مبعوث ہوئے ۔ اس فضا اور اس پس منظر کو پیش نظر رکھ کے اس بارے میں رسول اللہ ﷺ کے مندرجہ ذیل ارشادات پرھئے :
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ وُلِدَتْ لَهُ ابْنَةٌ، فَلَمْ يُؤْذِهَا، وَلَمْ يُهِنْهَا، وَلَمْ يُؤْثِرْ وَلَدَهُ عَلَيْهَا - يَعْنِي الذُّكُوْرَ - أَدْخَلَهُ اللَّهُ بِهَا الْجَنَّةَ» (رواه احمد والحاكم فى المستدرك)

তাহকীক: