মা'আরিফুল হাদীস (উর্দু)
معارف الحديث
کتاب المعاملات - এর পরিচ্ছেদসমূহ
মোট হাদীস ২০ টি
হাদীস নং: ১৭৩৮
کتاب المعاملات
حلال روزی حاصل کرنے کی فکروکوشش فرائض میں سے ہے
حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ حلال حاصل کرنے کی فکر و کوشش فرض کے بعد فریضہ ہے۔ (شعب الایمان للبیہقی)
تشریح
بسم اللہ الرحمن الرحیم
معاشی معاملات ...... انسانوں کی فطری ضرورت
اس باب میں خداوندی ہدایت اور اس کے بنیادی اصول
اللہ تعالی نے انسان کو مدنی الطبع بنایا ہے یعنی انسان کی فطری ساخت ایسی ہے کہ وہ اپنی زندگی میں باہمی تعاون اور معاملاتی لین دین کے محتاج ہیں ہر فرد اور طبقہ کی ضرورت دوسرے سے وابستہ ہے مثلا ایک مزدور جسکی زندگی کی ضرورت ہے بہت مختصر ہے جو صبح سے شام تک محنت مزدوری کرکے بس گزارہ کے پیسے حاصل کرتا ہے اسے بھی ضرورت ہے اس آدمی کی جس سے وہ اپنا اور بچوں کا پیٹ بھرنے کے لیے غلہ وغیرہ خرید سکے اورغلہ پیدا کرنے والے کاشتکار کو ضرورت ہے اس مزدور کی جس سے وہ اپنی کھیتی باڑی کے کاموں میں مدد لے سکے اسی طرح مزدور اور کاشتکار دونوں کو ضرورت ہے اس آدمی کی جو ان کے لباس کی ضرورت پوری کرنے کے لیے کپڑا تیار کرے اور یہ اس سے بلا واسطہ یا بالواسطہ کپڑا خرید سکیں اور کپڑا تیار کرنے والے کو ضرورت ہے اس آدمی یا اس ایجنسی کی جس سے وہ سوت یا ریشم اور کپڑے کی صنعت کی دوسری ضروریات نقد یا قرض ادھار خرید سکے پھر ان میں سے کسی کو رہنے کے لئے مکان تعمیر کرنا ہو تو اس کو ضرورت ہوگی کسی سے اینٹ سیمنٹ وغیرہ تعمیری ضروریات خریدنے کی اور اس کے بنوانے کے لئے معماروں اور مزدوروں کی۔ پھر خدانخواستہ ان میں سے کوئی بیمار پڑ جائے تو ضرورت ہوگی حکیم ڈاکٹر سے رجوع کرنے کی اور دواؤں کی دوکان سے دوا خریدنے کی۔ الغرض اشیاء کی خرید و فروخت اور تجارتی مبادلہ اور محنت و مزدوری اور صنعت و زراعت اور قرض وعاریت وغیرہ معاشی معاملات اس دنیا میں انسانی زندگی کے لوازم ہیں پھر ان معاملات میں کبھی کبھی تنازعات کا پیدا ہونا بھی ناگزیر ہے ان کے حل کے لئے ضرورت ہے عدل و انصاف کے کسی نظام کی اور کسی دستور و قانون کی۔ یہ جو کچھ عرض کیا گیا کوئی فلسفہ یا منطق کا مسئلہ نہیں ہے سب مشاہدہ اور ہم سب کا روزمرہ کا تجربہ ہے۔
اللہ تعالی نے انبیاء علیہم السلام کے ذریعے اور سب سے آخر میں خاتم الانبیاء سیدنا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے جس طرح انسانوں کو یہ ہدایت دی کہ وہ اپنے آغاز و انجام کے بارے میں اپنے پیدا کرنے والے مالک و معبود کی ذات و صفات اور توحید و آخرت وغیرہ کے بارے میں کیا عقیدہ اور یقین رکھیں اور کس طرح اس کی عبادت کریں اور کونسے اعمال ان کی روحانیت اور انسانی شرافت کے لیے مضر اور مہلک ہیں جن سے وہ بچیں اور پرہیز کریں اور اخلاق اور معاشرت کے بارے میں ان کا رویہ کیا رہے اسی طرح اس نے خریدوفروخت صنعت و تجارت اور محنت مزدوری وغیرہ ان معاشی معاملات کے بارے میں جو انسانی شرافت وعظمت سے مطابقت رکھتے ہیں اور جن میں انسانوں کی دنیوی و اخروی فلاح ہے۔
اس کا نتیجہ یہ بھی ہوا کہ اس خداوندی ہدایت اور اس شعبے سے متعلق شریعت محمدی کے احکام کی پابندی اور پیروی کرتے ہوئے ان کاموں کا کرنا اب دنیا نہیں بلکہ عین دین اور ایک معنی کر عبادت ہے اور اللہ کی طرف سے اس پر اسی طرح اجر و ثواب اور جنت کے درجات عالیہ کا وعدہ ہے جس طرح نماز روزہ اور ذکر و تلاوت وغیرہ اچھے اخلاق پر اور دین کی دعوت اور خدا کی راہ میں جان و مال کی قربانی پر۔
انسانی زندگی کے اس شعبہ یعنی معاملات کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ وسلم کے ذریعے جو ہدایتیں اور جو احکام امت کو ملے ہیں ان کی بنیاد جہاں تک ہم نے سمجھا ہے چار اصولوں پر ہے ایک خلق اللہ کی نفع رسانی۔ دوسرے عدل۔ تیسرے سچائی و دیانت داری۔ چوتھے سماحت۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ ہر فریق دوسرے کے ساتھ رعایت اور خیرخواہی کا معاملہ کرے خاص کر کمزور اور ضرورتمند فریق کو حتی الوسع سہولت دی جائے۔
اس تمہید کے بعد ناظرین کرام معاشی معاملات سے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات و تعلیمات ذیل میں پڑھیں۔ اللہ تعا لی لکھنے والے اپنے گنہگار بندے کو نیز پڑھنے والوں اور سننے والوں کو ان ہدایات و ارشادات کی پیروی کے اہتمام کی توفیق عطا فرمائے۔
سب سے پہلے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چندوہ ارشادات درج کئے جاتے ہیں جن میں معاشی معاملات کی ہمت افزائی فرمائی گئی ہے اور ان پر اجر و ثواب کی بشارت سنائی گئی ہیں۔
تشریح ..... اکثر شارحین نے حدیث کا مطلب یہ بیان کیا ہے اور بظاہر یہی اللہ و رسول پر ایمان اور نماز و زکوۃ وغیرہ جو اسلام کے اولین اور بنیادی ارکان و فرائض ہیں درجہ اور مرتبہ میں ان کے بعد حلال روزی حاصل کرنے کی فکر اور کوشش بھی ایک اسلامی فریضہ ہے۔ بندہ اگر اس سے غفلت برتے اور کوتاہی کرے گا تو خطرہ ہے حرام روزی سے پیٹ بھرے اور آخرت میں اس کا انجام وہ ہوگا جو حرام سے پیٹ بھرنے والوں کا بتلایا گیا ہے۔ اللہ کی پناہ!
پھر یہ ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کے مقرر کیے ہوئے کسی فریضے کا ادا کرنا اس کی بندگی اور عبادت ہے اور بندہ اس پر اجر و ثواب کا مستحق ہے جو فریضہ کی ادائیگی پر اللہ تعالی کی طرف سے ملنا چاہیے۔ پس کسب حلال کی فکر و کوشش اور اس میں مشغول ہونا عین دین و عبادت اور موجب اجر و ثواب ہے۔ اس میں کسب حلال کے طالب ہر تاجر ہر مزدور ہر کاشتکار اور ہر دست کار کے لیے کتنی بڑی بشارت ہے لیکن یہ بہرحال پیش نظر رہے کہ اس حدیث میں صرف کمائی کرنے کو نہیں بلکہ کسب حلال کی تلاش و فکر کا فریضہ بتلایا گیا ہے اور اس ارشاد کا خاص مقصد اور مطمع نظر حرام سے بچانا ہے۔
تشریح
بسم اللہ الرحمن الرحیم
معاشی معاملات ...... انسانوں کی فطری ضرورت
اس باب میں خداوندی ہدایت اور اس کے بنیادی اصول
اللہ تعالی نے انسان کو مدنی الطبع بنایا ہے یعنی انسان کی فطری ساخت ایسی ہے کہ وہ اپنی زندگی میں باہمی تعاون اور معاملاتی لین دین کے محتاج ہیں ہر فرد اور طبقہ کی ضرورت دوسرے سے وابستہ ہے مثلا ایک مزدور جسکی زندگی کی ضرورت ہے بہت مختصر ہے جو صبح سے شام تک محنت مزدوری کرکے بس گزارہ کے پیسے حاصل کرتا ہے اسے بھی ضرورت ہے اس آدمی کی جس سے وہ اپنا اور بچوں کا پیٹ بھرنے کے لیے غلہ وغیرہ خرید سکے اورغلہ پیدا کرنے والے کاشتکار کو ضرورت ہے اس مزدور کی جس سے وہ اپنی کھیتی باڑی کے کاموں میں مدد لے سکے اسی طرح مزدور اور کاشتکار دونوں کو ضرورت ہے اس آدمی کی جو ان کے لباس کی ضرورت پوری کرنے کے لیے کپڑا تیار کرے اور یہ اس سے بلا واسطہ یا بالواسطہ کپڑا خرید سکیں اور کپڑا تیار کرنے والے کو ضرورت ہے اس آدمی یا اس ایجنسی کی جس سے وہ سوت یا ریشم اور کپڑے کی صنعت کی دوسری ضروریات نقد یا قرض ادھار خرید سکے پھر ان میں سے کسی کو رہنے کے لئے مکان تعمیر کرنا ہو تو اس کو ضرورت ہوگی کسی سے اینٹ سیمنٹ وغیرہ تعمیری ضروریات خریدنے کی اور اس کے بنوانے کے لئے معماروں اور مزدوروں کی۔ پھر خدانخواستہ ان میں سے کوئی بیمار پڑ جائے تو ضرورت ہوگی حکیم ڈاکٹر سے رجوع کرنے کی اور دواؤں کی دوکان سے دوا خریدنے کی۔ الغرض اشیاء کی خرید و فروخت اور تجارتی مبادلہ اور محنت و مزدوری اور صنعت و زراعت اور قرض وعاریت وغیرہ معاشی معاملات اس دنیا میں انسانی زندگی کے لوازم ہیں پھر ان معاملات میں کبھی کبھی تنازعات کا پیدا ہونا بھی ناگزیر ہے ان کے حل کے لئے ضرورت ہے عدل و انصاف کے کسی نظام کی اور کسی دستور و قانون کی۔ یہ جو کچھ عرض کیا گیا کوئی فلسفہ یا منطق کا مسئلہ نہیں ہے سب مشاہدہ اور ہم سب کا روزمرہ کا تجربہ ہے۔
اللہ تعالی نے انبیاء علیہم السلام کے ذریعے اور سب سے آخر میں خاتم الانبیاء سیدنا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے جس طرح انسانوں کو یہ ہدایت دی کہ وہ اپنے آغاز و انجام کے بارے میں اپنے پیدا کرنے والے مالک و معبود کی ذات و صفات اور توحید و آخرت وغیرہ کے بارے میں کیا عقیدہ اور یقین رکھیں اور کس طرح اس کی عبادت کریں اور کونسے اعمال ان کی روحانیت اور انسانی شرافت کے لیے مضر اور مہلک ہیں جن سے وہ بچیں اور پرہیز کریں اور اخلاق اور معاشرت کے بارے میں ان کا رویہ کیا رہے اسی طرح اس نے خریدوفروخت صنعت و تجارت اور محنت مزدوری وغیرہ ان معاشی معاملات کے بارے میں جو انسانی شرافت وعظمت سے مطابقت رکھتے ہیں اور جن میں انسانوں کی دنیوی و اخروی فلاح ہے۔
اس کا نتیجہ یہ بھی ہوا کہ اس خداوندی ہدایت اور اس شعبے سے متعلق شریعت محمدی کے احکام کی پابندی اور پیروی کرتے ہوئے ان کاموں کا کرنا اب دنیا نہیں بلکہ عین دین اور ایک معنی کر عبادت ہے اور اللہ کی طرف سے اس پر اسی طرح اجر و ثواب اور جنت کے درجات عالیہ کا وعدہ ہے جس طرح نماز روزہ اور ذکر و تلاوت وغیرہ اچھے اخلاق پر اور دین کی دعوت اور خدا کی راہ میں جان و مال کی قربانی پر۔
انسانی زندگی کے اس شعبہ یعنی معاملات کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ وسلم کے ذریعے جو ہدایتیں اور جو احکام امت کو ملے ہیں ان کی بنیاد جہاں تک ہم نے سمجھا ہے چار اصولوں پر ہے ایک خلق اللہ کی نفع رسانی۔ دوسرے عدل۔ تیسرے سچائی و دیانت داری۔ چوتھے سماحت۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ ہر فریق دوسرے کے ساتھ رعایت اور خیرخواہی کا معاملہ کرے خاص کر کمزور اور ضرورتمند فریق کو حتی الوسع سہولت دی جائے۔
اس تمہید کے بعد ناظرین کرام معاشی معاملات سے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات و تعلیمات ذیل میں پڑھیں۔ اللہ تعا لی لکھنے والے اپنے گنہگار بندے کو نیز پڑھنے والوں اور سننے والوں کو ان ہدایات و ارشادات کی پیروی کے اہتمام کی توفیق عطا فرمائے۔
سب سے پہلے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چندوہ ارشادات درج کئے جاتے ہیں جن میں معاشی معاملات کی ہمت افزائی فرمائی گئی ہے اور ان پر اجر و ثواب کی بشارت سنائی گئی ہیں۔
تشریح ..... اکثر شارحین نے حدیث کا مطلب یہ بیان کیا ہے اور بظاہر یہی اللہ و رسول پر ایمان اور نماز و زکوۃ وغیرہ جو اسلام کے اولین اور بنیادی ارکان و فرائض ہیں درجہ اور مرتبہ میں ان کے بعد حلال روزی حاصل کرنے کی فکر اور کوشش بھی ایک اسلامی فریضہ ہے۔ بندہ اگر اس سے غفلت برتے اور کوتاہی کرے گا تو خطرہ ہے حرام روزی سے پیٹ بھرے اور آخرت میں اس کا انجام وہ ہوگا جو حرام سے پیٹ بھرنے والوں کا بتلایا گیا ہے۔ اللہ کی پناہ!
پھر یہ ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کے مقرر کیے ہوئے کسی فریضے کا ادا کرنا اس کی بندگی اور عبادت ہے اور بندہ اس پر اجر و ثواب کا مستحق ہے جو فریضہ کی ادائیگی پر اللہ تعالی کی طرف سے ملنا چاہیے۔ پس کسب حلال کی فکر و کوشش اور اس میں مشغول ہونا عین دین و عبادت اور موجب اجر و ثواب ہے۔ اس میں کسب حلال کے طالب ہر تاجر ہر مزدور ہر کاشتکار اور ہر دست کار کے لیے کتنی بڑی بشارت ہے لیکن یہ بہرحال پیش نظر رہے کہ اس حدیث میں صرف کمائی کرنے کو نہیں بلکہ کسب حلال کی تلاش و فکر کا فریضہ بتلایا گیا ہے اور اس ارشاد کا خاص مقصد اور مطمع نظر حرام سے بچانا ہے۔
عَنْ عَبْدِ اللهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " طَلَبُ كَسْبِ الْحَلَالِ فَرِيضَةٌ بَعْدَ الْفَرِيضَةِ " (رواه البيهقى فى شعب الايمان)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৭৩৯
کتاب المعاملات
بعض حالات میں روپیہ پیسہ کی ضرورت اور اہمیت
حضرت مقدام بن معدی کرب رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے لوگوں کے لیے ایک وقت آئے گا جب روپیہ پیسہ ہی کام آئے گا۔ (مسند احمد)
تشریح
اس حدیث کو حضرت مقدام بن معدی کرب رضی اللہ عنہٗ سے روایت کرنے والے ایک تابعی ابوبکر بن ابی مریم ہیں انہوں نے واقعہ یہ بیان کیا ہے کہ حضرت مقدام کے یہاں دودھ دینے والے جانور تھے ان کی ایک باندی دودھ فروخت کرتی اور اسکی قیمت خود حضرت مقدام لے لیتے تھے اس پر بعض لوگوں نے ناپسندیدگی کے ساتھ تعجب کا اظہار کیا اور کہا کہ آپ دودھ فروخت کراتے ہیں اور اس کی قیمت وصول کرتے ہیں۔ انہوں نے فرمایا کہ ہاں میں ایسا کرتا ہوں اور اپنے طرز عمل کے جواز کی سند میں انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کا حوالہ دیا۔ ان کا مطلب یہ تھا کہ اپنی چیز فروخت کرکے روپیہ پیسہ حاصل کرنا کوئی قابل اعتراض بات نہیں ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ایسا وقت بھی آئے گا کہ روپیہ پیسہ بھی آدمی کے کام آئے گا۔ یعنی میں اسی خیال سے دودھ فروخت کرا کے روپیہ پیسہ حاصل کرتا ہوں مطلب یہ تھا کہ یہ اگر عظیمت نہیں تو رخصت ضرور ہے۔
تشریح
اس حدیث کو حضرت مقدام بن معدی کرب رضی اللہ عنہٗ سے روایت کرنے والے ایک تابعی ابوبکر بن ابی مریم ہیں انہوں نے واقعہ یہ بیان کیا ہے کہ حضرت مقدام کے یہاں دودھ دینے والے جانور تھے ان کی ایک باندی دودھ فروخت کرتی اور اسکی قیمت خود حضرت مقدام لے لیتے تھے اس پر بعض لوگوں نے ناپسندیدگی کے ساتھ تعجب کا اظہار کیا اور کہا کہ آپ دودھ فروخت کراتے ہیں اور اس کی قیمت وصول کرتے ہیں۔ انہوں نے فرمایا کہ ہاں میں ایسا کرتا ہوں اور اپنے طرز عمل کے جواز کی سند میں انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کا حوالہ دیا۔ ان کا مطلب یہ تھا کہ اپنی چیز فروخت کرکے روپیہ پیسہ حاصل کرنا کوئی قابل اعتراض بات نہیں ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ایسا وقت بھی آئے گا کہ روپیہ پیسہ بھی آدمی کے کام آئے گا۔ یعنی میں اسی خیال سے دودھ فروخت کرا کے روپیہ پیسہ حاصل کرتا ہوں مطلب یہ تھا کہ یہ اگر عظیمت نہیں تو رخصت ضرور ہے۔
عَنِ الْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِيْكَرَبَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «لَيَأْتِيَنَّ عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ لَا يَنْفَعُ فِيهِ إِلَّا الدِّينَارُ وَالدِّرْهَمُ» (رواه احمد)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৭৪০
کتاب المعاملات
سچائی اور دیانت داری کے ساتھ کاروبار کرنے والے انبیاء صدیقین اور شہداء کے ساتھ
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پوری سچائی اور ایمانداری کے ساتھ کاروبار کرنے والا تاجر نبیوں اور صدیقوں اور شہیدوں کے ساتھ ہوگا۔ (جامع ترمذی سنن دارمی سنن دارقطنی) اور ابن ماجہ نےیہی حدیث اپنی سند سے حضرت ابنِ عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے ۔
تشریح
“ الصدوق ” اور “ الامین ” دونوں مبالغے کے صیغے ہیں حدیث کا مطلب اور پیغام واضح ہے کہ جو تاجر اور سوداگر اپنے کاروبار میں سچائی اور امانت یعنی دیانتداری کی پورے اہتمام سے پابندی کریں گے قیامت اور آخرت میں وہ نبیوں صدیقوں اور شہیدوں کے ساتھ ہونگے۔
قرآن پاک میں فرمایا گیا ہے ۔ “وَمَن يُطِعِ اللَّـهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَـٰئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّـهُ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ وَحَسُنَ أُولَـٰئِكَ رَفِيقًا ” (جو بندے اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمانبرداری کریں گے’ وہ (قیامت و آخرت میں) ان مقبولین و مقربین کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ تعالی کا خاص انعام ہے یعنی انبیاء و صدیقین اور شہداء و صالحین (کے ساتھ) اور یہ سب بہت ہی اچھے رفیق ہیں) تجارت اور سوداگری بڑی آزمائش کی چیز ہے تاجر کے سامنے بار بار ایسی صورتیں آتی ہیں کہ اگر وہ خدا کے حکم کے مطابق سچائی اور دیانت داری کا لحاظ کرنے کے بجائے اس وقت وہ اپنی تجارتی مصلحت کے مطابق بازاری بات کرے تو ہزاروں لاکھوں کا نفع ہوتا ہے۔ پس جو تاجر اپنی تجارتی مصلحت اور نفع نقصان سے صرف نظر کر کے اللہ کے حکم کے مطابق ہر حال میں سچائی اور ایمانداری کی پابندی کرتا ہے وہ خدائی امتحان میں بڑا کامیاب ہے اور اس حدیث میں ایسے تاجروں کو بشارت سنائی گئی ہے کہ قیامت و آخرت میں وہ اللہ کے مقبول ترین بندوں یعنی نبیوں صدیقوں اور شہیدوں کے ساتھ ہوں گے۔ اللہ تعالی کی طرف سے یہ ان کی سچائی و دیانت داری کا صلہ ہوگا۔
تنبیہ ...... اسی سلسلہ معارف الحدیث میں قرآن و حدیث کے نصوص کی بنیاد پر بار بار یہ وضاحت کی جا چکی ہے کہ ایسی تمام بشارتیں اس شرط کے ساتھ مشروط ہوتی ہیں کہ وہ آدمی ان خبیث اور مہلک باتوں سے پرہیز کرے جو بندے کو اللہ تعالی کی رحمت سے محروم کر دیتی ہیں۔
تشریح
“ الصدوق ” اور “ الامین ” دونوں مبالغے کے صیغے ہیں حدیث کا مطلب اور پیغام واضح ہے کہ جو تاجر اور سوداگر اپنے کاروبار میں سچائی اور امانت یعنی دیانتداری کی پورے اہتمام سے پابندی کریں گے قیامت اور آخرت میں وہ نبیوں صدیقوں اور شہیدوں کے ساتھ ہونگے۔
قرآن پاک میں فرمایا گیا ہے ۔ “وَمَن يُطِعِ اللَّـهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَـٰئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّـهُ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ وَحَسُنَ أُولَـٰئِكَ رَفِيقًا ” (جو بندے اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمانبرداری کریں گے’ وہ (قیامت و آخرت میں) ان مقبولین و مقربین کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ تعالی کا خاص انعام ہے یعنی انبیاء و صدیقین اور شہداء و صالحین (کے ساتھ) اور یہ سب بہت ہی اچھے رفیق ہیں) تجارت اور سوداگری بڑی آزمائش کی چیز ہے تاجر کے سامنے بار بار ایسی صورتیں آتی ہیں کہ اگر وہ خدا کے حکم کے مطابق سچائی اور دیانت داری کا لحاظ کرنے کے بجائے اس وقت وہ اپنی تجارتی مصلحت کے مطابق بازاری بات کرے تو ہزاروں لاکھوں کا نفع ہوتا ہے۔ پس جو تاجر اپنی تجارتی مصلحت اور نفع نقصان سے صرف نظر کر کے اللہ کے حکم کے مطابق ہر حال میں سچائی اور ایمانداری کی پابندی کرتا ہے وہ خدائی امتحان میں بڑا کامیاب ہے اور اس حدیث میں ایسے تاجروں کو بشارت سنائی گئی ہے کہ قیامت و آخرت میں وہ اللہ کے مقبول ترین بندوں یعنی نبیوں صدیقوں اور شہیدوں کے ساتھ ہوں گے۔ اللہ تعالی کی طرف سے یہ ان کی سچائی و دیانت داری کا صلہ ہوگا۔
تنبیہ ...... اسی سلسلہ معارف الحدیث میں قرآن و حدیث کے نصوص کی بنیاد پر بار بار یہ وضاحت کی جا چکی ہے کہ ایسی تمام بشارتیں اس شرط کے ساتھ مشروط ہوتی ہیں کہ وہ آدمی ان خبیث اور مہلک باتوں سے پرہیز کرے جو بندے کو اللہ تعالی کی رحمت سے محروم کر دیتی ہیں۔
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «التَّاجِرُ الصَّدُوقُ الْأَمِينُ مَعَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ» (رواه الترمذى والدارمى والدار قطنى ، ورواه ابن ماجة عن ابن عمر)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৭৪১
کتاب المعاملات
دستکاری صنعت و حرفت اور محنت مزدوری کی فضیلت
حضرت مقدام بن معدی کرب رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ کسی نے کبھی کوئی کھانا اس سے بہتر نہیں کھایا کہ اپنے ہاتھوں کی محنت سے کما کے کھائے۔ اور اللہ کے پیغمبر داود علیہ السلام اپنے ہاتھوں سے کام کر کے کھاتے تھے۔ (صحیح بخاری)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ تحصیل معاش کی صورتوں میں بہت اچھی صورت یہ ہے کہ آدمی اپنے ہاتھ سے کوئی ایسا کام کرے جس سے کھانے پینے وغیرہ کی ضروریات پوری ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ اللہ کے پیغمبر داود علیہ السلام کی سنت بھی ہے قرآن مجید میں بھی ہے کہ وہ زرہیں بناتے تھے اور اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اسی کو انھوں نے اپنا ذریعہ معاش بنایا تھا بلاشبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد نے دستکاری اور ذاتی محنت کو بہت بلند مقام عطا فرمادیا۔
تشریح
مطلب یہ ہے کہ تحصیل معاش کی صورتوں میں بہت اچھی صورت یہ ہے کہ آدمی اپنے ہاتھ سے کوئی ایسا کام کرے جس سے کھانے پینے وغیرہ کی ضروریات پوری ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ اللہ کے پیغمبر داود علیہ السلام کی سنت بھی ہے قرآن مجید میں بھی ہے کہ وہ زرہیں بناتے تھے اور اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اسی کو انھوں نے اپنا ذریعہ معاش بنایا تھا بلاشبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد نے دستکاری اور ذاتی محنت کو بہت بلند مقام عطا فرمادیا۔
عَنِ المِقْدَامِ بْنِ مَعْدِيْكَرَبَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا أَكَلَ أَحَدٌ طَعَامًا قَطُّ، خَيْرًا مِنْ أَنْ يَأْكُلَ مِنْ عَمَلِ يَدِهِ، وَإِنَّ نَبِيَّ اللَّهِ دَاوُدَ عَلَيْهِ السَّلاَمُ، كَانَ يَأْكُلُ مِنْ عَمَلِ يَدِهِ» (رواه البخارى)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৭৪২
کتاب المعاملات
دستکاری صنعت و حرفت اور محنت مزدوری کی فضیلت
حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ حضرت کونسی کمائی زیادہ پاک اور اچھی ہے آپ صلی اللہ وسلم نے فرمایا کہ آدمی کا اپنے ہاتھ سے کوئی کام کرنا اور ہر تجارت جو پاکبازی کے ساتھ ہو۔ (مسند احمد)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ سب سے اچھی کمائی تو وہ ہے جو خود اپنے دست بازو اور اپنی محنت سے ہو اور اس تجارت کی کمائی بھی پاکیزہ ہے جو شریعت کے احکام کے مطابق اور دیانتداری کے ساتھ ہو کا “كُلُّ بَيْعٍ مَبْرُورٍ” یہی مطلب ہے۔
تشریح
مطلب یہ ہے کہ سب سے اچھی کمائی تو وہ ہے جو خود اپنے دست بازو اور اپنی محنت سے ہو اور اس تجارت کی کمائی بھی پاکیزہ ہے جو شریعت کے احکام کے مطابق اور دیانتداری کے ساتھ ہو کا “كُلُّ بَيْعٍ مَبْرُورٍ” یہی مطلب ہے۔
عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، قَالَ: قِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَيُّ الْكَسْبِ أَطْيَبُ؟ قَالَ: «عَمَلُ الرَّجُلِ بِيَدِهِ وَكُلُّ بَيْعٍ مَبْرُورٍ» (رواه احمد)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৭৪৩
کتاب المعاملات
زراعت و باغبانی کا عظیم اجروثواب
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو کوئی صاحب ایمان بندہ درخت کا پودا لگائے یا کاشت کرے پھر اس میں سے پرندے کھائیں یا آدمی یا کوئی جانور تو وہ اس کے حق میں صدقہ ہو گا۔(صحیح بخاری و صحیح مسلم)
تشریح
سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ باغات لگانے والوں اور کاشت کاری کرنے والوں کے لیے اس حدیث نبوی میں کتنی عظیم بشارت ہے کہ اگر کوئی آدمی یا چلتا پھرتا جانور یا اڑتا ہوا پرندہ اس کے درخت کا پھل یا کھیت کے دانے کھائے تو باغ والے اور کھیت والے بندہ کو فی سبیل اللہ صدقہ کا ثواب ہوگا۔ اس حدیث پاک میں باغبانی اور کاشتکاری کے لیے جن پر انسانوں کی بنیادی ضرورتوں کا دارومدار ہے کتنی بڑی ترغیب اور ہمت افزائی ہے۔
تشریح
سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ باغات لگانے والوں اور کاشت کاری کرنے والوں کے لیے اس حدیث نبوی میں کتنی عظیم بشارت ہے کہ اگر کوئی آدمی یا چلتا پھرتا جانور یا اڑتا ہوا پرندہ اس کے درخت کا پھل یا کھیت کے دانے کھائے تو باغ والے اور کھیت والے بندہ کو فی سبیل اللہ صدقہ کا ثواب ہوگا۔ اس حدیث پاک میں باغبانی اور کاشتکاری کے لیے جن پر انسانوں کی بنیادی ضرورتوں کا دارومدار ہے کتنی بڑی ترغیب اور ہمت افزائی ہے۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا مِنْ مُؤْمِنٍ يَغْرِسُ غَرْسًا، أَوْ يَزْرَعُ زَرْعًا، فَيَأْكُلُ مِنْهُ طَيْرٌ أَوْ إِنْسَانٌ أَوْ بَهِيمَةٌ، إِلَّا كَانَ لَهُ بِهِ صَدَقَةٌ» (رواه البخارى ومسلم)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৭৪৪
کتاب المعاملات
جائز مال ودولت بندہ مومن کے لیے اللہ کی نعمت ہے
حضرت عمرو ابن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ میرا ارادہ ہے کہ تم کو ایک لشکر کا امیر بنا کر بھیجوں پھر تم اللہ تعالی کے فضل سے صحیح سالم لوٹو (اور وہ مہم تمہارے ہاتھ پر فتح ہو) اور تم کو مال غنیمت حاصل ہو اور اللہ تعالی کی طرف سے تم کو مال و دولت کا اچھا عطیہ ملے۔ تو میں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول میں نے اسلام مال و دولت کے لیے قبول نہیں کیا ہے بلکہ میں نے اسلام کی رغبت و محبت کی وجہ سے اس کو قبول کیا ہے اور اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت اور رفاقت مجھے نصیب ہو تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے عمرو! اللّہ کے صالح بندہ کے لئے جائز و پاکیزہ مال و دولت اچھی چیز (اور قابل قدر نعمت) ہے۔ (مسند احمد)
تشریح
حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کی اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مال و دولت اگر جائز طریقہ سے حاصل ہو تو اللہ تعالی کی قابل قدر نعمت اور اس کا خاص فضل ہے۔ اور زہد ورقاق کے عنوانات کے تحت متعدد وہ حدیثیں اسی سلسلہ معارف الحدیث جلد دوم میں ذکر کی جاچکی ہیں۔ جن سے معلوم ہوتا ہے کہ فقر و مسکنت اور مال و دولت سے خالی ہاتھ رہنے کو افضلیت حاصل ہے۔ اور امت کے فقرا اغنیہ سے افضل ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ دونوں باتیں اپنی اپنی جگہ بالکل صحیح ہیں اگر فقر و مسکنت کے ساتھ صبر اور تسلیم و رضا اور تعفف نصیب ہو تو پھر بلاشبہ یہ فخر و مسکنت بہت بلند مقام ہے اور اس میں بڑی خیر ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لئے یہی پسند فرمایا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے لئے اللہ تعالی سے دعائیں کرتے تھے (اس سلسلے کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعائیں پہلے اپنے موقع پر (جلد پنجم میں) ذکر کی جاچکی ہیں) اور اگر اللہ تعالیٰ کسی بندے کو جائز اور پاک ذرائع سے مال و دولت نصیب فرمائے اور شکرکی اور صحیح مصارف میں خرچ کرنے کی توفیق ملے تو وہ بھی اللہ تعالی کا خاص فضل اور بڑی قابل قدر نعمت ہے۔ انبیاء علیہم السلام میں سے حضرت داؤد و سلیمان اور حضرت ایوب و یوسف علیہم السلام اور ان کے علاوہ بھی متعدد حضرات کو اللہ تعالی نے اس فضل سے نوازا تھا اور اکابر صحابہ میں حضرت عثمان حضرت عبدالرحمن بن عوف اور حضرت زبیر بن عوام وغیرہم رضی اللہ عنہم کو بھی اس فضل خداوندی سے وافر حصہ عطا ہوا تھا بہرحال یہ بھی اللہ تعالیٰ کی بڑی قابل قدر اور لائق شکر نعمت ہے۔ (نِعْمَ الْمَالِ الصَّالِحُ لِلرَّجُلِ الصَّالِحِ)
تشریح
حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کی اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مال و دولت اگر جائز طریقہ سے حاصل ہو تو اللہ تعالی کی قابل قدر نعمت اور اس کا خاص فضل ہے۔ اور زہد ورقاق کے عنوانات کے تحت متعدد وہ حدیثیں اسی سلسلہ معارف الحدیث جلد دوم میں ذکر کی جاچکی ہیں۔ جن سے معلوم ہوتا ہے کہ فقر و مسکنت اور مال و دولت سے خالی ہاتھ رہنے کو افضلیت حاصل ہے۔ اور امت کے فقرا اغنیہ سے افضل ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ دونوں باتیں اپنی اپنی جگہ بالکل صحیح ہیں اگر فقر و مسکنت کے ساتھ صبر اور تسلیم و رضا اور تعفف نصیب ہو تو پھر بلاشبہ یہ فخر و مسکنت بہت بلند مقام ہے اور اس میں بڑی خیر ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لئے یہی پسند فرمایا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے لئے اللہ تعالی سے دعائیں کرتے تھے (اس سلسلے کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعائیں پہلے اپنے موقع پر (جلد پنجم میں) ذکر کی جاچکی ہیں) اور اگر اللہ تعالیٰ کسی بندے کو جائز اور پاک ذرائع سے مال و دولت نصیب فرمائے اور شکرکی اور صحیح مصارف میں خرچ کرنے کی توفیق ملے تو وہ بھی اللہ تعالی کا خاص فضل اور بڑی قابل قدر نعمت ہے۔ انبیاء علیہم السلام میں سے حضرت داؤد و سلیمان اور حضرت ایوب و یوسف علیہم السلام اور ان کے علاوہ بھی متعدد حضرات کو اللہ تعالی نے اس فضل سے نوازا تھا اور اکابر صحابہ میں حضرت عثمان حضرت عبدالرحمن بن عوف اور حضرت زبیر بن عوام وغیرہم رضی اللہ عنہم کو بھی اس فضل خداوندی سے وافر حصہ عطا ہوا تھا بہرحال یہ بھی اللہ تعالیٰ کی بڑی قابل قدر اور لائق شکر نعمت ہے۔ (نِعْمَ الْمَالِ الصَّالِحُ لِلرَّجُلِ الصَّالِحِ)
عَنْ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، أَنَّ النَّبِىَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَهُ أَبْعَثَكَ عَلَى جَيْشٍ فَيُسَلِّمَكَ اللَّهُ وَيُغْنِمَكَ، وَأَزْعبُ لَكَ مِنَ الْمَالِ رَغْبَةً صَالِحَةً» . فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا أَسْلَمْتُ مِنْ أَجْلِ الْمَالِ، وَلَكِنِّي أَسْلَمْتُ زَعْبَةً فِي الْإِسْلَامِ، وَأَنْ أَكُونَ مَعَكَ. فَقَالَ: «يَا عَمْرُو، نِعْمَ الْمَالِ الصَّالِحُ لِلرَّجُلِ الصَّالِحِ» (رواه احمد)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৭৪৫
کتاب المعاملات
مالی معاملات کی نزاکت و اہمیت
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن (جب حساب کتاب کے لیے بارگاہ خداوندی میں پیشی ہوگی تو) آدمی کے پاوں اپنی جگہ سے سرک نہ سکیں گے جب تک کہ اس سے پانچ چیزوں کے بارے میں پوچھ گچھ نہ کرلی جائے۔ ایک اس کی پوری زندگی کے بارے میں کن کاموں اور مشغلوں میں اس کو ختم کیا؟ اور دوسرے خصوصیت سے اسکی جوانی کے بارے میں کہ کن مشغلوں میں بوسیدہ اور پرانا کیا۔ اور تیسرے اور چوتھے مال و دولت کے بارے میں کہ کہاں سے اور کن طریقوں اور راستوں سے اس کو حاصل کیا تھا اور کن کاموں اور کن راہوں میں اسکو صرف کیا۔ اور پانچواں سوال یہ ہو گا کہ جو کچھ معلوم تھا اس پر کتنا عمل کیا۔(جامع ترمذی)
تشریح
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قیامت میں ہر آدمی کو اپنے پورے آمد و خرچ کا بھی حساب دینا ہوگا کہ کتنا کمایا حلال طریقے سے کمایا یا خدانخواستہ حرام طریقے سے؟ اور کمائی کو کی مدوں میں خرچ کیا جائز میں یا ناجائز میں؟ الغرض اس دنیا اور اس کی زندگی میں ہم جو کچھ کماتے اور خرچ کرتے ہیں آخرت میں اس کا پورا پورا حساب دینا ہوگا۔ وہ بندے بڑے خوش نصیب اور خوش قسمت ہیں جو قیامت کے دن کے اس حساب کو پیش نظر رکھتے ہوئے کمانے اور خرچ کرنے میں اور سارے مالی معاملات میں اللہ تعالی کی ہدایت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے احکام کی پابندی کرتے ہیں اور ان کا انجام بہت خطرناک ہے جو اس طرف سے بے فکر اور بے پروا ہیں۔
تشریح
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قیامت میں ہر آدمی کو اپنے پورے آمد و خرچ کا بھی حساب دینا ہوگا کہ کتنا کمایا حلال طریقے سے کمایا یا خدانخواستہ حرام طریقے سے؟ اور کمائی کو کی مدوں میں خرچ کیا جائز میں یا ناجائز میں؟ الغرض اس دنیا اور اس کی زندگی میں ہم جو کچھ کماتے اور خرچ کرتے ہیں آخرت میں اس کا پورا پورا حساب دینا ہوگا۔ وہ بندے بڑے خوش نصیب اور خوش قسمت ہیں جو قیامت کے دن کے اس حساب کو پیش نظر رکھتے ہوئے کمانے اور خرچ کرنے میں اور سارے مالی معاملات میں اللہ تعالی کی ہدایت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے احکام کی پابندی کرتے ہیں اور ان کا انجام بہت خطرناک ہے جو اس طرف سے بے فکر اور بے پروا ہیں۔
عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لاَ تَزُولُ قَدَمَا ابْنِ آدَمَ يَوْمَ القِيَامَةِ حَتَّى يُسْأَلَ عَنْ خَمْسٍ، عَنْ عُمُرِهِ فِيمَا أَفْنَاهُ، وَعَنْ شَبَابِهِ فِيمَا أَبْلاَهُ، وَمَالِهِ مِنْ أَيْنَ اكْتَسَبَهُ وَفِيمَا أَنْفَقَهُ، وَمَاذَا عَمِلَ فِيمَا عَلِمَ. (رواه الترمذى)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৭৪৬
کتاب المعاملات
حرام مال کی نحوست اور بد انجامی
حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ایسا نہیں ہوتا کہ کوئی بندہ (کسی ناجائز طریقہ سے) حرام مال کمائے اور اس میں سے للہ صدقہ کرے تو اس کا صدقہ قبول ہو گا۔ اور اس میں سے خرچ کرے تو اس میں (منجانب اللہ) کی برکت ہو۔ اور جو شخص حرام مال (مرنے کے بعد) پیچھے چھوڑ کے جائے گا تو وہ اس کے لئے جہنم کا توشہ ہی ہوگا۔ یقینا اللہ تعالی بدی کو بدی سے نہیں مٹاتا بلکہ بدی کو نیکی سے مٹاتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ گندگی گندگی کو نہیں دھو سکتی۔ (مسند احمد نیز شرح السنہ میں بھی اسی طرح ہے)
تشریح
حدیث کا حاصل اور مدعا یہ ہے کہ حرام مال سے کیا ہوا صدقہ قبول نہیں ہوتا اور حرام کمائی میں برکت نہیں ہوتی اور جب کوئی آدمی ناجائز و حرام طریقے سے کمایا ہوا مال مرنے کے بعد وارثوں کے لئے چھوڑ گیا تو وہ آخرت میں اس کے لیے وبال ہی کا باعث ہوگا اس کو حرام کمانے کا بھی گناہ ہوگا اور وارثوں کو حرام کھلانے کا بھی۔ (حالانکہ وارثوں کے لیے حلال مال چھوڑ جانا ایک طرح کا صدقہ ہے اور اس پر یقین اجروثواب ملنے والا ہے) آگے جو فرمایا گیا ہے “إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى لَا يَمْحُو السَّيِّئَ بِالسَّيِّئِ الخ” میں مال حرام کا صدقہ قبول نہ ہونے اور مرنے کے بعد باعث وبال ہونے کا سبب بیان فرمایا گیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ صدقہ اگر صحیح اور پاک مال سے ہو تو وہ گناہوں کا کفارہ اور مغفرت کا وسیلہ بن جاتا ہے لیکن اگر حرام اور ناپاک مال سے صدقہ کیا گیا تو نجس اور ناپاک ہے وہ گناہوں کی گندگی کو دھونے کی اور گناہوں کا کفارہ اور مغفرت کا وسیلہ بننے کی صلاحیت نہیں رکھتا جس طرح گندے اور ناپاک پانی سے ناپاک کپڑا پاک صاف نہیں کیا جا سکتا ہے۔
تشریح
حدیث کا حاصل اور مدعا یہ ہے کہ حرام مال سے کیا ہوا صدقہ قبول نہیں ہوتا اور حرام کمائی میں برکت نہیں ہوتی اور جب کوئی آدمی ناجائز و حرام طریقے سے کمایا ہوا مال مرنے کے بعد وارثوں کے لئے چھوڑ گیا تو وہ آخرت میں اس کے لیے وبال ہی کا باعث ہوگا اس کو حرام کمانے کا بھی گناہ ہوگا اور وارثوں کو حرام کھلانے کا بھی۔ (حالانکہ وارثوں کے لیے حلال مال چھوڑ جانا ایک طرح کا صدقہ ہے اور اس پر یقین اجروثواب ملنے والا ہے) آگے جو فرمایا گیا ہے “إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى لَا يَمْحُو السَّيِّئَ بِالسَّيِّئِ الخ” میں مال حرام کا صدقہ قبول نہ ہونے اور مرنے کے بعد باعث وبال ہونے کا سبب بیان فرمایا گیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ صدقہ اگر صحیح اور پاک مال سے ہو تو وہ گناہوں کا کفارہ اور مغفرت کا وسیلہ بن جاتا ہے لیکن اگر حرام اور ناپاک مال سے صدقہ کیا گیا تو نجس اور ناپاک ہے وہ گناہوں کی گندگی کو دھونے کی اور گناہوں کا کفارہ اور مغفرت کا وسیلہ بننے کی صلاحیت نہیں رکھتا جس طرح گندے اور ناپاک پانی سے ناپاک کپڑا پاک صاف نہیں کیا جا سکتا ہے۔
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قالَ: «لا يَكْسِبُ عَبْدٌ مَالَ حَرَامٍ فَيَتَصَدَّقُ مِنْهُ فَيُقْبَلُ مِنْهُ، وَلا يُنْفِقُ مِنْهُ فَيُبَارَكُ لَهُ فِيهِ، وَلا يَتْرُكُهُ خَلْفَ ظَهْرِهِ إِلا كَانَ زَادَهُ إِلَى النَّارِ، إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى لَا يَمْحُو السَّيِّئَ بِالسَّيِّئِ، وَلَكِنْ يَمْحُو السَّيِّئَ بِالْحَسَنِ، إِنَّ الْخَبِيثَ لَا يَمْحُو الْخَبِيثَ».
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৭৪৭
کتاب المعاملات
حرام مال کی نحوست اور بد انجامی
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لوگو اللہ تعالی پاک ہے وہ صرف پاک ہی کو قبول کرتا ہے اور اس نے اس بارے میں جو حکم اپنے پیغمبروں کو دیا ہے وہی اپنے سب مومن بندوں کو دیا ہے پیغمبروں کے لئے اس کا ارشاد ہے کہ “اے پیغمبروں! تم کھاؤ پاک اور غذا اور عمل کرو صالح ” ۔ اور اہل ایمان کو مخاطب کرکے اس نے فرمایا ہے کہ “اے ایمان والو تم ہمارے رزق میں سے حلال اور طیب کھاؤ (اور حرام سے بچو) ”۔
اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ذکر فرمایا ایک ایسے آدمی کا جو طویل سفر کرکے (کسی مقدس مقام پر) ایسے حال میں جاتا ہے کہ اس کے بال پراگندہ ہیں اور جسم اور کپڑوں پر گردوغبار ہیں اور آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا اٹھا کے دعا کرتا ہے۔ اے میرے رب! اے میرے پروردگار! اور حالت یہ ہے کہ اس کا کھانا حرام ہے اس کا پینا حرام ہے اس کا لباس حرام ہے اور حرام غذا سے اس کا نشونما ہوا ہے تو ایسے آدمی کی دعا کیسے قبول ہوگی۔ (صحیح مسلم)
تشریح
حدیث کا مطلب اور پیغام یہ ہے کہ اللہ تعالی مقدس اور پاک ہے اور وہ اسی صدقہ اور اسی نذرونیاز کو قبول کرتا ہے جو پاک مال سے ہو۔ آگے فرمایا گیا ہے کہ حرام سے بچنے اور صرف حلال استعمال کرنے کاحکم وہ امر الہی ہے جو تمام اہل ایمان کی طرح سب پیغمبروں کو بھی دیا گیا تھا۔ لہذا ہر مومن کو چاہیے کہ وہ اس حکم الہی کی عظمت و اہمیت کو محسوس کرے اور ہمیشہ اس پر عمل پیرا رہے اس کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی بیان فرمایا کہ حرام مال اتنا خبیث اور ایسا منحوص ہے کہ اگر کوئی آدمی سر سے پاؤں تک درویش اور قابل رحم فقیر بن کے کسی مقدس مقام پر جا کے دعا کرے لیکن اس کا کھانا پینا اور لباس حرام سے ہو تو اس کی دعا قبول نہ ہوگی۔
اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ذکر فرمایا ایک ایسے آدمی کا جو طویل سفر کرکے (کسی مقدس مقام پر) ایسے حال میں جاتا ہے کہ اس کے بال پراگندہ ہیں اور جسم اور کپڑوں پر گردوغبار ہیں اور آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا اٹھا کے دعا کرتا ہے۔ اے میرے رب! اے میرے پروردگار! اور حالت یہ ہے کہ اس کا کھانا حرام ہے اس کا پینا حرام ہے اس کا لباس حرام ہے اور حرام غذا سے اس کا نشونما ہوا ہے تو ایسے آدمی کی دعا کیسے قبول ہوگی۔ (صحیح مسلم)
تشریح
حدیث کا مطلب اور پیغام یہ ہے کہ اللہ تعالی مقدس اور پاک ہے اور وہ اسی صدقہ اور اسی نذرونیاز کو قبول کرتا ہے جو پاک مال سے ہو۔ آگے فرمایا گیا ہے کہ حرام سے بچنے اور صرف حلال استعمال کرنے کاحکم وہ امر الہی ہے جو تمام اہل ایمان کی طرح سب پیغمبروں کو بھی دیا گیا تھا۔ لہذا ہر مومن کو چاہیے کہ وہ اس حکم الہی کی عظمت و اہمیت کو محسوس کرے اور ہمیشہ اس پر عمل پیرا رہے اس کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی بیان فرمایا کہ حرام مال اتنا خبیث اور ایسا منحوص ہے کہ اگر کوئی آدمی سر سے پاؤں تک درویش اور قابل رحم فقیر بن کے کسی مقدس مقام پر جا کے دعا کرے لیکن اس کا کھانا پینا اور لباس حرام سے ہو تو اس کی دعا قبول نہ ہوگی۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّ اللهَ طَيِّبٌ لَا يَقْبَلُ إِلَّا طَيِّبًا، وَإِنَّ اللهَ أَمَرَ الْمُؤْمِنِينَ بِمَا أَمَرَ بِهِ الْمُرْسَلِينَ، فَقَالَ: {يَا أَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوا مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا، إِنِّي بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ} وَقَالَ: {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُلُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ} ثُمَّ ذَكَرَ الرَّجُلَ يُطِيلُ السَّفَرَ أَشْعَثَ أَغْبَرَ، يَمُدُّ يَدَهُ إِلَى السَّمَاءِ، يَا رَبِّ، يَا رَبِّ، وَمَطْعَمُهُ حَرَامٌ، وَمَشْرَبُهُ حَرَامٌ، وَمَلْبَسُهُ حَرَامٌ، وَغُذِيَ بِالْحَرَامِ، فَأَنَّى يُسْتَجَابُ لِذَلِكَ ؟ " (رواه مسلم)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৭৪৮
کتاب المعاملات
حرام مال کی نحوست اور بد انجامی
حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے بیان فرمایا کہ جس شخص نے دس درہم میں کوئی کپڑا خریدا اور ان میں ایک درہم بھی حرام کا تھا تو جب تک وہ کپڑا اس کے جسم پر رہے گا اس کی کوئی نماز اللہ تعالی کے ہاں قبول نہ ہوگی۔ (یہ بیان کرکے) حضرت ابن عمر نے اپنی دو انگلیاں اپنے دونوں کانوں میں دیں لیں اور بولے بہرے ہو جائیں میرے یہ دونوں کان اگر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے نہ سنا ہو۔ (یعنی میں نے جو کہا یہ میں نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے کانوں سے سنا ہے)۔ (مسند احمد شعب الایمان للبیہقی)
عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: «مَنِ اشْتَرَى ثَوْبًا بِعَشَرَةِ دَرَاهِمَ، وَفِيهِ دِرْهَمٌ حَرَامٌ، لَمْ يَقْبَلِ اللَّهُ لَهُ صَلَاةً مَادَامَ عَلَيْهِ» ، قَالَ: ثُمَّ أَدْخَلَ أُصْبُعَيْهِ فِي أُذُنَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: «صُمَّتَا إِنْ لَمْ يَكُنِ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَمِعْتُهُ يَقُولُهُ» (رواه احمد والبيهقى فى شعب الايمان)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৭৪৯
کتاب المعاملات
حرام مال کی نحوست اور بد انجامی
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ گوشت اور وہ جسم جنت میں نہ جا سکے گا جس کی نشوونما حرام مال سے ہوئی ہو۔ اور ہر ایسا گوشت اور جسم جو حرام مال سے پلا اور بڑھا ہے جوزف اس کی زیادہ مستحق ہے۔ (مسند احمد سنن دارمی شعب الایمان للبیہقی)
تشریح
اللہ کی پناہ! اس حدیث میں بڑی سخت وعید ہے۔ الفاظ حدیث کا ظاہر مطلب یہی ہے کہ دنیا میں جو شخص حرام کمائی کی وجہ سے پلا بڑھا ہو گا وہ جنت کے داخلہ سے محروم رہے گا اور دوزخ ہی اس کا ٹھکانہ ہوگا۔ اَللَّهُمَّ احْفَظْنَا
شارحین حدیث نے قرآن و حدیث کے دوسرے نصوص کی روشنی میں اس کا مطلب یہ بیان فرمایا ہے کہ ایسا آدمی حرام خوری کی سزا پائے بغیر جنت میں نہ جا سکے گا۔ ہاں اگر وہ مومن ہو گا تو حرام کا عذاب بھگتنے کے بعد جنت میں جا سکے گا اور اگر مرنے سے پہلے اس کو صادق توبہ و استغفار نصیب ہو گیا یا کسی مقبول بندہ نے اس کی مغفرت کی دعا کی اور قبول ہوگئی یا خود رحمت الہی نے مغفرت کا فیصلہ فرما دیا ہے تو عذاب کے بغیر بھی بخشا جا سکتا ہے۔ رَبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ وَأَنْتَ خَيْرُ الرَّاحِمِيْنَ
تشریح
اللہ کی پناہ! اس حدیث میں بڑی سخت وعید ہے۔ الفاظ حدیث کا ظاہر مطلب یہی ہے کہ دنیا میں جو شخص حرام کمائی کی وجہ سے پلا بڑھا ہو گا وہ جنت کے داخلہ سے محروم رہے گا اور دوزخ ہی اس کا ٹھکانہ ہوگا۔ اَللَّهُمَّ احْفَظْنَا
شارحین حدیث نے قرآن و حدیث کے دوسرے نصوص کی روشنی میں اس کا مطلب یہ بیان فرمایا ہے کہ ایسا آدمی حرام خوری کی سزا پائے بغیر جنت میں نہ جا سکے گا۔ ہاں اگر وہ مومن ہو گا تو حرام کا عذاب بھگتنے کے بعد جنت میں جا سکے گا اور اگر مرنے سے پہلے اس کو صادق توبہ و استغفار نصیب ہو گیا یا کسی مقبول بندہ نے اس کی مغفرت کی دعا کی اور قبول ہوگئی یا خود رحمت الہی نے مغفرت کا فیصلہ فرما دیا ہے تو عذاب کے بغیر بھی بخشا جا سکتا ہے۔ رَبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ وَأَنْتَ خَيْرُ الرَّاحِمِيْنَ
َعَنْ جَابِرٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ لَحْمٌ نَبَتَ مِنَ السُّحْتِ، كَانَتِ النَّارُ أَوْلَى بِهِ. (رواه احمد والدارمى والبيهقى فى شعب الايمان)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৭৫০
کتاب المعاملات
حرام مال کی نحوست اور بد انجامی
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ آدمی کو اس کی پروا نہ ہوگی کہ وہ جو لے رہا ہے حلال ہے یا حرام جائز ہے یا ناجائز۔ (صحیح بخاری)
تشریح
حدیث کا مطلب بالکل ظاہر ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس زمانہ کی اس حدیث میں خبر دی ہے بلاشبہ وہ آچکا ہے آج امت میں ان لوگوں میں بھی جو دیندار سمجھے جاتے ہیں کتنے ہیں جو اپنے پاس آنے والے روپیہ پیسہ یا کھانے پہننے کی چیزوں کے بارے میں یہ سوچنا اور تحقیق کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ یہ جائز ہے یا ناجائز۔ ہو سکتا ہے کہ آگے اس سے بھی زیادہ خراب زمانہ آنے والا ہو۔ (مسند رزین کی اسی حدیث کی روایت میں یہ اضافہ بھی ہے کہ اس وقت ان لوگوں کی دعائیں قبول نہ ہوں گی)
حلال و حرام اور جائز و ناجائز میں تمیز نہ کرنا روح ایمانی کی موت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس سلسلہ کی تعلیمات و ہدایات نے صحابہ کرام کی زندگیوں اور ان کے دلوں پر کیا اثر ڈالا تھا اس کا اندازہ ان دو واقعات سے کیا جا سکتا ہے۔
صحیح بخاری میں حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہٗ کا یہ واقعہ مروی ہے کہ ان کے ایک غلام نے کھانے کی کوئی چیز ان کی خدمت میں پیش کی آپ نےاس میں سے کچھ کھا لیا اس کے بعد اس غلام نے بتلایا کہ یہ چیز مجھے اس طرح حاصل ہوئی کہ اسلام کے دور سے پہلے زمانہ جاہلیت میں ایک آدمی کو میں نے اپنے کو کاہن ظاہر کرکے دھوکا دیا تھا اور اس کو کچھ بتلا دیا تھا۔ جیسے کہ کاہن لوگ بتلا دیا کرتے تھے تو آج وہ آدمی ملا اور اس نے مجھے اس کے حساب میں کھانے کی یہ چیز دی۔ حضرت ابوبکرؓ کو جب یہ بات معلوم ہوئی تو آپ نے حلق میں انگلی ڈال کر قے کی اورجو کچھ پیٹ میں تھا سب نکال دیا۔
اسی طرح امام بیہقی نے حضرت عمر رضی اللہ عنہٗ کا یہ واقعہ نقل کیا ہے کہ ایک دفعہ کسی شخص نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں دودھ پیش کیا آپؓ نے اس کو قبول فرما لیا اور پی لیا آپ نے اس آدمی سے پوچھا کہ دودھ تم کہاں سے لائے؟ اس نے بتلایا کہ فلاں گھاٹ کے پاس سے میں گزر رہا تھا وہاں زکوۃ کے جانور اونٹنیاں بکریاں وغیرہ تھیں لوگ ان کا دودھ دوہ رہے تھے انہوں نے مجھے بھی دیا میں نے لے لیا یہ وہی دودھ تھا۔ حضرت عمرؓ کو جب یہ بات معلوم ہوئی تو حضرت ابوبکرؓ کی طرح حلق میں انگلی ڈال کر آپ نے بھی قے کردی اور اس دودھ کو اس طرح نکال دیا۔ (مشکوۃ)
ان دونوں واقعوں میں ان دونوں بزرگوں نے جو کھایا یا پیا تھا کیونکہ لاعلمی اور بے خبری میں کھایا پیا تھا اس لئے ہرگز گناہ نہ تھا لیکن حرام غذا کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے جو کچھ ان حضرات نے سنا تھا اس سے یہ اتنے خوفزدہ تھے کہ اس کو پیٹ سے نکال دینے کے بغیر چین نہ آیا۔ بےشک حقیقی تقوی ہی ہے۔
تشریح
حدیث کا مطلب بالکل ظاہر ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس زمانہ کی اس حدیث میں خبر دی ہے بلاشبہ وہ آچکا ہے آج امت میں ان لوگوں میں بھی جو دیندار سمجھے جاتے ہیں کتنے ہیں جو اپنے پاس آنے والے روپیہ پیسہ یا کھانے پہننے کی چیزوں کے بارے میں یہ سوچنا اور تحقیق کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ یہ جائز ہے یا ناجائز۔ ہو سکتا ہے کہ آگے اس سے بھی زیادہ خراب زمانہ آنے والا ہو۔ (مسند رزین کی اسی حدیث کی روایت میں یہ اضافہ بھی ہے کہ اس وقت ان لوگوں کی دعائیں قبول نہ ہوں گی)
حلال و حرام اور جائز و ناجائز میں تمیز نہ کرنا روح ایمانی کی موت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس سلسلہ کی تعلیمات و ہدایات نے صحابہ کرام کی زندگیوں اور ان کے دلوں پر کیا اثر ڈالا تھا اس کا اندازہ ان دو واقعات سے کیا جا سکتا ہے۔
صحیح بخاری میں حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہٗ کا یہ واقعہ مروی ہے کہ ان کے ایک غلام نے کھانے کی کوئی چیز ان کی خدمت میں پیش کی آپ نےاس میں سے کچھ کھا لیا اس کے بعد اس غلام نے بتلایا کہ یہ چیز مجھے اس طرح حاصل ہوئی کہ اسلام کے دور سے پہلے زمانہ جاہلیت میں ایک آدمی کو میں نے اپنے کو کاہن ظاہر کرکے دھوکا دیا تھا اور اس کو کچھ بتلا دیا تھا۔ جیسے کہ کاہن لوگ بتلا دیا کرتے تھے تو آج وہ آدمی ملا اور اس نے مجھے اس کے حساب میں کھانے کی یہ چیز دی۔ حضرت ابوبکرؓ کو جب یہ بات معلوم ہوئی تو آپ نے حلق میں انگلی ڈال کر قے کی اورجو کچھ پیٹ میں تھا سب نکال دیا۔
اسی طرح امام بیہقی نے حضرت عمر رضی اللہ عنہٗ کا یہ واقعہ نقل کیا ہے کہ ایک دفعہ کسی شخص نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں دودھ پیش کیا آپؓ نے اس کو قبول فرما لیا اور پی لیا آپ نے اس آدمی سے پوچھا کہ دودھ تم کہاں سے لائے؟ اس نے بتلایا کہ فلاں گھاٹ کے پاس سے میں گزر رہا تھا وہاں زکوۃ کے جانور اونٹنیاں بکریاں وغیرہ تھیں لوگ ان کا دودھ دوہ رہے تھے انہوں نے مجھے بھی دیا میں نے لے لیا یہ وہی دودھ تھا۔ حضرت عمرؓ کو جب یہ بات معلوم ہوئی تو حضرت ابوبکرؓ کی طرح حلق میں انگلی ڈال کر آپ نے بھی قے کردی اور اس دودھ کو اس طرح نکال دیا۔ (مشکوۃ)
ان دونوں واقعوں میں ان دونوں بزرگوں نے جو کھایا یا پیا تھا کیونکہ لاعلمی اور بے خبری میں کھایا پیا تھا اس لئے ہرگز گناہ نہ تھا لیکن حرام غذا کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے جو کچھ ان حضرات نے سنا تھا اس سے یہ اتنے خوفزدہ تھے کہ اس کو پیٹ سے نکال دینے کے بغیر چین نہ آیا۔ بےشک حقیقی تقوی ہی ہے۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: « يَأْتِي عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ، لاَ يُبَالِي المَرْءُ بِمَا أَخَذَ مِنْهُ، مِنَ الْحَلاَلِ أَمْ مِنْ الحَرَامِ» (رواه البخارى وزاد عليه فاذ ذالك لا تجاب لهم دعوة)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৭৫১
کتاب المعاملات
مقام تقوی مشتبہ سے بھی پرہیز ضروری
حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو حلال ہے وہ واضح اور روشن ہے اور جو حرام ہے وہ بھی واضح اور روشن ہے اور ان دونوں کے درمیان کچھ چیزیں ہیں جو مشتبہ ہیں ان کو (یعنی ان کے شرعی حکم کو) بہت سے لوگ نہیں جانتے بس جو شخص شبہ والی چیزوں سے بھی (ازراہ احتیاط) پرہیز کرے وہ اپنے دین اور اپنی آبرو کو بچا لے گا اور بے داغ رہے گا۔ اور جو شخص شبہ والی چیزوں میں پڑے گا اور مبتلا ہوگا وہ (خدا نکردہ) حرام کے حدود میں جا گرے گا۔ اس چرواھے کی طرح جو اپنے جانور محفوظ سرکاری علاقے کے آس پاس بالکل قریب میں چراتا ہے تو اس کا قریبی خطرہ ہوتا ہے کہ وہ جانور اس محفوظ سرکاری علاقے میں داخل ہو کر چرنے لگیں (جو قابل سزا جرم ہے) اور معلوم ہونا چاہیے کہ ہر بادشاہ اور فرمانروا کا ایک حمی (محفوظ علاقہ) اس کے محارم یعنی محرمات ہیں (آدمی کو چاہیے کہ اس کے قریب بھی نہ جائے یعنی مشتبہ چیزوں سے بھی پرہیز کرے) اور خبردار! انسان کی جسم میں ایک مضغہ (گوشت کا ٹکڑا) ہے (جس کی شان یہ ہے) کہ اگر وہ ٹھیک ہو (یعنی اس میں نور ایمان خدا کی معرفت اور اس کا خوف ہو) تو سارا جسم ٹھیک رہتا ہے (یعنی اس کے اعمال و احوال صحیح و درست ہوتے ہیں) اور اگر اس کا حال خراب ہو تو سارے جسم کاحال بھی خراب ہوتا ہے (یعنی اس کے اعمال و احوال خراب ہو جاتے ہیں) آگاہ رہو گوشت کا وہ ٹکڑا قلب ہے۔(صحیح بخاری و صحیح مسلم)
تشریح
حدیث کے پورے ذخیرہ میں چند حدیثیں وہ ہیں جن کو امت کے علما اور فقہا نے بہت اہم اور اصولی سمجھا ہے انہی میں حضرت نعمان بن بشیرؓ کی روایت کی ہوئی یہ حدیث بھی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اس ارشاد میں سب سے پہلے تو یہ فرمایا ہے کہ شریعت میں جو چیزیں اور جو معاملات صراحت کے ساتھ حلال یا حرام قرار دیے گئے ہیں ان کا معاملہ تو صاف اور روشن ہے لیکن ان کے علاوہ بہت سی چیزیں اور بہت سے معاملات ایسے ہیں جن کا جائز یا ناجائز ہونا کسی صریح دلیل سے معلوم نہ ہوسکے گا بلکہ دونوں رایوں کی گنجائش ہوگی مثلا شریعت کے ایک اصول کی روشنی میں ان کو جائز اور کسی دوسرے اصول کی روشنی میں ناجائز قرار دیا جا سکے گا تو ایسی شبہ والی چیزوں اور ایسے معاملات کے بارے میں بندہ مومن کا طرز عمل یہ ہونا چاہیے کہ ازراہ احتیاط و تقوی ان سے بھی پرہیز کرے اسی میں دین اور آبرو کی حفاظت ہے۔ آگے آپ نے ارشاد فرمایا کہ ..... “جو شخص ایسی مشتبہ چیزوں سے پرہیز کا اہتمام نہ کرے گا تو وہ بےاحتیاطی کا عادی بن کر محرمات کا بھی مرتکب ہوجائے گا”۔ پھر اس بات کو مثال سے سمجھاتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ مثلا جو چرواہا اپنے جانوروں کو اس سرکاری محفوظ علاقہ کے قریب اور بالکل اس کی سرحد پر چلائے گا جس میں عوام کے لیے جانوروں کا چرانا جرم ہے تو بعید نہیں کہ اس کے جانور کسی وقت اس محفوظ علاقہ کی حدود میں داخل ہو کر کرنے لگیں پس جس طرح چرواہے کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے جانوروں کو سرکاری علاقہ سے دور ہی رکھے اور اس کے قریب بھی نہ جانے دے اسی طرح بندہ مومن کو چاہیے کہ وہ مشتبہ چیزوں اور مشتبہ معاملات سے بھی پرہیز کرے اس طرح وہ محرمات اور معصیات سے ہمیشہ محفوظ رہے گا۔ یہی مقام تقویٰ ہے۔
آخر میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک نہایت اہم بات ارشاد فرمائی" فرمایا کہ انسانی وجود کے بگاڑ اور سدھار " سعادت اور شقاوت کا دارومدار اس کے قلب کے حال پر ہے جو انسان کے پورے جسمانی وجود پر اور تمام اعضاء پر حکمرانی کرتا ہے اگر وہ درست ہو گا اور اس میں خدا کی معرفت کا خوف اور ایمان کا نور ہوگا تو انسان کا پورا جسمانی وجود درست رہے گا اور اس کے اعمال و احوال صحیح اور صالح ہوں گے اور اگر قلب میں فساد و بگاڑ ہوگا اور اس پر حیوانی و شیطانی جذبات کا غلبہ ہو گا تو اس کا جسمانی وجود فاسد اور غلط کار ہوگا اور اس کے اعمال و احوال شیطانی وحیوانی ہونگے۔
اس حدیث میں قلب سے مراد انسان کا وہ باطنی حاسہ ہے جس کا رجحان خیر یا شر کی طرف ہوتا ہے۔ اس کو مضغہ (گوشت کا ٹکڑا) اس لیے کہا گیا ہے کہ انسان کے سینہ میں بائیں جانب صنوبری شکل کا جو ایک خاص اور عضو اور مضغہ لحم ہے جس کو قلب اور دل کہا جاتا ہے وہ اس باطنی حاسہ کا خاص محل اور گویا اس کا تخت ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث پاک میں پہلے تو محرمات کے علاوہ مشتبہات سے بھی بچنے اور پرہیز کرنے کی تاکید فرمائی جو تقوی کی بنیادی شرط ہے اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قلب کے بارے میں یہ آگاہی دی اور بتلا کر کہ انسان کی سعادت و شقاوت کا دارومدار قلب کے صلاح و فساد پر ہے اس کی حفاظت اور نگرانی کی طرف توجہ دلائی ۔ مبارک ہیں وہ بندے جو قلب اور باطن کی اس اہمیت کو سمجھتے ہیں اور قالب اور ظاہر سے زیادہ اپنے قلب اور باطن کی فکر رکھتے ہیں۔ حضرات صوفیائے کرام کا یہی امتیاز ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس ہدایت کی اہمیت کو سب سے زیادہ انہوں نے سمجھا ہے۔ اللہ تعالی ان کی برکات سے ہمیں محروم نہ فرمائے۔ بعض شارحین نے اس حدیث پاک کے مضامین کی ترتیب سے یہ بھی سمجھا ہے کہ قلب کی صفائی اور طہارت کے لیے یہ ضروری ہے کہ آدمی کھانے پینے میں محرمات کے علاوہ مشتبہ چیزوں سے بھی پرہیز کرے۔
تشریح
حدیث کے پورے ذخیرہ میں چند حدیثیں وہ ہیں جن کو امت کے علما اور فقہا نے بہت اہم اور اصولی سمجھا ہے انہی میں حضرت نعمان بن بشیرؓ کی روایت کی ہوئی یہ حدیث بھی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اس ارشاد میں سب سے پہلے تو یہ فرمایا ہے کہ شریعت میں جو چیزیں اور جو معاملات صراحت کے ساتھ حلال یا حرام قرار دیے گئے ہیں ان کا معاملہ تو صاف اور روشن ہے لیکن ان کے علاوہ بہت سی چیزیں اور بہت سے معاملات ایسے ہیں جن کا جائز یا ناجائز ہونا کسی صریح دلیل سے معلوم نہ ہوسکے گا بلکہ دونوں رایوں کی گنجائش ہوگی مثلا شریعت کے ایک اصول کی روشنی میں ان کو جائز اور کسی دوسرے اصول کی روشنی میں ناجائز قرار دیا جا سکے گا تو ایسی شبہ والی چیزوں اور ایسے معاملات کے بارے میں بندہ مومن کا طرز عمل یہ ہونا چاہیے کہ ازراہ احتیاط و تقوی ان سے بھی پرہیز کرے اسی میں دین اور آبرو کی حفاظت ہے۔ آگے آپ نے ارشاد فرمایا کہ ..... “جو شخص ایسی مشتبہ چیزوں سے پرہیز کا اہتمام نہ کرے گا تو وہ بےاحتیاطی کا عادی بن کر محرمات کا بھی مرتکب ہوجائے گا”۔ پھر اس بات کو مثال سے سمجھاتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ مثلا جو چرواہا اپنے جانوروں کو اس سرکاری محفوظ علاقہ کے قریب اور بالکل اس کی سرحد پر چلائے گا جس میں عوام کے لیے جانوروں کا چرانا جرم ہے تو بعید نہیں کہ اس کے جانور کسی وقت اس محفوظ علاقہ کی حدود میں داخل ہو کر کرنے لگیں پس جس طرح چرواہے کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے جانوروں کو سرکاری علاقہ سے دور ہی رکھے اور اس کے قریب بھی نہ جانے دے اسی طرح بندہ مومن کو چاہیے کہ وہ مشتبہ چیزوں اور مشتبہ معاملات سے بھی پرہیز کرے اس طرح وہ محرمات اور معصیات سے ہمیشہ محفوظ رہے گا۔ یہی مقام تقویٰ ہے۔
آخر میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک نہایت اہم بات ارشاد فرمائی" فرمایا کہ انسانی وجود کے بگاڑ اور سدھار " سعادت اور شقاوت کا دارومدار اس کے قلب کے حال پر ہے جو انسان کے پورے جسمانی وجود پر اور تمام اعضاء پر حکمرانی کرتا ہے اگر وہ درست ہو گا اور اس میں خدا کی معرفت کا خوف اور ایمان کا نور ہوگا تو انسان کا پورا جسمانی وجود درست رہے گا اور اس کے اعمال و احوال صحیح اور صالح ہوں گے اور اگر قلب میں فساد و بگاڑ ہوگا اور اس پر حیوانی و شیطانی جذبات کا غلبہ ہو گا تو اس کا جسمانی وجود فاسد اور غلط کار ہوگا اور اس کے اعمال و احوال شیطانی وحیوانی ہونگے۔
اس حدیث میں قلب سے مراد انسان کا وہ باطنی حاسہ ہے جس کا رجحان خیر یا شر کی طرف ہوتا ہے۔ اس کو مضغہ (گوشت کا ٹکڑا) اس لیے کہا گیا ہے کہ انسان کے سینہ میں بائیں جانب صنوبری شکل کا جو ایک خاص اور عضو اور مضغہ لحم ہے جس کو قلب اور دل کہا جاتا ہے وہ اس باطنی حاسہ کا خاص محل اور گویا اس کا تخت ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث پاک میں پہلے تو محرمات کے علاوہ مشتبہات سے بھی بچنے اور پرہیز کرنے کی تاکید فرمائی جو تقوی کی بنیادی شرط ہے اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قلب کے بارے میں یہ آگاہی دی اور بتلا کر کہ انسان کی سعادت و شقاوت کا دارومدار قلب کے صلاح و فساد پر ہے اس کی حفاظت اور نگرانی کی طرف توجہ دلائی ۔ مبارک ہیں وہ بندے جو قلب اور باطن کی اس اہمیت کو سمجھتے ہیں اور قالب اور ظاہر سے زیادہ اپنے قلب اور باطن کی فکر رکھتے ہیں۔ حضرات صوفیائے کرام کا یہی امتیاز ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس ہدایت کی اہمیت کو سب سے زیادہ انہوں نے سمجھا ہے۔ اللہ تعالی ان کی برکات سے ہمیں محروم نہ فرمائے۔ بعض شارحین نے اس حدیث پاک کے مضامین کی ترتیب سے یہ بھی سمجھا ہے کہ قلب کی صفائی اور طہارت کے لیے یہ ضروری ہے کہ آدمی کھانے پینے میں محرمات کے علاوہ مشتبہ چیزوں سے بھی پرہیز کرے۔
عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الحَلاَلُ بَيِّنٌ، وَالحَرَامُ بَيِّنٌ، وَبَيْنَهُمَا مُشَبَّهَاتٌ لاَ يَعْلَمُهُنَّ كَثِيرٌ مِنَ النَّاسِ، فَمَنِ اتَّقَى الشُبْهَاتَ اسْتَبْرَأَ لِدِينِهِ وَعِرْضِهِ، وَمَنْ وَقَعَ فِي الشُّبُهَاتِ وَقَعَ فِي الْحَرَامِ، كَالرَّاعِي يَرْعَى حَوْلَ الْحِمَى، يُوشِكُ أَنْ يَرْتَعَ فِيهِ، أَلَا وَإِنَّ لِكُلِّ مَلِكٍ حِمًى، أَلَا وَإِنَّ حِمَى اللهِ مَحَارِمُهُ، أَلَا وَإِنَّ فِي الْجَسَدِ مُضْغَةً، إِذَا صَلَحَتْ، صَلَحَ الْجَسَدُ كُلُّهُ، وَإِذَا فَسَدَتْ، فَسَدَ الْجَسَدُ كُلُّهُ، أَلَا وَهِيَ الْقَلْبُ " (رواه البخارى ومسلم)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৭৫২
کتاب المعاملات
مقام تقوی مشتبہ سے بھی پرہیز ضروری
حضرت عطیہ سعدی رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کوئی بندہ اس درجہ تک نہیں پہنچ سکتا کہ وہ متقیوں میں شمار ہو جب تک کہ اس کا رویہ یہ نہ ہو کہ گناہوں سے بچنے کے لئے وہ مباحات کو بھی ترک نہ کرے۔ (جامع ترمذی" سنن ابن ماجہ)
تشریح
بہت سی چیزیں اور بہت سے کام ایسے ہوتے ہیں کہ وہ فی نفسہٖ جائز اور مباح ہوتے ہیں لیکن اس کا اندیشہ ہوتا ہے کہ آدمی ان میں مبتلا ہو کر گناہ تک پہنچ جائے اس لئے مقام تقوی کا تقاضہ یہ ہے کہ بندہ ان جائز و مباح چیزوں اور کاموں سے بھی پرہیز کرے۔ اس کے بغیر آدمی مقام تقوی تک نہیں پہنچ سکتا۔ معاملات اور دوسرے ابواب میں تقویٰ کا جو تقاضہ ہے وہ ان تین حدیثوں سے پوری طرح واضح ہو جاتا ہے۔ اللَّهُمَّ آتِ نُفُوسَنَا تَقْوَاهَا، وَزَكِّهَا أَنْتَ خَيْرُ مَنْ زَكَّاهَا وَلِيُّهَا وَمَوْلَاهَا.
تشریح
بہت سی چیزیں اور بہت سے کام ایسے ہوتے ہیں کہ وہ فی نفسہٖ جائز اور مباح ہوتے ہیں لیکن اس کا اندیشہ ہوتا ہے کہ آدمی ان میں مبتلا ہو کر گناہ تک پہنچ جائے اس لئے مقام تقوی کا تقاضہ یہ ہے کہ بندہ ان جائز و مباح چیزوں اور کاموں سے بھی پرہیز کرے۔ اس کے بغیر آدمی مقام تقوی تک نہیں پہنچ سکتا۔ معاملات اور دوسرے ابواب میں تقویٰ کا جو تقاضہ ہے وہ ان تین حدیثوں سے پوری طرح واضح ہو جاتا ہے۔ اللَّهُمَّ آتِ نُفُوسَنَا تَقْوَاهَا، وَزَكِّهَا أَنْتَ خَيْرُ مَنْ زَكَّاهَا وَلِيُّهَا وَمَوْلَاهَا.
عَنْ عَطِيَّةَ السَّعْدِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا يَبْلُغُ الْعَبْدُ أَنْ يَكُونَ مِنَ الْمُتَّقِينَ، حَتَّى يَدَعَ مَا لَا بَأْسَ بِهِ، حَذَرًا لِمَا بِهِ الْبَأْسُ» (رواه الترمذى وابن ماجه)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৭৫৩
کتاب المعاملات
مالی معاملات میں دوسروں کے ساتھ نرمی اور رعایت
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ کی رحمت اس بندے پر ہیں جو بیچنے میں’ خریدنے میں اور اپنے حق کا تقاضہ کرنے میں نرم اور فراخ دل ہو ۔ (صحیح بخاری)
تشریح
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت و تعلیم میں ایمان اور اللہ کی عبادت کے بعد بندگان خدا اور عام مخلوق کے ساتھ حسن سلوک خاص کر کمزوروں اور حاجت مندوں کی خدمت اور اعانت پر بڑا زور دیا گیا ہے" اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم و ہدایت کا یہ نہایت وسیع اور اہم باب ہے۔ اسی سلسلہ معارف الحدیث کی کتاب الاخلاق(1) اور کتاب المعاشرہ(2) میں ناظرین کرام مختلف عنوانات کے تحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ پچاسوں ارشادات پڑھ چکے ہیں جن کا تعلق اسی وسیع باب کے مختلف شعبوں سے ہے۔
خرید و فروخت اور قرض وغیرہ لین دین کے معاملات میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو مختلف عنوانات سے اس کی ہدایت فرمائی اور ترغیب دی کے ہر فریق دوسرے کی رعایت اور خیر خواہی کرے’ جس پر کسی کا حق ہے وہ اس کو ادا کرنے کی کوشش کرے’ اور جس کا کسی دوسرے پر حق ہے وہ اس کے وصول کرنے میں فراخ دلی نرمی اور فیاضی سے کام لے’ اور سخت اور بے لچک رویہ اختیار نہ کرے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتلایا کہ جو بندے ایسا کریں گے وہ ارحم الراحمین کی خاص الخاص رحمت کے مستحق ہونگے۔ اس سلسلہ کے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چند ارشادات ذیل میں پڑھئے:
تشریح
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت و تعلیم میں ایمان اور اللہ کی عبادت کے بعد بندگان خدا اور عام مخلوق کے ساتھ حسن سلوک خاص کر کمزوروں اور حاجت مندوں کی خدمت اور اعانت پر بڑا زور دیا گیا ہے" اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم و ہدایت کا یہ نہایت وسیع اور اہم باب ہے۔ اسی سلسلہ معارف الحدیث کی کتاب الاخلاق(1) اور کتاب المعاشرہ(2) میں ناظرین کرام مختلف عنوانات کے تحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ پچاسوں ارشادات پڑھ چکے ہیں جن کا تعلق اسی وسیع باب کے مختلف شعبوں سے ہے۔
خرید و فروخت اور قرض وغیرہ لین دین کے معاملات میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو مختلف عنوانات سے اس کی ہدایت فرمائی اور ترغیب دی کے ہر فریق دوسرے کی رعایت اور خیر خواہی کرے’ جس پر کسی کا حق ہے وہ اس کو ادا کرنے کی کوشش کرے’ اور جس کا کسی دوسرے پر حق ہے وہ اس کے وصول کرنے میں فراخ دلی نرمی اور فیاضی سے کام لے’ اور سخت اور بے لچک رویہ اختیار نہ کرے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتلایا کہ جو بندے ایسا کریں گے وہ ارحم الراحمین کی خاص الخاص رحمت کے مستحق ہونگے۔ اس سلسلہ کے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چند ارشادات ذیل میں پڑھئے:
عَنْ جَابِرٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «رَحِمَ اللَّهُ رَجُلًا سَمْحًا إِذَا بَاعَ، وَإِذَا اشْتَرَى، وَإِذَا اقْتَضَى» (رواه البخارى)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৭৫৪
کتاب المعاملات
مالی معاملات میں دوسروں کے ساتھ نرمی اور رعایت
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا کہ تم سے پہلی کسی امت میں ایک آدمی تھا جب موت کا فرشتہ اس کی روح قبض کرنے آیا (اور قبض روح کے بعد وہ اس دنیا سے دوسرے عالم کی طرف منتقل ہو گیا) تو اس سے پوچھا گیا کہ تونے دنیا میں کوئی نیک عمل کیا تھا؟ (جو تیرے لیے وسیلہ نجات بن سکے) اس نے عرض کیا کہ میرے علم میں میرا کوئی (ایسا) عمل نہیں ہے۔ اس سے کہا گیا کہ (اپنی زندگی پر) نظر ڈال (اور غورکر!) اس نے پھر عرض کیا کہ میرے علم میں (میرا ایسا کوئی عمل اور) کوئی چیز نہیں سوا اس کے کہ میں لوگوں کے ساتھ کاروبار اور خرید و فروخت کا معاملہ کیا کرتا تھا تو میرا رویہ ان کے ساتھ درگزر اور احسان کا ہوتا تھا" میں پیسے والوں اور اصحاب دولت کو بھی مہلت دے دیتا تھا (کہ وہ بعد میں جب چاہیں عطا کر دیں) اور غریبوں مفلسوں کو معافی بھی کر دیتا تھا۔ تو اللہ تعالی نے اس شخص کے لئے جنت میں داخلہ کا حکم فرما دیا۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
حضرت حذیفہ کی یہ حدیث صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں اسی طرح روایت کی گئی۔ اور صحیح مسلم میں حضرت عقبہ بن عامر اور حضرت ابو مسعود انصاریؓ سے بھی یہ حدیث روایت کی گئی ہے اور اس کے آخر میں بجائے“فَأَدْخَلَهُ اللَّهُ الجَنَّةَ” کے یہ الفاظ ہیں “انا احق بذا منك تجاوزوا عن عبدى” (اللہ تعالی نے اس شخص سے فرمایا کہ احسان اور درگزر کا جو معاملہ تو میرے بندوں سے کرتا تھا(کہ غریبوں مفلسوں کو معاف بھی کر دیتا تھا)یہ(کریمانہ رویہ)میرے لیے زیادہ سزاوار ہے اور اس کا تجھ سے زیادہ حقدار ہو (کہ معافی اور درگذر کا معاملہ کروں) اور اللہ نے فرشتوں کو حکم دیا کہ میرے اس بندے سے درگزر کرو (یہ معاف کردیا گیا اور بخش دیا گیا)۔
تشریح
اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے زمانہ کے کسی شخص کا جو واقعہ بیان فرمایا ہے ظاہر ہے کہ وہ آپ ﷺ کو وحی سے ہی معلوم ہوا ہو گا ، یہ شخص دنیا سے ایسے حال میں گیا کہ خود اس کی نظر میں اس کا کوئی عمل ایسا نہیں تھا جس کی بنیاد پر وہ نجات اور جنت کی امید کرسکتا سوا اس کے کہ وہ کاروباری معاملات اور لین دین میں اللہ کے بندوں کے ساتھ رعایت کیا کرتا اور ان کو سہولت دیا کرتا تھا۔ اگر کسی اور غریب شخص کے ساتھ کوئی چیز ادھار بیچی ہوتی یا قرض دیا ہوتا اور وہ ادا نہ کر سکتا تو اس کو معاف کر دیا کرتا تھا اور پیسے والوں سے بھی فورا ادائیگی پر اصرار نہیں کرتا تھا بلکہ ان کو مہلت دے دیتا تھا کے آئندہ ادا کردیں۔ اللہ تعالی نے اس کے اسی عمل کی بنیاد پر مغفرت فرما دی۔ اور اس کو جنت کا پروانہ عطا ہو گیا۔ تعلیم اور نصیحت کا یہ مؤثر ترین طریقہ ہے کہ اگلوں کے سبق آموز واقعات بیان کئے جائیں۔ قرآن کریم میں انبیاء علیہم السلام اور ان کی قوموں یا بعض اشخاص و افراد کے جو واقعات اور قصص بیان فرمائے گئے ہیں ان کا خاص مقصد و مدعا یہی ہے۔ حدیث میں اور اس سے آگے والی حدیث میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نصیحت اور تربیت کا یہی طریقہ اختیار فرمایا ہے۔
حضرت حذیفہ کی یہ حدیث صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں اسی طرح روایت کی گئی۔ اور صحیح مسلم میں حضرت عقبہ بن عامر اور حضرت ابو مسعود انصاریؓ سے بھی یہ حدیث روایت کی گئی ہے اور اس کے آخر میں بجائے“فَأَدْخَلَهُ اللَّهُ الجَنَّةَ” کے یہ الفاظ ہیں “انا احق بذا منك تجاوزوا عن عبدى” (اللہ تعالی نے اس شخص سے فرمایا کہ احسان اور درگزر کا جو معاملہ تو میرے بندوں سے کرتا تھا(کہ غریبوں مفلسوں کو معاف بھی کر دیتا تھا)یہ(کریمانہ رویہ)میرے لیے زیادہ سزاوار ہے اور اس کا تجھ سے زیادہ حقدار ہو (کہ معافی اور درگذر کا معاملہ کروں) اور اللہ نے فرشتوں کو حکم دیا کہ میرے اس بندے سے درگزر کرو (یہ معاف کردیا گیا اور بخش دیا گیا)۔
تشریح
اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے زمانہ کے کسی شخص کا جو واقعہ بیان فرمایا ہے ظاہر ہے کہ وہ آپ ﷺ کو وحی سے ہی معلوم ہوا ہو گا ، یہ شخص دنیا سے ایسے حال میں گیا کہ خود اس کی نظر میں اس کا کوئی عمل ایسا نہیں تھا جس کی بنیاد پر وہ نجات اور جنت کی امید کرسکتا سوا اس کے کہ وہ کاروباری معاملات اور لین دین میں اللہ کے بندوں کے ساتھ رعایت کیا کرتا اور ان کو سہولت دیا کرتا تھا۔ اگر کسی اور غریب شخص کے ساتھ کوئی چیز ادھار بیچی ہوتی یا قرض دیا ہوتا اور وہ ادا نہ کر سکتا تو اس کو معاف کر دیا کرتا تھا اور پیسے والوں سے بھی فورا ادائیگی پر اصرار نہیں کرتا تھا بلکہ ان کو مہلت دے دیتا تھا کے آئندہ ادا کردیں۔ اللہ تعالی نے اس کے اسی عمل کی بنیاد پر مغفرت فرما دی۔ اور اس کو جنت کا پروانہ عطا ہو گیا۔ تعلیم اور نصیحت کا یہ مؤثر ترین طریقہ ہے کہ اگلوں کے سبق آموز واقعات بیان کئے جائیں۔ قرآن کریم میں انبیاء علیہم السلام اور ان کی قوموں یا بعض اشخاص و افراد کے جو واقعات اور قصص بیان فرمائے گئے ہیں ان کا خاص مقصد و مدعا یہی ہے۔ حدیث میں اور اس سے آگے والی حدیث میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نصیحت اور تربیت کا یہی طریقہ اختیار فرمایا ہے۔
عَنْ حُذَيْفَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ رَجُلًا كَانَ فِيمَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ، أَتَاهُ المَلَكُ لِيَقْبِضَ رُوحَهُ، فَقِيلَ لَهُ: هَلْ عَمِلْتَ مِنْ خَيْرٍ؟ قَالَ: مَا أَعْلَمُ، قِيلَ لَهُ: انْظُرْ، قَالَ: مَا أَعْلَمُ شَيْئًا غَيْرَ أَنِّي كُنْتُ أُبَايِعُ النَّاسَ فِي الدُّنْيَا وَأُجَازِيهِمْ، فَأُنْظِرُ المُوسِرَ، وَأَتَجَاوَزُ عَنِ المُعْسِرِ، فَأَدْخَلَهُ اللَّهُ الجَنَّةَ " (رواه البخارى ومسلم وفى رواية لمسلم)
نحوه عن عقبة بن عامر وابى مسعود الانصارى فقال الله انا احق بذا منك تجاوزوا عن عبدى.
نحوه عن عقبة بن عامر وابى مسعود الانصارى فقال الله انا احق بذا منك تجاوزوا عن عبدى.
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৭৫৫
کتاب المعاملات
مالی معاملات میں دوسروں کے ساتھ نرمی اور رعایت
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک آدمی تھا جو لوگوں کو قرض ادھار دے دیا کرتا تھا (تو جب اپنے غلام کو تقاضے کے لئے اور قرض وصول کرنے کے لئے بھیجتا) تو غلام سے کہتا اور اس کو ہدایت کردیتا کہ جب تم قرضہ وصول کرنے کے لئے کسی غریب اور مفلس کے پاس جاؤ تو اس سے درگذر کیجئو شاید (اس کی وجہ سے) اللہ تعالی ہم سے درگزر فرمائے اور معاف فرماوے۔ یہ بیان فرما کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ پھر جب مرنے کے بعد وہ بندہ اللہ تعالی کے حضور حاضر ہوا تو اللہ تعالی نے اس کو معاف فرما دیا۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
تشریح
اس حدیث میں جس شخص کا واقعہ بیان کیا گیا ہے ظاہر یہی ہے کہ وہ بھی اگلی امتوں میں سے کسی امت کا فرد تھا۔ واللہ اعلم۔
تشریح
اس حدیث میں جس شخص کا واقعہ بیان کیا گیا ہے ظاہر یہی ہے کہ وہ بھی اگلی امتوں میں سے کسی امت کا فرد تھا۔ واللہ اعلم۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِىَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " كَانَ الرَّجُلُ يُدَايِنُ النَّاسَ، فَكَانَ يَقُولُ لِفَتَاهُ: إِذَا أَتَيْتَ مُعْسِرًا فَتَجَاوَزْ عَنْهُ، لَعَلَّ اللَّهَ أَنْ يَتَجَاوَزَ عَنَّا، قَالَ: فَلَقِيَ اللَّهَ فَتَجَاوَزَ عَنْهُ " (رواه البخارى ومسلم)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৭৫৬
کتاب المعاملات
مالی معاملات میں دوسروں کے ساتھ نرمی اور رعایت
حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ فرماتے تھے کہ جس بندہ نے کسی غریب تنگ دست کو مہلت دی یا (اپنا مطالبہ کل یا اس کا جز) معاف کر دیا تو اللہ تعالی قیامت کے دن کی تکلیفوں اور پریشانیوں سے اس بندہ کو نجات عطا فرمائے گا۔ (صحیح مسلم)
عَنْ أَبي قَتَادَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: «مَنْ أَنْظَرَ مُعْسِرًا، أَوْ وَضَعَ عَنْهُ، أَنْجَاهُ اللَّهُ مِنْ كُرْبِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ» (رواه مسلم)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৭৫৭
کتاب المعاملات
مالی معاملات میں دوسروں کے ساتھ نرمی اور رعایت
حضرت ابو الیسر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ ارشاد فرماتے تھے کہ جو بندہ کسی غریب تنگدست کو (جس پر اس کا قرضہ وغیرہ ہو) مہلت دے دے یا (مطالبہ کل یاجز) معاف کردے تو اللہ تعالی (قیامت کے دن) اس کو اپنے سایہ رحمت میں لے لے گا ۔ (صحیح مسلم)
عَنْ أَبي الْيُسْرِ قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِىَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: «مَنْ أَنْظَرَ مُعْسِرًا، أَوْ وَضَعَ عَنْهُ، أَظَلَّهُ اللَّهُ فِي ظِلِّهِ» (رواه مسلم)
তাহকীক: