মা'আরিফুল হাদীস (উর্দু)

معارف الحديث

کتاب المناقب والفضائل - এর পরিচ্ছেদসমূহ

মোট হাদীস ২০ টি

হাদীস নং: ১৯৭২
کتاب المناقب والفضائل
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فضائل اور مقامات عالیہ
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا میں قیامت کے دن تمام اولاد آدم کا سید (سردار) ہوں گا اور میں پہلا وہ شخص ہوگا جس کی قبر شق ہوگی (یعنی قیامت کے دن اللہ تعالی کے حکم سے سب سے پہلے میری قبر شق ہوگئی اور میں سب سے پہلے اپنی قبر سے اٹھوں گا) اور میں شفاعت کرنے والا پہلا شخص ہوگا (یعنی اللہ تعالی کی طرف سے سب سے پہلے شفاعت کی اجازت مجھے ملے گی اور سب سے پہلے میں ہی اس کی بارگاہ میں شفاعت کروں گا) اور میں ہی وہ شخص ہوں جس کی شفاعت سب سے پہلے قبول فرمائی جائے گی۔ (صحیح مسلم)

تشریح
اللہ تعالی کی طرف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جو علم و معارف عطا ہوئے اور آپ کے ذریعے امت کو ملے جو انسانی زندگی کے مختلف شعبوں سے متعلق ابواب میں منقسم ہیں ان میں سے ایک مناقب و فضائل کا باب بھی ہے حدیث کی قریبا سبھی کتابوں میں “کتاب المناقب” یا “ابواب المناقب” جیسے عنوانات کے تحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ ارشادات روایت کئے گئے ہیں جن میں آپ نے بعض خاص اشخاص و افراد یا خاص طبقات کے وہ مناقب و فضائل بیان فرمائے ہیں جو اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر منکشف فرمائے یہ باب بعض پہلوؤں سے حدیث کے اہم ابواب میں سے ہیں اس میں امت کے لیے ہدایت کا بہت بڑا سامان ہے اج بنام خدا اس باب کی احادیث کی تشریح کا سلسلہ شروع کیا جا رہا ہے اور اس کا آغاز چند ان حدیثوں کی تشریح سے کیا جارہا ہے جن میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے حکم و ارشاد “ وَأَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ” کی تعمیل کرتے ہوئے اپنے رب کریم کے خصوصی انعامات کا اور ان کے مقامات عالیہ کا ذکر فرمایا ہے جن پر آپ کو فائز کیا گیا تھا ساتھ ہی انشاءاللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے شمائل و خصائل اور خاص احوال سے متعلق احادیث بھی تشریح کے ساتھ نظر ناظرین کی جائیں گی۔

تشریح ..... رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی نے مجھ پر ایک خاص انعام یہ بھی فرمایا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کی پوری نسل میں (جس میں تمام انبیاء علیہم السلام بھی شامل ہیں) مجھے سب سے اعلی مقام و مرتبہ عطا فرمایا ہے مجھے سب کا سید و آقا بنایا ہے اس کا پورا ظہور جس کو سب آنکھوں سے دیکھیں گے قیامت کے دن ہو گا اور اسی دن اللہ تعالی کے ان خصوصی انعام کا بھی ظہور ہوگا کہ جب مردوں کے قبر سے اٹھنے کا وقت آئے گا تو بحکم خداوند سب سے پہلے میری قبر اوپر سے شق ہو گی اور میں سب سے پہلے قبر سے باہر آؤں گا اور پھر جب شفاعت کا دروازہ کھلنے کا وقت آئے گا تو باذن خداوندی سب سے پہلے میں ہی شفاعت کرنے والا ہوں گا اور میں ہی پہلا وہ شخص ہوں گا جس کی شفاعت کو اللہ تعالی کی طرف سے شرف قبول حاصل ہوگا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح کے عظیم خداوندی انعامات کا اظہار اللہ تعالیٰ ہی کے حکم سے اس لیے بھی فرماتے تھے کہ امت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام عالی سے واقف ہو اور اس کے قلب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ عظمت اور محبت پیدا ہو جو ہونی چاہیے اور پھر دل میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کا جذبہ اور داعیہ ابھرے نیز اللہ تعالی کی اس نعمت عظمیٰ کے شکر کی توفیق ہو کہ اس نے ایسے عظیم المرتبت پیغمبر کا امتی بنایا الغرض آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس طرح ارشادات تحدیث نعمت اور شکر نعمت کے علاوہ امت کی ہدایت و تربیت کے اسباب بھی ہیں۔
یہاں ایک یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے متعدد حدیثیں اس مضمون کی مروی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ فلاں پیغمبر پر مجھے فضیلت نہ دی جائے آپ کے اس طرح کے ارشادات کا مطلب (جو شارحین نے لکھا ہے اور خود ان حدیثوں کے سیاق و سباق سے معلوم ہوتا ہے) یہ ہے کہ اللہ تعالی کہ کسی بھی پیغمبر کے ساتھ مقابلہ اور موازنہ کرکے ان کو کمتر ثابت کرنے کی بات نہ کی جائے اس میں ان کی کسر شان اور سوء ادب کا اندیشہ ہے ورنہ االلہ تعالی نے اپنی کتاب پاک قرآن مجید میں فرمایا ہے “ تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ” (یہ ہمارے رسول ہیں جن میں سے بعض کو ہم نے بعض پر فضیلت اور برتری دی ہے) اور قرآن مجید میں متعدد آیتیں ہیں جن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تمام انبیاء و مرسلین سے افضل ہونا واضح طور پر ثابت ہوتا ہے مثلا “وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ” اور “وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا كَافَّةً لِّلنَّاسِ ..... الاية” وغيرها
عَنْ أَبِيْ هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَنَا سَيِّدُ وَلَدِ آدَمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَأَوَّلُ مَنْ يَنْشَقُّ عَنْهُ الْقَبْرُ وَأَوَّلُ شَافِعٍ وَأَوَّلُ مُشَفَّعٍ. (رواه مسلم)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৯৭৩
کتاب المناقب والفضائل
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فضائل اور مقامات عالیہ
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت کے دن میں تمام بنی آدم کا سید (سردار) ہوں گا اور یہ میں فخر کے طور پر نہیں کہتا اور حمد کا جھنڈا اس دن میرے ہاتھ میں ہوگا اور یہ بھی میں فخر کے طور پر نہیں کہتا اور تمام انبیاء علیہم سلام آدمؑ اور انکے سوا بھی سب انبیاء و مرسلین اس دن میرے جھنڈے کے نیچے ہونگے اور میں پہلا وہ شخص ہوں گا جس کی قبرکی زمین اوپر سے شق ہو گئی اور یہ بھی میں فخر کے طور پر نہیں کہتا۔ (بلکہ اللہ تعالی کے حکم سے اس کے انعام و احسان کا بیان کر رہا ہوں) (جامع ترمذی)

تشریح
اس حدیث کے اول و آخر میں اللہ تعالیٰ کے جن دو انعامات کا ذکر فرمایا گیا ہے ایک “أَنَا سَيِّدُ وَلَدِ آدَمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ” اور دوسرا “وَأَنَا أَوَّلُ مَنْ تُنْشَقُّ عَنْهُ الأَرْضُ” ان دونوں کا ذکر حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی مندرجہ بالا حدیث میں بھی کیا گیا ہے اور ان کی تشریح بھی کی جاچکی ہے حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہٗ کی اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزید اس خاص الخاص انعام و کرام کا ذکر فرمایا ہے کہ قیامت کے بن لواء الحمد (حمد کا جھنڈا) میرے ہاتھ میں دیا جائے گا اور تمام انبیاء ومرسلین میرے اس جھنڈے تلے ہوگے۔ یہ بات معلوم ومعروف ہیں کہ جھنڈا لشکر کے سپہ سالار اعظم کے ہاتھ میں دیا جاتا ہے اور باقی لشکری اس کے ماتحت ہوتے ہیں پس قیامت کے دن اللہ تعالی کی طرف سے جھنڈا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں دیا جانا اور آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک تمام انبیاء کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس جھنڈے تلے ہونا اللہ تعالی کی طرف سے تمام مخلوقات اور تمام انبیاء پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیادت و فضیلت کا ایسا ضرور ہوگا جس کو ہر دیکھنے والا اپنی آنکھوں سے دیکھ لے گا۔ رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم نے اس ارشاد میں بھی اللہ تعالی کا ہر انعام ذکر فرمانے کے ساتھ یہ بھی فرمایاکہ “ولا فخر” کہ اللہ تعالیٰ کے ان انعامات کا ذکر میں فخر کے طور پر نہیں کررہا ہوں بلکہ اس کے حکم کی تعمیل میں تحدیث نعمت اور اداء شکر کے طور نہ اور تمہاری واقفیت کے لئے کر رہا ہوں۔
یہ لواءالحمد (حمد کا جھنڈا) جو قیامت کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں دیا جائے گا اس واقعی حقیقت کی علامت اور اس کا اعلان ہوگا جس برگزیدہ بندے کے ہاتھ میں حمد خداوندی کا یہ جھنڈا ہے اس کا حصہ اللہ تعالی کی حمد و ثنا کے عمل میں (جو کسی بندے کو اللہ کا محبوب و مقبول بنانے والا خاص الخاص عمل ہے) سب سے زیادہ ہے اللہ کی حمد خود اس کی زندگی کا ہمہ وقتی وظیفہ تھا دن رات کی نمازوں میں بار بار اللہ کی حمد، اٹھتے بیٹھتے اللہ کی حمد، کھاناکھانے کے بعد اللہ کی حمد، پانی پینے کے بعد اللہ کی حمد، سونے سے پہلے اور سو کر اٹھنے کے بعد اللہ کی حمد، لذت اور مسرت کے ہر موقع پر اللہ کی حمد، اللہ تعالی کی کسی بھی نعمت کے احساس کے وقت اس کی حمد، یہاں تک کہ چھینک آنے پر اللہ کی حمد، استنجے سے فراغت پر اللہ کی حمد (ان تمام ملکوں پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جو دعائیں ثابت ہیں ان سب میں اللہ تعالی کی حمد ہی ہے) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو بڑے اہتمام سے اسی طرز عمل کی ہدایت اور تلقین فرمائی جس کے نتیجہ میں بلاشبہ اللہ تعالی کی اتنی حمد ہوئی اور قیامت تک ہوگی جس کا حساب بس اللہ تعالی ہی کے علم میں ہے اس لیے بلاشبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اس کے مستحق ہیں کہ لواءالحمد (حمد کا جھنڈا) قیامت کے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں دیا جائے اور اس کے ذریعہ آپ کی اس خصوصیت کا اعلان و اظہار کیا جائے۔ صلی اللہ علیہ و بارک وسلم۔
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَنَا سَيِّدُ وَلَدِ آدَمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلاَ فَخْرَ وَبِيَدِي لِوَاءُ الْحَمْدِ وَلاَ فَخْرَ وَمَا مِنْ نَبِيٍّ يَوْمَئِذٍ آدَمُ فَمَنْ سِوَاهُ إِلاَّ تَحْتَ لِوَائِي وَأَنَا أَوَّلُ مَنْ يُنْشَقُّ عَنْهُ الأَرْضُ وَلاَ فَخْرَ. (رواه الترمذى)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৯৭৪
کتاب المناقب والفضائل
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فضائل اور مقامات عالیہ
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب قیامت کا دن ہوگا تو میں تمام نبیوں کا امام اور پیشوا ہو گا اور ان کی طرف سے خطاب اور کلام کرنے والا ہوں گا اور ان کی سفارش کرنے والا ہی ہوں گا اور یہ میں بطور فخر کے نہیں کہتا (بلکہ اللہ تعالی کے حکم کی تعمیل میں تحدیث نعمت کے طور پر کہہ رہا ہوں) ۔ (جامع ترمذی)

تشریح
اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے کو قیامت کے دن انبیاء علیہم السلام کا خطیب اور صاحب شفاعت بھی فرمایا ہے مطلب یہ ہے کہ قیامت کے دن جب جلال خداوندی کا غیرمعمولی ظہور ہو گا تو انبیاء علیہم السلام کو بارگاہ خداوندی میں کچھ عرض کرنے کی بھی ہمت نہیں ہوگی تو میں ان کی طرف سے بارگاہ الہی میں کلام اور عرض ومعروض کروں گا اور ان کے لیے سفارش کروں گا یہاں بھی آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں یہ سب کچھ از راہ فخر وتعلی نہیں کہہ رہا ہوں بلکہ تحدیث نعمت کے طور پر اور تم لوگوں کو واقف کرنے کے لئے اللہ تعالی کے حکم کی تعمیل میں بیان کر رہا ہوں۔
عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ كُنْتُ إِمَامَ النَّبِيِّينَ وَخَطِيبَهُمْ وَصَاحِبَ شَفَاعَتِهِمْ غَيْرُ فَخْرٍ. (رواه الترمذى)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৯৭৫
کتاب المناقب والفضائل
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فضائل اور مقامات عالیہ
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض صحابہ بیٹھے باتیں کر رہے تھے اسی حال میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اندر سے تشریف لے آئے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان لوگوں کے قریب پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سنا کہ وہ آپس میں یہ باتیں کر رہے ہیں ان میں سے ایک نے (حضرت ابراہیمؑ کی عظمت شان بیان کرتے ہوئے) کہا کہ اللہ تعالی نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اپنا خلیل بنایا ایک دوسرے صاحب نے کہا کہ اور حضرت موسیؑ کو ہم کلامی کا شرف بخشا پھر ایک اور صاحب نے کہا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا یہ مقام ہے کہ وہ کلمۃ اللہ اور روح اللہ ہیں پھر ایک اور صاحب نے کہا کہ حضرت آدمؑ کو اللہ تعالی نے برگزیدہ کیا (کہ ان کو براہ راست اپنے دست قدرت سے بنایا اور ان کو سجدہ کرنے کا فرشتوں کو حکم دیا وہ صحابہ یہ باتیں کررہے تھے) کہ اچانک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لے آئے اور فرمایا کہ میں نے تمہاری گفتگو اور تمہارا اظہار تعجب سنا، بےشک ابراہیمؑ اللہ کے خلیل ہیں اور وہ ایسے ہی ہیں (ان کو اللہ تعالی نے اپنا خلیل بنایا ہے) اور بےشک موسیؑ نجی اللہ (اللہ کے ہمراز و ہم سخن) ہیں اور وہ ایسے ہی ہیں اور بے شک عیسی روح اللہ اور کلمۃ اللہ ہیں اور وہ ایسے ہی ہیں اور بےشک آدم صفی اللہ (اللہ کے برگزیدہ) ہیں اور فی الحقیقت وہ ایسے ہی ہیں اور تم کو معلوم رہنا چاہیے کہ میں حبیب اللہ (اللہ کا محبوب) ہوں اور یہ میں بطور فخر نہیں کہتا اور قیامت کے دن میں ہی لواءالحمد (حمد کا جھنڈا) اٹھانے والا ہوگا، آدم اور ان کے سوا بھی سب (انبیاء و مرسلین) میرے اس جھنڈے کے نیچے ہوں گے اور یہ بات میں فخر کے طور پر نہیں کہتا اور میں سب سے پہلا وہ شخص ہوگا جو قیامت کے دن بارگاہ خداوندی میں شفاعت کروں گا اور سب سے پہلے جس کی شفاعت قبول فرمائی جائے گی اور میں پہلا وہ شخص ہوگا جو (جنت کا دروازہ کھلوانے کے لیے) اس کے حلقہ کو ہلائے گا تو اللہ تعالی میرے لیے اس کو کھلوا دے گا اور مجھے جنت میں داخل فرمائے گا اور میرے ساتھ فقراء مومنین ہونگے اور یہ بات بھی میں فخر سے نہیں کہتا اور بارگاہ خداوندی میں اولین و آخرین میں سب سے زیادہ میرا اکرام و اعزاز ہوگا اور یہ بھی فخر سے نہیں کہتا۔ (جامع ترمذی و مسند دارمی)

تشریح
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مزاج مبارک اور عام رویہ تواضع اور انکساری کا تھا لیکن ضرورت محسوس ہوتی تو اللہ تعالی کے ارشاد “وَأَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ” کی تعمیل میں اللہ تعالیٰ کے ان خصوصی انعامات اور اعلی کمالات و مقامات کا بھی ذکر فرماتے جن سے آپ سرفراز فرمائے گئے حضرت عبداللہ بن عباسؓ کی یہ حدیث اور جو حدیثیں اوپر درج کی گئیں یہ سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسی سلسلہ کے بیانات ہے وہ صحابہ کرامؓ جن کی گفتگو کا اس حدیث میں ذکر کیا گیا ہے حضرت ابراہیمؑ حضرت موسیٰؑ و عیسیٰؑ اور حضرت آدم (علیہم السلام) پر ہونے والے اللہ تعالیٰ کے ان خصوصی انعامات سے تو واقف تھے جن کا وہ تذکرہ کررہے تھے ان کو یہ سب کچھ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی تعلیم سے قرآن مجید سے معلوم ہو چکا تھا لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام عظمت کے بارے میں غالبا ان کی معلومات ناقص تھی اس لیے یہ خود ان کی ضرورت اور حاجت تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس بارے میں ان کو بتلائیں چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بتلایا اور اس طرح بتلایا کہ حضرت ابراہیمؑ اور حضرت موسیؑ و عیسیؑ اور حضرت آدمؑ پر ہونے والے جن انعامات الہیہ اور ان کے جن فضائل ومناقب کا وہ ذکر کر رہے تھے، پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سب کی تصدیق فرمائی اس کے بعد اپنے بارے میں بتلایا کہ مجھ پر اللہ تعالی کا یہ خاص الخاص انعام ہے کہ مجھ کو مقام محبوبیت عطا فرمایا گیا ہے اور میں اللہ کا حبیب ہوں (ملحوظ رہے کہ جن اصحاب کرام سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا وہ جانتے تھے کہ محبوبیت کا مقام سب سے اعلی و بالا ہے اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سلسلے میں مزید وضاحت کی ضرورت نہیں سمجھی) اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض ان انعامات الہیہ کا ذکر فرمایا ہے جس کا ظہور اس دنیا کے خاتمہ کے بعد قیامت میں ہوگا ان میں سے لواءالحمد ہاتھ میں ہونے اور اولین شافع اور اولین مقبول الشفاعۃ ہونے کا ذکر مندرجہ بالا حدیثوں میں بھی آچکا ہے اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو خصوصی انعامات خداوندی کا اور ذکر فرمایا ایک یہ کہ جنت کا دروازہ کھلوانے کے لیے سب سے پہلے میں ہی اس کے حلقوں کو حرکت دوں گا (جس طرح کسی مکان کا دروازہ کھلوانے کے لیے دستک دی جاتی ہے) تو اللہ تعالی فورا دروازہ کھلوا دیں گے اور مجھ کو جنت میں داخل فرمائیں گے اور میرے ساتھ فقراء مومنین ہوں گے اور وہ بھی میرے ساتھ ہی جنت میں داخل کر لیے جائیں گے (یہ سب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مقام محبوبیت پر فائز ہونے کا ظہور ہوگا) آخری بات آپ صلی اللہ وسلم نے اس سلسلہ میں یہ ارشاد فرمائی کہ “وانا اکرم الاولین و الآخرین علی اللہ” یعنی یہ بھی مجھ پر اللہ تعالی کا خاص الخاص انعام ہے کہ اس کی بارگاہ میں تمام اولین و آخرین میں سب سے زیادہ اکرم و اعزاز میرا ہی ہے اور جو مقام عزت مجھے عطا فرمایاگیا ہے وہ اولین و آخرین میں سے کسی اور کو عطا نہیں فرمایا گیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اس ارشاد میں جن خصوصی انعامات الہیہ کا ذکر فرمایا ان میں سے ہر ایک کے ساتھ یہ بھی فرمایا “ولا فخر” جیسا کہ عرض کیا جاچکا اس کا مطلب یہی ہے کہ اللہ تعالی کے ان خصوصی انعامات کا ذکر محض از راہ فخر اور اپنی برتری ظاہر کرنے کے لئے نہیں کر رہا ہوں بلکہ محض اللہ کے حکم کی تعمیل میں تحدیث نعمت اور اداء شکر کے لیے اور تم لوگوں کو واقف کرنے کے لئے کر رہا ہوں تاکہ تم بھی اس رب کریم کا شکر ادا کرو کیونکہ یہ انعامات تمہارے حق میں بھی وسیلہ خیر و سعادت ہیں۔
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ جَلَسَ نَاسٌ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ فَخَرَجَ حَتَّى إِذَا دَنَا مِنْهُمْ سَمِعَهُمْ يَتَذَاكَرُونَ قَالَ بَعْضُهُمْ إِنَّ اللَّهَ اتَّخَذَ إِبْرَاهِيمَ خَلِيلاً. وَقَالَ آخَرُ مُوسَى كَلَّمَهُ تَكْلِيمًا وَقَالَ آخَرُ عِيسَى كَلِمَةُ اللَّهِ وَرُوحُهُ. وَقَالَ آخَرُ آدَمُ اصْطَفَاهُ اللَّهُ فَخَرَجَ عَلَيْهِمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ: قَدْ سَمِعْتُ كَلاَمَكُمْ وَعَجَبَكُمْ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ خَلِيلُ اللَّهِ وَهُوَ كَذَلِكَ وَمُوسَى نَجِيُّ اللَّهِ وَهُوَ كَذَلِكَ وَعِيسَى رُوحُ اللَّهِ وَكَلِمَتُهُ وَهُوَ كَذَلِكَ وَآدَمُ اصْطَفَاهُ اللَّهُ وَهُوَ كَذَلِكَ أَلاَ وَأَنَا حَبِيبُ اللَّهِ وَلاَ فَخْرَ وَأَنَا حَامِلُ لِوَاءِ الْحَمْدِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلاَ فَخْرَ وَأَنَا أَوَّلُ شَافِعٍ وَأَوَّلُ مُشَفَّعٍ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلاَ فَخْرَ وَأَنَا أَوَّلُ مَنْ يُحَرِّكُ حِلَقَ الْجَنَّةِ فَيَفْتَحُ اللَّهُ لِيَ فَيُدْخِلُنِيهَا وَمَعِي فُقَرَاءُ الْمُؤْمِنِينَ وَلاَ فَخْرَ وَأَنَا أَكْرَمُ الأَوَّلِينَ وَالآخِرِينَ وَلاَ فَخْرَ. (رواه الترمذى والدارمى)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৯৭৬
کتاب المناقب والفضائل
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فضائل اور مقامات عالیہ
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں (بروز قیامت) پیغمبروں کا قائد اور پیش رو ہوں گا اور یہ بات میں بطور فخر نہیں کہتا اور میں خاتم النبیین ہوں اور یہ بھی میں ازراہ فخر نہیں کہتا اور میں پہلا شفاعت کرنے والا ہوں گا اور سب سے پہلے میری شفاعت قبول فرمائی جائے گی اور یہ بھی میں بطور فخر نہیں کہنا۔ (مسند دارمی)

تشریح
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جو خاتم النبیین ہیں اور اس دنیا میں اللہ کے سارے نبیوں رسولوں کے بعد آئے قیامت کے دن آپ سب انبیاء و مرسلین کے قائد و پیش رو ہونگے۔ پھر آپ نے اسی قیامت کے دن شفاعت اور شفاعت کی قبولیت میں اپنی اولیت اور سابقیت کا ذکر بھی فرمایا جس کا ذکر مندرجہ بالا متعدد حدیثوں میں بھی آ چکا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں بھی اللہ تعالی کے انعامات کا ذکر کے ساتھ فرمایا “ولافخر” ۔
عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «أَنَا قَائِدُ الْمُرْسَلِينَ وَلَا فَخْرَ، وَأَنَا خَاتَمُ النَّبِيِّينَ وَلَا فَخْرَ، وَأَنَا أَوَّلُ شَافِعٍ وَأَوَّلُ مُشَفَّعٍ وَلَا فَخْرَ» (رواه الدارمى)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৯৭৭
کتاب المناقب والفضائل
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فضائل اور مقامات عالیہ
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری اور اگلے سب پیغمبروں کی مثال ایسی ہے کہ ایک شاندار محل ہے جس کی تعمیر بڑی حسین اور خوبصورت کی گئی ہے لیکن اس کی تعمیر میں ایک اینٹ کی جگہ خالی چھوڑ دی گئی دیکھنے والے اس محل کو ہر طرف سے گھوم پھر کے دیکھتے ہیں انہیں اس کی تعمیر کی خوبی اور خوبصورتی بہت اچھی لگتی ہے ان کو اس سے تعجب ہوتا ہے، سوائے اینٹ کی خالی جگہ کے (وہ اس حسین عمارت کا ایک نقص ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ) پس میں نے آ کر اس خالی جگہ کو بھر دیا میرے ذریعہ اس محل کی تکمیل اور اس کی تعمیر کا اختتام ہو گیا اور پیغمبروں کا سلسلہ بھی ختم اور مکمل ہو گیا۔
(صاحب مشکاۃ المصابیح محمد بن عبداللہ خطیب تبریزی کہتے ہیں کہ) اس حدیث کی صحیحین ہی کی ایک روایت میں آخری خط کشیدہ الفاظ کی جگہ یہ الفاظ ہیں “فَاَنَا اللَّبِنَةُ وَاَنَا خَاتَمُ النَّبِيِّيْنَ” میں ہی وہ اینٹ ہوں جس سے اس قصر نبوت کی تکمیل ہوئی اور میں خاتم النبیین ہوں) ۔ (صحیح بخاری ومسلم)

تشریح
قرآن مجید نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین فرمایا گیا ہے اور بہت سی حدیثوں میں بھی اور بلاشبہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اللہ تعالی کا عظیم ترین انعام ہے کہ قیامت تک آپ ہی پوری انسانی دنیا کے لئے اللہ کے نبی و رسول ہیں۔ اس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی خاتمیت کی حقیقت اور نوعیت کو ایک عام فہم مثال کے ذریعہ سمجھایا ہے جو ایسی سہل الفہم ہے کہ اس کے سمجھانے کے لیے کسی توضیح و تشریح کی ضرورت نہیں اس حدیث نے بتلایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے جو ہزاروں پیغمبر آئے ان کی آمد سے گویا قصر نبوت کی تعمیر ہوتی رہی اور تکمیل کو پہنچ گئی بس ایک اینٹ کی جگہ خالی رہ گئی تھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت و آمد سے وہ بھی بھر گئی اور قصر نبوت بالکل مکمل ہو گیا کسی نئے نبی ورسول کے آنے کی نہ ضرورت رہی نہ گنجائش، اس لئےاللہ تعالی کی طرف سے نبوت و رسالت کا سلسلہ ختم اور دروازہ بند کردیا گیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم النبیین ہونے کا اعلان فرما دیا گیا۔ صلی اللہ علیہ و اٰلہٖ وصحبہٖ وبارک وسلم
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَثَلِي وَمَثَلُ الْأَنْبِيَاءِ كَمَثَلِ قَصْرٍ أُحْسِنَ بُنْيَانُهُ تُرِكَ مِنْهُ مَوْضِعُ لِبْنَةٍ فَطَافَ بِهِ النُّظَّارُ يَتَعَجَّبُوْنَ مِنْ حُسْنِ بِنَائِهِ إِلَّا مَوْضِعَ تِلْكَ اللَّبِنَةِ فَكُنْتُ أَنَا سَدَدْتُّ مَوْضِعَ اللَّبِنَةِ خُتِمَ بِيَ الرُّسُلُ ..... وَفِىْ رِوَايَةٍ فَاَنَا اللَّبِنَةُ وَاَنَا خَاتَمُ النَّبِيِّيْنَ. (رواه البخارى ومسلم)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৯৭৮
کتاب المناقب والفضائل
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت ،بعثت، وحی کی ابتداء اور عمر شریف
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ وسلم نے فرمایا کہ میں تم لوگوں کو اپنے اول امر (اپنی ابتداء) کے بارے میں بتلاتا ہوں میں ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا ہوں (یعنی انکی دعا کی قبولیت کا ظہور ہو) اور عیسی (علیہ السلام) کی بشارت ہوں (یعنی وہ نبی ہوں جسکی آمد کی بشارت انہوں نے دی تھی) اور اپنی والدہ کا خواب ہو (یعنی ان کے اس خواب کی تعبیر ہو) جو انہوں نے میری ولادت کے وقت دیکھا تھا کہ ایک ایسا نور ظاہر ہوا جس سے میری والدہ کے لیے ملک شام کے محل بھی روشن ہو گئے۔ (مسند احمد)

تشریح
قرآن مجید سورہ بقرہ کی آیت نمبر 127 اور نمبر 128 میں بیان فرمایا گیا ہے کہ جب اللہ کے خلیل حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے صاحبزادہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ساتھ لے کر کعبۃ اللہ کی تعمیر کر رہے تھے تو انہوں نے یہ دعا بھی کی تھی کہ اے ہمارے پروردگار ہماری نسل میں سے ایک ایسی امت پیدا فرمانا جو تیری فرمانبردار ہوں اور ان میں انہیں میں سے ایک ایسا رسول مبعوث فرمانا جو ان کو تیری آیات پڑھ کر سنائے اور کتاب و حکمت کی تعلیم دے اور ان کو پاک صاف کرے۔ اور سورج صف کی آیت نمبر 6 میں بیان کیا گیا ہے کہ جب اللہ تعالی نے عیسیٰ علیہ السلام کو پیغمبر بنا کر ان کی قوم بنی اسرائیل کے پاس بھیجا تو آپؑ نے ان لوگوں سے کہا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے جن کاموں کے لیے بھیجا ہے ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ میں اس عظیم الشان پیغمبر کی آمد کی بشارت سناوں جو میرے بعد آئے گا اور اس کا نام احمد ہوگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اس ارشاد میں قرآن مجید کی انہی آیات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ میں ابراہیم علیہ السلام کی دعا کا نتیجہ اور ظہور ہو اور میں عیسی بن مریم کی بشارت کا مصداق ہوں آگے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں اس خواب کی تعبیر ہوں جو میری والدہ ماجدہ نے میری ولادت کے وقت دیکھا تھا کہ ایک ایسا غیر معمولی نور ظاہر ہوا جس کی روشنی نے میری والدہ صاحبہ کے لئے ملک شام کی عالی شان عمارتیں اور محل روشن کر دیئے اور میری والدہ نے اس نور کے اجالے میں انکو دیکھ لیا۔
یہ خواب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ ماجدہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کے قریبی وقت میں غالبا اسی رات میں دیکھا تھا جس کی صبح آپ کی ولادت ہوئی ملک شام کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ سرزمین انبیاء ہیں اور اسی میں وہ بیت المقدس ہے جو تمام انبیاء بنی اسرائیل کا قبلہ رہا ہے۔
راقم سطور نے حدیث کے لفظ رویا کا ترجمہ خواب کیا ہے اور اسی کی بنیاد پر تشریح کی ہے لیکن یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ آپ کی والدہ ماجدہ نے اس نور کا ظہور اور اس کی روشنی میں ملک شام کے محلات عین ولادت کے وقت بیداری میں دیکھے بعض دوسری روایات سے ایسا ہی معلوم ہوتا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ ولادت سے پہلے سونے کی حالت میں خواب دیکھا ہو اور پھر ولادت کے وقت بیداری میں بھی آنکھوں نے یہ دیکھا ہو بہرحال یہ نور کا ظہور اور اس کے اجالے میں ملک شام کے محلات کا نظر آنا اس کی علامت تھی کہ اللہ تعالی اس مولود مسعود کے ذریعہ ہدایت کا نور ملک شام تک بھی پہنچ جائے گا جو ہزاروں برس تک خود ہدایت کا مرکز رہا ہے اور بیت المقدس کو قبلہ ماننے والی قوم بھی اس نور ہدایت سے فیضیاب ہوں گی جیسا کہ ظہور میں آیا اور قیامت تک آتا رہے گا۔
عَنْ أَبِىْ اُمَامَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: سَأُخْبِرُكُمْ بِاَوَّلِ اَمْرِىْ دَعْوَةِ إِبْرَاهِيمَ وَبِشَارَةُ عِيسَى، وَرُؤْيَا أُمِّي الَّتِي رَأَتْ حِينَ وَضَعَتْنِىْ نُورًا أَضَاءَتْ لَهُ قُصُورُ الشَّامِ. (رواه احمد)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৯৭৯
کتاب المناقب والفضائل
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت ،بعثت، وحی کی ابتداء اور عمر شریف
قیس بن مخرمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عام الفیل میں پیدا ہوئے تھے۔ (جامع ترمذی)

تشریح
فیل عربی میں ہاتھی کو کہتے ہیں عام الفیل سے مراد وہ سال ہے جس میں یمن کے عیسائی حاکم ابرہہ نے کعبۃ اللہ کو ڈھا دینے اور برباد کر دینے کے ارادے سے ایسے لشکر کے ساتھ جس میں بڑے بڑے کوہ پیکر ہاتھی بھی تھے مکہ معظمہ پر لشکر کشی کی تھی تو مکہ کے حدود میں داخل ہونے سے پہلے ہی اللہ تعالی نے چھوٹی چھوٹی چڑیوں کی شکل میں اپنا غیبی لشکر بھیج دیا ان چڑیوں نے لشکر پر کنکر کی پتھریاں برسا کر (جو گولی کا کام کرتی تھیں) سارے لشکر کو تہس نہس کر دیا۔ قرآن مجید سورۃ الفیل میں یہی واقعہ بیان فرمایا گیا ہے جس سال یہ غیر معمولی واقعہ ہوا تھا اس کو عام الفیل کہا جاتا ہے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش اسی سال ہوئی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اس واقعہ کے پچاس دن بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت با سعادت ہوئی۔
علامہ ابن الجوزی کے بیان کے مطابق اس پر اتفاق ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت اسی سال میں ہوئی، اس پر بھی قریبا اتفاق ہے کہ مہینہ ربیع الاول اور دن دوشنبہ کا تھا۔ تاریخ کے بارے میں روایات مختلف ہیں، 2 ربیع الاول کی بھی روایت ہے، 8 کی بھی، 10 کی بھی، اور 12 کی بھی (اور یہی زیادہ مشہور ہے) اس کے علاوہ 17 ، 18 کی بھی روایتیں ہیں علامہ قسطلانی نے لکھا ہے کے اکثر محدثین کے نزدیک 8 ربیع الاول والی روایت زیادہ قوی ہے ماضی قریب کے مصر کے ایک ماہر فلکیات محمود پاشا نے ریاضی کے حساب سے ثابت کیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت عام الفیل 9 ربیع الاول کو ہوئی۔
ٹھیک اس وقت جب کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس دنیا میں (مکہ مکرمہ ہی میں) آمد کا وقت قریب تھا ابرہہ کے لشکر کا جس کو قرآن مجید میں اصحاب الفیل کہا گیا ہے اور جوکعبۃ کو ڈھانے اور نیست و نابود کردینے کے ارادہ سے کوہ پیکر ہاتھیوں کے ساتھ حملہ آور ہوا تھا چھوٹی چھوٹی چڑیوں کی سنگ باری سے تہس نہس ہو جانا یقینا قدرت خداوندی کا ایک معجزہ تھا ہمارے علماء و مصنفین نے اس کو ان معجزانہ واقعات میں شمار کیا ہے جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دنیا میں آمد سے پہلے اس کے مقدمات اور پیشگی برکات کے طور پر ظہور میں آئے اور بلاشبہ ایسا ہی ہے۔
عَنِ قَيْسِ بْنِ مَخْرَمَةَ قَالَ وُلِدْتُ أَنَا وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ الْفِيلِ. (رواه الترمذى)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৯৮০
کتاب المناقب والفضائل
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت ،بعثت، وحی کی ابتداء اور عمر شریف
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے (یعنی اللہ تعالی کی طرف سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت و رسالت کے منصب پر فائز کیا گیا) چالیس سال کی عمر میں۔ اسکے بعد آپ مکہ مکرمہ میں رہے تو تیرہ سال، آپ پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی آتی رہی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم ہوا (مکہ سے) ہجرت کا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت فرمائی، اور مہاجر بن کر دس سال رہے اور پھر (مدینہ منورہ میں) وفات پائی اس وقت جبکہ عمر شریف تریسٹھ 63 سال تھی۔ (صحیح بخاری و مسلم)
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ بُعِثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لأَرْبَعِينَ سَنَةً، فَمَكُثَ بِمَكَّةَ ثَلاَثَ عَشْرَةَ سَنَةً يُوحَى إِلَيْهِ، ثُمَّ أُمِرَ بِالْهِجْرَةِ فَهَاجَرَ عَشْرَ سِنِينَ، وَمَاتَ وَهُوَ ابْنُ ثَلاَثٍ وَسِتِّينَ. (رواه البخارى ومسلم)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৯৮১
کتاب المناقب والفضائل
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت ،بعثت، وحی کی ابتداء اور عمر شریف
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی جبکہ عمر شریف تریسٹھ (63) سال تھی اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بھی وفات پائی جبکہ آپ کی عمر تریسٹھ (63) سال تھی اور حضرت عمرؓ نے بھی وفات پائی تریسٹھ (63) سال ہی کی عمر میں۔ (صحیح مسلم)

تشریح
شیخین (حضرت ابوبکر صدیق اور عمر فاروق رضی اللہ عنہما) کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جو خاص بلکہ خاص الخاص نسبت تھی اس کاایک ظہور یہ بھی تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح ان دونوں حضرات نے بھی تریسٹھ (63) سال کی عمر میں ہی وفات پائی اور اسی کا ایک ظہور یہ بھی ہے کہ وفات کے بعد یہ دونوں حضرات بھی روضہ اقدس میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے برابر مدفون ہیں۔ اور علامت قیامت کے زیرعنوان ہو حدیث گزر چکی ہے جس میں فرمایا گیا ہے کہ قیامت کے دن جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم قبر شریف سے اٹھ کر میدان حشر یا دربار خداوندی کی طرف چلیں گے تو آپ کے یہ دونوں رفیق آپ کے دائیں بائیں ہوں گے اور آگے شیخین کے مناقب میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت انشاءاللہ ذکر کی جائے گی جس میں انہوں نے بیان فرمایا کہ جب فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی تو حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہٗ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شیخین کے اس خصوصی تعلق اور امتیازی نسبت کو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کے حوالہ دے کر بڑے جامع اور واضح الفاظ میں بیان فرمایا۔
عَنْ أَنَسٍ قَالَ قُبِضَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ ابْنُ ثَلاَثٍ وَسِتِّينَ وَأَبُو بَكْرٍ وَهُوَ ابْنُ ثَلاَثٍ وَسِتِّينَ وَعُمَرُ وَهُوَ ابْنُ ثَلاَثٍ وَسِتِّينَ. (رواه مسلم)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৯৮২
کتاب المناقب والفضائل
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت ،بعثت، وحی کی ابتداء اور عمر شریف
ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے بیان فرمایا کہ وہ پہلی چیز جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کی ابتداء ہوئی رویا صادقہ تھے جو آپ سونے کی حالت میں دیکھتے تھے چنانچہ آپ جو خواب بھی دیکھتے وہ سپیدہ صبح کی طرح سامنے آجاتا ۔۔۔۔ پھر آپ کے دل میں خلوت گزینی کی محبت ڈال دی گئی تو آپ غار حرا میں جا کر خلوت گزینی کرنے لگے ۔ وہاں آپ (اپنے اہل خانہ کی طرف اشتیاق سے پہلے) کئی کئی رات تک عبادت فرماتے اور اس کے لئے خورد و نوش کا ضروری سامان ساتھ لے جاتے پھر (اپنی زوجہ محترمہ) حضرت خدیجہؓ کے پاس تشریف لاتے ، اور اتنی ہی راتوں کے لئے پھر سامان خورد و نوش ساتھ لے جاتے ..... یہاں تک کہ اس حال میں کہ آپ غار حرا میں تھے ، آپ کے پاس حق آ گیا (یعنی وحی حق آ گئی) چنانچہ (خدا کا فرستادہ) فرشتہ (جبرائیل) آپ کے پاس آیا اور اس نے کہا کہ اقرا (پڑھئے !) آپ نے کہا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں ، آپ نے بیان فرمایا کہ پھر اس فرشتے نے مجھے زور سے دبایا (بھینچا) یہاں تک کہ اس کا دباؤ میری طاقت کی انتہا کو پہنچ گیا ، پھر اس نے مجھے چھوڑ دیا اور کہا کہ اقرا (پڑھئے !) پھر میں نے کہا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں ، پھر اس نے مجھے پکڑا اور پھر دوسری دفعہ زور سے دبایا ، یہاں تک کہ اس کا دباؤ میری طاقت کی انتہا کو پہنچ گیا ، پھر اس نے مجھے چھوڑ دیا اور پھر کہا
اقرا (پڑھئے !) پھر میں نے کہا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں ، اس کے بعد پھر اس فرشتہ نے مجھے پکڑا اور تیسری مرتبہ زور سے دبایا ، یہاں تک کہ اس کا دباؤ میری طاقت کی انتہا کو پہنچ گیا ، پھر اس نے مجھے چھوڑ دیا اور کہا اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ ﴿١﴾ خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ عَلَقٍ ﴿٢﴾اقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ ﴿٣﴾ الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ ﴿٤﴾ عَلَّمَ الْإِنسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ ﴿٥﴾ (اپنے اس پروردگار کے نام سے پڑھئے جس نے پیدا کیا ، انسان کو جس نے جمے ہوئے خون سے پیدا کیا، پڑھیئے اور آپ کا پروردگار بڑا کریم ہے، وہ جس نے قلم کے ذریعہ سکھایا، انسان کو وہ سکھایا جو وہ نہیں جانتا تھا) پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان آیتوں کو لے کر اس حال میں لوٹے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دل لرز رہا تھا .... تو آپ (اپنی زوجہ محترمہ) حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ مجھے کپڑا اڑھا دو ، مجھے کپڑا اڑھا دو ، تو گھر والوں نے آپ کو کپڑا اڑھا دیا یہاں تک کہ گھبراہٹ اور دہشت کی وہ کیفیت ختم ہو گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خدیجہؓ سے بات کی اور پورا واقعہ بتلایا اور فرمایا کہ مجھے اپنی جان کا خطرہ ہو گیا تھا حضرت خدیجہؓ نے کہا کہ ہرگز ایسے خطرہ کی بات نہیں ، قسم بخدا اللہ تعالیٰ کبھی آپ کو رسوا نہیں کرے گا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم صلہ رحمی کرتے ہیں اور ہمیشہ حق اور سچی بات کہتے ہیں اور بوجھ اٹھاتے ہیں ناداروں کے لئے کماتے ہیں ، اور مہمان نوازی کرتے ہیں اور لوگوں کی مدد کرتے ہیں ان حادثوں پر جو حق ہوتے ہیں ..... پھر حضرت خدیجہؓ آپ کو لے گئیں اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس اور ان سے کہا کہ اے میرے چچا زاد بھائی اپنے بھتیجے کی بات (اور واردات) سنیئے ! تو ورقہ بن نوفل نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ اے بھتیجے بتلاؤ تم کیا دیکھتے ہو ؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو وہ سب بتلایا جو مشاہدہ رمایا تھا تو ورقہ نے کہا کہ یہ وہ خاص راز داں فرشتہ (جبرائیل) ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام پر بھیجا تھا۔(پھر ورقہ نے کہا کہ) کاش میں اس وقت جوان پٹھا ہوتا ، کاش میں اس وقت زندہ ہوتا جب تمہاری قوم تم کو نکالے گی۔‘‘ تو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے (تعجب سے) کہا : ’’ کیا میری قوم کے لوگ مجھے نکال دیں گے؟‘‘ ورقہ نے کہا کہ ہاں ! (تمہاری قوم تم کو دیس سے نکال دے گی) کوئی آدمی بھی اس طرح کی دعوت لے کر نہیں آیا جیسی تم لائے ہو مگر یہ کہ لوگوں نے اس کے ساتھ دشمنی کا برتاؤ کیا اور اگرمیں ان دنوں تک زندہ رہا تو تمہاری بھر پور مددکروں گا۔پھر تھوڑی ہی مدت کے بعد ورقہ کا انتقال ہو گیا۔ اور وحی کا سلسلہ منقطع ہو گیا ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی ابتداء اور نزول وحی کے آغاز کا واقعہ بیان کیا گیا ہے اور اس کی راوی ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ہین ، جو اس وقت پیدا بھی نہیں ہوئی تھیں ، لیکن حدیث کے مستند ہونے پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑتا ، کیوں کہ یا تو انہوں نے یہ واقعہ اس تفصیل کے ساتھ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہو گا (اور غالب گمان یہی ہے) یا اپنے والد ماجد حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے یا کسی دوسرے بزرگوار صحابی سے جنہوں نے خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہو گا اور اہل سنت کا مسلمہ ہے (جو گویا ان کے عقائد میں شامل ہے) کہ “اَلصَّحَابَةُ كُلُّهُمْ عُدُوْلٌ” (یعنی تمام صحابہ کرام عادل اور ثقہ ہیں) جس صدیقہ نے اس کی ضرورت نہیں سمجھے کہ وہ یہ بتلائیں کہ انہوں نے یہ کس سے سنا تھا ، ہمارے یقین کے لئے ان کا بیان فرمانا کافی ہے ، اگر اس بارے میں ان کو پورا اطمینان و یقین نہ ہوتا تو وہ ہرگز اس طرح بیان نہ فرماتیں ۔ یقیناً حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت کے نتیجہ میں وہ یہ جانتی تھیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق اس طرح کے اہم اور غیر معمولی واقعہ کا بیان کتنی بڑی ذمہ داری کی بات ہے ۔
حدیث میں سب سے پہلے بات یہ بیان کی گئی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کا سلسلہ اس طرح شروع ہوا کہ آپ کو “رویائے صادقہ” (سچے خواب) آنے شروع ہوئے ، آگے خود حدیث میں اس کی یہ وضاحت ہے کہ آپ سونے کی حالت میں جو خواب دیکھتے وہ صبح کے اجالے کی طرح بیداری میں آنکھوں کے سامنے آ جاتا ، سمجھنا چاہئے کہ وحی نبوت کے لئے آپ کی روحانی تربیت کا سلسلہ اس طرح کے خوابوؓ سے شروع ہوا ، یہ پہلا مرحلہ تھا ۔
اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب میں سب سے یکسوئی اور خلوت گزینی کی محبت اور اس کا شوق و جذبہ پیدا فرما دیا گیا ، آگے حدیث میں جو بیان فرمایا گیاہے ، اس سے معلوم ہو جاتا ہے ، کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب میں مجرد خلوت گزینی اور سب سے الگ تھلگ رہنے کا جذبہ اور داعیہ ہی پیدا نہیں فرمایا گیا تھا ، بلکہ سب سے یکسو رہ کر خلوت میں عبادت کا (گویا ایک طرح کے اعتکاف کا) جذبہ اور شوق پیدا فرمایا گیا تھا ، پھر اس کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غار حرا کا انتخاب فرمایا ۔ حراء ایک پہاڑ کا نام ہے ، مکہ مکرمہ کے ہر طرف پہاڑیاں ہی پہاڑیاں ہیں ، کچھ کم بلند ہیں ، کچھ زیادہ بلند ہیں (جہاں تک خیال ہے) ان میں سب سے بلند یہی حراء ہے ، جس کو لوگ اب جبل النور کہتے ہیں ، یہ مکہ مکرمہ کی آبادی سے قریباً دو ڈھائی میل کے فاصلے پر ہے ، اس کی چوٹی پر پتھر کی بڑی بڑی چٹانیں باہم اس طرح مل گئی ہیں کہ ان کے درمیان ایک چھوٹا سا مثلث نما (تکونہ) حجرہ سا بن گیا ہے ، اسی کو غار حراء کہا جاتا ہے ، اور اس میں بس اتنی جگہ ہے کہ ایک آدمی کسی طرح داؒ ہو کر گزارہ کر سکتا ہے ، چونکہ یہ پہاڑ بہت بلند ہے اور غار اس کی بالکل چوٹی پر ہے اور اس تک چڑھائی میں بڑی مشقت اٹھانی پڑتی ہے ، اس لئے اچھے تندرست و توانا آدمی بھی بہ مشکل ہی وہاں پہنچ پاتے ہیں ، اب تو اس مبارک واقعہ کی وجہ سے جس کا اس حدیث میں ذکر کیا گیا ہے ہر مسلمان کا دل چاہتا ہے کہ اگر وہ پہنچ سکے تو اس کی زیارت کی سعادت ضرور حاصل کرے لیکن ظاہر ہے ، کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خلوت میں یکسوئی سے عبادت کے لئے اس کا انتخاب فرمایا تھا تو کسی آدمی کے لئے اس گار میں ایسی کوئی کشش نہیں تھی کہ اس تک پہنچنے کے لئے وہ پہاڑ کی اتنی لمبی چڑھائی کی مشقت برداشت کرے (چنانچہ کہیں اس کا ذکر نہیں ملتا جن ایام میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس غار میں خلوت گزیں (گویا معتکف) رہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی عزیز قریب بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا ہو) اس لئے خلوت میں یکسوئی سے عبادت کے لئے اس سے بہتر جگہ کا انتخاب نہیں کیا جا سکتا تھا اور آگے جو ظہور میں آنے والا تھا (جس کا اس حدیث میں بھی ذکر ہے) اس کے لئے ازل سے یہی مبارک غار مقدر ہو چکا تھا ۔
آگے حدیث شریف میں جو فرمایا گیا ہے ، اس کا مطلب یہ ہے کہ غار حرا کی اس خلوت گزینی اور عبادت کے سلسلہ میں آپ کا معمول یہ تھا کہ چند دن رات کے لئے خورد و نوش کا ضروری سامان لے کر آپ غار حرا تشریف لے جاتے اور وہاں پوری یکسوئی سے عبادت میں مشغوک رہتے یہاں تک کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں گھر والوں کی دیکھ بھال اور ملاقات کا داعیہ پیدا ہوتا تو گھر زوجہ محترمہ حضرت خدیجہؓ کے پاس تشریف لاتے اور پھر اتنے ہی دنوں کے لئے خود و نوش کا ضروری سامان لے کر غار حرا تشریف لے جاتے اور وہاں عبادت میں مشغول رہتے ۔
حضرت صدیقہؓ نے غار حرا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مشغولیت کے لئے فَيَتَحَنَّثُ کا لفظ استعمال فرمایا ہے حدیث کے ایک راوی امام زہری نے تعبد کے لفظ سے اس کا حاصل مطلب بیان کیا ہے ..... لیکن کسی روایت سے یہ بات معلوم نہیں ہوتی کہ غار حرا کے اس قیام میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کا طریقہ کیا تھا شارحین حدیث نے اس بارے میں حضرات علمائے کرام کے مختلف اقوال نقل کئے ہیں ، لیکن وہ سب قیاسات ہیں ..... اس عاجز کا خیال ہے کہ نبوت و رسالت کے منصب کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسلسل تربیت ہو رہی تھی جس کا پہلا مرحلہ روؤیائے صادقہ کا سلسلہ تھا ، وہ بھی ایک طرح کا الہام تھا ، اس کے بعد خلوت گزینی اور خلوت میں عبادت کا داعیہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب میں پیدا کیا گیا یہ بھی جاذبہ الٰہیہ اور ایک طرح کے الہام ربانی کا نتیجہ تھا ۔
پھر غار میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم جو عبادت فرماتے تھے جس کو حضرت صدیقہؓ نے فيتحنث کے لفظ سے تعبیر فرمایا ہے ، سمجھنا چاہئے کہ وہ بھی الہام ربانی کی رہنمائی میں تھی ، ہو سکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے لئے نور ہدایت کی دعا کرتے ہوں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم شرک و بت پرستی اور شدید مظالم و معاصی کی جس نجاست و غلاظت میں غرق تھی ، جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی فطرت سلیمہ صالحہ کو سخت اذیت تھی ، اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے حضور میں اپنی بیزاری کا اظہار اور قوم کے لئے بھی اصلاح و ہدایت کی دعا فرماتے ہوں (دعا کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے عبادت کا مغز اور جوہر فرمایا ہے) .....
بہرحال راقم الحروف کا خیال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عبادت کی اس مشغولیت میں الہام خداوندی کی رہنمائی حاصل تھی اور اس کے ذریعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانیت کو آگے کی منزلوں کے لئے تیار کیا جا رہا تھا ، واللہ اعلم ۔
آگے حدیث میں بیان فرمایا گیا ہے کہ غار حرا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خلوت گزینی اور عبادت کا سلسلہ جاری تھا کہ اچانک (ایک رات (1) میں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس فرشتہ وحی لے کر آ گیا اور اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا اقرا (پڑھئے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بیان ہے کہ میں نے کہا کہ مَا أَنَا بِقَارِئٍ (میں پڑھا ہوا نہیں ہوں ، اس لئے پڑھ نہیں سکتا) .... آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بیان ہے کہ اس جواب کے بعد اس نے مجھے پکڑ کے اتنے زور سے دبایا کہ اس کا دباؤ میری حد برداشت کی آخری حد تک پہنچ گیا یعنی اس حد تک کہ اس سے آگے میں برداشت نہیں کر سکتا تھا (بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس فرشتہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا گلوئے مبارک پکڑ کے (2) اس قدر زور سے دبایا تھا) حدیث شریف میں بیان فرمایا گیا ہے کہ تین (۳) دفعہ ایسا ہی ہوا کہ اس نے مجھ سے کہا اقرأ (پڑھئے) میں نے کہا کہ مَا أَنَا بِقَارِئٍ (میں پڑھا ہوا نہیں ہوں ، اس لئے پڑھ نہیں سکتا) اور میرے اس جواب کے بعد ہر دفعہ اس نے مجھے پکڑ کے اس قدر زور سے دبایا کہ میری حد برداشت کی آخری حد تک پہنچ گیا ، تیسری دفعہ کے بعد اس نے سورہ علق کی ابتدائی پانچ آیتیں پڑھیں (اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ سےعَلَّمَ الْإِنسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ تک)
حدیث میں صراحت کے ساتھ ذکر نہیں کیا گیا ہے کہ فرشتہ سے یہ آیتیں سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی ان کی تلاوت فرمائی ، لیکن آگے جو بیان فرمایا گیا ہے ، اس سے معلوم ہو جاتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ آیتیں محفوظ ہو گئیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان آیات کی تلاوت کرتے ہوئے غار سے گھر تشریف لائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس وقت جو حالت تھی وہ حدیث میں آگے ذکر کی گئی ہے ۔
یہاں یہ بات خاص طور سے قابل ذکر ہے کہ یوں تو پورا قرآن مجید معجزہ ہے ، لیکن یہ حقیقت ہے کہ اس کی بعض چھوٹی چھوٹی سورتوں اور اس طرح بعض چھوٹی چھوٹی آیتوں میں اعجاز کی شان ایسی واضح اور نمایاں ہے کہ عربی زبان سے واقفیت اور اس کا ذوق رکھنے والا ہر شخص ان کو صرف سن کر یہ یقین کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ یہ بشر کا کلام نہیں بلکہ خالق بشر کا کلا ہے ..... راقم سطور بغیر ادنیٰ انکسار کے عرض کرتا ہے کہ میں عربی زبان کا ادیب نہیں ہوں بس اتنا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اس کا مقدس کلام قرآن مجید اور اس کے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث پڑھ لیتا اور کچھ سمجھ لیتا ہوں اپنے اس حال میں بھی سورہ علق کی ان ابتدائی پانچ آیتوں کے بارے میں الحمدللہ دن میں سورج کی روشنی کی طرح یقین رکھتا ہوں کہ یہ بشر کا یا فرشتہ کا کلام نہیں ہو سکتا ہے یہ بلا شبہ رب ذو الجلال ہی کا کلام ہے ..... چھوٹی چھوٹی ان پانچ آیتوں میں اللہ تعالیٰ کی معرفت کا جو دفتر اور علوم کا جو سمندر اس کی شان ربوبیت ، قدرت و حکمت ، کرم و احسان اور صفات و افعال کا جو بیان ہے ، اس پر ایک پورا مقالہ بلکہ ایک کتاب لکھی جا سکتی ہے ..... رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مادری زبان عربی تھی بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم افصح العرب) تھے ، اس لئے اس میں شک شبہ کی ذرا بھی گنجائش نہیں ہے کہ جیسے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرشتہ (جبرائیل) سے یہ آٰتیں سنی ہوں گی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یقین فرما لیا ہو گا کہ یہ میرے خالق و مالک رب کریم کا کلام ہے اس نے مجھے اپنے فضل خاص سے نوازا ہے ۔
حدیث میں غار حرا کے مذکورہ بالا واقعہ کے ذکر کے بعد بیان فرمایا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سورۃ العلق کی ان ابتدائی پانچ آیتوں کو لے کر غارِ حرا سے اس حال میں گھر تشریف لائے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دہشت زدہ سے تھے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دل لرز رہا تھا ، جسم مبارک پر بھی اس کا اثر تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آتے ہی اپنے اہل خانہ سر فرمایا کہ مجھ پر کپڑا ڈال دو مجھے کپڑا اڑھا دو ، (ایسی حاولت میں کپڑا اوڑھنے کا طبعی تقاضا ہوتا ہے اور اس سے سکون ملتا ہے) چنانچہ گھر والوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کپڑا اڑھا دیا ، پھر وہ دہشت زدگی اور دل کے لرزنے کی کیفیت ختم ہو گئی اور حالت معمول پر آ گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زوجہ محترمہ حضرت خدیجہؓ کو وہ سب بتلایا جو پیش آیا تھو ، اس سلسلہ میں یہ بھی فرمایا (لَقَدْ خَشِيتُ عَلَى نَفْسِي) اے خدیجہؓ مجھے تو اپنی جان کا خطرہ ہو گیا تھا) مطلب یہ ہے کہ فرشتہ نے گلا پکڑ کے تین دفعہ ایسے زور زور سے دبایا تھا کہ مجھے خطرہ تھا کہ میری جان ہی نکل جائے گی ۔
آگے حدیث میں جو بیان فرمایا گیا ہے ، اس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت خدیجہؓ نے غار حرا کی ساری واردات حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی اور بشارت دینے کے لئے بڑے اعتماد کے ساتھ اور قسم کھا کے اپنے اس یقین کا اظہار فرمایا کہ ہرگز کوئی خطرہ اور اندیشہ کی بات نہیں تھی اور نہیں ہے ، اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اعلیٰ درجہ کے مکارم اخلاق اور محاسن اعمال سے نوازا ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم صلہ رحمی کرتے ہیں یعنی قرابت داروں کے حقوق ادا کرتے ہیں اور ان کے ساتھ حسن سلوک کرتے ہیں ، ہمیشہ حق اور سچی بات کرتے ہیں ، صداقت اور راست بازی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا شعار ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایسے صعیفوں ، اپاہجوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں جو بےچارے خود اپنا بوجھ نہیں اٹھا سکتے یعنی ان کی کفالت کرتے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حال یہ ہے کہ خود محنت کر کے کمائی کرتے ہیں (تا کہ غریبوں حاجت مندوں کی مدد کریں) اور مہمان نوازی کرتے ہیں اور جو لوگ بغیر کسی جرم و قصور کے کسی حادثہ کا شکار ہو جاتے ہیں آپ ان کی امداد و اعانت کرتے ہیں ۔
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا مقصد اس گفتگو سے یہی تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ مکارم اخلاق اور مبارک احوال اس بات کی علامت اور دلیل ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ بندے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اس کا خاص فضل و کرم ہے ، اس لئے مجھے یقین ہے کہ یہ جو کچھ ہوا یہ بھی اس کے کرم ہی کا ایک خاص ظہور ہے ۔
آگے حدیث میں بیان کیا گیا ہے کہ پھر حضرت خدیجہؓ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ساتھ لے کر اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل (1) کے پاس پہنچیں ...... حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی اسی حدیث کی صحیح بخاری ہی کی ایک دوسری روایت میں ورقہ بن نوفل کے تعارف میں یہ بھی ہے کہ :
وَكَانَ امْرَأً تَنَصَّرَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ، وَكَانَ يَكْتُبُ الْكِتَابَ الْعَرَبِيَّ، فَكَتَبَ بِالْعَرَبِيَّةِ مِنَ الْإِنْجِيلِ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَكْتُبَ، وَكَانَ شَيْخًا كَبِيرًا قَدْ عَمِيَ.
ترجمہ : یہ ورقہ بن نوفل ایسے آدمی تھے جو زمانہ جاہلیت میں (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے) نصرانیت اختیار کر چکے تھے اور یہ عبرانی زبان لکھتے تھے ، چنانچہ انجیل کو عبرانی زبان میں لکھا کرتے تھے اور یہ بہت بوڑھے تھے اور نابینا ہو گئے تھے ۔
تشریح ..... اور صحیح مسلم کی روایت میں عبرانی کے بجائے عربی ہے ، جس کا مطلب یہ ہو گا کہ ورقہ بن نوفل انجیل کے مضامین عربی زبان میں لکھا کرتے تھے اور بظاہر یہی زیادہ قرین قیاس ہے ۔
ورقہ بن نوفل کے حالات میں لکھا ہے کہ یہ شرک و بت پرستی سے بیزار تھے ، دین حق کی تلاش میں ملکوں ملکوں پھرے بالآخر ملک شام میں بتوفیق الٰہی نصرانی مذہب کے ایک ایسے راہب یعنی عیسوی مذہب کے درویش عالم سے ملاقات ہو گئی جو صحیح عیسوی مذہب پر تھے (یعنی عیسائیت میں الوہیت مسیح ، تثلیت اور کفارہ وغیرہ جیسے جو مشرکانہ اور گمراہانہ عقیدے بعد میں شامل کر لئے گئے وہ ان سے بیزار حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی لائی ہوئی صحیح تعلیم و ہدایت پر قائم تھے) ورقہ نے ان کے ہاتھ پر نصرانی مذہب قبول کر لیا اور اس کی تعلیم بھی حاصل کر لی ، عبرانی زبان بھی سیکھ لی جس میں توراۃ نازل ہوئی تھی (اور بعض محققین کی تحقیق کے مطابق انجیل بھی عبرانی زبان ہی میں تھی) ۔ بہرحال ورقہ بن نوفل صحیح عیسوی مذہب پر تھے اور کتب قدیمہ کے عالم تھے ۔
حافظ ابن حجر عسقلانی نے اپنی کتاب “الاصابہ” میں ان ورقہ بن نوفل کے بارے میں ایک رویت نقل کی ہے ۔
وَكَانَ وَرَقَةُ قَدْ كَرهَ عِبَادَةَ الْأَوْثَانِ وَطَلَبَ الدِّينَ فِى الْآفَاقِ وَقَرَأَ الْكُتُبَ وَكَانَتْ خَدِيْجَةُ تَسْئَلُهُ عَنْ أَمْرِ النَّبِىِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيَقُولُ مَا أَرَاهُ إِلاَّ نَبِىّ هَذِه الَّذِى بَشَّرَ بِهِ مُوسَى وَعِيسَى .
ترجمہ : ورقہ بتوں کی پوجا کو برا اور غلط سمجھتے تھے اور دین حق کی تلاش میں یہ مختلف علاقوں اور ملکوں میں پھرے اور انہوں نے کتابوں کا (یعنی ان کتابوں کا جو آسمانی کہی اور سمجھی جاتی تھی) مطالعہ کیا تھا ، اور خدیجہؓ ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں پوچھا کرتی تھیں تو وہ کہتے تھے کہ میرا خیال ہے کہ یہ اس امت کے نبی ہوں گے جن کی بشارت حضرت موسیٰؑ اور حضرت عیسیٰؓ نے دی ہے ۔ (الاصابہ ج ۶ ، ص ۳۱۸)
اس سے معلوم ہوا کہ ورقہ بن نوفل کی اس خصوصیت کی وجہ سے کہ انہوں نے اپنی قوم کے شرک و بت پرستی والے مذہب سے بیزار ہو کر وعیسوی مذہب اختیار کر لیا تھا (اور اس طرح نبوت و رسالت کے پورے سلسلہ پر وہ ایمان لے آئے تھے) اور تورات انجیل وغیرہ کتب سماویہ کے عالم تھے اور ظاہر ہے کہ ان کی زندگی بھی عام اہل مکہ کی زندگی سے الگ قسم کی عائدانہ ، زاہدانہ درویشانہ زندگی رہی ہو گی ۔
(الغرض ان کی ان صفات و خصوصیات کی وجہ سے) ان کی چچا زاد بہن حضرت خدیجہؓ جو ایک نہایت سلیم الفطرت اور عاقلہ خاتون تھیں ، ان کو ایک روحانی بزرگ سمجھتی تھیں اور ان سے ایک طرح کی عقیدت رکھتی تھیں اور غارحراء کے اس واقعہ سے پہلے بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے غیرم معمولی احوال (1) کا تذکرہ کر کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ان کا خیال اور ان کی رائے دریافت کیا کرتی تھیں اور وہ جواب میں کہا کرتے تھے ما اراه الا نبى هذه الامة الذى بشر به موسى وعيسى (یعنی میرا گمان ہے کہ یہ اس امت کے وہ نبی ہوں گے جن کی بشارت حضرت موسیٰؑ اور عیسیٰؑ نے دی ہے)۔
پھر جب غار حرا کا یہ واقعہ ظہور میں آیا جس کا اس حدیث میں ذکر کیا گیا ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خدیجہؓ کو بتلایا تو ان کے دل میں داعیہ پیدا ہوا کہ وہ یہ پورا واقعہ حضور کی زبان مبارک سے ورقہ بن نوفل کو سنوائیں ۔
ٍجوپہلے ہی سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی و رسول ہونے کا خیال ظاہر کرتے تھے .... یہاں یہ بات خاص طور سے قابل لحاظ ہے کہ کسی روایت میں اس کا ذکر بلکہ اشارہ بھی نہیں ہے کہ حضور نے ورقہ کے پاس جانے کی خواہش کی ہو بلکہ جیسا کہ حدیث میں صراحۃً بیان کیا گیا ہے حضرت خدیجہؓ ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے پاس لے کر گئیں ۔
آگے حدیث میں بیان کیا گیا ہے کہ ان کے پاس پہنچ کر حضرت خدیجہؓ ہی نے ان سے کہا کہ آپ اپنے ان بھتیجے (2) سے ان کی بات اور واردات سنئے ! تو ورقہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اے بھتیجے مجھے بتلاؤ کہ تم کیا دیکھتے ہو ؟ تو آپ نے وہ سب بیان فرمایا جو غار حرا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشاہدہ فرمایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر گزرا تھا ، تو ورقہ ابن نوفل نے بغیر کسی تاویل اور تردد کے کہا کہ یہ فرشتہ جو غار حرا میں تمہارے پاس آیا اور جس کا پورا واقعہ تم نے ذکر کیا یہ وہی “ناموس” (یعنی وحی لانے والا خاص فرشتہ) ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنا کلام و پیام لے کر اپنے پیغمبر موسیٰؑ پر بھی بھیجا تھا ۔
یہاں کسی کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ ورقہ بن نوفل تو نصرانی یعنی عیسوی مذہب کے پیرو تھے پھر اس موقع پر انہوں نے حضرت عیسیٰؑ کا نام چھوڑ کے حضرت موسیٰؑ کا نام کیوں لیا حالانکہ جبرائیل جس طرح موسیٰ علیہ السلام کی طرف بھیجے گئے تھے اسی طرح عیسیٰ علیہ السلام کی طرف بھی بھیجے گئے تھے ؟ ..... شارحین حدیث نے اس کے جواب میں لکھا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام بلا شبہ اللہ تعالیٰ کے جلیل القدر پیغمبر تھے اور جبرائیل امین اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کی طرف بھی بھیجے جاتے تھے ، لیکن وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مستقل شریعت نہیں لائے تھے ، ان کی شریعت وہی تھی جو موسیٰ علیہ السلام کے ذریعہ آئی تھی عیسیٰ علیہ السلام کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے اس کے بعض احکام میں جزوی تبدیلیاں فرمائی تھیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مستقل اور کامل شریعت لانے والے نبی و رسول تھے ، اس لئے آپ کو موسیٰ علیہ السلام سے زیادہ مشابہت تھی ..... قرآن مجید سورہ مزمل میں بھی فرمایا گیا ہے ۔ إِنَّا أَرْسَلْنَا إِلَيْكُمْ رَسُولًا شَاهِدًا عَلَيْكُمْ كَمَا أَرْسَلْنَا إِلَىٰ فِرْعَوْنَ رَسُولًا..... بہرحال اس خاص وجہ سے ورقہ بن نوفل نے اس موقع پر جبرائیل امینؑ کے تعارف میں موسیٰ علیہ السلام کا ذکر فرمایا ۔
آگے حدیث میں ہے کہ ورقہ بن نوفل نے پورے یقین کے ساتھ یہ بتلا کر کہ غار حرا میں آنے والے یہ فرشتے جبرائیل امینؑ تھے ، جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی لے کر موسیٰ علیہ السلام (اور دوسرے نبیوں رسولوں) کے پاس بھی آیا کرتے تھے ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی واضح الفاظ میں تصدیق فرمائی اور ساتھ میں بڑی حسرت سے کہا کہ کاش میں اس وقت طاقتور پٹھا ہوتا ، کاش میں اس وقت زندہ ہوتا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس شہر مکہ سے نکالے گی (تو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دیتا اور جان کی بازی لگا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کرتا) ..... حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ورقہ سے یہ سن کر ازراہ تعجب پوچھا کہ کیا میری قوم مجھے اس شہر سے نکال دے گی ؟ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تعجب اس لئے ہوا کہ اب تک اپنے کریمانہ اخلاق اور معصومانہ زندگی کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم قوم میں انتہائی درجہ ہر دلعزیز تھے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو الصادق الامین کے لقب سے یاد کیا جاتا تھا اس لئے یہ بات فی الحقیقت قابل تعجب تھی کہ یہی قوم آپ کو کبھی شہر مکہ چھوڑنے پر مجبور کر دے گی) ورقہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس سوال کے جواب میں کہا کہ اللہ کی طرف سے جو پیغمبر بھی وہ دعوت و تعلیم لے کر آیا ہے ، جو تم لائے ہو (اور لاؤ گے) تو اس کی قوم اس کی دشمن ہو گئی ہے ، تمہارے ساتھ بھی یہی ہو گا ، تمہاری قوم کے لوگ تمہارے جانی دشمن ہو جائیں گے اور تم کو شہر چھوڑ کے نکل جانا ہو گا ..... غالب گمان یہ ہے کہ ورقہ بن نوفل نے یہ جو کچھ کہا قدیم آسمانی کتابوں کی پیشن گوئیوں اور اللہ کی طرف سے آنے والے نبیوں رسولوں کی تاریخ کی روشنی میں کہا ۔ قرآن مجید میں انبیاء علیہم السلام کے جو واقعات بیان فرمائے گئے ہیں ، ان کی شہادت بھی یہی ہے ۔
حدیث کے آخر میں ہے کہ ورقہ بن نوفل نے اپنی بات ختم کرتے ہوئے مکرر کہا کہ اگر میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ زمانہ پایا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم قو م کو دین حق کی دعوت دیں گے اور قوم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالف اور دشمن ہو جائے گی تو میں اپنے اس بڑھاپے اور معذوری کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنے امکان بھر مدد کروں گا ..... اس کے آگے روایت میں ہے کہ پھر تھوڑی ہی مدت کے بعد یہ ورقہ بن نوفل وفات پا گئے ..... اور غار حرا کے اس واقعہ کے بعد کچھ مدت تک وحی کی آمد کا سلسلہ بند رہا ۔ (حدیث کے اصل مضمون کی توضیح و تشریح ختم ہوئی)
حدیث سے متعلق چند امور کی وضاحت
۱۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی سب سے پہلے تصدیق کرنے والے اور ایمان لانے والے ورقہ بن نوفل اور حضرت خدیجہؓ ہیں ، لیکن یہ اس وقت ہوا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دین حق کی طرف دعوت دینے کا حکم نہیں ہوا تھا اور ورقہ بن نوفل اسی زمانے میں اس حال میں انتقال فرما گئے کہ وہ صحیح عیسوی دین پر قائم تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کر کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی ایمان لا چکے تھے ، اس لحاظ سے ان کو اس امت کا اول مومن بھی کہا جا سکتا ہے ......پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دعوت دینے کا حکم ہوا تو جیسا کہ روایات سے معلوم سے معلوم ہوتا ہے ، سب سے پہلے حضرت ابو بکر صدیقؓ ، حضرت علی مرتضیٰؓ ، حضرت زید بن حارثہؓ اور حضرت خدیجہؓ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کو قبول کیا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت پر پہلے بھی ایمان لا چکی تھیں ۔
۲۔ حدیث میں ذکر کیا گیا ہے کہ حضرت جبرئیلؑ نے تین دفعہ انتہائی زور زور سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا گلوئے مبارک دبایا (جیسے کوئی کسی کا گلا گھونٹنا چاہتا ہے) شارحین اور علمائے کرام نے اس کی مختلف توجیہیں بیان فرمائی ہیں ۔
اس عاجز راقم سطور کے نزدیک زیادہ قرین قیاس یہ ہے کہ اس طرح انتہائی زور سے گلا دبانے سے مقصد یہ ہوتا تھا کہ کچھ دیر کے لئے آپ کی توجہ ہر طرف سے اپنی ذات کی طرف سے بھی ہٹ کر صرف اپنے رب کریم کی طرف ہو جائے جب کسی عارف باللہ اور خدا آشنا بندے کا اس طرح گلا گھونٹا جائے گا تو یقیناً اس کی تمام تر توجہ صرف اپنے پروردگار کی طرف ہو جائے گی اور اس کا احساس و شعور بڑی حد تک اس عالم سے کٹ کر ملا اعلیٰ سے جڑ جائے گا ، اس وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر جو وحی پہلی دفعہ القا کی جانے والی تھی ، اس کے لئے اس کی ضرورت تھی ، بالفاظ دیگر اس عمل کے ذریعہ حضور کی روح و قلب میں وہ قوت پیدا کرنی تھی ، جو اس وحی الہی کا تحمل کر سکے جس کو قرآن پاک میں قولاً ثقیلاً فرمایا گیا ہے ..... بعد میں بھی نزول وحی کے وقت حضور کا جو حال ہوتا تھا ، وہ حدیثوں میں ذکر کیا گیا ہے ، سخت سردی کے موسم میں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کا نزول ہوتا تو آپ کو پسینہ پھوٹ پڑتا ۔
روایات میں یہ بھی ذکر کیا گیا ہے کہ اونٹنی پر سوار ہونے کی حالت میں اگر وحی نازل ہوئی تو اونٹنی بیٹھ گئی ..... الغرض اس عاجز کے نزدیک زیادہ قرین قیاس یہی ہے کہ اس سخت دباؤ کا مقصد یہی تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وحی کا تحمل فرما سکیں جو پہلی دفعہ القا کی جا رہی تھی ۔ واللہ اعلم ۔
۳۔ حدیث میں ذکر فرمایا گیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم غار حرا سے جب گھر واپس تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دل لرز رہا تھا اور جسم مبارک پر بھی اس کا اثر تھا اور حضرت خدیجہؓ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا “لَقَدْ خَشِيتُ عَلَى نَفْسِي” (مجھے تو اپنی جان کا خطرہ ہو گیا تھا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حال بھی حضرت جبرائیل کے اس گلا دبانے کا اور کلام الہی کے بار گراں کا بھی نتیجہ تھا ، یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت و حکمت ہے کہ ہم پر قرآن پاک کی تلاوت کا کوئی بوجھ نہیں پڑتا ورنہ اس کی شان تو خود اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمائی ہے :
لَوْ أَنزَلْنَا هَـٰذَا الْقُرْآنَ عَلَىٰ جَبَلٍ لَّرَأَيْتَهُ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنْ خَشْيَةِ اللَّـهِ
(سورۃ الحشر آیت نمبر : ۲۱)
ترجمہ : اگر یہ قرآ ہم پہاڑ پر نازل کرتے تو تم دیکھتے کہ وہ اللہ کے خوف سے دب جاتا اور ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتا ۔
عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: أَوَّلُ مَا بُدِئَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الوَحْيِ الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ فِي النَّوْمِ، فَكَانَ لاَ يَرَى رُؤْيَا إِلَّا جَاءَتْ مِثْلَ فَلَقِ الصُّبْحِ، ثُمَّ حُبِّبَ إِلَيْهِ الخَلاَءُ، وَكَانَ يَخْلُو بِغَارِ حِرَاءٍ فَيَتَحَنَّثُ فِيهِ - وَهُوَ التَّعَبُّدُ - اللَّيَالِيَ ذَوَاتِ العَدَدِ قَبْلَ أَنْ يَنْزِعَ إِلَى أَهْلِهِ، وَيَتَزَوَّدُ لِذَلِكَ، ثُمَّ يَرْجِعُ إِلَى خَدِيجَةَ فَيَتَزَوَّدُ لِمِثْلِهَا، حَتَّى جَاءَهُ الحَقُّ وَهُوَ فِي غَارِ حِرَاءٍ، فَجَاءَهُ المَلَكُ فَقَالَ: اقْرَأْ، قَالَ: «مَا أَنَا بِقَارِئٍ»، قَالَ: " فَأَخَذَنِي فَغَطَّنِي حَتَّى بَلَغَ مِنِّي الجَهْدَ ثُمَّ أَرْسَلَنِي، فَقَالَ: اقْرَأْ، قُلْتُ: مَا أَنَا بِقَارِئٍ، فَأَخَذَنِي فَغَطَّنِي الثَّانِيَةَ حَتَّى بَلَغَ مِنِّي الجَهْدَ ثُمَّ أَرْسَلَنِي، فَقَالَ: اقْرَأْ، فَقُلْتُ: مَا أَنَا بِقَارِئٍ، فَأَخَذَنِي فَغَطَّنِي الثَّالِثَةَ ثُمَّ أَرْسَلَنِي، فَقَالَ: {اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ. خَلَقَ الإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ. اقْرَأْ وَرَبُّكَ الأَكْرَمُ} [العلق: 2] " فَرَجَعَ بِهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْجُفُ فُؤَادُهُ، فَدَخَلَ عَلَى خَدِيجَةَ بِنْتِ خُوَيْلِدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، فَقَالَ: «زَمِّلُونِي زَمِّلُونِي» فَزَمَّلُوهُ حَتَّى ذَهَبَ عَنْهُ الرَّوْعُ، فَقَالَ لِخَدِيجَةَ وَأَخْبَرَهَا الخَبَرَ: «لَقَدْ خَشِيتُ عَلَى نَفْسِي» فَقَالَتْ خَدِيجَةُ: كَلَّا وَاللَّهِ مَا يُخْزِيكَ اللَّهُ أَبَدًا، إِنَّكَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ، وَتَحْمِلُ الكَلَّ، وَتَكْسِبُ المَعْدُومَ، وَتَقْرِي الضَّيْفَ، وَتُعِينُ عَلَى نَوَائِبِ الحَقِّ، فَانْطَلَقَتْ بِهِ خَدِيجَةُ حَتَّى أَتَتْ بِهِ وَرَقَةَ بْنَ نَوْفَلِ بْنِ أَسَدِ بْنِ عَبْدِ العُزَّى ابْنَ عَمِّ خَدِيجَةَ وَكَانَ امْرَأً تَنَصَّرَ فِي الجَاهِلِيَّةِ، وَكَانَ يَكْتُبُ الكِتَابَ العِبْرَانِيَّ، فَيَكْتُبُ مِنَ الإِنْجِيلِ بِالعِبْرَانِيَّةِ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَكْتُبَ، وَكَانَ شَيْخًا كَبِيرًا قَدْ عَمِيَ، فَقَالَتْ لَهُ خَدِيجَةُ: يَا ابْنَ عَمِّ، اسْمَعْ مِنَ ابْنِ أَخِيكَ، فَقَالَ لَهُ وَرَقَةُ: يَا ابْنَ أَخِي مَاذَا تَرَى؟ فَأَخْبَرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَبَرَ مَا رَأَى، فَقَالَ لَهُ وَرَقَةُ: هَذَا النَّامُوسُ الَّذِي نَزَّلَ اللَّهُ عَلَى مُوسَى، يَا لَيْتَنِي فِيهَا جَذَعًا، لَيْتَنِي أَكُونُ حَيًّا إِذْ يُخْرِجُكَ قَوْمُكَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَوَ مُخْرِجِيَّ هُمْ»، قَالَ: نَعَمْ، لَمْ يَأْتِ رَجُلٌ قَطُّ بِمِثْلِ مَا جِئْتَ بِهِ إِلَّا عُودِيَ، وَإِنْ يُدْرِكْنِي يَوْمُكَ أَنْصُرْكَ نَصْرًا مُؤَزَّرًا. ثُمَّ لَمْ يَنْشَبْ وَرَقَةُ أَنْ تُوُفِّيَ، وَفَتَرَ الوَحْيُ. (رواه البخارى ومسلم)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৯৮৩
کتاب المناقب والفضائل
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق حسنہ
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ میں نے دس سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی مجھے اف کا کلمہ بھی نہیں فرمایا اور نہ کبھی یہ فرمایا کہ تم نے یہ کام کیوں کیا اور نہ کبھی یہ فرمایا کہ تم نے یہ کام کیوں نہیں کیا ۔

تشریح
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق حسنہ کے بارے میں خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اور ساری کائنات کے حالق و پروردگار نے اپنی کتاب مبین قرآن مجید میں فرمایا ہے “إِنَّكَ لَعَلَىٰ خُلُقٍ عَظِيمٍ” (1) یعنی اے ہمارے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وسلم) آپ اخلاق کے بلند و برتر مقام پر ہیں ، احادیث و سیرت کی روایات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق حسنہ کا جو بیان ہے ، وہ اسی مختصر قرآنی بیان کی گویا تشریح و تفسیر ہے “معارف الحدیث جلد دوم” میں کتاب الاخلاق قریباً دو سو صفحات پر ہے اس میں اخلاق سے متعلق آنحضرتص کی تعلیمات و ارشادات اور باب اخلاق کے سلسلہ کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض اہم واقعات بھی ذکر کئے گئے ہیں ۔
شروع میں وہ حدیثیں بھی درج کی گئی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ دین میں اور اللہ کے نزدیک اخلاق کا کیا درجہ اور مقام ہے ۔
مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان میں سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چند مختصر ارشادات یہاں بھی ناظرین کی یاد دہانی کے لئے ذکر کر دئیے جائیں ..... ارشاد فرمایا :
إِنَّ مِنْ خِيَارِكُمْ أَحْسَنَكُمْ أَخْلاَقًا (2)
ترجمہ : تم لوگوں میں اچھے اور بہتر وہ لوگ ہیں جن کے اخلاق زیادہ اچھے ہیں ۔
ایک دوسری حدیث میں ارشاد فرمایا :
إِنَّمَا بُعِثْتُ لِاُتَمِّمَ مكارمَ الْأَخْلَاقِ (3)
ترجمہ : میں خاص اس کام کے لئے بھیجا گیا ہوں کہ اپنی تعلیم اور عمل سے کریمانہ اخلاق کی تکمیل کر دوں ۔
ایک اور حدیث میں ارشاد فرمایا :
إِنَّ أَثْقَلَ شَيْءٍ يُوضَعُ فِي مِيزَانِ الْمُؤْمِنِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ خُلُقٌ حَسَنٌ.
ترجمہ : قیامت کے دن مومن کی میزان اعمال میں جو سب سے زیادہ وزنی چیز رکھی جائے گی وہ اس کے اچھے اخلاق ہوں گے ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر شریف کے آخری دور میں حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو داعی و معلم اور حاکم بنا کر یمن بھیجا تو آخری نصیحت فرمائی :
أَحْسِنْ خُلُقَكَ لِلنَّاسِ. (1)
ترجمہ : دیکھو سب لوگوں سے اچھے اخلاق کا برتاؤ کرنا ۔
اس تمہید کے بعد ذیل میں چند وہ حدیثیں پڑھئے جن میں صحابہ کرام نے اپنے تجربہ اور مشاہدہ کی بنیاد پر آپ کے کریمانہ اخلاق کا بیان فرمایا ہے ..... اللہ تعالیٰ ہم سب کو زندگی کے اس شعبہ میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ کا کامل اتباع نصیب فرمائے ۔

تشریح ..... عربی زبان میں اف کا کلمہ کسی بات پر ناگواری و ناراضی اور غصہ کے اظہار کے لئے بولا جاتا ہے ..... رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب ہجرت فرما کر مدینہ تشریف لائے تو حضرت انسؓ کی عمر آٹھ (۸) سال (اور ایک دوسری روایت کے مطابق دس (۱۰) سال) تھی ، ان کی والدہ ام سلیم رضی اللہ عنہا نے جو بڑی مخلص مومنہ صالحہ تھیں اپنے ان بیٹے کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کر دیا اور گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کے لئے وقف کر دیا اور پھر یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تک پورے دس (۱۰) سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں رہے ، اس حدیث میں انہوں نے حضور کے حسن اخلاق اور نرم مزاجی کے بارے میں اپنا یہ ذاتی تجربہ بیان فرمایا ہے کہ دس (۱۰) سال کی خادمانہ مدت میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ناراضی اور غصہ کے اظہار کے لئے اف کا کلمہ بھی فرمایا ہو ، اسی طرح کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی کام کے کرنے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ڈانٹا ہو کہ یہ کام تم نے کیوں کیا ، یا کسی کام کے نہ کرنے پر ڈانٹا ہو کہ تم نے یہ کام کیاں نہیں کیا ..... مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت شریف اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عام رویہ عفو و درگزر کا تھا ..... حضرت انس رضی اللہ عنہ ہی کی ایک دوسری روایت میں ہے جس کو بیہقی نے “شعب الایمان” میں روایت کیا ہے کہ :
خَدَمْتُهُ عَشْرَ سِنِينَ فَمَا لَامَنِي عَلَى شَيْءٍ أَتَى فِيهِ عَلَى يَدَيَّ فَإِنْ لَامَنِي لَائِمٌ مِنْ أَهْلِهِ قَالَ: «دَعُوهُ فَإِنَّهُ لَوْ قُضِيَ شَيْءٌ كَانَ» (مشكوة المصابيح)
ترجمہ : میں نے دس (۱۰) سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کی ، اگر کبھی میرے ہاتھ سے کوئی چیز ضائع یا خراب ہو گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر بھی مجھے ملامت نہیں فرمائی ، اور اگر میری اس غلطی پر آپ کے گھر والوں میں سے کوئی ملامت کرتا تو آپ فرما دیتے تھے کہ جب بات مقدر ہو چکی تھی وہ ہونی ہی تھیں ۔
یہاں یہ بات ملحوظ رہنی چاہئے کہ آپ کا یہ رویہ ذاتی معاملات میں تھا ، لیکن جیسا کہ دوسری حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے ، اللہ تعالیٰ کے احکام و حدود کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوئی رو رعایت نہیں فرماتے تھے ۔
عَنْ أَنَسٍ قَالَ: خَدَمْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَشْرَ سِنِينَ فَمَا قَالَ لِي أُفٍّ، وَلاَ: لِمَ صَنَعْتَ؟ وَلاَ: أَلَّا صَنَعْتَ " (رواه البخارى ومسلم)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৯৮৪
کتاب المناقب والفضائل
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق حسنہ
حضرت انس رضی اللہ عنہ ہی سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے جا رہے تھے ، میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چل رہا تھا ، آپ ایک نجرانی چادر اوڑھے ہوئے تھے جس کے کنارے موٹے تھے (چلتے چلتے) حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک گنوار بدو نے پکڑ لیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چادر پکڑ کے اس زور سے کھینچا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس بدو کے سینے سے آ لگے اور میں نے دیکھا کہ اس بدو کے زور سے چادر کھینچنے کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گردن مبارک کے ایک طرف نشان پڑ گیا ۔ پھر اس گنوار بدو نے کہا کہ اے محمد تمہارے پاس جو اللہ کا مال ہے تم (اپنے آدمیوں کو) حکم دو کہ وہ اس میں سے مجھ کو دیں (حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس گنوار بدو کی طرف دیکھا (اور بجائے غصہ فرمانے کے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی اس حرکت پر ہنسے اور اس کو کچھ دینے کا حکم دیا ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
نجران یمن کے علاقہ میں ایک شہر تھا جہاں خاص قسم کی چادریں بنتی تھیں ، ان کو نجرانی چادر کہا جاتا تھا .... اس بدو نے جس “اللہ کے مال” (مال اللہ) کا سوال کیا تھا اس سے مراد بظاہر زکوٰۃ و صدقات وغیرہ کا وہ سرمایہ تھا جو بیت المال میں رہتا تھا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مستحقین کو عطا فرماتے تھے ..... حدیث کا مضمون و مفہوم واضح ہے کسی توضیح و تشریح کا محتاج نہیں ..... ظاہر ہے کہ یہ بدو انتہائی درجہ کا اجڈ گنوار تھا ، اس وقت اس میں کسی اصلاحی بات کے قبول کرنے کی صلاحیت اور استعداد بھی نہیں تھی ، اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو سزا یا تنبیہ درکنار کوئی نصیحت کی بات بھی نہیں فرمائی ، بلکہ اس کی اس انتہائی گستاخانہ حرکت کا جواب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف ہنس کر دیا اور جس روپے پیسے کا وہ طالت تھا اس کو عنایت فرما دیا اور امت کو سبت دیا کہ اس درجہ کی بدتمیزی اور ایذا رسانی کے مواقع پر بھی نفس پر قابو رکھیں اور عفو و درگزر کا رویہ اختیار کر کے لوگوں کے دل جیتیں اور اپنے سے قریب کریں ، پھر اللہ تعالیٰ ان کو ہدایت عطا فرما دے گا اور ان کی اصلاح بھی ہو جائے گی ..... بلا شبہ ارباب بصیرت کے نزدیک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے اس طرح کے واقعات بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات ہیں ۔
وَعَنْهُ قَالَ: «كُنْتُ أَمْشِي مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَلَيْهِ بُرْدٌ نَجْرَانِيٌّ غَلِيظُ الحَاشِيَةِ»، فَأَدْرَكَهُ أَعْرَابِيٌّ فَجَبَذَهُ بِرِدَائِهِ جَبْذَةً شَدِيدَةً، حَتَّى «نَظَرْتُ إِلَى صَفْحَةِ عَاتِقِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ أَثَّرَتْ بِهَا حَاشِيَةُ البُرْدِ مِنْ شِدَّةِ جَبْذَتِهِ»، ثُمَّ قَالَ: يَا مُحَمَّدُ مُرْ لِي مِنْ مَالِ اللَّهِ الَّذِي عِنْدَكَ، «فَالْتَفَتَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ ضَحِكَ، ثُمَّ أَمَرَ لَهُ بِعَطَاءٍ» (رواه البخارى ومسلم)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৯৮৫
کتاب المناقب والفضائل
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق حسنہ
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ آپ سے کسی چیز کا سوال کیا گیا ہو اور آپ نے اس کے جواب میں “لا”(یعنی نہیں) فرمایا ہو ۔(صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
مطلب یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جب کسی چیز کا سوال کیا جاتا تا کہ یہ عنایت فرما دی جائے ، تو آپ کبھی “لا” کہہ کر انکار نہیں فرماتے تھے ، جس سے سوال کرنے والے کی دل شکنی ہوتی اگر وہ چیز موجود ہوتی تو عطا فرمادیتے ، ورنہ عذر فرما دیتے اور دعا فرما دیتے الغرض سوال کرنے والے کو آپ کبھی “لا” کہہ کر انکار اور نفی میں جواب نہیں دیتے تھے ۔
بہ ظاہر یہ ایک معمولی سی بات معلوم ہوتی ہے ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ انتہائی غیر معمولی بات ہے ، کسی شخص کے کسی مطالبہ یا سوال کے جواب میں کبھی بھی “نہ” نہ کہنا آخری درجہ کی کریم النفسی ، شرافت طبع اور عالی ظرفی کی دلیل ہے ، خوش نصیب ہیں وہ لوگ جنہیں اللہ تعالیٰ وہبی طور پر یہ صفات نصیب فرما دے ، اسی طرح وہ اللہ کے بندے جو ان صفات سے آراستہ اللہ والوں کے ساتھ رہ کر اپنے اندر یہ اخلاق پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں ، وہ بھی بہت قابل رشک ہیں ۔
عَنْ جَابِرٍ قَالَ: " مَا سُئِلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا قَطُّ فَقَالَ لَا. (رواه البخارى ومسلم)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৯৮৬
کتاب المناقب والفضائل
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق حسنہ
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے بیان فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب صبح فجر کی نماز پڑھ کر فارغ ہوتے تو مدینہ کے گھروں کے خدمت گار (غلام یا باندیاں) اپنے اپنے برتن لے کر آ جاتے جن میں پانی ہوتا (تا کہ آپ برکت کے لئے یا بیماری سے شفا جیسے مقاصد کے لئے اس پانی میں اپنا دست مبارک ڈال دیں) تو آپ ہر برتن میں اپنا دست مبارک ڈال دیتے تو بسا اوقات ایسا بھی ہوتا کہ (سخت سردی کے موسم میں) ٹھنڈی صبح کے وقت (برتن میں بہت ٹھنڈا پانی لے کر آپ کے) پاس آ جاتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں بھی اپنا دست مبارک ڈال دیتے ۔ (صحیح مسلم)

تشریح
مدینہ منورہ میں سردی کے خاص موسم میں سخت سردی ہوتی ہے اور برتنوں میں رکھا پانی برف جیسا ٹھنڈا ہو جاتا ہے اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پانی لانے والے کی دلداری کے لئے اور اس عمل کو بندگان خدا کی خدمت تصور فرماتے ہوئے اس برف جیسے ٹھنڈے پانی میں بھی دست مبارک ڈال دینے کی تکلیف برداشت فرماتے تھے ..... حضرت انس رضی اللہ عنہ کے اس بیان سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ایسا نہیں تھا کہ کبھی اتفاقاً ہی کوئی شخص برتن میں پانی لے آتا ہو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں دست مبارک ڈال دیتے ہوں بلکہ یہ گویا روز مرہ کا سا معمول تھا ..... اگر اللہ کے کسی صالح بندے کے ساتھ ایسا معاملہ کیا جائے تو یہ حدیث اس کی اصل اور بنیاد ہے ۔ بشرطیکہ عقیدہ میں فساد اور غلو نہ ہو ۔
عَنْ أَنَسٍ قَالَ: «كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا صَلَّى الْغَدَاةَ جَاءَ خَدَمُ الْمَدِينَةِ بِآنِيَتِهِمْ فِيهَا الْمَاءُ، فَمَا يُؤْتَى بِإِنَاءٍ إِلَّا غَمَسَ يَدَهُ فِيهَا، فَرُبَّمَا جَاءُوهُ فِي الْغَدَاةِ الْبَارِدَةِ، فَيَغْمِسُ يَدَهُ فِيهَا» (رواه مسلم)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৯৮৭
کتاب المناقب والفضائل
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق حسنہ
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا گیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم آپ مشرکین اور کفار کے حق میں بد دعا فرمائیں ، تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ میں لعنت اور بددعا کرنے والا بنا کر نہیں بھیجا گیا ہوں بلکہ رحمت بنا کر بھیجا گیا ہوں ۔ (صحیح مسلم)

تشریح
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں کفار و مشرکین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اور آپ کے لائے ہوئے دین حق کے انتہائی درجہ کے دشمن تھے ، خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے والوں کو ہر طرح کی ایذائیں دیتے تھے ، یہاں تک کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا عزیز اور مقدس وطن مکہ مکرمہ چھوڑنا پڑا ، اس کے بعد بھی ان کی شر انگیزیوں کا سلسلہ جاری رہا ، تو کسی وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کرام نے درخواست کی کہ حضور ان ظالموں بدبختوں کے حق میں بد دعا فرمائیں کہ اللہ ان پر اپنا قہر و عذاب نازل فرمائے اور یہ ہلاک و برباد کر دئیے جائیں جس طرح اگلی بہت سی امتوں کے ایسے ظالم کفار پر عذاب نازل ہو ، اور زمین ان کے وجود سے پاک کر دی گئی ۔ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس درخواست کے جواب میں ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اس لئے نہیں بھیجا ہے کہ میں لعنت اور بددعا کروں ، مجھے تو سارے عالم کے لئے رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے ، اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب مقدس قرآن مجید میں فرمایا ہے : “وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ”
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قِيلَ: يَا رَسُولَ اللهِ ادْعُ عَلَى الْمُشْرِكِينَ قَالَ: «إِنِّي لَمْ أُبْعَثْ لَعَّانًا، وَإِنَّمَا بُعِثْتُ رَحْمَةً» (رواه مسلم)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৯৮৮
کتاب المناقب والفضائل
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق حسنہ
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی کو اپنے ہاتھ سے نہیں مارا نہ کسی عورت کو نہ کسی خادم کو ، البتہ جہاد فی سبیل اللہ کے سلسلہ میں ضرور ایسا ہوا ہے ..... اور کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی شخص کی طرف سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذا پہنچانے والی کوئی حرکت کی گئی ہو تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے انتقام لیا ہو ، (بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ذاتی معاملات میں معافی اور درگزر ہی کا معاملہ فرماتے تھے (البتہ اگر کسی شخص کی طرف سے کسی فعل حرام کا ارتکاب کیا جاتا تو آپ اللہ کے لئے (یعنی فرمان خداوندی کی تعمیل میں) اس مجرم کو سزا دیتے (یا سزا دینے کا حکم فرماتے) تھے ۔ (صحیح مسلم)

تشریح
ام المومنین حضرت صدیقہ رضی اللہ عنہا نے اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق دو باتیں بیان فرمائی ہیں ۔ ایک یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی کی غلطی یا بےتمیزی پر غصہ ہو کر اس کو نہیں مارا حتیٰ کہ نہ کبھی کسی خادم پر آپ کا ہاتھ اٹھا نہ کسی عورت پر ..... یعنی کسی خادم غلام یا باندی سے یا کسی بیوی سے کیسی ہی غلطی ہوئی ہو ، کبھی غصہ سے آپ کا ہاتھ اس پر نہیں اٹھا .... ہاں جہاد فی سبیل اللہ میں اللہ تعالیٰ کی رضا ہی کے لئے اس کے کسی دشمن پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ اٹھا ہے ، چنانچہ غزوہ بدر میں مشرکین مکہ کا سردار ابی بن خلف آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے ہاتھ سے ہلاک ہوا ۔
دوسری بات حضرت صدیقہؓ نے یہ بیان فرمائی کہ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی بدبخت نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذا پہنچائی ہو ئی یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بدتمیزی کی ہو تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے انتقام لیا ہو ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ذات کے معاملہ میں ہمیشہ عفو و درگزر ہی سے کام لیتے تھے ۔ البتہ اگر کوئی شخص کسی حرام فعل اور جرم کا ارتکاب کرتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو سزا دیتے تھے ، لیکن یہ سزا بھی نفس کے تقاضے اور طبیعت کے غصہ سے نہیں بلکہ صرف اللہ کی رضا کے لئے اور اس کے حکم کی تعمیل میں دی جاتی تھی ۔
عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: «مَا ضَرَبَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا قَطُّ بِيَدِهِ، وَلَا امْرَأَةً، وَلَا خَادِمًا، إِلَّا أَنْ يُجَاهِدَ فِي سَبِيلِ اللهِ، وَمَا نِيلَ مِنْهُ شَيْءٌ قَطُّ، فَيَنْتَقِمَ مِنْ صَاحِبِهِ، إِلَّا أَنْ يُنْتَهَكَ شَيْءٌ مِنْ مَحَارِمِ اللهِ، فَيَنْتَقِمَ لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ» (رواه مسلم)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৯৮৯
کتاب المناقب والفضائل
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق حسنہ
جناب اسود سے روایت ہے (جو ایک بزرگ تابعی ہیں) انہوں نے بیان کیا کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے دریافت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (جن اوقات میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم گھر کے اندر رہتے تھے) تو ان اوقات میں آپ کیا کرتے تھے ؟ تو حضرت صدیقہؓ نے فرمایا کہ اپنے گھر والوں کے کاموں میں شریک ہو کر ان کی مدد اور خدمت کرتے تھے ، پھر جب نماز کا وقت آ جاتا تو سب چھوڑ کر نماز کو تشریف لے جاتے .... (صحیح بخاری)

تشریح
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ گھر کے کام کاج میں گھر والیوں کی مدد کرنا اور ان کا ہاتھ بٹانا حضور کا مستقل معمول تھا اور یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے ۔ اللہ تعالیٰ اس طرح کی سنتوں پر عمل کرنے کی بھی ہم لوگوں کو توفیق عطا فرمائے ۔ اس میں خدمت اور مدد کرنے کا اجر و ثواب بھی ہے اور کبر جیسے روحانی امراض کا علاج بھی ۔
عَنِ الأَسْوَدِ، قَالَ: سَأَلْتُ عَائِشَةَ مَا كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصْنَعُ فِي بَيْتِهِ؟ قَالَتْ: «كَانَ يَكُونُ فِي مِهْنَةِ أَهْلِهِ - تَعْنِي خِدْمَةَ أَهْلِهِ - فَإِذَا حَضَرَتِ الصَّلاَةُ خَرَجَ إِلَى الصَّلاَةِ» (رواه البخارى)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৯৯০
کتاب المناقب والفضائل
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق حسنہ
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عام رویہ اور معمول یہ تھا کہ (ضرورت پڑنے پر) خود ہی اپنی (ٹوٹی پاپوش) گانٹھ لیتے تھے اور خود ہی اپنا (پھٹا ہوا) کپڑا سی لیتے تھے اور اپنے گھر میں اسی طرح کام کرتے تھے ، جس طرح تم میں سے کوئی بھی آدمی گھر کا کام کرتا ہے ..... اور حضرت صدیقہؓ نے یہ بھی فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم (کوئی مافوق البشر غیر انسانی مخلوق نہیں تھے ، بلکہ) بنی آدم ہی میں سے ایک آدمی تھے (معمولی سے معمولی کام بھی خود کر لیتے تھے)اپنے کپڑوں میں خود جوئیں دیکھتے تھے ، بکری کا دودھ خود دوہ لیتے تھے ، اپنے ذاتی کام خود ہی کر لیتے تھے ۔ (جامع ترمذی)

تشریح
اس حدیث اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ میں بڑا سبق ہے ، ان حضرات کے لئے جو دین اور علم دین میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے خواص نائبین و وارثین ہیں ، اللہ تعالیٰ سب کو اس کے اتباع کی توفیق عطا فرمائے ۔
عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْصِفُ نَعْلَهُ وَيَخِيطُ ثَوْبَهُ وَيَعْمَلُ فِي بَيْتِهِ كَمَا يَعْمَلُ أَحَدُكُمْ فِي بَيْتِهِ وَقَالَتْ: كَانَ بَشَرًا مِنَ الْبَشَرِ يَفْلِي ثَوْبَهُ وَيَحْلُبُ شَاتَهُ وَيَخْدُمُ نَفْسَهُ. (رواه الترمذى)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৯৯১
کتاب المناقب والفضائل
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق حسنہ
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ اور معمول تھا کہ جب کسی شخص سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم مصافحہ کرتے تو اپنا دست مبارک اس کے ہاتھ میں سے اس وقت نکالتے جب تک کہ وہ شخص اپنا ہاتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک سے نہ نکالتا ، اسی طرح اپنا رخ اور چہرہ مبارک اس کی طرف سے نہ پھیرتے جب تک کہ خود وہ شخص اپنا چہرہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے نہ پھیرتا ، اور کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس حال میں نہیں دیکھا گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے زانوئے مبارک برابر بیٹھے ہوئے دوسرے آدمی سے آگے گئے ہوئے ہوں ۔ (جامع ترمذی)

تشریح
ظاہر ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہونے والے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مصافحہ کرنے والے حضرات آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے والے آپ کے خادم و جاں نثار صحابہ کرام ہی ہوتے تھے ، ان کے ساتھ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اکرام اور لحاظ کا یہ رویہ تھا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمہ وقتی خادم حضرت انس نے اس حدیث میں بیان کیا .... افسوس ہم جیسے امتیوں نے ان اخلاق عالیہ اور اس اسوہ حسنہ کے اتباع سے اپنے کو کس قدر محروم کر لیا ہے ۔
عَنْ أَنَسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا صَافَحَ الرَّجُلَ لَمْ يَنْزِعْ يَدَهُ مِنْ يَدِهِ حَتَّى يَكُونَ هُوَ الَّذِي يَنْزِعُ يَدَهُ وَلَا يَصْرِفُ وَجْهَهُ عَنْ وَجْهِهِ حَتَّى يَكُونَ هُوَ الَّذِي يَصْرِفُ وَجْهَهُ عَن وَجهه وَلم يُرَ مقدِّماً رُكْبَتَيْهِ بَين يَدي جليس لَهُ. (رواه الترمذى)
tahqiq

তাহকীক: