কানযুল উম্মাল (উর্দু)

كنز العمال في سنن الأقوال و الأفعال

امارت اور خلافت کا بیان - এর পরিচ্ছেদসমূহ

মোট হাদীস ২০ টি

হাদীস নং: ১৪০৪০
امارت اور خلافت کا بیان
بسم اللہ الرحمن الرحیم

حرف الخاء

کتاب الخلافۃ مع الامارۃ۔۔۔خلافت اور امارت کا بیان

اس کتاب میں قسم الافعال کو ایک مصلحت کے تقاضے کی وجہ سے مقدم کیا گیا ہے۔

پہلا باب۔۔۔خلفاء کی خلافت میں

خلافت ابی بکرالصدیق (رض)

نوٹ : مصنف نے حضرت ابوبکرصدیق کی خلافت ، عادات اور سیرت کا کچھ حصہ حرف الفاء کی کتاب الفصائل میں ذکر کیا ہے۔ جبکہ ان کے خطبات اور مواعظ کو حرف المیم کی کتاب المواعظ میں ذکر کیا ہے۔
14040 (مسند الصدیق (رض)) ام ربانی (رض) سے مروی ہے کہ حضرت فاطمہ (رض) نے فرمایا : اے ابوبکر ! جب آپ مریں گے تو آپ کا وارث کون بنے گا ؟ حضرت ابوبکر (رض) نے ارشاد فرمایا : میری اولاد اور میرے گھر والے۔ حضرت فاطمہ (رض) نے فرمایا : پھر کیا بات ہے کہ ہمارے بجائے آپ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وارث بن گئے ہیں ؟ حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا : اے بنت رسول اللہ ! اللہ کی قسم ! میں آپ کا وارث نہیں ہوا سونے میں، چاندی، بکری میں، اونٹ میں، گھر میں، زمین میں، غلام میں اور نہ کسی طرح کے مال میں حضرت فاطمہ (رض) نے فرمایا : پھر کیا وجہ ہے کہ اللہ کا وہ خالص حصہ جو اللہ نے ہمارے لیے مقرر کیا تھا وہ آپ کے ہاتھ میں ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے ارشاد فرمایا : میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے : نبی جب تک زندہ ہوتا ہے اس کے اہل و عیال کو (اللہ کے عطا کردہ اس مال میں سے) کھلایا جاسکتا ہے اور جب نبی کا انتقال ہوجاتا ہے تو وہ رزق اس کے اہل و عیال سے اٹھا لیا جاتا ہے۔ دوسرے الفاظ ہیں کہ میں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا : یہ (مال) تو محض کھانا ہے جو اللہ نے مجھے کھلایا ہے جب میں مرجاؤں گا تو یہ مال مسلمانوں کے درمیان تقسیم ہوجائے گا۔ الطقات لا بن سعد
14040- "مسند الصديق" عن أم هانيء أن فاطمة قالت: يا أبا بكر من يرثك إذا مت قال: ولدي وأهلي، قالت: فما شأنك ورثت رسول الله صلى الله عليه وسلم دوننا؟ قال: يا ابنة رسول الله، والله ما ورثته ذهبا ولا فضة ولا شاة ولا بعيرا ولا دارا ولا عقارا ولا غلاما ولا مالا، قالت: فسهم الله الذي جعله لنا وصافيتنا1 التي بيدك، فقال: إني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: إن النبي يطعم أهله ما دام حيا، فإذا مات رفع ذلك عنهم وفي لفظ: سمعته يقول: إنما هي طعمة أطعمنيها الله، فإذا مت كانت بين المسلمين. "ابن سعد"2
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৪০৪১
امارت اور خلافت کا بیان
خلافت ابی بکرالصدیق (رض)
14041: ابو سعید خدری (رض) سے مروی ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے (خلافت کی بیعت لیتے وقت) فرمایا تھا : کیا میں اس (خلافت) کا لوگوں میں سب سے زیادہ حقدار نہیں ہوں ؟ میں سب سے پہلے اسلام لایا، کیا میں فلاں شرف کا حامل نہیں، کیا میں فلاں شرف کا حامل نہیں ؟ (الترمذی، مسند البزار، ابن حبان، ابونعیم فی المعرفۃ، ابن مندہ فی غرائب شعبۃ، السنن لسعید بن منصور، ابن ابی داود)

کلام : ۔۔۔ اخرجہ الترمذی، کتاب المناقب باب فی مناقب ابی بکر و عمر رقم 3667، وقال : غریب، امام ترمذی (رح) فرماتے ہیں یہ روایت ضعیف ہے۔
14041- عن أبي سعيد الخدري قال: قال أبو بكر: ألست أحق الناس بها؟ ألست أول من أسلم؟ ألست صاحب كذا؟ ألست صاحب كذا؟ "ت3 والبزار حب وأبو نعيم في المعرفة وابن منده في غرائب شعبة ص د".
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৪০৪২
امارت اور خلافت کا بیان
خلافت ابی بکرالصدیق (رض)
14042 عبدالملک بن عمیر روایت کرتے ہیں رافع الطائی سے رافع غزوۃ ذات السلاسل میں حضرت ابوبکرصدیق (رض) کے رفیق اور ساتھی تھے۔ رافع کہتے ہیں : میں نے حضرت ابوبکر (رض) سے ان کے ہاتھ پر ہونے والی بیعت کے بارے میں سوال کیا کہ اس وقت لوگوں نے کیا کیا کہا تو آپ (رض) نے وہ ساری تفصیل سنائی جو اس وقت انصار نے کہا اور ابوبکر نے ان کو جواب دیا، انصار کی عمر بن خطاب کے ساتھ جو بات چیت ہوئی اور جس طرح عمر بن خطاب نے انصار کو میری امامت کا قائل کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے مرض الوفات ابوبکر کو آگے کردیا تھا۔ آخر ان تمام باتوں کو سن سمجھ کر انصار نے میری بیعت کرلی اور میں نے بھی ان کی بیعت کو قبول کرلیا۔ مجھے خوف تھا کہ کہیں ایسا کوئی فتنہ رونما نہ ہو جس کے بعدارتداد (کی فضاء) ہوجائے۔ مسند احمد

امام ابن کثیر (رح) فرماتے ہیں : مذکورہ روایت کی اسناد حسن ہے۔ حافظ ابن حجر اپنی اطراف میں فرماتے ہیں : اس روایت کو ابوبکر الاسماعیل نے مسند عمر میں ابوبکر وعمر کے ترجمہ کے تحت روایت کردیا ہے۔
14042- عن عبد الملك بن عمير عن رافع الطائي رفيق أبي بكر في غزوة ذات السلاسل قال: سألتهم عما قيل في بيعتهم، فقال وهو يحدثهم عما تكلمت به الأنصار وما كلمهم به وما كلم به عمر بن الخطاب الأنصار وما ذكرهم به من إمامتي إياهم بأمر رسول الله صلى الله عليه وسلم في مرضه فبايعوني لذلك، وقبلتها منهم وتخوفت أن تكون فتنة تكون بعدها ردة. "حم" قال ابن كثير: إسناده حسن، قال الحافظ ابن حجر في أطرافه: أخرجه أبو بكر الإسماعيلي في مسند عمر من تأليفه في ترجمة أبي بكر وعمر.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৪০৪৩
امارت اور خلافت کا بیان
خلافت ابی بکرالصدیق (رض)
14043 طارق بن شہاب ، رافع بن ابی رافع سے روایت کرتے ہیں کہ جب لوگوں نے حضرت ابوبکر (رض) کو منصب خلافت کے لیے چن لیا تو رافع کہتے ہیں : میں نے کہا : یہ تو وہی شخص ہیں جنہوں نے مجھے نصیحت کی تھی کہ میں کبھی دو آدمیوں پر امیر بننا بھی قبول نہ کروں گا۔ چنانچہ میں مدینہ پہنچا اور ابوبکر (رض) سے بات کی اور پوچھا : اے ابوبکر ! آپ مجھے جانتے ہیں ؟ فرمایا : اچھی طرح۔ میں نے عرض کیا : آپ کو یاد ہے آپ نے مجھے کس وقت نصیحت کی تھی کہ میں آدمیوں پر بھی امیر نہ بنوں ؟ حالانکہ اب آپ پوری امت کی امارت قبول کررہے ہیں ؟

حضرت ابوبکر (رض) نے ارشاد فرمایا : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات ہوچکی ہے اور لوگوں کو زمانہ کفر سے نکلے زیادہ وقت نہیں ہوا اس لیے مجھے خوف ہے کہ کہیں وہ اسلام سے منحرف نہ ہوجائیں اور باہم انتشار کا شکار نہ ہوجائیں۔ اس لیے میں ناپسندیدگی کے باوجود اس میدان میں اترا ہوں اور وہ بھی اپنے ساتھیوں کے مسلسل اصرار کے کے ساتھ۔

رافع فرماتے ہیں : آپ مجھے اس طرح اپنے اعذار گنواتے رہے حتیٰ کہ میں نے ان کا عذر قبول کرلیا۔ ابن راھویہ، العدنی، البغوی، ابن خزیمہ
14043- عن طارق بن شهاب عن رافع بن أبي رافع قال: لما استخلف الناس أبا بكر، قلت: صاحبي الذي أمرني أن لا أتامر على رجلين، فارتحلت فانتهيت إلى المدينة فتعرضت لأبي بكر، فقلت له يا أبا بكر أتعرفني؟ قال: نعم؟ قلت: أتذكر شيئا قلته لي أن لا أتأمر على رجلين، وقد وليت أمر الأمة؟ فقال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قبض والناس حديث عهد بكفر فخفت عليهم أن يرتدوا وأن يختلفوا فدخلت فيها وأنا كاره، ولم يزل بي أصحابي، فلم يزل يعتذر حتى عذرته. "ابن راهويه والعدني والبغوي وابن خزيمة".
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৪০৪৪
امارت اور خلافت کا بیان
خلافت ابی بکرالصدیق (رض)
14044 ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات ہوگئی اور ابوبکر (رض) کو خلیفہ بنالیا گیا تو عباس (رض) اور علی (رض) کا آپس میں کچھ ایسی چیزوں (زمینوں کی زمینداری) میں جھگڑا ہوا جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے اہل بیت ازواج مطہرات کے لیے چھوڑ گئے تھے (دونوں حضرات چاہتے تھے کہ یہ زمین باغ وغیرہ دونوں کے درمیان تقسیم ہوجائیں اور جھگڑا رفع ہوجائے) حضرت ابوبکر (رض) نے ارشاد فرمایا : جو چیز رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس طرح چھوڑ گئے ہیں کہ آپ نے ان کو حرکت نہیں دی تو میں بھی ان کو حرکت نہیں دے سکتا۔ پھر جب حضرت عمر (رض) خلیفہ منتخب ہوگئے یہ دونوں بزرگ پھر آپ (رض) کے پاس بھی اپنا قضیہ لے کر پیش خدمت ہوئے۔ حضرت عمر (رض) نے بھی وہی جواب دیا کہ جس چیز کو پہلے کسی نے حرکت نہیں دی میں بھی اس کو حرکت نہیں دے سکتا۔ پھر جب حضرت عثمان (رض) خلیفہ بنے یہ دونوں حضرات پھر اپنا قضیہ ان کے پاس بھی لے کر حاضر ہوئے (حضرت عثمان (رض)) خاموش ہوگئے اور اپنا سرجھکا لیا (ابن عباس (رض)) کہتے ہیں : مجھے خطرہ ہوا کہ کہیں عثمان (رض) کو غصہ نہ آجائے اس لیے میں نے اپنے والد عباس کے شانے پر ہاتھ مارا اور عرض کیا : ابا جان ! آپ کی قسم ہے کہ آپ یہ معاملہ بالکلیہ حضرت علی (رض) کے سپرد کرکے خود سبکدوش ہوجائیں۔ چنانچہ اس وقت حضرت عباس (رض) نے سارا معاملہ حضرت علی (رض) کے سپرد کردیا۔ مسند احمد، مسند البزار

روایت حسن الاسناد ہے۔

فائدہ : یہ واقعہ باغ فدک وغیرہ کا ہے۔ ملحوظ رہے کہ یہ دونوں حضرات اس کی پیداوار کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرز پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ازواج مطہرات اور اہل بیت کے درمیان تقسیم فرماتے تھے۔ دونوں کا تنازعہ نگہداشت کرنے کا تھا ملکیت کا نہ تھا۔ اگر حضرت علی (رض) بعد میں تنہاذمے دار بن گئے تھے تو یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ تنہا اس کے مالک تھے بلکہ وہ اس کی دیکھ بھال کے ذمہ دار تھے ۔ اور پیداوار کو اسی سابق طرز پر تقسیم فرماتے تھے۔
14044- عن ابن عباس قال: لما قبض رسول الله صلى الله عليه وسلم واستخلف أبو بكر خاصم العباس عليا في أشياء تركها رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال أبو بكر شيء تركه رسول الله صلى الله عليه وسلم فلم يحركه فلا أحركه، فلما استخلف عمر رضي الله عنه اختصما إليه، فقال: شيء لم يحركه فلست أحركه، قال: فلما استخلف عثمان اختصما إليه فأسكت عثمان ونكس رأسه، قال ابن عباس: فخشيت أن يأخذه فضربت بيدي بين كتفي العباس، فقلت: يا أبت أقسمت عليك إلا سلمته لعلي قال: فسلمه له. "حم والبزار" وقال: حسن الإسناد.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৪০৪৫
امارت اور خلافت کا بیان
خلافت ابی بکرالصدیق (رض)
14045 عاصم بن کلیب سے مروی ہے کہ مجھے بنی تیم قریش کے ایک شیخ نے بیان کیا، انھوں نے فلاں فلاں کرکے چھ یا سات قریشی شیوخ کے نام گنوائے جن میں عبداللہ بن زبیر (رض) بھی شامل تھے، فرمایا کہ ان سب حضرات نے مجھے یہ قصہ بیان کیا ہے : وہ فرماتے ہیں ہم حضرت عمر (رض) کے پاس حاضر خدمت تھے کہ حضرت علی اور عباس (رض) تیز تیز بولتے ہوئے اندر داخل ہوئے۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : ٹھہر جا اے عباس ! تم جو کہنا چاہتے ہو وہ بھی مجھے معلوم ہے تم کہنا چاہتے ہو کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیٹی میرے گھر ہے اور نصف مال اسی کا ہے۔ یہ مال پہلے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھوں میں تھا اور ہم نے اچھی طرح دیکھ لیا تھا کہ آپ اس مال کو کیسے صرف کرتے تھے۔ پھر ابوبکر (رض) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد والی بنے، انھوں نے بھی اس مال میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرز عمل کے مطابق عمل کیا۔ پھر ابوبکر (رض) کے بعد میں والی بنا اور میں اللہ کی قسم کھاتا ہوں کہ اس مال میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عمل اور ابوبکر (رض) کے عمل کے مطابق عمل کروں گا۔

پھر حضرت عمر (رض) نے ارشاد فرمایا : مجھے ابوبکر (رض) نے بیان کیا اور انھوں نے قسم کھائی کہ وہ سچ بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا : نبی کسی اپنا وارث بنا کر نہیں جاتے، ان کی میراث تو فقراء اور مساکین مسلمانوں کے لیے ہوتی ہے۔ نیز مجھے ابوبکر (رض) نے بیان کیا اور انھوں نے اللہ کی قسم اٹھائی کہ وہ سچ بیان کررہے ہیں کہ کوئی نبی اس وقت تک نہیں مرتا جب تک اس کی امت میں سے کوئی اس کی امامت نہ کرلے۔ اور یہ مال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھوں میں ہوا کرتا تھا اور ہم نے اچھی طرح دیکھ لیا تھا کہ آپ اس میں کس طرح تصرف کرتے ہیں۔

پھر آپ (رض) نے حضرت علی وعباس (رض) کو مخاطب ہو کر ارشاد فرمایا :

اگر تم دونوں چاہتے ہو کہ اس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ابوبکر (رض) کے تصرف کے مطابق تصرف کرتے رہو تو میں یہ مال تم کو سپرد کردیتا ہوں۔

راوی کہتے ہیں : چنانچہ یہ سن کر دونوں حضرت چلے گئے۔ پھر بعد میں دونوں آئے اور حضرت عباس (رض) نے فرمایا : یہ مال علی کو دے دو میرا دل اس سے خوش ہے۔ مسند احمد
14045- عن عاصم بن كليب قال: حدثني شيخ من قريش من بني تيم قال: حدثني فلان وفلان فعد ستة أو سبعة كلهم من قريش منهم عبد الله بن الزبير قال: بينا نحن جلوس عند عمر إذ دخل علي والعباس فارتفعت أصواتهما، فقال عمر: مه يا عباس قد علمت ما تقول تقول: ابن أخي ولي شطر المال، وقد علمت ما تقول يا علي، تقول: ابنته تحتي ولها شطر المال، وهذا ما كان في يدي رسول الله صلى الله عليه وسلم فقد رأينا كيف كان يصنع فيه فوليه أبو بكر من بعده فعمل فيه بعمل رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم وليته من بعد أبي بكر وأحلف بالله لأجهدن أن أعمل فيه بعمل رسول الله صلى الله عليه وسلم وعمل أبي بكر، ثم قال: حدثني أبو بكر وحلف بالله إنه لصادق: أنه سمع النبي صلى الله عليه وسلم يقول: إن النبي لا يورث وإنما ميراثه لفقراء المسلمين والمساكين وحدثني أبو بكر وحلف بالله إنه لصادق، قال: إن النبي لا يموت حتى يؤمه بعض أمته، وهذا ما كان في يدي رسول الله صلى الله عليه وسلم، قد رأينا كيف كان يصنع فيه فإن شئتما أعطيتكما لتعملا فيه بعمل رسول الله صلى الله عليه وسلم وعمل أبي بكر حتى أدفعه إليكما قال: فخلوا ثم جاءا فقال العباس: ادفعه إلى علي فإنه قد طبت نفسا به له. "حم".
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৪০৪৬
امارت اور خلافت کا بیان
خلافت ابی بکرالصدیق (رض)
14046 قیس بن ابی حازم سے مروی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے ایک مہینے بعد جکا ذکر ہے ، میں حضرت ابوبکر (رض) کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ آپ کو کوئی قصہ یاد آیا تو لوگوں میں منادی کرادی : الصلاۃ جامعہ خطبہ سننے کے لیے جمع ہوجاؤ۔

اور حضرت ابوبکر (رض) کا یہ پہلا خطبہ تھا جو انھوں نے مسلمانوں کے بیچ میں ارشاد فرمایا۔ جب لوگ جمع ہوگئے تو ایک منبر جو آپ کے لیے بنایا گیا تھا آپ (رض) اس پر کھڑے ہوئے اور پہلا خطبہ ارشاد فرمایا : پہلے خدا کی حمدوثناء بجا لائے پھر فرمایا :

اے لوگو ! میری تمنا ہے کہ اس خلافت پر میرے سوا کوئی اور متمکن ہوجاتا، کیونکہ تم مجھے بالکل نبی کے طریقے پر گامزن دیکھنا چاہو گے تو میں اس کی طاقت نہیں رکھتا کیونکہ وہ تو شیطان سے محفوظ تھے اور اس کے علاوہ وحی کے ساتھ بھی ان کی مدد کی جاتی تھی۔ مسند احمد
14046- عن قيس بن أبي حازم قال: إني جالس عند أبي بكر الصديق بعد وفاة النبي صلى الله عليه وسلم بشهر فذكر قصة فنودي في الناس أن الصلاة جامعة وهي أول صلاة في المسلمين نودي فيها أن الصلاة جامعة فاجتمع الناس فصعد المنبر شيئا صنع له كان يخطب عليه وهي أول خطبة خطبها في الإسلام قال فحمد الله وأثنى عليه، ثم قال: يا أيها الناس ولوددت أن هذا كفانيه غيري ولئن أخذتموني بسنة نبيكم صلى الله عليه وسلم ما أطيقها إن كان لمعصوما من الشيطان وإن كان لينزل عليه الوحي من السماء. "حم".
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৪০৪৭
امارت اور خلافت کا بیان
خلافت ابی بکرالصدیق (رض)
14047 قیس بن ابی حازم سے مروی ہے کہ حضرت ابوبکر (رض) قبیل احمس کی ایک عورت کے پاس تشریف لے گئے جس کا نام زینب تھا۔ آپ نے دیکھا کہ وہ بولتی نہیں ہے۔ آپ نے پوچھا : یہ بولتی کیوں نہیں ہے ؟ لوگوں نے عرض کیا : اس نے (بغرض عبادت) نہ بولنے کا عزم کیا ہے۔ حضرت ابوبکر (رض) نے اس کو فرمایا : بولو، ایسا کرنا جائز نہیں ہے۔ یہ جاہلیت کا عمل ہے۔ چنانچہ وہ بولنے لگی۔ اس نے پوچھا : یہ دین جو جاہلیت کے بعد پھر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد اب تک درست نہج پر ہے اس کی بقاء و دوام کا کیا راستہ ہے ؟ حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے فرمایا : جب تک تمہارے (ائمہ) سیدھی راہ گامزن رہیں گے تم اس دین پر باقی رہو گے۔ اس نے پوچھا : ائمہ کون ہیں ؟ فرمایا : تمہاری قوم کے کچھ لوگ تم پر حکمرانی اور سرداری کرتے ہوں گے ؟ عرض کیا جی ہاں ۔ فرمایا : بس ائمہ (حکمران) انہی کے مثل ہوتے ہیں جو لوگوں پر امام ہوتے ہیں۔

مصنف ابن ابی شیبہ، البخاری، مسند الدارمی، مستدرک الحاکم، السنن للبیہقی
14047- عن قيس بن أبي حازم قال: دخل أبو بكر على امرأة من أحمس يقال لها: زينب فرآها لا تتكلم فقال: ما لها لا تتكلم؟ فقالوا: حجت مصمتة فقال لها: تكلمي فإن هذا لا يحل، هذا من عمل الجاهلية فتكلمت، قالت: ما بقاؤنا على هذا الأمر الصالح الذي جاء الله به بعد الجاهلية بعد النبي صلى الله عليه وسلم؟ قال: بقاؤكم عليه ما استقامت بكم أئمتكم، قالت: وما الأئمة؟ قال: أما كان لقومك رؤس وأشراف يأمرونهم ويطيعونهم؟ قالت: بلى، قال: فهم أمثال أولئك يكونون على الناس. "ش خ والدارمي ك ق".
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৪০৪৮
امارت اور خلافت کا بیان
خلافت ابی بکرالصدیق (رض)
14048 ابن ابی ملیکہ (رح) سے مروی ہے کہ حضرت ابوبکر (رض) کو کہا گیا : اے خلیفہ اللہ ! آپ (رض) نے فرمایا : میں خلیفۃ اللہ نہیں ہوں بلکہ خلیفۃ الرسول ہوں اور میں اس پر راضی ہوں۔

مصنف ابن ابی شیبہ ، مسند احمد، ابن سعد، ابن منیع
14048- عن ابن أبي مليكة قال: قيل لأبي بكر: يا خليفة الله فقال: لست خليفة الله ولكني خليفة رسول الله، وأنا راض بذلك. "ش حم وابن سعد وابن منيع"
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৪০৪৯
امارت اور خلافت کا بیان
خلافت ابی بکرالصدیق (رض)
14049 خالد بن سعید بن عمرو بن سعید بن العاص سے مروی ہے کہ مجھے میرے والد سعید نے بتایا کہ میرے چچاؤں خالد اور ابان اور (میرے والد) عمرو بن سعید بن العاص کو جب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کی خبر پہنچی تو یہ اپنے اپنے منصوبوں کو چھوڑ کر واپس مدینہ حاضر ہوگئے حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مقرر کردہ عاملوں (گورنروں) سے بڑھ کر کوئی ان کے منصوبوں کا حقدار نہیں ہے۔ لیکن انھوں نے کہا : ہم کسی اور کے واسطے منصب حکومت قبول نہیں کرسکتے، چنانچہ وہ شام چلے گئے اور سب کے سب شہادت کا جام نوش کر گئے۔

ابونعیم ، ابن عساکر
14049- عن خالد بن سعيد بن عمرو بن سعيد بن العاص، قال: حدثني أبي أن أعمامه خالدا وأبانا وعمرو بن سعيد بن العاص رجعوا عن أعمالهم حين بلغهم وفاة رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال أبو بكر: ما أحد احق بالعمل من عمال رسول الله صلى الله عليه وسلم فقالوا: لا نعمل لأحد فخرجوا إلى الشام فقتلوا عن آخرهم. "أبو نعيم كر".
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৪০৫০
امارت اور خلافت کا بیان
خلافت ابی بکرالصدیق (رض)
14050 حضرت حسن (رض) سے مروی ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے خطبہ ارشاد فرمایا : اللہ کی قسم ! میں تم سے بہتر نہیں ہوں۔ میں اس منصب کو اپنے لیے پسند نہیں کرتا۔ میری خواہش ہے کہ تمہارے اندر کوئی ایسا فرد ہو جو میری جگہ آجائے۔ تمہارا کیا خیال ہے کہ میں تم میں سنت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مطابق عمل کروں۔ تب تو میں اس امارت کا بار نہیں اٹھاسکتا۔ بیشک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تو وحی کے ساتھ حفاظت کی جاتی تھی اور آپ کے ساتھ ایک فرشتہ رہتا تھا جبکہ میرے ساتھ شیطان ہوتا ہے جو مجھے تنگ کرتا رہتا ہے، پس جب میں غصہ میں ہوں تو مجھے سے کنارہ کرو۔ کہیں میں تمہارے بالوں میں اور تمہاری کھالوں میں کسی کو ترجیح نہ دوں (کہ تم پر سزا نافذ کروں) دیکھو ! میری حفاظت نظر میں رکھو ! اگر میں درست چل رہا ہوں تو میری مدد کرو اور اگر میں کج روی اختیار کروں تو مجھے سیدھا کردو۔

حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں : اللہ کی قسم یہ آپ نے ایسا خطبہ ارشاد فرمایا تھا جس کے بعد ایسا کوئی خطبہ نہیں ارشاد فرمایا۔ ابن راھویہ ، ابوذر الھروی فی الجامع
14050- عن الحسن أن أبا بكر الصديق خطب فقال: أما والله ما أنا بخيركم ولقد كنت لمقامي هذا كارها، ولوددت أن فيكم من يكفيني أفتظنون أني أعمل فيكم بسنة رسول الله صلى الله عليه وسلم إذن لا أقوم بها، إن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يعصم بالوحي، وكان معه ملك، وإن لي شيطانا يعتريني فإذا غضبت فاجتنبوني أن لا أؤثر في أشعاركم وأبشاركم ألا فراعوني، فإن استقمت فاعينوني وإن زغت فقوموني قال الحسن: خطبة والله ما خطب بها بعده. "ابن راهويه أبو ذر الهروي في الجامع".
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৪০৫১
امارت اور خلافت کا بیان
خلافت ابی بکرالصدیق (رض)
14051 ابی بصرۃ سے مروی ہے کہ جب لوگوں نے حضرت ابوبکر (رض) کی بیعت میں تاخیر سے کام لیا تو آپ نے ارشاد فرمایا : کون ہے مجھ سے زیادہ اس منصب کا حقدار ؟ کیا تم میں میں نے سب سے پہلے نماز نہیں پڑھی ؟ کیا میں وہ شخص نہیں ہوں ؟ کیا میں ایسا شخص نہیں ہوں ؟ کیا میں فلاں فضیلت کا حامل نہیں ہوں ؟ اس طرح آپ نے ایسی کئی فضیلتیں بیان کیں جو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت سے آپ کو حاصل ہوئی تھیں۔ اور آپ کا مقصد محض اسلام میں پیدا ہونے والی دراڑ کو بھرنا تھا جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات سے پیدا ہوگئی تھی۔

ابن سعد، خیثمہ، الاطر ابلیس فی فضائل الصحابۃ (رض)
14051- عن أبي بصرة قال: لما أبطأ الناس عن أبي بكر قال: من أحق بهذا الأمر مني؟ ألست أول من صلى ألست ألست ألست فذكر خصالا فعلها مع النبي صلى الله عليه وسلم. "ابن سعد وخيثمة الاطرابلسي في فضائل الصحابة".
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৪০৫২
امارت اور خلافت کا بیان
خلافت ابی بکرالصدیق (رض)
14052 علی بن کثیر سے مروی ہے کہ حضرت ابوبکر (رض) نے حضرت ابوعبیدۃ بن الجراح (رض) کو فرمایا : تم آجاؤ میں تمہاری بیعت کرتا ہوں۔ کیونکہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے کہ تم اس امت کے امین ہوں۔ حضرت ابوعبیدۃ بن الجراح (رض) نے فرمایا : میں ایسا نہیں کرسکتا کہ ایسے شخص کے آگے کھڑا ہو کر نماز پڑھاؤں جس کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم دیا اور وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات تک ہماری امامت کراتے رہے (یعنی حضرت ابوبکر (رض)) ۔

ابن شاھین، ابوبکر الشافعی فی الغیلانیات، ابن عساکر
14052- عن علي بن كثير قال: قال أبو بكر لأبي عبيدة: هلم أبايعك فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: إنك أمين هذه الأمة، فقال أبو عبيدة: ما كنت لأفعل أن أصلي بين يدي رجل أمره رسول الله صلى الله عليه وسلم، فأمنا حتى قبض. "ابن شاهين وأبو بكر الشافعي في الغيلانيات كر".
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৪০৫৩
امارت اور خلافت کا بیان
خلافت ابی بکرالصدیق (رض)
14053 حضرت جابر (رض) سے مروی ہے کہ میں حضرت ابوبکر (رض) کے پاس کچھ مانگنے گیا۔ آپ نے مجھے منع فرمادیا۔ میں پھر مانگنے گیا آپ نے پھر منع فرمادیا۔ میں پھر گیا اور آپ نے منع فرمایا تو میں نے عرض کیا : یا تو آپ بخل فرما رہے ہیں ورنہ آپ کیوں نہیں کچھ دیدیتے ؟ حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا : کیا تو مجھے بخیل بنارہا ہے حالانکہ بخل سے بڑھ کر کوئی بیماری نہیں ہے تو جب بھی میرے پاس آیا میرا تجھے دینے کا ارادہ ہر دفعہ تھا (لیکن استطاعت نہ تھی) ۔

مصنف ابن ابی شیبہ، البخاری ، مسلم ، المحاملی فی امالیہ ، السنن للبیہقی
14053- عن جابر قال: أتيت أبا بكر أسأله فمنعني، ثم اتيته أسأله فمنعني، ثم أتيته أسأله فمنعني فقلت: إما تبخل وإما تعطي؟ فقال: أتبخلني وأي داء ادوأ من البخل، ما أتيتني من مرة إلا وأنا أريد أن أعطيك. "ش خ م والمحاملي في أماليه ق".
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৪০৫৪
امارت اور خلافت کا بیان
خلافت ابی بکرالصدیق (رض)
14054 ہمیں معمر نے زہری سے، انھوں نے کعب بن عبدالرحمن بن مالک سے انھوں نے اپنے والد عبدالرحمن سے روایت نقل کی ہے کہ حضرت معاذ بن جبل (رض) اپنی قوم کے جوانوں میں سے نوجوان، فیاض اور خوبصورت شخص تھے۔ کوئی چیز نہیں روک کر رکھتے تھے۔ حتیٰ کہ مقروض ہوتے چلے گئے اور قرض نے ان کا سارا مال احاطہ کرلیا۔ پھر وہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے تاکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے قرضخواہوں سے ان کے لیے کچھ کمی کرنے کا مطالبہ کریں۔ لیکن پھر بھی قرضخواہوں نے اپنے قرض میں کسی کمی کرنے کا امکان مسترد کردیا۔ اگر وہ کسی کے لیے قرض چھوڑتے تو حضور کی وجہ سے معاذ بن جبل کا قرض ضرور چھوڑ دیتے۔ چنانچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے معاذ (رض) کا سارا مال ان کے قرض میں فروخت کردیا (اور معاذ (رض)) بغیر کسی مال کے کھڑے کے کھڑے رہ گئے جب فتح مکہ کا سال ہوا تو حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یمن کے ایک گروہ پر ان کو امیر بنا کر بھیجا تاکہ وہ اپنا نقصان بھی پورا کرسکیں۔ حضرت معاذ (رض) یمن میں امیر کے عہدے پر متمکن رہے اور یہ سب سے پہلے شخص ہیں جنہوں نے اللہ کے مال (بیت المال) میں تجارت کی۔ وہ اسی طرح کچھ عرصہ رہے حتیٰ کہ مالدار ہوگئے۔ اور نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وافت بھی ہوگئی۔

جب یہ یمن سے واپس تشریف لائے تو حضرت عمر (رض) نے حضرت ابوبکر (رض) کو عرض کیا : آپ سے اس شخص کو بلوائیں اور جو اس کے گزر بسر کے لیے ضروری مال ہو وہ اس کے پاس چھوڑ دیں اور بقیہ سارا مال لے (کر بیت المال کے حوالے کر) دیں۔

حضرت ابوبکر (رض) نے ارشاد فرمایا : نہیں، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو (یمن) اسی لیے بھیجا تھا کہ یہ اتنا نقصان پورا کرلیں، اس لیے میں ان سے کچھ نہیں لوں گا الایہ کہ یہ مجھے از خود دیدیں۔ چنانچہ حضرت عمر (رض) ، حضرت معاذ (رض) کے پاس ازخود گئے کیونکہ ابوبکر (رض) نے ان کی بات نہ مانی تھی۔ حضرت عمر (رض) نے حضرت معاذ (رض) سے یہ مطالبہ کیا۔ حضرت معاذ (رض) نے جواب دیا : مجھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسی لیے بھیجا تھا تاکہ میں اپنے نقصان کی تلافی کروں۔ لہٰذا میں ایسا نہیں کرسکتا۔

پھر حضرت معاذ (رض) نے حضرت عمر (رض) سے خود ملاقات کی اور بولے : میں آپ کی اطاعت کرتا ہوں۔ جو آپ نے مجھے حکم دیا تھا میں اس کو پورا کروں گا۔ میں نے خواب میں دیکھا تھا کہ میں پانی کے تالاب میں ڈوب رہا ہوں پھر آپ نے مجھے وہاں سے نکالا تھا اے عمر ! چنانچہ حضرت معاذ (رض) حضرت ابوبکر (رض) کے پاس حاضر خدمت ہوئے اور ان کو ساری بات سنائی اور حلف اٹھایا کہ وہ اپنے مال میں سے کچھ بھی نہ چھپائیں گے پھر انھوں نے اپنا سارا مال تفصیل سے بیان کردیا حتیٰ کہ اپنا کوڑا تک نہ چھوڑا۔ حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا : اللہ کی قسم ! میں تم کو جو ہبہ کر چکاہوں واپس ہرگز نہ لوں گا۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : اب ان لے لینا حلال ہوچکا ہے کیونکہ یہ بخوشی دے رہے ہیں۔

پھر حضرت معاذ (رض) اپنا سارا مال اللہ کی راہ میں دے کر جہاد کی غرض سے ملک شام نکل گئے۔ معمر کہتے ہیں : مجھے قریش کے ایک شخص نے خبر دی کہ میں نے امام شہاب زہری (رح) سے سنا ہے کہ جب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے معاذ (رض) کا مال قرض خواہوں کو فروخت کردیا تو پھر ان کو لوگوں کے برسرعام کھڑا کیا اور ارشاد فرمایا : جو شخص اس کو کوئی مال فروخت کرے وہ سودا باطل (کالعدم) ہے۔

الجامع لعبد الرزاق

ابن راھویہ
14054- أخبرنا معمر عن الزهري عن كعب بن عبد الرحمن بن مالك عن أبيه قال: كان معاذ بن جبل رجلا سمحا شابا جميلا من أفضل شباب قومه وكان لا يمسك شيئا فلم يزل يدان حتى أغلق ماله كله من الدين فأتي النبي صلى الله عليه وسلم يطلب له أن يسأل له غرماه أن يضعوا له فأبوا فلو تركوا لأحد من أجل أحد تركوا لمعاذ من أجل النبي صلى الله عليه وسلم، فباع النبي صلى الله عليه وسلم كل ماله في دينه، حتى قام معاذ بغير شيء، حتى إذا كان عام فتح مكة بعثه النبي صلى الله عليه وسلم على طائفة من اليمن أميرا ليجبره، فمكث معاذ باليمن أميرا وكان أول من اتجر في مال الله هو، ومكث حتى أصاب وحتى قبض النبي صلى الله عليه وسلم، فلما قدم قال عمر لأبي بكر: أرسل إلى هذا الرجل فدع له ما يعيشه وخذ سائره، فقال أبو بكر:

إنما بعثه النبي صلى الله عليه وسلم ليجبره، ولست بآخذ منه شيئا إلا أن يعطيني، فانطلق عمر إلى معاذ إذ لم يطعه أبو بكر فذكر ذلك عمر لمعاذ فقال: إنما أرسلني رسول الله صلى الله عليه وسلم ليجبرني ولست بفاعل، ثم لقي معاذ عمر فقال: قد اطعتك، وأنا فاعل ما أمرتني به، إني رأيت في المنام أني في حومة ماء قد خشيت الغرق فخلصتني منه يا عمر، فأتى معاذ أبا بكر فذكر ذلك له وحلف له أنه لم يكتمه شيئا حتى بين له سوطه، فقال أبو بكر: والله لا آخذه منك قد وهبته لك فقال عمر: هذا حين طاب وحل، فخرج معاذ عند ذلك إلى الشام، قال معمر: فأخبرني رجل من قريش، قال: سمعت الزهري يقول: لما باع النبي صلى الله عليه وسلم مال معاذ أوقفه للناس، فقال: من باع هذا شيئا فهو باطل. "عب وابن راهويه".
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৪০৫৫
امارت اور خلافت کا بیان
خلافت ابی بکرالصدیق (رض)
14055 شعبی (رح) سے مروی ہے حضرت ابوبکر (رض) نے حضرت علی (رض) کو فرمایا : کیا تم میری امارت (حکومت) کو ناپسند کرتے ہو ؟ حضرت علی (رض) نے جواب دیا : نہیں، حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا : تم سے پہلے میں اسی (فکر) میں تھا۔ ابن ابی شیبہ
14055- عن الشعبي قال: قال أبو بكر لعلي: أكرهت إمارتي؟ قال: لا قال أبو بكر: إني كنت في هذا الأمر قبلك. "ش".
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৪০৫৬
امارت اور خلافت کا بیان
خلافت ابی بکرالصدیق (رض)
14056 غفرۃ کے آزاد کردہ غلام عمر سے مروی ہے کہ جب رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات ہوگئی تو بحرین سے کچھ مال آیا۔ حضرت ابوبکر (رض) نے اعلان کروادیا کہ جس کا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کچھ حساب ہو یا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو کچھ دینے کا وعدہ کیا ہو تو وہ آکر اپنا حق وصول کرلے۔ حضرت جابر (رض) نے کھڑے ہو کر عرض کیا : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا تھا کہ اگر ہمارے پاس بحرین سے مال آیا تو میں تجھے اتنا اتنا مال دوں گا اور پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے ہاتھ کی مٹھی تین بار بھری۔ حضرت ابوبکر (رض) حضرت جابر (رض) کو فرمایا : اٹھ کھڑا ہو اور اپنے ہاتھ سے لے لے۔

انہوں نے ایک مٹھی درہم لے لیے وہ پانچ سو درہم نکلے۔ پھر آپ (رض) نے فرمایا : ان کو ایک ہزار درہم اور گن دو ۔ اس کے بعد حضرت ابوبکر (رض) نے تمام لوگوں کے درمیان دس دس درہم تقسیم فرمادیئے اور ارشاد فرمایا : یہ وہ وعدے ہیں جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں سے فرمائے تھے۔ پھر جب آئندہ سال آیا تو اس سے زیادہ مال آیا۔ حضرت ابوبکر (رض) نے اس سال بیس بیس درہم سب لوگوں میں تقسیم فرمائے۔ پھر بھی کچھ مال باقی بچ گیا تو آپ نے خادموں (غلاموں ) کو بھی پانچ پانچ درہم عطا فرمائے۔ اور ارشاد فرمایا : تمہارے خادم جو تمہاری خدمت کرتے ہیں اور تمہارے کام کاج میں مشغول رہتے ہیں ان کو بھی ہم نے مال دیا ہے۔ لوگوں نے کہا : اگر آپ مہاجرین اور انصار کو کچھ فضیلت دیں تو اچھا ہو کیونکہ یہ اسلام میں سبقت کرنے والے ہیں اور ان کا مرتبہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاں زیادہ ہے۔ حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا : ان کا اجر اللہ پر ہے۔ یہ مال تو محض ان کی تسلی کے لیے ہے یہ تھوڑا تھوڑا مال سب کو دینا کسی کسی کو ترجیح دینے سے بہتر ہے۔ چنانچہ حضرت ابوبکر (رض) نے اپنے عہد حکومت میں یہی طرز عمل رکھا۔ حتیٰ کہ جب سن تیرہ ہجری کے جمادی الآخر کی چند راتیں رہ گئیں تو حضرت ابوبکر (رض) کی وفات ہوگئی۔ (رض) وارضاہ۔

حضرت عمر (رض) خلیفہ بنے اور فتوحات کیں، ان کے پاس بہت مال آیا۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : اس مال میں حضرت ابوبکر (رض) کی اپنی رائے تھی، لیکن میری رائے اور ہے۔ میں اس شخص کو جس نے کبھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے قتال کیا اور آپ کے مدمقابل ہوا اس کو میں اس شخص کے برابر ہرگز نہیں کرسکتا جس نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی معیت میں آپ کی حفاظت کے لیے قتال کیا۔ پھر حضرت عمر (رض) نے مہاجرین، انصار اور ان لوگوں کے لیے جو جنگ بدر میں شریک ہوئے ان کے لیے پانچ ہزار پانچ ہزار درہم مقرر فرمائے۔ جن کا اسلام بدریوں کا اسلام تھا لیکن وہ جنگ بدر میں کسی مجبوری کی وجہ سے حاضر نہ ہوسکے ان کے لیے چار چار ہزار درہم مقررکیے۔

نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ازواج مطہرات کے لیے بارہ بارہ ہزار درہم مقرر کیے، سوائے صفیہ اور جویریہ کے ان کے لیے چھ چھ ہزار درہم مقرر کیے۔ لیکن دونوں نے لینے سے انکار کردیا۔ آپ (رض) نے ان کو فرمایا : میں نے ان کے لیے دگنی مقدار ان کے ہجرت کرنے کی وجہ سے مقرر کی ہے۔ دونوں نے عرض کیا : نہیں، آپ نے ان کے لیے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نزدیک ان کے مرتبے کی وجہ سے یہ مقدار مقرر کی ہے۔ اور یہی مرتبہ ہمارا بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس تھا۔ چنانچہ حضرت عمر (رض) نے ان کے لیے بھی بارہ بارہ ہزار درہم مقرر فرمائے۔

اسامہ بن زید کے لیے چار ہزار درہم مقرر کیے جبکہ اپنے بیٹے عبداللہ بن عمر کے لیے تین ہزار درہم مقرر کیے۔ بیٹے نے کہا : ابا جان ! ان کو آپ نے مجھ سے ایک ہزار درہم زیادہ کیوں عطا فرمائے۔ حالانکہ ان کا باپ میرے باپ سے زیادہ فضیلت نہیں رکھتا، اس طرح یہ بھی مجھ سے زیادہ فضیلت نہیں رکھتے۔ حضرت عمر (رض) نے ارشاد فرمایا : اسامہ کا باپ زید حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تیرے باپ سے زیادہ محبوب تھا، اسی طرح اسامہ بھی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تجھ سے زیادہ محبوب تھا۔

پھر حضرت عمر (رض) نے حضرات حسنین (حسن و حسین) کے لیے پانچ پانچ ہزار درہم مقرر کیے کیونکہ ان کا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاں اپنا مقام تھا۔ اسی طرح مہاجرین اور انصار کے بیٹوں کے لیے دو دو ہزار درہم مقرر کیے۔ عمر بن ابی سلمہ کا آپ (رض) کے پاس سے گزر ہوا تو آپ (رض) نے فرمایا ان کے لیے ایک ہزار درہم زیادہ کردو۔ محمد بن عبداللہ بن جحش نے عرض کیا : ان کے باپ کی ہمارے باپ سے اور ان کی ہم سے زیادہ کیا فضیلت ہے۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : میں ان کے باپ ابوسلمہ کی وجہ سے ان کے لیے دو ہزار درہم مقرر کیے پھر ان کی ماں ام سلمہ (رض) ام المومنین زوجہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وجہ سے ایک ہزار درہم زیادہ کردیئے اگر تمہاری ماں کی بھی ایسی فضیلت ہو تو میں تمہارے لیے بھی ہزار ہزار درہم بڑھا دوں گا۔ حضرت عمر (رض) نے اہل مکہ اور عام لوگوں کے لیے آٹھ آٹھ سو درہم مقرر کیے۔ اس دوران طلحہ بن عبیداللہ اپنے بیٹے عثمان کو لے کر آئے، حضرت عمر (رض) نے ان کے لیے بھی آٹھ سو درہم مقرر کیے۔ پھر نضر بن انس (رض) آپ کے پاس سے گزرے تو آپ نے فرمایا ان کو دو ہزار والوں میں شامل کردو۔

طلحہ (رض) نے عرض کیا : میں بھی اس کے مثل (اپنے بیٹے عثمان کو) لایا تھا ان کے لیے آپ نے آٹھ سو درہم مقرر کیے اور اس کے لیے دو ہزار درہم مقرر کردیئے۔ حضرت عمر (رض) نے ارشاد فرمایا : اس (نضر بن انس) کا باپ (انس) مجھے جنگ احد میں ملا تھا۔ اس نے مجھے سے پوچھا : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کیا ہوا ؟ میں نے کہا : میرا خیال ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جام شہادت نوش کر گئے ہیں۔ یہ سن کر اس کے باپ نے تلوار نیام سے سونت لی، نیام توڑ ڈالی اور بولے : اگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شہید ہوگئے ہیں تو اللہ تو زندہ ہے کبھی نہ مرے گا پھر وہ جنگ کی چکی میں گھس گئے اور قتال کرتے کرتے شہید ہوگئے۔ اس وقت یہ بچہ فلاں فلاں جگہ بکریاں چراتا تھا۔ پھر عمر کو یہ ذمہ داری مل گئی۔ مصنف ابن ابی شیبہ ، الحسن بن سفیان، مسند البزار، السنن للبیہقی

ابن سعد (رح) نے اس کا اول حصہ ذکر کیا ہے۔
14056- عن عمر مولى غفرة قال: لما توفى رسول الله صلى الله عليه وسلم جاء مال من البحرين فقال أبو بكر: من كان له على رسول الله صلى الله عليه وسلم شيء أو عدة فليقم فليأخذ، فقام جابر فقال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: إن جاءني مال من البحرين لأعطينك هكذا وهكذا ثلاث حثا بيده، فقال له أبو بكر: قم فخذ بيدك فأخذ فإذا هي خمس مائة درهم فقال: عدوا له ألفا وقسم بين الناس عشرة دراهم عشرة دراهم، وقال: إنما هذه مواعيد وعدها رسول الله صلى الله عليه وسلم الناس حتى إذا كان عام مقبل جاءه مال أكثر من ذلك المال فقسم بين الناس عشرين درهما عشرين درهما وفضلت منه فضلة فقسم للخدم خمسة دراهم خمسة دراهم وقال: إن لكم خداما يخدمون لكم ويعالجون لكم فرضخنا لهم فقالوا: لو فضلت المهاجرين والأنصار لسابقتهم ولمكانهم من رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: أجر أولئك على الله، إن هذا المعاش للأسوة فيه خير من الأثرة فعمل بهذا ولايته، حتى إذا كان سنة ثلاث عشرة في جمادى الآخرة في ليال بقين منه مات رضي الله عنه فعمل عمر بن الخطاب ففتح الفتوح وجاءته الأموال فقال: إن أبا بكر رأى في هذا المال رأيا ولي فيه رأي آخر لا أجعل من قاتل رسول الله صلى الله عليه وسلم كمن قاتل معه ففرض للمهاجرين والأنصار ومن شهد بدرا خمسة آلاف خمسة آلاف، وفرض لمن كان له إسلام كإسلام أهل بدر ولم يشهد بدرا أربعة آلاف أربعة آلاف، وفرض لأزواج النبي صلى الله عليه وسلم اثنى عشر ألفا اثنى عشر ألفا إلا صفية وجويرية ففرض لهما ستة آلاف ستة آلاف فأبتا أن تقبلا، فقال لهما: إنما فرضت لهن للهجرة فقالتا، إنما فرضت لهن لمكانهن من رسول الله صلى الله عليه وسلم وكان لنا مثله، فعرف ذلك عمر ففرض لهما اثنى عشر ألفا اثنى عشر ألفا وفرض للعباس اثنى عشر ألفا، وفرض لأسامة بن زيد أربعة آلاف وفرض لعبد الله ابن عمر ثلاثة آلاف، فقال: يا أبت لم زدته علي ألفا ما كان لأبيه من الفضل ما لم يكن لأبي، وما كان له ما لم يكن لي، فقال: إن أبا أسامة كان أحب إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم من أبيك وكان أسامة أحب إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم منك، وفرض لحسن وحسين خمسة آلاف خمسة آلاف لمكانهما من رسول الله صلى الله عليه وسلم وفرض لأبناء المهاجرين والأنصار ألفين ألفين، فمر به عمر بن أبي سلمة فقال: زيدوه ألفا فقال له محمد بن عبد الله بن جحش: ما كان لأبيه ما لم يكن لأبينا وما كان له ما لم يكن لنا، فقال: إني فرضت له بأبيه أبي سلمة ألفين وزدته بأمه أم سلمة ألفا فإن كانت لكم أم مثل أمه زدتكم ألفا، وفرض لأهل مكة وللناس ثمانمائة ثمانمائة فجاءه طلحة بن عبيد الله بابنه عثمان ففرض له ثمان مائة فمر به النضر بن أنس فقال عمر: افرضوا له في ألفين فقال طلحة: جئتك بمثله ففرضت له ثمانمائة وفرضت لهذا ألفين، فقال: إن أبا هذا لقيني يوم أحد، فقال لي: ما فعل رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ فقلت: ما أراه إلا قد قتل، فسل سيفه وكسر غمده، وقال: إن كان رسول الله صلى الله عليه وسلم قد قتل فإن الله حي لا يموت، فقاتل حتى قتل وهذا يرعى الشاة في مكان كذا وكذا فعمل عمر هذا خلافته. "ش والحسن بن سفيان والبزار ق" وروى ابن سعد صدره
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৪০৫৭
امارت اور خلافت کا بیان
خلافت ابی بکرالصدیق (رض)
14057 حضرت عائشہ (رض) سے مروی ہے کہ جب حضرت ابوبکر (رض) کو خلیفہ بنایا گیا تو آپ (رض) نے ارشاد فرمایا : میرا پیشہ میرے اہل خانہ کے خرچ اٹھانے سے کمزور نہ تھا لیکن اب میں مسلمانوں کے کام میں مشغول ہوگیا ہوں ۔ پس اب آل ابی بکر اس مال میں سے کھائے گی اور مسلمانوں کے لیے اس میں کام کروں گا۔ البخاری، ابوعبید فی الاموال، ابن سعد، السنن للبیہقی
14057- عن عائشة قالت: لما استخلف أبو بكر قال: لقد علم قومي أن حرفتي لم تكن تعجز عن مؤنة أهلي، وقد شغلت بأمر المسلمين، فيأكل آل أبي بكر من هذا المال وأحترف للمسلمين فيه. "خ وأبو عبيد في الأموال وابن سعد ق"
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৪০৫৮
امارت اور خلافت کا بیان
خلافت ابی بکرالصدیق (رض)
14058 عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) سے مروی ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق (رض) جمعہ کے دن کھڑے ہوئے ارشاد فرمایا : اگلے روز صبح کو صدقات کے اونٹ حاضر کیے جائیں تاکہ ہم ان کو تقسیم کردیں۔ اور کوئی شخص بغیر اجازت (باڑے میں) ہمارے پاس نہ آئے۔ ایک عورت نے اپنے شوہر کو کہا : یہ اونٹ کی نکیل ڈالنے والی رسی لے لو شاید اللہ پاک ہم کو تقسیم میں کوئی اونٹ عنایت کردے۔ وہ آدمی رسی لے کر آیا ۔ اس وقت حضرت ابوبکر اور عمر (رض) اندر داخل ہوچکے تھے۔ چنانچہ آدمی بھی اندر چلا گیا۔ حضرت ابوبکر (رض) اس کی طرف متوجہ ہوئے پوچھا : تو کیوں آیا ہے ؟ پھر اس سے رسی لے کر اس کو مارا۔ پھر جب حضرت ابوبکر (رض) اونٹوں کی تقسیم سے فارغ ہوچکے تو اس آدمی کو بلوایا اور اس کی رسی اس کو دی اور فرمایا ایک اونٹ کو ہانک کرلے جا۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : اللہ کی قسم ! اس طریقے کو رائج نہ ہونے دیں۔ حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا : پھر قیامت کے دن اللہ سے مجھے کون بچائے گا ؟ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : آپ اس کو راضی کرلیں ۔ پھر حضرت ابوبکر (رض) نے ایک سواری کا اونٹ بمعہ کجاوہ لانے کا حکم دیا اور اس کے ساتھ ایک چادر اور پانچ دینار منگوائے اور یہ سارا مال اس آدمی کو دیدیا۔ اور اس کو خوش کردیا۔ السنن للبیہقی

ابن وھب نے اپنی جامع میں اس کا آخری حصہ نقل کیا ہے۔
14058- عن عبد الله بن عمرو بن العاص أن أبا بكر الصديق قام يوم جمعة، فقال: إذا كان بالغداة فأحضروا صدقات الإبل نقسم ولا يدخل علينا أحد إلا بإذن، فقالت امرأة لزوجها: خذ هذا الخطام لعل الله يرزقنا جملا فأتى الرجل فوجد أبا بكر وعمر قد دخلا إلى الإبل فدخل معهما، فالتفت أبو بكر فقال: ما أدخلك علينا؟ ثم أخذ منه الخطام، فضربه، فلما فرغ أبو بكر من قسم الإبل دعا بالرجل فأعطاه الخطام وقال: استقد فقال له عمر: والله لا يستقيد لا تجعلها سنة، قال أبو بكر: فمن لي من الله يوم القيامة؟ فقال عمر: أرضه، فأمر أبو بكر غلامه أن يأتيه براحلة ورحلها وقطيفة وخمسة دنانير فأرضاه بها. "ق" وروى آخره ابن وهب في جامعه.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৪০৫৯
امارت اور خلافت کا بیان
خلافت ابی بکرالصدیق (رض)
14059 ابن اسحاق (رح) سے مروی ہے کہ خلافت کا بار اٹھانے والے دن حضرت ابوبکر (رض) نے اپنے خطبہ میں ارشاد فرمایا :

مسلمانوں کے لیے یہ حلال نہیں ہے کہ ان کے دو امیر ہوں (جیسا کہ انصار کی رائے ہے) کیونکہ اس صورت میں مسلمانوں کا معاملہ اختلاف کا شکار ہوجائے گا، ان کے احکام اور ان کی متحد جماعت منتشر ہوجائے گی۔ وہ آپس میں تنازعہ کریں گے۔ ایسی صورت میں سنت چھوٹ جائے گی بدعت ظاہر ہوجائے گی اور فتنہ غالب ہوجائے گا پھر کوئی شخص اس بگاڑ کو سدھارنہ دے سکے گا۔

اور یہ بار خلافت قریش میں رہے گا جب تک کہ وہ اللہ کی عبادت کرتے رہیں اور سیدھی راہ پر گامزن رہیں۔ یہ بات تم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سن چکے ہوگے۔ پس اب نزاع۔ اور جھگڑانہ کرو ورنہ تم کمزور اور بودے ہوجاؤ گے اور تمہاری ہوا نکل جائے گی۔ اور صبرکرو۔ بیشک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ ہم (قریشی) امیر بنتے ہیں اور تم (انصاری) ہمارے وزیر بنو، دین میں ہمارے بھائی بنے رہو اور اس امر پر ہمارے مددگار بنے رہو۔

اس کے بعد حضرت عمر (رض) نے خطبہ ارشاد فرمایا : اے گروہ انصار ! میں تم کو اللہ کا واسطہ دیتا ہوں کیا تم نے رسول اللہ سے نہیں سنایا تم میں سے کسی نے سنا ہو کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا :

الولاۃ من قریش مااطعوا اللہ واستقاموا علی امرہ

حکام قریش میں ہوں گے جب تک کہ وہ اللہ کی اطاعت کرتے رہیں اور اس کے دین پر ثابت قدم رہیں۔

تب انصار میں سے کچھ لوگوں نے کہا : ہاں اب ہم کو یاد آگیا ہے۔

پھر حضرت عمر (رض) نے ارشاد فرمایا : پس ہم بھی اس امارت و حکومت کو اسی حکم کی وجہ سے مانگتے ہیں، پس تم کو خواہشیں گمراہ نہ کردیں۔ پس حق آنے کے بعد پیچھے گمراہی ہی ہے پھر تم کہاں بھٹکے جارہے ہو۔ السنن للبیہقی
14059- عن ابن إسحاق قال في خطبة أبي بكر يومئذ وإنه لا يحل أن يكون للمسلمين أميران، فإنه مهما يكن ذلك يختلف أمرهم وأحكامهم وتتفرق جماعتهم، ويتنازعون فيما بينهم، هنالك تترك السنة وتظهر البدعة وتعظم الفتنة، وليس لأحد على ذلك صلاح. وإن هذا الأمر في قريش ما أطاعوا الله واستقاموا على أمره، قد بلغكم ذلك أو سمعتموه عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، ولا تنازعوا فتفشلوا وتذهب ريحكم واصبروا إن الله مع الصابرين فنحن الأمراء وأنتم الوزراء إخواننا في الدين وأنصارنا عليه، وفي خطبة عمر بعده نشدتكم بالله يا معشر الأنصار ألم تسمعوا رسول الله صلى الله عليه وسلم أو من سمعه منكم وهو يقول: الولاة من قريش ما أطاعوا الله واستقاموا على أمره، فقال من قال من الأنصار: بلى الآن ذكرنا، قال: فإنا لا نطلب هذا الأمر إلا بهذا فلا تستهوينكم الأهواء، فليس بعد الحق إلا الضلال فأنى تصرفون. "ق".
tahqiq

তাহকীক: