আসসুনানুল কুবরা (বাইহাক্বী) (উর্দু)
السنن الكبرى للبيهقي
وکالہ کا بیان - এর পরিচ্ছেদসমূহ
মোট হাদীস ১৫ টি
হাদীস নং: ১১৪৩৭
وکالہ کا بیان
وکیل مقرر کرنا مال میں، حقوق میں ، ان کی ادائیگی میں اور قربانیاں ذبح کرنے میں، ان کو تقسیم کرنے میں، خریدنے میں، فروخت کرنے میں اور اس کے علاوہ دیگر اخراجات میں
(١١٤٣٢) جابر بن عبداللہ (رض) فرماتے ہیں : میں نے خیبر کی طرف جانے کا ارادہ کیا، میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور میں نے سلام کہا اور کہا کہ میں خیبر کی طرف جانے کا ارادہ رکھتا ہوں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب تو میرے وکیل کے پاس جائے تو اس سے پندرہ وسق کھجور لے لینا۔ پس اگر وہ تجھ سے کوئی نشانی مانگے تو اپنا ہاتھ اس کے گلے پر رکھ دینا۔
(۱۱۴۳۲) أَخْبَرَنَا أَبُو عَلِیٍّ الرُّوذْبَارِیُّ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ دَاسَۃَ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا عُبیْدُ اللَّہِ بْنُ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاہِیمَ حَدَّثَنَا عَمِّی حَدَّثَنَا أَبِی عَنْ ابْنِ إِسْحَاقَ عَنْ أَبِی نُعَیْمٍ : وَہْبِ بْنِ کَیْسَانَ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ أَنَّہُ سَمِعَہُ یُحَدِّثُ قَالَ : أَرَدْتُ الْخُرُوجَ إِلَی خَیْبَرَ فَأَتَیْتُ النَّبِیَّ -ﷺ- فَسَلَّمْتُ عَلَیْہِ وَقُلْتُ : إِنِّی أَرَدْتُ الْخُرُوجَ إِلَی خَیْبَرَ فَقَالَ : إِذَا أَتَیْتَ وَکِیلِی فَخُذْ مِنْہُ خَمْسَۃَ عَشَرَ وَسْقًا فَإِنِ ابْتَغَی مِنْکَ آیَۃً فَضَعْ یَدَکَ عَلَی تَرْقُوَتِہِ ۔ [ضعیف۔ ابو داؤد ۳۶۳۲]

তাহকীক:
হাদীস নং: ১১৪৩৮
وکالہ کا بیان
وکیل مقرر کرنا مال میں، حقوق میں ، ان کی ادائیگی میں اور قربانیاں ذبح کرنے میں، ان کو تقسیم کرنے میں، خریدنے میں، فروخت کرنے میں اور اس کے علاوہ دیگر اخراجات میں
(١١٤٣٣) حضرت علی (رض) سے روایت ہے کہ مجھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم دیا کہ میں قربانیوں پر کھڑا ہوں اور مجھے ان کا گوشت تقسیم کرنے کا ، ان کی جھول اور ان کا چمڑا تقسیم کرنے کا حکم دیا۔
(۱۱۴۳۳) حَدَّثَنَا أَبُو الْحَسَنِ : مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَیْنِ الْعَلَوِیُّ أَخْبَرَنَا أَبُو حَامِدِ بْنُ الشَّرْقِیِّ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَفْصِ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ حَدَّثَنِی أَبِی حَدَّثَنِی إِبْرَاہِیمُ بْنُ طَہْمَانَ عَنْ سُفْیَانَ الثَّوْرِیِّ عَنِ ابْنِ أَبِی نَجِیحٍ عَنْ مُجَاہِدٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی لَیْلَی عَنْ عَلِیٍّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : أَمَرَنِی رَسُولُ اللَّہِ -ﷺ- فَقُمْتُ عَلَی الْبُدْنِ فَأَمَرَنِی فَقَسَمْتُ لُحُومَہَا ثُمَّ أَمَرَنِی فَقَسَمْتُ جِلاَلَہَا وَجُلُودَہَا۔ [بخاری ۱۹۴۰، مسلم ۱۳۱۷]

তাহকীক:
হাদীস নং: ১১৪৩৯
وکالہ کا بیان
وکیل مقرر کرنا مال میں، حقوق میں ، ان کی ادائیگی میں اور قربانیاں ذبح کرنے میں، ان کو تقسیم کرنے میں، خریدنے میں، فروخت کرنے میں اور اس کے علاوہ دیگر اخراجات میں
(١١٤٣٤) ایک روایت کے الفاظ ہیں : مجھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قربانیوں پر مقرر کیا۔ حضرت ابوہریرہ (رض) کی روایت اس آدمی کے قصہ میں ہے جس نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اونٹوں کا تقاضا کیا تھا جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر تھے کہ اس کے لیے اونٹ خریدو اور اسے وہی دے دو ۔ ایک روایت کے الفاظ میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اس کو دو اور زیادہ بھی دینا۔ چنانچہ انھوں نے چار دینار اور ایک قیراط زائد دیا۔
(۱۱۴۳۴) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ الْمَحْبُوبِیُّ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سَیَّارٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ کَثِیرٍ أَخْبَرَنَا سُفْیَانُ حَدَّثَنِی ابْنُ أَبِی نَجِیحٍ فَذَکَرَہُ بِنَحْوِہِ إِلاَّ أَنَّہُ قَالَ : بَعَثَنِی رَسُولُ اللَّہِ -ﷺ- عَلَی الْبُدْنِ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ کَثِیرٍ وَأَخْرَجَہُ مُسْلِمٌ مِنْ وَجْہٍ آخَرَ عَنِ ابْنِ أَبِی نَجِیحٍ۔ 
وَقَدْ رُوِّینَا فِی حَدِیثِ أَبِی ہُرَیْرَۃَ فِی قِصَّۃِ الرَّجُلِ الَّذِی تَقَاضَی رَسُولَ اللَّہِ -ﷺ- سِنًّا کَانَتْ لَہُ عَلَیْہِ : اشْتَرُوا لَہُ بَعِیرًا فَأَعْطُوہُ إِیَّاہُ ۔ وَفِی حَدِیثِ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ فِی قِصَّۃِ بَیْعِ بَعِیرِہِ مِنَ النَّبِیِّ -ﷺ- : یَا بِلاَلُ اقْضِہِ وَزِدْہُ ۔ فَأَعْطَاہُ أَرْبَعَۃَ دَنَانِیرَ وَزَادَہُ قِیرَاطًا۔ [صحیح]
وَقَدْ رُوِّینَا فِی حَدِیثِ أَبِی ہُرَیْرَۃَ فِی قِصَّۃِ الرَّجُلِ الَّذِی تَقَاضَی رَسُولَ اللَّہِ -ﷺ- سِنًّا کَانَتْ لَہُ عَلَیْہِ : اشْتَرُوا لَہُ بَعِیرًا فَأَعْطُوہُ إِیَّاہُ ۔ وَفِی حَدِیثِ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ فِی قِصَّۃِ بَیْعِ بَعِیرِہِ مِنَ النَّبِیِّ -ﷺ- : یَا بِلاَلُ اقْضِہِ وَزِدْہُ ۔ فَأَعْطَاہُ أَرْبَعَۃَ دَنَانِیرَ وَزَادَہُ قِیرَاطًا۔ [صحیح]

তাহকীক:
হাদীস নং: ১১৪৪০
وکالہ کا بیان
وکیل مقرر کرنا مال میں، حقوق میں ، ان کی ادائیگی میں اور قربانیاں ذبح کرنے میں، ان کو تقسیم کرنے میں، خریدنے میں، فروخت کرنے میں اور اس کے علاوہ دیگر اخراجات میں
(١١٤٣٥) ابو عامر عبداللہ ہوزنی فرماتے ہیں : نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مؤذن بلال کو حلب مقام پر ملا۔ میں نے کہا : اے بلال ! ہمیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اللہ کے راستے میں خرچ کرنے کے بارے میں آگاہ کرو۔ بلال کہنے لگے : جب سے اللہ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مبعوث کیا، اس وقت سے وفات تک آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی کوئی چیز ایسی نہیں جس کا میں والی نہ بنا ہوں۔ جب آپ کے پاس کوئی مسلمان آتا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسے ننگا دیکھ لیتے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجھے حکم دیتے، میں جاتا اور قرض لے کر چادر خرید کر لاتا یا کوئی چیز اور میں اسے پہنادیتا اور اسے کھلاتا۔ یہاں تک کہ مشرکین کے ایک آدمی نی مجھ پر اعتراض کیا اور کہا : اے بلال ! بیشک میں اتنی وسعت والا ہوں۔ میرے علاوہ کسی اور سے قرض نہ لینا ، چنانچہ میں نے اس سے قرض لینا شروع کردیا۔ ایک دن میں نے وضو کیا، نماز کے لیے اذان کہنے لگا تو وہ مشرک آدمی تاجروں کی ایک جماعت میں سے نمودار ہوا۔ مجھے دیکھا تو کہنے لگا : اے حبشی ! میں نے ہاں کہا تو وہ مجھپر متوجہ ہوا اور سخت باتیں کرنے لگا۔ کہنے لگا : کیا تجھے پتہ ہے تیرے مہینہ کے وعدے میں کتنے دن رہ گئے ہیں۔ میں نے کہا : وعدہ قریب ہے۔ اس نے کہا : چار راتیں رہ گئیں ہیں۔ میں تجھ سے اپنا قرض لے لوں گا، پھر میں تجھے نہیں دوں گا جو میں تیری یا تیرے صاحب (محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) کی عزت میں دیتا تھا بلکہ اس لیے دوں گا تاکہ تو میرا غلام بن جائے۔ پھر میں تجھے بکریاں چرانے پرلوٹا دوں گا، جس طرح تو پہلے تھا، اس نے مجھ پر دباؤ ڈالا جس طرح وہ دوسرے لوگوں پر دباؤ ڈالتا تھا۔ میں چلا میں نے نماز کے لیے اذان کہی یہاں تک کہ میں نے عشا کی نماز پڑھی۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے گھر لوٹ آئے۔ میں نے آپ کے پاس آنے کی اجازت مانگی۔ مجھے اجازت ملی۔ میں نے کہا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں۔ بیشک وہ مشرک آدمی جس کا میں نے آپ کو بتایا تھا جس سے میں قرض لیتا تھا اس نے اس اس طرح کہا ہے۔ آپ کے پاس بھی قرض دینے کے لیے کچھ نہیں اور نہ میرے پاس کوئی چیز ہے اور وہ مجھے ملامت کررہا تھا۔ مجھے اجازت دیں میں ان قبیلوں کے پاس جاؤں جنہوں نے اسلام قبول کیا ہے یہاں تک کہ اللہ اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو رزق دے جس سے وہ میرا قرض اتاریں۔ میں نکلا اپنے گھر آیا میں نے اپنی تلوار، موزہ، نیزہ اور جوتا اپنے سر پر رکھا اور اپنے آپ کو ایک کونے کی طرف متوجہ کیا۔ جب مجھے نیند آنے لگتی تو میں چونک جاتا۔ جب میں نے رات محسوس کی تو سو گیا یہاں تک کہ صبح کی روشنی پھوٹی۔ میں نے جانے کا ارادہ کیا پس ایک آدمی دوڑتا ہوا آیا۔ اور وہ پکار رہا تھا : اے بلال ! تجھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بلایا ہے، میں آپ کے پاس آیا تو دیکھا کہ چار جانور لدے ہوئے بیٹھے ہوئے ہیں۔ میں نے اندر داخل ہونے کی اجازت لی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : خوش ہوجا اے بلال ! اللہ نے تیرے قرضے کو ادا کرنے کے لیے مال بھیجا ہے۔ بعد میں فرمایا : کیا تو نے وہ چار جانور لدے ہوئے نہیں دیکھے ؟ میں نے کہا : کیوں نہیں، اے اللہ کے رسول ! آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جا وہ جانور بھی تو لے لے اور ان پر لدا ہوا سامان بھی۔ ان پر کپڑا اور غلہ لدا ہوا ہے، یہ مجھے فدک کے رئیس نے بھیجا ہے، ان کو لے جا اور اپنا قرض ادا کر۔ بلال فرماتے ہیں : میں نے ایسا ہی کیا، میں ان کا سامان اتارا اور سمجھ کے ساتھ اس کو ادا کیا۔ پھر میں نے صبح کی اذان کا ارادہ کیا، یہاں تک کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نماز پڑھائی۔ میں بقیع کی طرف گیا، میں نے اپنی انگلیاں اپنے کانوں میں ڈالیں، میں نے پکارا اور میں نے کہا : جس نے بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے قرض لینا ہے وہ آجائے ، پھر میں بیچتا رہا اور قرض ادا کرتا رہا اور پیش کرتا رہا اور قرض بھی ادا کرتا رہا حتیٰ کہ زمین پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کوئی قرض نہ رہا، یہاں تک کہ دو یا ڈیڑھ اوقیہ بچ گیا۔ پھر میں مسجد میں گیا اور دن کا اکثر حصہ بیت چکا تھا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اکیلے ہی مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے۔ میں نے سلام کہا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے کہا : اس مال کا تجھے کیا فائدہ ہوا ؟ میں نے کہا : اللہ نے ہر چیز ادا کردی ہے جو اس کے رسول پر تھی، آپ پر باقی کچھ نہیں بچا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا : اس مال سے کچھ بچا ہے ؟ میں نے کہا : ہاں دو دینار آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جلدی اسیخرچ کر دے اور مجھے بےفکر کر۔ میں اس وقت تک گھر داخل نہیں ہوں گا جب تک تو مجھے بےفکر نہ کردے گا۔ پس ہمارے پاس کوئی بھی سائل نہ آیا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسجد میں ہی رات گزاری۔ یہاں تک کہ صبح ہوگئی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دوسرا دن بھی مسجد میں رہے حتیٰ کہ دن کے آخری حصہ میں دو سوار آئے۔ میں ان کے پاس گیا، میں نے ان کو پہنا دیا اور کھلا دیا۔ جب عشاء کی نماز پڑھی تو آپ نے مجھے بلایا، آپ نے پوچھا : اس مال کا کیا بنا ؟ میں نے کہا : اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس سے بےفکر کردیا ہے۔ پس آپ نے تکبیر کہی اور اللہ کی حمد بیان کی۔ آپ کو ڈر تھا کہ کہیں وہ مال میرے پاس ہو اور موت نہ آجائے۔ پھر میں آپ کے پیچھے ہوا، آپ اپنی بیویوں کے پاس آئے۔ ایک ایک کو سلام کہا، یہاں تک کہ سونے والی جگہ پر تشریف لائے۔ یہی تھا وہ جس کے بارے میں تو نے مجھ سے سوال کیا۔
(۱۱۴۳۵) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَلِیٍّ الرُّوذْبَارِیُّ أَخْبَرَنَا الْحُسَیْنُ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ أَیُّوبَ الطُّوسِیُّ أَخْبَرَنَا أَبُو حَاتِمٍ : مُحَمَّدُ بْنُ إِدْرِیسَ الرَّازِیُّ حَدَّثَنَا أَبُو تَوْبَۃَ حَدَّثَنِی مُعَاوِیَۃُ بْنُ سَلاَّمٍ عَنْ زَیْدِ بْنِ سَلاَّمٍ أَنَّہُ سَمِعَ أَبَا سَلاَّمٍ حَدَّثَنِی عَبْدُ اللَّہِ الْہَوْزَنِیُّ یَعْنِی أَبَا عَامِرٍ الْہَوْزَنِیَّ قَالَ : لَقِیتُ بِلاَلاً مُؤَذِّنَ النَّبِیِّ -ﷺ- بِحَلَبَ فَقُلْتُ : یَا بِلاَلُ حَدِّثَنِی کَیْفَ کَانَتْ نَفَقَۃُ النَّبِیِّ -ﷺ- فَقَالَ : مَا کَانَ لَہُ شَیْئٌ إِلاَّ أَنَا الَّذِی کُنْتُ أَلِی ذَلِکَ مِنْہُ مُنْذُ بَعَثَہُ اللَّہُ إِلَی أَنْ تُوُفِّیَ فَکَانَ إِذَا أَتَاہُ الإِنْسَانُ الْمُسْلِمُ فَرَآہُ عَارِیًا یَأْمُرُنِی فَأَنْطَلِقُ فَأَسْتَقْرِضُ فَأَشْتَرِی الْبُرْدَۃَ وَالشَّیْئَ فَأَکْسُوہُ وَأُطْعِمُہُ حَتَّی اعْتَرَضَنِی رَجُلٌ مِنَ الْمُشْرِکِینَ فَقَالَ : یَا بِلاَلُ إِنَّ عِنْدِی سَعَۃً فَلاَ تَسْتَقْرِضْ مِنْ أَحَدٍ إِلاَّ مِنِّی فَفَعَلْتُ فَلَمَّا کَانَ ذَاتَ یَوْمٍ تَوَضَّئْتُ ثُمَّ قُمْتُ لأُؤَذِّنَ بِالصَّلاَۃِ فَإِذَا الْمُشْرِکُ فِی عِصَابَۃٍ مِنَ التُّجَّارِ فَلَمَّا رَآنِی قَالَ : یَا حَبَشِیُّ قَالَ قُلْتُ : یَا لَبَّیْہُ فَتَجَہَّمَنِی وَقَالَ قَوْلاً غَلِیظًا فَقَالَ : أَتَدْرِی کَمْ بَیْنَکَ وَبَیْنَ الشَّہْرِ قَالَ قُلْتُ : قَرِیبٌ قَالَ : إِنَّمَا بَیْنَکَ وَبَیْنَہُ أَرْبَعُ لَیَالٍ فَآخُذُکَ بِالَّذِی لِی عَلَیْکَ فَإِنِّی لَمْ أُعْطِکَ الَّذِی أَعْطَیْتُکَ مِنْ کَرَامَتِکَ وَلاَ مِنْ کَرَامَۃِ صَاحِبِکَ وَلَکِنْ أَعْطَیْتُکَ لِتَجِبَ لِی عَبْدًا فَأَرُدُّکَ تَرْعَی الْغَنَمَ کَمَا کُنْتَ قَبْلَ ذَلِکَ فَأَخَذَ فِی نَفْسِی مَا یَأْخُذُ فِی أَنْفُسِ النَّاسِ فَانْطَلَقْتُ ثُمَّ أَذَّنْتُ بِالصَّلاَۃِ حَتَّی إِذَا صَلَّیْتُ الْعَتَمَۃَ رَجَعَ النَّبِیُّ -ﷺ- إِلَی أَہْلِہِ فَاسْتَأْذَنْتُ عَلَیْہِ فَأَذِنَ لِی فَقُلْتُ : یَا رَسُولَ اللَّہِ بِأَبِی أَنْتَ وَأُمِّی إِنَّ الْمُشْرِکَ الَّذِی ذَکَرْتُ لَکَ أَنِّی کُنْتُ أَتَدَیَّنُ مِنْہُ قَدْ قَالَ کَذَا وَکَذَا وَلَیْسَ عِنْدَکَ مَا تَقْضِی عَنِّی وَلاَ عِنْدِی وَہُوَ فَاضِحِی فَأْذَنْ لِی أَنْ آتِیَ إِلَی بَعْضِ ہَؤُلاَئِ الأَحْیَائِ الَّذِینَ قَدْ أَسْلَمُوا حَتَّی یَرْزُقَ اللَّہُ رَسُولَہِ -ﷺ- مَا یَقْضِی عَنِّی فَخَرَجْتُ حَتَّی أَتَیْتُ مَنْزِلِی فَجَعَلْتُ سَیْفِی وَجِرَابِی وَرُمْحِی وَنَعْلِی عِنْدَ رَأْسِی وَاسْتَقْبَلْتُ بِوَجْہِیَ الأُفُقَ فَکُلَّمَا نِمْتُ انْتَبَہْتُ فَإِذَا رَأَیْتُ عَلَیَّ لَیْلاً نِمْتُ حَتَّی انْشَقَّ عَمُودُ الصُّبْحِ الأَوَّلِ فَأَرَدْتُ أَنْ أَنْطَلِقَ فَإِذَا إِنْسَانٌ یَسْعَی یَدْعُو یَا بِلاَلُ أَجِبْ رَسُولَ اللَّہِ -ﷺ- فَانْطَلَقْتُ حَتَّی آَتِیہِ فَإِذَا أَرْبَعُ رَکَائِبَ عَلَیْہِنَّ أَحْمَالُہُنَّ فَأَتَیْتُ النَّبِیَّ -ﷺ- فَاسْتَأْذَنْتُ فَقَالَ لِی النَّبِیُّ -ﷺ- : أَبْشِرْ فَقَدْ جَائَ کَ اللَّہُ بِقَضَائِکَ ۔ فَحَمِدْتُ اللَّہَ وَقَالَ : أَلَمْ تَمُرَّ عَلَی الرَّکَائِبِ الْمُنَاخَاتِ الأَرْبَعِ ۔ قَالَ فَقُلْتُ : بَلَی قَالَ : فَإِنَّ لَکَ رِقَابَہُنَّ وَمَا عَلَیْہِنَّ ۔ وَإِذَا عَلَیْہِنَّ کِسْوَۃٌ وَطَعَامٌ أَہْدَاہُنَّ لَہُ عَظِیمُ فَدَکَ : فَاقْبِضْہُنَّ إِلَیْکَ ثُمَّ اقْضِ دَیْنَکَ ۔ قَالَ : فَفَعَلْتُ فَحَطَطْتُ عَنْہُنَّ أَحْمَالَہُنَّ ثُمَّ عَقَلْتُہُنَّ ثُمَّ عَمَدْتُ إِلَی تَأْذِینِ صَلاَۃِ الصُّبْحِ حَتَّی إِذَا صَلَّی رَسُولُ اللَّہِ -ﷺ- خَرَجْتُ إِلَی الْبَقِیعِ فَجَعَلْتُ إِصْبَعَیَّ فِی أُذُنَیَّ فَنَادَیْتُ وَقُلْتُ مَنْ کَانَ یَطْلُبُ رَسُولَ اللَّہِ -ﷺ- دَیْنًا فَلْیَحْضُرْ فَمَا زِلْتُ أَبِیعُ وَأَقْضِی وَأُعَرِّضُ وَأَقْضِی حَتَّی لَمْ یَبْقَ عَلَی رَسُولِ اللَّہِ -ﷺ- دَیْنٌ فِی الأَرْضِ حَتَّی فَضَلَ عِنْدِی أُوقِیَّتَیْنِ أَوْ أُوقِیَّۃٌ وَنِصْفٌ ثُمَّ انْطَلَقْتُ إِلَی الْمَسْجِدِ وَقَدْ ذَہَبَ عَامَّۃُ النَّہَارِ فَإِذَا رَسُولُ اللَّہِ -ﷺ- قَاعِدٌ فِی الْمَسْجِدِ وَحْدَہُ فَسَلَّمْتُ عَلَیْہِ فَقَالَ لِی : مَا فَعَلَ مَا قِبَلَکَ ۔ ُلْتُ : قَدْ قَضَی اللَّہُ کُلَّ شَیْئٍ کَانَ عَلَی رَسُولِ اللَّہِ -ﷺ- فَلَمْ یَبْقَ شَیْئٌ فَقَالَ : فَضَلَ شَیْئٌ ۔ قُلْتُ : نَعَمْ دِینَارَانِ قَالَ : انْظُرْ أَنْ تُرِیحَنِی مِنْہَا فَلَسْتُ بِدَاخِلٍ عَلَی أَحَدٍ مِنْ أَہْلِی حَتَّی تُرِیحَنِی مِنْہَا ۔ فَلَمْ یَأْتِنَا فَبَاتَ فِی الْمَسْجِدِ حَتَّی أَصْبَحَ وَظَلَّ فِی الْمَسْجِدِ الْیَوْمَ الثَّانِیَ حَتَّی کَانَ فِی آخِرِ النَّہَارِ جَائَ رَاکِبَانِ فَانْطَلَقْتُ بِہِمَا فَکَسَوْتُہُمَا وَأَطْعَمْتُہُمَا حَتَّی إِذَا صَلَّی الْعَتَمَۃَ دَعَانِی فَقَالَ : مَا فَعَلَ الَّذِی قِبَلَکَ ۔ قُلْتُ : قَدْ أَرَاحَکَ اللَّہُ مِنْہُ فَکَبَّرَ وَحَمِدَ اللَّہَ شَفَقًا مِنْ أَنْ یُدْرِکَہُ الْمَوْتُ وَعِنْدَہُ ذَلِکَ ثُمَّ اتَّبَعْتُہُ حَتَّی جَائَ أَزْوَاجَہُ فَسَلَّمَ عَلَی امْرَأَۃٍ امْرَأَۃٍ حَتَّی أَتَی فِی مَبِیتَہُ۔فَہَذَا الَّذِی سَأَلْتَنِی عَنْہُ۔ [صحیح]

তাহকীক:
হাদীস নং: ১১৪৪১
وکالہ کا بیان
جھگڑوں میں وکیل مقرر کرنا وہ حاضر یا غائب ہو
(١١٤٣٦) عبداللہ بن سہل اور محیصۃ بن مسعود دونوں کسی کام کی غرض سے خیبر گئے، ایک کھجوروں کے باغ میں علیحدہ علیحدہ ہوگئے۔ عبداللہ بن سھل مار دیے گئے۔ ان کے بھائی عبدالر حمن بن سھل اور ان کے چچا کے بیٹے محیصہ اور حویصہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے۔ انھوں نے دونوں کا معاملہ بیان کیا۔ عبدالر حمن بات کرنے لگے، وہ زیادہ قریبی تھے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بڑا زیادہ حق دا رہے۔ یحییٰ کہتے ہیں : کلام کا آغاز بڑے آدمی کی طرف ہو، پس ان دونوں نے کلام کی۔
(۱۱۴۳۶) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ : مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ الصَّفَّارُ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِیلُ بْنُ إِسْحَاقَ الْقَاضِی حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ عَنْ بُشَیْرِ بْنِ یَسَارٍ مَوْلَی الأَنْصَارِ عَنْ سَہْلِ بْنِ أَبِی حَثْمَۃَ وَرَافِعِ بْنِ خَدِیجٍ أَنَّہُمَا حَدَّثَاہُ أَوْ حَدَّثَا : أَنَّ عَبْدَ اللَّہِ بْنَ سَہْلٍ وَمُحَیِّصَۃَ بْنَ مَسْعُودِ أَتَیَا خَیْبَرَ فِی حَاجَۃٍ فَتَفَرَّقَا فِی النَّخْلِ فَقُتِلَ عَبْدُ اللَّہِ بْنُ سَہْلٍ فَجَائَ أَخُوہُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سَہْلٍ وَابْنَا عَمِّہِ مُحَیِّصَۃُ وَحُوَیِّصَۃُ إِلَی رَسُولِ اللَّہِ -ﷺ- فَذَکَرَا أَمْرَ صَاحِبِہِمَا فَبَدَأَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ فَتَکَلَّمَ وَکَانَ أَقْرَبُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ -ﷺ- : الْکُبْرَ ۔ 
قَالَ یَحْیَی لِیَلِیَ الْکَلاَمَ الْکُبْرُ فَتَکَلَّمَا فِی أَمْرِ صَاحِبِہِمَا وَذَکَرَ الْحَدِیثَ۔
رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ حَرْبٍ وَرَوَاہُ مُسْلِمٌ عَنِ الْقَوَارِیرِیِّ عَنْ حَمَّادٍ۔
[بخاری ۶۱۴۲، مسلم ۱۶۶۹]
قَالَ یَحْیَی لِیَلِیَ الْکَلاَمَ الْکُبْرُ فَتَکَلَّمَا فِی أَمْرِ صَاحِبِہِمَا وَذَکَرَ الْحَدِیثَ۔
رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ حَرْبٍ وَرَوَاہُ مُسْلِمٌ عَنِ الْقَوَارِیرِیِّ عَنْ حَمَّادٍ۔
[بخاری ۶۱۴۲، مسلم ۱۶۶۹]

তাহকীক:
হাদীস নং: ১১৪৪২
وکالہ کا بیان
جھگڑوں میں وکیل مقرر کرنا وہ حاضر یا غائب ہو
(١١٤٣٧) عبداللہ بن جعفر سے روایت ہے کہ علی بن ابی طالب جھگڑے کو ناپسند کرتے تھے، جب کوئی معاملہ در پیش ہوتا تو عقیل بن ابی طالب کو وکیل مقرر کرتے۔ جب وہ بوڑھے ہوگئے تو مجھے وکیل بنادیا۔
(۱۱۴۳۷) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا بَکْرٍ : مُحَمَّدَ بْنَ أَحْمَدَ بْنِ بَالُوَیْہِ یَقُولُ سَمِعْتُ أَبَا بَکْرٍ : مُحَمَّدَ بْنَ إِسْحَاقَ یَقُولُ حَدَّثَنَا أَبُو کُرَیْبٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ إِدْرِیسَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ عَنْ ۔جَہْمِ بْنِ أَبِی الْجَہْمِ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ جَعْفَرٍ قَالَ : کَانَ عَلِیُّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ یَکْرَہُ الْخُصُومَۃَ فَکَانَ إِذَا کَانَتْ لَہُ خُصُومَۃٌ وَکَّلَ فِیہَا عَقِیلَ بْنَ أَبِی طَالِبٍ فَلَمَّا کَبِرَ عَقِیلٌ وَکَّلَنِی۔ [ضعیف]

তাহকীক:
হাদীস নং: ১১৪৪৩
وکالہ کا بیان
جھگڑوں میں وکیل مقرر کرنا وہ حاضر یا غائب ہو
(١١٤٣٨) محمد بن اسحاق مدینہ کے ایک آدمی سے نقل فرماتے ہیں، اس کا نام جہم تھا، وہ حضرت علی سے نقل فرماتے ہیں کہ انھوں نے عبداللہ بن جعفر کو جھگڑے میں وکیل مقرر کیا، پس کہا : جھگڑے میں ہلاکت ہے۔ ابو زیاد کہتے ہیں : قحم ہلاک کی جگہ کو کہتے ہیں۔
(۱۱۴۳۸) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِیُّ أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ الْکَارِزِیُّ حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیزِ حَدَّثَنَا أَبُو عُبَیْدٍ حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَہْلِ الْمَدِینَۃِ یُقَالُ لَہُ جَہْمٌ عَنْ عَلِیٍّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ أَنَّہُ وَکَّلَ عَبْدَ اللَّہِ بْنَ جَعْفَرٍ بِالْخُصُومَۃِ فَقَالَ : إِنَّ لِلْخُصُومَۃِ قُحَمًا۔ 
(غ) قَالَ أَبُو عُبَیْدٍ قَالَ أَبُو الزِّیَادِ الْقُحَمُ الْمَہَالِکُ۔ [ضعیف]
(غ) قَالَ أَبُو عُبَیْدٍ قَالَ أَبُو الزِّیَادِ الْقُحَمُ الْمَہَالِکُ۔ [ضعیف]

তাহকীক:
হাদীস নং: ১১৪৪৪
وکالہ کا بیان
نیا بت کی فضیلت اس آدمی کی طرف سے جو راہ راست پر نہ ہو
(١١٤٣٩) حضرت ابو ذر (رض) سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا : کون سا عمل افضل ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ پر ایمان لانا اور اس کے راستے میں جہاد کرنا ، اس نے پوچھا : کون سی گردن آزاد کرنا افضل ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو مالک کی نظر میں زیادہ پسندیدہ ہو۔ اس نے کہا : آپ کا کیا خیال ہے اگر میں ایسا نہ پاؤں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کسی کاریگر کی مدد کر یا کسی اخرق کی۔ اس نے کہا : اگر میں اس کی بھی طاقت نہ رکھوں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : لوگوں کو اپنے شر سے محفوظ کر دے، یہ بھی صدقہ ہے جسے تم خود اپنے اوپر کرو گے۔
(۱۱۴۳۹) أَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَیْنِ : عَلِیُّ بْنُ مُحَمَّدِبْنِ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ بِشْرَانَ أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِیلُ بْنُ مُحَمَّدٍ الصَّفَّارُ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنْصُورٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ فِیمَا أَظُنُّ عَنِ الزُّہْرِیِّ عَنْ حَبِیبٍ مَوْلَی عُرْوَۃَ بْنِ الزُّبَیْرِ عَنْ عُرْوَۃَ بْنِ الزُّبَیْرِ عَنْ أَبِی مُرَاوِحٍ عَنْ أَبِی ذَرٍّ قَالَ : جَائَ رَجُلٌ إِلَی النَّبِیِّ -ﷺ- فَسَأَلَہُ فَقَالَ : یَا رَسُولَ اللَّہِ أَیُّ الأَعْمَالِ أَفْضَلُ قَالَ : إِیمَانٌ بِاللَّہِ وَجِہَادٌ فِی سَبِیلِ اللَّہِ ۔ قَالَ : فَأَیُّ الْعَتَاقَۃِ أَفْضَلُ؟ قَالَ : أَنْفَسُہَا ۔ قَالَ : أَفَرَأَیْتَ إِنْ لَمْ أَجِدْ قَالَ : فَتُعِینُ الصَّانِعَ وَتَصْنَعُ لأَخْرَقَ ۔ قَالَ : أَفَرَأَیْتَ إِنْ لَمْ أَسْتَطِعْ؟ قَالَ : تَدَعُ النَّاسَ مِنْ شَرِّکَ فَإِنَّہَا صَدَقَۃٌ تَصَدَّقُ بِہَا عَلَی نَفْسِکَ ۔
رَوَاہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ رَافِعٍ وَعَبْدِ بْنِ حُمَیْدٍ عَنْ عَبْدِ الرَّزَّاقِ وَأَخْرَجَاہُ مِنْ حَدِیثِ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ عَنْ أَبِیہِ۔ [بخاری ۲۵۱۸، مسلم ۸۴]
رَوَاہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ رَافِعٍ وَعَبْدِ بْنِ حُمَیْدٍ عَنْ عَبْدِ الرَّزَّاقِ وَأَخْرَجَاہُ مِنْ حَدِیثِ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ عَنْ أَبِیہِ۔ [بخاری ۲۵۱۸، مسلم ۸۴]

তাহকীক:
হাদীস নং: ১১৪৪৫
وکالہ کا بیان
نیا بت کی فضیلت اس آدمی کی طرف سے جو راہ راست پر نہ ہو
(١١٤٤٠) حضرت ابو ذر (رض) فرماتے ہیں : میں نے کہا : یا رسول اللہ ! مالدار لوگ اجر میں بڑھ گئے ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کیا تم نماز، روزہ اور جہاد نہیں کرتے ہو ؟ عرض کیا : کیوں نہیں، وہ بھی ایسے ہی کرتے ہیں جس طرح ہم کرتے ہیں۔ وہ نماز پڑھتے ہیں، روزہ رکھتے ہیں اور جہاد کرتے ہیں اور وہ صدقہ بھی کرتے ہیں۔ ہم صدقہ نہیں کرتے۔ آپ نے فرمایا : تجھ میں بیشمار صدقات ہیں : بیشک تیرا کسی نہ بولنے والے کی طرف سے بول دینا جس سے اس کی حاجت پوری ہو صدقہ ہے اور تیرا کسی ناسننے والے کی طرف سے سن لینا جس سے اس کی کوئی حاجت پوری ہو صدقہ ہے اور کسی نابینے کو راستہ دکھا دینا صدقہ ہے اور تیری طاقت کا کمزور آدمی کی مدد میں لگ جانا صدقہ ہے اور تیرا راستے سے تکلیف دہ چیز ہٹا دینا صدقہ ہے اور تیرا اپنی بیوی سے مباشرت کرنا بھی صدقہ ہے۔ ابو ذر کہتے ہیں : میں نے کہا : یا رسول اللہ ! کیا ہم میں سے کوئی اپنی شہوت کو آئے اور اسے اجر بھی ملے آپ نے فرمایا : تیرا کیا خیال ہے اگر تو اسے غیر محل میں پورا کرے تو تجھے گناہ ہوگا ؟ کہتے ہیں : میں نے کہا : آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کیا تم شر کا خیال کرتے ہو اور بھلائی کا خیال نہیں کرتے۔
(۱۱۴۴۰) أَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَیْنِ بْنُ الْفَضْلِ الْقَطَّانُ بِبَغْدَادَ أَخْبَرَنَا أَبُو عَمْرِو بْنُ السَّمَّاکِ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَیْدِ اللَّہِ بْنِ الْمُنَادِی حَدَّثَنَا أَبُو بَدْرٍ : شُجَاعُ بْنُ الْوَلِیدِ حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ مِہْرَانَ عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ عَنْ أَبِی الْبَخْتَرِیِّ عَنْ أَبِی ذَرٍّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ قُلْتُ : یَا رَسُولَ اللَّہِ ذَہَبَ الأَغْنِیَائُ بِالأَجْرِ فَقَالَ : أَلَسْتُمْ تُصَلُّونَ وَتَصُومُونَ وَتُجَاہِدُونَ ۔ قَالَ قُلْتُ : بَلَی وَہُمْ یَفْعَلُونَ کَمَا نَفْعَلُ یُصَلُّونَ وَیَصُومُونَ وَیُجَاہِدُونَ وَیَتَصَدَّقُونَ وَلاَ نَتَصَدَّقُ قَالَ : إِنَّ فِیکَ صَدَقَۃٌ کَثِیرَۃٌ إِنَّ فِی فَضْلِ بَیَانِکَ عَنِ الأَرْتَمِ تُعَبِّرُ عَنْہُ حَاجَتَہُ صَدَقَۃٌ وَفِی فَضْلِ سَمْعِکَ عَلَی السَّیِّیئِ السَّمْعِ تُعَبِّرُ عَنْہُ حَاجَتَہُ صَدَقَۃٌ وَفِی فَضْلِ بَصَرِکَ عَلَی الْضَرِیرِ الْبَصَرِ تَہْدِیہِ الطَّرِیقَ صَدَقَۃٌ وَفِی فَضْلِ قُوَّتِکَ عَلَی الضَّعِیفِ تُعِینُہُ صَدَقَۃٌ وَفِی إِمَاطَتِکَ الأَذَی عَنِ الطَّرِیقِ صَدَقَۃٌ وَفِی مُبَاضَعَتِکَ أَہْلَکَ صَدَقَۃٌ ۔ قَالَ قُلْتُ : یَا رَسُولَ اللَّہِ أَیَأْتِی أَحَدُنَا شَہْوَتَہُ وَیُؤْجَرُ قَالَ : أَرَأَیْتَہُ لَوْ جَعَلْتَہُ فِی غَیْرِ حِلِّہِ أَکَانَ عَلَیْکَ وِزْرٌ ۔ قَالَ قُلْتْ : نَعَمْ قَالَ : أَفَتَحْتَسِبُونَ بِالشَّرِّ وَلاَ تَحْتَسِبُونَ بِالْخَیْرِ ۔ وَرُوِّینَا ہَذَا مِنْ أَوْجُہٍ أُخَرَ عَنْ أَبِی ذَرٍّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ۔ [بخاری ۸۴۳ ، مسلم ۵۹۵]

তাহকীক:
হাদীস নং: ১১৪৪৬
وکالہ کا بیان
جھگڑالو اور جھگڑے میں غلط طریقے سے معاونت کرنے والے کی گناہ کا بیان
(١١٤٤١) ابن عمر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس کی سفارش اللہ کی حدود میں سے کسی حد کے آگے حائل ہوگئی تو اس نے اللہ کی بادشاہت میں اس کی نافرمانی کی اور جو مقروض حالت میں فوت ہوا تو وہاں کوئی دینار اور درھم نہ ہوگا، بلکہ نیکیاں اور برائیاں ہوں گی اور جس نے جاننے کے باوجود باطل میں جھگڑا کیا تو وہ ہمیشہ اللہ کی ناراضگی میں رہے گا حتی کہ الگ ہوجائے اور جس نے کسی مومن کے بارے میں کوئی ایسی بات کہی جو اس میں نہ تھی تو وہ ردغۃ الخبال میں قید رہے گا حتی کہ اس سے نکل جائے جو کہا۔
(۱۱۴۴۱) أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ : عَلِیُّ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عَبْدَانَ أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُبَیْدٍ الصَّفَّارُ حَدَّثَنَا عَبَّاسُ بْنُ الْفَضْلِ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ یُونُسَ حَدَّثَنَا زُہَیْرٌ عَنْ عُمَارَۃَ بْنِ غَزِیَّۃَ عَنْ یَحْیَی بْنِ رَاشِدٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ -ﷺ- : مَنْ حَالَتْ شَفَاعَتُہُ دُونَ حَدٍّ مِنْ حُدُودِ اللَّہِ فَقَدْ ضَادَّ اللَّہَ فِی مُلْکِہِ وَمَنْ مَاتَ وَعَلَیْہِ دَیْنٌ فَلَیْسَ ثَمَّ دِینَارٌ وَلاَ دِرْہَمٌ وَلَکِنَّہَا الْحَسَنَاتُ وَالسَّیِّئَاتُ وَمَنْ خَاصَمَ فِی بَاطِلٍ وَہُوَ یَعْلَمُ لَمْ یَزَلْ فِی سَخَطِ اللَّہِ عَزَّ وَجَلَّ حَتَّی یَنْزِعَ وَمَنْ قَالَ فِی مُؤْمِنٍ مَا لَیْسَ فِیہِ حُبِسَ فِی رَدْغَۃِ الْخَبَالِ حَتَّی یَخْرُجَ مِمَّا قَالَ ۔

তাহকীক:
হাদীস নং: ১১৪৪৭
وکالہ کا بیان
جھگڑالو اور جھگڑے میں غلط طریقے سے معاونت کرنے والے کی گناہ کا بیان
(١١٤٤٢) ایضا۔
(۱۱۴۴۲) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَلِیٍّ الرُّوذْبَارِیُّ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ دَاسَۃَ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ یُونُسَ فَذَکَرَہُ بِنَحْوِہِ دُونَ قَوْلِہِ : وَمَنْ مَاتَ وَعَلَیْہِ دَیْنٌ ۔

তাহকীক:
হাদীস নং: ১১৪৪৮
وکالہ کا بیان
جھگڑالو اور جھگڑے میں غلط طریقے سے معاونت کرنے والے کی گناہ کا بیان
(١١٤٤٣) ایضا۔ مزیدیہ ہے کہ جس نے کسی جھگڑے میں ظلم کے ساتھ مدد کی تو وہ اللہ کے غصے کے ساتھ لوٹا۔
(۱۱۴۴۳) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَلِیٍّ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرٍ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ الْحُسَیْنِ بْنِ إِبْرَاہِیمَ حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ یُونُسَ حَدَّثَنَا عَاصِمُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ زَیْدٍ الْعُمَرِیُّ حَدَّثَنِی الْمُثَنَّی بْنُ یَزِیدَ عَنْ مَطَرٍ الْوَرَّاقِ عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ عَنِ النَّبِیِّ -ﷺ- بِمَعْنَاہُ قَالَ : وَمَنْ أَعَانَ عَلَی خُصُومَۃٍ بِظُلْمٍ فَقَدْ بَائَ بِغَضَبٍ مِنْ اللَّہِ ۔

তাহকীক:
হাদীস নং: ১১৪৪৯
وکالہ کا بیان
جھگڑالو اور جھگڑے میں غلط طریقے سے معاونت کرنے والے کی گناہ کا بیان
(١١٤٤٤) حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو کسی قوم کے ساتھ یہ دکھلاتے ہوئے چلا کہ وہ گواہ ہے حالانکہ وہ گواہ نہیں تھا تو وہ جھوٹی گواہی دینے والا ہے اور جس نے کسی جھگڑے میں بغیر علم کے مدد کی تو وہ اللہ کی ناراضگی میں رہے گا حتی کہ الگ ہوجائے اور مسلمان کو قتل کرنا کفر ہے اور اسے گالی نکالنا گناہ ہے۔
(۱۱۴۴۴) أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ : عَلِیُّ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ إِبْرَاہِیمَ الْہَاشِمِیُّ بِبَغْدَادَ حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ السَّمَّاکِ حَدَّثَنَا أَبُو قِلاَبَۃَ : عَبْدُ الْمَلِکِ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنِی یَحْیَی بْنُ حَمَّادٍ حَدَّثَنَا رَجَائٌ أَبُو یَحْیَی صَاحِبُ السَّقَطِ قَالَ سَمِعْتُ یَحْیَی بْنَ أَبِی کَثِیرٍ یُحَدِّثُ عَنْ أَیُّوبَ السَّخْتِیَانِیِّ عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ -ﷺ- : مَنْ مَشَی مَعَ قَوْمٍ یُرِی أَنَّہُ شَاہِدٌ وَلَیْسَ بِشَاہِدٍ فَہُوَ شَاہِدُ زُورٍ وَمَنْ أَعَانَ عَلَی خُصُومَۃٍ بِغَیْرِ عِلْمٍ کَانَ فِی سَخَطِ اللَّہِ حَتَّی یَنْزِعَ وَقِتَالُ الْمُؤْمِنِ کُفْرٌ وَسِبَابُہُ فُسُوقٌ ۔

তাহকীক:
হাদীস নং: ১১৪৫০
وکالہ کا بیان
جب وکیل کو معزول کردیا جائے تو وہ معزول ہوگا اگرچہ اس کو اس کا علم نہ ہو
(١١٤٤٥) محمد بن زید سے روایت ہے کہ عمر نے اس لونڈی کا فیصلہ کیا جس کا مالک غزوے پر گیا اور اس نے ایک آدمی کو اس کو فروخت کرنے کا حکم دیا، پھر اس کے مالک نے اسے آزاد کردیا اور اس پر گواہ بھی بنایا اور اسے فروخت بھی کردیا گیا۔ پس انھوں نے اسے روک لیا جبکہ اس کی آزادی اس کی بیع سے پہلے ہوچکی تھی تو عمر نے فیصلہ کیا کہ اس کی آزادی بر قرار رکھی جائے اور اس کی قیمت واپس کردی جائے اور اس کا حق مہر لیا جائے جو اس سے وطی کی گئی ہے۔
(۱۱۴۴۵) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا أَبُو الْوَلِیدِ حَدَّثَنَا إِبْرَاہِیمُ بْنُ أَبِی طَالِبٍ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عِیسَی عَنِ ابْنِ الْمُبَارَکِ عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِی الْفُرَاتِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زَیْدٍ قَالَ : قَضَی عُمَرُ فِی أَمَۃٍ غَزَا مَوْلاَہَا وَأَمَرَ رَجُلاً بِبَیْعِہَا ثُمَّ بَدَا لِمَوْلاَہَا فَأَعْتَقَہَا وَأَشْہَدَ عَلَی ذَلِکَ وَقَدْ بِیعَتِ الْجَارِیَۃُ فَحَسَبُوا فَإِذَا عَتْقُہَا قَبْلَ بَیْعِہَا فَقَضَی عُمَرُ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ : أَنْ یُقْضَی بِعِتْقِہَا وَیُرَدُّ ثَمَنُہَا وَیُؤْخَذُ صَدَاقُہَا لِمَا کَانَ قَدْ وَطِئَہَا۔ [حسن]

তাহকীক:
হাদীস নং: ১১৪৫১
وکالہ کا بیان
جب وکیل کو معزول کردیا جائے تو وہ معزول ہوگا اگرچہ اس کو اس کا علم نہ ہو
(١١٤٤٦) پچھلی روایت کی طرح ہے، لیکن اس میں یہ الفاظ ہیں : فیصلہ عمر بن عبدالعزیز نے کیا۔
(۱۱۴۴۶) قَالَ وَأَخْبَرَنَا أَبُو الْوَلِیدِ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ سُفْیَانَ عَنْ حِبَّانَ عَنِ ابْنِ الْمُبَارَکِ فَذَکَرَ نَحْوَہُ وَقَالَ فِیہِ : فَقَضَی عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیزِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ۔ [حسن]

তাহকীক: