আলমুসনাদ - ইমাম আহমদ রহঃ (উর্দু)

مسند امام احمد بن حنبل

حضرت صدیق اکبر (رض) کی مرویات - এর পরিচ্ছেদসমূহ

মোট হাদীস ২০ টি

হাদীস নং: ১
حضرت صدیق اکبر (رض) کی مرویات
حضرت صدیق اکبر (رض) کی مرویات
قیس کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت صدیق اکبر (رض) خطبہ ارشاد فرمانے کے لئے کھڑے ہوئے تو اللہ تعالیٰ کی حمد وثناء کرنے کے بعد فرمایا اے لوگو ! تم اس آیت کی تلاوت کرتے ہو۔ ( يٰٓاَيُّھَاالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا عَلَيْكُمْ اَنْفُسَكُمْ ۚلَا يَضُرُّكُمْ مَّنْ ضَلَّ اِذَا اهْتَدَيْتُمْ ۭ اِلَى اللّٰهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيْعًا فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ ١٠٥؁) 5 ۔ المآئدہ :105) اے ایمان والو ! تم اپنی فکر کرو، اگر تم راہ راست پر ہو تو کوئی گمراہ شخص تمہیں نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ اور ہم نے نبی کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جب لوگ گناہ کا کام ہوتے ہوئے دیکھیں اور اسے بدلنے کی کوشش نہ کریں تو عنقریب ان سب کو اللہ کا عذاب گھیر لے گا۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ قَالَ أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ يَعْنِي ابْنَ أَبِي خَالِدٍ عَنْ قَيْسٍ قَالَ قَامَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ ثُمَّ قَالَ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّكُمْ تَقْرَءُونَ هَذِهِ الْآيَةَ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلَيْكُمْ أَنْفُسَكُمْ لَا يَضُرُّكُمْ مَنْ ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُمْ وَإِنَّا سَمِعْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِنَّ النَّاسَ إِذَا رَأَوْا الْمُنْكَرَ فَلَمْ يُنْكِرُوهُ أَوْشَكَ أَنْ يَعُمَّهُمْ اللَّهُ بِعِقَابِهِ
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ২
حضرت صدیق اکبر (رض) کی مرویات
حضرت صدیق اکبر (رض) کی مرویات
حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ میں جب بھی نبی ﷺ سے کوئی حدیث سنتا تھا تو اللہ تعالیٰ جیسے چاہتا تھا، مجھے اس سے فائدہ پہنچاتا تھا اور جب کوئی دوسرا شخص مجھ سے نبی ﷺ کی کوئی حدیث بیان کرتا تو میں اس سے اس پر قسم لیتا، جب وہ قسم کھا لیتا کہ یہ حدیث اس نے نبی ﷺ سے سنی ہے تب کہیں جا کر میں اس کی بات کو سچا تسلیم کرتا تھا۔ مجھ سے حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے یہ حدیث بیان کی ہے اور وہ یہ حدیث بیان کرنے میں سچے ہیں کہ انہوں نے جناب رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو آدمی کوئی گناہ کر بیٹھے، پھر وضو کرے اور خوب اچھی طرح کرے، اس کے بعد دو رکعت نماز پڑھے اور اللہ سے اپنے اس گناہ کی معافی مانگے تو اللہ تعالیٰ اس کے گناہ کو یقینا معاف فرمادے گا۔
حَدَّثَنَا وَكِيعٌ قَالَ حَدَّثَنَا مِسْعَرٌ وَسُفْيَانُ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ الْمُغِيرَةِ الثَّقَفِيِّ عَنْ عَلِيِّ بْنِ رَبِيعَةَ الْوَالِبِيِّ عَنْ أَسْمَاءَ بْنِ الْحَكَمِ الْفَزَارِيِّ عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ كُنْتُ إِذَا سَمِعْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدِيثًا نَفَعَنِي اللَّهُ بِمَا شَاءَ مِنْهُ وَإِذَا حَدَّثَنِي عَنْهُ غَيْرِي اسْتَحْلَفْتُهُ فَإِذَا حَلَفَ لِي صَدَّقْتُهُ وَإِنَّ أَبَا بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ حَدَّثَنِي وَصَدَقَ أَبُو بَكْرٍ أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَا مِنْ رَجُلٍ يُذْنِبُ ذَنْبًا فَيَتَوَضَّأُ فَيُحْسِنُ الْوُضُوءَ قَالَ مِسْعَرٌ وَيُصَلِّي وَقَالَ سُفْيَانُ ثُمَّ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ فَيَسْتَغْفِرُ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ إِلَّا غَفَرَ لَهُ
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৩
حضرت صدیق اکبر (رض) کی مرویات
حضرت صدیق اکبر (رض) کی مرویات
حضرت براء بن عازب (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ سیدنا صدیق اکبر (رض) نے میرے والد حضرت عازب (رض) سے تیرہ درہم کے عوض ایک زین خریدی اور میرے والد سے فرمایا کہ اپنے بیٹے براء سے کہہ دیجئے کہ وہ اسے اٹھا کر میرے گھر تک پہنچادے، انہوں نے کہا کہ پہلے آپ وہ واقعہ سنائیے جب نبی ﷺ نے مکہ مکرمہ سے ہجرت کی اور آپ بھی ان کے ہمراہ تھے۔ حضرت صدیق اکبر (رض) نے فرمایا کہ شب ہجرت ہم لوگ رات کی تاریکی میں نکلے اور سارا دن اور ساری رات تیزی سے سفر کرتے رہے، یہاں تک کہ ظہر کا وقت ہوگیا، میں نے نظر دوڑا کر دیکھا کہ کہیں کوئی سایہ نظر آتا ہے یا نہیں ؟ مجھے اچانک ایک چٹان نظر آئی، میں اسی کی طرف لپکا تو وہاں کچھ سایہ موجود تھا، میں نے وہ جگہ برابر کی اور نبی ﷺ کے بیٹھنے کے لئے اپنی پوستین بچھادی اور نبی ﷺ سے آکر عرض کیا یا رسول اللہ ! کچھ دیر آرام فرما لیجئے، چناچہ نبی ﷺ لیٹ گئے۔ ادھر میں یہ جائزہ لینے کے لئے نکلا کہ کہیں کوئی جاسوس تو نہیں دکھائی دے رہا ؟ اچانک مجھے بکریوں کا ایک چرواہا مل گیا، میں نے اس سے پوچھا بیٹا ! تم کس کے ہو ؟ اس نے قریش کے ایک آدمی کا نام لیا جسے میں جانتا تھا، میں نے اس سے فرمائش کی کہ کیا تمہاری بکریوں میں دودھ ہے ؟ اس نے اثبات میں جواب دیا، میں نے اس سے دودھ دوہ کردینے کی فرمائش کی تو اس نے اس کا بھی مثبت جواب دیا اور میرے کہنے پر اس نے ایک بکری کو قابو میں کرلیا۔ پھر میں نے اس سے بکری کے تھن پر سے غبار صاف کرنے کو کہا جو اس نے کردیا، پھر میں نے اس سے اپنے ہاتھ جھاڑنے کو کہا تاکہ وہ گردوغبار دور ہوجائے چناچہ اس نے اپنے ہاتھ بھی جھاڑ لئے، اس وقت میرے پاس ایک برتن تھا، جس کے منہ پر چھوٹا ساکپڑا لیپٹا ہوا تھا، اس برتن میں اس نے تھوڑا سا دودھ دوہا اور میں نے اس پر پانی چھڑک دیا تاکہ برتن نیچے سے ٹھنڈا ہوجائے۔ اس کے بعد میں نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو، جب میں وہاں پہنچا تو نبی ﷺ بیدار ہوچکے تھے، میں نے نبی ﷺ سے وہ دودھ نوش فرمانے کی درخواست کی، جسے نبی ﷺ نے قبول کرلیا اور اتنا دودھ پیا کہ میں مطمئن اور خوش ہوگیا، اس کے بعد نبی ﷺ سے پوچھا کہ کیا اب روانگی کا وقت آگیا ہے اور اب ہمیں چلنا چاہئے ؟ نبی ﷺ کے ایماء پر ہم وہاں سے روانہ ہوگئے، پوری قوم ہماری تلاش میں تھی، لیکن سراقہ بن مالک بن جعشم کے علاوہ جو اپنے گھوڑے پر سوار تھا ہمیں کوئی نہ پاسکا، سراقہ کو دیکھ کر میں نے نبی ﷺ سے عرض کیا یا رسول اللہ ! یہ جاسوس ہم تک پہنچ گیا ہے، اب کیا ہوگا ؟ نبی ﷺ نے فرمایا آپ غمگین اور دل برداشتہ نہ ہوں، اللہ ہمارے ساتھ ہے، ادھر وہ ہمارے اور قریب ہوگیا اور ہمارے اور اس کے درمیان ایک یا دو تین نیزوں کے بقدر فاصلہ رہ گیا، میں نے پھر عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! یہ تو ہمارے قریب پہنچ گیا ہے اور یہ کہہ کر میں رو پڑا۔ نبی ﷺ نے مجھ سے رونے کی وجہ پوچھی تو میں نے عرض کیا بخدا ! میں اپنے لئے نہیں رو رہا، میں تو آپ ﷺ کے لئے رو رہا ہوں کہ اگر آپ ﷺ کو پکڑ لیا گیا تو یہ نجانے کیا سلوک کریں گے ؟ اس پر نبی ﷺ نے سراقہ کے لئے بد دعاء فرمائی کہ اے اللہ ! تو جس طرح چاہے، اس سے ہماری کفایت اور حفاظت فرما۔ اس وقت اس کے گھوڑے کے پاؤں پیٹ تک زمین میں دھنس گئے، حالانکہ وہ زمین انتہائی سپات اور سخت تھی اور سراقہ اس سے نیچے گرپڑا اور کہنے لگا کہ اے محمد ﷺ ! میں جانتاہوں کہ یہ آپ کا کوئی عمل ہے، آپ اللہ سے دعا کر دیجئے کہ وہ مجھے اس مصیبت سے نجات دے دے، میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ آپ کی تلاش میں اپنے پیچے آنے والے تمام لوگوں پر آپ کو مخفی رکھوں گا اور کسی کو آپ کی خبر نہ ہونے دوں گا، نیز یہ میرا ترکش ہے، اس میں سے ایک تیر بطور نشانی کے آپ لے لیجئے، فلاں فلاں مقام پر آپ کا گذر میرے اونٹوں اور بکریوں پر ہوگا، آپ کو ان میں سے جس چیز کی جتنی ضرورت ہو، آپ لے لیجئے گا۔ نبی ﷺ نے فرمایا مجھے اس کی کوئی ضرورت نہیں، پھر آپ ﷺ نے دعا کی اور اسے رہائی مل گئی، اس کے بعد وہ اپنے ساتھیوں کے پاس واپس لوٹ گیا اور ہم دونوں اپنی راہ پر ہو لئے یہاں تک کہ ہم لوگ مدینہ منورہ پہنچ گئے، لوگ نبی ﷺ سے ملاقات کے لئے اپنے گھروں سے نکل پڑے، کچھ اپنے گھروں کی چھتوں پر کھڑے ہو کر نبی ﷺ کا دیدار کرنے لگے اور راستے ہی میں بچے اور غلام مل کر زور زور سے نعرہ تکبیر بلند کرتے ہوئے کہنے لگے کہ رسول اللہ ﷺ تشریف لے آئے، محمد ﷺ تشریف لے آئے۔ نبی ﷺ کی تشریف آوری پر لوگوں میں یہ جھگڑا ہونے لگا کہ نبی ﷺ کس قبیلے کے مہمان بنیں گے ؟ نبی ﷺ نے اس جھگڑے کا فیصلہ کرتے ہوئے فرمایا آج رات تو میں خواجہ عبدالمطلب کے اخوال بنو نجار کا مہمان بنوں گا تاکہ ان کے لئے باعث عزت و شرف ہوجائے، چناچہ ایساہی ہوا اور جب صبح ہوئی تو آپ ﷺ وہاں تشریف لے گئے جہاں کا آپ کو حکم ملا۔ حضرت براء بن عازب (رض) فرماتے ہیں کہ مہاجرین میں سے ہمارے یہاں سب سے پہلے حضرت مصعب بن زبیر (رض) اللہ عنہ جن کا تعلق بنو عبدالدار سے تھا تشریف لائے تھے، پھر بنو فہر سے تعلق رکھنے والے ایک نابینا صحابی حضرت ابن ام مکتوم (رض) تشریف لائے اور اس کے بعد حضرت عمر فاروق (رض) بیس سواروں کے ساتھ ہمارے یہاں رونق افروز ہوگئے۔ جب حضرت عمر فاروق (رض) آئے تو ہم نے ان سے پوچھا کہ نبی ﷺ کا کیا ارادہ ہے ؟ انہوں نے بتایا کہ وہ بھی پیچھے پیچھے آرہے ہیں، چناچہ کچھ ہی عرصے کے بعد نبی ﷺ بھی مدینہ منورہ میں جلوہ افروز ہوگئے اور حضرت صدیق اکبر (رض) بھی ساتھ آئے۔ حضرت براء (رض) یہ بھی فرماتے ہیں کہ نبی ﷺ کی تشریف آوری سے قبل ہی میں مفصلات کی متعدد سورتیں پڑھ اور یاد کرچکا تھا، راوی حدیث اسرائیل کہتے ہیں کہ حضرت براء بن عازب (رض) کا تعلق انصار کے قبیلہ بنو حارثہ سے تھا۔
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مُحَمَّدٍ أَبُو سَعِيدٍ يَعْنِي الْعَنْقَزِيَّ قَالَ حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ قَالَ اشْتَرَى أَبُو بَكْرٍ مِنْ عَازِبٍ سَرْجًا بِثَلَاثَةَ عَشَرَ دِرْهَمًا قَالَ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ لِعَازِبٍ مُرْ الْبَرَاءَ فَلْيَحْمِلْهُ إِلَى مَنْزِلِي فَقَالَ لَا حَتَّى تُحَدِّثَنَا كَيْفَ صَنَعْتَ حِينَ خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنْتَ مَعَهُ قَالَ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ خَرَجْنَا فَأَدْلَجْنَا فَأَحْثَثْنَا يَوْمَنَا وَلَيْلَتَنَا حَتَّى أَظْهَرْنَا وَقَامَ قَائِمُ الظَّهِيرَةِ فَضَرَبْتُ بِبَصَرِي هَلْ أَرَى ظِلًّا نَأْوِي إِلَيْهِ فَإِذَا أَنَا بِصَخْرَةٍ فَأَهْوَيْتُ إِلَيْهَا فَإِذَا بَقِيَّةُ ظِلِّهَا فَسَوَّيْتُهُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَفَرَشْتُ لَهُ فَرْوَةً وَقُلْتُ اضْطَجِعْ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَاضْطَجَعَ ثُمَّ خَرَجْتُ أَنْظُرُ هَلْ أَرَى أَحَدًا مِنْ الطَّلَبِ فَإِذَا أَنَا بِرَاعِي غَنَمٍ فَقُلْتُ لِمَنْ أَنْتَ يَا غُلَامُ فَقَالَ لِرَجُلٍ مِنْ قُرَيْشٍ فَسَمَّاهُ فَعَرَفْتُهُ فَقُلْتُ هَلْ فِي غَنَمِكَ مِنْ لَبَنٍ قَالَ نَعَمْ قَالَ قُلْتُ هَلْ أَنْتَ حَالِبٌ لِي قَالَ نَعَمْ قَالَ فَأَمَرْتُهُ فَاعْتَقَلَ شَاةً مِنْهَا ثُمَّ أَمَرْتُهُ فَنَفَضَ ضَرْعَهَا مِنْ الْغُبَارِ ثُمَّ أَمَرْتُهُ فَنَفَضَ كَفَّيْهِ مِنْ الْغُبَارِ وَمَعِي إِدَاوَةٌ عَلَى فَمِهَا خِرْقَةٌ فَحَلَبَ لِي كُثْبَةً مِنْ اللَّبَنِ فَصَبَبْتُ يَعْنِي الْمَاءَ عَلَى الْقَدَحِ حَتَّى بَرَدَ أَسْفَلُهُ ثُمَّ أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَوَافَيْتُهُ وَقَدْ اسْتَيْقَظَ فَقُلْتُ اشْرَبْ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَشَرِبَ حَتَّى رَضِيتُ ثُمَّ قُلْتُ هَلْ أَنَى الرَّحِيلُ قَالَ فَارْتَحَلْنَا وَالْقَوْمُ يَطْلُبُونَا فَلَمْ يُدْرِكْنَا أَحَدٌ مِنْهُمْ إِلَّا سُرَاقَةُ بْنُ مَالِكِ بْنِ جُعْشُمٍ عَلَى فَرَسٍ لَهُ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ هَذَا الطَّلَبُ قَدْ لَحِقَنَا فَقَالَ لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا حَتَّى إِذَا دَنَا مِنَّا فَكَانَ بَيْنَنَا وَبَيْنَهُ قَدْرُ رُمْحٍ أَوْ رُمْحَيْنِ أَوْ ثَلَاثَةٍ قَالَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ هَذَا الطَّلَبُ قَدْ لَحِقَنَا وَبَكَيْتُ قَالَ لِمَ تَبْكِي قَالَ قُلْتُ أَمَا وَاللَّهِ مَا عَلَى نَفْسِي أَبْكِي وَلَكِنْ أَبْكِي عَلَيْكَ قَالَ فَدَعَا عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ اللَّهُمَّ اكْفِنَاهُ بِمَا شِئْتَ فَسَاخَتْ قَوَائِمُ فَرَسِهِ إِلَى بَطْنِهَا فِي أَرْضٍ صَلْدٍ وَوَثَبَ عَنْهَا وَقَالَ يَا مُحَمَّدُ قَدْ عَلِمْتُ أَنَّ هَذَا عَمَلُكَ فَادْعُ اللَّهَ أَنْ يُنْجِيَنِي مِمَّا أَنَا فِيهِ فَوَاللَّهِ لَأُعَمِّيَنَّ عَلَى مَنْ وَرَائِي مِنْ الطَّلَبِ وَهَذِهِ كِنَانَتِي فَخُذْ مِنْهَا سَهْمًا فَإِنَّكَ سَتَمُرُّ بِإِبِلِي وَغَنَمِي فِي مَوْضِعِ كَذَا وَكَذَا فَخُذْ مِنْهَا حَاجَتَكَ قَالَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا حَاجَةَ لِي فِيهَا قَالَ وَدَعَا لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأُطْلِقَ فَرَجَعَ إِلَى أَصْحَابِهِ وَمَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا مَعَهُ حَتَّى قَدِمْنَا الْمَدِينَةَ فَتَلَقَّاهُ النَّاسُ فَخَرَجُوا فِي الطَّرِيقِ وَعَلَى الْأَجَاجِيرِ فَاشْتَدَّ الْخَدَمُ وَالصِّبْيَانُ فِي الطَّرِيقِ يَقُولُونَ اللَّهُ أَكْبَرُ جَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَاءَ مُحَمَّدٌ قَالَ وَتَنَازَعَ الْقَوْمُ أَيُّهُمْ يَنْزِلُ عَلَيْهِ قَالَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْزِلُ اللَّيْلَةَ عَلَى بَنِي النَّجَّارِ أَخْوَالِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ لِأُكْرِمَهُمْ بِذَلِكَ فَلَمَّا أَصْبَحَ غَدَا حَيْثُ أُمِرَ قَالَ الْبَرَاءُ بْنُ عَازِبٍ أَوَّلُ مَنْ كَانَ قَدِمَ عَلَيْنَا مِنْ الْمُهَاجِرِينَ مُصْعَبُ بْنُ عُمَيْرٍ أَخُو بَنِي عَبْدِ الدَّارِ ثُمَّ قَدِمَ عَلَيْنَا ابْنُ أُمِّ مَكْتُومٍ الْأَعْمَى أَخُو بَنِي فِهْرٍ ثُمَّ قَدِمَ عَلَيْنَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ فِي عِشْرِينَ رَاكِبًا فَقُلْنَا مَا فَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ هُوَ عَلَى أَثَرِي ثُمَّ قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَكْرٍ مَعَهُ قَالَ الْبَرَاءُ وَلَمْ يَقْدَمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى حَفِظْتُ سُوَرًا مِنْ الْمُفَصَّلِ قَالَ إِسْرَائِيلُ وَكَانَ الْبَرَاءُ مِنْ الْأَنْصَارِ مِنْ بَنِي حَارِثَةَ
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৪
حضرت صدیق اکبر (رض) کی مرویات
حضرت صدیق اکبر (رض) کی مرویات
حضرت صدیق اکبر (رض) سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے انہیں امیر حج بنا کر بھیجتے وقت اہل مکہ سے اس برائت کا اعلان کرنے کی ذمہ داری بھی سونپی تھی کہ اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہیں کرسکے گا، کوئی آدمی برہنہ ہو کر طواف نہیں کرسکے گا، جنت میں صرف وہی شخص داخل ہوسکے گا جو مسلمان ہو، جس شخص کا پیغمبر اسلام ﷺ سے کسی خاص مدت کے لئے کوئی معاہدہ پہلے سے ہوا ہو، وہ اپنی مدت کے اختتام تک برقرار رہے گا اور یہ کہ اللہ اور اس کا پیغمبر مشرکین سے بری ہیں۔ جب حضرت صدیق اکبر (رض) اس پیغام کو لے کر روانہ ہوگئے اور تین دن کی مسافت طے کرچکے، تو نبی ﷺ نے حضرت علی (رض) سے فرمایا کہ حضرت ابوبکر (رض) کے پیچھے جاؤ اور انہیں میرے پاس واپس بلا کر لاؤ اور امارت حج نہیں لیکن صرف پیغام تم نے اہل مکہ تک پہنچانا ہے، حضرت علی ﷺ روانہ ہوگئے، جب حضرت صدیق اکبر (رض) واپس آئے تو ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اور وہ کہنے لگے کہ یا رسول اللہ ! کیا میرے بارے کوئی نئی بات پیش آگئی ہے ؟ نبی ﷺ نے فرمایا آپ کے بارے تو صرف خیر ہی پیش آسکتی ہے، اصل بات یہ ہے کہ اس پیغام کو اہل عرب کے رواج کے مطابق اہل مکہ تک یا خود میں پہنچا سکتا تھا یا میرے خاندان کا کوئی فرد، اس لئے میں نے صرف یہ ذمہ داری حضرت علی (رض) کے سپرد کردی۔
حَدَّثَنَا وَكِيعٌ قَالَ قَالَ إِسْرَائِيلُ قَالَ أَبُو إِسْحَاقَ عَنْ زَيْدِ بْنِ يُثَيْعٍ عَنْ أَبِي بَكْرٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَهُ بِبَرَاءَةٌ لِأَهْلِ مَكَّةَ لَا يَحُجُّ بَعْدَ الْعَامِ مُشْرِكٌ وَلَا يَطُوفُ بِالْبَيْتِ عُرْيَانٌ وَلَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ إِلَّا نَفْسٌ مُسْلِمَةٌ مَنْ كَانَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُدَّةٌ فَأَجَلُهُ إِلَى مُدَّتِهِ وَاللَّهُ بَرِيءٌ مِنْ الْمُشْرِكِينَ وَرَسُولُهُ قَالَ فَسَارَ بِهَا ثَلَاثًا ثُمَّ قَالَ لِعَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ الْحَقْهُ فَرُدَّ عَلَيَّ أَبَا بَكْرٍ وَبَلِّغْهَا أَنْتَ قَالَ فَفَعَلَ قَالَ فَلَمَّا قَدِمَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبُو بَكْرٍ بَكَى قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ حَدَثَ فِيَّ شَيْءٌ قَالَ مَا حَدَثَ فِيكَ إِلَّا خَيْرٌ وَلَكِنْ أُمِرْتُ أَنْ لَا يُبَلِّغَهُ إِلَّا أَنَا أَوْ رَجُلٌ مِنِّي
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৫
حضرت صدیق اکبر (رض) کی مرویات
حضرت صدیق اکبر (رض) کی مرویات
اوسط کہتے ہیں کہ حضرت صدیق اکبر (رض) ایک مرتبہ خطبہ دینے کے لئے کھڑے ہوئے تو فرمایا کہ اس جگہ گذشتہ سال نبی ﷺ خطبہ دینے کے لئے کھڑے ہوئے تھے، یہ کہہ کر آپ رو پڑے، پھر فرمایا اللہ سے درگذر کی درخواست کیا کرو، کیونکہ ایمان کے بعد عافیت سے بڑھ کر نعمت کسی کو نہیں دی گئی، سچائی کو اختیار کرو، کیونکہ سچائی کا تعلق نیکی کے ساتھ ہے اور یہ دونوں چیزیں جنت میں ہوں گی، جھوٹ بولنے سے اپنے آپ کو بچاؤ، کیونکہ جھوٹ کا تعلق گناہ سے ہے اور یہ دونوں چیزیں جہنم میں ہوں گی، ایک دوسرے سے حسد نہ کرو، بغض نہ کرو، قطع تعلقی مت کرو، ایک دوسرے سے منہ مت پھیرو اور اے اللہ کے بندو ! آپس میں بھائی بھائی بن کر رہو۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ قَالَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ يَزِيدَ بْنِ خُمَيْرٍ عَنْ سُلَيْمِ بْنِ عَامِرٍ عَنْ أَوْسَطَ قَالَ خَطَبَنَا أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَقَالَ قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَقَامِي هَذَا عَامَ الْأَوَّلِ وَبَكَى أَبُو بَكْرٍ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ سَلُوا اللَّهَ الْمُعَافَاةَ أَوْ قَالَ الْعَافِيَةَ فَلَمْ يُؤْتَ أَحَدٌ قَطُّ بَعْدَ الْيَقِينِ أَفْضَلَ مِنْ الْعَافِيَةِ أَوْ الْمُعَافَاةِ عَلَيْكُمْ بِالصِّدْقِ فَإِنَّهُ مَعَ الْبِرِّ وَهُمَا فِي الْجَنَّةِ وَإِيَّاكُمْ وَالْكَذِبَ فَإِنَّهُ مَعَ الْفُجُورِ وَهُمَا فِي النَّارِ وَلَا تَحَاسَدُوا وَلَا تَبَاغَضُوا وَلَا تَقَاطَعُوا وَلَا تَدَابَرُوا وَكُونُوا إِخْوَانًا كَمَا أَمَرَكُمْ اللَّهُ تَعَالَى
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৬
حضرت صدیق اکبر (رض) کی مرویات
حضرت صدیق اکبر (رض) کی مرویات
حضرت رفاعہ بن رافع کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوبکر صدیق (رض) کو منبر رسول پر یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میں نے جناب رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے، نبی ﷺ کا ذکر کر کے حضرت صدیق اکبر (رض) پر گریہ طاری ہوگیا اور وہ روپڑے، پھر جب حالت سنبھلی تو فرمایا کہ میں گذشتہ سال اسی جگہ پر نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا کہ اللہ سے اس کے عفو اور عافیت کا سوال کیا کرو اور دنیا و آخرت میں یقین کی دعا مانگا کرو۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ وَأَبُو عَامِرٍ قَالَا حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ يَعْنِي ابْنَ مُحَمَّدٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ يَعْنِي ابْنَ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ عَنْ مُعَاذِ بْنِ رِفَاعَةَ بْنِ رَافِعٍ الْأَنْصَارِيِّ عَنْ أَبِيهِ رِفَاعَةَ بْنِ رَافِعٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا بَكْرٍ الصِّدِّيقَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ عَلَى مِنْبَرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ فَبَكَى أَبُو بَكْرٍ حِينَ ذَكَرَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ سُرِّيَ عَنْهُ ثُمَّ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ فِي هَذَا الْقَيْظِ عَامَ الْأَوَّلِ سَلُوا اللَّهَ الْعَفْوَ وَالْعَافِيَةَ وَالْيَقِينَ فِي الْآخِرَةِ وَالْأُولَى
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৭
حضرت صدیق اکبر (رض) کی مرویات
حضرت صدیق اکبر (رض) کی مرویات
حضرت ابوبکر صدیق (رض) اللہ عنہ سے مروی کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا مسواک منہ کی پاکیزگی اور پروردگار کی خوشنودی کا سبب ہے۔
حَدَّثَنَا أَبُو كَامِلٍ قَالَ حَدَّثَنَا حَمَّادٌ يَعْنِي ابْنَ سَلَمَةَ عَنِ ابْنِ أَبِي عَتِيقٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ السِّوَاكُ مَطْهَرَةٌ لِلْفَمِ مَرْضَاةٌ لِلرَّبِّ
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৮
حضرت صدیق اکبر (رض) کی مرویات
حضرت صدیق اکبر (رض) کی مرویات
ایک مرتبہ حضرت صدیق اکبر (رض) نے نبی ﷺ کی خدمت میں عرض کیا یا رسول اللہ ! مجھے کوئی ایسی دعا سکھا دیجئے جو میں نماز میں مانگ لیا کروں ؟ نبی ﷺ نے انہیں یہ دعاء تلقین فرمائی کہ اے اللہ ! میں نے اپنی جان پر بڑا ظلم کیا، تیرے علاوہ کوئی بھی گناہوں کو معاف نہیں کرسکتا، اس لئے خاص اپنے فضل سے میرے گناہوں کو معاف فرما اور مجھ پر رحم فرما، بیشک تو بڑا بخشنے والا، مہربان ہے۔
حَدَّثَنَا هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ قَالَ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ قَالَ حَدَّثَنِي يَزِيدُ بْنُ أَبِي حَبِيبٍ عَنْ أَبِي الْخَيْرِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ أَنَّهُ قَالَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلِّمْنِي دُعَاءً أَدْعُو بِهِ فِي صَلَاتِي قَالَ قُلْ اللَّهُمَّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي ظُلْمًا كَثِيرًا وَلَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ فَاغْفِرْ لِي مَغْفِرَةً مِنْ عِنْدِكَ وَارْحَمْنِي إِنَّكَ أَنْتَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ و قَالَ يُونُسُ كَبِيرًا حَدَّثَنَاه حَسَنٌ الْأَشْيَبُ عَنْ ابْنِ لَهِيعَةَ قَالَ قَالَ كَبِيرًا
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৯
حضرت صدیق اکبر (رض) کی مرویات
حضرت صدیق اکبر (رض) کی مرویات
حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے مروی ہے کہ نبی ﷺ کے وصال مبارک کے بعد ایک دن حضرت فاطمہ (رض) اور حضرت عباس (رض) نبی ﷺ کی میراث کا مطالبہ لے کر حضرت صدیق اکبر (رض) علنہ کے یہاں تشریف لائے، اس وقت ان دونوں کا مطالب ارض فدک اور خیبر کا حصہ تھا، ان دونوں بزرگوں کی گفتگو سننے کے بعد حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے فرمایا کہ میں نے جناب رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ہمارے مال میں وراثت جاری نہیں ہوتی، بلکہ جو کچھ چھوڑ کر جاتے ہیں، وہ سب صدقہ ہوتا ہے، البتہ آل محمد ﷺ اس مال میں سے کھا سکتی ہے اور میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں نے نبی ﷺ کو جیسا کرتے ہوئے دیکھا ہے، میں اس طریقے کو کسی صورت نہیں چھوڑوں گا۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ قَالَ حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ عَنِ الزُّهْرِيِّ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّ فَاطِمَةَ وَالْعَبَّاسَ أَتَيَا أَبَا بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَلْتَمِسَانِ مِيرَاثَهُمَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُمَا حِينَئِذٍ يَطْلُبَانِ أَرْضَهُ مِنْ فَدَكَ وَسَهْمَهُ مِنْ خَيْبَرَ فَقَالَ لَهُمْ أَبُو بَكْرٍ إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ إِنَّمَا يَأْكُلُ آلُ مُحَمَّدٍ فِي هَذَا الْمَالِ وَإِنِّي وَاللَّهِ لَا أَدَعُ أَمْرًا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصْنَعُهُ فِيهِ إِلَّا صَنَعْتُهُ
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১০
حضرت صدیق اکبر (رض) کی مرویات
حضرت صدیق اکبر (رض) کی مرویات
حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے اس منبر رسول ﷺ پر حضرت صدیق اکبر (رض) کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ آج ہی کے دن گذشتہ سال میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا اور یہ کہہ کر آپ رو پڑے اور آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے، تھوڑی دیر کے بعد فرمایا کہ میں نے نبی ﷺ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے کہ کلمہ توحید و اخلاص کے بعد تمہیں عافیت جیسی کوئی دوسری نعمت نہیں دی گئی، اس لئے اللہ سے عافیت کا سوال کیا کرو۔
حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمُقْرِئُ قَالَ حَدَّثَنَا حَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ قَالَ سَمِعْتُ عَبْدَ الْمَلِكِ بْنَ الْحَارِثِ يَقُولُ إِنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا بَكْرٍ الصِّدِّيقَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَلَى هَذَا الْمِنْبَرِ يَقُولُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي هَذَا الْيَوْمِ مِنْ عَامِ الْأَوَّلِ ثُمَّ اسْتَعْبَرَ أَبُو بَكْرٍ وَبَكَى ثُمَّ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لَمْ تُؤْتَوْا شَيْئًا بَعْدَ كَلِمَةِ الْإِخْلَاصِ مِثْلَ الْعَافِيَةِ فَاسْأَلُوا اللَّهَ الْعَافِيَةَ
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১১
حضرت صدیق اکبر (رض) کی مرویات
حضرت صدیق اکبر (رض) کی مرویات
حضرت انس (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ سیدنا صدیق اکبر (رض) نے شب ہجرت کی یاد تازہ کرتے ہوئے فرمایا کہ جس وقت ہم لوگ غارثور میں تھے، میں نے نبی ﷺ سے عرض کیا کہ اگر ان میں سے کسی نے اپنے پاؤں کی طرف دیکھ لیا تو نیچے سے ہم نظر آجائیں گے، اس پر نبی ﷺ نے فرمایا ابوبکر ! ان دو کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے جن کے ساتھ تیسرا " اللہ " ہو۔
حَدَّثَنَا عَفَّانُ قَالَ حَدَّثَنَا هَمَّامٌ قَالَ أَخْبَرَنَا ثَابِتٌ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ أَبَا بَكْرٍ حَدَّثَهُ قَالَ قُلْتُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ فِي الْغَارِ وَقَالَ مَرَّةً وَنَحْنُ فِي الْغَارِ لَوْ أَنَّ أَحَدَهُمْ نَظَرَ إِلَى قَدَمَيْهِ لَأَبْصَرَنَا تَحْتَ قَدَمَيْهِ قَالَ فَقَالَ يَا أَبَا بَكْرٍ مَا ظَنُّكَ بِاثْنَيْنِ اللَّهُ ثَالِثُهُمَا
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১২
حضرت صدیق اکبر (رض) کی مرویات
حضرت صدیق اکبر (رض) کی مرویات
حضرت صدیق اکبر (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا دجال کا خروج مشرق کے ایک علاقے سے ہوگا جس کا نام خراسان ہوگا اور اس کی پیروی ایسے لوگ کریں گے جن کے چہرے چپٹی کمان کی طرح محسوس ہوں گے۔
حَدَّثَنَا رَوْحٌ قَالَ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَرُوبَةَ عَنْ أَبِي التَّيَّاحِ عَنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ سُبَيْعٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ حُرَيْثٍ عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ قَالَ حَدَّثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ الدَّجَّالَ يَخْرُجُ مِنْ أَرْضٍ بِالْمَشْرِقِ يُقَالُ لَهَا خُرَاسَانُ يَتَّبِعُهُ أَقْوَامٌ كَأَنَّ وُجُوهَهُمْ الْمَجَانُّ الْمُطْرَقَةُ
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৩
حضرت صدیق اکبر (رض) کی مرویات
حضرت صدیق اکبر (رض) کی مرویات
حضرت ابوبکر صدیق (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کوئی بخیل کوئی دھوکہ باز، کوئی خیانت کرنے والا اور کوئی بداخلاق شخص جنت میں داخل نہیں ہوگا اور جنت کا دروازہ سب سے پہلے کھٹکھٹانے والے لوگ غلام ہوں گے لیکن اس سے مراد وہ غلام ہیں جو اللہ اور اپنے آقاؤں کے معاملے میں اچھے ثابت ہوں یعنی حقوق اللہ کی بھی فکر کرتے ہوں اور اپنے آقا کی خدمت میں بھی کسی قسم کی کمی نہ کرتے ہوں اور ان کے حقوق بھی مکمل طور پر ادا کرتے ہوں۔
حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ مَوْلَى بَنِي هَاشِمٍ قَالَ حَدَّثَنَا صَدَقَةُ بْنُ مُوسَى صَاحِبُ الدَّقِيقِ عَنْ فَرْقَدٍ عَنْ مُرَّةَ بْنِ شَرَاحِيلَ عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ بَخِيلٌ وَلَا خَبٌّ وَلَا خَائِنٌ وَلَا سَيِّئُ الْمَلَكَةِ وَأَوَّلُ مَنْ يَقْرَعُ بَابَ الْجَنَّةِ الْمَمْلُوكُونَ إِذَا أَحْسَنُوا فِيمَا بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَفِيمَا بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ مَوَالِيهِمْ
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৪
حضرت صدیق اکبر (رض) کی مرویات
حضرت صدیق اکبر (رض) کی مرویات
ابوالطفیل کہتے ہیں کہ جب نبی ﷺ کا وصال مبارک ہوگیا تو حضرت فاطمہ (رض) نے حضرت صدیق اکبر (رض) کے پاس ایک قاصد کے ذریعے یہ پیغام بھجوایا کہ نبی ﷺ کے وارث آپ ہیں یا نبی ﷺ کے اہل خانہ ؟ انہوں نے جواباً فرمایا کہ نبی ﷺ کے اہل خانہ ہی ان کے وارث ہیں، حضرت فاطمہ (رض) نے فرمایا تو پھر نبی ﷺ کا حصہ کہاں ہے ؟ حضرت صدیق اکبر (رض) نے جواب دیا کہ میں نے خود جناب رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو کوئی چیز کھلاتا ہے، پھر انہیں اپنے پاس بلالیتا ہے تو اس کا نظم ونسق اس شخص کے ہاتھ میں ہوتا ہے جو خلیفہ وقت ہو، اس لئے میں یہ مناسب سمجھتا ہوں کہ اس مال کو مسلمانوں میں تقسیم کردوں، یہ تمام تفصیل سن کر حضرت فاطمہ (رض) نے فرمایا کہ نبی ﷺ سے آپ نے جو سنا ہے، آپ اسے زیادہ جانتے ہیں، چناچہ اس کے بعد انہوں نے اس کا مطالبہ کرنا چھوڑ دیا۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي شَيْبَةَ قَالَ عَبْد اللَّهِ وَسَمِعْتُهُ مِنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي شَيْبَةَ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ عَنِ الْوَلِيدِ بْنِ جُمَيْعٍ عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ قَالَ لَمَّا قُبِضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْسَلَتْ فَاطِمَةُ إِلَى أَبِي بَكْرٍ أَنْتَ وَرِثْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمْ أَهْلُهُ قَالَ فَقَالَ لَا بَلْ أَهْلُهُ قَالَتْ فَأَيْنَ سَهْمُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ إِذَا أَطْعَمَ نَبِيًّا طُعْمَةً ثُمَّ قَبَضَهُ جَعَلَهُ لِلَّذِي يَقُومُ مِنْ بَعْدِهِ فَرَأَيْتُ أَنْ أَرُدَّهُ عَلَى الْمُسْلِمِينَ فَقَالَتْ فَأَنْتَ وَمَا سَمِعْتَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْلَمُ
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৫
حضرت صدیق اکبر (رض) کی مرویات
حضرت صدیق اکبر (رض) کی مرویات
حضرت ابوبکر صدیق (رض) سے مروی ہے کہ ایک دن جناب رسول اللہ ﷺ نے صبح فجر کی نماز پڑھائی اور نماز پڑھا کر چاشت کے وقت تک اپنے مصلی پر ہی بیٹھے رہے، چاشت کے وقت نبی ﷺ کے چہرہ مبارک پر ضحک کے آثار نمودار ہوئے، لیکن آپ ﷺ اپنی جگہ ہی تشریف فرما رہے، تآنکہ طہر، عصر اور مغرب بھی پڑھ لی، اس دوران آپ ﷺ نے کسی سے کوئی بات نہیں کی، حتیٰ کہ عشاء کی نماز بھی پڑھ لی، اس کے بعد آپ ﷺ اپنے گھر تشریف لے گئے۔ لوگوں نے حضرت صدیق اکبر (رض) سے کہا کہ آپ نبی ﷺ سے آج کے احوال سے متعلق کیوں نہیں دریافت کرتے ؟ آج تو نبی ﷺ نے ایسا کام کیا ہے کہ اس سے پہلے کبھی نہیں کیا ؟ چناچہ حضرت صدیق اکبر (رض) گئے اور نبی ﷺ سے اس دن کے متعلق دریافت کیا، نبی ﷺ نے فرمایا ہاں ! میں بتاتا ہوں۔ دراصل آج میرے سامنے دنیا و آخرت کے وہ نمام امور پیش کئے گئے جو آئندہ رونما ہونے والے ہیں، چناچہ مجھے دکھایا گیا کہ تمام اولین و آخرین ایک ٹیلے پر جمع ہیں، لوگ پسینے سے تنگ آکر بہت گھبرائے ہوئے ہیں، اسی حال میں وہ حضرت آدم (علیہ السلام) کے پاس جاتے ہیں اور پسینہ گویا ان کے منہ میں لگام کی طرح ہے، وہ لوگ حضرت آدم (علیہ السلام) سے کہتے ہیں کہ اے آدم ! آپ ابوالبشر ہیں، اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنا برگزیدہ بنایا ہے اپنے رب سے ہماری سفارش کر دیجئے۔ حضرت آدم (علیہ السلام) نے انہیں جواب دیا کہ میرا بھی وہی حال ہے جو تمہارا ہے اپنے باپ آدم کے بعد دوسرے باپ ابوالبشر ثانی حضرت نوح (علیہ السلام) کے پاس چلے جاؤ کیونکہ اللہ نے انہیں بھی اپنا برگزیدہ بندہ قرار دیا ہے، چناچہ وہ سب لوگ حضرت نوح (علیہ السلام) کے پاس جاتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں کہ آپ اپنے پروردگار سے ہماری سفارش کردیجئے، اللہ نے آپ کو بھی اپنا برگزیدہ بندہ قرار دیا ہے، آپ کی دعاؤں کو قبول کیا ہے اور زمین پر کسی کافر کا گھر باقی نہیں چھوڑا، وہ جواب دیتے ہیں کہ تمہارا گوہر مقصود میرے پاس نہیں ہے، تم حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس چلے جاؤ کیونکہ اللہ نے انہیں اپنا خلیل قرار دیا ہے۔ چناچہ وہ سب لوگ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس جاتے ہیں، لیکن وہ بھی یہی کہتے ہیں کہ تمہارا گوہر مقصود میرے پاس نہیں ہے، البتہ تم حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس چلے جاؤ کیونکہ اللہ نے ان سے براہ راست کلام فرمایا ہے، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بھی معزرت کر رہے ہیں اور فرماتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے پاس چلے جاؤ وہ پیدائشی اندھے اور برص کے مریض کو ٹھیک کردیتے تھے اور اللہ کے حکم سے مردوں کو زندہ کردیتے تھے، لیکن حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) بھی معذرت کر رہے ہیں اور فرما رہے ہیں کہ تم اس ہستی کے پاس جاؤ جو تمام اولاد آدم کی سردار ہے وہی وہ پہلے شخص ہیں جن کی قبر قیامت کے دن سب سے پہلے کھولی گئی، تم محمد ﷺ کے پاس جاؤ وہ تمہاری سفارش کریں گے۔ چنانچہ نبی ﷺ بارگاہ الٰہی میں جاتے ہیں، ادھر سے حضرت جبرائیل بارگاہ الٰہی میں حاضر ہوتے ہیں، اللہ کی طرف سے حکم ہوتا ہے کہ میرے پیغمبر کو آنے کی اجازت دو اور انہیں جنت کی خوشخبری بھی دو ، چناچہ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) یہ پیغام نبی ﷺ کو پہنچاتے ہیں جسے سن کر نبی ﷺ سجدہ میں گرپڑتے ہیں اور متواتر ایک ہفتہ تک سر بسجود رہتے ہیں، ایک ہفتہ گذرنے کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اے محمد ﷺ اپنا سر تو اٹھائیے، آپ جو کہیں گے ہم اسے سننے کے لئے تیار ہیں، آپ جس کی سفارش کریں گے، اس کی سفارش قبول کرلی جائے گی۔ یہ سن کر نبی ﷺ سر اٹھاتے ہیں اور جوں ہی اپنے رب کے رخ تاباں پر نظر پڑتی ہے، اسی وقت دوبارہ سجدہ ریز ہوجاتے ہیں اور مزید ایک ہفتہ تک سر بسجود رہتے ہیں، پھر اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اپنا سر تو اٹھائیے، آپ جو کہیں گے اس کی شنوائی ہوگی اور جس کی سفارش کریں گے قبول ہوگی، نبی ﷺ سجدہ ریز ہی رہنا چاہیں گے لیکن حضرت جبرائیل (علیہ السلام) آکر بازو سے پکڑ کر اٹھاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نبی ﷺ کے قلب منور ایسی دعاؤں کا دروازہ کھولتا ہے جو اب سے پہلے کسی بشر پر کبھی نہیں کھولا تھا۔ چناچہ اس کے بعد نبی ﷺ فرماتے ہیں پروردگار ! تو نے مجھے اولاد آدم کا سردار بنا کر پیدا کیا اور میں اس پر کوئی فخر نہیں کرتا، قیامت کے دن سب سے پہلے زمین میرے لئے کھولی گئی، میں اس پر بھی فخر نہیں کرتا، یہاں تک کہ حوض کوثر پر میرے پاس آنے والے اتنے زیادہ ہیں جو صنعاء اور ایلہ کے درمیانی فاصلے سے بھی زیادہ جگہ کو پر کئے ہوئے ہیں۔ اس کے بعد کہا جائے کہ صدیقین کو بلاؤ وہ آکر سفارش کریں گے پھر کہا جائے گا کہ دیگر انبیاء کرام (علیہم السلام) کو بلاؤ چناچہ بعض انبیاء (علیہم السلام) تو ایسے آئیں گے جن کے ساتھ اہل ایمان کی ایک بڑی جماعت ہوگی، بعض کے ساتھ پانچ چھ آدمی ہوں گے بعض کے ساتھ کوئی بھی نہ ہوگا، پھر شہداء کو بلانے کا حکم ہوگا چناچہ وہ اپنی مرضی سے جس کی چاہیں گے سفارش کریں گے۔ جب شہداء بھی سفارش کر چکیں گے تو اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ میں ارحم الرحمین ہوں، جنت میں وہ تمام لوگ داخل ہوجائیں جو میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتے تھے، چناچہ ایسے تمام لوگ جنت میں داخل ہوجائیں گے، اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ دیکھو ! جہنم میں کوئی ایسا آدمی تو نہیں ہے جس نے کبھی کوئی نیکی کا کام کیا ہو ؟ تلاش کرنے پر انہیں ایک آدمی ملے گا، اسی کو بارگاہ الٰہی میں پیش کردیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ اس سے پوچھیں گے کیا کبھی تو نے کوئی نیکی کا کام بھی کیا ہے ؟ وہ جواب میں کہے گا نہیں ! البتہ اتنی بات ضرور ہے کہ میں بیع وشراء اور تجارت کے درمیان غریبوں سے نرمی کرلیا کرتا تھا، اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ جس طرح یہ میرے بندوں سے نرمی کرتا تھا، تم بھی اس سے نرمی کرو، چناچہ اسے بخش دیا جائے گا۔ اس کے بعد فرشتے جہنم سے ایک اور آدمی کو نکال کر لائیں گے، اللہ تعالیٰ اس سے بھی یہی پوچھیں گے کہ تو نے کبھی کوئی نیکی کا کام کیا ہے ؟ وہ کہے گا کہ نہیں ! البتہ اتنی بات ضرور ہے کہ میں نے اپنی اولاد کو یہ وصیت کی تھی کہ جب میں مرجاؤں تو مجھے آگ میں جلا کر میری راکھ کا سرمہ بنانا اور سمندر کے پاس جا کر اس راکھ کو ہوا میں بکھیر دینا، اس طرح رب العالمین مجھ پر قادر نہ ہوسکے گا، اللہ تعالیٰ پوچھیں گے کہ تو نے یہ کام کیوں کیا ؟ وہ جواب دے گا تیرے خوف کی وجہ سے، اللہ تعالیٰ اس سے فرمائیں گے کہ سب سے بڑے بادشاہ کا ملک دیکھو، تمہیں وہ اس اس جیسے دس ملکوں کی حکومت ہم نے عطاء کردی، وہ کہے گا کہ پروردگار ! تو بادشاہوں کا بادشاہ ہو کر مجھ سے کیوں مذاق کرتا ہے ؟ اس بات پر مجھے چاشت کے وقت ہنسی آئی تھی اور میں ہنس پڑا تھا۔
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ إِسْحَاقَ الطَّالَقَانِيُّ قَالَ حَدَّثَنِي النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ الْمَازِنِيُّ قَالَ حَدَّثَنِي أَبُو نَعَامَةَ قَالَ حَدَّثَنِي أَبُو هُنَيْدَةَ الْبَرَاءُ بْنُ نَوْفَلٍ عَنْ وَالَانَ الْعَدَوِيِّ عَنْ حُذَيْفَةَ عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ أَصْبَحَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ فَصَلَّى الْغَدَاةَ ثُمَّ جَلَسَ حَتَّى إِذَا كَانَ مِنْ الضُّحَى ضَحِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ جَلَسَ مَكَانَهُ حَتَّى صَلَّى الْأُولَى وَالْعَصْرَ وَالْمَغْرِبَ كُلُّ ذَلِكَ لَا يَتَكَلَّمُ حَتَّى صَلَّى الْعِشَاءَ الْآخِرَةَ ثُمَّ قَامَ إِلَى أَهْلِهِ فَقَالَ النَّاسُ لِأَبِي بَكْرٍ أَلَا تَسْأَلُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا شَأْنُهُ صَنَعَ الْيَوْمَ شَيْئًا لَمْ يَصْنَعْهُ قَطُّ قَالَ فَسَأَلَهُ فَقَالَ نَعَمْ عُرِضَ عَلَيَّ مَا هُوَ كَائِنٌ مِنْ أَمْرِ الدُّنْيَا وَأَمْرِ الْآخِرَةِ فَجُمِعَ الْأَوَّلُونَ وَالْآخِرُونَ بِصَعِيدٍ وَاحِدٍ فَفَظِعَ النَّاسُ بِذَلِكَ حَتَّى انْطَلَقُوا إِلَى آدَمَ عَلَيْهِ السَّلَام وَالْعَرَقُ يَكَادُ يُلْجِمُهُمْ فَقَالُوا يَا آدَمُ أَنْتَ أَبُو الْبَشَرِ وَأَنْتَ اصْطَفَاكَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ قَالَ لَقَدْ لَقِيتُ مِثْلَ الَّذِي لَقِيتُمْ انْطَلِقُوا إِلَى أَبِيكُمْ بَعْدَ أَبِيكُمْ إِلَى نُوحٍ إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَى آدَمَ وَنُوحًا وَآلَ إِبْرَاهِيمَ وَآلَ عِمْرَانَ عَلَى الْعَالَمِينَ قَالَ فَيَنْطَلِقُونَ إِلَى نُوحٍ عَلَيْهِ السَّلَام فَيَقُولُونَ اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ فَأَنْتَ اصْطَفَاكَ اللَّهُ وَاسْتَجَابَ لَكَ فِي دُعَائِكَ وَلَمْ يَدَعْ عَلَى الْأَرْضِ مِنْ الْكَافِرِينَ دَيَّارًا فَيَقُولُ لَيْسَ ذَاكُمْ عِنْدِي انْطَلِقُوا إِلَى إِبْرَاهِيمَ عَلَيْهِ السَّلَام فَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ اتَّخَذَهُ خَلِيلًا فَيَنْطَلِقُونَ إِلَى إِبْرَاهِيمَ فَيَقُولُ لَيْسَ ذَاكُمْ عِنْدِي وَلَكِنْ انْطَلِقُوا إِلَى مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَام فَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ كَلَّمَهُ تَكْلِيمًا فَيَقُولُ مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَام لَيْسَ ذَاكُمْ عِنْدِي وَلَكِنْ انْطَلِقُوا إِلَى عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ فَإِنَّهُ يُبْرِئُ الْأَكْمَهَ وَالْأَبْرَصَ وَيُحْيِي الْمَوْتَى فَيَقُولُ عِيسَى لَيْسَ ذَاكُمْ عِنْدِي وَلَكِنْ انْطَلِقُوا إِلَى سَيِّدِ وَلَدِ آدَمَ فَإِنَّهُ أَوَّلُ مَنْ تَنْشَقُّ عَنْهُ الْأَرْضُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ انْطَلِقُوا إِلَى مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيَشْفَعَ لَكُمْ إِلَى رَبِّكُمْ عَزَّ وَجَلَّ قَالَ فَيَنْطَلِقُ فَيَأْتِي جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام رَبَّهُ فَيَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ ائْذَنْ لَهُ وَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ قَالَ فَيَنْطَلِقُ بِهِ جِبْرِيلُ فَيَخِرُّ سَاجِدًا قَدْرَ جُمُعَةٍ وَيَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ ارْفَعْ رَأْسَكَ يَا مُحَمَّدُ وَقُلْ يُسْمَعْ وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ قَالَ فَيَرْفَعُ رَأْسَهُ فَإِذَا نَظَرَ إِلَى رَبِّهِ عَزَّ وَجَلَّ خَرَّ سَاجِدًا قَدْرَ جُمُعَةٍ أُخْرَى فَيَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ ارْفَعْ رَأْسَكَ وَقُلْ يُسْمَعْ وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ قَالَ فَيَذْهَبُ لِيَقَعَ سَاجِدًا فَيَأْخُذُ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام بِضَبْعَيْهِ فَيَفْتَحُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ عَلَيْهِ مِنْ الدُّعَاءِ شَيْئًا لَمْ يَفْتَحْهُ عَلَى بَشَرٍ قَطُّ فَيَقُولُ أَيْ رَبِّ خَلَقْتَنِي سَيِّدَ وَلَدِ آدَمَ وَلَا فَخْرَ وَأَوَّلَ مَنْ تَنْشَقُّ عَنْهُ الْأَرْضُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا فَخْرَ حَتَّى إِنَّهُ لَيَرِدُ عَلَيَّ الْحَوْضَ أَكْثَرُ مِمَّا بَيْنَ صَنْعَاءَ وَأَيْلَةَ ثُمَّ يُقَالُ ادْعُوا الصِّدِّيقِينَ فَيَشْفَعُونَ ثُمَّ يُقَالُ ادْعُوا الْأَنْبِيَاءَ قَالَ فَيَجِيءُ النَّبِيُّ وَمَعَهُ الْعِصَابَةُ وَالنَّبِيُّ وَمَعَهُ الْخَمْسَةُ وَالسِّتَّةُ وَالنَّبِيُّ وَلَيْسَ مَعَهُ أَحَدٌ ثُمَّ يُقَالُ ادْعُوا الشُّهَدَاءَ فَيَشْفَعُونَ لِمَنْ أَرَادُوا وَقَالَ فَإِذَا فَعَلَتْ الشُّهَدَاءُ ذَلِكَ قَالَ يَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ أَنَا أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ أَدْخِلُوا جَنَّتِي مَنْ كَانَ لَا يُشْرِكُ بِي شَيْئًا قَالَ فَيَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ قَالَ ثُمَّ يَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ انْظُرُوا فِي النَّارِ هَلْ تَلْقَوْنَ مِنْ أَحَدٍ عَمِلَ خَيْرًا قَطُّ قَالَ فَيَجِدُونَ فِي النَّارِ رَجُلًا فَيَقُولُ لَهُ هَلْ عَمِلْتَ خَيْرًا قَطُّ فَيَقُولُ لَا غَيْرَ أَنِّي كُنْتُ أُسَامِحُ النَّاسَ فِي الْبَيْعِ وَالشِّرَاءِ فَيَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ أَسْمِحُوا لِعَبْدِي كَإِسْمَاحِهِ إِلَى عَبِيدِي ثُمَّ يُخْرِجُونَ مِنْ النَّارِ رَجُلًا فَيَقُولُ لَهُ هَلْ عَمِلْتَ خَيْرًا قَطُّ فَيَقُولُ لَا غَيْرَ أَنِّي قَدْ أَمَرْتُ وَلَدِي إِذَا مِتُّ فَأَحْرِقُونِي بِالنَّارِ ثُمَّ اطْحَنُونِي حَتَّى إِذَا كُنْتُ مِثْلَ الْكُحْلِ فَاذْهَبُوا بِي إِلَى الْبَحْرِ فَاذْرُونِي فِي الرِّيحِ فَوَاللَّهِ لَا يَقْدِرُ عَلَيَّ رَبُّ الْعَالَمِينَ أَبَدًا فَقَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لِمَ فَعَلْتَ ذَلِكَ قَالَ مِنْ مَخَافَتِكَ قَالَ فَيَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ انْظُرْ إِلَى مُلْكِ أَعْظَمِ مَلِكٍ فَإِنَّ لَكَ مِثْلَهُ وَعَشَرَةَ أَمْثَالِهِ قَالَ فَيَقُولُ لِمَ تَسْخَرُ بِي وَأَنْتَ الْمَلِكُ قَالَ وَذَاكَ الَّذِي ضَحِكْتُ مِنْهُ مِنْ الضُّحَى
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৬
حضرت صدیق اکبر (رض) کی مرویات
حضرت صدیق اکبر (رض) کی مرویات
قیس کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت صدیق اکبر (رض) خطبہ ارشاد فرمانے کے لئے کھڑے ہوئے تو اللہ تعالیٰ کی حمدوثناء کرنے کے بعد فرمایا اے لوگو ! تم اس آیت کی تلاوت کرتے ہو۔ ( يٰٓاَيُّھَاالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا عَلَيْكُمْ اَنْفُسَكُمْ ۚلَا يَضُرُّكُمْ مَّنْ ضَلَّ اِذَا اهْتَدَيْتُمْ ۭ اِلَى اللّٰهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيْعًا فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ ١٠٥؁) 5 ۔ المآئدہ :105) اے ایمان والو ! تم اپنی فکر کرو، اگر تم راہ راست پر ہو تو کوئی گمراہ شخص تمہیں نقصان نہیں پہنچاسکتا۔ لیکن تم اسے اس کے صحیح مطلب پر محمول نہیں کرتے۔ میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جب لوگ گناہ کا کام ہوتے ہوئے دیکھیں اور اسے بدلنے کی کوشش نہ کریں تو عنقریب ان سب کو اللہ کا عذاب گھیر لے گا نیز میں نے حضرت صدیق اکبر (رض) کو یہ فرماتے ہوئے بھی سنا کہ جھوٹ سے اپنے آپ کو بچاؤ، کیونکہ جھوٹ ایمان سے الگ ہے۔
حَدَّثَنَا هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ قَالَ حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ يَعْنِي ابْنَ مُعَاوِيَةَ قَالَ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي خَالِدٍ قَالَ حَدَّثَنَا قَيْسٌ قَالَ قَامَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَحَمِدَ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ وَأَثْنَى عَلَيْهِ فَقَالَ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّكُمْ تَقْرَءُونَ هَذِهِ الْآيَةَ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلَيْكُمْ أَنْفُسَكُمْ لَا يَضُرُّكُمْ مَنْ ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُمْ إِلَى آخِرِ الْآيَةِ وَإِنَّكُمْ تَضَعُونَهَا عَلَى غَيْرِ مَوْضِعِهَا وَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِنَّ النَّاسَ إِذَا رَأَوْا الْمُنْكَرَ وَلَا يُغَيِّرُوهُ أَوْشَكَ اللَّهُ أَنْ يَعُمَّهُمْ بِعِقَابِهِ قَالَ وَسَمِعْتُ أَبَا بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِيَّاكُمْ وَالْكَذِبَ فَإِنَّ الْكَذِبَ مُجَانِبٌ لِلْإِيمَانِ
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৭
حضرت صدیق اکبر (رض) کی مرویات
حضرت صدیق اکبر (رض) کی مرویات
اوسط کہتے ہیں کہ انہوں نے نبی ﷺ کے وصال مبارک کے بعد حضرت صدیق اکبر (رض) کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اس جگہ گذشتہ سال نبی ﷺ کھڑے ہوئے تھے، یہ کہہ کر آپ روپڑے، پھر فرمایا سچائی کو اختیار کرو، کیونکہ سچائی کا تعلق نیکی کے ساتھ ہے اور یہ دونوں چیزیں جنت میں ہوں گی، جھوٹ بولنے سے اپنے آپ کو بچاؤ، کیونکہ جھوٹ کا تعلق گناہ سے ہے اور یہ دونوں چیزیں جہنم میں ہوں گی اور اللہ سے عافیت کی دعاء مانگا کرو کیونکہ ایمان کے بعد عافیت سے بڑھ کر نعمت کسی کو نہیں دی گئی، پھر فرمایا کہ ایک دوسرے سے حسد نہ کرو، بغض نہ کرو، قطع تعلقی مت کرو، ایک دوسرے سے منہ مت پھیرو اور اے اللہ کے بندو ! آپس میں بھائی بھائی بن کر رہو۔
حَدَّثَنَا هَاشِمٌ قَالَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ قَالَ أَخْبَرَنِي يَزِيدُ بْنُ خُمَيْرٍ قَالَ سَمِعْتُ سُلَيْمَ بْنَ عَامِرٍ رَجُلًا مِنْ حِمْيَرَ يُحَدِّثُ عَنْ أَوْسَطَ بْنِ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أَوْسَطَ الْبَجَلِيِّ يُحَدِّثُ عَنْ أَبِي بَكْرٍ أَنَّهُ سَمِعَهُ حِينَ تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ الْأَوَّلِ مَقَامِي هَذَا ثُمَّ بَكَى ثُمَّ قَالَ عَلَيْكُمْ بِالصِّدْقِ فَإِنَّهُ مَعَ الْبِرِّ وَهُمَا فِي الْجَنَّةِ وَإِيَّاكُمْ وَالْكَذِبَ فَإِنَّهُ مَعَ الْفُجُورِ وَهُمَا فِي النَّارِ وَسَلُوا اللَّهَ الْمُعَافَاةَ فَإِنَّهُ لَمْ يُؤْتَ رَجُلٌ بَعْدَ الْيَقِينِ شَيْئًا خَيْرًا مِنْ الْمُعَافَاةِ ثُمَّ قَالَ لَا تَقَاطَعُوا وَلَا تَدَابَرُوا وَلَا تَبَاغَضُوا وَلَا تَحَاسَدُوا وَكُونُوا عِبَادَ اللَّهِ إِخْوَانًا
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৮
حضرت صدیق اکبر (رض) کی مرویات
حضرت صدیق اکبر (رض) کی مرویات
حمید بن عبدالرحمن کہتے ہیں کہ جس وقت حضور نبی مکرم، سرور دو عالم ﷺ کا وصال ہوا، حضرت ابوبکر صدیق (رض) مدینہ منورہ کے قریبی علاقے میں تھے، وہ نبی ﷺ کے انتقال کی خبر سنتے ہی تشریف لائے، نبی ﷺ کے روئے انور سے کپڑا ہٹایا، اسے بوسہ دیا اور فرمایا میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، آپ زندگی میں اور اس دنیوی زندگی کے بعد بھی کتنے پاکیزہ ہیں، رب کعبہ کی قسم ! محمد ﷺ ہمیں داغ مفارقت دے گئے۔ اس کے بعد حضرت ابوبکر صدیق (رض) اور حضرت فاروق اعظم (رض) تیزی کے ساتھ سقیفہ بنی ساعدہ کی طرف روانہ ہوئے جہاں تمام انصار مسئلہ خلافت طے کرنے کے لئے جمع تھے، یہ دونوں حضرات وہاں پہنچے اور حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے گفتگو شروع کی، اس دوران انہوں نے قرآن کریم کی وہ تمام آیات اور نبی ﷺ کی وہ تمام احادیث جو انصار کی فضیلت سے تعلق رکھتی تھیں، سب بیان کردیں اور فرمایا کہ آپ لوگ جانتے ہیں کہ اگر لوگ ایک راستے پر چلتے اور انصار دوسرے پر تو نبی ﷺ انصار کا راستہ اختیار کرتے۔ پھر حضرت سعد بن عبادہ (رض) کو مخاطب کر کے فرمایا کہ سعد ! آپ بھی جانتے ہیں کہ ایک مجلس میں جس میں آپ بھی موجود تھے نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا تھا کہ خلافت کے حقدار قریش ہوں گے، لوگوں میں سے جو نیک ہوں گے وہ قریش کے نیک افراد کے تابع ہوں گے اور جو بدکار ہوں گے وہ بدکاروں کے تابع ہوں گے۔ حضرت سعد بن عبادہ (رض) نے فرمایا آپ سچ کہتے ہیں، اب ہم وزیر ہوں گے اور آپ امیر یعنی خلیفہ۔
حَدَّثَنَا عَفَّانُ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ دَاوُدَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْأَوْدِيِّ عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ قَالَ تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَكْرٍ فِي طَائِفَةٍ مِنْ الْمَدِينَةِ قَالَ فَجَاءَ فَكَشَفَ عَنْ وَجْهِهِ فَقَبَّلَهُ وَقَالَ فِدَاكَ أَبِي وَأُمِّي مَا أَطْيَبَكَ حَيًّا وَمَيِّتًا مَاتَ مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَبِّ الْكَعْبَةِ فَذَكَرَ الْحَدِيثَ قَالَ فَانْطَلَقَ أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ يَتَقَاوَدَانِ حَتَّى أَتَوْهُمْ فَتَكَلَّمَ أَبُو بَكْرٍ وَلَمْ يَتْرُكْ شَيْئًا أُنْزِلَ فِي الْأَنْصَارِ وَلَا ذَكَرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ شَأْنِهِمْ إِلَّا وَذَكَرَهُ وَقَالَ وَلَقَدْ عَلِمْتُمْ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَوْ سَلَكَ النَّاسُ وَادِيًا وَسَلَكَتْ الْأَنْصَارُ وَادِيًا سَلَكْتُ وَادِيَ الْأَنْصَارِ وَلَقَدْ عَلِمْتَ يَا سَعْدُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ وَأَنْتَ قَاعِدٌ قُرَيْشٌ وُلَاةُ هَذَا الْأَمْرِ فَبَرُّ النَّاسِ تَبَعٌ لِبَرِّهِمْ وَفَاجِرُهُمْ تَبَعٌ لِفَاجِرِهِمْ قَالَ فَقَالَ لَهُ سَعْدٌ صَدَقْتَ نَحْنُ الْوُزَرَاءُ وَأَنْتُمْ الْأُمَرَاءُ
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৯
حضرت صدیق اکبر (رض) کی مرویات
حضرت صدیق اکبر (رض) کی مرویات
ایک مرتبہ حضرت صدیق اکبر (رض) نے نبی ﷺ سے دریافت کیا کہ یار سول اللہ ! ہم جو عمل کرتے ہیں، کیا وہ پہلے سے لکھا جا چکا ہے یا ہمارا عمل پہلے ہوتا ہے ؟ فرمایا نہیں ! بلکہ وہ پہلے سے لکھا جا چکا ہے، حضرت صدیق اکبر (رض) نے عرض کیا یا رسول اللہ ! پھر عمل کا کیا فائدہ ؟ فرمایا جو شخص جس مقصد کے لئے پیدا کیا گیا ہے اس کے اسباب مہیا کردئیے جاتے ہیں اور وہ عمل اس کے لئے آسان کردیا جاتا ہے۔ (فائدہ : اس حدیث کا تعلق مسئلہ تقدیر سے ہے، اس کی مکمل وضاحت کے لئے ہماری کتاب الطریق الاسلم الی شرح مسند الامام الاعظم کا مطالعہ کیجئے )
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَيَّاشٍ قَالَ حَدَّثَنَا الْعَطَّافُ بْنُ خَالِدٍ قَالَ حَدَّثَنِي رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْبَصْرَةِ عَنْ طَلْحَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ قَالَ سَمِعْتُ أَبِي يَذْكُرُ أَنَّ أَبَاهُ سَمِعَ أَبَا بَكْرٍ وَهُوَ يَقُولُ قُلْتُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا رَسُولَ اللَّهِ الْعَمَلُ عَلَى مَا فُرِغَ مِنْهُ أَوْ عَلَى أَمْرٍ مُؤْتَنَفٍ قَالَ بَلْ عَلَى أَمْرٍ قَدْ فُرِغَ مِنْهُ قَالَ قُلْتُ فَفِيمَ الْعَمَلُ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ كُلٌّ مُيَسَّرٌ لِمَا خُلِقَ لَهُ
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ২০
حضرت صدیق اکبر (رض) کی مرویات
حضرت صدیق اکبر (رض) کی مرویات
حضرت عثمان غنی (رض) نے ایک مرتبہ یہ حدیث بیان فرمائی کہ نبی ﷺ کے وصال کے بعد بہت سے صحابہ کرام عنہم غمگین رہنے لگے بلکہ بعض حضرات کو طرح طرح کے وساوس نے گھیرنا شروع کردیا تھا، میری بھی کچھ ایسی ہی کیفیت تھی، اسی تناظر میں ایک دن میں کسی ٹیلے کے سائے میں بیٹھا ہوا تھا کہ وہاں سے حضرت عمر فاروق (رض) کا گذر ہوا، انہوں نے مجھے سلام کیا، لیکن مجھے پتہ ہی نہ چل سکا کہ وہ یہاں سے گذر کر گئے ہیں یا انہوں نے مجھے سلام کیا ہے۔ حضرت عمر فاروق (رض) یہاں سے ہو کر سیدھے حضرت صدیق اکبر (رض) کے پاس پہنچے اور ان سے کہا کہ آپ کو ایک حیرانگی کی بات بتاؤں ؟ میں ابھی حضرت عثمان (رض) کے پاس سے گذرا تھا، میں نے انہیں سلام کیا لیکن انہوں نے میرے سلام کا جواب ہی نہیں دیا ؟ یہ خلافت صدیقی کا واقعہ ہے، اس مناسبت سے تھوڑی دیر بعد سامنے سے حضرت صدیق اکبر (رض) اور حضرت عمر فاروق (رض) آتے ہوئے دکھائی دئیے، ان دونوں نے آتے ہی مجھے سلام کیا۔ اس کے بعد حضرت صدیق اکبر (رض) اللہ عنہ فرمانے لگے کہ میرے پاس ابھی تمہارے بھائی عمر آئے تھے، وہ کہہ رہے تھے کہ ان کا آپ کے پاس سے گذر ہوا، انہوں نے آپ کو سلام کیا لیکن آپ نے اس کا کوئی جواب ہی نہیں دیا، آپ نے ایسا کیوں کیا ؟ میں نے کہا کہ میں نے تو ایسا کچھ نہیں کیا، حضرت عمر (رض) کہنے لگے کیوں نہیں ! میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ آپ نے ایسا کیا ہے، اصل بات یہ ہے کہ اے بنو امیہ ! آپ لوگ اپنے آپ کو دوسروں سے بڑا سمجھتے ہیں، میں نے کہا کہ اللہ کی قسم ! مجھے آپ کے گذرنے کا احساس ہوا اور نہ ہی مجھے آپ کے سلام کرنے کی خبر ہوسکی۔ حضرت صدیق اکبر (رض) نے فرمایا عثمان ٹھیک کہہ رہے ہیں، اچھا یہ بتائیے کہ آپ کس سوچ میں ڈوبے ہوئے تھے ؟ میں نے عرض کیا جی ہاں ! حضرت صدیق اکبر (رض) نے پوچھا کہ آپ کن خیالات میں مستغرق تھے ؟ میں نے عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کو اپنے پاس بلا لیا اور میں آپ ﷺ سے یہ بھی نہ پوچھ سکا کہ اس حادثہ سے صحیح سالم نجات پانے کا کیا راستہ ہوگا ؟ حضرت صدیق اکبر (رض) نے فرمایا کہ اس کے متعلق میں نبی ﷺ سے معلوم کرچکا ہوں، یہ سن کر میں کھڑا ہوگیا اور میں نے کہا کہ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، آپ ہی اس سوال کے زیادہ حقدار تھے، اس لئے اب مجھے بھی اس کا جواب بتادیجئے، حضرت صدیق اکبر (رض) نے فرمایا میں نے نبی ﷺ سے عرض کیا تھا یا رسول اللہ ! اس حادثہ جانکاہ سے نجات کا راستہ کیا ہوگا ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا جو شخص میری طرف سے وہ کلمہ توحید قبول کرلے جو میں نے اپنے چچا خواجہ ابوطالب پر پیش کیا تھا اور انہوں نے وہ کلمہ کہنے سے انکار کردیا تھا، وہ کلمہ ہی ہر شخص کے لئے نجات کا راستہ اور سبب ہے۔
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَيَّاشٍ قَالَ حَدَّثَنَا الْعَطَّافُ بْنُ خَالِدٍ قَالَ حَدَّثَنِي رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْبَصْرَةِ عَنْ طَلْحَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ قَالَ سَمِعْتُ أَبِي يَذْكُرُ أَنَّ أَبَاهُ سَمِعَ أَبَا بَكْرٍ وَهُوَ يَقُولُ قُلْتُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا رَسُولَ اللَّهِ الْعَمَلُ عَلَى مَا فُرِغَ مِنْهُ أَوْ عَلَى أَمْرٍ مُؤْتَنَفٍ قَالَ بَلْ عَلَى أَمْرٍ قَدْ فُرِغَ مِنْهُ قَالَ قُلْتُ فَفِيمَ الْعَمَلُ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ كُلٌّ مُيَسَّرٌ لِمَا خُلِقَ لَهُ
tahqiq

তাহকীক: