আল জামিউস সহীহ- ইমাম বুখারী রহঃ (উর্দু)
الجامع الصحيح للبخاري
علم کا بیان - এর পরিচ্ছেদসমূহ
মোট হাদীস ২০ টি
হাদীস নং: ৫৯
علم کا بیان
اس بیان میں کہ جس شخص سے علم کی کوئی بات پوچھی جائے اور وہ اپنی کسی دوسری بات میں مشغول ہو پس (ادب کا تقاضا ہے کہ) وہ پہلے اپنی بات پوری کر لے پھر پوچھنے والے کو جواب دے
 ہم سے محمد بن سنان نے بیان کیا، کہا ہم سے فلیح نے بیان کیا  (دوسری سند)  اور مجھ سے ابراہیم بن المنذر نے بیان کیا، کہا مجھ سے میرے باپ  (فلیح)  نے بیان کیا، کہا ہلال بن علی نے، انہوں نے عطاء بن یسار سے نقل کیا، انہوں نے ابوہریرہ (رض) سے کہ  ایک بار نبی کریم  ﷺ  لوگوں میں بیٹھے ہوئے ان سے باتیں کر رہے تھے۔ اتنے میں ایک دیہاتی آپ کے پاس آیا اور پوچھنے لگا کہ قیامت کب آئے گی ؟ آپ  ﷺ  اپنی گفتگو میں مصروف رہے۔ بعض لوگ  (جو مجلس میں تھے)  کہنے لگے آپ  ﷺ  نے دیہاتی کی بات سنی لیکن پسند نہیں کی اور بعض کہنے لگے کہ نہیں بلکہ آپ نے اس کی بات سنی ہی نہیں۔ جب آپ  ﷺ  اپنی باتیں پوری کرچکے تو میں سمجھتا ہوں کہ آپ  ﷺ  نے یوں فرمایا وہ قیامت کے بارے میں پوچھنے والا کہاں گیا اس  (دیہاتی)  نے کہا  (یا رسول اللہ ! )  میں موجود ہوں۔ آپ  ﷺ  نے فرمایا کہ جب امانت  (ایمانداری دنیا سے)  اٹھ جائے تو قیامت قائم ہونے کا انتظار کر۔ اس نے کہا ایمانداری اٹھنے کا کیا مطلب ہے ؟ آپ  ﷺ  نے فرمایا کہ جب  (حکومت کے کاروبار)  نالائق لوگوں کو سونپ دئیے جائیں تو قیامت کا انتظار کر۔   
حدیث نمبر: 59  حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سِنَانٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا فُلَيْحٌ . ح وحَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُلَيْحٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي ، قَالَ: حَدَّثَنِي هِلَالُ بْنُ عَلِيٍّ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: بَيْنَمَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَجْلِسٍ يُحَدِّثُ الْقَوْمَ جَاءَهُ أَعْرَابِيٌّ، فَقَالَ: مَتَى السَّاعَةُ ؟ فَمَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُحَدِّثُ، فَقَالَ بَعْضُ الْقَوْمِ: سَمِعَ مَا قَالَ، فَكَرِهَ مَا قَالَ، وَقَالَ بَعْضُهُمْ: بَلْ لَمْ يَسْمَعْ، حَتَّى إِذَا قَضَى حَدِيثَهُ، قَالَ: أَيْنَ أُرَاهُ السَّائِلُ عَنِ السَّاعَةِ ؟ قَالَ: هَا أَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: فَإِذَا ضُيِّعَتِ الْأَمَانَةُ فَانْتَظِرِ السَّاعَةَ، قَالَ: كَيْفَ إِضَاعَتُهَا ؟ قَالَ: إِذَا وُسِّدَ الْأَمْرُ إِلَى غَيْرِ أَهْلِهِ فَانْتَظِرِ السَّاعَةَ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৬০
علم کا بیان
اس کے بارے میں جس نے علمی مسائل کے لیے اپنی آواز کو بلند کیا
 ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعوانہ نے ابوبشر سے بیان کیا، انہوں نے یوسف بن ماہک سے، انہوں نے عبداللہ بن عمرو سے، انہوں نے کہا  ایک سفر میں جو ہم نے کیا تھا نبی کریم  ﷺ  ہم سے پیچھے رہ گئے اور آپ  ﷺ  ہم سے اس وقت ملے جب  (عصر کی)  نماز کا وقت آن پہنچا تھا ہم  (جلدی جلدی)  وضو کر رہے تھے۔ پس پاؤں کو خوب دھونے کے بدل ہم یوں ہی سا دھو رہے تھے۔  (یہ حال دیکھ کر)  آپ  ﷺ  نے بلند آواز سے پکارا دیکھو ایڑیوں کی خرابی دوزخ سے ہونے والی ہے دو یا تین بار آپ  ﷺ  نے  (یوں ہی بلند آواز سے)  فرمایا۔   
حدیث نمبر: 60  حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ عَارِمُ بْنُ الْفَضْلِ ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ ، عَنْ يُوسُفَ بْنِ مَاهَكَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ: تَخَلَّفَ عَنَّا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفْرَةٍ سَافَرْنَاهَا، فَأَدْرَكَنَا وَقَدْ أَرْهَقَتْنَا الصَّلَاةُ وَنَحْنُ نَتَوَضَّأُ، فَجَعَلْنَا نَمْسَحُ عَلَى أَرْجُلِنَا، فَنَادَى بِأَعْلَى صَوْتِهِ: وَيْلٌ لِلْأَعْقَابِ مِنَ النَّارِ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৬১
علم کا بیان
محدث کا لفظ «حدثنا أو، أخبرنا وأنبأنا» استعمال کرنا صحیح ہے
 ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے اسماعیل بن جعفر نے بیان کیا، انہوں نے عبداللہ بن دینار سے، انہوں نے عبداللہ بن عمر (رض) سے کہا کہ  نبی کریم  ﷺ  نے فرمایا درختوں میں ایک درخت ایسا ہے کہ اس کے پتے نہیں جھڑتے اور مسلمان کی مثال اسی درخت کی سی ہے۔ بتاؤ وہ کون سا درخت ہے ؟ یہ سن کر لوگوں کا خیال جنگل کے درختوں کی طرف دوڑا۔ عبداللہ (رض) نے کہا میرے دل میں آیا کہ وہ کھجور کا درخت ہے۔ مگر میں اپنی  (کم سنی کی)  شرم سے نہ بولا۔ آخر صحابہ نے نبی کریم  ﷺ  ہی سے پوچھا کہ وہ کون سا درخت ہے ؟ آپ  ﷺ  نے فرمایا وہ کھجور کا درخت ہے۔   
حدیث نمبر: 61  حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ مِنَ الشَّجَرِ شَجَرَةً لَا يَسْقُطُ وَرَقُهَا وَإِنَّهَا مَثَلُ الْمُسْلِمِ، فَحَدِّثُونِي مَا هِيَ ؟ فَوَقَعَ النَّاسُ فِي شَجَرِ الْبَوَادِي، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: وَوَقَعَ فِي نَفْسِي أَنَّهَا النَّخْلَةُ، ثُمَّ قَالُوا: حَدِّثْنَا مَا هِيَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ؟ قَالَ: هِيَ النَّخْلَةُ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৬২
علم کا بیان
حدیث پڑھنے اور محدث کے سامنے پیش کرنے (پڑھنے) کا بیان اور حسن بصری اور سفیان ثوری اور امام مالک نے (بھی خود) پڑھ لینا کافی سمجھا ہے اور بعض محدثین نے عالم کے سامنے قرأت (کے کافی ہونے) میں ضمام بن ثعلبہ کی حدیث سے استدلال کیا ہے، انہوں نے نبی ﷺ سے عرض کیا تھا کہ اللہ نے آپ کو حکم دیا ہے کہ ہم نماز پڑھیں ؟ آپ نے فرمایا ہاں۔ پس وہ محدثین کہتے ہیں کہ (ضمام بن ثعلبہ کا) یہ قول نبی ﷺ کے سامنے پڑھنا ہے (اور) ضمام نے اپنی قوم کو اس کی اطلاع کی اور قوم کے لوگوں نے اس کو کافی سمجھا اور (امام) مالک نے صک سے استدلال کیا ہے کہ وہ لوگوں کے سامنے سنایا اور معلم کے سامنے کتاب پڑھی جاتی ہے تو حاضرین کہتے ہیں کہ ہم فلاں شخص نے سنایا اور معلم کے سامنے کتاب پڑھی جاتی ہے تو پڑھنے والا کہتا ہے کہ مجھے فلاں شخص نے پڑھایا۔
 ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن حسن واسطی نے بیان کیا، کہا انہوں نے عوف سے، انہوں نے حسن بصری سے، انہوں نے کہا عالم کے سامنے پڑھنے میں کوئی قباحت نہیں۔ اور ہم سے عبیداللہ بن موسیٰ نے بیان کیا، انہوں نے سفیان ثوری سے سنا، وہ کہتے تھے جب کوئی شخص محدث کو حدیث پڑھ کر سنائے تو کچھ قباحت نہیں اگر یوں کہے کہ اس نے مجھ سے بیان کیا۔ اور میں نے ابوعاصم سے سنا، وہ امام مالک اور سفیان ثوری کا قول بیان کرتے تھے کہ عالم کو پڑھ کر سنانا اور عالم کا شاگردوں کے سامنے پڑھنا دونوں برابر ہیں۔   
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلاَمٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ الْوَاسِطِيُّ عَنْ عَوْفٍ عَنِ الْحَسَنِ قَالَ لاَ بَأْسَ بِالْقِرَاءَةِ عَلَى الْعَالِمِ. وَأَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ الْفِرَبْرِيُّ وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ الْبُخَارِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى عَنْ سُفْيَانَ قَالَ إِذَا قُرِئَ عَلَى الْمُحَدِّثِ فَلاَ بَأْسَ أَنْ يَقُولَ حَدَّثَنِي. قَالَ وَسَمِعْتُ أَبَا عَاصِمٍ يَقُولُ عَنْ مَالِكٍ وَسُفْيَانَ الْقِرَاءَةُ عَلَى الْعَالِمِ وَقِرَاءَتُهُ سَوَاءٌ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৬৩
علم کا بیان
حدیث پڑھنے اور محدث کے سامنے پیش کرنے (پڑھنے) کا بیان اور حسن بصری اور سفیان ثوری اور امام مالک نے (بھی خود) پڑھ لینا کافی سمجھا ہے اور بعض محدثین نے عالم کے سامنے قرأت (کے کافی ہونے) میں ضمام بن ثعلبہ کی حدیث سے استدلال کیا ہے، انہوں نے نبی ﷺ سے عرض کیا تھا کہ اللہ نے آپ کو حکم دیا ہے کہ ہم نماز پڑھیں ؟ آپ نے فرمایا ہاں۔ پس وہ محدثین کہتے ہیں کہ (ضمام بن ثعلبہ کا) یہ قول نبی ﷺ کے سامنے پڑھنا ہے (اور) ضمام نے اپنی قوم کو اس کی اطلاع کی اور قوم کے لوگوں نے اس کو کافی سمجھا اور (امام) مالک نے صک سے استدلال کیا ہے کہ وہ لوگوں کے سامنے پڑھی جاتی ہے تو حاضرین کہتے ہیں کہ ہم کو فلاں شخص نے سنایا اور معلم کے سامنے کتاب پڑھی جاتی ہے تو پڑھنے والا کہتا ہے کہ مجھے فلاں شخص نے پڑھایا۔
 ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے سلیمان بن مغیرہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ثابت نے انس سے نقل کیا، انہوں نے فرمایا کہ  ہم کو قرآن کریم میں رسول اللہ  ﷺ  سے سوالات کرنے سے منع کردیا گیا تھا اور ہم کو اسی لیے یہ بات پسند تھی کہ کوئی ہوشیار دیہاتی آئے اور آپ  ﷺ  سے دینی امور پوچھے اور ہم سنیں۔ چناچہ ایک دفعہ ایک دیہاتی آیا اور اس نے کہا کہ  (اے محمد  ﷺ ! )  ہمارے ہاں آپ کا مبلغ گیا تھا۔ جس نے ہم کو خبر دی کہ اللہ نے آپ کو اپنا رسول بنا کر بھیجا ہے، ایسا آپ کا خیال ہے ؟ آپ  ﷺ  نے فرمایا اس نے بالکل سچ کہا ہے۔ پھر اس نے پوچھا کہ آسمان کس نے پیدا کئے ؟ آپ  ﷺ  نے فرمایا کہ اللہ عزوجل نے۔ پھر اس نے پوچھا کہ زمین کس نے پیدا کی ہے اور پہاڑ کس نے ؟ آپ  ﷺ نے  فرمایا کہ اللہ عزوجل نے۔ پھر اس نے پوچھا کہ ان میں نفع دینے والی چیزیں کس نے پیدا کی ہیں ؟ آپ  ﷺ  نے فرمایا اللہ عزوجل نے۔ پھر اس نے کہا کہ پس اس ذات کی قسم دے کر آپ سے پوچھتا ہوں جس نے زمین و آسمان اور پہاڑوں کو پیدا کیا اور اس میں منافع پیدا کئے کہ کیا اللہ عزوجل نے آپ کو اپنا رسول بنا کر بھیجا ہے ؟ آپ  ﷺ  نے جواب دیا کہ ہاں بالکل سچ ہے۔  (اللہ نے مجھ کو رسول بنایا ہے)  پھر اس نے کہا کہ آپ کے مبلغ نے بتلایا ہے کہ ہم پر پانچ وقت کی نمازیں اور مال سے زکوٰۃ ادا کرنا اسلامی فرائض ہیں، کیا یہ درست ہے ؟ آپ  ﷺ  نے فرمایا ہاں اس نے بالکل سچ کہا ہے۔ پھر اس نے کہا آپ کو اس ذات کی قسم دے کر پوچھتا ہوں جس نے آپ  ﷺ  کو رسول بنایا ہے کیا اللہ پاک ہی نے آپ کو ان چیزوں کا حکم فرمایا ہے۔ آپ  ﷺ  نے فرمایا ہاں بالکل درست ہے۔ پھر وہ بولا آپ کے قاصد کا خیال ہے کہ ہم میں سے جو طاقت رکھتا ہو اس پر بیت اللہ کا حج فرض ہے۔ آپ  ﷺ  نے فرمایا ہاں وہ سچا ہے۔ پھر وہ بولا میں آپ  ﷺ  کو اس ذات کی قسم دے کر پوچھتا ہوں جس نے آپ کو رسول بنا کر بھیجا کہ کیا اللہ ہی نے آپ  ﷺ  کو یہ حکم فرمایا ہے ؟ آپ نے جواب دیا کہ ہاں۔ پھر وہ کہنے لگا کہ قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا میں ان باتوں پر کچھ زیادہ کروں گا نہ کم کروں گا۔  (بلکہ ان ہی کے مطابق اپنی زندگی گزاروں گا)  آپ  ﷺ  نے فرمایا اگر اس نے اپنی بات کو سچ کر دکھایا تو وہ ضرور ضرور جنت میں داخل ہوجائے گا۔  (نوٹ : صنعانی نے کہا یہ حدیث اس مقام پر اسی ایک نسخہ بخاری میں ہے جو فربری پر پڑھا گیا اور کسی نسخہ میں نہیں ہے) ۔   
حدثنا موسي بن اسمعيل قال حدثنا سليمان بن المغير ة قال حدثنا قال حدثنا ثابت عن انس قال نهينا في القرآن ان نسال النبي صلي الله عليه وسلم وکان يعجبنا ان يجئ الرجل من اهل البادية فساله ونحن نسمع فجائ رجل من اهل البادية فساله فقال اتانا رسولک فاخبر نا انک تزعم ان الله عزوجل ارسلک قال صدق فقال فمن خلق السمائ قال الله عزوجل قال فمن خلق الارض والجبال قال الله عزوجل قال فمن جعل فيها المنافع قال الله عزوجل قال فقاالذي خلق السمائ وخلق الارض و نصب الجبال وجعل فيها المنافع الله ارسلک قال نعم قال زعم رسولک ان علينا خمس صلوات وزکوة في اموالنا قال صدق قال بالذي ارسلک الله امرک بهذا قال نعم قال وزعم رسولک ان علينا حج البيت من استطاع اليه سبيلا قال صدق قال بالذي ارسلک الله امرک بهذا قال نعم قال فوالذي بعثک بالحق لا ازيد عليهن شيئا ولاانقص فقال النبي صلي الله عليه وسلم ان صدق ليد خلن الجنة  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৬৪
علم کا بیان
مناولہ کا بیان اور اہل علم کا علمی باتیں لکھ کر (دوسرے) شہروں کو بھیجنا
 اسماعیل بن عبداللہ نے ہم سے بیان کیا، ان سے ابراہیم بن سعد نے صالح کے واسطے سے روایت کی، انہوں نے ابن شہاب سے، انہوں نے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود (رض) سے نقل کیا کہ ان سے عبداللہ بن عباس (رض) نے بیان کیا کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے ایک شخص کو اپنا ایک خط دے کر بھیجا اور اسے یہ حکم دیا کہ اسے حاکم بحرین کے پاس لے جائے۔ بحرین کے حاکم نے وہ خط کسریٰ  (شاہ ایران)  کے پاس بھیج دیا۔ جس وقت اس نے وہ خط پڑھا تو چاک کر ڈالا  (راوی کہتے ہیں)  اور میرا خیال ہے کہ ابن مسیب نے  (اس کے بعد)  مجھ سے کہا کہ  (اس واقعہ کو سن کر)  رسول اللہ  ﷺ  نے اہل ایران کے لیے بددعا کی کہ وہ  (بھی چاک شدہ خط کی طرح)  ٹکڑے ٹکڑے ہوجائیں۔   
حدیث نمبر: 64  حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ صَالِحٍ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ أَخْبَرَهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ بِكِتَابِهِ رَجُلًا وَأَمَرَهُ أَنْ يَدْفَعَهُ إِلَى عَظِيمِ الْبَحْرَيْنِ، فَدَفَعَهُ عَظِيمُ الْبَحْرَيْنِ إِلَى كِسْرَى، فَلَمَّا قَرَأَهُ مَزَّقَهُ، فَحَسِبْتُ أَنَّ ابْنَ الْمُسَيَّبِ، قَالَ: فَدَعَا عَلَيْهِمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُمَزَّقُوا كُلَّ مُمَزَّقٍ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৬৫
علم کا بیان
مناولہ کا بیان اور اہل علم کا علمی باتیں لکھ کر (دوسرے) شہروں کو بھیجنا
 ہم سے ابوالحسن محمد بن مقاتل نے بیان کیا، ان سے عبداللہ نے، انہیں شعبہ نے قتادہ سے خبر دی، وہ انس بن مالک (رض) سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے فرمایا کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے  (کسی بادشاہ کے نام دعوت اسلام دینے کے لیے)  ایک خط لکھا یا لکھنے کا ارادہ کیا تو آپ  ﷺ  سے کہا گیا کہ وہ بغیر مہر کے خط نہیں پڑھتے  (یعنی بےمہر کے خط کو مستند نہیں سمجھتے)  تب آپ صلی  اللہ علیہ وسلم  نے چاندی کی انگوٹھی بنوائی۔ جس میں محمد رسول الله کندہ تھا۔ گویا میں  (آج بھی)  آپ  ﷺ  کے ہاتھ میں اس کی سفیدی دیکھ رہا ہوں۔  (شعبہ راوی حدیث کہتے ہیں کہ)  میں نے قتادہ سے پوچھا کہ یہ کس نے کہا  (کہ)  اس پر محمد رسول الله کندہ تھا ؟ انہوں نے جواب دیا، انس (رض) نے۔     
حدیث نمبر: 65  حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ أَبُو الْحَسَنِ الْمَرْوَزِيُّ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: كَتَبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كِتَابًا أَوْ أَرَادَ أَنْ يَكْتُبَ، فَقِيلَ لَهُ: إِنَّهُمْ لَا يَقْرَءُونَ كِتَابًا إِلَّا مَخْتُومًا، فَاتَّخَذَ خَاتَمًا مِنْ فِضَّةٍ نَقْشُهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى بَيَاضِهِ فِي يَدِهِ، فَقُلْتُ لِقَتَادَةَ: مَنْ قَالَ نَقْشُهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ ؟ قَالَ: أَنَسٌ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৬৬
علم کا بیان
وہ شخص جو مجلس کے آخر میں بیٹھ جائے اور وہ شخص جو درمیان میں جہاں جگہ دیکھے بیٹھ جائے (بشرطیکہ دوسروں کو تکلیف نہ ہو)
 ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، کہا ان سے مالک نے اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ کے واسطے سے ذکر کیا، بیشک ابومرہ مولیٰ عقیل بن ابی طالب نے انہیں ابو واقد اللیثی سے خبر دی کہ  (ایک مرتبہ)  رسول اللہ  ﷺ  مسجد میں تشریف فرما تھے اور لوگ آپ  ﷺ  کے اردگرد بیٹھے ہوئے تھے کہ تین آدمی وہاں آئے  (ان میں سے)  دو رسول اللہ  ﷺ  کے سامنے پہنچ گئے اور ایک واپس چلا گیا۔  (راوی کہتے ہیں کہ)  پھر وہ دونوں رسول اللہ  ﷺ  کے سامنے کھڑے ہوگئے۔ اس کے بعد ان میں سے ایک نے  (جب)  مجلس میں  (ایک جگہ کچھ)  گنجائش دیکھی، تو وہاں بیٹھ گیا اور دوسرا اہل مجلس کے پیچھے بیٹھ گیا اور تیسرا جو تھا وہ لوٹ گیا۔ تو جب رسول اللہ  ﷺ  (اپنی گفتگو سے)  فارغ ہوئے  (تو صحابہ رضی اللہ عنہم سے)  فرمایا کہ کیا میں تمہیں تین آدمیوں کے بارے میں نہ بتاؤں ؟ تو  (سنو)  ان میں سے ایک نے اللہ سے پناہ چاہی اللہ نے اسے پناہ دی اور دوسرے کو شرم آئی تو اللہ بھی اس سے شرمایا  (کہ اسے بھی بخش دیا)  اور تیسرے شخص نے منہ موڑا، تو اللہ نے  (بھی)  اس سے منہ موڑ لیا۔   
حدیث نمبر: 66  حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ ، أَنَّ أَبَا مُرَّةَ مَوْلَى عَقِيلِ بْنِ أَبِي طَالِبٍ أَخْبَرَهُ، عَنْ أَبِي وَاقِدٍ اللَّيْثِيِّ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَمَا هُوَ جَالِسٌ فِي الْمَسْجِدِ وَالنَّاسُ مَعَهُ إِذْ أَقْبَلَ ثَلَاثَةُ نَفَرٍ، فَأَقْبَلَ اثْنَانِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَذَهَبَ وَاحِدٌ، قَالَ: فَوَقَفَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَمَّا أَحَدُهُمَا فَرَأَى فُرْجَةً فِي الْحَلْقَةِ فَجَلَسَ فِيهَا، وَأَمَّا الْآخَرُ فَجَلَسَ خَلْفَهُمْ، وَأَمَّا الثَّالِثُ فَأَدْبَرَ ذَاهِبًا، فَلَمَّا فَرَغَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: أَلَا أُخْبِرُكُمْ عَنِ النَّفَرِ الثَّلَاثَةِ، أَمَّا أَحَدُهُمْ فَأَوَى إِلَى اللَّهِ فَآوَاهُ اللَّهُ، وَأَمَّا الْآخَرُ فَاسْتَحْيَا فَاسْتَحْيَا اللَّهُ مِنْهُ، وَأَمَّا الْآخَرُ فَأَعْرَضَ فَأَعْرَضَ اللَّهُ عَنْهُ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৬৭
علم کا بیان
باب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کی تفصیل میں کہ بسا اوقات وہ شخص جسے (حدیث) پہنچائی جائے سننے والے سے زیادہ (حدیث کو) یاد رکھ لیتا ہے۔
 اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فاعلم أنه لا إله إلا الله  (آپ جان لیجیئے کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے)  تو  (گویا)  اللہ تعالیٰ نے علم سے ابتداء فرمائی اور  (حدیث میں ہے)  کہ علماء انبیاء کے وارث ہیں۔  (اور)  پیغمبروں نے علم  (ہی)  کا ورثہ چھوڑا ہے۔ پھر جس نے علم حاصل کیا اس نے  (دولت کی)  بہت بڑی مقدار حاصل کرلی۔ اور جو شخص کسی راستے پر حصول علم کے لیے چلے، اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت کی راہ آسان کردیتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اللہ سے اس کے وہی بندے ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں۔ اور  (دوسری جگہ)  فرمایا اور اس کو عالموں کے سوا کوئی نہیں سمجھتا۔ اور فرمایا، اور ان لوگوں  (کافروں)  نے کہا اگر ہم سنتے یا عقل رکھتے تو جہنمی نہ ہوتے۔ اور فرمایا، کیا علم والے اور جاہل برابر ہیں ؟ اور رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا، جس شخص کے ساتھ اللہ بھلائی کرنا چاہتا ہے تو اسے دین کی سمجھ عنایت فرما دیتا ہے۔ اور علم تو سیکھنے ہی سے آتا ہے۔ اور ابوذر (رض) کا ارشاد ہے کہ اگر تم اس پر تلوار رکھ دو ، اور اپنی گردن کی طرف اشارہ کیا، اور مجھے گمان ہو کہ میں نے نبی کریم  ﷺ  سے جو ایک کلمہ سنا ہے، گردن کٹنے سے پہلے بیان کرسکوں گا تو یقیناً میں اسے بیان کر ہی دوں گا اور نبی کریم  ﷺ  کا فرمان ہے کہ حاضر کو چاہیے کہ  (میری بات)  غائب کو پہنچا دے اور ابن عباس (رض) نے کہا ہے کہ آیت کونوا ربانيين سے مراد حکماء، فقہاء، علماء ہیں۔ اور رباني اس شخص کو کہا جاتا ہے جو بڑے مسائل سے پہلے چھوٹے مسائل سمجھا کر لوگوں کی  (علمی)  تربیت کرے۔     
لِقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: فَاعْلَمْ أَنَّهُ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ فَبَدَأَ بِالْعِلْمِ، وَأَنَّ الْعُلَمَاءَ هُمْ وَرَثَةُ الأَنْبِيَاءِ- وَرَّثُوا الْعِلْمَ- مَنْ أَخَذَهُ أَخَذَ بِحَظٍّ وَافِرٍ، وَمَنْ سَلَكَ طَرِيقًا يَطْلُبُ بِهِ عِلْمًا سَهَّلَ اللَّهُ لَهُ طَرِيقًا إِلَى الْجَنَّةِ. وَقَالَ جَلَّ ذِكْرُهُ: إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ وَقَالَ: وَمَا يَعْقِلُهَا إِلاَّ الْعَالِمُونَ، وَقَالُوا لَوْ كُنَّا نَسْمَعُ أَوْ نَعْقِلُ مَا كُنَّا فِي أَصْحَابِ السَّعِيرِ. وَقَالَ: هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لاَ يَعْلَمُونَ. وَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ يُرِدِ اللَّهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّينِ، وَإِنَّمَا الْعِلْمُ بِالتَّعَلُّمِ. وَقَالَ أَبُو ذَرٍّ لَوْ وَضَعْتُمُ الصَّمْصَامَةَ عَلَى هَذِهِ وَأَشَارَ إِلَى قَفَاهُ- ثُمَّ ظَنَنْتُ أَنِّي أُنْفِذُ كَلِمَةً سَمِعْتُهَا مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَبْلَ أَنْ تُجِيزُوا عَلَيَّ لأَنْفَذْتُهَا. وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: كُونُوا رَبَّانِيِّينَ حُكَمَاءَ فُقَهَاءَ. وَيُقَالُ الرَّبَّانِيُّ الَّذِي يُرَبِّي النَّاسَ بِصِغَارِ الْعِلْمِ قَبْلَ كِبَارِهِ.

তাহকীক:
হাদীস নং: ৬৮
علم کا بیان
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا لوگوں کی رعایت کرتے ہوئے نصیحت فرمانے اور تعلیم دینے کے بیان میں تاکہ انہیں ناگوار نہ ہو
 ہم سے محمد بن یوسف نے بیان کیا، انہیں سفیان نے اعمش سے خبر دی، وہ ابو وائل سے روایت کرتے ہیں، وہ عبداللہ بن مسعود (رض) سے کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے ہمیں نصیحت فرمانے کے لیے کچھ دن مقرر کردیئے تھے اس ڈر سے کہ کہیں ہم کبیدہ خاطر نہ ہوجائیں۔     
حدیث نمبر: 68  حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ ، عَنِ الْأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ ، عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ ، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَخَوَّلُنَا بِالْمَوْعِظَةِ فِي الْأَيَّامِ كَرَاهَةَ السَّآمَةِ عَلَيْنَا.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৬৯
علم کا بیان
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا لوگوں کی رعایت کرتے ہوئے نصیحت فرمانے اور تعلیم دینے کے بیان میں تاکہ انہیں ناگوار نہ ہو
 ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن سعید نے، ان سے شعبہ نے، ان سے ابوالتیاح نے، انہوں نے انس بن مالک (رض) سے نقل کیا، وہ رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ  آپ  ﷺ  نے فرمایا، آسانی کرو اور سختی نہ کرو اور خوش کرو اور نفرت نہ دلاؤ۔   
حدیث نمبر: 69  حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو التَّيَّاحِ ، عَنْ أَنَسِ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: يَسِّرُوا وَلَا تُعَسِّرُوا، وَبَشِّرُوا وَلَا تُنَفِّرُوا.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৭০
علم کا بیان
اس بارے میں کہ کوئی شخص اہل علم کے لیے کچھ دن مقرر کر دے (تو یہ جائز ہے) یعنی استاد اپنے شاگردوں کے لیے اوقات مقرر کر سکتا ہے
 ہم سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیا، ان سے جریر نے منصور کے واسطے سے نقل کیا، وہ ابو وائل سے روایت کرتے ہیں کہ  عبداللہ  (ابن مسعود)  (رض) ہر جمعرات کے دن لوگوں کو وعظ سنایا کرتے تھے۔ ایک آدمی نے ان سے کہا اے ابوعبدالرحمٰن ! میں چاہتا ہوں کہ تم ہمیں ہر روز وعظ سنایا کرو۔ انہوں نے فرمایا، تو سن لو کہ مجھے اس امر سے کوئی چیز مانع ہے تو یہ کہ میں یہ بات پسند نہیں کرتا کہ کہیں تم تنگ نہ ہوجاؤ اور میں وعظ میں تمہاری فرصت کا وقت تلاش کیا کرتا ہوں جیسا کہ رسول اللہ  ﷺ  اس خیال سے کہ ہم کبیدہ خاطر نہ ہوجائیں، وعظ کے لیے ہمارے اوقات فرصت کا خیال رکھتے تھے۔   
حدیث نمبر: 70  حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ ، قَالَ: كَانَ عَبْدُ اللَّهِ يُذَكِّرُ النَّاسَ فِي كُلِّ خَمِيسٍ، فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ: يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ، لَوَدِدْتُ أَنَّكَ ذَكَّرْتَنَا كُلَّ يَوْمٍ، قَالَ: أَمَا إِنَّهُ يَمْنَعُنِي مِنْ ذَلِكَ أَنِّي أَكْرَهُ أَنْ أُمِلَّكُمْ، وَإِنِّي أَتَخَوَّلُكُمْ بِالْمَوْعِظَةِ كَمَا كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَخَوَّلُنَا بِهَا مَخَافَةَ السَّآمَةِ عَلَيْنَا.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৭১
علم کا بیان
اس بارے میں کہ اللہ تعالیٰ جس شخص کے ساتھ بھلائی کرنا چاہتا ہے اسے دین کی سمجھ عنایت فرما دیتا ہے
 ہم سے سعید بن عفیر نے بیان کیا، ان سے وہب نے یونس کے واسطے سے نقل کیا، وہ ابن شہاب سے نقل کرتے ہیں، ان سے حمید بن عبدالرحمٰن نے کہا کہ میں نے معاویہ سے سنا۔  وہ خطبہ میں فرما رہے تھے کہ میں نے رسول اللہ  ﷺ  کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جس شخص کے ساتھ اللہ تعالیٰ بھلائی کا ارادہ کرے اسے دین کی سمجھ عنایت فرما دیتا ہے اور میں تو محض تقسیم کرنے والا ہوں، دینے والا تو اللہ ہی ہے اور یہ امت ہمیشہ اللہ کے حکم پر قائم رہے گی اور جو شخص ان کی مخالفت کرے گا، انہیں نقصان نہیں پہنچا سکے گا، یہاں تک کہ اللہ کا حکم  (قیامت)  آجائے  (اور یہ عالم فنا ہوجائے) ۔     
حدیث نمبر: 71  حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عُفَيْرٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، عَنْ يُونُسَ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، قَالَ: قَالَ حُمَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، سَمِعْتُ مُعَاوِيَةَ خَطِيبًا، يَقُولُ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: مَنْ يُرِدِ اللَّهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّينِ، وَإِنَّمَا أَنَا قَاسِمٌ وَاللَّهُ يُعْطِي، وَلَنْ تَزَالَ هَذِهِ الْأُمَّةُ قَائِمَةً عَلَى أَمْرِ اللَّهِ لَا يَضُرُّهُمْ مَنْ خَالَفَهُمْ حَتَّى يَأْتِيَ أَمْرُ اللَّهِ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৭২
علم کا بیان
علم میں سمجھداری سے کام لینے کے بیان میں
 ہم سے علی  (بن مدینی)  نے بیان کیا، ان سے سفیان نے، ان سے ابن ابی نجیح نے مجاہد کے واسطے سے نقل کیا، وہ کہتے ہیں کہ  میں عبداللہ بن عمر (رض) کے ساتھ مدینے تک رہا، میں نے  (اس)  ایک حدیث کے سوا ان سے رسول اللہ  ﷺ  کی کوئی اور حدیث نہیں سنی، وہ کہتے تھے کہ ہم رسول اللہ  ﷺ  کی خدمت میں حاضر تھے کہ آپ  ﷺ  کے پاس کھجور کا ایک گابھا لایا گیا۔  (اسے دیکھ کر)  آپ  ﷺ  نے فرمایا کہ درختوں میں ایک درخت ایسا ہے اس کی مثال مسلمان کی طرح ہے۔  (ابن عمر (رض) کہتے ہیں کہ یہ سن کر)  میں نے ارادہ کیا کہ عرض کروں کہ وہ  (درخت)  کھجور کا ہے مگر چونکہ میں سب میں چھوٹا تھا اس لیے خاموش رہا۔  (پھر)  رسول اللہ  ﷺ  نے خود ہی فرمایا کہ وہ کھجور ہے۔   
حدیث نمبر: 72  حَدَّثَنَا عَلِيُّ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، قَالَ: قَالَ لِي ابْنُ أَبِي نَجِيحٍ ، عَنْ مُجَاهِدٍ ، قَالَ: صَحِبْتُ ابْنَ عُمَرَ إِلَى الْمَدِينَةِ، فَلَمْ أَسْمَعْهُ يُحَدِّثُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا حَدِيثًا وَاحِدًا، قَالَ: كُنَّا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأُتِيَ بِجُمَّارٍ، فَقَالَ: إِنَّ مِنَ الشَّجَرِ شَجَرَةً مَثَلُهَا كَمَثَلِ الْمُسْلِمِ، فَأَرَدْتُ أَنْ أَقُولَ: هِيَ النَّخْلَةُ، فَإِذَا أَنَا أَصْغَرُ الْقَوْمِ فَسَكَتُّ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: هِيَ النَّخْلَةُ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৭৩
علم کا بیان
علم و حکمت میں رشک کرنے کے بیان میں
 ہم سے حمیدی نے بیان کیا، ان سے سفیان نے، ان سے اسماعیل بن ابی خالد نے دوسرے لفظوں میں بیان کیا، ان لفظوں کے علاوہ جو زہری نے ہم سے بیان کئے، وہ کہتے ہیں میں نے قیس بن ابی حازم سے سنا، انہوں نے عبداللہ بن مسعود (رض) سے سنا، وہ کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  کا ارشاد ہے کہ حسد صرف دو باتوں میں جائز ہے۔ ایک تو اس شخص کے بارے میں جسے اللہ نے دولت دی ہو اور وہ اس دولت کو راہ حق میں خرچ کرنے پر بھی قدرت رکھتا ہو اور ایک اس شخص کے بارے میں جسے اللہ نے حکمت  (کی دولت)  سے نوازا ہو اور وہ اس کے ذریعہ سے فیصلہ کرتا ہو اور  (لوگوں کو)  اس حکمت کی تعلیم دیتا ہو۔   
حدیث نمبر: 73  حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، قَالَ: حَدَّثَنِي إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي خَالِدٍ عَلَى غَيْرِ مَا حَدَّثَنَاهُ الزُّهْرِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ قَيْسَ بْنَ أَبِي حَازِمٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا حَسَدَ إِلَّا فِي اثْنَتَيْنِ، رَجُلٌ آتَاهُ اللَّهُ مَالًا فَسُلِّطَ عَلَى هَلَكَتِهِ فِي الْحَقِّ، وَرَجُلٌ آتَاهُ اللَّهُ الْحِكْمَةَ فَهُوَ يَقْضِي بِهَا وَيُعَلِّمُهَا.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৭৪
علم کا بیان
موسیٰ علیہ السلام کے خضر علیہ السلام کے پاس دریا میں جانے کے ذکر میں
 ہم سے محمد بن غریر زہری نے بیان کیا، ان سے یعقوب بن ابراہیم نے، ان سے ان کے باپ  (ابراہیم)  نے، انہوں نے صالح سے سنا، انہوں نے ابن شہاب سے، وہ بیان کرتے ہیں کہ انہیں عبیداللہ بن عبداللہ نے ابن عباس (رض) کے واسطے سے خبر دی کہ  وہ اور حر بن قیس بن حصن فزاری موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھی کے بارے میں بحثے۔ ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ وہ خضر (علیہ السلام) تھے۔ پھر ان کے پاس سے ابی بن کعب گزرے تو عبداللہ بن عباس (رض) نے انہیں بلایا اور کہا کہ میں اور میرے یہ رفیق موسیٰ (علیہ السلام) کے اس ساتھی کے بارے میں بحث کر رہے ہیں جس سے انہوں نے ملاقات چاہی تھی۔ کیا آپ نے رسول اللہ  ﷺ  سے اس کے بارے میں کچھ ذکر سنا ہے۔ انہوں نے کہا، ہاں میں نے رسول اللہ  ﷺ  کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے۔ ایک دن موسیٰ بنی اسرائیل کی ایک جماعت میں بیٹھے ہوئے تھے کہ اتنے میں ایک شخص آیا اور اس نے آپ سے پوچھا کیا آپ جانتے ہیں کہ  (دنیا میں)  کوئی آپ سے بھی بڑھ کر عالم موجود ہے ؟ موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا نہیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ اسلام کے پاس وحی بھیجی کہ ہاں ہمارا بندہ خضر ہے  (جس کا علم تم سے زیادہ ہے)  موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ سے دریافت کیا کہ خضر (علیہ السلام) سے ملنے کی کیا صورت ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے ایک مچھلی کو ان سے ملاقات کی علامت قرار دیا اور ان سے کہہ دیا کہ جب تم اس مچھلی کو گم کر دو تو  (واپس)  لوٹ جاؤ، تب خضر سے تمہاری ملاقات ہوگی۔ تب موسیٰ  (چلے اور)  دریا میں مچھلی کی علامت تلاش کرتے رہے۔ اس وقت ان کے ساتھی نے کہا جب ہم پتھر کے پاس تھے، کیا آپ نے دیکھا تھا، میں اس وقت مچھلی کا کہنا بھول گیا اور شیطان ہی نے مجھے اس کا ذکر بھلا دیا۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا، اسی مقام کی ہمیں تلاش تھی۔ تب وہ اپنے نشانات قدم پر  (پچھلے پاؤں)  باتیں کرتے ہوئے لوٹے  (وہاں)  انہوں نے خضر (علیہ السلام) کو پایا۔ پھر ان کا وہی قصہ ہے جو اللہ نے اپنی کتاب قرآن میں بیان کیا ہے۔     
حدیث نمبر: 74  حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ غُرَيْرٍ الزُّهْرِيُّ ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنْ صَالِحٍ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، حَدَّثَ أَنَّ عُبَيْدَ اللَّهِ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ أَخْبَرَهُ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، أَنَّهُ تَمَارَى هُوَ وَالْحُرُّ بْنُ قَيْسِ بْنِ حِصْنٍ الْفَزَارِيُّ فِي صَاحِبِ مُوسَى، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: هُوَ خَضِرٌ فَمَرَّ بِهِمَا أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ، فَدَعَاهُ ابْنُ عَبَّاسٍ، فَقَالَ: إِنِّي تَمَارَيْتُ أَنَا وَصَاحِبِي هَذَا فِي صَاحِبِ مُوسَى الَّذِي سَأَلَ مُوسَى السَّبِيلَ إِلَى لُقِيِّهِ، هَلْ سَمِعْتَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَذْكُرُ شَأْنَهُ ؟ قَالَ: نَعَمْ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: بَيْنَمَا مُوسَى فِي مَلَإٍ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ جَاءَهُ رَجُلٌ، فَقَالَ: هَلْ تَعْلَمُ أَحَدًا أَعْلَمَ مِنْكَ ؟ قَالَ مُوسَى: لَا، فَأَوْحَى اللَّهُ إِلَى مُوسَى بَلَى عَبْدُنَا خَضِرٌ، فَسَأَلَ مُوسَى السَّبِيلَ إِلَيْهِ ؟ فَجَعَلَ اللَّهُ لَهُ الْحُوتَ آيَةً، وَقِيلَ لَهُ: إِذَا فَقَدْتَ الْحُوتَ فَارْجِعْ فَإِنَّكَ سَتَلْقَاهُ، وَكَانَ يَتَّبِعُ أَثَرَ الْحُوتِ فِي الْبَحْرِ، فَقَالَ لِمُوسَى فَتَاهُ: أَرَأَيْتَ إِذْ أَوَيْنَا إِلَى الصَّخْرَةِ، فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَمَا أَنْسَانِيهِ إِلَّا الشَّيْطَانُ أَنْ أَذْكُرَهُ، قَالَ: ذَلِكَ مَا كُنَّا نَبْغِي، فَارْتَدَّا عَلَى آثَارِهِمَا قَصَصًا فَوَجَدَا خَضِرًا، فَكَانَ مِنْ شَأْنِهِمَا الَّذِي قَصَّ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فِي كِتَابِهِ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৭৫
علم کا بیان
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان کہ ”اللہ اسے قرآن کا علم عطا فرمائیو!“
 ہم سے ابومعمر نے بیان کیا، ان سے عبدالوارث نے، ان سے خالد نے عکرمہ کے واسطے سے بیان کیا، وہ ابن عباس (رض) سے روایت کرتے ہیں۔ انہوں نے فرمایا کہ  (ایک مرتبہ)  رسول اللہ  ﷺ  نے مجھے  (سینے سے)  لگا لیا اور دعا دیتے ہوئے فرمایا کہ   اے اللہ اسے علم کتاب  (قرآن)  عطا فرمائیو 
حدیث نمبر: 75  حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ ، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدٌ ، عَنْ عِكْرِمَةَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: ضَمَّنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ: اللَّهُمَّ عَلِّمْهُ الْكِتَابَ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৭৬
علم کا بیان
اس بارے میں کہ بچے کا (حدیث) سننا کس عمر میں صحیح ہے؟
 ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، ان سے مالک نے، ان سے ابن شہاب نے، ان سے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے، وہ عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ  میں  (ایک مرتبہ)  گدھی پر سوار ہو کر چلا، اس زمانے میں، میں بلوغ کے قریب تھا۔ رسول اللہ صلی  اللہ علیہ وسلم  منیٰ میں نماز پڑھ رہے تھے اور آپ کے سامنے دیوار  (کی آڑ)  نہ تھی، تو میں بعض صفوں کے سامنے سے گزرا اور گدھی کو چھوڑ دیا۔ وہ چرنے لگی، جب کہ میں صف میں شامل ہوگیا  (مگر)  کسی نے مجھے اس بات پر ٹوکا نہیں۔   
حدیث نمبر: 76  حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي أُوَيْسٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ ، عَنْعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: أَقْبَلْتُ رَاكِبًا عَلَى حِمَارٍ أَتَانٍ، وَأَنَا يَوْمَئِذٍ قَدْ نَاهَزْتُ الِاحْتِلَامَ، وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي بِمِنًى إِلَى غَيْرِ جِدَارٍ، فَمَرَرْتُ بَيْنَ يَدَيْ بَعْضِ الصَّفِّ، وَأَرْسَلْتُ الْأَتَانَ تَرْتَعُ فَدَخَلْتُ فِي الصَّفِّ، فَلَمْ يُنْكَرْ ذَلِكَ عَلَيَّ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৭৭
علم کا بیان
اس بارے میں کہ بچے کا (حدیث) سننا کس عمر میں صحیح ہے؟
 ہم سے محمد بن یوسف نے بیان کیا، ان سے ابومسہر نے، ان سے محمد بن حرب نے، ان سے زبیدی نے زہری کے واسطے سے بیان کیا، وہ محمود بن الربیع سے نقل کرتے ہیں، انہوں نے کہا کہ مجھے یاد ہے کہ  (ایک مرتبہ)  رسول اللہ  ﷺ  نے ایک ڈول سے منہ میں پانی لے کر میرے چہرے پر کلی فرمائی، اور میں اس وقت پانچ سال کا تھا۔   
حدیث نمبر: 77  حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مُسْهِرٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنِي الزُّبَيْدِيُّ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ مَحْمُودِ بْنِ الرَّبِيعِ ، قَالَ: عَقَلْتُ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَجَّةً مَجَّهَا فِي وَجْهِي، وَأَنَا ابْنُ خَمْسِ سِنِينَ مِنْ دَلْوٍ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৭৮
علم کا بیان
علم کی تلاش میں نکلنے کے بارے میں
 ہم سے ابوالقاسم خالد بن خلی قاضی حمص نے بیان کیا، ان سے محمد بن حرب نے، اوزاعی کہتے ہیں کہ ہمیں زہری نے عبیداللہ ابن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود سے خبر دی، وہ عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ  وہ اور حر بن قیس بن حصن فزاری موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھی کے بارے میں جھگڑے۔  (اس دوران میں)  ان کے پاس سے ابی بن کعب گزرے، تو ابن عباس (رض) نے انہیں بلا لیا اور کہا کہ میں اور میرے  (یہ)  ساتھی موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھی کے بارے میں بحث کر رہے ہیں جس سے ملنے کی موسیٰ (علیہ السلام) نے  (اللہ سے)  دعا کی تھی۔ کیا آپ نے رسول اللہ  ﷺ  کو کچھ ان کا ذکر فرماتے ہوئے سنا ہے ؟ ابی نے کہا کہ ہاں ! میں نے رسول اللہ  ﷺ  کو ان کا حال بیان فرماتے ہوئے سنا ہے۔ آپ فرما رہے تھے کہ ایک بار موسیٰ (علیہ السلام) بنی اسرائیل کی ایک جماعت میں تھے کہ اتنے میں ایک شخص آیا اور کہنے لگا کیا آپ جانتے ہیں کہ دنیا میں آپ سے بھی بڑھ کر کوئی عالم موجود ہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ نہیں۔ تب اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) پر وحی نازل کی کہ ہاں ہمارا بندہ خضر  (علم میں تم سے بڑھ کر)  ہے۔ تو موسیٰ (علیہ السلام) نے ان سے ملنے کی راہ دریافت کی، اس وقت اللہ تعالیٰ نے  (ان سے ملاقات کے لیے)  مچھلی کو نشانی قرار دیا اور ان سے کہہ دیا کہ جب تم مچھلی کو نہ پاؤ تو لوٹ جانا، تب تم خضر (علیہ السلام) سے ملاقات کرلو گے۔ موسیٰ (علیہ السلام) دریا میں مچھلی کے نشان کا انتظار کرتے رہے۔ تب ان کے خادم نے ان سے کہا۔ کیا آپ نے دیکھا تھا کہ جب ہم پتھر کے پاس تھے، تو میں  (وہاں)  مچھلی بھول گیا۔ اور مجھے شیطان ہی نے غافل کردیا۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا کہ ہم اسی  (مقام)  کے تو متلاشی تھے، تب وہ اپنے  (قدموں کے)  نشانوں پر باتیں کرتے ہوئے واپس لوٹے۔  (وہاں)  خضر (علیہ السلام) کو انہوں نے پایا۔ پھر ان کا قصہ وہی ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں بیان فرمایا ہے۔     
حدیث نمبر: 78  حَدَّثَنَا أَبُو الْقَاسِمِ خَالِدُ بْنُ خَلِيٍّ قَاضِي حِمْصَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَرْبٍ ، قَالَ: قَالَ الْأَوْزَاعِيُّ ، أَخْبَرَنَا الزُّهْرِيُّ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، أَنَّهُ تَمَارَى هُوَ وَالْحُرُّ بْنُ قَيْسِ بْنِ حِصْنٍ الْفَزَارِيُّ فِي صَاحِبِ مُوسَى، فَمَرَّ بِهِمَا أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ، فَدَعَاهُ ابْنُ عَبَّاسٍ، فَقَالَ: إِنِّي تَمَارَيْتُ أَنَا وَصَاحِبِي هَذَا فِي صَاحِبِ مُوسَى الَّذِي سَأَلَ السَّبِيلَ إِلَى لُقِيِّهِ، هَلْ سَمِعْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَذْكُرُ شَأْنَهُ ؟ فَقَالَ أُبَيٌّ: نَعَمْ، سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَذْكُرُ شَأْنَهُ، يَقُولُ: بَيْنَمَا مُوسَى فِي مَلَإٍ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ إِذْ جَاءَهُ رَجُلٌ، فَقَالَ: أَتَعْلَمُ أَحَدًا أَعْلَمَ مِنْكَ، قَالَ مُوسَى: لَا، فَأَوْحَى اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ إِلَى مُوسَى: بَلَى عَبْدُنَا خَضِرٌ، فَسَأَلَ السَّبِيلَ إِلَى لُقِيِّهِ، فَجَعَلَ اللَّهُ لَهُ الْحُوتَ آيَةً، وَقِيلَ لَهُ: إِذَا فَقَدْتَ الْحُوتَ فَارْجِعْ فَإِنَّكَ سَتَلْقَاهُ، فَكَانَ مُوسَى صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ يَتَّبِعُ أَثَرَ الْحُوتِ فِي الْبَحْرِ، فَقَالَ فَتَى مُوسَى لِمُوسَى: أَرَأَيْتَ إِذْ أَوَيْنَا إِلَى الصَّخْرَةِ، فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَمَا أَنْسَانِيهِ إِلَّا الشَّيْطَانُ أَنْ أَذْكُرَهُ، قَالَ مُوسَى: ذَلِكَ مَا كُنَّا نَبْغِي، فَارْتَدَّا عَلَى آثَارِهِمَا قَصَصًا فَوَجَدَا خَضِرًا، فَكَانَ مِنْ شَأْنِهِمَا مَا قَصَّ اللَّهُ فِي كِتَابِهِ.  

তাহকীক: