আল জামিউল কাবীর- ইমাম তিরমিযী রহঃ (উর্দু)

الجامع الكبير للترمذي

وترکا بیان - এর পরিচ্ছেদসমূহ

মোট হাদীস ২০ টি

হাদীস নং: ৪৫২
وترکا بیان
وتر کی فضلیت
خارجہ بن حذافہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ (حجرے سے نکل کر) ہمارے پاس آئے اور فرمایا : اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے ایک ایسی نماز کا اضافہ کیا ہے ١ ؎، جو تمہارے لیے سرخ اونٹوں سے بہتر ہے، وہ وتر ہے، اللہ نے اس کا وقت تمہارے لیے نماز عشاء سے لے کر فجر کے طلوع ہونے تک رکھا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- خارجہ بن حذافہ کی حدیث غریب ہے، اسے ہم صرف یزید بن ابی حبیب ہی کی روایت سے جانتے ہیں، ٢- بعض محدثین کو اس حدیث میں وہم ہوا ہے، انہوں نے عبداللہ بن راشد زرقی کہا ہے، یہ وہم ہے (صحیح «زوفی» ہے) ٣- اس باب میں ابوہریرہ، عبداللہ بن عمرو، بریدہ، اور ابو بصرہ غفاری (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٤- ابو بصرہ غفاری کا نام حمیل بن بصرہ ہے، اور بعض لوگوں نے جمیل بن بصرہ کہا ہے، لیکن یہ صحیح نہیں، اور ابو بصرہ غفاری ایک دوسرے شخص ہیں جو ابوذر (رض) سے روایت کرتے ہیں اور وہ ابوذر کے بھتیجے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصلاة ٣٣٦ (١٤١٨) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١١٤ (١١٦٨) ، ( تحفة الأشراف : ٣٤٥٠) ، سنن الدارمی/الصلاة ٢٠٨ (١٦١٧) (صحیح) ” ہی خیر من حمر النعم “ ) کا فقرہ ثابت نہیں ہے (اس کے راوی ” عبداللہ بن راشد “ مجہول ہیں، لیکن پہلے ٹکڑے کے صحیح متابعات وشواہد موجود ہیں، نیز ملاحظہ ہو : تراجع الألبانی ٤٦٦) وضاحت : ١ ؎ : ایک روایت میں «زادکم» کا لفظ بھی آیا ہے ، حنفیہ نے اس لفظ سے وتر کے واجب ہونے پر دلیل پکڑی ہے ، کیونکہ زیادہ کی ہوئی چیز بھی اصل چیز کی جنس ہی سے ہوتی ہے ، تو جب پانچ وقتوں کی نماز واجب ہے تو وتر بھی واجب ہوئی ، علماء نے اس کا رد کئی طریقے سے کیا ہے ، ان میں سے ایک یہ کہ فجر کی سنت کے بارے میں بھی یہ لفظ وارد ہوا ہے جب کہ کوئی بھی اس کو واجب نہیں مانتا ، اسی طرح بدوی کی وہ حدیث جس میں وارد ہے کہ ان پانچ کے علاوہ بھی اللہ نے مجھ پر کوئی نماز فرض کی ہے ؟ تو رسول اللہ ﷺ نے جواب دیا کہ نہیں ، نیز مزید کا مزید فیہ کے جنس سے ہونا ضروری نہیں ہے ، ( مزید تفصیل کے لیے دیکھئیے : تحفۃ الأحوذی ) ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح دون قوله : هى خير لکم من حمر النعم ، ابن ماجة (1168) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 452
حدیث نمبر: 452 حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ رَاشِدٍ الزَّوْفِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي مُرَّةَ الزَّوْفِيِّ، عَنْ خَارِجَةَ بْنِ حُذَافَةَ، أَنَّهُ قَالَ:‏‏‏‏ خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ إِنَّ اللَّهَ أَمَدَّكُمْ بِصَلَاةٍ هِيَ خَيْرٌ لَكُمْ مِنْ حُمْرِ النَّعَمِ الْوِتْرُ، ‏‏‏‏‏‏جَعَلَهُ اللَّهُ لَكُمْ فِيمَا بَيْنَ صَلَاةِ الْعِشَاءِ إِلَى أَنْ يَطْلُعَ الْفَجْرُ قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ،‏‏‏‏ وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍ، ‏‏‏‏‏‏وَبُرَيْدَةَ وَأَبِي بَصْرَةَ الْغِفَارِيِّ صَاحِبِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ حَدِيثُ خَارِجَةَ بْنِ حُذَافَةَ حَدِيثٌ غَرِيبٌ، ‏‏‏‏‏‏لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ وَهِمَ بَعْضُ الْمُحَدِّثِينَ فِي هَذَا الْحَدِيثِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ رَاشِدٍ الزُّرَقِيِّ وَهُوَ وَهَمٌ فِي هَذَا، ‏‏‏‏‏‏وَأَبُو بَصْرَةَ الْغِفَارِيُّ اسْمُهُ حُمَيْلُ بْنُ بَصْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏وقَالَ بَعْضُهُمْ:‏‏‏‏ جَمِيلُ بْنُ بَصْرَةَ وَلَا يَصِحُّ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبُو بَصْرَةَ الْغِفَارِيُّ رَجُلٌ آخَرُ يَرْوِي عَنْ أَبِي ذَرٍّ وَهُوَ:‏‏‏‏ ابْنُ أَخِي أَبِي ذَرٍّ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৪৫৩
وترکا بیان
وتر فرض نہیں ہے
علی (رض) کہتے ہیں : وتر تمہاری فرض نماز کی طرح لازمی نہیں ہے ١ ؎، بلکہ رسول اللہ ﷺ نے اسے سنت قرار دیا اور فرمایا : اللہ وتر (طاق) ٢ ؎ ہے اور وتر کو پسند کرتا ہے، اے اہل قرآن ! ٣ ؎ تم وتر پڑھا کرو۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- علی (رض) کی حدیث حسن ہے، ٢- اس باب میں ابن عمر، ابن مسعود اور ابن عباس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصلاة ٣٣٦ (١٤١٦) ، (الشطر الأخیر فحسب) ، سنن النسائی/قیام اللیل ٢٧ (١٦٧٧) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١١٤ (١١٦٩) ، ( تحفة الأشراف : ١٠١٣٥) ، مسند احمد (١/٨٦، ٩٨، ١٠٠، ١٠٧، ١١٥، ١٤٤، ١٤٥، ١٤٨) ، سنن الدارمی/الصلاة ٢٠٨ (١٦٢١) (صحیح) (سند میں ” ابواسحاق سبیعی مختلط ہیں، نیز عاصم میں قدرے کلام ہے، لیکن متابعات وشواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے) وضاحت : ١ ؎ : اس سے معلوم ہوا کہ وتر فرض اور لازم نہیں ہے بلکہ سنت مؤکدہ ہے۔ ٢ ؎ : اللہ وتر ( طاق ) ہے کا مطلب ہے کہ وہ اپنی ذات وصفات اور افعال میں یکتا ہے اس کا کوئی ثانی نہیں ، صلاة الوتر کو بھی اسی لیے وتر کہا جاتا ہے کہ یہ ایک یا تین یا پانچ یا سات وغیرہ عدد میں ادا کی جاتی ہے اسے جفت اعداد میں پڑھنا جائز نہیں۔ ٣ ؎ : صحابہ کرام (رض) اجمعین کو نبی اکرم ﷺ نے اہل قرآن کہا ، اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ حدیث کو نہیں مانتے تھے ، اہل قرآن کا مطلب ہے شریعت اسلامیہ کے متبع و پیروکار اور شریعت قرآن و حدیث دونوں کے مجموعے کا نام ہے ، نہ کہ صرف قرآن کا ، جیسا کہ آج کل قرآن کے ماننے کے دعویداروں کا ایک گروہ کہتا ہے ، یہ گروہ منکرین حدیث کا ہے ، حدیث کا منکر ہے اس لیے حقیقت میں وہ قرآن کا بھی منکر ہے کیونکہ حدیث کے بغیر نہ تو قرآن کو سمجھا جاسکتا ہے اور نہ اس پر عمل کیا جاسکتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1169) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 453
حدیث نمبر: 453 حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاق، عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَةَ، عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ:‏‏‏‏ الْوِتْرُ لَيْسَ بِحَتْمٍ كَصَلَاتِكُمُ الْمَكْتُوبَةِ، ‏‏‏‏‏‏وَلَكِنْ سَنَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ:‏‏‏‏ إِنَّ اللَّهَ وِتْرٌ يُحِبُّ الْوِتْرَ فَأَوْتِرُوا يَا أَهْلَ الْقُرْآنِ قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ،‏‏‏‏ وَابْنِ مَسْعُودٍ،‏‏‏‏ وَابْنِ عَبَّاسٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ حَدِيثُ عَلِيٍّ حَدِيثٌ حَسَنٌ.وَرَوَى سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَغَيْرُهُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَةَ، عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ:‏‏‏‏ الْوِتْرُ لَيْسَ بِحَتْمٍ كَهَيْئَةِ الصَّلَاةِ الْمَكْتُوبَةِ وَلَكِنْ سُنَّةٌ سَنَّهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ .
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৪৫৪
وترکا بیان
N/A
وتر لازم نہیں ہے جیسا کہ فرض صلاۃ کا معاملہ ہے، بلکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے، اسے سفیان ثوری وغیرہ نے بطریق «أبی اسحاق عن عاصم بن حمزة عن علی» روایت کیا ہے ۱؎ اور یہ روایت ابوبکر بن عیاش کی روایت سے زیادہ صحیح ہے اور اسے منصور بن معتمر نے بھی ابواسحاق سے ابوبکر بن عیاش ہی کی طرح روایت کیا ہے۔
وَرَوَى سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَغَيْرُهُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَةَ، عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ:‏‏‏‏ الْوِتْرُ لَيْسَ بِحَتْمٍ كَهَيْئَةِ الصَّلَاةِ الْمَكْتُوبَةِ وَلَكِنْ سُنَّةٌ سَنَّهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ . حَدَّثَنَا بِذَلِكَ َ مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، عَنْ سُفْيَانَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي إِسْحَاق، ‏‏‏‏‏‏وَهَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَيَّاشٍ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ رَوَاهُ مَنْصُورُ بْنُ الْمُعْتَمِرِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي إِسْحَاق نَحْوَ رِوَايَةِ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَيَّاشٍ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৪৫৫
وترکا بیان
N/A
مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ میں وتر سونے سے پہلے پڑھ لیا کروں۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث اس سند سے حسن غریب ہے، ۲- اس باب میں ابوذر رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے، ۳- صحابہ کرام اور ان کے بعد کے لوگوں میں سے اہل علم کی ایک جماعت نے اسی کو اختیار کیا ہے کہ آدمی جب تک وتر نہ پڑھ لے نہ سوئے۔
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ زَكَرِيَّا بْنِ أَبِي زَائِدَةَ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ عِيسَى بْنِ أَبِي عَزَّةَ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ أَبِي ثَوْرٍ الْأَزْدِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ:‏‏‏‏ أَمَرَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ أُوتِرَ قَبْلَ أَنْ أَنَامَ . قَالَ عِيسَى بْنُ أَبِي عَزَّةَ:‏‏‏‏ وَكَانَ الشَّعْبِيُّ يُوتِرُ أَوَّلَ اللَّيْلِ ثُمَّ يَنَامُ. قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي ذَرٍّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبُو ثَوْرٍ الْأَزْدِيُّ اسْمُهُ:‏‏‏‏ حَبِيبُ بْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدِ اخْتَارَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَنْ بَعْدَهُمْ أَنْ لَا يَنَامَ الرَّجُلُ حَتَّى يُوتِرَ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৪৫৬
وترکا بیان
N/A
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے جسے اندیشہ ہو کہ وہ رات کے آخری پہر میں نہیں اٹھ سکے گا، تو وہ رات کے شروع میں ہی وتر پڑھ لے۔ اور جو رات کے آخری حصہ میں اٹھنے کی امید رکھتا ہو تو وہ رات کے آخری حصہ میں وتر پڑھے، کیونکہ رات کے آخری حصے میں قرآن پڑھنے پر فرشتے حاضر ہوتے ہیں، یہ افضل وقت ہے“۔
وَرُوِيَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ قَالَ:‏‏‏‏ مَنْ خَشِيَ مِنْكُمْ أَنْ لَا يَسْتَيْقِظَ مِنْ آخِرِ اللَّيْلِ فَلْيُوتِرْ مِنْ أَوَّلِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَمَنْ طَمِعَ مِنْكُمْ أَنْ يَقُومَ مِنْ آخِرِ اللَّيْلِ فَلْيُوتِرْ مِنْ آخِرِ اللَّيْلِ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّ قِرَاءَةَ الْقُرْآنِ فِي آخِرِ اللَّيْلِ مَحْضُورَةٌ وَهِيَ أَفْضَلُ . حَدَّثَنَا بِذَلِكَ هَنَّادٌ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي سُفْيَانَ، عَنْ جَابِرٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِذَلِكَ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৪৫৭
وترکا بیان
وتر رات کے اول اور آخر دونوں وقتوں میں جائز ہے
مسروق سے روایت ہے کہ انہوں نے ام المؤمنین عائشہ (رض) سے رسول اللہ ﷺ کے وتر کے بارے میں پوچھا، تو انہوں نے کہا : آپ ﷺ نے رات کے ہر حصے میں وتر پڑھا ہے۔ شروع رات میں بھی درمیان میں بھی اور آخری حصے میں بھی۔ اور جس وقت آپ کی وفات ہوئی تو آپ کا وتر سحر تک پہنچ گیا تھا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- عائشہ (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں علی، جابر، ابومسعود انصاری اور ابوقتادہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٤- بعض اہل علم کے نزدیک یہی پسندیدہ ہے کہ وتر رات کے آخری حصہ میں پڑھی جائے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوتر ٢ (٩٩٢) ، صحیح مسلم/المسافرین ١٧ (٧٤٥) ، سنن ابی داود/ الصلاة ٣٤٣ (١٤٣٥) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٢١ (١١٨٦) ، ( تحفة الأشراف : ١٧٦٥٣) ، مسند احمد (٦/٤٦، ١٠، ١٠٧، ١٢٩، ٢٠٤، ٢٠٥) ، سنن الدارمی/الصلاة ٢١١ (١٦٢٨) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : ان دونوں حدیثوں اور اس باب میں مروی دیگر حدیثوں کا ماحصل یہ ہے کہ یہ آدمی پر منحصر ہے ، وہ جب آخری پہر رات میں اٹھنے کا یقین کامل رکھتا ہو تو عشاء کے بعد یا سونے سے پہلے ہی وتر نہ پڑھے بلکہ آخری رات میں پڑھے ، اور اگر اس طرح کا یقین نہ ہو تو عشاء کے بعد سونے سے پہلے ہی پڑھ لے ، اس مسئلہ میں ہر طرح کی گنجائش ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1185) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 456
حدیث نمبر: 456 حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، حَدَّثَنَا أَبُو حَصِينٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ وَثَّابٍ، عَنْ مَسْرُوقٍ، أَنَّهُ سَأَلَعَائِشَةَ عَنْ وِتْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَتْ:‏‏‏‏ مِنْ كُلِّ اللَّيْلِ قَدْ أَوْتَرَ أَوَّلَهُ وَأَوْسَطَهُ وَآخِرَهُ فَانْتَهَى وِتْرُهُ حِينَ مَاتَ إِلَى السَّحَرِ . قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ أَبُو حَصِينٍ اسْمُهُ:‏‏‏‏ عُثْمَانُ بْنُ عَاصِمٍ الْأَسَدِيُّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ،‏‏‏‏ وجَابِرٍ،‏‏‏‏ وَأَبِي مَسْعُودٍ الْأَنْصَارِيِّ،‏‏‏‏ وَأَبِي قَتَادَةَ، ‏‏‏‏‏‏. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ حَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ الَّذِي اخْتَارَهُ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ الْوِتْرُ مِنْ آخِرِ اللَّيْلِ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৪৫৮
وترکا بیان
وتر کی سات رکعات
ام المؤمنین ام سلمہ (رض) کہتی ہیں : نبی اکرم ﷺ وتر تیرہ رکعت پڑھتے تھے لیکن جب آپ عمر رسیدہ اور کمزور ہوگئے تو سات رکعت پڑھنے لگے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ام سلمہ (رض) کی حدیث حسن ہے، ٢- اس باب میں عائشہ (رض) سے بھی روایت ہے۔ ٣- نبی اکرم ﷺ سے وتر تیرہ، گیارہ، نو، سات، پانچ، تین اور ایک سب مروی ہیں، ٤- اسحاق بن ابراہیم (ابن راہویہ) کہتے ہیں : یہ جو روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ وتر تیرہ رکعت پڑھتے تھے، اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ تہجد (قیام اللیل) وتر کے ساتھ تیرہ رکعت پڑھتے تھے، تو اس میں قیام اللیل (تہجد) کو بھی وتر کا نام دے دیا گیا ہے، انہوں نے اس سلسلے میں عائشہ (رض) سے ایک حدیث بھی روایت کی ہے اور نبی اکرم ﷺ کے فرمان اے اہل قرآن ! وتر پڑھا کرو سے بھی دلیل لی ہے۔ ابن راہویہ کہتے ہیں کہ آپ ﷺ نے اس سے قیام اللیل مراد لی ہے، اور قیام اللیل صرف قرآن کے ماننے والوں پر ہے (نہ کہ دوسرے مذاہب والوں پر) ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/قیام اللیل ٣٩ (١٧٠٩) ، و ٤٥ (١٧٢٨) ، ( تحفة الأشراف : ١٨٢٢٥) ، مسند احمد (٦/٣٢٢) (صحیح الإسناد) وضاحت : ١ ؎ : ہمارے اس نسخے اور ایسے ہی سنن ترمذی مطبوعہ مکتبۃ المعارف میں علامہ احمد شاکر کے سنن ترمذی کے نمبرات کا لحاظ کیا گیا ہے ، احمد شاکر کے نسخے میں غلطی سے ( ٤٥٨) نمبر نہیں ہے ، اس لیے ہم نے بھی اس کا تذکرہ نہیں کیا ہے ، لیکن اوپر ( ٤٥٥) مکرر آیا ہے اس لیے آگے نمبرات کا تسلسل صحیح ہے ) ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 457
حدیث نمبر: 457 حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ الْجَزَّارِ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ:‏‏‏‏ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُوتِرُ بِثَلَاثَ عَشْرَةَ رَكْعَةً فَلَمَّا كَبِرَ وَضَعُفَ أَوْتَرَ بِسَبْعٍ . قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ حَدِيثُ أُمِّ سَلَمَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ رُوِيَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْوَتْرُ بِثَلَاثَ عَشْرَةَ وَإِحْدَى عَشْرَةَ وَتِسْعٍ وَسَبْعٍ وَخَمْسٍ وَثَلَاثٍ وَوَاحِدَةٍ قَالَ:‏‏‏‏ إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ مَعْنَى مَا رُوِيَ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُوتِرُ بِثَلَاثَ عَشْرَةَ قَالَ:‏‏‏‏ إِنَّمَا مَعْنَاهُ أَنَّهُ كَانَ يُصَلِّي مِنَ اللَّيْلِ ثَلَاثَ عَشْرَةَ رَكْعَةً مَعَ الْوِتْرِ فَنُسِبَتْ صَلَاةُ اللَّيْلِ إِلَى الْوِتْرِ، ‏‏‏‏‏‏وَرَوَى فِي ذَلِكَ حَدِيثًا عَنْ عَائِشَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَاحْتَجَّ بِمَا رُوِيَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ قَالَ:‏‏‏‏ أَوْتِرُوا يَا أَهْلَ الْقُرْآنِ قَالَ:‏‏‏‏ إِنَّمَا عَنَى بِهِ قِيَامَ اللَّيْلِ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ إِنَّمَا قِيَامُ اللَّيْلِ عَلَى أَصْحَابِ الْقُرْآنِ .
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৪৫৯
وترکا بیان
وتر کی پانچ رکعات
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں : نبی اکرم ﷺ کی قیام اللیل (تہجد) تیرہ رکعت ہوتی تھی۔ ان میں پانچ رکعتیں وتر کی ہوتی تھیں، ان (پانچ) میں آپ صرف آخری رکعت ہی میں قعدہ کرتے تھے، پھر جب مؤذن اذان دیتا تو آپ کھڑے ہوجاتے اور دو ہلکی رکعتیں پڑھتے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- عائشہ (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں ابوایوب (رض) سے بھی روایت ہے۔ ٣- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا خیال ہے کہ (جس) وتر کی پانچ رکعتیں ہیں، ان میں وہ صرف آخری رکعت میں قعدہ کرے گا، ٤- میں نے اس حدیث کے بارے میں کہ نبی اکرم ﷺ نو اور سات رکعت وتر پڑھتے تھے ابومصعب مدینی سے پوچھا کہ نبی اکرم ﷺ نو اور سات رکعتیں کیسے پڑھتے تھے ؟ تو انہوں نے کہا : آپ ﷺ دو دو رکعت پڑھتے اور سلام پھیرتے جاتے، پھر ایک رکعت وتر پڑھ لیتے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین ١٧ (٧٣٧) ، ( تحفة الأشراف : ١٦٩٨١) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (1209 و 1210) ، صلاة التراويح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 459
حدیث نمبر: 459 حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ الْكَوْسَجُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ:‏‏‏‏ كَانَتْ صَلَاةُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ اللَّيْلِ ثَلَاثَ عَشْرَةَ رَكْعَةً يُوتِرُ مِنْ ذَلِكَ بِخَمْسٍ لَا يَجْلِسُ فِي شَيْءٍ مِنْهُنَّ إِلَّا فِي آخِرِهِنَّ، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا أَذَّنَ الْمُؤَذِّنُ قَامَ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ خَفِيفَتَيْنِ قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي أَيُّوبَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ حَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ رَأَى بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمُ الْوِتْرَ بِخَمْسٍ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالُوا:‏‏‏‏ لَا يَجْلِسُ فِي شَيْءٍ مِنْهُنَّ إِلَّا فِي آخِرِهِنَّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ وَسَأَلْتُ أَبَا مُصْعَبٍ الْمَدِينِيَّ عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ، ‏‏‏‏‏‏كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُوتِرُ بِالتِّسْعِ وَالسَّبْعِ قُلْتُ:‏‏‏‏ كَيْفَ يُوتِرُ بِالتِّسْعِ وَالسَّبْعِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ يُصَلِّي مَثْنَى مَثْنَى وَيُسَلِّمُ وَيُوتِرُ بِوَاحِدَةٍ .
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৪৬০
وترکا بیان
وتر میں تین رکعتیں ہیں
علی (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ تین رکعت وتر پڑھتے تھے، ان میں مفصل میں سے نو سورتیں پڑھتے ہر رکعت میں تین تین سورتیں پڑھتے، اور سب سے آخر میں «‏قل هو اللہ أحد» پڑھتے تھے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- اس باب میں عمران بن حصین، ام المؤمنین عائشہ (رض)، ابن عباس، ابوایوب انصاری اور عبدالرحمٰن بن ابزی (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ عبدالرحمٰن بن ابزیٰ نے اسے ابی بن کعب سے روایت کی ہے۔ نیز یہ بھی مروی ہے کہ عبدالرحمٰن بن ابزیٰ نے نبی اکرم ﷺ سے (براہ راست) روایت کی ہے۔ اسی طرح بعض لوگوں نے روایت کی ہے، اس میں انہوں نے «ابی» کے واسطے کا ذکر نہیں کیا ہے۔ اور بعض نے «ابی» کے واسطے کا ذکر کیا ہے۔ ٢- صحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم کی ایک جماعت کا خیال یہی ہے کہ آدمی وتر تین رکعت پڑھے، ٣- سفیان ثوری کہتے ہیں کہ اگر تم چاہو تو پانچ رکعت وتر پڑھو، اور چاہو تو تین رکعت پڑھو، اور چاہو تو صرف ایک رکعت پڑھو۔ اور میں تین رکعت ہی پڑھنے کو مستحب سمجھتا ہوں۔ ابن مبارک اور اہل کوفہ کا یہی قول ہے، ٤- محمد بن سیرین کہتے ہیں کہ لوگ وتر کبھی پانچ رکعت پڑھتے تھے، کبھی تین اور کبھی ایک، وہ ہر ایک کو مستحسن سمجھتے تھے ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٩٣٠١) (ضعیف جداً ) (سند میں حارث اعور سخت ضعیف ہے) وضاحت : ١ ؎ : یہ حدیث حارث اعور کی وجہ سے ضعیف ہے ، مگر اس کیفیت کے ساتھ ضعیف ہے ، نہ کہ تین رکعت وتر پڑھنے کی بات ضعیف ہے ، کئی ایک صحیح حدیثیں مروی ہیں کہ آپ ﷺ تین رکعت وتر پڑتے تھے ، پہلی میں «سبح اسم ربک الاعلی» دوسری میں «قل يا ايها الکافرون» اور تیسری میں «قل هو اللہ أحد» پڑھتے تھے۔ ٢ ؎ : سارے ائمہ کرام و علماء امت اس بات کے قائل ہیں کہ آدمی کو اختیار ہے کہ چاہے پانچ رکعت پڑھے ، چاہے تین ، یا ایک ، سب کے سلسلے میں صحیح احادیث وارد ہیں ، اور یہ بات کہ نہ تین سے زیادہ وتر جائز ہے نہ تین سے کم ( ایک ) تو اس بات کے قائل صرف ائمہ احناف ہیں ، وہ بھی دو رکعت کے بعد قعدہ کے ساتھ جس سے وتر کی مغرب سے مشابہت ہوجاتی ہے ، جبکہ اس بات سے منع کیا گیا ہے۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف جدا، المشکاة (1281) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 460
حدیث نمبر: 460 حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ الْحَارِثِ، عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ:‏‏‏‏ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُوتِرُ بِثَلَاثٍ يَقْرَأُ فِيهِنَّ بِتِسْعِ سُوَرٍ مِنَ الْمُفَصَّلِ يَقْرَأُ فِي كُلِّ رَكْعَةٍ بِثَلَاثِ سُوَرٍ آخِرُهُنَّ قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ وَعَائِشَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَابْنِ عَبَّاسٍ،‏‏‏‏ وَأَبِي أَيُّوبَ،‏‏‏‏ وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَى، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، ‏‏‏‏‏‏وَيُرْوَى أَيْضًا عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَى، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏هَكَذَا رَوَى بَعْضُهُمْ فَلَمْ يَذْكُرُوا فِيهِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أُبَيٍّ، ‏‏‏‏‏‏وَذَكَرَ بَعْضُهُمْ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَى، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أُبَيٍّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ وَقَدْ ذَهَبَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ إِلَى هَذَا، ‏‏‏‏‏‏وَرَأَوْا أَنْ يُوتِرَ الرَّجُلُ بِثَلَاثٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ سُفْيَانُ:‏‏‏‏ إِنْ شِئْتَ أَوْتَرْتَ بِخَمْسٍ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنْ شِئْتَ أَوْتَرْتَ بِثَلَاثٍ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنْ شِئْتَ أَوْتَرْتَ بِرَكْعَةٍ. قَالَ سُفْيَان:‏‏‏‏ وَالَّذِي أَسْتَحِبُّ أَنْ أُوتِرَ بِثَلَاثِ رَكَعَاتٍ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ قَوْلُ:‏‏‏‏ ابْنِ الْمُبَارَكِ وَأَهْلِ الْكُوفَةِ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ يَعْقُوبَ الطَّالَقَانِيُّ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْمُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ قَالَ:‏‏‏‏ كَانُوا يُوتِرُونَ بِخَمْسٍ وَبِثَلَاثٍ وَبِرَكْعَةٍ وَيَرَوْنَ كُلَّ ذَلِكَ حَسَنًا.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৪৬১
وترکا بیان
وتر میں ایک رکعت پڑھنا
انس بن سیرین کہتے ہیں کہ میں نے ابن عمر (رض) سے پوچھا : کیا میں فجر کی دو رکعت سنت لمبی پڑھوں ؟ تو انہوں نے کہا : نبی اکرم ﷺ تہجد دو دو رکعت پڑھتے تھے، اور وتر ایک رکعت، اور فجر کی دو رکعت سنت پڑھتے (گویا کہ) تکبیر آپ کے کانوں میں ہو رہی ہوتی ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابن عمر (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں عائشہ، جابر، فضل بن عباس، ابوایوب انصاری اور ابن عباس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- صحابہ و تابعین میں سے بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے، ان کا خیال ہے کہ آدمی دو رکعتوں اور تیسری رکعت کے درمیان (سلام کے ذریعہ) فصل کرے، ایک رکعت سے وتر کرے۔ مالک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ یہی کہتے ہیں ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوتر ٢ (٩٩٥) ، صحیح مسلم/المسافرین ٢٠ (١٥٧/٧٤٩) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٠١ (١١٤٤) ، (مختصرا) ( تحفة الأشراف : ٦٦٥٢) ، مسند احمد (٢/٣١، ٤٩، ٧٨، ٨٨، ١٢٦) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : گویا تکبیر آپ ﷺ کے دونوں کانوں میں ہو رہی ہوتی کا مطلب ہے کہ فجر کی دونوں سنتیں اتنی سرعت سے ادا فرماتے گویا تکبیر کی آواز آپ کے کانوں میں آرہی ہے اور آپ تکبیر تحریمہ فوت ہوجانے کے اندیشے سے اسے جلدی جلدی پڑھ رہے ہوں۔ ٢ ؎ : نبی اکرم ﷺ کی وتر کے بارے میں وارد احادیث میں یہ صورت بھی ہے ، اور بغیر سلام کے تین پڑھنے کی صورت بھی مروی ہے ، اس معاملہ میں امت پر وسعت کی گئی ہے ، اس کو تنگی میں محصور کردینا مناسب نہیں ہے۔ نبی اکرم ﷺ کا اس ضمن میں زیادہ عمل ، وتر ایک رکعت پڑھنے پر تھا اس کے لیے احادیث و آثار تین ، پانچ اور ان سے زیادہ وتروں کی نسبت کثرت سے مروی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1144 و 1318) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 461
حدیث نمبر: 461 حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ سِيرِينَ، قَالَ:‏‏‏‏ سَأَلْتُ ابْنَ عُمَرَ، فَقُلْتُ:‏‏‏‏ أُطِيلُ فِي رَكْعَتَيِ الْفَجْرِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي مِنَ اللَّيْلِ مَثْنَى مَثْنَى وَيُوتِرُ بِرَكْعَةٍ، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ يُصَلِّي الرَّكْعَتَيْنِ وَالْأَذَانُ فِي أُذُنِهِ يَعْنِي يُخَفِّفُ قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَجَابِرٍ،‏‏‏‏ وَالْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ،‏‏‏‏ وَأَبِي أَيُّوبَ،‏‏‏‏ وَابْنِ عَبَّاسٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏وَالتَّابِعِينَ رَأَوْا أَنْ يَفْصِلَ الرَّجُلُ بَيْنَ الرَّكْعَتَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏وَالثَّالِثَةِ يُوتِرُ بِرَكْعَةٍ، ‏‏‏‏‏‏وَبِهِ يَقُولُ:‏‏‏‏ مَالِكٌ،‏‏‏‏ وَالشَّافِعِيُّ،‏‏‏‏ وَأَحْمَدُ،‏‏‏‏ وَإِسْحَاق.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৪৬২
وترکا بیان
وتر کی نماز میں کیا پڑھے
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ وتر میں «‏سبح اسم ربک الأعلی» ، «‏قل يا أيها الکافرون‏» اور «‏قل هو اللہ أحد» تینوں کو ایک ایک رکعت میں پڑھتے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- اس باب میں علی، عائشہ اور عبدالرحمٰن بن ابزیٰ (رضی اللہ عنہم) جنہوں نے ابی بن کعب (رض) سے روایت کی ہے، بھی احادیث آئی ہیں، اور اسے عبدالرحمٰن بن ابزیٰ سے بغیر ابی کے واسطے کے براہ راست نبی اکرم ﷺ سے بھی روایت کیا جاتا ہے، ٢- نبی اکرم ﷺ سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ وتر میں تیسری رکعت میں معوذتین اور «قل هو اللہ أحد» پڑھتے تھے، ٣- صحابہ کرام اور ان کے بعد کے لوگوں میں سے اکثر اہل علم نے جس بات کو پسند کیا ہے، وہ یہ ہے کہ «‏سبح اسم ربک الأعلی» ، «‏قل يا أيها الکافرون‏» اور «‏قل هو اللہ أحد» تینوں میں سے ایک ایک ہر رکعت میں پڑھتے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الإقامة ١١٥ (١١٧٢) ، ( تحفة الأشراف : ٥٥٨٧) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1172) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 462
حدیث نمبر: 462 حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا شَرِيكٌ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:‏‏‏‏ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَأُ فِي الْوِتْرِ بِ:‏‏‏‏ سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى، ‏‏‏‏‏‏وقُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ، ‏‏‏‏‏‏وقُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ فِي رَكْعَةٍ رَكْعَةٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ، ‏‏‏‏‏‏وَعَائِشَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَى، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، ‏‏‏‏‏‏وَيُرْوَى عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَى، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ وَقَدْ رُوِيَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَرَأَ فِي الْوِتْرِ فِي الرَّكْعَةِ الثَّالِثَةِ بِ:‏‏‏‏ الْمُعَوِّذَتَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏وَقُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ، ‏‏‏‏‏‏وَالَّذِي اخْتَارَهُ أَكْثَرُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَنْ بَعْدَهُمْ أَنْ يَقْرَأَ بِ:‏‏‏‏ سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى، ‏‏‏‏‏‏وقُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ، ‏‏‏‏‏‏وَقُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ يَقْرَأُ فِي كُلِّ رَكْعَةٍ مِنْ ذَلِكَ بِسُورَةٍ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৪৬৩
وترکا بیان
وتر کی نماز میں کیا پڑھے
عبدالعزیز بن جریج کہتے ہیں کہ ہم نے عائشہ (رض) سے پوچھا : رسول اللہ ﷺ وتر میں کیا پڑھتے تھے ؟ تو انہوں نے کہا : پہلی رکعت میں «‏سبح اسم ربک الأعلی» ، دوسری میں «‏قل يا أيها الکافرون‏» ، اور تیسری میں «‏قل هو اللہ أحد» اور معوذتین ١ ؎ پڑھتے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢- یہ عبدالعزیز راوی اثر عطاء کے شاگرد ابن جریج کے والد ہیں، اور ابن جریج کا نام عبدالملک بن عبدالعزیز بن جریج ہے، ٣- یحییٰ بن سعید انصاری نے یہ حدیث بطریق : «عمرة عن عائشة عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصلاة ٢٣٩ (١٤٢٤) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١١٥ (١١٧٣) ، ( تحفة الأشراف : ١٦٣٠٦) (صحیح) (متابعات وشواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے، ورنہ عبد العزیز کی ملاقات عائشہ (رض) سے نہیں ہے) وضاحت : ١ ؎ : یعنی «قل أعوذ برب الفلق» اور «قل أعوذ برب الناس»۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1173) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 463
حدیث نمبر: 463 حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ حَبِيبِ بْنِ الشَّهِيدِ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ الْحَرَّانِيُّ، عَنْ خُصَيْفٍ، عَنْعَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ جُرَيْجٍ، قَالَ:‏‏‏‏ سَأَلْنَا عَائِشَةَ بِأَيِّ شَيْءٍ كَانَ يُوتِرُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؟ قَالَتْ:‏‏‏‏ كَانَ يَقْرَأُ فِي الْأُولَى بِ:‏‏‏‏ سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى وَفِي الثَّانِيَةِ بِ:‏‏‏‏ قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ وَفِي الثَّالِثَةِ بِ:‏‏‏‏ قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ، ‏‏‏‏‏‏وَالْمُعَوِّذَتَيْنِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَعَبْدُ الْعَزِيزِ هَذَا هُوَ وَالِدُ ابْنِ جُرَيْجٍ صَاحِبِ عَطَاءٍ، ‏‏‏‏‏‏وَابْنُ جُرَيْجٍ اسْمُهُ:‏‏‏‏ عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ جُرَيْجٍ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ رَوَى يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْأَنْصَارِيُّ هَذَا الْحَدِيثَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَمْرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৪৬৪
وترکا بیان
وتر میں قنوت پڑھنا
حسن بن علی (رض) کہتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے یہ کلمات سکھائے جنہیں میں وتر میں پڑھا کروں، وہ کلمات یہ ہیں : «اللهم اهدني فيمن هديت وعافني فيمن عافيت وتولني فيمن توليت وبارک لي فيما أعطيت وقني شر ما قضيت فإنک تقضي ولا يقضی عليك وإنه لا يذل من واليت تبارکت ربنا وتعاليت» اے اللہ ! مجھے ہدایت دے کر ان لوگوں کے زمرہ میں شامل فرما جنہیں تو نے ہدایت سے نوازا ہے، مجھے عافیت دے کر ان لوگوں میں شامل فرما جنہیں تو نے عافیت بخشی ہے، میری سرپرستی فرما کر، ان لوگوں میں شامل فرما جن کی تو نے سرپرستی کی ہے، اور جو کچھ تو نے مجھے عطا فرمایا ہے اس میں برکت عطا فرما، اور جس شر کا تو نے فیصلہ فرما دیا ہے اس سے مجھے محفوظ رکھ، یقیناً فیصلہ تو ہی صادر فرماتا ہے، تیرے خلاف فیصلہ صادر نہیں کیا جاسکتا، اور جس کا تو والی ہو وہ کبھی ذلیل و خوار نہیں ہوسکتا، اے ہمارے رب ! تو بہت برکت والا اور بہت بلند و بالا ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن ہے، ٢- اسے ہم صرف اسی سند سے یعنی ابوالحوراء سعدی کی روایت سے جانتے ہیں، ان کا نام ربیعہ بن شیبان ہے، ٣- میرے علم میں وتر کے قنوت کے سلسلے میں اس سے بہتر کوئی اور چیز نبی اکرم ﷺ سے مروی ہو معلوم نہیں، ٤- اس باب میں علی (رض) سے بھی روایت ہے، ٥- اہل علم کا وتر کے قنوت میں اختلاف ہے۔ عبداللہ بن مسعود (رض) کا خیال ہے کہ وتر میں قنوت پورے سال ہے، اور انہوں نے رکوع سے پہلے قنوت پڑھنا پسند کیا ہے، اور یہی بعض اہل علم کا قول ہے سفیان ثوری، ابن مبارک، اسحاق اور اہل کوفہ بھی یہی کہتے ہیں، ٦- علی بن ابی طالب (رض) سے مروی ہے کہ وہ صرف رمضان کے نصف آخر میں قنوت پڑھتے تھے، اور رکوع کے بعد پڑھتے تھے، ٧- بعض اہل علم اسی طرف گئے ہیں، شافعی اور احمد بھی یہی کہتے ہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصلاة ٣٤٠ (١٤٢٥) ، سنن النسائی/قیام اللیل ٥١ (١٧٤٦) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١١٧ (١١٧٨) ، ( تحفة الأشراف : ٣٤٤٠٤) ، مسند احمد (١/١٩٩، ٢٢٠) ، سنن الدارمی/الصلاة ٢١٤ (١٦٣٢) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : وتر کی اہمیت ، اور اس کی مشروعیت کے سبب اس کے وقت ، اور طریقہ نیز نبی اکرم ﷺ کی وتر کے بارے میں جو روایات وارد ہیں ان سب سے یہی ثابت ہوتا ہے ، کہ صلاۃ وتر پورا سال اور ہر روز ہے ، اور قنوت وتر کے بارے میں تحقیقی بات یہی ہے کہ وہ رکوع سے پہلے افضل ہے ، اور قنوت نازلہ رکوع کے بعد ہے۔ صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 464
حدیث نمبر: 464 حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ بُرَيْدِ بْنِ أَبِي مَرْيَمَ، عَنْ أَبِي الْحَوْرَاءِ السَّعْدِيِّ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَالْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا:‏‏‏‏ عَلَّمَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏كَلِمَاتٍ أَقُولُهُنَّ فِي الْوِتْرِ اللَّهُمَّ اهْدِنِي فِيمَنْ هَدَيْتَ، ‏‏‏‏‏‏وَعَافِنِي فِيمَنْ عَافَيْتَ، ‏‏‏‏‏‏وَتَوَلَّنِي فِيمَنْ تَوَلَّيْتَ، ‏‏‏‏‏‏وَبَارِكْ لِي فِيمَا أَعْطَيْتَ، ‏‏‏‏‏‏وَقِنِي شَرَّ مَا قَضَيْتَ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّكَ تَقْضِي وَلَا يُقْضَى عَلَيْكَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّهُ لَا يَذِلُّ مَنْ وَالَيْتَ، ‏‏‏‏‏‏تَبَارَكْتَ رَبَّنَا وَتَعَالَيْتَ قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، ‏‏‏‏‏‏لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ أَبِي الْحَوْرَاءِ السَّعْدِيِّ وَاسْمُهُ:‏‏‏‏ رَبِيعَةُ بْنُ شَيْبَانَ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا نَعْرِفُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْقُنُوتِ فِي الْوِتْرِ شَيْئًا أَحْسَنَ مِنْ هَذَا، ‏‏‏‏‏‏وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي الْقُنُوتِ فِي الْوِتْرِ، ‏‏‏‏‏‏فَرَأَى عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ الْقُنُوتَ فِي الْوِتْرِ فِي السَّنَةِ كُلِّهَا، ‏‏‏‏‏‏وَاخْتَارَ الْقُنُوتَ قَبْلَ الرُّكُوعِ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ قَوْلُ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ، ‏‏‏‏‏‏وَبِهِ يَقُولُ:‏‏‏‏ سفيان الثوري،‏‏‏‏ وَابْنُ الْمُبَارَكِ،‏‏‏‏ وَإِسْحَاق وَأَهْلُ الْكُوفَةِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ رُوِيَ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ كَانَ لَا يَقْنُتُ إِلَّا فِي النِّصْفِ الْآخِرِ مِنْ رَمَضَانَ، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ يَقْنُتُ بَعْدَ الرُّكُوعِ وَقَدْ ذَهَبَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ إِلَى هَذَا، ‏‏‏‏‏‏وَبِهِ يَقُولُ:‏‏‏‏ الشافعي وَأَحْمَدُ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৪৬৫
وترکا بیان
جو شخص وتر پڑھنا بھول جائے یا وتر پڑھے بغیر سو جائے
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو وتر پڑھے بغیر سو جائے، یا اسے پڑھنا بھول جائے تو جب یاد آئے یا جاگے پڑھ لے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصلاة ٣٤١ (١٤٣١) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٢٢ (١١٨٨) ، ( تحفة الأشراف : ٤١٩٨) ، مسند احمد (٣/٣١) (صحیح) (سند میں عبدالرحمن بن زید بن اسلم متکلم فیہ راوی ہیں لیکن متابعات و شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1188) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 465
حدیث نمبر: 465 حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْأَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ مَنْ نَامَ عَنِ الْوِتْرِ أَوْ نَسِيَهُ فَلْيُصَلِّ إِذَا ذَكَرَ وَإِذَا اسْتَيْقَظَ .
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৪৬৬
وترکا بیان
جو شخص وتر پڑھنا بھول جائے یا وتر پڑھے بغیر سو جائے
زید بن اسلم (مرسلاً ) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو وتر پڑھے بغیر سو جائے، اور جب صبح کو اٹھے تو پڑھ لے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ پہلی حدیث سے زیادہ صحیح ہے ١ ؎، ٢- میں نے ابوداود سجزی یعنی سلیمان بن اشعث کو سنا، وہ کہہ رہے تھے کہ میں نے احمد بن حنبل سے عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا : ان کے بھائی عبداللہ میں کوئی مضائقہ نہیں، ٣- میں نے محمد (محمد بن اسماعیل بخاری) کو ذکر کرتے سنا، وہ علی بن عبداللہ (ابن المدینی) سے روایت کر رہے تھے کہ انہوں نے عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم کو ضعیف قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ (ان کے بھائی) عبداللہ بن زید بن اسلم ثقہ ہیں، ٤- کوفہ کے بعض اہل علم اسی حدیث کی طرف گئے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ آدمی وتر پڑھ لے جب اسے یاد آ جائے، گو سورج نکلنے کے بعد یاد آئے۔ یہی سفیان ثوری بھی کہتے ہیں ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (صحیح) (شواہد ومتابعات کی بنا پر یہ روایت صحیح ہے، ورنہ یہ خود مرسل روایت ہے) وضاحت : ١ ؎ : کیونکہ پہلی حدیث اگرچہ مرفوع ہے مگر عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم کے طریق سے ہے ، اور وہ متکلم فیہ ہیں ، جبکہ ان کے بھائی عبداللہ ثقہ ہیں ، یعنی اس حدیث کا مرسل ہونا ہی زیادہ صحیح ہے۔ ٢ ؎ : اس حدیث سے وتر کی قضاء ثابت ہوتی ہے ، اس کے قائل بہت سے صحابہ اور ائمہ ہیں ، اس مسئلہ میں اگرچہ بہت سے اقوال ہیں مگر احتیاط کی بات یہی ہے کہ وتر اگر کسی وجہ سے رہ جائے تو قضاء کرلے ، چاہے جب بھی کرے ، کیونکہ وتر سنن و نوافل نمازوں کو طاق بنانے کے لیے مشروع ہوئی ہے ، اور اگر کوئی مسافر ہو اور دن بھر میں کسی وقت بھی دو رکعت بھی سنت نہ پڑھ سکا ہو تو ایسے آدمی کو وتر کی ضرورت ہی نہیں ، پھر عشاء کے بعد دو رکعت سنت پڑھ لے تب وتر پڑھے۔ صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 466
حدیث نمبر: 467 حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِيهِ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:‏‏‏‏ مَنْ نَامَ عَنْ وِتْرِهِ فَلْيُصَلِّ إِذَا أَصْبَحَ قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ وَهَذَا أَصَحُّ مِنَ الْحَدِيثِ الْأَوَّلِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ سَمِعْت أَبَا دَاوُدَ السِّجْزِيَّ يَعْنِي سُلَيْمَانَ بْنَ الْأَشْعَثِ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ سَأَلْتُ أَحْمَدَ بْنَ حَنْبَلٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ أَخُوهُ عَبْدُ اللَّهِ:‏‏‏‏ لَا بَأْسَ بِهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وسَمِعْت مُحَمَّدًا يَذْكُرُ عَنْ عَلِيِّ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ ضَعَّفَ 72 عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، ‏‏‏‏‏‏وقَالَ:‏‏‏‏ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ ثِقَةٌ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَقَدْ ذَهَبَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ بِالْكُوفَةِ إِلَى هَذَا الْحَدِيثِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالُوا:‏‏‏‏ يُوتِرُ الرَّجُلُ إِذَا ذَكَرَ وَإِنْ كَانَ بَعْدَ مَا طَلَعَتِ الشَّمْسُ، ‏‏‏‏‏‏وَبِهِ يَقُولُ:‏‏‏‏ سفيان الثوري.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৪৬৭
وترکا بیان
جو شخص وتر پڑھنا بھول جائے یا وتر پڑھے بغیر سو جائے
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : صبح ہونے سے پہلے وتر پڑھ لیا کرو ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین ٢٠ (٧٥٠) ، سنن ابی داود/ الصلاة ٣٤٣ (١٤٣٦) ، ( تحفة الأشراف : ٨١٣٢) ، مسند احمد (٢/٣٧، ٣٨) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ وتر کا وقت طلوع فجر سے پہلے تک ہے جب فجر طلوع ہوگئی تو ادائیگی وتر کا وقت نکل گیا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الإرواء (2 / 154) ، صحيح أبي داود (1290) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 467
حدیث نمبر: 467 حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ زَكَرِيَّا بْنِ أَبِي زَائِدَةَ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ بَادِرُوا الصُّبْحَ بِالْوِتْرِ قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৪৬৮
وترکا بیان
جو شخص وتر پڑھنا بھول جائے یا وتر پڑھے بغیر سو جائے
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : صبح ہونے سے پہلے وتر پڑھ لیا کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین ٢٠ (٧٥٤) ، سنن النسائی/قیام اللیل ٣١ (١٦٨٤، ١٦٨٥) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٢٢ (١١٨٩) ، ( تحفة الأشراف : ٤٣٨٤) ، مسند احمد (٣/١٣، ٣٥، ٣٧، ٧١) ، سنن الدارمی/الصلاة ٢١١ (١٦٢٩) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1189) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 468
حدیث نمبر: 468 حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ أَوْتِرُوا قَبْلَ أَنْ تُصْبِحُوا .
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৪৬৯
وترکا بیان
جو شخص وتر پڑھنا بھول جائے یا وتر پڑھے بغیر سو جائے
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب فجر طلوع ہوگئی تو تہجد (قیام اللیل) اور وتر کا سارا وقت ختم ہوگیا، لہٰذا فجر کے طلوع ہونے سے پہلے وتر پڑھ لیا کرو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- سلیمان بن موسیٰ ان الفاظ کے ساتھ منفرد ہیں، ٢- نیز نبی اکرم ﷺ سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا : فجر کے بعد وتر نہیں ، ٣- بہت سے اہل علم کا یہی قول ہے۔ اور شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں : یہ لوگ نماز فجر کے بعد وتر پڑھنے کو درست نہیں سمجھتے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٧٦٧٣) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : پچھلی حدیث کے حاشیہ میں گزرا کہ بہت سے صحابہ کرام وائمہ عظام وتر کی قضاء کے قائل ہیں ، اور یہی راجح مسلک ہے ، کیونکہ اگر وتر نہیں پڑھی تو سنن و نوافل کی جفت رکعتیں طاق نہیں ہو پائیں گی ، واللہ اعلم۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الإرواء (2 / 154) ، صحيح أبي داود (1290) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 469
حدیث نمبر: 469 حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ مُوسَى، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ إِذَا طَلَعَ الْفَجْرُ فَقَدْ ذَهَبَ كُلُّ صَلَاةِ اللَّيْلِ وَالْوِتْرُ، ‏‏‏‏‏‏فَأَوْتِرُوا قَبْلَ طُلُوعِ الْفَجْرِ قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ وَسُلَيْمَانُ بْنُ مُوسَى قَدْ تَفَرَّدَ بِهِ عَلَى هَذَا اللَّفْظِ، ‏‏‏‏‏‏وَرُوِي عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ قَالَ:‏‏‏‏ لَا وِتْرَ بَعْدَ صَلَاةِ الصُّبْحِ وَهُوَ قَوْلُ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ وَبِهِ يَقُولُ:‏‏‏‏ الشافعي،‏‏‏‏ وَأَحْمَدُ،‏‏‏‏ وَإِسْحَاق، ‏‏‏‏‏‏لَا يَرَوْنَ الْوِتْرَ بَعْدَ صَلَاةِ الصُّبْحِ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৪৭০
وترکا بیان
ایک رات میں دو وتر نہیں ہیں
طلق بن علی (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : ایک رات میں دو بار وتر نہیں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢- اس شخص کے بارے میں اہل علم میں اختلاف ہے جو رات کے شروع حصہ میں وتر پڑھ لیتا ہو پھر رات کے آخری حصہ میں قیام اللیل (تہجد) کے لیے اٹھتا ہو، تو صحابہ کرام اور ان کے بعد کے لوگوں میں سے بعض اہل علم کی رائے وتر کو توڑ دینے کی ہے، ان کا کہنا ہے کہ وہ اس میں ایک رکعت اور ملا لے تاکہ (وہ جفت ہوجائے) پھر جتنا چاہے پڑھے اور نماز کے آخر میں وتر پڑھ لے۔ اس لیے کہ ایک رات میں دو بار وتر نہیں، اسحاق بن راہویہ اسی طرف گئے ہیں، ٣- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا کہنا ہے کہ جب اس نے رات کے شروع حصہ میں وتر پڑھ لی پھر سو گیا، پھر رات کے آخری میں بیدار ہوا تو وہ جتنی نماز چاہے پڑھے، وتر کو نہ توڑے بلکہ وتر کو اس کے اپنے حال ہی پر رہنے دے۔ سفیان ثوری، مالک بن انس، ابن مبارک، شافعی اور اہل کوفہ اور احمد کا یہی قول ہے۔ اور یہی زیادہ صحیح ہے، اس لیے کہ کئی دوسری روایتوں میں مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے وتر کے بعد نماز پڑھی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصلاة ٣٤٤ (١٤٣٩) ، سنن النسائی/قیام اللیل ٢٩ (١٦٨٠) ، ( تحفة الأشراف : ٥٠٢٤) ، مسند احمد (٤/٢٣) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (1293) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 470
حدیث نمبر: 470 حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا مُلَازِمُ بْنُ عَمْرٍو، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بَدْرٍ، عَنْ قَيْسِ بْنِ طَلْقِ بْنِ عَلِيٍّ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ لَا وِتْرَانِ فِي لَيْلَةٍ قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، ‏‏‏‏‏‏وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي الَّذِي يُوتِرُ مِنْ أَوَّلِ اللَّيْلِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ يَقُومُ مِنْ آخِرِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَرَأَى بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَنْ بَعْدَهُمْ نَقْضَ الْوِتْرِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالُوا:‏‏‏‏ يُضِيفُ إِلَيْهَا رَكْعَةً وَيُصَلِّي مَا بَدَا لَهُ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ يُوتِرُ فِي آخِرِ صَلَاتِهِ لِأَنَّهُ لَا وِتْرَانِ فِي لَيْلَةٍ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ الَّذِي ذَهَبَ إِلَيْهِ إِسْحَاق، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ:‏‏‏‏ إِذَا أَوْتَرَ مِنْ أَوَّلِ اللَّيْلِ ثُمَّ نَامَ ثُمَّ قَامَ مِنْ آخِرِ اللَّيْلِ فَإِنَّهُ يُصَلِّي مَا بَدَا لَهُ وَلَا يَنْقُضُ وِتْرَهُ وَيَدَعُ وِتْرَهُ عَلَى مَا كَانَ. وَهُوَ قَوْلُ:‏‏‏‏ سفيان الثوري،‏‏‏‏ وَمَالِكِ بْنِ أَنَسٍ،‏‏‏‏ وَابْنِ الْمُبَارَكِ،‏‏‏‏ وَالشَّافِعِيِّ وَأَهْلِ الْكُوفَةِ وَأَحْمَدَ، ‏‏‏‏‏‏وَهَذَا أَصَحُّ، ‏‏‏‏‏‏لِأَنَّهُ قَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ صَلَّى بَعْدَ الْوِتْرِ .
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৪৭১
وترکا بیان
ایک رات میں دو وتر نہیں ہیں
ام المؤمنین ام سلمہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ وتر کے بعد دو رکعتیں پڑھتے تھے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ابوامامہ، عائشہ (رض) اور دیگر کئی لوگوں سے بھی نبی اکرم ﷺ سے اسی طرح مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٢٥ ( ١١٩٥) ، ( تحفة الأشراف : ١٨٢٥٥) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : نووی کے بقول نبی اکرم ﷺ کا وتر کے بعد دو رکعتیں پڑھنا بیان جواز کے لیے تھا ، آپ ہمیشہ ایسا نہیں کرتے تھے ، نہ کرسکتے تھے کہ آپ نے خود فرمایا تھا : وتر کو رات کی نماز ( تہجد ) میں سب سے اخیر میں کر دو تو آپ خود اس کی خلاف ورزی کیسے کرسکتے تھے ، یا پھر یہ مانیے کہ یہ آپ کے ساتھ خاص تھا ، اور شاید یہی وجہ ہے کہ امت کے علماء میں اس پر تعامل نہیں پایا گیا۔ واللہ اعلم۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1195) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 471
حدیث نمبر: 471 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ مَسْعَدَةَ، عَنْ مَيْمُونِ بْنِ مُوسَى الْمَرَئِيِّ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ أُمِّهِ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُصَلِّي بَعْدَ الْوِتْرِ رَكْعَتَيْنِ . قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ وَقَدْ رُوِيَ نَحْوُ هَذَا عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَعَائِشَةَ وَغَيْرِ وَاحِدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
tahqiq

তাহকীক: