আল জামিউল কাবীর- ইমাম তিরমিযী রহঃ (উর্দু)
الجامع الكبير للترمذي
جمعہ کا بیان - এর পরিচ্ছেদসমূহ
মোট হাদীস ২০ টি
হাদীস নং: ৪৮৮
جمعہ کا بیان
جمعہ کے دن کے فضلیت
 ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ  نبی اکرم  ﷺ  نے فرمایا :  سب سے بہتر دن جس میں سورج نکلا، جمعہ کا دن ہے، اسی دن آدم کو پیدا کیا گیا، اسی دن انہیں جنت میں داخل کیا گیا، اسی دن انہیں جنت سے نکالا گیا، اور قیامت بھی اسی دن قائم ہوگی   ١ ؎۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١- ابوہریرہ (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے،  ٢- اس باب میں ابولبابہ، سلمان، ابوذر، سعد بن عبادہ اور اوس بن اوس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔    تخریج دارالدعوہ :  صحیح مسلم/الجمعة ٥ (٨٥٤) ،  ( تحفة الأشراف : ١٣٨٨٢) ، مسند احمد (٢/٤٠١، ١٤٨، ٤٥١، ٤٨٦، ٥٠١، ٥٤٠) ، وانظر أیضا ما یأتي برقم ٤٩١ (صحیح)    وضاحت :  ١ ؎ : اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس دن بڑے بڑے امور سرانجام پائے ہیں کہ جن سے جمعہ کی فضیلت ظاہر ہوتی ہے۔    قال الشيخ الألباني :  صحيح، الصحيحة (961) ، صحيح أبي داود (961)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 488  
حدیث نمبر: 488  حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا الْمُغِيرَةُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:  خَيْرُ يَوْمٍ طَلَعَتْ فِيهِ الشَّمْسُ يَوْمُ الْجُمُعَةِ، فِيهِ خُلِقَ آدَمُ، وَفِيهِ أُدْخِلَ الْجَنَّةَ، وَفِيهِ أُخْرِجَ مِنْهَا، وَلَا تَقُومُ السَّاعَةُ إِلَّا فِي يَوْمِ الْجُمُعَةِ  قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي لُبَابَةَ، وَسَلْمَانَ، وَأَبِي ذَرٍّ، وَسَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ، وَأَوْسِ بْنِ أَوْسٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৪৮৯
جمعہ کا بیان
جمعہ کے دن کی وہ ساعت جس میں دعا کی قبولیت کی امید ہے
 انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ  نبی اکرم  ﷺ  نے فرمایا :  جمعہ کے روز اس گھڑی کو جس میں دعا کی قبولیت کی امید کی جاتی ہے عصر سے لے کر سورج ڈوبنے تک کے درمیان تلاش کرو ۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١- یہ حدیث اس سند سے غریب ہے،  ٢- یہ حدیث انس (رض) سے بھی کئی سندوں سے مروی ہے،  ٣- محمد بن ابی حمید ضعیف گردانے جاتے ہیں، بعض اہل علم نے ان کے حفظ کے تعلق سے ان کی تضعیف کی ہے، انہیں حماد بن ابی حمید بھی کہا جاتا ہے، نیز کہا جاتا ہے کہ یہی ابوابراہیم انصاری ہیں اور یہ منکرالحدیث ہیں،  ٤- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا خیال ہے کہ یہ گھڑی جس میں قبولیت دعا کی امید کی جاتی ہے عصر کے بعد سے سورج ڈوبنے کے درمیان ہے، یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں۔ احمد کہتے ہیں : اس گھڑی کے سلسلے میں جس میں دعا کی قبولیت کی امید کی جاتی ہے زیادہ تر حدیثیں یہی آئی ہیں کہ یہ عصر کے بعد سے سورج ڈوبنے کے درمیان ہے، نیز سورج ڈھلنے کے بعد بھی اس کے ہونے کی امید کی جاتی ہے  ١ ؎۔    تخریج دارالدعوہ :  تفرد بہ المؤلف  ( تحفة الأشراف : ١٦١٩) (حسن) (شواہد کی بنا پر یہ حدیث حسن لغیرہ ہے، ورنہ اس کے راوی محمد بن ابی حمید ضعیف ہیں جیسا کہ مؤلف نے بیان کیا)    وضاحت :  ١ ؎ : اس بابت متعدد روایات ہیں ، دیکھئیے اگلی حدیثیں۔    قال الشيخ الألباني :  حسن، المشکاة (1360) ، التعليق الرغيب (1 / 251)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 489  
حدیث نمبر: 489  حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الصَّبَّاحِ الْهَاشِمِيُّ الْبَصْرِيُّ الْعَطَّارُ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الْمَجِيدِ الْحَنَفِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ وَرْدَانَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ:  الْتَمِسُوا السَّاعَةَ الَّتِي تُرْجَى فِي يَوْمِ الْجُمُعَةِ بَعْدَ الْعَصْرِ إِلَى غَيْبُوبَةِ الشَّمْسِ . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ أَنَسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ، وَمُحَمَّدُ بْنُ أَبِي حُمَيْدٍ يُضَعَّفُ ضَعَّفَهُ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ قِبَلِ حِفْظِهِ، وَيُقَالُ لَهُ: حَمَّادُ بْنُ أَبِي حُمَيْدٍ، وَيُقَالُ: هُوَ أَبُو إِبْرَاهِيمَ الْأَنْصَارِيُّ وَهُوَ مُنْكَرُ الْحَدِيثِ، وَرَأَى بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، أَنَّ السَّاعَةَ الَّتِي تُرْجَى فِيهَا بَعْدَ الْعَصْرِ إِلَى أَنْ تَغْرُبَ الشَّمْسُ، وَبِهِ يَقُولُ: أَحْمَدُ، وَإِسْحَاق، وقَالَ أَحْمَدُ: أَكْثَرُ الْأَحَادِيثِ فِي السَّاعَةِ الَّتِي تُرْجَى فِيهَا إِجَابَةُ الدَّعْوَةِ أَنَّهَا بَعْدَ صَلَاةِ الْعَصْرِ وَتُرْجَى بَعْدَ زَوَالِ الشَّمْسِ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৪৯০
جمعہ کا بیان
جمعہ کے دن کی وہ ساعت جس میں دعا کی قبولیت کی امید ہے
 عمرو بن عوف مزنی (رض) سے روایت ہے کہ  نبی اکرم  ﷺ  نے فرمایا :  جمعہ میں ایک گھڑی ایسی ہے کہ بندہ جو کچھ بھی اس میں مانگتا ہے اللہ اسے عطا کرتا ہے ، لوگوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! یہ کون سی گھڑی ہے ؟ آپ نے فرمایا :  نماز  (جمعہ)  کھڑی ہونے کے وقت سے لے کر اس سے پلٹنے یعنی نماز ختم ہونے تک ہے   ١ ؎۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١- عمرو بن عوف کی حدیث حسن غریب ہے،  ٢- اس باب میں ابوموسیٰ ، ابوذر، سلمان، عبداللہ بن سلام، ابولبابہ، سعد بن عبادہ اور ابوامامہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔    تخریج دارالدعوہ :  سنن ابن ماجہ/الإقامة ٩٩ (١١٣٨) (تحفة الأشراف : ١٠٧٧٣) (ضعیف جداً ) (یہ سند معروف ترین ضعیف سندوں میں سے ہے، کثیر ضعیف راوی ہیں، اور ان کے والد عبداللہ عبداللہ بن عمرو بن عوف مزنی مقبول یعنی متابعت کے وقت ورنہ ضعیف راوی ہیں)    وضاحت :  ١ ؎ : قبولیت دعا کی اس گھڑی کے وقت کے بارے میں یہی ٹکڑا اس حدیث میں ضعیف ہے ، نہ کہ مطلق حدیث ضعیف ہے۔    قال الشيخ الألباني :  ضعيف جدا، ابن ماجة (1138) // ضعيف سنن ابن ماجة (235) ، ضعيف الجامع الصغير (1890) //   صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 490  
حدیث نمبر: 490  حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ الْبَغْدَادِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ الْعَقَدِيُّ، حَدَّثَنَا كَثِيرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ الْمُزَنِيُّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:  إِنَّ فِي الْجُمُعَةِ سَاعَةً لَا يَسْأَلُ اللَّهَ الْعَبْدُ فِيهَا شَيْئًا إِلَّا آتَاهُ اللَّهُ إِيَّاهُ  قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَيَّةُ سَاعَةٍ هِيَ ؟ قَالَ:  حِينَ تُقَامُ الصَّلَاةُ إِلَى الِانْصِرَافِ مِنْهَا  قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي مُوسَى، وَأَبِي ذَرٍّ، وَسَلْمَانَ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَامٍ، وَأَبِي لُبَابَةَ، وَسَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ، وَأَبِي أُمَامَةَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৪৯১
جمعہ کا بیان
جمعہ کے دن کی وہ ساعت جس میں دعا کی قبولیت کی امید ہے
 ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا :  سب سے بہتر دن جس میں سورج نکلا جمعہ کا دن ہے، اسی دن آدم پیدا کیے گئے، اسی دن وہ جنت میں داخل کیے گئے، اسی دن وہ جنت سے  (زمین پر اتارے گئے)  اس دن میں ایک گھڑی ایسی ہے کہ جسے مسلم بندہ نماز کی حالت میں پائے اور اللہ سے اس میں کچھ طلب کرے تو اللہ اسے ضرور عطا فرمائے گا، ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں : پھر میں عبداللہ بن سلام سے ملا اور ان سے اس حدیث کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا : میں یہ گھڑی اچھی طرح جانتا ہوں، میں نے کہا : مجھے بھی اس کے بارے میں بتائیے اور اس سلسلہ میں مجھ سے بخل نہ کیجئے، انہوں نے کہا : یہ عصر کے بعد سے لے کر سورج ڈوبنے کے درمیان ہے، اس پر میں نے کہا : یہ عصر کے بعد کیسے ہوسکتی ہے جب کہ رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا ہے :  اسے مسلمان بندہ حالت نماز میں پائے اور یہ وقت ایسا ہے جس میں نماز نہیں پڑھی جاتی ؟ تو عبداللہ بن سلام نے کہا : کیا رسول اللہ  ﷺ  نے یہ نہیں فرمایا ہے کہ جو شخص نماز کے انتظار میں کسی جگہ بیٹھا رہے تو وہ بھی نماز ہی میں ہوتا ہے ؟ میں نے کہا : کیوں نہیں، ضرور فرمایا ہے تو انہوں نے کہا : تو یہی مراد ہے  ١ ؎۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١- اس حدیث میں ایک طویل قصہ ہے،  ٢- یہ حدیث حسن صحیح ہے،  ٣- اور آپ کے اس قول «أخبرني بها ولا تضنن بها علي» کے معنی ہیں اسے مجھے بتانے میں بخل نہ کیجئے، «ضنّ» کے معنی بخل کے ہیں اور «ظنين» کے معنی، متہم کے ہیں۔    تخریج دارالدعوہ :  سنن ابی داود/ الصلاة ٢٠٧ (١٠٤٦) ، سنن النسائی/الجمعة ٤٥ (١٤٣) ،  ( تحفة الأشراف : ١٥٠٠٠) ، موطا امام مالک/الجمعة ٧ (١٦) (صحیح) وقد رواہ بدون ذکر القصة مقتصرا علی الحدیث المرفوع کل من : صحیح البخاری/الجمعة ٣٧ (٩٣٥) ، والطلاق ٢٤ (٥٢٩٤) ، والدعوات ٦١ (٦٤٠٠) ، و صحیح مسلم/الجمعة ٤ (٨٥٢) ، و سنن النسائی/الجمعة ٤٥ (١٤٣٢، ١٤٣٣) ، و سنن ابن ماجہ/الإقامة ٩٩ (١١٣٧) ، وط/الجمعة ٧ (١٥) و مسند احمد (٢/٢٣٠، ٢٥٥، ٢٧٢، ٢٠٨، ٢٨٤، ٤٠٣، ٤٥٧، ٤٦٩، ٤٨١، ٤٨٩) ، وسنن الدارمی/الصلاة ٢٠٤ (١٦١٠)    وضاحت :  ١ ؎ : صحیح مسلم میں ابوموسیٰ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم  ﷺ  نے فرمایا :  یہ گھڑی امام کے منبر پر بیٹھنے سے لے کر خطبہ سے فراغت کے درمیان ہے  یہ دونوں حدیثیں صحیح ہیں ، اس لیے بقول امام احمد اور ابن عبدالبر دونوں وقتوں میں دعا میں کوشش کرنی چاہیئے۔    قال الشيخ الألباني :  صحيح، ابن ماجة (1139)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 491  
حدیث نمبر: 491  حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مُوسَى الْأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْهَادِ، عَنْمُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:  خَيْرُ يَوْمٍ طَلَعَتْ فِيهِ الشَّمْسُ يَوْمُ الْجُمُعَةِ، فِيهِ خُلِقَ آدَمُ، وَفِيهِ أُدْخِلَ الْجَنَّةَ، وَفِيهِ أُهْبِطَ مِنْهَا، وَفِيهِ سَاعَةٌ لَا يُوَافِقُهَا عَبْدٌ مُسْلِمٌ يُصَلِّي، فَيَسْأَلُ اللَّهَ فِيهَا شَيْئًا إِلَّا أَعْطَاهُ إِيَّاهُ  قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: فَلَقِيتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ سَلَامٍ فَذَكَرْتُ لَهُ هَذَا الْحَدِيثَ، فَقَالَ: أَنَا أَعْلَمُ بِتِلْكَ السَّاعَةِ فَقُلْتُ أَخْبِرْنِي بِهَا وَلَا تَضْنَنْ بِهَا عَلَيَّ، قَالَ: هِيَ بَعْدَ الْعَصْرِ إِلَى أَنْ تَغْرُبَ الشَّمْسُ، فَقُلْتُ كَيْفَ تَكُونُ بَعْدَ الْعَصْرِ، وَقَدْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:  لَا يُوَافِقُهَا عَبْدٌ مُسْلِمٌ وَهُوَ يُصَلِّي  وَتِلْكَ السَّاعَةُ لَا يُصَلَّى فِيهَا، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلَامٍ: أَلَيْسَ قَدْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:  مَنْ جَلَسَ مَجْلِسًا يَنْتَظِرُ الصَّلَاةَ فَهُوَ فِي صَلَاةٍ  قُلْتُ: بَلَى، قَالَ: فَهُوَ ذَاكَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْحَدِيثِ قِصَّةٌ طَوِيلَةٌ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، قَالَ: وَمَعْنَى قَوْلِهِ أَخْبِرْنِي بِهَا وَلَا تَضْنَنْ بِهَا عَلَيَّ لَا تَبْخَلْ بِهَا عَلَيَّ، وَالضَّنُّ الْبُخْلُ، وَالظَّنِينُ الْمُتَّهَمُ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৪৯২
جمعہ کا بیان
جمعہ کے دن غسل کرنا
 عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت کہ  انہوں نے نبی اکرم  ﷺ  کو فرماتے سنا :  جو جمعہ کی نماز کے لیے آئے اسے چاہیئے کہ  (پہلے)  غسل کرلے  ١ ؎۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١- ابن عمر (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے،  ٢- اس بات میں عمر، ابو سعید خدری، جابر، براء، عائشہ اور ابو الدرداء سے بھی احادیث آئی ہیں۔    تخریج دارالدعوہ :  صحیح مسلم/الجمعة (٨٤٤) ،  ( تحفة الأشراف : ٦٨٣٣) ، مسند احمد (٢/٤١، ٤٢، ٥٣، ٧٥، ١٠١، ١١٥، ١٤١، ١٤٥) (صحیح)    وضاحت :  ١ ؎ : اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے بعض علماء نے جمعہ کے دن کے غسل کو واجب قرار دیا ہے ، اور جو وجوب کے قائل نہیں ہیں وہ کہتے ہیں کہ یہاں امر تاکید کے لیے ہے اس سے مراد وجوب اختیاری  ( استحباب  )  ہے جیسے آدمی اپنے ساتھی سے کہے  تیرا حق مجھ پر واجب ہے  یعنی مؤکد ہے ، نہ کہ ایسا وجوب جس کے ترک پر سزا اور عقوبت ہو۔  ( اس تاویل کی وجہ حدیث رقم ٤٩٧ ہے  ) ۔    قال الشيخ الألباني :  صحيح، ابن ماجة (1088)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 492  
حدیث نمبر: 492  حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:  مَنْ أَتَى الْجُمُعَةَ فَلْيَغْتَسِلْ  قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عُمَرَ، وَأَبِي سَعِيدٍ، وَجَابِرٍ، وَالْبَرَاءِ، وَعَائِشَةَ وَأَبِي الدَّرْدَاءِ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ،  وَرُوِي عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَذَا الْحَدِيثُ أَيْضًا،

তাহকীক:
হাদীস নং: ৪৯৩
جمعہ کا بیان
N/A
نیز ابن شہاب زہری سے یہ حدیث بطریق: «الزهري عن عبد الله بن عبد الله بن عمر عن أبيه عن النبي صلى الله عليه وسلم» بھی مروی ہے، محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں: زہری کی حدیث جسے انہوں نے بطریق: «سالم عن أبيه عبدالله بن عمر» روایت کی ہے اور جو حدیث انہوں نے بطریق: «عبدالله بن عبدالله بن عمر عن أبيه عبدالله بن عمر» روایت کی ہے دونوں حدیثیں صحیح ہیں، اور زہری کے بعض تلامذہ نے اسے بطریق: «الزهري عن آل عبد الله بن عمر عن عبد الله بن عمر» روایت کی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: جمعہ کے دن کے غسل کے سلسلہ میں بطریق: «ابن عمر عن عمر عن النبي صلى الله عليه وسلم» مرفوعاً مروی ہے، ( جو آگے آ رہی ہے ) اور یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وروي عن الزهري عن عبد الله بن عبد الله بن عمر عن ابيه عن النبي صلى الله عليه وسلم هذا الحديث ايضا حدثنا بذلك قتيبة حدثنا الليث بن سعد عن ابن شهاب عن عبد الله بن عبد الله بن عمر عن ابيه ان النبي صلى الله عليه وسلم مثله وقال محمد: وحديث الزهري عن سالم عن ابيه وحديث عبد الله بن عبد الله عن ابيه كلا الحديثين صحيح وقال بعض اصحاب الزهري عن الزهري قال: حدثني آل عبد الله بن عمر عن عبد الله بن عمر قال ابو عيسى: وقد روي عن ابن عمر عن عمر عن النبي صلى الله عليه وسلم في الغسل يوم الجمعة ايضا وهو حديث حسن صحيح.

তাহকীক:
হাদীস নং: ৪৯৪
جمعہ کا بیان
N/A
عمر بن خطاب رضی الله عنہ جمعہ کے روز خطبہ دے رہے تھے کہ اسی دوران صحابہ میں سے ایک شخص ۱؎ ( مسجد میں ) داخل ہوئے، تو عمر رضی الله عنہ نے پوچھا: یہ کون سا وقت ( آنے کا ) ہے؟ تو انہوں نے کہا: میں نے صرف اتنی دیر کی کہ اذان سنی اور بس وضو کر کے آ گیا ہوں، اس پر عمر رضی الله عنہ نے کہا: تم نے صرف ( وضو ہی پر اکتفا کیا ) حالانکہ تمہیں معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غسل کا حکم دیا ہے؟
وَرَوَاهُ يُونُسُ، وَمَعْمَرٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، بَيْنَمَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ يَخْطُبُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، إِذْ دَخَلَ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: أَيَّةُ سَاعَةٍ هَذِهِ ؟ فَقَالَ: مَا هُوَ إِلَّا أَنْ سَمِعْتُ النِّدَاءَ وَمَا زِدْتُ عَلَى أَنْ تَوَضَّأْتُ، قَالَ: وَالْوُضُوءُ أَيْضًا، وَقَدْ عَلِمْتَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَ بِالْغُسْلِ . حَدَّثَنَا بِذَلِكَ أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ أَبَانَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ،

তাহকীক:
হাদীস নং: ৪৯৫
جمعہ کا بیان
N/A
زہری سے یہی حدیث مروی ہے۔ اور مالک نے بھی یہ حدیث بطریق: «عن الزہری عن سالم»  روایت کی ہے، وہ سالم بن عمر کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب رضی الله عنہ جمعہ کے دن خطبہ دے رہے تھے، آگے انہوں نے پوری حدیث ذکر کی۔ امام ترمذی کہتے ہیں: میں نے اس سلسلے میں محمد بن اسماعیل بخاری سے پوچھا تو انہوں نے کہا: صحیح زہری کی حدیث ہے جسے انہوں نے بطریق: «سالم عن أبیہ» روایت کی ہے۔ محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں کہ مالک سے بھی اسی حدیث کی طرح مروی ہے، انہوں نے بطریق: «الزهري عن سالم عن أبيه» بھی روایت کی ہے۔
قَالَ: وحَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَخْبَرَنَا أَبُو صَالِحٍ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ يُونُسَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ بِهَذَا الْحَدِيثِ، وَرَوَى مَالِكٌ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، قَالَ: بَيْنَمَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ يَخْطُبُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ فَذَكَرَ هَذَا الْحَدِيثَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَسَأَلْتُ مُحَمَّدًا عَنْ هَذَا، فَقَالَ: الصَّحِيحُ حَدِيثُ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَقَدْ رُوِيَ عَنْ مَالِكٍ أَيْضًا، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ نَحْوُ هَذَا الْحَدِيثِ.

তাহকীক:
হাদীস নং: ৪৯৬
جمعہ کا بیان
جمعہ کے دن غسل کرنے کی فضلیت کے بارے میں
 اوس بن اوس (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا :  جس نے جمعہ کے دن غسل کیا اور غسل کرایا، اور سویرے پہنچا، شروع سے خطبہ میں شریک رہا، امام کے قریب بیٹھا اور غور سے خطبہ سنا اور خاموش رہا تو اسے اس کے ہر قدم کے بدلے ایک سال کے روزے اور رات کے قیام کا ثواب ملے گا ۔ وکیع کہتے ہیں : اس کا معنی ہے کہ اس نے خود غسل کیا اور اپنی عورت کو بھی غسل کرایا۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١- اوس بن اوس کی حدیث حسن ہے،  ٢- عبداللہ بن مبارک نے اس حدیث کے سلسلہ میں کہا ہے کہ «من غسل واغتسل» کے معنی ہیں : جس نے اپنا سر دھویا اور غسل کیا،  ٣- اس باب میں ابوبکر، عمران بن حصین، سلمان، ابوذر، ابوسعید، ابن عمر، اور ابوایوب (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔    تخریج دارالدعوہ :  سنن ابی داود/ الطہارة ١٢٩ (٣٤٥) ، سنن النسائی/الجمعة ١٠ (١٣٨٢) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٨٠ (١٠٨٧) ،  ( تحفة الأشراف : ١٧٣٥) ، مسند احمد ٤/٨، ٩، ١٠) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٩٤ (١٥٨٨) (صحیح)    قال الشيخ الألباني :  صحيح، ابن ماجة (1087)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 496  
حدیث نمبر: 496  حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، وَأَبُو جَنَابٍ يَحْيَى بْنُ أَبِي حَيَّةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عِيسَى، عَنْ يَحْيَى بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ أَبِي الْأَشْعَثِ الصَّنْعَانِيِّ، عَنْ أَوْسِ بْنِ أَوْسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:  مَنِ اغْتَسَلَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَغَسَّلَ وَبَكَّرَ وَابْتَكَرَ وَدَنَا وَاسْتَمَعَ وَأَنْصَتَ كَانَ لَهُ بِكُلِّ خُطْوَةٍ يَخْطُوهَا أَجْرُ سَنَةٍ صِيَامُهَا وَقِيَامُهَا . قَالَ مَحْمُودٌ: قَالَ وَكِيعٌ: اغْتَسَلَ هُوَ وَغَسَّلَ امْرَأَتَهُ. قَالَ: وَيُرْوَى عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ، أَنَّهُ قَالَ فِي هَذَا الْحَدِيثِ: مَنْ غَسَّلَ وَاغْتَسَلَ، يَعْنِي غَسَلَ رَأْسَهُ وَاغْتَسَلَ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي بَكْرٍ، وَعِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، وَسَلْمَانَ، وَأَبِي ذَرٍّ، وَأَبِي سَعِيدٍ، وَابْنِ عُمَرَ، وَأَبِي أَيُّوبَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَوْسِ بْنِ أَوْسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَأَبُو الْأَشْعَثِ الصَّنْعَانِيُّ اسْمُهُ شَرَاحِيلُ بْنُ آدَةَ. وَأَبُو جَنَابٍ يَحْيَى بْنُ حَبِيبٍ الْقَصَّابُ الْكُوفِيُّ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৪৯৭
جمعہ کا بیان
جمعہ کے دن وضو کرنا
 سمرہ بن جندب (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا :  جس نے جمعہ کے دن وضو کیا تو اس نے رخصت کو اختیار کیا اور خوب ہے یہ رخصت، اور جس نے غسل کیا تو غسل افضل ہے   ١ ؎۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١- سمرہ (رض) کی حدیث حسن ہے،  ٢- قتادہ کے بعض تلامذہ نے تو یہ حدیث قتادہ سے اور قتادہ نے حسن بصری سے اور حسن بصری نے سمرہ بن جندب سے  (مرفوعاً )  روایت کی ہے۔ اور بعض نے قتادہ سے اور قتادہ نے حسن سے اور حسن نے نبی اکرم  ﷺ  سے مرسلاً روایت کی ہے،  ٣- اس باب میں ابوہریرہ، عائشہ اور انس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں،  ٤- صحابہ کرام اور ان کے بعد کے اہل علم کا عمل اسی پر ہے، انہوں نے جمعہ کے دن کے غسل کو پسند کیا ہے، ان کا خیال ہے کہ غسل کے بدلے وضو بھی کافی ہوجائے گا،  ٥- شافعی کہتے ہیں : جمعہ کے روز نبی اکرم  ﷺ  کے غسل کے حکم کے وجوبی ہونے کے بجائے اختیاری ہونے پر جو چیزیں دلالت کرتی ہیں ان میں سے عمر (رض) کی حدیث بھی ہے جس میں انہوں نے عثمان (رض) سے کہا ہے کہ تم نے صرف وضو پر اکتفا کیا ہے حالانکہ تمہیں معلوم ہے کہ رسول اللہ  ﷺ  نے جمعہ کے دن غسل کا حکم دیا ہے، اگر انہیں یہ معلوم ہوتا کہ یہ حکم واجبی ہے، اختیاری نہیں تو عمر (رض) عثمان (رض) کو لوٹائے بغیر نہ چھوڑتے اور ان سے کہتے : جاؤ غسل کرو، اور نہ ہی عثمان (رض) سے اس بات کے جاننے کے باوجود کہ نبی اکرم  ﷺ  نے جمعہ کو غسل کرنے کا حکم دیا ہے اس کے وجوب کی حقیقت مخفی رہتی، بلکہ اس حدیث میں صاف دلالت ہے کہ جمعہ کے دن غسل افضل ہے نہ کہ واجب۔    تخریج دارالدعوہ :  سنن ابی داود/ الطہارة ١٣٠ (٣٥٤) ، سنن النسائی/الجمعة ٩ (١٣٨١) ،  ( تحفة الأشراف : ٤٥٨٧) ، مسند احمد (٥/١٥، ١٦، ٢٢) (صحیح) (یہ حدیث متعدد صحابہ سے مروی ہے، اور سب کی سندیں ضعیف ہیں، یہ سند بھی ضعیف ہے کیونکہ حسن بصری کا سماع سمرہ (رض) سے حدیث عقیقہ کے سوا ثابت نہیں ہے، ہاں تمام طرق سے تقویت پا کر یہ حدیث حسن لغیرہ کے درجہ تک پہنچ جاتی ہے، متن کی تائید صحیح احادیث سے بھی ہوتی ہے)    وضاحت :  ١ ؎ : یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جمعہ کا غسل واجب نہیں کیونکہ ایک تو اس میں وضو کی رخصت دی گئی ہے بلکہ اسے اچھا قرار دیا گیا ہے اور دوسرے غسل کو افضل بتایا گیا ہے جس سے ترک غسل کی اجازت نکلتی ہے۔    قال الشيخ الألباني :  صحيح، ابن ماجة (1091)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 497  
حدیث نمبر: 497  حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَى مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ سُفْيَانَ الْجَحْدَرِيُّ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْسَمُرَةَ بْنِ جُنْدَبٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:  مَنْ تَوَضَّأَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ فَبِهَا وَنِعْمَتْ، وَمَنِ اغْتَسَلَ فَالْغُسْلُ أَفْضَلُ . قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَعَائِشَةَ، وَأَنَسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ سَمُرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ. وَقَدْ رَوَاهُ بَعْضُ أَصْحَابِ قَتَادَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدَبٍ. وَرَوَاهُ بَعْضُهُمْ عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُرْسَلٌ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَنْ بَعْدَهُمْ، اخْتَارُوا الْغُسْلَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَرَأَوْا أَنْ يُجْزِئَ الْوُضُوءُ مِنَ الْغُسْلِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ. قَالَ الشَّافِعِيُّ: وَمِمَّا يَدُلُّ عَلَى أَنَّ أَمْرَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْغُسْلِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ أَنَّهُ عَلَى الِاخْتِيَارِ لَا عَلَى الْوُجُوبِ: حَدِيثُ عُمَرَ حَيْثُ قَالَ لِعُثْمَانَ: وَالْوُضُوءُ أَيْضًا. وَقَدْ عَلِمْتَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَ بِالْغُسْلِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ فَلَوْ عَلِمَا أَنَّ أَمْرَهُ عَلَى الْوُجُوبِ لَا عَلَى الِاخْتِيَارِ لَمْ يَتْرُكْ عُمَرُ، عُثْمَانَ حَتَّى يَرُدَّهُ، وَيَقُولَ لَهُ: ارْجِعْ فَاغْتَسِلْ. وَلَمَا خَفِيَ عَلَى عُثْمَانَ ذَلِكَ مَعَ عِلْمِهِ، وَلَكِنْ دَلَّ فِي هَذَا الْحَدِيثِ أَنَّ الْغُسْلَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ فِيهِ فَضْلٌ مِنْ غَيْرِ وُجُوبٍ يَجِبُ عَلَى الْمَرْءِ فِي ذَلِكَ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৪৯৮
جمعہ کا بیان
جمعہ کے دن وضو کرنا
 ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  فرمایا :  جس نے وضو کیا اور اچھی طرح کیا  ١ ؎ پھر جمعہ کے لیے آیا  ٢ ؎، امام کے قریب بیٹھا، غور سے خطبہ سنا اور خاموش رہا تو اس کے اس جمعہ سے لے کر دوسرے جمعہ تک کے اور مزید تین دن کے  ٣ ؎ کے گناہ  ٤ ؎ بخش دیئے جائیں گے۔ اور جس نے کنکریاں ہٹائیں تو اس نے لغو کیا ۔    امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔    تخریج دارالدعوہ :  صحیح مسلم/الجمعة ٨ (٨٥٧) ، سنن ابی داود/ الصلاة ٢٠٩ (١٠٥٠) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٦٢ (١٠٢٥) ، و ٨١ (١٠٩٠) ،  ( تحفة الأشراف : ١٢٤٠٥) ، مسند احمد (٢/٤٢٤) (صحیح)    وضاحت :  ١ ؎ : اچھی طرح وضو کیا کا مطلب ہے سنت کے مطابق وضو کیا۔  ٢ ؎ : اس سے معلوم ہوا کہ گھر سے وضو کر کے مسجد میں آنا زیادہ فضیلت کا باعث ہے۔  ٣ ؎: یعنی دس دن کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں کیونکہ ایک نیکی کا اجر کم سے کم دس گنا ہے۔  ٤ ؎ : اس سے صغیرہ گناہ مراد ہیں کیونکہ کبیرہ گناہ بغیر توبہ کے معاف نہیں ہوتے۔    قال الشيخ الألباني :  صحيح، ابن ماجة (1090)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 498  
حدیث نمبر: 498  حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:  مَنْ تَوَضَّأَ فَأَحْسَنَ الْوُضُوءَ ثُمَّ أَتَى الْجُمُعَةَ فَدَنَا وَاسْتَمَعَ وَأَنْصَتَ غُفِرَ لَهُ مَا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجُمُعَةِ وَزِيَادَةُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ، وَمَنْ مَسَّ الْحَصَى فَقَدْ لَغَا . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৪৯৯
جمعہ کا بیان
جمعہ کی نماز کے لئے جلدی جانا
 ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا :  جس نے جمعہ کے روز جنابت کے غسل کی طرح  (یعنی خوب اہتمام سے)  غسل کیا پھر نماز جمعہ کے لیے  (پہلی گھڑی میں  )  گیا تو گویا اس نے ایک اونٹ اللہ کی راہ میں قربان کیا، اور جو اس کے بعد والی گھڑی میں گیا تو گویا اس نے ایک گائے قربان کی، اور جو تیسری گھڑی میں گیا تو گویا اس نے ایک سینگوں والا مینڈھا قربان کیا اور جو چوتھی گھڑی میں گیا تو گویا اس نے ایک مرغی کا صدقہ کر کے اللہ کا تقرب حاصل کیا، اور جو پانچویں گھڑی میں گیا تو گویا اس نے ایک انڈا اللہ کی راہ میں صدقہ کیا، پھر جب امام خطبہ کے لیے گھر سے نکل آیا تو فرشتے ذکر سننے کے لیے حاضر ہوجاتے ہیں  ١ ؎۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١- ابوہریرہ کی حدیث حسن صحیح ہے،  ٢- اس باب میں عبداللہ بن عمرو اور سمرہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔    تخریج دارالدعوہ :  صحیح البخاری/الجمعة ٤ (٨٨١) ، و ٣١ (٩٢٩) ، وبدء الخلق ٦ (٣٢١١) ، صحیح مسلم/الجمعة ٧ (٨٥٠) ، سنن ابی داود/ الطہارة ١٢٩ (٣٥١) ، سنن النسائی/الإمامة ٥٩ (٨٦٥) ، والجمعة ١٣ (١٣٨٦) ، و ١٤ (١٣٨٩) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٨٢ (١٠٩٢) ،  ( تحفة الأشراف : ١٢٥٦٩) ، موطا امام مالک/الجمعة ١ (١) ، مسند احمد (٢/٢٣٩، ٢٥٩، ٢٨٠، ٥٠٥، ٥١٢) سنن الدارمی/الصلاة ١٩٣ (١٥٨٥) (صحیح)    وضاحت :  ١ ؎ : یعنی نام درج کرنے والا رجسٹر بند کر کے خطبہ سننے لگتے ہیں۔    قال الشيخ الألباني :  صحيح، ابن ماجة (1092)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 499  
حدیث نمبر: 499  حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مُوسَى الْأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ سُمَيٍّ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:  مَنِ اغْتَسَلَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ غُسْلَ الْجَنَابَةِ ثُمَّ رَاحَ فَكَأَنَّمَا قَرَّبَ بَدَنَةً، وَمَنْ رَاحَ فِي السَّاعَةِ الثَّانِيَةِ فَكَأَنَّمَا قَرَّبَ بَقَرَةً، وَمَنْ رَاحَ فِي السَّاعَةِ الثَّالِثَةِ فَكَأَنَّمَا قَرَّبَ كَبْشًا أَقْرَنَ، وَمَنْ رَاحَ فِي السَّاعَةِ الرَّابِعَةِ فَكَأَنَّمَا قَرَّبَ دَجَاجَةً، وَمَنْ رَاحَ فِي السَّاعَةِ الْخَامِسَةِ فَكَأَنَّمَا قَرَّبَ بَيْضَةً، فَإِذَا خَرَجَ الْإِمَامُ حَضَرَتِ الْمَلَائِكَةُ يَسْتَمِعُونَ الذِّكْرَ . قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، وَسَمُرَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৫০০
جمعہ کا بیان
بغیر عذر جمعہ ترک کرنا
 ابوالجعد ضمری (رض) سے روایت ہے کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا :  جو جمعہ تین بار سستی  ١ ؎ سے حقیر جان کر چھوڑ دے گا تو اللہ اس کے دل پر مہر لگا دے گا ۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١- ابوالجعد کی حدیث حسن ہے،  ٢- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے ابوالجعد ضمری کا نام پوچھا تو وہ نہیں جان سکے،  ٣- اس حدیث کے علاوہ میں ان کی کوئی اور حدیث نہیں جانتا جسے انہوں نے نبی اکرم  ﷺ  سے روایت کی ہو،  ٤- ہم اس حدیث کو صرف محمد بن عمرو کی روایت سے جانتے ہیں۔    تخریج دارالدعوہ :  سنن ابی داود/ الصلاة ٢١٠ (١٠٥٢) ، سنن النسائی/الجمعة ١ (١٣٦٩) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٩٣ (١١٢٥) ،  ( تحفة الأشراف : ١١٨٨٣) ، مسند احمد (٣/٤٢٤) ، سنن الدارمی/الصلاة ٢٠٥ (١٦١٢) (حسن صحیح)    وضاحت :  ١ ؎ : اس سے معلوم ہوا کہ مسلسل جمعہ چھوڑنا ایک خطرناک کام ہے ، اس سے دل پر مہر لگ سکتی ہے جس کے بعد اخروی کامیابی کی امید ختم ہوجاتی ہے۔    قال الشيخ الألباني :  حسن صحيح، ابن ماجة (1125)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 500  
حدیث نمبر: 500  حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ، أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ عَبِيدَةَ بْنِ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِي الْجَعْدِ يَعْنِي الضَّمْرِيَّ، وَكَانَتْ لَهُ صُحْبَةٌ فِيمَا زَعَمَ مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:  مَنْ تَرَكَ الْجُمُعَةَ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ تَهَاوُنًا بِهَا طَبَعَ اللَّهُ عَلَى قَلْبِهِ . قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَسَمُرَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي الْجَعْدِ حَدِيثٌ حَسَنٌ. قَالَ: وَسَأَلْتُ مُحَمَّدًا عَنِ اسْمِ أَبِي الْجَعْدِ الضَّمْرِيِّ، فَلَمْ يَعْرِفْ اسْمَهُ، وَقَالَ: لَا أَعْرِفُ لَهُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا هَذَا الْحَدِيثَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَلَا نَعْرِفُ هَذَا الْحَدِيثَ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৫০১
جمعہ کا بیان
کتنی دور سے جمعہ میں حاضر ہو
 اہل قباء میں سے ایک شخص اپنے والد سے روایت کرتا ہے - اس کے والد صحابہ میں سے ہیں - وہ کہتے ہیں کہ  نبی اکرم  ﷺ  نے ہمیں حکم دیا کہ ہم قباء سے آ کر جمعہ میں شریک ہوں۔ اس سلسلے میں ابوہریرہ (رض) سے بھی روایت کی گئی ہے، وہ نبی اکرم  ﷺ  سے روایت کرتے ہیں، لیکن یہ صحیح نہیں ہے۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١- اس حدیث کو ہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں، اور اس باب میں نبی اکرم  ﷺ  سے مروی کوئی چیز صحیح نہیں ہے،  ٢- ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم  ﷺ  نے فرمایا :  جمعہ اس پر فرض ہے جو رات کو اپنے گھر والوں تک پہنچ سکے ، اس حدیث کی سند ضعیف ہے، یہ حدیث معارک بن عباد سے روایت کی جاتی ہے اور معارک عبداللہ بن سعید مقبری سے روایت کرتے ہیں، یحییٰ بن سعید قطان نے عبداللہ بن سعید مقبری کی حدیث کی تضعیف کی ہے،  ٣- اہل علم کا اس میں اختلاف ہے کہ جمعہ کس پر واجب ہے، بعض کہتے ہیں : جمعہ اس شخص پر واجب ہے جو رات کو اپنے گھر پہنچ سکے اور بعض کہتے ہیں : جمعہ صرف اسی پر واجب جس نے اذان سنی ہو، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے۔    تخریج دارالدعوہ :  تفرد بہ المؤلف  ( تحفة الأشراف : ١٥٦٩) (ضعیف) (اس کی سند میں ایک راوی ” رجل من اھل قباء “ مبہم ہے)    قال الشيخ الألباني :  ضعيف الإسناد    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 501   میں نے احمد بن حسن کو کہتے سنا کہ  ہم لوگ احمد بن حنبل کے پاس تھے تو لوگوں نے ذکر کیا کہ جمعہ کس پر واجب ہے ؟ تو امام احمد نے اس سلسلے میں نبی اکرم  ﷺ  سے کوئی چیز ذکر نہیں کی، احمد بن حسن کہتے ہیں : تو میں نے احمد بن حنبل سے کہا : اس سلسلہ میں ابوہریرہ (رض) کی روایت ہے جسے انہوں نے نبی اکرم  ﷺ  سے روایت کی ہے، تو امام احمد نے پوچھا کیا نبی اکرم  ﷺ  سے روایت کی ہے ؟ میں نے کہا : ہاں  (نبی اکرم  ﷺ  سے روایت کی ہے) ، پھر احمد بن حسن نے «حجاج بن نصير حدثنا معارک بن عباد عن عبد اللہ بن سعيد المقبري عن أبيه عن أبي هريرة عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا :  جمعہ اس پر واجب ہے جو رات کو اپنے گھر والوں کے پاس لوٹ کر آسکے ، احمد بن حسن کہتے ہیں کہ احمد بن حنبل مجھ پر غصہ ہوئے اور مجھ سے کہا : اپنے رب سے استغفار کرو، اپنے رب سے استغفار کرو۔    امام ترمذی کہتے ہیں : احمد بن حنبل نے ایسا اس لیے کیا کہ انہوں نے اس حدیث کو کوئی حیثیت نہیں دی اور اسے کسی شمار میں نہیں رکھا، سند کی وجہ سے اسے ضعیف قرار دیا۔    تخریج دارالدعوہ :  تفرد بہ المؤلف  ( تحفة الأشراف :  ١٢٩٦٥) (ضعیف جداً ) (اس کے تین راوی ضعیف ہیں : عبداللہ بن سعید متروک، اور حجاج بن نصیر اور معارک دونوں ضعیف ہیں)    قال الشيخ الألباني :  ضعيف جدا، المشکاة (1386) // ضعيف الجامع الصغير (2661) //   صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 502  
حدیث نمبر: 501  حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ مَدُّوَيْهِ، قَالَا: حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُكَيْنٍ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ ثُوَيْرٍ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ قُبَاءَ، عَنْ أَبِيهِ، وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:  أَمَرَنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ نَشْهَدَ الْجُمُعَةَ مِنْ قُبَاءَ . وَقَدْ رُوِيَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي هَذَا وَلَا يَصِحُّ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَلَا يَصِحُّ فِي هَذَا الْبَابِ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْءٌ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ:  الْجُمُعَةُ عَلَى مَنْ آوَاهُ اللَّيْلُ إِلَى أَهْلِهِ . وَهَذَا حَدِيثٌ إِسْنَادُهُ ضَعِيفٌ، إِنَّمَا يُرْوَى مِنْ حَدِيثِ مُعَارِكِ بْنِ عَبَّادٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، وَضَعَّفَ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيَّ فِي الْحَدِيثِ. فَقَالَ: وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ عَلَى مَنْ تَجِبُ الْجُمُعَةُ، قَالَ بَعْضُهُمْ: تَجِبُ الْجُمُعَةُ عَلَى مَنْ آوَاهُ اللَّيْلُ إِلَى مَنْزِلِهِ، وقَالَ بَعْضُهُمْ: لَا تَجِبُ الْجُمُعَةُ إِلَّا عَلَى مَنْ سَمِعَ النِّدَاءَ، وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاق.سَمِعْت أَحْمَدَ بْنَ الْحَسَنِ، يَقُولُ: كُنَّا عِنْدَ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ فَذَكَرُوا عَلَى مَنْ تَجِبُ الْجُمُعَةُ، فَلَمْ يَذْكُرْ أَحْمَدُ فِيهِ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا. قَالَ أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ: فَقُلْتُ لِأَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ فِيهِ: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ أَحْمَدُ: عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؟ قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ: حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ نُصَيْرٍ، حَدَّثَنَا مُعَارِكُ بْنُ عَبَّادٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:  الْجُمُعَةُ عَلَى مَنْ آوَاهُ اللَّيْلُ إِلَى أَهْلِهِ . قَالَ: فَغَضِبَ عَلَيَّ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، وَقَالَ لِي: اسْتَغْفِرْ، رَبَّكَ اسْتَغْفِرْ رَبَّكَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: إِنَّمَا فَعَلَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ هَذَا لِأَنَّهُ لَمْ يَعُدَّ هَذَا الْحَدِيثَ شَيْئًا، وَضَعَّفَهُ لِحَالِ إِسْنَادِهِ.    

তাহকীক:
হাদীস নং: ৫০২
جمعہ کا بیان
وقت جمعہ کے بارے میں
 انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ  نبی اکرم  ﷺ  جمعہ کی نماز اس وقت پڑھتے جب سورج ڈھل جاتا۔    تخریج دارالدعوہ :  صحیح البخاری/الجمعة ١٦ (٩٠٤) ، سنن ابی داود/ الصلاة ٢٢٤ (١٠٨٤) ،  ( تحفة الأشراف : ١٠٨٩) ، مسند احمد (٣/١٢٨، ٢٢٨) (صحیح)    قال الشيخ الألباني :  صحيح الأجوبة النافعة، صحيح أبي داود (995)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 503  
حدیث نمبر: 503  حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا سُرَيْجُ بْنُ النُّعْمَانِ، حَدَّثَنَا فُلَيْحُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ التَّيْمِيِّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ   يُصَلِّي الْجُمُعَةَ حِينَ تَمِيلُ الشَّمْسُ  .  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৫০৩
جمعہ کا بیان
N/A
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کی نماز اس وقت پڑھتے جب سورج ڈھل جاتا۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا سُرَيْجُ بْنُ النُّعْمَانِ، حَدَّثَنَا فُلَيْحُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ التَّيْمِيِّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُصَلِّي الْجُمُعَةَ حِينَ تَمِيلُ الشَّمْسُ .

তাহকীক:
হাদীস নং: ৫০৪
جمعہ کا بیان
N/A
انس رضی الله عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح روایت کرتے ہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- انس رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں سلمہ بن الاکوع، جابر اور زبیر بن عوام رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- اور اسی پر اکثر اہل علم کا اجماع ہے کہ جمعہ کا وقت ظہر کے وقت کی طرح اس وقت شروع ہوتا ہے جب سورج ڈھل جائے، یہی شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے، ۴- اور بعض کی رائے ہے کہ جمعہ کی نماز جب زوال سے پہلے پڑھ لی جائے تو جائز ہے۔ احمد کہتے ہیں: جس نے جمعہ کی نماز زوال سے پہلے پڑھ لی تو اس پر دہرانا ضروری نہیں۔
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ، حَدَّثَنَا فُلَيْحُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ التَّيْمِيِّ، عَنْ أَنَسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ سَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ، وَجَابِرٍ، وَالزُّبَيْرِ بْنِ الْعَوَّامِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَنَسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَهُوَ الَّذِي أَجْمَعَ عَلَيْهِ أَكْثَرُ أَهْلِ الْعِلْمِ: أَنَّ وَقْتَ الْجُمُعَةِ إِذَا زَالَتِ الشَّمْسُ كَوَقْتِ الظُّهْرِ، وَهُوَ قَوْلُ: الشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاق. وَرَأَى بَعْضُهُمْ أَنَّ صَلَاةَ الْجُمُعَةِ إِذَا صُلِّيَتْ قَبْلَ الزَّوَالِ أَنَّهَا تَجُوزُ أَيْضًا، وقَالَ أَحْمَدُ: وَمَنْ صَلَّاهَا قَبْلَ الزَّوَالِ فَإِنَّهُ لَمْ يَرَ عَلَيْهِ إِعَادَةً.

তাহকীক:
হাদীস নং: ৫০৫
جمعہ کا بیان
منبر پر خطبہ پڑھنا
 عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ  نبی اکرم  ﷺ  کھجور کے ایک تنے پر  (کھڑے ہو کر)  خطبہ دیتے تھے، جب آپ  ﷺ  نے منبر بنا لیا تو وہ تنا رو پڑا یہاں تک کہ آپ اس کے پاس آئے اور اسے چمٹا لیا تو وہ چپ ہوگیا۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١- ابن عمر (رض) کی حدیث حسن غریب صحیح ہے،  ٢- اس باب میں انس، جابر، سہل بن سعد، ابی بن کعب، ابن عباس اور ام سلمہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔    تخریج دارالدعوہ :  صحیح البخاری/المناقب ٢٥ (٣٥٨٣) ،  ( تحفة الأشراف : ٨٤٤٩) (صحیح)    قال الشيخ الألباني :  صحيح، الصحيحة (2174)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 505  
حدیث نمبر: 505  حَدَّثَنَا أَبُو حَفْصٍ عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ الْفَلَّاسُ الصَّيْرَفِيُّ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ، وَيَحْيَى بْنُ كَثِيرٍ أَبُو غسان العنبري، قَالَا: حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ الْعَلَاءِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ  يَخْطُبُ إِلَى جِذْعٍ فَلَمَّا اتَّخَذَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمِنْبَرَ حَنَّ الْجِذْعُ حَتَّى أَتَاهُ فَالْتَزَمَهُ فَسَكَنَ . قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسٍ، وَجَابِرٍ، وَسَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، وَأُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَأُمِّ سَلَمَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ، وَمُعَاذُ بْنُ الْعَلَاءِ هُوَ بَصْرِيٌّ، وَهُوَ أَخُو أَبِي عَمْرِو بْنِ الْعَلَاءِ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৫০৬
جمعہ کا بیان
منبر پر خطبہ پڑھنا
 عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ  نبی اکرم  ﷺ  جمعہ کے دن خطبہ دیتے پھر  (بیچ میں)  بیٹھتے، پھر کھڑے ہوتے اور خطبہ دیتے، راوی کہتے ہیں : جیسے آج کل تم لوگ کرتے ہو۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١- ابن عمر (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے،  ٢- اس باب میں ابن عباس، جابر بن عبداللہ اور جابر بن سمرہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں،  ٣- یہی اہل علم کی رائے ہے کہ دونوں خطبوں کے درمیان بیٹھ کر فصل کرے۔    تخریج دارالدعوہ :  صحیح البخاری/الجمعة ٢٧ (٩٢٠) ، و ٣٠ (٩٢٨) ، صحیح مسلم/الجمعة ١٠ (٨٦١) ،  ( تحفة الأشراف : ٧٨٧٩) (صحیح)    قال الشيخ الألباني :  صحيح، صحيح أبي داود (1002) ، الإرواء (604)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 506  
حدیث نمبر: 506  حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ  يَخْطُبُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ ثُمَّ يَجْلِسُ ثُمَّ يَقُومُ فَيَخْطُبُ . قَالَ: مِثْلَ مَا تَفْعَلُونَ الْيَوْمَ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَجَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، وَجَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَهُوَ الَّذِي رَآهُ أَهْلُ الْعِلْمِ أَنْ يَفْصِلَ بَيْنَ الْخُطْبَتَيْنِ بِجُلُوسٍ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৫০৭
جمعہ کا بیان
خطبہ مختصر پڑھنا
 جابر بن سمرہ (رض) کہتے ہیں کہ  میں نبی اکرم  ﷺ  کے ساتھ نماز پڑھتا تھا تو آپ کی نماز بھی درمیانی ہوتی تھی اور خطبہ بھی درمیانا ہوتا تھا۔  (یعنی زیادہ لمبا نہیں ہوتا تھا)    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١- جابر بن سمرہ (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے،  ٢- اس باب میں عمار بن یاسر اور ابن ابی اوفی (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔    تخریج دارالدعوہ :  صحیح مسلم/الجمعة ١٣ (٨٦٦) ، سنن ابی داود/ الصلاة ٢٢٩ (١١٠١) ، سنن النسائی/العیدین ٢٦ (١٥٨٥) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٨٥ (١١٠٦) ،  ( تحفة الأشراف : ٢١٦٧) ، مسند احمد (٥/٩١، ٩٣-٩٥، ٩٨، ١٠٠، ١٠٢) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٩٩ (١٥٩٨) (صحیح)    قال الشيخ الألباني :  صحيح، ابن ماجة (1106)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 507  
حدیث نمبر: 507  حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، وَهَنَّادٌ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ، قَالَ:  كُنْتُ أُصَلِّي مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكَانَتْ صَلَاتُهُ قَصْدًا وَخُطْبَتُهُ قَصْدًا . قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ، وَابْنِ أَبِي أَوْفَى. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.  

তাহকীক: