আল জামিউল কাবীর- ইমাম তিরমিযী রহঃ (উর্দু)

الجامع الكبير للترمذي

سفرکا بیان - এর পরিচ্ছেদসমূহ

মোট হাদীস ২০ টি

হাদীস নং: ৫৪৪
سفرکا بیان
سفر میں قصر نماز پڑھنا
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ ، ابوبکر، عمر اور عثمان (رض) کے ساتھ سفر کیا، یہ لوگ ظہر اور عصر دو دو رکعت پڑھتے تھے۔ نہ اس سے پہلے کوئی نماز پڑھتے اور نہ اس کے بعد۔ عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں : اگر میں اس سے پہلے یا اس کے بعد (سنت) نماز پڑھتا تو میں انہی (فرائض) کو پوری پڑھتا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابن عمر (رض) کی حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے اس طرح یحییٰ بن سلیم ہی کی روایت سے جانتے ہیں، ٢- محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں : یہ حدیث بطریق : «عن عبيد اللہ بن عمر عن رجل من آل سراقة عن عبد اللہ بن عمر» بھی مروی ہے، ٣- اور عطیہ عوفی ابن عمر سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ سفر میں نماز سے پہلے اور اس کے بعد نفل پڑھتے تھے ١ ؎، ٤- اس باب میں عمر، علی، ابن عباس، انس، عمران بن حصین اور عائشہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٥- نبی اکرم ﷺ سے یہ بھی ثابت ہے کہ آپ اور ابوبکر و عمر (رض) سفر میں قصر کرتے تھے اور عثمان (رض) بھی اپنی خلافت کے شروع میں قصر کرتے تھے، ٦- صحابہ کرام وغیرہم میں سے اکثر اہل علم کا عمل اسی پر ہے، ٧- اور عائشہ سے مروی ہے کہ وہ سفر میں نماز پوری پڑھتی تھیں ٢ ؎، ٨- اور عمل اسی پر ہے جو نبی اکرم ﷺ اور صحابہ کرام سے مروی ہے، یہی شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے، البتہ شافعی کہتے ہیں کہ سفر میں قصر کرنا رخصت ہے، اگر کوئی پوری نماز پڑھ لے تو جائز ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٨٢٢٣) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یہ حدیث ٥٥١ پر مولف کے یہاں آرہی ہے ، اور ضعیف و منکر ہے۔ ٢ ؎ : یہ صحیح بخاری کی روایت ہے ، اور بیہقی کی روایت ہے کہ انہوں نے سبب یہ بیان کیا کہ پوری پڑھنی میرے لیے شاق نہیں ہے ، گویا سفر میں قصر رخصت ہے اور اتمام جائز ہے ، اور یہی راجح قول ہے۔ رخصت کے اختیار میں سنت پر عمل اور اللہ کی رضا حاصل ہوتے ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1071) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 544
حدیث نمبر: 544 حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ عَبْدِ الْحَكَمِ الْوَرَّاقُ الْبَغْدَادِيُّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سُلَيْمٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ:‏‏‏‏ سَافَرْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبِي بَكْرٍ، ‏‏‏‏‏‏وَعُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏وَعُثْمَانَ فَكَانُوا يُصَلُّونَ الظُّهْرَ وَالْعَصْرَ رَكْعَتَيْنِ رَكْعَتَيْنِ لَا يُصَلُّونَ قَبْلَهَا وَلَا بَعْدَهَا . وقَالَ عَبْدُ اللَّهِ:‏‏‏‏ لَوْ كُنْتُ مُصَلِّيًا قَبْلَهَا أَوْ بَعْدَهَا لَأَتْمَمْتُهَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب عَنْ عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏وَعَلِيٍّ، ‏‏‏‏‏‏وَابْنِ عَبَّاسٍ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنَسٍ، ‏‏‏‏‏‏وَعِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، ‏‏‏‏‏‏وَعَائِشَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ. لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ يَحْيَى بْنِ سُلَيْمٍ مِثْلَ هَذَا. قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل:‏‏‏‏ وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ رَجُلٍ مِنْ آلِ سُرَاقَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ عَطِيَّةَ الْعَوْفِيِّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَتَطَوَّعُ فِي السَّفَرِ قَبْلَ الصَّلَاةِ وَبَعْدَهَا وَقَدْ صَحَّ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ كَانَ يَقْصُرُ فِي السَّفَرِ وَأَبُو بَكْرٍ، ‏‏‏‏‏‏وَعُمَرُ، ‏‏‏‏‏‏وَعُثْمَانُ صَدْرًا مِنْ خِلَافَتِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ رُوِيَ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّهَا كَانَتْ تُتِمُّ الصَّلَاةَ فِي السَّفَرِ وَالْعَمَلُ عَلَى مَا رُوِيَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابِهِ. وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ، ‏‏‏‏‏‏وَأَحْمَدَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِسْحَاق. إِلَّا أَنَّ الشَّافِعِيَّ يَقُولُ:‏‏‏‏ التَّقْصِيرُ رُخْصَةٌ لَهُ فِي السَّفَرِ فَإِنْ أَتَمَّ الصَّلَاةَ أَجْزَأَ عَنْهُ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৫৪৫
سفرکا بیان
سفر میں قصر نماز پڑھنا
ابونضرہ سے روایت ہے کہ عمران بن حصین (رض) سے مسافر کی نماز کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حج کیا تو آپ نے دو ہی رکعتیں پڑھیں، اور میں نے ابوبکر (رض) کے ساتھ حج کیا تو انہوں نے بھی دو ہی رکعتیں پڑھیں، اور عمر (رض) کے ساتھ کیا تو انہوں نے بھی دو ہی رکعتیں پڑھیں، اور عثمان (رض) کے ساتھ ان کی خلافت کے ابتدائی چھ یا آٹھ سالوں میں کیا تو انہوں نے بھی دو ہی رکعتیں پڑھیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف بہذا السیاق، وأخرج أبوداود (الصلاة ٢٧٩/رقم ١٢٢٩) بہذا السند أیضا لکنہ بسیاق آخر ( تحفة الأشراف : ١٠٨٦٢) (صحیح) (سند میں علی بن زید بن جدعان ضعیف راوی ہیں، لیکن سابقہ حدیث سے تقویت پا کر یہ حدیث صحیح ہے) قال الشيخ الألباني : صحيح بما قبله صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 545
حدیث نمبر: 545 حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ زَيْدِ بْنِ جُدْعَانَ الْقُرَشِيُّ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، قَالَ:‏‏‏‏ سُئِلَ عِمْرَانُ بْنُ حُصَيْنٍ عَنْ صَلَاةِ الْمُسَافِرِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ حَجَجْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏وَحَجَجْتُ مَعَ أَبِي بَكْرٍ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏وَمَعَ عُمَرَ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏وَمَعَ عُثْمَانَ سِتَّ سِنِينَ مِنْ خِلَافَتِهِ أَوْ ثَمَانِيَ ثَمَانِي فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ . قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৫৪৬
سفرکا بیان
سفر میں قصر نماز پڑھنا
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ ہم نے نبی اکرم ﷺ کے ساتھ مدینہ میں چار رکعتیں پڑھیں ١ ؎ اور ذی الحلیفہ ٢ ؎ میں دو رکعتیں پڑھیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/تقصیر الصلاة ٥ (١٠٨٩) ، والحج ٢٤ (١٥٥٦) ، و ٢٥ (١٥٤٨) ، و ١١٩ (١٧١٤) ، والجہاد ١٠٤ (٢٩٥١) ، صحیح مسلم/المسافرین ١ (٦٩٠) ، سنن ابی داود/ الصلاة ٢٧١ (١٢٠٢) ، والحج ٢١ (١٧٧٣) ، سنن النسائی/الصلاة ١١ (٤٧٠) ، و ١٧ (٤٧٨) ، ( تحفة الأشراف : ١٥٧٣١٦٦) ، مسند احمد (٣/١١٠، ١١١، ١٧٧، ١٨٦، ٢٣٧، ٢٦٨، ٣٧٨) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٧٩ (١٥٤٨) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : جب حج کے لیے مدینہ سے نکلے تو مسجد نبوی میں چار پڑھی ، جب مدینہ سے نکل کر ذوالحلیفہ میقات پر پہنچے تو وہاں دو قصر کر کے پڑھی۔ ٢ ؎ : ذوالحلیفہ : مدینہ سے جنوب میں مکہ کے راستہ میں لگ بھگ دس کیلو میٹر پر واقع ہے ، یہ اہل مدینہ کی میقات ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (1085) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 546
حدیث نمبر: 546 حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، وَإِبْرَاهِيمَ بْنِ مَيْسَرَةَ، سمعا أنس بن مالك، قَالَ:‏‏‏‏ صَلَّيْنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الظُّهْرَ بِالْمَدِينَةِ أَرْبَعًا وَبِذِي الْحُلَيْفَةِ الْعَصْرَ رَكْعَتَيْنِ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৫৪৭
سفرکا بیان
سفر میں قصر نماز پڑھنا
عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ مدینہ سے مکہ کے لیے نکلے، آپ کو سوائے اللہ رب العالمین کے کسی کا خوف نہ تھا۔ (اس کے باوجود) آپ نے دو ہی رکعتیں پڑھیں ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/تقصیر الصلاة ١ (١٤٣٦) ، ( تحفة الأشراف : ٦٤٣٦) ، مسند احمد (١/٢١٥، ٢٣٦، ٢٤٥، ٢٦٢) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : عبداللہ بن عباس (رض) اس سے یہ بتانا چاہتے ہیں کہ سفر میں قصر خوف کی وجہ سے نہیں ہے ، جیسا کہ بعض لوگ سمجھتے ہیں ، سفر خواہ کیسا بھی پرامن ہو اس میں قصر رخصت ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الإرواء (3 / 6) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 547
حدیث نمبر: 547 حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، عَنْ مَنْصُورِ بْنِ زَاذَانَ، عَنْ ابْنِ سِيرِينَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ مِنْ الْمَدِينَةِ إِلَى مَكَّةَ لَا يَخَافُ إِلَّا اللَّهَ رَبَّ الْعَالَمِينَ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ . قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৫৪৮
سفرکا بیان
کہ کتنی مدت تک نماز میں قصر کی جائے
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ ہم نبی اکرم ﷺ کے ساتھ مدینہ سے مکہ کے لیے نکلے۔ آپ نے دو رکعتیں پڑھیں، یحییٰ بن ابی اسحاق کہتے ہیں کہ میں نے انس (رض) سے پوچھا : رسول اللہ ﷺ مکہ میں کتنے دن رہے، انہوں نے کہا دس دن ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- انس (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں ابن عباس اور جابر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- اور ابن عباس (رض) نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے کہ آپ اپنے سفر میں انیس دن ٹھہرے اور دو رکعتیں ادا کرتے رہے۔ ابن عباس کہتے ہیں، چناچہ جب ہم انیس دن یا اس سے کم ٹھہرتے تو دو رکعتیں پڑھتے۔ اور اگر اس سے زیادہ ٹھہرتے تو پوری پڑھتے، ٤- علی (رض) سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا : جو دس دن ٹھہرے وہ پوری نماز پڑھے، ٥- ابن عمر (رض) سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا : جو پندرہ دن قیام کرے وہ پوری نماز پڑھے۔ اور ان سے بارہ دن کا قول بھی مروی ہے، ٦- سعید بن مسیب سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا : جب چار دن قیام کرے تو چار رکعت پڑھے۔ ان سے اسے قتادہ اور عطا خراسانی نے روایت کیا ہے، اور داود بن ابی ہند نے ان سے اس کے خلاف روایت کیا ہے، ٧- اس کے بعد اس مسئلہ میں اہل علم میں اختلاف ہوگیا۔ سفیان ثوری اور اہل کوفہ پندرہ دن کی تحدید کی طرف گئے اور ان لوگوں نے کہا کہ جب وہ پندرہ دن ٹھہرنے کی نیت کرلے تو پوری نماز پڑھے، ٨- اوزاعی کہتے ہیں : جب وہ بارہ دن ٹھہرنے کی نیت کرے تو نماز پوری پڑھے، ٩- مالک بن انس، شافعی، اور احمد کہتے ہیں : جب چار دن ٹھہرنے کی نیت کرے تو نماز پوری پڑھے، ١٠- اور اسحاق بن راہویہ کی رائے ہے کہ سب سے قوی مذہب ابن عباس کی حدیث ہے، اس لیے کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے، پھر یہ کہ نبی اکرم ﷺ کے بعد وہ اس پر عمل پیرا رہے جب وہ انیس دن ٹھہرتے تو نماز پوری پڑھتے۔ پھر اہل علم کا اجماع اس بات پر ہوگیا کہ مسافر جب تک قیام کی نیت نہ کرے وہ قصر کرتا رہے، اگرچہ اس پر کئی سال گزر جائیں ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/تقصیر الصلاة ١ (١٠٨١) ، والمغازي ٥٢ (٤٢٩٩) ، صحیح مسلم/المسافرین ١ (٦٩٣) ، سنن ابی داود/ الصلاة ٢٧٩ (١٢٣٣) ، سنن النسائی/تقصیر الصلاة ١ (١٤٣٩) ، و ٤ (١٤٥٣) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٧٦ (١٠٧٧) ، ( تحفة الأشراف : ١٦٥٢) ، مسند احمد (٣/١٨١، ١٩٠) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٨٠، ١٥٥٠) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یہ حجۃ الوداع کے موقع کی بات ہے ، آپ اس موقع سے ٤ ذی الحجہ کی صبح مکہ میں داخل ہوئے ، ٨ کو منی کو نکل گئے ، پھر ١٤ کو طواف وداع کے بعد مدینہ روانہ ہوئے یہ کل دس دن ہوئے ، مگر ان دس دنوں میں مستقل طور پر آپ صرف ٤ دن مکہ میں رہے ، باقی دنوں میں ادھر ادھر منتقل ہی ہوتے رہے ، اس لیے امام شافعی وغیرہ نے یہ استدلال کیا ہے جب ٤ دنوں کی اقامت کی نیت کرلے تب پوری نماز پڑھے۔ ٢ ؎ : حجۃ الوداع ، فتح مکہ ، یا جنگ پر موک میں یہی ہوا تھا ، اس لیے آپ نے ١٧ ، ١٨ دنوں یا دس دنوں تک قصر کیا ، اس لیے امام شافعی وغیرہ کا خیال ہی راجح ہے کہ ٤ دنوں سے زیادہ اقامت کی اگر نیت بن جائے تو قصر نہ کرے ، مہاجرین کو عمرہ میں تین دنوں سے زیادہ نہ ٹھہرنے کے حکم میں بھی یہی حکمت پوشیدہ تھی کہ وہ چوتھے دن مقیم ہوجاتے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1077) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 548
حدیث نمبر: 548 حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي إِسْحَاق الْحَضْرَمِيُّ، حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ، قَالَ:‏‏‏‏ خَرَجْنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ الْمَدِينَةِ إِلَى مَكَّةَ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ. قَالَ:‏‏‏‏ قُلْتُ لِأَنَسٍ:‏‏‏‏ كَمْ أَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَكَّةَ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ عَشْرًا. قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، ‏‏‏‏‏‏وَجَابِرٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ حَدِيثُ أَنَسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَقَدْ رُوِيَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ أَقَامَ فِي بَعْضِ أَسْفَارِهِ تِسْعَ عَشْرَةَ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ:‏‏‏‏ فَنَحْنُ إِذَا أَقَمْنَا مَا بَيْنَنَا وَبَيْنَ تِسْعَ عَشْرَةَ صَلَّيْنَا رَكْعَتَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنْ زِدْنَا عَلَى ذَلِكَ أَتْمَمْنَا الصَّلَاةَ، ‏‏‏‏‏‏وَرُوِي عَنْ عَلِيٍّ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ قَالَ:‏‏‏‏ مَنْ أَقَامَ عَشْرَةَ أَيَّامٍ أَتَمَّ الصَّلَاةَ. وَرُوِي عَنْ ابْنِ عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ قَالَ:‏‏‏‏ مَنْ أَقَامَ خَمْسَةَ عَشَرَ يَوْمًا أَتَمَّ الصَّلَاةَ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ رُوِيَ عَنْهُ ثِنْتَيْ عَشْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَرُوِي عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ قَالَ:‏‏‏‏ إِذَا أَقَامَ أَرْبَعًا صَلَّى أَرْبَعًا، ‏‏‏‏‏‏وَرَوَى عَنْهُ ذَلِكَ قَتَادَةُ، ‏‏‏‏‏‏وَعَطَاءٌ الْخُرَاسَانِيُّ، ‏‏‏‏‏‏وَرَوَى عَنْهُ دَاوُدُ بْنُ أَبِي هِنْدٍ خِلَافَ هَذَا، ‏‏‏‏‏‏وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ بَعْدُ فِي ذَلِكَ، ‏‏‏‏‏‏فَأَمَّا سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَأَهْلُ الْكُوفَةِ فَذَهَبُوا إِلَى تَوْقِيتِ خَمْسَ عَشْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالُوا:‏‏‏‏ إِذَا أَجْمَعَ عَلَى إِقَامَةِ خَمْسَ عَشْرَةَ أَتَمَّ الصَّلَاةَ. وقَالَ الْأَوْزَاعِيُّ:‏‏‏‏ إِذَا أَجْمَعَ عَلَى إِقَامَةِ ثِنْتَيْ عَشْرَةَ أَتَمَّ الصَّلَاةَ، ‏‏‏‏‏‏وقَالَ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، ‏‏‏‏‏‏وَالشَّافِعِيُّ، ‏‏‏‏‏‏وَأَحْمَدُ:‏‏‏‏ إِذَا أَجْمَعَ عَلَى إِقَامَةِ أَرْبَعَةٍ أَتَمَّ الصَّلَاةَ. وَأَمَّا إِسْحَاق فَرَأَى أَقْوَى الْمَذَاهِبِ فِيهِ حَدِيثَ ابْنِ عَبَّاسٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ لِأَنَّهُ رَوَى عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ تَأَوَّلَهُ بَعْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَجْمَعَ عَلَى إِقَامَةِ تِسْعَ عَشْرَةَ أَتَمَّ الصَّلَاةَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ أَجْمَعَ أَهْلُ الْعِلْمِ عَلَى أَنَّ الْمُسَافِرَ يَقْصُرُ مَا لَمْ يُجْمِعْ إِقَامَةً وَإِنْ أَتَى عَلَيْهِ سِنُونَ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৫৪৯
سفرکا بیان
کہ کتنی مدت تک نماز میں قصر کی جائے
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے سفر کیا، تو آپ نے انیس دن تک دو دو رکعتیں پڑھیں ١ ؎، ابن عباس کہتے ہیں : تو ہم لوگ بھی انیس یا اس سے کم دنوں (کے سفر) میں دو دو رکعتیں پڑھتے تھے۔ اور جب ہم اس سے زیادہ قیام کرتے تو چار رکعت پڑھتے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث غریب حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/تقصیر الصلاة ١ (١٠٨٠) ، والمغازی ٥٢ (٤٢٩٨) ، سنن ابی داود/ الصلاة ٢٧٩ (١٢٣٠) ، (بلفظ ” سبعة عشر “ وشاذ) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٧٦ (١٠٧٥) ، ( تحفة الأشراف : ٦١٣٤) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یہ فتح مکہ کا واقعہ ہے ، اس موقع پر نبی اکرم ﷺ نے مکہ میں کتنے دن قیام کیا اس سلسلہ میں روایتیں مختلف ہیں ، بخاری کی روایت میں انیس دن کا ذکر ہے اور ابوداؤد کی ایک روایت میں اٹھارہ اور دوسری میں سترہ دن کا ذکر ہے ، تطبیق اس طرح دی جاتی ہے کہ جس نے دخول اور خروج کے دنوں کو شمار نہیں کیا اس نے سترہ کی روایت کی ہے ، جس نے دخول کا شمار کیا خروج کا نہیں یا خروج کا شمار کیا اور دخول کا نہیں اس نے اٹھارہ کی روایت کی ہے ، رہی پندرہ دن والی روایت تو یہ شاذ ہے اور اگر اسے صحیح مان لیا جائے تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ راوی نے سمجھا کہ اصل ١٧ دن پھر اس میں سے دخول اور خروج کو خارج کر کے ١٥ دن کی روایت ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1075) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 549
حدیث نمبر: 549 حَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ عَاصِمٍ الْأَحْوَلِ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:‏‏‏‏ سَافَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَفَرًا فَصَلَّى تِسْعَةَ عَشَرَ يَوْمًا رَكْعَتَيْنِ رَكْعَتَيْنِ . قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ:‏‏‏‏ فَنَحْنُ نُصَلِّي فِيمَا بَيْنَنَا وَبَيْنَ تِسْعَ عَشْرَةَ رَكْعَتَيْنِ رَكْعَتَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا أَقَمْنَا أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ صَلَّيْنَا أَرْبَعًا. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৫৫০
سفرکا بیان
کہ کتنی مدت تک نماز میں قصر کی جائے
براء بن عازب (رض) کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ اٹھارہ مہینے رہا۔ لیکن میں نے سورج ڈھلنے کے بعد ظہر سے پہلے کی دونوں رکعتیں کبھی بھی آپ کو چھوڑتے نہیں دیکھا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- براء (رض) کی حدیث غریب ہے، ٢- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے اس کے بارے میں پوچھا تو وہ اسے صرف لیث بن سعد ہی کی روایت سے جان سکے اور وہ ابوبسرہ غفاری کا نام نہیں جان سکے اور انہوں نے اسے حسن جانا ١ ؎، ٣- اس باب میں ابن عمر (رض) سے بھی روایت ہے، ٤- ابن عمر (رض) سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ سفر میں نہ نماز سے پہلے نفل پڑھتے تھے اور نہ اس کے بعد ٢ ؎، ٥- اور ابن عمر (رض) ہی سے مروی ہے وہ نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ سفر میں نفل پڑھتے تھے ٣ ؎، ٦- پھر نبی اکرم ﷺ کے بعد اہل علم میں اختلاف ہوگیا، بعض صحابہ کرام کی رائے ہوئی کہ آدمی نفل پڑھے، یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں، ٧- اہل علم کے ایک گروہ کی رائے نہ نماز سے پہلے کوئی نفل پڑھنے کی ہے اور نہ نماز کے بعد۔ سفر میں جو لوگ نفل نہیں پڑھتے ہیں ان کا مقصود رخصت کو قبول کرنا ہے اور جو نفل پڑھے تو اس کی بڑی فضیلت ہے۔ یہی اکثر اہل علم کا قول ہے وہ سفر میں نفل پڑھنے کو پسند کرتے ہیں ٤ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصلاة ٢٧٦ (١٢٢٢) (تحفة الأشراف : ١٩٢٤) (ضعیف) (اس کے راوی ” ابوبُسرہ الغفاری “ لین الحدیث ہیں) وضاحت : ١ ؎ : دیگر سارے لوگوں نے ان کو مجہول قرار دیا ہے ، اور مجہول کی روایت ضعیف ہوتی ہے۔ ٢ ؎ یہ صحیح بخاری کی روایت ہے۔ ٣ ؎ : اس بابت سب سے صحیح اور واضح حدیث ابن عمر کی ہے ، جو رقم ٥٤٤ پر گزری ، ابن عمر (رض) کی دلیل نقلی بھی ہے اور عقلی بھی کہ ایک تو رسول اللہ ﷺ اور ابوبکر و عمر (رض) سنت راتبہ نہیں پڑھتے تھے ، دوسرے اگر سنت راتبہ پڑھنی ہوتی تو اصل فرض میں کمی کرنے کا جو مقصد ہے وہ فوت ہوجاتا ، اگر سنت راتبہ پڑھنی ہو تو فرائض میں کمی کا کیا معنی ؟ رہی آپ ﷺ کے بعض اسفار میں چاشت وغیرہ پڑھنے کی بات ، تو بوقت فرصت عام نوافل کے سب قائل ہیں۔ ٤ ؎ : عام نوافل پڑھنے کے تو سب قائل ہیں مگر سنن راتبہ والی احادیث سنداً کمزور ہیں۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف، ضعيف أبي داود (222) // عندنا برقم (263 / 1222) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 550
حدیث نمبر: 550 حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ سُلَيْمٍ، عَنْ أَبِي بُسْرَةَ الْغِفَارِيِّ، عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ، قَالَ:‏‏‏‏ صَحِبْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَمَانِيَةَ عَشَرَ شَهْرَا فَمَا رَأَيْتُهُ تَرَكَ الرَّكْعَتَيْنِ إِذَا زَاغَتِ الشَّمْسُ قَبْلَ الظُّهْرِ . قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ حَدِيثُ الْبَرَاءِ حَدِيثٌ غَرِيبٌ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَسَأَلْتُ مُحَمَّدًا عَنْهُ فَلَمْ يَعْرِفْهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ اللَّيْثِ بْنِ سَعْدٍ، ‏‏‏‏‏‏وَلَمْ يَعْرِفْ اسْمَ أَبِي بُسْرَةَ الْغِفَارِيِّ وَرَآهُ حَسَنًا، ‏‏‏‏‏‏وَرُوِي عَنْ ابْنِ عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ لَا يَتَطَوَّعُ فِي السَّفَرِ قَبْلَ الصَّلَاةِ وَلَا بَعْدَهَا وَرُوِيَ عَنْهُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ كَانَ يَتَطَوَّعُ فِي السَّفَرِ ثُمَّ اخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ بَعْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَرَأَى بَعْضُ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَتَطَوَّعَ الرَّجُلُ فِي السَّفَرِ، ‏‏‏‏‏‏وَبِهِ يَقُولُ:‏‏‏‏ أَحْمَدُ، ‏‏‏‏‏‏وَإِسْحَاق، ‏‏‏‏‏‏وَلَمْ تَرَ طَائِفَةٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنْ يُصَلَّى قَبْلَهَا وَلَا بَعْدَهَا، ‏‏‏‏‏‏وَمَعْنَى مَنْ لَمْ يَتَطَوَّعْ فِي السَّفَرِ قَبُولُ الرُّخْصَةِ وَمَنْ تَطَوَّعَ فَلَهُ فِي ذَلِكَ فَضْلٌ كَثِيرٌ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ قَوْلُ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ يَخْتَارُونَ التَّطَوُّعَ فِي السَّفَرِ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৫৫১
سفرکا بیان
کہ کتنی مدت تک نماز میں قصر کی جائے
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کے ساتھ سفر میں ظہر کی دو رکعتیں پڑھیں اور اس کے بعد دو رکعں یی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن ہے، ٢- ابن ابی لیلیٰ نے یہ حدیث عطیہ اور نافع سے روایت کی ہے اور ان دونوں نے ابن عمر (رض) سے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٧٣٣٦) (ضعیف الإسناد، منکر المتن، لمخالفة حدیث رقم : ٥٤٤) (اس کے راوی ” عطیہ عوفی “ ضعیف ہیں) قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد - منکر المتن لمخالفته لحديثه المتقدم (542) وغيره // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 551
حدیث نمبر: 551 حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ، عَنْ الْحَجَّاجِ، عَنْ عَطِيَّةَ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ:‏‏‏‏ صَلَّيْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الظُّهْرَ فِي السَّفَرِ رَكْعَتَيْنِ وَبَعْدَهَا رَكْعَتَيْنِ . قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ رَوَاهُ ابْنُ أَبِي لَيْلَى، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَطِيَّةَ، ‏‏‏‏‏‏وَنَافِعٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عُمَرَ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৫৫২
سفرکا بیان
کہ کتنی مدت تک نماز میں قصر کی جائے
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے حضر اور سفر دونوں میں نبی اکرم ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی، میں نے آپ کے ساتھ حضر میں ظہر کی چار رکعتیں پڑھیں، اور اس کے بعد دو رکعتیں، اور سفر میں آپ کے ساتھ ظہر کی دو رکعتیں پڑھیں اور اس کے بعد دو رکعتیں اور عصر کی دو رکعتیں، اور اس کے بعد کوئی چیز نہیں پڑھی۔ اور مغرب کی سفر و حضر دونوں ہی میں تین رکعتیں پڑھیں۔ نہ حضر میں کوئی کمی کی نہ سفر میں، یہ دن کی وتر ہے اور اس کے بعد دو رکعتیں پڑھیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن ہے، ٢- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو کہتے سنا کہ ابن ابی لیلیٰ نے کوئی ایسی حدیث روایت نہیں کی جو میرے نزدیک اس سے زیادہ تعجب خیز ہو، میں ان کی کوئی روایت نہیں لیتا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٧٣٣٧ و ٨٤٢٨) (ضعیف الإسناد، منکر المتن) (اس کے راوی ” محمد بن عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ “ ضعیف ہیں، اور یہ حدیث صحیح احادیث کے خلاف ہے) قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد، منکر المتن انظر ما قبله (551) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 552
حدیث نمبر: 552 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ الْمُحَارِبِيُّ يَعْنِي الْكُوفِيَّ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ هَاشِمٍ، عَنْ ابْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ عَطِيَّةَ، وَنَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ:‏‏‏‏ صَلَّيْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْحَضَرِ وَالسَّفَرِ، ‏‏‏‏‏‏فَصَلَّيْتُ مَعَهُ فِي الْحَضَرِ الظُّهْرَ أَرْبَعًا وَبَعْدَهَا رَكْعَتَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏وَصَلَّيْتُ مَعَهُ فِي السَّفَرِ الظُّهْرَ رَكْعَتَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏وَبَعْدَهَا رَكْعَتَيْنِ وَالْعَصْرَ رَكْعَتَيْنِ وَلَمْ يُصَلِّ بَعْدَهَا شَيْئًا، ‏‏‏‏‏‏وَالْمَغْرِبَ فِي الْحَضَرِ وَالسَّفَرِ سَوَاءً ثَلَاثَ رَكَعَاتٍ لَا تَنْقُصُ فِي الْحَضَرِ وَلَا فِي السَّفَرِ هِيَ وِتْرُ النَّهَارِ وَبَعْدَهَا رَكْعَتَيْنِ . قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ. سَمِعْت مُحَمَّدًا، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ مَا رَوَى ابْنُ أَبِي لَيْلَى حَدِيثًا أَعْجَبَ إِلَيَّ مِنْ هَذَا، ‏‏‏‏‏‏وَلَا أَرْوِي عَنْهُ شَيْئًا.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৫৫৩
سفرکا بیان
دو نمازوں کو جمع کرنا
معاذ بن جبل (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ غزوہ تبوک میں جب سورج ڈھلنے سے پہلے کوچ کرتے تو ظہر کو مؤخر کرتے یہاں تک کہ اسے عصر کے ساتھ ملا دیتے اور دونوں کو ایک ساتھ پڑھتے، اور جب سورج ڈھلنے کے بعد کوچ کرتے تو عصر کو پہلے کر کے ظہر سے ملا دیتے اور ظہر اور عصر کو ایک ساتھ پڑھتے پھر روانہ ہوتے۔ اور جب مغرب سے پہلے کوچ فرماتے تو مغرب کو مؤخر کرتے یہاں تک کہ اسے عشاء کے ساتھ ملا کر پڑھتے، اور جب مغرب کے بعد کوچ فرماتے تو عشاء کو پہلے کر کے مغرب کے ساتھ ملا کر پڑھتے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- اور صحیح یہ ہے کہ اسامہ سے مروی ہے، ٢- نیز یہ حدیث علی بن مدینی نے احمد بن حنبل سے اور احمد بن حنبل نے قتیبہ سے روایت کی ہے ١ ؎، ٣- اس باب میں علی، ابن عمر، انس، عبداللہ بن عمرو، عائشہ، ابن عباس، اسامہ بن زید اور جابر بن عبداللہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین ٦ (٧٠٦) ، سنن ابی داود/ الصلاة ٢٧٤ (١٢٠٦، ١٢٢٠) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٧٤ (١٠٧٠) ، ( تحفة الأشراف : ١١٣٢٠) ، موطا امام مالک/قصر الصلاة ١ (٢) ، مسند احمد (٥/٢٢٩، ٢٣٠، ٢٣٣، ٢٣٦، ٢٣٧، ٢٤١) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٨٢ (١٥٥٦) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : جو آگے آرہی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (1106) ، الإرواء (578) ، التعليقات الجياد صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 553 اس سند سے بھی قتیبہ سے یہ حدیث یعنی معاذ (رض) کی حدیث مروی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- معاذ (رض) کی حدیث حسن غریب ہے، ٢- قتیبہ اسے روایت کرنے میں منفرد ہیں ہم ان کے علاوہ کسی کو نہیں جانتے جس نے اسے لیث سے روایت کیا ہو، ٣- لیث کی حدیث جسے انہوں نے یزید بن ابی حبیب سے، اور یزید نے ابوالطفیل سے اور ابوالطفیل نے معاذ سے روایت کی ہے غریب ہے، ٤- اہل علم کے نزدیک معروف معاذ کی (وہ) حدیث ہے جسے ابو الزبیر نے ابوالطفیل سے اور ابوالطفیل نے معاذ سے روایت کی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے غزوہ تبوک میں ظہر اور عصر کو ایک ساتھ اور مغرب و عشاء کو ایک ساتھ جمع کیا ١ ؎، ٥- اسے قرہ بن خالد، سفیان ثوری، مالک اور دیگر کئی لوگوں نے بھی ابوالزبیر مکی سے روایت کیا ہے، ٦- اور اسی حدیث کے مطابق شافعی کا بھی قول ہے، احمد اور اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ سفر میں دو صلاۃ کو کسی ایک کے وقت میں ملا کر ایک ساتھ پڑھ لینے میں کوئی حرج نہیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : مؤلف اور ابوداؤد کی ایک روایت ( ١٢٢٠) کے سوا سب نے اسی طریق سے اور اسی مختصر متن کے ساتھ روایت کی ہے۔ صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 554
حدیث نمبر: 553 حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ هُوَ عَامِرُ بْنُ وَاثِلَةَ، عَنْمُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ إِذَا ارْتَحَلَ قَبْلَ زَيْغِ الشَّمْسِ أَخَّرَ الظُّهْرَ إِلَى أَنْ يَجْمَعَهَا إِلَى الْعَصْرِ فَيُصَلِّيَهُمَا جَمِيعًا، ‏‏‏‏‏‏وَإِذَا ارْتَحَلَ بَعْدَ زَيْغِ الشَّمْسِ عَجَّلَ الْعَصْرَ إِلَى الظُّهْرِ وَصَلَّى الظُّهْرَ وَالْعَصْرَ جَمِيعًا ثُمَّ سَارَ، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ إِذَا ارْتَحَلَ قَبْلَ الْمَغْرِبِ أَخَّرَ الْمَغْرِبَ حَتَّى يُصَلِّيَهَا مَعَ الْعِشَاءِ، ‏‏‏‏‏‏وَإِذَا ارْتَحَلَ بَعْدَ الْمَغْرِبِ عَجَّلَ الْعِشَاءَ فَصَلَّاهَا مَعَ الْمَغْرِبِ . قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ، ‏‏‏‏‏‏وَابْنِ عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنَسٍ، ‏‏‏‏‏‏وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، ‏‏‏‏‏‏وَعَائِشَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَابْنِ عَبَّاسٍ، ‏‏‏‏‏‏وَأُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ، ‏‏‏‏‏‏وَجَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ وَالصَّحِيحُ عَنْ أُسَامَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَرَوَى عَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ قُتَيْبَةَ هَذَا الْحَدِيثَ. حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ سُلَيْمَانَ، حَدَّثَنَا زَكَرِيَّا اللُّؤْلُئِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ الْأَعْيَنُ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ، حَدَّثَنَاأَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، بِهَذَا الْحَدِيثِ يَعْنِي حَدِيثَ مُعَاذٍ، ‏‏‏‏‏‏وَحَدِيثُ مُعَاذٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ تَفَرَّدَ بِهِ قُتَيْبَةُ، ‏‏‏‏‏‏لَا نَعْرِفُ أَحَدًا رَوَاهُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ اللَّيْثِ غَيْرَهُ وَحَدِيثُ اللَّيْثِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مُعَاذٍ حَدِيثٌ غَرِيبٌ، ‏‏‏‏‏‏وَالْمَعْرُوفُ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ حَدِيثُ مُعَاذٍ مِنْ حَدِيثِ أَبِي الزُّبَيْرِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مُعَاذٍ، ‏‏‏‏‏‏أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَمَعَ فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ بَيْنَ الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ وَبَيْنَ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ . رَوَاهُ قُرَّةُ بْنُ خَالِدٍ، ‏‏‏‏‏‏وَسُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، ‏‏‏‏‏‏ومالك، ‏‏‏‏‏‏وغير واحد، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ الْمَكِّيِّ. وَبِهَذَا الْحَدِيثِ يَقُولُ الشَّافِعِيُّ، ‏‏‏‏‏‏وَأَحْمَدُ، ‏‏‏‏‏‏وَإِسْحَاق، ‏‏‏‏‏‏يقولان:‏‏‏‏ لا بأس أن يجمع بين الصلاتين في السفر في وقت إحداهما.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৫৫৪
سفرکا بیان
N/A
قتیبہ سے یہ حدیث یعنی معاذ رضی الله عنہ کی حدیث مروی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- معاذ رضی الله عنہ کی حدیث حسن غریب ہے، ۲- قتیبہ اسے روایت کرنے میں منفرد ہیں ہم ان کے علاوہ کسی کو نہیں جانتے جس نے اسے لیث سے روایت کیا ہو، ۳- لیث کی حدیث جسے انہوں نے یزید بن ابی حبیب سے، اور یزید نے ابوالطفیل سے اور ابوالطفیل نے معاذ سے روایت کی ہے غریب ہے، ۴- اہل علم کے نزدیک معروف معاذ کی ( وہ ) حدیث ہے جسے ابو الزبیر نے ابوالطفیل سے اور ابوالطفیل نے معاذ سے روایت کی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ تبوک میں ظہر اور عصر کو ایک ساتھ اور مغرب و عشاء کو ایک ساتھ جمع کیا ۱؎، ۵- اسے قرہ بن خالد، سفیان ثوری، مالک اور دیگر کئی لوگوں نے بھی ابوالزبیر مکی سے روایت کیا ہے، ۶- اور اسی حدیث کے مطابق شافعی کا بھی قول ہے، احمد اور اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ سفر میں دو صلاۃ کو کسی ایک کے وقت میں ملا کر ایک ساتھ پڑھ لینے میں کوئی حرج نہیں۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ سُلَيْمَانَ، حَدَّثَنَا زَكَرِيَّا اللُّؤْلُئِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ الْأَعْيَنُ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ، حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، بِهَذَا الْحَدِيثِ يَعْنِي حَدِيثَ مُعَاذٍ، ‏‏‏‏‏‏وَحَدِيثُ مُعَاذٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ تَفَرَّدَ بِهِ قُتَيْبَةُ، ‏‏‏‏‏‏لَا نَعْرِفُ أَحَدًا رَوَاهُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ اللَّيْثِ غَيْرَهُ وَحَدِيثُ اللَّيْثِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مُعَاذٍ حَدِيثٌ غَرِيبٌ، ‏‏‏‏‏‏وَالْمَعْرُوفُ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ حَدِيثُ مُعَاذٍ مِنْ حَدِيثِ أَبِي الزُّبَيْرِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مُعَاذٍ، ‏‏‏‏‏‏أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَمَعَ فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ بَيْنَ الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ وَبَيْنَ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ . رَوَاهُ قُرَّةُ بْنُ خَالِدٍ، ‏‏‏‏‏‏وَسُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، ‏‏‏‏‏‏ومالك، ‏‏‏‏‏‏وغير واحد، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ الْمَكِّيِّ. وَبِهَذَا الْحَدِيثِ يَقُولُ الشَّافِعِيُّ، ‏‏‏‏‏‏وَأَحْمَدُ، ‏‏‏‏‏‏وَإِسْحَاق، ‏‏‏‏‏‏يقولان:‏‏‏‏ لا بأس أن يجمع بين الصلاتين في السفر في وقت إحداهما
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৫৫৫
سفرکا بیان
N/A
انہیں ان کی ایک بیوی ۱؎ کے حالت نزع میں ہونے کی خبر دی گئی تو انہیں چلنے کی جلدی ہوئی چنانچہ انہوں نے مغرب کو مؤخر کیا یہاں تک کہ شفق غائب ہو گئی، وہ سواری سے اتر کر مغرب اور عشاء دونوں کو ایک ساتھ جمع کیا، پھر لوگوں کو بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب چلنے کی جلدی ہوتی تو آپ ایسا ہی کرتے تھے ۲؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ لیث کی حدیث ( رقم ۵۵۴ ) جسے انہوں نے یزید بن ابی حبیب سے روایت کی ہے حسن صحیح ہے۔
حَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّهُ اسْتُغِيثَ عَلَى بَعْضِ أَهْلِهِ فَجَدَّ بِهِ السَّيْرُ فَأَخَّرَ الْمَغْرِبَ حَتَّى غَابَ الشَّفَقُ ثُمَّ نَزَلَ فَجَمَعَ بَيْنَهُمَا ثُمَّ أَخْبَرَهُمْ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَفْعَلُ ذَلِكَ إِذَا جَدَّ بِهِ السَّيْرُ . قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَحَدِيثُ اللَّيْثِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৫৫৬
سفرکا بیان
نماز استسقائ
عباد بن تمیم کے چچا عبداللہ بن زید بن عاصم مازنی (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ بارش طلب کرنے کے لیے لوگوں کو ساتھ لے کر باہر نکلے، آپ نے انہیں دو رکعت نماز پڑھائی، جس میں آپ نے بلند آواز سے قرأت کی، اپنی چادر پلٹی، اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے اور قبلہ رخ ہو کر بارش کے لیے دعا کی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- عبداللہ بن زید (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں ابن عباس، ابوہریرہ، انس اور آبی اللحم (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- اہل علم کا اسی پر عمل ہے، اور اسی کے شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی قائل ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الاستسقاء ١ (١٠٠٥) ، و ٤ (١٠١٢) ، والدعوات ٢٥ (٦٣٤٣) ، صحیح مسلم/الاستسقاء ١ (٨٩٤) ، سنن ابی داود/ الصلاة ٢٥٨ (١١٦١-١١٦٤) ، و ٢٥٩ (١١٦٦، ١١٦٧) ، سنن النسائی/الاستسقاء ٢ (١٥٠٦) ، و ٣ (١٥٠٨) ، و ٥ (١٥١٠) ، و ٦ (١٥١١) ، و ٧ (٥١٢) ، و ٨ (١٥١٣) ، و ١٢ (١٥٢١) ، و ١٤ (١٥٢٣) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٥٣ (١٢٦٧) ، ( تحفة الأشراف : ٥٢٩٧) ، موطا امام مالک/الاستسقاء (١٧) ، مسند احمد (٤/٣٩، ٤٠، ٤١، ٤٢) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٨٨ (١٥٤١) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1267) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 556
حدیث نمبر: 556 حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ تَمِيمٍ، عَنْ عَمِّهِ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ بِالنَّاسِ يَسْتَسْقِي فَصَلَّى بِهِمْ رَكْعَتَيْنِ جَهَرَ بِالْقِرَاءَةِ فِيهَا وَحَوَّلَ رِدَاءَهُ وَرَفَعَ يَدَيْهِ وَاسْتَسْقَى وَاسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ . قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبِي هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنَسٍ، ‏‏‏‏‏‏وَآبِي اللَّحْمِ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ حَدِيثُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَيْدٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَعَلَى هَذَا الْعَمَلُ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ، ‏‏‏‏‏‏وَبِهِ يَقُولُ الشَّافِعِيُّ، ‏‏‏‏‏‏وَأَحْمَدُ، ‏‏‏‏‏‏وَإِسْحَاق، ‏‏‏‏‏‏وَعَمُّ عَبَّادِ بْنِ تَمِيمٍ هُوَ:‏‏‏‏ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ زَيْدِ بْنِ عَاصِمٍ الْمَازِنِيُّ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৫৫৭
سفرکا بیان
نماز استسقائ
آبی اللحم (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو احجارزیت ١ ؎ کے پاس اللہ تعالیٰ سے بارش طلب کرتے ہوئے دیکھا۔ آپ اپنی دونوں ہتھیلیاں اٹھائے دعا فرما رہے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- قتیبہ نے اس حدیث کی سند میں اسی طرح «عن آبی اللحم» کہا ہے اور ہم اس حدیث کے علاوہ ان کی کوئی اور حدیث نہیں جانتے جسے انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہو ٢- عمیر، آبی اللحم (رض) کے مولیٰ ہیں، انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے کئی احادیث روایت کی ہیں۔ اور انہیں خود بھی شرف صحابیت حاصل ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الاستسقاء ٩ (١٥١٥) ، (وہو عند أبي داود في الصلاة ٢٦٠ (١١٦٨) ، واحمد (٥/٢٢٣) من حدیث عمیر نفسہ/التحفة : ١٠٩٠٠) (تحفة الأشراف : ٥) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : مدینے میں ایک جگہ کا نام ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (1063) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 557
حدیث نمبر: 557 حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ خَالِدِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي هِلَالٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْعُمَيْرٍ مَوْلَى آبِي اللَّحْمِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ آبِي اللَّحْمِ، أَنَّهُ رَأَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ أَحْجَارِ الزَّيْتِ يَسْتَسْقِي وَهُوَ مُقْنِعٌ بِكَفَّيْهِ يَدْعُو . قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ كَذَا قَالَ قُتَيْبَةُ فِي هَذَا الْحَدِيثِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ آبِي اللَّحْمِ وَلَا نَعْرِفُ لَهُ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا هَذَا الْحَدِيثَ الْوَاحِدَ، ‏‏‏‏‏‏وَعُمَيْرٌ مَوْلَى آبِي اللَّحْمِ، ‏‏‏‏‏‏قَدْ رَوَى عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَادِيثَ وَلَهُ صُحْبَةٌ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৫৫৮
سفرکا بیان
نماز استسقائ
اسحاق بن عبداللہ بن کنانہ کہتے ہیں کہ مجھے ولید بن عقبہ نے ابن عباس (رض) کے پاس بھیجا (ولید مدینے کے امیر تھے) تاکہ میں ان سے رسول اللہ ﷺ کے استسقاء کے بارے میں پوچھوں، تو میں ان کے پاس آیا (اور میں نے ان سے پوچھا) تو انہوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ پھٹے پرانے لباس میں عاجزی کرتے ہوئے نکلے، یہاں تک کہ عید گاہ آئے، اور آپ نے تمہارے اس خطبہ کی طرح خطبہ نہیں دیا بلکہ آپ برابر دعا کرنے، گڑگڑانے اور اللہ کی بڑائی بیان کرنے میں لگے رہے، اور آپ نے دو رکعتیں پڑھیں جیسا کہ آپ عید میں پڑھتے تھے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصلاة ٢٥٨ (١١٦٥) ، سنن النسائی/الاستسقاء ٣ (١٥٠٧) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٥٣ (١١٦٦) ، ( تحفة الأشراف : ٥٣٥٩) ، مسند احمد (١/٢٣٠، ٢٦٩، ٣٥٥) (حسن) وضاحت : ١ ؎ : اسی سے امام شافعی وغیرہ نے دلیل پکڑی ہے کہ استسقاء میں بھی بارہ تکبیرات زوائد سے دو رکعتں پڑھی جائیں گی ، جبکہ جمہور نماز جمعہ کی طرح پڑھنے کے قائل ہیں اور اس حدیث میں «كما يصلي في العيد» سے مراد یہ بیان کیا ہے کہ جیسے : آبادی سے باہر جہری قراءت سے خطبہ سے پہلے دو رکعت عید کی نماز پڑھی جاتی ہے ، اور دیگر احادیث وآثار سے یہی بات صحیح معلوم ہوتی ہے ، صاحب تحفہ نے اسی کی تائید کی ہے۔ قال الشيخ الألباني : حسن، ابن ماجة (1266) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 558
حدیث نمبر: 558 حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيل، عَنْ هِشَامِ بْنِ إِسْحَاق وَهُوَ ابْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كِنَانَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ:‏‏‏‏ أَرْسَلَنِي الْوَلِيدُ بْنُ عُقْبَةَ وَهُوَ:‏‏‏‏ أَمِيرُ الْمَدِينَةِ، ‏‏‏‏‏‏إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ أَسْأَلُهُ عَنِ اسْتِسْقَاءِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَأَتَيْتُهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ مُتَبَذِّلًا مُتَوَاضِعًا مُتَضَرِّعًا حَتَّى أَتَى الْمُصَلَّى فَلَمْ يَخْطُبْ خُطْبَتَكُمْ هَذِهِ وَلَكِنْ لَمْ يَزَلْ فِي الدُّعَاءِ وَالتَّضَرُّعِ وَالتَّكْبِيرِ وَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ كَمَا كَانَ يُصَلِّي فِي الْعِيدِ . قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৫৫৯
سفرکا بیان
نماز استسقائ
اسحاق بن عبداللہ بن کنانہ سے روایت ہے، آگے انہوں نے اسی طرح ذکر کیا البتہ اس میں انہوں نے لفظ «منخشعاً» کا اضافہ کیا ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اور یہی شافعی کا قول ہے، وہ کہتے ہیں کہ نماز استسقاء عیدین کی نماز کی طرح پڑھی جائے گی۔ پہلی رکعت میں سات تکبیریں اور دوسری میں پانچ، اور انہوں نے ابن عباس کی حدیث سے استدلال کیا ہے، ٣- مالک بن انس سے مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ استسقاء میں عیدین کی نماز کی تکبیروں کی طرح تکبیریں نہیں کہے گا، ٤- ابوحنیفہ نعمان کہتے ہیں کہ استسقاء کی کوئی نماز نہیں پڑھی جائے گی اور نہ میں انہیں چادر پلٹنے ہی کا حکم دیتا ہوں، بلکہ سارے لوگ ایک ساتھ دعا کریں گے اور لوٹ آئیں گے، ٥- ان کا یہ قول سنت کے مخالف ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (حسن) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 559
حدیث نمبر: 559 حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سُفْيَانَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ هِشَامِ بْنِ إِسْحَاق بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كِنَانَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ فَذَكَرَ نَحْوَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَزَادَ فِيهِ مُتَخَشِّعًا. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ يُصَلِّي صَلَاةَ الِاسْتِسْقَاءِ نَحْوَ صَلَاةِ الْعِيدَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏يُكَبِّرُ فِي الرَّكْعَةِ الْأُولَى سَبْعًا، ‏‏‏‏‏‏وَفِي الثَّانِيَةِ خَمْسًا، ‏‏‏‏‏‏وَاحْتَجَّ بِحَدِيثِ ابْنِ عَبَّاسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ وَرُوِي عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ قَالَ:‏‏‏‏ لَا يُكَبِّرُ فِي صَلَاةِ الِاسْتِسْقَاءِ كَمَا يُكَبِّرُ فِي صَلَاةِ الْعِيدَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏وقَالَ النُّعْمَانُ أَبُو حَنِيفَةَ:‏‏‏‏ لَا تُصَلَّى صَلَاةُ الِاسْتِسْقَاءِ وَلَا آمُرُهُمْ بِتَحْوِيلِ الرِّدَاءِ وَلَكِنْ يَدْعُونَ وَيَرْجِعُونَ بِجُمْلَتِهِمْ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ خَالَفَ السُّنَّةَ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৫৬০
سفرکا بیان
سورج گرہن کی نماز
عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے سورج گرہن کی نماز پڑھی تو آپ نے قرأت کی، پھر رکوع کیا، پھر قرأت کی پھر رکوع کیا، پھر قرأت کی پھر رکوع کیا، تین بار قرأت کی اور تین بار رکوع کیا، پھر دو سجدے کئے، اور دوسری رکعت بھی اسی طرح تھی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابن عباس (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں علی، عائشہ، عبداللہ بن عمرو، نعمان بن بشیر، مغیرہ بن شعبہ، ابومسعود، ابوبکرہ، سمرہ، ابوموسیٰ اشعری، ابن مسعود، اسماء بنت ابی بکر صدیق، ابن عمر، قبیصہ ہلالی، جابر بن عبداللہ، عبدالرحمٰن بن سمرہ، اور ابی بن کعب (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- ابن عباس (رض) نے نبی اکرم ﷺ سے یوں بھی روایت کی ہے کہ آپ نے سورج گرہن کی نماز میں چار سجدوں میں چار رکوع کیے، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ اسی کے قائل ہیں، ٤- سورج گرہن کی نماز میں اہل علم کا اختلاف ہے : بعض اہل علم کی رائے ہے کہ دن میں قرأت سری کرے گا۔ بعض کی رائے ہے کہ عیدین اور جمعہ کی طرح اس میں بھی جہری قرأت کرے گا۔ یہی مالک، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں کہ اس میں جہری قرأت کرے۔ اور شافعی کہتے ہیں کہ جہر نہیں کرے گا۔ اور نبی اکرم ﷺ سے دونوں ہی قسم کی احادیث آئی ثابت ہیں۔ آپ سے یہ بھی ثابت ہے کہ آپ نے چار سجدوں میں چار رکوع کیے۔ اور یہ بھی ثابت ہے کہ آپ نے چار سجدوں میں چھ رکوع کیے۔ اور یہ اہل علم کے نزدیک گرہن کی مقدار کے مطابق ہے اگر گرہن لمبا ہوجائے تو چار سجدوں میں چھ رکوع کرے، یہ بھی جائز ہے، اور اگر چار سجدوں میں چار ہی رکوع کرے اور قرأت لمبی کر دے تو بھی جائز ہے، ہمارے اصحاب الحدیث کا خیال ہے کہ گرہن کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھے خواہ گرہن سورج کا ہو یا چاند کا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الکسوف ٤ (٩٠٩) ، سنن ابی داود/ الصلاة ٢٦٢ (١١٨٣) ، سنن النسائی/الکسوف ٨ (١٤٦٨، ١٤٦٩) ، ( تحفة الأشراف : ٥٦٩٧) ، مسند احمد (١/٢١٦، ٢٩٨، ٣٤٦، ٣٥٨) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٨٧ (١٥٣٤) (شاذ) (تین طرق سے ابن عباس کی روایت میں ایک رکعت میں دو رکوع اور دو سجدے کا تذکرہ ہے، اس لیے علماء کے قول کے مطابق اس روایت میں حبیب بن ابی ثابت نے ثقات کی مخالفت کی ہے، اور یہ مدلس ہیں، ان کی یہ روایت عنعنہ سے ہے اس لیے تین رکعت کا ذکر شاذ ہے/ملاحظہ ہو : ضعیف ابی داود رقم : ٢١٥ وصحیح سنن ابی داود ١٠٧٢) قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (1072) ، جزء صلاة الکسوف صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 560
حدیث نمبر: 560 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ طَاوُسٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ صَلَّى فِي كُسُوفٍ فَقَرَأَ ثُمَّ رَكَعَ ثُمَّ قَرَأَ ثُمَّ رَكَعَ ثُمَّ قَرَأَ ثُمَّ رَكَعَ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ سَجَدَ سَجْدَتَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏وَالْأُخْرَى مِثْلُهَا . قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ، ‏‏‏‏‏‏وَعَائِشَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، ‏‏‏‏‏‏وَالنُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ، ‏‏‏‏‏‏وَالْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبِي مَسْعُودٍ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبِي بَكْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَسَمُرَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ، ‏‏‏‏‏‏وَابْنِ مَسْعُودٍ، ‏‏‏‏‏‏وَأَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ، ‏‏‏‏‏‏وَابْنِ عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏وَقَبِيصَةَ الْهِلَالِيِّ، ‏‏‏‏‏‏وَجَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَمُرَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَأُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَقَدْ رُوِيَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ صَلَّى فِي كُسُوفٍ أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ فِي أَرْبَعِ سَجَدَاتٍ . وَبِهِ يَقُولُ الشَّافِعِيُّ، ‏‏‏‏‏‏وَأَحْمَدُ، ‏‏‏‏‏‏وَإِسْحَاق. قَالَ:‏‏‏‏ وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي الْقِرَاءَةِ فِي صَلَاةِ الْكُسُوفِ، ‏‏‏‏‏‏فَرَأَى بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنْ يُسِرَّ بِالْقِرَاءَةِ فِيهَا بِالنَّهَارِ. وَرَأَى بَعْضُهُمْ أَنْ يَجْهَرَ بِالْقِرَاءَةِ فِيهَا كَنَحْوِ صَلَاةِ الْعِيدَيْنِ وَالْجُمُعَةِ، ‏‏‏‏‏‏وَبِهِ يَقُولُ مَالِكٌ، ‏‏‏‏‏‏وَأَحْمَدُ، ‏‏‏‏‏‏وَإِسْحَاقُ يَرَوْنَ الْجَهْرَ فِيهَا. وقَالَ الشَّافِعِيُّ:‏‏‏‏ لَا يَجْهَرُ فِيهَا، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ صَحَّ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كِلْتَا الرِّوَايَتَيْنِ. صَحَّ عَنْهُ أَنَّهُ صَلَّى أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ فِي أَرْبَعِ سَجَدَاتٍ ، ‏‏‏‏‏‏وَصَحَّ عَنْهُ أَيْضًا أَنَّهُ صَلَّى سِتَّ رَكَعَاتٍ فِي أَرْبَعِ سَجَدَاتٍ . وَهَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ جَائِزٌ عَلَى قَدْرِ الْكُسُوفِ، ‏‏‏‏‏‏إِنْ تَطَاوَلَ الْكُسُوفُ فَصَلَّى سِتَّ رَكَعَاتٍ فِي أَرْبَعِ سَجَدَاتٍ فَهُوَ جَائِزٌ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنْ صَلَّى أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ فِي أَرْبَعِ سَجَدَاتٍ وَأَطَالَ الْقِرَاءَةَ فَهُوَ جَائِزٌ، ‏‏‏‏‏‏وَيَرَى أَصْحَابُنَا أَنْ تُصَلَّى صَلَاةُ الْكُسُوفِ فِي جَمَاعَةٍ فِي كُسُوفِ الشَّمْسِ وَالْقَمَرِ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৫৬১
سفرکا بیان
سورج گرہن کی نماز
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں سورج گرہن لگا تو آپ ﷺ نے لوگوں کو نماز پڑھائی، اور لمبی قرأت فرمائی، پھر آپ نے رکوع کیا تو رکوع بھی لمبا کیا، پھر اپنا سر اٹھایا اور لمبی قرأت فرمائی، یہ پہلی قرأت سے کم تھی، پھر رکوع کیا اور لمبا رکوع کیا اور یہ پہلے رکوع سے ہلکا تھا، پھر اپنا سر اٹھایا اور سجدہ کیا پھر اسی طرح دوسری رکعت میں کیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی اسی حدیث کی بناء پر کہتے ہیں کہ گرہن کی نماز میں چار سجدوں میں چار رکوع ہے۔ شافعی کہتے ہیں : پہلی رکعت میں سورة فاتحہ پڑھے اور سورة البقرہ کے بقدر، اگر دن ہو تو سری قرأت کرے، پھر قرأت کے برابر لمبا رکوع کرے۔ پھر اللہ اکبر کہہ کر سر اٹھائے۔ اور کھڑا رہے جیسے پہلے کھڑا تھا اور سورة فاتحہ پڑھے اور آل عمران کے بقدر قرأت کرے پھر اپنی قرأت کے برابر لمبا رکوع کرے، پھر سر اٹھائے۔ پھر «سمع اللہ لمن حمده‏» کہے۔ پھر اچھی طرح دو سجدے کرے۔ اور ہر سجدے میں اسی قدر ٹھہرے جتنا رکوع میں ٹھہرا تھا۔ پھر کھڑا ہو اور سورة فاتحہ پڑھے اور سورة نساء کے بقدر قرأت کرے پھر اپنی قرأت کے برابر لمبا رکوع کرے پھر اللہ اکبر کہہ کر اپنا سر اٹھائے اور سیدھا کھڑا ہو، پھر سورة المائدہ کے برابر قرأت کرے۔ پھر اپنی قرأت کے برابر لمبا رکوع کرے، پھر سر اٹھائے اور «سمع اللہ لمن حمده‏» کہے، پھر دو سجدے کرے پھر تشہد پڑھے اور سلام پھیر دے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الکسوف ٤ (١٠٤٦) ، و ٥ (١٠٤٧) ، و ١٣ (١٠٥٨) ، والعمل فی الصلاة ١١ (١٢١٢) ، وبدء الخلق ٤ (٣٢٠٣) ، صحیح مسلم/الکسوف ١ (٩٠١) ، سنن ابی داود/ الصلاة ٢٦٢ (١١٨٠) ، سنن النسائی/الکسوف ١١ (١٤٧٣) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٥٢ (١٢٦٣) ، ( تحفة الأشراف : ١٦٦٣٩) ، مسند احمد (٦/٧٦، ٧٨، ١٦٤) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٩٧ (١٥٣٥) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (1071) ، جزء صلاة الکسوف صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 561
حدیث نمبر: 561 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي الشَّوَارِبِ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْعَائِشَةَ، أَنَّهَا قَالَتْ:‏‏‏‏ خَسَفَتِ الشَّمْسُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالنَّاسِ، ‏‏‏‏‏‏فَأَطَالَ الْقِرَاءَةَ ثُمَّ رَكَعَ، ‏‏‏‏‏‏فَأَطَالَ الرُّكُوعَ ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَأَطَالَ الْقِرَاءَةَ هِيَ دُونَ الْأُولَى، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ رَكَعَ فَأَطَالَ الرُّكُوعَ وَهُوَ دُونَ الْأَوَّلِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ فَسَجَدَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ فَعَلَ مِثْلَ ذَلِكَ فِي الرَّكْعَةِ الثَّانِيَةِ . قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَبِهَذَا الْحَدِيثِ يَقُولُ الشَّافِعِيُّ، ‏‏‏‏‏‏وَأَحْمَدُ، ‏‏‏‏‏‏وَإِسْحَاق:‏‏‏‏ يَرَوْنَ صَلَاةَ الْكُسُوفِ أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ فِي أَرْبَعِ سَجَدَاتٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ الشَّافِعِيُّ:‏‏‏‏ يَقْرَأُ فِي الرَّكْعَةِ الْأُولَى بِأُمِّ الْقُرْآنِ، ‏‏‏‏‏‏وَنَحْوًا مِنْ سُورَةِ الْبَقَرَةِ سِرًّا إِنْ كَانَ بِالنَّهَارِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ رَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلًا نَحْوًا مِنْ قِرَاءَتِهِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ بِتَكْبِيرٍ، ‏‏‏‏‏‏وَثَبَتَ قَائِمًا كَمَا هُوَ، ‏‏‏‏‏‏وَقَرَأَ أَيْضًا بِأُمِّ الْقُرْآنِ وَنَحْوًا مِنْ آلِ عِمْرَانَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ رَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلًا نَحْوًا مِنْ قِرَاءَتِهِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ سَجَدَ سَجْدَتَيْنِ تَامَّتَيْنِ وَيُقِيمُ فِي كُلِّ سَجْدَةٍ نَحْوًا مِمَّا أَقَامَ فِي رُكُوعِهِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَامَ فَقَرَأَ بِأُمِّ الْقُرْآنِ وَنَحْوًا مِنْ سُورَةِ النِّسَاءِ ثُمَّ رَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلًا نَحْوًا مِنْ قِرَاءَتِهِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ بِتَكْبِيرٍ وَثَبَتَ قَائِمًا، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَرَأَ نَحْوًا مِنْ سُورَةِ الْمَائِدَةِ ثُمَّ رَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلًا نَحْوًا مِنْ قِرَاءَتِهِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ رَفَعَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ سَجَدَ سَجْدَتَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ تَشَهَّدَ وَسَلَّمَ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৫৬২
سفرکا بیان
نماز کسوف میں قرأت کیسے کی جائے
سمرہ بن جندب (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ہمیں گرہن کی نماز پڑھائی تو ہم آپ کی آواز نہیں سن پا رہے تھے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- سمرہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں ام المؤمنین عائشہ (رض) سے بھی روایت ہے، ٣- بعض اہل علم اسی طرف گئے ہیں۔ اور یہی شافعی کا بھی قول ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصلاة ٢٦٢ (١١٨٤) ، (فی سیاق طویل) ، سنن النسائی/الکسوف ١٥ (١٤٨٥) ، و ١٩ (١٤٩٦) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٥٢ (١٢٦٤) ، ( تحفة الأشراف : ٤٥٧٣) (ضعیف) (سند میں ” ثعلبہ “ لین الحدیث ہیں) وضاحت : ١ ؎ : ایک تو یہ حدیث ضعیف ہے ، دوسرے آواز نہیں سننا اس لیے بھی ہوسکتا ہے کہ سمرہ (رض) آپ ﷺ سے دور کھڑے ہوں۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف، ابن ماجة (1264) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (260) ، المشکاة (1490) ، ضعيف أبي داود (253 / 1184) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 562
حدیث نمبر: 562 حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ الْأَسْوَدِ بْنِ قَيْسٍ، عَنْ ثَعْلَبَةَ بْنِ عِبَادٍ، عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدَبٍ، قَالَ:‏‏‏‏ صَلَّى بِنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي كُسُوفٍ لَا نَسْمَعُ لَهُ صَوْتًا . قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ حَدِيثُ سَمُرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ ذَهَبَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ إِلَى هَذَا، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৫৬৩
سفرکا بیان
نماز کسوف میں قرأت کیسے کی جائے
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے گرہن کی نماز پڑھی اور اس میں آپ نے بلند آواز سے قرأت کی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- ابواسحاق فزاری نے بھی اسے سفیان بن حسین سے اسی طرح روایت کیا ہے، ٣- اور اسی حدیث کے مطابق مالک بن انس، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف، ( تحفة الأشراف : ١٦٤٢٨) ، وأخرجہ البخاري (في الکسوف ١٩، تعلیقا) ، و سنن ابی داود/ الصلاة ٢٦٣ (١١٨٨) نحوہ من طریق الأوزاعي عن الزھري (صحیح) (متابعت کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ اس کے راوی سفیان بن حسین امام زہری سے روایت میں ضعیف ہیں۔ دیکھیے صحیح أبی داود : ١٠٧٤) قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (1074) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 563
حدیث نمبر: 563 حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ أَبَانَ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ صَدَقَةَ، عَنْ سُفْيَانَ بْنِ حُسَيْنٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْعَائِشَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى صَلَاةَ الْكُسُوفِ وَجَهَرَ بِالْقِرَاءَةِ فِيهَا . قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَرَوَاهُ أَبُو إِسْحَاق الْفَزَارِيُّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سُفْيَانَ بْنِ حُسَيْنٍ نَحْوَهُ. وَبِهَذَا الْحَدِيثِ يَقُولُ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، ‏‏‏‏‏‏وَأَحْمَدُ، ‏‏‏‏‏‏وَإِسْحَاق.
tahqiq

তাহকীক: