আল জামিউল কাবীর- ইমাম তিরমিযী রহঃ (উর্দু)
الجامع الكبير للترمذي
زکوۃ کا بیان - এর পরিচ্ছেদসমূহ
মোট হাদীস ২০ টি
হাদীস নং: ৬১৬
زکوۃ کا بیان
زکوة نہ دینے پر رسول اللہ ﷺ سے منقول وعید
 ابوذر (رض) کہتے ہیں کہ  میں رسول اللہ  ﷺ  کے پاس آیا، آپ کعبہ کے سائے میں بیٹھے تھے آپ نے مجھے آتا دیکھا تو فرمایا :  رب کعبہ کی قسم ! قیامت کے دن یہی لوگ خسارے میں ہوں گے   ٢ ؎ میں نے اپنے جی میں کہا : شاید کوئی چیز میرے بارے میں نازل کی گئی ہو۔ میں نے عرض کیا : کون لوگ ؟ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں ؟ تو رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا :  یہی لوگ جو بہت مال والے ہیں سوائے ان لوگوں کے جو ایسا ایسا کرے، آپ نے اپنے دونوں ہاتھ سے لپ بھر کر اپنے سامنے اور اپنے دائیں اور اپنے بائیں طرف اشارہ کیا، پھر فرمایا :  قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، جو بھی آدمی اونٹ اور گائے چھوڑ کر مرا اور اس نے اس کی زکاۃ ادا نہیں کی تو قیامت کے دن وہ اس سے زیادہ بھاری اور موٹے ہو کر آئیں گے جتنا وہ تھے  ٣ ؎ اور اسے اپنی کھروں سے روندیں گے، اور اپنی سینگوں سے ماریں گے، جب ان کا آخری جانور بھی گزر چکے گا تو پھر پہلا لوٹا دیا جائے گا  ٤ ؎ یہاں تک کہ لوگوں کے درمیان فیصلہ کردیا جائے۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١- ابوذر (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے،  ٢- اس باب میں ابوہریرہ (رض) سے بھی اسی کے مثل روایت ہے،  ٣- علی (رض) سے مروی ہے کہ زکاۃ روک لینے والے پر لعنت کی گئی ہے  ٥ ؎،  ٤-  ( یہ حدیث)  قبیصہ بن ہلب نے اپنے والد ہلب سے روایت کی ہے، نیز جابر بن عبداللہ اور عبداللہ بن مسعود (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ 
حدیث نمبر: 617  حَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ التَّمِيمِيُّ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ الْمَعْرُورِ بْنِ سُوَيْدٍ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، قَالَ: جِئْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ جَالِسٌ فِي ظِلِّ الْكَعْبَةِ، قَالَ: فَرَآنِي مُقْبِلًا، فَقَالَ:  هُمُ الْأَخْسَرُونَ وَرَبِّ الْكَعْبَةِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ  قَالَ: فَقُلْتُ: مَا لِي لَعَلَّهُ أُنْزِلَ فِيَّ شَيْءٌ، قَالَ: قُلْتُ: مَنْ هُمْ فِدَاكَ أَبِي وَأُمِّي، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:  هُمُ الْأَكْثَرُونَ إِلَّا مَنْ قَالَ: هَكَذَا وَهَكَذَا وَهَكَذَا ، فَحَثَا بَيْنَ يَدَيْهِ وَعَنْ يَمِينِهِ وَعَنْ شِمَالِهِ، ثُمَّ قَالَ:  وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَا يَمُوتُ رَجُلٌ فَيَدَعُ إِبِلًا أَوْ بَقَرًا لَمْ يُؤَدِّ زَكَاتَهَا، إِلَّا جَاءَتْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْظَمَ مَا كَانَتْ وَأَسْمَنَهُ، تَطَؤُهُ بِأَخْفَافِهَا وَتَنْطَحُهُ بِقُرُونِهَا، كُلَّمَا نَفِدَتْ أُخْرَاهَا عَادَتْ عَلَيْهِ أُولَاهَا حَتَّى يُقْضَى بَيْنَ النَّاسِ . وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ مِثْلُهُ، وَعَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ:  لُعِنَ مَانِعُ الصَّدَقَةِ  وَعَنْ قَبِيصَةَ بْنِ هُلْبٍ، عَنْ أَبِيهِ وَجَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي ذَرٍّ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَاسْمُ أَبِي ذَرٍّ جُنْدَبُ بْنُ السَّكَنِ وَيُقَالُ ابْنُ جُنَادَةَ  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৬১৭
زکوۃ کا بیان
N/A
میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، آپ کعبہ کے سائے میں بیٹھے تھے آپ نے مجھے آتا دیکھا تو فرمایا: ”رب کعبہ کی قسم! قیامت کے دن یہی لوگ خسارے میں ہوں گے“ ۲؎ میں نے اپنے جی میں کہا: شاید کوئی چیز میرے بارے میں نازل کی گئی ہو۔ میں نے عرض کیا: کون لوگ؟ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہی لوگ جو بہت مال والے ہیں سوائے ان لوگوں کے جو ایسا ایسا کرے، آپ نے اپنے دونوں ہاتھ سے لپ بھر کر اپنے سامنے اور اپنے دائیں اور اپنے بائیں طرف اشارہ کیا، پھر فرمایا: ”قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، جو بھی آدمی اونٹ اور گائے چھوڑ کر مرا اور اس نے اس کی زکاۃ ادا نہیں کی تو قیامت کے دن وہ اس سے زیادہ بھاری اور موٹے ہو کر آئیں گے جتنا وہ تھے ۳؎ اور اسے اپنی کھروں سے روندیں گے، اور اپنی سینگوں سے ماریں گے، جب ان کا آخری جانور بھی گزر چکے گا تو پھر پہلا لوٹا دیا جائے گا ۴؎ یہاں تک کہ لوگوں کے درمیان فیصلہ کر دیا جائے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوذر رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابوہریرہ رضی الله عنہ سے بھی اسی کے مثل روایت ہے، ۳- علی رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ زکاۃ روک لینے والے پر لعنت کی گئی ہے ۵؎، ۴- ( یہ حدیث ) قبیصہ بن ہلب نے اپنے والد ہلب سے روایت کی ہے، نیز جابر بن عبداللہ اور عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔ ۵- ضحاک بن مزاحم کہتے ہیں کہ «الأكثرون» سے مراد وہ لوگ ہیں جن کے پاس دس ہزار ( درہم یا دینار ) ہوں۔
حَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ التَّمِيمِيُّ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ الْمَعْرُورِ بْنِ سُوَيْدٍ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، قَالَ: جِئْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ جَالِسٌ فِي ظِلِّ الْكَعْبَةِ، قَالَ: فَرَآنِي مُقْبِلًا، فَقَالَ: هُمُ الْأَخْسَرُونَ وَرَبِّ الْكَعْبَةِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ قَالَ: فَقُلْتُ: مَا لِي لَعَلَّهُ أُنْزِلَ فِيَّ شَيْءٌ، قَالَ: قُلْتُ: مَنْ هُمْ فِدَاكَ أَبِي وَأُمِّي، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: هُمُ الْأَكْثَرُونَ إِلَّا مَنْ قَالَ: هَكَذَا وَهَكَذَا وَهَكَذَا ، فَحَثَا بَيْنَ يَدَيْهِ وَعَنْ يَمِينِهِ وَعَنْ شِمَالِهِ، ثُمَّ قَالَ: وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَا يَمُوتُ رَجُلٌ فَيَدَعُ إِبِلًا أَوْ بَقَرًا لَمْ يُؤَدِّ زَكَاتَهَا، إِلَّا جَاءَتْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْظَمَ مَا كَانَتْ وَأَسْمَنَهُ، تَطَؤُهُ بِأَخْفَافِهَا وَتَنْطَحُهُ بِقُرُونِهَا، كُلَّمَا نَفِدَتْ أُخْرَاهَا عَادَتْ عَلَيْهِ أُولَاهَا حَتَّى يُقْضَى بَيْنَ النَّاسِ . وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ مِثْلُهُ، وَعَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: لُعِنَ مَانِعُ الصَّدَقَةِ وَعَنْ قَبِيصَةَ بْنِ هُلْبٍ، عَنْ أَبِيهِ وَجَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي ذَرٍّ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَاسْمُ أَبِي ذَرٍّ جُنْدَبُ بْنُ السَّكَنِ وَيُقَالُ ابْنُ جُنَادَةَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُنِيرٍ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ مُوسَى عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ عَنْ حَكِيمِ بْنِ الدَّيْلَمِ عَنْ الضَّحَّاكِ بْنِ مُزَاحِمٍ، قَالَ: الْأَكْثَرُونَ أَصْحَابُ عَشَرَةِ آلَافٍ ، قَالَ: وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُنِيرٍ مَرْوَزِيٌّ رَجُلٌ صَالِحٌ.

তাহকীক:
হাদীস নং: ৬১৮
زکوۃ کا بیان
زکوة کی ادائیگی سے کا فرض ادا ہونا
 ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ  نبی اکرم  ﷺ  نے فرمایا :  جب تم نے اپنے مال کی زکاۃ ادا کردی تو جو تمہارے ذمہ فریضہ تھا اسے تم نے ادا کردیا  ١ ؎۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے،  ٢- نبی اکرم  ﷺ  سے دوسری اور سندوں سے بھی مروی ہے کہ آپ نے زکاۃ کا ذکر کیا، تو ایک شخص نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کیا میرے اوپر اس کے علاوہ بھی کچھ ہے ؟ آپ نے فرمایا :  نہیں سوائے اس کے کہ تم بطور نفل کچھ دو   (یہ حدیث آگے آرہی ہے) ۔    تخریج دارالدعوہ :  سنن ابن ماجہ/الزکاة ٣ (١٧٨٨) ،  ( تحفة الأشراف  :  ١٣٥٩١) (حسن) (دیکھئے ” تراجع الالبانی “ حدیث رقم : ٩٩)    وضاحت :  ١ ؎ : یعنی مال کے حق میں سے تمہارے اوپر مزید کوئی اور ضروری حق نہیں کہ اس کے نکالنے کا تم سے مطالبہ کیا جائے ، رہے صدقہ فطر اور دوسرے ضروری نفقات تو یہ مال کے حقوق میں سے نہیں ہیں ، ان کے وجوب کا سبب نفس مال نہیں بلکہ دوسری وقتی چیزیں ہیں مثلاً قرابت اور زوجیت وغیرہ بعض نے کہا کہ ان واجبات کا وجوب زکاۃ کے بعد ہوا ہے اس لیے ان سے اس پر اعتراض درست نہیں۔    قال الشيخ الألباني :  ضعيف، ابن ماجة (1788) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (396) ، ضعيف الجامع الصغير (312) //   صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 618  
حدیث نمبر: 618  حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ الشَّيْبَانِيُّ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ، عَنْ دَرَّاجٍ، عَنْابْنِ حُجَيْرَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:  إِذَا أَدَّيْتَ زَكَاةَ مَالِكَ فَقَدْ قَضَيْتَ مَا عَلَيْكَ . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَقَدْ رُوِيَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ أَنَّهُ ذَكَرَ الزَّكَاةَ، فَقَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ هَلْ عَلَيَّ غَيْرُهَا ؟ فَقَالَ:  لَا إِلَّا أَنْ تَتَطَوَّعَ . وَابْنُ حُجَيْرَةَ هُوَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ حُجَيْرَةَ الْمَصْرِيُّ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৬১৯
زکوۃ کا بیان
زکوة کی ادائیگی سے فرض ادا ہونا
 انس (رض) کہتے ہیں کہ  ہم لوگوں کی خواہش ہوتی تھی کہ کوئی عقلمند اعرابی  (دیہاتی)  آئے اور نبی اکرم  ﷺ  سے مسئلہ پوچھے اور ہم آپ کے پاس ہوں  ١ ؎ ہم آپ کے پاس تھے کہ اسی دوران آپ کے پاس ایک اعرابی آیا  ٢ ؎ اور آپ  ﷺ  کے سامنے دو زانو ہو کر بیٹھ گیا۔ اور پوچھا : اے محمد ! آپ کا قاصد ہمارے پاس آیا اور اس نے ہمیں بتایا کہ آپ کہتے ہیں کہ آپ کو اللہ نے رسول بنا کر بھیجا ہے  (کیا یہ صحیح ہے ؟ ) ۔ نبی اکرم  ﷺ  نے فرمایا :  ہاں، یہ صحیح ہے ، اس نے کہا : قسم ہے اس ذات کی جس نے آسمان بلند کیا، زمین اور پہاڑ نصب کئے۔ کیا اللہ نے آپ کو رسول بنا کر بھیجا ہے ؟ نبی اکرم  ﷺ  نے فرمایا :  ہاں ، اس نے کہا : آپ کا قاصد ہم سے کہتا ہے کہ آپ فرماتے ہیں : ہم پر دن اور رات میں پانچ صلاۃ فرض ہیں  (کیا ایسا ہے ؟ ) ، نبی اکرم  ﷺ  نے فرمایا :  ہاں ، اس نے کہا : قسم ہے اس ذات کی، جس نے آپ کو رسول بنایا ہے ! کیا آپ کو اللہ نے اس کا حکم دیا ہے ؟ آپ نے فرمایا :  ہاں ، اس نے کہا : آپ کا قاصد کہتا ہے کہ آپ فرماتے ہیں : ہم پر سال میں ایک ماہ کے صیام فرض ہیں  (کیا یہ صحیح ہے ؟ ) ، نبی اکرم  ﷺ  نے فرمایا :  ہاں وہ  (سچ کہہ رہا ہے)  اعرابی نے مزید کہا : قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو رسول بنا کر بھیجا ہے کیا اللہ نے آپ کو اس کا حکم دیا ہے ؟ نبی اکرم  ﷺ  نے فرمایا :  ہاں  (دیا ہے) ، اس نے کہا : آپ کا قاصد کہتا ہے کہ آپ فرماتے ہیں : ہم پر ہمارے مالوں میں زکاۃ واجب ہے  (کیا یہ صحیح ہے ؟ ) ، نبی اکرم  ﷺ  نے فرمایا :  ہاں  (اس نے سچ کہا) ۔ اس نے کہا : قسم ہے اس ذات کی، جس نے آپ کو رسول بنا کر بھیجا ہے، کیا اللہ نے آپ کو اس کا حکم دیا ہے ؟ نبی اکرم  ﷺ  نے فرمایا : ہاں،  (دیا ہے)  اس نے کہا : آپ کا قاصد کہتا ہے کہ آپ فرماتے ہیں : ہم میں سے ہر اس شخص پر بیت اللہ کا حج فرض ہے جو وہاں تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو  (کیا یہ سچ ہے ؟ ) ، نبی اکرم  ﷺ  نے فرمایا :  ہاں،  (حج فرض ہے)  اس نے کہا : قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو رسول بنا کر بھیجا ہے، کیا اللہ نے آپ کو اس کا حکم دیا ہے ؟ نبی اکرم  ﷺ  نے فرمایا :  ہاں  (دیا ہے)  تو اس نے کہا : قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا : میں ان میں سے کوئی چیز نہیں چھوڑوں گا اور نہ میں اس میں کسی چیز کا اضافہ کروں گا  ٣ ؎، پھر یہ کہہ کر وہ واپس چل دیا تب نبی اکرم  ﷺ  نے فرمایا :  اگر اعرابی نے سچ کہا ہے تو وہ جنت میں داخل ہوگا ۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١- یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے، اور اس سند کے علاوہ دوسری سندوں سے بھی یہ حدیث انس (رض) نے نبی اکرم  ﷺ  سے روایت کی ہے،  ٢- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو سنا : وہ کہہ رہے تھے کہ بعض اہل علم فرماتے ہیں : اس حدیث سے یہ بات نکلتی ہے کہ شاگرد کا استاذ کو پڑھ کر سنانا استاذ سے سننے ہی کی طرح ہے  ٤ ؎ انہوں نے استدلال اس طرح سے کیا ہے کہ اعرابی نے نبی اکرم  ﷺ  کو معلومات پیش کیں تو نبی اکرم  ﷺ  نے اس کی تصدیق فرمائی۔    تخریج دارالدعوہ :  صحیح البخاری/العلم ٦ (تعلیقا عقب حدیث رقم : ٦٣) ، صحیح مسلم/الإیمان ٣ (١٢) ، سنن النسائی/الزکاة ١ (٢٠٩٣) ،  ( تحفة الأشراف : ٤٠٤) ، مسند احمد (٣/١٤٣، ١٩٣) ، سنن الدارمی/الطہارة ١ (٦٥٦) (صحیح)    وضاحت :  ١ ؎ : کیونکہ ہمیں سورة المائدہ میں نبی اکرم  ﷺ  سے سوال کرنے سے روک دیا گیا تھا ، اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ کوئی ایسا چالاک اعرابی آئے جسے اس ممانعت کا علم نہ ہو اور وہ آ کر آپ سے سوال کرے۔  ٢ ؎ : اس اعرابی کا نام ضمام بن ثعلبہ تھا۔  ٣ ؎ : اس اعتقاد کے ساتھ کہ یہ فرض ہے ، مسلم کی روایت میں «والذي بالحق لا أزيد عليهن ولا أنقص» کے الفاظ آئے ہیں۔  ٤ ؎ : یعنی «سماع من لفظ الشیخ» کی طرح «القراءۃ علی الشیخ» ( استاذ کے پاس شاگرد کا پڑھنا  )  بھی جائز ہے ، مولف نے اس کے ذریعہ اہل عراق کے ان متشددین کی تردید کی ہے جو یہ کہتے تھے کہ «قراءۃ علی الشیخ» جائز نہیں ، صحیح یہ ہے کہ دونوں جائز ہیں البتہ اخذ حدیث کے طریقوں میں سب سے اعلیٰ طریقہ «سماع من لفظ الشیخ» (استاذ کی زبان سے سننے  )  کا ہے ، اس طریقے میں استاذ اپنی مرویات اپنے حافظہ سے یا اپنی کتاب سے خود روایت کرتا ہے اور طلبہ سنتے ہیں اور شاگرد اسے روایت کرتے وقت «سمعت ، سمعنا ، حدثنا ، حدثني ، أخبرنا ، أخبرني ، أنبأنا ، أنبأني» کے صیغے استعمال کرتا ہے ، اس کے برخلاف «قراءۃ علی الشیخ» (استاذ پر پڑھنے  )  کے طریقے میں شاگرد شیخ کو اپنے حافظہ سے یا کتاب سے پڑھ کر سناتا ہے اس کا دوسرا نام عرض بھی ہے اس صورت میں شاگرد «قرأت علی فلان» يا «قري علی فلان وأنا أسمع» ، يا «حدثنا فلان قرائة عليه» کہہ کر روایت کرتا ہے۔    قال الشيخ الألباني :  صحيح تخريج إيمان ابن أبي شيبة (4 / 5)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 619  
حدیث نمبر: 619  حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ الْحَمِيدِ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: كُنَّا نَتَمَنَّى أَنْ يَأْتِيَ الْأَعْرَابِيُّ الْعَاقِلُ، فَيَسْأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ عِنْدَهُ، فَبَيْنَا نَحْنُ كَذَلِكَ إِذْ أَتَاهُ أَعْرَابِيٌّ فَجَثَا بَيْنَ يَدَيِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ إِنَّ رَسُولَكَ أَتَانَا فَزَعَمَ لَنَا أَنَّكَ تَزْعُمُ أَنَّ اللَّهَ أَرْسَلَكَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:  نَعَمْ ، قَالَ: فَبِالَّذِي رَفَعَ السَّمَاءَ وَبَسَطَ الْأَرْضَ وَنَصَبَ الْجِبَالَ آللَّهُ أَرْسَلَكَ ؟ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:  نَعَمْ ، قَالَ: فَإِنَّ رَسُولَكَ زَعَمَ لَنَا أَنَّكَ تَزْعُمُ أَنَّ عَلَيْنَا خَمْسَ صَلَوَاتٍ فِي الْيَوْمِ وَاللَّيْلَةِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:  نَعَمْ ، قَالَ: فَبِالَّذِي أَرْسَلَكَ آللَّهُ أَمَرَكَ بِهَذَا ؟ قَالَ:  نَعَمْ ، قَالَ: فَإِنَّ رَسُولَكَ زَعَمَ لَنَا أَنَّكَ تَزْعُمُ أَنَّ عَلَيْنَا صَوْمَ شَهْرٍ فِي السَّنَةِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:  صَدَقَ ، قَالَ: فَبِالَّذِي أَرْسَلَكَ آللَّهُ أَمَرَكَ بِهَذَا ؟ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:  نَعَمْ ، قَالَ: فَإِنَّ رَسُولَكَ زَعَمَ لَنَا أَنَّكَ تَزْعُمُ أَنَّ عَلَيْنَا فِي أَمْوَالِنَا الزَّكَاةَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:  صَدَقَ ، قَالَ: فَبِالَّذِي أَرْسَلَكَ آللَّهُ أَمَرَكَ بِهَذَا ؟ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:  نَعَمْ ، قَالَ: فَإِنَّ رَسُولَكَ زَعَمَ لَنَا أَنَّكَ تَزْعُمُ أَنَّ عَلَيْنَا الْحَجَّ إِلَى الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:  نَعَمْ ، قَالَ: فَبِالَّذِي أَرْسَلَكَ آللَّهُ أَمَرَكَ بِهَذَا ؟ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:  نَعَمْ ، فَقَالَ: وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ لَا أَدَعُ مِنْهُنَّ شَيْئًا وَلَا أُجَاوِزُهُنَّ، ثُمَّ وَثَبَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:  إِنْ صَدَقَ الْأَعْرَابِيُّ دَخَلَ الْجَنَّةَ . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ عَنْ أَنَسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، سَمِعْت مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَاعِيل، يَقُولُ: قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: فِقْهُ هَذَا الْحَدِيثِ أَنَّ الْقِرَاءَةَ عَلَى الْعَالِمِ وَالْعَرْضَ عَلَيْهِ جَائِزٌ مِثْلُ السَّمَاعِ. وَاحْتَجَّ بِأَنَّ الْأَعْرَابِيَّ عَرَضَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَقَرَّ بِهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৬২০
زکوۃ کا بیان
سونے اور چاندی پر زکوة
 علی (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا :  میں نے گھوڑوں اور غلاموں کی زکاۃ معاف کردی ہے  ١ ؎ تو اب تم چاندی کی زکاۃ ادا کرو  ٢ ؎، ہر چالیس درہم پر ایک درہم، ایک سو نوے درہم میں کچھ نہیں ہے، جب دو سو درہم ہوجائیں تو ان میں پانچ درہم ہیں  ٣ ؎۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١- اعمش اور ابو عوانہ، وغیرہم نے بھی یہ حدیث بطریق : «أبي إسحاق عن عاصم بن ضمرة عن علي» روایت کی ہے، اور سفیان ثوری، سفیان بن عیینہ اور دیگر کئی لوگوں نے بھی بطریق : «أبي إسحاق عن الحارث عن علي» روایت کی ہے،  ٢- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا : ابواسحاق سبیعی سے مروی یہ دونوں حدیثیں میرے نزدیک صحیح ہیں، احتمال ہے کہ یہ حارث اور عاصم دونوں سے ایک ساتھ روایت کی گئی ہو  (تو ابواسحاق نے اسے دونوں سے روایت کیا ہو)   ٣- اس باب میں ابوبکر صدیق اور عمرو بن حزم سے بھی احادیث آئی ہیں۔    تخریج دارالدعوہ :  سنن ابی داود/ الزکاة ٥ (١٥٧١، ١٥٧٤) ، سنن النسائی/الزکاة ١٨ (٢٤٧٩، ٢٤٨٠) ،  ( تحفة الأشراف : ١٠١٣٦) ، مسند احمد (١١٣١، ١٤٨) ، سنن الدارمی/الزکاة ٧ (١٦٦٩) (صحیح) وأخرجہ : سنن ابن ماجہ/الزکاة ٤ (١٧٩٠) ، مسند احمد (١/١٢١، ١٣٢) ، ١٤٦ من طریق الحارث عنہ  ( تحفة الأشراف : ١٠٠٣٩)    وضاحت :  ١ ؎ : جب وہ تجارت کے لیے نہ ہوں۔  ٢ ؎ : «رقہ» خالص چاندی کو کہتے ہیں خواہ وہ ڈھلی ہو یا غیر ڈھلی۔  ٣ ؎ : اس سے معلوم ہوا کہ چاندی کا نصاب دو سو درہم ہے اس سے کم چاندی میں زکاۃ نہیں۔    قال الشيخ الألباني :  صحيح، ابن ماجة (1790)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 620  
حدیث نمبر: 620  حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي الشَّوَارِبِ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَةَ، عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:  قَدْ عَفَوْتُ عَنْ صَدَقَةِ الْخَيْلِ وَالرَّقِيقِ، فَهَاتُوا صَدَقَةَ الرِّقَةِ مِنْ كُلِّ أَرْبَعِينَ دِرْهَمًا دِرْهَمًا، وَلَيْسَ فِي تِسْعِينَ وَمِائَةٍ شَيْءٌ، فَإِذَا بَلَغَتْ مِائَتَيْنِ فَفِيهَا خَمْسَةُ دَرَاهِمَ . وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ، وَعَمْرِو بْنِ حَزْمٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ الْأَعْمَشُ، وَأَبُو عَوَانَةَ وَغَيْرُهُمَا، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَةَ، عَنْ عَلِيٍّ، وَرَوَى سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، وَابْنُ عُيَيْنَةَ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ الْحَارِثِ، عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ: وَسَأَلْتُ مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَاعِيل عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ، فَقَالَ: كِلَاهُمَا عِنْدِي صَحِيحٌ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق يُحْتَمَلُ أَنْ يَكُونَ رُوِيَ عَنْهُمَا جَمِيعًا.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৬২১
زکوۃ کا بیان
اونٹ اور بکریوں کی زکوة
 عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے زکاۃ کی دستاویز تحریر کرائی، ابھی اسے عمال کے پاس روانہ بھی نہیں کرسکے تھے کہ آپ کی وفات ہوگئی، اور اسے آپ نے اپنی تلوار کے پاس رکھ دیا  ١ ؎، آپ وفات فرما گئے تو ابوبکر (رض) اس پر عمل پیرا رہے یہاں تک کہ وہ بھی فوت ہوگئے، ان کے بعد عمر (رض) بھی اسی پر عمل پیرا رہے، یہاں تک کہ وہ بھی فوت ہوگئے، اس کتاب میں تحریر تھا :  پانچ اونٹوں میں، ایک بکری زکاۃ ہے۔ دس میں دو بکریاں، پندرہ میں تین بکریاں اور بیس میں چار بکریاں ہیں۔ پچیس سے لے کر پینتیس تک میں ایک سال کی اونٹنی کی زکاۃ ہے، جب اس سے زیادہ ہوجائیں تو پینتالیس تک میں دو سال کی اونٹنی کی زکاۃ ہے۔ اور جب اس سے زیادہ ہوجائیں تو ساٹھ تک میں تین سال کی ایک اونٹنی کی زکاۃ ہے۔ اور جب اس سے زیادہ ہوجائیں تو پچہتر تک میں چار سال کی ایک اونٹنی کی زکاۃ ہے اور جب اس سے زیادہ ہوجائیں تو نوے تک میں دو سال کی دو اونٹوں کی زکاۃ ہے۔ اور جب اس سے زیادہ ہوجائیں تو ان میں ایک سو بیس تک تین سال کی دو اونٹوں کی زکاۃ ہے۔ جب ایک سو بیس سے زائد ہوجائیں تو ہر پچاس میں تین سال کی ایک اونٹنی اور ہر چالیس میں دو سال کی ایک اونٹنی زکاۃ میں دینی ہوگی۔ اور بکریوں کے سلسلہ میں اس طرح تھا : چالیس بکریوں میں ایک بکری کی زکاۃ ہے، ایک سو بیس تک، اور جب اس سے زیادہ ہوجائیں تو دو سو تک میں دو بکریوں کی زکاۃ ہے، اور جب اس سے زیادہ ہوجائیں تو تین سو تک میں تین بکریوں کی زکاۃ ہے۔ اور جب تین سو سے زیادہ ہوجائیں تو پھر ہر سو پر ایک بکری کی زکاۃ ہے۔ پھر اس میں کچھ نہیں یہاں تک کہ وہ چار سو کو پہنچ جائیں، اور  (زکاۃ والے)  متفرق  (مال)  کو جمع نہیں کیا جائے گا  ٢ ؎ اور جو مال جمع ہو اسے صدقے کے خوف سے متفرق نہیں کیا جائے گا  ٣ ؎ اور جن میں دو ساجھی دار ہوں  ٤ ؎ تو وہ اپنے اپنے حصہ کی شراکت کے حساب سے دیں گے۔ صدقے میں کوئی بوڑھا اور عیب دار جانور نہیں لیا جائے گا ۔ زہری کہتے ہیں : جب صدقہ وصول کرنے والا آئے تو وہ بکریوں کو تین حصوں میں تقسیم کرے، پہلی تہائی بہتر قسم کی ہوگی، دوسری تہائی اوسط درجے کی اور تیسری تہائی خراب قسم کی ہوگی، پھر صدقہ وصول کرنے والا اوسط درجے والی بکریوں میں سے لے۔ زہری نے گائے کا ذکر نہیں کیا۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١- ابن عمر کی حدیث حسن ہے،  ٢- یونس بن یزید اور دیگر کئی لوگوں نے بھی یہ حدیث زہری سے، اور زہری نے سالم سے روایت کی ہے، اور ان لوگوں نے اسے مرفوع بیان نہیں کیا۔ صرف سفیان بن حسین ہی نے اسے مرفوعاً روایت کیا ہے،  ٣- اور اسی پر عام فقہاء کا عمل ہے،  ٤- اس باب میں ابوبکر صدیق بہز بن حکیم عن أبیہ عن جدہ معاویۃ بن حیدۃ قشیری ہے ابوذر اور انس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔    تخریج دارالدعوہ :  صحیح البخاری/الزکاة ٣٤ تعلیقا عقب الحدیث (رقم : ١٤٥٠) ، سنن ابی داود/ الزکاة ٤ (١٥٦٨) ، سنن ابن ماجہ/الزکاة ٩ (١٧٩٨) ،  ( تحفة الأشراف : ٦٨١٣) ، سنن الدارمی/الزکاة ٦ (١٦٦٦) (صحیح) (سند میں سفیان بن حسین ثقہ راوی ہیں، لیکن ابن شہاب زہری سے روایت میں کلام ہے، لیکن متابعات وشواہد کی بنا پر یہ حدیث بھی صحیح ہے)    وضاحت :  ١ ؎ : اس کا مطلب یہ ہوا کہ نبی اکرم  ﷺ  کی حیات طیبہ میں ہی قرآن کی طرح  کتابت حدیث  کا عمل شروع ہوگیا تھا ، بیسیوں صحیح روایات سے ثابت ہے کہ رسول اللہ  ﷺ  نے  ( قرآن کے علاوہ  )  اپنے ارشادات وفرامین اور احکام خود بھی تحریر کرائے اور بیس صحابہ کرام (رض) اجمعین کو احادیث مبارکہ لکھنے کی اجازت بھی دے رکھی تھی۔  ( تفصیل کے لیے کتاب العلم عن رسول  ﷺ  کے باب «ما جاء فی رخصۃ کتابۃ العلم» میں دیکھ لیں۔  ٢ ؎ : یہ حکم جانوروں کے مالکوں اور محصّلین زکاۃ دونوں کے لیے ہے ، متفرق کو جمع کرنے کی صورت یہ ہے کہ مثلاً تین آدمیوں کی چالیس بکریاں الگ الگ رہنے کی صورت میں ہر ایک پر ایک ایک بکری کی زکاۃ واجب ہو ، جب زکاۃ لینے والا آئے تو تینوں نے زکاۃ کے ڈر سے اپنی اپنی بکریوں کو یکجا کردیا تاکہ ایک ہی بکری دینی پڑے۔  ٣ ؎ : اس کی تفسیر یہ ہے کہ مثلاً دو ساجھی دار ہیں ہر ایک کی ایک سو ایک بکریاں ہیں کل ملا کر دو سو دو بکریاں ہوئیں ، ان میں تین بکریوں کی زکاۃ ہے ، جب زکاۃ لینے والا آیا تو ان دونوں نے اپنی اپنی بکریاں الگ الگ کرلیں تاکہ ایک ایک واجب ہو ایسا کرنے سے منع کیا گیا ہے۔  ٤ ؎ : مثلاً دو شریک ہیں ، ایک کی ایک ہزار بکریاں ہیں اور دوسرے کی صرف چالیس بکریاں ، اس طرح کل ایک ہزار چالیس بکریاں ہوئیں زکاۃ وصول کرنے والا آیا اور اس نے دس بکریاں زکاۃ میں لے لیں ، فرض کیجئیے ہر بکری کی قیمت چھبیس چھبیس روپے ہے ، اس طرح ان کی مجموعی قیمت دو سو ساٹھ روپے ہوئی جس میں دس روپے اس شخص کے ذمہ ہوں گے جس کی چالیس بکریاں ہیں اور دو سو پچاس روپے اس پر ہوں گے جس کی ایک ہزار بکریاں ہیں ، کیونکہ ایک ہزار چالیس کے چھبیس چالی سے بنتے ہیں جس میں سے ایک چالیسہ کی زکاۃ چالیس بکریوں والے پر ہوگی اور ٢٥ چالیسوں کی زکاۃ ایک ہزار بکریوں والے پر ہوگی اب اگر زکاۃ وصول کرنے والے نے چالیس بکریوں والے شخص کی بکریوں سے دس بکریاں زکاۃ میں لی ہیں جن کی مجموعی قیمت دو سو ساٹھ روپے بنتی ہے تو ہزار بکریوں والا اسے ڈھائی سو روپئے واپس کرے گا اور اگر زکاۃ وصول کرنے والے نے ایک ہزار بکریوں والے شخص کی بکریوں میں سے لی ہیں تو چالیس بکریوں والا اسے دس روپیہ واپس کرے گا۔    قال الشيخ الألباني :  صحيح، ابن ماجة (1798)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 621  
حدیث نمبر: 621  حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ الْبَغْدَادِيُّ، وَإِبْرَاهِيمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْهَرَوِيُّ، وَمُحَمَّدُ بْنُ كَامِلٍ الْمَرْوَزِيُّ الْمَعْنَى وَاحِدٌ، قَالُوا: حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ، عَنْ سُفْيَانَ بْنِ حُسَيْنٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ  كَتَبَ كِتَابَ الصَّدَقَةِ، فَلَمْ يُخْرِجْهُ إِلَى عُمَّالِهِ حَتَّى قُبِضَ فَقَرَنَهُ بِسَيْفِهِ  فَلَمَّا قُبِضَ، عَمِلَ بِهِ أَبُو بَكْرٍ حَتَّى قُبِضَ، وَعُمَرُ حَتَّى قُبِضَ، وَكَانَ فِيهِ  فِي خَمْسٍ مِنَ الْإِبِلِ شَاةٌ، وَفِي عَشْرٍ شَاتَانِ، وَفِي خَمْسَ عَشَرَةَ ثَلَاثُ شِيَاهٍ، وَفِي عِشْرِينَ أَرْبَعُ شِيَاهٍ، وَفِي خَمْسٍ وَعِشْرِينَ بِنْتُ مَخَاضٍ إِلَى خَمْسٍ وَثَلَاثِينَ، فَإِذَا زَادَتْ فَفِيهَا ابْنَةُ لَبُونٍ إِلَى خَمْسٍ وَأَرْبَعِينَ، فَإِذَا زَادَتْ فَفِيهَا حِقَّةٌ إِلَى سِتِّينَ، فَإِذَا زَادَتْ فَجَذَعَةٌ إِلَى خَمْسٍ وَسَبْعِينَ، فَإِذَا زَادَتْ فَفِيهَا ابْنَتَا لَبُونٍ إِلَى تِسْعِينَ، فَإِذَا زَادَتْ فَفِيهَا حِقَّتَانِ إِلَى عِشْرِينَ وَمِائَةٍ، فَإِذَا زَادَتْ عَلَى عِشْرِينَ وَمِائَةٍ فَفِي كُلِّ خَمْسِينَ حِقَّةٌ وَفِي كُلِّ أَرْبَعِينَ ابْنَةُ لَبُونٍ، وَفِي الشَّاءِ فِي كُلِّ أَرْبَعِينَ شَاةً شَاةٌ إِلَى عِشْرِينَ وَمِائَةٍ، فَإِذَا زَادَتْ فَشَاتَانِ إِلَى مِائَتَيْنِ، فَإِذَا زَادَتْ فَثَلَاثُ شِيَاهٍ إِلَى ثَلَاثِ مِائَةِ شَاةٍ فَإِذَا زَادَتْ عَلَى ثَلَاثِ مِائَةِ شَاةٍ فَفِي كُلِّ مِائَةِ شَاةٍ شَاةٌ، ثُمَّ لَيْسَ فِيهَا شَيْءٌ حَتَّى تَبْلُغَ أَرْبَعَ مِائَةِ وَلَا يُجْمَعُ بَيْنَ مُتَفَرِّقٍ وَلَا يُفَرَّقُ بَيْنَ مُجْتَمِعٍ مَخَافَةَ الصَّدَقَةِ، وَمَا كَانَ مِنْ خَلِيطَيْنِ فَإِنَّهُمَا يَتَرَاجَعَانِ بِالسَّوِيَّةِ، وَلَا يُؤْخَذُ فِي الصَّدَقَةِ هَرِمَةٌ وَلَا ذَاتُ عَيْبٍ. وقَالَ الزُّهْرِيُّ: إِذَا جَاءَ الْمُصَدِّقُ قَسَّمَ الشَّاءَ أَثْلَاثًا: ثُلُثٌ خِيَارٌ وَثُلُثٌ أَوْسَاطٌ وَثُلُثٌ شِرَارٌ، وَأَخَذَ الْمُصَدِّقُ مِنَ الْوَسَطِ وَلَمْ يَذْكُرْ الزُّهْرِيُّ الْبَقَرَ. وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ، وَبَهْزِ بْنِ حَكِيمٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ وَأَبِي ذَرٍّ، وَأَنَسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ عَامَّةِ الْفُقَهَاءِ، وَقَدْ رَوَى يُونُسُ بْنُ يَزِيدَ وَغَيْرُ وَاحِدٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ بِهَذَا الْحَدِيثِ وَلَمْ يَرْفَعُوهُ، وَإِنَّمَا رَفَعَهُ سُفْيَانُ بْنُ حُسَيْنٍ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৬২২
زکوۃ کا بیان
گائے بیل کی زکوة
 عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ  نبی اکرم  ﷺ  نے فرمایا :  تیس گائے میں ایک سال کا بچھوا، یا ایک سال کی بچھیا کی زکاۃ ہے اور چالیس گایوں میں دو سال کی بچھیا کی زکاۃ ہے  (دانتی یعنی دو دانت والی) ۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١- عبدالسلام بن حرب نے اسی طرح یہ حدیث خصیف سے روایت کی ہے، اور عبدالسلام ثقہ ہیں حافظ ہیں،  ٢- شریک نے بھی یہ حدیث بطریق : «خصيف عن أبي عبيدة عن أمه عن عبد الله» روایت کی ہے،  ٣- اور ابوعبیدہ بن عبداللہ کا سماع اپنے والد عبداللہ سے نہیں ہے۔  ٤- اس باب میں معاذ بن جبل (رض) سے بھی روایت ہے۔    تخریج دارالدعوہ :  سنن ابن ماجہ/الزکاة ١٢ (١٨٠٤) ،  ( تحفة الأشراف : ٩٦٠٦) (صحیح) (شواہد کی بنا پر یہ حدیث بھی صحیح لغیرہ ہے، ورنہ خصیف حافظہ کے ضعیف ہیں، اور ابو عبیدة کا اپنے باپ ابن مسعود (رض) سے سماع نں یو ہے)    قال الشيخ الألباني :  صحيح، ابن ماجة (1804)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 622  
حدیث نمبر: 622  حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ الْمُحَارِبِيُّ، وَأَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ، قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلَامِ بْنُ حَرْبٍ، عَنْ خُصَيْفٍ، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:  فِي ثَلَاثِينَ مِنَ الْبَقَرِ تَبِيعٌ أَوْ تَبِيعَةٌ وَفِي كُلِّ أَرْبَعِينَ مُسِنَّةٌ . وَفِي الْبَاب عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَكَذَا رَوَاهُ عَبْدُ السَّلَامِ بْنُ حَرْبٍ، عَنْ خُصَيْفٍ، وَعَبْدُ السَّلَامِ ثِقَةٌ حَافِظٌ، وَرَوَى شَرِيكٌ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ خُصَيْفٍ، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ، عَنْ أُمِّهِ عَبْدِ اللَّهِ، وَأَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ عَبْدِ اللَّهِ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৬২৩
زکوۃ کا بیان
گائے بیل کی زکوة
 معاذ بن جبل (رض) کہتے ہیں :  نبی اکرم  ﷺ  نے مجھے یمن بھیجا اور حکم دیا کہ میں ہر تیس گائے پر ایک سال کا بچھوا یا بچھیا زکاۃ میں لوں اور ہر چالیس پر دو سال کی بچھیا زکاۃ میں لوں، اور ہر  (ذمّی)  بالغ سے ایک دینار یا اس کے برابر معافری  ١ ؎ کپڑے بطور جزیہ لوں  ٢ ؎۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١- یہ حدیث حسن ہے،  ٢- بعض لوگوں نے یہ حدیث بطریق : «سفيان، عن الأعمش، عن أبي وائل، عن مسروق» مرسلاً روایت کی ہے  ٣ ؎ کہ نبی اکرم  ﷺ  نے معاذ کو یمن بھیجا اور اس میں «فأمرني أن آخذ» کے بجائے «فأمره أن يأخذ» ہے اور یہ زیادہ صحیح ہے  ٤ ؎۔    تخریج دارالدعوہ :  سنن ابی داود/ الزکاة ٤ (١٥٧٧، ١٥٧٨) ، سنن النسائی/الزکاة ٨ (٢٤٥٥) ، سنن ابن ماجہ/الزکاة ١٢ (١٨٠٣) ،  ( تحفة الأشراف : ١١٣٦٣) ، مسند احمد (٥/٢٣٠) ، سنن الدارمی/الزکاة ٥ (١٦٦٤) (صحیح)    وضاحت :  ١ ؎ : معافر : ہمدان کے ایک قبیلے کا نام ہے اسی کی طرف منسوب ہے۔  ٢ ؎ : اس حدیث میں گائے کے تفصیلی نصاب کا ذکر ہے ، ساتھ ہی غیر مسلم سے جزیہ وصول کرنے کا بھی حکم ہے۔  ٣ ؎ : اس میں معافر کا ذکر نہیں ہے ، اس کی تخریج ابن ابی شیبہ نے کی ہے۔  ٤ ؎ : یعنی یہ مرسل روایت اوپر والی مرفوع روایت سے زیادہ صحیح ہے کیونکہ مسروق کی ملاقات معاذ بن جبل (رض) سے نہیں ہے ، ترمذی نے اسے اس کے شواہد کی وجہ سے حسن کہا ہے۔    قال الشيخ الألباني :  صحيح، ابن ماجة (1803)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 623  
حدیث نمبر: 623  حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْمُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، قَالَ: بَعَثَنِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْيَمَنِ  فَأَمَرَنِي أَنْ آخُذَ مِنْ كُلِّ ثَلَاثِينَ بَقَرَةً تَبِيعًا أَوْ تَبِيعَةً، وَمِنْ كُلِّ أَرْبَعِينَ مُسِنَّةً، وَمِنْ كُلِّ حَالِمٍ دِينَارًا أَوْ عِدْلَهُ مَعَافِرَ . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ. وَرَوَى بَعْضُهُمْ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ مَسْرُوقٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ مُعَاذًا إِلَى الْيَمَنِ، فَأَمَرَهُ أَنْ يَأْخُذَ وَهَذَا أَصَحُّ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৬২৪
زکوۃ کا بیان
گائے بیل کی زکوة
 عمرو بن مرہ کہتے ہیں کہ  میں نے ابوعبیدہ بن عبداللہ سے پوچھا : کیا وہ  (اپنے والد)  عبداللہ بن مسعود (رض) سے کوئی چیز یاد رکھتے ہیں ؟ انہوں نے کہا : نہیں۔    تخریج دارالدعوہ :  تفرد بہ المؤلف  ( تحفة الأشراف : ١٩٥٨٩) (صحیح الإسناد)    قال الشيخ الألباني :  صحيح الإسناد عن أبي عبيدة، وهو ابن عبد اللہ بن مسعود    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 624  
حدیث نمبر: 624  حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، قَالَ: سَأَلْتُ أَبَا عُبَيْدَةَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ: هَلْ يَذْكُرُ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ شَيْئًا ؟ قَالَ: لَا.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৬২৫
زکوۃ کا بیان
زکوة میں عمدہ مال لینا مکروہ ہے
 عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے معاذ (رض) کو یمن  (کی طرف اپنا عامل بنا کر)  بھیجا اور ان سے فرمایا :  تم اہل کتاب کی ایک جماعت کے پاس جا رہے ہو، تم انہیں دعوت دینا کہ وہ اس بات کی گواہی دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور یہ کہ میں اللہ کا رسول ہوں، اگر وہ اس کو مان لیں تو انہیں بتانا کہ اللہ نے ان پر رات اور دن میں پانچ وقت کی نماز فرض کی ہے، اگر وہ اسے مان لیں تو انہیں بتانا کہ اللہ نے ان کے مال میں زکاۃ فرض کی ہے، جو ان کے مالداروں سے لی جائے گی اور ان کے فقراء و مساکین کو لوٹا دی جائے گی  ١ ؎، اگر وہ اسے مان لیں تو تم ان کے عمدہ مال لینے سے اپنے آپ کو بچانا اور مظلوم کی بد دعا سے بچنا، اس لیے کہ اس کے اور اللہ کے درمیان کوئی پردہ حائل نہیں ہوتا۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١- ابن عباس (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے،  ٢- اس باب میں صنابحی (رض)  ٢ ؎ سے بھی روایت ہے۔    تخریج دارالدعوہ :  صحیح البخاری/الزکاة ١ (١٣٩٥) ، و ٤١ (١٤٥٨) ، والمظالم ١٠ (٢٤٤٨) ، والمغازی ٦٠ (٤٣٤٧) ، والتوحید ١ (٧٣٧٢) ، صحیح مسلم/الإیمان ٧ (١٩) ، سنن ابی داود/ الزکاة ٤ (١٥٨٤) ، سنن النسائی/الزکاة ١ (٢٤٣٧) ، و ٤٦ (٢٥٢٣) ، سنن ابن ماجہ/الزکاة ١ (١٧٨٣) ،  ( تحفة الأشراف : (٦٥١١) ، مسند احمد (١/٢٣٣) ، سنن الدارمی/الزکاة ١ (١٦٥٥) ، ویأتي آخرہ عند المؤلف في البر والصلة ٦٨ (٢٠١٤) (صحیح)    وضاحت :  ١ ؎ : اس سے معلوم ہوا کہ زکاۃ جس جگہ سے وصول کی جائے وہیں کے محتاجوں اور ضرورت مندوں میں زکاۃ تقسیم کی جائے ، مقامی فقراء سے اگر زکاۃ بچ جائے تب وہ دوسرے علاقوں میں منتقل کی جائے ، بظاہر اس حدیث سے یہی بات ثابت ہوتی ہے ، لیکن امام بخاری نے اپنی صحیح میں باب باندھا ہے «أخذ الصدقة من الأغنياء وترد في الفقراء حيث کانوا» اور اس کے تحت یہی حدیث ذکر کی ہے اور «فقراؤهم» میں «هم» کی ضمیر کو مسلمین کی طرف لوٹایا ہے یعنی مسلمانوں میں سے جو بھی محتاج ہو اسے زکاۃ دی جائے ، خواہ وہ کہیں کا ہو۔  ٢ ؎ : صنابحی سے مراد صنابح بن اعسرا حمصی ہیں جو صحابی رسول ہیں۔    قال الشيخ الألباني :  صحيح، ابن ماجة (1783)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 625  
حدیث نمبر: 625  حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا زَكَرِيَّا بْنُ إِسْحَاق الْمَكِّيُّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ صَيْفِيٍّ، عَنْ أَبِي مَعْبَدٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ مُعَاذًا إِلَى الْيَمَنِ، فَقَالَ لَهُ:  إِنَّكَ تَأْتِي قَوْمًا 5 أَهْلَ كِتَابٍ 5 فَادْعُهُمْ إِلَى شَهَادَةِ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنِّي رَسُولُ اللَّهِ، فَإِنْ هُمْ أَطَاعُوا لِذَلِكَ، فَأَعْلِمْهُمْ أَنَّ اللَّهَ افْتَرَضَ عَلَيْهِمْ خَمْسَ صَلَوَاتٍ فِي الْيَوْمِ وَاللَّيْلَةِ، فَإِنْ هُمْ أَطَاعُوا لِذَلِكَ، فَأَعْلِمْهُمْ أَنَّ اللَّهَ افْتَرَضَ عَلَيْهِمْ صَدَقَةً فِي أَمْوَالِهِمْ، تُؤْخَذُ مِنْ أَغْنِيَائِهِمْ وَتُرَدُّ عَلَى فُقَرَائِهِمْ، فَإِنْ هُمْ أَطَاعُوا لِذَلِكَ، فَإِيَّاكَ وَكَرَائِمَ أَمْوَالِهِمْ، وَاتَّقِ دَعْوَةَ الْمَظْلُومِ، فَإِنَّهَا لَيْسَ بَيْنَهَا وَبَيْنَ اللَّهِ حِجَابٌ . وَفِي الْبَاب عَنْ الصُّنَابِحِيِّ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَأَبُو مَعْبَدٍ مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ اسْمُهُ: نَافِذٌ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৬২৬
زکوۃ کا بیان
کھیتی پھلوں اور غلے کی زکوة
 ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ  نبی اکرم  ﷺ  نے فرمایا :  پانچ اونٹوں  ١ ؎ سے کم میں زکاۃ نہیں ہے، اور پانچ اوقیہ  ٢ ؎ چاندنی سے کم میں زکاۃ نہیں ہے اور پانچ وسق  ٣ ؎ غلے سے کم میں زکاۃ نہیں ہے۔    امام ترمذی کہتے ہیں : اس باب میں ابوہریرہ، ابن عمر، جابر اور عبداللہ بن عمرو (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔    تخریج دارالدعوہ :  صحیح البخاری/الزکاة ٤ (١٤٠٥) ، و ٣٢ (١٤٤٧) ، و ٤٢ (١٤٥٩) ، و ٥٦ (١٤٨٤) ، صحیح مسلم/الزکاة ١ (٩٧٩) ، سنن ابی داود/ الزکاة ١ (١٥٥٨) ، سنن النسائی/الزکاة ٥ (٢٤٤٧) ، و ١٨ (٢٤٧٥) ، و ٢١ (٢٤٨٥) ، و ٢٤ (٢٤٨٩) ، سنن ابن ماجہ/الزکاة ٦ (١٧٩٣) ،  ( تحفة الأشراف : ٤٤٠٢) ، موطا امام مالک/الزکاة ١ (١) ، مسند احمد (٣/٦، ٤٥، ٦٠، ٧٣، ٧٤، ٧٩) ، سنن الدارمی/الزکاة ١١ (١٦٧٣) (صحیح)    وضاحت :  ١ ؎ : یہ اونٹوں کا نصاب ہے اس سے کم میں زکاۃ نہیں۔  ٢ ؎ : اوقیہ چالیس درہم ہوتا ہے ، اس حساب سے ٥ اوقیہ دو سو درہم کے ہوئے ، موجودہ وزن کے حساب سے دو سو درہم ٥٩٥ گرام کے برابر ہے۔  ٣ ؎ : ایک وسق ساٹھ صاع کا ہوتا ہے پانچ وسق کے تین سو صاع ہوئے موجودہ وزن کے حساب سے تین سو صاع کا وزن تقریباً  ( ٧٥٠) کلوگرام یعنی ساڑھے سات کو ئنٹل بنتا ہے۔    قال الشيخ الألباني :  صحيح، ابن ماجة (1793)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 626  
حدیث نمبر: 626  حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ يَحْيَى الْمَازِنِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:  لَيْسَ فِيمَا دُونَ خَمْسِ ذَوْدٍ صَدَقَةٌ، وَلَيْسَ فِيمَا دُونَ خَمْسِ أَوَاقٍ صَدَقَةٌ، وَلَيْسَ فِيمَا دُونَ خَمْسَةِ أَوْسُقٍ صَدَقَةٌ . وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَابْنِ عُمَرَ، وَجَابِرٍ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৬২৭
زکوۃ کا بیان
کھیتی پھلوں اور غلے کی زکوة
 اس سند سے بھی  ابو سعید خدری (رض) نے نبی اکرم  ﷺ  سے اسی طرح کی حدیث بیان کی ہے جیسے عبدالعزیز بن محمد کی حدیث ہے جسے انہوں نے عمرو بن یحییٰ سے روایت کی ہے  (جو اوپر گزر چکی ہے) ۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١- ابو سعید خدری (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے،  ٢- ان سے یہ روایت اور بھی کئی طرق سے مروی ہے،  ٣- اہل علم کا عمل اسی پر ہے کہ پانچ وسق سے کم غلے میں زکاۃ نہیں ہے۔ ایک وسق ساٹھ صاع کا ہوتا ہے۔ اور پانچ وسق میں تین سو صاع ہوتے ہیں۔ نبی اکرم  ﷺ  کا صاع ساڑھے پانچ رطل کا تھا اور اہل کوفہ کا صاع آٹھ رطل کا، پانچ اوقیہ چاندی سے کم میں زکاۃ نہیں ہے، ایک اوقیہ چالیس درہم کا ہوتا ہے۔ اور پانچ اوقیہ کے دو سو درہم ہوتے ہیں۔ اسی طرح سے پانچ اونٹ سے کم میں زکاۃ نہیں ہے۔ جب پچیس اونٹ ہوجائیں تو ان میں ایک سال کی اونٹنی کی زکاۃ ہے اور پچیس اونٹ سے کم میں ہر پانچ اونٹ پر ایک بکری زکاۃ ہے۔    تخریج دارالدعوہ :  انظر ما قبلہ (صحیح)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 627  
حدیث نمبر: 627  حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، وَشُعْبَةُ، وَمَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ يَحْيَى، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَ حَدِيثِ عَبْدِ الْعَزِيزِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ يَحْيَى. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي سَعِيدٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْهُ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنْ لَيْسَ فِيمَا دُونَ خَمْسَةِ أَوْسُقٍ صَدَقَةٌ، وَالْوَسْقُ سِتُّونَ صَاعًا، وَخَمْسَةُ أَوْسُقٍ ثَلَاثُ مِائَةِ صَاعٍ، وَصَاعُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَمْسَةُ أَرْطَالٍ وَثُلُثٌ، وَصَاعُ أَهْلِ الْكُوفَةِ ثَمَانِيَةُ أَرْطَالٍ وَلَيْسَ فِيمَا دُونَ خَمْسِ أَوَاقٍ صَدَقَةٌ، وَالْأُوقِيَّةُ أَرْبَعُونَ دِرْهَمًا وَخَمْسُ أَوَاقٍ مِائَتَا دِرْهَمٍ، وَلَيْسَ فِيمَا دُونَ خَمْسِ ذَوْدٍ صَدَقَةٌ يَعْنِي لَيْسَ فِيمَا دُونَ خَمْسٍ مِنَ الْإِبِلِ، فَإِذَا بَلَغَتْ خَمْسًا وَعِشْرِينَ مِنَ الْإِبِلِ فَفِيهَا بِنْتُ مَخَاضٍ، وَفِيمَا دُونَ خَمْسٍ وَعِشْرِينَ مِنَ الْإِبِلِ فِي كُلِّ خَمْسٍ مِنَ الْإِبِلِ شَاةٌ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৬২৮
زکوۃ کا بیان
گھوڑے اور غلام پر زکوٰۃ نہیں
 ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا :  مسلمان پر نہ اس کے گھوڑوں میں زکاۃ ہے اور نہ ہی اس کے غلاموں میں زکاۃ ہے   ١ ؎۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١- ابوہریرہ (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے،  ٢- اس باب میں علی اور عبداللہ بن عمرو (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں،  ٣- اور اسی پر اہل علم کا عمل ہے کہ پالتو گھوڑوں میں جنہیں دانہ چارہ باندھ کر کھلاتے ہیں زکاۃ نہیں اور نہ ہی غلاموں میں ہے، جب کہ وہ خدمت کے لیے ہوں الاّ یہ کہ وہ تجارت کے لیے ہوں۔ اور جب وہ تجارت کے لیے ہوں تو ان کی قیمت میں زکاۃ ہوگی جب ان پر سال گزر جائے۔    تخریج دارالدعوہ :  صحیح البخاری/الزکاة ٤٥ (١٤٦٣) ، و ٤٦ (١٤٦٤) ، صحیح مسلم/الزکاة ٢ (٩٨٢) ، سنن ابی داود/ الزکاة ١٠ (١٥٩٤) ، سنن النسائی/الزکاة ١٦ (٢٤٧٠) ، سنن ابن ماجہ/الزکاة ١٥ (١٨١٢) ،  ( تحفة الأشراف : ١٤١٥٣) ، مسند احمد (٢/٢٤٢، ٢٥٤، ٢٧٩، ٤١٠، ٤٣٢، ٤٦٩، ٤٧٠، ٤٧٧) ، سنن الدارمی/الزکاة ١٠ (١٦٧٢) (صحیح)    وضاحت :  ١ ؎ : اس حدیث کے عموم سے ظاہر یہ نے اس بات پر استدلال کیا ہے کہ گھوڑے اور غلام میں مطلقاً زکاۃ واجب نہیں گو وہ تجارت ہی کے لیے کیوں نہ ہوں ، لیکن یہ صحیح نہیں ہے ، گھوڑے اور غلام اگر تجارت کے لیے ہوں تو ان میں زکاۃ بالاجماع واجب ہے جیسا کہ ابن منذر وغیرہ نے اسے نقل کیا ہے ، لہٰذا اجماع اس کے عموم کے لیے مخص ہوگا۔    قال الشيخ الألباني :  صحيح، ابن ماجة (1812) ، الضعيفة (4014)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 628  
حدیث نمبر: 628  حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، وَمَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، قَالَا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، وَشُعْبَةُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ عِرَاكِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:  لَيْسَ عَلَى الْمُسْلِمِ فِي فَرَسِهِ وَلَا فِي عَبْدِهِ صَدَقَةٌ . وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَيْهِ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنَّهُ لَيْسَ فِي الْخَيْلِ السَّائِمَةِ صَدَقَةٌ وَلَا فِي الرَّقِيقِ، إِذَا كَانُوا لِلْخِدْمَةِ صَدَقَةٌ إِلَّا أَنْ يَكُونُوا لِلتِّجَارَةِ، فَإِذَا كَانُوا لِلتِّجَارَةِ فَفِي أَثْمَانِهِمُ الزَّكَاةُ إِذَا حَالَ عَلَيْهَا الْحَوْلُ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৬২৯
زکوۃ کا بیان
شہد کی زکوہ
 عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا :  شہد میں ہر دس مشک پر ایک مشک زکاۃ ہے ۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١- اس باب میں ابوہریرہ، ابوسیارہ متعی اور عبداللہ بن عمرو (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔  ٢- ابن عمر (رض) کی حدیث کی سند میں کلام ہے  ١ ؎ نبی اکرم  ﷺ  سے اس باب میں کچھ زیادہ صحیح چیزیں مروی نہیں اور اسی پر اکثر اہل علم کا عمل ہے، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی اسی کے قائل ہیں،  ٣- بعض اہل علم کہتے ہیں کہ شہد میں کوئی زکاۃ نہیں  ٢ ؎،  ٤- صدقہ بن عبداللہ حافظ نہیں ہیں۔ نافع سے اس حدیث کو روایت کرنے میں صدقہ بن عبداللہ کی مخالفت کی گئی ہے۔    تخریج دارالدعوہ :  تفرد بہ المؤلف  ( تحفة الأشراف : ٨٥٠٩) (صحیح) (سند میں صدقہ بن عبداللہ ضعیف راوی ہے، لیکن متابعات وشواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے)    وضاحت :  ١ ؎ : کیونکہ اس کی روایت میں صدقہ بن عبداللہ منفرد ہیں اور وہ ضعیف ہیں۔  ٢ ؎ : امام بخاری اپنی تاریخ میں فرماتے ہیں کہ شہد کی زکاۃ کے بارے میں کوئی چیز ثابت نہیں۔    قال الشيخ الألباني :  صحيح، ابن ماجة (1824)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 629  
حدیث نمبر: 629  حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى النَّيْسَابُورِيُّ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ أَبِي سَلَمَةَ التِّنِّيسِيُّ، عَنْ صَدَقَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ مُوسَى بْنِ يَسَارٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:  فِي الْعَسَلِ فِي كُلِّ عَشَرَةِ أَزُقٍّ زِقٌّ . وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَأَبِي سَيَّارَةَ الْمُتَعِيِّ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ فِي إِسْنَادِهِ مَقَالٌ، وَلَا يَصِحُّ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي هَذَا الْبَاب كَبِيرُ شَيْءٍ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ، وَبِهِ يَقُولُ أَحْمَدُ، وَإِسْحَاق، وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: لَيْسَ فِي الْعَسَلِ شَيْءٌ. وَصَدَقَةُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ لَيْسَ بِحَافِظٍ، وَقَدْ خُولِفَ صَدَقَةُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ فِي رِوَايَةِ هَذَا الْحَدِيثِ عَنْ نَافِعٍ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৬৩০
زکوۃ کا بیان
شہد کی زکوہ
 نافع کہتے ہیں کہ  مجھ سے عمر بن عبدالعزیز نے شہد کی زکاۃ کے بارے میں پوچھا تو میں نے کہا کہ ہمارے پاس شہد نہیں کہ ہم اس کی زکاۃ دیں، لیکن ہمیں مغیرہ بن حکیم نے خبر دی ہے کہ شہد میں زکاۃ نہیں ہے۔ تو عمر بن عبدالعزیز نے کہا : یہ مبنی برعدل اور پسندیدہ بات ہے۔ چناچہ انہوں نے لوگوں کو لکھا کہ ان سے شہد کی زکاۃ معاف کردی جائے۔    تخریج دارالدعوہ :  تفرد بہ المؤلف  ( تحفة الأشراف : ١٩٤٤٨) (صحیح الإسناد) (سند صحیح ہے لیکن سابقہ حدیث کے مخالف ہے، دیکھئے : الإرواء رقم : ٨١٠)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 630  
حدیث نمبر: 630  حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ الثَّقَفِيُّ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، قَالَ: سَأَلَنِي عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، عَنْ صَدَقَةِ الْعَسَلِ، قَالَ: قُلْتُ: مَا عِنْدَنَا عَسَلٌ نَتَصَدَّقُ مِنْهُ، وَلَكِنْ أَخْبَرَنَا الْمُغِيرَةُ بْنُ حَكِيمٍ، أَنَّهُ قَالَ:  لَيْسَ فِي الْعَسَلِ صَدَقَةٌ . فَقَالَ عُمَرُ: عَدْلٌ مَرْضِيٌّ فَكَتَبَ إِلَى النَّاسِ أَنْ تُوضَعَ يَعْنِي عَنْهُمْ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৬৩১
زکوۃ کا بیان
مال مستفاد میں زکوة نہیں جب تک اس پر سال نہ گزر جائے۔
 عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا :  جسے کوئی مال حاصل ہو تو اس پر کوئی زکاۃ نہیں جب تک کہ اس پر اس کے مالک کے یہاں ایک سال نہ گزر جائے ۔    امام ترمذی کہتے ہیں : اس باب میں سراء بنت نبھان غنویہ (رض) سے بھی روایت ہے۔    تخریج دارالدعوہ :  تفرد بہ المؤلف  ( تحفة الأشراف : ٦٧٣١) (صحیح) (سند میں عبدالرحمن بن زید بن اسلم ضعیف راوی ہے، لیکن متابعات وشواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے، دیکھئے اگلی حدیث اور مولف کا کلام، نیز ملاحظہ ہو : الإرواء ٧٨٧، وتراجع الألبانی ٥٠٣)    قال الشيخ الألباني :  صحيح، ابن ماجة (1792)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 631  
حدیث نمبر: 631  حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ صَالِحٍ الطَّلْحِيُّ الْمَدَنِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:  مَنِ اسْتَفَادَ مَالًا فَلَا زَكَاةَ عَلَيْهِ حَتَّى يَحُولَ عَلَيْهِ الْحَوْلُ عِنْدَ رَبِّهِ . وَفِي الْبَاب عَنْ سَرَّاءَ بِنْتِ نَبْهَانَ الْغَنَوِيَّةِ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৬৩২
زکوۃ کا بیان
مال مستفاد میں زکوة نہیں جب تک اس پر سال نہ گزر جائے۔
 عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں :  جسے کوئی مال حاصل ہو تو اس پر زکاۃ نہیں جب تک کہ اس کے ہاں اس مال پر ایک سال نہ گزر جائے۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١- یہ  (موقوف)  حدیث عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم کی  (مرفوع)  حدیث سے زیادہ صحیح ہے۔  ٢- ایوب، عبیداللہ بن عمر اور دیگر کئی لوگوں نے نافع سے اور انہوں نے ابن عمر سے موقوفاً  (ہی)  روایت کی ہے۔  ٣- عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم حدیث میں ضعیف ہیں، احمد بن حنبل، علی بن مدینی اور ان کے علاوہ دیگر محدثین نے ان کی تضعیف کی ہے وہ کثرت سے غلطیاں کرتے ہیں،  ٤- صحابہ کرام میں سے کئی لوگوں سے مروی ہے کہ حاصل شدہ مال میں زکاۃ نہیں ہے، جب تک کہ اس پر سال نہ گزر جائے، مالک بن انس، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ اسی کے قائل ہیں،  ٥- بعض اہل علم کہتے ہیں کہ جب آدمی کے پاس پہلے سے اتنا مال ہو جس میں زکاۃ واجب ہو تو حاصل شدہ مال میں بھی زکاۃ واجب ہوگی اور اگر اس کے پاس حاصل شدہ مال کے علاوہ کوئی اور مال نہ ہو جس میں زکاۃ واجب ہوئی ہو تو کمائے ہوئے مال میں بھی کوئی زکاۃ واجب نہیں ہوگی جب تک کہ اس پر سال نہ گزر جائے، اور اگر اسے  (پہلے سے نصاب کو پہنچے ہوئے)  مال پر سال گزرنے سے پہلے کوئی کمایا ہوا مال ملا تو وہ اس مال کے ساتھ جس میں زکاۃ واجب ہوگئی ہے، مال مستفاد کی بھی زکاۃ نکالے گا سفیان ثوری اور اہل کوفہ اسی کے قائل ہیں۔    تخریج دارالدعوہ :  تفرد بہ المؤلف  ( تحفة الأشراف : ٧٥٩٥) (صحیح الإسناد) (یہ اثر عبد اللہ بن عمر کا قول ہے، یعنی موقوف ہے، جو مرفوع حدیث کے حکم میں ہے۔ )    قال الشيخ الألباني :  صحيح الإسناد موقوف، وهو فی حکم المرفوع    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 632  
حدیث نمبر: 632  حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ الثَّقَفِيُّ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ:  مَنِ اسْتَفَادَ مَالًا فَلَا زَكَاةَ فِيهِ حَتَّى يَحُولَ عَلَيْهِ الْحَوْلُ عِنْدَ رَبِّهِ . قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَرَوَى أَيُّوبُ، وَعُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ مَوْقُوفًا، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ ضَعِيفٌ فِي الْحَدِيثِ، ضَعَّفَهُ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، وَعَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ وَغَيْرُهُمَا مِنْ أَهْلِ الْحَدِيثِ، وَهُوَ كَثِيرُ الْغَلَطِ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنْ لَا زَكَاةَ فِي الْمَالِ الْمُسْتَفَادِ حَتَّى يَحُولَ عَلَيْهِ الْحَوْلُ، وَبِهِ يَقُولُ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، وَالشَّافِعِيُّ، وَأَحْمَدُ، وَإِسْحَاق، وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: إِذَا كَانَ عِنْدَهُ مَالٌ تَجِبُ فِيهِ الزَّكَاةُ فَفِيهِ الزَّكَاةُ، وَإِنْ لَمْ يَكُنْ عِنْدَهُ سِوَى الْمَالِ الْمُسْتَفَادِ مَا تَجِبُ فِيهِ الزَّكَاةُ لَمْ يَجِبْ عَلَيْهِ فِي الْمَالِ الْمُسْتَفَادِ زَكَاةٌ حَتَّى يَحُولَ عَلَيْهِ الْحَوْلُ، فَإِنِ اسْتَفَادَ مَالًا قَبْلَ أَنْ يَحُولَ عَلَيْهِ الْحَوْلُ فَإِنَّهُ يُزَكِّي الْمَالَ الْمُسْتَفَادَ مَعَ مَالِهِ الَّذِي وَجَبَتْ فِيهِ الزَّكَاةُ، وَبِهِ يَقُولُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَأَهْلُ الْكُوفَةِ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৬৩৩
زکوۃ کا بیان
مسلمانوں پر جزیہ نہیں
 عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا :  ایک سر زمین پر دو قبلے ہونا درست نہیں  ١ ؎ اور نہ ہی مسلمانوں پر جزیہ درست ہے   ٢ ؎۔    تخریج دارالدعوہ :  سنن ابی داود/ الخراج ٢٨ (٣٠٣٢) ،  ( تحفة الأشراف : ٥٣٩٩) ، مسند احمد (١/٢٨٥) (ضعیف) (سند میں قابوس ضعیف ہیں)    وضاحت :  ١ ؎ : ایک سر زمین پر دو قبلے کا ہونا درست نہیں کا مطلب یہ ہے کہ ایک سر زمین پر دو دین والے بطور برابری کے نہیں رہ سکتے کوئی حاکم ہوگا کوئی محکوم۔  ٢ ؎ : نہ ہی مسلمانوں پر جزیہ درست ہے کا مطلب یہ ہے کہ ذمیوں میں سے کوئی ذمی اگر جزیہ کی ادائیگی سے پہلے مسلمان ہوگیا ہو تو اس سے جزیہ کا مطالبہ نہیں کیا جائے گا۔    قال الشيخ الألباني :  ضعيف، الإرواء (1244) // 1257 //، الضعيفة (4379) // ضعيف الجامع الصغير (6239) ، ضعيف أبي داود (655 / 3032) نحوه //   صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 633  
حدیث نمبر: 633  حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَكْثَمَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ قَابُوسَ بْنِ أَبِي ظَبْيَانَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:  لَا تَصْلُحُ قِبْلَتَانِ فِي أَرْضٍ وَاحِدَةٍ وَلَيْسَ عَلَى الْمُسْلِمِينَ جِزْيَةٌ .  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৬৩৪
زکوۃ کا بیان
مسلمانوں پر جزیہ نہیں
 اس سند سے بھی  قابوس سے اسی طرح مروی ہے۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١- ابن عباس کی حدیث قابوس بن ابی ظبیان سے مروی ہے جسے انہوں نے اپنے والد سے اور ان کے والد نے نبی اکرم  ﷺ  سے مرسلاً روایت کی ہے،  ٢- اس باب میں سعید بن زید اور حرب بن عبیداللہ ثقفی کے دادا سے بھی احادیث آئی ہیں،  ٣- اہل علم کا عمل اسی پر ہے کہ نصرانی جب اسلام قبول کرلے تو اس کی اپنی گردن کا جزیہ معاف کردیا جائے گا، اور نبی اکرم  ﷺ  کے فرمان «ليس علی المسلمين عشور»  مسلمانوں پر عشر نہیں ہے  کا مطلب بھی گردن کا جزیہ ہے، اور حدیث میں بھی اس کی وضاحت کردی گئی ہے جیسا کہ آپ نے فرمایا :  عشر صرف یہود و نصاریٰ پر ہے، مسلمانوں پر کوئی عشر نہیں   ١ ؎۔    تخریج دارالدعوہ :  انظر ما قبلہ (ضعیف)    وضاحت :  ا ؎ : یہ حدیث سنن ابی داود میں ہے اس حدیث کا تشریح  المرقاۃ شرح المشکاۃ  اور  عون المعبود  میں دیکھ لیں ، کچھ وضاحت اس مقام پر  تحفۃ الأحوذی  میں بھی آ گئی ہے ، اور عشر سے مراد ٹیکس ہے۔    قال الشيخ الألباني : // ضعيف الجامع الصغير (2050) ، المشکاة (4039) ، ضعيف أبي داود برقم (660 / 2046) ، يرويه الجميع عن حرب بن عبيد الله، عن جده أبي أمه، عن أبيه //   صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 634  
حدیث نمبر: 634  حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ قَابُوسَ بِهَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَهُ. وَفِي الْبَاب عَنْ سَعِيدِ بْنِ زَيْدٍ، وَجَدِّ حَرْبِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ الثَّقَفِيِّ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ قَدْ رُوِيَ، عَنْ قَابُوسَ بْنِ أَبِي ظَبْيَانَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُرْسَلًا، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ عَامَّةِ أَهْلِ الْعِلْمِ، أَنَّ النَّصْرَانِيَّ إِذَا أَسْلَمَ وُضِعَتْ عَنْهُ جِزْيَةُ رَقَبَتِهِ، وَقَوْلُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:  لَيْسَ عَلَى الْمُسْلِمِينَ عُشُورٌ  إِنَّمَا يَعْنِي بِهِ جِزْيَةَ الرَّقَبَةِ، وَفِي الْحَدِيثِ مَا يُفَسِّرُ هَذَا حَيْثُ، قَالَ: إِنَّمَا الْعُشُورُ عَلَى الْيَهُودِ، وَالنَّصَارَى وَلَيْسَ عَلَى الْمُسْلِمِينَ عُشُورٌ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৬৩৫
زکوۃ کا بیان
زیور کی زکوة
 عبداللہ بن مسعود کی اہلیہ زینب (رض) کہتی ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے ہم سے خطاب کیا اور فرمایا :  اے گروہ عورتوں کی جماعت ! زکاۃ دو  ١ ؎ گو اپنے زیورات ہی سے کیوں نہ دو ۔ کیونکہ قیامت کے دن جہنم والوں میں تم ہی سب سے زیادہ ہوگی ۔    تخریج دارالدعوہ :  تفرد بہ المؤلف (بہذا السیاق وبہذا المناسبة  ( تحفة الأشراف : ١٥٨٨٧) وانظر : مسند احمد (٦/٣٦٣) (صحیح) (اگلی حدیث (٦٣٦) سے تقویت پا کر یہ حدیث صحیح ہے)    وضاحت :  ١ ؎ : مولف نے اس سے فرض صدقہ یعنی زکاۃ مراد لی ہے کیونکہ «تصدقن» امر کا صیغہ ہے اور امر میں اصل وجوب ہے یہی معنی باب کے مناسب ہے ، لیکن دوسرے علماء نے اسے استحباب پر محمول کیا ہے اور اس سے مراد نفل صدقات لیے ہیں اس لیے کہ خطاب ان عورتوں کو ہے جو وہاں موجود تھیں اور ان میں ساری ایسی نہیں تھیں کہ جن پر زکاۃ فرض ہوتی ، یہ معنی لینے کی صورت میں حدیث باب کے مناسب نہیں ہوگی اور اس سے زیور کی زکاۃ کے وجوب پر استدلال صحیح نہیں ہوگا۔    قال الشيخ الألباني :  صحيح بما بعده (636)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 635  
حدیث نمبر: 635  حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ بْنِ الْمُصْطَلِقِ، عَنْ ابْنِ أَخِي زَيْنَبَ امْرَأَةِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ زَيْنَبَ امْرَأَةِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَتْ: خَطَبَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:   يَا مَعْشَرَ النِّسَاءِ تَصَدَّقْنَ وَلَوْ مِنْ حُلِيِّكُنَّ، فَإِنَّكُنَّ أَكْثَرُ أَهْلِ جَهَنَّمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ  .  

তাহকীক: