আল জামিউল কাবীর- ইমাম তিরমিযী রহঃ (উর্দু)
الجامع الكبير للترمذي
روزوں کے متعلق ابواب - এর পরিচ্ছেদসমূহ
মোট হাদীস ২০ টি
হাদীস নং: ৬৮২
روزوں کے متعلق ابواب
رمضان کے فضلیت
 ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا :  جب ماہ رمضان کی پہلی رات آتی ہے، تو شیطان اور سرکش جن  ١ ؎ جکڑ دیئے جاتے ہیں، جہنم کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں، ان میں سے کوئی بھی دروازہ کھولا نہیں جاتا۔ اور جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں، ان میں سے کوئی بھی دروازہ بند نہیں کیا جاتا، پکارنے والا پکارتا ہے : خیر کے طلب گار ! آگے بڑھ، اور شر کے طلب گار ! رک جا  ٢ ؎ اور آگ سے اللہ کے بہت سے آزاد کئے ہوئے بندے ہیں  (تو ہوسکتا ہے کہ تو بھی انہیں میں سے ہو)  اور ایسا  (رمضان کی)  ہر رات کو ہوتا ہے ۔    امام ترمذی کہتے ہیں : اس باب میں عبدالرحمٰن بن عوف، ابن مسعود اور سلمان (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔    تخریج دارالدعوہ :  سنن ابن ماجہ/الصوم ٢ (١٦٤٢) ،  ( تحفة الأشراف : ١٢٤٩) (صحیح) وأخرج الشق الأول کل من : صحیح البخاری/الصوم ٥ (١٨٩٨، ١٨٩٩) ، وبدء الخلق ١١ (٣٢٧٧) ، وصحیح مسلم/الصوم ١ (١٠٧٩) ، وسنن النسائی/الصوم ٣ (٢٠٩٩، ٢١٠٠) ، و ٤ (٢١٠١، ٢١٠٢، ٢١٠٣، ٢١٠٤) ، و ٥ (٢١٠٦، ٢١٠٧) ، وط/الصوم ٢٢ (٥٩) ، و مسند احمد (٢/٢٨١، ٣٥٧، ٣٧٨، ٤٠١) ، وسنن الدارمی/الصوم ٥٣ (١٨١٦) ، من غیر ہذا الطریق عنہ۔    وضاحت :  ١ ؎ :  مردة الجن  کا عطف  الشياطين  پر ہے ، بعض اسے عطف تفسیری کہتے ہیں اور بعض عطف مغایرت یہاں ایک اشکال یہ ہے کہ جب شیاطین اور مردۃ الجن قید کر دئیے جاتے ہیں تو پھر معاصی کا صدور کیوں ہوتا ہے ؟ اس کا ایک جواب تو یہ کہ معصیت کے صدور کے لیے تحقق اور شیاطین کا وجود ضروری نہیں ، انسان گیارہ مہینے شیطان سے متاثر ہوتا رہتا ہے رمضان میں بھی اس کا اثر باقی رہتا ہے دوسرا جواب یہ ہے کہ لیڈر قید کردیئے جاتے لیکن رضاکار اور والنیٹر کھلے رہتے ہیں۔  ٢ ؎ : اسی ندا کا اثر ہے کہ رمضان میں اہل ایمان کی نیکیوں کی جانب توجہ بڑھ جاتی ہے اور وہ اس ماہ مبارک میں تلاوت قرآن ذکر و عبادات خیرات اور توبہ واستغفار کا زیادہ اہتمام کرنے لگتے ہیں۔    قال الشيخ الألباني :  صحيح، ابن ماجة (1642)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 682  
حدیث نمبر: 682  حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ بْنِ كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:  إِذَا كَانَ أَوَّلُ لَيْلَةٍ مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ، صُفِّدَتِ الشَّيَاطِينُ وَمَرَدَةُ الْجِنِّ، وَغُلِّقَتْ أَبْوَابُ النَّارِ فَلَمْ يُفْتَحْ مِنْهَا بَاب، وَفُتِّحَتْ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ فَلَمْ يُغْلَقْ مِنْهَا بَاب، وَيُنَادِي مُنَادٍ يَا بَاغِيَ الْخَيْرِ أَقْبِلْ، وَيَا بَاغِيَ الشَّرِّ أَقْصِرْ، وَلِلَّهِ عُتَقَاءُ مِنَ النَّارِ وَذَلكَ كُلُّ لَيْلَةٍ . قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، وَابْنِ مَسْعُودٍ، وَسَلْمَانَ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৬৮৩
روزوں کے متعلق ابواب
رمضان کے فضلیت
 ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا :  جس نے ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے رمضان کے روزے رکھے اور اس کی راتوں میں قیام کیا تو اس کے سابقہ گناہ  ١ ؎ بخش دئیے جائیں گے۔ اور جس نے ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے شب قدر میں قیام کیا تو اس کے بھی سابقہ گناہ بخش دئیے جائیں گے ۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١- ابوہریرہ کی  (پچھلی)  حدیث، جسے ابوبکر بن عیاش نے روایت کی ہے غریب ہے، اسے ہم ابوبکر بن عیاش کی روایت کی طرح جسے انہوں نے بطریق : «الأعمش عن أبي صالح عن أبي هريرة» روایت کی ہے۔ ابوبکر ہی کی روایت سے جانتے ہیں،  ٢- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے اس حدیث کے متعلق پوچھا تو انہوں نے بسند «حسن بن ربیع عن أبی الأحوص عن الأعمش» مجاہد کا قول نقل کیا کہ جب ماہ رمضان کی پہلی رات ہوتی ہے … پھر آگے انہوں نے پوری حدیث بیان کی،  ٣- محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں : یہ حدیث میرے نزدیک ابوبکر بن عیاش کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے۔    تخریج دارالدعوہ :  تفرد بہ المؤلف  ( تحفة الأشراف : ١٥٠٣٨ و ١٥٠٥١) (صحیح) وأخرجہ کل من : صحیح البخاری/الإیمان ٢٧ (٣٧) ، و ٢٨ (٣٨) ، والصوم ٦ (١٩٠١) ، والتراویح ١ (٢٠٠٨، ٢٠٠٩) ، صحیح مسلم/المسافرین ٢٥ (٧٥٩) ، سنن ابی داود/ الصلاة ٣١٨ (١٣٧١) ، سنن النسائی/قیام اللیل ٣ (١٦٠٣) ، والصوم ٣٩ (٢١٩٣) ، والإیمان ٢١ (٥٠٢٧-٥٠٢٩) ، و ٢٢ (٥٠٣٠) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٧٣ (١٣٢٦) ، موطا امام مالک/ رمضان ١ (٢) ، مسند احمد (٢/٢٣٢، ٢٤١، ٣٨٥، ٤٧٣، ٥٠٣) ، سنن الدارمی/الصوم ٥٤ (١٨١٧) ، من غیر ہذا الطریق عنہ وبتصرف بسیر فی السیاق وانظر ما یأتی عند المؤلف برقم : ٨٠٨۔    وضاحت :  ١ ؎ : اس سے مراد صغیرہ گناہ ہیں جن کا تعلق حقوق اللہ سے ہے۔    قال الشيخ الألباني :  صحيح، ابن ماجة (1326)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 683  
حدیث نمبر: 683  حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ، وَالْمُحَارِبِيُّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:  مَنْ صَامَ رَمَضَانَ وَقَامَهُ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ، وَمَنْ قَامَ لَيْلَةَ الْقَدْرِ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ . هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ الَّذِي رَوَاهُ أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ حَدِيثٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ مِثْلَ رِوَايَةِ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَيَّاشٍ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ أَبِي بَكْرٍ قَالَ: وَسَأَلْتُ مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَاعِيل عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ، فَقَالَ: حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الرَّبِيعِ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ مُجَاهِدٍ قَوْلَهُ: إِذَا كَانَ أَوَّلُ لَيْلَةٍ مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ فَذَكَرَ الْحَدِيثَ. قَالَ مُحَمَّدٌ: وَهَذَا أَصَحُّ عِنْدِي مِنْ حَدِيثِ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَيَّاشٍ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৬৮৪
روزوں کے متعلق ابواب
رمضان کے استقبال کی نیت سے روزے نہ رکھے
 ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ  نبی اکرم  ﷺ  نے فرمایا :  اس ماہ  (رمضان)  سے ایک یا دو دن پہلے  (رمضان کے استقبال کی نیت سے)  روزے نہ رکھو  ١ ؎، سوائے اس کے کہ اس دن ایسا روزہ آپڑے جسے تم پہلے سے رکھتے آ رہے ہو  ٢ ؎ اور  (رمضان کا)  چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور  (شوال کا)  چاند دیکھ کر ہی روزہ رکھنا بند کرو۔ اگر آسمان ابر آلود ہوجائے تو مہینے کے تیس دن شمار کرلو، پھر روزہ رکھنا بند کرو ۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١- ابوہریرہ (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے،  ٢- اس باب میں بعض صحابہ کرام سے بھی احادیث آئی ہیں،  ٣- اہل علم کے نزدیک اسی پر عمل ہے۔ وہ اس بات کو مکروہ سمجھتے ہیں کہ آدمی ماہ رمضان کے آنے سے پہلے رمضان کے استقبال میں روزے رکھے، اور اگر کسی آدمی کا  (کسی خاص دن میں)  روزہ رکھنے کا معمول ہو اور وہ دن رمضان سے پہلے آپڑے تو ان کے نزدیک اس دن روزہ رکھنے میں کوئی حرج نہیں۔    تخریج دارالدعوہ :  تفرد بہ المؤلف  ( تحفة الأشراف : ١٥٠٥٧) (صحیح) وأخرجہ کل من : صحیح البخاری/الصوم ١٤ (١٩١٤) ، صحیح مسلم/الصیام ٣ (١٠٨٢) ، سنن ابی داود/ الصیام ١١ (٢٣٣٥) ، سنن النسائی/الصیام ٣١ (٢١٧٤) ، و ٣٨ (٢١٨٩) ، سنن ابن ماجہ/الصیام ٥ (١٦٠) ، مسند احمد (٢/٢٣٤، ٣٤٧، ٤٠٨، ٤٣٨، ٤٧٧، ٤٩٧، ٥١٣) ، سنن الدارمی/الصوم ٤ (١٧٣١) ، من غیر ہذا الطریق۔    وضاحت :  ١ ؎ : اس ممانعت کی حکمت یہ ہے کہ فرض روزے نفلی روزوں کے ساتھ خلط ملط نہ ہوجائیں اور کچھ لوگ انہیں فرض نہ سمجھ بیٹھیں ، لہٰذا تحفظ حدود کے لیے نبی اکرم  ﷺ  نے جانبین سے روزہ منع کردیا کیونکہ امم سابقہ میں اس قسم کے تغیر وتبدل ہوا کرتے تھے جس سے زیادتی فی الدین کی راہ کھلتی تھی ، اس لیے اس سے منع کردیا۔  ٢ ؎ : مثلاً پہلے سے جمعرات یا پیر یا ایام بیض کے روزے رکھنے کا معمول ہو اور یہ دن اتفاق سے رمضان سے دو یا ایک دن پہلے آ جائے تو اس کا روزہ رکھا جائے کہ یہ استقبال رمضان میں سے نہیں ہے۔    قال الشيخ الألباني :  صحيح، ابن ماجة (1650 و 1655)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 684  
حدیث نمبر: 684  حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:  لَا تَقَدَّمُوا الشَّهْرَ بِيَوْمٍ وَلَا بِيَوْمَيْنِ إِلَّا أَنْ يُوَافِقَ ذَلِكَ صَوْمًا كَانَ يَصُومُهُ أَحَدُكُمْ، صُومُوا لِرُؤْيَتِهِ وَأَفْطِرُوا لِرُؤْيَتِهِ، فَإِنْ غُمَّ عَلَيْكُمْ فَعُدُّوا ثَلَاثِينَ ثُمَّ أَفْطِرُوا . رَوَى مَنْصُورُ بْنُ الْمُعْتَمِرِ، عَنْ رِبْعِيِّ بْنِ حِرَاشٍ، عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِ الَّنَبِيِّ صَلى الله عليه وسَلم بِنَحْوِ هَذَا، قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ كَرِهُوا أَنْ يَتَعَجَّلَ الرَّجُلُ بِصِيَامٍ قَبْلَ دُخُولِ شَهْرِ رَمَضَانَ لِمَعْنَى رَمَضَانَ، وَإِنْ كَانَ رَجُلٌ يَصُومُ صَوْمًا فَوَافَقَ صِيَامُهُ ذَلِكَ فَلَا بَأْسَ بِهِ عِنْدَهُمْ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৬৮৫
روزوں کے متعلق ابواب
رمضان کے استقبال کی نیت سے روزے نہ رکھے
 ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا :  رمضان سے ایک یا دو دن پہلے  (رمضان کے استقبال میں)  روزہ نہ رکھو سوائے اس کے کہ آدمی اس دن روزہ رکھتا آ رہا ہو تو اسے رکھے ۔    امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔    تخریج دارالدعوہ :  انظر ما قبلہ  ( تحفة الأشراف : ١٥٤٠٦) (صحیح)    قال الشيخ الألباني :  صحيح، ابن ماجة (1650)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 685  
حدیث نمبر: 685  حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْمُبَارَكِ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:  لَا تَقَدَّمُوا شَهْرَ رَمَضَانَ بِصِيَامٍ قَبْلَهُ بِيَوْمٍ أَوْ يَوْمَيْنِ، إِلَّا أَنْ يَكُونَ رَجُلٌ كَانَ يَصُومُ صَوْمًا فَلْيَصُمْهُ . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৬৮৬
روزوں کے متعلق ابواب
شک کے دن روزہ رکھنا مکروہ ہے
 صلہ بن زفر کہتے ہیں کہ  ہم عمار بن یاسر (رض) کے پاس تھے کہ ایک بھنی ہوئی بکری لائی گئی تو انہوں نے کہا : کھاؤ۔ یہ سن کر ایک صاحب الگ گوشے میں ہوگئے اور کہا : میں روزے سے ہوں، اس پر عمار (رض) نے کہا : جس نے کسی ایسے دن روزہ رکھا جس میں لوگوں کو شبہ ہو  ١ ؎  (کہ رمضان کا چاند ہوا ہے یا نہیں)  اس نے ابوالقاسم  ﷺ  کی نافرمانی کی۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١- عمار (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے،  ٢- اس باب میں ابوہریرہ اور انس (رض) سے بھی احادیث آئی ہے،  ٣- صحابہ کرام اور ان کے بعد تابعین میں سے اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے، یہی سفیان ثوری، مالک بن انس، عبداللہ بن مبارک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے۔ ان لوگوں نے اس دن روزہ رکھنے کو مکروہ قرار دیا ہے جس میں شبہ ہو،  (کہ رمضان کا چاند ہوا ہے یا نہیں)  اور ان میں سے اکثر کا خیال ہے کہ اگر وہ اس دن روزہ رکھے اور وہ ماہ رمضان کا دن ہو تو وہ اس کے بدلے ایک دن کی قضاء کرے۔    تخریج دارالدعوہ :  صحیح البخاری/الصیام ٣٧ (٢١٩٠) ، سنن ابن ماجہ/الصیام ٣ (١٦٤٥) ،  ( تحفة الأشراف : ١٠٣٥٤) ، سنن الدارمی/الصوم ١ (١٧٢٤) (صحیح)    وضاحت :  ١ ؎ :  جس میں شبہ ہو  سے مراد ٣٠ شعبان کا دن ہے یعنی بادل کی وجہ سے ٢٩ ویں دن چاند نظر نہیں آیا تو کوئی شخص یہ سمجھ کر روزہ رکھ لے کہ پتہ نہیں یہ شعبان کا تیسواں دن ہے یا رمضان کا پہلا دن ، کہیں یہ رمضان ہی نہ ہو ، اس طرح شک والے دن میں روزہ رکھنا صحیح نہیں۔    قال الشيخ الألباني :  صحيح، ابن ماجة (1645)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 686  
حدیث نمبر: 686  حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ الْأَشَجُّ، حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الْأَحْمَرُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ قَيْسٍ الْمُلَائِيِّ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ صِلَةَ بْنِ زُفَرَ، قَالَ: كُنَّا عِنْدَ عَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ فَأُتِيَ بِشَاةٍ مَصْلِيَّةٍ، فَقَالَ: كُلُوا، فَتَنَحَّى بَعْضُ الْقَوْمِ، فَقَالَ: إِنِّي صَائِمٌ، فَقَالَ عَمَّارٌ:  مَنْ صَامَ الْيَوْمَ الَّذِي يَشُكُّ فِيهِ النَّاسُ، فَقَدْ عَصَى أَبَا الْقَاسِمِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ . قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَأَنَسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَمَّارٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَنْ بَعْدَهُمْ مِنَ التَّابِعِينَ، وَبِهِ يَقُولُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، وَمَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، وَالشَّافِعِيُّ، وَأَحْمَدُ، وَإِسْحَاق: كَرِهُوا أَنْ يَصُومَ الرَّجُلُ الْيَوْمَ الَّذِي يُشَكُّ فِيهِ، وَرَأَى أَكْثَرُهُمْ إِنْ صَامَهُ فَكَانَ مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ أَنْ يَقْضِيَ يَوْمًا مَكَانَهُ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৬৮৭
روزوں کے متعلق ابواب
رمضان کے لئے شعبان کے چاند کا خیال رکھنا چاہئے
 ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا :  رمضان کے لیے شعبان کے چاند کی گنتی کرو ۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١- ابوہریرہ (رض) کی حدیث غریب ہے،  ٢- ہم اسے اس طرح ابومعاویہ ہی کی روایت سے جانتے ہیں اور صحیح وہ روایت ہے جو  (عبدہ بن سلیمان نے)  بطریق «محمد بن عمرو عن أبي سلمة عن أبي هريرة عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا : رمضان کے استقبال میں ایک یا دو دن پہلے روزہ شروع نہ کر دو ، اسی طرح بطریق : «يحيى بن أبي كثير عن أبي سلمة عن أبي هريرة عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» مروی ہے۔    تخریج دارالدعوہ :  تفرد بہ المؤلف  ( تحفة الأشراف : ١٥١٢٣) (حسن)    قال الشيخ الألباني :  حسن، الصحيحة (565)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 687  
حدیث نمبر: 687  حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ حَجَّاجٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ:  أَحْصُوا هِلَالَ شَعْبَانَ لِرَمَضَانَ . قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ مِثْلَ هَذَا إِلَّا مِنْ حَدِيثِ أَبِي مُعَاوِيَةَ، وَالصَّحِيحُ مَا رُوِيَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:  لَا تَقَدَّمُوا شَهْرَ رَمَضَانَ بِيَوْمٍ وَلَا يَوْمَيْنِ . وَهَكَذَا رُوِيَ عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، نَحْوَ حَدِيثِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو اللَّيْثِيِّ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৬৮৮
روزوں کے متعلق ابواب
چاند دیکھ کر روزہ رکھے اور چاند دیکھ کر افطار کرے
 عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا :  رمضان سے پہلے  ١ ؎ روزہ نہ رکھو، چاند دیکھ کر روزہ رکھو، اور دیکھ کر ہی بند کرو، اور اگر بادل آڑے آ جائے تو مہینے کے تیس دن پورے کرو   ٢ ؎۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١- ابن عباس (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے اور کئی سندوں سے یہ حدیث روایت کی گئی ہے۔  ٢- اس باب میں ابوہریرہ، ابوبکرہ اور ابن عمر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔    تخریج دارالدعوہ :  سنن ابی داود/ الصیام ٧ (٢٣٢٧) ، سنن النسائی/الصیام ١٢ (٢١٢٦) ،  ( تحفة الأشراف : ٦١٠٥) ، وأخرجہ موطا امام مالک/الصیام ١ (٣) ، و مسند احمد (١/٢٢١) ، وسنن الدارمی/الصوم ١ (١٧٢٥) من غیر ہذا الطریق عنہ (صحیح)    وضاحت :  ١ ؎ :  رمضان سے پہلے  سے مراد شعبان کا دوسرا نصف ہے ، مطلب یہ ہے کہ ١٥ شعبان کے بعد نفلی روزے نہ رکھے جائیں تاکہ رمضان کے فرض روزوں کے لیے اس کی قوت و توانائی برقرار رہے۔  ٢ ؎ یعنی بادل کی وجہ سے مطلع صاف نہ ہو اور ٢٩ شعبان کو چاند نظر نہ آئے تو شعبان کے تیس دن پورے کر کے رمضان کے روزے شروع کئے جائیں ، اسی طرح اگر ٢٩ رمضان کو چاند نظر نہ آئے تو رمضان کے تیس روزے پورے کر کے عید الفطر منائی جائے۔    قال الشيخ الألباني :  صحيح، صحيح أبي داود (2016)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 688  
حدیث نمبر: 688  حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:  لَا تَصُومُوا قَبْلَ رَمَضَانَ، صُومُوا لِرُؤْيَتِهِ، وَأَفْطِرُوا لِرُؤْيَتِهِ، فَإِنْ حَالَتْ دُونَهُ غَيَايَةٌ فَأَكْمِلُوا ثَلَاثِينَ يَوْمًا . وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَأَبِي بَكْرَةَ، وَابْنِ عُمَرَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْهُ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৬৮৯
روزوں کے متعلق ابواب
مہینہ کبھی انتیس دن کا بھی ہوتا ہے
 عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ  میں نے رسول اللہ  ﷺ  کے ساتھ تیس دن کے روزے رکھنے سے زیادہ ٢٩ دن کے روزے رکھے ہیں۔    امام ترمذی کہتے ہیں : اس باب میں عمر، ابوہریرہ، عائشہ، سعد بن ابی وقاص، ابن عباس، ابن عمر، انس، جابر، ام سلمہ اور ابوبکرہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں کہ نبی اکرم  ﷺ  نے فرمایا :  مہینہ ٢٩ دن کا  (بھی)  ہوتا ہے ۔    تخریج دارالدعوہ :  سنن ابی داود/ الصوم ٤ (٢٣٢٢) ،  ( تحفة الأشراف : ٩٤٧٨) ، مسند احمد (١/٤٤١) (صحیح)    قال الشيخ الألباني :  صحيح، ابن ماجة (1658)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 689  
حدیث نمبر: 689  حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ زَكَرِيَّا بْنِ أَبِي زَائِدَةَ، أَخْبَرَنِي عِيسَى بْنُ دِينَارٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ بْنِ أَبِي ضِرَارٍ، عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ:  مَا صُمْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تِسْعًا وَعِشْرِينَ أَكْثَرُ مِمَّا صُمْنَا ثَلَاثِينَ . قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عُمَرَ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَعَائِشَةَ، وَسَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَابْنِ عُمَرَ، وَأَنَسٍ، وَجَابِرٍ، وَأُمِّ سَلَمَةَ، وَأَبِي بَكْرَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:  الشَّهْرُ يَكُونُ تِسْعًا وَعِشْرِينَ .  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৬৯০
روزوں کے متعلق ابواب
مہینہ کبھی انتیس دن کا بھی ہوتا ہے
 انس (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے اپنی بیویوں سے ایک ماہ کے لیے ایلاء کیا  (یعنی اپنی بیویوں سے نہ ملنے کی قسم کھائی)  پھر آپ نے اپنے بالاخانے میں ٢٩ دن قیام کیا  (پھر آپ اپنی بیویوں کے پاس آئے)  تو لوگوں نے کہا : اللہ کے رسول ! آپ نے تو ایک مہینے کا ایلاء کیا تھا ؟ آپ نے فرمایا :  مہینہ ٢٩ دن کا  (بھی)  ہوتا ہے ۔    امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔    تخریج دارالدعوہ :  تفرد بہ المؤلف  ( تحفة الأشراف : ٥٨٣) (صحیح) وأخرجہ کل من : صحیح البخاری/الصلاة ١٨ (٣٧٨) ، والصوم ١١ (١٩١١) ، والمظالم ٢٥ (٢٤٦٩) ، والنکاح ٩١ (٥٢٠١) ، والأیمان والنذور ٢٠ (٦٦٨٤) ، سنن النسائی/الطلاق ٣٢ (٣٤٨٦) ، مسند احمد (٣/٢٠٠) من غیر ہذا الطریق عنہ    قال الشيخ الألباني :  صحيح    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 690  
حدیث نمبر: 690  حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسٍ، أَنَّهُ قَالَ: آلَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ نِسَائِهِ شَهْرًا، فَأَقَامَ فِي مَشْرُبَةٍ تِسْعًا وَعِشْرِينَ يَوْمًا، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّكَ آلَيْتَ شَهْرًا، فَقَالَ:  الشَّهْرُ تِسْعٌ وَعِشْرُونَ . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৬৯১
روزوں کے متعلق ابواب
مہینہ کبھی انتیس دن کا بھی ہوتا ہے
 عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ  ایک اعرابی نے نبی اکرم  ﷺ   کے پاس آ کر کہا : میں نے چاند دیکھا ہے، آپ نے فرمایا :  کیا تم گواہی دیتے ہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور کیا گواہی دیتے ہو کہ محمد اللہ کے رسول ہیں ؟  اس نے کہا : ہاں دیتا ہوں، آپ نے فرمایا :  بلال ! لوگوں میں اعلان کر دو کہ وہ کل روزہ رکھیں ۔   
حدیث نمبر: 691  حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ أَبِي ثَوْرٍ، عَنْ سِمَاكٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: جَاءَ أَعْرَابِيٌّ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إِنِّي رَأَيْتُ الْهِلَالَ، قَالَ:  أَتَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، أَتَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ  قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: يَا بِلَالُ  أَذِّنْ فِي النَّاسِ أَنْ يَصُومُوا غَدًا . 

তাহকীক:
হাদীস নং: ৬৯২
روزوں کے متعلق ابواب
عید کے دو مہینے ایک ساتھ کم نہیں ہوتے
 ابوبکرہ (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا :  عید کے دونوں مہینے رمضان  ١ ؎ اور ذوالحجہ کم نہیں ہوتے  (یعنی دونوں ٢٩ دن کے نہیں ہوتے) ۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١- ابوبکرہ کی حدیث حسن ہے،  ٢- یہ حدیث عبدالرحمٰن بن ابی بکرہ سے مروی ہے انہوں نے نبی اکرم  ﷺ  سے مرسلاً روایت کی ہے،  ٣- احمد بن حنبل کہتے ہیں : اس حدیث  عید کے دونوں مہینے کم نہیں ہوتے  کا مطلب یہ ہے کہ رمضان اور ذی الحجہ دونوں ایک ہی سال کے اندر کم نہیں ہوتے  ٢ ؎ اگر ان دونوں میں کوئی کم ہوگا یعنی ایک ٢٩ دن کا ہوگا تو دوسرا پورا یعنی تیس دن کا ہوگا،  ٤- اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر یہ ٢٩ دن کے ہوں تو بھی ثواب کے اعتبار سے کم نہ ہوں گے، اسحاق بن راہویہ کے مذہب کی رو سے دونوں مہینے ایک سال میں کم ہوسکتے ہیں یعنی دونوں ٢٩ دن کے ہوسکتے ہیں  ٣ ؎۔    تخریج دارالدعوہ :  صحیح البخاری/الصوم ١٢ (١٩١٢) ، صحیح مسلم/الصوم   ٧ (١٠٨٩) ، سنن ابی داود/ الصوم ٤ (٢٣٢٣) ، سنن ابن ماجہ/الصیام ٩ (١٦٥٩) ،  ( تحفة الأشراف : ١١٦٧٧) ، مسند احمد (٥/٣٨) (صحیح)    وضاحت :  ١ ؎ : یہاں ایک اشکال یہ ہے کہ عید تو شوال میں ہوتی ہے پھر رمضان کو شہر عید کیسے کہا گیا ہے اس کا جواب یہ ہے کہ یہ قرب کی وجہ سے کہا گیا ہے چونکہ عید رمضان ہی کی وجہ سے متحقق ہوتی ہے لہٰذا اس کی طرف نسبت کردی گئی ہے۔  ٢ ؎ : اس پر یہ اعتراض ہوتا ہے کہ بعض اوقات دونوں انتیس  ( ٢٩) کے ہوتے ہیں ، تو اس کا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ عام طور سے دونوں کم نہیں ہوتے ہیں۔  ٣ ؎ : اور ایسا ہوتا بھی ہے۔    قال الشيخ الألباني :  صحيح، ابن ماجة (1659)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 692  
حدیث نمبر: 692  حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ يَحْيَى بْنُ خَلَفٍ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:  شَهْرَا عِيدٍ لَا يَنْقُصَانِ رَمَضَانُ وَذُو الْحِجَّةِ . قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي بَكْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُرْسَلًا، قَالَ أَحْمَدُ: مَعْنَى هَذَا الْحَدِيثِ شَهْرَا عِيدٍ لَا يَنْقُصَانِ، يَقُولُ: لَا يَنْقُصَانِ مَعًا فِي سَنَةٍ وَاحِدَةٍ شَهْرُ رَمَضَانَ وَذُو الْحِجَّةِ، إِنْ نَقَصَ أَحَدُهُمَا تَمَّ الْآخَرُ، وقَالَ إِسْحَاق: مَعْنَاهُ لَا يَنْقُصَانِ، يَقُولُ: وَإِنْ كَانَ تِسْعًا وَعِشْرِينَ فَهُوَ تَمَامٌ غَيْرُ نُقْصَانٍ، وَعَلَى مَذْهَبِ إِسْحَاق يَكُونُ يَنْقُصُ الشَّهْرَانِ مَعًا فِي سَنَةٍ وَاحِدَةٍ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৬৯৩
روزوں کے متعلق ابواب
ہر شہر والوں کے لئے انہیں کے چاند دیکھنے کا اعتبار ہے
 کریب بیان کرتے ہیں کہ  ام فضل بنت حارث نے انہیں معاویہ (رض) کے پاس شام بھیجا، تو میں شام آیا اور میں نے ان کی ضرورت پوری کی، اور  (اسی درمیان)  رمضان کا چاند نکل آیا، اور میں شام ہی میں تھا کہ ہم نے جمعہ کی رات کو چاند دیکھا  ١ ؎، پھر میں مہینے کے آخر میں مدینہ آیا تو ابن عباس (رض) نے مجھ سے وہاں کے حالات پوچھے پھر انہوں نے چاند کا ذکر کیا اور کہا : تم لوگوں نے چاند کب دیکھا تھا ؟ میں نے کہا : ہم نے اسے جمعہ کی رات کو دیکھا تھا، تو انہوں نے کہا : کیا تم نے بھی جمعہ کی رات کو دیکھا تھا ؟ تو میں نے کہا : لوگوں نے اسے دیکھا اور انہوں نے روزے رکھے اور معاویہ (رض) نے بھی روزہ رکھا، اس پر ابن عباس (رض) نے کہا : لیکن ہم نے اسے ہفتہ  (سنیچر)  کی رات کو دیکھا، تو ہم برابر روزے سے رہیں گے یہاں تک کہ ہم تیس دن پورے کرلیں، یا ہم ٢٩ کا چاند دیکھ لیں، تو میں نے کہا : کیا آپ معاویہ کے چاند دیکھنے اور روزہ رکھنے پر اکتفا نہیں کریں گے ؟ انہوں نے کہا : نہیں، ہمیں رسول اللہ  ﷺ  نے ایسا ہی حکم دیا ہے  ١ ؎۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١- ابن عباس (رض) کی حدیث حسن صحیح غریب ہے،  ٢- اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ ہر شہر والوں کے لیے ان کے خود چاند دیکھنے کا اعتبار ہوگا۔    تخریج دارالدعوہ :  صحیح مسلم/الصوم ٥ (١٠٨٧) ، سنن ابی داود/ الصیام ٩ (٢٣٣٢) ، سنن النسائی/الصیام ٧ (٢١١٣) ،  ( تحفة الأشراف : ٦٣٥٧) ، مسند احمد (١/٣٠٦) (صحیح)    وضاحت :  ١ ؎ : اس سے معلوم ہوا کہ روزہ رکھنے اور توڑنے کے سلسلہ میں چاند کی رویت ضروری ہے ، محض فلکی حساب کافی نہیں ، رہا یہ مسئلہ کہ ایک علاقے کی رویت دوسرے علاقے کے لیے معتبر ہوگی یا نہیں ؟ تو اس سلسلہ میں علماء میں اختلاف ہے جو گروہ معتبر مانتا ہے وہ کہتا ہے کہ «صوموا» اور «افطروا» کے مخاطب ساری دنیا کے مسلمان ہیں اس لیے کسی ایک علاقے کی رویت دنیا کے سارے علاقوں کے لیے رویت ہے اور جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ایک علاقے کی رویت دوسرے علاقے کے لیے کافی نہیں ان کا کہنا ہے کہ اس حکم کے مخاطب صرف وہ مسلمان ہیں جنہوں نے چاند دیکھا ہو ، جن علاقوں میں مسلمانوں نے چاند دیکھا ہی نہیں وہ اس کے مخاطب ہی نہیں ، اس لیے وہ کہتے ہیں کہ ہر علاقے کے لیے اپنی الگ رویت ہے جس کے مطابق وہ روزہ رکھنے یا نہ رکھنے کے فیصلے کریں گے ، اس سلسلہ میں ایک تیسرا قول بھی ہے کہ جو علاقے مطلع کے اعتبار سے قریب قریب ہیں یعنی ان کے طلوع و غروب میں زیادہ فرق نہیں ہے ان علاقوں میں ایک علاقے کی رویت دوسرے علاقوں کے لیے کافی ہے۔    قال الشيخ الألباني :  صحيح، صحيح أبي داود (1021)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 693  
حدیث نمبر: 693  حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي حَرْمَلَةَ، أَخْبَرَنِي كُرَيْبٌ، أَنَّ أُمَّ الْفَضْلِ بِنْتَ الْحَارِثِ بَعَثَتْهُ إِلَى مُعَاوِيَةَ بِالشَّامِ، قَالَ: فَقَدِمْتُ الشَّامَ فَقَضَيْتُ حَاجَتَهَا وَاسْتُهِلَّ عَلَيَّ هِلَالُ رَمَضَانَ وَأَنَا بِالشَّامِ، فَرَأَيْنَا الْهِلَالَ لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ، ثُمَّ قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ فِي آخِرِ الشَّهْرِ، فَسَأَلَنِي ابْنُ عَبَّاسٍ ثُمَّ ذَكَرَ الْهِلَالَ، فَقَالَ: مَتَى رَأَيْتُمُ الْهِلَالَ ؟ فَقُلْتُ: رَأَيْنَاهُ لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ، فَقَالَ: أَأَنْتَ رَأَيْتَهُ لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ ؟ فَقُلْتُ: رَآهُ النَّاسُ وَصَامُوا وَصَامَ مُعَاوِيَةُ، قَالَ: لَكِنْ رَأَيْنَاهُ لَيْلَةَ السَّبْتِ فَلَا نَزَالُ نَصُومُ حَتَّى نُكْمِلَ ثَلَاثِينَ يَوْمًا أَوْ نَرَاهُ، فَقُلْتُ: أَلَا تَكْتَفِي بِرُؤْيَةِ مُعَاوِيَةَ وَصِيَامِهِ ؟ قَالَ: لَا، هَكَذَا أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنَّ لِكُلِّ أَهْلِ بَلَدٍ رُؤْيَتَهُمْ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৬৯৪
روزوں کے متعلق ابواب
کس چیز سے روزہ افطار کرنا مستحب ہے
 انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا :  جسے کھجور میسر ہو، تو چاہیئے کہ وہ اسی سے روزہ کھولے، اور جسے کھجور میسر نہ ہو تو چاہیئے کہ وہ پانی سے کھولے کیونکہ پانی پاکیزہ چیز ہے ۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١- اس باب میں سلمان بن عامر (رض) سے بھی روایت ہے،  ٢- ہم نہیں جانتے کہ انس کی حدیث سعید بن عامر کے علاوہ کسی اور نے بھی شعبہ سے روایت کی ہے، یہ حدیث غیر محفوظ ہے  ١ ؎، ہم اس کی کوئی اصل عبدالعزیز کی روایت سے جسے انہوں نے انس سے روایت کی ہو نہیں جانتے، اور شعبہ کے شاگردوں نے یہ حدیث بطریق : «شعبة عن عاصم الأحول عن حفصة بنت سيرين عن الرباب عن سلمان بن عامر عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» روایت کی ہے، اور یہ سعید بن عامر کی روایت سے زیادہ صحیح ہے، کچھ اور لوگوں نے اس کی بطریق : «شعبة عن عاصم عن حفصة بنت سيرين عن سلمان» روایت کی ہے اور اس میں شعبہ کی رباب سے روایت کرنے کا ذکر نہیں کیا گیا ہے اور صحیح وہ ہے جسے سفیان ثوری، ابن عیینہ اور دیگر کئی لوگوں نے بطریق : «عاصم الأحول عن حفصة بنت سيرين عن الرباب عن سلمان بن عامر» روایت کی ہے، اور ابن عون کہتے ہیں : «عن أم الرائح بنت صليع عن سلمان بن عامر» اور رباب ہی دراصل ام الرائح ہیں  ٢ ؎۔    تخریج دارالدعوہ :  تفرد بہ المؤلف (وأخرجہ النسائی فی الکبری)  ( تحفة الأشراف : ١٠٢٦) (ضعیف) (سند میں سعید بن عامر حافظہ کے ضعیف ہیں اور ان سے اس کی سند میں وہم ہوا بھی ہے، دیکھئے الارواء رقم : ٩٢٢)    وضاحت :  ١ ؎ : کیونکہ سعیدبن عامر «عن شعبة عن عبدالعزيز بن صهيب عن أنس» کے طریق سے اس کی روایت میں منفرد ہیں ، شعبہ کے دوسرے تلامذہ نے ان کی مخالفت کی ہے ، ان لوگوں نے اسے «عن شعبة عن عاصم الأحول عن حفصة بنت سيرين عن سلمان بن عامر» کے طریق سے روایت کی ہے ، اور عاصم الاحول کے تلامذہ مثلاً سفیان ثوری اور ابن عیینہ وغیرہم نے بھی اسے اسی طرح سے روایت کیا ہے۔  ٢ ؎ : یعنی ابن عون نے اپنی روایت میں «عن الرباب» کہنے کے بجائے «عن ام الروائح بنت صلیع» کہا ہے ، اور رباب ام الروائح کے علاوہ کوئی اور عورت نہیں ہیں بلکہ دونوں ایک ہی ہیں۔    قال الشيخ الألباني :  ضعيف، ابن ماجة (1699) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم  (374) //   صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 694  
حدیث نمبر: 694  حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ بْنِ عَلِيٍّ الْمُقَدَّمِيُّ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَامِرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ صُهَيْبٍ، عَنْأَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:  مَنْ وَجَدَ تَمْرًا فَلْيُفْطِرْ عَلَيْهِ وَمَنْ لَا فَلْيُفْطِرْ عَلَى مَاءٍ، فَإِنَّ الْمَاءَ طَهُورٌ . قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ سَلْمَانَ بْنِ عَامِرٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَنَسٍ لَا نَعْلَمُ أَحَدًا رَوَاهُ عَنْ شُعْبَةَ مِثْلَ هَذَا غَيْرَ سَعِيدِ بْنِ عَامِرٍ، وَهُوَ حَدِيثٌ غَيْرُ مَحْفُوظٍ وَلَا نَعْلَمُ لَهُ أَصْلًا مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ صُهَيْبٍ، عَنْ أَنَسٍ، وَقَدْ رَوَى أَصْحَابُ شُعْبَةَ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ عَاصِمٍ الْأَحْوَلِ، عَنْ حَفْصَةَ بِنْتِ سِيرِينَ، عَنْ الرَّبَاب، عَنْ سَلْمَانَ بْنِ عَامِرٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهُوَ أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ سَعِيدِ بْنِ عَامِرٍ، وَهَكَذَا رَوَوْا عَنْ شُعُبَةَ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ حَفْصَةَ بِنْتِ سِيرِينَ، عَنْ سَلْمَانَ وَلَمْ يُذْكَرْ فِيهِ شُعْبَةُ عَنِ الرَّبَاب، وَالصَّحِيحُ مَا رَوَاهُ. وَابْنُ عُيَيْنَةَ وغير واحد، سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، عَنْ عَاصِمٍ الْأَحَوَلِ، عَنْ حَفْصَةَ بِنْتِ سِيرِينَ، عَنْ الرَّبَاب، عَنْ سَلْمَانَ بْنِ عَامِرٍ، وَابْنُ عَوْنٍ، يَقُولُ: عَنْ أُمِّ الرَّائِحِ بِنْتِ صُلَيْعٍ، عَنْ سَلْمَانَ بْنِ عَامِرٍ، وَالرَّبَاب هي أم الرائح.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৬৯৫
روزوں کے متعلق ابواب
کس چیز سے روزہ افطار کرنا مستحب ہے
 سلمان بن عامر ضبی (رض) سے روایت ہے کہ  نبی اکرم  ﷺ  نے فرمایا :  جب تم میں سے کوئی افطار کرے تو چاہیئے کہ کھجور سے افطار کرے کیونکہ اس میں برکت ہے اور جسے  (کھجور)  میسر نہ ہو تو وہ پانی سے افطار کرے کیونکہ یہ پاکیزہ چیز ہے  ٢ ؎۔    امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔    تخریج دارالدعوہ :  سنن ابی داود/ الصوم ٢١ (٢٣٥٥) ، سنن ابن ماجہ/الصیام ٢٥ (١٦٩٩) ،  ( تحفة الأشراف : ٤٤٨٦) ، مسند احمد (٤/، ١٧، ١٩، ٢١٣، ٢١٥) ، سنن الدارمی/الصوم ١٢ (١٧٧٣) ، وانظر أیضا ما تقدم برقم ٦٥٨ (ضعیف)    وضاحت :  ١ ؎ : اگرچہ قولاً اس کی سند صحیح نہیں ہے ، مگر فعلاً یہ حدیث دیگر طرق سے ثابت ہے۔  ٢ ؎ : یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اگر افطار میں کھجور میسر ہو تو کھجور ہی سے افطار کرے کیونکہ یہ مقوی معدہ ، مقوی اعصاب اور جسم میں واقع ہونے والی کمزوریوں کا بہترین بدل ہے اور اگر کھجور میّسر نہ ہو سکے تو پھر پانی سے افطار بہتر ہے نبی اکرم  ﷺ  تازہ کھجور سے افطار کیا کرتے تھے اگر تازہ کھجور نہیں ملتی تو خشک کھجور سے افطار کرتے اور اگر وہ بھی نہ ملتی تو چند گھونٹ پانی سے افطار کرتے تھے۔ ان دونوں چیزوں کے علاوہ اجر و ثواب وغیرہ کی نیت سے کسی اور چیز مثلاً نمک وغیرہ سے افطار کرنا بدعت ہے ، جو ملاؤں نے ایجاد کی ہے۔    قال الشيخ الألباني :  ضعيف    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 695  
حدیث نمبر: 695  حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَاصِمٍ الْأَحْوَلِ ح. وَحَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ عَاصِمٍ الْأَحْوَلِ. وحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: أَنْبَأَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَاصِمٍ الْأَحْوَلِ، عَنْ حَفْصَةَ بِنْتِ سِيرِينَ، عَنْ الرَّبَاب، عَنْ سَلْمَانَ بْنِ عَامِرٍ الضَّبِّيِّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:  إِذَا أَفْطَرَ أَحَدُكُمْ فَلْيُفْطِرْ عَلَى تَمْرٍ زَادَ ابْنُ عُيَيْنَةَ فَإِنَّهُ بَرَكَةٌ، فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَلْيُفْطِرْ عَلَى مَاءٍ فَإِنَّهُ طَهُورٌ . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৬৯৬
روزوں کے متعلق ابواب
کس چیز سے روزہ افطار کرنا مستحب ہے
 انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ  نبی اکرم  ﷺ   (مغرب)  پڑھنے سے پہلے چند تر کھجوروں سے افطار کرتے تھے، اور اگر تر کھجوریں نہ ہوتیں تو چند خشک کھجوروں سے اور اگر خشک کھجوریں بھی میسر نہ ہوتیں تو پانی کے چند گھونٹ پی لیتے۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١- یہ حدیث حسن غریب ہے،  ٢- اور یہ بھی مروی ہے کہ رسول اللہ  ﷺ  سردیوں میں چند کھجوروں سے افطار کرتے اور گرمیوں میں پانی سے۔    تخریج دارالدعوہ :  سنن ابی داود/ الصیام ٢١ (٢٣٥٦) ،  ( تحفة الأشراف : ٢٦٥) (صحیح)    قال الشيخ الألباني :  صحيح، الإرواء (922) ، الصحيح (2040)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 696  
حدیث نمبر: 696  حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ:  كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُفْطِرُ قَبْلَ أَنْ يُصَلِّيَ عَلَى رُطَبَاتٍ، فَإِنْ لَمْ تَكُنْ رُطَبَاتٌ فَتُمَيْرَاتٌ، فَإِنْ لَمْ تَكُنْ تُمَيْرَاتٌ حَسَا حَسَوَاتٍ مِنْ مَاءٍ . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَرُوِيَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ  يُفْطِرُ فِي الشِّتَاءِ عَلَى تَمَرَاتٍ، وَفِي الصَّيْفِ عَلَى الْمَاءِ .  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৬৯৭
روزوں کے متعلق ابواب
عید الفطر اس دن جس دن سب افطار کرین اور عیدا لاضحی اس دن جس دن سب قربانی کرین
 ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ  نبی اکرم  ﷺ  نے فرمایا :  صیام کا دن وہی ہے جس دن تم سب روزہ رکھتے ہو اور افطار کا دن وہی ہے جب سب عید الفطر مناتے ہو اور اضحٰی کا دن وہی ہے جب سب عید مناتے ہو ۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١- یہ حدیث حسن غریب ہے،  ٢- بعض اہل علم نے اس حدیث کی تشریح یوں کی ہے کہ صوم اور عید الفطر اجتماعیت اور سواد اعظم کے ساتھ ہونا چاہیئے  ١ ؎۔    تخریج دارالدعوہ :  تفرد بہ المؤلف  ( تحفة الأشراف : ١٢٩٩٧) وأخرجہ کل من : سنن ابی داود/ الصوم ٥ (٢٣٢٤) وسنن ابن ماجہ/الصیام ٩ (١٦٦٠) من غیر ہذا الطریق (صحیح)    وضاحت :  ١ ؎ : امام ترمذی کا اس حدیث پر عنوان لگانے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جب چاند دیکھنے میں غلطی ہوجائے اور سارے کے سارے لوگ غور و خوض کرنے کے بعد ایک فیصلہ کرلیں تو اسی کے حساب سے رمضان اور عید میں کیا جائے۔    قال الشيخ الألباني :  صحيح، ابن ماجة (1660)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 697  
حدیث نمبر: 697  أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ، حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ مُحَمَّدٍ الْأَخْنَسِيِّ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:  الصَّوْمُ يَوْمَ تَصُومُونَ وَالْفِطْرُ يَوْمَ تُفْطِرُونَ وَالْأَضْحَى يَوْمَ تُضَحُّونَ . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَفَسَّرَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ هَذَا الْحَدِيثَ، فَقَالَ: إِنَّمَا مَعْنَى هَذَا أَنَّ الصَّوْمَ وَالْفِطْرَ مَعَ الْجَمَاعَةِ وَعُظْمِ النَّاسِ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৬৯৮
روزوں کے متعلق ابواب
جب رات سامنے آئے اور دن گزرے تو افطار کرنا چاہئے
 عمر بن خطاب (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا :  جب رات آ جائے، اور دن چلا جائے اور سورج ڈوب جائے تو تم نے افطار کرلیا  ١ ؎۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١- عمر (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے،  ٢- اس باب میں ابن ابی اوفی اور ابو سعید خدری سے بھی احادیث آئی ہیں۔    تخریج دارالدعوہ :  صحیح البخاری/الصوم ٤٣ (١٩٥٤) ، صحیح مسلم/الصیام ١٠ (١١٠٠) ، سنن ابی داود/ الصیام ١٩ (٢٣٥١) ، ٢٨، ٣٥،  ( تحفة الأشراف : ١٠٤٧٤) ، مسند احمد (١/٤٨) ، سنن الدارمی/الصوم ١١ (١٧٤٢) (صحیح)    وضاحت :  ١ ؎ :  تم نے افطار کرلیا  کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ تمہارے روزہ کھولنے کا وقت ہوگیا ، اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ تم شرعاً روزہ کھولنے والے ہوگئے خواہ تم نے کچھ کھایا پیا نہ ہو کیونکہ سورج ڈوبتے ہی روزہ اپنے اختتام کو پہنچ گیا اس میں روزہ کے وقت کا تعین کردیا گیا ہے کہ وہ صبح صادق سے سورج ڈوبنے تک ہے۔    قال الشيخ الألباني :  صحيح، صحيح أبي داود (2036) ، الإرواء (916)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 698  
حدیث نمبر: 698  حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ إِسْحَاق الْهَمْدَانِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:  إِذَا أَقْبَلَ اللَّيْلُ وَأَدْبَرَ النَّهَارُ وَغَابَتِ الشَّمْسُ فَقَدْ أَفْطَرْتَ . قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ أَبِي أَوْفَى، وَأَبِي سَعِيدٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৬৯৯
روزوں کے متعلق ابواب
جلدی روزہ کھولنا
 سہل بن سعد (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا :  لوگ برابر خیر میں رہیں گے  ١ ؎ جب تک کہ وہ افطار میں جلدی کریں گے   ٢ ؎۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١- سہل بن سعد (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے،  ٢- اس باب میں ابوہریرہ، ابن عباس، عائشہ اور انس بن مالک (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں،  ٣- اور یہی قول ہے جسے صحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم نے اختیار کیا ہے، ان لوگوں نے افطار میں جلدی کرنے کو مستحب جانا ہے اور اسی کے شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی قائل ہیں۔    تخریج دارالدعوہ :  صحیح البخاری/الصوم ٤٥ (١٩٥٧) ،  ( تحفة الأشراف : ٤٧٤٦) ، موطا امام مالک/الصیام ٣ (٦) ، مسند احمد (٥/٣٣٧، ٣٣٩) (صحیح) وأخرجہ کل من : صحیح مسلم/الصیام ٩ (١٠٩٨) ، وسنن ابن ماجہ/الصیام ٢٤ (١٦٩٧) ، مسند احمد (٥/٣٣١، ٣٣٤، ٣٣٦) ، وسنن الدارمی/الصوم ١١ (١٧٤١) من غیر ہذا الطریق۔    وضاحت :  ١ ؎ : «خیر» سے مراد دین و دنیا کی بھلائی ہے۔  ٢ ؎ : افطار میں جلدی کریں گے ، کا مطلب یہ نہیں ہے کہ سورج ڈوبنے سے پہلے روزہ کھول لیں گے ، بلکہ مطلب یہ ہے کہ سورج ڈوبنے کے بعد روزہ کھولنے میں تاخیر نہیں کریں گے جیسا کہ آج کل احتیاط کے نام پر کیا جاتا ہے۔    قال الشيخ الألباني :  صحيح، الإرواء (917)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 699  
حدیث نمبر: 699  حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ ح. قَالَ: وأَخْبَرَنَا أَبُو مُصْعَبٍقِرَاءَةً، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:  لَا يَزَالُ النَّاسُ بِخَيْرٍ مَا عَجَّلُوا الْفِطْرَ . قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَعَائِشَةَ، وَأَنَسِ بْنِ مَالِكٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَهُوَ الَّذِي اخْتَارَهُ أَهْلُ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمُ اسْتَحَبُّوا تَعْجِيلَ الْفِطْرِ، وَبِهِ يَقُولُ الشَّافِعِيُّ، وَأَحْمَدُ، وَإِسْحَاق.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৭০০
روزوں کے متعلق ابواب
جلدی روزہ کھولنا
 ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا :  اللہ عزوجل فرماتا ہے : مجھے میرے بندوں میں سب سے زیادہ محبوب وہ ہیں جو افطار میں جلدی کرنے والے ہیں   ١ ؎۔    تخریج دارالدعوہ :  تفرد بہ المؤلف  ( تحفة الأشراف : ١٥٢٣٥) ، وانظر : مسند احمد (٢/٢٣٨، ٣٢٩) (ضعیف) (سند میں قرة بن عبدالرحمن کی بہت سے منکر روایات ہیں، نیز ولید بن مسلم مدلس ہیں اور روایت عنعنہ سے ہے) ۔    وضاحت :  ١ ؎ : اس محبت کی وجہ شاید سنت کی متابعت ، بدعت سے دور رہنے اور اہل کتاب کی مخالفت ہے۔    قال الشيخ الألباني :  ضعيف، المشکاة (1989) ، التعليق الرغيب (2 / 95) ، التعليقات الجياد // ضعيف الجامع الصغير (4041) //   صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 700  
حدیث نمبر: 700  حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مُوسَى الْأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ، عَنْ قُرَّةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْالزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ:  أَحَبُّ عِبَادِي إِلَيَّ أَعْجَلُهُمْ فِطْرًا .  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৭০১
روزوں کے متعلق ابواب
جلدی روزہ کھولنا
 اس سند سے بھی  اوزاعی سے اسی طرح مروی ہے۔    امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے۔    تخریج دارالدعوہ :  انظر ما قبلہ (ضعیف) (سابقہ حدیث کے رواة اس میں بھی ہیں)    قال الشيخ الألباني : **   صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 701  
حدیث نمبر: 701  حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَخْبَرَنَا أَبُو عَاصِمٍ، وَأَبُو الْمُغِيرَةِ، عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ بِهَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَهُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.  

তাহকীক: