আল জামিউল কাবীর- ইমাম তিরমিযী রহঃ (উর্দু)
الجامع الكبير للترمذي
حج کا بیان - এর পরিচ্ছেদসমূহ
মোট হাদীস ২০ টি
হাদীস নং: ৮০৯
حج کا بیان
مکہ کا حرم ہونا
 ابوشریح عدوی (رض) سے روایت ہے کہ  انہوں نے عمرو بن سعید  ٢ ؎ سے - جب وہ مکہ کی طرف  (عبداللہ بن زبیر سے قتال کے لیے)  لشکر روانہ کر رہے تھے کہا : اے امیر ! مجھے اجازت دیجئیے کہ میں آپ سے ایک ایسی بات بیان کروں جسے رسول اللہ  ﷺ  نے فتح مکہ کے دوسرے دن فرمایا، میرے کانوں نے اسے سنا، میرے دل نے اسے یاد رکھا اور میری آنکھوں نے آپ کو دیکھا، جب آپ نے یہ حدیث بیان فرمائی تو اللہ کی حمد و ثنا بیان کی پھر فرمایا :  مکہ  (میں جنگ و جدال کرنا)  اللہ نے حرام کیا ہے۔ لوگوں نے حرام نہیں کیا ہے، لہٰذا کسی شخص کے لیے جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو، یہ جائز نہیں کہ وہ اس میں خون بہائے، یا اس کا کوئی درخت کاٹے۔ اگر کوئی اس میں رسول اللہ  ﷺ  کے قتال کو دلیل بنا کر  (قتال کا)  جواز نکالے تو اس سے کہو : اللہ نے اپنے رسول  ﷺ  کو اس کی اجازت دی تھی، تمہیں نہیں دی ہے۔ تو مجھے بھی دن کے کچھ وقت کے لیے آج اجازت تھی، آج اس کی حرمت ویسے ہی لوٹ آئی ہے جیسے کل تھی۔ جو لوگ موجود ہیں وہ یہ بات ان لوگوں کو پہنچا دیں جو موجود نہیں ہیں ، ابوشریح سے پوچھا گیا : اس پر عمرو بن سعید نے آپ سے کیا کہا ؟ کہا : اس نے مجھ سے کہا : ابوشریح ! میں یہ بات آپ سے زیادہ اچھی طرح جانتا ہوں، حرم مکہ کسی نافرمان  (یعنی باغی)  کو پناہ نہیں دیتا اور نہ کسی کا خون کر کے بھاگنے والے کو اور نہ چوری کر کے بھاگنے والے کو۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١- ابوشریح (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے،  ٢- ابوشریح خزاعی کا نام خویلد بن عمرو ہے۔ اور یہی عدوی اور کعبی یہی ہیں،  ٣- اس باب میں ابوہریرہ اور ابن عباس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں،  ٤- «ولا فارا بخربة» کی بجائے «ولا فارا بخزية» زائے منقوطہٰ اور یاء کے ساتھ بھی مروی ہے،  ٥- اور «ولا فارا بخربة» میں «خربہ» کے معنی گناہ اور جرم کے ہیں یعنی جس نے کوئی جرم کیا یا خون کیا پھر حرم میں پناہ لی تو اس پر حد جاری کی جائے گی۔    تخریج دارالدعوہ :  صحیح البخاری/العلم ٣٧ (١٠٤) ، وجزاء الصید ٨ (١٨٣٢) ، والمغازي ٥١ (٤٢٩٥) ، صحیح مسلم/الحج ٨٢ (١٣٥٤) ، سنن النسائی/الحج ١١١ (٢٨٧٩) ،  ( تحفة الأشراف : ١٢٠٥٧) ، مسند احمد (٤/٣١) ، ویأتي عند المؤلف في الدیات (برقم : ١٤٠٦) ، و مسند احمد (٦/٣٨٥) من غیر ہذا الطریق (صحیح)    وضاحت :  ١ ؎ : حج اسلام کا پانچواں بنیادی رکن ہے اس کی فرضیت ٥ ھ یا ٦ ھ میں ہوئی اور بعض نے ٩ ھ یا ١٠ ھ کہا ہے ، زادالمعاد میں ابن القیم کا رجحان اسی طرف ہے۔  ٢ ؎ : عمرو بن سعید : یزید کی طرف سے مدینہ کا گونر تھا اور یزید کی حکومت کا عبداللہ بن زبیر (رض) کی خلافت کے خلاف لشکر کشی کرنا اور وہ بھی مکہ مکرمہ پر قطعا غلط تھی۔    قال الشيخ الألباني :  صحيح    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 809  
حدیث نمبر: 809  حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي شُرَيْحٍ الْعَدَوِيِّ، أَنَّهُ قَالَ لِعَمْرِو بْنِ سَعِيدٍ وَهُوَ يَبْعَثُ الْبُعُوثَ إِلَى مَكَّةَ: ائْذَنْ لِي أَيُّهَا الْأَمِيرُ أُحَدِّثْكَ قَوْلًا قَامَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْغَدَ مِنْ يَوْمِ الْفَتْحِ سَمِعَتْهُ أُذُنَايَ وَوَعَاهُ قَلْبِي وَأَبْصَرَتْهُ عَيْنَايَ حِينَ تَكَلَّمَ بِهِ أَنَّهُ حَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ:  إِنَّ مَكَّةَ حَرَّمَهَا اللَّهُ وَلَمْ يُحَرِّمْهَا النَّاسُ، وَلَا يَحِلُّ لِامْرِئٍ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أَنْ يَسْفِكَ فِيهَا دَمًا أَوْ يَعْضِدَ بِهَا شَجَرَةً، فَإِنْ أَحَدٌ تَرَخَّصَ بِقِتَالِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهَا، فَقُولُوا لَهُ: إِنَّ اللَّهَ أَذِنَ لِرَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَمْ يَأْذَنْ لَكَ، وَإِنَّمَا أَذِنَ لِي فِيهِ سَاعَةً مِنَ النَّهَارِ، وَقَدْ عَادَتْ حُرْمَتُهَا الْيَوْمَ كَحُرْمَتِهَا بِالْأَمْسِ وَلْيُبَلِّغْ الشَّاهِدُ الْغَائِبَ . فَقِيلَ لِأَبِي شُرَيْحٍ: مَا قَالَ لَكَ عَمْرٌو ؟ قَالَ: أَنَا أَعْلَمُ مِنْكَ بِذَلِكَ يَا أَبَا شُرَيْحٍ إِنَّ الْحَرَمَ لَا يُعِيذُ عَاصِيًا وَلَا فَارًّا بِدَمٍ وَلَا فَارًّا بِخَرْبَةٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَيُرْوَى وَلَا فَارًّا بِخِزْيَةٍ، قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَابْنِ عَبَّاسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي شُرَيْحٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَأَبُو شُرَيْحٍ الْخُزَاعِيُّ اسْمُهُ خُوَيْلِدُ بْنُ عَمْرٍو وَهُوَ الْعَدَوِيُّ وَهُوَ الْكَعْبِيُّ، وَمَعْنَى قَوْلِهِ: وَلَا فَارًّا بِخَرْبَةٍ يَعْنِي الْجِنَايَةَ، يَقُولُ: مَنْ جَنَى جِنَايَةً أَوْ أَصَابَ دَمًا ثُمَّ لَجَأَ إِلَى الْحَرَمِ، فَإِنَّهُ يُقَامُ عَلَيْهِ الْحَدُّ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৮১০
حج کا بیان
حج اور عمرے کا ثواب
 عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا :  حج اور عمرہ ایک کے بعد دوسرے کو ادا کرو اس لیے کہ یہ دونوں فقر اور گناہوں کو اس طرح مٹا دیتے ہیں جیسے بھٹی لوہے، سونے اور چاندی کے میل کو مٹا دیتی ہے اور حج مبرور  ١ ؎ کا بدلہ صرف جنت ہے ۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١- ابن مسعود کی حدیث حسن ہے، اور ابن مسعود کی روایت سے غریب ہے،  ٢- اس باب میں عمر، عامر بن ربیعہ، ابوہریرہ، عبداللہ بن حبشی، ام سلمہ اور جابر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔    تخریج دارالدعوہ :  سنن النسائی/الحج   ٦ (٢٦٣٢) ،  ( تحفة الأشراف : ٩٢٧٤) ، مسند احمد (١/٣٨٧) (حسن صحیح)    وضاحت :  ١ ؎ : حج مبرور وہ حج ہے جس میں حاجی اللہ کی کسی نافرمانی کا ارتکاب نہ کرے اور بعض نے حج مبرور کے معنی حج مقبول کے کئے ہیں ، اس کی علامت یہ بتائی ہے کہ حج کے بعد وہ انسان اللہ کا عبادت گزار بن جائے جب کہ وہ اس سے پہلے غافل رہا ہو۔ اور ہر طرح کے شرک و کفر اور بدعت اور فسق و فجور کے کام سے تائب ہو کر اسلامی تعلیم کے مطابق زندگی گزارے۔    قال الشيخ الألباني :  حسن صحيح، ابن ماجة (2887)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 810  
حدیث نمبر: 810  حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، وَأَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الْأَحْمَرُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ قَيْسٍ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ شَقِيقٍ، عَنْعَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:  تَابِعُوا بَيْنَ الْحَجِّ وَالْعُمْرَةِ فَإِنَّهُمَا يَنْفِيَانِ الْفَقْرَ وَالذُّنُوبَ كَمَا يَنْفِي الْكِيرُ خَبَثَ الْحَدِيدِ وَالذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ، وَلَيْسَ لِلْحَجَّةِ الْمَبْرُورَةِ ثَوَابٌ إِلَّا الْجَنَّةُ . قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عُمَرَ، وَعَامِرِ بْنِ رَبِيعَةَ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ حُبْشِيٍّ، وَأُمِّ سَلَمَةَ، وَجَابِرٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ مَسْعُودٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ، مِنْ حَدِيثِ عَبْدُ الله ابْنِ مَسْعُودٍ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৮১১
حج کا بیان
حج اور عمرے کا ثواب
 ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا :  جس نے حج کیا اور اس نے کوئی فحش اور بیہیودہ بات نہیں کی، اور نہ ہی کوئی گناہ کا کام کیا  ١ ؎ تو اس کے گزشتہ تمام گناہ  ٢ ؎ بخش دئیے جائیں گے ۔    امام ترمذی کہتے ہیں : ابوہریرہ (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے۔    تخریج دارالدعوہ :  صحیح البخاری/الحج ٤ (١٥٢١) ، والمحصر ٩ (١٨١٩) ، و ١٠ (١٨٢٠) ، صحیح مسلم/الحج ٧٩ (١٣٥٠) ، سنن النسائی/الحج ٤ (٢٦٢٨) ، سنن ابن ماجہ/الحج ٣ (٢٨٨٩) ،  ( تحفة الأشراف : ١٣٤٣١) ، مسند احمد (٢/٤١٠، ٤٨٤، ٤٩٤) (صحیح) (غفر له ما تقدم من ذنبه کا لفظ شاذ ہے، اور اس کی جگہ رجع من ذنوبه كيوم ولدته أمهصحیح اور متفق علیہ ہے، تراجع الالبانی ٣٤٢)    وضاحت :  ١ ؎ : «رفث» کے اصل معنی جماع کرنے کے ہیں ، یہاں مراد فحش گوئی اور بےہودگی کی باتیں کرنی اور بیوی سے زبان سے جنسی خواہش کی آرزو کرنا ہے ، حج کے دوران چونکہ بیوی سے مجامعت جائز نہیں ہے اس لیے اس موضوع پر اس سے گفتگو بھی ناپسندیدہ ہے ، اور «فسق» سے مراد اللہ کی نافرمانی ہے ، اور «جدال» سے مراد لوگوں سے لڑائی جھگڑا ہے ، دوران حج ان چیزوں سے اجتناب ضروری ہے۔  ٢ ؎ : اس سے مراد وہ صغیر  ( چھوٹے  )  گناہ ہیں جن کا تعلق حقوق اللہ سے ہے ، رہے بڑے بڑے گناہ اور وہ چھوٹے گناہ جو حقوق العباد سے متعلق ہیں تو وہ توبہ حق کے ادا کئے بغیر معاف نہیں ہوں گے۔    قال الشيخ الألباني :  صحيح حجة النبی صلی اللہ عليه وسلم (5)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 811  
حدیث نمبر: 811  حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:  مَنْ حَجَّ فَلَمْ يَرْفُثْ وَلَمْ يَفْسُقْ غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ . قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَأَبُو حَازِمٍ كُوفِيٌّ وَهُوَ الْأَشْجَعِيُّ وَاسْمُهُ سَلْمَانُ مَوْلَى عَزَّةَ الْأَشْجَعِيَّةِ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৮১২
حج کا بیان
ترک حج کی مذمت
 علی (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا :  سفر کے خرچ اور سواری کا مالک ہو جو اسے بیت اللہ تک پہنچا سکے اور وہ حج نہ کرے تو اس میں کوئی فرق نہیں کہ وہ یہودی ہو کر مرے یا عیسائی ہو کر، اور یہ اس لیے کہ اللہ نے اپنی کتاب  (قرآن)  میں فرمایا ہے :  اللہ کے لیے بیت اللہ کا حج کرنا لوگوں پر فرض ہے جو اس تک پہنچنے کی استطاعت رکھتے ہوں ۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١- یہ حدیث غریب ہے  ١ ؎، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں،  ٢- اس کی سند میں کلام ہے۔ ہلال بن عبداللہ مجہول راوی ہیں۔ اور حارث حدیث میں ضعیف گردانے جاتے ہیں۔    تخریج دارالدعوہ :  تفرد بہ المؤلف (ضعیف) (سند میں ہلال اور حارث اعور دونوں ضعیف راوی ہیں)    وضاحت :  ١ ؎ : ضعیف ہے ، مگر علی (رض) کے اپنے قول سے صحیح ہے ، اور ایسی بات کوئی صحابی اپنی رائے سے نہیں کہہ سکتا۔    قال الشيخ الألباني :  ضعيف، المشکاة (2521) ، التعليق الرغيب (2 / 134) // ضعيف الجامع الصغير (5860) //   صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 812  
حدیث نمبر: 812  حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى الْقُطَعِيُّ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا هِلَالُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ مَوْلَى رَبِيعَةَ بْنِ عَمْرِو بْنِ مُسْلِمٍ الْبَاهِلِيِّ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاق الْهَمْدَانِيُّ، عَنْ الْحَارِثِ، عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:  مَنْ مَلَكَ زَادًا وَرَاحِلَةً تُبَلِّغُهُ إِلَى بَيْتِ اللَّهِ وَلَمْ يَحُجَّ فَلَا عَلَيْهِ أَنْ يَمُوتَ يَهُودِيًّا أَوْ نَصْرَانِيًّا، وَذَلِكَ أَنَّ اللَّهَ يَقُولُ فِي كِتَابِهِ: وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلا سورة آل عمران آية 97 . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَفِي إِسْنَادِهِ مَقَالٌ، وَهِلَالُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ مَجْهُولٌ، وَالْحَارِثُ يُضَعَّفُ فِي الْحَدِيثِ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৮১৩
حج کا بیان
زرد راہ اور سواری کی ملکیت سے حج فرض ہوجاتا ہے
 عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ  ایک شخص نے نبی اکرم  ﷺ  کے پاس آ کر پوچھا : اللہ کے رسول ! کیا چیز حج واجب کرتی ہے ؟ آپ نے فرمایا : سفر خرچ اور سواری ۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١- یہ حدیث حسن ہے،  ٢- ابراہیم ہی ابن یزید خوزی مکی ہیں اور ان کے حافظہ کے تعلق سے بعض اہل علم نے ان پر کلام کیا ہے،  ٣- اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ آدمی جب سفر خرچ اور سواری کا مالک ہوجائے تو اس پر حج واجب ہوجاتا ہے۔    تخریج دارالدعوہ :  سنن ابن ماجہ/الصیام ٦ (٢٨٩٦) ، ویأتي في التفسیر (برقم : ٢٩٩٨) (تحفة الأشراف : ٨٤٤) (ضعیف جدا) (سند میں ” ابراہیم بن یزید الخوزی “ متروک الحدیث راوی ہے)    قال الشيخ الألباني :  ضعيف جدا، ابن ماجة (2896) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (631) ، وانظر صحيح ابن ماجة رقم (2341) ، الإرواء (988) //   صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 813  
حدیث نمبر: 813  حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ يَزِيدَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبَّادِ بْنِ جَعْفَرٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا يُوجِبُ الْحَجَّ ؟ قَالَ:  الزَّادُ وَالرَّاحِلَةُ . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَالْعَمَلُ عَلَيْهِ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنَّ الرَّجُلَ إِذَا مَلَكَ زَادًا وَرَاحِلَةً وَجَبَ عَلَيْهِ الْحَجُّ، وَإِبْرَاهِيمُ هُوَ ابْنُ يَزِيدَ الْخُوزِيُّ الْمَكِّيُّ، وَقَدْ تَكَلَّمَ فِيهِ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ قِبَلِ حِفْظِهِ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৮১৪
حج کا بیان
کتنے حج فرض ہے
 علی بن ابی طالب (رض) کہتے ہیں کہ  جب یہ حکم نازل ہوا کہ  اللہ کے لیے لوگوں پر خانہ کعبہ کا حج فرض ہے جو اس تک پہنچنے کی طاقت رکھیں ، تو لوگوں نے پوچھا : اللہ کے رسول ! کیا حج ہر سال  (فرض ہے)  ؟ آپ خاموش رہے۔ لوگوں نے پھر پوچھا : اللہ کے رسول ! کیا ہر سال ؟ آپ نے فرمایا :  نہیں ، اور  اگر میں ہاں کہہ دیتا تو  (ہر سال)  واجب ہوجاتا اور پھر اللہ نے یہ حکم نازل فرمایا :  اے ایمان والو ! ایسی چیزوں کے بارے میں مت پوچھا کرو کہ اگر وہ تمہارے لیے ظاہر کردی جائیں تو تم پر شاق گزریں ۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١- علی (رض) کی حدیث اس سند سے حسن غریب ہے،  ٢- ابوالبختری کا نام سعید بن ابی عمران ہے اور یہی سعید بن فیروز ہیں،  ٣- اس باب میں ابن عباس اور ابوہریرہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔    تخریج دارالدعوہ :  سنن ابن ماجہ/الصیام ٢ (٢٨٨٤) ، ویأتي عند المؤلف في تفسیر المائدہ (٣٠٥٥) (ضعیف) (سند میں ابو البختری کی علی (رض) سے معاصرت وسماع نہیں ہے، اس لیے سند منقطع ہے)    قال الشيخ الألباني :  ضعيف، ابن ماجة (2884) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (628) ، الإرواء (980) ، وسيأتي برقم (584 / 3261) //   صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 814  
حدیث نمبر: 814  حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ، حَدَّثَنَا مَنْصُورُ بْنُ وَرْدَانَ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ عَبْدِ الْأَعْلَى، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي الْبَخْتَرِيِّ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، قَالَ:  لَمَّا نَزَلَتْ وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلا سورة آل عمران آية 97 قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَفِي كُلِّ عَامٍ ؟ فَسَكَتَ، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ فِي كُلِّ عَامٍ، قَالَ:  لَا، وَلَوْ قُلْتُ: نَعَمْ، لَوَجَبَتْ  فَأَنْزَلَ اللَّهُ يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَسْأَلُوا عَنْ أَشْيَاءَ إِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ سورة المائدة آية 101. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَلِيٍّ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَاسْمُ أَبِي البَخْتَرِيِّ سَعِيدُ بْنُ أَبِي عِمْرَانَ وَهُوَ سَعِيدُ بْنُ فَيْرُوزَ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৮১৫
حج کا بیان
نبی اکرم ﷺ نے کتنے حج کئے
 جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ  نبی اکرم  ﷺ  نے تین حج کئے، دو حج ہجرت سے پہلے اور ایک حج ہجرت کے بعد، اس کے ساتھ آپ نے عمرہ بھی کیا اور ترسٹھ اونٹ ہدی کے طور پر ساتھ لے گئے اور باقی اونٹ یمن سے علی لے کر آئے۔ ان میں ابوجہل کا ایک اونٹ تھا۔ اس کی ناک میں چاندی کا ایک حلقہ تھا۔ رسول اللہ  ﷺ  نے انہیں نحر کیا، پھر آپ نے ہر اونٹ میں سے ایک ایک ٹکڑا لے کر اسے پکانے کا حکم دیا، تو پکایا گیا اور آپ نے اس کا شوربہ پیا۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١- یہ حدیث سفیان کی روایت سے غریب ہے، ہم اسے صرف زید بن حباب کے طریق سے جانتے ہیں  ١ ؎،  ٢- میں نے عبداللہ بن عبدالرحمٰن دارمی کو دیکھا کہ انہوں نے اپنی کتابوں میں یہ حدیث عبداللہ بن ابی زیاد کے واسطہ سے روایت کی ہے،  ٣- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے اس حدیث کے سلسلے میں پوچھا تو وہ اسے بروایت «الثوري عن جعفر عن أبيه عن جابر عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» نہیں جان سکے، میں نے انہیں دیکھا کہ انہوں نے اس حدیث کو محفوظ شمار نہیں کیا، اور کہا : یہ ثوری سے روایت کی جاتی ہے اور ثوری نے ابواسحاق سے اور ابواسحاق نے مجاہد سے مرسلاً روایت کی ہے۔    تخریج دارالدعوہ :  سنن ابن ماجہ/الحج ٨٤ (٣٠٧٦) (تحفة الأشراف : ٢٦٠٦) (صحیح)    وضاحت :  ١ ؎ : ابن ماجہ کے یہاں  عبدالرحمٰن بن داود  نے  زید بن حباب  کی متابعت کی ہے ، نیز ان کے یہاں اس کی ابن عباس (رض) کی روایت شاہد بھی موجود ہے۔    قال الشيخ الألباني :  صحيح، ابن ماجة (3076)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 815  
حدیث نمبر: 815  حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي زِيَادٍ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ حُبَاب، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْجَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَجَّ ثَلَاثَ حِجَجٍ، حَجَّتَيْنِ قَبْلَ أَنْ يُهَاجِرَ، وَحَجَّةً بَعْدَ مَا هَاجَرَ وَمَعَهَا عُمْرَةٌ، فَسَاقَ ثَلَاثَةً وَسِتِّينَ بَدَنَةً، وَجَاءَ عَلِيٌّ مِنْ الْيَمَنِ بِبَقِيَّتِهَا فِيهَا جَمَلٌ لِأَبِي جَهْلٍ فِي أَنْفِهِ بُرَةٌ مِنْ فِضَّةٍ فَنَحَرَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،  وَأَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ كُلِّ بَدَنَةٍ بِبَضْعَةٍ فَطُبِخَتْ وَشَرِبَ مِنْ مَرَقِهَا . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ سُفْيَانَ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ زَيْدِ بْنِ حُبَاب، وَرَأَيْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ فِي كُتُبِهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي زِيَادٍ، قَالَ: وَسَأَلْتُ مُحَمَّدًا عَنْ هَذَا فَلَمْ يَعْرِفْهُ مِنْ حَدِيثِ الثَّوْرِيِّ، عَنْ جَعْفَرٍ عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَابِرٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَرَأَيْتُهُ لَمْ يَعُدَّ هَذَا الْحَدِيثَ مَحْفُوظًا، وقَالَ: إِنَّمَا يُرْوَى عَنْ الثَّوْرِيِّ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ مُجَاهِدٍ مُرْسَلًا.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৮১৬
حج کا بیان
نبی اکرم ﷺ نے کنتے عمرے کئے۔
 عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ  نبی اکرم  ﷺ  نے چار عمرے کئے : حدیبیہ کا عمرہ، دوسرا عمرہ اگلے سال یعنی ذی قعدہ میں قضاء کا عمرہ، تیسرا عمرہ جعرانہ  ١ ؎ کا، چوتھا عمرہ جو اپنے حج کے ساتھ کیا۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١- ابن عباس (رض) کی حدیث حسن غریب ہے،  ٢- اس باب میں انس، عبداللہ بن عمرو اور ابن عمر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔    تخریج دارالدعوہ :  سنن ابی داود/ المناسک ٨٠ (١٩٩٣) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ٥٠ (٣٠٠٣) (تحفة الأشراف : ٦١٦٨) ، مسند احمد (١/٢٤٦) (صحیح)    وضاحت :  ١ ؎ : جعرانہ طائف اور مکہ کے درمیان ایک جگہ کا نام ہے نبی اکرم  ﷺ  نے غزوہ حنین کے مال غنیمت کی تقسیم کے بعد یہیں سے عمرہ کا احرام باندھا تھا۔    قال الشيخ الألباني :  صحيح، ابن ماجة (3003)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 816   ابن عیینہ نے بسند عمرو بن دینار عن عکرمہ روایت کی کہ  نبی اکرم  ﷺ  نے چار عمرے کئے، اس میں عکرمہ نے ابن عباس کا ذکر نہیں کیا ہے،
حدیث نمبر: 816  حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْعَطَّارُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ  اعْتَمَرَ أَرْبَعَ عُمَرٍ: عُمْرَةَ الْحُدَيْبِيَةِ، وَعُمْرَةَ الثَّانِيَةِ مِنْ قَابِلٍ، وَعُمْرَةَ الْقَضَاءِ فِي ذِي الْقَعْدَةِ، وَعُمْرَةَ الثَّالِثَةِ مِنْ الْجِعِرَّانَةِ، وَالرَّابِعَةِ الَّتِي مَعَ حَجَّتِهِ . قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسٍ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، وَابْنِ عُمَرَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ،وَرَوَى ابْنُ عُيَيْنَةَ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ  اعْتَمَرَ أَرْبَعَ عُمَرٍ  وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৮১৭
حج کا بیان
نبی اکرم ﷺ نے کس جگہ احرام باندھا
 جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ  جب نبی اکرم  ﷺ  نے حج کا ارادہ کیا تو آپ نے لوگوں میں اعلان کرایا۔  (مدینہ میں)  لوگ اکٹھا ہوگئے، چناچہ جب آپ  (وہاں سے چل کر)  بیداء پہنچے تو احرام باندھا  ١ ؎۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١- جابر (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے،  ٢- اس باب میں ابن عمر، انس، مسور بن مخرمہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔    تخریج دارالدعوہ :  تفرد بہ المؤلف  ( تحفة الأشراف : ٢٦١٢) (صحیح)    وضاحت :  ١ ؎ : آپ  ﷺ  نے درحقیقت ذو الحلیفہ کی مسجد میں نماز کے بعد احرام باندھا ، دیکھئیے اگلی حدیث۔    قال الشيخ الألباني :  صحيح حجة النبی صلی اللہ عليه وسلم (45 / 2)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 817  
حدیث نمبر: 817  حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ:  لَمَّا أَرَادَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْحَجَّ أَذَّنَ فِي النَّاسِ فَاجْتَمَعُوا، فَلَمَّا أَتَى الْبَيْدَاءَ أَحْرَمَ . قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ، وَأَنَسٍ، وَالْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ جَابِرٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৮১৮
حج کا بیان
نبی اکرم ﷺ نے کس جگہ احرام باندھا
 عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں :  بیداء جس کے بارے میں لوگ رسول اللہ  ﷺ  پر جھوٹ باندھتے ہیں  (کہ وہاں سے احرام باندھا)   ١ ؎ اللہ کی قسم ! رسول اللہ  ﷺ  نے مسجد  (ذی الحلیفہ)  کے پاس درخت کے قریب تلبیہ پکارا  ٢ ؎۔    امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔    تخریج دارالدعوہ :  صحیح البخاری/الحج ٢ (١٥١٥) ، و ٢٠ (١٥٤١) ، والجہاد ٥٣ (٢٨٦٥) ، صحیح مسلم/الحج (١١٨٦) ، سنن ابی داود/ المناسک ٢١ (١٧٧١) ، سنن النسائی/الحج ٥٦ (٢٧٥٨) ،  ( تحفة الأشراف : ٧٠٢٠) ، موطا امام مالک/الحج ٩ (٣٠) ، مسند احمد (٢/١٠، ٦٦،  ١٥٤) (صحیح)    وضاحت :  ١ ؎ : یہ بات ابن عمر نے ان لوگوں کی غلط فہمی کے ازالہ کے لیے کہی جو یہ کہتے تھے کہ رسول اللہ  ﷺ  نے بیداء کے مقام سے احرام باندھا تھا۔  ٢ ؎ : ان روایات میں بظاہر تعارض ہے ، ان میں تطبیق اس طرح سے دی گئی ہے کہ آپ نے احرام تو مسجد کے اندر ہی باندھا تھا جنہوں نے وہاں آپ کے احرام کا مشاہدہ کیا انہوں نے اس کا ذکر کیا اور جب آپ مسجد سے باہر تشریف لائے اور اپنی اونٹنی پر سوار ہوئے اور بلند آواز سے تلبیہ پکارا تو دیکھنے والوں نے سمجھا کہ آپ نے اسی وقت احرام باندھا ہے ، پھر جب آپ بیداء پر پہنچے اور آپ نے لبیک کہا تو جن حضرات نے وہاں لبیک کہتے سنا انہوں نے سمجھا کہ آپ نے یہاں احرام باندھا ہے ، گویا ہر شخص نے اپنے مشاہدہ کے مطابق خبر دی۔    قال الشيخ الألباني :  صحيح    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 818  
حدیث نمبر: 818  حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيل، عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: الْبَيْدَاءُ الَّتِي يَكْذِبُونَ فِيهَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،  وَاللَّهِ مَا أَهَلَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا مِنْ عِنْدِ الْمَسْجِدِ مِنْ عِنْدِ الشَّجَرَةِ. قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৮১৯
حج کا بیان
نبی ﷺ نے کب احرام باند ھا
 عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ  نبی اکرم  ﷺ  نے نماز کے بعد احرام باندھا۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١- یہ حدیث حسن غریب ہے،  ٢- ہم عبدالسلام بن حرب کے علاوہ کسی کو نہیں جانتے جس نے یہ حدیث روایت کی ہو،  ٣- جس چیز کو اہل علم نے مستحب قرار دیا ہے وہ یہی ہے کہ آدمی نماز کے بعد احرام باندھے۔    تخریج دارالدعوہ :  سنن النسائی/الحج ٥٦ (٢٧٥٥) (تحفة الأشراف : ٥٥٠٢) (ضعیف) (سند میں خصیف مختلط راوی ہیں)    قال الشيخ الألباني :  ضعيف، ضعيف أبي داود (312) // عندنا برقم (388 / 1770) ، ضعيف سنن النسائي برقم (175 / 2754) //   صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 819  
حدیث نمبر: 819  حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلَامِ بْنُ حَرْبٍ، عَنْ خُصَيْفٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ  أَهَلَّ فِي دُبُرِ الصَّلَاةِ . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُ أَحَدًا رَوَاهُ غَيْرَ عَبْدِ السَّلَامِ بْنِ حَرْبٍ، وَهُوَ الَّذِي يَسْتَحِبُّهُ أَهْلُ الْعِلْمِ أَنْ يُحْرِمَ الرَّجُلُ فِي دُبُرِ الصَّلَاةِ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৮২০
حج کا بیان
حج افراد
 ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے حج افراد  ١ ؎ کیا۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١- عائشہ (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے،  ٢- اس باب میں جابر اور ابن عمر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں،  ٣- بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے،  ٤- ابن عمر (رض) سے بھی مروی ہے کہ نبی اکرم  ﷺ  نے حج افراد کیا، ابوبکر، عمر اور عثمان (رض) نے بھی افراد کیا،  ٥    تخریج دارالدعوہ :  صحیح مسلم/الحج ١٧ (١٢١١) ، سنن ابی داود/ المناسک ٢٣ (١٧٧٧) ، سنن النسائی/الحج ٤٨ (٢٧١٦) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ٣٧ (٢٩٦٤) ،  ( تحفة الأشراف : ١٧٥١٧) ، موطا امام مالک/الحج ١١ (٣٧) ، سنن الدارمی/المناسک ١٦ (١٨٥٣) (صحیح الإسناد شاذ) وأخرجہ مسند احمد (٦/٢٤٣) من غیر ہذا الطریق۔ (نبی اکرم ﷺ کا حج، حج قران تھا، اس لیے صحت سند کے باوجود متن شاذ ہے) ۔    وضاحت :  ١ ؎ حج کی تین قسمیں ہیں : افراد ، قِران اور تمتع ، حج افراد یہ ہے کہ حج کے مہینوں میں صرف حج کی نیت سے احرام باندھے ، اور حج قران یہ ہے کہ حج اور عمرہ دونوں کی ایک ساتھ نیت کرے ، اور قربانی کا جانور ساتھ ، جب کہ حج تمتع یہ ہے کہ حج کے مہینے میں میقات سے صرف عمرے کی نیت کرے پھر مکہ میں جا کر عمرہ کی ادائیگی کے بعد احرام کھول دے اور پھر آٹھویں تاریخ کو مکہ مکرمہ ہی سے نئے سرے سے احرام باندھے۔ اب رہی یہ بات کہ آپ  ﷺ  نے کون سا حج کیا تھا ؟ تو صحیح بات یہ ہے کہ آپ نے قران کیا تھا ، تفصیل کے لیے حدیث رقم ٨٢٢ کا حاشیہ دیکھیں۔    قال الشيخ الألباني :  (الحديث الأول) شاذ، (الحديث الثاني) حسن الإسناد، ولكنه شاذ، انظر ما بعده، وبخاصة الحديث (823) (الحديث الأول) ، ابن ماجة (2964)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 820  
حدیث نمبر: 820  حَدَّثَنَا أَبُو مُصْعَبٍ قِرَاءَةً، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ  أَفْرَدَ الْحَجَّ . قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ، وَابْنِ عُمَرَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ. (حديث مرفوع) وَرُوِي عَنْ ابْنِ عُمَرَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ  أَفْرَدَ الْحَجَّ . وَأَفْرَدَ أَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ، وَعُثْمَانُ.   

তাহকীক:
হাদীস নং: ৮২১
حج کا بیان
N/A
میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو «لبيك بعمرة وحجة» فرماتے سنا ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- انس کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں عمر اور عمران بن حصین سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- بعض اہل علم اسی طرف گئے ہیں، اہل کوفہ وغیرہ نے اسی کو اختیار کیا ہے۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: لَبَّيْكَ بِعُمْرَةٍ وَحَجَّةٍ . قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عُمَرَ، وَعِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَنَسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ ذَهَبَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ إِلَى هَذَا، وَاخْتَارُوهُ مِنْ أَهْلِ الْكُوفَةِ وَغَيْرِهِمْ.

তাহকীক:
হাদীস নং: ৮২২
حج کا بیان
تمتع کے بارے میں
 عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے حج تمتع کیا  ١ ؎ اور ابوبکر، عمر اور عثمان (رض) نے بھی  ٢ ؎ اور سب سے پہلے جس نے اس سے روکا وہ معاویہ (رض) ہیں  ٣ ؎۔    امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔    تخریج دارالدعوہ :  تفرد بہ المؤلف و ٣٤ (١٢٥١) ، و سنن ابی داود/ المناسک ٢٤ (١٧٩٥) ، وسنن ابن ماجہ/الحج ١٤ (٢٩١٧) ، و ٣٨ (٢٩٦٨) ،  ( تحفة الأشراف : ٥٧٤٥) ، و مسند احمد (٣/٩٩) ، وسنن الدارمی/المناسک ٧٨ (١٩٦٤) ، من غیر ہذا الطریق وبتصرف فی السیاق (ضعیف الإسناد) (سند میں لیث بن ابی سلیم اختلاط کی وجہ سے متروک الحدیث راوی ہے، لیکن اس حدیث کا اصل مسئلہ دیگر احادیث سے ثابت ہے)    وضاحت :  ١ ؎ : نبی اکرم  ﷺ  نے کون سا حج کیا تھا ؟ اس بارے میں احادیث مختلف ہیں ، بعض احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ نے حج افراد کیا اور بعض سے حج تمتع اور بعض سے حج قران ، ان روایات میں تطبیق اس طرح سے دی جاتی ہے کہ ہر ایک نے نبی اکرم  ﷺ  کی طرف اس چیز کی نسبت کردی ہے جس کا آپ نے اسے حکم دیا تھا ، اور یہ صحیح ہے کہ آپ نے حج افراد کا احرام باندھا تھا اور بعد میں آپ قارن ہوگئے تھے ، جن لوگوں نے اس بات کی روایت کی ہے کہ آپ نے حج تمتع کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے انہیں اس کا حکم دیا کیونکہ آپ کا ارشاد ہے «لولا معي الهدى لأحللت»  اگر میرے ساتھ ہدی کا جانور نہ ہوتا تو میں عمرہ کرنے کے بعد حلال ہوجاتا  ، اس کا صریح مطلب یہ ہے کہ آپ متمتع نہیں تھے ، نیز صحابہ کی اصطلاح میں قران کو بھی تمتع کہا جاتا تھا ، کیونکہ ایک ہی سفر میں عمرہ اور حج دونوں کا فائدہ تو بہرحال حج قران میں بھی حاصل ہے ، اسی طرح جن لوگوں نے قران کی روایت کی ہے انہوں نے آخری حال کی خبر دی ہے کیونکہ شروع میں آپ کے پیش نظر حج افراد تھا بعد میں آپ نے حج میں عمرہ کو بھی شامل کرلیا ، اور آپ سے کہا گیا : «قل عمرة في حجة» اس طرح آپ نے حج افراد کو حج قران سے بدل دیا۔ اب رہا یہ مسئلہ کہ ان تینوں قسموں میں سے کون سی قسم افضل ہے ؟ تو احناف حج قرِان کو افضل کہتے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب کے لیے اسی حج کو پسند کیا تھا اور اس میں مشقت بھی زیادہ اٹھانی پڑتی ہے ، امام احمد اور امام مالک نے حج تمتع کو افضل کہا ہے کیونکہ اس میں سہولت ہے اور نبی اکرم  ﷺ  نے ایک مرحلہ پر اس کی خواہش کا اظہار بھی فرمایا تھا اور بعض نے حج افراد کو افضل قرار دیا ہے۔ آخری اور حق بات یہی ہے کہ حج تمتع سب سے افضل ہے۔  ٢ ؎ : یہ حدیث مسلم کی اس روایت کے معارض ہے جس میں ہے : «قال عبدالله بن شقيق : کان عثمان ينهى عن المتعة وکان علي يأمربها» اور نیچے کی روایت سے عمر (رض) کا منع کرنا بھی ثابت ہوتا ہے ، تطبیق اس طرح سے دی جاتی ہے کہ ان دونوں کی ممانعت تنزیہی تھی ، ان دونوں کی نہی اس وقت کی ہے جب انہیں اس کے جائز ہونے کا علم نہیں تھا ، پھر جب انہیں اس کا جواز معلوم ہوا تو انہوں نے بھی تمتع کیا۔  ٣ ؎ : روایات سے معاویہ (رض) سے پہلے عمر و عثمان (رض) سے ممانعت ثابت ہے ، ان کی یہ ممانعت تنزیہی تھی ، اور معاویہ (رض) کی نہی تحریمی ، لہٰذا یہ کہا جاسکتا ہے کہ معاویہ (رض) کی اوّلیت تحریم کے اعتبار سے تھی۔    قال الشيخ الألباني :   صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر   
حدیث نمبر: 822  حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَى مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا عَبْدُاللهِ بْنُ إِدْرِيسَ، عَنْ لَيْثٍ،عَنْ طَاوُسٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: تَمَتَّعَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ وَعُثْمَانُ وَأَوَّلُ مَنْ نَهَى عَنْهَا مُعَاوِيَةُ. قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.

তাহকীক:
হাদীস নং: ৮২৩
حج کا بیان
تمتع کے بارے میں
 محمد بن عبداللہ بن حارث بن نوفل کہتے ہیں کہ  انہوں نے سعد بن ابی وقاص اور ضحاک بن قیس (رض) سے سنا، دونوں عمرہ کو حج میں ملانے کا ذکر کر رہے تھے۔ ضحاک بن قیس نے کہا : ایسا وہی کرے گا جو اللہ کے حکم سے ناواقف ہو، اس پر سعد (رض) نے کہا : بہت بری بات ہے جو تم نے کہی، میرے بھتیجے ! تو ضحاک بن قیس نے کہا : عمر بن خطاب (رض) نے اس سے منع کیا ہے، اس پر سعد (رض) نے کہا : رسول اللہ  ﷺ  نے اسے کیا ہے اور آپ کے ساتھ ہم نے بھی اسے کیا ہے۔    امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث صحیح ہے۔    تخریج دارالدعوہ :  سنن النسائی/الحج ٥٠ (٢٧٣٥) ،  ( تحفة الأشراف : ٣٩٢٨) ، موطا امام مالک/الحج ١٩ (٦٠) ، سنن الدارمی/الحج ١٨ (١٨٥٥) (ضعیف الإسناد) (سند میں محمد بن عبداللہ بن حارث بن نوفل لین الحدیث ہیں، لیکن اصل مسئلہ دیگر احادیث سے ثابت ہے)    قال الشيخ الألباني :  ضعيف الإسناد    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 822  
حدیث نمبر: 823  حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ نَوْفَلٍ، أَنَّهُ سَمِعَ سَعْدَ بْنَ أَبِي وَقَّاصٍ، وَالضَّحَّاكَ بْنَ قَيْسٍ وَهُمَا  يَذْكُرَانِ التَّمَتُّعَ بِالْعُمْرَةِ إِلَى الْحَجِّ، فَقَالَ الضَّحَّاكُ بْنُ قَيْسٍ: لَا يَصْنَعُ ذَلِكَ إِلَّا مَنْ جَهِلَ أَمْرَ اللَّهِ، فَقَالَ سَعْدٌ: بِئْسَ مَا قُلْتَ يَا ابْنَ أَخِي، فَقَالَ الضَّحَّاكُ بْنُ قَيْسٍ: فَإِنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ قَدْ نَهَى عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَ سَعْدٌ: قَدْ صَنَعَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَصَنَعْنَاهَا مَعَهُ . قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৮২৪
حج کا بیان
تمتع کے بارے میں
 ابن شہاب زہری کہتے ہیں کہ  سالم بن عبداللہ نے ان سے بیان کیا کہ انہوں نے اہل شام میں سے ایک شخص سے سنا، وہ عبداللہ بن عمر (رض) سے حج میں عمرہ سے فائدہ اٹھانے کے بارے میں پوچھ رہا تھا، تو عبداللہ بن عمر (رض) نے کہا : یہ جائز ہے۔ اس پر شامی نے کہا : آپ کے والد نے تو اس سے روکا ہے ؟ عبداللہ بن عمر (رض) نے کہا : ذرا تم ہی بتاؤ اگر میرے والد کسی چیز سے روکیں اور رسول اللہ  ﷺ  نے اسے کیا ہو تو میرے والد کے حکم کی پیروی کی جائے گی یا رسول اللہ  ﷺ  کے حکم کی، تو اس نے کہا : رسول اللہ  ﷺ  کے حکم کی، تو انہوں نے کہا : رسول اللہ  ﷺ  نے ایسا کیا ہے۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١- ابن عباس (رض) کی حدیث  ( ٨٢٢)  حسن ہے،  ٢- اس باب میں علی، عثمان، جابر، سعد، اسماء بنت ابی بکر اور ابن عمر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں،  ٣- صحابہ کرام وغیرہم میں سے ایک جماعت نے اسی کو پسند کیا ہے کہ حج میں عمرہ کو شامل کر کے حج تمتع کرنا درست ہے،  ٤- اور حج تمتع یہ ہے کہ آدمی حج کے مہینوں میں عمرہ کے ذریعہ داخل ہو، پھر عمرہ کر کے وہیں ٹھہرا رہے یہاں تک کہ حج کرلے تو وہ متمتع ہے، اس پر ہدی کی جو اسے میسر ہو قربانی لازم ہوگی، اگر اسے ہدی نہ مل سکے تو حج میں تین دن اور گھر لوٹ کر سات دن کے روزے رکھے،  ٥- متمتع کے لیے مستحب ہے کہ جب وہ حج میں تین روزے رکھے تو ذی الحجہ کے  (ابتدائی)  دس دنوں میں رکھے اور اس کا آخری روزہ یوم عرفہ کو ہو، اور صحابہ کرام میں سے بعض اہل علم جن میں ابن عمر اور عائشہ (رض) بھی شامل ہیں کے قول کی رو سے اگر وہ دس دنوں میں یہ روزے نہ رکھ سکے تو ایام تشریق میں رکھ لے۔ یہی مالک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے،  ٦- اور بعض کہتے ہیں : ایام تشریق میں روزہ نہیں رکھے گا۔ یہ اہل کوفہ کا قول ہے۔    امام ترمذی کہتے ہیں : اہل حدیث حج میں عمرہ کو شامل کر کے حج تمتع کرنے کو پسند کرتے ہیں، یہی شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے۔    تخریج دارالدعوہ :  تفرد بہ المؤلف  ( تحفة الأشراف : ٦٨٦٢) (صحیح الإسناد)    قال الشيخ الألباني :  صحيح الإسناد    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 823  
حدیث نمبر: 824  حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، أَخْبَرَنِي يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ صَالِحِ بْنِ كَيْسَانَ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، أَنَّ سَالِمَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَهُ، أَنَّهُ سَمِعَ رَجُلًا مِنْ أَهْلِ الشَّامِ وَهُوَ يَسْأَلُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ، عَنِ التَّمَتُّعِ بِالْعُمْرَةِ إِلَى الْحَجِّ، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ: هِيَ حَلَالٌ، فَقَالَ الشَّامِيُّ: إِنَّ أَبَاكَ قَدْ نَهَى عَنْهَا، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ: أَرَأَيْتَ إِنْ كَانَ أَبِي نَهَى عَنْهَا وَصَنَعَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَأَمْرَ أَبِي نَتَّبِعُ أَمْ أَمْرَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؟ فَقَالَ: الرَّجُلُ بَلْ أَمْرَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: لَقَدْ صَنَعَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৮২৫
حج کا بیان
تلبیہ ( لبیک) کہنا
 نافع کہتے ہیں :  عبداللہ بن عمر (رض) نے تلبیہ پکارا اور تلبیہ پکارتے ہوئے چلے، وہ کہہ رہے تھے : «لبيك اللهم لبيك لا شريك لک لبيك إن الحمد والنعمة لک والملک لا شريك لك»۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١- عبداللہ بن عمر (رض) کہتے تھے : یہ رسول اللہ  ﷺ  کا تلبیہ ہے، پھر وہ رسول اللہ  ﷺ  کے تلبیہ کے اخیر میں اپنی طرف سے ان الفاظ کا اضافہ کرتے : «لبيك لبيك وسعديك والخير في يديك لبيك والرغباء إليك والعمل»  حاضر ہوں تیری خدمت میں حاضر ہوں تیری خدمت میں اور خوش ہوں تیری تابعداری پر اور ہر طرح کی بھلائی تیرے ہی دونوں ہاتھوں میں ہے اور تیری طرف رغبت ہے اور عمل بھی تیرے ہی لیے ہے ۔    امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔    تخریج دارالدعوہ :  تفرد بہ المؤلف  ( تحفة الأشراف : ٨٣١٤) (صحیح)    قال الشيخ الألباني :  صحيح، ابن ماجة (2918)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 826  
حدیث نمبر: 825  حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ تَلْبِيَةَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَتْ:  لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ، إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ وَالْمُلْكَ، لَا شَرِيكَ لَكَ .

তাহকীক:
হাদীস নং: ৮২৬
حج کا بیان
تلبیہ ( لبیک) کہنا
 عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ  نبی اکرم  ﷺ  کا تلبیہ یہ تھا «لبيك اللهم لبيك لبيك لا شريك لک لبيك إن الحمد والنعمة لک والملک لا شريك لك»  حاضر ہوں، اے اللہ میں حاضر ہوں، حاضر ہوں، تیرا کوئی شریک نہیں میں حاضر ہوں۔ سب تعریف اور نعمت تیری ہی ہے اور سلطنت بھی، تیرا کوئی شریک نہیں ۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١- ابن عمر (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے،  ٢- اس باب میں ابن مسعود، جابر، ام المؤمنین عائشہ (رض)، ابن عباس اور ابوہریرہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں،  ٣- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ اور یہی سفیان، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے،  ٤- شافعی کہتے ہیں : اگر وہ اللہ کی تعظیم کے کچھ کلمات کا اضافہ کرلے تو کوئی حرج نہیں ہوگا - ان شاء اللہ۔ لیکن میرے نزدیک پسندیدہ بات یہ ہے کہ وہ رسول اللہ  ﷺ  کے تلبیہ پر اکتفا کرے۔ شافعی کہتے ہیں : ہم نے جو یہ کہا کہ  اللہ کی تعظیم کے کچھ کلمات بڑھا لینے میں کوئی حرج نہیں تو اس دلیل سے کہ ابن عمر سے مروی ہے کہ انہوں نے رسول اللہ  ﷺ  سے تلبیہ یاد کیا پھر اپنی طرف سے اس میں «لبيك والرغباء إليك والعمل»  حاضر ہوں، تیری ہی طرف رغبت ہے اور عمل بھی تیرے ہی لیے ہے  کا اضافہ کیا  ١ ؎۔    تخریج دارالدعوہ :  تفرد بہ المؤلف  ( تحفة الأشراف : ٧٥٩٢) (صحیح) وأخرجہ کل من : صحیح البخاری/الحج ٢٦ (١٥٤٩) ، واللباس ٦٩ (٥٩٥١) ، صحیح مسلم/الحج ٣ (١١٨٣) ، سنن ابی داود/ الحج ٢٧ (١٨١٢) ، سنن النسائی/الحج ٥٤ (٢٧٤٨) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ١ (٢٩٨) ، موطا امام مالک/الحج ٩ (٢٨) ، مسند احمد (٢/٣، ٢٨، ٣٤، ٤١، ٤٣، ٤٧، ٤٨، ٥٣، ٧٦، ٧٧، ٧٩، ١٣) ، سنن الدارمی/المناسک ١٣ (١٨٤٩) ، من غیر ہذا الطریق، وانظر الحدیث الآتی۔    وضاحت :  ١ ؎ : جابر بن عبداللہ کی ایک روایت میں ہے کہ لوگ نبی اکرم  ﷺ  کے تلبیہ میں اپنی طرف سے «ذا المعارج» اور اس جیسے کلمات بڑھاتے اور نبی اکرم  ﷺ  سنتے تھے لیکن کچھ نہ فرماتے تھے ، اس سے معلوم ہوا کہ اس طرح کا اضافہ جائز ہے ، اگر جائز نہ ہوتا تو آپ منع فرما دیتے ، آپ کی خاموشی تلبیہ کے مخصوص الفاظ پر اضافے کے جواز کی دلیل ہے ، ابن عمر (رض) کا یہ اضافہ بھی اسی قبیل سے ہے۔    قال الشيخ الألباني :  صحيح، ابن ماجة (2918)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 825  
حدیث نمبر: 826  حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّهُ أَهَلَّ فَانْطَلَقَ يُهِلُّ، فَيَقُولُ:  لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ، إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ وَالْمُلْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ  قَالَ: وَكَانَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، يَقُولُ: هَذِهِ تَلْبِيَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانَ يَزِيدُ مِنْ عِنْدِهِ فِي أَثَرِ تَلْبِيَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ  لَبَّيْكَ لَبَّيْكَ وَسَعْدَيْكَ، وَالْخَيْرُ فِي يَدَيْكَ، لَبَّيْكَ وَالرَّغْبَاءُ إِلَيْكَ، وَالْعَمَلُ  قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ، وَجَابِرٍ، وَعَائِشَةَ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَيْهِ عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ، وَالشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاق، قَالَ الشَّافِعِيُّ: وَإِنْ زَادَ فِي التَّلْبِيَةِ شَيْئًا مِنْ تَعْظِيمِ اللَّهِ فَلَا بَأْسَ إِنْ شَاءَ اللَّهُ، وَأَحَبُّ إِلَيَّ أَنْ يَقْتَصِرَ عَلَى تَلْبِيَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ الشَّافِعِيُّ: وَإِنَّمَا قُلْنَا: لَا بَأْسَ بِزِيَادَةِ تَعْظِيمِ اللَّهِ فِيهَا، لِمَا جَاءَ عَنْ ابْنِ عُمَرَ وَهُوَ حَفِظَ التَّلْبِيَةَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ زَادَ ابْنُ عُمَرَ فِي تَلْبِيَتِهِ مِنْ قِبَلِهِ لَبَّيْكَ وَالرَّغْبَاءُ إِلَيْكَ وَالْعَمَلُ.    

তাহকীক:
হাদীস নং: ৮২৭
حج کا بیان
تلبیہ اور قربانی کی فضیلت
 ابوبکر صدیق (رض) کہتے ہیں کہ  نبی اکرم  ﷺ  سے پوچھا گیا کہ کون سا حج افضل ہے ؟ آپ نے فرمایا :  جس میں کثرت سے تلبیہ پکارا گیا ہو اور خوب خون بہایا گیا ہو   ١ ؎۔    تخریج دارالدعوہ :  سنن ابن ماجہ/الحج ١٦ (٢٩٢٤) ،  ( تحفة الأشراف : ٦١٠٨) ، سنن الدارمی/المناسک ٨ (١٨٣٨) (صحیح)    وضاحت :  ١ ؎ : یعنی قربانی کی گئی ہو۔    قال الشيخ الألباني :  صحيح، ابن ماجة (2924)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 827  
حدیث نمبر: 827  حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي فُدَيْكٍ. ح وحَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ، أَخْبَرَنَا ابْنُ أَبِي فُدَيْكٍ، عَنْ الضَّحَّاكِ بْنِ عُثْمَانَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَرْبُوعٍ، عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُئِلَ أَيُّ الْحَجِّ أَفْضَلُ ؟ قَالَ:  الْعَجُّ وَالثَّجُّ .  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৮২৮
حج کا بیان
تلبیہ اور قربانی کی فضیلت
حدیث نمبر: 828  حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ غَزِيَّةَ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:  مَا مِنْ مُسْلِمٍ يُلَبِّي إِلَّا لَبَّى مَنْ عَنْ يَمِينِهِ، أَوْ عَنْ شِمَالِهِ مِنْ حَجَرٍ أَوْ شَجَرٍ أَوْ مَدَرٍ، حَتَّى تَنْقَطِعَ الْأَرْضُ مِنْ هَاهُنَا وَهَاهُنَا .

তাহকীক: