আল জামিউল কাবীর- ইমাম তিরমিযী রহঃ (উর্দু)
الجامع الكبير للترمذي
جنازوں کا بیان - এর পরিচ্ছেদসমূহ
মোট হাদীস ২০ টি
হাদীস নং: ৯৬৫
جنازوں کا بیان
بیماری کا ثواب
 ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا :  مومن کو کوئی کانٹا بھی چبھتا ہے، یا اس سے بھی کم کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے اس کا ایک درجہ بلند اور اس کے بدلے اس کا ایک گناہ معاف کردیتا ہے ۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١- عائشہ (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے،  ٢- اس باب میں سعد بن ابی وقاص، ابوعبیدہ بن جراح، ابوہریرہ، ابوامامہ، ابو سعید خدری، انس، عبداللہ بن عمرو بن العاص، اسد بن کرز، جابر بن عبداللہ، عبدالرحمٰن بن ازہر اور ابوموسیٰ اشعری (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔    تخریج دارالدعوہ :  صحیح مسلم/البر والصلة ١٤ (٢٥٧٢) ،  ( تحفة الأشراف : ١٩٩٥٣) ، موطا امام مالک/العین ٣ (٦) ، مسند احمد (٦/٣٩، ٤٢، ١٦٠، ١٧٣، ١٧٥، ١٨٥، ٢٠٢، ٢١٥، ٢١٥، ٢٥٥، ٢٥٧، ٢٧٨، ٢٧٩) (صحیح) وأخرجہ صحیح البخاری/المرضی ١ (٥٦٤٠) من غیر ہذا الوجہ بمعناہ۔    قال الشيخ الألباني :  صحيح، الروض النضير (819)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 965  
حدیث نمبر: 965  حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:  لَا يُصِيبُ الْمُؤْمِنَ شَوْكَةٌ فَمَا فَوْقَهَا، إِلَّا رَفَعَهُ اللَّهُ بِهَا دَرَجَةً، وَحَطَّ عَنْهُ بِهَا خَطِيئَةً . قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، وَأَبِي عُبَيْدَةَ بْنِ الْجَرَّاحِ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَأَبِي أُمَامَةَ، وَأَبِي سَعِيدٍ، وَأَنَسٍ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، وَأَسَدِ بْنِ كُرْزٍ، وَجَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَزْهَرَ، وَأَبِي مُوسَى. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৯৬৬
جنازوں کا بیان
بیماری کا ثواب
 ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا :  مومن کو جو بھی تکان، غم، اور بیماری حتیٰ کہ فکر لاحق ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے بدلے اس کے گناہ مٹا دیتا ہے   ١ ؎۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١- اس باب میں یہ حدیث حسن ہے،  ٢- بعض لوگوں نے یہ حدیث بطریق : «عطاء بن يسار عن أبي هريرة رضي اللہ عنه عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» روایت کی ہے،  ٣- وکیع کہتے ہیں : اس حدیث کے علاوہ کسی حدیث میں «همّ»  فکر  کے بارے میں نہیں سنا گیا کہ وہ بھی گناہوں کا کفارہ ہوتا ہے۔    تخریج دارالدعوہ :  صحیح البخاری/المرضی ١ (٥٦٤١، ٥٦٤٢) ، صحیح مسلم/البروالصلة ١٤ (٢٥٧٣) ،  ( تحفة الأشراف : ٤١٦٥) ، مسند احمد (٣/٤، ٢٤، ٣٨) (حسن صحیح)    وضاحت :  ١ ؎ : مطلب یہ ہے کہ مومن کو دنیا میں جو بھی آلام و مصائب پہنچتے ہیں اللہ انہیں اپنے فضل سے اس کے گناہوں کا کفارہ بنا دیتا ہے ، لیکن یہ اسی صورت میں ہے جب مومن صبر کرے ، اور اگر وہ صبر کے بجائے بےصبری کا مظاہرہ اور تقدیر کا رونا رونے لگے تو وہ اس اجر سے تو محروم ہو ہی جائے گا ، اور خطرہ ہے کہ اسے مزید گناہوں کا بوجھ نہ اٹھانا پڑجائے۔    قال الشيخ الألباني :  حسن صحيح، الصحيحة (2503)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 966  
حدیث نمبر: 966  حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَطَاءٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْأَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:  مَا مِنْ شَيْءٍ يُصِيبُ الْمُؤْمِنَ مِنْ نَصَبٍ وَلَا حَزَنٍ وَلَا وَصَبٍ حَتَّى الْهَمُّ يَهُمُّهُ إِلَّا يُكَفِّرُ اللَّهُ بِهِ عَنْهُ سَيِّئَاتِهِ . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ فِي هَذَا الْبَابِ، قَالَ: وسَمِعْت الْجَارُودَ، يَقُولُ: سَمِعْتُ وَكِيعًا، يَقُولُ: لَمْ يُسْمَعْ فِي الْهَمِّ أَنَّهُ يَكُونُ كَفَّارَةً إِلَّا فِي هَذَا الْحَدِيثِ، قَالَ: وَقَدْ رَوَى بَعْضُهُمْ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৯৬৭
جنازوں کا بیان
مریض کی عیادت
 ثوبان (رض) سے روایت ہے کہ  نبی اکرم  ﷺ  نے فرمایا :  مسلمان جب اپنے مسلمان بھائی کی عیادت کرتا ہے تو وہ برابر جنت میں پھل چنتا رہتا ہے ۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١- ثوبان کی حدیث حسن صحیح ہے،  ٢- ابوغفار اور عاصم احول نے یہ حدیث بطریق : «عن أبي قلابة عن أبي الأشعث عن أبي أسماء عن ثوبان عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» روایت کی ہے،  ٣- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو کہتے سنا کہ جس نے یہ حدیث بطریق : «عن أبي الأشعث عن أبي أسماء» روایت کی ہے وہ زیادہ صحیح ہے،  ٤- محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں : ابوقلابہ کی حدیثیں ابواسماء ہی سے مروی ہیں سوائے اس حدیث کے یہ میرے نزدیک بطریق : «عن أبي الأشعث عن أبي أسماء» مروی ہے،  ٥- اس باب میں علی، ابوموسیٰ ، براء، ابوہریرہ، انس اور جابر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔    تخریج دارالدعوہ :  صحیح مسلم/البروالصلة ١٣ (٢٥٦٨) ،  ( تحفة الأشراف : ٢١٠٥) ، مسند احمد (٥/٢٧٧، ٢٨١، ٢٨١، ٢٨٣، ٢٨٤) (صحیح)    قال الشيخ الألباني :  صحيح    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 967  
حدیث نمبر: 967  حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ الْحَذَّاءُ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ أَبِي أَسْمَاءَ الرَّحَبِيِّ، عَنْثَوْبَانَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:  إِنَّ الْمُسْلِمَ إِذَا عَادَ أَخَاهُ الْمُسْلِمَ لَمْ يَزَلْ فِي خُرْفَةِ الْجَنَّةِ . وَفِي الْبَاب: عَنْ عَلِيٍّ، وَأَبِي مُوسَى، وَالْبَرَاءِ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَأَنَسٍ، وَجَابِرٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ثَوْبَانَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَرَوَى أَبُو غِفَارٍ، وَعَاصِمٌ الْأَحْوَلُ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ أَبِي الْأَشْعَثِ، عَنْ أَبِي أَسْمَاءَ، عَنْ ثَوْبَانَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ، وسَمِعْت مُحَمَّدًا، يَقُولُ: مَنْ رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ أَبِي الْأَشْعَثِ، عَنْ أَبِي أَسْمَاءَ فَهُوَ أَصَحُّ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَأَحَادِيثُ أَبِي قِلَابَةَ إِنَّمَا هِيَ عَنْ أَبِي أَسْمَاءَ، إِلَّا هَذَا الْحَدِيثَ فَهُوَ عِنْدِي عَنْ أَبِي الْأَشْعَثِ، عَنْ أَبِي أَسْمَاءَ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৯৬৮
جنازوں کا بیان
مریض کی عیادت
 اس سند سے بھی  ثوبان (رض) نے نبی اکرم  ﷺ  سے اسی طرح روایت کی ہے، البتہ اس میں اتنا اضافہ ہے : عرض کیا گیا : جنت کا خرفہ کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا :  اس کے پھل توڑنا ۔ ایک دوسری سند سے ایوب سے اور ایوب نے ابوقلابہ سے، اور ابوقلابہ نے ابواسماء سے، اور ابواسماء نے ثوبان سے اور ثوبان نے نبی اکرم  ﷺ  سے خالد الحذاء کی حدیث کی طرح روایت کی ہے، اور اس میں احمد بن عبدہ نے ابواشعث کے واسطے کا ذکر نہیں کیا ہے۔   
حدیث نمبر: 968  حَدَّثَنَا بْنُ وَزِيرٍ الْوَاسِطِيُّ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، عَنْ عَاصِمٍ الْأَحْوَلِ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ أَبِي الْأَشْعَثِ، عَنْ أَبِي أَسْمَاءَ، عَنْ ثَوْبَانَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ وَزَادَ فِيهِ، قِيلَ:  مَا خُرْفَةُ الْجَنَّةِ، قَالَ: جَنَاهَا .

তাহকীক:
হাদীস নং: ৯৬৯
جنازوں کا بیان
مریض کی عیادت
 ابوفاختہ سعید بن علاقہ کہتے ہیں کہ  علی (رض) نے میرا ہاتھ پکڑ کر کہا : ہمارے ساتھ حسن کے پاس چلو ہم ان کی عیادت کریں گے تو ہم نے ان کے پاس ابوموسیٰ کو پایا۔ تو علی (رض) نے پوچھا : ابوموسیٰ کیا آپ عیادت کے لیے آئے ہیں ؟ یا زیارت «شماتت» کے لیے ؟ تو انہوں نے کہا : نہیں، بلکہ عیادت کے لیے آیا ہوں۔ اس پر علی (رض) نے کہا : میں نے رسول اللہ  ﷺ  کو فرماتے سنا ہے :  جو مسلمان بھی کسی مسلمان کی صبح کے وقت عیادت کرتا ہے تو شام تک ستر ہزار فرشتے اس کے لیے استغفار کرتے ہیں۔ اور جو شام کو عیادت کرتا ہے تو صبح تک ستر ہزار فرشتے اس کے لیے استغفار کرتے ہیں۔ اور اس کے لیے جنت میں ایک باغ ہوگا ۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١- یہ حدیث حسن غریب ہے،  ٢- علی (رض) سے یہ حدیث کئی اور بھی طرق سے بھی مروی ہے، ان میں سے بعض نے موقوفاً اور بعض نے مرفوعاً روایت کی ہے۔    تخریج دارالدعوہ :  تفرد بہ المؤلف  ( تحفة الأشراف : ١٠١٠٨) (صحیح اس میں ” زائرا “ لفظ صحیح نہیں ہے، اس کی جگہ ” شامتا “ صحیح ہے ملاحظہ ہو ” الصحیحة “ رقم : ١٣٦٧)    قال الشيخ الألباني :  صحيح، ابن ماجة (1442)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 969    
حدیث نمبر: 969  حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ ثُوَيْرٍ هُوَ: ابْنُ أَبِي فَاخِتَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: أَخَذَ عَلِيٌّ بِيَدِي، قَالَ: انْطَلِقْ بِنَا إِلَى الْحَسَنِ نَعُودُهُ، فَوَجَدْنَا عِنْدَهُ أَبَا مُوسَى، فَقَالَ عَلِيٌّ رضي الله عنه: أَعَائِدًا جِئْتَ يَا أَبَا مُوسَى أَمْ زَائِرًا، فَقَالَ: لَا بَلْ عَائِدًا. فَقَالَ عَلِيٌّ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:  مَا مِنْ مُسْلِمٍ يَعُودُ مُسْلِمًا غُدْوَةً إِلَّا صَلَّى عَلَيْهِ سَبْعُونَ أَلْفَ مَلَكٍ حَتَّى يُمْسِيَ، وَإِنْ عَادَهُ عَشِيَّةً إِلَّا صَلَّى عَلَيْهِ سَبْعُونَ أَلْفَ مَلَكٍ حَتَّى يُصْبِحَ، وَكَانَ لَهُ خَرِيفٌ فِي الْجَنَّةِ . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْ عَلِيٍّ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ، مِنْهُمْ مَنْ وَقَفَهُ وَلَمْ يَرْفَعْهُ، وَأَبُو فَاخِتَةَ: اسْمُهُ سَعِيدُ بْنُ عِلَاقَةَ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৯৭০
جنازوں کا بیان
موت کی تمنا کرنے کی ممانعت
 حارثہ بن مضرب کہتے ہیں کہ  میں خباب بن ارت (رض) کے پاس گیا، ان کے پیٹ میں آگ سے داغ کے نشانات تھے، تو انہوں نے کہا : نہیں جانتا کہ صحابہ میں کسی نے اتنی مصیبت جھیلی ہو جو میں نے جھیلی ہے، نبی اکرم  ﷺ  کے عہد میں میرے پاس ایک درہم بھی نہیں ہوتا تھا، جب کہ اس وقت میرے گھر کے ایک کونے میں چالیس ہزار درہم پڑے ہیں، اگر رسول اللہ  ﷺ  نے ہمیں موت کی تمنا کرنے سے نہ روکا ہوتا تو میں موت کی تمنا ضرور کرتا۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١- خباب (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے،  ٢- اس باب میں انس، ابوہریرہ، اور جابر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔    تخریج دارالدعوہ :  سنن ابن ماجہ/الزہد ١٣ (٤١٦٣) ،  ( تحفة الأشراف : ٣٥١١) ، مسند احمد (٥/١٠٩، ١١٠، ١١١) ، والمؤلف فی القیامة ٤٠ (٢٤٨٣) (صحیح) وأخرجہ کل من : صحیح البخاری/المرضی ١٩ (٥٦٧٢) ، والدعوات ٣٠ (٦٣٤٩) ، والرقاق ٧ (٦٤٣٠) ، والتمنی ٦ (٧٢٣٤) ، صحیح مسلم/الذکر ٤ (٢٦٨١) ، سنن النسائی/الجنائز ٢ (١٨٢٤) ، مسند احمد (٥/١٠٩، ١١١، ١١٢) من غیر ہذا الوجہ۔    قال الشيخ الألباني :  صحيح أحكام الجنائز (59)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 970     انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ  نبی اکرم  ﷺ  نے فرمایا :  تم میں سے کوئی ہرگز کسی مصیبت کی وجہ سے جو اس پر نازل ہوئی ہو موت کی تمنا نہ کرے۔ بلکہ وہ یوں کہے : «اللهم أحيني ما کانت الحياة خيرا لي وتوفني إذا کانت الوفاة خيرا لي»  اے اللہ ! مجھے زندہ رکھ جب تک کہ زندگی میرے لیے بہتر ہو، اور مجھے موت دے جب میرے لیے موت بہتر ہو ۔   
حدیث نمبر: 970  حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ حَارِثَةَ بْنِ مُضَرِّبٍ، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى خَبَّابٍ وَقَدِ اكْتَوَى فِي بَطْنِهِ، فَقَالَ: مَا أَعْلَمُ أَحَدًا لَقِيَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْبَلَاءِ مَا لَقِيتُ لَقَدْ كُنْتُ وَمَا أَجِدُ دِرْهَمًا عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَفِي نَاحِيَةٍ مِنْ بَيْتِي أَرْبَعُونَ أَلْفًا، وَلَوْلَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَانَا أَوْ نَهَى أَنْ نَتَمَنَّى الْمَوْتَ  لَتَمَنَّيْتُ. قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ أَنَسٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَجَابِرٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ خَبَّابٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.  وَقَدْ رُوِيَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ:  لَا يَتَمَنَّيَنَّ أَحَدُكُمُ الْمَوْتَ لِضُرٍّ نَزَلَ بِهِ وَلْيَقُلْ: اللَّهُمَّ أَحْيِنِي مَا كَانَتِ الْحَيَاةُ خَيْرًا لِي وَتَوَفَّنِي إِذَا كَانَتِ الْوَفَاةُ خَيْرًا لِي .

তাহকীক:
হাদীস নং: ৯৭১
جنازوں کا بیان
N/A
اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی ہرگز کسی مصیبت کی وجہ سے جو اس پر نازل ہوئی ہو موت کی تمنا نہ کرے۔ بلکہ وہ یوں کہے: «اللهم أحيني ما كانت الحياة خيرا لي وتوفني إذا كانت الوفاة خيرا لي» ”اے اللہ! مجھے زندہ رکھ جب تک کہ زندگی میرے لیے بہتر ہو، اور مجھے موت دے جب میرے لیے موت بہتر ہو“۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وَقَدْ رُوِيَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: لَا يَتَمَنَّيَنَّ أَحَدُكُمُ الْمَوْتَ لِضُرٍّ نَزَلَ بِهِ وَلْيَقُلْ: اللَّهُمَّ أَحْيِنِي مَا كَانَتِ الْحَيَاةُ خَيْرًا لِي وَتَوَفَّنِي إِذَا كَانَتِ الْوَفَاةُ خَيْرًا لِي . حَدَّثَنَا بِذَلِكَ عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ إِبْرَاهِيمَ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ صُهَيْبٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِذَلِكَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.

তাহকীক:
হাদীস নং: ৯৭২
جنازوں کا بیان
مریض کے لئے تعوذ
 ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ  نبی اکرم  ﷺ  کے پاس آ کر جبرائیل نے پوچھا : اے محمد ! کیا آپ بیمار ہیں ؟ فرمایا : ہاں، جبرائیل نے کہا : «باسم اللہ أرقيك من کل شيء يؤذيك من شر کل نفس وعين حاسد باسم اللہ أرقيك والله يشفيك»  میں اللہ کے نام سے آپ پر دم کرتا ہوں ہر اس چیز سے جو آپ کو ایذاء پہنچا رہی ہے، ہر نفس کے شر سے اور ہر حاسد کی آنکھ سے، میں اللہ کے نام سے آپ پر دم کرتا ہوں، اللہ آپ کو شفاء عطا فرمائے گا ۔    تخریج دارالدعوہ :  صحیح مسلم/السلام ١٦ (٢١٨٦) ، سنن ابن ماجہ/الطب ٣٦ (٣٥٢٣) ،  ( تحفة الأشراف : ٤٣٦٣) ، مسند احمد (٣/٢٨، ٥٦) (صحیح)    قال الشيخ الألباني :  صحيح، ابن ماجة (3523)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 972  
حدیث نمبر: 972  حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ هِلَالٍ الْبَصْرِيُّ الصَّوَّافُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ صُهَيْبٍ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ،  أَنَّ جِبْرِيلَ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ اشْتَكَيْتَ، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: بِاسْمِ اللَّهِ أَرْقِيكَ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ يُؤْذِيكَ، مِنْ شَرِّ كُلِّ نَفْسٍ وَعَيْنِ حَاسِدٍ، بِاسْمِ اللَّهِ أَرْقِيكَ وَاللَّهُ يَشْفِيكَ 

তাহকীক:
হাদীস নং: ৯৭৩
جنازوں کا بیان
مریض کے لئے تعوذ
 عبدالعزیز بن صہیب کہتے ہیں کہ  میں اور ثابت بنانی دونوں انس بن مالک (رض) کے پاس گئے۔ ثابت نے کہا : ابوحمزہ ! میں بیمار ہوگیا ہوں، انس نے کہا : کیا میں تم پر رسول اللہ  ﷺ  کے منتر کے ذریعہ دم نہ کر دوں ؟ انہوں نے کہا : کیوں نہیں ! انس نے کہا : «اللهم رب الناس مذهب الباس اشف أنت الشافي لا شافي إلا أنت شفاء لا يغادر سقما»  اے اللہ ! لوگوں کے رب ! مصیبت کو دور کرنے والے ! شفاء عطا فرما، تو ہی شفاء دینے والا ہے، تیرے سوا کوئی شافی نہیں۔ ایسی شفاء دے کہ کوئی بیماری باقی نہ رہ جائے ۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١- ابو سعید خدری کی حدیث حسن صحیح ہے،  ٢- میں نے ابوزرعہ سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا کہ عبدالعزیز بن صہیب کی روایت بسند «ابی نضرة عن ابی سعید الخدری» زیادہ صحیح ہے یا عبدالعزیز کی انس سے روایت ہے ؟ تو انہوں نے کہا : دونوں صحیح ہیں،  ٣- عبدالصمد بن عبدالوارث نے بسند «عبدالوارث عن أبيه عن عبد العزيز بن صهيب عن أبي نضرة عن أبي سعيد» روایت کی ہے اور عبدالعزیز بن صھیب نے انس سے بھی روایت کی ہے،  ٤- اس باب میں انس اور عائشہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔    تخریج دارالدعوہ :  صحیح البخاری/الطب ٣٨ (٥٧٤٢) ، سنن ابی داود/ الطب ١٩ (٣٨٩٠) ،  ( تحفة الأشراف : ١٠٣٤) ، مسند احمد (٣/١٥١) (صحیح)    قال الشيخ الألباني :  صحيح    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 973    
حدیث نمبر: 973  حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ صُهَيْبٍ، قَالَ: دَخَلْتُ أَنَا وَثَابِتٌ الْبُنَانِيُّ عَلَى أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، فَقَالَ ثَابِتٌ: يَا أَبَا حَمْزَةَ اشْتَكَيْتُ ؟ فَقَالَ أَنَسٌ: أَفَلَا أَرْقِيكَ بِرُقْيَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؟ قَالَ: بَلَى، قَالَ:  اللَّهُمَّ رَبَّ النَّاسِ مُذْهِبَ الْبَاسِ، اشْفِ أَنْتَ الشَّافِي لَا شَافِيَ إِلَّا أَنْتَ، شِفَاءً لَا يُغَادِرُ سَقَمًا . قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ أَنَسٍ، وَعَائِشَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي سَعِيدٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَسَأَلْتُ أَبَا زُرْعَةَ عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ، فَقُلْتُ لَهُ: رِوَايَةُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ أَصَحُّ، أَوْ حَدِيثُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: كِلَاهُمَا صَحِيحٌ، وَرَوَى عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ صُهَيْبٍ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أبِي سَعِيدٍ، وعَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ صُهَيْبٍ، عَنْ أَنَسٍ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৯৭৪
جنازوں کا بیان
وصیت کی ترغیب
 عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا :  ایک مسلمان، جس کی دو راتیں بھی اس حال میں گزریں کہ اس کے پاس وصیت کرنے کی کوئی چیز ہو، اس پر لازم ہے کہ اس کی وصیت اس کے پاس لکھی ہوئی ہو ۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١- ابن عمر (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے،  ٢- اس باب میں ابن ابی اوفی (رض) سے بھی حدیث آئی ہے۔    تخریج دارالدعوہ :  صحیح مسلم/الوصایا ١ (١٦٢٧) ، سنن ابن ماجہ/الوصایا ٢ (٢٦٩٩) ،  ( تحفة الأشراف : ٧٩٤٤) (صحیح) مسند احمد (٢/٥٧، ٨٠) ، (ویأتي عند المؤلف فی الوصایا ٣ (٢١١٨) ، وأخرجہ کل من : صحیح البخاری/الوصایا ١ (٢٧٣٨) ، صحیح مسلم/الوصایا (المصدر المذکور) ، سنن النسائی/الوصایا ١ (٣٦٤٥، ٣٦٤٦، ٣٦٤٨) ، موطا امام مالک/الوصایا ١ (١) ، مسند احمد (٢/٤، ١٠، ٣٤، ٥٠، ١١٣) ، سنن الدارمی/الوصایا ١ (٣٢٣٩) ، من غیر ہذا الوجہ۔    قال الشيخ الألباني :  صحيح، ابن ماجة (2699)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 974    
حدیث نمبر: 974  حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:  مَا حَقُّ امْرِئٍ مُسْلِمٍ يَبِيتُ لَيْلَتَيْنِ وَلَهُ شَيْءٌ يُوصِي فِيهِ إِلَّا وَوَصِيَّتُهُ مَكْتُوبَةٌ عِنْدَهُ . قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ ابْنِ أَبِي أَوْفَى. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৯৭৫
جنازوں کا بیان
تہائی اور چوتھائی مال کی وصیت
 سعد بن مالک  (سعد بن ابی وقاص)  (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے میری عیادت فرمائی، میں بیمار تھا۔ تو آپ نے پوچھا : کیا تم نے وصیت کردی ہے ؟ میں نے عرض کیا : جی ہاں  (کر دی ہے) ، آپ نے فرمایا :  کتنے کی ؟  میں نے عرض کیا : اللہ کی راہ میں اپنے سارے مال کی۔ آپ نے پوچھا :  اپنی اولاد کے لیے تم نے کیا چھوڑا ؟  میں نے عرض کیا : وہ مال سے بےنیاز ہیں، آپ نے فرمایا :  دسویں حصے کی وصیت کرو ۔ تو میں برابر اسے زیادہ کراتا رہا یہاں تک کہ آپ نے فرمایا :  تہائی مال کی وصیت کرو، اور تہائی بھی زیادہ ہے ۔ ابوعبدالرحمٰن  (نسائی)  کہتے ہیں : ہم لوگ رسول اللہ  ﷺ  کے اس فرمان کی وجہ سے کہ تہائی مال کی وصیت بھی زیادہ ہے مستحب یہی سمجھتے ہیں کہ تہائی سے بھی کم کی وصیت کی جائے۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١- سعد (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے،  ٢- سعد (رض) سے یہ حدیث دوسرے اور طرق سے بھی مروی ہے،  ٣- اس باب میں ابن عباس (رض) سے بھی روایت ہے۔ اور ان سے «والثلث کثير» کی جگہ «والثلث کبير»  تہائی بڑی مقدار ہے  بھی مروی ہے،  ٤- اہل علم کا اسی پر عمل ہے، وہ اس بات کو صحیح قرار نہیں دیتے کہ آدمی تہائی سے زیادہ کی وصیت کرے اور مستحب سمجھتے ہیں کہ تہائی سے کم کی وصیت کرے،  ٥- سفیان ثوری کہتے ہیں : لوگ چوتھائی حصہ کے مقابل میں پانچویں حصہ کو اور تہائی کے مقابلے میں چوتھائی حصہ کو مستحب سمجھتے تھے، اور کہتے تھے کہ جس نے تہائی کی وصیت کردی اس نے کچھ نہیں چھوڑا۔ اور اس کے لیے تہائی سے زیادہ جائز نہیں۔    تخریج دارالدعوہ :  سنن النسائی/الوصایا ٣ (٣٦٦١) ،  ( تحفة الأشراف : ٣٨٩٨) (صحیح) وأخرجہ کل من : صحیح البخاری/الجنائز ٣٦ (١٢٩٥) ، والوصایا ٢ (٢٧٤٢) ، ومناقب الأنصار ٤٩ (٣٩٣٦) ، والمغازي ٧٧ (٤٣٩٥) ، والنفقات ١ (٥٣٥٤) ، المرضی ١٣ (٥٦٥٩) ، والدعوات ٤٣ (٦٣٧٣) ، والفرائض ٦ (٦٧٣٣) ، صحیح مسلم/الوصایا ٢ (١٦٢٨) ، سنن ابی داود/ الوصایا ٢ (٢٨٦٤) ، سنن النسائی/الوصایا ٣ (٣٦٥٦، ٣٦٦٠، ٣٦٦١، ٣٦٦٢، ٣٦٦٥) ، سنن ابن ماجہ/الوصایا ٥ (٢٧٠٨) ، موطا امام مالک/الوصایا ٣ (٤) ، مسند احمد (١/١٦٨، ١٧٢، ١٧٦، ١٧٩) ، سنن الدارمی/الوصایا ٧ (٣٢٣٨، ٣٢٣٩) والمؤلف/الوصایا ١ (٢١١٦) من غیر ہذا الوجہ۔    قال الشيخ الألباني :  صحيح، ابن ماجة (2708)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 975  
حدیث نمبر: 975  حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيِّ، عَنْ سَعْدِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: عَادَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا مَرِيضٌ، فَقَالَ:  أَوْصَيْتَ ، قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ:  بِكَمْ ، قُلْتُ: بِمَالِي كُلِّهِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، قَالَ:  فَمَا تَرَكْتَ لِوَلَدِكَ ؟  قُلْتُ: هُمْ أَغْنِيَاءُ بِخَيْرٍ، قَالَ:  أَوْصِ بِالْعُشْرِ ، فَمَا زِلْتُ أُنَاقِصُهُ حَتَّى قَالَ:  أَوْصِ بِالثُّلُثِ وَالثُّلُثُ كَثِيرٌ . قَالَ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ: وَنَحْنُ نَسْتَحِبُّ أَنْ يَنْقُصَ مِنَ الثُّلُثِ لِقَوْلِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالثُّلُثُ كَثِيرٌ. قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ سَعْدٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْهُ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْهُ:  وَالثُّلُثُ كَبِيرٌ ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ لَا يَرَوْنَ أَنْ يُوصِيَ الرَّجُلُ بِأَكْثَرَ مِنَ الثُّلُثِ، وَيَسْتَحِبُّونَ أَنْ يَنْقُصَ مِنَ الثُّلُثِ، قَالَ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ: كَانُوا يَسْتَحِبُّونَ فِي الْوَصِيَّةِ الْخُمُسَ دُونَ الرُّبُعِ، وَالرُّبُعَ دُونَ الثُّلُثِ، وَمَنْ أَوْصَى بِالثُّلُثِ فَلَمْ يَتْرُكْ شَيْئًا وَلَا يَجُوزُ لَهُ إِلَّا الثُّلُثُ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৯৭৬
جنازوں کا بیان
حالت نزع میں مریض کو تلقین اور دعا کرنا
 ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ  نبی اکرم  ﷺ  نے فرمایا :  تم اپنے مرنے والے لوگوں کو جو بالکل مرنے کے قریب ہوں «لا إله إلا الله» کی تلقین  ١ ؎ کرو ۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١- ابو سعید خدری کی حدیث حسن غریب صحیح ہے،  ٢- اس باب میں ابوہریرہ، ام سلمہ، عائشہ، جابر، سعدی مریہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں،  ٣- سعدی مریہ طلحہ بن عبیداللہ کی بیوی ہیں۔    تخریج دارالدعوہ :  صحیح مسلم/الجنائز ١ (٩١٦) ، سنن ابی داود/ الجنائز ٢٠ (٣١١٧) ، سنن النسائی/الجنائز ٢٠ (٣١١٧) ، سنن النسائی/الجنائز ٤ (١٨٢٧) ، سنن ابن ماجہ/الجنائز ٣ (١٤٤٥) ،  ( تحفة الأشراف : ٤٤٠٣) ، مسند احمد (٣/٣) (صحیح)    وضاحت :  ١ ؎ : بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ تلقین سے مراد تذکیر ہے یعنی مرنے والے کے پاس «لا إله إلا الله» پڑھ کر اسے کلمہ شہادت کی یاد دہانی کرائی جائے تاکہ سن کر وہ بھی اسے پڑھنے لگے ، براہ راست اس سے پڑھنے کے لیے نہ کہا جائے کیونکہ وہ تکلیف کی شدت سے جھنجھلا کر انکار بھی کرسکتا ہے جس سے کفر لازم آئے گا ، لیکن شیخ ناصرالدین البانی نے اسے درست قرار نہیں دیا وہ کہتے ہیں کہ تلقین کا مطلب یہ ہے کہ اسے «لا إله إلا الله» پڑھنے کے لیے کہا جائے۔ افضل یہ ہے کہ مریض کی حالت دیکھ کر عمل کیا جائے۔    قال الشيخ الألباني :  صحيح، ابن ماجة (1444 و 1445)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 976  
حدیث نمبر: 976  حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ يَحْيَى بْنُ خَلَفٍ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ غَزِيَّةَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ عُمَارَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:  لَقِّنُوا مَوْتَاكُمْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ . قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَأُمِّ سَلَمَةَ، وَعَائِشَةَ، وَجَابِرٍ، وَسُعْدَى الْمُرِّيَّةِ وَهِيَ: امْرَأَةُ طَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي سَعِيدٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৯৭৭
جنازوں کا بیان
حالت نزع میں مریض کو تلقین اور دعا کرنا
 ام المؤمنین ام سلمہ (رض) کہتی ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے ہم سے فرمایا :  جب تم مریض کے پاس یا کسی مرے ہوئے آدمی کے پاس آؤ تو اچھی بات کہو  ١ ؎، اس لیے کہ جو تم کہتے ہو اس پر ملائکہ آمین کہتے ہیں ، جب ابوسلمہ کا انتقال ہوا، تو میں نے نبی اکرم  ﷺ  کے پاس آ کر عرض کیا : اللہ کے رسول ! ابوسلمہ کا انتقال ہوگیا ہے۔ آپ نے فرمایا : تو تم یہ دعا پڑھو : «اللهم اغفر لي وله وأعقبني منه عقبی حسنة»  اے اللہ ! مجھے اور انہیں معاف فرما دے، اور مجھے ان کا نعم البدل عطا فرما  وہ کہتی ہیں کہ : جب میں نے یہ دعا پڑھی تو اللہ نے مجھے ایسی ہستی عطا کردی جو ان سے بہتر تھی یعنی رسول اللہ  ﷺ  کو عطا کیا۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١- ام سلمہ (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے،  ٢- یہ مستحب سمجھا جاتا تھا کہ مریض کو اس کی موت کے وقت «لا إله إلا الله» کی تلقین کی جائے،  ٣- بعض اہل علم کہتے ہیں : جب وہ  (میت)  اسے ایک بار کہہ دے اور اس کے بعد پھر نہ بولے تو مناسب نہیں کہ اس کے سامنے باربار یہ کلمہ دہرایا جائے،  ٤- ابن مبارک کے بارے میں مروی ہے کہ جب ان کی موت کا وقت آیا، تو ایک شخص انہیں «لا إله إلا الله» کی تلقین کرنے لگا اور باربار کرنے لگا، عبداللہ بن مبارک نے اس سے کہا : جب تم نے ایک بار کہہ دیا تو میں اب اسی پر قائم ہوں جب تک کوئی اور گفتگو نہ کروں، عبداللہ کے اس قول کا مطلب یہ ہے کہ ان کی مراد اس سے وہی تھی جو نبی اکرم  ﷺ  سے مروی ہے کہ  جس کا آخری قول «لا إله إلا الله» ہو تو وہ جنت میں داخل ہوگا ۔    تخریج دارالدعوہ :  صحیح مسلم/الجنائز ٣ (٩١٩) ، سنن ابی داود/ الجنائز ١٩ (٣١١٥) ، سنن النسائی/الجنائز ٧ (١٨٢٦) ، سنن ابن ماجہ/الجنائز ٤ (١٤٤٧) ،  ( تحفة الأشراف : ١٨١٦٢) ، مسند احمد (٦/٢٩١، ٣٠٦) (صحیح) وأخرجہ کل من : سنن ابن ماجہ/الجنائز ٥٥ (١٥٩٨) ، موطا امام مالک/الجنائز ١٤ (٤٢) من غیر ہذا الوجہ۔    وضاحت :  ١ ؎ : مثلاً مریض سے کہو  اللہ تمہیں شفاء دے  اور مرے ہوئے آدمی سے کہو  اللہ تمہاری مغفرت فرمائے ۔    قال الشيخ الألباني :  صحيح، ابن ماجة (1447)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 977  
حدیث نمبر: 977  حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ شَقِيقٍ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ: قَالَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:  إِذَا حَضَرْتُمُ الْمَرِيضَ أَوِ الْمَيِّتَ فَقُولُوا خَيْرًا، فَإِنَّ الْمَلَائِكَةَ يُؤَمِّنُونَ عَلَى مَا تَقُولُونَ . قَالَتْ: فَلَمَّا مَاتَ أَبُو سَلَمَةَ أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ أَبَا سَلَمَةَ مَاتَ، قَالَ:  فَقُولِيَ: اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي وَلَهُ، وَأَعْقِبْنِي مِنْهُ عُقْبَى حَسَنَةً ، قَالَتْ: فَقُلْتُ: فَأَعْقَبَنِي اللَّهُ مِنْهُ مَنْ هُوَ خَيْرٌ مِنْهُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: شَقِيقٌ هُوَ: ابْنُ سَلَمَةَ أَبُو وَائِلٍ الْأَسَدِيُّ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أُمِّ سَلَمَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ كَانَ يُسْتَحَبُّ أَنْ يُلَقَّنَ الْمَرِيضُ عِنْدَ الْمَوْتِ، قَوْلَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: إِذَا قَالَ ذَلِكَ مَرَّةً فَمَا لَمْ يَتَكَلَّمْ بَعْدَ ذَلِكَ، فَلَا يَنْبَغِي أَنْ يُلَقَّنَ وَلَا يُكْثَرَ عَلَيْهِ فِي هَذَا، وَرُوِيَ عَنْ ابْنِ الْمُبَارَكِ أَنَّهُ لَمَّا حَضَرَتْهُ الْوَفَاةُ، جَعَلَ رَجُلٌ يُلَقِّنُهُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَكْثَرَ عَلَيْهِ، فَقَالَ لَهُ عَبْدُ اللَّهِ: إِذَا قُلْتُ مَرَّةً فَأَنَا عَلَى ذَلِكَ مَا لَمْ أَتَكَلَّمْ بِكَلَامٍ، وَإِنَّمَا مَعْنَى قَوْلِ عَبْدِ اللَّهِ: إِنَّمَا أَرَادَ مَا رُوِيَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ كَانَ آخِرُ قَوْلِهِ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ دَخَلَ الْجَنَّةَ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৯৭৮
جنازوں کا بیان
موت کی سختی
 ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ  میں نے رسول اللہ  ﷺ  کو دیکھا کہ آپ سکرات کے عالم میں تھے، آپ کے پاس ایک پیالہ تھا، جس میں پانی تھا، آپ پیالے میں اپنا ہاتھ ڈالتے پھر اپنے چہرے پر ملتے اور فرماتے : «اللهم أعني علی غمرات الموت أو سکرات الموت»  اے اللہ ! سکرات الموت میں میری مدد فرما ۔    امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے۔    تخریج دارالدعوہ :  سنن ابن ماجہ/الجنائز ٦٤ (١٦٢٣) ،  ( تحفة الأشراف : ١٧٥٥٦) (ضعیف) (سند میں موسیٰ بن سرجس مجہول الحال راوی ہیں)    قال الشيخ الألباني :  ضعيف، ابن ماجة (1623) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (357) ، المشکاة (1564) ، ضعيف الجامع الصغير (1176) //   صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 978  
حدیث نمبر: 978  حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ ابْنِ الْهَادِ، عَنْ مُوسَى بْنِ سَرْجِسَ، عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّهَا قَالَتْ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ بِالْمَوْتِ وَعِنْدَهُ قَدَحٌ فِيهِ مَاءٌ، وَهُوَ يُدْخِلُ يَدَهُ فِي الْقَدَحِ ثُمَّ يَمْسَحُ وَجْهَهُ بِالْمَاءِ، ثُمَّ يَقُولُ:  اللَّهُمَّ أَعِنِّي عَلَى غَمَرَاتِ الْمَوْتِ، وسَكَرَاتِ الْمَوْتِ . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৯৭৯
جنازوں کا بیان
موت کی سختی
 ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  کی موت کی جو شدت میں نے دیکھی، اس کے بعد میں کسی کی جان آسانی سے نکلنے پر رشک نہیں کرتی  ١ ؎۔    امام ترمذی کہتے ہیں : میں نے ابوزرعہ سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا کہ عبدالرحمٰن بن علاء کون ہیں ؟ تو انہوں نے کہا : وہ علاء بن اللجلاج ہیں، میں اسے اسی طریق سے جانتا ہوں۔    تخریج دارالدعوہ :  تفرد بہ المؤلف  ( تحفة الأشراف : ١٦٢٧٤) (صحیح)    وضاحت :  ١ ؎ : اس سے معلوم ہوا کہ موت کی سختی برے ہونے کی دلیل نہیں بلکہ یہ ترقی درجات اور گناہوں کی مغفرت کا بھی سبب ہوتی ہے۔    قال الشيخ الألباني :  صحيح مختصر الشمائل المحمدية (325)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 979    
حدیث نمبر: 979  حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الصَّبَّاحِ الْبَزَّارُ الْبَغْدَادِيُّ، حَدَّثَنَا مُبَشِّرُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ الْحَلَبِيُّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْعَلاَئِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: مَا أَغْبِطُ أَحَدًا بِهَوْنِ مَوْتٍ بَعْدَ الَّذِي رَأَيْتُ مِنْ شِدَّةِ مَوْتِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ . قَالَ: سَأَلْتُ أَبَا زُرْعَةَ عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ. وَقُلْتُ لَهُ: مَنْ عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ الْعَلاَئِ؟ فَقَالَ: هُوَ الْعَلاَئُ بْنُ اللَّجْلاَجِ. وَإِنَّمَا عَرَّفَهُ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৯৮০
جنازوں کا بیان
موت کی سختی
 عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ  میں نے رسول اللہ  ﷺ  کو فرماتے سنا ہے :  مومن کی جان تھوڑا تھوڑا کر کے نکلتی ہے جیسے جسم سے پسینہ نکلتا ہے اور مجھے گدھے جیسی موت پسند نہیں ۔ عرض کیا گیا : گدھے کی موت کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا :  اچانک موت ۔    تخریج دارالدعوہ :  تفرد بہ المؤلف  ( تحفة الأشراف : ٥٣٣) (ضعیف جداً ) (سند میں حسام متروک راوی ہے)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 980  
حدیث نمبر: 980  حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا حُسَامُ بْنُ الْمِصَكِّ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مَعْشَرٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، قَال: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:  إِنَّ نَفْسَ الْمُؤْمِنُ تَخْرُجُ رَشْحًا، وَلَا أُحِبُّ مَوْتًا كَمَوْتِ الْحِمَارِ ، قِيلَ: وَمَا مَوْتُ الْحِمَارِ ؟ قَالَ:  مَوْتُ الْفَجْأَةِ .  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৯৮১
جنازوں کا بیان
موت کی سختی
 انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا :  جب بھی دونوں لکھنے والے  (فرشتے)  دن و رات کسی کے عمل کو لکھ کر اللہ کے پاس لے جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ دفتر کے شروع اور اخیر میں خیر  (نیک کام)  لکھا ہوا پاتا ہے تو فرماتا ہے :  میں تم لوگوں کو گواہ بناتا ہوں کہ میں نے اپنے بندے کے سارے گناہ معاف کردینے جو اس دفتر کے دونوں کناروں شروع اور اخیر کے درمیان میں ہیں ۔    تخریج دارالدعوہ :  تفرد بہ المؤلف (التحفہ : ٥٣٣) (ضعیف جداً ) (اس کے راوی تمام بن نجیح ضعیف ہیں)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 981  
حدیث نمبر: 981  حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ، حَدَّثَنَا مُبَشِّرُ بْنُ إِسْمَاعِيل الْحَلَبِيُّ، عَنْ تَمَّامِ بْنِ نَجِيحٍ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:  مَا مِنْ حَافِظَيْنِ رَفَعَا إِلَى اللَّهِ مَا حَفِظَا مِنْ لَيْلٍ أَوْ نَهَارٍ فَيَجِدُ اللَّهُ فِي أَوَّلِ الصَّحِيفَةِ وَفِي آخِرِ الصَّحِيفَةِ خَيْرًا إِلَّا قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: أُشْهِدُكُمْ أَنِّي قَدْ غَفَرْتُ لِعَبْدِي مَا بَيْنَ طَرَفَيِ الصَّحِيفَةِ .  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৯৮২
جنازوں کا بیان
 بریدہ (رض) سے روایت ہے کہ  نبی اکرم  ﷺ  نے فرمایا :  مومن پیشانی کے پسینہ کے ساتھ مرتا ہے   ١ ؎۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١- یہ حدیث حسن ہے،  ٢- اس باب میں ابن مسعود (رض) سے بھی روایت ہے،  ٣- بعض اہل علم کہتے ہیں کہ ہمیں عبداللہ بن بریدہ سے قتادہ کے سماع کا علم نہیں ہے۔    تخریج دارالدعوہ :  سنن النسائی/الجنائز ٥ (١٨٢٩) ، سنن ابن ماجہ/الجنائز ٥ (١٥٥٢) ، مسند احمد (٥/٣٥٠، ٣٥٧، ٣٦٠) ،  ( تحفة الأشراف : ١٩٩٢) (صحیح)    وضاحت :  ١ ؎ : یعنی مومن موت کی شدت سے دو چار ہوتا ہے تاکہ یہ اس کے گناہوں کی بخشش کا ذریعہ بن جائے ،  ( شدت کے وقت آدمی کی پیشانی پر پسینہ آ جاتا ہے  )  یا یہ مطلب ہے کہ موت اسے اچانک اس حال میں پا لیتی ہے کہ وہ رزق حلال اور ادائیگی فرائض میں اس قدر مشغول رہتا ہے کہ اس کی پیشانی پسینہ سے تر رہتی ہے۔    قال الشيخ الألباني :  صحيح، ابن ماجة (1452)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 982  
حدیث نمبر: 982  حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ الْمُثَنَّى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:  الْمُؤْمِنُ يَمُوتُ بِعَرَقِ الْجَبِينِ . قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَقَدْ قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: لَا نَعْرِفُ لِقَتَادَةَ سَمَاعًا مِنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৯৮৩
جنازوں کا بیان
 انس (رض) کہتے ہیں کہ  نبی اکرم  ﷺ  ایک نوجوان کے پاس آئے اور وہ سکرات کے عالم میں تھا۔ آپ نے فرمایا :  تم اپنے کو کیسا پا رہے ہو ؟  اس نے عرض کیا : اللہ کی قسم، اللہ کے رسول ! مجھے اللہ سے امید ہے اور اپنے گناہوں سے ڈر بھی رہا ہوں، رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا :  یہ دونوں چیزیں اس جیسے وقت میں جس بندے کے دل میں جمع ہوجاتی ہیں تو اللہ اسے وہ چیز عطا کردیتا ہے جس کی وہ اس سے امید رکھتا ہے اور اسے اس چیز سے محفوظ رکھتا ہے جس سے وہ ڈر رہا ہوتا ہے ۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١- یہ حدیث حسن اور غریب ہے،  ٢- اور بعض لوگوں نے یہ حدیث ثابت سے اور انہوں نے نبی اکرم  ﷺ  سے مرسلاً روایت کی ہے۔    تخریج دارالدعوہ :  سنن النسائی/عمل الیوم واللیلة ٣٠٨ (١٠٦٢) ، سنن ابن ماجہ/الزہد ٣١ (٤٢٦١) (تحفة الأشراف : ٢٦٢) (حسن)    قال الشيخ الألباني :  حسن، ابن ماجة (4261)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 983  
حدیث نمبر: 983  حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي زِيَادٍ الْكُوفِيُّ، وَهَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْبَزَّازُ الْبَغْدَادِيُّ، قَالَا: حَدَّثَنَا سَيَّارٌ هُوَ: ابْنُ حَاتِمٍ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ عَلَى شَابٍّ وَهُوَ فِي الْمَوْتِ، فَقَالَ:  كَيْفَ تَجِدُكَ ، قَالَ: وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنِّي أَرْجُو اللَّهَ، وَإِنِّي أَخَافُ ذُنُوبِي، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:  لَا يَجْتَمِعَانِ فِي قَلْبِ عَبْدٍ فِي مِثْلِ هَذَا الْمَوْطِنِ إِلَّا أَعْطَاهُ اللَّهُ مَا يَرْجُو وَآمَنَهُ مِمَّا يَخَافُ . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَقَدْ رَوَى بَعْضُهُمْ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ ثَابِتٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُرْسَلًا.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৯৮৪
جنازوں کا بیان
کسی کی موت کی خبر کا اعلان کرنا مکروہ ہے۔
 عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ  نبی اکرم  ﷺ  نے فرمایا :  «نعی»  (موت کی خبر دینے)   ١ ؎ سے بچو، کیونکہ «نعی» جاہلیت کا عمل ہے ۔ عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں : «نعی» کا مطلب میت کی موت کا اعلان ہے۔    امام ترمذی کہتے ہیں : اس باب میں حذیفہ (رض) سے بھی روایت ہے۔    تخریج دارالدعوہ :  تفرد بہ المؤلف  ( تحفة الأشراف : ٩٤٦١) (ضعیف) (سند میں میمون ابو حمزہ اعور ضعیف راوی ہیں)    وضاحت :  ١ ؎ : کسی کی موت کی خبر دینے کو «نعی» کہتے ہیں ، «نعی» جائز ہے خود نبی اکرم  ﷺ  نے نجاشی کی وفات کی خبر دی ہے ، اسی طرح زید بن حارثہ ، جعفر بن ابی طالب اور عبداللہ بن رواحہ (رض) کی وفات کی خبریں بھی آپ نے لوگوں کو دی ہیں ، یہاں جس «نعی» سے بچنے کا ذکر ہے اس سے اہل جاہلیت کی «نعی» ہے ، زمانہ جاہلیت میں جب کوئی مرجاتا تھا تو وہ ایک شخص کو بھیجتے جو محلوں اور بازاروں میں پھر پھر کر اس کے مرنے کا اعلان کرتا۔    قال الشيخ الألباني :  ضعيف تخريج إصلاح المساجد (108) // ضعيف الجامع الصغير (2211) //   صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 984  
حدیث نمبر: 984  حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ الرَّازِيُّ، حَدَّثَنَا حَكَّامُ بْنُ سَلْمٍ، وَهَارُونُ بْنُ الْمُغِيرَةِ، عَنْ أَبِي حَمْزَةَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْعَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:  إِيَّاكُمْ وَالنَّعْيَ فَإِنَّ النَّعْيَ مِنْ عَمَلِ الْجَاهِلِيَّةِ . قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: وَالنَّعْيُ أَذَانٌ بِالْمَيِّتِ. وَفِي الْبَاب، عَنْ حُذَيْفَةَ.  

তাহকীক: