আল জামিউল কাবীর- ইমাম তিরমিযী রহঃ (উর্দু)
الجامع الكبير للترمذي
نکاح کا بیان - এর পরিচ্ছেদসমূহ
মোট হাদীস ২০ টি
হাদীস নং: ১০৮০
نکاح کا بیان
نکاح کے میں جو رسول اللہ ﷺ سے مروی ہے
 ابوایوب انصاری (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا :  چار باتیں انبیاء و رسل کی سنت میں سے ہیں : حیاء کرنا، عطر لگانا، مسواک کرنا اور نکاح کرنا   ١ ؎۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١- ابوایوب انصاری (رض) کی حدیث حسن غریب ہے -   تخریج دارالدعوہ :  تفرد بہ المؤلف (٣٤٩٩) ، وانظر : مسند احمد (٥/٤٢١) (ضعیف) (سند میں ابو الشمال مجہول راوی ہیں، لیکن اس حدیث کے معنی کی تائید دیگر طرق سے موجود ہے)    وضاحت :  ١ ؎ : یعنی رسولوں نے خود اسے کیا ہے اور لوگوں کو اس کی ترغیب دی ہے ، رسولوں کی سنت اسے تغلیباً کہا گیا ہے کیونکہ ان میں کچھ چیزیں ایسی ہیں جنہیں بعض رسولوں نے نہیں کیا ہے مثلاً نوح (علیہ السلام) نے ختنہ نہیں کرایا اور عیسیٰ (علیہ السلام) نے شادی نہیں کی۔    قال الشيخ الألباني :  ضعيف، المشکاة (382) ، الإرواء (75) ، الرد علی الکتاني ص (12) // ضعيف الجامع الصغير (760) //   صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1080
حدیث نمبر: 1080  حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ، حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ، عَنْ الْحَجَّاجِ، عَنْ مَكْحُولٍ، عَنْ أَبِي الشِّمَالِ، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:  أَرْبَعٌ مِنْ سُنَنِ الْمُرْسَلِينَ: الْحَيَاءُ، وَالتَّعَطُّرُ، وَالسِّوَاكُ، وَالنِّكَاحُ . قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ عُثْمَانَ، وَثَوْبَانَ، وَابْنِ مَسْعُودٍ، وَعَائِشَةَ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، وَأَبِي نَجِيحٍ، وَجَابِرٍ، وَعَكَّافٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي أَيُّوبَ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.

তাহকীক:
হাদীস নং: ১০৮১
نکاح کا بیان
نکاح کے میں جو رسول اللہ ﷺ سے مروی ہے
 عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ  ہم نبی اکرم  ﷺ  کے ساتھ نکلے، ہم نوجوان تھے، ہمارے پاس  (شادی وغیرہ امور میں سے)  کسی چیز کی مقدرت نہ تھی۔ تو آپ نے فرمایا :  اے نوجوانوں کی جماعت ! تمہارے اوپر  ١ ؎ نکاح لازم ہے، کیونکہ یہ نگاہ کو نیچی کرنے والا اور شرمگاہ کی حفاظت کرنے والا ہے۔ اور جو تم میں سے نکاح کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو اس پر صوم کا اہتمام ضروری ہے، کیونکہ روزہ اس کے لیے ڈھال ہے ۔   
حدیث نمبر: 1081  حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ الزُّبَيْرِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ شَبَابٌ لَا نَقْدِرُ عَلَى شَيْءٍ، فَقَالَ:  يَا مَعْشَرَ الشَّبَابِ، عَلَيْكُمْ بِالْبَاءَةِ فَإِنَّهُ أَغَضُّ لِلْبَصَرِ وَأَحْصَنُ لِلْفَرْجِ، فَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ مِنْكُمُ الْبَاءَةَ فَعَلَيْهِ بِالصَّوْمِ، فَإِنَّ الصَّوْمَ لَهُ وِجَاءٌ . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، 

তাহকীক:
হাদীস নং: ১০৮২
نکاح کا بیان
ترک نکاح کی ممانعت
 سمرہ (رض) کہتے ہیں کہ  نبی اکرم  ﷺ  نے بےشادی زندگی گزارنے سے منع فرمایا ہے  ١ ؎۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١- زید بن اخزم نے اپنی حدیث میں اتنا اضافہ کیا ہے کہ قتادہ نے یہ آیت کریمہ : «ولقد أرسلنا رسلا من قبلک وجعلنا لهم أزواجا وذرية»  ٢ ؎  ہم آپ سے پہلے کئی رسول بھیج چکے ہیں، ہم نے انہیں بیویاں عطا کیں اور اولادیں  پڑھی  ٣ ؎۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١- سمرہ (رض) کی حدیث حسن غریب ہے،  ٢- اشعث بن عبدالملک نے یہ حدیث بطریق : «الحسن عن سعد بن هشام عن عائشة عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» اسی طرح روایت کی ہے،  ٣- کہا جاتا ہے کہ یہ دونوں ہی حدیثیں صحیح ہیں،  ٤- اس باب میں سعد، انس بن مالک، عائشہ اور ابن عباس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔    تخریج دارالدعوہ :  سنن النسائی/النکاح ٤ (٣٢١٦) سنن ابن ماجہ/النکاح ٢ (١٨٤٩) (تحفة الأشراف : ٤٥٩٠) مسند احمد (٥/١٧) (صحیح)    وضاحت :  ١ ؎ : «تبتل» کے معنی عورتوں سے الگ رہنے ، نکاح نہ کرنے اور ازدواجی تعلق سے کنارہ کش رہنے کے ہیں۔  ٢ ؎ : الرعد : ٣٨۔  ٣ ؎ : آیت میں «ازواجاً» سے رہبانیت اور «ذریّۃ» سے خاندانی منصوبہ بندی  ( فیملی پلاننگ  )  کی تردید ہوتی ہے۔    قال الشيخ الألباني :  صحيح بما قبله (1081)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1082  
حدیث نمبر: 1082  حَدَّثَنَا أَبُو هِشَامٍ الرِّفَاعِيُّ، وَزَيْدُ بْنُ أَخْزَمَ الطَّائِيُّ، وإسحاق بن إبراهيم البصري، قَالُوا: حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ، عَنْأَبِيهِ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ سَمُرَةَ،  أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنِ التَّبَتُّلِ . قَالَ أَبُو عِيسَى: وَزَادَ زَيْدُ بْنُ أَخْزَمَ فِي حَدِيثِهِ، وَقَرَأَ قَتَادَةُ: وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلا مِنْ قَبْلِكَ وَجَعَلْنَا لَهُمْ أَزْوَاجًا وَذُرِّيَّةً سورة الرعد آية 38. قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ سَعْدٍ، وَأَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، وَعَائِشَةَ، وَابْنِ عَبَّاسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ سَمُرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَرَوَى الْأَشْعَثُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ سَعْدِ بْنِ هِشَامٍ، عَنْ عَائِشَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ، وَيُقَالُ: كِلَا الْحَدِيثَيْنِ صَحِيحٌ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ১০৮৩
نکاح کا بیان
ترک نکاح کی ممانعت
 سعد بن ابی وقاص (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے عثمان بن مظعون کو بغیر شادی کے زندگی گزارنے کی اجازت نہیں دی، اگر آپ انہیں اس کی اجازت دے دیتے تو ہم خصی ہوجاتے  ١ ؎۔    امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔    تخریج دارالدعوہ :  صحیح البخاری/النکاح ٨ (٥٠٧٣) ، صحیح مسلم/النکاح ١ (١٤٠٢) ، سنن النسائی/النکاح ٤ (٣٢١٤) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ٢ (١٨٤٨) ،  ( تحفة الأشراف : ٣٨٥٦) ، مسند احمد (١/١٧٥، ١٧٦، ١٨٣) ، سنن الدارمی/النکاح ٣ (٢٢١٣) (صحیح)    وضاحت :  ١ ؎ : یعنی ہم اپنے آپ کو ایسا کرلیتے کہ ہمیں عورتوں کی خواہش رہ ہی نہیں جاتی تاکہ شادی بیاہ کے مراسم سے الگ تھلگ رہ کر ہم صرف اللہ کی عبادت میں مشغول رہ سکیں۔    قال الشيخ الألباني :  صحيح    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1083
حدیث نمبر: 1083  حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ، قَالُوا: أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، قَالَ:  رَدَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى عُثْمَانَ بْنِ مَظْعُونٍ التَّبَتُّلَ، وَلَوْ أَذِنَ لَهُ لَاخْتَصَيْنَا . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ১০৮৪
نکاح کا بیان
جس کی دینداری پسند کرو اس سے نکاح کرو۔
 ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا :  جب تمہیں کوئی ایسا شخص شادی کا پیغام دے، جس کی دین داری اور اخلاق سے تمہیں اطمینان ہو تو اس سے شادی کر دو ۔ اگر ایسا نہیں کرو گے تو زمین میں فتنہ اور فساد عظیم برپا ہوگا ۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١- ابوہریرہ (رض) کی اس روایت میں عبدالحمید بن سلیمان کی مخالفت کی گئی ہے، اسے لیث بن سعد نے بطریق : «ابن عجلان عن أبي هريرة عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» مرسلاً  (من قطعاً )  روایت کی ہے  (یعنی : ابن وشیمہ کا ذکر نہیں کیا ہے) ،  ٢- محمد بن اسماعیل بخاری کا کہنا ہے کہ لیث کی حدیث اشبہ  (قریب تر)  ہے، انہوں  (بخاری)  نے عبدالحمید کی حدیث کو محفوظ شمار نہیں کیا،  ٣- اس باب میں ابوحاتم مزنی اور عائشہ (رض) سے احادیث آئی ہیں۔    تخریج دارالدعوہ :  سنن ابن ماجہ/النکاح ٤٦ (١٩٦٧) (حسن صحیح) (سند میں عبدالحمید بن سلیمان میں کچھ کلام ہے، لیکن متابعات وشواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے، دیکھئے الإ رواء رقم : ١٨٦٨، الصحیحة ١٠٢٢)    قال الشيخ الألباني :  حسن، الإرواء (1668) ، الصحيحة (1022)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1084  
حدیث نمبر: 1084  حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ ابْنِ عَجْلَانَ، عَنْ ابْنِ وَثِيمَةَ النَّصْرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:  إِذَا خَطَبَ إِلَيْكُمْ مَنْ تَرْضَوْنَ دِينَهُ وَخُلُقَهُ فَزَوِّجُوهُ، إِلَّا تَفْعَلُوا تَكُنْ فِتْنَةٌ فِي الْأَرْضِ وَفَسَادٌ عَرِيضٌ . قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ أَبِي حَاتِمٍ الْمُزَنِيِّ، وَعَائِشَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ قَدْ خُولِفَ عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنُ سُلَيْمَانَ فِي هَذَا الْحَدِيثِ، وَرَوَاهُ اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ ابْنِ عَجْلَانَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُرْسَلًا. قَالَ أَبُو عِيسَى: قَالَ مُحَمَّدٌ: وَحَدِيثُ اللَّيْثِ أَشْبَهُ، وَلَمْ يَعُدَّ حَدِيثَ عَبْدِ الْحَمِيدِ مَحْفُوظًا.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ১০৮৫
نکاح کا بیان
جس کی دینداری پسند کرو اس سے نکاح کرو۔
 ابوحاتم مزنی (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا :  تمہارے پاس جب کوئی ایسا شخص  (نکاح کا پیغام لے کر)  آئے، جس کی دین داری اور اخلاق سے تم مطمئن ہو تو اس سے نکاح کر دو ۔ اگر ایسا نہیں کرو گے تو زمین میں فتنہ اور فساد برپا ہوگا  ١ ؎ لوگوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! اگر اس میں کچھ ہو ؟ آپ نے تین بار یہی فرمایا :  جب تمہارے پاس کوئی ایسا شخص آئے جس کی دین داری اور اخلاق سے تم مطمئن ہو تو اس سے نکاح کر دو  ٢ ؎۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١- یہ حدیث حسن غریب ہے،  ٢- ابوحاتم مزنی کو شرف صحبت حاصل ہے، ہم اس کے علاوہ ان کی کوئی حدیث نہیں جانتے جو انہوں نے نبی اکرم  ﷺ  سے روایت کی ہو۔    تخریج دارالدعوہ :  سنن ابی داود/ المراسل (حسن) (شواہد کی بنا پر یہ حدیث حسن ہے، ورنہ اس کے رواة ” محمد “ اور ” سعید “ دونوں مجہول ہیں، دیکھئے : اوپر کی حدیث ابی ہریرہ)    وضاحت :  ١ ؎ : مطلب یہ ہے کہ اگر تم صرف مال یا جاہ والے شخص ہی سے شادی کرو گے تو بہت سے مرد بغیر بیوی کے اور بہت سی عورتیں بغیر شوہر کے رہ جائیں گی جس سے زنا اور حرام کاری عام ہوگی اور ولی کو عار و ندامت کا سامنا کرنا ہوگا جو فتنہ و فساد کے بھڑکنے کا باعث ہوگا۔    قال الشيخ الألباني :  حسن بما قبله (1084)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1085
حدیث نمبر: 1085  حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو السَّوَّاقُ الْبَلْخِيُّ، حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيل، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُسْلِمِ بْنِ هُرْمُزَ، عَنْ مُحَمَّدٍ،وَسَعِيدٍ ابني عبيد، عَنْ أَبِي حَاتِمٍ الْمُزَنِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:  إِذَا جَاءَكُمْ مَنْ تَرْضَوْنَ دِينَهُ وَخُلُقَهُ فَأَنْكِحُوهُ، إِلَّا تَفْعَلُوا تَكُنْ فِتْنَةٌ فِي الْأَرْضِ وَفَسَادٌ . قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ وَإِنْ كَانَ فِيهِ، قَالَ:  إِذَا جَاءَكُمْ مَنْ تَرْضَوْنَ دِينَهُ وَخُلُقَهُ فَأَنْكِحُوهُ  ثَلَاثَ مَرَّاتٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَأَبُو حَاتِمٍ الْمُزَنِيُّ لَهُ صُحْبَةٌ، وَلَا نَعْرِفُ لَهُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَيْرَ هَذَا الْحَدِيثِ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ১০৮৬
نکاح کا بیان
لوگ تین چیزیں دیکھ کر نکاح کرتے ہیں
 جابر (رض) سے روایت ہے کہ  نبی اکرم  ﷺ  نے فرمایا :  عورت سے نکاح اس کی دین داری، اس کے مال اور اس کی خوبصورتی کی وجہ سے کیا جاتا ہے  ١ ؎ لیکن تو دیندار  (عورت)  سے نکاح کو لازم پکڑ لو  ٢ ؎ تمہارے دونوں ہاتھ خاک آلود ہوں   ٣ ؎۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١- جابر کی حدیث حسن صحیح ہے،  ٢- اس باب میں عوف بن مالک، ام المؤمنین عائشہ (رض)، عبداللہ بن عمرو، اور ابو سعید خدری (رض) سے احادیث آئی ہیں۔    تخریج دارالدعوہ :  تفرد بہ المؤلف، وانظر : سنن الدارمی/النکاح ٤ (٢٢١٧) (تحفة الأشراف : ٢٤٤٤) (صحیح) وأخرجہ کل من : صحیح مسلم/الرضاع ١٥ (٧١٥/٥٤) ، سنن النسائی/النکاح ١٠ (٣٢٢٨) ، مسند احمد (٣/٣٠٢) بتغیر یسیر فی السیاق۔    وضاحت :  ١ ؎ : بخاری و مسلم کی روایت میں چار چیزوں کا ذکر ہے ، چوتھی چیز اس کا حسب نسب اور خاندانی شرافت ہے۔  ٢ ؎ : یہ حکم اس لیے دیا گیا ہے کہ دیندار عورت ہی صحیح معنوں میں نیک چلن ، شوہر کی اطاعت گزار اور وفادار ہوتی ہے جس سے انسان کی معاشرتی زندگی میں خوش گواری آتی ہے اور اس کی گود میں جو نسل پروان چڑھتی وہ بھی صالح اور دیندار ہوتی ہے ، اس کے برعکس باقی تین قسم کی عورتیں عموماً انسان کے لیے زحمت اور اولاد کے لیے بھی بگاڑ کا باعث ہوتی ہیں۔  ٣ ؎: یہاں بد دعا مراد نہیں بلکہ شادی کے لیے جدوجہد اور سعی و کوشش پر ابھارنا مقصود ہے۔    قال الشيخ الألباني :  صحيح، ابن ماجة (1858)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1086
حدیث نمبر: 1086  حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ مُوسَى، أَخْبَرَنَا إِسْحَاق بْنُ يُوسُفَ الْأَزْرَقُ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ، عَنْعَطَاءٍ، عَنْ جَابِرٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:  إِنَّ الْمَرْأَةَ تُنْكَحُ عَلَى دِينِهَا، وَمَالِهَا، وَجَمَالِهَا، فَعَلَيْكَ بِذَاتِ الدِّينِ تَرِبَتْ يَدَاكَ . قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ، وَعَائِشَةَ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، وَأَبِي سَعِيدٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ جَابِرٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ১০৮৭
نکاح کا بیان
جس عورت سے پیغام نکاح کرے اس کو دیکھ لینا
 مغیرہ بن شعبہ (رض) کہتے ہیں کہ  انہوں نے ایک عورت کے پاس نکاح کا پیغام بھیجا، تو نبی اکرم  ﷺ  نے فرمایا :  تم اسے دیکھ لو   ١ ؎۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١- یہ حدیث حسن ہے،  ٢- اس باب میں محمد بن مسلمہ، جابر، ابوحمید اور ابوہریرہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں،  ٣- بعض اہل علم اسی حدیث کی طرف گئے ہیں، وہ کہتے ہیں : اسے دیکھنے میں کوئی حرج نہیں جب وہ اس کی کوئی ایسی چیز نہ دیکھے جس کا دیکھنا حرام ہے۔ یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے،  ٤- اور «أحری أن يؤدم بينكما» کے معنی یہ ہیں کہ یہ تم دونوں کے درمیان محبت پیدا کرنے کے لیے زیادہ موزوں ہے۔    تخریج دارالدعوہ :  سنن النسائی/النکاح ١٧ (٢٢٣٧) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ٩ (١٨٦٦) ، (بزیادة في السیاق)  ( تحفة الأشراف : ١١٤٨٩) ، مسند احمد (٤/٢٤٥، ٢٤٦) ، سنن الدارمی/النکاح ٥ (٢٢١٨) (صحیح)    وضاحت :  ١ ؎ : جمہور کے نزدیک یہ حکم مستحب ہے واجب نہیں ، اگر کوئی کسی قابل اعتماد رشتہ دار عورت کو بھیج کر عورت کے رنگ و روپ اور عادات وخصائل کا پتہ لگالے تو یہ بھی ٹھیک ہے جیسا کہ رسول اللہ  ﷺ  نے ام سلیم (رض) کو بھیج کر ایک عورت کے متعلق معلومات حاصل کی تھی۔    قال الشيخ الألباني :  صحيح، ابن ماجة (1865)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1087
حدیث نمبر: 1087  حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي زَائِدَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَاصِمُ بْنُ سُلَيْمَانَ هُوَ: الْأَحْوَلُ، عَنْ بَكْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْمُزَنِيِّ، عَنْ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، أَنَّهُ خَطَبَ امْرَأَةً، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:  انْظُرْ إِلَيْهَا فَإِنَّهُ أَحْرَى أَنْ يُؤْدَمَ بَيْنَكُمَا . وَفِي الْبَاب: عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مَسْلَمَةَ، وَجَابِرٍ، وَأَبِي حُمَيْدٍ، وَأَنَسٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَقَدْ ذَهَبَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ إِلَى هَذَا الْحَدِيثِ، وَقَالُوا: لَا بَأْسَ أَنْ يَنْظُرَ إِلَيْهَا مَا لَمْ يَرَ مِنْهَا مُحَرَّمًا، وَهُوَ قَوْلُ: أَحْمَدَ، وَإِسْحَاق، وَمَعْنَى قَوْلِهِ أَحْرَى: أَنْ يُؤْدَمَ بَيْنَكُمَا، قَالَ: أَحْرَى أَنْ تَدُومَ الْمَوَدَّةُ بَيْنَكُمَا.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ১০৮৮
نکاح کا بیان
نکاح کا اعلان کرنا
 محمد بن حاطب جمحی (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا :  حرام اور حلال  (نکاح)  کے درمیان فرق صرف دف بجانے اور اعلان کرنے کا ہے   ١ ؎۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١- محمد بن حاطب کی حدیث حسن ہے،  ٢- محمد بن حاطب نے رسول اللہ  ﷺ  کو دیکھا ہے، لیکن وہ کم سن بچے تھے،  ٣- اس باب میں ام المؤمنین عائشہ (رض)، جابر اور ربیع بنت معوذ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔    تخریج دارالدعوہ :  سنن النسائی/النکاح ٧٢ (٣٣٧٢) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ٢٠ (١٨٩٦) ،  ( تحفة الأشراف : ١١٢٢١) ، مسند احمد (٣/٤١٨) (حسن)    وضاحت :  ١ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نکاح اعلانیہ کیا جانا چاہیئے ، خفیہ طور پر چوری چھپے نہیں ، اس لیے کہ اعلانیہ نکاح کرنے پر کسی کو میاں بیوی کے تعلقات پر انگلی اٹھانے کا موقع نہیں ملتا۔ عموماً یہی دیکھنے میں آتا ہے کہ غلط نکاح ہی چھپ کر کیا جاتا ہے۔    قال الشيخ الألباني :  حسن، ابن ماجة (1896)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1088
حدیث نمبر: 1088  حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا أَبُو بَلْجٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ حَاطِبٍ الْجُمَحِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:  فَصْلُ مَا بَيْنَ الْحَرَامِ وَالْحَلَالِ الدُّفُّ وَالصَّوْتُ . قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ عَائِشَةَ، وَجَابِرٍ، وَالرُّبَيِّعِ بِنْتِ مُعَوِّذٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ مُحَمَّدِ بْنِ حَاطِبٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَأَبُو بَلْجٍ اسْمُهُ: يَحْيَى بْنُ أَبِي سُلَيْمٍ وَيُقَالُ: ابْنُ سُلَيْمٍ أَيْضًا، وَمُحَمَّدُ بْنُ حَاطِبٍ قَدْ رَأَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ غُلَامٌ صَغِيرٌ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ১০৮৯
نکاح کا بیان
نکاح کا اعلان کرنا
 ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا :  اس نکاح کا اعلان کرو، اسے مسجدوں میں کرو اور اس پر دف بجاؤ۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١- اس باب میں یہ حدیث غریب حسن ہے،  ٢- عیسیٰ بن میمون انصاری حدیث میں ضعیف قرار دیے جاتے ہیں،  ٣- عیسیٰ بن میمون جو ابن ابی نجیح سے تفسیر روایت کرتے ہیں، ثقہ ہیں۔    تخریج دارالدعوہ :  تفرد بہ المؤلف،  ( تحفة الأشراف : ١٧٥٤٧) (ضعیف) (سند میں عیسیٰ بن میمون ضعیف ہیں مگر اعلان والا ٹکڑا شواہد کی بنا پر صحیح ہے)    قال الشيخ الألباني :  ضعيف إلا الإعلان، ابن ماجة (1895) // ضعيف ابن ماجة (416) ، صحيح ابن ماجة (1537) ، الإرواء (1993) ، آداب الزفاف الصفحة (111) الطبعة المزيدة والمهذبة، طبع المکتب الإسلامي، ضعيف الجامع الصغير (966) //   صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1089
حدیث نمبر: 1089  حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ مَيْمُونٍ الْأَنْصَارِيُّ، عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْعَائِشَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:  أَعْلِنُوا هَذَا النِّكَاحَ وَاجْعَلُوهُ فِي الْمَسَاجِدِ وَاضْرِبُوا عَلَيْهِ بِالدُّفُوفِ . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ حَسَنٌ فِي هَذَا الْبَابِ، وَعِيسَى بْنُ مَيْمُونٍ الْأَنْصَارِيُّ يُضَعَّفُ فِي الْحَدِيثِ، وَعِيسَى بْنُ مَيْمُونٍ الَّذِي يَرْوِي عَنْ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ التَّفْسِيرَ هُوَ ثِقَةٌ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ১০৯০
نکاح کا بیان
نکاح کا اعلان کرنا
 ربیع بنت معوذ (رض) کہتی ہیں کہ  جس رات میری شادی اس کی صبح رسول اللہ  ﷺ  میرے ہاں تشریف لائے۔ آپ میرے بستر پر ایسے ہی بیٹھے، جیسے تم  (خالد بن ذکوان)  میرے پاس بیٹھے ہو۔ اور چھوٹی چھوٹی بچیاں دف بجا رہی تھیں اور جو ہمارے باپ دادا میں سے جنگ بدر میں شہید ہوئے تھے ان کا مرثیہ گا رہی تھیں، یہاں تک کہ ان میں سے ایک نے کہا : ہمارے درمیان ایک نبی ہے جو ان چیزوں کو جانتا ہے جو کل ہوں گی، تو رسول اللہ  ﷺ  نے اس سے فرمایا :  یہ نہ کہہ۔ وہی کہہ جو پہلے کہہ رہی تھی ۔    امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔    تخریج دارالدعوہ :  صحیح البخاری/المغازي ١٢ (٤٠٠١١) ، سنن ابی داود/ الأدب ٥٩ (٤٩٢٢) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ٢١ (١٨٩٧) ،  ( تحفة الأشراف : ١٥٨٣٢) ، مسند احمد (٨/٣٥٩، ٣٦٠) (صحیح)    قال الشيخ الألباني :  صحيح الآداب (94)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1090
حدیث نمبر: 1090  حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ ذَكْوَانَ، عَنْ الرُّبَيِّعِ بِنْتِ مُعَوِّذٍ، قَالَتْ: جَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَدَخَلَ عَلَيَّ غَدَاةَ بُنِيَ بِي، فَجَلَسَ عَلَى فِرَاشِي كَمَجْلِسِكَ مِنِّي، وَجُوَيْرِيَاتٌ لَنَا يَضْرِبْنَ بِدُفُوفِهِنَّ وَيَنْدُبْنَ مَنْ قُتِلَ مِنْ آبَائِي يَوْمَ بَدْرٍ، إِلَى أَنْ قَالَتْ إِحْدَاهُنَّ: وَفِينَا نَبِيٌّ يَعْلَمُ مَا فِي غَدٍ، فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:  اسْكُتِي عَنْ هَذِهِ وَقُولِي الَّذِي كُنْتِ تَقُولِينَ قَبْلَهَا . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.

তাহকীক:
হাদীস নং: ১০৯১
نکاح کا بیان
نکاح کرنے والے کو کیا کہا جائے۔
 ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ  نبی اکرم  ﷺ  شادی کرنے پر جب کسی کو مبارک باد دیتے تو فرماتے : «بارک اللہ لک وبارک عليك وجمع بينكما في الخير»  اللہ تجھے برکت عطا کرے، اور تجھ پر برکت نازل فرمائے اور تم دونوں کو خیر پر جمع کرے ۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١- ابوہریرہ (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے،  ٢- اس باب میں علی (رض) سے بھی روایت ہے۔    تخریج دارالدعوہ :  سنن ابی داود/ النکاح ٣٧ (٢١٣٠) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ٢٣ (١٩٠٥) ،  ( تحفة الأشراف  :  ١٢٦٩٨) ، مسند احمد (٢/٣٨١) ، سنن الدارمی/النکاح ٦ (٢٢١٩) (صحیح)    قال الشيخ الألباني :  صحيح، ابن ماجة (2905)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1091
حدیث نمبر: 1091  حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا رَفَّأَ الْإِنْسَانَ إِذَا تَزَوَّجَ، قَالَ:  بَارَكَ اللَّهُ لَكَ وَبَارَكَ عَلَيْكَ وَجَمَعَ بَيْنَكُمَا فِي الْخَيْرِ . قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ عَقِيلِ بْنِ أَبِي طَالِبٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.

তাহকীক:
হাদীস নং: ১০৯২
نکاح کا بیان
جب بیوی کے پاس جائے تو کیا کہے۔
 عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ  نبی اکرم  ﷺ  نے فرمایا :  اگر تم میں سے کوئی اپنی بیوی کے پاس آئے یعنی اس سے صحبت کرنے کا ارادہ کرے اور یہ دعا پڑھے : «بسم اللہ اللهم جنبنا الشيطان وجنب الشيطان ما رزقتنا»  اللہ کے نام سے، اے اللہ ! تو ہمیں شیطان سے محفوظ رکھ اور اسے بھی شیطان سے محفوظ رکھ جو تو ہمیں عطا کرے یعنی ہماری اولاد کو ، تو اگر اللہ نے ان کے درمیان اولاد دینے کا فیصلہ کیا ہوگا تو شیطان اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا ۔    امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔    تخریج دارالدعوہ :  صحیح البخاری/الوضوء ٨ (١٤١) ، وبدء الخلق ١١ (٣٢٨٣) ، والنکاح ٦٦ (٥١٦١) ، والدعوات ٥٥ (٦٣٨٨) ، والتوحید ١٣ (٧٣٩٦) ، صحیح مسلم/النکاح ١٨ (١٤٣٤) ، سنن ابی داود/ النکاح ٤٦ (٢١٦١) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ٢٧ (١٩١٩) ،  ( تحفة الأشراف : ٦٣٤٩) ، مسند احمد ١ (٣٢٠، ٢٤٣، ٢٨٣، ٢٨٦) ، سنن الدارمی/النکاح ٢٩ (٢٢٥٨) (صحیح)    قال الشيخ الألباني :  صحيح، ابن ماجة (1919)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1092
حدیث نمبر: 1092  حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ، عَنْ كُرَيْبٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:  لَوْ أَنَّ أَحَدَكُمْ إِذَا أَتَى أَهْلَهُ، قَالَ: بِسْمِ اللَّهِ اللَّهُمَّ جَنِّبْنَا الشَّيْطَانَ وَجَنِّبْ الشَّيْطَانَ مَا رَزَقْتَنَا، فَإِنْ قَضَى اللَّهُ بَيْنَهُمَا وَلَدًا لَمْ يَضُرَّهُ الشَّيْطَانُ . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.

তাহকীক:
হাদীস নং: ১০৯৩
نکاح کا بیان
وہ اوقات جن میں نکاح کرنا مستحب ہے۔
 ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے شوال میں مجھ سے شادی کی اور شوال ہی میں میرے ساتھ آپ نے شب زفاف منائی، عائشہ (رض) اپنے خاندان کی عورتوں کی رخصتی شوال میں کی جانے کو مستحب سمجھتی تھیں۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے،  ٢- اسے ہم صرف ثوری کی روایت سے جانتے ہیں، اور ثوری اسماعیل بن امیہ سے روایت کرتے ہیں۔    تخریج دارالدعوہ :  صحیح مسلم/النکاح ١١ (١٤٢٣) ، سنن النسائی/النکاح ١٨ (٣٢٣٨) ، و ٧٧ (٣٣٧٩) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ٥٣ (١٩٩٠) ،  ( تحفة الأشراف : ١٦٣٥٥) ، مسند احمد (٦/٥٤، ٢٠٦) ، سنن الدارمی/النکاح ٢٨ (٢٢٥٧) (صحیح)    قال الشيخ الألباني :  صحيح، ابن ماجة (1990)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1093
حدیث نمبر: 1093  حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ أُمَيَّةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْعُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ:  تَزَوَّجَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي شَوَّالٍ، وَبَنَى بِي فِي شَوَّالٍ . وَكَانَتْ عَائِشَةُ تَسْتَحِبُّ أَنْ يُبْنَى بِنِسَائِهَا فِي شَوَّالٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ الثَّوْرِيِّ، عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ أُمَيَّةَ.

তাহকীক:
হাদীস নং: ১০৯৪
نکاح کا بیان
ولیمہ
 انس (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے عبدالرحمٰن بن عوف کے جسم پر زردی کا نشان دیکھا تو پوچھا : یہ کیا ہے ؟ انہوں نے عرض کیا : میں نے ایک عورت سے کھجور کی ایک گٹھلی سونے کے عوض شادی کرلی ہے، آپ نے فرمایا :  اللہ تمہیں برکت عطا کرے، ولیمہ  ١ ؎ کرو خواہ ایک ہی بکری کا ہو   ٢ ؎۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١- انس کی حدیث حسن صحیح ہے،  ٢- اس باب میں ابن مسعود، عائشہ، جابر اور زہیر بن عثمان (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں،  ٣- احمد بن حنبل کہتے ہیں : گٹھلی بھر سونے کا وزن تین درہم اور تہائی درہم وزن کے برابر ہوتا ہے،  ٤- اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں : پانچ درہم اور تہائی درہم کے وزن کے برابر ہوتا ہے۔    تخریج دارالدعوہ :  صحیح البخاری/النکاح ٥٦ (٥١٥٥) ، والدعوات ٥٣ (٦٣٨٦) ، صحیح مسلم/النکاح ٣ (١٤٢٧) ، سنن النسائی/النکاح ٧٤ (٣٣٧٤، ٣٣٧٥) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ٢٤ (١٩٠٧) ،  ( تحفة الأشراف : ٢٨٨) ، سنن الدارمی/النکاح ٢٢ (٢٢٥٠) (صحیح) وأخرجہ کل من : صحیح البخاری/البیوع ١ (٢٠٤٩) ، ومناقب الأنصار ٣ (٣٧٨١) ، والنکاح ٤٩ (٥١٣٨) ، و ٥٤ (٥١٥٣) ، و ٦٨ (٥١٦٨) ، والأدب ٦٧ (٦٠٨٢) ، صحیح مسلم/النکاح (المصدر المذکور) ، سنن ابی داود/ النکاح ٣٠ (٢١٩٠) ، مسند احمد (٣/١٦٥، ١٩٠، ٢٠٥، ٢٧١) ، سنن الدارمی/الأطعمة ٢٨ (٢١٠٨) من غیر ہذا الوجہ۔    وضاحت :  ١ ؎ : «أولم ولو بشأة» میں «لو» تقلیل کے لیے آیا ہے یعنی کم از کم ایک بکری ذبح کرو ، لیکن نبی اکرم  ﷺ  نے صفیہ کے ولیمہ میں صرف ستو اور کھجور پر اکتفا کیا ، اس لیے مستحب یہ ہے کہ ولیمہ شوہر کی مالی حیثیت کے حسب حال ہو ، عبدالرحمٰن بن عوف (رض) کی مالی حالت کے پیش نظر ایک بکری کا ولیمہ کم تھا اسی لیے آپ نے ان سے «أولم ولو بشأة» فرمایا۔  ٢ ؎ : شادی بیاہ کے موقع پر جو کھانا کھلایا جاتا ہے اسے ولیمہ کہتے ہیں ، یہ «ولم» (واؤ کے فتحہ اور لام کے سکون کے ساتھ  )  سے مشتق ہے جس کے معنی اکٹھا اور جمع ہونے کے ہیں ، چونکہ میاں بیوی اکٹھا ہوتے ہیں اس لیے اس کو ولیمہ کہتے ہیں ، ولیمہ کا صحیح وقت خلوت صحیحہ کے بعد ہے جمہور کے نزدیک ولیمہ سنت ہے اور بعض نے اسے واجب کہا ہے۔    قال الشيخ الألباني :  صحيح، ابن ماجة (1907)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1094
حدیث نمبر: 1094  حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى عَلَى عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ أَثَرَ صُفْرَةٍ، فَقَالَ:  مَا هَذَا ؟  فَقَالَ: إِنِّي تَزَوَّجْتُ امْرَأَةً عَلَى وَزْنِ نَوَاةٍ مِنْ ذَهَبٍ، فَقَالَ:  بَارَكَ اللَّهُ لَكَ، أَوْلِمْ وَلَوْ بِشَاةٍ . قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ، وَعَائِشَةَ، وَجَابِرٍ، وَزُهَيْرِ بْنِ عُثْمَانَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَنَسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وقَالَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ: وَزْنُ نَوَاةٍ مِنْ ذَهَبٍ: وَزْنُ ثَلَاثَةِ دَرَاهِمَ وَثُلُثٍ، وقَالَ إِسْحَاق: هُوَ وَزْنُ خَمْسَةِ دَرَاهِمَ وَثُلُثٍ.

তাহকীক:
হাদীস নং: ১০৯৫
نکاح کا بیان
ولیمہ
 انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ  نبی اکرم  ﷺ  نے صفیہ بنت حیی کا ولیمہ ستو اور کھجور سے کیا۔    امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے۔    تخریج دارالدعوہ :  سنن ابی داود/ الأطعمة ٢ (٣٧٤٤) ، سنن النسائی/النکاح ٧٩ (٣٣٨٧) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ٢٤ (١٩٠٩) ،  ( تحفة الأشراف : ١٤٨٢) (صحیح) وأخرجہ کل من : صحیح مسلم/النکاح ١٤ والجہاد ٤٣ (١٣٦٥) ، من غیر ہذا الوجہ وفي سیاق طویل۔    قال الشيخ الألباني :  صحيح، ابن ماجة (1909)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1095
حدیث نمبر: 1095  حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ وَائِلِ بْنِ دَاوُدَ، عَنْ ابْنِهِ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ،  أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْلَمَ عَلَى صَفِيَّةَ بِنْتِ حُيَيٍّ بِسَوِيقٍ وَتَمْرٍ . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.

তাহকীক:
হাদীস নং: ১০৯৬
نکاح کا بیان
ولیمہ
 اس سند سے بھی  سفیان سے اسی طرح مروی ہے، اور کئی لوگوں نے یہ حدیث بطریق : «ابن عيينة، عن الزهري، عن أنس» روایت کی ہے لیکن ان لوگوں نے اس میں وائل بن داود اور ان کے بیٹے کے واسطوں کا ذکر نہیں کیا ہے۔    امام ترمذی کہتے ہیں : سفیان بن عیینہ اس حدیث میں تدلیس کرتے تھے۔ کبھی انہوں نے اس میں «وائل بن داود عن ابنہ» کا ذکر نہیں کیا ہے اور کبھی اس کا ذکر کیا ہے۔    تخریج دارالدعوہ :  انظر ما قبلہ (صحیح)    قال الشيخ الألباني : **   صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1096
حدیث نمبر: 1096  حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، عَنْ سُفْيَانَ نَحْوَ هَذَا، وَقَدْ رَوَى غَيْرُ وَاحِدٍ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ ابْنِ عُيَيْنَةَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَنَسٍ وَلَمْ يَذْكُرُوا فِيهِ عَنْ وَائِلٍ، عَنِ ابْنِهِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَكَانَ سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ يُدَلِّسُ فِي هَذَا الْحَدِيثِ، فَرُبَّمَا لَمْ يَذْكُرْ فِيهِ عَنْ وَائِلٍ، عَنِ ابْنِهِ وَرُبَّمَا ذَكَرَهُ.

তাহকীক:
হাদীস নং: ১০৯৭
نکاح کا بیان
ولیمہ
 ابن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا :  پہلے روز کا کھانا حق ہے، دوسرے روز کا کھانا سنت ہے۔ اور تیسرے روز کا کھانا تو محض دکھاوا اور نمائش ہے اور جو ریاکاری کرے گا اللہ اسے اس کی ریاکاری کی سزا دے گا  ٢ ؎۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١- ابن مسعود کی حدیث کو ہم صرف زیاد بن عبداللہ کی روایت سے مرفوع جانتے ہیں۔ اور زیاد بن عبداللہ بہت زیادہ غریب اور منکر احادیث بیان کرتے ہیں،  ٢- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو سنا کہ وہ محمد بن عقبہ سے نقل کر رہے تھے کہ وکیع کہتے ہیں : زیاد بن عبداللہ اس بات سے بہت بلند ہیں کہ وہ حدیث میں جھوٹ بولیں۔    تخریج دارالدعوہ :  تفرد بہ الؤلف  ( تحفة الأشراف : ٩٣٢٩) (ضعیف) (اس کے راوی زیاد بن عبداللہ بکائی میں ضعف ہے، مؤلف نے اس کی صراحت کر سنن الدارمی/ ہے، لیکن آخری ٹکڑے کے صحیح شواہد موجود ہیں جن میں سے بعض صحیحین میں ہیں)    وضاحت :  ١ ؎ : ترمذی کے نسخوں میں یہاں پر عبارت یوں ہے : «مع شرفه يكذب» جس کا مطلب یہ ہے کہ وکیع نے ان پر سخت جرح کی ہے ، اور ان کی شرافت کے اعتراف کے ساتھ ان کے بارے میں یہ صراحت کردی ہے کہ وہ حدیث میں جھوٹ بولتے ہیں ، اور یہ بالکل غلط اور وکیع کے قول کے برعکس ہے ، التاریخ الکبیر للبخاری ٣/الترجمۃ ١٢١٨ اور تہذیب الکمال میں عبارت یوں ہے : «هو أشرف من أن يكذب» نیز حافظ ابن حجر نے تقریب میں لکھا ہے کہ وکیع سے یہ ثابت نہیں ہے کہ انہوں نے زیاد کی تکذیب کی ہے ، ان کی عبارت یہ ہے : «صدوق ثبت في المغازي و في حديثه عن غير ابن إسحاق لين ، ولم يثبت أن وكيعا کذبه ، وله في البخاري موضع واحد متابعة» یعنی زیاد بن عبداللہ عامری بکائی کوفی فن مغازی و سیر میں صدوق اور ثقہ ہیں ، اور محمد بن اسحاق صاحب المغازی کے سوا دوسرے رواۃ سے ان کی حدیث میں کمزوری ہے ، وکیع سے ان کی تکذیب ثابت نہیں ہے ، اور صحیح بخاری میں ان کا ذکر متابعت میں ایک بار آیا ہے۔  ( الفریوائی  )  ٢ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ولیمہ دو دن تک تو درست ہے اور تیسرے دن اس کا اہتمام کرنا دکھاوا اور نمائش کا ذریعہ ہے اور بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ تیسرے دن کی ممانعت اس صورت میں ہے جب کھانے والے وہی لوگ ہوں لیکن اگر ہر روز نئے لوگ مدعو ہوں ، تو کوئی حرج نہیں ، امام بخاری جیسے محدثین کرام تو سات دن تک ولیمہ کے قائل ہیں۔    قال الشيخ الألباني :  ضعيف، ابن ماجة (1915) // ضعيف الجامع الصغير (3616) //   صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1097
حدیث نمبر: 1097  حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُوسَى الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا عَطَاءُ بْنُ السَّائِبِ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْابْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:  طَعَامُ أَوَّلِ يَوْمٍ حَقٌّ، وَطَعَامُ يَوْمِ الثَّانِي سُنَّةٌ، وَطَعَامُ يَوْمِ الثَّالِثِ سُمْعَةٌ، وَمَنْ سَمَّعَ سَمَّعَ اللَّهُ بِهِ . قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ مَسْعُودٍ لَا نَعْرِفُهُ مَرْفُوعًا، إِلَّا مِنْ حَدِيثِ زِيَادِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، وَزِيَادُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ كَثِيرُ الْغَرَائِبِ وَالْمَنَاكِيرِ، قَالَ: وسَمِعْت مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَاعِيل يَذْكُرُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عُقْبَةَ، قَالَ: قَالَ وَكِيعٌ: زِيَادُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ مَعَ شَرَفِهِ يَكْذِبُ فِي الْحَدِيثِ.

তাহকীক:
হাদীস নং: ১০৯৮
نکاح کا بیان
دعوت قبول کرنا
 عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا :  جب تمہیں دعوت دی جائے تو تم دعوت میں آؤ۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١- ابن عمر (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے،  ٢- اس باب میں علی، ابوہریرہ، براء، انس اور ابوایوب (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔    تخریج دارالدعوہ :  صحیح مسلم/النکاح ١٦ (١٤٢٩) ،  ( تحفة الأشراف : ٧٤٩٨) (صحیح) وأخرجہ کل من : صحیح البخاری/النکاح ٧١ (٥١٧٣) ، و ٧٤ (٥١٧٩) ، صحیح مسلم/النکاح (المصدر المذکور) ، سنن ابی داود/ الأطعمة ١ (٣٧٣٦) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ٢٥ (١٩١٤) ، موطا امام مالک/النکاح ٢١ (٤٩) ، سنن الدارمی/الأطعمة ٤٠ (٢١٢٧) ، (٢١٢٧) ، والنکاح ٢٣ (٢٢٥١) ، من غیر ہذا الوجہ۔    قال الشيخ الألباني :  صحيح، ابن ماجة (1914)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1098
حدیث نمبر: 1098  حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ يَحْيَى بْنُ خَلَفٍ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ، عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ أُمَيَّةَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:  ائْتُوا الدَّعْوَةَ إِذَا دُعِيتُمْ . قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ عَلِيٍّ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَالْبَرَاءِ، وَأَنَسٍ، وَأَبِي أَيُّوبَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.

তাহকীক:
হাদীস নং: ১০৯৯
نکاح کا بیان
بن بلائے ولیمہ میں جانا
 ابومسعود (رض) کہتے ہیں کہ  ابوشعیب نامی ایک شخص نے اپنے ایک گوشت فروش لڑکے کے پاس آ کر کہا : تم میرے لیے کھانا بنا جو پانچ آدمیوں کے لیے کافی ہو کیونکہ میں نے رسول اللہ  ﷺ  کے چہرے پر بھوک کا اثر دیکھا ہے، تو اس نے کھانا تیار کیا۔ پھر نبی اکرم  ﷺ  کو بلانے کے لیے آدمی بھیجا۔ تو اس نے آپ کو اور آپ کے ساتھ جو لوگ بیٹھے تھے سب کو کھانے کے لیے بلایا، جب نبی اکرم  ﷺ   (چلنے کے لیے)  اٹھے، تو آپ کے پیچھے ایک اور شخص بھی چلا آیا، جو آپ کے ساتھ اس وقت نہیں تھا جب آپ کو دعوت دی گئی تھی۔ جب رسول اللہ  ﷺ  دروازے پر پہنچے تو آپ نے صاحب خانہ سے فرمایا : ہمارے ساتھ ایک اور شخص ہے جو ہمارے ساتھ اس وقت نہیں تھا، جب تم نے دعوت دی تھی، اگر تم اجازت دو تو وہ بھی اندر آ جائے ؟ ، اس نے کہا : ہم نے اسے بھی اجازت دے دی، وہ بھی اندر آ جائے  ١ ؎۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے،  ٢- اس باب میں ابن عمر سے بھی روایت ہے۔    تخریج دارالدعوہ :  صحیح مسلم/البیوع ٢١ (٢٠٨١) ، والمظالم ١٤ (٢٤٥٦) ، والأطعمة ٣٤ (٥٤٣٤) ، و ٥٧ (٥٤٦١) ، صحیح مسلم/الأشربة والأطعمة ١٩ (٢٠٣٦) ،  ( تحفة الأشراف : ٩٩٩٠) (صحیح)    وضاحت :  ١ ؎ : اس سے معلوم ہوا کہ بغیر دعوت کے کسی کے ساتھ طفیلی بن کر دعوت میں شریک ہونا غیر اخلاقی حرکت ہے ، تاہم اگر صاحب دعوت سے اجازت لے لی جائے تو اس کی گنجائش ہے۔    قال الشيخ الألباني :  صحيح    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1099
حدیث نمبر: 1099  حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ شَقِيقٍ، عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ يُقَالُ لَهُ: أَبُو شُعَيْبٍ، إِلَى غُلَامٍ لَهُ لَحَّامٍ، فَقَالَ: اصْنَعْ لِي طَعَامًا يَكْفِي خَمْسَةً، فَإِنِّي رَأَيْتُ فِي وَجْهِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْجُوعَ، قَالَ: فَصَنَعَ طَعَامًا، ثُمَّ أَرْسَلَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَدَعَاهُ وَجُلَسَاءَهُ الَّذِينَ مَعَهُ، فَلَمَّا قَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اتَّبَعَهُمْ رَجُلٌ لَمْ يَكُنْ مَعَهُمْ حِينَ دُعُوا، فَلَمَّا انْتَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْبَابِ، قَالَ لِصَاحِبِ الْمَنْزِلِ:  إِنَّهُ اتَّبَعَنَا رَجُلٌ لَمْ يَكُنْ مَعَنَا حِينَ دَعَوْتَنَا فَإِنْ أَذِنْتَ لَهُ دَخَلَ ، قَالَ: فَقَدْ أَذِنَّا لَهُ فَلْيَدْخُلْ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ ابْنِ عُمَرَ.

তাহকীক: