আল জামিউল কাবীর- ইমাম তিরমিযী রহঃ (উর্দু)
الجامع الكبير للترمذي
طلاق اور لعان کا بیان - এর পরিচ্ছেদসমূহ
মোট হাদীস ২০ টি
হাদীস নং: ১১৭৫
طلاق اور لعان کا بیان
طلاق سنت
 طلق بن علی (رض) کہتے ہیں کہ  میں نے ابن عمر (رض) سے ایک ایسے شخص کے بارے میں پوچھا جس نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دے دی ہو تو انہوں نے کہا : کیا تم عبداللہ بن عمر کو پہچانتے ہو ؟ انہوں نے بھی اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دے دی تھی، عمر (رض) نے نبی اکرم  ﷺ  سے پوچھا تو آپ نے انہیں  حکم دیا کہ وہ اسے رجوع کرلیں ، یونس بن جبیر کہتے ہیں کہ میں نے پوچھا : کیا یہ طلاق شمار کی جائے گی ؟ کہا : تو اور کیا ہوگی ؟  (یعنی کیوں نہیں شمار کی جائے گی) ، بھلا بتاؤ اگر وہ عاجز ہوجاتا یا دیوانہ ہوجاتا تو واقع ہوتی یا نہیں ؟  ١ ؎۔    تخریج دارالدعوہ :  صحیح البخاری/الطلاق ٢ (٥٢٥٢) ، و ٤٥ (٥٣٣٣) ، صحیح مسلم/الطلاق ١ (١٤٧١) ، سنن ابی داود/ الطلاق ٤ (٢١٨٣، ٢١٨٤) ، سنن النسائی/الطلاق ١ (٣٤١٨) ، و ٧٦ (٣٥٨٥) ، سنن ابن ماجہ/الطلاق ٢ (٢١٠٩) ،  ( تحفة الأشراف : ٨٥٧٣) ، مسند احمد (٢/٤٣، ٥١، ٧٩) (صحیح) و أخرجہ کل من : صحیح البخاری/تفسیر سورة الطلاق ١ (٤٩٠٨) ، والطلاق ١ (٥٢٥١) ، و ٤٤ (٥٣٣٢) ، والأحکام ١٣ (٧١٦٠) ، صحیح مسلم/الطلاق (المصدر المذکور) سنن ابی داود/ الطلاق ٤ (٢١٧٩-٢١٨٢) ، موطا امام مالک/الطلاق ٢١ (٥٣) ، سنن الدارمی/الطلاق ١ (٢٣٠٨) ، من غیر ہذا الوجہ۔    وضاحت :  ١ ؎ : یعنی جب رجعت سے عاجز ہوجانے یا دیوانہ و پاگل ہوجانے کی صورت میں یہ طلاق شمار کی جائے گی تو رجعت کے بعد بھی ضرور شمار کی جائے گی ، اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حیض کی حالت میں دی گئی طلاق واقع ہوجائے گی کیونکہ اگر وہ واقع نہ ہو تو آپ کا «مره فليراجعها» کہنا بےمعنی ہوگا ، جمہور کا یہی مسلک ہے کہ اگرچہ حیض کی حالت میں طلاق دینا حرام ہے لیکن اس سے طلاق واقع ہوجائے گی اور اس سے رجوع کرنے کا حکم دیا جائے گا ، لیکن ظاہر یہ کا مذہب ہے کہ طلاق نہیں ہوتی ، ابن القیم نے زادالمعاد میں اس پر لمبی بحث کی ہے اور ثابت کیا ہے کہ طلاق واقع نہیں ہوگی ، ابوداؤد کی ایک روایت  ( رقم : ٢١٨٥) کے الفاظ ہیں «لم يرها شيئاً» ، محتاط یہی ہے کہ طلاق کے ضمن میں حالت حیض میں ظاہر یہ کے مسلک کو اختیار کیا جائے تاکہ طلاق کھیل نہ بن جائے۔    قال الشيخ الألباني :  صحيح، ابن ماجة (2022)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1175
حدیث نمبر: 1175  حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ يُونُسَ بْنِ جُبَيْرٍ، قَالَ: سَأَلْتُ ابْنَ عُمَرَ، عَنْ رَجُلٍ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ وَهِيَ حَائِضٌ، فَقَالَ: هَلْ تَعْرِفُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ، فَإِنَّهُ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ وَهِيَ حَائِضٌ، فَسَأَلَ عُمَرُ، النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:  فَأَمَرَهُ أَنْ يُرَاجِعَهَا ، قَالَ: قُلْتُ فَيُعْتَدُّ بِتِلْكَ التَّطْلِيقَةِ، قَالَ: فَمَهْ أَرَأَيْتَ إِنْ عَجَزَ وَاسْتَحْمَقَ.

তাহকীক:
হাদীস নং: ১১৭৬
طلاق اور لعان کا بیان
طلاق سنت
 عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ  انہوں نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دے دی، ان کے والد عمر (رض) نے نبی اکرم  ﷺ  سے مسئلہ پوچھا تو آپ نے فرمایا :  اسے حکم دو کہ وہ اس سے رجوع کرلے، پھر طہر یا حمل کی حالت میں طلاق دے ۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١- یونس بن جبیر کی حدیث جسے وہ ابن عمر سے روایت کرتے ہیں، حسن صحیح ہے۔ اور اسی طرح سالم بن عبداللہ کی بھی جسے وہ ابن عمر (رض) سے روایت کرتے ہیں،  ٢- یہ حدیث کئی اور طرق سے بھی ابن عمر (رض) سے مروی ہے اور وہ نبی اکرم  ﷺ  سے روایت کرتے ہیں،  ٣- صحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ طلاق سنّی یہ ہے کہ آدمی طہر کی حالت میں جماع کیے بغیر طلاق دے،  ٤- بعض کہتے ہیں کہ اگر اس نے طہر کی حالت میں تین طلاقیں دیں، تو یہ بھی طلاق سنّی ہوگی۔ یہ شافعی اور احمد بن حنبل کا قول ہے،  ٥- اور بعض کہتے ہیں کہ تین طلاق طلاق سنی نہیں ہوگی، سوائے اس کے کہ وہ ایک ایک طلاق الگ الگ کر کے دے۔ یہ سفیان ثوری اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے،  ٦- اور یہ لوگ حاملہ کے طلاق کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ اسے جب چاہے طلاق دے سکتا ہے، یہی شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے،  ٧- اور بعض کہتے ہیں : اسے بھی وہ ہر ماہ ایک طلاق دے گا۔    تخریج دارالدعوہ :  انظر ما قبلہ  ( تحفة الأشراف : ٦٧٩٧) (صحیح)    قال الشيخ الألباني :  صحيح، ابن ماجة (2023)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1176
حدیث نمبر: 1176  حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ مَوْلَى آلِ طَلْحَةَ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ فِي الْحَيْضِ، فَسَأَلَ عُمَرُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:  مُرْهُ فَلْيُرَاجِعْهَا ثُمَّ لِيُطَلِّقْهَا طَاهِرًا أَوْ حَامِلًا . قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ يُونُسَ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَكَذَلِكَ حَدِيثُ سَالِمٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا، عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، أَنَّ طَلَاقَ السُّنَّةِ أَنْ يُطَلِّقَهَا طَاهِرًا مِنْ غَيْرِ جِمَاعٍ، وقَالَ بَعْضُهُمْ: إِنْ طَلَّقَهَا ثَلَاثًا، وَهِيَ طَاهِرٌ فَإِنَّهُ يَكُونُ لِلسُّنَّةِ أَيْضًا، وَهُوَ قَوْلُ: الشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ، وقَالَ بَعْضُهُمْ: لَا تَكُونُ ثَلَاثًا لِلسُّنَّةِ، إِلَّا أَنْ يُطَلِّقَهَا وَاحِدَةً وَاحِدَةً، وَهُوَ قَوْلُ: سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَإِسْحَاق، وَقَالُوا فِي طَلَاقِ الْحَامِلِ: يُطَلِّقُهَا مَتَى شَاءَ، وَهُوَ قَوْلُ: الشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاق، وقَالَ بَعْضُهُمْ: يُطَلِّقُهَا عِنْدَ كُلِّ شَهْرٍ تَطْلِيقَةً.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ১১৭৭
طلاق اور لعان کا بیان
جو شخص اپنی بیوی کو البتہ کے لفظ سے طلاق دے
 رکانہ (رض) کہتے ہیں کہ  میں نے نبی اکرم  ﷺ  کے پاس آ کر عرض کیا : اللہ کے رسول ! میں نے اپنی بیوی کو قطعی طلاق  (بتّہ)  دی ہے۔ آپ نے فرمایا :  تم نے اس سے کیا مراد لی تھی ؟ ، میں نے عرض کیا : ایک طلاق مراد لی تھی، آپ نے پوچھا :  اللہ کی قسم ؟  میں نے کہا : اللہ کی قسم ! آپ نے فرمایا :  تو یہ اتنی ہی ہے جتنی کا تم نے ارادہ کیا تھا ۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١- اس حدیث کو ہم صرف اسی طریق سے جانتے ہیں،  ٢- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا : اس میں اضطراب ہے، عکرمہ سے روایت ہے کہ ابن عباس (رض) کہتے ہیں رکانہ نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دی تھیں،  ٣- اہل علم صحابہ کرام وغیرہم میں سے عمر بن خطاب (رض) سے مروی ہے کہ انہوں نے طلاق بتہ کو ایک طلاق قرار دی ہے،  ٤- اور علی (رض) سے مروی ہے انہوں نے اسے تین طلاق قرار دی ہے،  ٥- بعض اہل علم کہتے ہیں کہ اس سلسلے میں آدمی کی نیت کا اعتبار ہوگا۔ اگر اس نے ایک کی نیت کی ہے تو ایک ہوگی اور اگر تین کی کی ہے تو تین ہوگی۔ اور اگر اس نے دو کی نیت کی ہے تو صرف ایک شمار ہوگی۔ یہی ثوری اور اہل کوفہ کا قول ہے،  ٦- مالک بن انس قطعی طلاق  (بتّہ)  کے بارے میں کہتے ہیں کہ اگر عورت ایسی ہے کہ اس کے ساتھ دخول ہوچکا ہے تو طلاق بتّہ تین طلاق شمار ہوگی،  ٧- شافعی کہتے ہیں : اگر اس نے ایک کی نیت کی ہے تو ایک ہوگی اور اسے رجعت کا اختیار ہوگا۔ اگر دو کی نیت کی ہے تو دو ہوگی اور اگر تین کی نیت کی ہے تو تین شمار ہوگی۔    تخریج دارالدعوہ :  سنن ابی داود/ الطلاق ١٤ (٢٢٠٨) ، سنن ابن ماجہ/الطلاق ١٩ (٢٠٥١) سنن الدارمی/الطلاق ٨ (٢٣١٨) ،  ( تحفة الأشراف : ٣٦١٣) (ضعیف) (سند میں زبیر بن سعید اور عبد اللہ بن علی ضعیف ہیں، اور علی بن یزید بن رکانہ مجہول ہیں، نیز بروایتِ ترمذی بقول امام بخاری : اس حدیث میں سخت اضطراب ہے، تفصیل کے لیے دیکھئے : الارواء (رقم ٢٠٦٣)    قال الشيخ الألباني :  ضعيف، ابن ماجة (2051) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (444) ، ضعيف أبي داود (479 / 2206) ، الإرواء (2063) //   صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1177
حدیث نمبر: 1177  حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ، عَنْ جَرِيرِ بْنِ حَازِمٍ، عَنْ الزُّبَيْرِ بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَزِيدَ بْنِ رُكَانَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي طَلَّقْتُ امْرَأَتِيَ الْبَتَّةَ، فَقَالَ:  مَا أَرَدْتَ بِهَا ؟  قُلْتُ: وَاحِدَةً، قَالَ:  وَاللَّهِ ؟  قُلْتُ: وَاللَّهِ، قَالَ:  فَهُوَ مَا أَرَدْتَ . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ لَا نَعْرِفُهُ، إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَسَأَلْتُ مُحَمَّدًا عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ، فَقَالَ: فِيهِ اضْطِرَابٌ وَيُرْوَى، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ رُكَانَةَ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ ثَلَاثًا، وَقَدِ اخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ، مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ فِي طَلَاقِ الْبَتَّةِ، فَرُوِيَ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، أَنَّهُ جَعَلَ الْبَتَّةَ وَاحِدَةً وَرُوِيَ، عَنْ عَلِيٍّ أَنَّهُ جَعَلَهَا ثَلَاثًا، وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: فِيهِ نِيَّةُ الرَّجُلِ، إِنْ نَوَى وَاحِدَةً فَوَاحِدَةٌ، وَإِنْ نَوَى ثَلَاثًا فَثَلَاثٌ، وَإِنْ نَوَى ثِنْتَيْنِ لَمْ تَكُنْ إِلَّا وَاحِدَةً، وَهُوَ قَوْلُ: الثَّوْرِيِّ، وَأَهْلِ الْكُوفَةِ، وقَالَ: مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ فِي الْبَتَّةِ: إِنْ كَانَ قَدْ دَخَلَ بِهَا فَهِيَ ثَلَاثُ تَطْلِيقَاتٍ، وقَالَ الشَّافِعِيُّ: إِنْ نَوَى وَاحِدَةً فَوَاحِدَةٌ يَمْلِكُ الرَّجْعَةَ، وَإِنْ نَوَى ثِنْتَيْنِ فَثِنْتَانِ، وَإِنْ نَوَى ثَلَاثًا فَثَلَاثٌ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ১১৭৮
طلاق اور لعان کا بیان
عورت سے کہنا کہ تمہارا معاملہ تمہارے ہاتھ میں ہے۔
 حماد بن زید کا بیان ہے کہ  میں نے ایوب  (سختیانی)  سے پوچھا : کیا آپ حسن بصری کے علاوہ کسی ایسے شخص کو جانتے ہیں، جس نے «أمرک بيدك» کے سلسلہ میں کہا ہو کہ یہ تین طلاق ہے ؟ انہوں نے کہا : حسن بصری کے۔ علاوہ مجھے کسی اور کا علم نہیں، پھر انہوں نے کہا : اللہ ! معاف فرمائے۔ ہاں وہ روایت ہے جو مجھ سے قتادہ نے بسند «كثير مولی بني سمرة عن أبي سلمة عن أبي هريرة عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» روایت کی ہے کہ نبی اکرم  ﷺ  آپ نے فرمایا :  یہ تین طلاقیں ہیں ۔ ایوب کہتے ہیں : پھر میں کثیر مولی بنی سمرہ سے ملا تو میں نے ان سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا مگر وہ اسے نہیں جان سکے۔ پھر میں قتادہ کے پاس آیا اور انہیں یہ بات بتائی تو انہوں نے کہا : وہ بھول گئے ہیں۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١- یہ حدیث غریب ہے،  ٢- ہم اسے صرف سلیمان بن حرب ہی کی روایت سے جانتے ہیں انہوں نے اسے حماد بن زید سے روایت کیا ہے، ٣- میں نے اس حدیث کے بارے میں محمد بن اسماعیل بخاری سے پوچھا تو انہوں نے کہا : ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا انہوں نے اسے حماد بن زید سے روایت کیا ہے اور یہ ابوہریرہ سے موقوفاً مروی ہے، اور وہ ابوہریرہ کی حدیث کو مرفوع نہیں جان سکے،  ٤- اہل علم کا «أمرک بيدك» کے سلسلے میں اختلاف ہے، بعض صحابہ کرام وغیرہم جن میں عمر بن خطاب، عبداللہ بن مسعود (رض) بھی ہیں کہتے ہیں کہ یہ ایک  (طلاق)  ہوگی۔ اور یہی تابعین اور ان کے بعد کے لوگوں میں سے کئی اہل علم کا بھی قول ہے،  ٥- عثمان بن عفان اور زید بن ثابت کہتے ہیں کہ فیصلہ وہ ہوگا جو عورت کہے گی،  ٦- ابن عمر (رض) کہتے ہیں : جب شوہر کہے کہ  اس کا معاملہ اس  (عورت)  کے ہاتھ میں ہے ، اور عورت خود سے تین طلاق قرار دے لے۔ اور شوہر انکار کرے اور کہے : میں نے صرف ایک طلاق کے سلسلہ میں کہا تھا کہ اس کا معاملہ اس کے ہاتھ میں ہے تو شوہر سے قسم لی جائے گی اور شوہر کا قول اس کی قسم کے ساتھ معتبر ہوگا،  ٧- سفیان اور اہل کوفہ عمر اور عبداللہ بن مسعود (رض) کے قول کی طرف گئے ہیں،  ٨- اور مالک بن انس کا کہنا ہے کہ فیصلہ وہ ہوگا جو عورت کہے گی، یہی احمد کا بھی قول ہے،  ٩- اور رہے اسحاق بن راہویہ تو وہ ابن عمر (رض) کے قول کی طرف گئے ہیں۔    تخریج دارالدعوہ :  سنن ابی داود/ الطلاق ١٣ (٢٢٠٤) ، سنن النسائی/الطلاق ١١ (٣٤٣٩) (ضعیف) (سند میں کثیر لین الحدیث ہیں مگر حسن کا قول صحیح ہے، جس کی روایت ابوداود (برقم ٢٢٠٥) نے بھی کی ہے)    قال الشيخ الألباني :  ضعيف، لكنه عن الحسن قوله : صحيح، ضعيف أبي داود (379) ، صحيح أبي داود (1914)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1178
حدیث نمبر: 1178  حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ نَصْرِ بْنِ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، قَالَ: قُلْتُ لِأَيُّوبَ: هَلْ عَلِمْتَ أَنَّ أَحَدًا قَالَ: فِي أَمْرُكِ بِيَدِكِ إِنَّهَا ثَلَاثٌ، إِلَّا الْحَسَنَ، فَقَالَ: لَا إِلَّا الْحَسَنَ، ثُمَّ قَالَ: اللَّهُمَّ غَفْرًا إِلَّا مَا حَدَّثَنِي قَتَادَةُ، عَنْ كَثِيرٍ مَوْلَى بَنِي سَمُرَةَ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ثَلَاثٌ، قَالَ أَيُّوبُ: فَلَقِيتُ كَثِيرًا مَوْلَى بَنِي سَمُرَةَ، فَسَأَلْتُهُ فَلَمْ يَعْرِفْهُ، فَرَجَعْتُ إِلَى قَتَادَةَ فَأَخْبَرْتُهُ، فَقَالَ: نَسِيَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ سُلَيْمَانَ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ زَيْدٍ، وَسَأَلْتُ مُحَمَّدًا، عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ، فَقَالَ: حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ زَيْدٍ بِهَذَا وَإِنَّمَا هُوَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ مَوْقُوفٌ وَلَمْ يُعْرَفْ حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ مَرْفُوعًا، وَلَمْ يُعْرَفْ حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ مَرْفُوعًا، وَكَانَ عَلِيُّ بْنُ نَصْرٍ حَافِظًا صَاحِبَ حَدِيثٍ، وَقَدِ اخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي أَمْرُكِ بِيَدِكِ، فَقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَغَيْرِهِمْ مِنْهُمْ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ هِيَ وَاحِدَةٌ، وَهُوَ قَوْلُ: غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنَ التَّابِعِينَ وَمَنْ بَعْدَهُمْ، وقَالَ: عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ، وَزَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ الْقَضَاءُ مَا قَضَتْ، وقَالَ: ابْنُ عُمَرَ إِذَا جَعَلَ أَمْرَهَا بِيَدِهَا وَطَلَّقَتْ نَفْسَهَا ثَلَاثًا، وَأَنْكَرَ الزَّوْجُ، وَقَالَ: لَمْ أَجْعَلْ أَمْرَهَا بِيَدِهَا، إِلَّا فِي وَاحِدَةٍ اسْتُحْلِفَ الزَّوْجُ، وَكَانَ الْقَوْلُ قَوْلَهُ: مَعَ يَمِينِهِ، وَذَهَبَ سُفْيَانُ، وَأَهْلُ الْكُوفَةِ، إِلَى قَوْلِ عُمَرَ، وَعَبْدِ اللَّهِ، وَأَمَّا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، فَقَالَ: الْقَضَاءُ مَا قَضَتْ، وَهُوَ قَوْلُ: أَحْمَدَ، وَأَمَّا إِسْحَاق، فَذَهَبَ إِلَى قَوْلِ ابْنِ عُمَرَ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ১১৭৯
طلاق اور لعان کا بیان
بیوی کو طلاق کا اختیار دینا
 ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے ہمیں اختیار دیا  (چاہیں تو ہم آپ کے نکاح میں رہیں اور چاہیں تو نہ رہیں)  ہم نے آپ کو اختیار کیا۔ کیا یہ طلاق مانی گئی تھی ؟  ١ ؎۔ 
حدیث نمبر: 1179  حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ أَبِي خَالِدٍ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ:  خَيَّرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاخْتَرْنَاهُ، أَفَكَانَ طَلَاقًا ؟ 

তাহকীক:
হাদীস নং: ১১৮০
طلاق اور لعان کا بیان
جس عورت کو تین طلاقیں دی گئی ہوں اس کانان نفقہ اور گھر شوہر کے ذمہ نہیں
 عامر بن شراحیل شعبی کہتے ہیں کہ  فاطمہ بنت قیس (رض) کہتی ہیں کہ مجھے میرے شوہر نے نبی اکرم  ﷺ  کے زمانے میں تین طلاقیں دیں  ١ ؎ تو رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا :  تمہیں نہ «سکنی»  (رہائش)  ملے گا اور نہ «نفقہ»  (اخراجات) ۔ مغیرہ کہتے ہیں : پھر میں نے اس کا ذکر ابراہیم نخعی سے کیا، تو انہوں نے کہا کہ عمر (رض) کا کہنا ہے کہ ہم ایک عورت کے کہنے سے اللہ کی کتاب اور رسول اللہ  ﷺ  کی سنت کو ترک نہیں کرسکتے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ اسے یہ بات یاد بھی ہے یا بھول گئی۔ 
حدیث نمبر: 1180  حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مُغِيرَةَ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، قَالَ: قَالَتْ فَاطِمَةُ بِنْتُ قَيْسٍ: طَلَّقَنِي زَوْجِي ثَلَاثًا، عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:  لَا سُكْنَى لَكِ، وَلَا نَفَقَةَ . قَالَ مُغِيرَةُ: فَذَكَرْتُهُ لِإِبْرَاهِيمَ، فَقَالَ: قَالَ عُمَرُ: لَا نَدَعُ كِتَابَ اللَّهِ، وَسُنَّةَ نَبِيِّنَا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، لِقَوْلِ امْرَأَةٍ لَا نَدْرِي أَحَفِظَتْ أَمْ نَسِيَتْ، وَكَانَ عُمَرُ يَجْعَلُ لَهَا السُّكْنَى، وَالنَّفَقَةَ.

তাহকীক:
হাদীস নং: ১১৮১
طلاق اور لعان کا بیان
نکاح سے پہلے طلاق واقع نہیں ہوتی
 عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ   نے فرمایا :  ابن آدم کے لیے ایسی چیز میں نذر نہیں جس کا وہ اختیار نہ رکھتا ہو، اور نہ اسے ایسے شخص کو آزاد کرنے کا اختیار ہے جس کا وہ مالک نہ ہو، اور نہ اسے ایسی عورت کو طلاق دینے کا حق حاصل ہے جس کا وہ مالک نہ ہو ۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١- عبداللہ بن عمرو (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے،  ٢- اس باب میں علی، معاذ بن جبل، جابر، ابن عباس اور عائشہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ اور یہ سب سے بہتر حدیث ہے جو اس باب میں روایت کی گئی ہے،  ٣- یہی صحابہ کرام وغیرہم میں سے اکثر اہل علم کا قول ہے۔ اور علی بن ابی طالب، ابن عباس، جابر بن عبداللہ، سعید بن المسیب، حسن، سعید بن جبیر، علی بن حسین، شریح، جابر بن زید (رض) ، اور فقہاء تابعین میں سے بھی کئی لوگوں سے یہی مروی ہے۔ اور یہی شافعی کا بھی قول ہے،  ٤- اور ابن مسعود سے مروی ہے انہوں نے منصوبہ  ١ ؎ کے سلسلہ میں کہا ہے کہ طلاق ہوجائے گی،  ٥- اور اہل علم میں سے ابراہیم نخعی اور شعبی وغیرہ سے مروی ہے ان لوگوں کا کہنا ہے کہ جب وہ کسی وقت کی تحدید کرے  ٢ ؎ تو طلاق واقع ہوجائے گی۔ اور یہی سفیان ثوری اور مالک بن انس کا بھی قول ہے کہ جب اس نے کسی متعین عورت کا نام لیا، یا کسی وقت کی تحدید کی یا یوں کہا : اگر میں نے فلاں محلے کی عورت سے شادی کی تو اسے طلاق ہے۔ تو اگر اس نے شادی کرلی تو اسے طلاق واقع ہوجائے گی،  ٦- البتہ ابن مبارک نے اس باب میں شدت سے کام لیا ہے لیکن انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر اس نے ایسا کیا تو میں یہ بھی نہیں کہتا کہ وہ اس پر حرام ہوگی،  ٧- اور احمد کہتے ہیں : اگر اس نے شادی کی تو میں اسے یہ حکم نہیں دوں گا کہ وہ اپنی بیوی سے علاحدگی اختیار کرلے،  ٨- اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ میں ابن مسعود کی حدیث کی رو سے منسوبہ عورت سے نکاح کی اجازت دیتا ہوں، اگر اس نے اس سے شادی کرلی، تو میں یہ نہیں کہتا کہ اس کی عورت اس پر حرام ہوگی۔ اور غیر منسوبہ عورت کے سلسلے میں اسحاق بن راہویہ نے وسعت دی ہے،  ٩- اور عبداللہ بن مبارک سے منقول ہے کہ ان سے ایک شخص کے بارے میں پوچھا گیا کہ جس نے طلاق کی قسم کھائی ہو کہ وہ شادی نہیں کرے گا، پھر اسے سمجھ میں آیا کہ وہ شادی کرلے۔ تو کیا اس کے لیے رخصت ہے کہ ان فقہاء کا قول اختیار کرے جنہوں نے اس سلسلے میں رخصت دی ہے ؟ تو عبداللہ بن مبارک نے کہا : اگر وہ اس معاملے میں پڑنے سے پہلے ان کے رخصت کے قول کو درست سمجھتا ہو تو اس کے لیے ان کے قول پر عمل درست ہے اور اگر وہ پہلے اس قول سے مطمئن نہ رہا ہو، اب آزمائش میں پڑجانے پر ان کے قول پر عمل کرنا چاہے تو میں اس کے لیے ایسا کرنا درست نہیں سمجھتا۔    تخریج دارالدعوہ :  سنن ابن ماجہ/الطلاق ١٧ (٢٠٤٧) (تحفة الأشراف : ٨٧٢١) ، مسند احمد (٢/١٩٠) (حسن صحیح) وأخرجہ کل من : سنن ابی داود/ الطلاق ٧ (٢١٩٠) ، سنن النسائی/البیوع ٦٠ (٤٦١٦) ، مسند احمد (٢/١٨٩) من غیر ہذا الوجہ۔    وضاحت :  ١ ؎ : بعض نسخوں میں منصوبہ سین سے ہے یعنی «منسوبہ» ، اور یہی صحیح ہے اس سے مراد وہ عورت ہے جو کسی قبیلے یا شہر کی طرف منسوب ہو یا «منصوبہ» سے مراد متعین عورت ہے۔ مثلاً کوئی خاص عورت جس سے ابھی اس کی شادی نہیں ہوئی ہے یہ کہے کہ اگر  میں نے فلاں عورت سے نکاح کیا تو اس کو طلاق  تو نکاح کے بعد اس پر طلاق پڑجائے گی ، حالانکہ فی الوقت یہ طلاق اس کی ملکیت میں نہیں ہے۔  ٢ ؎ : مثلاً یوں کہے «إن نکحت اليوم أو غداً»  اگر میں نے آج نکاح کیا یا کل نکاح کروں گا ۔    قال الشيخ الألباني :  حسن صحيح، ابن ماجة (2047)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1181
حدیث نمبر: 1181  حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، حَدَّثَنَا عَامِرٌ الْأَحْوَلُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:  لَا نَذْرَ لِابْنِ آدَمَ فِيمَا لَا يَمْلِكُ، وَلَا عِتْقَ لَهُ فِيمَا لَا يَمْلِكُ، وَلَا طَلَاقَ لَهُ فِيمَا لَا يَمْلِكُ . قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ عَلِيٍّ، وَمُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، وَجَابِرٍ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَعَائِشَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَهُوَ أَحْسَنُ شَيْءٍ رُوِيَ فِي هَذَا الْبَابِ وَهُوَ قَوْلُ: أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ، مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، رُوِيَ ذَلِكَ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَجَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، وَسَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، وَالْحَسَنِ، وَسَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، وَعَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ، وَشُرَيْحٍ، وَجَابِرِ بْنِ زَيْدٍ، وَغَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ فُقَهَاءِ التَّابِعِينَ، وَبِهِ يَقُولُ الشَّافِعِيُّ وَرُوِيَ، عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ، أَنَّهُ قَالَ: فِي الْمَنْصُوبَةِ إِنَّهَا تَطْلُقُ وَقَدْ رُوِيَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ النَّخَعِيِّ، وَالشَّعْبِيِّ وَغَيْرِهِمَا، مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنَّهُمْ قَالُوا: إِذَا وَقَّتَ نُزِّلَ وَهُوَ قَوْلُ: سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَمَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، أَنَّهُ إِذَا سَمَّى امْرَأَةً بِعَيْنِهَا، أَوْ وَقَّتَ وَقْتًا، أَوْ قَالَ: إِنْ تَزَوَّجْتُ مِنْ كُورَةِ كَذَا، فَإِنَّهُ إِنْ تَزَوَّجَ، فَإِنَّهَا تَطْلُقُ، وَأَمَّا ابْنُ الْمُبَارَكِ فَشَدَّدَ فِي هَذَا الْبَابِ، وَقَالَ: إِنْ فَعَلَ لَا أَقُولُ هِيَ حَرَامٌ، وقَالَ أَحْمَدُ: إِنْ تَزَوَّجَ لَا آمُرُهُ، أَنْ يُفَارِقَ امْرَأَتَهُ، وقَالَ إِسْحَاق: أَنَا أُجِيزُ فِي الْمَنْصُوبَةِ، لِحَدِيثِ ابْنِ مَسْعُودٍ، وَإِنْ تَزَوَّجَهَا لَا أَقُولُ تَحْرُمُ عَلَيْهِ امْرَأَتُهُ، وَوَسَّعَ إِسْحَاق فِي غَيْرِ الْمَنْصُوبَةِ وَذُكِرَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ، أَنَّهُ سُئِلَ، عَنْ رَجُلٍ حَلَفَ بِالطَّلَاقِ، أَنَّهُ لَا يَتَزَوَّجُ ثُمَّ بَدَا لَهُ أَنْ يَتَزَوَّجَ هَلْ لَهُ رُخْصَةٌ بِأَنْ يَأْخُذَ بِقَوْلِ الْفُقَهَاءِ الَّذِينَ رَخَّصُوا فِي هَذَا ؟، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ: إِنْ كَانَ يَرَى هَذَا الْقَوْلَ حَقَّا، مِنْ قَبْلِ أَنْ يُبْتَلَى بِهَذِهِ الْمَسْأَلَةِ، فَلَهُ أَنْ يَأْخُذَ بِقَوْلِهِمْ فَأَمَّا مَنْ لَمْ يَرْضَ بِهَذَا فَلَمَّا ابْتُلِيَ أَحَبَّ، أَنْ يَأْخُذَ بِقَوْلِهِمْ فَلَا أَرَى لَهُ ذَلِكَ.

তাহকীক:
হাদীস নং: ১১৮২
طلاق اور لعان کا بیان
لونڈی کی طلاق دو طلاقیں ہیں
 ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا :  لونڈی کے لیے دو ہی طلاق ہے اور اس کی عدت دو حیض ہے ۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١- عائشہ (رض) کی حدیث حسن غریب ہے۔ ہم اسے مظاہر بن اسلم ہی کی روایت سے جانتے ہیں، اور مظاہر بن اسلم کی اس کے علاوہ کوئی اور روایت میرے علم میں نہیں،  ٢- اس باب میں عبداللہ بن عمر (رض) سے بھی روایت ہے،  ٣- صحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ اور یہی سفیان ثوری، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے۔    تخریج دارالدعوہ :  سنن ابی داود/ الطلاق ١٧ (٢٣٤٠) (تحفة الأشراف : ١٨٥٥٥) (ضعیف) (سند میں مظاہر ضعیف ہیں)    قال الشيخ الألباني :  ضعيف، ابن ماجة (2080) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (452) ، ضعيف أبي داود (475 / 2189) ، المشکاة (3289) ، الإرواء (2066) ، ضعيف الجامع الصغير (3650) //   صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1182  
حدیث نمبر: 1182  حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى النَّيْسَابُورِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي مُظَاهِرُ بْنُ أَسْلَمَ، قَالَ: حَدَّثَنِيالْقَاسِمُ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ ّرَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:  طَلَاقُ الْأَمَةِ تَطْلِيقَتَانِ وَعِدَّتُهَا حَيْضَتَانِ . قَالَمُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى: وحَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، أَنْبَأَنَا مُظَاهِرٌ بِهَذَا، قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَائِشَةَ، حَدِيثٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ مَرْفُوعًا إِلَّا مِنْ حَدِيثِ مُظَاهِرِ بْنِ أَسْلَمَ، وَمُظَاهِرٌ لَا نَعْرِفُ لَهُ فِي الْعِلْمِ غَيْرَ هَذَا الْحَدِيثِ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ، مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، وَهُوَ قَوْلُ: سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَالشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاق.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ১১৮৩
طلاق اور لعان کا بیان
کوئی شخص اپنی بیوی کو اپنے دل میں طلاق دے۔
 ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا :  اللہ تعالیٰ نے میری امت کے خیالات کو جو دل میں آتے ہیں معاف فرما دیا ہے جب تک کہ وہ انہیں زبان سے ادا نہ کرے، یا ان پر عمل نہ کرے   ١ ؎۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے،  ٢- اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ آدمی جب اپنے دل میں طلاق کا خیال کرلے تو کچھ نہیں ہوگا، جب تک کہ وہ منہ سے نہ کہے۔    تخریج دارالدعوہ :  صحیح البخاری/العتق ٦ (٢٥٢٨) ، والطلاق ١١ (٥٢٦٥) ، والأیمان والنذور ١٥ (٦٦٦٤) ، صحیح مسلم/الإیمان ٥٨ (٢٠١) ، سنن ابی داود/ الطلاق ١٥ (٢٢٠٩) ، سنن النسائی/الطلاق ٢٢ (٣٤٦٤) ، سنن ابن ماجہ/الطلاق ١٤ (٢٠٤٠) ، مسند احمد  ( ٢/٣٩٢، ٤٢٥، ٤٧٤، ٤٨١، ٤٩١) (تحفة الأشراف : ١٢٨٩٦) (صحیح)    وضاحت :  ١ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دل میں پیدا ہونے والے خیالات اور گزرنے والے وسوسے مواخذہ کے قابل گرفت نہیں ، مثلاً کسی کے دل میں کسی لڑکی سے شادی یا اپنی بیوی کو طلاق دینے کا خیال آئے تو محض دل میں خیال آنے سے یہ باتیں واقع نہیں ہوں گی۔    قال الشيخ الألباني :  صحيح، ابن ماجة (2040)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1183
حدیث نمبر: 1183  حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ زُرَارَةَ بْنِ أَوْفَى، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:  تَجَاوَزَ اللَّهُ لِأُمَّتِي مَا حَدَّثَتْ بِهِ أَنْفُسَهَا، مَا لَمْ تَكَلَّمْ بِهِ، أَوْ تَعْمَلْ بِهِ . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ، أَنَّ الرَّجُلَ إِذَا حَدَّثَ نَفْسَهُ بِالطَّلَاقِ لَمْ يَكُنْ شَيْءٌ حَتَّى يَتَكَلَّمَ بِهِ.

তাহকীক:
হাদীস নং: ১১৮৪
طلاق اور لعان کا بیان
ہنسی اور مذاق میں بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے
 ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا :  تین چیزیں ایسی ہیں کہ انہیں سنجیدگی سے کرنا بھی سنجیدگی ہے اور ہنسی مذاق میں کرنا بھی سنجیدگی ہے نکاح، طلاق اور رجعت   ١ ؎۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١- یہ حدیث حسن غریب ہے،  ٢- صحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم کا اسی پر عمل ہے،  ٣- عبدالرحمٰن، حبیب بن اردک مدنی کے بیٹے ہیں اور ابن ماہک میرے نزدیک یوسف بن ماہک ہیں۔    تخریج دارالدعوہ :  سنن ابی داود/ الطلاق ٩ (٢١٩٤) ، سنن ابن ماجہ/الطلاق ١٣ (٢٠٣٩) ،  ( تحفة الأشراف : ١٤٨٥٤) (حسن) (آثار صحابہ سے تقویت پا کر یہ حدیث حسن ہے، ورنہ عبدالرحمن بن اردک ضعیف ہیں)    وضاحت :  ١ ؎ : سنجیدگی اور ہنسی مذاق دونوں صورتوں میں ان کا اعتبار ہوگا۔ اور اس بات پر علماء کا اتفاق ہے کہ ہنسی مذاق میں طلاق دینے والے کی طلاق جب وہ صراحت کے ساتھ لفظ طلاق کہہ کر طلاق دے تو وہ واقع ہوجائے گی اور اس کا یہ کہنا کہ میں نے بطور کھلواڑ مذاق میں ایسا کہا تھا اس کے لیے کچھ بھی مفید نہ ہوگا کیونکہ اگر اس کی یہ بات مان لی جائے تو احکام شریعت معطل ہو کر رہ جائیں گے اور ہر طلاق دینے والا یا نکاح کرنے والا یہ کہہ کر کہ میں نے ہنسی مذاق میں یہ کہا تھا اپنا دامن بچا لے گا ، اس طرح اس سلسلے کے احکام معطل ہو کر رہ جائیں گے۔    قال الشيخ الألباني :  حسن، ابن ماجة (2039)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1184
حدیث نمبر: 1184  حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيل، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَرْدَكَ الْمَدَنِيِّ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ ابْنِ مَاهَكَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:  ثَلَاثٌ جِدُّهُنَّ جِدٌّ، وَهَزْلُهُنَّ جِدٌّ النِّكَاحُ، وَالطَّلَاقُ، وَالرَّجْعَةُ . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وعَبْدُ الرَّحْمَنِ: هُوَ ابْنُ حَبِيبِ بْنِ أَرْدَكَ الْمَدَنِيُّ، وَابْنُ مَاهَكَ هُوَ عِنْدِي يُوسُفُ بْنُ مَاهَكَ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ১১৮৫
طلاق اور لعان کا بیان
خلع کے بارے میں
 ربیع بنت معوذ بن عفراء (رض) کہتی ہیں کہ  انہوں نے نبی اکرم  ﷺ  کے زمانے میں خلع لیا تو آپ  ﷺ  نے انہیں حکم دیا  (یا انہیں حکم دیا گیا)  کہ وہ ایک حیض عدت گزاریں۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١- ربیع کی حدیث کہ انہیں ایک حیض عدت گزارنے کا حکم دیا گیا صحیح ہے،  ٢- اس باب میں ابن عباس (رض) سے بھی روایت ہے۔    تخریج دارالدعوہ :  تفرد بہ المؤلف  ( تحفة الأشراف : ١٥٨٣٥) (صحیح)    قال الشيخ الألباني :  صحيح، ابن ماجة (2058)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1185
حدیث نمبر: 1185  حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، أَنْبَأَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى، عَنْ سُفْيَانَ، أَنْبَأَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ وَهُوَ مَوْلَى آلِ طَلْحَةَ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ الرُّبَيِّعِ بِنْتِ مُعَوِّذِ بْنِ عَفْرَاءَ، أَنَّهَا اخْتَلَعَتْ عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،  فَأَمَرَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَوْ أُمِرَتْ أَنْ تَعْتَدَّ بِحَيْضَةٍ .

তাহকীক:
হাদীস নং: ১১৮৬
طلاق اور لعان کا بیان
خلع لینے والی عورتیں
 ثوبان (رض) سے روایت ہے کہ  نبی اکرم  ﷺ  نے فرمایا :  خلع لینے والی عورتیں منافق ہیں   ١ ؎۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١- یہ حدیث اس طریق سے غریب ہے، اس کی سند قوی نہیں ہے،  ٢- نبی اکرم  ﷺ  سے یہ بھی مروی ہے آپ نے فرمایا :  جس عورت نے بلا کسی سبب کے اپنے شوہر سے خلع لیا، تو وہ جنت کی خوشبو نہیں پائے گی ۔    تخریج دارالدعوہ :  تفرد بہ المؤلف  ( تحفة الأشراف : ٢٠٩٢) (صحیح) (متابعت اور شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے، ورنہ اس کے راوی ” لیث بن ابی سلیم “ ضعیف، اور ” ابو الخطاب “ مجہول ہیں، ملاحظہ : صحیحہ رقم : ٦٣٢)    وضاحت :  ١ ؎ : یہ بطور زجر و توبیخ کہا ہے یعنی یہ عورتیں ایسی ہیں جو جنت میں دخول اوّلی کی مستحق نہیں قرار پائیں گی کیونکہ بظاہر یہ اطاعت گزار ہیں لیکن باطن میں نافرمان ہیں۔ اور یہ ارشاد بغیر کسی معقول وجہ کے خلع لینے والی عورتوں کے بارے میں ہے۔    قال الشيخ الألباني :  صحيح، الصحيحة (633) ، المشکاة (3290 / التحقيق الثانی)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1186  
حدیث نمبر: 1186  حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا مُزَاحِمُ بْنُ ذَوَّادِ بْنِ عُلْبَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ لَيْثٍ، عَنْ أَبِي الْخَطَّابِ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ، عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ، عَنْ ثَوْبَانَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:  الْمُخْتَلِعَاتُ هُنَّ الْمُنَافِقَاتُ . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَلَيْسَ إِسْنَادُهُ بِالْقَوِيِّ وَرُوِيَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ:  أَيُّمَا امْرَأَةٍ اخْتَلَعَتْ مِنْ زَوْجِهَا مِنْ غَيْرِ بَأْسٍ لَمْ تَرِحْ رَائِحَةَ الْجَنَّةِ .  

তাহকীক:
হাদীস নং: ১১৮৭
طلاق اور لعان کا بیان
خلع لینے والی عورتیں
 ثوبان (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا :  جس عورت نے بغیر کسی بات کے اپنے شوہر سے طلاق طلب کی تو اس پر جنت کی خوشبو حرام ہے ۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١- یہ حدیث حسن ہے،  ٢- اور یہ «عن أيوب عن أبي قلابة عن أبي أسماء عن ثوبان» کے طریق سے بھی روایت کی جاتی ہے، ٣- بعض نے ایوب سے اسی سند سے روایت کی ہے لیکن انہوں نے اسے مرفوع نہیں کیا ہے۔    تخریج دارالدعوہ :  سنن ابی داود/ الطلاق ١٨ (٢٢٢٦) ، سنن ابن ماجہ/الطلاق ٢١ (٢٠٥٥) ،  ( تحفة الأشراف : ٢١٠٣) ، مسند احمد (٥/٢٧٧، ٢٨٣) ، سنن الدارمی/الطلاق ٦ (٢٣١٦) (صحیح)    قال الشيخ الألباني :  صحيح، ابن ماجة (2055)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1187
حدیث نمبر: 1187  أَنْبَأَنَا بِذَلِكَ بُنْدَارٌ، أَنْبَأَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ، أَنْبَأَنَا أَيُّوبُ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَمَّنْ حَدَّثَهُ، عَنْ ثَوْبَانَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:  أَيُّمَا امْرَأَةٍ سَأَلَتْ زَوْجَهَا طَلَاقًا مِنْ غَيْرِ بَأْسٍ فَحَرَامٌ عَلَيْهَا رَائِحَةُ الْجَنَّةِ . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ. وَيُرْوَى هَذَا الْحَدِيثُ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ أَبِي أَسْمَاءَ، عَنْ ثَوْبَانَ وَرَوَاهُ بَعْضُهُمْ، عَنْ أَيُّوبَ بِهَذَا الْإِسْنَادِ وَلَمْ يَرْفَعْهُ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ১১৮৮
طلاق اور لعان کا بیان
عورتوں کے ساتھ حسن سلوک
 ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا :  عورت کی مثال پسلی کی ہے  ١ ؎ اگر تم اسے سیدھا کرنے لگو گے تو توڑ دو گے اور اگر اسے یوں ہی چھوڑے رکھا تو ٹیڑھ کے باوجود تم اس سے لطف اندوز ہو گے ۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١- ابوہریرہ کی حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے اور اس کی سند جید ہے،  ٢- اس باب میں ابوذر، سمرہ، اور ام المؤمنین عائشہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔    تخریج دارالدعوہ :  صحیح مسلم/الرضاع ١٨ (١٤٦٨) ،  ( تحفة الأشراف : ١٣٢٤٧) (صحیح) وأخرجہ کل من : صحیح البخاری/النکاح ٧٩ (٥١٨٤) ، صحیح مسلم/الرضاع (المصدر المذکور) ، مسند احمد (٢/٤٢٨، ٤٤٩، ٥٣٠) ، سنن الدارمی/النکاح ٣٥ (٢٢٦٨) من غیر ہذا الوجہ۔    وضاحت :  ١ ؎ : یعنی عورتوں کی خلقت ہی میں کچھ ایسی بات ہے ، لہٰذا جس فطرت پر وہ پیدا کی گئیں ہیں اس سے انہیں بدلا نہیں جاسکتا۔ اس لیے ان باتوں کا لحاظ کر کے ان کے ساتھ تعلقات رکھنے چاہئیں تاکہ معاشرتی زندگی سکون اور آرام و چین کی ہو۔    قال الشيخ الألباني :  صحيح، التعليق الرغيب (3 / 72 - 73)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1188
حدیث نمبر: 1188  حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي زِيَادٍ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَخِي ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عَمِّهِ، عَنْسَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:  إِنَّ الْمَرْأَةَ كَالضِّلَعِ إِنْ ذَهَبْتَ تُقِيمُهَا كَسَرْتَهَا، وَإِنْ تَرَكْتَهَا اسْتَمْتَعْتَ بِهَا عَلَى عِوَجٍ . قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، وَسَمُرَةَ، وَعَائِشَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ، مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.

তাহকীক:
হাদীস নং: ১১৮৯
طلاق اور لعان کا بیان
N/A
میرے نکاح میں ایک عورت تھی، میں اس سے محبت کرتا تھا، اور میرے والد اسے ناپسند کرتے تھے۔ میرے والد نے مجھے حکم دیا کہ میں اسے طلاق دے دوں، لیکن میں نے ان کی بات نہیں مانی۔ پھر میں نے اس کا ذکر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ نے فرمایا: ”عبداللہ بن عمر! تم اپنی بیوی کو طلاق دے دو“ ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے، ہم اسے صرف ابن ابی ذئب ہی کی روایت سے جانتے ہیں۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ، أَنْبَأَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ، أَنْبَأَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ حَمْزَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: كَانَتْ تَحْتِي امْرَأَةٌ أُحِبُّهَا، وَكَانَ أَبِي يَكْرَهُهَا، فَأَمَرَنِي أَبِي أَنْ أُطَلِّقَهَا، فَأَبَيْتُ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ، طَلِّقْ امْرَأَتَكَ . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ إِنَّمَا نَعْرِفَهُ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ.

তাহকীক:
হাদীস নং: ১১৯০
طلاق اور لعان کا بیان
عورت اپنی سوکن کی طلاق کا مطالبہ نہ کرے
 ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ  نبی اکرم  ﷺ  نے فرمایا :  عورت اپنی سوکن کی طلاق کا مطالبہ نہ کرے کہ جو اس کے برتن میں ہے اسے اپنے میں انڈیل لے ۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١- ابوہریرہ کی حدیث حسن صحیح ہے،  ٢- اس باب میں ام سلمہ سے بھی روایت ہے۔    تخریج دارالدعوہ :  صحیح البخاری/البیوع ٥٨ (٢١٤٠) ، صحیح مسلم/النکاح ٦ (١٤١٣/٥٢) ، سنن النسائی/النکاح ٢٠ (٣٢٤١) ، والبیوع ١٦ (٤٤٩٦) ، و ١٩ (٤٥٠٦) ، و ٢١ (٤٥١٠) ، مسند احمد (٢/٢٣٨) ،  ( تحفة الأشراف : ١٣١٢٣) (صحیح) وأخرجہ کل من : صحیح البخاری/الشروط ٨ (٢٧٢٣) ، والنکاح ٥٣ (٥١٥٢) ، و القدر ٤ (٦٦٠١) ، صحیح مسلم/النکاح (المصدر المذکور) ، مسند احمد (٢/٢٧٤، ٣١١، ٣٩٤، ٤١٠، ٤٨٧، ٤٨٩، ٥٠٨، ٥١٦) من غیر ہذا الوجہ و بزیادة في السیاق۔ وانظر أیضا حدیث رقم ١١٣٤، وکذا مایأتي برقم : ١٢٢٢، و ١٣٠    قال الشيخ الألباني :  صحيح، صحيح أبي داود (1891)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1190
حدیث نمبر: 1190  حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، يَبْلُغُ بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:  لَا تَسْأَلِ الْمَرْأَةُ طَلَاقَ أُخْتِهَا لِتَكْفِئَ مَا فِي إِنَائِهَا . قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.

তাহকীক:
হাদীস নং: ১১৯১
طلاق اور لعان کا بیان
پاگل کی طلاق
 ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا :  ہر طلاق واقع ہوتی ہے سوائے پاگل اور دیوانے کی طلاق کے ۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١- اس حدیث کو ہم صرف عطاء بن عجلان کی روایت سے مرفوع جانتے ہیں اور عطاء بن عجلان ضعیف اور «ذاہب الحدیث»  (حدیث بھول جانے والے)  ہیں،  ٢- صحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ دیوانے کی طلاق واقع نہیں ہوتی سوائے اس کے کہ وہ ایسا دیوانہ ہو جس کی دیوانگی کبھی کبھی ٹھیک ہوجاتی ہو اور وہ افاقہ کی حالت میں طلاق دے۔    تخریج دارالدعوہ :  تفرد بہ المؤلف  ( تحفة الأشراف : ١٤٢٤٤) (ضعیف جدا) (سند میں عطاء بن عجلان متروک الحدیث راوی ہے، صحیح ابوہریرہ کے قول سے ہے)    قال الشيخ الألباني :  ضعيف جدا، والصحيح موقوف، الإرواء (2042) // ضعيف الجامع الصغير (4240) //   صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1191
حدیث نمبر: 1191  حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى الصَّنْعَانِيُّ، أَنْبَأَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِيَةَ الْفَزَارِيُّ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ عَجْلَانَ، عَنْ عِكْرِمَةَ بْنِ خَالِدٍ الْمَخْزُومِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:  كُلُّ طَلَاقٍ جَائِزٌ إِلَّا طَلَاقَ الْمَعْتُوهِ الْمَغْلُوبِ عَلَى عَقْلِهِ . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ لَا نَعْرِفُهُ مَرْفُوعًا إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عَطَاءِ بْنِ عَجْلَانَ، وَعَطَاءُ بْنُ عَجْلَانَ ضَعِيفٌ ذَاهِبُ الْحَدِيثِ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، أَنَّ طَلَاقَ الْمَعْتُوهِ الْمَغْلُوبِ عَلَى عَقْلِهِ لَا يَجُوزُ إِلَّا أَنْ يَكُونَ مَعْتُوهًا يُفِيقُ الْأَحْيَانَ فَيُطَلِّقُ فِي حَالِ إِفَاقَتِهِ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ১১৯২
طلاق اور لعان کا بیان
 ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ  لوگوں کا حال یہ تھا کہ آدمی اپنی بیوی کو جتنی طلاقیں دینی چاہتا دے دینا رجوع کرلینے کی صورت میں وہ اس کی بیوی بنی رہتی، اگرچہ اس نے سویا اس سے زائد بار اسے طلاق دی ہو، یہاں تک کہ ایک آدمی نے اپنی بیوی سے کہا : اللہ کی قسم ! میں تجھے نہ طلاق دوں گا کہ تو مجھ سے جدا ہوجائے اور نہ تجھے کبھی پناہ ہی دوں گا۔ اس نے کہا : یہ کیسے ہوسکتا ہے ؟ اس نے کہا : میں تجھے طلاق دوں گا پھر جب عدت پوری ہونے کو ہوگی تو رجعت کرلوں گا۔ اس عورت نے عائشہ (رض) کے پاس آ کر انہیں یہ بات بتائی تو عائشہ (رض) خاموش رہیں، یہاں تک کہ نبی اکرم  ﷺ  آئے تو عائشہ (رض) نے آپ کو اس کی خبر دی۔ نبی اکرم  ﷺ  بھی خاموش رہے یہاں تک کہ قرآن نازل ہوا «الطلاق مرتان فإمساک بمعروف أو تسريح بإحسان»  طلاق  (رجعی)  دو ہیں، پھر یا تو معروف اور بھلے طریقے سے روک لینا ہے یا بھلائی سے رخصت کردینا ہے   (البقرہ : ٢٢٩) ۔ عائشہ (رض) کہتی ہیں : تو لوگوں نے طلاق کو آئندہ نئے سرے سے شمار کرنا شروع کیا، جس نے طلاق دے رکھی تھی اس نے بھی، اور جس نے نہیں دی تھی اس نے بھی۔    تخریج دارالدعوہ :  تفرد بہ المؤلف  ( تحفة الأشراف : ١٧٣٣٧) (ضعیف) (سند میں ” یعلی “ لین الحدیث ہیں) لیکن ابن عباس (رض) کی روایت سے اس کا معنی صحیح ہے (دیکھئے ارواء رقم : ٢٠٨٠)    قال الشيخ الألباني :  ضعيف، الإرواء (7 / 162)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1192 دوسری سند سے  ہشام بن عروہ نے اپنے والد ہشام سے اسی حدیث کی طرح اسی مفہوم کے ساتھ روایت کی ہے اور اس میں ابوکریب نے عائشہ کے واسطے کا ذکر نہیں کیا ہے۔    امام ترمذی کہتے ہیں : یہ یعلیٰ بن شبیب کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے  (یعنی : مرفوع ہونا زیادہ صحیح ہے) ۔    تخریج دارالدعوہ :  تفرد بہ المؤلف  ( تحفة الأشراف : ١٩٠٣٦) (صحیح)    قال الشيخ الألباني :  ضعيف، الإرواء (7 / 162)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1192
حدیث نمبر: 1192  حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا يَعْلَى بْنُ شَبِيبٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: كَانَ النَّاسُ وَالرَّجُلُ يُطَلِّقُ امْرَأَتَهُ مَا شَاءَ، أَنْ يُطَلِّقَهَا وَهِيَ امْرَأَتُهُ إِذَا ارْتَجَعَهَا وَهِيَ فِي الْعِدَّةِ، وَإِنْ طَلَّقَهَا مِائَةَ مَرَّةٍ أَوْ أَكْثَرَ حَتَّى قَالَ رَجُلٌ لِامْرَأَتِهِ: وَاللَّهِ لَا أُطَلِّقُكِ فَتَبِينِي مِنِّي وَلَا آوِيكِ أَبَدًا، قَالَتْ: وَكَيْفَ ذَاكَ ؟، قَالَ: أُطَلِّقُكِ فَكُلَّمَا هَمَّتْ عِدَّتُكِ أَنْ تَنْقَضِيَ رَاجَعْتُكِ، فَذَهَبَتِ الْمَرْأَةُ حَتَّى دَخَلَتْ عَلَى عَائِشَةَ فَأَخْبَرَتْهَا، فَسَكَتَتْ عَائِشَةُ حَتَّى جَاءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرَتْهُ، فَسَكَتَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى نَزَلَ الْقُرْآنُ: الطَّلاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ سورة البقرة آية 229، قَالَتْ عَائِشَةُ: فَاسْتَأْنَفَ النَّاسُ الطَّلَاقَ مُسْتَقْبَلًا مَنْ كَانَ طَلَّقَ، وَمَنْ لَمْ يَكُنْ طَلَّقَ.  حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ نَحْوَ هَذَا الْحَدِيثِ بِمَعْنَاهُ وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَ 12 أَبُو عِيسَى: وَهَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ يَعْلَى بْنِ شَبِيبٍ.

তাহকীক:
হাদীস নং: ১১৯৩
طلاق اور لعان کا بیان
وہ حاملہ جو خاوند کی وفات کے بعد جنے
 طلق بن علی (رض) کہتے ہیں کہ  سبیعہ نے اپنے شوہر کی موت کے تئیس یا پچیس دن بعد بچہ جنا، اور جب وہ نفاس سے پاک ہوگئی تو نکاح کے لیے زینت کرنے لگی، اس پر اعتراض کیا گیا، اور نبی اکرم  ﷺ  سے اس کا ذکر کیا گیا تو آپ نے فرمایا :  اگر وہ ایسا کرتی ہے  (تو حرج کی بات نہیں)  اس کی عدت پوری ہوچکی ہے ۔    تخریج دارالدعوہ :  سنن النسائی/الطلاق ٥٦ (٣٥٣٩) ، سنن ابن ماجہ/الطلاق ٧ (٢٠٢٧) ، مسند احمد (٤/٣٠٥) (تحفة الأشراف : ١٢٠٥٣) (صحیح) (شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے، ورنہ سند میں انقطاع ہے جسے مولف نے بیان کردیا ہے)    قال الشيخ الألباني :  صحيح، ابن ماجة (2027)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1193
حدیث نمبر: 1193  حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا شَيْبَانُ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ الْأَسْوَدِ، عَنْ أَبِي السَّنَابِلِ بْنِ بَعْكَكٍ، قَالَ: وَضَعَتْ سُبَيْعَةُ بَعْدَ وَفَاةِ زَوْجِهَا بِثَلَاثَةٍ وَعِشْرِينَ، أَوْ خَمْسَةٍ وَعِشْرِينَ يَوْمًا فَلَمَّا تَعَلَّتْ، تَشَوَّفَتْ لِلنِّكَاحِ فَأُنْكِرَ عَلَيْهَا، فَذُكِرَ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:  إِنْ تَفْعَلْ فَقَدْ حَلَّ أَجَلُهَا .  

তাহকীক:
হাদীস নং: ১১৯৪
طلاق اور لعان کا بیان
وہ حاملہ جو خاوند کی وفات کے بعد جنے
 سلیمان بن یسار کہتے ہیں کہ  ابوہریرہ، ابن عباس اور ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن (رض) نے آپس میں اس حاملہ عورت کا ذکر کیا جس کا شوہر فوت ہوچکا ہو اور اس نے شوہر کی وفات کے بعد بچہ جنا ہو، ابن عباس (رض) کا کہنا تھا کہ وضع حمل اور چار ماہ دس دن میں سے جو مدت بعد میں پوری ہوگی اس کے مطابق وہ عدت گزارے گی، اور ابوسلمہ کا کہنا تھا کہ جب اس نے بچہ جن دیا تو اس کی عدت پوری ہوگئی، اس پر ابوہریرہ (رض) نے کہا : میں اپنے بھتیجے یعنی ابوسلمہ کے ساتھ ہوں۔ پھر ان لوگوں نے  (ایک شخص کو)  ام المؤمنین ام سلمہ (رض) کے پاس  (مسئلہ معلوم کرنے کے لیے)  بھیجا، تو انہوں نے کہا : سبیعہ اسلمیہ نے اپنے شوہر کی وفات کے کچھ ہی دنوں بعد بچہ جنا۔ پھر اس نے رسول اللہ  ﷺ  سے  (شادی کے سلسلے میں)  مسئلہ پوچھا تو آپ نے اسے  (دم نفاس ختم ہوتے ہی)  شادی کرنے کی اجازت دے دی۔    امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔    تخریج دارالدعوہ :  صحیح البخاری/تفسیر سورة الطلاق ٢ (٤٩٠٩) ، صحیح مسلم/الطلاق ٨ (١٤٨٥) ، سنن النسائی/الطلاق ٥٦ (٣٥٤٢) ، ٣٥٤٤) ، مسند احمد (٦/٢٨٩) ، سنن الدارمی/الطلاق ١١ (٢٣٢٥) (تحفة الأشراف : ١٨١٥٧ و ١٨٢٠٦) (صحیح) وأخرجہ کل من : صحیح البخاری/الطلاق ٣٩ (٥٣١٨) ، صحیح مسلم/الطلاق (المصدر المذکور) ، سنن النسائی/الطلاق ٥٦ (٣٥٣٩، ٣٥٤٠، ٣٥٤١، ٣٥٤٣، ٣٥٤٥، ٣٥٤٦، ٣٥٤٧) ، مسند احمد (٦/٣١٢، ٣١٩) من غیر ہذا الوجہ، ولہ أیضا طرق أخری بسیاق آخر، انظر حدیث رقم (٢٣٠٦) ، عند أبي داود و ٣٥٤٨) عند النسائي۔    قال الشيخ الألباني :  صحيح، الإرواء (2113) ، صحيح أبي داود تحت الحديث (1196)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1194
حدیث نمبر: 1194  حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ، وَابْنَ عَبَّاسٍ، وَأَبَا سَلَمَةَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، تَذَاكَرُوا الْمُتَوَفَّى عَنْهَا زَوْجُهَا الْحَامِلَ تَضَعُ عِنْدَ وَفَاةِ زَوْجِهَا، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: تَعْتَدُّ آخِرَ الْأَجَلَيْنِ، وَقَالَ أَبُو سَلَمَةَ: بَلْ تَحِلُّ حِينَ تَضَعُ، وَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: أَنَا مَعَ ابْنِ أَخِي يَعْنِي أَبَا سَلَمَةَ، فَأَرْسَلُوا إِلَى أُمِّ سَلَمَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ: قَدْ وَضَعَتْ سُبَيْعَةُ الْأَسْلَمِيَّةُ بَعْدَ وَفَاةِ زَوْجِهَا بِيَسِيرٍ، فَاسْتَفْتَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَمَرَهَا أَنْ تَتَزَوَّجَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.

তাহকীক: