আল জামিউল কাবীর- ইমাম তিরমিযী রহঃ (উর্দু)

الجامع الكبير للترمذي

خرید وفروخت کا بیان - এর পরিচ্ছেদসমূহ

মোট হাদীস ২০ টি

হাদীস নং: ১২০৪
خرید وفروخت کا بیان
شبہات کو ترک کرنا
نعمان بن بشیر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : حلال واضح ہے اور حرام بھی واضح ہے اور اس کے درمیان بہت سی چیزیں شبہ والی ہیں ١ ؎ جنہیں بہت سے لوگ نہیں جانتے ہیں کہ یہ حلال کے قبیل سے ہیں یا حرام کے۔ تو جس نے اپنے دین کو پاک کرنے اور اپنی عزت بچانے کے لیے انہیں چھوڑے رکھا تو وہ مامون رہا اور جو ان میں سے کسی میں پڑگیا یعنی انہیں اختیار کرلیا تو قریب ہے کہ وہ حرام میں مبتلا ہوجائے، جیسے وہ شخص جو سرکاری چراگاہ کے قریب (اپنا جانور) چرا رہا ہو، قریب ہے کہ وہ اس میں واقع ہوجائے، جان لو کہ ہر بادشاہ کی ایک چراگاہ ہوتی ہے اور اللہ کی چراگاہ اس کی حرام کردہ چیزیں ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الإیمان ٣٩ (٥٢) ، والبیوع ٢ (٢٠٥١) ، صحیح مسلم/المساقاة ٢٠ (البیوع ٤٠) ، (١٥٩٩) ، سنن ابی داود/ البیوع ٣ (٣٣٢٩) ، سنن النسائی/البیوع ٢ (٤٤٥٨) ، سنن ابن ماجہ/الفتن ١٤ (٢٩٨٤) ، (تحفة الأشراف : ١١٦٢٤) ، مسند احمد (٤/٢٦٧، ٢٦٩، ٢٧٠، ٢٧١، ٢٧٥) ، سنن الدارمی/البیوع ١ (٢٥٧٣) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : مشتبہات (شبہ والی چیزوں) سے مراد ایسے امور و معاملات ہیں جن کی حلت و حرمت سے اکثر لوگ ناواقف ہوتے ہیں ، تقویٰ یہ ہے کہ انہیں اختیار کرنے سے انسان گریز کرے ، اور جو شخص حلت و حرمت کی پرواہ کئے بغیر ان میں ملوث ہوگیا تو سمجھ لو وہ حرام میں مبتلا ہوگیا ، اس میں تجارت اور کاروبار کرنے والوں کے لیے بڑی تنبیہ ہے کہ وہ صرف ایسے طریقے اختیار کریں جو واضح طور پر حلال ہوں اور مشتبہ امور و معاملات سے اجتناب کریں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3984) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1205
حدیث نمبر: 1205 حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، أَنْبَأَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ مُجَالِدٍ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ، قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ الْحَلَالُ بَيِّنٌ وَالْحَرَامُ بَيِّنٌ، ‏‏‏‏‏‏وَبَيْنَ ذَلِكَ أُمُورٌ مُشْتَبِهَاتٌ لَا يَدْرِي كَثِيرٌ مِنَ النَّاسِ، ‏‏‏‏‏‏أَمِنَ الْحَلَالِ هِيَ أَمْ مِنَ الْحَرَامِ، ‏‏‏‏‏‏فَمَنْ تَرَكَهَا اسْتِبْرَاءً لِدِينِهِ وَعِرْضِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَدْ سَلِمَ، ‏‏‏‏‏‏وَمَنْ وَاقَعَ شَيْئًا مِنْهَا يُوشِكُ أَنْ يُوَاقِعَ الْحَرَامَ، ‏‏‏‏‏‏كَمَا أَنَّهُ مَنْ يَرْعَى حَوْلَ الْحِمَى، ‏‏‏‏‏‏يُوشِكُ أَنْ يُوَاقِعَهُ، ‏‏‏‏‏‏أَلَا وَإِنَّ لِكُلِّ مَلِكٍ حِمًى، ‏‏‏‏‏‏أَلَا وَإِنَّ حِمَى اللَّهِ مَحَارِمُهُ .
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১২০৫
خرید وفروخت کا بیان
N/A
میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”حلال واضح ہے اور حرام بھی واضح ہے اور اس کے درمیان بہت سی چیزیں شبہ والی ہیں ۱؎ جنہیں بہت سے لوگ نہیں جانتے ہیں کہ یہ حلال کے قبیل سے ہیں یا حرام کے۔ تو جس نے اپنے دین کو پاک کرنے اور اپنی عزت بچانے کے لیے انہیں چھوڑے رکھا تو وہ مامون رہا اور جو ان میں سے کسی میں پڑ گیا یعنی انہیں اختیار کر لیا تو قریب ہے کہ وہ حرام میں مبتلا ہو جائے، جیسے وہ شخص جو سرکاری چراگاہ کے قریب ( اپنا جانور ) چرا رہا ہو، قریب ہے کہ وہ اس میں واقع ہو جائے، جان لو کہ ہر بادشاہ کی ایک چراگاہ ہوتی ہے اور اللہ کی چراگاہ اس کی حرام کردہ چیزیں ہیں“۔ دوسری سند سے مؤلف نے شعبی سے اور انہوں نے نے نعمان بن بشیر رضی الله عنہما سے اسی طرح کی اسی مفہوم کی حدیث روایت کی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے، اسے کئی رواۃ نے شعبی سے اور شعبی نے نعمان بن بشیر سے روایت کیا ہے۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، أَنْبَأَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ مُجَالِدٍ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ، قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ الْحَلَالُ بَيِّنٌ وَالْحَرَامُ بَيِّنٌ، ‏‏‏‏‏‏وَبَيْنَ ذَلِكَ أُمُورٌ مُشْتَبِهَاتٌ لَا يَدْرِي كَثِيرٌ مِنَ النَّاسِ، ‏‏‏‏‏‏أَمِنَ الْحَلَالِ هِيَ أَمْ مِنَ الْحَرَامِ، ‏‏‏‏‏‏فَمَنْ تَرَكَهَا اسْتِبْرَاءً لِدِينِهِ وَعِرْضِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَدْ سَلِمَ، ‏‏‏‏‏‏وَمَنْ وَاقَعَ شَيْئًا مِنْهَا يُوشِكُ أَنْ يُوَاقِعَ الْحَرَامَ، ‏‏‏‏‏‏كَمَا أَنَّهُ مَنْ يَرْعَى حَوْلَ الْحِمَى، ‏‏‏‏‏‏يُوشِكُ أَنْ يُوَاقِعَهُ، ‏‏‏‏‏‏أَلَا وَإِنَّ لِكُلِّ مَلِكٍ حِمًى، ‏‏‏‏‏‏أَلَا وَإِنَّ حِمَى اللَّهِ مَحَارِمُهُ . حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ زَكَرِيَّا بْنِ أَبِي زَائِدَةَ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ بِمَعْنَاهُ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ رَوَاهُ غَيْرُ وَاحِدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الشَّعْبِيِّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১২০৬
خرید وفروخت کا بیان
سود کھانا
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے سود لینے والے، سود دینے والے، اس کے دونوں گواہوں اور اس کے لکھنے والے پر لعنت بھیجی ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - عبداللہ بن مسعود کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں عمر، علی، جابر اور ابوجحیفہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ البیوع ٤ (٣٣٣٣) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ٥٨ (٢٢٧٧) ، (تحفة الأشراف : ٩٣٥٦) ، مسند احمد (١/٣٩٩٣، ٤٠٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس سے سود کی حرمت سے شدت ظاہر ہوتی ہے کہ سود لینے اور دینے والوں کے علاوہ گواہوں اور معاہدہ لکھنے والوں پر بھی لعنت بھیجی گئی ہے ، حالانکہ مؤخرالذ کر دونوں حضرات کا اس میں کوئی حصہ نہیں ہوتا ، لیکن صرف یک گو نہ تعاون کی وجہ سے ہی ان کو بھی ملعون قرار دے دیا گیا ، گویا سودی معاملے میں کسی قسم کا تعاون بھی لعنت اور غضب الٰہی کا باعث ہے کیونکہ سود کی بنیاد خود غرضی ، دوسروں کے استحصال اور ظلم پر قائم ہوتی ہے اور اسلام ایسا معاشرہ تعمیر کرنا چاہتا ہے جس کی بنیاد بھائی چارہ ، اخوت ہمدردی ، ایثار اور قربانی پر ہو۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2277) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1206
حدیث نمبر: 1206 حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ:‏‏‏‏ لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ آكِلَ الرِّبَا، ‏‏‏‏‏‏وَمُؤْكِلَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَشَاهِدَيْهِ وَكَاتِبَهُ . قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏وَعَلِيٍّ، ‏‏‏‏‏‏وَجَابِرٍ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبِي جُحَيْفَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ حَدِيثُ عَبْدِ اللَّهِ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১২০৭
خرید وفروخت کا بیان
جھوٹ اور جھوٹی گواہی دینے کی مذمت
انس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے کبیرہ گناہوں ١ ؎ سے متعلق فرمایا : اللہ کے ساتھ شرک کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا، کسی کو (ناحق) قتل کرنا اور جھوٹی بات کہنا (کبائر میں سے ہیں ٢ ؎ ) ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - انس کی حدیث حسن صحیح غریب ہے، ٢ - اس باب میں ابوبکرہ، ایمن بن خریم اور ابن عمر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الشہادات ١٠ (٢٦٥٣) ، والأدب ٦ (٦٨٧١) ، صحیح مسلم/الإیمان ٣٨ (٨٨) ، سنن النسائی/المحاربہ (تحریم الدم) ٣ (٤٠١٥) ، والقسامة ٤٨ (٤٨٧١) ، (التحفہ : ١٠٧٧) مسند احمد ٣/١٣١، ١٣٤) والمؤلف في تفسیر النساء (٣٠١٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : کبیرہ گناہ وہ ہے جس کے ارتکاب پر قرآن کریم یا حدیث شریف میں سخت وعید وارد ہو۔ ٢ ؎ : کبیرہ گناہ اور بھی بہت سارے ہیں یہاں موقع کی مناسبت سے چند ایک کا تذکرہ فرمایا گیا ہے ، یا مقصد یہ بتانا ہے کہ یہ چند مذکورہ گناہ کبیرہ گناہوں میں سب سے زیادہ خطرناک ہیں۔ یہاں مولف کے اس حدیث کو کتاب البیوع میں ذکر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ خرید و فروخت میں بھی جھوٹ کی وہی قباحت ہے جو عام معاملات میں ہے ، مومن تاجر کو اس سے پرہیز کرنا چاہیئے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح غاية المرام (277) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1207
حدیث نمبر: 1207 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى الصَّنْعَانِيُّ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ، عَنْ شُعْبَةَ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ أَنَسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْكَبَائِرِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ الشِّرْكُ بِاللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏وَعُقُوقُ الْوَالِدَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَتْلُ النَّفْسِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَوْلُ الزُّورِ . قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي بَكْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَأَيْمَنَ بْنِ خُرَيْمٍ، ‏‏‏‏‏‏وَابْنِ عُمَرَ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ حَدِيثُ أَنَسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১২০৮
خرید وفروخت کا بیان
اس بارے میں کہ تاجروں کو نبی کریم ﷺ کا تجار کا خطاب دینا
قیس بن ابی غرزہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے، ہم (اس وقت) «سماسرہ» ١ ؎ (دلال) کہلاتے تھے، آپ نے فرمایا : اے تاجروں کی جماعت ! خرید و فروخت کے وقت شیطان اور گناہ سے سابقہ پڑ ہی جاتا ہے، لہٰذا تم اپنی خرید فروخت کو صدقہ کے ساتھ ملا لیا کرو ٢ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - قیس بن ابی غرزہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اسے منصور نے بسند «الأعمش وحبيب بن أبي ثابت» ، اور دیگر کئی لوگوں نے بسند «أبي وائل عن قيس بن أبي غرزة» سے روایت کیا ہے۔ ہم اس کے علاوہ قیس کی کوئی اور حدیث نہیں جانتے جسے انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہو، ٣ - ٤ - اس باب میں براء بن عازب اور رفاعہ سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ البیوع ١ (٣٣٢٦) ، سنن النسائی/الأیمان والنذور ٢٢ (٣٨٣١) ، والبیوع ٧ (٤٤٧٥) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ٣ (٣١٤٥) ، (تحفة الأشراف : ١١١٠٣) ، مسند احمد (٤/٦، ٢٨٠) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : «سماسرہ» ، «سمسار» کی جمع ہے ، یہ عجمی لفظ ہے ، چونکہ عرب میں اس وقت عجم زیادہ تجارت کرتے تھے اس لیے ان کے لیے یہی لفظ رائج تھا ، نبی اکرم ﷺ نے ان کے لیے «تجار» کا لفظ پسند کیا جو عربی ہے ، «سمسار» اصل میں اس شخص کو کہتے ہیں جو بائع (بیچنے والے) اور مشتری (خریدار) کے درمیان دلالی کرتا ہے۔ ٢ ؎ : یعنی صدقہ کر کے اس کی تلافی کرلیا کرو۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2145) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1208
حدیث نمبر: 1208 حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي غَرَزَةَ، قَالَ:‏‏‏‏ خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ نُسَمَّى السَّمَاسِرَةَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ يَا مَعْشَرَ التُّجَّارِ، ‏‏‏‏‏‏إِنَّ الشَّيْطَانَ، ‏‏‏‏‏‏وَالْإِثْمَ، ‏‏‏‏‏‏يَحْضُرَانِ الْبَيْعَ فَشُوبُوا بَيْعَكُمْ بِالصَّدَقَةِ . قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ، ‏‏‏‏‏‏وَرِفَاعَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ حَدِيثُ قَيْسِ بْنِ أَبِي غَرَزَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏رَوَاهُ مَنْصُورٌ، وَالْأَعْمَشُ، وَحَبِيبُ بْنُ أَبِي ثَابِتٍ، وغير واحد، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْقَيْسِ بْنِ أَبِي غَرَزَةَ، وَلَا نَعْرِفُ لِقَيْسٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَيْرَ هَذَا.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১২০৯
خرید وفروخت کا بیان
اس بارے میں کہ تاجروں کو نبی کریم ﷺ کا تجار کا خطاب دینا
ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : سچا اور امانت دار تاجر (قیامت کے دن) انبیاء، صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہوگا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن ہے، ہم اسے بروایت ثوری صرف اسی سند سے جانتے ہیں انہوں نے ابوحمزہ سے روایت کی ہے، ٢ - اور ابوحمزہ کا نام عبداللہ بن جابر ہے اور وہ بصرہ کے شیخ ہیں - تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٣٩٩٤) (صحیح) (ابن ماجہ (٢١٣٩) اور مستدرک الحاکم (٢١٤٢) میں یہ حدیث ابن عمر سے آئی ہے جس میں نبيين اور صديقين کا ذکر نہیں ہے، اور اس میں ایک راوی کلثوم بن جو شن ہیں، جس کے بارے میں حاکم کہتے ہیں کہ وہ قلیل الحدیث ہیں، اور بخاری ومسلم نے ان سے روایت نہیں کی ہے، اور اور حسن بصری کی مرسل روایت اس حدیث کی شاہد ہے، ابو حاتم الرازی نے ان کو ضعیف الحدیث کہا ہے، اور ابن معین نے لیس بہ بأس، اور امام بخاری نے توثیق کی ہے، اور حافظ ابن حجر نے ضعیف کہا ہے، خلاصہ یہ ہے کہ یہ متکلم فیہ راوی ہیں، لیکن ان کی حدیث سے ابو سعید خدری کی حدیث جس میں حسن بصری ہیں، کو تقویت مل گئی، اسی وجہ سے البانی صاحب نے ابو سعید خدری کی حدیث کو صحیح لغیرہ کہا، اور ابن عمر کی حدیث کو حسن صحیح، نیز ملاحظہ ہو : صحیح الترغیب والترہیب ١٧٨٢، وتراجع الألبانی ٥٢٥ ) قال الشيخ الألباني : ضعيف غاية المرام (167) ، أحاديث البيوع // ضعيف الجامع الصغير (2501) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1209
حدیث نمبر: 1209 حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِي حَمْزَةَ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ التَّاجِرُ الصَّدُوقُ الْأَمِينُ مَعَ النَّبِيِّينَ، ‏‏‏‏‏‏وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ . قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، ‏‏‏‏‏‏لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، ‏‏‏‏‏‏مِنْ حَدِيثِ الثَّوْرِيِّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي حَمْزَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبُو حَمْزَةَ اسْمَهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَابِرٍ وَهُوَ شَيْخٌ بَصْرِيٌّ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১২১০
خرید وفروخت کا بیان
اس بارے میں کہ تاجروں کو نبی کریم ﷺ کا تجار کا خطاب دینا
رفاعہ (رض) سے روایت ہے کہ وہ نبی اکرم ﷺ کے ہمراہ عید گاہ کی طرف نکلے، آپ نے لوگوں کو خرید و فروخت کرتے دیکھا تو فرمایا : اے تاجروں کی جماعت ! تو لوگ رسول اللہ ﷺ کی بات سننے لگے اور انہوں نے آپ کی طرف اپنی گردنیں اور نگاہیں اونچی کرلیں، آپ نے فرمایا : تاجر لوگ قیامت کے دن گنہگار اٹھائے جائیں گے سوائے اس کے جو اللہ سے ڈرے نیک کام کرے اور سچ بولے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اسماعیل بن عبید بن رفاعہ کو اسماعیل بن عبیداللہ بن رفاعہ بھی کہا جاتا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/التجارات ٣ (٢١٤٦) (ضعیف) (اس کے راوی ” اسماعیل بن عبید بن رفاعہ “ لین الحدیث ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، ابن ماجة (2146) // ضعيف سنن ابن ماجة (467) ، المشکاة (2799) ، غاية المرام (138) ، ضعيف الجامع الصغير (6405) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1210
حدیث نمبر: 1210 حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ يَحْيَى بْنُ خَلَفٍ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُثْمَانَ بْنِ خُثَيْمٍ، عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ عُبَيْدِ بْنِ رِفَاعَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنَّهُ خَرَجَ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْمُصَلَّى، ‏‏‏‏‏‏فَرَأَى النَّاسَ يَتَبَايَعُونَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ يَا مَعْشَرَ التُّجَّارِ ، ‏‏‏‏‏‏فَاسْتَجَابُوا لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَفَعُوا أَعْنَاقَهُمْ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبْصَارَهُمْ إِلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ إِنَّ التُّجَّارَ يُبْعَثُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فُجَّارًا إِلَّا مَنِ اتَّقَى اللَّهَ وَبَرَّ، ‏‏‏‏‏‏وَصَدَقَ . قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَيُقَالُ إِسْمَاعِيل بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ رِفَاعَةَ أَيْضًا.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১২১১
خرید وفروخت کا بیان
سود پر جھوٹی قسم کھانا
ابوذر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : تین لوگ ایسے ہیں جن کی طرف اللہ تعالیٰ قیامت کے دن نہ (رحمت کی نظر سے) نہیں دیکھے گا، نہ انہیں (گناہوں سے) پاک کرے گا، اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہوگا ، ہم نے پوچھا : اللہ کے رسول ! یہ کون لوگ ہیں ؟ یہ تو نقصان اور گھاٹے میں رہے، آپ نے فرمایا : احسان جتانے والا، اپنے تہبند (ٹخنے سے نیچے) لٹکانے والا ١ ؎ اور جھوٹی قسم کے ذریعہ اپنے سامان کو رواج دینے والا ٢ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - ابوذر کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں ابن مسعود، ابوہریرہ، ابوامامہ بن ثعلبہ، عمران بن حصین اور معقل بن یسار (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإیمان ٤٦ (١٠٦) ، سنن ابی داود/ اللباس ٢٨ (٤٠٧) ، سنن النسائی/الزکاة ٦٩ (٤٦٥٢) ، والبیوع ٥ (٤٤٦٤) ، والزینة ١٠٤ (٥٣٣٥) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ٣٠ (٢٢٠٨) ، (تحفة الأشراف : ١١٩٠٩) ، مسند احمد (٤/١٤٨، ١٥٨، ١٦٢، ١٦٨، ١٧٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس سے معلوم ہوا کہ تہبند ٹخنے سے نیچے لٹکانا ، حرام ہے ، تہبند ہی کے حکم میں شلوار یا پاجامہ اور پتلون وغیرہ بھی ہے ، واضح رہے کہ یہ حکم مردوں کے لیے ہے عورتوں کے لیے اس کے برعکس ٹخنے بلکہ پیر تک بھی ڈھکنے ضروری ہیں۔ ٢ ؎ : جھوٹی قسم کھانا مطلقاً حرام ہے لیکن سودا بیچنے کے لیے گاہک کو دھوکہ دینے کی نیت سے جھوٹی قسم کھانا اور زیادہ بڑا جرم ہے ، اس میں دو جرم اکٹھے ہوجاتے ہیں : ایک تو جھوٹی قسم کھانے کا جرم دوسرے دھوکہ دہی کا جرم۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2208) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1211
حدیث نمبر: 1211 حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، قَالَ:‏‏‏‏ أَنْبَأَنَا شُعْبَةُ، قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنِي عَلِيُّ بْنُ مُدْرِكٍ، قَال:‏‏‏‏ سَمِعْتُ أَبَا زُرْعَةَ بْنَ عَمْرِو بْنِ جَرِيرٍ يُحَدِّثُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ خَرَشَةَ بْنِ الْحَرِّ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ ثَلَاثَةٌ لَا يَنْظُرُ اللَّهُ إِلَيْهِمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا يُزَكِّيهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ، ‏‏‏‏‏‏قُلْنَا:‏‏‏‏ مَنْ هُمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ ؟ فَقَدْ خَابُوا وَخَسِرُوا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ الْمَنَّانُ، ‏‏‏‏‏‏وَالْمُسْبِلُ إِزَارَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَالْمُنَفِّقُ سِلْعَتَهُ بِالْحَلِفِ الْكَاذِبِ . قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبِي هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبِي أُمَامَةَ بْنِ ثَعْلَبَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَعِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، ‏‏‏‏‏‏وَمَعْقِلِ بْنِ يَسَارٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ حَدِيثُ أَبِي ذَرٍّ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১২১২
خرید وفروخت کا بیان
صبح سویرے تجارت
صخر غامدی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اے اللہ ! میری امت کو اس کے دن کے ابتدائی حصہ میں برکت دے ١ ؎ صخر کہتے ہیں کہ آپ جب کسی سریہ یا لشکر کو روانہ کرتے تو اسے دن کے ابتدائی حصہ میں روانہ کرتے۔ اور صخر ایک تاجر آدمی تھے۔ جب وہ تجارت کا سامان لے کر (اپنے آدمیوں کو) روانہ کرتے تو انہیں دن کے ابتدائی حصہ میں روانہ کرتے۔ تو وہ مالدار ہوگئے اور ان کی دولت بڑھ گئی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - صخر غامدی کی حدیث حسن ہے۔ ہم اس حدیث کے علاوہ صخر غامدی کی کوئی اور حدیث نہیں جانتے جسے انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہو، ٢ - اس باب میں علی، ابن مسعود، بریدہ، انس، ابن عمر، ابن عباس، اور جابر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الجہاد ٨٥ (٢٦٠٦) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ٤١ (٢٦٣٦) (تحفة الأشراف : ٤٨٥٢) ، مسند احمد (٣/٤١٦، ٤١٧، ٤٣٢) ، و (٤/٣٨٤، ٣٩٠، ٣٩١) ، سنن الدارمی/السیر ١ (٢٤٧٩) (صحیح) دون قولہ ” وکان إذا بعث سریة أو جیش، بعثہم أول النہار “ فإنہ ضعیف) (متابعات وشواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ اس کے راوی ” عمارہ بن جدید “ مجہول ہں ٢، اور ان کے مذکورہ ” ضعیف “ جملے کا کوئی متابع وشاہد نہیں ہے، تراجع الالبانی ٢٧٧، وصحیح ابی داود ط ۔ غر اس ٢٣٤٥ ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ سفر تجارت ہو یا اور کوئی کام ہو ان کا آغاز دن کے پہلے پہر سے کرنا زیادہ مفید اور بابرکت ہے ، اس وقت انسان تازہ دم ہوتا ہے اور قوت عمل وافر ہوتی ہے جو ترقی اور برکت کا باعث بنتی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2236) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1212
حدیث نمبر: 1212 حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدَّوْرَقِيُّ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، حَدَّثَنَا يَعْلَى بْنُ عَطَاءٍ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ حَدِيدٍ، عَنْ صَخْرٍ الْغَامِدِيِّ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ اللَّهُمَّ بَارِكْ لِأُمَّتِي فِي بُكُورِهَا ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَكَانَ إِذَا بَعَثَ سَرِيَّةً، ‏‏‏‏‏‏أَوْ جَيْشًا بَعَثَهُمْ أَوَّلَ النَّهَارِ، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ صَخْرٌ رَجُلًا تَاجِرًا، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ إِذَا بَعَثَ تِجَارَةً بَعَثَهُمْ أَوَّلَ النَّهَارِ، ‏‏‏‏‏‏فَأَثْرَى، ‏‏‏‏‏‏وَكَثُرَ مَالُهُ. قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَلِيٍّ، ‏‏‏‏‏‏وَابْنِ مَسْعُودٍ، ‏‏‏‏‏‏وَبُرَيْدَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنَسٍ، ‏‏‏‏‏‏وَابْنِ عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏وَابْنِ عَبَّاسٍ، ‏‏‏‏‏‏وَجَابِرٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ حَدِيثُ صَخْرٍ الْغَامِدِيِّ حَدِيثٌ حَسَنٌ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا نَعْرِفُ لِصَخْرٍ الْغَامِدِيِّ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَيْرَ هَذَا الْحَدِيثِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ رَوَى سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ يَعْلَى بْنِ عَطَاءٍ هَذَا الْحَدِيثَ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১২১৩
خرید وفروخت کا بیان
کسی چیز کی قیمت معینہ مدت تک ادھار کرنا جائز ہے۔
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے جسم مبارک پر دو موٹے قطری کپڑے تھے، جب آپ بیٹھتے اور پسینہ آتا تو وہ آپ پر بوجھل ہوجاتے، شام سے فلاں یہودی کے کپڑے آئے۔ تو میں نے عرض کیا : کاش ! آپ اس کے پاس کسی کو بھیجتے اور اس سے دو کپڑے اس وعدے پر خرید لیتے کہ جب گنجائش ہوگی تو قیمت دے دیں گے، آپ نے اس کے پاس ایک آدمی بھیجا، تو اس نے کہا : جو وہ چاہتے ہیں مجھے معلوم ہے، ان کا ارادہ ہے کہ میرا مال یا میرے دراہم ہڑپ کرلیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : وہ جھوٹا ہے، اسے خوب معلوم ہے کہ میں لوگوں میں اللہ سے سب سے زیادہ ڈرنے والا اور امانت کو سب سے زیادہ ادا کرنے والا ہوں ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - عائشہ (رض) کی حدیث حسن غریب صحیح ہے، ٢ - اسے شعبہ نے بھی عمارہ بن ابی حفصہ سے روایت کیا ہے، ٣ - ابوداؤد طیالسی کہتے ہیں : ایک دن شعبہ سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا : میں تم سے اس وقت اسے نہیں بیان کرسکتا جب تک کہ تم کھڑے ہو کر حرمی بن عمارہ بن ابی حفصہ (جو اس حدیث کے ایک راوی ہیں) کا سر نہیں چومتے اور حرمی (وہاں) لوگوں میں موجود تھے، انہوں نے اس حدیث سے حد درجہ خوش ہوتے ہوئے یہ بات کہی، ٤ - اس باب میں ابن عباس، انس اور اسماء بنت یزید (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/البیوع ٧٠ (٤٦٣٢) ، مسند احمد (٦/١٤٧) (تحفة الأشراف : ١٧٤٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس سے معلوم ہوا کہ ایک معینہ مدت تک کے لیے ادھار سودا کرنا درست ہے کیونکہ آپ نے اس طرح کی بیع پر اعتراض نہیں کیا بلکہ اس یہودی کے پاس اس کے لیے آدمی بھیجا ، اسی سے باب پر استدلال ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح أحاديث البيوع صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1213
حدیث نمبر: 1213 حَدَّثَنَا أَبُو حَفْصٍ عَمَرُو بْنُ عَلِيٍّ، أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، أَخْبَرَنَا عُمَارَةُ بْنُ أَبِي حَفْصَةَ، أَخْبَرَنَا عِكْرِمَةُ، عَنْعَائِشَةَ، قَالَتْ:‏‏‏‏ كَانَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَوْبَانِ قِطْرِيَّانِ غَلِيظَانِ، ‏‏‏‏‏‏فَكَانَ إِذَا قَعَدَ فَعَرِقَ ثَقُلَا عَلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَدِمَ بَزٌّ مِنْ الشَّامِ لِفُلَانٍ الْيَهُودِيِّ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ لَوْ بَعَثْتَ إِلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏فَاشْتَرَيْتَ مِنْهُ ثَوْبَيْنِ إِلَى الْمَيْسَرَةِ، ‏‏‏‏‏‏فَأَرْسَلَ إِلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ قَدْ عَلِمْتُ مَا يُرِيدُ إِنَّمَا يُرِيدُ أَنْ يَذْهَبَ بِمَالِي، ‏‏‏‏‏‏أَوْ بِدَرَاهِمِي، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ كَذَبَ قَدْ عَلِمَ أَنِّي مِنْ أَتْقَاهُمْ لِلَّهِ، ‏‏‏‏‏‏وَآدَاهُمْ لِلْأَمَانَةِ . قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنَسٍ، ‏‏‏‏‏‏وَأَسْمَاءَ بِنْتِ يَزِيدَ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ حَدِيثُ عَائِشَةَ، ‏‏‏‏‏‏حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ رَوَاهُ شُعْبَةُ أَيْضًا، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُمَارَةَ بْنِ أَبِي حَفْصَةَ، قَالَ:‏‏‏‏ وسَمِعْت مُحَمَّدَ بْنَ فِرَاسٍ الْبَصْرِيَّ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ أَبَا دَاوُدَ الطَّيَالِسِيَّ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ سُئِلَ شُعْبَةُ يَوْمًا، ‏‏‏‏‏‏عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ فَقَالَ:‏‏‏‏ لَسْتُ أُحَدِّثُكُمْ حَتَّى تَقُومُوا إِلَى حَرَمِيِّ بْنِ عُمَارَةَ بْنِ أَبِي حَفْصَةَ، ‏‏‏‏‏‏فَتُقَبِّلُوا رَأَسَهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَحَرَمِيٌّ فِي الْقَوْمِ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ أَيْ إِعْجَابًا بِهَذَا الْحَدِيثِ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১২১৪
خرید وفروخت کا بیان
کسی چیز کی قیمت معینہ مدت تک ادھار کرنا جائز ہے۔
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کی وفات ہوئی تو آپ کی زرہ بیس صاع غلے کے عوض گروی رکھی ہوئی تھی۔ آپ نے اسے اپنے گھر والوں کے لیے لیا تھا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/البیوع ٨٣ (٤٦٥٥) ، (تحفة الأشراف : ٦٢٢٨) ، سنن الدارمی/البیوع ٤٤ (٢٦٢٤) ، مسند احمد (١/٢٣٦، ٣٦١) ، وأخرجہ کل من : سنن ابن ماجہ/الرہون ١ (٢٤٣٩) ، مسند احمد (١/٣٠٠) من غیر ہذا الوجہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2239) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1214
حدیث نمبر: 1214 حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، وَعُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ حَسَّانَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:‏‏‏‏ تُوُفِّيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَدِرْعُهُ مَرْهُونَةٌ بِعِشْرِينَ صَاعًا مِنْ طَعَامٍ، ‏‏‏‏‏‏أَخَذَهُ لِأَهْلِهِ . قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১২১৫
خرید وفروخت کا بیان
کسی چیز کی قیمت معینہ مدت تک ادھار کرنا جائز ہے۔
انس (رض) کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کے پاس جو کی روٹی اور پگھلی ہوئی چربی جس میں کچھ تبدیلی آچکی تھی لے کر چلا، آپ کی زرہ ایک یہودی کے پاس بیس صاع غلے کے عوض جسے آپ نے اپنے گھر والوں کے لیے لے رکھا تھا گروی رکھی ہوئی تھی ١ ؎ قتادہ کہتے ہیں میں نے ایک دن انس (رض) کو کہتے ہوئے سنا کہ محمد ﷺ کے گھر والوں کے پاس ایک صاع کھجور یا ایک صاع غلہ شام کو نہیں ہوتا تھا جب کہ اس وقت آپ کے پاس نو بیویاں تھیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ١٤ (٢٠٦٩) ، والرہون ١ (٢٥٠٨) ، سنن ابن ماجہ/الرہون ١ (الأحکام ٦٢) ، (٢٤٣٧) ، (تحفة الأشراف : ١٣٥٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس سے معلوم ہوا کہ اہل کتاب سے ادھار وغیرہ کا معاملہ کرنا جائز ہے ، نبی اکرم ﷺ نے صحابہ کرام میں سے کسی سے ادھار لینے کے بجائے ایک یہودی سے اس لیے ادھار لیا تاکہ لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ اہل کتاب سے اس طرح کا معاملہ کرنا جائز ہے ، یا اس لیے کہ صحابہ کرام آپ سے کوئی معاوضہ یا رقم واپس لینا پسند نہ فرماتے جبکہ آپ کی طبع غیور کو یہ بات پسند نہیں تھی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2437) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1215
حدیث نمبر: 1215 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ هِشَامٍ الدَّسْتُوَائِيِّ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ. ح قَالَ مُحَمَّدٌ:‏‏‏‏ وَحَدَّثَنَامُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ، قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ:‏‏‏‏ مَشَيْتُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِخُبْزِ شَعِيرٍ، ‏‏‏‏‏‏وَإِهَالَةٍ سَنِخَةٍ، ‏‏‏‏‏‏وَلَقَدْ رُهِنَ لَهُ دِرْعٌ، ‏‏‏‏‏‏عِنْدَ يَهُودِيٍّ بِعِشْرِينَ صَاعًا مِنْ طَعَامٍ، ‏‏‏‏‏‏أَخَذَهُ لِأَهْلِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَلَقَدْ سَمِعْتُهُ ذَاتَ يَوْمٍ يَقُولُ:‏‏‏‏ مَا أَمْسَى فِي آلِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَاعُ تَمْرٍ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا صَاعُ حَبٍّ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّ عِنْدَهُ يَوْمَئِذٍ لَتِسْعَ نِسْوَةٍ . قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১২১৬
خرید وفروخت کا بیان
بیع کی شرائط لکھنا
عبدالمجید بن وہب کہتے ہیں کہ مجھ سے عداء بن خالد بن ھوذہ نے کہا : کیا میں تمہیں ایک تحریر نہ پڑھاؤں جو رسول اللہ ﷺ نے میرے لیے لکھی تھی ؟ میں نے کہا : کیوں نہیں، ضرور پڑھائیے، پھر انہوں نے ایک تحریر نکالی، (جس میں لکھا تھا) یہ بیع نامہ ہے ایک ایسی چیز کا جو عداء بن خالد بن ھوذہ نے محمد ﷺ سے خریدی ہے ، انہوں نے آپ سے غلام یا لونڈی کی خریداری اس شرط کے ساتھ کی کہ اس میں نہ کوئی بیماری ہو، نہ وہ بھگیوڑو ہو اور نہ حرام مال کا ہو، یہ مسلمان کی مسلمان سے بیع ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف عباد بن لیث کی روایت سے جانتے ہیں۔ ان سے یہ حدیث محدثین میں سے کئی لوگوں نے روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ١٩ (تعلیقاً فی الترجمة) سنن ابن ماجہ/التجارات ٤٧ (٢٢٥١) (تحفة الأشراف : ٩٨٤٨) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ نبی اکرم ﷺ کی حیات طیبہ میں تحریروں کا رواج عام تھا اور مختلف موضوعات پر احادیث لکھی جاتی تھیں۔ قال الشيخ الألباني : حسن، ابن ماجة (2251) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1216
حدیث نمبر: 1216 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، أَخْبَرَنَا عَبَّادُ بْنُ لَيْثٍ صَاحِبُ الْكَرَابِيسِيِّ الْبَصْرِيُّ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْمَجِيدِ بْنُ وَهْبٍ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ لِي الْعَدَّاءُ بْنُ خَالِدِ بْنِ هَوْذَةَ:‏‏‏‏ أَلَا أُقْرِئُكَ كِتَابًا كَتَبَهُ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قُلْتُ:‏‏‏‏ بَلَى فَأَخْرَجَ لِي كِتَابًا هَذَا مَا اشْتَرَى الْعَدَّاءُ بْنُ خَالِدِ بْنِ هَوْذَةَ، ‏‏‏‏‏‏مِنْ مُحَمَّدٍ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اشْتَرَى مِنْهُ عَبْدًا، ‏‏‏‏‏‏أَوْ أَمَةً، ‏‏‏‏‏‏لَا دَاءَ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا غَائِلَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا خِبْثَةَ بَيْعَ الْمُسْلِمِ الْمُسْلِمَ . قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عَبَّادِ بْنِ لَيْثٍ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ رَوَى عَنْهُ هَذَا الْحَدِيثَ غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْحَدِيثِ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১২১৭
خرید وفروخت کا بیان
ناپ تول
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ناپ تول والوں سے فرمایا : تمہارے دو ایسے کام ١ ؎ کیے گئے ہیں جس میں تم سے پہلے کی امتیں ہلاک ہوگئیں ٢ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ہم اس حدیث کو صرف بروایت حسین بن قیس مرفوع جانتے ہیں، اور حسین بن قیس حدیث میں ضعیف گردانے جاتے ہیں۔ نیز یہ صحیح سند سے ابن عباس سے موقوفاً مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٦٠٢٦) (ضعیف) (سند میں ” حسین بن قیس “ متروک الحدیث راوی ہے، لیکن موقوفا یعنی ابن عباس کے قول سے ثابت ہے جیسا کہ مرفوع روایت کی تضعیف کے بعد امام ترمذی نے خود واضح فرمایا ہے ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی ناپ اور تول۔ اس حدیث کے آغاز میں امام ترمذی نے اپنے استاذ سعید بن یعقوب طالقانی سے اس روایت کی سند کا جو آغاز کیا ہے تو … یہ طالقان موجود افغانستان کے شمال میں واقع ہے ، اور آج بھی وہاں سلفی اہل حدیث لوگ بحمدللہ موجود ہیں اور اپنے اسلاف کے ورثہ حدیث کو تھامے ہوئے ہیں۔ ٢ ؎ : مثلاً شعیب (علیہ السلام) کی قوم جو لینا ہوتا تو پورا پورا لیتی تھی اور دینا ہوتا تو کم دیتی تھی۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف - والصحيح موقوف -، المشکاة (2890 / التحقيق الثاني) ، أحاديث البيوع // ضعيف الجامع الصغير (2040) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1217
حدیث نمبر: 1217 حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ يَعْقُوبَ الطَّالَقَانِيُّ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْوَاسِطِيُّ، عَنْ حُسَيْنِ بْنِ قَيْسٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَصْحَابِ الْمِكْيَالِ وَالْمِيزَانِ:‏‏‏‏ إِنَّكُمْ قَدْ وُلِّيتُمْ أَمْرَيْنِ هَلَكَتْ فِيهِ الْأُمَمُ السَّالِفَةُ قَبْلَكُمْ . قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ لَا نَعْرِفُهُ مَرْفُوعًا إِلَّا، ‏‏‏‏‏‏مِنْ حَدِيثِ حُسَيْنِ بْنِ قَيْسٍ، ‏‏‏‏‏‏وَحُسَيْنُ بْنُ قَيْسٍ يُضَعَّفُ فِي الْحَدِيثِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ رُوِيَ هَذَا بِإِسْنَادٍ صَحِيحٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ مَوْقُوفًا.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১২১৮
خرید وفروخت کا بیان
نیلام کے ذریعے خرید و فروخت کرنا
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک ٹاٹ جو کجاوہ کے نیچے بچھایا جاتا ہے اور ایک پیالہ بیچا، آپ نے فرمایا : یہ ٹاٹ اور پیالہ کون خریدے گا ؟ ایک آدمی نے عرض کیا : میں انہیں ایک درہم میں لے سکتا ہوں ، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ایک درہم سے زیادہ کون دے گا ؟ تو ایک آدمی نے آپ کو دو درہم دیا، تو آپ نے اسی کے ہاتھ سے یہ دونوں چیزیں بیچ دیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن ہے۔ ہم اسے صرف اخضر بن عجلان کی روایت سے جانتے ہیں، ٢ - اور عبداللہ حنفی ہی جنہوں نے انس سے روایت کی ہے ابوبکر حنفی ہیں ١ ؎، ٣ - بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ یہ لوگ غنیمت اور میراث کے سامان کو زیادہ قیمت دینے والے سے بیچنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے ہیں، ٤ - یہ حدیث معتمر بن سلیمان اور دوسرے کئی بڑے لوگوں نے بھی اخضر بن عجلان سے روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الزکاة ٢٦ (١٦٤١) ، سنن النسائی/البیوع ٢٢ (٤٥١٢) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ٢٥ (٢١٩٨) ، مسند احمد (٣/١٠٠) (صحیح) (اس کے راوی ” ابوبکر عبد اللہ حنفی “ مجہول ہیں، لیکن طرق وشواہد کی وجہ سے حدیث صحیح لغیرہ ہے، صحیح الترغیب ٨٣٤، وتراجع الألبانی ١٧٨٠) واضح رہے کہ ابن ماجہ کی تحقیق میں حدیث کی سند کو ضعیف قرار دیا گیا ہے ۔ وضاحت : ١ ؎ : حنفی سے مراد ہے بنو حنیفہ کے ایک فرد ، نہ کہ حنفی المذہب۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف، ابن ماجة (2198) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (478) ، الإرواء (1289) ، المشکاة (2873) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1218
حدیث نمبر: 1218 حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ، أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ شُمَيْطِ بْنِ عَجْلَانَ، حَدَّثَنَا الْأَخْضَرُ بْنُ عَجْلَانَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ الْحَنَفِيِّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَاعَ حِلْسًا وَقَدَحًا، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ:‏‏‏‏ مَنْ يَشْتَرِي هَذَا الْحِلْسَ وَالْقَدَحَ ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَجُلٌ:‏‏‏‏ أَخَذْتُهُمَا بِدِرْهَمٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ مَنْ يَزِيدُ عَلَى دِرْهَمٍ مَنْ يَزِيدُ عَلَى دِرْهَمٍ ، ‏‏‏‏‏‏فَأَعْطَاهُ رَجُلٌ دِرْهَمَيْنِ فَبَاعَهُمَا مِنْهُ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ الْأَخْضَرِ بْنِ عَجْلَانَ، ‏‏‏‏‏‏وَعَبْدُ اللَّهِ الْحَنَفِيُّ، ‏‏‏‏‏‏الَّذِي رَوَى عَنْ أَنَسٍ هُوَ أَبُو بَكْرٍ الْحَنَفِيُّ، ‏‏‏‏‏‏وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ لَمْ يَرَوْا بَأْسًا بِبَيْعِ مَنْ يَزِيدُ فِي الْغَنَائِمِ، ‏‏‏‏‏‏وَالْمَوَارِيثِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ الْمُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ وَغَيْرُ وَاحِدٍ، ‏‏‏‏‏‏مِنْ كِبَارِ النَّاسِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْأَخْضَرِ بْنِ عَجْلَانَ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১২১৯
خرید وفروخت کا بیان
مدبر کی بیع
جابر (رض) سے روایت ہے کہ انصار کے ایک شخص نے ١ ؎ اپنے غلام کو مدبر ٢ ؎ بنادیا (یعنی اس سے یہ کہہ دیا کہ تم میرے مرنے کے بعد آزاد ہو) ، پھر وہ مرگیا، اور اس غلام کے علاوہ اس نے کوئی اور مال نہیں چھوڑا۔ تو نبی اکرم ﷺ نے اسے بیچ دیا ٣ ؎ اور نعیم بن عبداللہ بن نحام نے اسے خریدا۔ جابر کہتے ہیں : وہ ایک قبطی غلام تھا۔ عبداللہ بن زبیر (رض) کی امارت کے پہلے سال وہ فوت ہوا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - یہ جابر بن عبداللہ سے اور بھی سندوں سے مروی ہے۔ ٣ - صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ یہ لوگ مدبر غلام کو بیچنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے ہیں۔ یہی شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے، ٤ - اور صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم نے مدبر کی بیع کو مکروہ جانا ہے۔ یہ سفیان ثوری، مالک اور اوزاعی کا قول ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ البیوع ١١٠ (٢٢٣١) ، صحیح مسلم/الأیمان والنذور ١٣ (٩٩٧) ، سنن ابن ماجہ/العتق ١ (الأحکام ٩٤) ، (٢٥١٣) (تحفة الأشراف : ٢٥٢٦) (صحیح) وأخرجہ کل من : صحیح البخاری/کفارات الأیمان ٧ (٦٧١٦) ، والا کراہ ٤ (٦٩٤٧) ، صحیح مسلم/الأیمان (المصدر المذکور) من غیر ہذا الوجہ ۔ وضاحت : ١ ؎ اس شخص کا نام ابومذکور انصاری تھا اور غلام کا نام یعقوب۔ ٢ ؎ : مدبر وہ غلام ہے جس کا مالک اس سے یہ کہہ دے کہ میرے مرنے کے بعد تو آزاد ہے۔ ٣ ؎ : بعض روایات میں ہے کہ وہ مقروض تھا اس لیے آپ نے اسے بیچا تاکہ اس کے ذریعہ سے اس کے قرض کی ادائیگی کردی جائے اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مدبر غلام کو ضرورت کے وقت بیچنا جائز ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الإرواء (1288) ، أحاديث البيوع صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1219
حدیث نمبر: 1219 حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ جَابِرٍ، أَنَّ رَجُلًا مِنْ الْأَنْصَارِ دَبَّرَ غُلَامًا لَهُ فَمَاتَ، ‏‏‏‏‏‏وَلَمْ يَتْرُكْ مَالًا غَيْرَهُ فَبَاعَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاشْتَرَاهُ نُعَيْمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ النَّحَّامِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ جَابِرٌ:‏‏‏‏ عَبْدًا قِبْطِيًّا مَاتَ عَامَ الْأَوَّلِ فِي إِمَارَةِ ابْنِ الزُّبَيْرِ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَرُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، ‏‏‏‏‏‏لَمْ يَرَوْا بِبَيْعِ الْمُدَبَّرِ بَأْسًا وَهُوَ قَوْلُ:‏‏‏‏ الشَّافِعِيِّ، ‏‏‏‏‏‏وَأَحْمَدَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِسْحَاق، ‏‏‏‏‏‏وَكَرِهَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ بَيْعَ الْمُدَبَّرِ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ قَوْلُ:‏‏‏‏ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، ‏‏‏‏‏‏وَمَالِكٍ، ‏‏‏‏‏‏وَالْأَوْزَاعِيِّ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১২২০
خرید وفروخت کا بیان
بیچنے والے کے استقبال کی ممانعت
عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے مال بیچنے والوں سے بازار میں پہنچنے سے پہلے جا کر ملنے سے منع فرمایا ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : اس باب میں علی، ابن عباس، ابوہریرہ، ابو سعید خدری، ابن عمر، اور ایک اور صحابی (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ٦٤ (٢١٤٩) ، و ٧١ (٢١٦٤) ، صحیح مسلم/البیوع ٥ (١٥١٨) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ١٦ (٢١٨٠) ، مسند احمد (١/٤٣٠) (تحفة الأشراف : ٩٣٧٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2180) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1220
حدیث نمبر: 1220 حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ، أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ التَّيْمِيُّ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ، عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ:‏‏‏‏ نَهَى عَنْ تَلَقِّي الْبُيُوعِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَلِيٍّ، ‏‏‏‏‏‏وَابْنِ عَبَّاسٍ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبِي هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبِي سَعِيدٍ، ‏‏‏‏‏‏وَابْنِ عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏وَرَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১২২১
خرید وفروخت کا بیان
بیچنے والے کے استقبال کی ممانعت
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے باہر سے آنے والے سامانوں کو بازار میں پہنچنے سے پہلے آگے جا کر خرید لینے سے منع فرمایا : اگر کسی آدمی نے مل کر خرید لیا تو صاحب مال کو جب وہ بازار میں پہنچے تو اختیار ہے (چاہے تو وہ بیچے چاہے تو نہ بیچے) ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث ایوب کی روایت سے حسن غریب ہے، ٢ - ابن مسعود کی حدیث حسن صحیح ہے۔ اہل علم کی ایک جماعت نے مال بیچنے والوں سے بازار میں پہنچنے سے پہلے مل کر مال خریدنے کو ناجائز کہا ہے یہ دھوکے کی ایک قسم ہے ہمارے اصحاب میں سے شافعی وغیرہ کا یہی قول ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ البیوع ٤٥ (٣٤٣٧) ، (تحفة الأشراف : ١٤٤٤٨) (صحیح) وأخرجہ کل من : صحیح مسلم/البیوع ٥ (١٥١٩) ، سنن النسائی/البیوع ١٨ (٤٥٠٥) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ١٦ (٢١٧٩) ، مسند احمد (٢/٢٨٤، ٤٠٣، ٤٨٨) من غیر ہذا الوجہ ۔ وضاحت : ١ ؎ : اس کی صورت یہ ہے کہ شہری آدمی بدوی (دیہاتی) سے اس کے شہر کی مارکیٹ میں پہنچنے سے پہلے جا ملے تاکہ بھاؤ کے متعلق بیان کر کے اس سے سامان سستے داموں خرید لے ، ایسا کرنے سے منع کرنے سے مقصود یہ ہے کہ صاحب سامان دھوکہ اور نقصان سے بچ جائے ، چونکہ بیچنے والے کو ابھی بازار کی قیمت کا علم نہیں ہو پایا ہے اس لیے بازار میں پہنچنے سے پہلے اس سے سامان خرید لینے میں اسے دھوکہ ہوسکتا ہے ، اسی لیے یہ ممانعت آئی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2178) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1221
حدیث نمبر: 1221 حَدَّثَنَا سَلَمَةُ بْنُ شَبِيبٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ الرَّقِّيُّ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ نَهَى أَنْ يُتَلَقَّى الْجَلَبُ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنْ تَلَقَّاهُ إِنْسَانٌ فَابْتَاعَهُ فَصَاحِبُ السِّلْعَةِ فِيهَا بِالْخِيَارِ، ‏‏‏‏‏‏إِذَا وَرَدَ السُّوقَ . قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، ‏‏‏‏‏‏مِنْ حَدِيثِ أَيُّوبَ، ‏‏‏‏‏‏وَحَدِيثُ ابْنِ مَسْعُودٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ كَرِهَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ تَلَقِّي الْبُيُوعِ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ ضَرْبٌ مِنَ الْخَدِيعَةِ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ وَغَيْرِهِ، ‏‏‏‏‏‏مِنْ أَصْحَابِنَا.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১২২২
خرید وفروخت کا بیان
کوئی شہری گاؤں والے کی چیز فروخت نہ کرے
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : شہری باہر سے آنے والے دیہاتی کا مال نہ بیچے ١ ؎ (بلکہ دیہاتی کو خود بیچنے دے ) ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : اس باب میں طلحہ، جابر، انس، ابن عباس، ابویزید کثیر بن عبداللہ کے دادا عمرو بن عوف مزنی اور ایک اور صحابی (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ٥٨ (٢١٤٠) ، صحیح مسلم/النکاح ٦ (١٤١٣) ، والبیوع ٦ (١٥٢٠) ، سنن النسائی/النکاح ٢٠ (٣٢٤١) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ١٥ (٢١٧٥) (تحفة الأشراف : ١٣١٢٣) ، مسند احمد (٢/٢٣٨) (صحیح) وأخرجہ کل من : صحیح البخاری/البیوع ٦٤ (٢١٥٠) ، و ٧٠ (٢١٦٠) ، و ٧١ (٢١٦٢) ، والشروط ٨ (٢٧٢٣) ، و ١١ (٢٧٢٧) ، صحیح مسلم/النکاح (المصدر المذکور) ، سنن النسائی/البیوع ١٦ (٤٤٩٦) ، و ١٩ (٤٥٠٦) ، و ٢١ (٤٥١٠) ، مسند احمد (٢/٢٧٤، ٣٩٤، ٤٨٧) من غیر ہذا الوجہ (وانظر أیضا حدیث رقم ١١٣٤ و ١١٩٠) و ١٢٢٢، و ١٣٠٤ ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی اس کا دلال نہ بنے ، کیونکہ ایسا کرنے میں بستی والوں کا خسارہ ہے ، اگر باہر سے آنے والا خود بیچتا ہے تو وہ مسافر ہونے کی وجہ سے بازار میں جس دن پہنچا ہے اسی دن کی قیمت میں اسے بیچ کر اپنے گھر چلا جائے گا اس سے خریداروں کو فائدہ ہوگا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2175) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1222
حدیث نمبر: 1222 حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، وَأَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، قَالَا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ وَقَالَ قُتَيْبَةُ:‏‏‏‏ يَبْلُغُ بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ لَا يَبِيعُ حَاضِرٌ لِبَادٍ . قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب، ‏‏‏‏‏‏عَنْ طَلْحَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَجَابِرٍ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنَسٍ، ‏‏‏‏‏‏وَابْنِ عَبَّاسٍ، ‏‏‏‏‏‏وَحَكِيمِ بْنِ أَبِي يَزِيدَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ، ‏‏‏‏‏‏وَعَمْرِو بْنِ عَوْفٍ الْمُزْنِيِّ جَدِّ كَثِيرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏وَرَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১২২৩
خرید وفروخت کا بیان
کوئی شہری گاؤں والے کی چیز فروخت نہ کرے
جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کوئی شہری کسی گاؤں والے کا سامان نہ فروخت کرے، تم لوگوں کو (ان کا سامان خود بیچنے کے لیے) چھوڑ دو ۔ اللہ تعالیٰ بعض کو بعض کے ذریعے رزق دیتا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - ابوہریرہ کی حدیث حسن صحیح ہے۔ ٢ - اس باب میں جابر کی حدیث بھی حسن صحیح ہے۔ ٣ - صحابہ کرام میں سے بعض اہل علم کا اسی حدیث پر عمل ہے۔ ان لوگوں نے مکروہ سمجھا ہے کہ شہری باہر سے آنے والے دیہاتی کا سامان بیچے، ٤ - اور بعض لوگوں نے رخصت دی ہے کہ شہری دیہاتی کے لیے سامان خرید سکتا ہے۔ ٥ - شافعی کہتے ہیں کہ شہری کا دیہاتی کے سامان کو بیچنا مکروہ ہے اور اگر وہ بیچ دے تو بیع جائز ہوگی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/البیوع ٦ (١٥٢٢) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ١٥ (٢١٧٧) ، (تحفة الأشراف : ٢٧٦٤) ، مسند احمد (٣/٣٠٧) (صحیح) و أخرجہ کل من : صحیح مسلم/البیوع (المصدر المذکور) ، سنن ابی داود/ البیوع ٤٧ (٢٤٤٢) ، سنن النسائی/البیوع ١٧ (٤٥٠٠) ، مسند احمد ٣/٣١٢، ٣٨٦، ٣٩٢) من غیر ہذا الوجہ ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2176) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1223
حدیث نمبر: 1223 حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ، وَأَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، قَالَا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ لَا يَبِيعُ حَاضِرٌ لِبَادٍ دَعُوا النَّاسَ يَرْزُقُ اللَّهُ بَعْضَهُمْ مِنْ بَعْضٍ . قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَحَدِيثُ جَابِرٍ فِي هَذَا هُوَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ أَيْضًا، ‏‏‏‏‏‏وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، ‏‏‏‏‏‏كَرِهُوا أَنْ يَبِيعَ حَاضِرٌ لِبَادٍ، ‏‏‏‏‏‏وَرَخَّصَ بَعْضُهُمْ فِي أَنْ يَشْتَرِيَ حَاضِرٌ لِبَادٍ، ‏‏‏‏‏‏وقَالَ الشَّافِعِيُّ:‏‏‏‏ يُكْرَهُ أَنْ يَبِيعَ حَاضِرٌ لِبَادٍ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنْ بَاعَ فَالْبَيْعُ جَائِزٌ.
tahqiq

তাহকীক: