আল জামিউল কাবীর- ইমাম তিরমিযী রহঃ (উর্দু)
الجامع الكبير للترمذي
فیصلوں کا بیان - এর পরিচ্ছেদসমূহ
মোট হাদীস ২০ টি
হাদীস নং: ১৩২২
فیصلوں کا بیان
قاضی کے متعلق نبی کریم ﷺ سے منقول احادیث
 عبداللہ بن موہب کہتے ہیں کہ  عثمان (رض) نے ابن عمر (رض) سے کہا : جاؤ  (قاضی بن کر)  لوگوں کے درمیان فیصلے کرو، انہوں نے کہا : امیر المؤمنین ! کیا آپ مجھے معاف رکھیں گے، عثمان (رض) نے کہا :  تم اسے کیوں برا سمجھتے ہو، تمہارے باپ تو فیصلے کیا کرتے تھے ؟  اس پر انہوں نے کہا : میں نے رسول اللہ  ﷺ  کو فرماتے سنا ہے :  جو قاضی ہوا اور اس نے عدل انصاف کے ساتھ فیصلے کئے تو لائق ہے کہ وہ اس سے برابر سرابر چھوٹ جائے   (یعنی نہ ثواب کا مستحق ہو نہ عقاب کا) ، اس کے بعد میں  (بھلائی کی)  کیا امید رکھوں، حدیث میں ایک قصہ بھی ہے۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١ - ابن عمر (رض) کی حدیث غریب ہے، میرے نزدیک اس کی سند متصل نہیں ہے۔ اور عبدالملک جس سے معتمر نے اسے روایت کیا ہے عبدالملک بن ابی جمیلہ ہیں،  ٢ - اس باب میں ابوہریرہ (رض) سے بھی روایت ہے۔    تخریج دارالدعوہ :  تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٧٢٨٨) (ضعیف) (سند میں عبد الملک بن ابی جمیلہ مجہول ہیں  )    قال الشيخ الألباني :  ضعيف تخريج المشکاة (3743 / التحقيق الثاني) ، التعليق الرغيب (2 / 132) ، التعليق علی الأحاديث المختارة رقم (348 و 349) // ضعيف الجامع الصغير (5799) //   صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1322  
حدیث نمبر: 1322  حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى الصَّنْعَانِيُّ، حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَال: سَمِعْتُ عَبْدَ الْمَلِكِ يُحَدِّثُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَوْهَبٍ، أَنَّ عُثْمَانَ، قَالَ لِابْنِ عُمَرَ: اذْهَبْ، فَاقْضِ بَيْنَ النَّاسِ، قَالَ: أَوَ تُعَافِينِي يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، قَالَ: فَمَا تَكْرَهُ مِنْ ذَلِكَ، وَقَدْ كَانَ أَبُوكَ، يَقْضِي، قَالَ: إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:  مَنْ كَانَ قَاضِيًا، فَقَضَى بِالْعَدْلِ فَبِالْحَرِيِّ، أَنْ يَنْقَلِبَ مِنْهُ كَفَافًا، فَمَا أَرْجُو بَعْدَ ذَلِكَ ، وَفِي الْحَدِيثِ قِصَّةٌ. وَفِي الْبَاب: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ غَرِيبٌ، وَلَيْسَ إِسْنَادُهُ عِنْدِي بِمُتَّصِلٍ، وَعَبْدُ الْمَلِكِ الَّذِي رَوَى عَنْهُ الْمُعْتَمِرُ هَذَا هُوَ عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ أَبِي جَمِيلَةَ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ১৩২৩
فیصلوں کا بیان
قاضی کے متعلق نبی کریم ﷺ سے منقول احادیث
 انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا :  جو قضاء کا مطالبہ کرتا ہے وہ اپنی ذات کے حوالے کردیا جاتا ہے  (اللہ کی مدد اس کے شامل حال نہیں ہوتی)  اور جس کو جبراً قاضی بنایا جاتا ہے، اللہ اس کے پاس ایک فرشتہ بھیجتا ہے جو اسے راہ راست پر رکھتا ہے ۔    تخریج دارالدعوہ :  سنن ابی داود/ الأقضیة ٣ (٣٥٧٨) ، سنن ابن ماجہ/الأحکام ١ (٢٣٠٩) ، (تحفة الأشراف : ٢٥٦) ، و مسند احمد (٣/١١٨) (ضعیف) (سند میں بلال لین الحدیث ہیں  )    قال الشيخ الألباني :  ضعيف، ابن ماجة (2309) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (507) ، ضعيف الجامع الصغير (5614) //   صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1323  
حدیث نمبر: 1323  حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ عَبْدِ الْأَعْلَى، عَنْ بِلَالِ بْنِ أَبِي مُوسَى، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:  مَنْ سَأَلَ الْقَضَاءَ وُكِلَ إِلَى نَفْسِهِ، وَمَنْ أُجْبِرَ عَلَيْهِ يُنْزِلُ اللَّهُ عَلَيْهِ مَلَكًا، فَيُسَدِّدُهُ .  

তাহকীক:
হাদীস নং: ১৩২৪
فیصلوں کا بیان
قاضی کے متعلق نبی کریم ﷺ سے منقول احادیث
 انس (رض) سے روایت ہے کہ  نبی اکرم  ﷺ  نے فرمایا :  جو قضاء کا طالب ہوتا ہے اور اس کے لیے سفارشی ڈھونڈتا ہے، وہ اپنی ذات کے سپرد کردیا جاتا ہے، اور جس کو جبراً قاضی بنایا گیا ہے، اللہ اس کے پاس ایک فرشتہ بھیجتا ہے جو اس کو راہ راست پر رکھتا ہے ۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١ - یہ حدیث حسن غریب ہے،  ٢ - اور یہ اسرائیل کی  (سابقہ)  روایت سے جسے انہوں نے عبدالاعلیٰ سے روایت کی ہے زیادہ صحیح ہے۔    تخریج دارالدعوہ :  تفرد بہ المؤلف وانظر ما قبلہ (تحفة الأشراف : ٨٢٥) (ضعیف) (اس کی سند میں بھی وہی بلال ہیں جو لین الحدیث ہیں، نیز ” خیثمہ بصری “ بھی لین الحدیث ہیں  )    قال الشيخ الألباني :  ضعيف، ابن ماجة (2309) // ضعيف الجامع الصغير (5320) ، الضعيفة (1154) //   صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1324  
حدیث نمبر: 1324  حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ حَمَّادٍ، عَنْ أَبِي عَوَانَةَ، عَنْ عَبْدِ الْأَعْلَى الثَّعْلَبِيِّ، عَنْ بِلَالِ بْنِ مِرْدَاسٍ الْفَزَارِيِّ، عَنْ خَيْثَمَةَ وَهُوَ الْبَصْرِيُّ، عَنْ أَنَسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:  مَنِ ابْتَغَى الْقَضَاءَ، وَسَأَلَ فِيهِ شُفَعَاءَ، وُكِلَ إِلَى نَفْسِهِ، وَمَنْ أُكْرِهَ عَلَيْهِ أَنْزَلَ اللَّهُ عَلَيْهِ مَلَكًا، يُسَدِّدُهُ . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَهُوَ أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ إِسْرَائِيلَ، عَنْ عَبْدِ الْأَعْلَى.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ১৩২৫
فیصلوں کا بیان
قاضی کے متعلق نبی کریم ﷺ سے منقول احادیث
 ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا :  جس شخص کو منصب قضاء پر فائز کیا گیا یا جو لوگوں کا قاضی بنایا گیا،  (گویا)  وہ بغیر چھری کے ذبح کیا گیا   ١ ؎۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١ - یہ حدیث اس طریق سے حسن غریب ہے،  ٢ - اور یہ اس سند کے علاوہ دوسری سند سے بھی ابوہریرہ سے مروی ہے انہوں نے نبی اکرم  ﷺ  سے روایت کی ہے۔    تخریج دارالدعوہ :  سنن ابی داود/ الأقضیة ١ (٣٥٧١) ، سنن ابن ماجہ/الأحکام ١ (٢٣٠٨) ، (تحفة الأشراف : ١٣٠٠٢) ، و مسند احمد ٢/٣٦٥) (صحیح  )    وضاحت :  ١ ؎ : ایک قول کے مطابق ذبح کا معنوی مفہوم مراد ہے کیونکہ اگر اس نے صحیح فیصلہ دیا تو دنیا والے اس کے پیچھے پڑجائیں گے اور اگر غلط فیصلہ دیا تو وہ آخرت کے عذاب کا مستحق ہوگا ، اور ایک قول یہ ہے کہ یہ تعبیر اس لیے اختیار کی گئی ہے کہ اسے خبردار اور متنبہ کیا جائے کہ اس ہلاکت سے مراد اس کے دین و آخرت کی تباہی و بربادی ہے ، بدن کی نہیں ، یا یہ کہ چھری سے ذبح کرنے میں مذبوح کے لیے راحت رسانی ہوتی ہے اور بغیر چھری کے گلا گھوٹنے یا کسی اور طرح سے زیادہ تکلیف کا باعث ہوتا ہے ، لہٰذا اس کے ذکر سے ڈرانے اور خوف دلانے میں مبالغہ کا بیان ہے۔    قال الشيخ الألباني :  صحيح، ابن ماجة (2308)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1325  
حدیث نمبر: 1325  حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ، حَدَّثَنَا الْفُضَيْلُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِي عَمْرٍو، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:  مَنْ وَلِيَ الْقَضَاءَ، أَوْ جُعِلَ قَاضِيًا بَيْنَ النَّاسِ، فَقَدْ ذُبِحَ بِغَيْرِ سِكِّينٍ . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَقَدْ رُوِيَ أَيْضًا مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ১৩২৬
فیصلوں کا بیان
قاضی کا فیصلہ صحیح بھی ہوتا ہے اور غلط بھی
 ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا :  جب حاکم  (قاضی)  خوب سوچ سمجھ کر فیصلہ کرے اور صحیح بات تک پہنچ جائے تو اس کے لیے دہرا اجر ہے  ١ ؎ اور جب فیصلہ کرے اور غلط ہوجائے تو  (بھی)  اس کے لیے ایک اجر ہے   ٢ ؎۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١ - اس باب میں عمرو بن العاص اور عقبہ بن عامر سے بھی احادیث آئی ہیں،  ٢ - ابوہریرہ کی حدیث اس طریق سے حسن غریب ہے۔ ہم اسے بسند «سفيان الثوري عن يحيى بن سعيد الأنصاري» إلا من حديث «عبدالرزاق عن معمر عن سفيان الثوري» روایت کی ہے۔    تخریج دارالدعوہ :  صحیح البخاری/الاعتصام ٢١ (٧٣٥٢) ، صحیح مسلم/الأقضیة ٦ (١٧١٦) ، سنن ابی داود/ الأقضیة ٢ (٣٥٧٤) ، سنن النسائی/القضاة ٣ (٥٣٨٣) ، سنن ابن ماجہ/الأحکام ٣ (٢٣١٤) ، (تحفة الأشراف : ١٥٤٣٧) ، و مسند احمد (٤/١٩٨) (صحیح  )    وضاحت :  ١ ؎ : ایک غور وفکر کرنے اور حق تک پہنچنے کی کوشش کرنے کا اور دوسرا صحیح بات تک پہنچنے کا  ٢ ؎ : اسے صرف اس کی جدوجہد اور سعی و کوشش کا اجر ملے گا جو حق کی تلاش میں اس نے صرف کی ہے۔    قال الشيخ الألباني :  صحيح، ابن ماجة (2314)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1326  
حدیث نمبر: 1326  حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ مَهْدِيٍّ البَصْريَّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي بَكْر بن مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:  إِذَا حَكَمَ الْحَاكِمُ فَاجْتَهَدَ فَأَصَابَ فَلَهُ أَجْرَانِ، وَإِذَا حَكَمَ فَأَخْطَأَ فَلَهُ أَجْرٌ وَاحِدٌ . قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، وَعُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، لَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ الْأَنْصَارِيِّ، إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ১৩২৭
فیصلوں کا بیان
قاضی کیسے فیصلے کرے
 معاذ بن جبل (رض) کے شاگردوں میں سے کچھ لوگوں سے روایت ہے کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے معاذ کو  (قاضی بنا کر)  یمن بھیجا، تو آپ نے پوچھا : تم کیسے فیصلہ کرو گے ؟ ، انہوں نے کہا : میں اللہ کی کتاب سے فیصلے کروں گا، آپ نے فرمایا :  اگر  (اس کا حکم)  اللہ کی کتاب  (قرآن)  میں موجود نہ ہو تو ؟  معاذ نے کہا : تو رسول اللہ  ﷺ  کی سنت سے فیصلے کروں گا، آپ نے فرمایا :  اگر رسول اللہ  ﷺ  کی سنت میں بھی  (اس کا حکم)  موجود نہ ہو تو ؟ ، معاذ نے کہا :  (تب)  میں اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا۔ آپ نے فرمایا :  اللہ کا شکر ہے جس نے اللہ کے رسول کے قاصد کو  (صواب کی)  توفیق بخشی ۔    تخریج دارالدعوہ :  سنن ابی داود/ الأقضیة ١١ (٣٥٩٢) ، (تحفة الأشراف : ١١٣٧٣) ، وسنن الدارمی/المقدمة ٢٠ (١٧٠) (ضعیف) (سند میں ” الحارث بن عمرو “ اور ” رجال من اصحاب معاذ “ مجہول راوی ہیں  )    قال الشيخ الألباني :  ضعيف، الضعيفة (881) //، ضعيف أبي داود (770 / 3592) //   صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1327  
حدیث نمبر: 1327  حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ أَبِي عَوْنٍ الثَّقَفِيِّ، عَنْ الْحَارِثِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ رِجَالٍ مِنْ أَصْحَابِ مُعَاذٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ مُعَاذًا إِلَى الْيَمَنِ، فَقَالَ:  كَيْفَ تَقْضِي ؟  فَقَالَ: أَقْضِي بِمَا فِي كِتَابِ اللَّهِ. قَالَ:  فَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِي كِتَابِ اللَّهِ ؟  قَالَ: فَبِسُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. قَالَ:  فَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِي سُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؟  قَالَ: أَجْتَهِدُ رَأْيِي، قَالَ:  الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي وَفَّقَ رَسُولَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ .  

তাহকীক:
হাদীস নং: ১৩২৮
فیصلوں کا بیان
قاضی کیسے فیصلے کرے
 اس سند سے بھی  معاذ سے اسی طرح کی حدیث مرفوعاً مروی ہے۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١ - اس حدیث کو ہم صرف اسی طریق سے جانتے ہیں،  ٢ - اور اس کی سند میرے نزدیک متصل نہیں ہے،  ٣ - ابو عون ثقفی کا نام محمد بن عبیداللہ ہے۔    تخریج دارالدعوہ :  انظر ما قبلہ (ضعیف  )    قال الشيخ الألباني : **   صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1328  
حدیث نمبر: 1328  حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، قَالَا: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي عَوْنٍ، عَنْالْحَارِثِ بْنِ عَمْرٍو ابن أَخٍ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، عَنْ أُنَاسٍ مِنْ أَهْلِ حِمْصٍ، عَنْ مُعَاذٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَلَيْسَ إِسْنَادُهُ عِنْدِي بِمُتَّصِلٍ، وَأَبُو عَوْنٍ الثَّقَفِيُّ اسْمُهُ مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ১৩২৯
فیصلوں کا بیان
عادل امام
 ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا :  قیامت کے دن اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب اور بیٹھنے میں اس کے سب سے قریب عادل حکمراں ہوگا، اور اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ ناپسندیدہ اور اس سے سب سے دور بیٹھنے والا ظالم حکمراں ہوگا ۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١ - ابو سعید خدری (رض) کی حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف اسی طریق سے جانتے ہیں،  ٢ - اس باب میں عبداللہ بن ابی اوفی (رض) سے بھی روایت ہے۔    تخریج دارالدعوہ :  تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٤٢٢٨) (ضعیف) (سند میں ” عطیہ عوفی “ ضعیف راوی ہیں  )    قال الشيخ الألباني :  ضعيف، الروض النضير (2 / 356 - 357) ، الضعيفة (1156) ، المشکاة (3704 / التحقيق الثاني) // ضعيف الجامع الصغير (1363) //   صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1329  
حدیث نمبر: 1329  حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْمُنْذِرِ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ فُضَيْلِ بْنِ مَرْزُوقٍ، عَنْ عَطِيَّةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:  إِنَّ أَحَبَّ النَّاسِ إِلَى اللَّهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَأَدْنَاهُمْ مِنْهُ مَجْلِسًا إِمَامٌ عَادِلٌ، وَأَبْغَضَ النَّاسِ إِلَى اللَّهِ، وَأَبْعَدَهُمْ مِنْهُ مَجْلِسًا إِمَامٌ جَائِرٌ . قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي أَوْفَى. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي سَعِيدٍ، حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ১৩৩০
فیصلوں کا بیان
عادل امام
 عبداللہ بن ابی اوفی (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا :  اللہ قاضی کے ساتھ ہوتا ہے  ١ ؎ جب تک وہ ظلم نہیں کرتا، اور جب وہ ظلم کرتا ہے تو وہ اسے چھوڑ کر الگ ہوجاتا ہے۔ اور اس سے شیطان چمٹ جاتا ہے ۔    امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اس کو صرف عمران بن قطان کی روایت سے جانتے ہیں۔    تخریج دارالدعوہ :  سنن ابن ماجہ/الأحکام ٢ (٢٣١٢) ، (تحفة الأشراف : ٥١٦٧) (حسن  )    وضاحت :  ١ ؎ : یعنی اللہ کی مدد اس کے شامل حال ہوتی ہے۔    قال الشيخ الألباني :  حسن، ابن ماجة (2312)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1330  
حدیث نمبر: 1330  حَدَّثَنَا عَبْدُ الْقُدُّوسِ بْنُ مُحَمَّدٍ أَبُو بَكْرٍ الْعَطَّارُ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَاصِمٍ، حَدَّثَنَا عِمْرَانُ الْقَطَّانُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق الشَّيْبَانِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي أَوْفَى، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:  إِنَّ اللَّهَ مَعَ الْقَاضِي مَا لَمْ يَجُرْ، فَإِذَا جَارَ تَخَلَّى عَنْهُ، وَلَزِمَهُ الشَّيْطَانُ . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ، إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عِمْرَانَ الْقَطَّانِ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ১৩৩১
فیصلوں کا بیان
قاضی اس وقت تک فیصلہ نہ کرے جب تک کہ فریقین کے بیانات نہ سن لے
 علی (رض) کہتے ہیں کہ  مجھ سے رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا :  جب تمہارے پاس دو آدمی فیصلہ کے لیے آئیں تو تم پہلے کے حق میں فیصلہ نہ کرو جب تک کہ دوسرے کی بات نہ سن لو  ١ ؎ عنقریب تم جان لو گے کہ تم کیسے فیصلہ کرو ۔ علی (رض) کہتے ہیں : اس کے بعد میں برابر فیصلے کرتا رہا۔    امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن ہے۔    تخریج دارالدعوہ :  سنن ابی داود/ الأقضیة ٦ (٣٥٨٢) ، (تحفة الأشراف : ١٠٠٨١) (حسن) (متابعات کی بنا پر یہ حدیث حسن ہے، ورنہ اس کے راوی ” حنش “ ضعیف ہیں، دیکھئے : الإرواء رقم : ٢٦٠٠  )    وضاحت :  ١ ؎ : اور اگر دوسرا فریق خاموش رہے ، عدالت کے سامنے کچھ نہ کہے ، نہ اقرار کرے نہ انکار یا دوسرا فریق عدالت کی طلبی کے باوجود عدالت میں بیان دینے کے لیے حاضر نہ ہو تو کیا دوسرے فریق کے خلاف فیصلہ دیا جاسکتا ہے یا نہیں ؟ قرین صواب بات یہی ہے کہ اس صورت میں عدالت یک طرفہ فیصلہ دینے کی مجاز ہوگی۔    قال الشيخ الألباني :  حسن، الإرواء (2600)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1331  
حدیث نمبر: 1331  حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ الْجُعْفِيُّ، عَنْ زَائِدَةَ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ حَنَشٍ، عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:  إِذَا تَقَاضَى إِلَيْكَ رَجُلَانِ، فَلَا تَقْضِ لِلْأَوَّلِ، حَتَّى تَسْمَعَ كَلَامَ الْآخَرِ، فَسَوْفَ تَدْرِي، كَيْفَ تَقْضِي ، قَالَ عَلِيٌّ: فَمَا زِلْتُ قَاضِيًا بَعْدُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ১৩৩২
فیصلوں کا بیان
رعایا کی خبرگیری
 عمرو بن مرہ (رض) سے روایت ہے کہ  انہوں نے معاویہ (رض) سے کہا : میں نے رسول اللہ  ﷺ  کو فرماتے سنا ہے :  جو بھی حاکم حاجت مندوں، محتاجوں اور مسکینوں کے لیے اپنے دروازے بند رکھتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اس کی ضرورت، حاجت اور مسکنت کے لیے اپنے دروازے بند رکھتا ہے ، جب معاویہ (رض) نے یہ سنا تو لوگوں کی ضرورت کے لیے ایک آدمی مقرر کردیا۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١ - عمرو بن مرہ (رض) کی حدیث غریب ہے،  ٢ - یہ حدیث دوسرے طریق سے بھی مروی ہے،  ٣ - اس باب میں ابن عمر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں،  ٤ - عمرو بن مرہ جہنی کی کنیت ابومریم ہے۔    تخریج دارالدعوہ :  تفرد بہ المؤلف وانظر مسند احمد (٤/٢٣١) (تحفة الأشراف : ١٠٧٨٩) (صحیح) (اگلی حدیث اور معاذ (رض) کی حدیث کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے، ورنہ اس کے راوی ” ابوالحسن جزری “ مجہول اور ” اسماعیل بن ابراہیم بن مہاجر “ ضعیف ہیں ۔  )    قال الشيخ الألباني :  صحيح، المشکاة (3728 / التحقيق الثانی) ، الصحيحة (629) ، صحيح أبي داود (2614)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1332  
حدیث نمبر: 1332  حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ الْحَكَمِ، حَدَّثَنِي أَبُو الْحَسَنِ، قَالَ: قَالَ عَمْرُو بْنُ مُرَّةَ لِمُعَاوِيَةَ، إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:  مَا مِنْ إِمَامٍ يُغْلِقُ بَابَهُ دُونَ ذَوِي الْحَاجَةِ، وَالْخَلَّةِ، وَالْمَسْكَنَةِ، إِلَّا أَغْلَقَ اللَّهُ أَبْوَابَ السَّمَاءِ دُونَ خَلَّتِهِ، وَحَاجَتِهِ، وَمَسْكَنَتِهِ، فَجَعَلَ مُعَاوِيَةُ رَجُلًا عَلَى حَوَائِجِ النَّاسِ . قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ ابْنِ عُمَرَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ حَدِيثٌ غَرِيبٌ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ، وَعَمْرُو بْنُ مُرَّةَ الْجُهَنِيُّ يُكْنَى: أَبَا مَرْيَمَ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ১৩৩৩
فیصلوں کا بیان
رعایا کی خبرگیری
 ابومریم (رض) نے  نبی اکرم  ﷺ  سے اسی حدیث کی طرح اسی مفہوم کی حدیث روایت کی ہے۔ یزید بن ابی مریم شام کے رہنے والے ہیں اور برید بن ابی مریم کوفہ کے رہنے والے ہیں اور ابومریم کا نام عمرو بن مرہ جہنی ہے۔    تخریج دارالدعوہ :  انظر ما قبلہ (تحفة الأشراف : ١٢١٧٣) (صحیح  )    قال الشيخ الألباني : **   صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1332  
حدیث نمبر: 1333  حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمْزَةَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي مَرْيَمَ، عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ مُخَيْمِرَةَ، عَنْ أَبِي مَرْيَمَ صَاحِبِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَ هَذَا الْحَدِيثِ بِمَعْنَاهُ، وَيَزِيدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ شَامِيٌّ، وَبُرَيْدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ كُوفِيٌّ، وَأَبُو مَرْيَمَ هُوَ عَمْرُو بْنُ مُرَّةَ الْجُهَنِيُّ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ১৩৩৪
فیصلوں کا بیان
قاضی غصے کی حالت میں فیصلہ نہ کرے
 عبدالرحمٰن بن ابی بکرہ کہتے ہیں کہ  میرے باپ نے عبیداللہ بن ابی بکرہ کو جو قاضی تھے خط لکھا کہ تم غصہ کی حالت میں فریقین کے بارے میں فیصلے نہ کرو، کیونکہ میں نے رسول اللہ  ﷺ  کو فرماتے سنا ہے :  حاکم غصہ کی حالت میں فریقین کے درمیان فیصلے نہ کرے   ١ ؎۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے،  ٢ - ابوبکرہ کا نام نفیع ہے۔    تخریج دارالدعوہ :  صحیح البخاری/الأحکام ١٣ (٧١٥٨) ، صحیح مسلم/الأقضیة ٧ (١٧١٧) ، سنن النسائی/آداب القضاة ١٨ (٤٥٠٨) ، سنن ابن ماجہ/الأحکام ٤ (٢٣١٦) ، (تحفة الأشراف : ١١٦٧٦) ، و مسند احمد (٥/٣٦، ٣٧، ٤٦، ٥٢) (صحیح  )    وضاحت :  ١ ؎ : اس لیے کہ غصے کی حالت میں فریقین کے بیانات پر صحیح طور سے غور و فکر نہیں کیا جاسکتا ، اسی پر قیاس کرتے ہوئے ہر اس حالت میں جو فکر انسانی میں تشویش کا سبب ہو فیصلہ کرنا مناسب نہیں اس لیے کہ ذہنی تشویش کی حالت میں صحیح فیصلہ تک پہنچنا مشکل ہوتا ہے۔    قال الشيخ الألباني :  صحيح، ابن ماجة (2316)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1334  
حدیث نمبر: 1334  حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرَةَ، قَالَ: كَتَبَ أَبِي إِلَى عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرَةَ، وَهُوَ قَاضٍ، أَنْ لَا تَحْكُمْ بَيْنَ اثْنَيْنِ، وَأَنْتَ غَضْبَانُ، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:  لَا يَحْكُمُ الْحَاكِمُ بَيْنَ اثْنَيْنِ وَهُوَ غَضْبَانُ . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَأَبُو بَكْرَةَ اسْمُهُ نُفَيْعٌ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ১৩৩৫
فیصلوں کا بیان
امراء کو تحفے دینا
 معاذ بن جبل (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے مجھے  (قاضی بنا کر)  یمن بھیجا، جب میں روانہ ہوا تو آپ نے میرے پیچھے  (مجھے بلانے کے لیے)  ایک آدمی کو بھیجا، میں آپ کے پاس واپس آیا تو آپ نے فرمایا :  کیا تم جانتے ہو کہ میں نے تمہیں بلانے کے لیے آدمی کیوں بھیجا ہے ؟  (یہ کہنے کے لیے کہ)  تم میری اجازت کے بغیر کوئی چیز نہ لینا، اس لیے کہ وہ خیانت ہے، اور جو شخص خیانت کرے گا قیامت کے دن خیانت کے مال کے ساتھ حاضر ہوگا، یہی بتانے کے لیے میں نے تمہیں بلایا تھا، اب تم اپنے کام پر جاؤ۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١ - معاذ (رض) کی حدیث غریب ہے،  ٢ - ہم اسے اس طریق سے بروایت ابواسامہ جانتے ہیں جسے انہوں نے داود اودی سے روایت کی ہے،  ٣ - اس باب میں عدی بن عمیرہ، بریدہ، مستور بن شداد، ابوحمید اور ابن عمر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔    تخریج دارالدعوہ :  تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١١٣٥٥) (ضعیف الإسناد) (سند میں ” داود بن یزید اودی “ ضعیف ہیں، لیکن دیگر احادیث سے اس کا معنی ثابت ہے  )    قال الشيخ الألباني :  ضعيف الإسناد    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1335  
حدیث نمبر: 1335  حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ يَزِيدَ الْأَوْدِيِّ، عَنْ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُبَيْلٍ، عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، قَالَ: بَعَثَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْيَمَنِ، فَلَمَّا سِرْتُ أَرْسَلَ فِي أَثَرِي فَرُدِدْتُ، فَقَالَ:  أَتَدْرِي لِمَ بَعَثْتُ إِلَيْكَ ؟ لَا تُصِيبَنَّ شَيْئًا بِغَيْرِ إِذْنِي فَإِنَّهُ غُلُولٌ وَمَنْ يَغْلُلْ يَأْتِ بِمَا غَلَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، لِهَذَا دَعَوْتُكَ فَامْضِ لِعَمَلِكَ . قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ عَدِيِّ بْنِ عَمِيرَةَ، وَبُرَيْدَةَ، وَالْمُسْتَوْرِدِ بْنِ شَدَّادٍ، وَأَبِي حُمَيْدٍ، وَابْنِ عُمَرَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ مُعَاذٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، مِنْ حَدِيثِ أَبِي أُسَامَةَ، عَنْ دَاوُدَ الْأَوْدِيِّ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ১৩৩৬
فیصلوں کا بیان
مقدمات میں رشوت لینے اور دینے والا
 ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے فیصلے میں رشوت دینے والے اور رشوت لینے والے دونوں پر لعنت بھیجی ہے  ١ ؎۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١ - ابوہریرہ کی حدیث حسن صحیح ہے،  ٢ - یہ حدیث ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن سے بھی مروی ہے انہوں عبداللہ بن عمرو سے اور انہوں نے نبی اکرم  ﷺ  سے روایت کی ہے،  ٣ - اور ابوسلمہ سے ان کے باپ کے واسطے سے بھی مروی ہے انہوں نے نبی اکرم  ﷺ  سے روایت کی ہے لیکن یہ صحیح نہیں ہے،  ٤ - میں نے عبداللہ بن عبدالرحمٰن دارمی کو کہتے سنا کہ ابوسلمہ  (ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن)  کی حدیث جسے انہوں نے عبداللہ بن عمرو سے اور انہوں نے نبی اکرم  ﷺ  سے روایت کی ہے اس باب میں سب سے زیادہ اچھی اور سب سے زیادہ صحیح ہے  (جو آگے آرہی ہے) ۔  ٥ - اس باب میں عبداللہ بن عمرو، عائشہ، ابن حدیدہ اور ام سلمہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔    تخریج دارالدعوہ :  تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٤٩٨٤) ، وانظر مسند احمد ٥ (٢/٣٨٧، ٣٨٨) (صحیح  )    وضاحت :  ١ ؎ : کیونکہ اس سے حقوق العباد کی پامالی ہوتی ہے۔    قال الشيخ الألباني :  صحيح، ابن ماجة (2313)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1336  
حدیث نمبر: 1336  حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ عُمَرَ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ:  لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الرَّاشِيَ، وَالْمُرْتَشِيَ فِي الْحُكْمِ . قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، وَعَائِشَةَ، وَابْنِ حَدِيدَةَ، وَأُمِّ سَلَمَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرُوِيَ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا يَصِحُّ، قَالَ: وسَمِعْت عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، يَقُولُ: حَدِيثُ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحْسَنُ شَيْءٍ فِي هَذَا الْبَابِ وَأَصَحُّ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ১৩৩৭
فیصلوں کا بیان
مقدمات میں رشوت لینے اور دینے والا
 عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے رشوت دینے والے اور رشوت لینے والے دونوں پر لعنت بھیجی ہے۔    امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔    تخریج دارالدعوہ :  سنن ابی داود/ الأقضیة ٤ (٣٥٨٠) ، سنن ابن ماجہ/الأحکام ٢ (٢٣١٣) ، (تحفة الأشراف : ٨٩٦٤) ، و مسند احمد (١٦٤، ١٩٠، ١٩٤، ٢١٢) (صحیح  )    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1337  
حدیث نمبر: 1337  حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَى مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ الْعَقَدِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ خَالِهِ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ:  لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الرَّاشِيَ وَالْمُرْتَشِيَ . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ১৩৩৮
فیصلوں کا بیان
تحفہ اور دعوت قبول کرنا
 انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا :  اگر مجھے کھر بھی ہدیہ کی جائے تو میں قبول کروں گا اور اگر مجھے اس کی دعوت دی جائے تو میں قبول کروں گا   ١ ؎۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١ - انس کی حدیث حسن صحیح ہے،  ٢ - اس باب میں علی، عائشہ، مغیرہ بن شعبہ، سلمان، معاویہ بن حیدہ اور عبدالرحمٰن بن علقمہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔    تخریج دارالدعوہ :  تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٢١٦) (صحیح  )    وضاحت :  ١ ؎ : اس حدیث میں اس بات کی ترغیب ہے کہ غریب آدمی کی دعوت اور معمولی ہدیہ کو بھی قبول کیا جائے ، اسے کم اور حقیر سمجھ کر رد نہ کیا جائے ، اس سے نبی اکرم  ﷺ  کی تواضع اور سادگی کا بھی پتہ چلتا ہے کہ آپ کتنے سادہ اور متواضع تھے ، اپنے لیے آپ کسی تکلف اور اہتمام کو پسند نہیں فرماتے تھے۔    قال الشيخ الألباني :  صحيح صحيح الجامع (5257 و 5268)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1338  
حدیث نمبر: 1338  حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بَزِيعٍ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:  لَوْ أُهْدِيَ إِلَيَّ كُرَاعٌ، لَقَبِلْتُ، وَلَوْ دُعِيتُ عَلَيْهِ، لَأَجَبْتُ . قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ عَلِيٍّ، وَعَائِشَةَ، وَالْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، وَسَلْمَانَ، وَمُعَاوِيَةَ بْنِ حَيْدَةَ، وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَلْقَمَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَنَسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ১৩৩৯
فیصلوں کا بیان
اگرغیرمستحق کے حق میں فیصلہ ہوجائے تو اسے وہ چیز لینا جائز نہیں
 ام المؤمنین ام سلمہ (رض) کہتی ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا :  تم لوگ اپنا مقدمہ لے کر میرے پاس آتے ہو میں ایک انسان ہی ہوں، ہوسکتا ہے کہ تم میں سے کوئی آدمی اپنا دعویٰ بیان کرنے میں دوسرے سے زیادہ چرب زبان ہو  ١ ؎ تو اگر میں کسی کو اس کے مسلمان بھائی کا کوئی حق دلوا دوں تو گویا میں اسے جہنم کا ایک ٹکڑا کاٹ کر دے رہا ہوں، لہٰذا وہ اس میں سے کچھ بھی نہ لے   ٢ ؎۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١ - ام سلمہ کی حدیث حسن صحیح ہے،  ٢ - اس باب میں ابوہریرہ اور عائشہ سے بھی روایت ہے۔    تخریج دارالدعوہ :  صحیح البخاری/المظالم ١٦ (٢٤٩٨) ، والشہادات ٢٧ (٢٦٨٠) ، والحیل ١٠ (٦٩٦٧) ، والأحکام ٢٠ (٧١٦٩) ، و ٢٩ (٧١٨١) ، و ٣ (٧١٨٥) ، صحیح مسلم/الأقضیة ٣ (١٧١٣) ، سنن ابی داود/ الأقضیة ٧ (٣٥٨٣) ، سنن النسائی/القضاة ١٣ (٥٤٠٣) ، سنن ابن ماجہ/الأحکام ٥ (٢٣١٧) ، (تحفة الأشراف : ١٨٢٦١) ، وط/الأقضیة ١ (١) ، و مسند احمد (٦/٣٠٧، ٣٢٠) (صحیح  )    وضاحت :  ١ ؎ : یعنی اپنی دلیل دوسرے کے مقابلے میں زیادہ اچھے طریقے سے پیش کرسکتا ہے۔  ٢ ؎ : یہ حدیث اس بات پر دلیل ہے کہ ظاہری بیانات کی روشنی میں فیصلہ واجب ہے ، حاکم کا فیصلہ حقیقت میں کسی چیز میں کوئی تبدیلی پیدا نہیں کرسکتا ، اور نفس الامر میں نہ حرام کو حلال کرسکتا ہے اور نہ حلال کو حرام ، جمہور کی یہی رائے ہے ، لیکن امام ابوحنیفہ کا کہنا ہے کہ قاضی کا فیصلہ ظاہری اور باطنی دونوں طرح نافذ ہوجاتا ہے مثلاً ایک جج جھوٹی شہادت کی بنیاد پر فیصلہ دے دیتا ہے کہ فلاں عورت فلاں کی بیوی ہے باوجود یہ کہ وہ اجنبی ہے تو امام ابوحنیفہ کے نزدیک وہ اس مرد کے لیے حلال ہوجائے گی۔    قال الشيخ الألباني :  صحيح، ابن ماجة (2317)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1339  
حدیث نمبر: 1339  حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ إِسْحَاق الْهَمْدَانِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ أُمِّ سَلَمَةَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:  إِنَّكُمْ تَخْتَصِمُونَ إِلَيَّ وَإِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ، وَلَعَلَّ بَعْضَكُمْ أَنْ يَكُونَ أَلْحَنَ بِحُجَّتِهِ مِنْ بَعْضٍ، فَإِنْ قَضَيْتُ لِأَحَدٍ مِنْكُمْ بِشَيْءٍ مِنْ حَقِّ أَخِيهِ، فَإِنَّمَا أَقْطَعُ لَهُ قِطْعَةً مِنَ النَّارِ فَلَا يَأْخُذْ مِنْهُ شَيْئًا . قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَعَائِشَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أُمِّ سَلَمَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ১৩৪০
فیصلوں کا بیان
مدعی کے لئے گواہ اور مدعی علیہ پر قسم ہے
 وائل بن حجر (رض) کہتے ہیں کہ  دو آدمی ایک حضر موت سے اور ایک کندہ سے نبی اکرم  ﷺ  کے پاس آئے۔ حضرمی نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! اس  (کندی)  نے میری زمین پر قبضہ کرلیا ہے، اس پر کندی نے کہا : یہ میری زمین ہے اور میرے قبضہ میں ہے، اس پر اس  (حضرمی)  کا کوئی حق نہیں ہے۔ نبی اکرم  ﷺ  نے حضرمی سے پوچھا :  تمہارے پاس کوئی گواہ ہے ؟ ، اس نے عرض کیا : نہیں، آپ نے فرمایا :  پھر تو تم اس سے قسم ہی لے سکتے ہو ، اس آدمی نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! وہ فاجر آدمی ہے اسے اس کی پرواہ نہیں کہ وہ کس بات پر قسم کھا رہا ہے۔ اور نہ وہ کسی چیز سے احتیاط برتتا ہے، آپ نے فرمایا :  اس سے تم قسم ہی لے سکتے ہو ۔ آدمی قسم کھانے چلا تو رسول اللہ  ﷺ  نے جب وہ پیٹھ پھیر کر جانے لگا فرمایا : اگر اس نے ظلماً تمہارا مال کھانے کے لیے قسم کھائی ہے تو وہ اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملے گا کہ اللہ اس سے رخ پھیرے ہوگا۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١ - وائل بن حجر کی حدیث حسن صحیح ہے،  ٢ - اس باب میں عمر، ابن عباس، عبداللہ بن عمرو، اور اشعث بن قیس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔    تخریج دارالدعوہ :  صحیح مسلم/الإیمان ٦١ (٢٢٣) ، سنن ابی داود/ الأیمان والنذور ٢ (٣٢٤٥) ، (تحفة الأشراف : ١١٧٦٨) ، و مسند احمد (٤/٣١٧) (صحیح  )    قال الشيخ الألباني :  صحيح، الإرواء (2632)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1340  
حدیث نمبر: 1340  حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ مِنْ حَضْرَمَوْتَ، وَرَجُلٌ مِنْ كِنْدَةَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ الْحَضْرَمِيُّ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ هَذَا غَلَبَنِي عَلَى أَرْضٍ لِي، فَقَالَ الْكِنْدِيُّ: هِيَ أَرْضِي وَفِي يَدِي لَيْسَ لَهُ فِيهَا حَقٌّ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلْحَضْرَمِيِّ:  أَلَكَ بَيِّنَةٌ ؟ ، قَالَ: لَا، قَالَ:  فَلَكَ يَمِينُهُ ، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ الرَّجُلَ فَاجِرٌ لَا يُبَالِي عَلَى مَا حَلَفَ عَلَيْهِ، وَلَيْسَ يَتَوَرَّعُ مِنْ شَيْءٍ، قَالَ:  لَيْسَ لَكَ مِنْهُ، إِلَّا ذَلِكَ . قَالَ: فَانْطَلَقَ الرَّجُلُ لِيَحْلِفَ لَهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:  لَمَّا أَدْبَرَ لَئِنْ حَلَفَ عَلَى مَالِكَ لِيَأْكُلَهُ ظُلْمًا لَيَلْقَيَنَّ اللَّهَ وَهُوَ عَنْهُ مُعْرِضٌ . قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ عُمَرَ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، وَالْأَشْعَثِ بْنِ قَيْسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ১৩৪১
فیصلوں کا بیان
مدعی کے لئے گواہ اور مدعی علیہ پر قسم ہے
 عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ  نبی اکرم  ﷺ  نے اپنے خطبہ میں فرمایا :  گواہ مدعی کے ذمہ ہے اور قسم مدعی علیہ کے ذمہ ہے ۔    امام ترمذی کہتے ہیں : اس حدیث کی سند میں کلام ہے۔ محمد بن عبیداللہ عرزمی اپنے حفظ کے تعلق سے حدیث میں ضعیف گردانے جاتے ہیں۔ ابن مبارک وغیرہ نے ان کی تضعیف کی ہے۔    تخریج دارالدعوہ :  تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٨٧٩٤) (حسن) (شواہد اور متابعات کی بنا پر یہ حدیث حسن ہے، ورنہ اس کے راوی ” محمد بن عبیداللہ عزرمی “ ضعیف ہیں، دیکھئے الارواء رقم : ٢٦٤١  )    قال الشيخ الألباني :  صحيح، الإرواء (8 / 265 - 267)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1341  
حدیث نمبر: 1341  حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَنْبَأَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، وَغَيْرُهُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْجَدِّهِ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ فِي خُطْبَتِهِ:  الْبَيِّنَةُ عَلَى الْمُدَّعِي، وَالْيَمِينُ عَلَى الْمُدَّعَى عَلَيْهِ . هَذَا حَدِيثٌ فِي إِسْنَادِهِ مَقَالٌ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ الْعَرْزَمِيُّ يُضَعَّفُ فِي الْحَدِيثِ مِنْ قِبَلِ حِفْظِهِ، ضَعَّفَهُ ابْنُ الْمُبَارَكِ وَغَيْرُهُ.  

তাহকীক: