আল জামিউল কাবীর- ইমাম তিরমিযী রহঃ (উর্দু)
الجامع الكبير للترمذي
حدود کا بیان - এর পরিচ্ছেদসমূহ
মোট হাদীস ২০ টি
হাদীস নং: ১৪২৩
حدود کا بیان
جن پر حد واجب نہیں
 علی (رض) سے روایت ہے کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا :  تین طرح کے لوگ مرفوع القلم ہیں  (یعنی قابل مواخذہ نہیں ہیں)  : سونے والا جب تک کہ نیند سے بیدار نہ ہوجائے، بچہ جب تک کہ بالغ نہ ہوجائے، اور دیوانہ جب تک کہ سمجھ بوجھ والا نہ ہوجائے ۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١ - اس سند سے علی (رض) کی حدیث حسن غریب ہے،  ٢ - یہ حدیث کئی اور سندوں سے بھی علی (رض) سے مروی ہے، وہ نبی اکرم  ﷺ  سے روایت کرتے ہیں،  ٣ - بعض راویوں نے «وعن الغلام حتی يحتلم» کہا ہے، یعنی بچہ جب تک بالغ نہ ہوجائے مرفوع القلم ہے،  ٤  - علی (رض) کے زمانے میں حسن بصری موجود تھے، حسن نے ان کا زمانہ پایا ہے، لیکن علی (رض) سے ان کے سماع کا ہمیں علم نہیں ہے،  ٥ - یہ حدیث : عطاء بن سائب سے بھی مروی ہے انہوں نے یہ حدیث بطریق : «أبي ظبيان عن علي بن أبي طالب عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» اسی جیسی حدیث روایت کی ہے، اور اعمش نے بطریق : «أبي ظبيان عن ابن عباس عن علي» موقوفاً روایت کیا ہے، انہوں نے اسے مرفوع نہیں کیا،  ٦ - اس باب میں عائشہ (رض) سے بھی روایت ہے،  ٧ - اہل علم کا عمل اسی حدیث پر ہے۔    تخریج دارالدعوہ :  تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبریٰ ) (تحفة الأشراف : ١٠٠٩٧) ، وراجع : سنن ابی داود/ الحدود ١٦ (٤٣٩٩- ٤٤٠٣) ، سنن ابن ماجہ/الطلاق ١٥ (٢٠٤٢) ، و مسند احمد (١/١١٦، ١٤٠، ٩٥٥، ١٥٨) (صحیح) (شواہد ومتابعات کی بنا پر یہ صحیح ہے، ورنہ حسن بصری مدلس ہیں اور روایت عنعنہ سے ہے، نیز ان کا سماع بھی علی (رض) سے نہیں ہے اور دیگر طرق بھی کلام سے خالی نہیں ہیں، دیکھئے : الإرواء رقم ٢٩٧  )    قال الشيخ الألباني :  صحيح، ابن ماجة (2041 - 2042)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1423  
حدیث نمبر: 1423  حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى الْقُطَعِيُّ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ الْحَسَنِ الْبَصْرِيِّ، عَنْعَلِيٍّ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:  رُفِعَ الْقَلَمُ عَنْ ثَلَاثَةٍ: عَنِ النَّائِمِ حَتَّى يَسْتَيْقِظَ، وَعَنِ الصَّبِيِّ حَتَّى يَشِبَّ، وَعَنِ الْمَعْتُوهِ حَتَّى يَعْقِلَ . قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ عَائِشَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَلِيٍّ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ، عَنْ عَلِيٍّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَذَكَرَ بَعْضُهُمْ: وَعَنِ الْغُلَامِ حَتَّى يَحْتَلِمَ، وَلَا نَعْرِفُ لِلْحَسَنِ سَمَاعًا مِنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْأَبِي ظَبْيَانَ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَ هَذَا الْحَدِيثِ، وَرَوَاهُ الْأَعْمَشُ، عَنْ أَبِي ظَبْيَانَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ عَلِيٍّ، مَوْقُوفًا وَلَمْ يَرْفَعْهُ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ، قَالَ أَبُو عِيسَى: قَدْ كَانَ الْحَسَنُ فِي زَمَانِ عَلِيٍّ وَقَدْ أَدْرَكَهُ، وَلَكِنَّا لَا نَعْرِفُ لَهُ سَمَاعًا مِنْهُ، وَأَبُو ظَبْيَانَ اسْمُهُ: حُصَيْنُ بْنُ جُنْدَبٍ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ১৪২৪
حدود کا بیان
حدود کو ساقط کرنا
 ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا :  جہاں تک تم سے ہو سکے مسلمانوں سے حدود کو دفع کرو، اگر مجرم کے بچ نکلنے کی کوئی صورت ہو تو اسے چھوڑ دو ، کیونکہ مجرم کو معاف کردینے میں امام کا غلطی کرنا اسے سزا دینے میں غلطی کرنے سے کہیں بہتر ہے۔ اس سند سے وکیع نے یزید بن زیاد سے محمد بن ربیعہ کی حدیث کی طرح بیان کیا، لیکن انہوں نے اسے مرفوع نہیں کیا ہے۔   
حدیث نمبر: 1424  حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْأَسْوَدِ أَبُو عَمْرٍو الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَبِيعَةَ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زِيَادٍ الدِّمَشْقِيُّ، عَنْالزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:  ادْرَءُوا الْحُدُودَ عَنِ الْمُسْلِمِينَ مَا اسْتَطَعْتُمْ، فَإِنْ كَانَ لَهُ مَخْرَجٌ فَخَلُّوا سَبِيلَهُ، فَإِنَّ الْإِمَامَ أَنْ يُخْطِئَ فِي الْعَفْوِ خَيْرٌ مِنْ أَنْ يُخْطِئَ فِي الْعُقُوبَةِ . 

তাহকীক:
হাদীস নং: ১৪২৫
حدود کا بیان
مسلمان کے عیوب کی پردہ پوشی
 ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا :  جس نے کسی مومن سے دنیا کی تکلیفوں میں سے کوئی تکلیف دور کی اللہ اس کے آخرت کی تکلیفوں میں سے کوئی تکلیف دور کرے گا، اور جس نے کسی مسلمان کی پردہ پوشی کی تو اللہ دنیا و آخرت میں اس کی پردہ پوشی فرمائے گا، اللہ بندے کی مدد میں لگا رہتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں لگا ہے ۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١ - یہ حدیث پہلی حدیث سے زیادہ صحیح ہے،  ٢ - ابوہریرہ (رض) کی حدیث کو اسی طرح کئی لوگوں نے بطریق : «الأعمش عن أبي صالح عن أبي هريرة عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» ، اور اسباط بن محمد نے اعمش سے روایت کی ہے، وہ کہتے ہیں کہ مجھ سے ابوصالح کے واسطہ سے بیان کیا گیا ہے، انہوں نے ابوہریرہ سے اور ابوہریرہ نے نبی اکرم  ﷺ  سے اسی طرح روایت کی ہے،  ٣ - ہم سے اسے عبید بن اسباط بن محمد نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں کہ مجھ سے میرے والد نے اعمش کے واسطہ سے یہ حدیث بیان کی،  ٤ - اس باب میں عقبہ بن عامر اور ابن عمر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔    تخریج دارالدعوہ :  صحیح مسلم/الذکر ١١ (٢٢٩٩) ، سنن ابی داود/ الأدب ٦٨ (٤٩٤٦) ، سنن ابن ماجہ/المقدمة ١٧ (٢٢٥) ، والحدود ٥ (٢٥٤٤) ، ویأتي عند المؤلف فی البر والصلة ١٩ (١٩٣٠) ، (تحفة الأشراف : ١٢٥٠٠) ، و مسند احمد (٢/٢٥٢) ، سنن الدارمی/المقدمة ٣٢ (٣٦٠) (صحیح  )    قال الشيخ الألباني :  صحيح، ابن ماجة (225)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1425  
حدیث نمبر: 1425  حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:  مَنْ نَفَّسَ عَنْ مُؤْمِنٍ كُرْبَةً مِنْ كُرَبِ الدُّنْيَا، نَفَّسَ اللَّهُ عَنْهُ كُرْبَةً مِنْ كُرَبِ الْآخِرَةِ، وَمَنْ سَتَرَ عَلَى مُسْلِمٍ، سَتَرَهُ اللَّهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ، وَاللَّهُ فِي عَوْنِ الْعَبْدِ مَا كَانَ الْعَبْدُ فِي عَوْنِ أَخِيهِ . قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ، وَابْنِ عُمَرَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ، هَكَذَا رَوَى غَيْرُ وَاحِدٍ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَ رِوَايَةِ أَبِي عَوَانَةَ، وَرَوَى أَسْبَاطُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ الْأَعْمَشِ، قَالَ: حُدِّثْتُ عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ، وَكَأَنَّ هَذَا أَصَحُّ مِنَ الْحَدِيثِ الْأَوَّلِ، حَدَّثَنَا بِذَلِكَ عُبَيْدُ بْنُ أَسْبَاطَ بْنِ مُحَمَّدٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ الْأَعْمَشِ، بِهَذَا الْحَدِيثِ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ১৪২৬
حدود کا بیان
مسلمان کے عیوب کی پردہ پوشی
 عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا :  مسلمان مسلمان کا بھائی ہے  ١ ؎، نہ اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ اس کی مدد چھوڑتا ہے، اور جو اپنے بھائی کی حاجت پوری کرنے میں لگا ہو اللہ اس کی حاجت پوری کرنے میں لگا ہوتا ہے، جو اپنے کسی مسلمان کی پریشانی دور کرتا ہے اللہ اس کی وجہ سے اس سے قیامت کی پریشانیوں میں سے کوئی پریشانی دور کرے گا، اور جو کسی مسلمان کے عیب پر پردہ ڈالے گا اللہ قیامت کے دن اس کے عیب پر پردہ ڈالے گا ۔    امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔    تخریج دارالدعوہ :  صحیح البخاری/المظالم ٣ (٢٤٤٢) ، والإکراہ ٧ (٦٩٥١) ، صحیح مسلم/البر والصلة ١٥ (٢٥٠٨) ، (تحفة الأشراف : ٦٨٧٧) (صحیح  )    وضاحت :  ١ ؎ : اللہ تعالیٰ کے فرمان : «إنما المؤمنون إخوة» (الحجرات :  ١٠  ) کا بھی یہی مفہوم ہے۔    قال الشيخ الألباني :  صحيح، الصحيحة (504)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1426  
حدیث نمبر: 1426  حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:  الْمُسْلِمُ أَخُو الْمُسْلِمِ لَا يَظْلِمُهُ وَلَا يُسْلِمُهُ، وَمَنْ كَانَ فِي حَاجَةِ أَخِيهِ، كَانَ اللَّهُ فِي حَاجَتِهِ، وَمَنْ فَرَّجَ عَنْ مُسْلِمٍ كُرْبَةً، فَرَّجَ اللَّهُ عَنْهُ كُرْبَةً مِنْ كُرَبِ يَوْمِ الْقِيَامَةِ، وَمَنْ سَتَرَ مُسْلِمًا، سَتَرَهُ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ১৪২৭
حدود کا بیان
حدود میں تلقین
 عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ  نبی اکرم  ﷺ  نے ماعز بن مالک (رض) سے فرمایا :  تمہارے بارے میں جو مجھے خبر ملی ہے کیا وہ صحیح ہے ؟  ماعز (رض) نے کہا : میرے بارے میں آپ کو کیا خبر ملی ہے ؟ آپ نے فرمایا :  مجھے خبر ملی ہے کہ تم نے فلاں قبیلے کی لونڈی کے ساتھ زنا کیا ہے ؟  انہوں نے کہا : ہاں، پھر انہوں نے چار مرتبہ اقرار کیا، تو آپ نے حکم دیا، تو انہیں رجم کردیا گیا۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١ - ابن عباس (رض) کی حدیث حسن ہے،  ٢ - اس حدیث کو شعبہ نے سماک بن حرب سے، انہوں نے سعید بن جبیر سے مرسلاً روایت کیا ہے، انہوں نے اس سند میں ابن عباس کا ذکر نہیں کیا ہے،  ٣ - اس باب میں سائب بن یزید سے بھی روایت ہے۔    تخریج دارالدعوہ :  صحیح مسلم/الحدود ٥ (١٦٩٣) ، سنن ابی داود/ الحدود ٢٤ (٤٤٢٥) ، (تحفة الأشراف : ٥٥١٩) ، و مسند احمد (١/٢٤٥، ٣١٤، ٣٢٨) (صحیح  )    وضاحت :  ١ ؎ : یعنی مجرم اگر اپنے گناہ کا خود اقرار کر رہا ہو تو اس کے سامنے ایسی باتیں رکھنا جن کی وجہ سے اس پر حد واجب نہ ہو۔    قال الشيخ الألباني :  صحيح، الإرواء (7 / 355)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1427  
حدیث نمبر: 1427  حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِمَاعِزِ بْنِ مَالِكٍ:  أَحَقٌّ مَا بَلَغَنِي عَنْكَ ؟  قَالَ: وَمَا بَلَغَكَ عَنِّي، قَالَ:  بَلَغَنِي أَنَّكَ وَقَعْتَ عَلَى جَارِيَةِ آلِ فُلَانٍ ، قَالَ: نَعَمْ، فَشَهِدَ أَرْبَعَ شَهَادَاتٍ، فَأَمَرَ بِهِ فَرُجِمَ. قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَرَوَى شُعْبَةُ، هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍمُرْسَلًا، وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ১৪২৮
حدود کا بیان
معترف اپنے اقرار سے پھر جائے تو حد ساقط ہوجاتی ہے
 ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ  ماعز اسلمی (رض) نے رسول اللہ  ﷺ  کے پاس آ کر اعتراف کیا کہ میں نے زنا کیا ہے، آپ نے ان کی طرف سے منہ پھیرلیا، پھر وہ دوسری طرف سے آئے اور بولے : اللہ کے رسول ! میں نے زنا کیا ہے، آپ نے پھر ان کی طرف سے منہ پھیرلیا، پھر وہ دوسری طرف سے آئے اور بولے : اللہ کے رسول ! میں نے زنا کیا ہے، پھر چوتھی مرتبہ اعتراف کرنے پر آپ نے رجم کا حکم دے دیا، چناچہ وہ ایک پتھریلی زمین کی طرف لے جائے گئے اور انہیں رجم کیا گیا، جب انہیں پتھر کی چوٹ لگی تو دوڑتے ہوئے بھاگے، حتیٰ کہ ایک ایسے آدمی کے قریب سے گزرے جس کے پاس اونٹ کے جبڑے کی ہڈی تھی، اس نے ماعز کو اسی سے مارا اور لوگوں نے بھی مارا یہاں تک کہ وہ مرگئے، پھر لوگوں نے رسول اللہ  ﷺ  سے ذکر کیا کہ جب پتھر اور موت کی تکلیف انہیں محسوس ہوئی تو وہ بھاگ کھڑے ہوئے تھے، رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا :  تم لوگوں نے اسے کیوں نہیں چھوڑ دیا   ١ ؎۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١ - یہ حدیث حسن ہے،  ٢ - ابوہریرہ (رض) سے کئی اور سندوں سے بھی مروی ہے، یہ حدیث زہری سے بھی مروی ہے، انہوں نے اسے بطریق : «عن أبي سلمة عن جابر بن عبد اللہ عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» اسی طرح روایت کی ہے  (جو آگے آرہی ہے) ۔    تخریج دارالدعوہ :  صحیح البخاری/الحدود ٢٢ (٦٨١٥) ، والأحکام ١٩ (٧١٦٧) ، صحیح مسلم/الحدود ٥ (١٦) ، سنن ابن ماجہ/الحدود ٩ (٢٥٥٤) ، (تحفة الأشراف : ١٥٠٦١) ، و مسند احمد (٢/٢٨٦-٢٨٧، ٤٥٠، ٤٥٣) (صحیح  )    وضاحت :  ١ ؎ : ایک روایت کے الفاظ یوں ہیں : «هلا ترکتموه لعله أن يتوب فيتوب اللہ عليه» یعنی  اسے تم لوگوں نے کیوں نہیں چھوڑ دیا ، ہوسکتا ہے وہ اپنے اقرار سے پھرجاتا اور توبہ کرتا ، پھر اللہ اس کی توبہ قبول کرتا  (اسی ٹکڑے میں باب سے مطابقت ہے) ۔    قال الشيخ الألباني :  حسن صحيح، ابن ماجة (2554)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1428  
حدیث نمبر: 1428  حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: جَاءَ مَاعِزٌ الْأَسْلَمِيُّ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إِنَّهُ قَدْ زَنَى فَأَعْرَضَ عَنْهُ، ثُمَّ جَاءَ مِنْ شِقِّهِ الْآخَرِ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّهُ قَدْ زَنَى، فَأَعْرَضَ عَنْهُ، ثُمَّ جَاءَ مِنْ شِقِّهِ الْآخَرِ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّهُ قَدْ زَنَى، فَأَمَرَ بِهِ فِي الرَّابِعَةِ فَأُخْرِجَ إِلَى الْحَرَّةِ، فَرُجِمَ بِالْحِجَارَةِ، فَلَمَّا وَجَدَ مَسَّ الْحِجَارَةِ فَرَّ يَشْتَدُّ، حَتَّى مَرَّ بِرَجُلٍ مَعَهُ لَحْيُ جَمَلٍ فَضَرَبَهُ بِهِ، وَضَرَبَهُ النَّاسُ حَتَّى مَاتَ، فَذَكَرُوا ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ فَرَّ حِينَ وَجَدَ مَسَّ الْحِجَارَةِ وَمَسَّ الْمَوْتِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:  هَلَّا تَرَكْتُمُوهُ . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَرُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَ هَذَا.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ১৪২৯
حدود کا بیان
معترف اپنے اقرار سے پھر جائے تو حد ساقط ہوجاتی ہے
 جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ  نبی اکرم  ﷺ  کی خدمت میں قبیلہ اسلم کے ایک آدمی نے آ کر زنا کا اعتراف کیا، تو آپ نے اس کی طرف سے منہ پھیرلیا، پھر اس نے اقرار کیا، آپ نے پھر منہ پھیرلیا، حتیٰ کہ اس نے خود چار مرتبہ اقرار کیا، تو نبی اکرم  ﷺ  نے فرمایا :  کیا تم پاگل ہو ؟  اس نے کہا : نہیں، آپ نے پوچھا : کیا تم شادی شدہ ہو ؟ اس نے کہا ہاں : پھر آپ نے رجم کا حکم دیا، چناچہ اسے عید گاہ میں رجم کیا گیا، جب اسے پتھروں نے نڈھال کردیا تو وہ بھاگ کھڑا ہوا، پھر اسے پکڑا گیا اور رجم کیا گیا یہاں تک کہ وہ مرگیا، رسول اللہ  ﷺ  نے اس کے حق میں کلمہ خیر کہا لیکن اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھی  ١ ؎۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے،  ٢ - بعض اہل علم کا عمل اسی پر ہے کہ زنا کا اقرار کرنے والا جب اپنے اوپر چار مرتبہ گواہی دے تو اس پر حد قائم کی جائے گی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے،  ٣ - بعض اہل علم کہتے ہیں : ایک مرتبہ بھی کوئی زنا کا اقرار کرلے گا تو اس پر حد قائم کردی جائے گی، یہ مالک بن انس اور شافعی کا قول ہے، اس بات کے قائلین کی دلیل ابوہریرہ (رض) اور زید بن خالد کی یہ حدیث ہے کہ دو آدمی رسول اللہ  ﷺ  تک اپنا قضیہ لے گئے، ایک نے کہا : اللہ کے رسول ! میرے بیٹے نے اس کی بیوی سے زنا کیا، یہ ایک لمبی حدیث ہے،  (آخر میں ہے)  نبی اکرم  ﷺ  نے فرمایا :  انیس ! اس کی بیوی کے پاس جاؤ اگر وہ زنا کا اقرار کرے تو اسے رجم کر دو ، آپ نے اس حدیث میں یہ نہیں فرمایا کہ  جب چار مرتبہ اقرار کرے   ٢ ؎۔    تخریج دارالدعوہ :  صحیح البخاری/الطلاق ١١ (٥٢٧٠) ، والحدود ٢١ (٦٨١٤) ، و ٢٥ (٦٨٢٠) ، صحیح مسلم/الحدود ٥ (١٦) ، سنن ابی داود/ الحدود ٢٤ (٤٤٣٠) ، سنن النسائی/الجنائز ٦٣ (١٩٥٨) ، (تحفة الأشراف : ٣١٤٩) ، و مسند احمد (٣/٣٢٣) ، وسنن الدارمی/الحدود ١٢ (٢٣٦١) (صحیح) (إلاّ أن البخاري قال : ” وصلی علیہ “ وہی شاذة  )    وضاحت :  ١ ؎ : بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی اکرم  ﷺ  نے اس کی نماز جنازہ پڑھی ہے ، تطبیق کی صورت یہ ہے کہ نفی کی روایت کو اس پر محمول کیا جائے گا کہ رجم والے دن آپ نے اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھی ، جب کہ اثبات والی روایت کا مفہوم یہ ہے کہ دوسرے دن آپ نے اس کی نماز جنازہ پڑھی ، اس کی تائید صحیح مسلم کی اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جو عمران بن حصین سے قبیلہ جہینہ کی اس عورت کے متعلق آئی ہے جس سے زنا کا عمل ہوا پھر اسے رجم کیا گیا ، اور نبی اکرم  ﷺ  نے اس کی نماز جنازہ پڑھی تو عمر (رض) نے کہا : «أتصلي عليها وقد زنت ؟» کیا اس زانیہ عورت کی نماز جنازہ آپ پڑھیں گے ؟ آپ  ﷺ  نے فرمایا : «لقد تابت توبة لو قسمت بين سبعين لوسعتهم» یعنی اس نے جو توبہ کی ہے اسے اگر ستر افراد کے درمیان بانٹ دیا جائے تو وہ ان سب کے لیے کافی ہوگی ، عمران بن حصین کی یہ حدیث ترمذی میں بھی ہے ، دیکھئیے : کتاب الحدود ، باب تربص الرجم بالحبلی حتی تضع ، حدیث رقم  ١٤٣٥ ۔  ٢ ؎ : اس سلسلہ میں صحیح قول یہ ہے کہ چار مرتبہ اقرار کی نوبت اس وقت پیش آتی ہے جب اقرار کرنے والے کی بابت عقلی و ذہنی اعتبار سے کسی قسم کا اشتباہ ہو بصورت دیگر حد جاری کرنے کے لیے صرف ایک اقرار کافی ہے ، پوری حدیث «باب الرجم علی الثیب» کے تحت آگے آرہی ہے۔    قال الشيخ الألباني :  صحيح، الإرواء (7 / 353)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1429  
حدیث نمبر: 1429  حَدَّثَنَا بِذَلِكَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلالُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَنْبَأَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّ رَجُلًا مِنْ أَسْلَمَ جَاءَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاعْتَرَفَ بِالزِّنَا، فَأَعْرَضَ عَنْهُ، ثُمَّ اعْتَرَفَ، فَأَعْرَضَ عَنْهُ، حَتَّى شَهِدَ عَلَى نَفْسِهِ أَرْبَعَ شَهَادَاتٍ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:  أَبِكَ جُنُونٌ ؟ ، قَالَ: لَا، قَالَ:  أَحْصَنْتَ ، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَأَمَرَ بِهِ، فَرُجِمَ بِالْمُصَلَّى، فَلَمَّا أَذْلَقَتْهُ الْحِجَارَةُ، فَرَّ فَأُدْرِكَ فَرُجِمَ حَتَّى مَاتَ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ  خَيْرًا ، وَلَمْ يُصَلِّ عَلَيْهِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ: أَنَّ الْمُعْتَرِفَ بِالزِّنَا إِذَا أَقَرَّ عَلَى نَفْسِهِ أَرْبَعَ مَرَّاتٍ، أُقِيمَ عَلَيْهِ الْحَدُّ، وَهُوَ قَوْلُ: أَحْمَدَ، وَإِسْحَاق، وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: إِذَا أَقَرَّ عَلَى نَفْسِهِ مَرَّةً، أُقِيمَ عَلَيْهِ الْحَدُّ، وَهُوَ قَوْلُ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، وَالشَّافِعِيِّ، وَحُجَّةُ مَنْ قَالَ هَذَا الْقَوْلَ، حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَزَيْدِ بْنِ خَالِدٍ، أَنَّ رَجُلَيْنِ اخْتَصَمَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ أَحَدُهُمَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ ابْنِي زَنَى بِامْرَأَةِ، هَذَا الْحَدِيثُ بِطُولِهِ، وَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:  اغْدُ يَا أُنَيْسُ عَلَى امْرَأَةِ هَذَا، فَإِنِ اعْتَرَفَتْ فَارْجُمْهَا ، وَلَمْ يَقُلْ فَإِنِ اعْتَرَفَتْ أَرْبَعَ مَرَّاتٍ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ১৪৩০
حدود کا بیان
حدود میں سفارش کی ممانعت
 ام المؤمنین عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ  قریش قبیلہ بنو مخزوم کی ایک عورت  ١ ؎ کے معاملے میں جس نے چوری کی تھی، کافی فکرمند ہوئے، وہ کہنے لگے : اس کے سلسلے میں رسول اللہ  ﷺ  سے کون گفتگو کرے گا ؟ لوگوں نے جواب دیا : رسول اللہ  ﷺ  کے چہیتے اسامہ بن زید کے علاوہ کون اس کی جرات کرسکتا ہے ؟ چناچہ اسامہ نے آپ سے گفتگو کی تو رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا :  کیا تم اللہ کی حدود میں سے ایک حد کے بارے میں سفارش کر رہے ہو ؟  پھر آپ کھڑے ہوئے اور خطبہ دیتے ہوئے آپ نے فرمایا :  لوگو ! تم سے پہلے کے لوگ اپنی اس روش کی بنا پر ہلاک ہوئے کہ جب کوئی اعلیٰ خاندان کا شخص چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیتے، اور جب کمزور حال شخص چوری کرتا تو اس پر حد جاری کرتے، اللہ کی قسم ! اگر محمد کی بیٹی فاطمہ چوری کرتی تو میں اس کا  (بھی)  ہاتھ کاٹ دیتا   ٢ ؎۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١ - عائشہ (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے،  ٢ - اس باب میں مسعود بن عجماء، ابن عمر اور جابر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں،  ٣ - مسعود بن عجماء کو مسعود بن اعجم بھی کہا جاتا ہے، ان سے صرف یہی ایک حدیث آئی ہے۔    تخریج دارالدعوہ :  صحیح البخاری/الشہادات ٨ (٢٦٤٨) ، والأنبیاء ٥٤ (٣٤٧٥) ، وفضائل الصحابة ١٨ (٣٧٣٢) ، والمغازي ٥٣ (٤٣٠٤) ، والحدود ١١ (٦٧٨٧) ، و ١٢ (٦٧٨٨) و ١٤ (٦٨٠٠) ، صحیح مسلم/الحدود ٢ (١٦٨٨) ، سنن ابی داود/ الحدود ٤ (٤٣٧٣) ، سنن النسائی/قطع السارق ٦ (٤٩٠٦) ، سنن ابن ماجہ/الحدود ٦ (٤٥٤٧) ، (تحفة الأشراف : ١٦٥٧٨) ، و مسند احمد (٦/١٦٢) ، وسنن الدارمی/الحدود ٥ (٢٣٤٨) (صحیح  )    وضاحت :  ١ ؎ : قبیلہ بنو مخزوم کی اس عورت کا نام فاطمہ بنت اسود تھا ، اس کی یہ عادت بھی تھی کہ جب کسی سے کوئی سامان ضرورت پڑنے پر لے لیتی تو پھر اس سے مکر جاتی۔  ٢ ؎ : نبی اکرم  ﷺ  کا ارشاد کہ  اگر محمد کی بیٹی فاطمہ چوری کرتی  ، یہ بالفرض والتقدیر ہے ، ورنہ فاطمہ (رض) کی شان اس سے کہیں عظیم تر ہے کہ وہ ایسی کسی غلطی میں مبتلا ہوں ، قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے سارے اہل بیت کی عفت و طہارت کی خبر دی ہے «إنما يريد اللہ ليذهب عنکم الرجس أهل البيت ويطهركم تطهيرا» (الأحزاب :  ٣٣  ) فاطمہ (رض) نبی اکرم  ﷺ  کے نزدیک آپ کے اہل خانہ میں سب سے زیادہ عزیز تھیں اسی لیے ان کے ذریعہ مثال بیان کی گئی۔    قال الشيخ الألباني :  صحيح، ابن ماجة (2547)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1430  
حدیث نمبر: 1430  حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ قُرَيْشًا أَهَمَّهُمْ شَأْنُ الْمَرْأَةِ الْمَخْزُومِيَّةِ الَّتِي سَرَقَتْ، فَقَالُوا: مَنْ يُكَلِّمُ فِيهَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالُوا: مَنْ يَجْتَرِئُ عَلَيْهِ إِلَّا أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ، حِبُّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكَلَّمَهُ أُسَامَةُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:  أَتَشْفَعُ فِي حَدٍّ مِنْ حُدُودِ اللَّهِ ، ثُمَّ قَامَ فَاخْتَطَبَ، فَقَالَ:  إِنَّمَا أَهْلَكَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ، أَنَّهُمْ كَانُوا إِذَا سَرَقَ فِيهِمُ الشَّرِيفُ تَرَكُوهُ، وَإِذَا سَرَقَ فِيهِمُ الضَّعِيفُ أَقَامُوا عَلَيْهِ الْحَدَّ، وَايْمُ اللَّهِ، لَوْ أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ مُحَمَّدٍ 55 سَرَقَتْ لَقَطَعْتُ يَدَهَا ، قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ مَسْعُودِ ابْنِ الْعَجْمَاءِ، وَابْنِ عُمَرَ، وَجَابِرٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَيُقَالُ: مَسْعُودُ بْنُ الْأَعْجَمِ، وَلَهُ هَذَا الْحَدِيثُ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ১৪৩১
حدود کا بیان
رجم کی تحقیق
 عمر بن خطاب (رض) کہتے ہیں کہ  اللہ نے محمد  ﷺ  کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا، اور آپ پر کتاب نازل کی، آپ پر جو کچھ نازل کیا گیا اس میں آیت رجم بھی تھی  ١ ؎، چناچہ رسول اللہ  ﷺ  نے رجم کیا اور آپ کے بعد ہم نے بھی رجم کیا،  (لیکن)  مجھے اندیشہ ہے کہ جب لوگوں پر زمانہ دراز ہوجائے گا تو کہنے والے کہیں گے : اللہ کی کتاب میں ہم رجم کا حکم نہیں پاتے، ایسے لوگ اللہ کا نازل کردہ ایک فریضہ چھوڑنے کی وجہ سے گمراہ ہوجائیں گے، خبردار ! جب زانی شادی شدہ ہو اور گواہ موجود ہوں، یا جس عورت کے ساتھ زنا کیا گیا ہو وہ حاملہ ہوجائے، یا زانی خود اعتراف کرلے تو رجم کرنا واجب ہے۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے،  ٢ - اور کئی سندوں سے یہ حدیث عمر (رض) سے آئی ہے،  ٣ - اس باب میں علی (رض) سے بھی روایت ہے۔    تخریج دارالدعوہ :  صحیح البخاری/الحدود ٣٠ (٦٨٢٩) ، صحیح مسلم/الحدود ٤ (١٦٩١) ، سنن ابی داود/ الحدود ٢٣ (٤٤١٨) ، سنن ابن ماجہ/الحدود ٨ (٢٥٥٣) ، (تحفة الأشراف : ١٠٥٠٨) ، و مسند احمد (١/٢٩، ٤٠، ٤٧، ٥٠، ٥٥) ، سنن الدارمی/الحدود ١٦ (٢٣٦٨) (صحیح  )    وضاحت :  ١ ؎ : آیت رجم کی تلاوت منسوخ ہے لیکن اس کا حکم قیامت تک کے لیے باقی ہے۔    قال الشيخ الألباني :  صحيح، ابن ماجة (2553)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1432  
حدیث نمبر: 1432  حَدَّثَنَا سَلَمَةُ بْنُ شَبِيبٍ، وَإِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ، وَالْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ، قَالُوا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، قَالَ:  إِنَّ اللَّهَ بَعَثَ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْحَقِّ، وَأَنْزَلَ عَلَيْهِ الْكِتَابَ، فَكَانَ فِيمَا أَنْزَلَ عَلَيْهِ آيَةُ  الرَّجْمِ ، فَرَجَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَرَجَمْنَا بَعْدَهُ، وَإِنِّي خَائِفٌ أَنْ يَطُولَ بِالنَّاسِ زَمَانٌ، فَيَقُولَ قَائِلٌ: لَا نَجِدُ الرَّجْمَ فِي كِتَابِ اللَّهِ، فَيَضِلُّوا بِتَرْكِ فَرِيضَةٍ أَنْزَلَهَا اللَّهُ، أَلَا وَإِنَّ الرَّجْمَ حَقٌّ عَلَى مَنْ زَنَى، إِذَا أَحْصَنَ وَقَامَتِ الْبَيِّنَةُ، أَوْ كَانَ حَبَلٌ أَوِ اعْتِرَافٌ . وَفِي الْبَاب، عَنْ عَلِيٍّ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَرُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ، عَنْ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ১৪৩১
حدود کا بیان
رجم صرف شادی شدہ پر ہے
 عبادہ بن صامت (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا :  (دین خاص طور پر زنا کے احکام)  مجھ سے سیکھ لو، اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے  ١ ؎ راہ نکال دی ہے : شادی شدہ مرد شادی شدہ عورت کے ساتھ ملوث ہو تو سو کوڑوں اور رجم کی سزا ہے، اور کنوارا کنواری کے ساتھ زنا کا مرتکب ہو تو سو کوڑوں اور ایک سال کی جلا وطنی کی سزا ہے ۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے،  ٢ - نبی اکرم  ﷺ  کے بعض اہل علم صحابہ کا اسی پر عمل ہے، ان میں علی بن ابی طالب، ابی بن کعب اور عبداللہ بن مسعود وغیرہ (رض) شامل ہیں، یہ لوگ کہتے ہیں : شادی شدہ زانی کو کوڑے لگائے جائیں گے اور رجم کیا جائے گا، بعض اہل علم کا یہی مسلک ہے، اسحاق بن راہویہ کا بھی یہی قول ہے،  ٣ - جب کہ صحابہ میں سے بعض اہل علم جن میں ابوبکر اور عمر وغیرہ (رض) شامل ہیں، کہتے ہیں : شادی شدہ زنا کار پر صرف رجم واجب ہے، اسے کوڑے نہیں لگائے جائیں گے، اور نبی اکرم  ﷺ  سے اسی طرح دوسری حدیث میں ماعز وغیرہ کے قصہ کے سلسلے میں آئی ہے کہ آپ نے صرف رجم کا حکم دیا، رجم سے پہلے کوڑے لگانے کا حکم نہیں دیا، بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے، سفیان ثوری، ابن مبارک، شافعی اور احمد کا یہی قول ہے  ٢ ؎۔    تخریج دارالدعوہ :  صحیح مسلم/الحدود ٣ (١٦٩٠) ، سنن ابی داود/ الحدود ٢٣ (٤٤١٥) ، سنن ابن ماجہ/الحدود ٧ (٢٥٥٠) ، (تحفة الأشراف : ٥٠٨٣) ، و مسند احمد (٣/٤٧٥) ، سنن الدارمی/الحدود ١٩ (٢٣٧٢) (صحیح  )    وضاحت :  ١ ؎ : جنہیں زنا کے جرم میں گھروں میں قید رکھنے کا حکم دیا گیا تھا اور اللہ کے حکم کا انتظار کرنے کے لیے کہا گیا تھا ، اللہ نے ایسے لوگوں کے لیے راہ نکال دی ہے ، اس سے اشارہ اس آیت کی طرف ہے «واللاتي يأتين الفاحشة من نسآئكم فاستشهدوا عليهن أربعة منکم فإن شهدوا فأمسكوهن في البيوت حتی يتوفاهن الموت أو يجعل اللہ لهن سبيلا»  یعنی تمہاری عورتوں میں سے جو بےحیائی کا کام کریں ان پر اپنے میں سے چار گواہ طلب کرو ، اگر وہ گواہی دیں تو ان عورتوں کو گھروں میں قید رکھو ، یہاں تک کی موت ان کی عمریں پوری کر دے ، یا اللہ تعالیٰ ان کے لیے کوئی اور راستہ نکالے  (النساء :  ١٥  ) ، یہ ابتدائے اسلام میں بدکار عورتوں کی وہ عارضی سزا ہے جب زنا کی سزا متعین نہیں ہوئی تھی۔  ٢ ؎ : جمہور علماء اور ائمہ اربعہ کا یہی قول ہے کہ کوڑے کی سزا اور رجم دونوں اکٹھا نہیں ہوسکتے ، کیونکہ قتل کے ساتھ اگر کئی حدود ایک ساتھ جمع ہوجائیں تو صرف قتل کافی ہوگا اور باقی حدود ساقط ہوجائیں گی «واللہ اعلم»۔    قال الشيخ الألباني :  صحيح، ابن ماجة (2550)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1434  
حدیث نمبر: 1434  حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، عَنْ مَنْصُورِ بْنِ زَاذَانَ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ حِطَّانَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:  خُذُوا عَنِّي فَقَدْ جَعَلَ اللَّهُ لَهُنَّ سَبِيلًا، الثَّيِّبُ بِالثَّيِّبِ جَلْدُ مِائَةٍ، ثُمَّ الرَّجْمُ، وَالْبِكْرُ بِالْبِكْرِ جَلْدُ مِائَةٍ، وَنَفْيُ سَنَةٍ . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْهُمْ، عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ، وَأُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ، وَغَيْرُهُمْ قَالُوا: الثَّيِّبُ تُجْلَدُ وَتُرْجَمُ، وَإِلَى هَذَا ذَهَبَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ وَهُوَ قَوْلُ: إِسْحَاق، وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْهُمْ، أَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ، وَغَيْرُهُمَا، الثَّيِّبُ إِنَّمَا عَلَيْهِ الرَّجْمُ، وَلَا يُجْلَدُ، وَقَدْ رُوِيَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلُ هَذَا فِي غَيْرِ حَدِيثٍ فِي قِصَّةِ مَاعِزٍ وَغَيْرِهِ، أَنَّهُ أَمَرَ بِالرَّجْمِ، وَلَمْ يَأْمُرْ أَنْ يُجْلَدَ قَبْلَ أَنْ يُرْجَمَ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ، وَهُوَ قَوْلُ: سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَابْنِ الْمُبَارَكِ، وَالشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ১৪৩২
حدود کا بیان
رجم کی تحقیق
 عمر بن خطاب (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے رجم کیا، ابوبکر (رض) نے رجم کیا، اور میں نے بھی رجم کیا، اگر میں کتاب اللہ میں زیادتی حرام نہ سمجھتا تو اس کو  ١ ؎ مصحف میں لکھ دیتا، کیونکہ مجھے اندیشہ ہے کہ کچھ قومیں آئیں گی اور کتاب اللہ میں حکم رجم  (سے متعلق آیت)  نہ پا کر اس کا انکار کردیں۔ ابوعیسیٰ  (ترمذی)  کہتے ہیں :  ١ - عمر (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے،  ٢ - اور دوسری سندوں سے بھی عمر (رض) سے روایت کی گئی ہے،  ٣ - اس باب میں علی (رض) سے بھی روایت ہے۔    تخریج دارالدعوہ :  تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٠٤٥١) ، وانظر مسند احمد (١/٣٦، ٤٣) وانظر ما یأتي (صحیح) (متابعات کی بنا پر صحیح ہے، ورنہ اس کی سند میں ” سعید بن مسیب “ اور ” عمر (رض) “ کے درمیان انقطاع ہے  )    وضاحت :  ١ ؎ : یعنی آیت رجم «الشيخ والشيخة إذا زنيا فأرجموهما البتة نکالا من اللہ ...» کو مصحف میں ضرور لکھ دیتا۔  ٢ ؎ : سلف صالحین رحمہم اللہ کو اللہ کے احکام و فرائض کے سلسلہ میں کس قدر فکر لاحق تھی اس کا اندازہ عمر (رض) کے اس قول سے لگایا جاسکتا ہے ، عمر (رض) نے جس اندیشہ کا اظہار کیا تھا وہ سو فیصد درست ثابت ہوا ، چناچہ معتزلہ اور خوارج کی ایک جماعت نے رجم کا انکار کیا ، افسوس صد افسوس ! برصغیر میں بھی کچھ ایسے سر پھرے لوگ موجود ہیں جو اس سزا کے منکر ہیں ، رجم کے انکار کی وجہ اس کے سوا اور کیا ہوسکتی ہے کہ ایسے لوگوں کی فکری بنیاد انکار حدیث پر ہے ، ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ جو احادیث صحیح سندوں سے ثابت اور ان کے راویوں کی ایک بڑی تعداد ہو پھر بھی ان کا انکار کیا جائے۔    قال الشيخ الألباني :  صحيح التعليق علی ابن ماجة، الإرواء (8 / 4 - 5)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1431  
حدیث نمبر: 1431  حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ يُوسُفَ الْأَزْرَقُ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي هِنْدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، قَالَ:  رَجَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَرَجَمَ أَبُو بَكْرٍ، وَرَجَمْتُ، وَلَوْلَا أَنِّي أَكْرَهُ أَنْ أَزِيدَ فِي كِتَابِ اللَّهِ، لَكَتَبْتُهُ فِي الْمُصْحَفِ، فَإِنِّي قَدْ خَشِيتُ أَنْ تَجِيءَ أَقْوَامٌ فَلَا يَجِدُونَهُ فِي كِتَابِ اللَّهِ، فَيَكْفُرُونَ بِهِ . قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَرُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ، عَنْ عُمَرَ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ১৪৩৩
حدود کا بیان
رجم صرف شادی شدہ پر ہے
 ابوہریرہ، زید بن خالد اور شبل (رض) سے روایت ہے کہ  یہ لوگ نبی اکرم  ﷺ  کے پاس موجود تھے، اسی دوران آپ کے پاس جھگڑتے ہوئے دو آدمی آئے، ان میں سے ایک کھڑا ہوا اور بولا : اللہ کے رسول ! میں آپ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں ! آپ ہمارے درمیان کتاب اللہ کے موافق فیصلہ کیجئے  (یہ سن کر)  مدعی علیہ نے کہا اور وہ اس سے زیادہ سمجھدار تھا، ہاں، اللہ کے رسول ! ہمارے درمیان آپ کتاب اللہ کے موافق فیصلہ کیجئے، اور مجھے مدعا بیان کرنے کی اجازت دیجئیے، (چنانچہ اس نے بیان کیا)  میرا لڑکا اس کے پاس مزدور تھا، چناچہ وہ اس کی بیوی کے ساتھ زنا کر بیٹھا  ١ ؎، لوگوں  ( یعنی بعض علماء)  نے مجھے بتایا کہ میرے بیٹے پر رجم واجب ہے، لہٰذا میں نے اس کی طرف سے سو بکری اور ایک خادم فدیہ میں دے دی، پھر میری ملاقات کچھ اہل علم سے ہوئی تو ان لوگوں نے کہا : میرے بیٹے پر سو کوڑے اور ایک سال کی جلا وطنی واجب ہے  ٢ ؎، اور اس کی بیوی پر رجم واجب ہے  ٣ ؎،  (یہ سن کر)  نبی اکرم  ﷺ  نے فرمایا :  اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! میں تمہارے درمیان کتاب اللہ کے موافق ہی فیصلہ کروں گا، سو بکری اور خادم تمہیں واپس مل جائیں گے،  (اور)  تمہارے بیٹے کو سو کوڑے لگیں گے اور ایک سال کے لیے اسے شہر بدر کیا جائے گا، انیس !  ٤ ؎ تم اس کی بیوی کے پاس جاؤ، اگر وہ زنا کا اعتراف کرلے تو اسے رجم کر دو ، چناچہ انیس اس کے گھر گئے، اس نے اقبال جرم کرلیا، لہٰذا انہوں نے اسے رجم کردیا  ٥ ؎۔ اس سند سے ابوہریرہ اور زید بن خالد جہنی سے، اسی جیسی اسی معنی کی حدیث نبی اکرم  ﷺ  سے روایت ہے۔ اس سند سے بھی مالک کی سابقہ حدیث جیسی اسی معنی کی حدیث روایت ہے۔   
حدیث نمبر: 1433  حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، سَمِعَهُ مِنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَزَيْدِ بْنِ خَالِدٍ، وَشِبْلٍ، أَنَّهُمْ كَانُوا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَتَاهُ رَجُلَانِ يَخْتَصِمَانِ، فَقَامَ إِلَيْهِ أَحَدُهُمَا، وَقَالَ: أَنْشُدُكَ اللَّهَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَمَا قَضَيْتَ بَيْنَنَا بِكِتَابِ اللَّهِ، فَقَالَ خَصْمُهُ وَكَانَ أَفْقَهَ مِنْهُ: أَجَلْ يَا رَسُولَ اللَّهِ، اقْضِ بَيْنَنَا بِكِتَابِ اللَّهِ، وَائْذَنْ لِي فَأَتَكَلَّمَ، إِنَّ ابْنِي كَانَ عَسِيفًا عَلَى هَذَا، فَزَنَى بِامْرَأَتِهِ، فَأَخْبَرُونِي أَنَّ عَلَى ابْنِي الرَّجْمَ، فَفَدَيْتُ مِنْهُ بِمِائَةِ شَاةٍ وَخَادِمٍ، ثُمَّ لَقِيتُ نَاسًا مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ، فَزَعَمُوا أَنَّ عَلَى ابْنِي جَلْدَ مِائَةٍ، وَتَغْرِيبَ عَامٍ، وَإِنَّمَا الرَّجْمُ عَلَى امْرَأَةِ هَذَا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:  وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَأَقْضِيَنَّ بَيْنَكُمَا بِكِتَابِ اللَّهِ، الْمِائَةُ شَاةٍ وَالْخَادِمُ رَدٌّ عَلَيْكَ، وَعَلَى ابْنِكَ جَلْدُ مِائَةٍ، وَتَغْرِيبُ عَامٍ، وَاغْدُ يَا أُنَيْسُ عَلَى امْرَأَةِ هَذَا، فَإِنِ اعْتَرَفَتْ، فَارْجُمْهَا ، فَغَدَا عَلَيْهَا، فَاعْتَرَفَتْ، فَرَجَمَهَا. 

তাহকীক:
হাদীস নং: ১৪৩৪
حدود کا بیان
N/A
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” ( دین خاص طور پر زنا کے احکام ) مجھ سے سیکھ لو، اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے ۱؎ راہ نکال دی ہے: شادی شدہ مرد شادی شدہ عورت کے ساتھ ملوث ہو تو سو کوڑوں اور رجم کی سزا ہے، اور کنوارا کنواری کے ساتھ زنا کا مرتکب ہو تو سو کوڑوں اور ایک سال کی جلا وطنی کی سزا ہے“۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض اہل علم صحابہ کا اسی پر عمل ہے، ان میں علی بن ابی طالب، ابی بن کعب اور عبداللہ بن مسعود وغیرہ رضی الله عنہم شامل ہیں، یہ لوگ کہتے ہیں: شادی شدہ زانی کو کوڑے لگائے جائیں گے اور رجم کیا جائے گا، بعض اہل علم کا یہی مسلک ہے، اسحاق بن راہویہ کا بھی یہی قول ہے، ۳- جب کہ صحابہ میں سے بعض اہل علم جن میں ابوبکر اور عمر وغیرہ رضی الله عنہما شامل ہیں، کہتے ہیں: شادی شدہ زنا کار پر صرف رجم واجب ہے، اسے کوڑے نہیں لگائے جائیں گے، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح دوسری حدیث میں ماعز وغیرہ کے قصہ کے سلسلے میں آئی ہے کہ آپ نے صرف رجم کا حکم دیا، رجم سے پہلے کوڑے لگانے کا حکم نہیں دیا، بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے، سفیان ثوری، ابن مبارک، شافعی اور احمد کا یہی قول ہے ۲؎۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، عَنْ مَنْصُورِ بْنِ زَاذَانَ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ حِطَّانَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: خُذُوا عَنِّي فَقَدْ جَعَلَ اللَّهُ لَهُنَّ سَبِيلًا، الثَّيِّبُ بِالثَّيِّبِ جَلْدُ مِائَةٍ، ثُمَّ الرَّجْمُ، وَالْبِكْرُ بِالْبِكْرِ جَلْدُ مِائَةٍ، وَنَفْيُ سَنَةٍ . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْهُمْ، عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ، وَأُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ، وَغَيْرُهُمْ قَالُوا: الثَّيِّبُ تُجْلَدُ وَتُرْجَمُ، وَإِلَى هَذَا ذَهَبَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ وَهُوَ قَوْلُ: إِسْحَاق، وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْهُمْ، أَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ، وَغَيْرُهُمَا، الثَّيِّبُ إِنَّمَا عَلَيْهِ الرَّجْمُ، وَلَا يُجْلَدُ، وَقَدْ رُوِيَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلُ هَذَا فِي غَيْرِ حَدِيثٍ فِي قِصَّةِ مَاعِزٍ وَغَيْرِهِ، أَنَّهُ أَمَرَ بِالرَّجْمِ، وَلَمْ يَأْمُرْ أَنْ يُجْلَدَ قَبْلَ أَنْ يُرْجَمَ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ، وَهُوَ قَوْلُ: سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَابْنِ الْمُبَارَكِ، وَالشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ.

তাহকীক:
হাদীস নং: ১৪৩৫
حدود کا بیان
اس سے متعلق
 عمران بن حصین (رض) کہتے ہیں کہ  قبیلہ جہینہ کی ایک عورت نے نبی اکرم  ﷺ  کے پاس زنا کا اقرار کیا، اور عرض کیا : میں حاملہ ہوں، نبی اکرم  ﷺ  نے اس کے ولی کو طلب کیا اور فرمایا : اس کے ساتھ حسن سلوک کرو اور جب بچہ جنے تو مجھے خبر کرو، چناچہ اس نے ایسا ہی کیا، اور پھر آپ نے حکم دیا، چناچہ اس کے کپڑے باندھ دیئے گئے  ١ ؎ پھر آپ نے اس کو رجم کرنے کا حکم دیا، چناچہ اسے رجم کردیا گیا، پھر آپ نے اس کی نماز جنازہ پڑھی تو عمر بن خطاب (رض) نے آپ سے کہا : اللہ کے رسول ! آپ نے اسے رجم کیا ہے، پھر اس کی نماز پڑھ رہے ہیں ؟ آپ نے فرمایا :  اس عورت نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر یہ مدینہ کے ستر آدمیوں کے درمیان تقسیم کردی جائے تو سب کو شامل ہوجائے گی  ٢ ؎، عمر ! اس سے اچھی کوئی چیز تمہاری نظر میں ہے کہ اس نے اللہ کے لیے اپنی جان قربان کردی ۔    امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔    تخریج دارالدعوہ :  صحیح مسلم/الحدود ٥ (١٦٩٦) ، سنن ابی داود/ الحدود ٢٥ (٤٤٤٠) ، سنن النسائی/الجنائز ٦٤ (١٩٥٩) ، سنن ابن ماجہ/الحدود ٩ (٢٥٥٥) ، (تحفة الأشراف : ١٠٨٨١) ، و مسند احمد (٤/٤٢٠، ٤٣٥، ٤٣٧، ٤٤٠) ، سنن الدارمی/الحدود ١٨ (٢٣٧١) (صحیح  )    وضاحت :  ١ ؎ : معلوم ہوا کہ عورتوں پر حد جاری کرتے وقت ان کے جسم کی ستر پوشی کا خیال رکھنا چاہیئے۔  ٢ ؎ : مسلمانوں کے دیگر اموات کی طرح جس پر حد جاری ہو اس پر بھی نماز جنازہ پڑھی جائے گی ، کیونکہ حد کا نفاذ صاحب حد کے لیے باعث کفارہ ہے ، اس پر جملہ مسلمانوں کا اتفاق ہے ، یہی وجہ ہے کہ مذکورہ حدیث میں نبی اکرم  ﷺ  نے عمر (رض) سے اس تائبہ کے توبہ کی کیا اہمیت ہے اسے واضح کیا۔    قال الشيخ الألباني :  صحيح، ابن ماجة (2555)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1435  
حدیث نمبر: 1435  حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ أَبِي الْمُهَلِّبِعَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، أَنَّ امْرَأَةً مِنْ جُهَيْنَةَ اعْتَرَفَتْ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالزِّنَا، فَقَالَتْ: إِنِّي حُبْلَى فَدَعَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلِيَّهَا، فَقَالَ:  أَحْسِنْ إِلَيْهَا، فَإِذَا وَضَعَتْ حَمْلَهَا، فَأَخْبِرْنِي . فَفَعَلَ، فَأَمَرَ بِهَا فَشُدَّتْ عَلَيْهَا ثِيَابُهَا، ثُمَّ أَمَرَ بِرَجْمِهَا، فَرُجِمَتْ، ثُمَّ صَلَّى عَلَيْهَا، فَقَالَ لَهُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، رَجَمْتَهَا ثُمَّ تُصَلِّي عَلَيْهَا، فَقَالَ:  لَقَدْ تَابَتْ تَوْبَةً لَوْ قُسِمَتْ بَيْنَ سَبْعِينَ مِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ لَوَسِعَتْهُمْ، وَهَلْ وَجَدْتَ شَيْئًا أَفْضَلَ مِنْ أَنْ جَادَتْ بِنَفْسِهَا لِلَّهِ . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ১৪৩৬
حدود کا بیان
اہل کتاب کو سنگسار کرنے
 عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے ایک یہودی مرد اور ایک یہودی عورت کو رجم کیا۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١ - اور یہ حدیث حسن صحیح ہے،  ٢ - حدیث میں ایک قصہ کا بھی ذکر ہے  ١ ؎۔    تخریج دارالدعوہ :  صحیح البخاری/الجنائز ٦٠ (١٣٢٩) ، والمناقب ٢٦ (٣٦٣٥) ، والحدود ٢٤ (٦٨١٩) ، صحیح مسلم/الحدود ٦ (١٦٩٩) ، سنن ابی داود/ الحدود ٢٦ (٤٤٤٦) ، سنن ابن ماجہ/الحدود ١٠ (٢٥٥٦) ، (تحفة الأشراف : ٨٣٢٤) ، وط/الحدود ١ (١) ، سنن الدارمی/الحدود ١٥ (٢٣٤٨) (صحیح  )    وضاحت :  ١ ؎ : امام ترمذی نے جس قصہ کی طرف اشارہ کیا ہے وہ یہ ہے : یہود نبی اکرم  ﷺ  کے پاس ایک ایسے مرد اور عورت کو لائے جن سے زنا کا صدور ہوا تھا ، اللہ کے رسول نے ان لوگوں سے پوچھا : اس کے متعلق توراۃ میں کیا حکم ہے ؟ کیونکہ ہمارے یہاں اس کی سزا رجم ہے ، ان لوگوں نے کہا : کوڑے کی سزا ہے ، یا چہرے پر کالا پوت کر عوام میں رسوا کیا جانا ہے ، عبداللہ بن سلام نے کہا : تم کذب بیانی سے کام لے رہے ہو ، اس میں بھی رجم کا حکم ہے ، چناچہ توراۃ طلب کی گئی ، اسے پڑھا جانے لگا تو پڑھنے والے نے آیت رجم کو چھپا کر اس سے ما قبل اور بعد کی آیات پڑھیں ، پھر عبداللہ بن سلام کے کہنے پر اس نے اپنا ہاتھ اٹھایا تو آیت رجم موجود تھی ، چناچہ رسول اللہ  ﷺ  نے انہیں رجم کا حکم دیا۔    قال الشيخ الألباني :  صحيح، ابن ماجة (1476)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1436  
حدیث نمبر: 1436  حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مُوسَى الْأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ،  أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجَمَ يَهُودِيًّا وَيَهُودِيَّةً . قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْحَدِيثِ قِصَّةٌ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ১৪৩৭
حدود کا بیان
اہل کتاب کو سنگسار کرنے
 جابر بن سمرہ (رض) سے روایت ہے کہ  نبی اکرم  ﷺ  نے ایک یہودی مرد اور ایک یہودی عورت کو رجم کیا۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١ - جابر بن سمرہ (رض) کی حدیث حسن غریب ہے،  ٢ - اس باب میں ابن عمر، براء، جابر، ابن ابی اوفی، عبداللہ بن حارث بن جزء اور ابن عباس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں،  ٣ - اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے، وہ کہتے ہیں : جب اہل کتاب آپس میں جھگڑیں اور مسلم حکمرانوں کے پاس اپنا مقدمہ پیش کریں تو ان پر لازم ہے کہ وہ کتاب و سنت اور مسلمانوں کے احکام کے مطابق فیصلہ کریں، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے،  ٤ - بعض لوگ کہتے ہیں : اہل کتاب پر زنا کی حد نہ قائم کی جائے، لیکن پہلا قول زیادہ صحیح ہے  ١ ؎۔    تخریج دارالدعوہ :  سنن ابن ماجہ/الحدود ١٠ (٢٥٥٧) ، (تحفة الأشراف : ٢١٧٥) (صحیح) (سند میں ” شریک القاضی “ حافظے کے کمزور ہیں، لیکن پچھلی حدیث سے تقویت پا کر یہ حدیث بھی صحیح لغیرہ ہے  )    وضاحت :  ١ ؎ : کیونکہ یہ قول اس باب کی احادیث کے مطابق ہے۔    قال الشيخ الألباني :  صحيح بما قبله (1436)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1437  
حدیث نمبر: 1437  حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ،  أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجَمَ يَهُودِيًّا وَيَهُودِيَّةً . قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، وَالْبَرَاءِ، وَجَابِرٍ، وَابْنِ أَبِي أَوْفَى، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ جَزْءٍ، وَابْنِ عَبَّاسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ، قَالُوا: إِذَا اخْتَصَمَ أَهْلُ الْكِتَابِ، وَتَرَافَعُوا إِلَى حُكَّامِ الْمُسْلِمِينَ، حَكَمُوا بَيْنَهُمْ بِالْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ وَبِأَحْكَامِ الْمُسْلِمِينَ، وَهُوَ قَوْلُ: أَحْمَدَ، وَإِسْحَاق، وقَالَ بَعْضُهُمْ: لَا يُقَامُ عَلَيْهِمُ الْحَدُّ فِي الزِّنَا، وَالْقَوْلُ الْأَوَّلُ أَصَحُّ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ১৪৩৮
حدود کا بیان
زانی کی جلاوطنی
 عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ  نبی اکرم  ﷺ  نے  (غیر شادی شدہ زانی اور زانیہ کو)  کوڑے لگائے اور شہر بدر کیا ابوبکر (رض) نے بھی کوڑے لگائے اور شہر بدر کیا، اور عمر (رض) نے بھی کوڑے لگائے اور شہر بدر کیا۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١ - ابن عمر (رض) کی حدیث غریب ہے،  ٢ - اسے کئی لوگوں نے عبداللہ بن ادریس سے روایت کیا ہے، اور ان لوگوں نے اسے مرفوع کیا ہے،  (جب کہ)  بعض لوگوں نے اس حدیث کو بطریق : «عن عبد اللہ بن إدريس هذا الحديث عن عبيد اللہ عن نافع عن ابن عمر» (موقوفاً )  روایت کیا ہے کہ ابوبکر (رض) نے  (غیر شادی شدہ زانی کو)  کوڑے لگائے اور شہر بدر کیا، عمر (رض) نے کوڑے لگائے اور شہر بدر کیا،  ٣ -
حدیث نمبر: 1438  حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، وَيَحْيَى بْنُ أَكْثَمَ، قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ،  أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ضَرَبَ، وَغَرَّبَ ، وَأَنَّ أَبَا بَكْرٍ: ضَرَبَ وَغَرَّبَ، وَأَنَّ عُمَرَ: ضَرَبَ وَغَرَّبَ. قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَزَيْدِ بْنِ خَالِدٍ، وَعُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ غَرِيبٌ. رَوَاهُ غَيْرُ وَاحِدٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ إِدْرِيسَ، فَرَفَعُوهُ، وَرَوَى بَعْضُهُمْ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ إِدْرِيسَ، هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ أَبَا بَكْرٍ: ضَرَبَ وَغَرَّبَ، وَأَنَّ عُمَرَ: ضَرَبَ وَغَرَّبَ. 

তাহকীক:
হাদীস নং: ১৪৩৯
حدود کا بیان
حدود جن پر جاری کی جائیں ان کے لئے گناہوں کا کفارہ ہوتی ہیں۔
 عبادہ بن صامت (رض) کہتے ہیں کہ  ہم لوگ نبی اکرم  ﷺ  کے پاس ایک مجلس میں موجود تھے، آپ نے فرمایا :  ہم سے اس بات پر بیعت کرو کہ تم اللہ کے ساتھ شرک نہ کرو گے، چوری نہ کرو گے اور زنا نہ کرو گے، پھر آپ نے ان کے سامنے آیت پڑھی  ١ ؎ اور فرمایا : جو اس اقرار کو پورا کرے گا اس کا اجر اللہ کے ذمہ ہے اور جو ان میں سے کسی گناہ کا مرتکب ہوا پھر اس پر حد قائم ہوگئی تو یہ اس کے لیے کفارہ ہوجائے گا  ٢ ؎، اور جس نے کوئی گناہ کیا اور اللہ نے اس پر پردہ ڈال دیا تو وہ اللہ کے اختیار میں ہے، چاہے تو اسے عذاب دے اور چاہے تو اسے بخش دے ۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١ - عبادہ بن صامت کی حدیث حسن صحیح ہے،  ٢ - امام شافعی کہتے ہیں : میں نے اس باب میں اس حدیث سے اچھی کوئی چیز نہیں سنی کہ حدود اصحاب حدود کے لیے کفارہ ہیں،  ٣ - شافعی کہتے ہیں : میں چاہتا ہوں کہ جب کوئی گناہ کرے اور اللہ اس پر پردہ ڈال دے تو وہ خود اپنے اوپر پردہ ڈال لے اور اپنے اس گناہ کی ایسی توبہ کرے کہ اسے اور اس کے رب کے سوا کسی کو اس کا علم نہ ہو،  ٤ - ابوبکر اور عمر (رض) سے اسی طرح مروی ہے کہ انہوں نے ایک آدمی کو حکم دیا کہ وہ اپنے اوپر پردہ ڈال لے،  ٥ - اس باب میں علی، جریر بن عبداللہ اور خزیمہ بن ثابت (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔    تخریج دارالدعوہ :  صحیح البخاری/الإیمان ١١ (١٨) ، ومناقب الأنصار ٤٣ (٣٨٩٢) ، وتفسیر الممتحنة ٣ (٤٨٩٤) ، والحدود ٨ (٦٧٨٤) ، و ١٤ (٦٨٠١) ، والدیات ٢ (٦٨٧٣) ، والأحکام ٤٩ (٧٢١٣) ، والتوحید ٣١ (٧٤٦٨) ، صحیح مسلم/الحدود ١٠ (١٧٠٩) ، سنن النسائی/البیعة ٩ (٤١٦٦) ، و ١٧ (٤١٨٣) ، و ٣٨ (٤٢١٥) ، والإیمان ١٤ (٥٠٠٥) ، (تحفة الأشراف : ٥٠٩٤) ، و مسند احمد (٥/٣١٤، ٣٢١، ٣٣٣) (صحیح  )    وضاحت :  ١ ؎ : یہ آیت کس سورة کی تھی ؟ اس سلسلہ میں بصراحت کسی صحابی سے کچھ بھی ثابت نہیں ہے ، کیونکہ شرک باللہ ، چوری اور زنانہ کرنے کی صورت میں پورا پورا اجر ملنے کا ذکر قرآن کریم کی متعدد سورتوں میں ہے اور یہ کہنا کہ فلاں سورة کی فلاں آیت ہی مقصود ہے تو اس کے ثبوت کے لیے کسی صحابی سے اس کی تصریح ضروری ہے۔ اکثر علماء نے اس آیت سے مراد سورة الممتحنہ کی آیت رقم  ١٢  مراد لیا ہے ، جو یہ ہے «يا أيها النبي إذا جائك المؤمنات يبايعنك»إلى آخره .  ٢ ؎ : اس حدیث میں جو یہ عموم پایا جا رہا ہے کہ جوان میں سے کسی گناہ کا مرتکب ہو پھر اس پر حد قائم ہو تو یہ حد اس کے لیے کفارہ ہے تو یہ عموم آیت کریمہ : «إن اللہ لا يغفر أن يشرک به ويغفر ما دون ذلک لمن يشاء» (النساء :  ١١٦  ) سے خاص ہے ، لہٰذا ارتداد کی بنا پر اگر کسی کا قتل ہوا تو یہ قتل اس کے لیے باعث کفارہ نہیں ہوگا۔    قال الشيخ الألباني :  صحيح، الإرواء (2334)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1439  
حدیث نمبر: 1439  حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ الْخَوْلَانِيِّ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، قَالَ: كُنَّا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَجْلِسٍ، فَقَالَ:  تُبَايِعُونِي عَلَى أَنْ لَا تُشْرِكُوا بِاللَّهِ شَيْئًا، وَلَا تَسْرِقُوا، وَلَا تَزْنُوا ، قَرَأَ عَلَيْهِمُ الْآيَةَ، فَمَنْ وَفَّى مِنْكُمْ فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ، وَمَنْ أَصَابَ مِنْ ذَلِكَ شَيْئًا فَعُوقِبَ عَلَيْهِ فَهُوَ كَفَّارَةٌ لَهُ، وَمَنْ أَصَابَ مِنْ ذَلِكَ شَيْئًا فَسَتَرَهُ اللَّهُ عَلَيْهِ فَهُوَ إِلَى اللَّهِ إِنْ شَاءَ عَذَّبَهُ وَإِنْ شَاءَ غَفَرَ لَهُ. قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ عَلِيٍّ، وَجَرِيرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، وَخُزَيْمَةَ بْنِ ثَابِتٍ قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وقَالَ الشَّافِعِيُّ: لَمْ أَسْمَعْ فِي هَذَا الْبَابِ أَنَّ الْحُدُودَ تَكُونُ كَفَّارَةً لِأَهْلِهَا شَيْئًا أَحْسَنَ مِنْ هَذَا الْحَدِيثِ، قَالَ الشَّافِعِيُّ: وَأُحِبُّ لِمَنْ أَصَابَ ذَنْبًا فَسَتَرَهُ اللَّهُ عَلَيْهِ، أَنْ يَسْتُرَ عَلَى نَفْسِهِ، وَيَتُوبَ فِيمَا بَيْنَهُ وَبَيْنَ رَبِّهِ، وَكَذَلِكَ رُوِيَ عَنْ أَبِي بَكْرٍ، وَعُمَرَ، أَنَّهُمَا أَمَرَا رَجُلًا أَنْ يَسْتُرَ عَلَى نَفْسِهِ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ১৪৪০
حدود کا بیان
لونڈیوں پر حدود قائم کرنا
 ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا :  جب تم میں سے کسی کی لونڈی زنا کرے تو اللہ کی کتاب کے  (حکم کے)  مطابق تین بار اسے کوڑے لگاؤ  ١ ؎ اگر وہ پھر بھی  (یعنی چوتھی بار)  زنا کرے تو اسے فروخت کر دو ، چاہے قیمت میں بال کی رسی ہی ملے ۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١ - ابوہریرہ (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے،  ٢ - ان سے یہ حدیث کئی سندوں سے آئی ہے،  ٣ - اس باب میں علی، ابوہریرہ، زید بن خالد (رض) سے اور شبل سے بواسطہ عبداللہ بن مالک اوسی بھی احادیث آئی ہیں،  ٤ - صحابہ میں سے بعض اہل علم اور کچھ دوسرے لوگوں کا اسی پر عمل ہے، یہ لوگ کہتے ہیں کہ سلطان  (حاکم)  کے بجائے آدمی اپنے مملوک  (غلام)  پر خود حد نافذ کرے، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے،  ٥ - بعض لوگ کہتے ہیں : سلطان  (حاکم)  کے پاس مقدمہ پیش کیا جائے گا، کوئی آدمی بذات خود حد نافذ نہیں کرے گا، لیکن پہلا قول زیادہ صحیح ہے  ٢ ؎۔    تخریج دارالدعوہ :  تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبریٰ ) (تحفة الأشراف : ١٢٤٩٧) (صحیح  )    وضاحت :  ١ ؎ : یعنی زنا کی حرکت اس سے اگر تین بار سرزد ہوئی ہے تو ہر مرتبہ اسے کوڑے کی سزا ملے گی ، اور چوتھی مرتبہ اسے شہر بدر کردیا جائے گا۔  ٢ ؎ : کیونکہ باب کی حدیث کا مفہوم یہی ہے ، مالک کے پاس اپنی لونڈی یا غلام کی بدکاری سے متعلق اگر معتبر شہادت موجود ہو تو مالک بذات خود حد قائم کرسکتا ہے۔    قال الشيخ الألباني :  صحيح، ابن ماجة (2565)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1440  
حدیث نمبر: 1440  حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ، حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الْأَحْمَرُ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:  إِذَا زَنَتْ أَمَةُ أَحَدِكُمْ فَلْيَجْلِدْهَا ثَلَاثًا بِكِتَابِ اللَّهِ، فَإِنْ عَادَتْ فَلْيَبِعْهَا وَلَوْ بِحَبْلٍ مِنْ شَعَرٍ . قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ عَلِيٍّ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَزَيْدِ بْنِ خَالِدٍ، وَشِبْلٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَالِكٍ الْأَوْسِيِّ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْهُ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَغَيْرِهِمْ رَأَوْا أَنْ يُقِيمَ الرَّجُلُ الْحَدَّ عَلَى مَمْلُوكِهِ دُونَ السُّلْطَانِ، وَهُوَ قَوْلُ: أَحْمَدَ، وَإِسْحَاق، قَالَ بَعْضُهُمْ: يُرْفَعُ إِلَى السُّلْطَانِ، وَلَا يُقِيمُ الْحَدَّ هُوَ بِنَفْسِهِ، وَالْقَوْلُ الْأَوَّلُ أَصَحُّ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ১৪৪১
حدود کا بیان
لونڈیوں پر حدود قائم کرنا
 ابوعبدالرحمٰن سلمی کہتے ہیں کہ  علی (رض) نے خطبہ کے دوران کہا : لوگو ! اپنے غلاموں اور لونڈیوں پر حد قائم کرو، جس کی شادی ہوئی ہو اس پر بھی اور جس کی شادی نہ ہوئی ہو اس پر بھی، رسول اللہ  ﷺ  کی ایک لونڈی نے زنا کیا، چناچہ آپ نے مجھے کوڑے لگانے کا حکم دیا، میں اس کے پاس آیا تو  (دیکھا)  اس کو کچھ ہی دن پہلے نفاس کا خون آیا تھا  ١ ؎ لہٰذا مجھے اندیشہ ہوا کہ اگر میں نے اسے کوڑے لگائے تو کہیں میں اسے قتل نہ کر بیٹھوں، یا انہوں نے کہا : کہیں وہ مر نہ جائے  ٢ ؎، چناچہ میں رسول اللہ  ﷺ  کے پاس گیا اور آپ سے اسے بیان کیا، تو آپ نے فرمایا :  تم نے اچھا کیا ۔    امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔    تخریج دارالدعوہ :  صحیح مسلم/الحدود ٧ (١٧٠٥) ، (تحفة الأشراف : ١٠١٧٠) (صحیح  )    وضاحت :  ١ ؎ : یعنی کچھ ہی دن قبل اس سے ولادت ہوئی تھی۔  ٢ ؎ : یہ شک راوی کی طرف سے ہے۔    قال الشيخ الألباني :  صحيح، الإرواء (7 / 360)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1441  
حدیث نمبر: 1441  حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ، حَدَّثَنَا زَائِدَةُ بْنُ قُدَامَةَ، عَنْ السُّدِّيِّ، عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَيْدَةَ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيِّ، قَالَ: خَطَبَ عَلِيٌّ، فَقَالَ  يَا أَيُّهَا النَّاسُ، أَقِيمُوا الْحُدُودَ عَلَى أَرِقَّائِكُمْ مَنْ أَحْصَنَ مِنْهُمْ، وَمَنْ لَمْ يُحْصِنْ، وَإِنَّ أَمَةً لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَنَتْ، فَأَمَرَنِي أَنْ أَجْلِدَهَا، فَأَتَيْتُهَا فَإِذَا هِيَ حَدِيثَةُ عَهْدٍ بِنِفَاسٍ، فَخَشِيتُ إِنْ أَنَا جَلَدْتُهَا أَنْ أَقْتُلَهَا، أَوْ قَالَ: تَمُوتَ، فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ:  أَحْسَنْتَ . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالسُّدِّيُّ اسْمُهُ: إِسْمَاعِيل بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ وَهُوَ مِنَ التَّابِعِينَ، قَدْ سَمِعَ مِنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، وَرَأَى حُسَيْنَ بْنَ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ.  

তাহকীক: