আল জামিউল কাবীর- ইমাম তিরমিযী রহঃ (উর্দু)
الجامع الكبير للترمذي
جہاد کا بیان - এর পরিচ্ছেদসমূহ
মোট হাদীস ২০ টি
হাদীস নং: ১৫৪৮
جہاد کا بیان
لڑائی سے پہلے اسلام کی دعوت دینا۔
 ابوالبختری سعید بن فیروز سے روایت ہے کہ  مسلمانوں کے ایک لشکر نے جس کے امیر سلمان فارسی تھے، فارس کے ایک قلعہ کا محاصرہ کیا، لوگوں نے کہا : ابوعبداللہ ! کیا ہم ان پر حملہ نہ کردیں ؟ ، انہوں نے کہا : مجھے چھوڑ دو میں ان کافروں کو اسلام کی دعوت اسی طرح دوں جیسا کہ میں نے رسول اللہ  ﷺ  کو انہیں دعوت دیتے ہوئے سنا ہے  ١ ؎، چناچہ سلمان فارسی (رض) ان کے پاس گئے، اور کافروں سے کہا : میں تمہاری ہی قوم فارس کا رہنے والا ایک آدمی ہوں، تم دیکھ رہے ہو عرب میری اطاعت کرتے ہیں، اگر تم اسلام قبول کرو گے تو تمہارے لیے وہی حقوق ہوں گے جو ہمارے لیے ہیں، اور تمہارے اوپر وہی ذمہ داریاں عائد ہوں گی جو ہمارے اوپر ہیں، اور اگر تم اپنے دین ہی پر قائم رہنا چاہتے ہو تو ہم اسی پر تم کو چھوڑ دیں گے، اور تم ذلیل و خوار ہو کر اپنے ہاتھ سے جزیہ ادا کرو  ٢ ؎، سلمان فارسی (رض) نے اس بات کو فارسی زبان میں بھی بیان کیا، اور یہ بھی کہا : تم قابل تعریف لوگ نہیں ہو، اور اگر تم نے انکار کیا تو ہم تم سے  (حق پر)  جنگ کریں گے، ان لوگوں نے جواب دیا : ہم وہ نہیں ہیں کہ جزیہ دیں، بلکہ تم سے جنگ کریں گے، مسلمانوں نے کہا : ابوعبداللہ ! کیا ہم ان پر حملہ نہ کردیں ؟ انہوں نے کہا : نہیں، پھر انہوں نے تین دن تک اسی طرح ان کو اسلام کی دعوت دی، پھر مسلمانوں سے کہا : ان پر حملہ کرو، ہم لوگوں نے ان پر حملہ کیا اور اس قلعہ کو فتح کرلیا۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١ - سلمان فارسی (رض) کی حدیث حسن ہے، ہم اس کو صرف عطاء بن سائب ہی کی روایت سے جانتے ہیں،  ٢ - میں نے محمد بن اسماعیل  (امام بخاری)  کو کہتے ہوئے سنا : ابوالبختری نے سلمان کو نہیں پایا ہے، اس لیے کہ انہوں نے علی کو نہیں پایا ہے، اور سلمان کی وفات علی سے پہلے ہوئی ہے،  ٢ - اس باب میں بریدہ، نعمان بن مقرن، ابن عمر اور ابن عباس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں،  ٣ - بعض اہل علم صحابہ اور دوسرے لوگوں کی یہی رائے ہے کہ قتال سے پہلے کافروں کو دعوت دی جائے گی، اسحاق بن ابراہیم بن راہویہ کا بھی یہی قول ہے کہ اگر ان کو پہلے اسلام کی دعوت دے دی جائے تو بہتر ہے، یہ ان کے لیے خوف کا باعث ہوگا،  ٤ - بعض اہل علم کہتے ہیں کہ اس دور میں دعوت کی ضرورت نہیں ہے، امام احمد کہتے ہیں : میں اس زمانے میں کسی کو دعوت دئیے جانے کے لائق نہیں سمجھتا،  ٥ - امام شافعی کہتے ہیں : دعوت سے پہلے دشمنوں سے جنگ نہ شروع کی جائے، ہاں اگر کفار خود جنگ میں پہل کر بیٹھیں تو اس صورت میں اگر دعوت نہ دی گئی تو کوئی حرج نہیں کیونکہ اسلام کی دعوت ان تک پہنچ چکی ہے۔    تخریج دارالدعوہ :  تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٤٤٩٠) (ضعیف) (سند میں ابوالبختری کا لقاء ” سلمان فارسی (رض) سے نہیں ہے اس لیے سند میں انقطاع ہے، نیز ” عطاء بن السائب “ اخیر عمر میں مختلط ہوگئے تھے، لیکن قتال سے پہلے کفار کو مذکورہ تین باتوں کی پیشکش بریدہ (رض) کی حدیث سے ثابت ہے دیکھئے : الإرواء رقم ١٢٤٧  )    وضاحت :  ١ ؎ : یعنی ان کافروں کو پہلے اسلام کی دعوت دی جائے اگر انہیں یہ منظور نہ ہو تو ان سے جزیہ دینے کو کہا جائے اگر یہ بھی منظور نہ ہو تو پھر حملہ کے سوا کوئی چارہ کار نہیں۔  ٢ ؎ : جزیہ ایک متعین رقم ہے جو سالانہ ایسے غیر مسلموں سے لی جاتی ہے جو کسی اسلامی مملکت میں رہائش پذیر ہوں ، اس کے بدلے میں ان کی جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کی ذمہ داری اسلامی مملکت کی ہوتی ہے۔    قال الشيخ الألباني :  ضعيف، الإرواء (5 / 87) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (1247) //   صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1548  
حدیث نمبر: 1548  حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ أَبِي الْبَخْتَرِيِّ  أَنَّ جَيْشًا مِنْ جُيُوشِ الْمُسْلِمِينَ كَانَ أَمِيرَهُمْ سَلْمَانُ الْفَارِسِيُّ حَاصَرُوا قَصْرًا مِنْ قُصُورِ فَارِسَ، فَقَالُوا: يَا أَبَا عَبْدِ اللَّهِ، أَلَا نَنْهَدُ إِلَيْهِمْ ؟ قَالَ: دَعُونِي أَدْعُهُمْ كَمَا سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدْعُوهُمْ، فَأَتَاهُمْ سَلْمَانُ، فَقَالَ لَهُمْ: إِنَّمَا أَنَا رَجُلٌ مِنْكُمْ فَارِسِيٌّ، تَرَوْنَ الْعَرَبَ يُطِيعُونَنِي، فَإِنْ أَسْلَمْتُمْ، فَلَكُمْ مِثْلُ الَّذِي لَنَا وَعَلَيْكُمْ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْنَا، وَإِنْ أَبَيْتُمْ إِلَّا دِينَكُمْ، تَرَكْنَاكُمْ عَلَيْهِ، وَأَعْطُونَا الْجِزْيَةَ عَنْ يَدٍ وَأَنْتُمْ صَاغِرُونَ، قَالَ: وَرَطَنَ إِلَيْهِمْ بِالْفَارِسِيَّةِ: وَأَنْتُمْ غَيْرُ مَحْمُودِينَ، وَإِنْ أَبَيْتُمْ، نَابَذْنَاكُمْ عَلَى سَوَاءٍ، قَالُوا: مَا نَحْنُ بِالَّذِي نُعْطِي الْجِزْيَةَ، وَلَكِنَّا نُقَاتِلُكُمْ، فَقَالُوا: يَا أَبَا عَبْدِ اللَّهِ، أَلَا نَنْهَدُ إِلَيْهِمْ ؟ قَالَ: لَا، فَدَعَاهُمْ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ إِلَى مِثْلِ هَذَا، ثُمَّ قَالَ: انْهَدُوا إِلَيْهِمْ، قَالَ: فَنَهَدْنَا إِلَيْهِمْ، فَفَتَحْنَا ذَلِكَ الْقَصْرَ، قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ بُرَيْدَةَ، وَالنُّعْمَانِ بْنِ مُقَرِّنٍ، وَابْنِ عُمَرَ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَحَدِيثُ سَلْمَانَ، حَدِيثٌ حَسَنٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، وسَمِعْت مُحَمَّدًا، يَقُولُ: أَبُو الْبَخْتَرِيِّ لَمْ يُدْرِكْ سَلْمَانَ، لِأَنَّهُ لَمْ يُدْرِكْ عَلِيًّا، وَسَلْمَانُ مَاتَ قَبْلَ عَلِيٍّ، وَقَدْ ذَهَبَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ إِلَى هَذَا، وَرَأَوْا أَنْ يُدْعَوْا قَبْلَ الْقِتَالِ، وَهُوَ قَوْلُ إِسْحَاق بْنِ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: إِنْ تُقُدِّمَ إِلَيْهِمْ فِي الدَّعْوَةِ فَحَسَنٌ، يَكُونُ ذَلِكَ أَهْيَبَ، وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: لَا دَعْوَةَ الْيَوْمَ، وقَالَ أَحْمَدُ: لَا أَعْرِفُ الْيَوْمَ أَحَدًا يُدْعَى، وقَالَ الشَّافِعِيُّ: لَا يُقَاتَلُ الْعَدُوُّ حَتَّى يُدْعَوْا، إِلَّا أَنْ يَعْجَلُوا عَنْ ذَلِكَ، فَإِنْ لَمْ يَفْعَلْ، فَقَدْ بَلَغَتْهُمُ الدَّعْوَةُ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ১৫৪৯
جہاد کا بیان
لڑائی سے پہلے اسلام کی دعوت دینا۔
 عصام مزنی (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  جب کوئی لشکر یا سریہ بھیجتے تو ان سے فرماتے :  جب تم کوئی مسجد دیکھو یا مؤذن کی آواز سنو تو کسی کو نہ مارو   ١ ؎۔    امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے، اور یہ ابن عیینہ سے آئی ہے۔    تخریج دارالدعوہ :  سنن ابی داود/ الجہاد ١٠٠ (٢٦٣٥) ، (تحفة الأشراف : ٩٩٠١) (ضعیف) (سند میں ” عبد الملک بن نوفل “ لین الحدیث، اور ” ابن عصام “ مجہول راوی ہیں  )    وضاحت :  ١ ؎ : یعنی جب اسلام کی کوئی علامت اور نشانی نظر آ جائے تو اس وقت تک حملہ نہ کیا جائے جب تک مومن اور کافر کے درمیان فرق واضح نہ ہوجائے۔    قال الشيخ الألباني :  ضعيف، ضعيف أبي داود (454) // عندنا برقم (565 / 2635) //   صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1549  
حدیث نمبر: 1549  حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى الْعَدَنِيُّ الْمَكِّيُّ وَيُكْنَى بِأَبِي عَبْدِ اللَّهِ الرَّجُلِ الصَّالِحِ هُوَ ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ نَوْفَلِ بْنِ مُسَاحِقٍ، عَنْ ابْنِ عِصَامٍ الْمُزَنِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، وَكَانَتْ لَهُ صُحْبَةٌ، قَالَ:  كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا بَعَثَ جَيْشًا أَوْ سَرِيَّةً يَقُولُ لَهُمْ:  إِذَا رَأَيْتُمْ مَسْجِدًا، أَوْ سَمِعْتُمْ مُؤَذِّنًا، فَلَا تَقْتُلُوا أَحَدًا ، هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَهُوَ حَدِيثُ ابْنِ عُيَيْنَةَ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ১৫৫০
جہاد کا بیان
شب خون مارنے اور حملہ کرنا۔
 انس (رض) سے روایت ہے کہ  جب رسول اللہ  ﷺ  خیبر روانہ ہوئے تو وہاں رات کو پہنچے، اور آپ جب بھی کسی قوم کے پاس رات کو پہنچتے تو جب تک صبح نہ ہوجاتی اس پر حملہ نہیں کرتے  ١ ؎، پھر جب صبح ہوگئی تو یہود اپنے پھاوڑے اور ٹوکریوں کے ساتھ نکلے، جب انہوں نے آپ کو دیکھا تو کہا : محمد ہیں، اللہ کی قسم، محمد لشکر کے ہمراہ آ گئے، رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا :  اللہ اکبر ! خیبر برباد ہوگیا، جب ہم کسی قوم کے میدان میں اترتے ہیں اس وقت ڈرائے گئے لوگوں کی صبح، بڑی بری ہوتی ہے۔    تخریج دارالدعوہ :  صحیح البخاری/الجہاد ١٠١ (٢٩٤٥) ، والمغازي ٣٨ (٤١٩٧) ، (وانظر أیضا : الصلاة ١٢ (٣٧١) ، صحیح مسلم/النکاح ١٤ (١٣٦٥/٨٤) ، والجہاد ٤٣ (١٢٠/١٣٦٥) ، سنن النسائی/المواقیت ٢٦ (٥٤٨) ، (تحفة الأشراف : ٧٣٤) ، و مسند احمد (٣/١٠٢، ١٨٦، ٢٠٦، ٢٦٣) (صحیح  )    وضاحت :  ١ ؎ : آپ ایسا اس لیے کرتے تھے کہ اذان سے یہ واضح ہوجائے گا کہ یہ مسلمانوں کی بستی ہے یا نہیں ، چناچہ اگر اذان سنائی دیتی تو حملہ سے رک جاتے بصورت دیگر حملہ کرتے۔    قال الشيخ الألباني :  صحيح    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1550  
حدیث نمبر: 1550  حَدَّثَنَا الْأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، حَدَّثَنِي مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ خَرَجَ إِلَى خَيْبَرَ، أَتَاهَا لَيْلًا، وَكَانَ إِذَا جَاءَ قَوْمًا بِلَيْلٍ، لَمْ يُغِرْ عَلَيْهِمْ حَتَّى يُصْبِحَ، فَلَمَّا أَصْبَحَ، خَرَجَتْ يَهُودُ بِمَسَاحِيهِمْ وَمَكَاتِلِهِمْ، فَلَمَّا رَأَوْهُ، قَالُوا: مُحَمَّدٌ وَافَقَ وَاللَّهِ مُحَمَّدٌ الْخَمِيسَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:  اللَّهُ أَكْبَرُ، خَرِبَتْ خَيْبَرُ، إِنَّا إِذَا نَزَلْنَا بِسَاحَةِ قَوْمٍ، فَسَاءَ صَبَاحُ الْمُنْذَرِينَ .  

তাহকীক:
হাদীস নং: ১৫৫১
جہاد کا بیان
شب خون مارنے اور حملہ کرنا۔
 ابوطلحہ (رض) سے روایت ہے کہ  جب نبی اکرم  ﷺ  کسی قوم پر غالب آتے تو ان کے میدان میں تین دن تک قیام کرتے۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے،  ٢ - حمید کی حدیث جو انس (رض) سے آئی ہے حسن صحیح ہے،  ٣ - اہل علم کی ایک جماعت نے رات میں حملہ کرنے اور چھاپہ مارنے کی اجازت دی ہے،  ٤ - بعض اہل علم اس کو مکروہ سمجھتے ہیں،  ٥ - احمد اور اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ رات میں دشمن پر چھاپہ مارنے میں کوئی حرج نہیں ہے،  ٦ - «وافق محمد الخميس» میں «الخميس» سے مراد لشکر ہے۔    تخریج دارالدعوہ :  صحیح البخاری/الجہاد ١٨٤ (٣٠٦٤) ، والمغازي ٨ (٣٩٧٦) ، سنن ابی داود/ الجہاد ١٣٢ (٢٦٩٥) ، (تحفة الأشراف : ٣٧٧٠) ، و مسند احمد (٤/٢٩) ، وسنن الدارمی/السیر ٢٢ (٢٥٠٢) (صحیح  )    قال الشيخ الألباني :  صحيح، صحيح أبي داود  (2414 )    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1551  
حدیث نمبر: 1551  حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، وَمُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ، عَنْأَبِي طَلْحَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:  كَانَ إِذَا ظَهَرَ عَلَى قَوْمٍ، أَقَامَ بِعَرْصَتِهِمْ ثَلَاثًا ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَحَدِيثُ حُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسٍ، حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رَخَّصَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي الْغَارَةِ بِاللَّيْلِ وَأَنْ يُبَيِّتُوا، وَكَرِهَهُ بَعْضُهُمْ، وقَالَ أَحْمَدُ، وَإِسْحَاق: لَا بَأْسَ أَنْ يُبَيَّتَ الْعَدُوُّ لَيْلًا، وَمَعْنَى قَوْلِهِ وَافَقَ مُحَمَّدٌ الْخَمِيسَ، يَعْنِي بِهِ: الْجَيْشَ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ১৫৫২
جہاد کا بیان
کفار کے گھروں کو آگ لگانا اور برباد کرنا۔
 عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے بنو نضیر کے کھجوروں کے درخت جلوا اور کٹوا دیئے  ١ ؎، یہ مقام بویرہ کا واقعہ ہے، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی «ما قطعتم من لينة أو ترکتموها قائمة علی أصولها فبإذن اللہ وليخزي الفاسقين»  (مسلمانو ! ) ،  (یہود بنی نضیر کے)  کھجوروں کے درخت جو کاٹ ڈالے ہیں یا ان کو ہاتھ بھی نہ لگایا اور اپنے تنوں پر ہی ان کو کھڑا چھوڑ دیا تو یہ سب اللہ کے حکم سے تھا اور اللہ عزوجل کو منظور تھا کہ وہ نافرمانوں کو ذلیل کرے   (الحشر :  ٥  ) ۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے،  ٢ - اس باب میں ابن عباس (رض) سے بھی روایت ہے،  ٣ - بعض اہل علم کا یہی مسلک ہے، وہ درخت کاٹنے اور قلعے ویران کرنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے ہیں،  ٤ - بعض اہل علم اس کو مکروہ سمجھتے ہیں، اوزاعی کا یہی قول ہے،  ٥ - اوزاعی کہتے ہیں : ابوبکر صدیق (رض) نے یزید کو پھل دار درخت کاٹنے اور مکان ویران کرنے سے منع کیا، ان کے بعد مسلمانوں نے اسی پر عمل کیا،  ٦ - شافعی کہتے ہیں : دشمن کے ملک میں آگ لگانے، درخت اور پھل کاٹنے میں کوئی حرج نہیں ہے  ٢ ؎۔  ٧ - احمد کہتے ہیں : اسلامی لشکر کبھی کبھی ایسی جگہ ہوتا ہے جہاں اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا، لیکن بلا ضرورت آگ نہ لگائی جائے،  ٨ - اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں : آگ لگانا سنت ہے، جب یہ کافروں کی ہار و رسوائی کا باعث ہو۔    تخریج دارالدعوہ :  صحیح البخاری/المزارعة ٤ (٢٣٥٦) ، والجہاد ١٥٤ (٣٠٢٠) ، والمغازي ١٤ (٣٩٦٠) ، صحیح مسلم/الجہاد ١٠ (١٧٤٦) ، سنن ابی داود/ الجہاد ٩١ (٢٦١٥) ، سنن ابن ماجہ/الجہاد (٢٨٤٤) ، (تحفة الأشراف : ٨٢٦٧) ، سنن الدارمی/السیر ٢٣ (٢٥٠٣) (صحیح  )    وضاحت :  ١ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جنگی ضرورت کی بنا پر پھلدار درختوں کو جلوانا اور کٹوانا جائز ہے ، لیکن بلا ضرورت عام حالات میں انہیں کاٹنے سے بچنا چاہیئے۔  ٢ ؎ : یعنی جب اسلامی لشکر کے لیے کچھ ایسے حالات پیدا ہوجائیں کہ درختوں کے جلانے اور مکانوں کے ویران کرنے کے سوا ان کے لیے دوسرا کوئی راستہ نہ ہو تو ایسی صورت میں ایسا کرنا جائز ہے۔    قال الشيخ الألباني :  صحيح، ابن ماجة (2844)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1552  
حدیث نمبر: 1552  حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:  حَرَّقَ نَخْلَ بَنِي النَّضِيرِ وَقَطَعَ، وَهِيَ الْبُوَيْرَةُ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ: مَا قَطَعْتُمْ مِنْ لِينَةٍ أَوْ تَرَكْتُمُوهَا قَائِمَةً عَلَى أُصُولِهَا فَبِإِذْنِ اللَّهِ وَلِيُخْزِيَ الْفَاسِقِينَ سورة الحشر آية 5 ، وَفِي الْبَاب، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ ذَهَبَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ إِلَى هَذَا، وَلَمْ يَرَوْا بَأْسًا بِقَطْعِ الْأَشْجَارِ وَتَخْرِيبِ الْحُصُونِ، وَكَرِهَ بَعْضُهُمْ ذَلِكَ، وَهُوَ قَوْلُ الْأَوْزَاعِيِّ، قَالَ الْأَوْزَاعِيُّ: وَنَهَى أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ أَنْ يَقْطَعَ شَجَرًا مُثْمِرًا، أَوْ يُخَرِّبَ عَامِرًا، وَعَمِلَ بِذَلِكَ الْمُسْلِمُونَ بَعْدَهُ، وقَالَ الشَّافِعِيُّ: لَا بَأْسَ بِالتَّحْرِيقِ فِي أَرْضِ الْعَدُوِّ وَقَطْعِ الْأَشْجَارِ وَالثِّمَارِ، وقَالَ أَحْمَدُ: وَقَدْ تَكُونُ فِي مَوَاضِعَ لَا يَجِدُونَ مِنْهُ بُدًّا، فَأَمَّا بِالْعَبَثِ، فَلَا تُحَرَّقْ، وقَالَ إِسْحَاق: التَّحْرِيقُ سُنَّةٌ إِذَا كَانَ أَنْكَى فِيهِمْ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ১৫৫৩
جہاد کا بیان
مال غنیمت کے بارے میں
 ابوامامہ (رض) سے روایت ہے کہ  نبی اکرم  ﷺ  نے فرمایا :  اللہ تعالیٰ نے مجھے انبیاء و رسل پر فضیلت بخشی ہے   (یا آپ نے یہ فرمایا :  میری امت کو دوسری امتوں پر فضیلت بخشی ہے، اور ہمارے لیے مال غنیمت کو حلال کیا ہے ۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١ - ابوامامہ کی حدیث حسن صحیح ہے،  ٢ - اس باب میں علی، ابوذر، عبداللہ بن عمرو، ابوموسیٰ اور ابن عباس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔    تخریج دارالدعوہ :  تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٤٨٧٧) (صحیح  )    قال الشيخ الألباني :  صحيح، المشکاة (4001 / التحقيق الثاني) ، الإرواء (152 - 285)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1553  
حدیث نمبر: 1553  حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ الْمُحَارِبِيُّ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا أَسْبَاطُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ، عَنْ سَيَّارٍ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:  إِنَّ اللَّهَ فَضَّلَنِي عَلَى الْأَنْبِيَاءِ، أَوْ قَالَ: أُمَّتِي عَلَى الْأُمَمِ، وَأَحَلَّ لِيَ الْغَنَائِمَ ، وَفِي الْبَاب، عَنْ عَلِيٍّ، وَأَبِي ذَرٍّ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، وَأَبِي مُوسَى، وَابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي أُمَامَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَسَيَّارٌ هَذَا يُقَالُ لَهُ: سَيَّارٌ مَوْلَى بَنِي مُعَاوِيَةَ، وَرَوَى عَنْهُ سُلَيْمَانُ التَّيْمِيُّ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ بَحِيرٍ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ১৫৫৪
جہاد کا بیان
گھوڑے کے حصے۔
 عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے مال غنیمت کی تقسیم میں گھوڑے کو دو حصے اور آدمی  (سوار)  کو ایک حصہ دیا  ١ ؎۔    تخریج دارالدعوہ :  صحیح البخاری/الجہاد ٥١ (٢٨٦٣) ، والمغازي ٣٨ (٤٢٢٨) ، صحیح مسلم/الجہاد ١٧ (١٧٦٢) ، سنن ابی داود/ الجہاد ١٥٤ (٢٧٢٣) ، سنن ابن ماجہ/الجہاد ٣٦ (٢٨٥٤) ، (تحفة الأشراف : ٧٩٠٧) ، و مسند احمد (٢/٢، ٦٢، ٧٢، ٨٠) ، سنن الدارمی/السیر ٣٣ (٢٥١٥) (صحیح  )    وضاحت :  ١ ؎ : یعنی گھوڑ سوار کو تین حصے دئے گئے ، ایک حصہ اس کا اور دو حصے اس کے گھوڑے کے ، گھوڑے کا حصہ اس لیے زیادہ رکھا گیا کہ اس کی خوراک اور اس کی دیکھ بھال پر کافی خرچ ہوتا ہے۔    قال الشيخ الألباني :  صحيح، ابن ماجة (2854)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1554  
حدیث نمبر: 1554  حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الضَّبِّيُّ، وَحُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ، قَالَا: حَدَّثَنَا سُلَيْمُ بْنُ أَخْضَرَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:  قَسَمَ فِي النَّفَلِ لِلْفَرَسِ بِسَهْمَيْنِ، وَلِلرَّجُلِ بِسَهْمٍ .  

তাহকীক:
হাদীস নং: ১৫৫৫
جہاد کا بیان
لشکر کے متعلق۔
 عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا :  سب سے بہترین ساتھی وہ ہیں جن کی تعداد چار ہو، اور سب سے بہتر سریہ وہ ہے جس کی تعداد چار سو ہو، اور سب سے بہتر فوج وہ ہے جس کی تعداد چار ہزار ہو اور بارہ ہزار اسلامی فوج قلت تعداد کے باعث مغلوب نہیں ہوگی ۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١ - یہ حدیث حسن غریب ہے،  ٢ - جریر بن حازم کے سوا کسی بڑے محدث سے یہ حدیث مسنداً مروی نہیں، زہری نے اسے نبی اکرم  ﷺ  سے مرسلاً روایت کیا ہے،  ٤ - اس حدیث کو حبان بن علی عنزی بسند «عقيل عن الزهري عن عبيد اللہ بن عبد اللہ عن ابن عباس عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» روایت کیا ہے، نیز اسے لیث بن سعد نے بسند «عقيل عن الزهري عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» مرسلاً روایت کیا ہے۔    تخریج دارالدعوہ :  سنن ابی داود/ الجہاد ٨٩ (٢٦١١) ، سنن ابن ماجہ/السرایا (٢٧٢٨) ، (تحفة الأشراف : ٤٨٤٨) ، وسنن الدارمی/السیر ٤ (٢٤٨٢) (ضعیف) (اس حدیث کا ” عن الزہري عن النبي  ﷺ “ مرسل ہونا ہی صحیح ہے، نیز یہ آیت ربانی { وَعَلِمَ أَنَّ فِيكُمْ ضَعْفًا فَإِن يَكُن مِّنكُم مِّئَةٌ صَابِرَةٌ يَغْلِبُواْ مِئَتَيْنِ } (الأنفال : 66) کے بھی مخالف ہے، دیکھئے : الصحیحة رقم ٩٨٦، تراجع الالبانی ١٥٢  )    وضاحت :  ١ ؎ : «سرایا» جمع ہے سریہ کی ، «سریہ» اس جنگ کو کہتے ہیں جس میں رسول اللہ  ﷺ  ذاتی طور پر شریک نہ رہے ہوں ، یہ بڑے لشکر کا ایک حصہ ہوتا ہے جس میں زیادہ سے زیادہ چار سو فوجی ہوتے ہیں۔    قال الشيخ الألباني :  صحيح، الصحيحة (986)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1555  
حدیث نمبر: 1555  حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى الْأَزْدِيُّ الْبَصْرِيُّ، وَأَبُو عَمَّارٍ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ، قَالُوا: حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْيُونُسَ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:  خَيْرُ الصَّحَابَةِ أَرْبَعَةٌ، وَخَيْرُ السَّرَايَا أَرْبَعُ مِائَةٍ، وَخَيْرُ الْجُيُوشِ أَرْبَعَةُ آلَافٍ، وَلَا يُغْلَبُ اثْنَا عَشَرَ أَلْفًا مِنْ قِلَّةٍ ، هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، لَا يُسْنِدُهُ كَبِيرُ أَحَدٍ غَيْرُ جَرِيرِ بْنِ حَازِمٍ، وَإِنَّمَا رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُرْسَلًا، وَقَدْ رَوَاهُ حِبَّانُ بْنُ عَلِيٍّ الْعَنَزِيُّ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْعُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَرَوَاهُ اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنْالزُّهْرِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُرْسَلًا.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ১৫৫৬
جہاد کا بیان
مال غنیمت میں کس کس کو حصہ دیا جائے۔
 یزید بن ہرمز سے روایت ہے کہ  نجدہ بن عامر حروری نے ابن عباس (رض) کے پاس یہ سوال لکھ کر بھیجا کیا رسول اللہ  ﷺ  عورتوں کو ساتھ لے کر جہاد کرتے تھے ؟ اور کیا آپ ان کے لیے مال غنیمت سے حصہ بھی مقرر فرماتے تھے ؟ ابن عباس (رض) نے ان کو جواب میں لکھا : تم نے میرے پاس یہ سوال لکھا ہے : کیا رسول اللہ  ﷺ  عورتوں کو ساتھ لے کر جہاد کرتے تھے ؟  ١ ؎ ہاں، آپ ان کے ہمراہ جہاد کرتے تھے، وہ بیماروں کا علاج کرتی تھیں اور مال غنیمت سے ان کو  (بطور انعام)  کچھ دیا جاتا تھا، رہ گئی حصہ کی بات تو آپ نے ان کے لیے حصہ نہیں مقرر کیا۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے،  ٢- اس باب میں انس اور ام عطیہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔  ٣- اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے، سفیان ثوری اور شافعی کا بھی یہی قول ہے، بعض لوگ کہتے ہیں : عورت اور بچہ کو بھی حصہ دیا جائے گا، اوزاعی کا یہی قول ہے،  ٤- 
حدیث نمبر: 1556  حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيل، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ هُرْمُزَ، أَنَّ نَجْدَةَ الْحَرُورِيَّ، كَتَبَ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ يَسْأَلُهُ: هَلْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَغْزُو بِالنِّسَاءِ ؟ وَهَلْ كَانَ يَضْرِبُ لَهُنَّ بِسَهْمٍ ؟ فَكَتَبَ إِلَيْهِ ابْنُ عَبَّاسٍ، كَتَبْتَ إِلَيَّ تَسْأَلُنِي: هَلْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَغْزُو بِالنِّسَاءِ ؟  وَكَانَ يَغْزُو بِهِنَّ، فَيُدَاوِينَ الْمَرْضَى، وَيُحْذَيْنَ مِنَ الْغَنِيمَةِ، وَأَمَّا بِسَهْمٍ، فَلَمْ يَضْرِبْ لَهُنَّ بِسَهْمٍ ، وَفِي الْبَاب، عَنْ أَنَسٍ، وَأُمِّ عَطِيَّةَ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ، وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَالشَّافِعِيِّ، وقَالَ بَعْضُهُمْ: يُسْهَمُ لِلْمَرْأَةِ وَالصَّبِيِّ، وَهُوَ قَوْلُ الْأَوْزَاعِيِّ، قَالَ الْأَوْزَاعِيُّ:  وَأَسْهَمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلصِّبْيَانِ بِخَيْبَرَ، وَأَسْهَمَتْ أَئِمَّةُ الْمُسْلِمِينَ لِكُلِّ مَوْلُودٍ وُلِدَ فِي أَرْضِ الْحَرْبِ ، قَالَ الْأَوْزَاعِيُّ:  وَأَسْهَمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلنِّسَاءِ بِخَيْبَرَ، وَأَخَذَ بِذَلِكَ الْمُسْلِمُونَ بَعْدَهُ ، حَدَّثَنَا بِذَلِكَ عَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ، بِهَذَا، وَمَعْنَى قَوْلِهِ: وَيُحْذَيْنَ مِنَ الْغَنِيمَةِ، يَقُولُ: يُرْضَخُ لَهُنَّ بِشَيْءٍ مِنَ الْغَنِيمَةِ، يُعْطَيْنَ شَيْئًا.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ১৫৫৭
جہاد کا بیان
کیا غلام کو بھی حصہ دیا جائے گا۔
 عمیر مولیٰ ابی اللحم (رض) کہتے ہیں کہ  میں اپنے مالکان کے ساتھ غزوہ خیبر میں شریک ہوا، انہوں نے رسول اللہ  ﷺ  سے میرے سلسلے میں گفتگو کی اور آپ کو بتایا کہ میں غلام ہوں، چناچہ آپ نے حکم دیا اور میرے جسم پر تلوار لٹکا دی گئی، میں  (کوتاہ قامت ہونے اور تلوار کے بڑی ہونے کے سبب)  اسے گھسیٹتا تھا، آپ نے میرے لیے مال غنیمت سے کچھ سامان دینے کا حکم دیا، میں نے آپ کے سامنے وہ دم، جھاڑ پھونک پیش کیا جس سے میں دیوانوں کو جھاڑ پھونک کرتا تھا، آپ نے مجھے اس کا کچھ حصہ چھوڑ دینے اور کچھ یاد رکھنے کا حکم دیا  ١ ؎۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے،  ٢ - اس باب میں ابن عباس (رض) سے بھی روایت ہے،  ٣ - بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ غلام کو حصہ نہیں ملے گا البتہ عطیہ کے طور پر اسے کچھ دیا جائے گا، ثوری، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی یہی قول ہے۔    تخریج دارالدعوہ :  سنن ابی داود/ الجہاد ١٥٢ (٢٧٣٠) ، سنن ابن ماجہ/الجہاد ٣٧ (٢٨٥٥) ، (تحفة الأشراف : ١٠٨٩٨) ، وسنن الدارمی/السیر ٣٥ (٢٥١٨) (صحیح  )    وضاحت :  ١ ؎ : یعنی جو حصہ قرآن و حدیث کے خلاف تھا اسے چھوڑ دینے اور شرک سے خالی کلمات کو باقی رکھنے کو کہا۔    قال الشيخ الألباني :  صحيح، صحيح أبي داود  (2440 )    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1557  
حدیث نمبر: 1557  حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ عُمَيْرٍ مَوْلَى آبِي اللَّحْمِ، قَالَ:  شَهِدْتُ خَيْبَرَ مَعَ سَادَتِي، فَكَلَّمُوا فِيَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَلَّمُوهُ أَنِّي مَمْلُوكٌ، قَالَ: فَأَمَرَ بِي، فَقُلِّدْتُ السَّيْفَ، فَإِذَا أَنَا أَجُرُّهُ، فَأَمَرَ لِي بِشَيْءٍ مِنْ خُرْثِيِّ الْمَتَاعِ، وَعَرَضْتُ عَلَيْهِ رُقْيَةً كُنْتُ أَرْقِي بِهَا الْمَجَانِينَ، فَأَمَرَنِي بِطَرْحِ بَعْضِهَا وَحَبْسِ بَعْضِهَا ، وَفِي الْبَاب، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ، لَا يُسْهَمُ لِلْمَمْلُوكِ، وَلَكِنْ يُرْضَخُ لَهُ بِشَيْءٍ، وَهُوَ قَوْلُ الثَّوْرِيِّ، وَالشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاق.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ১৫৫৮
جہاد کا بیان
جہاد میں شریک ذمی کے لئے حصہ۔
 ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  بدر کے لیے نکلے، جب آپ حرۃ الوبرہ  ١ ؎ پہنچے تو آپ کے ساتھ ایک مشرک ہو لیا جس کی جرات و دلیری مشہور تھی نبی اکرم  ﷺ  نے اس سے پوچھا : تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتے ہو ؟ اس نے جواب دیا : نہیں، آپ نے فرمایا :  لوٹ جاؤ، میں کسی مشرک سے ہرگز مدد نہیں لوں گا   ٢ ؎۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١- حدیث میں اس سے بھی زیادہ کچھ تفصیل ہے،  ٢- یہ حدیث حسن غریب ہے،  ٣- بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے، وہ کہتے ہیں کہ ذمی کو مال غنیمت سے حصہ نہیں ملے گا اگرچہ وہ مسلمانوں کے ہمراہ دشمن سے جنگ کریں،  ٤- کچھ اہل علم کا خیال ہے کہ جب ذمی مسلمانوں کے ہمراہ جنگ میں شریک ہوں تو ان کو حصہ دیا جائے گا،  ٥- 
حدیث نمبر: 1558  حَدَّثَنَا الْأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ الْفُضَيْلِ بْنِ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نِيَارٍ الْأَسْلَمِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ: أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ إِلَى بَدْرٍ، حَتَّى إِذَا كَانَ بِحَرَّةِ الْوَبَرَةِ، لَحِقَهُ رَجُلٌ مِنَ الْمُشْرِكِينَ يَذْكُرُ مِنْهُ جُرْأَةً وَنَجْدَةً، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:  أَلَسْتَ تُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ ؟ ، قَالَ: لَا، قَالَ:  ارْجِعْ، فَلَنْ أَسْتَعِينَ بِمُشْرِكٍ ، وَفِي الْحَدِيثِ كَلَامٌ أَكْثَرُ مِنْ هَذَا، هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ، قَالُوا: لَا يُسْهَمُ لِأَهْلِ الذِّمَّةِ وَإِنْ قَاتَلُوا مَعَ الْمُسْلِمِينَ الْعَدُوَّ، وَرَأَى بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: أَنْ يُسْهَمَ لَهُمْ إِذَا شَهِدُوا الْقِتَالَ مَعَ الْمُسْلِمِينَ. (حديث مرفوع)   

তাহকীক:
হাদীস নং: ১৫৫৯
جہاد کا بیان
جہاد میں شریک ذمی کے لئے حصہ۔
 ابوموسیٰ اشعری (رض) کہتے ہیں کہ  میں اشعری قبیلہ کی ایک جماعت کے ساتھ رسول اللہ  ﷺ  کے پاس خیبر آیا، جن لوگوں نے خیبر فتح کیا تھا آپ نے ان کے ساتھ ہمارے لیے بھی حصہ مقرر کیا  ١ ؎۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١ - یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے،  ٢ - بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے، اوزاعی کہتے ہیں : گھوڑے کے لیے حصہ مقرر کرنے سے پہلے جو مسلمانوں کے ساتھ مل جائے، اس کو حصہ دیا جائے گا۔    تخریج دارالدعوہ :  صحیح البخاری/فرض الخمس ١٥ (٣١٣٦) ، والمناقب ٣٧ (٣٨٧٦) ، والمغازي ٣٨ (٤٢٣٠) ، صحیح مسلم/فضائل الصحابة ٤١ (٢٥٠٢) ، سنن ابی داود/ الجہاد ١٥١ (٢٧٢٥) ، (تحفة الأشراف : ٩٠٤٩) (صحیح  )    وضاحت :  ١ ؎ : اسی حدیث سے استدلال کرتے ہوئے بعض لوگ کہتے ہیں کہ مال غنیمت کی تقسیم سے پہلے اور فتح حاصل ہونے کے بعد جو پہنچے اسے بھی حصہ دیا جائے گا۔    قال الشيخ الألباني :  صحيح، صحيح أبي داود (2436)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1559  
حدیث نمبر: 1559  حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ، حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ، حَدَّثَنَا بُرَيْدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ جَدِّهِ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْأَبِي مُوسَى، قَالَ:  قَدِمْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي نَفَرٍ مِنَ الْأَشْعَرِيِّينَ خَيْبَرَ، فَأَسْهَمَ لَنَا مَعَ الَّذِينَ افْتَتَحُوهَا ، هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ، قَالَ الْأَوْزَاعِيُّ: مَنْ لَحِقَ بِالْمُسْلِمِينَ قَبْلَ أَنْ يُسْهَمَ لِلْخَيْلِ، أُسْهِمَ لَهُ، وَبُرَيْدٌ يُكْنَى أَبَا بُرَيْدَةَ وَهُوَ ثِقَةٌ، وَرَوَى عَنْهُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، وَابْنُ عُيَيْنَةَ، وَغَيْرُهُمَا.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ১৫৬০
جہاد کا بیان
مشرکین کے برتن استعمال کرنا۔
 ابوثعلبہ خشنی (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  سے مجوس کی ہانڈیوں کے بارے میں سوال کیا گیا  ١ ؎ تو آپ نے فرمایا :  ان کو دھو کر صاف کرلو اور ان میں پکاؤ، اور آپ نے ہر درندے اور کچلی والے جانور کو کھانے سے منع فرمایا ۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١ - یہ حدیث ابوثعلبہ (رض) سے دوسری سندوں سے بھی آئی ہے،  ٢ - ابوادریس خولانی نے بھی اس کو ابوثعلبہ سے روایت کیا ہے، لیکن ابوقلابہ کا سماع ابوثعلبہ سے ثابت نہیں ہے، انہوں نے ابواسماء کے واسطے سے ابوثعلبہ سے اس کی روایت کی ہے۔    تخریج دارالدعوہ :  انظر حدیث رقم ١٤٦٤ (صحیح  )    وضاحت :  ١ ؎ : کہ ان کا استعمال کرنا اور ان میں پکانا کھانا درست ہے یا نہیں۔    قال الشيخ الألباني :  صحيح، ابن ماجة (3207 - 3232)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1560  
حدیث نمبر: 1560  حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ أَخْزَمَ الطَّائِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو قُتَيْبَةَ سَلْمُ بْنُ قُتَيْبَةَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ أَبِي ثَعْلَبَةَ الْخُشَنِيِّ، قَالَ: سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ قُدُورِ الْمَجُوسِ ؟ فَقَالَ:  أَنْقُوهَا غَسْلًا وَاطْبُخُوا فِيهَا، وَنَهَى عَنْ كُلِّ سَبُعٍ وَذِي نَابٍ ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ عَنْ أَبِي ثَعْلَبَةَ، وَرَوَاهُ أَبُو إِدْرِيسَ الْخَوْلَانِيُّ، عَنْ أَبِي ثَعْلَبَةَ، وَأَبُو قِلَابَةَ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ أَبِي ثَعْلَبَةَ، إِنَّمَا رَوَاهُ عَنْ أَبِي أَسْمَاءَ الرَّحَبِيِّ، عَنْ أَبِي ثَعْلَبَةَ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ১৫৬১
جہاد کا بیان
نفل کے متعلق۔
 عبادہ بن صامت (رض) کہتے ہیں کہ  نبی اکرم  ﷺ  سریہ کے شروع میں جانے پر چوتھائی حصہ اور لڑائی سے لوٹتے وقت دوبارہ جانے پر تہائی حصہ زائد بطور انعام  (نفل)  دیتے تھے  ١ ؎۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١ - عبادہ (رض) کی حدیث حسن ہے،  ٢ - یہ حدیث ابوسلام سے مروی ہے، انہوں نے ایک صحابی سے اس کی روایت کی ہے اور انہوں نے نبی اکرم  ﷺ  سے کی ہے،  ٣ - اس باب میں ابن عباس، حبیب بن مسلمہ، معن بن یزید، ابن عمر اور سلمہ بن الاکوع (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔    تخریج دارالدعوہ :  سنن ابن ماجہ/الجہاد ٣٥ (٢٨٥٢) ، (تحفة الأشراف : ٥٠٩١) (صحیح) (سند میں ” عبدالرحمن “ اور سلیمان اموی کے حافظہ میں کمزوری ہے، مگر حبیب بن مسلمہ (رض) کی حدیث سے تقویت پا کر یہ حدیث بھی صحیح لغیرہ ہے، دیکھئے : صحیح أبی داود رقم ٢٤٥٥  )    وضاحت :  ١ ؎ : کیونکہ لڑائی سے واپس آنے کے بعد پھر واپس جہاد کے لیے جانا مشکل کام ہے۔    قال الشيخ الألباني :  ضعيف الإسناد    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1561  
حدیث نمبر: 1561  حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ مُوسَى، عَنْ مَكْحُولٍ، عَنْ أَبِي سَلَّامٍ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:  كَانَ يُنَفِّلُ فِي الْبَدْأَةِ الرُّبُعَ، وَفِي الْقُفُولِ الثُّلُثَ ، وَفِي الْبَاب، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَحَبِيبِ بْنِ مَسْلَمَةَ، وَمَعْنِ بْنِ يَزِيدَ، وَابْنِ عُمَرَ، وَسَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَحَدِيثُ عُبَادَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ أَبِي سَلَّامٍ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ১৫৬২
جہاد کا بیان
جو شخص کسی کافر کو قتل کرے اس سامان اسی کے لئے ہے۔
 ابوقتادہ (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا :  جو کسی کافر کو قتل کرے اور اس کے پاس گواہ موجود ہو تو مقتول کا سامان اسی کا ہوگا ۔    امام ترمذی کہتے ہیں : حدیث میں ایک قصہ مذکور ہے  ١ ؎۔    تخریج دارالدعوہ :  صحیح البخاری/البیوع ٣٧ (٢١٠٠) ، والخمس ١٨ (٣١٤٢) ، والمغازي ٥٤ (٤٣٢١) ، والأحکام ٢١ (٧١٧٠) ، صحیح مسلم/الجہاد ١٣ (١٥٧١) ، سنن ابی داود/ الجہاد ١٤٧) ، (٢٧١٧) ، سنن ابن ماجہ/الجہاد ٢٩ (٢٨٣٧) ، (تحفة الأشراف : ١٢١٣٢) ، وط/الجہاد ١٠ (١٨) ، سنن الدارمی/السیر ٤٤ (٢٥٢٨) (صحیح  )    وضاحت :  ١ ؎ : یہ قصہ صحیح البخاری کی حدیث  ٣١٤٣  ،  ٤٣٢٢  اور صحیح مسلم کی حدیث  ١٧٥١  میں دیکھا جاسکتا ہے ، واقعہ دلچسپ ہے ضرور مطالعہ کریں۔    قال الشيخ الألباني :  صحيح، الإرواء (5 / 52 - 53) ، صحيح أبي داود (243)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1562  
حدیث نمبر: 1562  حَدَّثَنَا الْأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ عُمَرَ بْنِ كَثِيرِ بْنِ أَفْلَحَ، عَنْ أَبِي مُحَمَّدٍ مَوْلَى أَبِي قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي قَتَادَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:  مَنْ قَتَلَ قَتِيلًا لَهُ عَلَيْهِ بَيِّنَةٌ، فَلَهُ سَلَبُهُ ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْحَدِيثِ قِصَّةٌ،  

তাহকীক:
হাদীস নং: ১৫৬৩
جہاد کا بیان
تقسیم سے پہلے مال غنیمت کی چیزیں فروخت کرنا مکروہ ہے۔
 ابوسعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے تقسیم سے پہلے مال غنیمت کی خرید و فروخت سے منع فرمایا۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١ - یہ حدیث غریب ہے،  ٢ - اس باب میں ابوہریرہ (رض) سے بھی روایت ہے۔    تخریج دارالدعوہ :  سنن ابن ماجہ/التجارات ٢٤ (٢١٩٦) ، (فی سیاق الحول من ذلک) (تحفة الأشراف : ٤٠٧٣) (ضعیف) (سند میں ” محمد بن ابراہیم الباہلی، اور ” محمد بن زید العبدی “ دونوں مجہول راوی ہیں، اور ” جہضم “ میں کلام ہے  )    قال الشيخ الألباني :  صحيح، المشکاة (4015 - 4016 / التحقيق الثاني)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1563  
حدیث نمبر: 1563  حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيل، عَنْ جَهْضَمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زَيْدٍ، عَنْشَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ:  نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ شِرَاءِ الْمَغَانِمِ حَتَّى تُقْسَمَ ، وَفِي الْبَاب، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ১৫৬৪
جہاد کا بیان
قید ہونے والی حاملہ عورتوں سے پیدائش سے پہلے صحبت کرنے کی ممانعت۔
 عرباض بن ساریہ (رض) سے روایت ہے کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے  (حاملہ)  قیدی عورتوں سے جماع کرنے سے منع فرمایا جب تک کہ وہ اپنے پیٹ میں موجود بچوں کو جن نہ دیں  ١ ؎۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١ - عرباض (رض) کی حدیث غریب ہے،  ٢ - اس باب میں رویفع بن ثابت (رض) سے بھی روایت ہے،  ٣ - اہل علم کا اسی پر عمل ہے، اوزاعی کہتے ہیں کہ جب کوئی شخص قیدی عورتوں میں سے لونڈی خریدے اور وہ حاملہ ہو تو اس سلسلے میں عمر بن خطاب سے روایت ہے، انہوں نے کہا : حاملہ جب تک بچہ نہ جنے اس سے وطی نہیں کی جائے گی،  ٤ - اوزاعی کہتے ہیں : آزاد عورتوں کے سلسلے میں تو یہ سنت چلی آرہی ہے کہ ان کو عدت گزارنے کا حکم دیا گیا ہے۔    تخریج دارالدعوہ :  تفرد بہ المؤلف وتقدم برقم ١٤٧٤ (تحفة الأشراف : ٩٨٩٣) (صحیح) (سند میں ” ام حبیبہ “ مجہول ہیں مگر شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے  )    وضاحت :  ١ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جنگ میں جو عورتیں گرفتار ہوجائیں گرفتاری سے ہی ان کا پچھلا نکاح ٹوٹ جاتا ہے ، حمل سے ہوں تو وضع حمل کے بعد اور اگر غیر حاملہ ہوں تو ایک ماہواری کے بعد ان سے جماع کیا جاسکتا ہے بشرطیکہ وہ تقسیم کے بعد اس کے حصہ میں آئی ہوں۔    قال الشيخ الألباني :  صحيح انظر الحديث (1474) // هذا رقم الدع اس، وهو عندنا برقم (1191 - 1517) //   صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1564  
حدیث نمبر: 1564  حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى النَّيْسَابُورِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ النَّبِيلُ، عَنْ وَهْبٍ بْنِ خَالِدٍ، قَالَ: حَدَّثَتْنِي أُمُّ حَبِيبَةَ بِنْتُ عِرْبَاضِ بْنِ سَارِيَةَ، أَنَّ أَبَاهَا أَخْبَرَهَا، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:  نَهَى أَنْ تُوطَأَ السَّبَايَا حَتَّى يَضَعْنَ مَا فِي بُطُونِهِنَّ ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب، عَنْ رُوَيْفِعِ بْنِ ثَابِتٍ، وَحَدِيثُ عِرْبَاضٍ حَدِيثٌ غَرِيبٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ، وقَالَ الْأَوْزَاعِيُّ: إِذَا اشْتَرَى الرَّجُلُ الْجَارِيَةَ مِنَ السَّبْيِ وَهِيَ حَامِلٌ، فَقَدْ رُوِيَ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، أَنَّهُ قَالَ: لَا تُوطَأُ حَامِلٌ حَتَّى تَضَعَ، قَالَ الْأَوْزَاعِيُّ: وَأَمَّا الْحَرَائِرُ، فَقَدْ مَضَتِ السُّنَّةُ فِيهِنَّ بِأَنْ أُمِرْنَ بِالْعِدَّةِ، حَدَّثَنِي بِذَلِكَ عَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ، بِهَذَا الْحَدِيثِ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ১৫৬৫
جہاد کا بیان
مشرکین کا کھانے کے حکم۔
 ہلب (رض) کہتے ہیں کہ  میں نے نبی اکرم  ﷺ  سے نصاریٰ کے کھانا کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے فرمایا :  کوئی کھانا تمہارے دل میں شک نہ پیدا کرے کہ اس کے سلسلہ میں نصرانیت سے تمہاری مشابہت ہوجائے   ١ ؎۔    امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن ہے۔    تخریج دارالدعوہ :  سنن ابی داود/ الأطعمة ٢٤ (٣٧٨٤) ، سنن ابن ماجہ/الجہاد ٢٦ (٢٨٠) ، (تحفة الأشراف : ١١٧٣٤) ، و مسند احمد (٥/٢٢٦) (حسن  )    وضاحت :  ١ ؎ : چونکہ ملت اسلامیہ ملت ابراہیمی سے تعلق رکھتی ہے اس لیے کھانے سے متعلق زیادہ شک میں پڑنا اپنے آپ کو اس رہبانیت سے قریب کرنا ہے جو نصاریٰ کا دین ہے ، لہٰذا اس سے اپنے آپ کو بچاؤ۔ امام ترمذی نے اس باب میں مشرکین کے کھانے کا ذکر کیا ہے ، جب کہ حدیث میں مشرکین کا سرے سے ذکر ہی نہیں ہے ، حدیث سے ظاہر ہوتا ہے کہ امام ترمذی نے مشرکین سے اہل کتاب کو مراد لیا ہے۔    قال الشيخ الألباني :  حسن، ابن ماجة (2830)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1565   اس سند سے بھی  ہلب (رض) سے اسی کے مثل حدیث مروی ہے۔    تخریج دارالدعوہ :  انظر ما قبلہ (حسن  )    قال الشيخ الألباني :  حسن، ابن ماجة (2830)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1565   اس سند سے  عدی بن حاتم (رض) سے بھی اس جیسی حدیث مروی ہے۔    امام ترمذی کہتے ہیں : اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ اہل کتاب کے کھانے کے سلسلے میں رخصت ہے۔    تخریج دارالدعوہ :  تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٩٨٧٦) (حسن) (سند میں ” مری بن قطری “ لین الحدیث ہیں، لیکن پچھلی حدیث سے تقویت پا کر یہ حدیث بھی حسن لغیرہ ہے  )    قال الشيخ الألباني :  حسن، ابن ماجة (2830)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1565  
حدیث نمبر: 1565  حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ، عَنْ شُعْبَةَ، أَخْبَرَنِي سِمَاكُ بْنُ حَرْبٍ، قَال: سَمِعْتُ قَبِيصَةَ بْنَ هُلْبٍ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: سَأَلْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ طَعَامِ النَّصَارَى ؟ فَقَالَ:  لَا يَتَخَلَّجَنَّ فِي صَدْرِكَ طَعَامٌ ضَارَعْتَ فِيهِ النَّصْرَانِيَّةَ ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.  سَمِعْت مَحْمُودًا، وَقَالَ عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى: عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ سِمَاكٍ، عَنْ قَبِيصَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مِثْلَهُ.  حدیث نمبر: 1565 mm  قَالَ مَحْمُودٌ: وَقَالَ وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ: عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ سِمَاكٍ، عَنْ مُرَيِّ بْنِ قَطَرِيٍّ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مِثْلَهُ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنَ الرُّخْصَةِ فِي طَعَامِ أَهْلِ الْكِتَابِ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ১৫৬৬
جہاد کا بیان
قیدیوں کے درمیان تفریق کرنا مکروہ ہے۔
 ابوایوب انصاری (رض) کہتے ہیں کہ  میں نے رسول اللہ  ﷺ  کو فرماتے سنا :  جس نے ماں اور اس کے بچہ کے درمیان جدائی پیدا کی، اللہ قیامت کے دن اسے اس کے دوستوں سے جدا کر دے گا ۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١ - یہ حدیث حسن غریب ہے،  ٢ - اس باب میں علی (رض) سے بھی روایت ہے،  ٣ - اہل علم صحابہ اور دوسرے لوگوں کا اسی پر عمل ہے، وہ لوگ قیدیوں میں ماں اور بچے کے درمیان، باپ اور بچے کے درمیان اور بھائیوں کے درمیان جدائی کو ناپسند سمجھتے ہیں۔    تخریج دارالدعوہ :  تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٣٤٦٨) ، وانظر : مسند احمد (٥/٤١٣، ٤١٤) ، سنن الدارمی/السیر ٣٩ (حسن  )    قال الشيخ الألباني :  حسن، المشکاة (3361)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1566  
حدیث نمبر: 1566  حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصِ بْنِ عُمَرَ الشَّيْبَانِيُّ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي حُيَيٌّ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحُبُلِيِّ، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:  مَنْ فَرَّقَ بَيْنَ وَالِدَةٍ وَوَلَدِهَا، فَرَّقَ اللَّهُ بَيْنَهُ وَبَيْنَ أَحِبَّتِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب، عَنْ عَلِيٍّ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، كَرِهُوا التَّفْرِيقَ بَيْنَ السَّبْيِ، بَيْنَ الْوَالِدَةِ وَوَلَدِهَا، وَبَيْنَ الْوَلَدِ وَالْوَالِدِ، وَبَيْنَ الْإِخْوَةِ، قَالَ أَبُو عِيسَى: قَدْ سَمِعْتُ البُخَارِيَّ، يَقُولُ: سَمِعَ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحُبُلِيُّ، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيِّ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ১৫৬৭
جہاد کا بیان
قیدیوں کو قتل کرنا اور فدیہ لینا۔
 علی (رض) سے روایت ہے کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا :  جبرائیل نے میرے پاس آ کر کہا : اپنے ساتھیوں کو بدر کے قیدیوں کے سلسلے میں اختیار دیں، وہ چاہیں تو انہیں قتل کریں، چاہیں تو فدیہ لیں، فدیہ کی صورت میں ان میں سے آئندہ سال اتنے ہی آدمی قتل کئے جائیں گے، ان لوگوں نے کہا : فدیہ لیں گے اور ہم میں سے قتل کئے جائیں  ١ ؎۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١ - یہ حدیث ثوری کی روایت سے حسن غریب ہے، ہم اس کو صرف ابن ابی زائدہ ہی کی روایت سے جانتے ہیں،  ٢ - ابواسامہ نے بسند «هشام عن ابن سيرين عن عبيدة عن علي عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» اسی جیسی حدیث روایت کی ہے،  ٣ - ابن عون نے بسند «ابن سيرين عن عبيدة عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» مرسلاً روایت کی ہے،  ٤ - اس باب میں ابن مسعود، انس، ابوبرزہ، اور جبیر بن مطعم سے بھی احادیث آئی ہیں۔    تخریج دارالدعوہ :  تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبریٰ ) (تحفة الأشراف : ١٠٢٣٤) (صحیح  )    وضاحت :  ١ ؎ : کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ صحابہ کی یہ دلی خواہش تھی کہ یہ قیدی مشرف بہ اسلام ہوجائیں اور مستقبل میں اپنی جان دے کر شہادت کا درجہ حاصل کرلیں (حدیث کی سند اور معنی دونوں پر کلام ہے ؟ ) ۔    قال الشيخ الألباني :  صحيح، المشکاة (3973 / التحقيق الثاني) ، الإرواء (5 / 48 - 49)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1567  
حدیث نمبر: 1567  حَدَّثَنَا أبو عُبَيْدَةَ بن أبي السَّفَرِ وَاسْمُهُ أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْهَمْدَانِيُّ الْكُوفِيُّ، وَمَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الْحَفَرِيُّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ زَكَرِيَّاءَ بْنِ أَبِي زَائِدَةَ، عَنْ سُفْيَانَ بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ ابْنِ سِيرِينَ، عَنْعَبِيدَةَ، عَنْ عَلِيٍّ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:  إِنَّ جِبْرَائِيلَ هَبَطَ عَلَيْهِ، فَقَالَ لَهُ: خَيِّرْهُمْ، يَعْنِي: أَصْحَابَكَ، فِي أُسَارَى بَدْرٍ، الْقَتْلَ أَوِ الْفِدَاءَ، عَلَى أَنْ يُقْتَلَ مِنْهُمْ قَابِلًا مِثْلُهُمْ، قَالُوا: الْفِدَاءَ، وَيُقْتَلُ مِنَّا ، وَفِي الْبَاب، عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ، وَأَنَسٍ، وَأَبِي بَرْزَةَ، وَجُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ الثَّوْرِيِّ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ ابْنِ أَبِي زَائِدَةَ، وَرَوَى أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ ابْنِ سِيرِينَ، عَنْ عَبِيدَةَ، عَنْعَلِيٍّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، نَحْوَهُ، وَرَوَى ابْنُ عَوْنٍ، عَنْ ابْنِ سِيرِينَ، عَنْ عَبِيدَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُرْسَلًا، وَأَبُو دَاوُدَ الْحَفَرِيُّ اسْمُهُ عُمَرُ بْنُ سَعْدٍ.  

তাহকীক: