আল জামিউল কাবীর- ইমাম তিরমিযী রহঃ (উর্দু)
الجامع الكبير للترمذي
فتنوں کا بیان - এর পরিচ্ছেদসমূহ
মোট হাদীস ২০ টি
হাদীস নং: ২১৫৮
فتنوں کا بیان
اس بارے میں کہ تین جرموں کے علاوہ کسی مسلمان کو خون بہانا حرام ہے
 ابوامامہ بن سہل بن حنیف (رض) جب باغیوں نے عثمان بن عفان (رض) کے گھر کا محاصرہ کر رکھا تھا تو انہوں نے اپنے گھر کی چھت پر آ کر کہا : میں تمہیں اللہ تعالیٰ کی قسم دیتا ہوں، کیا تم نہیں جانتے ہو کہ رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا :  تین صورتوں کے سوا کسی مسلمان کا خون حلال نہیں : شادی کے بعد زنا کرنا، یا اسلام لانے کے بعد مرتد ہوجانا، یا کسی کو ناحق قتل کرنا جس کے بدلے میں قاتل کو قتل کیا جائے، اللہ کی قسم ! میں نے نہ جاہلیت میں زنا کیا ہے نہ اسلام میں، نہ رسول اللہ  ﷺ  سے بیعت کرنے کے بعد میں مرتد ہوا ہوں اور نہ ہی اللہ کے حرام کردہ کسی نفس کا قاتل ہوں، پھر  (آخر)  تم لوگ کس وجہ سے مجھے قتل کر رہے ہو ؟۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١ - یہ حدیث حسن ہے،  ٢ - اسے حماد بن سلمہ نے یحییٰ بن سعید کے واسطہ سے مرفوعاً روایت کیا ہے، اور یحییٰ بن سعید قطان اور دوسرے کئی لوگوں نے یحییٰ بن سعید سے یہ حدیث روایت کی ہے، لیکن یہ موقوف ہے نہ کہ مرفوع،  ٣ - اس باب میں ابن مسعود، عائشہ اور ابن عباس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں،  ٤ - اور یہ حدیث عثمان کے واسطہ سے نبی اکرم  ﷺ  سے کئی دیگر سندوں بھی سے مرفوعاً مروی ہے۔    تخریج دارالدعوہ :  سنن ابی داود/ الدیات ٣ (٤٥٠٢) ، سنن النسائی/المحاربة ٥ (٤٠٢٤) ، سنن ابن ماجہ/الحدود ١ (٢٥٣٣) (تحفة الأشراف : ٩٧٨٢) ، و مسند احمد (١/٦١، ٦٢، ٦٥، ٧٠) (صحیح  )    قال الشيخ الألباني :  صحيح، ابن ماجة  (2533 )    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2158  
حدیث نمبر: 2158  حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الضَّبِّيُّ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ بْنِ سَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ، أَنّعُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ أَشْرَفَ يَوْمَ الدَّارِ، فَقَالَ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:  لَا يَحِلُّ دَمُ امْرِئٍ مُسْلِمٍ إِلَّا بِإِحْدَى ثَلَاثٍ: زِنًا بَعْدَ إِحْصَانٍ، أَوِ ارْتِدَادٍ بَعْدَ إِسْلَامٍ، أَوْ قَتْلِ نَفْسٍ بِغَيْرِ حَقٍّ، فَقُتِلَ بِهِ ، فَوَاللَّهِ مَا زَنَيْتُ فِي جَاهِلِيَّةٍ وَلَا فِي إِسْلَامٍ، وَلَا ارْتَدَدْتُ مُنْذُ بَايَعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَا قَتَلْتُ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ، فَبِمَ تَقْتُلُونَنِي ؟، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَابِ عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ، وَعَائِشَةَ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَرَوَاهُ حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ فَرَفَعَهُ، وَرَوَى يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ هَذَا الْحَدِيثَ فَأَوْقَفُوهُ وَلَمْ يَرْفَعُوهُ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ، عَنْ عُثْمَانَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرْفُوعًا.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ২১৫৯
فتنوں کا بیان
جان ومال کی حرمت کے بارے میں
 عمرو بن احوص (رض) کہتے ہیں کہ  میں نے حجۃ الوداع میں رسول اللہ  ﷺ  کو لوگوں سے خطاب کرتے سنا :  یہ کون سا دن ہے ؟  لوگوں نے کہا : حج اکبر کا دن ہے  ١ ؎، آپ نے فرمایا :  تمہارے خون، تمہارے مال اور تمہاری عزت و آبرو تمہارے درمیان اسی طرح حرام ہیں جیسے تمہارے اس شہر میں تمہارے اس دن کی حرمت و تقدس ہے، خبردار ! جرم کرنے والے کا وبال خود اسی پر ہے، خبردار ! باپ کے قصور کا مواخذہ بیٹے سے اور بیٹے کے قصور کا مواخذہ باپ سے نہ ہوگا، سن لو ! شیطان ہمیشہ کے لیے اس بات سے مایوس ہوچکا ہے کہ تمہارے اس شہر میں اس کی پوجا ہوگی، البتہ ان چیزوں میں اس کی کچھ اطاعت ہوگی جن کو تم حقیر عمل سمجھتے ہو، وہ اسی سے خوش رہے گا ۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے،  ٢ - زائدہ نے بھی شبیب بن غرقدہ سے اسی جیسی حدیث روایت کی ہے، ہم اس حدیث کو صرف شبیب بن غرقدہ کی روایت سے جانتے ہیں،  ٣ - اس باب میں ابوبکرہ، ابن عباس، جابر، حذیم بن عمرو السعدی (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔    تخریج دارالدعوہ :  سنن ابی داود/ البیوع ٥ (٣٣٣٤) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ٧٦ (٣٠٥٥) ، ویأتي عند المؤلف في تفسیر التوبة (٣٠٨٧) (تحفة الأشراف : ١٠٦٩١) (صحیح  )    وضاحت :  ١ ؎ : صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ یوم حج اکبر سے مراد یوم النحر (دسویں ذی الحجہ) ہے ، کیونکہ اسی دن منی میں کفار و مشرکین سے برأت کا اعلان سنایا گیا ، یا حج اکبر کہنے کی یہ وجہ ہے کہ اس دن حج کے سب سے زیادہ اور اہم اعمال ادا کئے جاتے ہیں یا عوام عمرہ کو حج اصغر کہتے تھے ، اس اعتبار سے حج کو حج اکبر کہا گیا ، عوام میں جو یہ مشہور ہے کہ اگر یوم عرفہ جمعہ کے دن ہو تو وہ حج حج اکبر ہے ، اس کی کچھ بھی اصل نہیں ہے۔    قال الشيخ الألباني :  صحيح، ابن ماجة (3055)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2159  
حدیث نمبر: 2159  حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ شَبِيبِ بْنِ غَرْقَدَةَ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْأَحْوَصِ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ لِلنَّاسِ:  أَيُّ يَوْمٍ هَذَا ؟  قَالُوا: يَوْمُ الْحَجِّ الْأَكْبَرِ، قَالَ:  فَإِنَّ دِمَاءَكُمْ وَأَمْوَالَكُمْ وَأَعْرَاضَكُمْ بَيْنَكُمْ حَرَامٌ، كَحُرْمَةِ يَوْمِكُمْ هَذَا، فِي بَلَدِكُمْ هَذَا، أَلَا لَا يَجْنِي جَانٍ إِلَّا عَلَى نَفْسِهِ، أَلَا لَا يَجْنِي جَانٍ عَلَى وَلَدِهِ، وَلَا مَوْلُودٌ عَلَى وَالِدِهِ، أَلَا وَإِنَّ الشَّيْطَانَ قَدْ أَيِسَ مِنْ أَنْ يُعْبَدَ فِي بِلَادِكُمْ هَذِهِ أَبَدًا، وَلَكِنْ سَتَكُونُ لَهُ طَاعَةٌ فِيمَا تَحْتَقِرُونَ مِنْ أَعْمَالِكُمْ فَسَيَرْضَى بِهِ ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَابِ عَنْ أَبِي بَكْرَةَ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَجَابِرٍ، وَحِذْيَمِ بْنِ عَمْرٍو السَّعْدِيِّ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَرَوَى زَائِدَةُ، عَنْ شَبِيبِ بْنِ غَرْقَدَةَ نَحْوَهُ، وَلَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ شَبِيبِ بْنِ غَرْقَدَةَ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ২১৬০
فتنوں کا بیان
کسی مسلمان کو گھبراہٹ میں مبتلا کرنے کی ممانعت کے متعلق
 یزید بن سائب (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا :  تم میں سے کوئی شخص کھیل کود میں ہو یا سنجیدگی میں اپنے بھائی کی لاٹھی نہ لے اور جو اپنے بھائی کی لاٹھی لے، تو وہ اسے واپس کر دے ۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١ - یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف ابن ابی ذئب ہی کی روایت سے جانتے ہیں،  ٢ - سائب بن یزید کو شرف صحبت حاصل ہے بچپن میں انہوں نے نبی اکرم  ﷺ  سے کئی حدیثیں سنی ہیں، نبی اکرم  ﷺ  کی وفات کے وقت ان کی عمر سات سال تھی، ان کے والد یزید بن سائب  ١ ؎ کی بہت ساری حدیثیں ہیں، وہ نبی اکرم  ﷺ  کے اصحاب میں سے ہیں، اور نبی اکرم  ﷺ  سے حدیثیں روایت کی ہیں، سائب بن یزید نمر کے بہن کے بیٹے ہیں،  ٣ - اس باب میں ابن عمر، سلیمان بن صرد، جعدہ، اور ابوہریرہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔    تخریج دارالدعوہ :  سنن ابی داود/ الأدب ٩٣ (٥٠٠٣) (تحفة الأشراف : ١١٨٢٧) ، و مسند احمد (٤/٢٢١) (صحیح لغیرہ  )    وضاحت :  ١ ؎ : ان کا نام یزید بن سعید ہے ، انہیں یزید بن سائب (رض) بھی کہا جاتا ہے۔    قال الشيخ الألباني :  حسن، المشکاة (2948) ، الإرواء (1518)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2160  
حدیث نمبر: 2160  حَدَّثَنَا بُنْدَارٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْجَدِّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:  لَا يَأْخُذْ أَحَدُكُمْ عَصَا أَخِيهِ لَاعِبًا أَوْ جَادًّا، فَمَنْ أَخَذَ عَصَا أَخِيهِ فَلْيَرُدَّهَا إِلَيْهِ ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَابِ عَنِ ابْنِ عُمَرَ، وَسُلَيْمَانَ بْنِ صُرَدَ، وَجَعْدَةَ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ، وَالسَّائِبُ بْنُ يَزِيدَ لَهُ صُحْبَةٌ قَدْ سَمِعَ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَادِيثَ وَهُوَ غُلَامٌ، وَقُبِضَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ ابْنُ سَبْعِ سِنِينَ، وَوَالِدُهُ يَزِيدُ بْنُ السَّائِبِ لَهُ أَحَادِيثُ، هُوَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَدْ رَوَى عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَالسَّائِبُ بْنُ يَزِيدَ هُوَ ابْنُ أُخْتِ نَمِرٍ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ২১৬১
فتنوں کا بیان
کسی مسلمان کو گھبراہٹ میں مبتلا کرنے کی ممانعت کے متعلق
 سائب بن یزید (رض) کہتے ہیں کہ  نبی اکرم  ﷺ  کے ساتھ  (میرے والد)  یزید (رض) نے حجۃ الوداع کیا، اس وقت میں سات سال کا تھا۔ یحییٰ بن سعید قطان کہتے ہیں : محمد بن یوسف ثبت اور صاحب حدیث ہیں، سائب بن یزید ان کے نانا تھے، محمد بن یوسف کہتے تھے : مجھ سے سائب بن یزید نے حدیث بیان کی ہے، اور وہ میرے نانا ہیں۔    تخریج دارالدعوہ :  انظر رقم ٩٢٦ (إسنادہ حسن  )    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2161  
حدیث نمبر: 2161  حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيل، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يُوسُفَ، عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ، قَالَ:  حَجَّ يَزِيدُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَجَّةَ الْوَدَاعِ، وَأَنَا ابْنُ سَبْعِ سِنِينَ ، فَقَالَ عَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ الْقَطَّانِ: كَانَ مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ ثَبْتًا صَاحِبَ حَدِيثٍ، وَكَانَ السَّائِبُ بْنُ يَزِيدَ جَدَّهُ، وَكَانَ مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، يَقُولُ: حَدَّثَنِي السَّائِبُ بْنُ يَزِيدَ وَهُوَ جَدِّي مِنْ قِبَلِ أُمِّي.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ২১৬২
فتنوں کا بیان
کسی مسلمان بھائی کی طرف ہتھیار سے اشارہ کرنے کی ممانعت کے متعلق
 ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ  نبی اکرم  ﷺ  نے فرمایا :  جو شخص اپنے بھائی کی طرف ہتھیار سے اشارہ کرتے تو فرشتے اس پر لعنت بھیجتے ہیں ۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١ - یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے،  ٢ - یہ خالد حذاء کی روایت سے غریب سمجھی جاتی ہے،  ٣ - ایوب نے محمد بن سیرین کے واسطہ سے ابوہریرہ (رض) سے اسی جیسی حدیث روایت کی ہے، لیکن اسے مرفوعاً نہیں بیان کیا ہے اور اس میں یہ اضافہ کیا ہے «وإن کان أخاه لأبيه وأمه» اگرچہ اس کا سگا بھائی ہی کیوں نہ ہو ،  ٤ - اس باب میں ابوبکرہ، ام المؤمنین عائشہ اور جابر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔    تخریج دارالدعوہ :  صحیح مسلم/البر والصلة ٣٥ (٢٦١٦) (تحفة الأشراف : ١٤٤٦٤) (صحیح  )    قال الشيخ الألباني :  صحيح غاية المرام (446)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2162  
حدیث نمبر: 2162  حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الصَّبَّاحِ الْعَطَّارُ الْهَاشِمِيُّ، حَدَّثَنَا مَحْبُوبُ بْنُ الْحَسَنِ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ الْحَذَّاءُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:  مَنْ أَشَارَ عَلَى أَخِيهِ بِحَدِيدَةٍ لَعَنَتْهُ الْمَلَائِكَةُ ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَابِ عَنْ أَبِي بَكْرَةَ، وَعَائِشَةَ، وَجَابِرٍ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، يُسْتَغْرَبُ مِنْ حَدِيثِ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ، وَرَوَاهُ أَيُّوبُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، نَحْوَهُ، وَلَمْ يَرْفَعْهُ، وَزَادَ فِيهِ وَإِنْ كَانَ أَخَاهُ لِأَبِيهِ وَأُمِّهِ،  

তাহকীক:
হাদীস নং: ২১৬৩
فتنوں کا بیان
ننگی تلوار کا تبادلہ ممنوع ہے
 جابر (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے ننگی تلوار لینے اور دینے سے منع فرمایا  ١ ؎۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١ - یہ حدیث حماد بن سلمہ کی روایت سے حسن غریب ہے،  ٢ - ابن لہیعہ نے یہ حدیث «عن أبي الزبير عن جابر عن بنة الجهني عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» کی سند سے روایت کی ہے،  ٣ - میرے نزدیک حماد بن سلمہ کی روایت زیادہ صحیح ہے،  ٤ - اس باب میں ابوبکرہ سے بھی روایت ہے۔    تخریج دارالدعوہ :  سنن ابی داود/ الجھاد ٧٣ (٢٥٨٨) (تحفة الأشراف : ٢٦٩٠) ، و مسند احمد (٣/٣٠٠، ٣٦١) (صحیح  )    وضاحت :  ١ ؎ : یہ ممانعت اس وجہ سے ہے کہ ننگی تلوار سے بسا اوقات خود صاحب تلوار بھی زخمی ہوسکتا ہے ، اور دوسروں کو اس سے تکلیف پہنچنے کا بھی اندیشہ ہے۔    قال الشيخ الألباني :  صحيح، المشکاة (3527 / التحقيق الثانی)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2163  
حدیث نمبر: 2163  حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاوِيَةَ الْجُمَحِيُّ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ:  نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُتَعَاطَى السَّيْفُ مَسْلُولًا ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَابِ عَنْ أَبِي بَكْرَةَ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ، وَرَوَى ابْنُ لَهِيعَةَ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، عَنْ بَنَّةَ الْجُهَنِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَحَدِيثُ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ عِنْدِي أَصَحُّ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ২১৬৪
فتنوں کا بیان
اس بارے میں کہ جس نے فجر کی نماز پڑھی وہ اللہ کی پناہ میں ہے
 ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ  نبی اکرم  ﷺ  نے فرمایا :  جس نے فجر پڑھ لی وہ اللہ کی پناہ میں ہے، پھر  (اس بات کا خیال رکھو کہ)  اللہ تعالیٰ تمہارے درپے نہ ہوجائے اس کی پناہ توڑنے کی وجہ سے   ١ ؎۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١ - یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے،  ٢ - اس باب میں جندب اور ابن عمر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔    تخریج دارالدعوہ :  تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٤١٣٨) (صحیح) (سند میں معدی بن سلیمان ضعیف راوی ہیں، لیکن شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے  )    وضاحت :  ١ ؎ : یعنی فجر کی نماز کا خاص خیال رکھو اور اسے پابندی کے ساتھ ادا کرو ، نہ ادا کرنے کی صورت میں رب العالمین کا وہ عہد جو تمہارے اور اس کے درمیان امان سے متعلق ہے ٹوٹ جائے گا۔    قال الشيخ الألباني :  صحيح انظر الحديث (222)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2164  
حدیث نمبر: 2164  حَدَّثَنَا بُنْدَارٌ، حَدَّثَنَا مَعْدِيُّ بْنُ سُلَيْمَانَ، حَدَّثَنَا ابْنُ عَجْلَانَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:  مَنْ صَلَّى الصُّبْحَ فَهُوَ فِي ذِمَّةِ اللَّهِ، فَلَا يُتْبِعَنَّكُمُ اللَّهُ بِشَيْءٍ مِنْ ذِمَّتِهِ ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَابِ عَنْ جُنْدَبٍ وَابْنِ عُمَرَ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ২১৬৫
فتنوں کا بیان
جماعت کی پابندی کرنے کے متعلق
 عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ  مقام جابیہ میں  (میرے والد)  عمر (رض) ہمارے درمیان خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے، انہوں نے کہا : لوگو ! میں تمہارے درمیان اسی طرح  (خطبہ دینے کے لیے)  کھڑا ہوا ہوں جیسے رسول اللہ  ﷺ  ہمارے درمیان کھڑے ہوتے تھے، آپ  ﷺ  نے فرمایا :  میں تمہیں اپنے صحابہ کی پیروی کی وصیت کرتا ہوں، پھر ان کے بعد آنے والوں  (یعنی تابعین)  کی پھر ان کے بعد آنے والوں  (یعنی تبع تابعین)  کی، پھر جھوٹ عام ہوجائے گا، یہاں تک کہ قسم کھلائے بغیر آدمی قسم کھائے گا اور گواہ گواہی طلب کیے جانے سے پہلے ہی گواہی دے گا، خبردار ! جب بھی کوئی مرد کسی عورت کے ساتھ خلوت میں ہوتا ہے تو ان کے ساتھ تیسرا شیطان ہوتا ہے، تم لوگ جماعت کو لازم پکڑو اور پارٹی بندی سے بچو، کیونکہ شیطان اکیلے آدمی کے ساتھ رہتا ہے، دو کے ساتھ اس کا رہنا نسبۃً زیادہ دور کی بات ہے، جو شخص جنت کے درمیانی حصہ میں جانا چاہتا ہو وہ جماعت سے لازمی طور پر جڑا رہے اور جسے اپنی نیکی سے خوشی ملے اور گناہ سے غم لاحق ہو حقیقت میں وہی مومن ہے ۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١ - یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے،  ٢ - اسے ابن مبارک نے بھی محمد بن سوقہ سے روایت کیا ہے،  ٣ - یہ حدیث کئی سندوں سے عمر کے واسطہ سے نبی اکرم  ﷺ  سے آئی ہے۔    تخریج دارالدعوہ :  سنن ابن ماجہ/الأحکام ٢٧ (٢٣٦٣) (والنسائي في الکبری) و مسند احمد (١/١٨، ٢٦) (تحفة الأشراف : ١٠٥٣٠) (صحیح) (ویأتي الإشارة إلیہ برقم : ٢٣٠٣  )    قال الشيخ الألباني :  صحيح، ابن ماجة (2363)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2165  
حدیث نمبر: 2165  حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا النَّضْرُ بْنُ إِسْمَاعِيل أَبُو الْمُغِيرَةِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سُوقَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنِابْنِ عُمَرَ، قَالَ: خَطَبَنَا عُمَرُ بِالْجَابِيَةِ، فَقَالَ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ، إِنِّي قُمْتُ فِيكُمْ كَمَقَامِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِينَا، فَقَالَ:  أُوصِيكُمْ بِأَصْحَابِي، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ يَفْشُو الْكَذِبُ، حَتَّى يَحْلِفَ الرَّجُلُ وَلَا يُسْتَحْلَفُ وَيَشْهَدَ الشَّاهِدُ وَلَا يُسْتَشْهَدُ، أَلَا لَا يَخْلُوَنَّ رَجُلٌ بِامْرَأَةٍ إِلَّا كَانَ ثَالِثَهُمَا الشَّيْطَانُ، عَلَيْكُمْ بِالْجَمَاعَةِ وَإِيَّاكُمْ وَالْفُرْقَةَ فَإِنَّ الشَّيْطَانَ مَعَ الْوَاحِدِ وَهُوَ مِنَ الِاثْنَيْنِ أَبْعَدُ، مَنْ أَرَادَ بُحْبُوحَةَ الْجَنَّةِ فَلْيَلْزَمْ الْجَمَاعَةَ، مَنْ سَرَّتْهُ حَسَنَتُهُ وَسَاءَتْهُ سَيِّئَتُهُ فَذَلِكَ الْمُؤْمِنُ ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَقَدْ رَوَاهُ ابْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سُوقَةَ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ، عَنْ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ২১৬৬
فتنوں کا بیان
جماعت کی پابندی کرنے کے متعلق
 عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا :  اللہ تعالیٰ میری امت کو یا یہ فرمایا :  محمد  ﷺ  کی امت کو گمراہی پر اکٹھا نہیں کرے گا، اللہ کا ہاتھ  (اس کی مدد و نصرت)  جماعت کے ساتھ ہے، جو شخص جماعت سے الگ ہوا وہ جہنم میں گرا ۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١ - یہ حدیث اس سند سے غریب ہے،  ٢ - سلیمان مدنی میرے نزدیک سلیمان بن سفیان ہی ہیں، ان سے ابوداؤد طیالسی، ابوعامر عقدی اور کئی اہل علم نے روایت کی ہے،  ٣ - اہل علم کے نزدیک  جماعت  سے مراد اصحاب فقہ اور اصحاب علم اور اصحاب حدیث ہیں،  ٤ - علی بن حسین کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن مبارک سے پوچھا : جماعت سے کون لوگ مراد ہیں ؟ انہوں نے کہا : ابوبکر و عمر، ان سے کہا گیا : ابوبکر و عمر تو وفات پا گئے، انہوں نے کہا : فلاں اور فلاں، ان سے کہا گیا : فلاں اور فلاں بھی تو وفات پاچکے ہیں تو عبداللہ بن مبارک نے کہا : ابوحمزہ سکری جماعت ہیں  ١ ؎،  ٥ - ابوحمزہ کا نام محمد بن میمون ہے، وہ صالح اور نیک شیخ تھے، عبداللہ بن مبارک نے یہ بات ہم سے اس وقت کہی تھی جب ابوحمزہ باحیات تھے۔    تخریج دارالدعوہ :  تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٧١٨٨) (صحیح) (سند میں ” سلیمان مدنی “ ضعیف ہیں، لیکن ” من شذ شذ إلى النار “ کے سوا دیگر ٹکڑوں کے صحیح شواہد موجود ہیں، دیکھیے ظلال الجنة رقم : ٨٠  )    وضاحت :  ١ ؎ : یعنی اگر ایک آدمی بھی صحیح عقیدہ و منہج پر ہو تو وہ اکیلے بھی جماعت ہے ، اصل معیار صحیح عقیدہ و منہج پر ہونا ہے ، نہ کہ بڑی تعداد میں ہونا ، اس لیے تقلید کے شیدائیوں کا یہ کہنا کہ تقلید پر امت کی اکثریت متفق ہے ، اس لیے مقلدین ہی سواد اعظم ہیں ، سراسر مغالطہٰ ہے۔    قال الشيخ الألباني :  صحيح دون    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2167  
حدیث نمبر: 2167  حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ نَافِعٍ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنِي الْمُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ الْمَدَنِيُّ، عَنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:  إِنَّ اللَّهَ لَا يَجْمَعُ أُمَّتِي، أَوْ قَالَ: أُمَّةَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى ضَلَالَةٍ، وَيَدُ اللَّهِ مَعَ الْجَمَاعَةِ، وَمَنْ شَذَّ شَذَّ إِلَى النَّارِ ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَسُلَيْمَانُ الْمَدَنِيُّ هُوَ عِنْدِي سُلَيْمَانُ بْنُ سُفْيَانَ، وَقَدْ رَوَى عَنْهُ أَبُو دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ، وَأَبُو عَامِرٍ الْعَقَدِيُّ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَتَفْسِيرُ الْجَمَاعَةِ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ هُمْ أَهْلُ الْفِقْهِ وَالْعِلْمِ وَالْحَدِيثِ، قَالَ: وَسَمِعْتُ الْجَارُودَ بْنَ مُعَاذٍ، يَقُولُ: سَمِعْتُ عَلِيَّ بْنَ الْحَسَنِ، يَقُولُ: سَأَلْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الْمُبَارَكِ: مَنِ الْجَمَاعَةُ ؟ فَقَالَ: أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ، قِيلَ لَهُ: قَدْ مَاتَ أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ، قَالَ: فُلَانٌ وَفُلَانٌ، قِيلَ لَهُ: قَدْ مَاتَ فُلَانٌ وَفُلَانٌ، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، وَأَبُو حَمْزَةَ السُّكَّرِيُّ جَمَاعَةٌ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَأَبُو حَمْزَةَ هُوَ مُحَمَّدُ بْنُ مَيْمُونٍ، وَكَانَ شَيْخًا صَالِحًا، وَإِنَّمَا قَالَ هَذَا فِي حَيَاتِهِ عِنْدَنَا.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ২১৬৬
فتنوں کا بیان
جماعت کی پابندی کرنے کے متعلق
 عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا :  اللہ کا ہاتھ  (اس کی مدد و نصرت)  جماعت کے ساتھ ہوتا ہے ۔    امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے ابن عباس (رض) کی روایت سے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔    تخریج دارالدعوہ :  تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٥٧٢٤) (صحیح  )    قال الشيخ الألباني :  صحيح تخريج الإصلاح // إصلاح المساجد // (61) وانظر ما قبله (2165)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2166  
حدیث نمبر: 2166  حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مَيْمُونٍ، عَنِ ابْنِ طَاوُسٍ، عَنِ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:  يَدُ اللَّهِ مَعَ الْجَمَاعَةِ ، هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ عَبَّاسٍ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ২১৬৭
فتنوں کا بیان
N/A
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ میری امت کو یا یہ فرمایا: ”محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کو گمراہی پر اکٹھا نہیں کرے گا، اللہ کا ہاتھ ( اس کی مدد و نصرت ) جماعت کے ساتھ ہے، جو شخص جماعت سے الگ ہوا وہ جہنم میں گرا“۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث اس سند سے غریب ہے، ۲- سلیمان مدنی میرے نزدیک سلیمان بن سفیان ہی ہیں، ان سے ابوداؤد طیالسی، ابوعامر عقدی اور کئی اہل علم نے روایت کی ہے، ۳- اہل علم کے نزدیک ”جماعت“ سے مراد اصحاب فقہ اور اصحاب علم اور اصحاب حدیث ہیں، ۴- علی بن حسین کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن مبارک سے پوچھا: جماعت سے کون لوگ مراد ہیں؟ انہوں نے کہا: ابوبکر و عمر، ان سے کہا گیا: ابوبکر و عمر تو وفات پا گئے، انہوں نے کہا: فلاں اور فلاں، ان سے کہا گیا: فلاں اور فلاں بھی تو وفات پا چکے ہیں تو عبداللہ بن مبارک نے کہا: ابوحمزہ سکری جماعت ہیں ۱؎، ۵- ابوحمزہ کا نام محمد بن میمون ہے، وہ صالح اور نیک شیخ تھے، عبداللہ بن مبارک نے یہ بات ہم سے اس وقت کہی تھی جب ابوحمزہ باحیات تھے۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ نَافِعٍ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنِي الْمُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ الْمَدَنِيُّ، عَنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِنَّ اللَّهَ لَا يَجْمَعُ أُمَّتِي، أَوْ قَالَ: أُمَّةَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى ضَلَالَةٍ، وَيَدُ اللَّهِ مَعَ الْجَمَاعَةِ، وَمَنْ شَذَّ شَذَّ إِلَى النَّارِ ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَسُلَيْمَانُ الْمَدَنِيُّ هُوَ عِنْدِي سُلَيْمَانُ بْنُ سُفْيَانَ، وَقَدْ رَوَى عَنْهُ أَبُو دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ، وَأَبُو عَامِرٍ الْعَقَدِيُّ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَتَفْسِيرُ الْجَمَاعَةِ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ هُمْ أَهْلُ الْفِقْهِ وَالْعِلْمِ وَالْحَدِيثِ، قَالَ: وَسَمِعْتُ الْجَارُودَ بْنَ مُعَاذٍ، يَقُولُ: سَمِعْتُ عَلِيَّ بْنَ الْحَسَنِ، يَقُولُ: سَأَلْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الْمُبَارَكِ: مَنِ الْجَمَاعَةُ ؟ فَقَالَ: أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ، قِيلَ لَهُ: قَدْ مَاتَ أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ، قَالَ: فُلَانٌ وَفُلَانٌ، قِيلَ لَهُ: قَدْ مَاتَ فُلَانٌ وَفُلَانٌ، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، وَأَبُو حَمْزَةَ السُّكَّرِيُّ جَمَاعَةٌ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَأَبُو حَمْزَةَ هُوَ مُحَمَّدُ بْنُ مَيْمُونٍ، وَكَانَ شَيْخًا صَالِحًا، وَإِنَّمَا قَالَ هَذَا فِي حَيَاتِهِ عِنْدَنَا.

তাহকীক:
হাদীস নং: ২১৬৮
فتنوں کا بیان
اس بارے میں کہ برائی کو نہ روکنا نزول عذاب کا باعث ہے
 ابوبکر صدیق (رض) کہتے ہیں کہ  لوگو ! تم یہ آیت پڑھتے ہو «يا أيها الذين آمنوا عليكم أنفسکم لا يضرکم من ضل إذا اهتديتم» اے ایمان والو ! اپنی فکر کرو گمراہ ہونے والا تمہیں کوئی ضرر نہیں پہنچائے گا جب تم نے ہدایت پالی   (المائدہ :  ١٠٥  )  اور میں نے رسول اللہ  ﷺ  کو فرماتے سنا ہے :  جب لوگ ظالم کو دیکھ کر اس کا ہاتھ نہ پکڑیں  (یعنی ظلم نہ روک دیں)  تو قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کا عذاب لوگوں پر عام کر دے   ٢ ؎۔    تخریج دارالدعوہ :  سنن ابی داود/ السلام ١٧ (٤٣٣٨) ، سنن ابن ماجہ/الفتن ٢٠ (٤٠٠٥) ، ویأتي عند المؤلف في تفسیر المائدة (٣٠٥٧) (تحفة الأشراف : ٦٦١٥) ، و مسند احمد (١/٢، ٥، ٧، ٩) (صحیح  )    وضاحت :  ٢ ؎ : ابوبکر (رض) کے ذہن میں جب یہ بات آئی کہ بعض لوگوں کے ذہن میں آیت «يا أيها الذين آمنوا عليكم أنفسکم لا يضرکم من ضل إذا اهتديتم» (المائدة :  ١٠٥  ) سے متعلق یہ شبہ پیدا ہوا ہے کہ اپنی اصلاح اگر کرلی جائے تو یہی کافی ہے ، امر بالمعروف و نہی عن المنکر ضروری نہیں ہے ، تو اسی شبہ کے ازالہ کے لیے آپ نے فرمایا : لوگو ! تم آیت کو غلط جگہ استعمال کر رہے ہو ، میں نے تو نبی اکرم  ﷺ  کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے ، پھر آپ نے یہ حدیث بیان کی ، گویا آیت کا صحیح مفہوم یہ ہے کہ تمہارے سمجھانے کے باوجود اگر لوگ نیکی کا راستہ اختیار نہ کریں اور برائی سے باز نہ آئیں تو تمہارے لیے یہ نقصان دہ نہیں ہے جب کہ تم خود نیکی پر قائم اور برائی سے بچتے رہو ، کیونکہ امر بالمعروف کا فریضہ بھی نہایت اہم ہے ، اگر کوئی مسلمان یہ فریضہ ترک کر دے تو وہ ہدایت پر قائم رہنے والا کب رہے گا جب کہ قرآن «إذا اھتدیتم» کی شرط لگا رہا ہے۔    قال الشيخ الألباني :  صحيح، ابن ماجة (4005)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2168  
حدیث نمبر: 2168  حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ أَبِي خَالِدٍ، عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ، أَنَّهُ قَالَ: أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّكُمْ تَقْرَءُونَ هَذِهِ الْآيَةَ: يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلَيْكُمْ أَنْفُسَكُمْ لا يَضُرُّكُمْ مَنْ ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُمْ سورة المائدة آية 105 وَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:  إِنَّ النَّاسَ إِذَا رَأَوْا الظَّالِمَ فَلَمْ يَأْخُذُوا عَلَى يَدَيْهِ أَوْشَكَ أَنْ يَعُمَّهُمُ اللَّهُ بِعِقَابٍ مِنْهُ .  

তাহকীক:
হাদীস নং: ২১৬৯
فتنوں کا بیان
بھلائی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے کے بارے میں
 حذیفہ بن یمان (رض) سے روایت ہے کہ  نبی اکرم  ﷺ  نے فرمایا :  اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! تم معروف  (بھلائی)  کا حکم دو اور منکر  (برائی)  سے روکو، ورنہ قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ تم پر اپنا عذاب بھیج دے پھر تم اللہ سے دعا کرو اور تمہاری دعا قبول نہ کی جائے   ١ ؎۔    امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن ہے۔    تخریج دارالدعوہ :  تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٣٣٦٦) (صحیح) (سند میں عبد اللہ بن عبدالرحمن اشہلی انصاری لین الحدیث ہیں، لیکن شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے  )    وضاحت :  ١ ؎ : اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ جب تک لوگ انجام دیتے رہیں گے اس وقت تک ان پر عمومی عذاب نہیں آئے گا ، اور جب لوگ اس فریضہ کو چھوڑ بیٹھیں گے اس وقت رب العالمین کا ان پر ایسا عذاب آئے گا کہ اس کے بعد پھر ان کی دعائیں نہیں سنی جائیں گی ، اگر ایک محدود علاقہ کے لوگ اس امربالمعروف اور نہی عن المنکر والے کام سے کلی طور پر رک جائیں تو وہاں اکیلے صرف ان پر بھی عام عذاب آسکتا ہے۔    قال الشيخ الألباني :  حسن، المشکاة (5140)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2169  
حدیث نمبر: 2169  حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِي عَمْرٍو، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ الْأَنْصَارِيِّ، عَنْ حُذَيْفَةَ بْنِ الْيَمَانِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:  وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَتَأْمُرُنَّ بِالْمَعْرُوفِ، وَلَتَنْهَوُنَّ عَنِ الْمُنْكَرِ، أَوْ لَيُوشِكَنَّ اللَّهُ أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عِقَابًا مِنْهُ، ثُمَّ تَدْعُونَهُ فَلَا يُسْتَجَابُ لَكُمْ   

তাহকীক:
হাদীস নং: ২১৭০
فتنوں کا بیان
بھلائی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے کے بارے میں
 حذیفہ بن یمان (رض) سے روایت ہے کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا :  اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک تم اپنے امام کو قتل نہ کر دو ، اپنی تلواروں سے ایک دوسرے کو قتل نہ کرو اور برے لوگ تمہاری دنیا کے وارث نہ بن جائیں ۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١ - یہ حدیث حسن ہے،  ٢ - ہم اسے صرف عمرو بن ابی عمرو کی روایت سے جانتے ہیں۔    تخریج دارالدعوہ :  سنن ابن ماجہ/الفتن ٢٥ (٤٠٤٣) (تحفة الأشراف : ٣٣٦٥) ، و مسند احمد (٥/٣٨٩) (ضعیف) (سند میں عبد اللہ بن عبدالرحمن اشہلی ضعیف راوی ہیں  )    قال الشيخ الألباني :  ضعيف، ابن ماجة (4043) // ضعيف سنن ابن ماجة (876) ، ضعيف الجامع الصغير (6111) //   صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2170  
حدیث نمبر: 2170  حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِي عَمْرٍو، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ وَهُوَ ابْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْأَنْصَارِيُّ الْأَشْهَلِيُّ، عَنْ حُذَيْفَةَ بْنِ الْيَمَانِ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:  وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى تَقْتُلُوا إِمَامَكُمْ، وَتَجْتَلِدُوا بِأَسْيَافِكُمْ، وَيَرِثَ دُنْيَاكُمْ شِرَارُكُمْ ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، إِنَّمَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ عَمْرِو بْنِ أَبِي عَمْرٍو.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ২১৭১
فتنوں کا بیان
بھلائی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے کے بارے میں
 ام المؤمنین ام سلمہ (رض) کہتی ہیں کہ  نبی اکرم  ﷺ  نے اس لشکر کا ذکر کیا جو زمین میں دھنسا دیا جائے گا، تو ام سلمہ نے عرض کیا : ہوسکتا ہے اس میں کچھ مجبور لوگ بھی ہوں، آپ نے فرمایا :  وہ اپنی نیتوں پر اٹھائے جائیں گے   ١ ؎۔    امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے، یہ حدیث «عن نافع بن جبير عن عائشة أيضا عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» کی سند سے بھی آئی ہے۔    تخریج دارالدعوہ :  سنن ابن ماجہ/الفتن ٣٠ (٤٠٦٥) (تحفة الأشراف : ١٨٢١٦) (صحیح  )    وضاحت :  ١ ؎ : یعنی دنیاوی عذاب میں تو مجبور اور بےبس لوگ بھی مبتلا ہوجائیں گے مگر آخرت میں وہ اپنے اعمال کے موافق اٹھائے جائیں گے۔    قال الشيخ الألباني :  صحيح، ابن ماجة (4065)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2171  
حدیث نمبر: 2171  حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سُوقَةَ، عَنِ نَافِعِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ ذَكَرَ الْجَيْشَ الَّذِي يُخْسَفُ بِهِمْ، فَقَالَتْ أُمُّ سَلَمَةَ: لَعَلَّ فِيهِمُ الْمُكْرَهُ، قَالَ:  إِنَّهُمْ يُبْعَثُونَ عَلَى نِيَّاتِهِمْ ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ نَافِعِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ عَائِشَةَ أَيْضًا، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ২১৭২
فتنوں کا بیان
ہاتھ زبان یا دل سے برائی کو روکنے کے متعلق
 طارق بن شہاب کہتے ہیں کہ  سب سے پہلے  (عید کے دن)  خطبہ کو صلاۃ پر مقدم کرنے والے مروان تھے، ایک آدمی نے کھڑے ہو کر مروان سے کہا : آپ نے سنت کی مخالفت کی ہے، مروان نے کہا : اے فلاں ! چھوڑ دی گئی وہ سنت جسے تم ڈھونڈتے ہو  (یہ سن کر)  ابو سعید خدری (رض) نے کہا : اس شخص نے اپنا فرض پورا کردیا، میں نے رسول اللہ  ﷺ  کو فرماتے سنا ہے :  جو شخص کوئی برائی دیکھے تو چاہیئے کہ اس برائی کو اپنے ہاتھ سے بدل دے، جسے اتنی طاقت نہ ہو وہ اپنی زبان سے اسے بدل دے اور جسے اس کی طاقت بھی نہ ہو وہ اپنے دل میں اسے برا جانے  ١ ؎ اور یہ ایمان کا سب سے کمتر درجہ ہے ۔    امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔    تخریج دارالدعوہ :  صحیح مسلم/الإیمان ٢٠ (١٧٧) ، سنن ابی داود/ الصلاة ٢٤٨ (١١٤٠) ، والملاحم ١٧ (٤٣٤٠) ، سنن النسائی/الإیمان ١٧ (٥٠١٢) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٥٥ (١٢٧٥) (تحفة الأشراف : ٤٠٨٥) ، و مسند احمد (٣/١٠، ٢٠، ٤٠، ٥٢، ٥٣، ٥٤، ٩٢) (صحیح  )    وضاحت :  ١ ؎ : یعنی : خود اس برائی سے الگ ہوجائے ، اس کے ارتکاب کرنے والوں کی جماعت سے نکل جائے (اگر ممکن ہو) ۔    قال الشيخ الألباني :  صحيح، ابن ماجة (1275)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2172  
حدیث نمبر: 2172  حَدَّثَنَا بُنْدَارٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ قَيْسِ بْنِ مُسْلِمٍ، عَنْ طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ، قَالَ: أَوَّلُ مَنْ قَدَّمَ الْخُطْبَةَ قَبْلَ الصَّلَاةِ مَرْوَانُ، فَقَامَ رَجُلٌ، فَقَالَ لِمَرْوَانَ: خَالَفْتَ السُّنَّةَ، فَقَالَ: يَا فُلَانُ، تُرِكَ مَا هُنَالِكَ، فَقَالَ أَبُو سَعِيدٍ: أَمَّا هَذَا فَقَدْ قَضَى مَا عَلَيْهِ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:  مَنْ رَأَى مُنْكَرًا فَلْيُنْكِرْهُ بِيَدِهِ، وَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِهِ، وَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِهِ، وَذَلِكَ أَضْعَفُ الْإِيمَانِ ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ২১৭৩
فتنوں کا بیان
اسی سے متعلق
 نعمان بن بشیر (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا :  اللہ کے حدود پر قائم رہنے والے  (یعنی اس کے احکام کی پابندی کرنے والے)  اور اس کی مخالفت کرنے والوں کی مثال اس قوم کی طرح ہے، جو قرعہ اندازی کے ذریعہ ایک کشتی میں سوار ہوئی، بعض لوگوں کو کشتی کے بالائی طبقہ میں جگہ ملی اور بعض لوگوں کو نچلے حصہ میں، نچلے طبقہ والے اوپر چڑھ کر پانی لیتے تھے تو بالائی طبقہ والوں پر پانی گر جاتا تھا، لہٰذا بالائی حصہ والوں نے کہا : ہم تمہیں اوپر نہیں چڑھنے دیں گے تاکہ ہمیں تکلیف پہنچاؤ  (یہ سن کر)  نچلے حصہ والوں نے کہا : ہم کشتی کے نیچے سوراخ کر کے پانی لیں گے، اب اگر بالائی طبقہ والے ان کے ہاتھ پکڑ کر روکیں گے تو تمام نجات پاجائیں گے اور اگر انہیں ایسا کرنے سے منع نہیں کریں گے تو تمام کے تمام ڈوب جائیں گے ۔    امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔    تخریج دارالدعوہ :  صحیح البخاری/الشرکة ٦ (٢٤٩٣) ، والشھادات ٣٠ (٢٦٨٦) (تحفة الأشراف : ١١٦٢٨) ، و مسند احمد (٤/٢٦٨، ٢٧٠، ٢٧٣) (صحیح  )    قال الشيخ الألباني :  صحيح، الصحيحة (69) ، التعليق الرغيب (3 / 168)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2173  
حدیث نمبر: 2173  حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:  مَثَلُ الْقَائِمِ عَلَى حُدُودِ اللَّهِ وَالْمُدْهِنِ فِيهَا، كَمَثَلِ قَوْمٍ اسْتَهَمُوا عَلَى سَفِينَةٍ فِي الْبَحْرِ فَأَصَابَ بَعْضُهُمْ أَعْلَاهَا، وَأَصَابَ بَعْضُهُمْ أَسْفَلَهَا، فَكَانَ الَّذِينَ فِي أَسْفَلِهَا يَصْعَدُونَ فَيَسْتَقُونَ الْمَاءَ فَيَصُبُّونَ عَلَى الَّذِينَ فِي أَعْلَاهَا، فَقَالَ الَّذِينَ فِي أَعْلَاهَا: لَا نَدَعُكُمْ تَصْعَدُونَ فَتُؤْذُونَنَا، فَقَالَ الَّذِينَ فِي أَسْفَلِهَا: فَإِنَّا نَنْقُبُهَا مِنْ أَسْفَلِهَا فَنَسْتَقِي فَإِنْ أَخَذُوا عَلَى أَيْدِيهِمْ فَمَنَعُوهُمْ نَجَوْا جَمِيعًا، وَإِنْ تَرَكُوهُمْ غَرِقُوا جَمِيعًا ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ২১৭৪
فتنوں کا بیان
اس بارے میں کہ جابر بادشاہ کے سامنے کلمہ حق کہنا افضل جہاد ہے
 ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ  نبی کریم  ﷺ  نے فرمایا :  ظالم بادشاہ کے سامنے حق کہنا سب سے بہتر جہاد ہے   ١ ؎۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١ - یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے،  ٢ - اس باب میں ابوامامہ سے بھی روایت ہے۔    تخریج دارالدعوہ :  سنن ابی داود/ الملاحم ١٧ (٤٣٤٤) ، سنن ابن ماجہ/الفتن ٢٠ (٤٠١١) ، و مسند احمد ٣٠/١٩، ٦١) (تحفة الأشراف : ٤٢٣٤) (صحیح) (متابعات و شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ اس کے راوی ” عطیہ عوفي “ ضعیف ہیں ۔  دیکھیے : الصحیحة : ٤٩١  )    وضاحت :  ١ ؎ : یہ سب سے بہتر جہاد اس وجہ سے ہے کہ دشمن سے مقابلہ کے وقت جو ڈر سوار رہتا ہے ، وہ اپنے اندر جیتنے اور ہارنے سے متعلق دونوں صفتوں کو سمیٹے ہوئے ہے ، جب کہ کسی جابر بادشاہ کے سامنے حق بات کہنے میں صرف مغلوبیت کا خوف طاری رہتا ہے ، اسی لیے اسے سب سے بہتر جہاد کہا گیا۔    قال الشيخ الألباني :  صحيح، ابن ماجة (4010)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2174  
حدیث نمبر: 2174  حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ دِينَارٍ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مُصْعَبٍ أَبُو يَزِيدَ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جُحَادَةَ، عَنْ عَطِيَّةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:  إِنَّ مِنْ أَعْظَمِ الْجِهَادِ كَلِمَةَ عَدْلٍ عِنْدَ سُلْطَانٍ جَائِرٍ ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَابِ عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ২১৭৫
فتنوں کا بیان
امت کے لئے رسول اللہ ﷺ کے تین سوال
 خباب بن ارت (رض) کہتے ہیں کہ  نبی اکرم  ﷺ  نے ایک بار کافی لمبی نماز پڑھی، صحابہ نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! آپ نے ایسی نماز پڑھی ہے کہ اس سے پہلے ایسی نماز نہیں پڑھی تھی، آپ نے فرمایا :  ہاں، یہ امید و خوف کی نماز تھی، میں نے اس میں اللہ تعالیٰ سے تین دعائیں مانگی ہیں، جن میں سے اللہ تعالیٰ نے دو کو قبول کرلیا اور ایک کو نہیں قبول کیا، میں نے پہلی دعا یہ مانگی کہ میری امت کو عام قحط میں ہلاک نہ کرے، اللہ نے میری یہ دعا قبول کرلی، میں نے دوسری دعا یہ کی کہ ان پر غیروں میں سے کسی دشمن کو نہ مسلط کرے، اللہ نے میری یہ دعا بھی قبول کرلی، میں نے تیسری دعا یہ مانگی کہ ان میں آپس میں ایک کو دوسرے کی لڑائی کا مزہ نہ چکھا تو اللہ تعالیٰ نے میری یہ دعا قبول نہیں فرمائی   ١ ؎۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١ - یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے،  ٢ - اس باب میں سعد اور ابن عمر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔    تخریج دارالدعوہ :  سنن النسائی/قیام اللیل ١٦ (١٦٣٩) (تحفة الأشراف : ٣٥١٦) ، و مسند احمد (٥/١٠٨) (صحیح  )    وضاحت :  ١ ؎ : یعنی میری دو دعائیں میری امت کے حق میں مقبول ہوئیں ، اور تیسری دعا مقبول نہیں ہوئی ، گویا یہ امت ہمیشہ اپنے لوگوں کے پھیلائے ہوئے فتنہ و فساد سے دوچار رہے گی ، اور اس امت کے لوگ خود آپس میں ایک دوسرے کو ہلاک ، اور قتل کریں گے ، اور حدیث کا مقصد یہ ہے کہ امت کے لوگ اپنے آپ کو اس کا مستحق نہ بنالیں۔    قال الشيخ الألباني :  صحيح صفة الصلاة    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2175  
حدیث نمبر: 2175  حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، قَال: سَمِعْتُ النُّعْمَانَ بْنَ رَاشِدٍ يُحَدِّثُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ خَبَّابِ بْنِ الْأَرَتِّ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاةً فَأَطَالَهَا، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، صَلَّيْتَ صَلَاةً لَمْ تَكُنْ تُصَلِّيهَا، قَالَ: أَجَلْ  إِنَّهَا صَلَاةُ رَغْبَةٍ وَرَهْبَةٍ إِنِّي سَأَلْتُ اللَّهَ فِيهَا ثَلَاثًا، فَأَعْطَانِي اثْنَتَيْنِ وَمَنَعَنِي وَاحِدَةً، سَأَلْتُهُ أَنْ لَا يُهْلِكَ أُمَّتِي بِسَنَةٍ فَأَعْطَانِيهَا، وَسَأَلْتُهُ أَنْ لَا يُسَلِّطَ عَلَيْهِمْ عَدُوًّا مِنْ غَيْرِهِمْ فَأَعْطَانِيهَا، وَسَأَلْتُهُ أَنْ لَا يُذِيقَ بَعْضَهُمْ بَأْسَ بَعْضٍ فَمَنَعَنِيهَا ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ، وَفِي الْبَابِ عَنْ سَعْدٍ، وَابْنِ عُمَرَ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ২১৭৬
فتنوں کا بیان
امت کے لئے رسول اللہ ﷺ کے تین سوال
 ثوبان (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا :  اللہ تعالیٰ نے میرے لیے زمین سمیٹ دی تو میں نے مشرق  (پورب)  و مغرب  (پچھم)  کو دیکھا یقیناً میری امت کی حکمرانی وہاں تک پہنچ کر رہے گی جہاں تک میرے لیے زمین سمیٹی گئی، اور مجھے سرخ و سفید دو خزانے دے گئے، میں نے اپنے رب سے اپنی امت کے لیے دعا کی کہ ان کو کسی عام قحط سے ہلاک نہ کرے اور نہ ان پر غیروں میں سے کوئی ایسا دشمن مسلط کر جو انہیں جڑ سے مٹا دے، میرے رب نے مجھ سے فرمایا : اے محمد ! جب میں کوئی فیصلہ کرلیتا ہوں تو اسے بدلتا نہیں، تیری امت کے حق میں تیری یہ دعا میں نے قبول کی کہ میں اسے عام قحط سے ہلاک و برباد نہیں کروں گا، اور نہ ہی ان پر کوئی ایسا دشمن مسلط کروں گا جو ان میں سے نہ ہو اور جو انہیں جڑ سے مٹا دے، گو ان کے خلاف تمام روئے زمین کے لوگ جمع ہوجائیں، البتہ ایسا ہوگا کہ انہیں میں سے بعض لوگ بعض کو ہلاک کریں گے، اور بعض کو قیدی بنائیں گے ۔    امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔    تخریج دارالدعوہ :  صحیح مسلم/الفتن ٥ (٢٨٨٩) ، سنن ابی داود/ الفتن ١ (٤٢٥٢) ، سنن ابن ماجہ/الفتن ٩ (٣٩٥٢) (تحفة الأشراف : ٢١٠٠) (صحیح  )    قال الشيخ الألباني :  صحيح، ابن ماجة (3952)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2176  
حدیث نمبر: 2176  حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ أَبِي أَسْمَاءَ الرَّحَبِيِّ، عَنْ ثَوْبَانَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ اللَّهَ زَوَى لِيَ الْأَرْضَ، فَرَأَيْتُ مَشَارِقَهَا وَمَغَارِبَهَا، وَإِنَّ أُمَّتِي سَيَبْلُغُ مُلْكُهَا مَا زُوِيَ لِي مِنْهَا، وَأُعْطِيتُ الْكَنْزَيْنِ الْأَحْمَرَ وَالأَصْفَرَ، وَإِنِّي سَأَلْتُ رَبِّي لِأُمَّتِي أَنْ لَا يُهْلِكَهَا بِسَنَةٍ عَامَّةٍ، وَأَنْ لَا يُسَلِّطَ عَلَيْهِمْ عَدُوًّا مِنْ سِوَى أَنْفُسِهِمْ فَيَسْتَبِيحَ بَيْضَتَهُمْ، وَإِنَّ رَبِّي قَالَ: يَا مُحَمَّدُ،  إِنِّي إِذَا قَضَيْتُ قَضَاءً فَإِنَّهُ لَا يُرَدُّ، وَإِنِّي أَعْطَيْتُكَ لِأُمَّتِكَ أَنْ لَا أُهْلِكَهُمْ بِسَنَةٍ عَامَّةٍ، وَأَنْ لَا أُسَلِّطَ عَلَيْهِمْ عَدُوًّا مِنْ سِوَى أَنْفُسِهِمْ، فَيَسْتَبِيحَ بَيْضَتَهُمْ، وَلَوِ اجْتَمَعَ عَلَيْهِمْ مَنْ بِأَقْطَارِهَا، أَوْ قَالَ: مَنْ بَيْنَ أَقْطَارِهَا حَتَّى يَكُونَ بَعْضُهُمْ يُهْلِكُ بَعْضًا، وَيَسْبِي بَعْضُهُمْ بَعْضًا ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.  

তাহকীক: