আল জামিউল কাবীর- ইমাম তিরমিযী রহঃ (উর্দু)
الجامع الكبير للترمذي
گواہیوں کا بیان - এর পরিচ্ছেদসমূহ
মোট হাদীস ২০ টি
হাদীস নং: ২২৯৫
گواہیوں کا بیان
گواہوں کے متعلق نبی ﷺ سے منقول احادیث کے ابواب
 زید بن خالد جہنی (رض) سے روایت ہے کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا :  کیا میں تمہیں سب سے اچھے گواہ کے بارے میں نہ بتادوں ؟ سب سے اچھا گواہ وہ آدمی ہے جو گواہی طلب کیے جانے سے پہلے گواہی دے   ١ ؎۔    تخریج دارالدعوہ :  صحیح مسلم/الأقضیة ٩ (١٧١٩) ، سنن ابی داود/ الأقضیة ١٣ (٣٥٩٦) ، سنن ابن ماجہ/الأحکام ٢٨ (٢٣٦٤) (تحفة الأشراف : ٣٧٥٤) ، وط/الأقضیة ٢ (٣) (صحیح  )    وضاحت :  ١ ؎ : اس گواہی کی صورت یہ ہے کہ کسی شخص کا کوئی ایسا معاملہ درپیش ہے جس میں کسی گواہ کی ضرورت ہے اور اس کے علم کے مطابق اس معاملہ کا کوئی گواہ نہیں ہے ، پھر اچانک ایک دوسرا شخص آئے اور خود سے اپنے آپ کو پیش کرے اور اس معاملہ کی گواہی دے تو اس حدیث میں ایسے ہی گواہ کو سب سے بہتر گواہ کہا گیا ہے ، معلوم ہوا کہ کسی کے پاس اگر کوئی شہادت موجود ہے تو اسے قاضی کے سامنے حاضر ہو کر معاملہ کے تصفیہ کی خاطر گواہی دینی چاہیئے اسے اس کے لیے طلب کیا گیا ہو یا نہ طلب کیا گیا ہو۔    قال الشيخ الألباني :  صحيح    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2295   اس سند سے بھی  اسی جیسی حدیث مروی ہے۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١ - یہ حدیث حسن ہے،  ٢ - اکثر لوگوں نے اپنی روایت میں عبدالرحمٰن بن ابی عمرہ کہا ہے۔  ٣ - اس حدیث کی روایت کرنے میں مالک کے شاگردوں کا اختلاف ہے، بعض راویوں نے اسے ابی عمرہ سے روایت کیا ہے، اور بعض نے ابن ابی عمرہ سے، ان کا نام عبدالرحمٰن بن ابی عمرہ انصاری ہے، ابن ابی عمرہ زیادہ صحیح ہے، کیونکہ مالک کے سوا دوسرے راویوں نے «عن عبدالرحمٰن بن أبي عمرة عن زيد بن خالد» کہا ہے «عن ابن أبي عمرة عن زيد بن خالد» کی سند سے اس کے علاوہ دوسری حدیث بھی مروی ہے، اور وہ صحیح حدیث ہے، ابو عمرہ زید بن خالد جہنی کے آزاد کردہ غلام تھے، اور ابو عمرہ کے واسطہ سے خالد سے حدیث غلول مروی ہے، اکثر لوگ عبدالرحمٰن بن ابی عمرہ ہی کہتے ہیں  ١ ؎۔    تخریج دارالدعوہ :  انظر ماقبلہ (صحیح  )    وضاحت :  ١ ؎ : مؤلف کے سوا ہر ایک کے یہاں «ابن أبي عمرة» ہی ہے۔    قال الشيخ الألباني : **   صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2296  
حدیث نمبر: 2295  حَدَّثَنَا الْأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عُثْمَانَ، عَنْ أَبِي عَمْرَةَ الْأَنْصَارِيِّ، عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:  أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِخَيْرِ الشُّهَدَاءِ ؟ الَّذِي يَأْتِي بِالشَّهَادَةِ قَبْلَ أَنْ يُسْأَلَهَا .  حدیث نمبر: 2296  حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ نَحْوَهُ، وَقَالَ ابْنُ أَبِي عَمْرَةَ، قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَأَكْثَرُ النَّاسِ، يَقُولُونَ: عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي عَمْرَةَ، وَاخْتَلَفُوا عَلَى مَالِكٍ فِي رِوَايَةِ هَذَا الْحَدِيثِ، فَرَوَى بَعْضُهُمْ عَنْ أَبِي عَمْرَةَ، وَرَوَى بَعْضُهُمْ عَنْ ابْنِ أَبِي عَمْرَةَ وَهُوَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي عَمْرَةَ الْأَنْصَارِيُّ، وَهَذَا أَصَحُّ لِأَنَّهُ قَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ حَدِيثِ مَالِكٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي عَمْرَةَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ، وَقَدْ رُوِيَ عَنِ ابْنِ أَبِي عَمْرَةَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ غَيْرُ هَذَا الْحَدِيثِ، وَهُوَ حَدِيثٌ صَحِيحٌ أَيْضًا، وَأَبُو عَمْرَةَ مَوْلَى زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ، وَلَهُ حَدِيثُ الْغُلُولِ، وَأَكْثَرُ النَّاسِ، يَقُولُونَ: عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي عَمْرَةَ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ২২৯৬
گواہیوں کا بیان
گواہوں کے متعلق نبی ﷺ سے منقول احادیث کے ابواب
 زید بن خالد جہنی (رض) سے روایت ہے کہ  انہوں نے رسول اللہ  ﷺ  کو فرماتے سنا :  سب سے بہتر گواہ وہ ہے جو گواہی طلب کیے جانے سے پہلے اپنی گواہی کا فریضہ ادا کر دے ۔    امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔    تخریج دارالدعوہ :  انظر ماقبلہ (صحیح) (سابقہ حدیث سے تقویت پا کر یہ حدیث صحیح لغیرہ  )    قال الشيخ الألباني : **   صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2297  
حدیث نمبر: 2297  حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ آدَمَ ابْنُ بِنْتِ أَزْهَرَ السَّمَّانِ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ، حَدَّثَنَا أُبَيُّ بْنُ عَبَّاسِ بْنِ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، حَدَّثَنِي أَبُو بَكْرِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرِو بْنِ عُثْمَانَ، حَدَّثَنِي خَارِجَةُ بْنُ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي عَمْرَةَ، حَدَّثَنِي زَيْدُ بْنُ خَالِدٍ الْجُهَنِيُّ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:  خَيْرُ الشُّهَدَاءِ مَنْ أَدَّى شَهَادَتَهُ قَبْلَ أَنْ يُسْأَلَهَا ، قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ২২৯৭
گواہیوں کا بیان
گواہوں کے متعلق نبی ﷺ سے منقول احادیث کے ابواب
 ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا :  خیانت کرنے والے مرد اور عورت کی گواہی درست اور مقبول نہیں ہے، اور نہ ان مردوں اور عورتوں کی گواہی مقبول ہے جن پر حد نافذ ہوچکی ہے، نہ اپنے بھائی سے دشمنی رکھنے والے کی گواہی مقبول ہے، نہ اس آدمی کی جس کی ایک بار جھوٹی گواہی آزمائی جا چکی ہو، نہ اس شخص کی گواہی جو کسی کے زیر کفالت ہو اس کفیل خاندان کے حق میں  (جیسے مزدور وغیرہ)  اور نہ اس شخص کی جو ولاء یا رشتہ داری کی نسبت میں متہم ہو ۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١ - یہ حدیث غریب ہے،  ٢ - ہم اسے صرف یزید بن زیاد دمشقی کی روایت سے جانتے ہیں، اور یزید ضعیف الحدیث ہیں، نیز یہ حدیث زہری کی روایت سے صرف اسی طریق سے جانی جاتی ہے،  ٣ - اس باب میں عبداللہ بن عمرو سے بھی حدیث مروی ہے،  ٤ - فزازی کہتے ہیں : «قانع» سے مراد «تابع» ہے،  ٥ - اس حدیث کا مطلب ہم نہیں سمجھتے اور نہ ہی سند کے اعتبار سے یہ میرے نزدیک صحیح ہے،  ٦ - اس بارے میں اہل علم کا عمل ہے کہ رشتہ دار کے لیے رشتہ کی گواہی درست ہے، البتہ بیٹے کے حق میں باپ کی گواہی یا باپ کے حق میں بیٹے کی گواہی کے بارے میں اہل علم کا اختلاف ہے، اکثر اہل علم بیٹے کے حق میں باپ کی گواہی یا باپ کے حق میں بیٹے کی گواہی کو درست نہیں سمجھتے،  ٧ - بعض اہل علم کہتے ہیں : جب گواہی دینے والا عادل ہو تو باپ کی گواہی بیٹے کے حق میں اسی طرح باپ کے حق میں بیٹے کی گواہی درست ہے،  ٨ - بھائی کی گواہی کے جواز کے بارے میں اختلاف نہیں ہے،  ٩ - اسی طرح رشتہ دار کے لیے رشتہ دار کی گواہی میں بھی اختلاف نہیں ہے،  ١٠ - امام شافعی کہتے ہیں : جب دو آدمیوں میں دشمنی ہو تو ایک کے خلاف دوسرے کی گواہی درست نہ ہوگی، گرچہ گواہی دینے والا عادل ہو، انہوں نے عبدالرحمٰن اعرج کی حدیث سے استدلال کیا ہے جو نبی اکرم  ﷺ  سے مرسلاً مروی ہے کہ دشمنی رکھنے والے کی گواہی درست نہیں ہے، اسی طرح اس  (مذکورہ)  حدیث کا بھی مفہوم یہی ہے،  (جس میں)  آپ نے فرمایا :  اپنے بھائی کے لیے دشمنی رکھنے والے کی گواہی درست نہیں ہے ۔    تخریج دارالدعوہ :  تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٦٦٩٠) (ضعیف) (سند میں یزید بن زیاد دمشقی متروک الحدیث راوی ہے  )    قال الشيخ الألباني :  ضعيف، الإرواء (2675) ، المشکاة (3781 / التحقيق الثاني) // ضعيف الجامع الصغير (6199) //   صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2298  
حدیث نمبر: 2298  حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِيَةَ الْفَزَارِيُّ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ زِيَادٍ الدِّمَشْقِيِّ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْعَائِشَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:  لَا تَجُوزُ شَهَادَةُ خَائِنٍ، وَلَا خَائِنَةٍ، وَلَا مَجْلُودٍ حَدًّا، وَلَا مَجْلُودَةٍ، وَلَا ذِي غِمْرٍ لِأَخِيهِ، وَلَا مُجَرَّبِ شَهَادَةٍ، وَلَا الْقَانِعِ أَهْلَ الْبَيْتِ لَهُمْ، وَلَا ظَنِينٍ فِي وَلَاءٍ، وَلَا قَرَابَةٍ ، قَالَ الْفَزَارِيُّ: الْقَانِعُ التَّابِعُ، هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ يَزِيدَ بْنِ زِيَادٍ الدِّمَشْقِيِّ، وَيَزِيدُ يُضَعَّفُ فِي الْحَدِيثِ، وَلَا يُعْرَفُ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ حَدِيثِ الزُّهْرِيِّ إِلَّا مِنْ حَدِيثِهِ، وَفِي الْبَابِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: وَلَا نَعْرِفُ مَعْنَى هَذَا الْحَدِيثِ، وَلَا يَصِحُّ عِنْدِي مِنْ قِبَلِ إِسْنَادِهِ، وَالْعَمَلُ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي هَذَا أَنَّ شَهَادَةَ الْقَرِيبِ جَائِزَةٌ لِقَرَابَتِهِ، وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي شَهَادَةِ الْوَالِدِ لِلْوَلَدِ، وَالْوَلَدِ لِوَالِدِهِ، وَلَمْ يُجِزْ أَكْثَرُ أَهْلِ الْعِلْمِ شَهَادَةَ الْوَالِدِ لِلْوَلَدِ، وَلَا الْوَلَدِ لِلْوَالِدِ، وَقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: إِذَا كَانَ عَدْلًا، فَشَهَادَةُ الْوَالِدِ لِلْوَلَدِ جَائِزَةٌ، وَكَذَلِكَ شَهَادَةُ الْوَلَدِ لِلْوَالِدِ، وَلَمْ يَخْتَلِفُوا فِي شَهَادَةِ الْأَخِ لِأَخِيهِ أَنَّهَا جَائِزَةٌ، وَكَذَلِكَ شَهَادَةُ كُلِّ قَرِيبٍ لِقَرِيبِهِ، وَقَالَ الشَّافِعِيُّ: لَا تَجُوزُ شَهَادَةٌ لِرَجُلٍ عَلَى الْآخَرِ وَإِنْ كَانَ عَدْلًا إِذَا كَانَتْ بَيْنَهُمَا عَدَاوَةٌ، وَذَهَبَ إِلَى حَدِيثِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْأَعْرَجِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُرْسَلًا، لَا تَجُوزُ شَهَادَةُ صَاحِبِ إِحْنَةٍ، يَعْنِي: صَاحِبَ عَدَاوَةٍ، وَكَذَلِكَ مَعْنَى هَذَا الْحَدِيثِ حَيْثُ قَالَ:  لَا تَجُوزُ شَهَادَةُ صَاحِبِ غِمْرٍ لِأَخِيهِ ، يَعْنِي: صَاحِبَ عَدَاوَةٍ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ২২৯৮
گواہیوں کا بیان
گواہوں کے متعلق نبی ﷺ سے منقول احادیث کے ابواب
 ابوبکرہ (رض) سے روایت ہے کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا :  کیا تمہیں بڑے بڑے  (کبیرہ)  گناہوں کے بارے میں نہ بتادوں ؟  صحابہ نے عرض کیا : کیوں نہیں ؟ اللہ کے رسول ! آپ نے فرمایا :  اللہ کے ساتھ شرک کرنا، ماں باپ کی نافرمانی کرنا اور جھوٹی گواہی دینا یا جھوٹی بات بولنا ، ابوبکرہ (رض) کہتے ہیں : رسول اللہ  ﷺ  آخری بات کو برابر دہراتے رہے یہاں تک کہ ہم لوگوں نے دل میں کہا : کاش ! آپ خاموش ہوجاتے۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے،  ٢ - اس باب میں عبداللہ بن عمرو (رض) سے بھی حدیث آئی ہے۔    تخریج دارالدعوہ :  انظر حدیث رقم ١٩٠١) (صحیح)    قال الشيخ الألباني :  صحيح غاية المرام (277)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2301    
حدیث نمبر: 2301  حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ، عَنِ الْجُرَيْرِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرَةَ، عَنْ أَبِيهِ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:  أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِأَكْبَرِ الْكَبَائِرِ ؟  قَالُوا: بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ:  الْإِشْرَاكُ بِاللَّهِ، وَعُقُوقُ الْوَالِدَيْنِ، وَشَهَادَةُ الزُّورِ، أَوْ قَوْلُ الزُّورِ ، قَالَ: فَمَا زَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُهَا حَتَّى قُلْنَا لَيْتَهُ سَكَتَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَفِي الْبَابِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو.    

তাহকীক:
হাদীস নং: ২২৯৯
گواہیوں کا بیان
گواہوں کے متعلق نبی ﷺ سے منقول احادیث کے ابواب
 ایمن بن خریم سے روایت ہے کہ  نبی اکرم  ﷺ  خطبہ کے لیے کھڑے ہوئے اور فرمایا :  لوگو ! جھوٹی گواہی اللہ کے ساتھ شرک کرنے کے برابر ہے، پھر آپ  ﷺ  نے یہ آیت پڑھی «فاجتنبوا الرجس من الأوثان واجتنبوا قول الزور»  تو بتوں کی گندگی سے بچے رہو  (ان کی پرستش نہ کرو)  اور جھوٹ بولنے سے بچے رہو   (الحج :  ٣٠  ) ۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١ - یہ حدیث غریب ہے،  ٢ - ہم اسے صرف سفیان بن زیاد کی روایت سے جانتے ہیں۔ اور لوگوں نے سفیان بن زیاد سے اس حدیث کی روایت کرنے میں اختلاف کیا ہے،  ٣ - نیز ہم ایمن بن خریم کا نبی اکرم  ﷺ  سے سماع بھی نہیں جانتے ہیں۔    تخریج دارالدعوہ :  تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٧٤٨) (ضعیف) (یہ مرسل ہے أیمن بن خریم تابعی ہیں، نیز اس کے راوی فاتک بن فضالہ مستور (مجہول الحال) ہیں  )    قال الشيخ الألباني :  ضعيف، ابن ماجة (2372) // ضعيف سنن ابن ماجة (518) ، تخريج الإيمان لابن سلام (49 / 118) ، طبع المکتب الإسلامي، المشکاة (3779 و 3780) //   صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2299  
حدیث نمبر: 2299  حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِيَةَ، عَنْ سُفْيَانَ بْنِ زِيَادٍ الْأَسَدِيِّ، عَنْ فَاتِكِ بْنِ فَضَالَةَ، عَنْ أَيْمَنَ بْنِ خُرَيْمٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَامَ خَطِيبًا، فَقَالَ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ،  عَدِلَتْ شَهَادَةُ الزُّورِ إِشْرَاكًا بِاللَّهِ ، ثُمَّ قَرَأَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الأَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّورِ سورة الحج آية 30، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ إِنَّمَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ سُفْيَانَ بْنِ زِيَادٍ، وَاخْتَلَفُوا فِي رِوَايَةِ هَذَا الْحَدِيثِ عَنْ سُفْيَانَ بْنِ زِيَادٍ، وَلَا نَعْرِفُ لِأَيْمَنَ بْنِ خُرَيْمٍ سَمَاعًا مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ২৩০০
گواہیوں کا بیان
گواہوں کے متعلق نبی ﷺ سے منقول احادیث کے ابواب
 خریم بن فاتک اسدی (رض) سے روایت ہے کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے فجر پڑھائی، جب پلٹے تو خطبہ کے لیے کھڑے ہوئے اور فرمایا :  جھوٹی گواہی اللہ کے ساتھ شرک کرنے کے برابر ہے ، آپ نے یہ بات تین مرتبہ دہرائی پھر آپ نے یہ مکمل آیت تلاوت فرمائی «واجتنبوا قول الزور»  اور جھوٹی بات سے اجتناب کرو ۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١ - یہ حدیث میرے نزدیک زیادہ صحیح ہے،  ٢ - خریم بن فاتک کو شرف صحابیت حاصل ہے، نبی اکرم  ﷺ  سے انہوں نے کئی حدیثیں روایت کی ہیں، اور مشہور صحابی ہیں۔    تخریج دارالدعوہ :  سنن ابن ماجہ/الأحکام ٣٢ (٢٣٧٢) (ضعیف) (سند میں زیاد عصفری اور حبیب بن نعمان دونوں لین الحدیث یعنی ضعیف راوی ہیں  )    قال الشيخ الألباني : **   صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2300  
حدیث نمبر: 2300  حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ وَهُوَ ابْنُ زِيَادٍ الْعُصْفُرِيُّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ النُّعْمَانِ الْأَسَدِيِّ، عَنْ خُرَيْمِ بْنِ فَاتِكٍ الْأَسَدِيِّ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى صَلَاةَ الصُّبْحِ فَلَمَّا انْصَرَفَ قَامَ قَائِمًا، فَقَالَ:  عُدِلَتْ شَهَادَةُ الزُّورِ بِالشِّرْكِ بِاللَّهِ  ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، ثُمَّ تَلَا هَذِهِ الْآيَةَ وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّورِ سورة الحج آية 30 إِلَى آخِرِ الْآيَةِ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا عِنْدِي أَصَحُّ، وَخُرَيْمُ بْنُ فَاتِكٍ لَهُ صُحْبَةٌ، وَقَدْ رَوَى عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَادِيثَ وَهُوَ مَشْهُورٌ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ২৩০১
گواہیوں کا بیان
گواہوں کے متعلق نبی ﷺ سے منقول احادیث کے ابواب
 ابوبکرہ (رض) سے روایت ہے کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا :  کیا تمہیں بڑے بڑے  (کبیرہ)  گناہوں کے بارے میں نہ بتادوں ؟  صحابہ نے عرض کیا : کیوں نہیں ؟ اللہ کے رسول ! آپ نے فرمایا :  اللہ کے ساتھ شرک کرنا، ماں باپ کی نافرمانی کرنا اور جھوٹی گواہی دینا یا جھوٹی بات بولنا ، ابوبکرہ (رض) کہتے ہیں : رسول اللہ  ﷺ  آخری بات کو برابر دہراتے رہے یہاں تک کہ ہم لوگوں نے دل میں کہا : کاش ! آپ خاموش ہوجاتے۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے،  ٢ - اس باب میں عبداللہ بن عمرو (رض) سے بھی حدیث آئی ہے۔    تخریج دارالدعوہ :  انظر حدیث رقم ١٩٠١) (صحیح  )    قال الشيخ الألباني :  صحيح غاية المرام (277)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2301  
حدیث نمبر: 2301  حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ، عَنِ الْجُرَيْرِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرَةَ، عَنْ أَبِيهِ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:  أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِأَكْبَرِ الْكَبَائِرِ ؟  قَالُوا: بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ:  الْإِشْرَاكُ بِاللَّهِ، وَعُقُوقُ الْوَالِدَيْنِ، وَشَهَادَةُ الزُّورِ، أَوْ قَوْلُ الزُّورِ ، قَالَ: فَمَا زَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُهَا حَتَّى قُلْنَا لَيْتَهُ سَكَتَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَفِي الْبَابِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ২৩০২
گواہیوں کا بیان
گواہوں کے متعلق نبی ﷺ سے منقول احادیث کے ابواب
 عمران بن حصین (رض) کہتے ہیں کہ  میں نے رسول اللہ  ﷺ  کو فرماتے سنا :  سب سے اچھے لوگ میرے زمانہ کے ہیں  (یعنی صحابہ) ، پھر وہ لوگ جو ان کے بعد آئیں گے  (یعنی تابعین) ، پھر وہ لوگ جو ان کے بعد آئیں گے  (یعنی اتباع تابعین)   ١ ؎، آپ  ﷺ  نے یہ بات تین مرتبہ دہرائی، پھر ان کے بعد ایسے لوگ آئیں گے جو موٹا ہونا چاہیں گے، موٹاپا پسند کریں گے اور گواہی طلب کیے جانے سے پہلے گواہی دیں گے   ١ ؎۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١ - یہ حدیث اعمش کے واسطہ سے علی بن مدرک کی روایت سے غریب ہے،  ٢ - اعمش کے دیگر شاگردوں نے «عن الأعمش عن هلال بن يساف عن عمران بن حصين» کی سند سے روایت کی ہے۔    تخریج دارالدعوہ :  انظر حدیث رقم ٢٢٢١) (صحیح  )    وضاحت :  ١ ؎ : اس سے صحابہ کرام کی فضیلت تابعین پر ، اور تابعین کی فضیلت اتباع تابعین پر ثابت ہوتی ہے۔  ٢ ؎ : ایک روایت میں ہے کہ نبی اکرم  ﷺ  نے یہ لفظ دو یا تین بار دہرایا ، اگر تین بار دہرایا تو اس کا مطلب ہے کہ آپ نے خود اپنا زمانہ مراد لیا ، پھر صحابہ کا پھر تابعین کا ، پھر اتباع تابعین کا ، اور اگر آپ نے صرف دو بار فرمایا تو اس کا وہی مطلب ہے جو ترجمہ کے اندر قوسین میں واضح کیا گیا ہے۔  ٣ ؎ : اس حدیث سے از خود شہادت دینے کی مذمت ثابت ہوتی ہے ، جب کہ حدیث نمبر  ٢١٩٥  سے اس کی مدح و تعریف ثابت ہے ، تعارض اس طرح دفع ہوجاتا ہے کہ مذمت مطلقاً اور از خود شہادت پیش کرنے کی نہیں بلکہ جلدی سے ایسی شہادت دینے کی وجہ سے ہے جس سے جھوٹ ثابت کرسکیں اور باطل طریقہ سے کھا پی سکیں اور لوگوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈال کر اسے ہضم کر سکں ، معلوم ہوا کہ حقوق کے تحفظ کے لیے دی گئی شہادت مقبول اور بہتر وعمدہ ہے جب کہ حقوق کو ہڑپ کر جانے کی نیت سے دی گئی شہادت قبیح اور بری ہے۔    قال الشيخ الألباني :  صحيح مضی (2334)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2302  
حدیث نمبر: 2302  حَدَّثَنَا وَاصِلُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ مُدْرِكٍ، عَنْ هِلَالِ بْنِ يَسَافٍ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنِ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:  خَيْرُ النَّاسِ قَرْنِي، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ ثَلَاثًا، ثُمَّ يَجِيءُ قَوْمٌ مِنْ بَعْدِهِمْ يَتَسَمَّنُونَ وَيُحِبُّونَ السِّمَنَ يُعْطُونَ الشَّهَادَةَ قَبْلَ أَنْ يُسْأَلُوهَا ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ الْأَعْمَشِ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ مُدْرِكٍ، وَأَصْحَابُ الْأَعْمَشِ إِنَّمَا رَوَوْا عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ هِلَالِ بْنِ يَسَافٍ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ .  

তাহকীক:
হাদীস নং: ২৩০৩
گواہیوں کا بیان
گواہوں کے متعلق نبی ﷺ سے منقول احادیث کے ابواب
 اس سند سے بھی  عمران بن حصین سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔ اور یہ محمد بن فضیل کی روایت سے زیادہ صحیح ہے۔    امام ترمذی کہتے ہیں : حدیث کے الفاظ «يعطون الشهادة قبل أن يسألوها» سے جھوٹی گواہی مراد ہے۔    امام ترمذی کہتے ہیں : ان کا کہنا ہے کہ گواہی طلب کیے بغیر وہ گواہی دیں گے۔    تخریج دارالدعوہ :  انظر ماقبلہ (صحیح  )    قال الشيخ الألباني :  صحيح مضی  (2334 )    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2302   عمر بن خطاب (رض) کہتے ہیں کہ  نبی اکرم  ﷺ  نے فرمایا :  سب سے اچھے اور بہتر لوگ ہمارے زمانے والے ہیں، پھر وہ لوگ جو ان کے بعد ہوں گے، پھر وہ لوگ جو ان کے بعد ہوں گے، پھر جھوٹ عام ہوجائے گا یہاں تک کہ آدمی گواہی طلب کیے بغیر گواہی دے گا، اور قسم کھلائے بغیر قسم کھائے گا ۔ اور نبی اکرم  ﷺ  کی وہ حدیث کہ سب سے بہتر گواہ وہ ہے، جو گواہی طلب کیے بغیر گواہی دے تو اس کا مفہوم ہمارے نزدیک یہ ہے کہ جب کسی سے کسی چیز کی گواہی  (حق بات کی خاطر)  دلوائی جائے تو وہ گواہی دے، گواہی دینے سے باز نہ رہے، بعض اہل علم کے نزدیک دونوں حدیثوں میں تطبیق کی یہی صورت ہے۔    تخریج دارالدعوہ :  انظر حدیث رقم ٢١٦٥ (صحیح  )    قال الشيخ الألباني : **   صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2303  
حَدَّثَنَا أَبُو عَمَّارٍ الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ.حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنِ الْأَعْمَشِ، حَدَّثَنَا هِلَالُ بْنُ يَسَافٍ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ، وَهَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ مُحَمَّدِ بْنِ فُضَيْلٍ، قَالَ: وَمَعْنَى هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ يُعْطُونَ الشَّهَادَةَ قَبْلَ أَنْ يُسْأَلُوهَا إِنَّمَا يَعْنِي: شَهَادَةَ الزُّورِ، يَقُولُ: يَشْهَدُ أَحَدُهُمْ مِنْ غَيْرِ أَنْ يُسْتَشْهَدَ.  حدیث نمبر: 2303  وَبَيَانُ هَذَا فِي حَدِيثِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:  خَيْرُ النَّاسِ قَرْنِي، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ يَفْشُو الْكَذِبُ حَتَّى يَشْهَدَ الرَّجُلُ وَلَا يُسْتَشْهَدُ، وَيَحْلِفُ الرَّجُلُ وَلَا يُسْتَحْلَفُ ، وَمَعْنَى حَدِيثِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:  خَيْرُ الشُّهَدَاءِ الَّذِي يَأْتِي بِشَهَادَتِهِ قَبْلَ أَنْ يُسْأَلَهَا  هُوَ عِنْدَنَا إِذَا أُشْهِدَ الرَّجُلُ عَلَى الشَّيْءِ أَنْ يُؤَدِّيَ شَهَادَتَهُ وَلَا يَمْتَنِعَ مِنَ الشَّهَادَةِ، هَكَذَا وَجْهُ الْحَدِيثِ عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ২৩০৪
گواہیوں کا بیان
زہد کے جو رسول اللہ ﷺ سے مروی ہیں
 عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے ارشاد فرمایا :  دو نعمتیں ایسی ہیں جن میں اکثر لوگ اپنا نقصان کرتے ہیں   ١ ؎۔    تخریج دارالدعوہ :  صحیح البخاری/الرقاق ١ (٦٤١٢) ، سنن ابن ماجہ/الزہد ١٥ (٤١٧٠) (تحفة الأشراف : ٥٦٦٦) ، و مسند احمد (١/٢٥٨، ٣٤٤) ، وسنن الدارمی/الرقاق ٢ (٢٧٤٩) (صحیح  )    وضاحت :  ١ ؎ : یعنی ان کی قدر نہیں کرتے ہیں ایک تندرستی اور دوسری فراغت ہیں بلکہ یوں ہی انہیں ضائع کردیتے ہیں جب کہ تندرستی کو بیماری سے پہلے اور فرصت کو مشغولیت سے پہلے غنیمت سمجھنا چاہیئے۔    قال الشيخ الألباني :  صحيح    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2304  
حدیث نمبر: 2304  حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، وَسُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، قَالَ صَالِحٌ: حَدَّثَنَا، وَقَالَ سُوَيْدٌ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْعَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَعِيدِ بْنِ أَبِي هِنْدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:  نِعْمَتَانِ مَغْبُونٌ فِيهِمَا كَثِيرٌ مِنَ النَّاسِ الصِّحَّةُ وَالْفَرَاغُ .  

তাহকীক:
হাদীস নং: ২৩০৫
گواہیوں کا بیان
زہد کے جو رسول اللہ ﷺ سے مروی ہیں
 ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا :  کون ایسا شخص ہے جو مجھ سے ان کلمات کو سن کر ان پر عمل کرے یا ایسے شخص کو سکھلائے جو ان پر عمل کرے ، ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں : میں نے کہا : اللہ کے رسول ! میں ایسا کروں گا، تو رسول اللہ  ﷺ  نے ان پانچ باتوں کو گن کر بتلایا :  تم حرام چیزوں سے بچو، سب لوگوں سے زیادہ عابد ہوجاؤ گے اور اللہ تعالیٰ کی تقسیم شدہ رزق پر راضی رہو، سب لوگوں سے زیادہ بےنیاز رہو گے، اور اپنے پڑوسی کے ساتھ احسان کرو پکے سچے مومن رہو گے۔ اور دوسروں کے لیے وہی پسند کرو جو اپنے لیے پسند کرتے ہو سچے مسلمان ہوجاؤ گے اور زیادہ نہ ہنسو اس لیے کہ زیادہ ہنسنا دل کو مردہ کردیتا ہے ۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١ - یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف جعفر بن سلیمان کی روایت سے جانتے ہیں،  ٢ - حسن بصری کا سماع ابوہریرہ سے ثابت نہیں،  ٣ - اسی طرح ایوب، یونس بن عبید اور علی بن زید سے مروی ہے ان سب کا کہنا ہے کہ حسن بصری نے ابوہریرہ سے نہیں سنا ہے،  ٤ - ابوعبیدہ ناجی نے اسے حسن بصری سے روایت کرتے ہوئے اس کو حسن بصری کا قول کہا ہے اور یہ نہیں ذکر کیا کہ یہ حدیث حسن بصری ابوہریرہ سے روایت کرتے ہیں، اور ابوہریرہ نبی اکرم  ﷺ  سے روایت کرتے ہیں۔    تخریج دارالدعوہ :  تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٢٢٤٧) ، و مسند احمد (٢/٣١٠) (حسن) (متابعات کی بنا پر یہ حدیث حسن ہے، ورنہ اس کے راوی ” حسن بصری “ کا سماع ابوہریرہ (رض) سے نہیں ہے، نیز ” ابو طارق “ مجہول ہیں، نیز ملاحظہ ہو : الصحیحہ ٩٣٠  )    قال الشيخ الألباني :  حسن، الصحيحة (930) ، تخريج المشکلة (17)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2305  
حدیث نمبر: 2305  حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ هِلَالٍ الصَّوَّافُ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ أَبِي طَارِقٍ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:  مَنْ يَأْخُذُ عَنِّي هَؤُلَاءِ الْكَلِمَاتِ فَيَعْمَلُ بِهِنَّ أَوْ يُعَلِّمُ مَنْ يَعْمَلُ بِهِنَّ ؟  فَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: فَقُلْتُ: أَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَأَخَذَ بِيَدِي فَعَدَّ خَمْسًا، وَقَالَ:  اتَّقِ الْمَحَارِمَ تَكُنْ أَعْبَدَ النَّاسِ، وَارْضَ بِمَا قَسَمَ اللَّهُ لَكَ تَكُنْ أَغْنَى النَّاسِ، وَأَحْسِنْ إِلَى جَارِكَ تَكُنْ مُؤْمِنًا، وَأَحِبَّ لِلنَّاسِ مَا تُحِبُّ لِنَفْسِكَ تَكُنْ مُسْلِمًا، وَلَا تُكْثِرِ الضَّحِكَ فَإِنَّ كَثْرَةَ الضَّحِكِ تُمِيتُ الْقَلْبَ ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ جَعْفَرِ بْنِ سُلَيْمَانَ، وَالْحَسَنُ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ أَبِي هُرَيْرَةَ شَيْئًا هَكَذَا، رُوِيَ عَنْ أَيُّوبَ، وَيُونُسَ بْنِ عُبَيْدٍ، وَعَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ، قَالُوا: لَمْ يَسْمَعْ الْحَسَنُ مِنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَرَوَى أَبُو عُبَيْدَةَ النَّاجِيُّ، عَنِ الْحَسَنِ هَذَا الْحَدِيثَ قَوْلَهُ، وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ২৩০৬
گواہیوں کا بیان
نیک اعمال میں جلدی کرنا
 ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا :  سات چیزوں سے پہلے نیک اعمال کرنے میں جلدی کرو، تمہیں ایسے فقر کا انتظار ہے جو سب کچھ بھلا ڈالنے والا ہے ؟ یا ایسی مالداری کا جو طغیانی پیدا کرنے والی ہے ؟ یا ایسی بیماری کا جو مفسد ہے  (یعنی اطاعت الٰہی میں خلل ڈالنے والی)  ہے ؟ یا ایسے بڑھاپے کا جو عقل کو کھو دینے والا ہے ؟ یا ایسی موت کا جو جلدی ہی آنے والی ہے ؟ یا اس دجال کا انتظار ہے جس کا انتظار سب سے برے غائب کا انتظار ہے ؟ یا اس قیامت کا جو قیامت نہایت سخت اور کڑوی ہے ۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١ - یہ حدیث حسن غریب ہے،  ٢ - اعرج ابوہریرہ سے مروی حدیث ہم صرف محرز بن ہارون کی روایت سے جانتے ہیں،  ٣ - بشر بن عمر اور ان کے علاوہ لوگوں نے بھی اسے محرز بن ہارون سے روایت کیا ہے،  ٤ - معمر نے ایک ایسے شخص سے سنا ہے جس نے بسند «سعيدا المقبري عن أبي هريرة عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» اسی جیسی حدیث روایت کی ہے اس میں «هل تنتظرون» کی بجائے «تنتظرون» ہے۔    تخریج دارالدعوہ :  تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٣٩٥١) (ضعیف) (سند میں ” محرر ۔ یا محرز۔ بن ہارون “ متروک الحدیث راوی ہے  )    قال الشيخ الألباني :  ضعيف، الضعيفة (1666) // ضعيف الجامع الصغير (2315) //   صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2306  
حدیث نمبر: 2306  حَدَّثَنَا أَبُو مُصْعَبٍ الْمَدَنِيُّ، عَنْ مُحْرَّرِ بْنِ هَارُونَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:  بَادِرُوا بِالْأَعْمَالِ سَبْعًا هَلْ تَنْتَظِرُونَ إِلَّا فَقْرًا مُنْسِيًا، أَوْ غِنًى مُطْغِيًا، أَوْ مَرَضًا مُفْسِدًا، أَوْ هَرَمًا مُفَنِّدًا، أَوْ مَوْتًا مُجْهِزًا، أَوِ الدَّجَّالَ فَشَرُّ غَائِبٍ يُنْتَظَرُ، أَوِ السَّاعَةَ فَالسَّاعَةُ أَدْهَى وَأَمَرُّ ، قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، إِلَّا مِنْ حَدِيثِ مُحَرَّرِ بْنِ هَارُونَ، وَقَدْ رَوَى بِشْرُ بْنُ عُمَرَ وَغَيْرُهُ، عَنْ مُحَرَّرِ بْنِ هَارُونَ هَذَا، وَقَدْ رَوَى مَعْمَرٌ هَذَا الْحَدِيثَ، عَمَّنْ سَمِعَ سَعِيدًا الْمَقْبُرِيَّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ، وَقَالَ: تَنْتَظِرُونَ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ২৩০৭
گواہیوں کا بیان
موت کو یاد کرنے کے بارے میں
 ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا :  لذتوں کو توڑنے والی  (یعنی موت)  کو کثرت سے یاد کیا کرو   ١ ؎۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١ - یہ حدیث حسن صحیح غریب،  ٢ - اس باب میں ابو سعید خدری (رض) سے بھی روایت ہے۔    تخریج دارالدعوہ :  سنن النسائی/الجنائز ٣ (١٨٢٥) ، سنن ابن ماجہ/الزہد ٣١ (٤٢٥٨) (تحفة الأشراف : ١٥٠٨٠) ، و مسند احمد (٢/٢٩٣) (حسن صحیح  )    وضاحت :  ١ ؎ : موت کی یاد اور اس کا تصور انسان کو دنیاوی مشاغل سے دور اور معصیت کے ارتکاب سے باز رکھتا ہے ، اس لیے بکثرت موت کو یاد کرنا چاہیئے اور اس کے پیش آنے والے معاملات سے غافل نہیں رہنا چاہیئے۔    قال الشيخ الألباني :  حسن صحيح، ابن ماجة (4258)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2307  
حدیث نمبر: 2307  حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:  أَكْثِرُوا ذِكْرَ هَاذِمِ اللَّذَّاتِ ، يَعْنِي الْمَوْتَ، قَالَ: وَفِي الْبَابِ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ২৩০৮
گواہیوں کا بیان
 ہانی مولی عثمان کہتے ہیں کہ  عثمان (رض) جب کسی قبرستان پر ٹھہرتے تو اتنا روتے کہ آپ کی داڑھی تر ہوجاتی، ان سے کسی نے کہا کہ جب آپ کے سامنے جنت و جہنم کا ذکر کیا جاتا ہے تو نہیں روتے ہیں اور قبر کو دیکھ کر اس قدر رو رہے ہیں ؟ تو کہا کہ رسول اللہ  ﷺ  نے ارشاد فرمایا ہے :  آخرت کے منازل میں سے قبر پہلی منزل ہے، سو اگر کسی نے قبر کے عذاب سے نجات پائی تو اس کے بعد کے مراحل آسان ہوں گے اور اگر جسے عذاب قبر سے نجات نہ مل سکی تو اس کے بعد کے منازل سخت تر ہوں گے ، عثمان (رض) نے مزید کہا کہ رسول اللہ  ﷺ  نے ارشاد فرمایا :  گھبراہٹ اور سختی کے اعتبار سے قبر کی طرح کسی اور منظر کو نہیں دیکھا   ١ ؎۔    امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے، اسے ہم صرف ہشام بن یوسف کی روایت سے جانتے ہیں۔    تخریج دارالدعوہ :  سنن ابن ماجہ/الزہد ٣٢ (٤٢٦٧) (تحفة الأشراف : ٩٨٣٩) ، و مسند احمد (١/٦٤) (حسن  )    وضاحت :  ١ ؎ : عثمان (رض) کا یہ حال کہ قبر کے عذاب کا اتنا خوف اور ڈر لاحق ہو کہ اسے دیکھ کر زار و قطار رونے لگیں باوجود یہ کہ آپ عشرہ مبشرہ میں سے ہیں اور ہمارا یہ حال ہے کہ اس عذاب کو بھولے ہوئے ہیں ، حالانکہ یہ منازل آخرت میں سے پہلی منزل ہے ، اللہ رب العالمین ہم سب کو قبر کے عذاب سے بچائے آمین۔    قال الشيخ الألباني :  حسن، ابن ماجة (4267)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2308  
حدیث نمبر: 2308  حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مَعِينٍ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بَحِيرٍ، أَنَّهُ سَمِعَ هَانِئًا مَوْلَى عُثْمَانَ، قَالَ: كَانَ عُثْمَانُ إِذَا وَقَفَ عَلَى قَبْرٍ بَكَى حَتَّى يَبُلَّ لِحْيَتَهُ، فَقِيلَ لَهُ: تُذْكَرُ الْجَنَّةُ وَالنَّارُ فَلَا تَبْكِي وَتَبْكِي مِنْ هَذَا، فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:  إِنَّ الْقَبْرَ أَوَّلُ مَنْزِلٍ مِنْ مَنَازِلِ الْآخِرَةِ، فَإِنْ نَجَا مِنْهُ فَمَا بَعْدَهُ أَيْسَرُ مِنْهُ، وَإِنْ لَمْ يَنْجُ مِنْهُ فَمَا بَعْدَهُ أَشَدُّ مِنْهُ . (حديث مرفوع) (حديث موقوف) قَالَ: قَالَ: وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:  مَا رَأَيْتُ مَنْظَرًا قَطُّ إِلَّا وَالْقَبْرُ أَفْظَعُ مِنْهُ ، قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ هِشَامِ بْنِ يُوسُفَ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ২৩০৯
گواہیوں کا بیان
جو اللہ تعالیٰ کی ملاقات کا خواہش مند اللہ بھی اس سے ملاقات کرنا پسند کرتا ہے
 عبادہ بن صامت (رض) سے روایت ہے کہ  نبی اکرم  ﷺ  نے فرمایا :  جو شخص اللہ تعالیٰ سے ملنا چاہے گا تو اللہ تعالیٰ بھی اس سے ملنا چاہے گا، اور جو اللہ تعالیٰ سے ملنا ناپسند کرے تو اللہ تعالیٰ بھی اس سے ملنا ناپسند کرے گا   ١ ؎۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١ - عبادہ کی حدیث صحیح ہے،  ٢ - اس باب میں ابوہریرہ، ام المؤمنین عائشہ، انس اور ابوموسیٰ اشعری (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔    تخریج دارالدعوہ :  انظر حدیث رقم ١٠٦٦ (صحیح  )    وضاحت :  ١ ؎ : نسائی کتاب الجنائز باب رقم  ١٠  ، حدیث رقم  ١٨٣٨  میں ہے : ام المؤمنین عائشہ (رض) نے اس حدیث کا یہ مطلب بیان کیا ہے کہ یہ موت کے وقت کا معاملہ ہے جب بینائی چھن جائے ، جاں کنی کا عالم ہو اور رونگٹے کھڑے ہوجائیں تو جس کو اللہ کی رحمت اور مغفرت کی بشارت دی جائے اس وقت جو اللہ سے ملنا چاہے اللہ بھی اس سے ملنا چاہے گا اور جس کو اللہ کے عذاب کی وارننگ دی جائے وہ اللہ سے ملنا ناپسند کرے تو اللہ بھی اس سے ملنا ناپسند کرے گا ، یعنی مومن کو اللہ سے ملنے میں خوشی اور کافر کو گھبراہٹ اور ڈر لاحق ہوتا ہے۔    قال الشيخ الألباني :  صحيح    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2309  
حدیث نمبر: 2309  حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، قَال: سَمِعْتُ أَنَسًا يُحَدِّثُ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:  مَنْ أَحَبَّ لِقَاءَ اللَّهِ أَحَبَّ اللَّهُ لِقَاءَهُ، وَمَنْ كَرِهَ لِقَاءَ اللَّهِ كَرِهَ اللَّهُ لِقَاءَهُ ، قَالَ: وَفِي الْبَابِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَعَائِشَةَ، وَأَنَسٍ، وَأَبِي مُوسَى، قَالَ: حَدِيثُ عُبَادَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ২৩১০
گواہیوں کا بیان
نبی ﷺ کا امت کو خوف دلانا
 ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ  جب یہ آیت کریمہ : «وأنذر عشيرتک الأقربين» نازل ہوئی تو رسول اللہ  ﷺ  نے ارشاد فرمایا : اے عبدالمطلب کی بیٹی صفیہ ! ، اے محمد کی بیٹی فاطمہ ! اے عبدالمطلب کی اولاد ! اللہ کی طرف سے تم لوگوں کے نفع و نقصان کا مجھے کچھ بھی اختیار نہیں ہے، تم میرے مال میں سے تم سب کو جو کچھ مانگنا ہو وہ مجھ سے مانگ لو  ١ ؎۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١ - عائشہ کی حدیث حسن غریب ہے،  ٢ - ان میں سے بعض نے اسی طرح ہشام بن عروہ سے روایت کی ہے، اور بعض نے «عن هشام عن أبيه عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» کی سند سے مرسلاً روایت کی ہے اور «عن عائشة» کا ذکر نہیں کیا،  ٣ - اس باب میں ابوہریرہ، ابن عباس اور ابوموسیٰ اشعری (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔    تخریج دارالدعوہ :  صحیح مسلم/الإیمان ٨٩ (٢٠٥) ، سنن النسائی/الوصایا ٦ (٣٦٧٨) ویأتي عند المؤلف برقم ٣١٨٤ (تحفة الأشراف : ١٧٢٣٧) ، و مسند احمد (٦/١٧٨) (صحیح  )    وضاحت :  ١ ؎ : حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ اگر اللہ تں ہی عذاب دینا چاہے تو میں تمہیں اس کے عذاب سے نہیں بچا سکتا ، کیونکہ میں کسی کے نفع و نقصان کا مالک نہیں ہوں ، البتہ دنیاوی وسائل جو مجھے اللہ کی جانب سے حاصل ہیں ، ان میں سے جو چاہو تم لوگ مانگ سکتے ہو ، میں دینے کے لیے تیار ہوں۔    قال الشيخ الألباني :  صحيح    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2310  
حدیث نمبر: 2310  حَدَّثَنَا أَبُو الْأَشْعَثِ أَحْمَدُ بْنُ الْمِقْدَامِ الْعِجْلِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الطُّفَاوِيُّ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْأَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: لَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ: وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الأَقْرَبِينَ سورة الشعراء آية 214 قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا صَفِيَّةُ بِنْتَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، يَا فَاطِمَةُ بِنْتَ مُحَمَّدٍ، يَا بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ،  إِنِّي لَا أَمْلِكُ لَكُمْ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا، سَلُونِي مِنْ مَالِي مَا شِئْتُمْ ، قَالَ: وَفِي الْبَابِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَأَبِي مُوسَى، وَابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: حَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، هَكَذَا رَوَى بَعْضُهُمْ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ نَحْوَ هَذَا، وَرَوَى بَعْضُهُمْ عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُرْسَلًا، لَمْ يَذْكُرْ فِيهِ عَنْ عَائِشَةَ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ২৩১১
گواہیوں کا بیان
خوف اللہ سے رونے کی فضیلت کے بارے میں
 ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا :  اللہ تعالیٰ کے خوف اور ڈر سے رونے والا شخص جہنم میں نہیں جاسکتا جب تک کہ دودھ تھن میں واپس نہ پہنچ جائے اور اللہ کی راہ کا گرد و غبار اور جہنم کا دھواں دونوں اکٹھا نہیں ہوسکتے   ١ ؎۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے،  ٢ - اس باب میں ابوریحانہ اور ابن عباس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں،  ٣ - محمد بن عبدالرحمٰن آل طلحہ کے آزاد کردہ غلام ہیں مدنی ہیں، ثقہ ہیں، ان سے شعبہ اور سفیان ثوری نے روایت کی ہے۔    تخریج دارالدعوہ :  انظر حدیث رقم ١٦٣٣ (صحیح  )    وضاحت :  ١ ؎ : حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ نہ کبھی دودھ تھن میں واپس ہوگا اور نہ ہی اللہ کے خوف سے رونے والا جہنم میں ڈالا جائے گا ، اسی طرح راہ جہاد میں نکلنے والا بھی جہنم میں نہیں جاسکتا ، کیونکہ جہاد مجاہد کے لیے جہنم سے نجات کا ذریعہ ہے ، معلوم ہوا کہ جہاد کی بڑی فضیلت ہے ، لیکن یہ ثواب اس مجاہد کے لیے ہے جو کبیرہ گناہوں سے بچتا رہا ہو۔ معلوم ہوجائے تو بہت کم ہنسو گے اور بہت زیادہ روؤ گے۔    قال الشيخ الألباني :  صحيح، المشکاة (3828) ، التعليق الرغيب (2 / 166)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2311  
حدیث نمبر: 2311  حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْمَسْعُودِيِّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عِيسَى بْنِ طَلْحَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:  لَا يَلِجُ النَّارَ رَجُلٌ بَكَى مِنْ خَشْيَةِ اللَّهِ حَتَّى يَعُودَ اللَّبَنُ فِي الضَّرْعِ، وَلَا يَجْتَمِعُ غُبَارٌ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَدُخَانُ جَهَنَّمَ ، قَالَ: وَفِي الْبَابِ عَنْ أَبِي رَيْحَانَةَ وَابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ هُوَ مَوْلَى آلِ طَلْحَةَ، وَهُوَ مَدَنِيٌّ ثِقَةٌ، رَوَى عَنْهُ شُعْبَةُ، وَسُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ২৩১২
گواہیوں کا بیان
نبی کا فرمان کہ اگر تم لوگ وہ کچھ جان لو جو کچھ میں جانتا ہوں توہنسنا کم کر دو
 ابوذر (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا :  بیشک میں وہ چیز دیکھ رہا ہوں جو تم نہیں دیکھتے اور وہ سن رہا ہوں جو تم نہیں سنتے۔ بیشک آسمان چرچرا رہا ہے اور اسے چرچرانے کا حق بھی ہے، اس لیے کہ اس میں چار انگل کی بھی جگہ نہیں خالی ہے مگر کوئی نہ کوئی فرشتہ اپنی پیشانی اللہ کے حضور رکھے ہوئے ہے، اللہ کی قسم ! جو میں جانتا ہوں اگر وہ تم لوگ بھی جان لو تو ہنسو گے کم اور رؤ گے زیادہ اور بستروں پر اپنی عورتوں سے لطف اندوز نہ ہو گے، اور یقیناً تم لوگ اللہ تعالیٰ سے فریاد کرتے ہوئے میدانوں میں نکل جاتے ،  (اور ابوذر (رض))  فرمایا کرتے تھے کہ  کاش میں ایک درخت ہوتا جو کاٹ دیا جاتا ۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١ - اور یہ حدیث حسن غریب ہے،  ٢ - اس کے علاوہ ایک دوسری سند سے بھی مروی ہے کہ ابوذر (رض) فرمایا کرتے تھے :  کاش میں ایک درخت ہوتا کہ جسے لوگ کاٹ ڈالتے ،  ٣ - اس باب میں ابوہریرہ، عائشہ، ابن عباس اور انس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔    تخریج دارالدعوہ :  سنن ابن ماجہ/الزہد ١٩ (٤١٩٠) (تحفة الأشراف : ١١٩٨٦) (حسن) (حدیث میں ” لوددت … “ کا جملہ مرفوع نہیں ہے، ابو ذر (رض) کا اپنا قول ہے  )    قال الشيخ الألباني :  حسن دون قوله :  لوددت .... ، ابن ماجة (4190)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2312  
حدیث نمبر: 2312  حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ الزُّبَيْرِيُّ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ الْمُهَاجِرِ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْمُوَرِّقٍ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:  إِنِّي أَرَى مَا لَا تَرَوْنَ، وَأَسْمَعُ مَا لَا تَسْمَعُونَ، أَطَتِ السَّمَاءُ وَحُقَّ لَهَا أَنْ تَئِطَّ مَا فِيهَا مَوْضِعُ أَرْبَعِ أَصَابِعَ إِلَّا وَمَلَكٌ وَاضِعٌ جَبْهَتَهُ سَاجِدًا لِلَّهِ، وَاللَّهِ لَوْ تَعْلَمُونَ مَا أَعْلَمُ لَضَحِكْتُمْ قَلِيلًا، وَلَبَكَيْتُمْ كَثِيرًا، وَمَا تَلَذَّذْتُمْ بِالنِّسَاءِ عَلَى الْفُرُشِ، وَلَخَرَجْتُمْ إِلَى الصُّعُدَاتِ تَجْأَرُونَ إِلَى اللَّهِ لَوَدِدْتُ أَنِّي كُنْتُ شَجَرَةً تُعْضَدُ ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَابِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَعَائِشَةَ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَأَنَسٍ، قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَيُرْوَى مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ، أَنَّ أَبَا ذَرٍّ، قَالَ: لَوَدِدْتُ أَنِّي كُنْتُ شَجَرَةً تُعْضَدُ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ২৩১৩
گواہیوں کا بیان
نبی کا فرمان کہ اگر تم لوگ وہ کچھ جان لو جو کچھ میں جانتا ہوں توہنسنا کم کر دو
 ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا :  جو میں جانتا ہوں اگر تم لوگ جان لیتے تو ہنستے کم اور روتے زیادہ ۔    امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث صحیح ہے۔    تخریج دارالدعوہ :  تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٥٠٤٩) ، وانظر مسند احمد (٢/٢٥٧، ٣١٣) (صحیح  )    قال الشيخ الألباني :  صحيح فقه السيرة (479)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2313  
حدیث نمبر: 2313  حَدَّثَنَا أَبُو حَفْصٍ عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ الْفَلَّاسُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ الثَّقَفِيُّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:  لَوْ تَعْلَمُونَ مَا أَعْلَمُ لَضَحِكْتُمْ قَلِيلًا، وَلَبَكَيْتُمْ كَثِيرًا ، هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ২৩১৪
گواہیوں کا بیان
جو شخص لوگوں کو ہنسانے کے لئے کوئی بات
 ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا :  آدمی کبھی ایسی بات کہہ دیتا ہے جس میں وہ خود کوئی حرج نہیں سمجھتا حالانکہ اس کی وجہ سے وہ ستر برس تک جہنم کی آگ میں گرتا چلا جائے گا   ١ ؎۔    امام ترمذی کہتے ہیں : اس سند سے یہ حدیث حسن غریب ہے۔    تخریج دارالدعوہ :  صحیح البخاری/الرقاق ٢٣ (٦٤٧٧، ٦٤٧٨) ، صحیح مسلم/الزہد ٦ (٢٩٨٨) (تحفة الأشراف : ١٤٢٨٣) ، و مسند احمد (٢/٢٣٦، ٣٥٥، ٣٧٩) (حسن صحیح  )    وضاحت :  ١ ؎ : ایک شخص دوسروں کو ہنسانے کے لیے اور ان کی دلچسپی کی خاطر اپنی زبان سے اللہ کی ناراضگی کی بات کہتا ہے یا بناوٹی اور جھوٹی بات کہتا ہے ، اور کہنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتا کہ وہ باعث گناہ اور لائق سزا ہے حالانکہ وہ اپنی اس بات کے سبب جہنم کی سزا کا مستحق ہوتا ہے ، معلوم ہوا کہ دوسروں کو ہنسانے اور انہیں خوش کرنے کے لیے کوئی ایسی ہنسی کی بات نہیں کرنی چاہیئے جو گناہ کی بات ہو اور باعث عذاب ہو۔    قال الشيخ الألباني :  حسن صحيح، ابن ماجة (3970)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2314  
حدیث نمبر: 2314  حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عِيسَى بْنِ طَلْحَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:  إِنَّ الرَّجُلَ لَيَتَكَلَّمُ بِالْكَلِمَةِ لَا يَرَى بِهَا بَأْسًا يَهْوِي بِهَا سَبْعِينَ خَرِيفًا فِي النَّارِ ، قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.  

তাহকীক: