আল জামিউল কাবীর- ইমাম তিরমিযী রহঃ (উর্দু)
الجامع الكبير للترمذي
قیامت کا بیان - এর পরিচ্ছেদসমূহ
মোট হাদীস ২০ টি
হাদীস নং: ২৪১৫
قیامت کا بیان
حساب وقصاص کے متعلق
 عدی بن حاتم (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا :  تم میں سے کوئی ایسا نہیں ہے مگر اس کا رب اس سے قیامت کے روز کلام کرے گا اور دونوں کے درمیان کوئی ترجمان نہیں ہوگا، وہ شخص اپنے دائیں طرف دیکھے گا تو اسے سوائے اپنے عمل کے کوئی چیز دکھائی نہ دے گی، پھر بائیں جانب دیکھے گا تو اسے سوائے اپنے عمل کے کوئی چیز دکھائی نہ دے گی، پھر سامنے دیکھے گا تو اسے جہنم نظر آئے گی ، رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا :  تم میں سے جو جہنم کی گرمی سے اپنے چہرے کو بچانا چاہے تو اسے ایسا کرنا چاہیئے، اگرچہ کھجور کے ایک ٹکڑے ہی کے ذریعے کیوں نہ ہو   ١ ؎۔    امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔    تخریج دارالدعوہ :  صحیح البخاری/الرقاق ٤٩ (٦٥٣٩) ، والتوحید ٢٤ (٧٤٤٣) ، و ٣٦ (٧٥١٢) ، صحیح مسلم/الزکاة ٢٠ (١٠١٦) ، سنن ابن ماجہ/المقدمة ١٣ (١٨٥) ، والزکاة ٢٨ (١٨٤٣) (تحفة الأشراف : ٩٨٥٢) ، و مسند احمد (٤/٢٥٦) (صحیح)    وضاحت :  ١ ؎ : یعنی جہنم سے بچاؤ کا راستہ اختیار کرے ، اس لیے زیادہ سے زیادہ صدقہ و خیرات کرے ، اور نیک عمل کرتا رہے ، کیونکہ یہ جہنم سے بچاؤ اور نجات کا ذریعہ ہیں۔    قال الشيخ الألباني :  صحيح، ابن ماجة (185)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2415   ابوسائب کہتے ہیں کہ  ایک دن اس حدیث کو ہم سے وکیع نے اعمش کے واسطہ سے بیان کیا پھر جب وکیع یہ حدیث بیان کر کے فارغ ہوئے تو کہا : اہل خراسان میں سے جو بھی یہاں موجود ہوں انہیں چاہیئے کہ وہ اس حدیث کو خراسان میں بیان کر کے اور اسے پھیلا کر ثواب حاصل کریں۔    امام ترمذی کہتے ہیں کہ یہ بات انہوں نے اس لیے کہی کیونکہ جہمیہ اس حدیث کا انکار کرتے ہیں  ٢ ؎۔ ابوسائب کا نام سلمہ بن جنادہ بن سلم بن خالد بن جابر بن سمرہ کوفی ہے۔    تخریج دارالدعوہ :  تفرد بہ المؤلف (صحیح  )    وضاحت :  ٢ ؎ : جہمیہ اس حدیث کا انکار اس لیے کرتے ہیں کیونکہ اس میں کلام الٰہی کا اثبات ہے اور جہمیہ اس کے منکر ہیں۔    قال الشيخ الألباني :  صحيح، ابن ماجة (185)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2415  
حدیث نمبر: 2415  حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ خَيْثَمَةَ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:  مَا مِنْكُمْ مِنْ رَجُلٍ إِلَّا سَيُكَلِّمُهُ رَبُّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَيْسَ بَيْنَهُ وَبَيْنَهُ تُرْجُمَانٌ، فَيَنْظُرُ أَيْمَنَ مِنْهُ فَلَا يَرَى شَيْئًا إِلَّا شَيْئًا قَدَّمَهُ، ثُمَّ يَنْظُرُ أَشْأَمَ مِنْهُ فَلَا يَرَى شَيْئًا إِلَّا شَيْئًا قَدَّمَهُ، ثُمَّ يَنْظُرُ تِلْقَاءَ وَجْهِهِ فَتَسْتَقْبِلُهُ النَّارُ ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:  مَنِ اسْتَطَاعَ مِنْكُمْ أَنْ يَقِيَ وَجْهَهُ حَرَّ النَّارِ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَةٍ فَلْيَفْعَلْ ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.  حَدَّثَنَا أَبُو السَّائِبِ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ يَوْمًا بِهَذَا الْحَدِيثِ، عَنِ الْأَعْمَشِ، فَلَمَّا فَرَغَ وَكِيعٌ مِنْ هَذَا الْحَدِيثِ، قَالَ: مَنْ كَانَ هَا هُنَا مِنْ أَهْلِ خُرَاسَانَ فَلْيَحْتَسِبْ فِي إِظْهَارِ هَذَا الْحَدِيثِ بِخُرَاسَانَ، لِأَنَّ الْجَهْمِيَّةَ يُنْكِرُونَ هَذَا اسْمُ أَبِي السَّائِبِ سَلْمُ بْنُ جُنَادَةَ بْنِ سَلْمِ بْنِ خَالِدِ بْنِ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ الْكُوفِيُّ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ২৪১৬
قیامت کا بیان
حساب وقصاص کے متعلق
 عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ  نبی اکرم  ﷺ  نے فرمایا :  آدمی کا پاؤں قیامت کے دن اس کے رب کے پاس سے نہیں ہٹے گا یہاں تک کہ اس سے پانچ چیزوں کے بارے پوچھ لیا جائے : اس کی عمر کے بارے میں کہ اسے کہاں صرف کیا، اس کی جوانی کے بارے میں کہ اسے کہاں کھپایا، اس کے مال کے بارے میں کہ اسے کہاں سے کمایا اور کس چیز میں خرچ کیا اور اس کے علم کے سلسلے میں کہ اس پر کہاں تک عمل کیا   ١ ؎۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١ - یہ حدیث غریب ہے،  ٢ - اسے ہم «عن ابن مسعود عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» کی سند سے صرف حسین بن قیس ہی کی روایت سے جانتے ہیں اور حسین بن قیس اپنے حفظ کے قبیل سے ضعیف ہیں،  ٣ - اس باب میں ابوبرزہ اور ابو سعید خدری (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔    تخریج دارالدعوہ :  تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٩٣٤٦) (صحیح) (سند میں حسین بن قیس ضعیف ہے، لیکن شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے، دیکھیے : الصحیحة رقم : ٩٤٦  )    وضاحت :  ١ ؎ : اس حدیث کے مطابق جن چیزوں سے متعلق استفسار ہوگا ان میں سب سے پہلے اس زندگی کے بارے میں سوال ہوگا جس کا ایک ایک لمحہ بہت قیمتی ہے ، اس لیے اسے حیات مستعار سمجھتے ہوئے اللہ کی اطاعت و فرماں برداری میں گزارنا چاہیئے ، کیونکہ اس کا حساب دینا ہے ، جوانی میں انسان اپنے آپ کو محرمات سے بچائے ، اس میں کوتاہی کرنے کی صورت میں اللہ کی گرفت سے بچنا مشکل ہوگا ، اسی طرح مال کے سلسلہ میں اسے کماتے اور خرچ کرتے وقت دونوں صورتوں میں اللہ کا ڈر دامن گیر رہے ، علم کے مطابق عمل کی بابت سوال ہوگا ، اس سے معلوم ہوا کہ دین و شریعت کا علم حاصل کرے ، کیونکہ یہی اس کے لیے مفید اور نفع بخش ہے۔    قال الشيخ الألباني :  حسن، الصحيحة (946) ، التعليق الرغيب (1 / 76) ، الروض النضير (648)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2416  
حدیث نمبر: 2416  حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ، حَدَّثَنَا حُصَيْنُ بْنُ نُمَيْرٍ أَبُو مِحْصَنٍ، حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ قَيْسٍ الرَّحَبِيُّ، حَدَّثَنَا عَطَاءُ بْنُ أَبِي رَبَاحٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:  لَا تَزُولُ قَدَمَا ابْنِ آدَمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنْ عِنْدِ رَبِّهِ حَتَّى يُسْأَلَ عَنْ خَمْسٍ: عَنْ عُمُرِهِ فِيمَ أَفْنَاهُ، وَعَنْ شَبَابِهِ فِيمَ أَبْلَاهُ، وَمَالِهِ مِنْ أَيْنَ اكْتَسَبَهُ، وَفِيمَ أَنْفَقَهُ، وَمَاذَا عَمِلَ فِيمَا عَلِمَ ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ مَسْعُودٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ الْحُسَيْنِ بْنِ قَيْسٍ، وَحُسَيْنُ بْنُ قَيْسٍ يُضَعَّفُ فِي الْحَدِيثِ مِنْ قِبَلِ حِفْظِهِ، وفي الباب عن أَبِي بَرْزَةَ، وَأَبِي سَعِيدٍ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ২৪১৭
قیامت کا بیان
حساب وقصاص کے متعلق
 ابوبرزہ اسلمی کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا :  قیامت کے دن کسی بندے کے دونوں پاؤں نہیں ہٹیں گے یہاں تک کہ اس سے یہ نہ پوچھ لیا جائے : اس کی عمر کے بارے میں کہ اسے کن کاموں میں ختم کیا، اور اس کے علم کے بارے میں کہ اس پر کیا عمل کیا اور اس کے مال کے بارے میں کہ اسے کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا، اور اس کے جسم کے بارے میں کہ اسے کہاں کھپایا ۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے،  ٢ - سعید بن عبداللہ بن جریج بصریٰ ہیں اور وہ ابوبرزہ کے آزاد کردہ غلام ہیں، ابوبرزہ کا نام نضلہ بن عبید ہے۔    تخریج دارالدعوہ :  تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١١٥٩٧) (صحیح  )    قال الشيخ الألباني :  صحيح، الصحيحة (946) ، التعليق الرغيب (1 / 76) ، الروض النضير (648) ، تخريج اقتضاء العلم العمل (15 / 1)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2417  
حدیث نمبر: 2417  حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَخْبَرَنَا الْأَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ أَبِي بَرْزَةَ الْأَسْلَمِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:  لَا تَزُولُ قَدَمَا عَبْدٍ يَوْمَ الْقِيَامَةِ حَتَّى يُسْأَلَ عَنْ عُمُرِهِ فِيمَا أَفْنَاهُ، وَعَنْ عِلْمِهِ فِيمَ فَعَلَ، وَعَنْ مَالِهِ مِنْ أَيْنَ اكْتَسَبَهُ وَفِيمَ أَنْفَقَهُ، وَعَنْ جِسْمِهِ فِيمَ أَبْلَاهُ ، قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَسَعِيدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جُرَيْجٍ هُوَ بَصْرِيٌّ وَهُوَ مَوْلَى أَبِي بَرْزَةَ، وَأَبُو بَرْزَةَ اسْمُهُ: نَضْلَةُ بْنُ عُبَيْدٍ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ২৪১৮
قیامت کا بیان
حساب وقصاص کے متعلق
 ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے سوال کیا :  کیا تم لوگوں کو معلوم ہے کہ مفلس کسے کہتے ہیں ؟  صحابہ نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! ہمارے یہاں مفلس اسے کہتے ہیں جس کے پاس درہم و دینار اور ضروری سامان زندگی نہ ہو، رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا :  ہماری امت میں مفلس وہ شخص ہے جو قیامت کے دن روزہ، نماز اور زکاۃ کے ساتھ اس حال میں آئے گا کہ اس نے کسی کو گالی دی ہوگی، کسی پہ تہمت باندھی ہوگی، کسی کا مال کھایا ہوگا، کسی کا خون بہایا ہوگا، اور کسی کو مارا ہوگا، پھر اسے سب کے سامنے بٹھایا جائے گا اور بدلے میں اس کی نیکیاں مظلوموں کو دے دی جائیں گی، پھر اگر اس کے ظلموں کا بدلہ پورا ہونے سے پہلے اس کی نیکیاں ختم ہوجائیں گی تو مظلوموں کے گناہ لے کر اس پر رکھ دیے جائیں گے اور اسے جہنم میں ڈال دیا جائے گا   ١ ؎۔    امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔    تخریج دارالدعوہ :  صحیح مسلم/البر والصلة ١٥ (٢٥٨١) (تحفة الأشراف : ١٤٠٧٣) ، و مسند احمد (٢/٣٠٣، ٣٣٤، ٣٧٢) (صحیح  )    وضاحت :  ١ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جس کی ساری نیکیاں آخرت میں چھین لی جائیں ، اس سے بدلہ لینے والے باقی رہ جائیں ، اور اس کی نیکیاں ختم ہوجائیں ، یہی حقیقی مفلس ہے ، باقی وہ دنیاوی مفلس جو مال و دولت کی کمی کی وجہ سے مفلس و بےچارگی کی زندگی گزارتا ہے ، تو یہ ایسا ہے کہ اس کی زندگی کے سدھر نے کا امکان ہے ، اور اگر نہیں بھی سدھری تو اس کا یہ معاملہ اس کی موت تک ہے ، کیونکہ مرنے کے بعد اسے ایک نئی زندگی ملنے والی ہے۔    قال الشيخ الألباني :  صحيح، الصحيحة (845) ، أحكام الجنائز (4)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2418  
حدیث نمبر: 2418  حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:  أَتَدْرُونَ مَا الْمُفْلِسُ ؟  قَالُوا: الْمُفْلِسُ فِينَا يَا رَسُولَ اللَّهِ مَنْ لَا دِرْهَمَ لَهُ وَلَا مَتَاعَ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:  الْمُفْلِسُ مِنْ أُمَّتِي مَنْ يَأْتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِصَلَاتِهِ وَصِيَامِهِ وَزَكَاتِهِ، وَيَأْتِي قَدْ شَتَمَ هَذَا وَقَذَفَ هَذَا وَأَكَلَ مَالَ هَذَا وَسَفَكَ دَمَ هَذَا وَضَرَبَ هَذَا، فَيَقْعُدُ فَيَقْتَصُّ هَذَا مِنْ حَسَنَاتِهِ وَهَذَا مِنْ حَسَنَاتِهِ، فَإِنْ فَنِيَتْ حَسَنَاتُهُ قَبْلَ أَنْ يُقْتَصَّ مَا عَلَيْهِ مِنَ الْخَطَايَا أُخِذَ مِنْ خَطَايَاهُمْ فَطُرِحَ عَلَيْهِ ثُمَّ طُرِحَ فِي النَّارِ ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ২৪১৯
قیامت کا بیان
حساب وقصاص کے متعلق
 ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا :  اللہ تعالیٰ ایسے بندے پر رحم کرے جس کے پاس اس کے بھائی کا عزت یا مال میں کوئی بدلہ ہو، پھر وہ مرنے سے پہلے ہی اس کے پاس آ کے دنیا ہی میں اس سے معاف کرا لے کیونکہ قیامت کے روز نہ تو اس کے پاس دینار ہوگا اور نہ ہی درہم، پھر اگر ظالم کے پاس کچھ نیکیاں ہوں گی تو اس کی نیکیوں سے بدلہ لیا جائے گا اور اگر اس کے پاس نیکیاں بھی نہیں ہوں گی تو مظلوموں کے گناہ ظالم کے سر پر ڈال دیئے جائیں گے ۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١ - یہ حدیث سعید مقبری کی روایت سے حسن صحیح غریب ہے،  ٢ - مالک بن انس نے «عن سعيد المقبري عن أبي هريرة عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» کی سند سے اسی جیسی حدیث روایت کی ہے۔    تخریج دارالدعوہ :  تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٢٩٥٨) (صحیح) (الصحیحة ٣٢٦٥  )    قال الشيخ الألباني :  ضعيف - بهذا اللفظ -، والصحيح بلفظ :  من کانت عنده مظلمة لأخيه فليتحلله ... ، الضعيفة (3641) // ضعيف الجامع الصغير (3112) //   صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2419  
حدیث نمبر: 2419  حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، وَنَصْرُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْكُوفِيُّ، قَالَا: حَدَّثَنَا الْمُحَارِبِيُّ، عَنْ أَبِي خَالِدٍ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَبِي أُنَيْسَةَ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:  رَحِمَ اللَّهُ عَبْدًا كَانَتْ لِأَخِيهِ عِنْدَهُ مَظْلَمَةٌ فِي عِرْضٍ أَوْ مَالٍ فَجَاءَهُ فَاسْتَحَلَّهُ قَبْلَ أَنْ يُؤْخَذَ، وَلَيْسَ ثَمَّ دِينَارٌ وَلَا دِرْهَمٌ فَإِنْ كَانَتْ لَهُ حَسَنَاتٌ أُخِذَ مِنْ حَسَنَاتِهِ، وَإِنْ لَمْ تَكُنْ لَهُ حَسَنَاتٌ حَمَّلُوا عَلَيْهِ مِنْ سَيِّئَاتِهِمْ ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، وَقَدْ رَوَاهُ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ২৪২০
قیامت کا بیان
حساب وقصاص کے متعلق
 ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا :  (قیامت کے دن)  حقداروں کو ان کا پورا پورا حق دیا جائے گا، یہاں تک کہ سینگ والی بکری سے بغیر سینگ والی بکری کا بدلہ لیا جائے گا ۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١ - ابوہریرہ (رض) کی یہ حدیث حسن صحیح ہے،  ٢ - اس باب میں ابوذر اور عبداللہ بن انیس (رض) سے احادیث آئی ہیں۔    تخریج دارالدعوہ :  صحیح مسلم/البر والصلة ١٥ (٢٥٨٢) (تحفة الأشراف : ١٤٠٧٤) ، و مسند احمد (٢/٢٣٥، ٣٠١، ٣٢٣، ٤١١) (صحیح  )    قال الشيخ الألباني :  صحيح، الصحيحة (1588)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2420  
حدیث نمبر: 2420  حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:  لَتُؤَدُّنَّ الْحُقُوقُ إِلَى أَهْلِهَا حَتَّى يُقَادَ لِلشَّاةِ الْجَلْحَاءِ مِنَ الشَّاةِ الْقَرْنَاءِ ، وفي الباب عن أَبِي ذَرٍّ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ أُنَيْسٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَحَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ২৪২১
قیامت کا بیان
 مقداد (رض) کہتے ہیں کہ  میں نے رسول اللہ  ﷺ  کو یہ فرماتے ہوئے سنا :  قیامت کے دن سورج کو بندوں سے قریب کردیا جائے گا، یہاں تک کہ وہ ان سے ایک میل یا دو میل کے فاصلے پر ہوگا ۔ راوی سلیم بن عامر کہتے ہیں : مجھے نہیں معلوم کہ رسول اللہ  ﷺ  نے کون سی میل مراد لی ہے، (زمین کی مسافت یا آنکھ میں سرمہ لگانے کی سلائی) ،  پھر سورج انہیں پگھلا دے گا اور لوگ اپنے اعمال کے اعتبار سے پسینے میں ڈوبے ہوں گے، بعض ایڑیوں تک، بعض گھٹنے تک، بعض کمر تک اور بعض کا پسینہ منہ تک لگام کی مانند ہوگا  ١ ؎، مقداد (رض) کا بیان ہے : میں نے دیکھا کہ رسول اللہ  ﷺ  اپنے ہاتھ سے اپنے منہ کی طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ پسینہ لوگوں کے منہ تک پہنچ جائے گا جیسے کہ لگام لگی ہوتی ہے۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے،  ٢ - اس باب میں ابو سعید خدری اور عبداللہ بن عمر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔    تخریج دارالدعوہ :  صحیح مسلم/الجنة ١٥ (٢٨٦٤) (تحفة الأشراف : ١١٥٤٣) ، و مسند احمد (٦/٣) (صحیح  )    وضاحت :  ١ ؎ : سائنسی تحقیق کے مطابق سورج زمین سے نو کروڑ میل کے فاصلے پر ہے ، قیامت کے دن جب یہ صرف ایک میل کے فاصلہ پر ہوگا تو اس کی حرارت کا کیا عالم ہوگا ؟ یہ اللہ کے علاوہ کون زیادہ جان سکتا ہے ، انسان کا حال پسینے میں یہ ہوگا ، اللہ تعالیٰ ہم پر اپنا رحم فرمائے آمین۔    قال الشيخ الألباني :  صحيح، الصحيحة (1382)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2421  
حدیث نمبر: 2421  حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، أَخْبَرَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ، حَدَّثَنِي سُلَيْمُ بْنُ عَامِرٍ، حَدَّثَنَاالْمِقْدَادُ صَاحِبُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:  إِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ أُدْنِيَتِ الشَّمْسُ مِنَ الْعِبَادِ حَتَّى تَكُونَ قِيدَ مِيلٍ أَوِ اثْنَيْنِ ، قَالَ سُلَيْمٌ: لَا أَدْرِي أَيَّ الْمِيلَيْنِ عَنَى، أَمَسَافَة الْأَرْضِ، أَمِ الْمِيلُ الَّذِي تُكْتَحَلُ بِهِ الْعَيْنُ، قَالَ:  فَتَصْهَرُهُمُ الشَّمْسُ فَيَكُونُونَ فِي الْعَرَقِ بِقَدْرِ أَعْمَالِهِمْ، فَمِنْهُمْ مَنْ يَأْخُذُهُ إِلَى عَقِبَيْهِ، وَمِنْهُمْ مَنْ يَأْخُذُهُ إِلَى رُكْبَتَيْهِ، وَمِنْهُمْ مَنْ يَأْخُذُهُ إِلَى حِقْوَيْهِ، وَمِنْهُمْ مَنْ يُلْجِمُهُ إِلْجَامًا، فَرَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُشِيرُ بِيَدِهِ إِلَى فِيهِ أَيْ يُلْجِمُهُ إِلْجَامًا ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وفي الباب عن أَبِي سَعِيدٍ وَابْنِ عُمَرَ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ২৪২২
قیامت کا بیان
 عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ  نبی اکرم  ﷺ  نے اس آیت کریمہ کی تلاوت فرمائی : «يوم يقوم الناس لرب العالمين»  جس دن لوگ رب العالمین کے سامنے کھڑے ہوں گے   (المطففین :  ٦  ) ، اور کہا :  اس دن لوگ اللہ کے سامنے اس حال میں کھڑے ہوں گے کہ پسینہ ان کے آدھے کانوں تک ہوگا ۔    امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔    تخریج دارالدعوہ :  صحیح البخاری/الرقاق ٤٧ (٦٥٣١) ، وتفسیر المطففین (٤٩٣٨) ، صحیح مسلم/الجنة ١٥ (٢٨٦٢) ، سنن ابن ماجہ/الزہد ٣٣ (٤٢٧٨) ، ویأتي عند المؤلف في تفسیر المطففین (٣٣٣٥) (تحفة الأشراف : ٧٥٤٢) ، و مسند احمد (٢/١٢، ١٩، ٣١، ٦٤، ٧٠، ١٠٥، ١١٢، ١٢٥، ١٢٦) (صحیح  )    قال الشيخ الألباني :  صحيح، ابن ماجة (4278)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2422  
حدیث نمبر: 2422  حَدَّثَنَا أَبُو زَكَرِيَّا يَحْيَى بْنُ دُرُسْتَ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ حَمَّادٌ: وَهُوَ عِنْدَنَا مَرْفُوعٌ: يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ سورة المطففين آية 6، قَالَ:  يَقُومُونَ فِي الرَّشْحِ إِلَى أَنْصَافِ آذَانِهِمْ ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ২৪২৩
قیامت کا بیان
کیفیت حشر کے متعلق
 عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا :  قیامت کے دن لوگوں کا حشر اس حال میں ہوگا کہ وہ ننگے بدن، ننگے پیر اور ختنہ کے بغیر ہوں گے، پھر آپ نے اس آیت کریمہ کی تلاوت کی : «كما بدأنا أول خلق نعيده وعدا علينا إنا کنا فاعلين»  جیسے کہ ہم نے اول دفعہ پیدائش کی تھی اسی طرح دوبارہ کریں گے، یہ ہمارے ذمے وعدہ ہے، اور ہم اسے ضرور کر کے ہی رہیں گے   (الانبیاء :  ١٠٤  ) ، انسانوں میں سب سے پہلے ابراہیم (علیہ السلام) کو کپڑا پہنایا جائے گا، اور میری امت کے بعض لوگ دائیں اور بائیں طرف لے جائے جائیں گے تو میں کہوں گا : میرے رب ! یہ تو میرے امتی ہیں، تو کہا جائے گا آپ کو نہیں معلوم کہ ان لوگوں نے آپ کے بعد دین میں کیا نئی نئی باتیں نکالیں، اور جب سے آپ ان سے جدا ہوئے ہو یہ لوگ ہمیشہ دین سے پھرتے رہے ہیں  ١ ؎، تو اس وقت میں وہی کہوں گا جو  (اللہ کے)  نیک بندے عیسیٰ (علیہ السلام) نے کہی تھی : «إن تعذبهم فإنهم عبادک وإن تغفر لهم فإنك أنت العزيز الحکيم»  اگر تو انہیں عذاب دے تو یقیناً یہ تیرے بندے ہیں اور اگر انہیں تو بخش دے تو یقیناً تو غالب اور حکمت والا ہے   (المائدہ :  ١١٨  ) ۔    تخریج دارالدعوہ :  صحیح البخاری/أحادیث الأنبیاء ٨ (٣٣٤٩) ، و ٤٨ (٣٤٤٧) ، وتفسیر المائدة ١٤ (٤٦٢٥) ، ١٥ (٤٦٢٦) ، تفسیر الأنبیاء ٢ (٤٢٨٤٠) ، والرقاق ٤٥ (٦٥٢٤-٦٥٢٦) ، صحیح مسلم/الجنة ١٤ (٢٨٦٠) ، سنن النسائی/الجنائز ١١٨ (٢٠٨٣) ، و ١١٩ (٢٠٨٩) ، ویأتي عند المؤلف في تفسیر الأنبیاء (٣١٦٧) (تحفة الأشراف : ٥٦٢٢) ، و مسند احمد (١/٢٢٠، ٢٢٣، ٢٢٩، ٢٥٣، ٣٩٨) ، وسنن الدارمی/الرقاق ٨٢ (٢٨٤٤) (صحیح  )    وضاحت :  ١ ؎ : ابراہیم (علیہ السلام) کے کپڑے اللہ کے راستے میں سب سے پہلے اتارے گئے تھے ، اور انہیں آگ میں ڈالا گیا تھا ، اس لیے قیامت کے دن سب سے پہلے انہیں لباس پہنایا جائے گا ، اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر انسان کا ایمان و عمل درست نہ ہو تو وہ عذاب سے نہیں بچ سکتا اگرچہ وہ دینی اعتبار سے کسی عظیم ہستی کی صحبت میں رہا ہو ، کسی دوسری ہستی پر مغرور ہو کر عمل میں سستی کرنا اس سے بڑھ کر جہالت اور کیا ہوسکتی ہے ، بڑے بڑے مشائخ کے صحبت یافتہ اکثر و بیشتر اس مہلک مرض میں گرفتار ہیں ، اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دین میں نئی باتیں ایجاد کرنا اور اس پر عامل ہونا عظیم خسارے کا باعث ہے۔    قال الشيخ الألباني :  صحيح    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2423  
حدیث نمبر: 2423  حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ الزُّبَيْرِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ النُّعْمَانِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:  يُحْشَرُ النَّاسُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ حُفَاةً عُرَاةً غُرْلًا كَمَا خُلِقُوا، ثُمَّ قَرَأَ: كَمَا بَدَأْنَا أَوَّلَ خَلْقٍ نُعِيدُهُ وَعْدًا عَلَيْنَا إِنَّا كُنَّا فَاعِلِينَ سورة الأنبياء آية 104 وَأَوَّلُ مَنْ يُكْسَى مِنَ الْخَلَائِقِ إِبْرَاهِيمُ، وَيُؤْخَذُ مِنْ أَصْحَابِي بِرِجَالٍ ذَاتَ الْيَمِينِ وَذَاتَ الشِّمَالِ، فَأَقُولُ: يَا رَبِّ أَصْحَابِي، فَيُقَالُ: إِنَّكَ لَا تَدْرِي مَا أَحْدَثُوا بَعْدَكَ إِنَّهُمْ لَمْ يَزَالُوا مُرْتَدِّينَ عَلَى أَعْقَابِهِمْ مُنْذُ فَارَقْتَهُمْ، فَأَقُولُ كَمَا قَالَ الْعَبْدُ الصَّالِحُ: إِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُكَ وَإِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ فَإِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ سورة المائدة آية 118 .  

তাহকীক:
হাদীস নং: ২৪২৪
قیامت کا بیان
کیفیت حشر کے متعلق
 معاویہ بن حیدہ (رض) کہتے ہیں کہ  میں نے رسول اللہ  ﷺ  کو یہ فرماتے ہوئے سنا :  تم لوگ میدان حشر میں پیدل اور سوار لائے جاؤ گے اور اپنے چہروں کے بل گھسیٹے جاؤ گے ۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے،  ٢ - اس باب کے میں ابوہریرہ (رض) سے بھی روایت ہے۔    تخریج دارالدعوہ :  تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١١٣٩١) (صحیح  )    قال الشيخ الألباني :  صحيح فضائل الشام (13)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2424  
حدیث نمبر: 2424  حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا بَهْزُ بْنُ حَكِيمٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:  إِنَّكُمْ مَحْشُورُونَ رِجَالًا وَرُكْبَانًا وَتُجَرُّونَ عَلَى وُجُوهِكُمْ ، وفي الباب عن أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ২৪২৫
قیامت کا بیان
آخرت میں لوگوں کی پیشی
 ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا :  قیامت کے دن لوگوں کی تین پیشیاں ہوں گی، دو بار کی پیشی میں بحث و تکرار اور عذر و بہانے ہوں گے، اور تیسری بار ان لوگوں کے اعمال نامے ان کے ہاتھوں میں اڑ رہے ہوں گے، تو کوئی اسے اپنے داہنے ہاتھ میں پکڑے ہوگا اور کوئی بائیں ہاتھ میں ۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١ - یہ حدیث صحیح نہیں ہے، اس لیے کہ حسن کا سماع ابوہریرہ (رض) سے ثابت نہیں ہے،  ٢ - بعض لوگوں نے اس حدیث کو «عن علي الرفاعي عن الحسن عن أبي موسیٰ عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» کی سند سے روایت کیا ہے،  ٣ - یہ حدیث بھی صحیح نہیں ہے کیونکہ حسن کا سماع ابوموسیٰ اشعری سے بھی ثابت نہیں ہے۔    تخریج دارالدعوہ :  تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٢٢٥٠) (ضعیف) (حسن بصری کا سماع ابوہریرہ (رض) سے ثابت نہیں ہے  )    قال الشيخ الألباني :  ضعيف، ابن ماجة (4277) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (932) عن أبي موسی، وانظر شرح العقيدة الطحاوية - طبع المکتب الإسلامي - (556) ، المشکاة (5557 و 5558) ، ضعيف الجامع الصغير (6432) //   صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2425  
حدیث نمبر: 2425  حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ عَلِيٍّ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:  يُعْرَضُ النَّاسُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ثَلَاثَ عَرْضَاتٍ، فَأَمَّا عَرْضَتَانِ فَجِدَالٌ وَمَعَاذِيرُ، وَأَمَّا الْعَرْضَةُ الثَّالِثَةُ فَعِنْدَ ذَلِكَ تَطِيرُ الصُّحُفُ فِي الْأَيْدِي، فَآخِذٌ بِيَمِينِهِ، وَآخِذٌ بِشِمَالِهِ ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَلَا يَصِحُّ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ قِبَلِ أَنَّ الْحَسَنَ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَقَدْ رَوَاهُ بَعْضُهُمْ عَنْ عَلِيٍّ الرِّفَاعِيِّ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ أَبِي مُوسَى، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَلَا يَصِحُّ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ قِبَلِ أَنَّ الْحَسَنَ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ أَبِي مُوسَى.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ২৪২৬
قیامت کا بیان
اسی کے متعلق
 ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  کو فرماتے ہوئے سنا کہ جس سے حساب و کتاب میں سختی سے پوچھ تاچھ ہوگئی وہ ہلاک ہوجائے گا۔ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! اللہ تعالیٰ فرماتا ہے «فأما من أوتي کتابه بيمينه فسوف يحاسب حسابا يسيرا» :  جس شخص کو نامہ اعمال اس کے دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا تو اس سے آسان حساب لیا جائے گا   (الانشقاق :  ٧  ) ۔ آپ نے فرمایا :  اس سے مراد صرف اعمال کی پیشی ہے ۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١ - یہ حدیث صحیح حسن ہے،  ٢ - ایوب نے بھی ابن ابی ملیکہ سے اس حدیث کی روایت کی ہے۔    تخریج دارالدعوہ :  صحیح البخاری/العلم ٣٦ (١٠٣) ، وتفسیر سورة الانشقاق (٤٩٣٩) ، والرقاق ٤٩ (٦٥٣٦) ، صحیح مسلم/الجنة ١٨ (٢٨٧٦) ، ویأتي عند المؤلف في تفسیر الانشقاق (٣٣٣٧) (تحفة الأشراف : ١٦٢٥٤) ، و مسند احمد (٦/٤٨) (صحیح  )    قال الشيخ الألباني :  صحيح ظلال الجنة (885)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2426  
حدیث نمبر: 2426  حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، أَخْبَرَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ الْأَسْوَدِ، عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:  مَنْ نُوقِشَ الْحِسَابَ هَلَكَ ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى يَقُولُ: فَأَمَّا مَنْ أُوتِيَ كِتَابَهُ بِيَمِينِهِ  7  فَسَوْفَ يُحَاسَبُ حِسَابًا يَسِيرًا  8  سورة الانشقاق آية 7-8 قَالَ:  ذَلِكَ الْعَرْضُ ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ حَسَنٌ، وَرَوَاهُ أَيُّوبُ أَيْضًا عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ২৪২৭
قیامت کا بیان
اسی سے متعلق
 انس (رض) سے روایت ہے کہ  نبی اکرم  ﷺ  نے فرمایا :  ابن آدم کو قیامت کے روز بھیڑ کے بچے کی شکل میں اللہ تبارک و تعالیٰ کے حضور پیش کیا جائے گا، اللہ تعالیٰ اس سے پوچھے گا : میں نے تجھے مال و اسباب سے نواز دے، اور تجھ پر انعام کیا اس میں تو نے کیا عمل کیا ؟ وہ کہے گا اے میرے رب ! میں نے بہت سارا مال جمع کیا اور اسے بڑھایا اور دنیا میں اسے پہلے سے زیادہ ہی چھوڑ کر آیا، سو مجھے دنیا میں دوبارہ بھیج ! تاکہ میں ان سب کو لے آؤں، اللہ تعالیٰ فرمائے گا، جو کچھ تو نے عمل خیر کیا ہے اسے دکھا، وہ کہے گا : اے میرے رب ! میں نے بہت سارا مال جمع کیا، اسے بڑھایا اور دنیا میں پہلے سے زیادہ ہی چھوڑ کر آیا، مجھے دوبارہ بھیج تاکہ میں اسے لے آؤں، یہ اس بندے کا حال ہوگا جس نے خیر اور بھلائی کی راہ میں کوئی مال خرچ نہیں کیا ہوگا، چناچہ اسے اللہ کے حکم کے مطابق جہنم میں ڈال دیا جائے گا ۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١ - اس حدیث کی روایت کئی لوگوں نے حسن بصری سے کی ہے، اور کہا ہے کہ یہ ان کا قول ہے، اسے مرفوع نہیں کیا،  ٢ - اسماعیل بن مسلم ضعیف ہیں، ان کے حفظ کے تعلق سے کلام کیا گیا ہے،  ٣ - اس باب میں ابوہریرہ اور ابو سعید خدری (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔    تخریج دارالدعوہ :  تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٥٣١، و ١١٤١) (ضعیف) (سند میں اسماعیل بن مسلم بصری ضعیف راوی ہیں  )    قال الشيخ الألباني :  ضعيف، التعليق الرغيب (3 / 11) // ضعيف الجامع الصغير (6413) //   صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2427  
حدیث نمبر: 2427  حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، أَخْبَرَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ، أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ مُسْلِمٍ، عَنِ الْحَسَنِ، وَقَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:  يُجَاءُ بِابْنِ آدَمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ كَأَنَّهُ بَذَجٌ، فَيُوقَفُ بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ، فَيَقُولُ اللَّهُ لَهُ: أَعْطَيْتُكَ وَخَوَّلْتُكَ وَأَنْعَمْتُ عَلَيْكَ، فَمَاذَا صَنَعْتَ ؟ فَيَقُولُ: يَا رَبِّ جَمَعْتُهُ وَثَمَّرْتُهُ فَتَرَكْتُهُ أَكْثَرَ مَا كَانَ فَارْجِعْنِي آتِكَ بِهِ، فَيَقُولُ لَهُ: أَرِنِي مَا قَدَّمْتَ، فَيَقُولُ: يَا رَبِّ جَمَعْتُهُ وَثَمَّرْتُهُ فَتَرَكْتُهُ أَكْثَرَ مَا كَانَ فَارْجِعْنِي آتِكَ بِهِ كُلِّهِ، فَإِذَا عَبْدٌ لَمْ يُقَدِّمْ خَيْرًا فَيُمْضَى بِهِ إِلَى النَّارِ ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَقَدَ رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ غَيْرُ وَاحِدٍ عَنِ الْحَسَنِ قَوْلَهُ وَلَمْ يُسْنِدُوهُ، وَإِسْمَاعِيل بْنُ مُسْلِمٍ يُضَعَّفُ فِي الْحَدِيثِ مِنْ قِبَلِ حِفْظِهِ، وفي الباب عن أَبِي هُرَيْرَةَ، وَأَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ২৪২৮
قیامت کا بیان
اسی سے متعلق
 ابوہریرہ اور ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا :  قیامت کے دن ایک بندے کو لایا جائے گا، باری تعالیٰ اس سے فرمائے گا : کیا میں نے تجھے کان، آنکھ مال اور اولاد سے نہیں نوازا تھا ؟ اور چوپایوں اور کھیتی کو تیرے تابع کردیا تھا، اور قوم کا تجھے سردار بنادیا تھا جن سے بھرپور خدمت لیا کرتا تھا، پھر کیا تجھے یہ خیال بھی تھا کہ تو آج کے دن مجھ سے ملاقات کرے گا ؟ وہ عرض کرے گا : نہیں، اللہ تعالیٰ فرمائے گا : آج میں بھی تجھے بھول جاتا ہوں جیسے تو مجھے دنیا میں بھول گیا تھا   ١ ؎۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١ - یہ حدیث صحیح غریب ہے،  ٢ - اللہ تعالیٰ کے فرمان : «اليوم أنساک» کا مطلب یہ ہے کہ آج کے دن میں تجھے عذاب میں ویسے ہی چھوڑ دوں گا جیسے بھولی چیز پڑی رہتی ہے۔ بعض اہل علم نے اسی طرح سے اس کی تفسیر کی ہے،  ٣ - بعض اہل علم آیت کریمہ «فاليوم ننساهم» کی یہ تفسیر کی ہے کہ آج کے دن ہم تمہیں عذاب میں بھولی ہوئی چیز کی طرح چھوڑ دیں گے۔    تخریج دارالدعوہ :  تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٤٠١٣، ١٢٤٥٦) (صحیح  )    وضاحت :  ١ ؎ : مراد یہ ہے جب تجھے دنیا میں میری یاد نہ رہی تو میں تجھے کیسے یاد رکھوں گا ، اس لیے تو آج سے ہمیشہ ہمیش کے لیے جہنم کی عذاب میں پڑا رہے گا۔    قال الشيخ الألباني :  صحيح ظلال الجنة (632)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2428  
حدیث نمبر: 2428  حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ الزُّهْرِيُّ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ سُعَيْرٍ أَبُو مُحَمَّدٍ التَّمِيمِيُّ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَعَنْ أَبِي سَعِيدٍ، قَالَا: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:  يُؤْتَى بِالْعَبْدِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، فَيَقُولُ اللَّهُ لَهُ: أَلَمْ أَجْعَلْ لَكَ سَمْعًا وَبَصَرًا وَمَالًا وَوَلَدًا وَسَخَّرْتُ لَكَ الْأَنْعَامَ وَالْحَرْثَ وَتَرَكْتُكَ تَرْأَسُ وَتَرْبَعُ، فَكُنْتَ تَظُنُّ أَنَّكَ مُلَاقِي يَوْمَكَ هَذَا ؟ قَالَ: فَيَقُولُ: لَا، فَيَقُولُ لَهُ: الْيَوْمَ أَنْسَاكَ كَمَا نَسِيتَنِي ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ، وَمَعْنَى قَوْلِهِ الْيَوْمَ أَنْسَاكَ، يَقُولُ: الْيَوْمَ أَتْرُكُكَ فِي الْعَذَابِ هَكَذَا فَسَّرُوهُ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَقَدْ فَسَّرَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ هَذِهِ الْآيَةَ فَالْيَوْمَ نَنْسَاهُمْ سورة الأعراف آية 51، قَالُوا: إِنَّمَا مَعْنَاهُ الْيَوْمَ نَتْرُكُهُمْ فِي الْعَذَابِ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ২৪২৯
قیامت کا بیان
اسی کے متعلق
 ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے آیت کریمہ : «يومئذ تحدث أخبارها» کی تلاوت کی اور فرمایا :  کیا تم لوگوں کو معلوم ہے کہ اس کی خبریں کیا ہوں گی ؟  صحابہ نے عرض کیا : اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں، آپ نے فرمایا :  اس کی خبریں یہ ہیں کہ وہ ہر مرد اور عورت کے خلاف گواہی دے گی، جو کام بھی انہوں نے زمین پر کیا ہوگا، وہ کہے گی کہ اس نے فلاں فلاں دن ایسا ایسا کام کیا ، آپ نے فرمایا :  یہی اس کی خبریں ہیں ۔    امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے۔    تخریج دارالدعوہ :  تفرد بہ المؤلف و أعادہ في تفسیر إذا زلزلت (٣٣٥٣) (تحفة الأشراف : ١٣٠٧٦) (ضعیف الإسناد) (سند میں یحییٰ بن ابی سلیمان لین الحدیث راوی ہیں  )    قال الشيخ الألباني :  ضعيف الإسناد // وسيأتي (664 / 3591) //   صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2429  
حدیث نمبر: 2429  حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي أَيُّوبَ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ، عَنْسَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَرَأَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَوْمَئِذٍ تُحَدِّثُ أَخْبَارَهَا سورة الزلزلة آية 4، قَالَ: أَتَدْرُونَ مَا أَخْبَارُهَا ؟ ، قَالُوا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ:  فَإِنَّ أَخْبَارَهَا: أَنْ تَشْهَدَ عَلَى كُلِّ عَبْدٍ أَوْ أَمَةٍ بِمَا عَمِلَ عَلَى ظَهْرِهَا، أَنْ تَقُولَ عَمِلَ كَذَا وَكَذَا يَوْمَ كَذَا وَكَذَا، قَالَ: فَهَذِهِ أَخْبَارُهَا ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ২৪৩০
قیامت کا بیان
صور کے متعلق
 عبداللہ بن عمرو بن عاص (رض) کہتے ہیں کہ  ایک اعرابی  (دیہاتی)  نے نبی اکرم  ﷺ  کی خدمت میں آ کر عرض کیا : «صور» کیا چیز ہے ؟ آپ نے فرمایا :  ایک سنکھ ہے جس میں پھونک ماری جائے گی ۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١ - یہ حدیث حسن ہے،  ٢ - کئی لوگوں نے سلیمان تیمی سے اس حدیث کی روایت کی ہے، اسے ہم صرف سلیمان تیمی کی روایت سے جانتے ہیں۔    تخریج دارالدعوہ :  سنن ابی داود/ السنة ٢٤ (٤٧٤٢) (تحفة الأشراف : ٨٦٠٨) ، و مسند احمد (٢/١٦٢، ١٩٢) ، وسنن الدارمی/الرقاق ٧٩ (٢٨٤٠) ، ویأتي عند المؤلف في تفسیر سورة القیامة (٣٣٣٩) (صحیح  )    قال الشيخ الألباني :  صحيح، الصحيحة (1080)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2430  
حدیث نمبر: 2430  حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ التَّيْمِيُّ، عَنْ أَسْلَمَ الْعِجْلِيِّ، عَنْ بِشْرِ بْنِ شَغَافٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، قَالَ: جَاءَ أَعْرَابِيٌّ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَا الصُّورُ ؟ قَالَ:  قَرْنٌ يُنْفَخُ فِيهِ ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَقَدْ رَوَى غَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ، وَلَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِهِ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ২৪৩১
قیامت کا بیان
صور کے متعلق
 ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا :  میں کیسے آرام کروں جب کہ صور والے اسرافیل (علیہ السلام) «صور» کو منہ میں لیے ہوئے اس حکم پر کان لگائے ہوئے ہیں کہ کب پھونکنے کا حکم صادر ہو اور اس میں پھونک ماری جائے، گویا یہ امر صحابہ کرام (رض) پر سخت گزرا، تو آپ نے فرمایا :  کہو : «حسبنا اللہ ونعم الوکيل علی اللہ توکلنا» یعنی  اللہ ہمارے لیے کافی ہے کیا ہی اچھا کار ساز ہے وہ اللہ ہی پر ہم نے توکل کیا ۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١ - یہ حدیث حسن ہے،  ٢ - یہ حدیث عطیہ سے کئی سندوں سے ابو سعید خدری کے واسطہ سے نبی اکرم  ﷺ  سے اسی طرح مروی ہے۔    تخریج دارالدعوہ :  تفرد بہ المؤلف، وأعادہ في تفسیر سورة الزمر (٣٢٤٣) (تحفة الأشراف : ٤١٩٥) ، و مسند احمد (٣/٧، ٧٣) (صحیح) (سند میں عطیہ عوفی ضعیف راوی ہیں، لیکن متابعات و شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے، تفصیل کے لیے دیکھیے : الصحیحہ رقم : ١٠٧٩  )    قال الشيخ الألباني :  صحيح، الصحيحة (2079)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2431  
حدیث نمبر: 2431  حَدَّثَنَا سُوَيْدٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا خَالِدٌ أَبُو الْعَلَاءِ، عَنْ عَطِيَّةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:  كَيْفَ أَنْعَمُ وَصَاحِبُ الْقَرْنِ قَدِ الْتَقَمَ الْقَرْنَ وَاسْتَمَعَ الْإِذْنَ مَتَى يُؤْمَرُ بِالنَّفْخِ فَيَنْفُخُ ، فَكَأَنَّ ذَلِكَ ثَقُلَ عَلَى أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لَهُمْ: قُولُوا:  حَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ عَلَى اللَّهِ تَوَكَّلْنَا ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ عَطِيَّةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ২৪৩২
قیامت کا بیان
پل صراط کے متعلق
 مغیرہ بن شعبہ (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا :  پل صراط پر مومن کا شعار یہ ہوگا : «رب سلم سلم» میرے رب ! مجھے سلامت رکھ، مجھے سلامت رکھ ۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١ - یہ حدیث مغیرہ بن شعبہ کی روایت سے غریب ہے، اسے ہم صرف عبدالرحمٰن بن اسحاق  (واسطی ہی)  کی روایت سے جانتے ہیں،  ٢ - اس باب میں ابوہریرہ (رض) سے بھی روایت ہے۔    تخریج دارالدعوہ :  تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١١٥٣٣) (ضعیف) (سند میں نعمان بن سعد لین الحدیث ہیں اور عبد الرحمن بن اسحاق واسطی ضعیف  )    قال الشيخ الألباني :  ضعيف، الضعيفة (1973) // ضعيف الجامع الصغير (3398) //   صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2432  
حدیث نمبر: 2432  حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ إِسْحَاق، عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:  شِعَارُ الْمُؤْمِنِ عَلَى الصِّرَاطِ رَبِّ سَلِّمْ سَلِّمْ ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ إِسْحَاق، وَفِي الْبَابِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ২৪৩৩
قیامت کا بیان
پل صراط کے متعلق
 انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ  میں نے نبی اکرم  ﷺ  سے درخواست کی کہ آپ قیامت کے دن میرے لیے شفاعت فرمائیں، آپ نے فرمایا : ضرور کروں گا ۔ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میں آپ کو کہاں تلاش کروں گا ؟ آپ نے فرمایا :  سب سے پہلے مجھے پل صراط پر ڈھونڈنا ، میں نے عرض کیا : اگر پل صراط پر آپ سے ملاقات نہ ہو سکے، تو فرمایا :  تو اس کے بعد میزان کے پاس ڈھونڈنا ، میں نے کہا : اگر میزان کے پاس بھی ملاقات نہ ہو سکے تو ؟ فرمایا : اس کے بعد حوض کوثر پر ڈھونڈنا، اس لیے کہ میں ان تین جگہوں میں سے کسی جگہ پر ضرور ملوں گا ۔    امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے۔ اسے ہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔    تخریج دارالدعوہ :  تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٦٢٤) (صحیح  )    قال الشيخ الألباني :  صحيح، المشکاة (5595) ، التعليق الرغيب (4 / 211)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2433  
حدیث نمبر: 2433  حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الصَّبَّاحِ الْهَاشِمِيُّ، حَدَّثَنَا بَدَلُ بْنُ الْمُحَبَّرِ، حَدَّثَنَا حَرْبُ بْنُ مَيْمُونٍ الْأَنْصَارِيُّ أَبُو الْخَطَّابِ، حَدَّثَنَا النَّضْرُ بْنُ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: سَأَلْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنْ يَشْفَعَ لِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ، فَقَالَ:  أَنَا فَاعِلٌ  قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَأَيْنَ أَطْلُبُكَ، قَالَ:  اطْلُبْنِي أَوَّلَ مَا تَطْلُبُنِي عَلَى الصِّرَاطِ ، قَالَ: قُلْتُ: فَإِنْ لَمْ أَلْقَكَ عَلَى الصِّرَاطِ ؟ قَالَ:  فَاطْلُبْنِي عِنْدَ الْمِيزَانِ ، قُلْتُ: فَإِنْ لَمْ أَلْقَكَ عِنْدَ الْمِيزَانِ ؟ قَالَ:  فَاطْلُبْنِي عِنْدَ الْحَوْضِ فَإِنِّي لَا أُخْطِئُ هَذِهِ الثَّلَاثَ الْمَوَاطِنَ ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ২৪৩৪
قیامت کا بیان
شفاعت کے بارے میں
 ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  کی خدمت میں گوشت پیش کیا گیا، اس میں سے آپ کو دست کا گوشت دیا گیا جو کہ آپ کو بہت پسند تھا، اسے آپ نے نوچ نوچ کر کھایا، پھر فرمایا :  قیامت کے دن میں لوگوں کا سردار رہوں گا، کیا تم لوگوں کو اس کی وجہ معلوم ہے ؟ وہ اس لیے کہ اس دن اللہ تعالیٰ ایک ہموار کشادہ زمین پر اگلے پچھلے تمام لوگوں کو جمع کرے گا، جنہیں ایک پکارنے والا آواز دے گا اور انہیں ہر نگاہ والا دیکھ سکے گا، سورج ان سے بالکل قریب ہوگا جس سے لوگوں کا غم و کرب اس قدر بڑھ جائے گا جس کی نہ وہ طاقت رکھیں گے اور نہ ہی اسے برداشت کرسکیں گے، لوگ ایک دوسرے سے کہیں گے : کیا نہیں دیکھتے کہ تمہاری مصیبت کہاں تک پہنچ گئی ہے، ایسے شخص کو کیوں نہیں دیکھتے جو تمہارے رب سے تمہارے لیے شفاعت کرے، تو بعض لوگ بعض سے کہیں گے کہ آدم (علیہ السلام) کے پاس چلیں، لہٰذا لوگ آدم (علیہ السلام) کے پاس آ کر عرض کریں گے کہ آپ ابوالبشر ہیں، اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے ہاتھ سے پیدا کیا، آپ کے اندر اپنی روح پھونکی، فرشتوں کو حکم دیا جنہوں نے آپ کا سجدہ کیا، لہٰذا آپ ہمارے لیے اپنے رب سے شفاعت کر دیجئیے۔ کیا آپ ہماری حالت زار کو نہیں دیکھ رہے ہیں کہ ہمیں کتنی مصیبت لاحق ہے ؟ آدم (علیہ السلام) ان سے کہیں گے کہ آج میرا رب ایسا غضبناک ہے کہ اس سے پہلے نہ تو ایسا غصہ ہوا اور نہ کبھی ایسا غصہ ہوگا، یقیناً اس نے مجھے ایک درخت سے منع فرمایا تھا، لیکن میں نے اس کی نافرمانی کی، آج میری ذات کا معاملہ ہے، نفسا نفسی کا عالم ہے، تم لوگ کسی اور کے پاس جاؤ، نوح کے پاس جاؤ، چناچہ وہ لوگ نوح (علیہ السلام) کے پاس آ کر عرض کریں گے، اے نوح ! آپ زمین والوں کی طرف بھیجے گئے، پہلے رسول تھے، اللہ نے آپ کو شکر گزار بندہ کہا ہے، لہٰذا آپ ہمارے لیے اپنے رب سے شفاعت کر دیجئیے، کیا آپ ہماری حالت زار کو نہیں دیکھ رہے ہیں کہ ہمیں کتنی مصیبت لاحق ہے، نوح (علیہ السلام) ان لوگوں سے فرمائیں گے کہ آج میرا رب ایسا غضبناک ہے کہ نہ تو اس سے پہلے ایسا غصہ ہوا اور نہ کبھی ایسا غصہ ہوگا، میرے لیے ایک مقبول دعا تھی جسے میں نے اپنی قوم کی ہلاکت کے لیے استعمال کرلیا، اور آج میری ذات کا معاملہ ہے، نفسی نفسی نفسی، تم لوگ کسی اور کے پاس جاؤ، ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس جاؤ، چناچہ وہ لوگ ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس آ کر عرض کریں گے : اے ابراہیم ! آپ زمین والوں میں سے اللہ کے نبی اور اس کے خلیل  (یعنی گہرے دوست)  ہیں، لہٰذا آپ ہمارے لیے اپنے رب سے شفاعت کر دیجئیے، کیا آپ ہماری حالت زار کو نہیں دیکھ رہے ہیں ؟ وہ فرمائیں گے کہ آج کے دن میرا رب اتنا غضبناک ہے کہ اس سے پہلے نہ تو ایسا غصہ ہوا اور نہ کبھی ایسا غصہ ہوگا، اور میں دنیا کے اندر تین جھوٹ بول چکا ہوں  (ابوحیان نے اپنی روایت میں ان تینوں جھوٹ کا ذکر کیا ہے)  آج میری ذات کا معاملہ ہے، نفسی نفسی نفسی، تم لوگ کسی اور کے پاس جاؤ، موسیٰ کے پاس جاؤ، چناچہ وہ لوگ موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آ کر عرض کریں گے کہ اے موسیٰ ! آپ اللہ کے رسول ہیں، اللہ نے آپ کو اپنی رسالت اور اپنے کلام کے ذریعے تمام لوگوں پر فضیلت عطا کی ہے، لہٰذا آپ ہمارے لیے اپنے رب سے شفاعت کر دیجئیے، کیا آپ ہماری حالت زار کو نہیں دیکھ رہے ہیں ؟ وہ فرمائیں گے کہ آج کے دن میرا رب اتنا غضبناک ہے کہ اس سے پہلے نہ تو ایسا غصہ ہوا اور نہ کبھی ایسا غصہ ہوگا، دنیا کے اندر میں نے ایک شخص کو مار ڈالا تھا جسے مارنے کا مجھے حکم نہیں دیا گیا تھا، آج مجھے اپنی جان کی فکر ہے، نفسی نفسی نفسی، تم لوگ کسی اور کے پاس جاؤ، عیسیٰ کے پاس جاؤ، چناچہ وہ لوگ عیسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آ کر عرض کریں گے : اے عیسیٰ ! آپ اللہ کے رسول، اور اس کا کلمہ ہیں جسے اس نے مریم (علیہا السلام) کی طرف ڈالا آپ اللہ کی روح ہیں، آپ نے لوگوں سے گود ہی میں کلام کیا، لہٰذا آپ ہمارے لیے اپنے رب سے شفاعت کر دیجئیے، کیا آپ ہماری حالت زار کو نہیں دیکھ رہے ہیں۔ عیسیٰ (علیہ السلام) فرمائیں گے : آج کے دن میرا رب اتنا غضبناک ہے کہ اس سے پہلے نہ تو ایسا غصہ ہوا اور نہ کبھی ایسا غصہ ہوگا، اور انہوں نے اپنی کسی غلطی کا ذکر نہیں کیا اور کہا کہ آج تو میری ذات کا معاملہ ہے، نفسی نفسی نفسی، تم لوگ کسی اور کے پاس جاؤ، محمد  ﷺ  کے پاس جاؤ، ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں : چناچہ وہ لوگ محمد  ﷺ  کے پاس آ کر عرض کریں گے : اے محمد ! آپ اللہ کے رسول اور اس کے آخری نبی ہیں، آپ کے اگلے اور پچھلے تمام گناہ معاف کردیئے گئے ہیں، لہٰذا آپ ہمارے لیے اپنے رب سے شفاعت کیجئے، کیا آپ ہماری حالت زار کو نہیں دیکھ رہے ہیں،  (آگے رسول اللہ  ﷺ  فرماتے ہیں)   پھر میں چل پڑوں گا اور عرش کے نیچے آ کر اپنے رب کی تعظیم کے لیے سجدے میں گر جاؤں گا، پھر اللہ تعالیٰ میرے اوپر اپنے محامد اور حسن ثناء کو اس قدر کھول دے گا کہ مجھ سے پہلے اتنا کسی پر نہیں کھولا ہوگا، پھر مجھ سے کہا جائے گا کہ اے محمد ! اپنے سر کو اٹھاؤ اور سوال کرو، اسے پورا کیا جائے گا، اور شفاعت کرو، تمہاری شفاعت قبول کی جائے گی، چناچہ میں اپنا سر اٹھاؤں گا اور کہوں گا : اے میرے رب ! میں اپنی امت کی نجات و فلاح مانگتا ہوں، اے میرے رب میں اپنی امت کی نجات و فلاح مانگتا ہوں، اے میرے رب ! میں اپنی امت کی نجات و فلاح مانگتا ہوں، اللہ تعالیٰ فرمائے گا : اے محمد ! اپنی امت میں سے ان لوگوں کو جنت کے دروازوں میں سے داہنے دروازے سے داخل کرلیں، جن پر کوئی حساب و کتاب نہیں ہے، اور یہ سب  (امت محمد)  دیگر دروازوں میں بھی  (داخل ہونے میں)  اور لوگوں کے ساتھ شریک ہوں گے ، پھر آپ  ﷺ  نے فرمایا :  قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! جنت کے پٹوں میں سے دو پٹ کے درمیان کا فاصلہ اتنا ہی ہے جتنا کہ مکہ اور ہجر یا مکہ اور بصریٰ کے درمیان فاصلہ ہے   ١ ؎۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے،  ٢ - اس باب میں ابوبکر صدیق، انس، عقبہ بن عامر اور ابو سعید خدری (رض) سے احادیث آئی ہیں۔    تخریج دارالدعوہ :  صحیح البخاری/أحادیث الأنبیاء ٣ (٣٣٤٠) ، و ٩ (٣٣٦١) ، وتفسیر سورة الإسراء ٥ (٤٧١٢) ، صحیح مسلم/الإیمان ٨٤ (١٩٤) ، سنن ابن ماجہ/الأطعمة ٢٨ (٣٣٠٧) (وتقدیم مفصلا برقم ١٨٣٧) (تحفة الأشراف : ١٤٩٢٧) (صحیح  )    وضاحت :  ١ ؎ : اس حدیث میں نبی اکرم  ﷺ  کی اس شفاعت کا بیان ہے جب سارے انبیاء اپنی اپنی بعض لغزشوں کے حوالے سے شفاعت کرنے سے معذرت کریں گے ، چونکہ انبیاء (علیہم السلام) ایمان و تقویٰ کے بلند مرتبے پر فائز ہوتے ہیں ، اس لیے ان کی معمولی غلطی بھی انہیں بڑی غلطی محسوس ہوتی ہے ، اسی وجہ سے وہ بارگاہ الٰہی میں پیش ہونے سے معذرت کریں گے ، لیکن نبی اکرم  ﷺ  اللہ کے حکم سے سفارش فرمائیں گے ، اس سے آپ  ﷺ  کی فضیلت ثابت ہوتی ہے ، آپ کی شفاعت مختلف مرحلوں میں ہوگی ، آپ اپنی امت کے حق میں شفاعت فرمائیں گے ، جو مختلف مرحلوں میں ہوگی ، اس حدیث میں پہلے مرحلہ کا ذکر ہے ، جس میں آپ کی شفاعت پر اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو جنت میں لے جانے کی اجازت دے گا جن پر حساب نہیں ہوگا۔    قال الشيخ الألباني :  صحيح تخريج الطحاوية (198) ، ظلال الجنة (811)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2434  
حدیث نمبر: 2434  أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، أَخْبَرَنَا أَبُو حَيَّانَ التَّيْمِيُّ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ بْنِ عَمْرِو بْنِ جَرِيرٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: أُتِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِلَحْمٍ فَرُفِعَ إِلَيْهِ الذِّرَاعُ فَأَكَلَهُ، وَكَانَتْ تُعْجِبُهُ فَنَهَسَ مِنْهَا نَهْسَةً، ثُمَّ قَالَ:  أَنَا سَيِّدُ النَّاسِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، هَلْ تَدْرُونَ لِمَ ذَاكَ ؟ يَجْمَعُ اللَّهُ النَّاسَ الْأَوَّلِينَ وَالْآخِرِينَ فِي صَعِيدٍ وَاحِدٍ فَيُسْمِعُهُمُ الدَّاعِي، وَيَنْفُذُهُمُ الْبَصَرُ، وَتَدْنُو الشَّمْسُ مِنْهُمْ فَيَبْلُغُ النَّاسُ مِنَ الْغَمِّ وَالْكَرْبِ مَا لَا يُطِيقُونَ، وَلَا يَحْتَمِلُونَ، فَيَقُولُ النَّاسُ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ: أَلَا تَرَوْنَ مَا قَدْ بَلَغَكُمْ ؟ أَلَا تَنْظُرُونَ مَنْ يَشْفَعُ لَكُمْ إِلَى رَبِّكُمْ ؟ فَيَقُولُ النَّاسُ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ: عَلَيْكُمْ بِآدَمَ، فَيَأْتُونَ آدَمَ فَيَقُولُونَ: أَنْتَ أَبُو الْبَشَرِ، خَلَقَكَ اللَّهُ بِيَدِهِ، وَنَفَخَ فِيكَ مِنْ رُوحِهِ، وَأَمَرَ الْمَلَائِكَةَ فَسَجَدُوا لَكَ، اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ، أَلَا تَرَى مَا نَحْنُ فِيهِ، أَلَا تَرَى مَا قَدْ بَلَغَنَا، فَيَقُولُ لَهُمْ آدَمُ: إِنَّ رَبِّي قَدْ غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ، وَلَنْ يَغْضَبَ بَعْدَهُ مِثْلَهُ، وَإِنَّهُ قَدْ نَهَانِي عَنِ الشَّجَرَةِ فَعَصَيْتُ، نَفْسِي نَفْسِي نَفْسِي، اذْهَبُوا إِلَى غَيْرِي، اذْهَبُوا إِلَى نُوحٍ، فَيَأْتُونَ نُوحًا فَيَقُولُونَ: يَا نُوحُ أَنْتَ أَوَّلُ الرُّسُلِ إِلَى أَهْلِ الْأَرْضِ، وَقَدْ سَمَّاكَ اللَّهُ عَبْدًا شَكُورًا اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ، أَلَا تَرَى إِلَى مَا نَحْنُ فِيهِ، أَلَا تَرَى مَا قَدْ بَلَغَنَا، فَيَقُولُ لَهُمْ نُوحٌ: إِنَّ رَبِّي قَدْ غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ، وَلَنْ يَغْضَبَ بَعْدَهُ مِثْلَهُ، وَإِنَّهُ قَدْ كَانَ لِي دَعْوَةٌ دَعَوْتُهَا عَلَى قَوْمِي، نَفْسِي نَفْسِي نَفْسِي، اذْهَبُوا إِلَى غَيْرِي، اذْهَبُوا إِلَى إِبْرَاهِيمَ، فَيَأْتُونَ إِبْرَاهِيمَ فَيَقُولُونَ: يَا إِبْرَاهِيمُ أَنْتَ نَبِيُّ اللَّهِ، وَخَلِيلُهُ مِنْ أَهْلِ الْأَرْضِ، اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ، أَلَا تَرَى مَا نَحْنُ فِيهِ، فَيَقُولُ: إِنَّ رَبِّي قَدْ غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ، وَلَنْ يَغْضَبَ بَعْدَهُ مِثْلَهُ، وَإِنِّي قَدْ كَذَبْتُ ثَلَاثَ كَذِبَاتٍ، فَذَكَرَهُنَّ أَبُو حَيَّانَ فِي الْحَدِيثِ، نَفْسِي نَفْسِي نَفْسِي، اذْهَبُوا إِلَى غَيْرِي، اذْهَبُوا إِلَى مُوسَى، فَيَأْتُونَ مُوسَى فَيَقُولُونَ: يَا مُوسَى أَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ فَضَّلَكَ اللَّهُ بِرِسَالَتِهِ وَبِكَلَامِهِ عَلَى الْبَشَرِ، اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ، أَلَا تَرَى مَا نَحْنُ فِيهِ، فَيَقُولُ: إِنَّ رَبِّي قَدْ غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ، وَلَنْ يَغْضَبَ بَعْدَهُ مِثْلَهُ، وَإِنِّي قَدْ قَتَلْتُ نَفْسًا لَمْ أُومَرْ بِقَتْلِهَا، نَفْسِي نَفْسِي نَفْسِي، اذْهَبُوا إِلَى غَيْرِي، اذْهَبُوا إِلَى عِيسَى، فَيَأْتُونَ عِيسَى فَيَقُولُونَ: يَا عِيسَى أَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ، وَكَلِمَتُهُ أَلْقَاهَا إِلَى مَرْيَمَ، وَرُوحٌ مِنْهُ، وَكَلَّمْتَ النَّاسَ فِي الْمَهْدِ، اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ، أَلَا تَرَى مَا نَحْنُ فِيهِ، فَيَقُولُ عِيسَى: إِنَّ رَبِّي قَدْ غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ، وَلَنْ يَغْضَبَ بَعْدَهُ مِثْلَهُ، وَلَمْ يَذْكُرْ ذَنْبًا، نَفْسِي نَفْسِي نَفْسِي، اذْهَبُوا إِلَى غَيْرِي، اذْهَبُوا إِلَى مُحَمَّدٍ، قَالَ: فَيَأْتُونَ مُحَمَّدًا فَيَقُولُونَ: يَا مُحَمَّدُ أَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ، وَخَاتَمُ الْأَنْبِيَاءِ، وَقَدْ غُفِرَ لَكَ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ، اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ، أَلَا تَرَى مَا نَحْنُ فِيهِ، فَأَنْطَلِقُ فَآتِي تَحْتَ الْعَرْشِ فَأَخِرُّ سَاجِدًا لِرَبِّي، ثُمَّ يَفْتَحُ اللَّهُ عَلَيَّ مِنْ مَحَامِدِهِ وَحُسْنِ الثَّنَاءِ عَلَيْهِ شَيْئًا لَمْ يَفْتَحْهُ عَلَى أَحَدٍ قَبْلِي، ثُمَّ يُقَالَ:  يَا مُحَمَّدُ ارْفَعْ رَأْسَكَ، سَلْ تُعْطَهْ، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ، فَأَرْفَعُ رَأْسِي ، فَأَقُولُ: يَا رَبِّ أُمَّتِي، يَا رَبِّ أُمَّتِي، يَا رَبِّ أُمَّتِي، فَيَقُولُ:  يَا مُحَمَّدُ أَدْخِلْ مِنْ أُمَّتِكَ مَنْ لَا حِسَابَ عَلَيْهِ مِنَ الْبَابِ الْأَيْمَنِ مِنْ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ، وَهُمْ شُرَكَاءُ النَّاسِ فِيمَا سِوَى ذَلِكَ مِنَ الْأَبْوَابِ ، ثُمَّ قَالَ: وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مَا بَيْنَ الْمِصْرَاعَيْنِ مِنْ مَصَارِيعِ الْجَنَّةِ كَمَا بَيْنَ مَكَّةَ وَهَجَرَ، وَكَمَا بَيْنَ مَكَّةَ وَبُصْرَى ، وفي الباب عن أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ، وَأَنَسٍ، وَعُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ، وَأَبِي سَعِيدٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَأَبُو حَيَّانَ التَّيْمِيُّ اسْمُهُ: يَحْيَى بْنُ سَعِيدِ بْنِ حَيَّانَ كُوفِيٌّ وَهُوَ ثِقَةٌ، وَأَبُو زُرْعَةَ بْنُ عَمْرِو بْنِ جَرِيرٍ اسْمُهُ: هَرِمٌ.  

তাহকীক: