আল জামিউল কাবীর- ইমাম তিরমিযী রহঃ (উর্দু)

الجامع الكبير للترمذي

ایمان کا بیان - এর পরিচ্ছেদসমূহ

মোট হাদীস ২০ টি

হাদীস নং: ২৬০৬
ایمان کا بیان
اس بارے میں کہ مجھے لوگوں سے قتال کا حکم دیا گیا ہے یہانتک کہ لاالہ الااللہ کہیں
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے جنگ (جہاد) کروں یہاں تک کہ وہ «لا إله إلا الله» کا اقرار کرلیں، پھر جب وہ اس کا اقرار کرلیں تو اب انہوں نے اپنے خون اور اپنے اموال کو مجھ سے محفوظ کرلیا، مگر کسی حق کے بدلے ١ ؎، اور ان کا (مکمل) حساب تو اللہ تعالیٰ پر ہے ٢ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں جابر، ابوسعید اور ابن عمر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجھاد ١٠٢ (٢٩٤٦) ، صحیح مسلم/الإیمان ٨ (٢٦١٠) ، سنن ابی داود/ الجھاد ١٠٤ (٢٦٤٠) ، سنن النسائی/الجھاد ١ (٣٠٩٢) ، سنن ابن ماجہ/الفتن ١ (٣٩٢٧) (تحفة الأشراف : ١٢٥٠٦) ، و مسند احمد (٢/٣١٤، ٣٧٧، ٤٢٣، ٤٣٩، ٤٧٥، ٤٨٢، ٥٠٢، ٥٢٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی ان کی جان اور ان کا مال صرف اسی وقت لیا جائے گا جب وہ قول و عمل سے اپنے آپ کو اس کا مستحق اور سزاوار بنادیں ، مثلاً کسی نے کسی کو قتل کردیا تو ایسی صورت میں مقتول کے ورثاء اسے قتل کریں گے یا اس سے دیت لیں گے۔ ٢ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اسلام ایک آفاقی اور عالمگیر مذہب ہے ، اس کا مقصد دنیا سے تاریکی ، گمراہی اور ظلم و بربریت کا خاتمہ ہے ، ساتھ ہی لوگوں کو ایک اللہ کی بندگی کی راہ پر لگانا اور انہیں عدل و انصاف مہیا کرنا ہے ، دوسری بات اس حدیث سے یہ معلوم ہوئی کہ جو اسلام کو اپنے گلے سے لگالے اس کی جان مال محفوظ ہے ، البتہ جرائم کے ارتکاب پر اس پر اسلامی احکام لاگو ہوں گے ، وہ اپنے مال سے زکاۃ ادا کرے گا ، کسی مسلمان کو ناجائز قتل کردینے کی صورت میں اگر ورثاء اسے معاف نہ کریں اور نہ ہی دیت لینے پر راضی ہوں تو اسے قصاص میں قتل کیا جائے گا ، یہ بھی معلوم ہوا کہ اس کے ظاہری حالات کے مطابق اسلامی احکام کا اجراء ہوگا ، اس کا باطنی معاملہ اللہ کے سپرد ہوگا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح متواتر، ابن ماجة (71) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2606
حدیث نمبر: 2606 حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَقُولُوا لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا قَالُوهَا مَنَعُوا مِنِّي دِمَاءَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ إِلَّا بِحَقِّهَا وَحِسَابُهُمْ عَلَى اللَّهِ ،‏‏‏‏ وفي الباب عن جَابِرٍ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبِي سَعِيدٍ، ‏‏‏‏‏‏وَابْنِ عُمَرَ،‏‏‏‏ قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ২৬০৭
ایمان کا بیان
ایمان جو رسول اللہ ﷺ سے مروی ہیں
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوئی اور آپ کے بعد ابوبکر (رض) خلیفہ بنا دئیے گئے اور عربوں میں جنہیں کفر کرنا تھا کفر کا اظہار کیا، تو عمر بن خطاب (رض) نے ابوبکر (رض) سے کہا : آپ لوگوں سے کیسے جنگ (جہاد) کریں گے جب کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے : مجھے حکم ملا ہے کہ میں لوگوں سے لڑوں یہاں تک کہ وہ کہیں : «لا إلہ الا اللہ» ، تو جس نے «لا إلہ الا اللہ» کہا، اس نے مجھ سے اپنا مال اور اپنی جان محفوظ کرلی ١ ؎، اور اس کا حساب اللہ کے ذمہ ہے ، ابوبکر (رض) نے کہا : اللہ کی قسم ! میں تو ہر اس شخص کے خلاف جہاد کروں گا جو صلاۃ و زکاۃ میں فرق کرے گا، کیونکہ زکاۃ مال کا حق ہے، قسم اللہ کی ! اگر انہوں نے ایک رسی بھی دینے سے انکار کیا جسے وہ رسول اللہ ﷺ کو (زکاۃ میں) دیا کرتے تھے تو میں ان کے اس انکار پر بھی ان سے جنگ (جہاد) کروں گا۔ عمر بن خطاب (رض) نے کہا : قسم اللہ کی ! اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ میں نے دیکھا : اللہ تعالیٰ نے ابوبکر (رض) کے سینے کو جنگ کے لیے کھول دیا ہے اور میں نے جان لیا کہ یہی حق اور درست ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اسی طرح شعیب بن ابی حمزہ نے زہری سے، زہری نے عبیداللہ بن عبداللہ سے اور عبداللہ نے ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے، ٣ - عمران بن قطان نے یہ حدیث معمر سے، معمر نے زہری سے، زہری نے انس بن مالک سے، اور انس بن مالک نے ابوبکر سے روایت کی ہے، لیکن اس حدیث (کی سند) میں غلطی ہے۔ (اور وہ یہ ہے کہ) معمر کے واسطہ سے عمران کی روایت کی مخالفت کی گئی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الزکاة ٦ (١٣٩٩) ، و ٤٠ (١٤٧٥) ، والمرتدین ٣ (٦٩٢٤) ، والإعتصام ٢ (٧٢٨٤) ، صحیح مسلم/الإیمان ٨ (٢١) ، سنن ابی داود/ الزکاة ١ (١٥٥٦) ، سنن النسائی/الزکاة ٣ (٢٤٤٥) ، والجھاد ١ (٣٠٩٤، ٣٠٩٥) ، والمحاربة ١ (٣٩٧٥) (تحفة الأشراف : ١٠٦٦٦) ، و مسند احمد (٢/٥٢٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اب نہ اس کا مال لیا جاسکتا ہے اور نہ ہی اسے قتل کیا جاسکتا ہے «حتی يقولوا لا إله إلا اللہ ويقيموا الصلاة» یہاں تک کہ وہ : «لا إلہ الا اللہ» کہیں ، اور نماز قائم کریں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (407) ، صحيح أبي داود (1391 - 1393) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2607
حدیث نمبر: 2607 حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ:‏‏‏‏ لَمَّا تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاسْتُخْلِفَ أَبُو بَكْرٍ بَعْدَهُ كَفَرَ مَنْ كَفَرَ مِنَ الْعَرَبِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ لِأَبِي بَكْرٍ:‏‏‏‏ كَيْفَ تُقَاتِلُ النَّاسَ وَقَدْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَقُولُوا لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، ‏‏‏‏‏‏وَمَنْ قَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ عَصَمَ مِنِّي مَالَهُ وَنَفْسَهُ إِلَّا بِحَقِّهِ وَحِسَابُهُ عَلَى اللَّهِ ،‏‏‏‏ قَالَأَبُو بَكْرٍ:‏‏‏‏ وَاللَّهِ لَأُقَاتِلَنَّ مَنْ فَرَّقَ بَيْنَ الزَّكَاةِ وَالصَّلَاةِ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّ الزَّكَاةَ حَقُّ الْمَالِ، ‏‏‏‏‏‏وَاللَّهِ لَوْ مَنَعُونِي عِقَالًا كَانُوا يُؤَدُّونَهُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَقَاتَلْتُهُمْ عَلَى مَنْعِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ:‏‏‏‏ فَوَاللَّهِ مَا هُوَ إِلَّا أَنْ رَأَيْتُ أَنَّ اللَّهَ قَدْ شَرَحَ صَدْرَ أَبِي بَكْرٍ لِلْقِتَالِ فَعَرَفْتُ أَنَّهُ الْحَقُّ،‏‏‏‏ قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَهَكَذَا رَوَى شُعَيْبُ بْنُ أَبِي حَمْزَةَ، عَن الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَرَوَى عِمْرَانُ الْقَطَّانُ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ مَعْمَرٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ الزُّهْرِيِّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي بَكْرٍ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ حَدِيثٌ خَطَأٌ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ خُولِفَ عِمْرَانُ فِي رِوَايَتِهِ عَنْ مَعْمَرٍ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ২৬০৮
ایمان کا بیان
مجھے حکم دیا گیا ہے کہ اس وقت تک لوگوں سے لڑوں جب تک یہ لا الہ الا اللہ کہیں اور نماز پڑھیں
انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مجھے لوگوں سے اس وقت تک جنگ کرتے رہنے کا حکم دیا گیا ہے جب تک لوگ اس بات کی شہادت نہ دینے لگیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور محمد ( ﷺ ) اس کے بندے اور رسول ہیں۔ اور ہمارے قبلہ کی طرف رخ (کر کے عبادت) نہ کرنے لگیں۔ ہمارا ذبیحہ نہ کھانے لگیں اور ہمارے طریقہ کے مطابق نماز نہ پڑھنے لگیں۔ جب وہ یہ سب کچھ کرنے لگیں گے تو ان کا خون اور ان کا مال ہمارے اوپر حرام ہوجائے گا، مگر کسی حق کے بدلے ١ ؎، انہیں وہ سب کچھ حاصل ہوگا ٢ ؎ جو عام مسلمانوں کو حاصل ہوگا اور ان پر وہی سب کچھ ذمہ داریاں عائد ہوں گی جو عام مسلمانوں پر عائد ہوں گی ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے، ٢ - یحییٰ بن ایوب نے حمید سے اور حمید نے انس سے اس حدیث کی طرح روایت کی ہے، ٣ - اس باب میں معاذ بن جبل اور ابوہریرہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ٢٨ (٣٩٢) ، سنن ابی داود/ الجھاد ١٠٤ (٢٦٤١) ، سنن النسائی/تحریم الدم (المحاربة) ١ (٣٩٧١) ، والإیمان ١٥ (٥٠٠٦) (تحفة الأشراف : ٧٠٦) ، و مسند احمد (٣/١٩٩، ٢٢٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی وہ کوئی ایسا عمل کر بیٹھیں جس کے نتیجہ میں ان کی جان اور ان کا مال مباح ہوجائے تو اس وقت ان کی جان اور ان کا مال حرام نہ رہے گا۔ ٢ ؎ : یعنی جو حقوق و اختیارات اور مراعات عام مسلمانوں کو حاصل ہوں گے وہ انہیں بھی حاصل ہوں گے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (303 - 1 / 152) ، صحيح أبي داود (2374) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2608
حدیث نمبر: 2608 حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ يَعْقُوبَ الطَّالِقَانِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ، أَخْبَرَنَا حُمَيْدٌ الطَّوِيلُ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَشْهَدُوا أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنْ يَسْتَقْبِلُوا قِبْلَتَنَا، ‏‏‏‏‏‏وَيَأْكُلُوا ذَبِيحَتَنَا، ‏‏‏‏‏‏وَأَنْ يُصَلُّوا صَلَاتَنَا، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا فَعَلُوا ذَلِكَ حُرِّمَتْ عَلَيْنَا دِمَاؤُهُمْ وَأَمْوَالُهُمْ إِلَّا بِحَقِّهَا، ‏‏‏‏‏‏لَهُمْ مَا لِلْمُسْلِمِينَ، ‏‏‏‏‏‏وَعَلَيْهِمْ مَا عَلَى الْمُسْلِمِينَ ،‏‏‏‏ وفي الباب عن مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبِي هُرَيْرَةَ،‏‏‏‏ قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ وَقَدْ رَوَاهُ يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ حُمَيْدٍ،‏‏‏‏ عَنْ أَنَسٍ نَحْوَ هَذَا.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ২৬০৯
ایمان کا بیان
اس بارے میں کہ اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے۔
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر رکھی گئی ہے : ( ١ ) گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں، ( ٢ ) نماز قائم کرنا، ( ٣ ) زکاۃ دینا ( ٤ ) رمضان کے روزے رکھنا، ( ٥ ) بیت اللہ کا حج کرنا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - ابن عمر (رض) کے واسطہ سے کئی سندوں سے مروی ہے، اسی طرح یہ حدیث کئی سندوں سے ابن عمر (رض) کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے آئی ہے، ٣ - اس باب میں جریر بن عبداللہ (رض) سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الإیمان ٢ (٨) ، صحیح مسلم/الإیمان ٥ (١٦) ، سنن النسائی/الإیمان ١٣ (٥٠٠٤) (تحفة الأشراف : ٦٦٨٢) ، و مسند احمد (٢/٩٣، ١٢٠، ١٤٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، الإرواء (781) ، إيمان أبي عبيد (2) ، الروض النضير (270) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2609
حدیث نمبر: 2609 حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ سُعَيْرِ بْنِ الْخِمْسِ التَّمِيمِيِّ، عَنْ حَبيِبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ بُنِيَ الْإِسْلَامُ عَلَى خَمْسٍ:‏‏‏‏ شَهَادَةُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏وَإِقَامُ الصَّلَاةِ، ‏‏‏‏‏‏وَإِيتَاءُ الزَّكَاةِ، ‏‏‏‏‏‏وَصَوْمُ رَمَضَانَ، ‏‏‏‏‏‏وَحَجُّ الْبَيْتِ ،‏‏‏‏ وفي الباب عن جَرِيرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ ابْنِ عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوُ هَذَا، ‏‏‏‏‏‏وَسُعَيْرُ بْنُ الْخِمْسِ ثِقَةٌ عِنْدَ أَهْلِ الْحَدِيثِ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ২৬১০
ایمان کا بیان
اس کے متعلق کہ حضرت جبرئیل نے نبی اکرم ﷺ سے ایمان واسلام کی کیا صفات بیان کیں
یحییٰ بن یعمر کہتے ہیں کہ سب سے پہلے جس شخص نے تقدیر کے انکار کی بات کی وہ معبد جہنی ہے، میں اور حمید بن عبدالرحمٰن حمیری دونوں (سفر پر) نکلے یہاں تک کہ مدینہ پہنچے، ہم نے (آپس میں بات کرتے ہوئے) کہا : کاش ہماری نبی اکرم ﷺ کے صحابہ میں سے کسی شخص سے ملاقات ہوجائے تو ہم ان سے اس نئے فتنے کے متعلق پوچھیں جو ان لوگوں نے پیدا کیا ہے، چناچہ (خوش قسمتی سے) ہماری ان سے یعنی عبداللہ بن عمر (رض) سے کہ جب وہ مسجد سے نکل رہے تھے، ملاقات ہوگئی، پھر میں نے اور میرے ساتھی نے انہیں اپنے گھیرے میں لے لیا ١ ؎ میں نے یہ اندازہ لگا کر کہ میرا ساتھی بات کرنے کی ذمہ داری اور حق مجھے سونپ دے گا، عرض کیا : ابوعبدالرحمٰن ! کچھ لوگ ہیں جو قرآن پڑھتے ہیں اور قرآن میں غور و فکر اور تلاش و جستجو (کا دعویٰ ) بھی کرتے ہیں۔ اس کے باوجود وہ یہ خیال رکھتے ہیں کہ تقدیر کوئی چیز نہیں ہے، اور امر (معاملہ) از سرے نو اور ابتدائی ہے ٢ ؎ ابن عمر (رض) نے کہا : جب تم ان سے ملو (اور تمہارا ان کا آمنا سامنا ہو) تو انہیں بتادو کہ میں ان سے بری (و بیزار) ہوں اور وہ مجھ سے بری ہیں، قسم ہے اس ذات کی جس کی قسم کھاتا ہے عبداللہ ! (یعنی اللہ کی) اگر ان میں سے کوئی احد پہاڑ کے برابر بھی سونا خرچ کر ڈالے تو جب تک وہ اچھی اور بری تقدیر پر ایمان نہیں لے آتا اس کا یہ خرچ مقبول نہ ہوگا، پھر انہوں نے حدیث بیان کرنی شروع کی اور کہا : عمر بن خطاب (رض) کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے پاس تھے اسی دوران ایک شخص آیا جس کے کپڑے بہت زیادہ سفید تھے، اس کے بال بہت زیادہ کالے تھے، وہ مسافر بھی نہیں لگتا تھا اور ہم لوگوں میں سے کوئی اسے پہچانتا بھی نہ تھا۔ وہ نبی اکرم ﷺ کے قریب آیا اور اپنے گھٹنے آپ ﷺ کے گھٹنوں سے ملا کر بیٹھ گیا پھر کہا : اے محمد ! ایمان کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا : ایمان یہ ہے کہ تم اللہ پر، اس کے فرشتوں پر، اس کے رسولوں پر، آخرت کے دن پر اور اچھی بری تقدیر پر ایمان لاؤ۔ اس نے (پھر) پوچھا : اور اسلام کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا : اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ہے اور محمد اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، نماز قائم کرنا، زکاۃ دینا، بیت اللہ شریف کا حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا ، اس نے (پھر) پوچھا : احسان کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا : احسان یہ ہے کہ تم اللہ کی عبادت اس طرح کرو تو ان تم اسے دیکھ رہے ہو، اور اگر تم اللہ کو دیکھنے کا تصور اپنے اندر پیدا نہ کرسکو تو یہ یقین کر کے اس کی عبادت کرو کہ وہ تمہیں دیکھ رہا ہے ، وہ شخص آپ ﷺ کے ہر جواب پر کہتا جاتا تھا کہ آپ نے درست فرمایا۔ اور ہم اس پر حیرت کرتے تھے کہ یہ کیسا عجیب آدمی ہے کہ وہ خود ہی آپ سے پوچھتا ہے اور خود ہی آپ ﷺ کے جواب کی تصدیق بھی کرتا جاتا ہے، اس نے (پھر) پوچھا : قیامت کب آئے گی ؟ آپ نے فرمایا : جس سے پوچھا گیا ہے، وہ پوچھنے والے سے زیادہ نہیں جانتا ، اس نے کہا : اس کی علامت (نشانی) کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا : اس وقت حالت یہ ہوگی کہ لونڈی اپنی مالکن کو جنے گی ٣ ؎، اس وقت تم دیکھو گے کہ ننگے پیر چلنے والے، ننگے بدن رہنے والے، محتاج بکریوں کے چرانے والے ایک سے بڑھ کر ایک اونچی عمارتیں بنانے میں فخر کرنے والے ہوں گے ، عمر (رض) کہتے ہیں : نبی اکرم ﷺ مجھے اس واقعہ کے تین دن بعد ملے تو آپ نے فرمایا : عمر ! کیا تمہیں معلوم ہے کہ یہ پوچھنے والا کون تھا ؟ وہ جبرائیل (علیہ السلام) تھے۔ تمہارے پاس تمہیں دین کی بنیادی باتیں سکھانے آئے تھے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإیمان ١ (٨) ، سنن ابی داود/ السنة ١٧ (٤٦٩٥) ، سنن النسائی/الإیمان ٥ (٤٩٩٣) ، سنن ابن ماجہ/المقدمة ٩ (٦٣) (تحفة الأشراف : ١٠٥٧٢) ، و مسند احمد (١/٢٧، ٢٨، ٥١، ٥٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : ایک ان کے داہنے ہوگیا اور دوسرا ان کے بائیں۔ ٢ ؎ : اور امر (معاملہ) از سرے نو اور ابتدائی ہے کا مطلب یعنی جب کوئی چیز واقع ہوجاتی ہے تب اللہ کو اس کی خبر ہوتی ہے ، پہلے سے ہی کوئی چیز لکھی ہوئی اور متعین شدہ نہیں ہے۔ ٣ ؎ : یعنی لونڈی زادی مالکہ بن جائے گی اور جسے مالکہ کے مقام پر ہونا چاہیئے وہ لونڈی کے مقام ودرجہ پر پہنچا دی جائے گی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (63) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2610 اس سند سے بھی عمر بن خطاب (رض) سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (63) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2610 اس سند سے بھی عمر (رض) سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ متعدد سندوں سے ابن عمر سے بھی اسی طرح مروی ہے، ٣ - کبھی ایسا بھی ہوا ہے کہ یہ حدیث ابن عمر کے واسطہ سے آئی ہے اور انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے، لیکن صحیح یہ ہے کہ ابن عمر روایت کرتے ہیں، عمر (رض) سے اور عمر (رض) روایت کرتے ہیں نبی اکرم ﷺ سے، ٢ - اس باب میں طلحہ بن عبیداللہ، انس بن مالک اور ابوہریرہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (63) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2610
حدیث نمبر: 2610 حَدَّثَنَا أَبُو عَمَّارٍ الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ الْخُزَاعِيُّ، أَخْبَرَنَا وَكِيعٌ، عَنْ كَهْمَسِ بْنِ الْحَسَنِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْيَحْيَى بْنِ يَعْمَرَ، قَالَ:‏‏‏‏ أَوَّلُ مَنْ تَكَلَّمَ فِي الْقَدَرِ مَعْبَدٌ الْجُهَنِيُّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَخَرَجْتُ أَنَا وَحُمَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحِمْيَرِيُّ حَتَّى أَتَيْنَا الْمَدِينَةَ فَقُلْنَا:‏‏‏‏ لَوْ لَقِينَا رَجُلًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَأَلْنَاهُ عَمَّا أَحْدَثَ هَؤُلَاءِ الْقَوْمُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَلَقِينَاهُ يَعْنِي عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ وَهُوَ خَارِجٌ مِنَ الْمَسْجِدِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَاكْتَنَفْتُهُ أَنَا وَصَاحِبِي، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَظَنَنْتُ أَنَّ صَاحِبِي سَيَكِلُ الْكَلَامَ إِلَيَّ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ إِنَّ قَوْمًا يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ وَيَتَقَفَّرُونَ الْعِلْمَ وَيَزْعُمُونَ أَنْ لَا قَدَرَ وَأَنَّ الْأَمْرَ أُنُفٌ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَإِذَا لَقِيتَ أُولَئِكَ فَأَخْبِرْهُمْ أَنِّي مِنْهُمْ بَرِيءٌ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنَّهُمْ مِنِّي بُرَآءُ، ‏‏‏‏‏‏وَالَّذِي يَحْلِفُ بِهِ عَبْدُ اللَّهِ لَوْ أَنَّ أَحَدَهُمْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا مَا قُبِلَ ذَلِكَ مِنْهُ حَتَّى يُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ خَيْرِهِ وَشَرِّهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ ثُمَّ أَنْشَأَ يُحَدِّثُ فَقَالَ:‏‏‏‏ قَالَعُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ:‏‏‏‏ كُنَّا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَجَاءَ رَجُلٌ شَدِيدُ بَيَاضِ الثِّيَابِ، ‏‏‏‏‏‏شَدِيدُ سَوَادِ الشَّعَرِ، ‏‏‏‏‏‏لَا يُرَى عَلَيْهِ أَثَرُ السَّفَرِ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا يَعْرِفُهُ مِنَّا أَحَدٌ حَتَّى أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَلْزَقَ رُكْبَتَهُ بِرُكْبَتِهِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ يَا مُحَمَّدُ مَا الْإِيمَانُ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ أَنْ تُؤْمِنَ بِاللَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَالْقَدَرِ خَيْرِهِ وَشَرِّهِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَمَا الْإِسْلَامُ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ شَهَادَةُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، ‏‏‏‏‏‏وَإِقَامُ الصَّلَاةِ، ‏‏‏‏‏‏وَإِيتَاءُ الزَّكَاةِ، ‏‏‏‏‏‏وَحَجُّ الْبَيْتِ وَصَوْمُ رَمَضَانَ قَالَ:‏‏‏‏ فَمَا الْإِحْسَانُ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ أَنْ تَعْبُدَ اللَّهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ فَإِنَّكَ إِنْ لَمْ تَكُنْ تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاكَ ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ فِي كُلِّ ذَلِكَ يَقُولُ لَهُ:‏‏‏‏ صَدَقْتَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَتَعَجَّبْنَا مِنْهُ يَسْأَلُهُ وَيُصَدِّقُهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَمَتَى السَّاعَةُ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ مَا الْمَسْئُولُ عَنْهَا بِأَعْلَمَ مِنَ السَّائِلِ قَالَ:‏‏‏‏ فَمَا أَمَارَتُهَا ؟ قَالَ:‏‏‏‏ أَنْ تَلِدَ الْأَمَةُ رَبَّتَهَا، ‏‏‏‏‏‏وَأَنْ تَرَى الْحُفَاةَ الْعُرَاةَ الْعَالَةَ أَصْحَابَ الشَّاءِ يَتَطَاوَلُونَ فِي الْبُنْيَانِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ عُمَرُ:‏‏‏‏ فَلَقِيَنِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ ذَلِكَ بِثَلَاثٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ يَا عُمَرُ هَلْ تَدْرِي مَنِ السَّائِلُ ؟ ذَاكَ جِبْرِيلُ أَتَاكُمْ يُعَلِّمُكُمْ مَعَالِمَ دِينِكُمْ . حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ، أَخْبَرَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ، أَخْبَرَنَا كَهْمَسُ بْنُ الْحَسَنِ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَهُ. حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ، عَنْ كَهْمَسٍ بِهَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَهُ بِمَعْنَاهُ، ‏‏‏‏‏‏وَفِي الْبَابِ عَنْ طَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏قَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ نَحْوُ هَذَا، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنِ ابْنِ عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏وَالصَّحِيحُ هُوَ ابْنُ عُمَرَ،‏‏‏‏ عَنْ عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ২৬১১
ایمان کا بیان
اس بارے میں کہ فرائض ایمان میں داخل ہیں
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ عبدقیس کا وفد رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا، انہوں نے آپ سے عرض کیا : (اے اللہ کے رسول ! ) ہمارے اور آپ کے درمیان ربیعہ کا یہ قبیلہ حائل ہے، حرمت والے مہینوں کے علاوہ مہینوں میں ہم آپ کے پاس آ نہیں سکتے ١ ؎ اس لیے آپ ہمیں کسی ایسی چیز کا حکم دیں جسے ہم آپ سے لے لیں اور جو ہمارے پیچھے ہیں انہیں بھی ہم اس کی طرف بلا سکیں، آپ نے فرمایا : میں تمہیں چار چیزوں کا حکم دیتا ہوں ( ١ ) اللہ پر ایمان لانے کا، پھر آپ نے ان سے اس کی تفسیر و تشریح بیان کی «لا إلہ الا اللہ» اور «محمد رسول الله» کی شہادت دینا ( ٢ ) نماز قائم کرنا ( ٣ ) زکاۃ دینا ( ٤ ) مال غنیمت میں سے پانچواں حصہ (خمس) نکالنا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ١٥٩٩ (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : حرمت والے مہینے چار ہیں : رجب ، ذی قعدہ ، ذی الحجہ اور محرم ، چونکہ زمانہ جاہلیت میں ان مہینوں کو چھوڑ کر باقی دوسرے مہینوں میں جنگ و جدال جاری رہتا تھا ، اسی لیے قبیلہ عبدقیس کے وفد کے لوگوں نے آپ ﷺ سے دوسرے مہینوں میں آپ تک نہ پہنچ سکنے کی معذرت کی اور آپ سے دین کی اہم اور بنیادی باتیں پوچھیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح إيمان أبي عبيد ص (58 - 59) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2611 اس سند سے بھی ابن عباس (رض) سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث صحیح حسن ہے، ٢ - شعبہ نے بھی اسے ابوجمرہ نصر بن عمران ضبعی سے روایت کیا ہے اور اس میں یہ اضافہ کیا ہے «أتدرون ما الإيمان شهادة أن لا إله إلا اللہ وأني رسول الله» کیا تم جانتے ہو ایمان کیا ہے ؟ ایمان یہ ہے : گواہی دی جائے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ہے اور گواہی دی جائے کہ میں اللہ کا رسول ہوں اور پھر پوری حدیث بیان کی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ١٥٩٩ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح إيمان أبي عبيد ص (58 - 59) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2611
حدیث نمبر: 2611 حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ عَبَّادٍ الْمُهَلَّبِيُّ، عَنْ أَبِي جَمْرَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:‏‏‏‏ قَدِمَ وَفْدُ عَبْدِ الْقَيْسِ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالُوا:‏‏‏‏ إِنَّا هَذَا الْحَيَّ مِنْ رَبِيعَةَ وَلَسْنَا نَصِلُ إِلَيْكَ إِلَّا فِي أَشْهُرِ الْحَرَامِ، ‏‏‏‏‏‏فَمُرْنَا بِشَيْءٍ نَأْخُذُهُ عَنْكَ وَنَدْعُو إِلَيْهِ مَنْ وَرَاءَنَا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ آمُرُكُمْ بِأَرْبَعٍ:‏‏‏‏ الْإِيمَانِ بِاللَّهِ ثُمَّ فَسَّرَهَا لَهُمْ، ‏‏‏‏‏‏شَهَادَةُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنِّي رَسُولُ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏وَإِقَامَ الصَّلَاةِ، ‏‏‏‏‏‏وَإِيتَاءَ الزَّكَاةِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنْ تُؤَدُّوا خُمْسَ مَا غَنِمْتُمْ . حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَبِي جَمْرَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَهُ،‏‏‏‏ قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبُو جَمْرَةَ الضُّبَعِيُّ اسْمُهُ:‏‏‏‏ نَصْرُ بْنُ عِمْرَانَ،‏‏‏‏ وَقَدْ رَوَاهُ شُعْبَةُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي جَمْرَةَ أَيْضًا، ‏‏‏‏‏‏وَزَادَ فِيهِ:‏‏‏‏ أَتَدْرُونَ مَا الْإِيمَانُ ؟ شَهَادَةُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنِّي رَسُولُ اللَّهِ ،‏‏‏‏ وَذَكَرَ الْحَدِيثَ،‏‏‏‏ سَمِعْت قُتَيْبَةَ بْنَ سَعِيدٍ يَقُولُ:‏‏‏‏ مَا رَأَيْتُ مِثْلَ هَؤُلَاءِ الْفُقَهَاءِ الْأَشْرَافِ الْأَرْبَعَةِ:‏‏‏‏ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، ‏‏‏‏‏‏وَاللَّيْثِ بْنِ سَعْدٍ، ‏‏‏‏‏‏وَعَبَّادِ بْنِ عَبَّادٍ الْمُهَلَّبِيِّ، ‏‏‏‏‏‏وَعَبْدِ الْوَهَّابِ الثَّقَفِيِّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ قُتَيْبَةُ:‏‏‏‏ كُنَّا نَرْضَى أَنْ نَرْجِعَ مِنْ عِنْدِ عَبَّادٍ كُلَّ يَوْمٍ بِحَدِيثَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏وَعَبَّادُ بْنُ عَبَّادٍ هُوَ مِنْ وَلَدِ الْمُهَلَّبِ بْنِ أَبِي صُفْرَةَ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ২৬১২
ایمان کا بیان
ایمان میں کمی زیادتی اور اس کا مکمل ہونا
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سب سے زیادہ کامل ایمان والا مومن وہ ہے جو ان میں سب سے زیادہ اچھے اخلاق والا ہو، اور جو اپنے بال بچوں پر سب سے زیادہ مہربان ہو ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث صحیح ہے، ٢ - اور میں نہیں جانتا کہ ابوقلابہ نے عائشہ (رض) سے سنا ہے، ٣ - ابوقلابہ نے عائشہ کے رضاعی بھائی عبداللہ بن یزید کے واسطہ سے عائشہ (رض) سے اس حدیث کے علاوہ بھی اور حدیثیں روایت کی ہیں، ٤ - اس باب میں ابوہریرہ اور انس بن مالک (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٦١٩٥) ، وانظر مسند احمد (٦/٤٧، ٩٩) (ضعیف) (عائشہ (رض) کی روایت سے اور ” وألطفهم بأهله “ کے اضافہ کے ساتھ یہ روایت ضعیف ہے، کیوں کہ ابو قلابہ اور عائشہ کے درمیان سند میں انقطاع ہے، لیکن پہلے ٹکڑے کے صحیح شواہد موجود ہیں، تفصیل کے لیے دیکھیے : الصحیحة رقم : ٢٨٤ ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ایمان اور حسن اخلاق ایک دوسرے کے لیے لازم ہیں ، یعنی جو اپنے اخلاق میں جس قدر کامل ہوگا اس کا ایمان بھی اتنا ہی کامل ہوگا ، گویا ایمان کامل کے لیے بہتر اخلاق کا حامل ہونا ضروری ہے ، یہ بھی معلوم ہوا کہ اپنے گھر والوں کے لیے جو سب سے زیادہ مہربان ہوگا وہ سب سے بہتر ہے ، اور یہ بھی معلوم ہوا کہ ایک دوسرے کے مقابلہ میں کسی میں کم اور کسی میں زیادہ ایمان پایا جاتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف الصحيحة تحت الحديث (284) // ضعيف الجامع الصغير (1990) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2612
حدیث نمبر: 2612 حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ الْبَغْدَادِيُّ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل ابْنُ عُلَيَّةَ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ الْحَذَّاءُ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ إِنَّ مِنْ أَكْمَلِ الْمُؤْمِنِينَ إِيمَانًا أَحْسَنُهُمْ خُلُقًا وَأَلْطَفُهُمْ بِأَهْلِهِ ،‏‏‏‏ وفي الباب عن أَبِي هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنَسِ بْنِ مَالِكٍ،‏‏‏‏ قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ وَلَا نَعْرِفُ لِأَبِي قِلَابَةَ سَمَاعًا مِنْ عَائِشَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ رَوَى أَبُو قِلَابَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَزِيدَ رَضِيعٍ لِعَائِشَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَائِشَةَ غَيْرَ هَذَا الْحَدِيثِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبُو قِلَابَةَ اسْمُهُ:‏‏‏‏ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ زَيْدٍ الْجَرْمِيُّ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ ذَكَرَ أَيُّوبُ السَّخْتِيَانِيُّ أَبَا قِلَابَةَ فَقَالَ:‏‏‏‏ كَانَ وَاللَّهِ مِنَ الْفُقَهَاءِ ذَوِي الْأَلْبَابِ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ২৬১৩
ایمان کا بیان
ایمان میں کمی زیادتی اور اس کا مکمل ہونا
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے لوگوں کے سامنے خطبہ دیا تو اس میں آپ نے لوگوں کو نصیحت کی پھر (عورتوں کی طرف متوجہ ہو کر) فرمایا : اے عورتوں کی جماعت ! تم صدقہ و خیرات کرتی رہو کیونکہ جہنم میں تمہاری ہی تعداد زیادہ ہوگی ١ ؎ ان میں سے ایک عورت نے کہا : اللہ کے رسول ! ایسا کیوں ہوگا ؟ آپ نے فرمایا : تمہارے بہت زیادہ لعن طعن کرنے کی وجہ سے، یعنی تمہاری اپنے شوہروں کی ناشکری کرنے کے سبب ، آپ نے (مزید) فرمایا : میں نے کسی ناقص عقل و دین کو تم عورتوں سے زیادہ عقل و سمجھ رکھنے والے مردوں پر غالب نہیں دیکھا ۔ ایک عورت نے پوچھا : ان کی عقل اور ان کے دین کی کمی کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا : تم میں سے دو عورتوں کی شہادت (گواہی) ایک مرد کی شہادت کے برابر ہے ٢ ؎، اور تمہارے دین کی کمی یہ ہے کہ تمہیں حیض کا عارضہ لاحق ہوتا ہے جس سے عورت (ہر مہینے) تین چار دن نماز پڑھنے سے رک جاتی ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے، ٢ - اس باب میں ابو سعید خدری اور ابن عمر (رض) سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإیمان ٣٤ (٨٠) (تحفة الأشراف : ١٢٧٢٣) ، و مسند احمد (٢/٣٧٣، ٣٧٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : چونکہ جہنم میں تمہاری تعداد سب سے زیادہ ہوگی ، اس لیے اس سے بچاؤ کی صورتیں اپناؤ ، اور صدقہ و خیرات یہ جہنم سے بچاؤ کا سب سے بہتر ذریعہ ہیں۔ ٢ ؎ : یہ تمہاری عقل کی کمی کی وجہ سے ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الإرواء (1 / 205) ، الظلال (956) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2613
حدیث نمبر: 2613 حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ هُرَيْمُ بْنُ مِسْعَرٍ الْأَزْدِيُّ التِّرْمِذِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَطَبَ النَّاسَ فَوَعَظَهُمْ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ يَا مَعْشَرَ النِّسَاءِ،‏‏‏‏ تَصَدَّقْنَ فَإِنَّكُنَّ أَكْثَرُ أَهْلِ النَّارِ ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَتِ امْرَأَةٌ مِنْهُنَّ:‏‏‏‏ وَلِمَ ذَاكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ لِكَثْرَةِ لَعْنِكُنَّ، ‏‏‏‏‏‏يَعْنِي:‏‏‏‏ وَكُفْرِكُنَّ الْعَشِيرَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَمَا رَأَيْتُ مِنْ نَاقِصَاتِ عَقْلٍ وَدِينٍ أَغْلَبَ لِذَوِي الْأَلْبَابِ وَذَوِي الرَّأْيِ مِنْكُنَّ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتِ امْرَأَةٌ مِنْهُنَّ:‏‏‏‏ وَمَا نُقْصَانُ دِينِهَا وَعَقْلِهَا:‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ شَهَادَةُ امْرَأَتَيْنِ مِنْكُنَّ بِشَهَادَةِ رَجُلٍ، ‏‏‏‏‏‏وَنُقْصَانُ دِينِكُنَّ الْحَيْضَةُ تَمْكُثُ إِحْدَاكُنَّ الثَّلَاثَ وَالْأَرْبَعَ لَا تُصَلِّي وفي الباب عن أَبِي سَعِيدٍ،‏‏‏‏ وَابْنِ عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ২৬১৪
ایمان کا بیان
ایمان میں کمی زیادتی اور اس کا مکمل ہونا
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ایمان کی تہتر شاخیں (ستر دروازے) ہیں۔ سب سے کم تر راستے سے تکلیف دہ چیز کا دور کردینا ہے، اور سب سے بلند «لا إلہ الا اللہ» کا کہنا ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - ایسے ہی سہیل بن ابی صالح نے عبداللہ بن دینار سے، عبداللہ نے ابوصالح سے اور ابوصالح نے ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے، ٣ - عمارہ بن غزیہ نے یہ حدیث ابوصالح سے، ابوصالح نے ابوہریرہ (رض) سے، اور ابوہریرہ (رض) نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے۔ آپ نے فرمایا ہے ایمان کی چونسٹھ شاخیں ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الإیمان ٣ (٩) ، صحیح مسلم/الإیمان ١٢ (٣٥) ، سنن ابی داود/ السنة ١٥ (٤٦٧٦) ، سنن النسائی/الإیمان ٦ (٥٠٠٧) ، سنن ابن ماجہ/المقدمة ٩ (٥٧) (تحفة الأشراف : ١٢٨١٦) ، و مسند احمد (٢/٤١٤، ٤٤٢) (صحیح) قال الشيخ الألباني : (حديث : الإيمان بضع وسبعون ... ) صحيح، (حديث : الإيمان أربعة وستون بابا ) شاذ بهذا اللفظ (حديث : الإيمان بضع وسبعون .... ) ، ابن ماجة (57) ، (حديث : الإيمان أربعة وستون بابا ) // ضعيف الجامع الصغير (2303) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2614 اس سند سے ابوہریرہ (رض) کے ذریعہ نبی اکرم ﷺ سے مروی ہے۔ ١ ؎: معلوم ہوا کہ عمل کے حساب سے ایمان کے مختلف مراتب و درجات ہیں، یہ بھی معلوم ہوا کہ ایمان اور عمل ایک دوسرے کے لازم و ملزوم ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٢٨٥٤) (شاذ) (کیوں کہ پچھلی اصح حدیث کے مخالف ہے ) قال الشيخ الألباني : (حديث : الإيمان بضع وسبعون ... ) صحيح، (حديث : الإيمان أربعة وستون بابا ) شاذ بهذا اللفظ (حديث : الإيمان بضع وسبعون .... ) ، ابن ماجة (57) ، (حديث : الإيمان أربعة وستون بابا ) // ضعيف الجامع الصغير (2303) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2614
حدیث نمبر: 2614 حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ الْإِيمَانُ بِضْعٌ وَسَبْعُونَ بَابًا فَأَدْنَاهَا إِمَاطَةُ الْأَذَى عَنِ الطَّرِيقِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَرْفَعُهَا قَوْلُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ ،‏‏‏‏ قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَهَكَذَا رَوَى سُهَيْلُ بْنُ أَبِي صَالِحٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي صَالِحٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَرَوَى عُمَارَةُ بْنُ غَزِيَّةَ هَذَا الْحَدِيثَ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي صَالِحٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:‏‏‏‏ الْإِيمَانُ أَرْبَعَةٌ وَسِتُّونَ بَابًا . قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا بِذَلِكَ قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا بَكْرُ بْنُ مُضَرَ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ غَزِيَّةَ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ২৬১৫
ایمان کا بیان
اس بارے میں کہ حیاء ایمان سے ہے
عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ایک شخص کے پاس سے گزرے وہ اپنے بھائی کو حیاء (شرم اور پاکدامنی) اختیار کرنے پر نصیحت کر رہا تھا، اس پر رسول اللہ ﷺ نے (بطور تاکید) فرمایا : حیاء ایمان کا ایک حصہ ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - احمد بن منیع نے اپنی روایت میں کہا : نبی اکرم ﷺ نے ایک شخص کو حیاء کے بارے میں اپنے بھائی کو پھٹکارتے ہوئے سنا، ٣ - اس باب میں ابوہریرہ، ابوبکرہ اور ابوامامہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الإیمان ١٦ (٢٤) ، والأدب ٧٧ (٦١١٨) ، صحیح مسلم/الإیمان ١٢ (٣٦) ، سنن ابی داود/ الأدب ٧ (٤٧٩٥) ، سنن النسائی/الإیمان ٢٧ (٥٠٣٦) ، سنن ابن ماجہ/المقدمة ٩ (٥٨) (تحفة الأشراف : ٦٨٢٨) ، وط/حسن الخلق ٢ (١٠) ، و مسند احمد (٢/٥٦، ١٤٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے حیاء کی فضیلت و اہمیت ثابت ہے ، ایک باحیاء انسان اپنی زندگی میں حیاء سے پورا پورا فائدہ اٹھاتا ہے ، کیونکہ حیاء انسان کو گناہوں سے روکتی اور نیکیوں پر آمادہ کرتی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (58) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2615
حدیث نمبر: 2615 حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، وَأَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، المعنى واحد، ‏‏‏‏‏‏قَالَا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ بِرَجُلٍ وَهُوَ يَعِظُ أَخَاهُ فِي الْحَيَاءِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ الْحَيَاءُ مِنَ الْإِيمَانِ ،‏‏‏‏ قَالَ أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ فِي حَدِيثِهِ:‏‏‏‏ إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَمِعَ رَجُلًا يَعِظُ أَخَاهُ فِي الْحَيَاءِ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وفي الباب عن أَبِي هُرَيْرَةَ،‏‏‏‏ وَأَبِي بَكْرَةَ،‏‏‏‏ وَأَبِي أُمَامَةَ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ২৬১৬
ایمان کا بیان
نماز کی عظمت کے بارے میں
معاذ بن جبل (رض) کہتے ہیں کہ میں ایک سفر میں نبی اکرم ﷺ کے ساتھ تھا، ایک دن صبح کے وقت میں آپ ﷺ سے قریب ہوا، ہم سب چل رہے تھے، میں نے آپ سے عرض کیا : اللہ کے رسول ! آپ مجھے کوئی ایسا عمل بتائیے جو مجھے جنت میں لے جائے، اور جہنم سے دور رکھے ؟ آپ نے فرمایا : تم نے ایک بہت بڑی بات پوچھی ہے۔ اور بیشک یہ عمل اس شخص کے لیے آسان ہے جس کے لیے اللہ آسان کر دے۔ تم اللہ کی عبادت کرو اور اس کا کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، نماز قائم کرو، زکاۃ دو ، رمضان کے روزے رکھو، اور بیت اللہ کا حج کرو ۔ پھر آپ نے فرمایا : کیا میں تمہیں بھلائی کے دروازے (راستے) نہ بتاؤں ؟ روزہ ڈھال ہے، صدقہ گناہ کو ایسے بجھا دیتا ہے جس طرح پانی آگ کو بجھاتا ہے، اور آدھی رات کے وقت آدمی کا نماز (تہجد) پڑھنا ، پھر آپ نے آیت «تتجافی جنوبهم عن المضاجع» کی تلاوت «يعملون» تک فرمائی ١ ؎، آپ نے پھر فرمایا : کیا میں تمہیں دین کی اصل، اس کا ستون اور اس کی چوٹی نہ بتادوں ؟ میں نے کہا : کیوں نہیں ؟ اللہ کے رسول (ضرور بتائیے) آپ نے فرمایا : دین کی اصل اسلام ہے ٢ ؎ اور اس کا ستون (عمود) نماز ہے اور اس کی چوٹی جہاد ہے ۔ پھر آپ نے فرمایا : کیا میں تمہیں ان تمام باتوں کا جس چیز پر دارومدار ہے وہ نہ بتادوں ؟ میں نے کہا : جی ہاں، اللہ کے نبی ! پھر آپ نے اپنی زبان پکڑی، اور فرمایا : اسے اپنے قابو میں رکھو ، میں نے کہا : اللہ کے نبی ! کیا ہم جو کچھ بولتے ہیں اس پر پکڑے جائیں گے ؟ آپ نے فرمایا : تمہاری ماں تم پر روئے، معاذ ! لوگ اپنی زبانوں کے بڑ بڑ ہی کی وجہ سے تو اوندھے منہ یا نتھنوں کے بل جہنم میں ڈالے جائیں گے ؟ ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الفتن ١٢ (٣٩٧٣) (تحفة الأشراف : ١١٣١١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : ان کی کروٹیں اپنے بستروں سے الگ رہتی ہیں ، اپنے رب کو خوف اور امید کے ساتھ پکارتے ہیں ، اور جو کچھ ہم نے انہیں دے رکھا ہے ، وہ خرچ کرتے ہیں ، کوئی نفس نہیں چاہتا جو کچھ ہم نے ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک ان کے لیے پوشیدہ کر رکھی ہے ، جو کچھ کرتے تھے یہ اس کا بدلہ ہے۔ (السجدہ : ١٦ - ١٧) ٢ ؎ : یہاں اسلام سے مراد کلمہ شہادتین کا اقرار اور اس کے تقاضے کو پورا کرنا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3973) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2616
حدیث نمبر: 2616 حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ الصَّنْعَانِيُّ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ أَبِي النَّجُودِ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْمُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، قَالَ:‏‏‏‏ كُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ، ‏‏‏‏‏‏فَأَصْبَحْتُ يَوْمًا قَرِيبًا مِنْهُ وَنَحْنُ نَسِيرُ فَقُلْتُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَخْبِرْنِي بِعَمَلٍ يُدْخِلُنِي الْجَنَّةَ، ‏‏‏‏‏‏وَيُبَاعِدُنِي عَنِ النَّارِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ لَقَدْ سَأَلْتَنِي عَنْ عَظِيمٍ وَإِنَّهُ لَيَسِيرٌ عَلَى مَنْ يَسَّرَهُ اللَّهُ عَلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏تَعْبُدُ اللَّهَ وَلَا تُشْرِكْ بِهِ شَيْئًا، ‏‏‏‏‏‏وَتُقِيمُ الصَّلَاةَ، ‏‏‏‏‏‏وَتُؤْتِي الزَّكَاةَ، ‏‏‏‏‏‏وَتَصُومُ رَمَضَانَ، ‏‏‏‏‏‏وَتَحُجُّ الْبَيْتَ ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ أَلَا أَدُلُّكَ عَلَى أَبْوَابِ الْخَيْرِ:‏‏‏‏ الصَّوْمُ جُنَّةٌ، ‏‏‏‏‏‏وَالصَّدَقَةُ تُطْفِئُ الْخَطِيئَةَ كَمَا يُطْفِئُ الْمَاءُ النَّارَ، ‏‏‏‏‏‏وَصَلَاةُ الرَّجُلِ مِنْ جَوْفِ اللَّيْلِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ ثُمَّ تَلَا:‏‏‏‏ تَتَجَافَى جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ سورة السجدة آية 16 حَتَّى بَلَغَ يَعْمَلُونَ سورة السجدة آية 19، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ أَلَا أُخْبِرُكَ بِرَأْسِ الْأَمْرِ كُلِّهِ وَعَمُودِهِ وَذِرْوَةِ سَنَامِهِ ؟ قُلْتُ:‏‏‏‏ بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ رَأْسُ الْأَمْرِ الْإِسْلَامُ، ‏‏‏‏‏‏وَعَمُودُهُ الصَّلَاةُ، ‏‏‏‏‏‏وَذِرْوَةُ سَنَامِهِ الْجِهَادُ ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ أَلَا أُخْبِرُكَ بِمَلَاكِ ذَلِكَ كُلِّهِ ؟ قُلْتُ:‏‏‏‏ بَلَى يَا نَبِيَّ اللَّهِ،‏‏‏‏ فَأَخَذَ بِلِسَانِهِ قَالَ:‏‏‏‏ كُفَّ عَلَيْكَ هَذَا ،‏‏‏‏ فَقُلْتُ:‏‏‏‏ يَا نَبِيَّ اللَّهِ وَإِنَّا لَمُؤَاخَذُونَ بِمَا نَتَكَلَّمُ بِهِ ؟ فَقَالَ:‏‏‏‏ ثَكِلَتْكَ أُمُّكَ يَا مُعَاذُ وَهَلْ يَكُبُّ النَّاسَ فِي النَّارِ عَلَى وُجُوهِهِمْ أَوْ عَلَى مَنَاخِرِهِمْ إِلَّا حَصَائِدُ أَلْسِنَتِهِمْ ،‏‏‏‏ قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ২৬১৭
ایمان کا بیان
نماز کی عظمت کے بارے میں
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم کسی شخص کو مسجد میں پابندی سے آتے جاتے دیکھو تو اس کے ایمان کی گواہی دو ۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : «إنما يعمر مساجد اللہ من آمن بالله واليوم الآخر وأقام الصلاة وآتی الزکاة» الآية اللہ کی مسجدوں کو تو وہ لوگ آباد کرتے ہیں جو اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں، نمازوں کے پابندی کرتے ہیں، زکاۃ دیتے ہیں، اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈرتے، توقع ہے کہ یہی لوگ یقیناً ہدایت یافتہ ہیں (سورۃ التوبہ : ١٨ ) ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/المساجد ١٨ (٨٠٢) (تحفة الأشراف : ٤٠٥٠) (ضعیف) (سند میں دراج ابوالسمح ضعیف راوی ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، ابن ماجة (802) // ضعيف سنن ابن ماجة (172) ، المشکاة (723) ، ضعيف الجامع الصغير (509) ، وسيأتي برقم (601 / 3304) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2617
حدیث نمبر: 2617 حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ دَرَّاجٍ أَبِي السَّمْحِ، عَنْ أَبِي الْهَيْثَمِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ إِذَا رَأَيْتُمُ الرَّجُلَ يَتَعَاهَدُ الْمَسْجِدَ فَاشْهَدُوا لَهُ بِالْإِيمَانِ فَإِنَّ اللَّهَ تَعَالَى يَقُولُ:‏‏‏‏ إِنَّمَا يَعْمُرُ مَسَاجِدَ اللَّهِ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ وَأَقَامَ الصَّلاةَ وَآتَى الزَّكَاةَ سورة التوبة آية 18 ،‏‏‏‏ قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ২৬১৮
ایمان کا بیان
ترک نماز کی وعید
جابر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : کفر اور ایمان کے درمیان فرق کرنے والی چیز نماز کا ترک کرنا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإیمان ٣٥ (٨٢) ، سنن ابی داود/ السنة ١٥ (٤٦٧٨) ، سنن النسائی/الصلاة ٨ (٤٦٥) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٧٧ (١٠٧٨) (تحفة الأشراف : ٢٣٠٣) ، و مسند احمد (٣/٣٧٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کفر اور بندے کے مابین حد فاصل نماز ہے ، اگر نماز ادا کرتا ہے تو صاحب ایمان ہے ، بصورت دیگر کافر ہے ، صحابہ کرام کسی نیک عمل کو چھوڑ دینے کو کفر نہیں خیال کرتے تھے ، سوائے نماز کے ، شیخ الاسلام ابن تیمیہ (رح) فرماتے ہیں : لوگوں کی اکثریت پنج وقتہ نماز کی پابند نہیں ہے اور نہ ہی اسے پورے طور پر چھوڑنے والی بلکہ کبھی پڑھ لیتے ہیں اور کبھی نہیں پڑھتے ، یہ ایسے لوگ ہیں جن میں ایمان و نفاق دونوں موجود ہیں ، ان پر اسلام کے ظاہری احکام جاری ہوں گے ، کیونکہ عبداللہ بن ابی جیسے خالص منافق پر جب یہ احکام جاری تھے تو نماز سے غفلت اور سستی برتنے والوں پر تو بدرجہ اولیٰ جاری ہوں گے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1078) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2618
حدیث نمبر: 2618 حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ،‏‏‏‏ وَأَبُو مُعَاوِيَةَ،‏‏‏‏ عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي سُفْيَانَ، عَنْ جَابِرٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:‏‏‏‏ بَيْنَ الْكُفْرِ وَالْإِيمَانِ تَرْكُ الصَّلَاةِ ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَسْبَاطُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنِ الْأَعْمَشِ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَهُ،‏‏‏‏ وَقَالَ:‏‏‏‏ بَيْنَ الْعَبْدِ وَبَيْنَ الشِّرْكِ أَوِ الْكُفْرِ تَرْكُ الصَّلَاةِ .
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ২৬১৯
ایمان کا بیان
ترک نماز کی وعید
جابر (رض) سے اس سند سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : بندے اور شرک یا بندے اور کفر کے درمیان فرق کرنے والی چیز نماز کا چھوڑ دینا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح انظر ما قبله (2618) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2619
حدیث نمبر: 2619 حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَسْبَاطُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنِ الأَعْمَشِ بِهَذَا الإِسْنَادِ، نَحْوَهُ. وَقَالَ:بَيْنَ الْعَبْدِ وَبَيْنَ الشِّرْكِ أَوِ الْكُفْرِ تَرْكُ الصَّلاَةِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَأَبُو سُفْيَانَ اسْمُهُ طَلْحَةُ بْنُ نَافِعٍ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ২৬২০
ایمان کا بیان
ترک نماز کی وعید
جابر (رض) سے اس سند بھی مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بندے اور کفر کے درمیان فرق کرنے والی چیز نماز کا چھوڑ دینا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (تحفة الأشراف : ٢٧٤٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح بما قبله (2619) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2620
حدیث نمبر: 2620 حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ بَيْنَ الْعَبْدِ وَبَيْنَ الْكُفْرِ تَرْكُ الصَّلَاةِ ،‏‏‏‏ قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبُو الزُّبَيْرِ اسْمُهُ:‏‏‏‏ مُحَمَّدُ بْنُ مُسْلِمِ بْنِ تَدْرُسَ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ২৬২১
ایمان کا بیان
ترک نماز کی وعید
بریدہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ہمارے اور منافقین کے درمیان نماز کا معاہدہ ہے ١ ؎ تو جس نے نماز چھوڑ دی اس نے کفر کیا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، ٢ - اس باب میں انس اور ابن عباس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الصلاة ٨ (٤٦٤) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٧٧ (١٠٧٩) (تحفة الأشراف : ١٩٦٠) ، و مسند احمد (٥/٣٤٦، ٣٥٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی جب تک وہ نماز پڑھتے رہیں گے ہم ان پر اسلام کے احکام جاری رکھیں گے ، اور جب نماز چھوڑ دیں گے تو کفار کے احکام ان پر جاری ہوں گے ، کیونکہ ہمارے اور ان کے درمیان معاہدہ نماز ہے ، اور جب نماز چھوڑ دی تو گویا معاہدہ ختم ہوگیا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1079) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2621
حدیث نمبر: 2621 حَدَّثَنَا أَبُو عَمَّارٍ الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ، وَيُوسُفُ بْنُ عِيسَى،‏‏‏‏ قَالَا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى، عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ وَاقِدٍ. ح وَحَدَّثَنَا أَبُو عَمَّارٍ الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ، وَمَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ،‏‏‏‏ قَالَا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ بْنِ وَاقِدٍ، عَنْ أَبِيهِ. ح وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ الْحَسَنِ بْنِ شَقِيقٍ،‏‏‏‏ وَمَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ،‏‏‏‏ قَالَا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ شَقِيقٍ، عَنِالْحُسَيْنِ بْنِ وَاقِدٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ الْعَهْدُ الَّذِي بَيْنَنَا وَبَيْنَهُمُ الصَّلَاةُ فَمَنْ تَرَكَهَا فَقَدْ كَفَرَ ،‏‏‏‏ وفي الباب عن أَنَسٍ، ‏‏‏‏‏‏وَابْنِ عَبَّاسٍ،‏‏‏‏ قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ২৬২২
ایمان کا بیان
ترک نماز کی وعید
عبداللہ بن شقیق عقیلی کہتے ہیں کہ صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم) نماز کے سوا کسی عمل کے چھوڑ دینے کو کفر نہیں سمجھتے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : میں نے ابومصعب مدنی کو کہتے ہوئے سنا کہ جو یہ کہے کہ ایمان صرف قول (یعنی زبان سے اقرار کرنے) کا نام ہے اس سے توبہ کرائی جائے گی، اگر اس نے توبہ کرلی تو ٹھیک، ورنہ اس کی گردن مار دی جائے گی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : لم یذکرہ المزي في المراسیل) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح الترغيب (1 / 227 / 564) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2622
حدیث نمبر: 2622 حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ، عَنِ الْجُرَيْرِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ الْعُقَيْلِيِّ، قَالَ:‏‏‏‏ كَانَ أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ لَا يَرَوْنَ شَيْئًا مِنَ الْأَعْمَالِ تَرْكُهُ كُفْرٌ غَيْرَ الصَّلَاةِ ،‏‏‏‏ قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ سَمِعْت أَبَا مُصْعَبٍ الْمَدَنِيَّ،‏‏‏‏ يَقُولُ:‏‏‏‏ مَنْ قَالَ الْإِيمَانُ قَوْلٌ يُسْتَتَابُ فَإِنْ تَابَ وَإِلَّا ضُرِبَتْ عُنُقُهُ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ২৬২৩
ایمان کا بیان
عباس بن عبدالمطلب (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : جو شخص اللہ کے رب ہونے اسلام کے دین ہونے اور محمد ﷺ کے نبی ہونے پر راضی (اور خوش) ہوا اس نے ایمان کا مزہ پا لیا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإیمان ١١ (٣٤) (تحفة الأشراف : ٥١٢٧) ، و مسند احمد (١/٢٠٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی جو اللہ ہی سے ہر چیز کا طالب ہوا ، اسلام کی راہ کو چھوڑ کر کسی دوسری راہ پر نہیں چلا اور نبی اکرم ﷺ کی لائی ہوئی شریعت پر اس نے عمل کیا تو ایسے شخص کو ایمان کی مٹھاس مل کر رہے گی ، کیونکہ اس کا دل ایمان سے پر ہوگا ، اور ایمان اس کے اندر پورے طور پر رچا بسا ہوگا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2623
حدیث نمبر: 2623 حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ ابْنِ الْهَادِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، عَنِ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:‏‏‏‏ ذَاقَ طَعْمَ الْإِيمَانِ مَنْ رَضِيَ بِاللَّهِ رَبًّا وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا وَبِمُحَمَّدٍ نَبِيًّا ،‏‏‏‏ قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ২৬২৪
ایمان کا بیان
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس میں تین خصلتیں ہوں گی اسے ان کے ذریعہ ایمان کی حلاوت مل کر رہے گی۔ ( ١ ) جس کے نزدیک اللہ اور اس کا رسول سب سے زیادہ محبوب ہوں۔ ( ٢ ) وہ جس کسی سے بھی محبت کرے تو صرف اللہ کی رضا کے لیے کرے، ( ٣ ) کفر سے اللہ کی طرف سے ملنے والی نجات کے بعد کفر کی طرف لوٹنا اس طرح ناپسند کرے جس طرح آگ میں گرنا ناپسند کرتا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - قتادہ نے بھی یہ حدیث انس کے واسطے سے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الإیمان ٩ (١٦) و ١٤ (٢١) ، والأدب ٤٢ (٦٠٤١) ، ووالإکراہ ١ (٦٩٤١) ، صحیح مسلم/الإیمان ١٥ (٤٣) ، سنن النسائی/الإیمان ٢ (٤٩٩٠) ، و ٣ (٤٩٩١) ، سنن ابن ماجہ/الفتن ٢٣ (٤٠٣٣) (تحفة الأشراف : ٩٤٦) ، و مسند احمد (٣/١٠٣، ١١٤، ١٧٢، ١٧٤، ٢٣٠، ٢٤٨، ٢٧٥، ٢٨٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (4033) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2624
حدیث نمبر: 2624 حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ الثَّقَفِيُّ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ أَنَسٍ بْنِ مَالِكٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:‏‏‏‏ ثَلَاثٌ مَنْ كُنَّ فِيهِ وَجَدَ بِهِنَّ طَعْمَ الْإِيمَانِ:‏‏‏‏ مَنْ كَانَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِمَّا سِوَاهُمَا، ‏‏‏‏‏‏وَأَنْ يُحِبَّ الْمَرْءَ لَا يُحِبُّهُ إِلَّا لِلَّهِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنْ يَكْرَهَ أَنْ يَعُودَ فِي الْكُفْرِ بَعْدَ إِذْ أَنْقَذَهُ اللَّهُ مِنْهُ كَمَا يَكْرَهُ أَنْ يُقْذَفَ فِي النَّارِ ،‏‏‏‏ قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ رَوَاهُ قَتَادَةُ، عَنْ أَنَسٍ بْنِ مَالِكٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ২৬২৫
ایمان کا بیان
کوئی زانی زنا کرتے ہوئے حامل ایمان نہیں رہتا
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب زنا کرنے والا زنا کرتا ہے تو زنا کے وقت اس کا ایمان نہیں رہتا ١ ؎ اور جب چوری کرنے والا چوری کرتا ہے تو چوری کے وقت اس کا ایمان نہیں رہتا، لیکن اس کے بعد بھی توبہ کا دروازہ کھلا ہوا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - اس سند سے ابوہریرہ (رض) کی حدیث حسن صحیح غریب ہے، ٢ - اس باب میں ابن عباس، عائشہ اور عبداللہ بن ابی اوفی (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ ابوہریرہ (رض) سے ایک اور حدیث مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب آدمی زنا کرتا ہے تو ایمان اس کے اندر سے نکل کر اس کے سر کے اوپر چھتری جیسا (معلق) ہوجاتا ہے، اور جب اس فعل (شنیع) سے فارغ ہوجاتا ہے تو ایمان اس کے پاس لوٹ آتا ہے ۔ ابو جعفر محمد بن علی (اس معاملہ میں) کہتے ہیں : جب وہ ایسی حرکت کرتا ہے تو ایمان سے نکل کر صرف مسلم رہ جاتا ہے۔ علی ابن ابی طالب، عبادہ بن صامت اور خزیمہ بن ثابت سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے زنا اور چوری کے سلسلے میں فرمایا : اگر کوئی شخص اس طرح کے کسی گناہ کا مرتکب ہوجائے اور اس پر حد جاری کردی جائے تو یہ (حد کا اجراء) اس کے گناہ کا کفارہ ہوجائے گا۔ اور جس شخص سے اس سلسلے میں کوئی گناہ سرزد ہوگیا پھر اللہ نے اس کی پردہ پوشی کردی تو وہ اللہ کی مشیت پر منحصر ہے اگر وہ چاہے تو اسے قیامت کے دن عذاب دے اور چاہے تو اسے معاف کر دے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الإیمان ٣٠ (٢٤٧٥) ، والأشربة ١ (٥٥٧٨) ، والحدود ٢ (٦٧٧٢) ، و ٢٠ (٦٨١٠) ، صحیح مسلم/الإیمان ٢٣ (٥٧) ، سنن ابی داود/ السنة ١٦ (٤٦٨٩) ، سنن النسائی/قطع السارق ١ (٤٨٨٦) ، والأشربة ٤٢ (٥٦٧٥) (تحفة الأشراف : ١٢٥٣٩) ، و مسند احمد (٢/٢٤٣، ٣٧٦، ٣٨٦، ٤٧٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ زنا کے وقت مومن کامل نہیں رہتا ، یا یہ مطلب ہے کہ اگر وہ عمل زنا کو حرام سمجھتا ہے تو اس کا ایمان جاتا رہتا ہے ، پھر زنا سے فارغ ہونے کے بعد اس کا ایمان لوٹ آتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3936) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2625
حدیث نمبر: 2625 حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا عَبِيدَةُ بْنُ حُمَيْدٍ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ لَا يَزْنِي الزَّانِي حِينَ يَزْنِي وَهُوَ مُؤْمِنٌ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا يَسْرِقُ السَّارِقُ حِينَ يَسْرِقُ وَهُوَ مُؤْمِنٌ، ‏‏‏‏‏‏وَلَكِنِ التَّوْبَةَ مَعْرُوضَةٌ ،‏‏‏‏ وفي الباب عن ابْنِ عَبَّاسٍ، ‏‏‏‏‏‏وَعَائِشَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي أَوْفَى،‏‏‏‏ قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ. (حديث مرفوع) (حديث موقوف) وَقَدْ رُوِيَ عَنْ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:‏‏‏‏ إِذَا زَنَى الْعَبْدُ خَرَجَ مِنْهُ الْإِيمَانُ فَكَانَ فَوْقَ رَأْسِهِ كَالظُّلَّةِ فَإِذَا خَرَجَ مِنْ ذَلِكَ الْعَمَلِ عَادَ إِلَيْهِ الْإِيمَانُ ،‏‏‏‏ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ أَنَّهُ قَالَ فِي هَذَا:‏‏‏‏ خَرَجَ مِنَ الْإِيمَانِ إِلَى الْإِسْلَامِ. (حديث مرفوع) (حديث موقوف) وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ،‏‏‏‏ وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ،‏‏‏‏ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ:‏‏‏‏ فِي الزِّنَا وَالسَّرِقَةِ مَنْ أَصَابَ مِنْ ذَلِكَ شَيْئًا فَأُقِيمَ عَلَيْهِ الْحَدُّ فَهُوَ كَفَّارَةُ ذَنْبِهِ وَمَنْ أَصَابَ مِنْ ذَلِكَ شَيْئًا فَسَتَرَ اللَّهُ عَلَيْهِ فَهُوَ إِلَى اللَّهِ إِنْ شَاءَ عَذَّبَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَإِنْ شَاءَ غَفَرَ لَهُ ، ‏‏‏‏‏‏رَوَى ذَلِكَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ، ‏‏‏‏‏‏وَعُبَادَةُ بْنُ الصَّامِتِ، ‏‏‏‏‏‏وَخُزَيْمَةُ بْنُ ثَابِتٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
tahqiq

তাহকীক: