আল জামিউল কাবীর- ইমাম তিরমিযী রহঃ (উর্দু)
الجامع الكبير للترمذي
علم کا بیان - এর পরিচ্ছেদসমূহ
মোট হাদীস ২০ টি
হাদীস নং: ২৬৪৫
علم کا بیان
اس بارے میں کہ جب اللہ تعالیٰ کسی بندے سے بھلائی کا ارادہ کرتے ہیں تو اسے دین کی سمجھ عطا کردیتے ہیں
 عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا :  جس کے ساتھ اللہ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے، تو اسے دین کی سمجھ عطا کردیتا ہے   ١ ؎۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١  - یہ حدیث حسن صحیح ہے،  ٢ - اس باب میں عمر، ابوہریرہ، اور معاویہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔    تخریج دارالدعوہ :  تفرد بہ المؤلف (٥٦٦٧) ، وانظر مسند احمد (١/٣٠٦) (صحیح  )    وضاحت :  ١ ؎ : دین کی سمجھ سے مراد کتاب و سنت کا علم ، ذخیرہ احادیث میں صحیح ، ضعیف اور موضوع روایات کا علم ، اسلامی شریعت کے احکام و مسائل کا علم اور حلال و حرام میں تمیز پیدا کرنے کا ملکہ ہے ، اس نظر یہ سے اگر دیکھا جائے تو صحابہ کرام ، محدثین عظام سے بڑھ کر اس حدیث کا مصداق اور کون ہوسکتا ہے ، جنہوں نے بےانتہائی محنت کر کے احادیث کے منتشر ذخیرہ کو جمع کیا اور پھر انہیں مختلف کتب و ابواب کے تحت فقہی انداز میں مرتب کیا ، افسوس صد افسوس ایسے لوگوں پر جو محدثین کی ان خدمات جلیلہ کو نظر انداز کر کے ایسے لوگوں کو فقیہ گردانتے ہیں جن کی فقاہت میں کتاب و سنت کی بجائے ان کی اپنی آراء کا زیادہ دخل ہے جب کہ محدثین کرام نے اپنی آراء سے یکسر اجتناب کیا ہے۔    قال الشيخ الألباني :  صحيح، ابن ماجة (220)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2645  
حدیث نمبر: 2645  حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدِ بْنِ أَبِي هِنْدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:  مَنْ يُرِدِ اللَّهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّينِ ، وفي الباب عن عُمَرَ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَمُعَاوِيَةَ، هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ২৬৪৬
علم کا بیان
طلب علم کی فضیلت
 ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا :  جو علم حاصل کرنے کے ارادہ سے کہیں جائے، تو اللہ اس کے لیے جنت کے راستے کو آسان  (و ہموار)  کردیتا ہے   ١ ؎۔    امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن ہے۔    تخریج دارالدعوہ :  صحیح مسلم/الذکر والدعاء ١٨ (٢٦٩٩) ، سنن ابی داود/ العلم ١ (٣٦٤٣) ، سنن ابن ماجہ/المقدمة ١٧ (٢٢٥) ، ویأتي في القراءت ١٢ (٢٩٤٥) (تحفة الأشراف : ١٢٤٨٦) ، و مسند احمد (٢/٢٥٢، ٣٢٥، ٤٠٧) ، وسنن الدارمی/المقدمة ٣٢ (٣٥٦) (صحیح  )    وضاحت :  ١ ؎ : اس حدیث سے علم کی فضیلت ثابت ہوتی ہے ، معلوم ہوا کہ علم کے حصول کے لیے سفر کرنا مستحب ہے ، موسیٰ (علیہ السلام) نے خضر (علیہ السلام) کے ساتھ علم حاصل کرنے کے لیے سفر کیا ، اور عبداللہ بن قیس (رض) سے ایک حدیث کے علم کے لیے جابر بن عبداللہ (رض) نے ایک مہینہ کا سفر طے کیا ، علماء سلف حدیث کی طلب میں دور دراز کا سفر کرتے تھے ، اگر خلوص نیت کے ساتھ علم شرعی کے حصول کی کوشش کی جائے تو اللہ رب العالمین جنت کا راستہ آسان کردیتا ہے۔    قال الشيخ الألباني :  صحيح، ابن ماجة (225)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2646  
حدیث نمبر: 2646  حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:  مَنْ سَلَكَ طَرِيقًا يَلْتَمِسُ فِيهِ عِلْمًا سَهَّلَ اللَّهُ لَهُ طَرِيقًا إِلَى الْجَنَّةِ ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ২৬৪৭
علم کا بیان
طلب علم کی فضیلت
 انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا :  جو شخص علم حاصل کرنے کے لیے نکلے تو وہ لوٹنے تک اللہ کی راہ میں  (شمار)  ہوگا  ١ ؎۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١ - یہ حدیث حسن غریب ہے،  ٢ - بعض اہل علم نے اسے غیر مرفوع روایت کیا ہے۔    تخریج دارالدعوہ :  تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٨٣٠) (حسن) (اس کے تین رواة ” خالد بن یزید “ ابو جعفر رازی “ اور ” ربیع بن انس “ پر کلام ہے، اور حدیث کی تحسین ترمذی نے کی ہے اور ضیاء مقدسی نے اسے احادیث مختارہ میں ذکر کیا ہے، نیز ابوہریرہ کے شاہد سے تقویت پا کر یہ حدیث حسن ہے، ملاحظہ ہو : صحیح الترغیب ٨٧، ٨٨، السراج المنیر ٢٥٤، و الضعیفة رقم ٢٠٣٧، تراجع الألبانی ٣٥٤  )    وضاحت :  ١ ؎ : معلوم ہوا کہ علم حاصل کرنے والا مجاہد فی سبیل اللہ کے برابر ہے۔    قال الشيخ الألباني :  ضعيف، المشکاة (220) ، الضعيفة (2037) ، الروض النضير (109) // ضعيف الجامع الصغير (5570) //   صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2647  
حدیث نمبر: 2647  حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ يَزِيدَ الْعَتَكِيُّ، عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ الرَّازِيِّ، عَنْ الرَّبِيعِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:  مَنْ خَرَجَ فِي طَلَبِ الْعِلْمِ فَهُوَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ حَتَّى يَرْجِعَ ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَرَوَاهُ بَعْضُهُمْ فَلَمْ يَرْفَعْهُ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ২৬৪৮
علم کا بیان
طلب علم کی فضیلت
 سخبرہ (رض) سے روایت ہے کہ  نبی اکرم  ﷺ  نے فرمایا :  جو علم حاصل کرے گا تو یہ اس کے پچھلے گناہوں کا کفارہ بن جائے گا ۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١ - اس حدیث کی سند ضعیف ہے،  ٢ - راوی ابوداود نفیع اعمی حدیث بیان کرنے میں ضعیف ہیں،  ٣ - ہم عبداللہ بن سخبرہ سے مروی زیادہ حدیثیں نہیں جانتے اور نہ ان کے باپ کی  (یعنی یہ دونوں باپ بیٹے غیر معروف قسم کے لوگ ہیں) ، ابوداؤد کا نام نفیع الاعمیٰ ہے۔ ان کے بارے میں قتادہ اور دوسرے بہت سے اہل علم نے کلام کیا ہے۔    تخریج دارالدعوہ :  تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٣٨١٤) (موضوع) (سند میں ابوداود نفیع اعمی متروک الحدیث راوی ہے، دیکھئے : الضعیفة ٥٠١٧  )    قال الشيخ الألباني :  موضوع، المشکاة (221) ، الضعيفة (5017) // ضعيف الجامع الصغير (5686) //   صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2648  
حدیث نمبر: 2648  حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ الرَّازِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُعَلَّى، حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ خَيْثَمَةَ، عَنْ أَبِي دَاوُدَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَخْبَرَةَ، عَنْ سَخْبَرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:  مَنْ طَلَبَ الْعِلْمَ كَانَ كَفَّارَةً لِمَا مَضَى ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ ضَعِيفُ الْإِسْنَادِ، أَبُو دَاوُدَ يُضَعَّفُ فِي الْحَدِيثِ، وَلَا نَعْرِفُ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَخْبَرَةَ كَبِيرَ شَيْءٍ وَلَا لِأَبِيهِ، وَاسْمُ أَبِي دَاوُدَ: نُفَيْعٌ الْأَعْمَى تَكَلَّمَ فِيهِ قَتَادَةُ وَغَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ২৬৪৯
علم کا بیان
علم کو چھپانا
 ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا :  جس سے علم دین کی کوئی ایسی بات پوچھی جائے جسے وہ جانتا ہے، پھر وہ اسے چھپائے تو قیامت کے دن اسے آگ کی لگام پہنائی جائے گی   ١ ؎۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١ - ابوہریرہ (رض) کی حدیث حسن ہے،  ٢ - اس باب میں جابر اور عبداللہ بن عمرو (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔    تخریج دارالدعوہ :  سنن ابی داود/ العلم ٩ (٣٦٥٨) ، سنن ابن ماجہ/المقدمة ٢٤ (٢٦١) (تحفة الأشراف : ١٤١٩٦) (صحیح  )    وضاحت :  ١ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہو کہ علم دین سے متعلق سوال کرنے والے کو دین کی صحیح بات نہ بتلانا یا دین کی معلومات حاصل کرنے سے متعلق و سائل (مثلاً کتابوں وغیرہ) کا انکار کردینا سخت وعید اور گناہ کا باعث ہے ، اسی طرح دین کے صحیح مسائل کو اس کی جانکاری کے باوجود چھپانا اور لوگوں کے سامنے واضح نہ کرنا باعث گناہ ہے۔    قال الشيخ الألباني :  صحيح، ابن ماجة (264)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2649  
حدیث نمبر: 2649  حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ بُدَيْلِ بْنِ قُرَيْشٍ الْيَامِيُّ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ زَاذَانَ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحَكَمِ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:  مَنْ سُئِلَ عَنْ عِلْمٍ عَلِمَهُ ثُمَّ كَتَمَهُ أُلْجِمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِلِجَامٍ مِنْ نَارٍ ، وفي الباب عن جَابِرٍ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ২৬৫০
علم کا بیان
طالب علم کے ساتھ خیر خواہی کرنا
 ابوہارون کہتے ہیں کہ  ہم ابو سعید خدری (رض) کے پاس  (علم دین حاصل کرنے کے لیے)  آتے، تو وہ کہتے : اللہ کے رسول  ﷺ  کی وصیت کے مطابق تمہیں خوش آمدید، رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا :  لوگ تمہارے پیچھے ہیں  ١ ؎ کچھ لوگ تمہارے پاس زمین کے گوشہ گوشہ سے علم دین حاصل کرنے کے لیے آئیں گے تو جب وہ تمہارے پاس آئیں تو تم ان کے ساتھ بھلائی کرنا ۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١ - علی بن عبداللہ بن المدینی نے کہا : یحییٰ بن سعید کہتے تھے : شعبہ ابوہارون عبدی کو ضعیف قرار دیتے تھے،  ٢ - یحییٰ بن سعید کہتے ہیں : ابن عون جب تک زندہ رہے ہمیشہ ابوہارون عبدی سے روایت کرتے رہے،  ٣ - ابوہارون کا نام عمارہ بن جو ین ہے۔    تخریج دارالدعوہ :  سنن ابن ماجہ/المقدمة ٢٢ (٢٤٩) (تحفة الأشراف : ٤٢٦٢) (ضعیف) (سند میں ابو ہارون العیدی عمارة بن جو ین مشہور کذابین میں سے ہے  )    وضاحت :  ١ ؎ : یعنی لوگ تمہارے افعال و اقوال کے تابع ہیں ، چونکہ تم نے مجھ سے مکارم اخلاق کی تعلیم حاصل کی ہے ، اس لیے تمہارے بعد آنے والے تمہارے مطیع و پیروکار ہوں گے اس لیے ان کی دلجوئی کرتے ہوئے ان کے ساتھ بھلائی کرنا۔    قال الشيخ الألباني :  ضعيف، ابن ماجة (249) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (50) ، المشکاة (215) ، ضعيف الجامع الصغير (1797) //   صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2650  
حدیث نمبر: 2650  حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الْحَفَرِيُّ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِي هَارُونَ الْعَبْدِيِّ، قَالَ: كُنَّا نَأْتِي أَبَا سَعِيدٍفَيَقُولُ: مَرْحَبًا بِوَصِيَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:  إِنَّ النَّاسَ لَكُمْ تَبَعٌ وَإِنَّ رِجَالًا يَأْتُونَكُمْ مِنْ أَقْطَارِ الْأَرَضِينَ يَتَفَقَّهُونَ فِي الدِّينِ فَإِذَا أَتَوْكُمْ فَاسْتَوْصُوا بِهِمْ خَيْرًا ، قَالَ أَبُو عِيسَى: قَالَ عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ: قَالَ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ: كَانَ شُعْبَةُ يُضَعِّفُ أَبَا هَارُونَ الْعَبْدِيَّ، قَالَ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ: مَا زَالَ ابْنُ عَوْنٍ يَرْوِي، عَنْ أَبِي هَارُونَ الْعَبْدِيِّ حَتَّى مَاتَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَأَبُو هَارُونَ اسْمُهُ: عُمَارَةُ بْنُ جُوَيْنٍ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ২৬৫১
علم کا بیان
طالب علم کے ساتھ خیر خواہی کرنا
 ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ  نبی اکرم  ﷺ  نے فرمایا :  تمہارے پاس پورب سے لوگ علم حاصل کرنے کے لیے آئیں گے پس جب وہ تمہارے پاس آئیں تو ان کے ساتھ بھلائی کرنا ۔ راوی حدیث کہتے ہیں : ابو سعید خدری (رض) کا حال یہ تھا کہ جب وہ ہمیں  (طالبان علم دین کو)  دیکھتے تو رسول اللہ  ﷺ  کی وصیت کے مطابق ہمیں خوش آمدید کہتے۔    امام ترمذی کہتے ہیں : ہم اس حدیث کو صرف ابوہارون کی روایت سے جانتے ہیں اور وہ ابو سعید خدری (رض) سے روایت کرتے ہیں۔    تخریج دارالدعوہ :  انظر ماقبلہ (ضعیف  )    قال الشيخ الألباني :  ضعيف، ابن ماجة (249) // ضعيف سنن ابن ماجة الصفحة (19) ، ضعيف الجامع الصغير  (6411 ) //   صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2651  
حدیث نمبر: 2651  حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا نُوحُ بْنُ قَيْسٍ، عَنْ أَبِي هَارُونَ الْعَبْدِيِّ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:  يَأْتِيكُمْ رِجَالٌ مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ يَتَعَلَّمُونَ، فَإِذَا جَاءُوكُمْ فَاسْتَوْصُوا بِهِمْ خَيْرًا ، قَالَ: فَكَانَ أَبُو سَعِيدٍ إِذَا رَآنَا قَالَ: مَرْحَبًا بِوَصِيَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ أَبِي هَارُونَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ২৬৫২
علم کا بیان
دنیا سے علم کے اٹھ جانے کے متعلق
 عبداللہ بن عمرو بن عاص (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا :  اللہ تعالیٰ علم اس طرح نہیں اٹھائے گا کہ اسے لوگوں کے سینوں سے کھینچ لے، لیکن وہ علم کو علماء کی وفات کے ذریعہ سے اٹھائے گا، یہاں تک کہ جب وہ کسی عالم کو باقی نہیں رکھے گا تو لوگ اپنا سردار جاہلوں کو بنالیں گے، ان سے مسئلے پوچھے جائیں گے تو وہ بغیر علم کے فتوے دیں گے، وہ خود گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے   ١ ؎۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے،  ٢ - یہ حدیث زہری نے عروہ سے اور عروہ نے عبداللہ بن عمرو سے روایت کی ہے، اور زہری نے  (ایک دوسری سند سے)  عروہ سے اور عروہ نے عائشہ (رض) کے واسطہ سے نبی اکرم  ﷺ  سے اسی طرح روایت کی ہے،  ٣ - اس باب میں عائشہ اور زیاد بن لبید سے بھی روایت ہے۔    تخریج دارالدعوہ :  صحیح البخاری/العلم ٣٤ (١٠٠) ، والإعتصام ٨ (٧٣٠٧) ، صحیح مسلم/العلم ٥ (٢٦٧٣) ، سنن ابن ماجہ/المقدمة ٨ (٥٢) (تحفة الأشراف : ٨٨٨٣) ، و مسند احمد (٢/١٦٢، ١٩٠) ، وسنن الدارمی/المقدمة ٢٦ (٢٤٥) (صحیح  )    وضاحت :  ١ ؎ : یہ قرب قیامت کی نشانیوں میں سے ہے کہ علمائے دین ختم ہوجائیں گے ، جاہل پیشوا ، امام اور سردار بن جائیں گے ، انہیں قرآن و حدیث کا کچھ بھی علم نہیں ہوگا ، پھر بھی یہ مجتہد و مفتی بن کر دینی مسائل کو بیان کریں گے ، اپنے فتووں اور من گھڑت مسئلوں کے ساتھ یہ دوسروں کی گمراہی کا باعث بنیں گے۔ اے رب العالمین ! اس امت کو ایسے جاہل پیشوا اور امام سے محفوظ رکھ ، آمین۔    قال الشيخ الألباني :  صحيح، ابن ماجة (52)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2652  
حدیث نمبر: 2652  حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ إِسْحَاق الْهَمْدَانِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:  إِنَّ اللَّهَ لَا يَقْبِضُ الْعِلْمَ انْتِزَاعًا يَنْتَزِعُهُ مِنَ النَّاسِ، وَلَكِنْ يَقْبِضُ الْعِلْمَ بِقَبْضِ الْعُلَمَاءِ، حَتَّى إِذَا لَمْ يَتْرُكْ عَالِمًا اتَّخَذَ النَّاسُ رُءُوسًا جُهَّالًا، فَسُئِلُوا فَأَفْتَوْا بِغَيْرِ عِلْمٍ فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا ، وفي الباب عن عَائِشَةَ، وَزِيَادِ بْنِ لَبِيدٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ الزُّهْرِيُّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، وَعَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَ هَذَا.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ২৬৫৩
علم کا بیان
دنیا سے علم کے اٹھ جانے کے متعلق
 ابو الدرداء (رض) کہتے ہیں کہ  ہم رسول اللہ  ﷺ  کے ساتھ تھے، اچانک آپ نے اپنی نظریں آسمان پر گاڑ دیں، پھر فرمایا :  ایسا وقت  (آ گیا)  ہے کہ جس میں لوگوں کے سینوں سے علم اچک لیا جائے گا۔ یہاں تک کہ لوگوں کے پاس کچھ بھی علم نہیں ہوگا، زیاد بن لبید انصاری نے کہا :  (اللہ کے رسول ! )  علم ہم سے کس طرح چھین لیا جائے گا جب کہ ہم قرآن پڑھتے ہوں گے۔ قسم اللہ کی ! ہم ضرور اسے پڑھیں گے اور ہم ضرور اپنی عورتوں کو اسے پڑھائیں گے اور اپنے بچوں کو سکھائیں گے۔ آپ نے فرمایا :  اے زیاد تمہاری ماں تمہیں کھو دے ! میں تو تمہیں اہل مدینہ کے فقہاء میں سے شمار کرتا تھا۔ یہ تورات اور انجیل بھی تو پاس ہے یہود و نصاریٰ کے کیا کام آئی ان کے ؟   ١ ؎  (کیا فائدہ پہنچایا تورات اور انجیل نے ان کو ؟ ) ۔ جبیر  (راوی)  کہتے ہیں : میری ملاقات عبادہ بن صامت (رض) سے ہوئی تو میں نے ان سے کہا : کیا آپ نہیں سنتے کہ آپ کے بھائی ابوالدرداء (رض) کیا کہتے ہیں ؟ پھر ابوالدرداء (رض) نے جو کہا تھا وہ میں نے انہیں بتادیا۔ انہوں نے کہا : ابوالدرداء (رض) نے سچ کہا۔ اور اگر تم  (مزید)  جاننا چاہو تو میں تمہیں بتاسکتا ہوں کہ پہلے پہل لوگوں سے اٹھا لیا جانے والا علم، خشوع ہے۔ عنقریب ایسا وقت آئے گا کہ تم جامع مسجد کے اندر جاؤ گے لیکن وہاں تمہیں کوئی  (صحیح معنوں میں)  خشوع خضوع اپنانے والا شخص دکھائی نہ دے گا۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١ - یہ حدیث حسن غریب ہے،  ٢ - معاویہ بن صالح محدثین کے نزدیک ثقہ ہیں۔ اور یحییٰ بن سعید قطان کے سوا ہم کسی کو نہیں جانتے کہ اس نے ان کے متعلق کچھ کلام کیا ہو،  ٣ - معاویہ بن صالح سے بھی اسی طرح کی حدیث مروی ہے،  ٤ - بعضوں نے یہ حدیث عبدالرحمٰن بن جبیر بن نفیر سے، عبدالرحمٰن نے اپنے والد جبیر سے، جبیر نے عوف بن مالک سے اور عوف بن مالک نے بنی اکرم  ﷺ  سے روایت کی ہے۔    تخریج دارالدعوہ :  تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٠٩٢٨) (صحیح  )    وضاحت :  ١ ؎ : یعنی ان کتابوں نے انہیں کیا فائدہ پہنچایا ؟ جس طرح یہود و نصاریٰ تورات و انجیل کو پا کر اس سے فائدہ نہ اٹھا سکے ، قرب قیامت میں یہی حال تم مسلمانوں کا بھی ہوگا ، کیونکہ تمہارے اچھے علماء ختم ہوجائیں گے ، اور قرآن تمہارے پاس ہوگا ، پھر بھی تم اس کے فیض سے محروم رہو گے۔    قال الشيخ الألباني :  صحيح تخريج اقتضاء العلم العمل (89)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2653  
حدیث نمبر: 2653  حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنِي مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ، عَنْ أَبِيهِ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ، قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَشَخَصَ بِبَصَرِهِ إِلَى السَّمَاءِ ثُمَّ قَالَ:  هَذَا أَوَانُ يُخْتَلَسُ الْعِلْمُ مِنَ النَّاسِ حَتَّى لَا يَقْدِرُوا مِنْهُ عَلَى شَيْءٍ ، فَقَالَ زِيَادُ بْنُ لَبِيدٍ الْأَنْصَارِيُّ: كَيْفَ يُخْتَلَسُ مِنَّا وَقَدْ قَرَأْنَا الْقُرْآنَ ؟ فَوَاللَّهِ لَنَقْرَأَنَّهُ، وَلَنُقْرِئَنَّهُ نِسَاءَنَا، وَأَبْنَاءَنَا، فَقَالَ:  ثَكِلَتْكَ أُمُّكَ يَا زِيَادُ إِنْ كُنْتُ لَأَعُدُّكَ مِنْ فُقَهَاءِ أَهْلِ الْمَدِينَةِ، هَذِهِ التَّوْرَاةُ وَالْإِنْجِيلُ عِنْدَ الْيَهُودِ، وَالنَّصَارَى فَمَاذَا تُغْنِي عَنْهُمْ ، قَالَ جُبَيْرٌ: فَلَقِيتُ عُبَادَةَ بْنَ الصَّامِتِ، قُلْتُ: أَلَا تَسْمَعُ إِلَى مَا يَقُولُ أَخُوكَ أَبُو الدَّرْدَاءِ ؟ فَأَخْبَرْتُهُ بِالَّذِي قَالَ أَبُو الدَّرْدَاءِ، قَالَ:  صَدَقَ أَبُو الدَّرْدَاءِ إِنْ شِئْتَ لَأُحَدِّثَنَّكَ بِأَوَّلِ عِلْمٍ يُرْفَعُ مِنَ النَّاسِ الْخُشُوعُ يُوشِكُ أَنْ تَدْخُلَ مَسْجِدَ جَمَاعَةٍ فَلَا تَرَى فِيهِ رَجُلًا خَاشِعًا ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَمُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ ثِقَةٌ عِنْدَ أَهْلِ الْحَدِيثِ، وَلَا نَعْلَمُ أَحَدًا تَكَلَّمَ فِيهِ غَيْرَ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ الْقَطَّانِ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ صَالِحٍ نَحْوُ هَذَا، وَرَوَى بَعْضُهُمْ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ২৬৫৪
علم کا بیان
اس شخص کے متعلق جو اپنے علم سے دنیا طلب کرے۔
 کعب بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ  میں نے رسول اللہ  ﷺ  کو فرماتے ہوئے سنا :  جو شخص علم اس واسطے سیکھے کہ اس کے ذریعہ علماء کی برابری کرے  ١ ؎، کم علم اور بیوقوفوں سے بحث و تکرار کرے یا اس علم کے ذریعہ لوگوں کو اپنا گرویدہ بنا لے تو ایسے شخص کو اللہ تعالیٰ جہنم میں داخل فرمائے گا  ٢ ؎۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١ - یہ حدیث غریب ہے،  ٢ - اس حدیث کو ہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں،  ٣ - اسحاق بن یحییٰ بن طلحہ محدثین کے نزدیک کچھ بہت زیادہ قوی نہیں ہیں، ان کے حافظہ کے سلسلے میں کلام کیا گیا ہے۔    تخریج دارالدعوہ :  تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١١١٤٠) (حسن) (سند میں اسحاق ضعیف ہیں شواہد کی بنا پر یہ حدیث حسن لغیرہ ہے  )    وضاحت :  ١ ؎ : یعنی ان کے ساتھ بحث و مناظرہ کرے ان پر اپنی علمیت و قابلیت کا سکہ جمائے۔  ٢ ؎ : معلوم ہوا کہ علم دین حاصل کرنے والے کی نیت صالح ہونی چاہیئے ، وہ کسی دنیاوی حرص و طمع کے بغیر اس کے حصول کی کوشش کرے ، کیونکہ ایسا نہ کرنے کی صورت میں وہ جنت کی خوشبو تک سے محروم رہے گا۔    قال الشيخ الألباني :  حسن، المشکاة (223 - 225) ، التعليق الرغيب (1 / 68)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2654  
حدیث نمبر: 2654  حَدَّثَنَا أَبُو الْأَشْعَثِ أَحْمَدُ بْنُ الْمِقْدَامِ الْعِجْلِيُّ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا أُمَيَّةُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ يَحْيَى بْنِ طَلْحَةَ، حَدَّثَنِي ابْنُ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:  مَنْ طَلَبَ الْعِلْمَ لِيُجَارِيَ بِهِ الْعُلَمَاءَ، أَوْ لِيُمَارِيَ بِهِ السُّفَهَاءَ، أَوْ يَصْرِفَ بِهِ وُجُوهَ النَّاسِ إِلَيْهِ أَدْخَلَهُ اللَّهُ النَّارَ ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَإِسْحَاق بْنُ يَحْيَى بْنِ طَلْحَةَ لَيْسَ بِذَاكَ الْقَوِيِّ عِنْدَهُمْ، تُكُلِّمَ فِيهِ مِنْ قِبَلِ حِفْظِهِ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ২৬৫৫
علم کا بیان
اس شخص کے متعلق جو اپنے علم سے دنیا طلب کرے۔
 عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ  نبی اکرم  ﷺ  نے فرمایا :  جس نے علم کو غیر اللہ کے لیے سیکھا یا وہ اس علم کے ذریعہ اللہ کی رضا کے بجائے کچھ اور حاصل کرنا چاہتا ہے تو ایسا شخص اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے   ١ ؎۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١ - یہ حدیث حسن غریب ہے،  ٢ - ہم اسے ایوب کی روایت سے صرف اسی سند سے جانتے ہیں،  ٣ - اس باب میں جابر سے بھی روایت ہے۔    تخریج دارالدعوہ :  سنن ابن ماجہ/المقدمة ٣٣ (٢٥٨) (تحفة الأشراف : ٦٧١٢) (ضعیف) (سند میں خالد اور ابن عمر (رض) کے درمیان انقطاع ہے  )    وضاحت :  ١ ؎ : علم دین اس لیے سیکھا جاتا ہے ہے کہ اس سے اللہ کی رضا و خوشنودی حاصل کی جائے ، لیکن اگر اس علم سے اللہ کی رضا و خوشنودی مقصود نہیں بلکہ اس سے جاہ و منصب یا حصول دنیا مقصود ہے تو ایسے شخص کا ٹھکانا جہنم ہے۔    قال الشيخ الألباني :  ضعيف، ابن ماجة (258) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (54) ، ضعيف الجامع (5530 و 5687) //   صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2655  
حدیث نمبر: 2655  حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ نَصْرِ بْنِ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبَّادٍ الْهُنَائِيُّ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ أَيُّوبَ السَّخْتِيَانِيِّ، عَنْخَالِدِ بْنِ دُرَيْكٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:  مَنْ تَعَلَّمَ عِلْمًا لِغَيْرِ اللَّهِ أَوْ أَرَادَ بِهِ غَيْرَ اللَّهِ فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ ، وفي الباب عن جَابِرٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ أَيُّوبَ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ২৬৫৬
علم کا بیان
لوگوں کے سامنے احادیث بیان کرنے کی فضیلت
 ابان بن عثمان کہتے ہیں کہ  زید بن ثابت (رض) دوپہر کے وقت مروان کے پاس سے نکلے  (لوٹے) ، ہم نے کہا : مروان کو ان سے کوئی چیز پوچھنا ہوگی تبھی ان کو اس وقت بلا بھیجا ہوگا، پھر ہم نے ان سے پوچھا تو انہوں نے کہا : ہاں، انہوں نے ہم سے کئی چیزیں پوچھیں جسے ہم نے رسول اللہ  ﷺ  سے سنا تھا۔ میں نے رسول اللہ  ﷺ  کو فرماتے ہوئے سنا :  اللہ اس شخص کو تروتازہ رکھے جو مجھ سے کوئی حدیث سنے پھر اسے یاد رکھ کر اسے دوسروں کو پہنچا دے، کیونکہ بہت سے احکام شرعیہ کا علم رکھنے والے اس علم کو اس تک پہنچا دیتے ہیں جو اس سے زیادہ ذی علم اور عقلمند ہوتے ہیں۔ اور بہت سے شریعت کا علم رکھنے والے علم تو رکھتے ہیں، لیکن فقیہہ نہیں ہوتے   ١ ؎۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١ - زید بن ثابت کی حدیث حسن ہے،  ٢ - اس باب میں عبداللہ بن مسعود، معاذ بن جبل، جبیر بن مطعم، ابو الدرداء اور انس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔    تخریج دارالدعوہ :  سنن ابی داود/ العلم ١٠ (٣٦٦٠) ، سنن ابن ماجہ/المقدمة : ١٨ (٢٣٠) (تحفة الأشراف : ٣٦٩٤) ، و مسند احمد (١/٤٣٧) ، و (٥/١٨٣) ، وسنن الدارمی/المقدمة ٢٤ (٢٣٥) (صحیح  )    وضاحت :  ١ ؎ : اس حدیث میں یہ ترغیب ہے کہ علم کو حاصل کر کے اسے اچھی طرح محفوظ رکھا جائے اور اسے دوسروں تک پہنچایا جائے کیونکہ بسا اوقات پہنچانے والے سے کہیں زیادہ ذی علم اور عقلمند وہ شخص ہوسکتا ہے جس تک علم دین پہنچایا جا رہا ہے ، گویا دعوت و تبلیغ کا فریضہ برابر جاری رہنا چاہیئے۔    قال الشيخ الألباني :  صحيح، ابن ماجة (230)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2656  
حدیث نمبر: 2656  حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، أَخْبَرَنَا عُمَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ مِنْ وَلَدِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، قَال: سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ أَبَانَ بْنِ عُثْمَانَ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: خَرَجَ زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ مِنْ عِنْدِ مَرْوَانَ نِصْفَ النَّهَارِ، قُلْنَا: مَا بَعَثَ إِلَيْهِ فِي هَذِهِ السَّاعَةِ إِلَّا لِشَيْءٍ سَأَلَهُ عَنْهُ ؟ فَسَأَلْنَاهُ، فَقَالَ: نَعَمْ سَأَلَنَا عَنْ أَشْيَاءَ سَمِعْنَاهَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:  نَضَّرَ اللَّهُ امْرَأً سَمِعَ مِنَّا حَدِيثًا فَحَفِظَهُ حَتَّى يُبَلِّغَهُ غَيْرَهُ، فَرُبَّ حَامِلِ فِقْهٍ إِلَى مَنْ هُوَ أَفْقَهُ مِنْهُ، وَرُبَّ حَامِلِ فِقْهٍ لَيْسَ بِفَقِيهٍ ، وفي الباب عن عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، وَمُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، وَجُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ، وَأَبِي الدَّرْدَاءِ، وَأَنَسٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ২৬৫৭
علم کا بیان
لوگوں کے سامنے احادیث بیان کرنے کی فضیلت
 عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ  میں نے نبی اکرم  ﷺ  کو فرماتے ہوئے سنا :  اللہ اس شخص کو تروتازہ  (اور خوش)  رکھے جس نے مجھ سے کوئی بات سنی پھر اس نے اسے جیسا کچھ مجھ سے سنا تھا ہوبہو دوسروں تک پہنچا دیا کیونکہ بہت سے لوگ جنہیں بات  (حدیث)  پہنچائی جائے پہنچانے والے سے کہیں زیادہ بات کو توجہ سے سننے اور محفوظ رکھنے والے ہوتے ہیں ۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے،  ٢ - اس حدیث کو عبدالملک بن عمیر نے عبدالرحمٰن بن عبداللہ کے واسطہ سے بیان کیا۔    تخریج دارالدعوہ :  سنن ابن ماجہ/المقدمة ١٨ (٢٣٢) (تحفة الأشراف : ٩٣٦١) (صحیح  )    قال الشيخ الألباني :  صحيح، ابن ماجة (232)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2657  
حدیث نمبر: 2657  حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، أَنْبَأَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، قَال: سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:  نَضَّرَ اللَّهُ امْرَأً سَمِعَ مِنَّا شَيْئًا فَبَلَّغَهُ كَمَا سَمِعَ فَرُبَّ مُبَلِّغٍ أَوْعَى مِنْ سَامِعٍ ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رَوَاهُ عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عُمَيْرٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ২৬৫৮
علم کا بیان
لوگوں کے سامنے احادیث بیان کرنے کی فضیلت
 عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ  نبی اکرم  ﷺ  نے فرمایا :  اللہ اس شخص کو تروتازہ رکھے جو میری بات کو سنے اور توجہ سے سنے، اسے محفوظ رکھے اور دوسروں تک پہنچائے، کیونکہ بہت سے علم کی سمجھ رکھنے والے علم کو اس تک پہنچا دیتے ہیں جو ان سے زیادہ سوجھ بوجھ رکھتے ہیں۔ تین چیزیں ایسی ہیں جن کی وجہ سے ایک مسلمان کا دل دھوکہ نہیں کھا سکتا،  ( ١  )  عمل خالص اللہ کے لیے  ( ٢  )  مسلمانوں کے ائمہ کے ساتھ خیر خواہی  ( ٣  )  اور مسلمانوں کی جماعت سے جڑ کر رہنا، کیونکہ دعوت ان کا چاروں طرف سے احاطہٰ کرتی ہے ۔    تخریج دارالدعوہ :  انظر ماقبلہ (صحیح  )    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2658  
حدیث نمبر: 2658  حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:  نَضَّرَ اللَّهُ امْرَأً سَمِعَ مَقَالَتِي فَوَعَاهَا وَحَفِظَهَا وَبَلَّغَهَا فَرُبَّ حَامِلِ فِقْهٍ إِلَى مَنْ هُوَ أَفْقَهُ مِنْهُ، ثَلَاثٌ لَا يُغِلُّ عَلَيْهِنَّ قَلْبُ مُسْلِمٍ: إِخْلَاصُ الْعَمَلِ لِلَّهِ، وَمُنَاصَحَةُ أَئِمَّةِ الْمُسْلِمِينَ، وَلُزُومُ جَمَاعَتِهِمْ، فَإِنَّ الدَّعْوَةَ تُحِيطُ مِنْ وَرَائِهِمْ .  

তাহকীক:
হাদীস নং: ২৬৫৯
علم کا بیان
اس بارے میں کہ رسول اللہ ﷺ پر جھوٹ باندھنا بہت بڑا گناہ ہے
 عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا :  جس نے جان بوجھ کر میری طرف جھوٹ کی نسبت کی تو وہ جہنم میں اپنا ٹھکانا بنا لے   ١ ؎۔    تخریج دارالدعوہ :  سنن ابن ماجہ/المقدمة ٤ (٣٠) ، وانظر أیضا ماتقدم برقم ٢٢٥٧ (تحفة الأشراف : ٩٢١٢) ، و مسند احمد (١/٣٨٩، ٤٠١، ٤٠٢، ٤٠٥، ٤٣٦، ٤٥٣) (صحیح متواتر  )    وضاحت :  ١ ؎ : مفہوم یہ ہے کہ آپ  ﷺ  کی طرف جھوٹی بات منسوب کرنا گناہ عظیم ہے ، اسی لیے ضعیف اور موضوع روایات کا علم ہوجانے کے بعد انہیں بیان کرنے سے اجتناب کرنا چاہیئے ، یہ بھی معلوم ہونا چاہیئے کہ آپ  ﷺ  کی طرف جھوٹی بات کی نسبت آپ پر جھوٹ باندھتے ہوئے کی جائے یا آپ کے لیے کی جائے دونوں صورتیں گناہ عظیم کا باعث ہیں ، اس سے ان لوگوں کے باطل افکار کی تردید ہوجاتی ہے جو عبادت کی ترغیب کے لیے فضائل کے سلسلہ میں وضع احادیث کے جواز کے قائل ہیں ، اللہ رب العالمین ایسے فتنے سے ہمیں محفوظ رکھے ، آمین۔    قال الشيخ الألباني :  صحيح متواتر، ابن ماجة (30)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2659  
حدیث نمبر: 2659  حَدَّثَنَا أَبُو هِشَامٍ الرِّفَاعِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، حَدَّثَنَا عَاصِمٌ، عَنْ زِرٍّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:  مَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ .  

তাহকীক:
হাদীস নং: ২৬৬০
علم کا بیان
اس بارے میں کہ رسول اللہ ﷺ پر جھوٹ باندھنا بہت بڑا گناہ ہے
 علی بن ابی طالب (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا :  مجھ پر جھوٹ نہ باندھو کیونکہ مجھ پر جھوٹ باندھنے والا جہنم میں داخل ہوگا ۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١ - علی (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے،  ٢ - اس باب میں ابوبکر، عمر، عثمان، زبیر، سعید بن زید، عبداللہ بن عمرو، انس، جابر، ابن عباس، ابوسعید، عمرو بن عبسہ، عقبہ بن عامر، معاویہ، بریدہ، ابوموسیٰ ، ابوامامہ، عبداللہ بن عمر، مقنع اور اوس ثقفی (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔    تخریج دارالدعوہ :  صحیح البخاری/العلم ٣٨ (١٠٦) ، صحیح مسلم/المقدمة ٢ (١) ، سنن ابن ماجہ/المقدمة ٤ (٣١) (تحفة الأشراف : ١٠٠٨٧) ، و مسند احمد (١/٨٣، ١٢٣، ١٥٠) (صحیح  )    قال الشيخ الألباني :  صحيح    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2660  
حدیث نمبر: 2660  حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ مُوسَى الْفَزَارِيُّ ابْنُ بِنْتِ السُّدِّيِّ، حَدَّثَنَا شَرِيكُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ مَنْصُورِ بْنِ الْمُعْتَمِرِ، عَنْرِبْعِيِّ بْنِ حِرَاشٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:  لَا تَكْذِبُوا عَلَيَّ، فَإِنَّهُ مَنْ كَذَبَ عَلَيَّ يَلِجُ فِي النَّارِ ، وفي الباب عن أَبِي بَكْرٍ، وَعُمَرَ، وَعُثْمَانَ، وَالزُّبَيْرِ، وَسَعِيدِ بْنِ زَيْدٍ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، وَأَنَسٍ، وَجَابِرٍ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَأَبِي سَعِيدٍ، وَعَمْرِو بْنِ عَبَسَةَ، وَعُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ، وَمُعَاوِيَةَ، وَبُرَيْدَةَ، وَأَبِي مُوسَى الْغَافِقِيِّ، وَأَبِي أُمَامَةَ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، وَالْمُنْقَعِ، وَأَوْسٍ الثَّقَفِيِّ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَلِيٍّ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ مَنْصُورُ بْنُ الْمُعْتَمِرِ، أَثْبَتُ أَهْلِ الْكُوفَةِ، وَقَالَ وَكِيعٌ: لَمْ يَكْذِبْ رِبْعِيُّ بْنُ حِرَاشٍ فِي الْإِسْلَامِ كَذْبَةً.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ২৬৬১
علم کا بیان
اس بارے میں کہ رسول اللہ ﷺ پر جھوٹ باندھنا بہت بڑا گناہ ہے
 انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا :  جس نے میرے متعلق جھوٹی بات کہی ،  (انس کہتے ہیں)  میرا خیال ہے کہ آپ نے «من کذب علي» کے بعد «متعمدا» کا لفظ بھی کہا یعنی جس نے جان بوجھ کر مجھ پر جھوٹ باندھا،  تو ایسے شخص کا ٹھکانا جہنم ہے ۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١ - یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے۔ یعنی زہری کی اس روایت سے جسے وہ انس بن مالک (رض) سے روایت کرتے ہیں،  ٢ - یہ حدیث متعدد سندوں سے انس (رض) کے واسطہ سے نبی اکرم  ﷺ  سے آئی ہے۔    تخریج دارالدعوہ :  صحیح البخاری/العلم ٣٨ (١٠٨) ، صحیح مسلم/المقدمة ٢ (٢) ، سنن ابن ماجہ/المقدمة ٤ (٣٢) (تحفة الأشراف : ١٥٢٥) (صحیح متواتر  )    قال الشيخ الألباني :  صحيح متواتر انظر ما قبله (2660)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2661  
حدیث نمبر: 2661  حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:  مَنْ كَذَبَ عَلَيَّ حَسِبْتُ أَنَّهُ قَالَ: مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ بَيْتَهُ مِنَ النَّارِ ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَنَسٍ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ أَنَسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ২৬৬২
علم کا بیان
موضوع احادیث بیان کرنا
 مغیرہ بن شعبہ (رض) سے روایت ہے کہ  نبی اکرم  ﷺ  نے فرمایا :  جس نے میری طرف منسوب کر کے جان بوجھ کر کوئی جھوٹی حدیث بیان کی تو وہ دو جھوٹ بولنے والوں میں سے ایک ہے ۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے،  ٢ - شعبہ نے حکم سے، حکم نے عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ سے، عبدالرحمٰن نے سمرہ سے، اور سمرہ نے نبی اکرم  ﷺ  سے یہ حدیث روایت کی ہے،  ٣ - اعمش اور ابن ابی لیلیٰ نے حکم سے، حکم نے عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ سے، عبدالرحمٰن نے علی (رض) سے اور علی (رض) نے نبی اکرم  ﷺ  سے روایت کی ہے، اور عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ کی حدیث جسے وہ سمرہ سے روایت کرتے ہیں، محدثین کے نزدیک زیادہ صحیح ہے، ٤ - اس باب میں علی ابن ابی طالب اور سمرہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں،  ٥ - میں نے ابو محمد عبداللہ بن عبدالرحمٰن دارمی سے نبی اکرم  ﷺ  کی حدیث «من حدث عني حديثا وهو يرى أنه كذب فهو أحد الکاذبين» کے متعلق پوچھا کہ اس سے مراد کیا ہے، میں نے ان سے کہا کیا یہ کہ جس نے کوئی حدیث بیان کی اور وہ جانتا ہے کہ اس کی اسناد میں کچھ خطا  (غلطی اور کمی)  ہے تو کیا یہ خوف و خطرہ محسوس کیا جائے کہ ایسا شخص نبی اکرم  ﷺ  کی اس حدیث کی زد اور وعید میں آگیا۔ یا اس سے مراد یہ ہے کہ لوگوں نے حدیث مرسل بیان کی تو انہیں میں سے کچھ لوگوں نے اس مرسل کو مرفوع کردیا یا اس کی اسناد کو ہی الٹ پلٹ دیا تو یہ لوگ رسول اللہ  ﷺ  کی اس حدیث کی زد میں آئیں گے ؟ تو انہوں نے کہا : نہیں۔ اس کا معنی  (و مطلب)  یہ ہے کہ جب کوئی شخص حدیث روایت کرے اور رسول اللہ  ﷺ  تک اس حدیث کے مرفوع ہونے کی کوئی اصل  (وجہ و سبب)  نہ جانی جاتی ہو، اور وہ شخص اسے مرفوع کر کے بیان کر دے کہ رسول اللہ  ﷺ  نے ایسا فرمایا یا ایسا کیا ہے تو مجھے ڈر ہے کہ ایسا ہی شخص اس حدیث کا مصداق ہوگا۔    تخریج دارالدعوہ :  صحیح مسلم/المقدمة ١ (بدون رقم) ، سنن ابن ماجہ/المقدمة ٥ (٤١) (تحفة الأشراف : ١١٥٣١) (صحیح  )    قال الشيخ الألباني :  صحيح مقدمة الضعيفة (1 / 12)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2662  
حدیث نمبر: 2662  حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ مَيْمُونِ بْنِ أَبِي شَبِيبٍ، عَنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:  مَنْ حَدَّثَ عَنِّي حَدِيثًا وَهُوَ يَرَى أَنَّهُ كَذِبٌ فَهُوَ أَحَدُ الْكَاذِبِينَ ، وفي الباب عن عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، وَسَمُرَةَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَرَوَىشُعْبَةُ، عَنْ الْحَكَمِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ سَمُرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَذَا الْحَدِيثَ. وَرَوَىالْأَعْمَشُ، وَابْنُ أَبِي لَيْلَى، عَنِ الْحَكَمِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ عَلِيٍّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَأَنَّ حَدِيثَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ سَمُرَةَ عِنْدَ أَهْلِ الْحَدِيثِ أَصَحُّ، قَالَ: سَأَلْتُ أَبَا مُحَمَّدٍ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ حَدِيثِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:  مَنْ حَدَّثَ عَنِّي حَدِيثًا وَهُوَ يَرَى أَنَّهُ كَذِبٌ فَهُوَ أَحَدُ الْكَاذِبِينَ ، قُلْتُ لَهُ: مَنْ رَوَى حَدِيثًا وَهُوَ يَعْلَمُ أَنَّ إِسْنَادَهُ خَطَأٌ أَيُخَافُ أَنْ يَكُونَ قَدْ دَخَلَ فِي حَدِيثِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؟ أَوْ إِذَا رَوَى النَّاسُ حَدِيثًا مُرْسَلًا فَأَسْنَدَهُ بَعْضُهُمْ أَوْ قَلَبَ إِسْنَادَهُ يَكُونُ قَدْ دَخَلَ فِي هَذَا الْحَدِيثِ ؟ فَقَالَ: لَا إِنَّمَا مَعْنَى هَذَا الْحَدِيثِ إِذَا رَوَى الرَّجُلُ حَدِيثًا وَلَا يُعْرَفُ لِذَلِكَ الْحَدِيثِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَصْلٌ فَحَدَّثَ بِهِ فَأَخَافُ أَنْ يَكُونَ قَدْ دَخَلَ فِي هَذَا الْحَدِيثِ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ২৬৬৩
علم کا بیان
اس بارے میں کہ حدیث سن کر کیا الفاظ نہ کہے جائیں
 ابورافع (رض) وغیرہ سے روایت ہے کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا :  میں تم میں سے کسی کو ہرگز اس حال میں نہ پاؤں کہ وہ اپنے آراستہ تخت پر ٹیک لگائے ہو اور اس کے پاس میرے امر یا نہی کی قسم کا کوئی حکم پہنچے تو وہ یہ کہے کہ میں کچھ نہیں جانتا، ہم نے تو اللہ کی کتاب میں جو چیز پائی اس کی پیروی کی ۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے،  ٢ - بعض راویوں نے سفیان سے، سفیان نے ابن منکدر سے اور ابن منکدر نے نبی اکرم  ﷺ  سے اس حدیث کو مرسلاً روایت کیا ہے۔ اور بعض نے یہ حدیث سالم ابوالنضر سے، سالم نے عبیداللہ بن ابورافع سے، عبیداللہ نے اپنے والد ابورافع سے اور ابورافع نے نبی اکرم  ﷺ  سے روایت کی ہے۔  ٣ - ابن عیینہ جب اس حدیث کو علیحدہ بیان کرتے تھے تو محمد بن منکدر کی حدیث کو سالم بن نضر کی حدیث سے جدا جدا بیان کرتے تھے اور جب دونوں حدیثوں کو جمع کردیتے تو اسی طرح روایت کرتے  (جیسا کہ اس حدیث میں ہے) ۔  ٤ - ابورافع نبی اکرم  ﷺ  کے آزاد کردہ غلام ہیں اور ان کا نام اسلم ہے۔    تخریج دارالدعوہ :  سنن ابی داود/ السنة ٦ (٤٦٠٥) ، سنن ابن ماجہ/المقدمة ٢ (١٣) (تحفة الأشراف : ١٢٠١٩) ، و مسند احمد (٦/٨) (صحیح  )    قال الشيخ الألباني :  صحيح، ابن ماجة (13)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2663  
حدیث نمبر: 2663  حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، وَسَالِمٍ أبي النضر، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي رَافِعٍ، عَنْ أَبِي رَافِعٍ وَغَيْرِهِ، رَفَعَهُ قَالَ:  لَا أُلْفِيَنَّ أَحَدَكُمْ مُتَّكِئًا عَلَى أَرِيكَتِهِ يَأْتِيهِ أَمْرٌ مِمَّا أَمَرْتُ بِهِ أَوْ نَهَيْتُ عَنْهُ فَيَقُولُ: لَا أَدْرِي مَا وَجَدْنَا فِي كِتَابِ اللَّهِ اتَّبَعْنَاهُ ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَرَوَى بَعْضُهُمْ عَنْ سُفْيَانَ، عَنِ ابْنِ الْمُنْكَدِرِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُرْسَلًا، وَسَالِمٍ أَبِي النَّضْرِ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي رَافِعٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانَ ابْنُ عُيَيْنَةَ إِذَا رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ عَلَى الِانْفِرَادِ، بَيَّنَ حَدِيثَ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، مِنْ حَدِيثِ سَالِمٍ أَبِي النَّضْرِ، وَإِذَا جَمَعَهُمَا رَوَى هَكَذَا، وَأَبُو رَافِعٍ مَوْلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْمُهُ: أَسْلَمُ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ২৬৬৪
علم کا بیان
اس بارے میں کہ حدیث سن کر کیا الفاظ نہ کہے جائیں
 مقدام بن معدیکرب (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا :  خبردار رہو ! قریب ہے کہ کوئی آدمی اپنے آراستہ تخت پر ٹیک لگائے بیٹھا ہو اور وہ کہے : ہمارے اور تمہارے درمیان  (فیصلے کی چیز)  بس اللہ کی کتاب ہے۔ اس میں جو چیز ہم حلال پائیں گے پس اسی کو حلال سمجھیں گے، اور اس میں جو چیز حرام پائیں گے بس اسی کو ہم حرام جانیں گے، یاد رکھو ! بلا شک و شبہ رسول اللہ  ﷺ  نے جو چیز حرام قرار دے دی ہے وہ ویسے ہی حرام ہے جیسے کہ اللہ کی حرام کی ہوئی چیز ۔    امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔    تخریج دارالدعوہ :  سنن ابن ماجہ/المقدمة ٢ (١٢) (تحفة الأشراف : ١١٥٥٣) (صحیح  )    قال الشيخ الألباني :  صحيح، ابن ماجة (12)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2664  
حدیث نمبر: 2664  حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ جَابِرٍ اللَّخْمِيِّ، عَنِ الْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِ يكَرِبَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:  أَلَا هَلْ عَسَى رَجُلٌ يَبْلُغُهُ الْحَدِيثُ عَنِّي وَهُوَ مُتَّكِئٌ عَلَى أَرِيكَتِهِ فَيَقُولُ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ كِتَابُ اللَّهِ فَمَا وَجَدْنَا فِيهِ حَلَالًا اسْتَحْلَلْنَاهُ وَمَا وَجَدْنَا فِيهِ حَرَامًا حَرَّمْنَاهُ وَإِنَّ مَا حَرَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَمَا حَرَّمَ اللَّهُ ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.  

তাহকীক: