আল জামিউল কাবীর- ইমাম তিরমিযী রহঃ (উর্দু)
الجامع الكبير للترمذي
دعاؤں کا بیان - এর পরিচ্ছেদসমূহ
মোট হাদীস ২০ টি
হাদীস নং: ৩৩৭০
دعاؤں کا بیان
دُعا کی فضیلت کے بارے میں
 ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ  نبی اکرم  ﷺ  نے فرمایا :  اللہ کے نزدیک دعا سے زیادہ معزز و مکرم کوئی چیز  (عبادت)  نہیں ہے   ١ ؎۔    امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے مرفوع صرف عمران قطان کی روایت سے جانتے ہیں، عمران القطان یہ ابن داور ہیں اور ان کی کنیت ابوالعوام ہے۔    تخریج دارالدعوہ :  سنن ابن ماجہ/الدعاء ١ (٣٨٢٩) (تحفة الأشراف : ١٢٩٣٨) (حسن)    وضاحت :  ١ ؎ : کیونکہ بندہ رب العالمین کی طاقت و قدرت کے سامنے دعا کرتے وقت اپنی انتہائی بےبسی اور عاجزی و محتاجگی کا اظہار کرتا ہے ، اس لیے اللہ کے نزدیک دعا سے زیادہ معزز و مکرم چیز  ( عبادت  )  کوئی نہیں ہے۔    قال الشيخ الألباني :  حسن، ابن ماجة (3829)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3370
حدیث نمبر: 3370  حَدَّثَنَا عَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْعَظِيمِ الْعَنْبَرِيُّ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ، قَالُوا: حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ، حَدَّثَنَا عِمْرَانُ الْقَطَّانُ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي الْحَسَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:  لَيْسَ شَيْءٌ أَكْرَمَ عَلَى اللَّهِ تَعَالَى مِنَ الدُّعَاءِ . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ مَرْفُوعًا إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عِمْرَانَ الْقَطَّانِ، وَعِمْرَانُ الْقَطَّانُ هُوَ ابْنُ دَاوَرَ وَيُكْنَى أَبَا الْعَوَّامِ.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، عَنْ عِمْرَانَ الْقَطَّانِ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَهُ.    

তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৩৭১
دعاؤں کا بیان
اسی سے متعلق
 انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ  نبی اکرم  ﷺ  نے فرمایا :  دعا عبادت کا مغز  (حاصل و نچوڑ)  ہے   ١ ؎۔    امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث اس سند سے غریب ہے، ہم اسے صرف ابن لہیعہ کی روایت سے جانتے ہیں۔    تخریج دارالدعوہ :  تفرد بہ المؤلف  ( تحفة الأشراف : ١٦٥) (ضعیف) (سند میں ” ابن لھیعہ “ ضعیف ہیں، اس لیے مخ العبادة کے لفظ سے حدیث ضعیف ہے، اور ” الدعاء ھو العبادة “ کے لفظ سے نعمان بن بشیر (رض) کی روایت سے یہ حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو اگلی حدیث)    وضاحت :  ١ ؎ : معلوم ہوا کہ دعا عبادت کا خلاصہ اور اصل ہے ، اس لیے جو شخص اپنی حاجت برآری اور مشکل کشائی کے لیے غیر اللہ کو پکارتا ہے ، وہ گویا غیر اللہ کی عبادت کرتا ہے ، جب کہ غیر اللہ کی عبادت شرک ہے ، اور شرک ایسا گناہ ہے جو بغیر توبہ کے ہرگز معاف نہیں ہوگا۔    قال الشيخ الألباني :  ضعيف بهذا اللفظ، الروض النضير (2 / 289) ، المشکاة (2231) // ضعيف الجامع الصغير (3003) //   صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3371
حدیث نمبر: 3371  حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، عَنِ ابْنِ لَهِيعَةَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي جَعْفَرٍ، عَنْ أَبَانَ بْنِ صَالِحٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:  الدُّعَاءُ مُخُّ الْعِبَادَةِ . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ ابْنِ لَهِيعَةَ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৩৭২
دعاؤں کا بیان
اسی سے متعلق
 نعمان بن بشیر (رض) سے روایت ہے کہ  نبی اکرم  ﷺ  نے فرمایا :  دعا ہی عبادت ہے، پھر آپ نے آیت : «وقال ربکم ادعوني أستجب لکم إن الذين يستکبرون عن عبادتي سيدخلون جهنم داخرين»  تمہارا رب فرماتا ہے، تم مجھے پکارو، میں تمہاری پکار  (دعا)  کو قبول کروں گا، جو لوگ مجھ سے مانگنے سے گھمنڈ کرتے ہیں، وہ جہنم میں ذلیل و خوار ہو کر داخل ہوں گے   (المومن : ٦)  پڑھی ۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے،  ٢- منصور نے یہ حدیث اعمش سے اور اعمش نے ذر سے روایت کی ہے، ہم اسے صرف ذر کی روایت سے جانتے ہیں، یہ ذر بن عبداللہ ہمدانی ہیں ثقہ ہیں، عمر بن ذر کے والد ہیں۔    تخریج دارالدعوہ :  انظر حدیث رقم ٢٩٦٩، و ٣٢٤٧ (صحیح)    قال الشيخ الألباني :  صحيح، ابن ماجة (3828)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3372
حدیث نمبر: 3372  حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِيَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ ذَرٍّ، عَنْ يُسَيْعٍ، عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:  الدُّعَاءُ هُوَ الْعِبَادَةُ ، ثُمَّ قَرَأَ: وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ سورة غافر آية 60 . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رَوَاهُ مَنْصُورٌ، وَالْأَعْمَشُ، عَنْ ذَرٍّ وَلَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ ذَرٍّ هُوَ ذَرُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْهَمْدَانِيُّ ثِقَةٌ وَالِدُ عُمَرَ بْنِ ذَرٍّ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৩৭৩
دعاؤں کا بیان
اسی متعلق
 ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا :  جو اللہ سے سوال نہیں کرتا  ١ ؎ اللہ اس سے ناراض اور ناخوش ہوتا ہے ۔    امام ترمذی کہتے ہیں : وکیع اور کئی راویوں نے یہ حدیث ابوالملیح سے روایت کی ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں، ابوالملیح کا نام صبیح ہے، میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو ایسا ہی کہتے ہوئے سنا ہے، انہوں نے کہا کہ انہیں فارسی بھی کہا جاتا ہے۔    تخریج دارالدعوہ :  تفرد بہ المؤلف (حسن)    وضاحت :  ١ ؎ : یعنی نہ توبہ و استغفار کرتا ہے اور نہ دنیوی و اخروی اپنی ضرورت کی چیزیں طلب کرتا ہے ، اللہ سے دعا سے بالکل ہی بےنیازی برتنا ہے۔    قال الشيخ الألباني :  حسن، ابن ماجة (3827)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3373
حدیث نمبر: 3373  حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيل، عَنْ أَبِي الْمَلِيحِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:  مَنْ لَمْ يَسْأَلِ اللَّهَ يَغْضَبْ عَلَيْهِ . قَالَ أَبُو عِيسَى: وَقَدْ رَوَى وَكِيعٌ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ، عَنْ أَبِي الْمَلِيحِ هَذَا الْحَدِيثَ وَلَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَأَبُو الْمَلِيحِ اسْمُهُ صَبِيحٌ، سَمِعْت مُحَمَّدًا يَقُولُهُ: وَقَالَ: يُقَالُ لَهُ الْفَارِسِيُّ، حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنْ حُمَيْدٍ أَبِي الْمَلِيحِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، نَحْوَهُ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৩৭৪
دعاؤں کا بیان
اسی متعلق
 ابوموسیٰ اشعری (رض) کہتے ہیں کہ  ہم رسول اللہ  ﷺ  کے ساتھ ایک غزوہ میں تھے جب ہم لوٹے اور ہمیں مدینہ دکھائی دینے لگا تو لوگوں نے تکبیر کہی اور بلند آواز سے تکبیر کہی۔ رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا :  تمہارا رب بہرہ نہیں ہے اور نہ ہی وہ غائب و غیر حاضر ہے، وہ تمہارے درمیان موجود ہے، وہ تمہارے کجاؤں اور سواریوں کے درمیان  (یعنی بہت قریب)  ہے پھر آپ نے فرمایا :  عبداللہ بن قیس ! کیا میں تمہیں جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ نہ بتاؤں ؟ «لا حول ولا قوة إلا بالله»  (جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے) ۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١- یہ حدیث حسن ہے،  ٢- ابوعثمان نہدی کا نام عبدالرحمٰن بن مل ہے اور ابونعامہ سعدی کا نام عمرو بن عیسیٰ ہے۔    تخریج دارالدعوہ :  صحیح البخاری/الجھاد ١٣١ (٢٩٩٢) ، والمغازي ٣٨ (٤٢٠٥) ، والدعوات ٥٠ (٦٣٨٤) ، ٦٦ (٦٤٠٩) ، و القدر ٧ (٦٦١٠) ، والتوحید ٩ (٧٣٨٦) ، صحیح مسلم/الذکر والدعاء ١٣ (٢٧٠٤) ، سنن ابی داود/ الصلاة ٣٦١ (١٥٢٦) ، سنن ابن ماجہ/الأدب ٥٩ (٣٨٢٤) (تحفة الأشراف : ٩٨٧) (صحیح)    وضاحت :  ١ ؎ : یعنی : جو اس کلمے کا ورد کرے گا وہ جنت کے خزانوں میں ایک خزانے کا مالک ہوجائے گا ، کیونکہ اس کلمے کا مطلب برائی سے پھر نے اور نیکی کی قوت اللہ کی مدد کے بغیر ممکن نہیں۔  جب بندہ اس کا باربار اظہار کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ بےانتہا خوش ہوتا ہے ، بندے کی طرف سے اس طرح کی عاجزی کا اظہار تو عبادت حاصل ہے۔    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3374
حدیث نمبر: 3374  حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مَرْحُومُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ الْعَطَّارُ، حَدَّثَنَا أَبُو نَعَامَةَ السَّعْدِيُّ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ، عَنْ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزَاةٍ، فَلَمَّا قَفَلْنَا أَشْرَفْنَا عَلَى الْمَدِينَةِ فَكَبَّرَ النَّاسُ تَكْبِيرَةً وَرَفَعُوا بِهَا أَصْوَاتَهُمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:  إِنَّ رَبَّكُمْ لَيْسَ بِأَصَمَّ وَلَا غَائِبٍ، هُوَ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَ رُءُوسِ رِحَالِكُمْ . (حديث مرفوع) (حديث موقوف) ثُمَّ قَالَ:  يَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ قَيْسٍ، أَلَا أُعَلِّمُكَ كَنْزًا مِنْ كُنُوزِ الْجَنَّةِ: لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَأَبُو عُثْمَانَ النَّهْدِيُّ اسْمُهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مُلٍّ، وَأَبُو نَعَامَةَ السَّعْدِيُّ اسْمُهُ عَمْرُو بْنُ عِيسَى.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৩৭৫
دعاؤں کا بیان
ذکر کی فضیلت کے بارے میں
 عبداللہ بن بسر سے روایت ہے کہ  ایک آدمی نے کہا : اللہ کے رسول ! اسلام کے احکام و قوانین تو میرے لیے بہت ہیں، کچھ تھوڑی سی چیزیں مجھے بتا دیجئیے جن پر میں  (مضبوطی)  سے جما رہوں، آپ نے فرمایا :  تمہاری زبان ہر وقت اللہ کی یاد اور ذکر سے تر رہے   ١ ؎۔    امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔    تخریج دارالدعوہ :  سنن ابن ماجہ/الأدب   ٥٣ (٣٧٩٣) (تحفة الأشراف : ٥١٩٦) (صحیح)    وضاحت :  ١ ؎ : اس آدمی کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ فرائض ، سنن اور نوافل کی شکل میں نیکیوں کی بہت کثرت ہے ، مجھے کوئی ایسا جامع نسخہ بتائیے جس سے صرف فرائض و سنن پر اگر عمل کرسکوں اور نوافل و مستحبات رہ جائیں تو بھی میری نیکیاں کم نہ ہوں ، آپ نے فرمایا :  ذکر الٰہی سے اپنی زبان تر رکھ اور اسے اپنی زندگی کا دائمی معمول بنا لے ، ایسا کرنے کی صورت میں اگر تو نوافل و مستحبات پر عمل نہ بھی کرسکا تو ذکر الٰہی کی کثرت سے اس کا ازالہ ہوجائے گا۔ کیونکہ نوافل و مستحبات  ( عبادات  )  کا حاصل تو یہی ہے نہ کہ بندے بارگاہ الٰہی میں اپنی عاجزی و خاکساری کا اظہار کا نذرانہ پیش کرتا ہے ، سو کثرت ذکر سے بھی یہ مقصد حاصل ہوجاتا ہے۔    قال الشيخ الألباني :  صحيح، ابن ماجة (3793)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3375
حدیث نمبر: 3375  حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ حُبَابٍ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ صَالِحٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ قَيْسٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُسْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَجُلًا، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ شَرَائِعَ الْإِسْلَامِ قَدْ كَثُرَتْ عَلَيَّ، فَأَخْبِرْنِي بِشَيْءٍ أَتَشَبَّثُ بِهِ، قَالَ:  لَا يَزَالُ لِسَانُكَ رَطْبًا مِنْ ذِكْرِ اللَّهِ . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৩৭৬
دعاؤں کا بیان
اسی سے متعلق
 ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ  رسول اللہ  ﷺ  سے پوچھا گیا : قیامت کے دن اللہ کے نزدیک درجہ کے لحاظ سے کون سے بندے سب سے افضل اور سب سے اونچے مرتبہ والے ہوں گے ؟ آپ نے فرمایا :  کثرت سے اللہ کا ذکر کرنے والے مرد اور کثرت سے اللہ کا ذکر کرنے والی عورتیں ۔ میں نے کہا : اللہ کے رسول ! اللہ کی راہ میں لڑائی لڑنے والے  (غازی)  سے بھی بڑھ کر ؟ آپ نے فرمایا :  (ہاں)  اگرچہ اس نے اپنی تلوار سے کفار و مشرکین کو مارا ہو، اور اتنی شدید جنگ لڑی ہو کہ اس کی تلوار ٹوٹ گئی ہو، اور وہ خود خون سے رنگ گیا ہو، تب بھی اللہ کا ذکر کرنے والے اس سے درجے میں بڑھے ہوئے ہوں گے ۔    امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف دراج کی روایت سے جانتے ہیں۔    تخریج دارالدعوہ :  تفرد بہ المؤلف  ( تحفة الأشراف : ٤٠٥٤) (ضعیف) (سند میں دراج ضعیف راوی ہیں)    قال الشيخ الألباني :  ضعيف، التعليق الرغيب (2 / 228)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3376
حدیث نمبر: 3376  حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ، عَنْ دَرَّاجٍ، عَنْ أَبِي الْهَيْثَمِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُئِلَ: أَيُّ الْعِبَادِ أَفْضَلُ دَرَجَةً عِنْدَ اللَّهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ؟ قَالَ:  الذَّاكِرُونَ اللَّهَ كَثِيرًا وَالذَّاكِرَاتُ ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَمِنَ الْغَازِي فِي سَبِيلِ اللَّهِ ؟ قَالَ:  لَوْ ضَرَبَ بِسَيْفِهِ فِي الْكُفَّارِ وَالْمُشْرِكِينَ حَتَّى يَنْكَسِرَ وَيَخْتَضِبَ دَمًا لَكَانَ الذَّاكِرُونَ اللَّهَ كَثِيرًا أَفْضَلَ مِنْهُ دَرَجَةً . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ إِنَّمَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ دَرَّاجٍ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৩৭৭
دعاؤں کا بیان
اسی کے بارے میں
 ابو الدرداء (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا :  کیا میں تمہارے سب سے بہتر اور تمہارے رب کے نزدیک سب سے پاکیزہ اور سب سے بلند درجے والے عمل کی تمہیں خبر نہ دوں ؟ وہ عمل تمہارے لیے سونا چاندی خرچ کرنے سے بہتر ہے، وہ عمل تمہارے لیے اس سے بھی بہتر ہے کہ تم  (میدان جنگ میں)  اپنے دشمن سے ٹکراؤ، وہ تمہاری گردنیں کاٹے اور تم ان کی  (یعنی تمہارے جہاد کرنے سے بھی افضل)  لوگوں نے کہا : جی ہاں،  (ضرور بتائیے)  آپ نے فرمایا :  وہ اللہ تعالیٰ کا ذکر ہے ، معاذ بن جبل (رض) کہتے ہیں : اللہ کے ذکر سے بڑھ کر اللہ کے عذاب سے بچانے والی کوئی اور چیز نہیں ہے  ١ ؎۔    امام ترمذی کہتے ہیں : بعض نے یہ حدیث عبداللہ بن سعید اسی طرح اسی سند سے روایت کی ہے، اور بعضوں نے اسے ان سے مرسلاً روایت کیا ہے۔    تخریج دارالدعوہ :  سنن ابن ماجہ/الأدب ٥٣ (٣٧٩٠) (تحفة الأشراف : ١٠٩٥٠) (صحیح)    وضاحت :  ١ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اللہ کا ذکر اللہ کے عذاب سے نجات کا سب سے بڑا ذریعہ ہے ، کیونکہ ذکر : رب العالمین کی توحید ، اس کی ثنا ، تحمید و تمجید وغیرہ کے کلمات کو دل اور زبان پر جاری رکھنے کا نام ہے۔    قال الشيخ الألباني :  صحيح، ابن ماجة (2790)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3377
حدیث نمبر: 3377  حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ، حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَعِيدٍ هُوَ ابْنُ أَبِي هِنْدٍ، عَنْ زِيَادٍ مَوْلَى ابْنِ عَيَّاشٍ، عَنْ أَبِي بَحْرِيَّةَ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:  أَلَا أُنَبِّئُكُمْ بِخَيْرِ أَعْمَالِكُمْ وَأَزْكَاهَا عِنْدَ مَلِيكِكُمْ وَأَرْفَعِهَا فِي دَرَجَاتِكُمْ، وَخَيْرٌ لَكُمْ مِنْ إِنْفَاقِ الذَّهَبِ وَالْوَرِقِ، وَخَيْرٌ لَكُمْ مِنْ أَنْ تَلْقَوْا عَدُوَّكُمْ فَتَضْرِبُوا أَعْنَاقَهُمْ وَيَضْرِبُوا أَعْنَاقَكُمْ ، قَالُوا: بَلَى، قَالَ:  ذِكْرُ اللَّهِ تَعَالَى  قَالَ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: مَا شَيْءٌ أَنْجَى مِنْ عَذَابِ اللَّهِ مِنْ ذِكْرِ اللَّهِ قَالَ أَبُو عِيسَى: وَقَدْ رَوَى بَعْضُهُمْ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَعِيدٍ مِثْلَ هَذَا بِهَذَا الْإِسْنَادِ وَرَوَى بَعْضُهُمْ عَنْهُ فَأَرْسَلَهُ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৩৭৮
دعاؤں کا بیان
مجلس ذکر کی فضیلت کے بارے میں
 ابوہریرہ اور ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے :  انہوں نے گواہی دی کہ رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا :  جو قوم اللہ کو یاد کرتی ہے  (ذکر الٰہی میں رہتی ہے)  اسے فرشتے گھیر لیتے ہیں اور رحمت الٰہی اسے ڈھانپ لیتی ہے، اس پر سکینت  (طمانیت)  نازل ہوتی ہے اور اللہ اس کا ذکر اپنے ہاں فرشتوں میں کرتا ہے ۔    امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے  ١ ؎۔    تخریج دارالدعوہ :  صحیح مسلم/الذکر والدعاء ١١ (٢٧٠٠) ، سنن ابن ماجہ/الأدب ٥٣ (٣٧٩١) (تحفة الأشراف : ٣٩٦٤، و ١٢١٩٤) (صحیح)    وضاحت :  ١ ؎ : یہ طریق  ( ٣٣٨٠) کے بعد مطبوع نسخوں میں تھا ، اور صحیح جگہ اس کی یہی ہے ، جیسا کہ کئی قلمی نسخوں میں آیا ہے ، یہ سند محبوبی کی روایت سے ساقط تھی ، اسی لیے مزی نے اس سند کو تحفۃ الأشراف میں ذکر نہیں کیا ، حافظ ابن حجر نے اس پر استدراک کیا اور کہا کہ ایسے ہی میں نے اس کو دیکھا ہے حافظ ابوعلی حسین بن محمد صدفی  ( ت : ٥١٤ ھ  )  کے قلم سے جامع ترمذی میں ، اور ایسے ہی ابن زوج الحرۃ کی روایت میں ہے ، اور میں نے اسے محبوبی کی روایت میں نہیں دیکھا ہے  ( النکت الظراف ٣/٣٢٩) ۔    قال الشيخ الألباني :  صحيح، ابن ماجة (3791)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3378   اس سند سے شعبہ نے  ابواسحاق سے، ابواسحاق نے اغر  (یعنی ابو مسلم)  سے سنا، انہوں نے کہا : میں ابو سعید خدری اور ابوہریرہ (رض) کے متعلق گواہی دیتا ہوں، ان دونوں  (بزرگوں)  نے رسول اللہ  ﷺ  کے متعلق گواہی دی، اور پھر اوپر والی حدیث جیسی حدیث ذکر کی۔    تخریج دارالدعوہ :  انظر ماقبلہ (صحیح)    قال الشيخ الألباني :  صحيح، ابن ماجة (3791)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3378  
حدیث نمبر: 3378  حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنِ الْأَغَرِّ أَبِي مُسْلِمٍ، أَنَّهُ شَهِدَ عَلَى أَبِي هُرَيْرَةَ، وَأَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، أَنَّهُمَا شَهِدَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ:  مَا مِنْ قَوْمٍ يَذْكُرُونَ اللَّهَ إِلَّا حَفَّتْ بِهِمُ الْمَلَائِكَةُ، وَغَشِيَتْهُمُ الرَّحْمَةُ، وَنَزَلَتْ عَلَيْهِمُ السَّكِينَةُ، وَذَكَرَهُمُ اللَّهُ فِيمَنْ عِنْدَهُ . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ يَعْقُوبَ، حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، قَال: سَمِعْتُ الْأَغَرَّ أَبَا مُسْلِمٍ، قَالَ: أَشْهَدُ عَلَى أَبِي سَعِيدٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: أَنَّهُمَا شَهِدَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَ مِثْلَهُ.    

তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৩৭৯
دعاؤں کا بیان
مجلس ذکر کی فضیلت کے بارے میں
 ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ  معاویہ (رض) مسجد گئے  (وہاں بیٹھے ہوئے لوگوں سے)  پوچھا : تم لوگ کس لیے بیٹھے ہو ؟ ان لوگوں نے کہا : ہم یہاں بیٹھ کر اللہ کو یاد کرتے ہیں، معاویہ (رض) نے کہا : کیا ! قسم اللہ کی ! تم کو اسی چیز نے یہاں بٹھا رکھا ہے ؟ انہوں نے کہا : قسم اللہ کی، ہم اسی مقصد سے یہاں بیٹھے ہیں، معاویہ (رض) نے کہا : میں نے تم لوگوں پر کسی تہمت کی بنا پر قسم نہیں کھلائی ہے  ١ ؎، رسول اللہ  ﷺ  کے پاس میرے جیسا مقام و منزلت رکھنے والا کوئی شخص مجھ سے کم  (ادب و احتیاط کے سبب)  آپ سے حدیثیں بیان کرنے والا نہیں ہے۔  ( پھر بھی میں تمہیں یہ حدیث سنا رہا ہوں)  رسول اللہ  ﷺ  اپنے صحابہ کے پاس گئے وہ سب دائرہ لگا کر بیٹھے ہوئے تھے، ان سے کہا : کس لیے بیٹھے ہو ؟ انہوں نے کہا : ہم یہاں بیٹھ کر اللہ کا ذکر کرتے ہیں، اللہ نے ہمیں اسلام کی طرف جو ہدایت دی ہے، اور مسلمان بنا کر ہم پر جو احسان فرمایا ہے ہم اس پر اس کا شکریہ ادا کرتے ہیں، اور اس کی حمد بیان کرتے ہیں، آپ  ﷺ  نے فرمایا :  کیا واقعی ؟ ! قسم ہے تمہیں اسی چیز نے یہاں بٹھا رکھا ہے ؟  انہوں نے کہا : قسم اللہ کی، ہمیں اسی مقصد نے یہاں بٹھایا ہے، آپ نے فرمایا :  میں نے تمہیں قسم اس لیے نہیں دلائی ہے، میں نے تم لوگوں پر کسی تہمت کی بنا پر قسم نہیں کھلائی ہے، بات یہ ہے کہ جبرائیل (علیہ السلام) میرے پاس آئے اور انہوں نے مجھے بتایا اور خبر دی کہ اللہ تعالیٰ تمہارے ذریعہ فرشتوں پر فخر کرتا ہے ۔    امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔    تخریج دارالدعوہ :  صحیح مسلم/الذکر والدعاء ١١ (٢٧٠١) ، سنن النسائی/القضاة ٣٧ (٥٤٢٨) (تحفة الأشراف : ١١٤١٦) ، و مسند احمد (٤/٩٢) (صحیح)    وضاحت :  ١ ؎ : یعنی : بات یہ نہیں ہے کہ میں آپ لوگوں کی ثقاہت کے بارے میں مطمئن نہیں ہوں اس لیے قسم کھلائی ہے ، بلکہ خود آپ  ﷺ  نے اسی طرح صحابہ سے قسم لے کر یہ حدیث بیان فرمائی تھی ، اسی اتباع میں ، میں نے بھی آپ لوگوں کو قسم کھلائی ہے ، حدیثوں کی روایت کا یہ بھی ایک انداز ہے کہ نبی اکرم  ﷺ  نے جس کیفیت کے ساتھ حدیث بیان کی ہوتی ہے ، صحابہ سے لے کر اخیر سند تک کے ساری راوی اسی طرح روایت کرتے ہیں ، اس سے حدیث کی صحت پر اور زیادہ یقین بڑھ جاتا ہے  ( اور خود آپ  ﷺ  نے بھی کسی شک و شبہ کی بنا پر ان سے قسم نہیں لی تھی ، بلکہ بیان کی جانے والی بات کی اہمیت جتانے کے لیے ایک اسلوب اختیار کیا تھا  ) ۔    قال الشيخ الألباني :  صحيح    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3379
حدیث نمبر: 3379  حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مَرْحُومُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ الْعَطَّارُ، حَدَّثَنَا أَبُو نَعَامَةَ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: خَرَجَ مُعَاوِيَةُ إِلَى الْمَسْجِدِ، فَقَالَ: مَا يُجْلِسُكُمْ ؟ قَالُوا: جَلَسْنَا نَذْكُرُ اللَّهَ، قَالَ: آللَّهِ مَا أَجْلَسَكُمْ إِلَّا ذَاكَ، قَالُوا: وَاللَّهِ مَا أَجْلَسَنَا إِلَّا ذَاكَ، قَالَ: أَمَا إِنِّي لَمْ أَسْتَحْلِفْكُمْ تُهْمَةً لَكُمْ، وَمَا كَانَ أَحَدٌ بِمَنْزِلَتِي مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَقَلَّ حَدِيثًا عَنْهُ مِنِّي، إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ عَلَى حَلْقَةٍ مِنْ أَصْحَابِهِ، فَقَالَ:  مَا يُجْلِسُكُمْ ؟  قَالُوا: جَلَسْنَا نَذْكُرُ اللَّهَ وَنَحْمَدُهُ لِمَا هَدَانَا لِلْإِسْلَامِ وَمَنَّ عَلَيْنَا بِهِ، فَقَالَ:  آللَّهِ مَا أَجْلَسَكُمْ إِلَّا ذَاكَ ؟  قَالُوا: آللَّهِ مَا أَجْلَسَنَا إِلَّا ذَاكَ، قَالَ:  أَمَا إِنِّي لَمْ أَسْتَحْلِفْكُمْ لِتُهْمَةٍ لَكُمْ، إِنَّهُ أَتَانِي جِبْرِيلُ فَأَخْبَرَنِي أَنَّ اللَّهَ يُبَاهِي بِكُمُ الْمَلَائِكَةَ . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَأَبُو نَعَامَةَ السَّعْدِيُّ اسْمُهُ عَمْرُو بْنُ عِيسَى، وَأَبُو عُثْمَانَ النَّهْدِيُّ اسْمُهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مُلٍّ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৩৮০
دعاؤں کا بیان
جس مجلس میں اللہ کا ذکر نہ ہو اس کے بارے میں
 ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ  نبی اکرم  ﷺ  نے فرمایا :  لوگ کسی مجلس میں بیٹھیں اور اللہ کی یاد نہ کریں، اور نہ اپنے نبی  ﷺ  پر  (درود)  بھیجیں تو یہ چیز ان کے لیے حسرت و ندامت کا باعث بن سکتی ہے۔ اللہ چاہے تو انہیں عذاب دے، اور چاہے تو انہیں بخش دے   ١ ؎۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے،  ٢- یہ حدیث کئی سندوں سے ابوہریرہ (رض) کے واسطے سے نبی اکرم  ﷺ  سے مروی ہے،  ٣- اور آپ کے قول «ترة» کے معنی ہیں حسرت و ندامت کے، بعض عربی داں حضرات کہتے ہیں : «ترة» کے معنی بدلہ کے ہیں۔    تخریج دارالدعوہ :  تفرد بہ المؤلف  ( تحفة الأشراف : ١٣٥٠٦) ، و مسند احمد (٢/٤٣٢، ٤٤٦، ٤٥٣) (صحیح) (سند میں صالح بن نبہان مولی التوأمة صدوق راوی ہیں، لیکن آخر میں اختلاط کا شکار ہوگئے تھے، اس لیے ان سے روایت کرنے والے قدیم تلامیذ جیسے ابن ابی ذئب اور ابن جریج کی ان سے روایت مقبول ہے، لیکن اختلاط کے بعد روایت کرنے والے شاگردوں کی ان سے روایت ضعیف ہوگی، مسند احمد کی روایت زیاد بن سعد اور ابن ابی ذئب قدماء سے ہے، نیز طبرانی اور حاکم میں ان سے راوی عمارہ بن غزیہ قدماء میں سے ہے، اور حاکم نے اس کی سند کو صحیح کہا ہے، اور متابعات بھی ہیں، جن کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے، ملاحظہ ہو : الصحیحة رقم : ٧٤)    وضاحت :  ١ ؎ : اس حدیث کا سبق یہ ہے کہ مسلمان جب بھی کسی میٹنگ میں بیٹھیں تو آخر مجلس کے خاتمہ پر پڑھی جانے والی دعا ضرور پڑھ لیں ، نہیں تو یہ مجلس بجائے اجر و ثواب کے سبب کے وبال کا سبب بن جائے گی  ( یہ حدیث رقم ٣٤٣٣ پر آرہی ہے  ) ۔    قال الشيخ الألباني :  صحيح، الصحيحة (74)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3380
حدیث نمبر: 3380  حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ صَالِحٍ مَوْلَى التَّوْءَمَةِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَرَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:  مَا جَلَسَ قَوْمٌ مَجْلِسًا لَمْ يَذْكُرُوا اللَّهَ فِيهِ، وَلَمْ يُصَلُّوا عَلَى نَبِيِّهِمْ، إِلَّا كَانَ عَلَيْهِمْ تِرَةً، فَإِنْ شَاءَ عَذَّبَهُمْ وَإِنْ شَاءَ غَفَرَ لَهُمْ . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَمَعْنَى قَوْلِهِ: تِرَةً يَعْنِي حَسْرَةً وَنَدَامَةً، وَقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْمَعْرِفَةِ بِالْعَرَبِيَّةِ: التِّرَةُ هُوَ الثَّأْرُ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৩৮১
دعاؤں کا بیان
اس بارے میں کہ مسلمان کی دعا مقبول ہے
 جابر (رض) کہتے ہیں کہ  میں نے رسول اللہ  ﷺ  کو فرماتے ہوئے سنا :  جو کوئی بندہ اللہ سے دعا کر کے مانگتا ہے اللہ اسے یا تو اس کی مانگی ہوئی چیز دے دیتا ہے، یا اس دعا کے نتیجہ میں اس دعا کے مثل اس پر آئی ہوئی مصیبت دور کردیتا ہے، جب تک اس نے کسی گناہ یا قطع رحمی  (رشتہ ناتا توڑنے)  کی دعا نہ کی ہو  ١ ؎۔    امام ترمذی کہتے ہیں : اس باب میں ابو سعید خدری اور عبادہ بن صامت سے بھی احادیث آئی ہیں۔    تخریج دارالدعوہ :  تفرد بہ المؤلف  ( تحفة الأشراف : ٢٧٨١) (حسن) (سند میں ابن لھیعہ ضعیف، اور ابوالزبیر مدلس ہیں، لیکن شواہد کی بنا پر یہ حدیث حسن ہے)    وضاحت :  ١ ؎ : معلوم ہوا کہ دعا میں فائدہ ہے ، اللہ کی مشیت کے مطابق اگر وہ قبول ہوجاتی ہے تو جو چیز اس سے مانگی گئی ہے وہ مانگنے والے کو دی جاتی ہے اور اگر جب مشیت قبول نہ ہوئی تو اس کی مثل مستقبل میں پہنچنے والی کوئی مصیبت اس سے دور کی جاتی ہے ، یا پھر آخرت میں دعا کی مثل رب العالمین مانگنے والے کو اجر عطا فرمائے گا ، لیکن اگر دعا کسی گناہ کے لیے ہو یا صلہ رحمی کے خلاف ہو تو نہ تو قبول ہوتی ہے ، اور نہ ہی اس کا ثواب ملتا ہے ، اسی طرح دعا کی قبولیت کے لیے یہ بھی شرط ہے کہ دعا آدمی کے حسب حال ہو ، اس کی فطری حیثیت سے ماوراء نہ ہو جیسے کوئی غریب ہندی یہ دعا کرے کہ اے اللہ مجھے امریکہ کا صدر بنا دے۔    قال الشيخ الألباني :  حسن، المشکاة (2236)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3381
حدیث نمبر: 3381  حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:  مَا مِنْ أَحَدٍ يَدْعُو بِدُعَاءٍ إِلَّا آتَاهُ اللَّهُ مَا سَأَلَ، أَوْ كَفَّ عَنْهُ مِنَ السُّوءِ مِثْلَهُ مَا لَمْ يَدْعُ بِإِثْمٍ أَوْ قَطِيعَةِ رَحِمٍ . وَفِي الْبَابِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، وَعُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৩৮২
دعاؤں کا بیان
اس بارے میں کہ مسلمان کی دعا مقبول ہے
 ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا :  جسے اچھا لگے  (اور پسند آئے)  کہ مصائب و مشکلات  (اور تکلیف دہ حالات)  میں اللہ اس کی دعائیں قبول کرے، تو اسے کشادگی و فراخی کی حالت میں کثرت سے دعائیں مانگتے رہنا چاہیئے ۔    امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث غریب ہے۔    تخریج دارالدعوہ :  تفرد بہ المؤلف  ( تحفة الأشراف : ١٣٤٩٧) (حسن) (سند میں شہر بن حوشب متکلم فیہ راوی ہیں، لیکن متابعات کی بنا پر یہ حدیث حسن ہے، ملاحظہ ہو الصحیحة رقم : ٥٩٣)    قال الشيخ الألباني :  حسن، الصحيحة (595)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3382  
حدیث نمبر: 3382  حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَرْزُوقٍ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ وَاقِدٍ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَطِيَّةَ اللَّيْثِيُّ، عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:  مَنْ سَرَّهُ أَنْ يَسْتَجِيبَ اللَّهُ لَهُ عِنْدَ الشَّدَائِدِ وَالْكَرْبِ فَلْيُكْثِرِ الدُّعَاءَ فِي الرَّخَاءِ . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৩৮৩
دعاؤں کا بیان
اس بارے میں کہ مسلمان کی دعا مقبول ہے
 جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ  میں نے رسول اللہ  ﷺ  کو فرماتے ہوئے سنا :  سب سے بہتر ذکر «لا إلہ إلا اللہ» ہے، اور بہترین دعا «الحمد للہ» ہے   ١ ؎۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١- یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف موسیٰ بن ابراہیم کی روایت سے جانتے ہیں،  ٢- علی بن مدینی اور کئی نے یہ حدیث موسیٰ بن ابراہیم سے روایت کی ہے۔    تخریج دارالدعوہ :  سنن النسائی/عمل الیوم واللیلة ٢٤٢ (٨٣١) ، سنن ابن ماجہ/الأدب ٥٥ (٣٨٠٠) (تحفة الأشراف : ٢٢٨٦) (حسن)    وضاحت :  ١ ؎ : «لا إله إلا الله» افضل ترین ذکر اس لیے ہے کہ یہ اصل التوحید ہے اور توحید کے مثل کوئی نیکی نہیں ، نیز یہ شرک کو سب سے زیادہ نفی کرنے والا جملہ ہے ، اور یہ دونوں باتیں اللہ کو سب سے زیادہ پسند ہیں ، اور «الحمد لله» سب سے افضل دعا اس معنی کر کے ہے کہ جو بندہ اللہ کی حمد کرتا ہے وہ اللہ کی نعمتوں کا شکر یہ ادا کرتا ہے ، اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے «لئن شکرتم لأزيدنكم»  اگر تم میرا شکر ادا کرو گے تو میں تم کو اور زیادہ دوں گا  ، تو اس سے بہتر طلب  ( دعا  )  اور کیا ہوگی ، اور بعض علماء کا کہنا ہے کہ «الحمد لله» سے اشارہ ہے سورة الحمدللہ میں جو دعا اس کی طرف ، یعنی «إهدنا الصراط المستقيم» اور یہ سب سے افضل دعا ہے۔    قال الشيخ الألباني :  حسن، ابن ماجة (3800)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3383
حدیث نمبر: 3383  حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَبِيبِ بْنِ عَرَبِيٍّ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ كَثِيرٍ الْأَنْصَارِيُّ، قَال: سَمِعْتُ طَلْحَةَ بْنَ خِرَاشٍ، قَال: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:  أَفْضَلُ الذِّكْرِ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَفْضَلُ الدُّعَاءِ: الْحَمْدُ لِلَّهِ . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ مُوسَى بْنِ إِبْرَاهِيمَ، وَقَدْ رَوَى عَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ، عَنْ مُوسَى بْنِ إِبْرَاهِيمَ هَذَا الْحَدِيثَ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৩৮৪
دعاؤں کا بیان
اس بارے میں کہ مسلمان کی دعا مقبول ہے
 ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  ہر وقت اللہ کو یاد کرتے تھے  ١ ؎۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١- یہ حدیث حسن غریب ہے،  ٢- ہم اسے صرف یحییٰ بن زکریا بن ابی زائدہ کی روایت سے جانتے ہیں۔    تخریج دارالدعوہ :  صحیح البخاری/الأذان ١٩ (تعلیقا) صحیح مسلم/الطھارة ٣٠ (٣٧٣) ، والحیض ٣٠ (٣٧٣) ، سنن ابی داود/ الطھارة ٩ (١٨) ، سنن ابن ماجہ/الطھارة ١١ (٣٠٣) (تحفة الأشراف : ١٦٣٦١) ، و مسند احمد (٦/٧٠، ١٥٣، ١٧٨) (صحیح)    وضاحت :  ١ ؎ : سبھی اوقات سے یہ اوقات مستثنیٰ ہیں مثلاً : پاخانہ ، پیشاب کی حالت اور جماع کی حالت ، کیونکہ ان حالات میں ذکر الٰہی نہ کرنا ، اسی طرح ان حالتوں میں مؤذن کے کلمات کا جواب نہ دینا اور چھینک آنے پر «الحمد للہ» نہ کہنا اور سلام کا جواب نہ دینا بہتر ہے۔    قال الشيخ الألباني :  صحيح، ابن ماجة (302)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3384  
حدیث نمبر: 3384  حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ الْمُحَارِبِيُّ، قَالَا: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ زَكَرِيَّا بْنِ أَبِي زَائِدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ خَالِدِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنِ الْبَهِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ:  كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَذْكُرُ اللَّهَ عَلَى كُلِّ أَحْيَانِهِ . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ يَحْيَى بْنِ زَكَرِيَّا بْنِ أَبِي زَائِدَةَ، وَالْبَهِيُّ اسْمُهُ عَبْدُ اللَّهِ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৩৮৫
دعاؤں کا بیان
اس بارے میں کہ دعا کرنے والا پہلے اپنے لئے دعا کرے
 ابی بن کعب (رض) سے کہتے ہیں کہ  جب رسول اللہ  ﷺ  کسی کو یاد کر کے اس کے لیے دعا کرتے، تو پہلے اپنے لیے دعا کرتے پھر اس کے لیے۔    امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے۔    تخریج دارالدعوہ :  صحیح البخاری/العلم ٤٤ (١٢٢) ، والأنبیاء ٢٧ (٣٤٠٠) ، وتفسیر (٤٧٢٥) ، صحیح مسلم/الفضائل ٤٦ (٢٣٨٠) ، سنن ابی داود/ الحروف ح ١٦ (٣٩٨٤) (تحفة الأشراف : ٤١) (صحیح)    قال الشيخ الألباني :  صحيح، المشکاة (2258 / التحقيق الثانی)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3385
حدیث نمبر: 3385  حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو قَطَنٍ، عَنْ حَمْزَةَ الزَّيَّاتِ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:  كَانَ إِذَا ذَكَرَ أَحَدًا فَدَعَا لَهُ بَدَأَ بِنَفْسِهِ . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ، وَأَبُو قَطَنٍ اسْمُهُ عَمْرُو بْنُ الْهَيْثَمِ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৩৮৬
دعاؤں کا بیان
دعا کرتے وقت ہاتھ اٹھانے کے بارے میں
 عمر بن خطاب (رض) کہتے ہیں کہ  جب رسول اللہ  ﷺ  دعا میں ہاتھ اٹھاتے تھے تو جب تک اپنے دونوں ہاتھ منہ مبارک پر پھیر نہ لیتے انہیں نیچے نہ گراتے تھے، محمد بن مثنیٰ اپنی روایت میں کہتے ہیں : آپ دونوں ہاتھ جب دعا کے لیے اٹھاتے تو انہیں اس وقت تک واپس نہ لاتے جب تک کہ دونوں ہاتھ اپنے چہرے مبارک پر پھیر نہ لیتے  ١ ؎۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١- یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف حماد بن عیسیٰ کی روایت سے جانتے ہیں،  ٢- حماد بن عیسیٰ نے اسے تنہا روایت کیا ہے، اور یہ بہت کم حدیثیں بیان کرتے ہیں، ان سے کئی لوگوں نے روایت لی ہے،  ٣- حنظلہ ابن ابی سفیان جمحی ثقہ ہیں، انہیں یحییٰ بن سعید قطان نے ثقہ کہا ہے۔    تخریج دارالدعوہ :  تفرد بہ المؤلف  ( تحفة الأشراف : ١٠٥٣١) (ضعیف) (سند میں ” عیسیٰ بن حماد “ ضعیف راوی ہیں)    وضاحت :  ١ ؎ : دونوں روایتوں کا مفہوم ایک ہے فرق صرف الفاظ میں ہے ، ایک میں ہے «لم يحطهما» اور دوسری میں ہے «لايردهما» اور یہی یہاں دونوں روایتوں کے ذکر سے بتانا مقصود ہے۔    قال الشيخ الألباني :  ضعيف، المشکاة (2245) ، الإرواء (433) // ضعيف الجامع الصغير (4412) //   صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3386
حدیث نمبر: 3386  حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَى مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى وَإِبْرَاهِيمُ بْنُ يَعْقُوبَ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ، قَالُوا: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ عِيسَى الْجُهَنِيُّ، عَنْحَنْظَلَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ الْجُمَحِيِّ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:  كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا رَفَعَ يَدَيْهِ فِي الدُّعَاءِ لَمْ يَحُطَّهُمَا حَتَّى يَمْسَحَ بِهِمَا وَجْهَهُ ، قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى فِي حَدِيثِهِ: لَمْ يَرُدَّهُمَا حَتَّى يَمْسَحَ بِهِمَا وَجْهَهُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ حَمَّادِ بْنِ عِيسَى، وَقَدْ تَفَرَّدَ بِهِ وَهُوَ قَلِيلُ الْحَدِيثِ، وَقَدْ حَدَّثَ عَنْهُ النَّاسُ، وَحَنْظَلَةُ بْنُ أَبِي سُفْيَانَ الْجُمَحِيُّ ثِقَةٌ وَثَّقَهُ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৩৮৭
دعاؤں کا بیان
دعا میں جلدی کرنے والے کے متعلق
 ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ  نبی اکرم  ﷺ  نے فرمایا :  تم میں سے ہر کسی کی دعا قبول کی جاتی ہے، جب تک کہ وہ جلدی نہ مچائے  (جلدی یہ ہے کہ)  وہ کہنے لگتا ہے : میں نے دعا کی مگر وہ قبول نہ ہوئی   ١ ؎۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے،  ٢- اس باب میں انس (رض) سے بھی روایت ہے۔    تخریج دارالدعوہ :  صحیح البخاری/الدعوات ٢٢ (٦٣٤٠) ، صحیح مسلم/الزکر والدعاء ٢٥ (٢٧٣٥) ، سنن ابی داود/ الصلاة ٣٥٨ (١٤٨٤) ، سنن ابن ماجہ/الدعاء ٨ (٣٨٥٣) (تحفة الأشراف : ١٢٩٢٩) ، وط/القرآن ٨ (٢٩) ، و مسند احمد (٢/٣٩٦) (صحیح)    وضاحت :  ١ ؎ : اس سے معلوم ہوا کہ دعا کرتے ہوئے انسان یہ کبھی نہ سوچے کہ دعا مانگتے ہوئے اتنا عرصہ گزر گیا اور دعا قبول نہیں ہوئی ، بلکہ اسے مسلسل دعا مانگتے رہنا چاہیئے ، کیونکہ اس تاخیر میں بھی کوئی مصلحت ہے جو صرف اللہ کو معلوم ہے۔    قال الشيخ الألباني :  صحيح، صحيح أبي داود (2334)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3387
حدیث نمبر: 3387  حَدَّثَنَا الْأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي عُبَيْدٍ مَوْلَى ابْنِ أَزْهَرَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:  يُسْتَجَابُ لِأَحَدِكُمْ مَا لَمْ يَعْجَلْ، يَقُولُ: دَعَوْتُ فَلَمْ يُسْتَجَبْ لِي . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَأَبُو عُبَيْدٍ اسْمُهُ سَعْدٌ وَهُوَ مَوْلَى عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَزْهَرَ وَيُقَالُ: مَوْلَى عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَزْهَرَ هُوَ ابْنُ عَمِّ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَابِ، عَنْ أَنَسٍ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৩৮৮
دعاؤں کا بیان
صبح اور شام کی دعائے متعلق
 ابان بن عثمان کہتے ہیں کہ  میں نے عثمان بن عفان (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا :  ایسا کوئی شخص نہیں ہے جو ہر روز صبح و شام کو «بسم اللہ الذي لا يضر مع اسمه شيء في الأرض ولا في السماء وهو السميع العليم»   میں اس اللہ کے نام کے ذریعہ سے پناہ مانگتا ہوں جس کے نام کی برکت سے زمین و آسمان کی کوئی چیز نقصان نہیں پہنچا سکتی، اور وہ سننے والا جاننے والا ہے ، تین بار پڑھے اور اسے کوئی چیز نقصان پہنچا دے۔ ابان کو ایک جانب فالج کا اثر تھا،  (حدیث سن کر)  حدیث سننے والا شخص ان کی طرف دیکھنے لگا، ابان نے ان سے کہا : میاں کیا دیکھ رہے ہو ؟ حدیث بالکل ویسی ہی ہے جیسی میں نے تم سے بیان کی ہے۔ لیکن بات یہ ہے کہ جس دن مجھ پر فالج کا اثر ہوا اس دن میں نے یہ دعا نہیں پڑھی تھی، اور نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ نے مجھ پر اپنی تقدیر کا فیصلہ جاری کردیا۔    امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔    تخریج دارالدعوہ :  سنن ابی داود/ الأدب ١١٠ (٥٠٨٨) ، سنن ابن ماجہ/الدعاء ١٤ (٣٨٦٩) (تحفة الأشراف : ٩٧٧٨) ، و مسند احمد (١/٦٢، ٧٢) (صحیح)    قال الشيخ الألباني :  حسن صحيح، ابن ماجة (3869)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3388
حدیث نمبر: 3388  حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبَانَ بْنِ عُثْمَانَ، قَال: سَمِعْتُ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:  مَا مِنْ عَبْدٍ يَقُولُ فِي صَبَاحِ كُلِّ يَوْمٍ وَمَسَاءِ كُلِّ لَيْلَةٍ: بِسْمِ اللَّهِ الَّذِي لَا يَضُرُّ مَعَ اسْمِهِ شَيْءٌ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاءِ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ لَمْ يَضُرَّهُ شَيْءٌ ، وَكَانَ أَبَانُ قَدْ أَصَابَهُ طَرَفُ فَالِجٍ فَجَعَلَ الرَّجُلُ يَنْظُرُ إِلَيْهِ، فَقَالَ لَهُ أَبَانُ: مَا تَنْظُرُ أَمَا إِنَّ الْحَدِيثَ كَمَا حَدَّثْتُكَ وَلَكِنِّي لَمْ أَقُلْهُ يَوْمَئِذٍ لِيُمْضِيَ اللَّهُ عَلَيَّ قَدَرَهُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৩৮৯
دعاؤں کا بیان
صبح اور شام کی دعائے متعلق
 ثوبان (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا :  جو شخص شام کے وقت کہا کرے «رضيت بالله ربا وبالإسلام دينا وبمحمد نبيا»  میں اللہ کے رب ہونے، اسلام کے دین ہونے اور محمد  ﷺ  کے نبی ہونے پر راضی  (و خوش)  ہوں ، تو اللہ پر یہ حق بنتا ہے کہ وہ اس بندے کو بھی اپنی طرف سے راضی و خوش کر دے ۔    امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔    تخریج دارالدعوہ :  تفرد بہ المؤلف  ( تحفة الأشراف : ٢١٢٢) (ضعیف) (سند میں سعید بن المرزبان ضعیف راوی ہیں، تراجع الالبانی ٢٠٧)    قال الشيخ الألباني :  ضعيف نقد الکتاني (33 / 34) ، الکلم الطيب (24) ، الضعيفة (5020) // ضعيف الجامع الصغير (5735) //   صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3389
حدیث نمبر: 3389  حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ، حَدَّثَنَا عُقْبَةُ بْنُ خَالِدٍ، عَنْ أَبِي سَعْدٍ سَعِيدِ بْنِ الْمَرْزُبَانِ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ ثَوْبَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:  مَنْ قَالَ حِينَ يُمْسِي: رَضِيتُ بِاللَّهِ رَبًّا وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا وَبِمُحَمَّدٍ نَبِيًّا كَانَ حَقًّا عَلَى اللَّهِ أَنْ يُرْضِيَهُ . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.  

তাহকীক: