আল জামিউল কাবীর- ইমাম তিরমিযী রহঃ (উর্দু)

الجامع الكبير للترمذي

مناقب کا بیان - এর পরিচ্ছেদসমূহ

মোট হাদীস ২০ টি

হাদীস নং: ৩৬০৫
مناقب کا بیان
نبی اکرم ﷺ کی فضیلت کے بارے میں
واثلہ بن اسقع (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ نے ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد میں سے اسماعیل (علیہ السلام) کا انتخاب فرمایا ١ ؎ اور اسماعیل (علیہ السلام) کی اولاد میں سے بنی کنانہ کا، اور بنی کنانہ میں سے قریش کا، اور قریش میں سے بنی ہاشم کا، اور بنی ہاشم میں سے میرا انتخاب فرمایا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الفضائل ١ (٢٢٧٦) (تحفة الأشراف : ١١٧٤١) ، مسند احمد (٤/١٠٧) (صحیح) (پہلا فقرہ إن اللہ اصطفی من ولد إبراهيم إسماعيل کے علاوہ بقیہ حدیث صحیح ہے، اس سند میں محمد بن مصعب صدوق کثیر الغلط راوی ہیں، اور آگے آنے والی حدیث میں یہ پہلا فقرہ نہیں ہے، اس لیے یہ ضعیف ہے، الصحیحة ٣٠٢) وضاحت : ١ ؎ : صحیح مسلم میں اگلی حدیث کی طرح یہ ٹکڑا نہیں ہے ، یہ محم بن مصعب کی روایت سے ہے جو کثیر الغلط ہیں ، اس لیے یہ ضعیف ہے ، معنی کے لحاظ سے بھی یہ ٹکڑا صحیح نہیں ہے ، اس سے دوسرے ان انبیاء کی نسب کی تنقیص لازم آتی ہے ، جو اسحاق (علیہ السلام) کی نسل سے ہیں ، اس کے بعد والے اجزاء میں اس طرح کی کوئی بات نہیں اس حدیث سے نبی کریم محمد بن عبداللہ عبدالمطلب کے سلسلہ نسب کے شروع سے اخیر تک اشرف نسب ہونے پر روشنی پڑتی ہے ، نبی قوم کے اشرف نسب ہی میں مبعوث ہوتا ہے ، تاکہ کسی کے لیے کسی بھی مرحلے میں اس کی اعلیٰ نسبی اس نبی پر ایمان لانے میں رکاوٹ نہ بن سکے ، یہ بھی اللہ کی اپنے بندوں پر ایک طرح کی مہربانی ہی ہے کہ اس کے اپنے وقت کے نبی پر ایمان لانے میں کوئی ادنیٰ سے ادنیٰ سی بات رکاوٹ نہ بن سکے ، «فالحمدللہ الرحمن الرحیم»۔ قال الشيخ الألباني : صحيح دون الاصطفاء الأول، الصحيحة (302) ، ويأتى برقم (3869) ، (3687) // أي في صحيح سنن الترمذي - باختصار السند - برقم (2855 / 1 - 3869) ، ضعيف الجامع الصغير (1553) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3605
حدیث نمبر: 3605 حَدَّثَنَا خَلَّادُ بْنُ أَسْلَمَ الْبَغْدَادِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُصْعَبٍ، حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ، عَنْ أَبِي عَمَّارٍ، عَنْ وَاثِلَةَ بْنِ الْأَسْقَعِرَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَى مِنْ وَلَدِ إِبْرَاهِيمَ إِسْمَاعِيل، ‏‏‏‏‏‏وَاصْطَفَى مِنْ وَلَدِ إِسْمَاعِيل بَنِي كِنَانَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَاصْطَفَى مِنْ بَنِي كِنَانَةَ قُرَيْشًا، ‏‏‏‏‏‏وَاصْطَفَى مِنْ قُرَيْشٍ بَنِي هَاشِمٍ، ‏‏‏‏‏‏وَاصْطَفَانِي مِنْ بَنِي هَاشِمٍ . قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৩৬০৬
مناقب کا بیان
نبی اکرم ﷺ کی فضیلت کے بارے میں
واثلہ بن اسقع (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے اسماعیل (علیہ السلام) کی اولاد سے کنانہ کا انتخاب فرمایا اور کنانہ سے قریش کا اور قریش میں سے ہاشم کا اور بنی ہاشم میں سے میرا انتخاب فرمایا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (صحیح) (الصحیحة ٣٠٢) قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (302) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3606
حدیث نمبر: 3606 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الدِّمَشْقِيُّ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ، حَدَّثَنِي شَدَّادٌ أَبُو عَمَّارٍ، حَدَّثَنِي وَاثِلَةُ بْنُ الْأَسْقَعِ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَى كِنَانَةَ مِنْ وَلَدِ إِسْمَاعِيل، ‏‏‏‏‏‏وَاصْطَفَى قُرَيْشًا مِنْ كِنَانَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَاصْطَفَى هَاشِمًا مِنْ قُرَيْشٍ، ‏‏‏‏‏‏وَاصْطَفَانِي مِنْ بَنِي هَاشِمٍ . قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৩৬০৭
مناقب کا بیان
نبی اکرم ﷺ کی فضیلت کے بارے میں
عباس بن عبدالمطلب (رض) کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! قریش کے لوگ بیٹھے اور انہوں نے قریش میں اپنے حسب کا ذکر کیا تو آپ کی مثال کھجور کے ایک ایسے درخت سے دی جو کسی کوڑے خانہ پر (اگا) ہو تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کیا، اس نے اس میں سے دو گروہوں کو پسند کیا، اور مجھے ان میں سب سے اچھے گروہ (یعنی اولاد اسماعیل) میں پیدا کیا، پھر اس نے قبیلوں کو چنا اور مجھے بہتر قبیلے میں سے کیا، پھر گھروں کو چنا اور مجھے ان گھروں میں سب سے بہتر گھر میں کیا، تو میں ذاتی طور پر بھی ان میں سب سے بہتر ہوں اور گھرانے کے اعتبار سے بھی بہتر ہوں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف، وانظر مایأتي ( تحفة الأشراف : ٥١٣٠) (ضعیف) (سند میں یزید بن ابی زیاد ضعیف راوی ہیں) قال الشيخ الألباني : ضعيف نقد الکتاني (31 - 32) ، الضعيفة (3073) // ضعيف الجامع الصغير (1605) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3607
حدیث نمبر: 3607 حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ مُوسَى الْبَغْدَادِيُّ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ أَبِي خَالِدٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ، عَنِ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، قَالَ:‏‏‏‏ قُلْتُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ:‏‏‏‏ إِنَّ قُرَيْشًا جَلَسُوا فَتَذَاكَرُوا أَحْسَابَهُمْ بَيْنَهُمْ فَجَعَلُوا مَثَلَكَ مَثَلَ نَخْلَةٍ فِي كَبْوَةٍ مِنَ الْأَرْضِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ إِنَّ اللَّهَ خَلَقَ الْخَلْقَ،‏‏‏‏ فَجَعَلَنِي مِنْ خَيْرِهِمْ مِنْ خَيْرِ فِرَقِهِمْ،‏‏‏‏ وَخَيْرِ الْفَرِيقَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ تَخَيَّرَ الْقَبَائِلَ فَجَعَلَنِي مِنْ خَيْرِ قَبِيلَةٍ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ تَخَيَّرَ الْبُيُوتَ فَجَعَلَنِي مِنْ خَيْرِ بُيُوتِهِمْ، ‏‏‏‏‏‏فَأَنَا خَيْرُهُمْ نَفْسًا وَخَيْرُهُمْ بَيْتًا . قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَسَنٌ وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْحَارِثِ هُوَ ابْنُ نَوْفَلٍ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৩৬০৮
مناقب کا بیان
نبی اکرم ﷺ کی فضیلت کے بارے میں
مطلب بن ابی وداعہ کہتے ہیں کہ عباس (رض) رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے، گویا انہوں نے کوئی چیز سنی تھی، تو نبی اکرم ﷺ منبر پر کھڑے ہوئے اور فرمایا : میں کون ہوں ؟ لوگوں نے کہا : آپ اللہ کے رسول ہیں سلامتی ہو آپ پر، آپ نے فرمایا : میں محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب ہوں، اللہ نے مخلوق کو پیدا کیا تو مجھے ان کے سب سے بہتر مخلوق میں کیا، پھر ان کے دو گروہ کئے تو مجھے ان کے بہتر گروہ میں کیا، پھر انہیں قبیلوں میں بانٹا تو مجھے ان کے سب سے بہتر قبیلہ میں کیا، پھر ان کے کئی گھر کیے تو مجھے ان کے سب سے بہتر گھر میں کیا اور شخصی طور پر بھی مجھے ان میں سب سے بہتر بنایا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن ہے، ٢- جس طرح اسماعیل بن ابی خالد نے یزید بن ابی زیاد سے اور یزید بن ابی زیاد نے عبداللہ بن حارث کے واسطہ سے عباس بن عبدالمطلب سے روایت کی ہے اسی طرح سفیان ثوری نے بھی یزید بن ابی زیاد سے روایت کی ہے (وہ یہی روایت ہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ٣٥٣٢ (ضعیف) قال الشيخ الألباني : ضعيف، الضعيفة (3073) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3608
حدیث نمبر: 3608 حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ، عَنِالْمُطَّلِبِ بْنِ أَبِي وَدَاعَةَ، قَالَ:‏‏‏‏ جَاءَ الْعَبَّاسُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكَأَنَّهُ سَمِعَ شَيْئًا، ‏‏‏‏‏‏فَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْمِنْبَرِ فَقَالَ:‏‏‏‏ مَنْ أَنَا ؟ فَقَالُوا:‏‏‏‏ أَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ عَلَيْكَ السَّلَامُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، ‏‏‏‏‏‏إِنَّ اللَّهَ خَلَقَ الْخَلْقَ فَجَعَلَنِي فِي خَيْرِهِمْ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ جَعَلَهُمْ فِرْقَتَيْنِ فَجَعَلَنِي فِي خَيْرِهِمْ فِرْقَةً، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ جَعَلَهُمْ قَبَائِلَ فَجَعَلَنِي فِي خَيْرِهِمْ قَبِيلَةً، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ جَعَلَهُمْ بُيُوتًا فَجَعَلَنِي فِي خَيْرِهِمْ بَيْتًا، ‏‏‏‏‏‏وَخَيْرِهِمْ نَفْسًا . قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَسَنٌ، ‏‏‏‏‏‏وَرُوِي عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ نَحْوَ حَدِيثِ إِسْمَاعِيل بْنِ أَبِي خَالِدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ، عَنِ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৩৬০৯
مناقب کا بیان
نبی اکرم ﷺ کی فضیلت کے بارے میں
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ لوگوں نے پوچھا : اللہ کے رسول ! نبوت آپ کے لیے کب واجب ہوئی ؟ تو آپ نے فرمایا : جب آدم روح اور جسم کے درمیان تھے ١ ؎۔ (یعنی ان کی پیدائش کی تیاری ہو رہی تھی) ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابوہریرہ (رض) کی یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں، ٢- اس باب میں میسرہ فجر سے بھی روایت آئی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٥٣٩٧) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یہی وہ مشہور حدیث ہے جس کی تشریح میں اہل بدعت حد سے زیادہ غلو کا شکار ہوئے ہیں حتیٰ کہ دیگر انبیاء (علیہم السلام) کی تنقیص تک بات جا پہنچی ہے ، حالانکہ اس میں صرف اتنی بات بیان ہوئی ہے کہ آدم (علیہ السلام) کی پیدائش سے پہلے میرے لیے نبوت کا فیصلہ ( بطور تقدیر ) کردیا گیا تھا ، ظاہر بات ہے کہ کسی کے لیے کسی بات کا فیصلہ روز ازل میں اللہ نے لکھ دیا تھا ، اور روز ازل آدم (علیہ السلام) پیدائش سے پہلے ، اس حدیث کے ثابت الفاظ یہی ہیں باقی دوسرے الفاظ ثابت نہیں ہیں جیسے «کنت نبیا وآدم بین الماء والطین» میں اس وقت بھی نبی تھا جب آدم ابھی اور مٹی کے درمیان تھے اسی طرح «کنت نبیا ولاماء ولا طین» میں اس وقت نبی تھا جب نہ پانی تھا نہ مٹی ، یعنی تخلیق کائنات سے پہلے ہی میں نبی تھا ان الفاظ کے بارے میں علماء محدثین نے «لا اصل لہ» فرمایا ہے ، یعنی ان الفاظ کے ساتھ اس حدیث کی کوئی صحیح کیا غلط سند تک نہیں اللہ غلو سے بچائے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (1856) ، المشکاة (5758) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3609
حدیث نمبر: 3609 حَدَّثَنَا أَبُو هَمَّامٍ الْوَلِيدُ بْنُ شُجَاعِ بْنِ الْوَلِيدِ الْبَغْدَادِيُّ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، عَنِ الْأَوْزَاعِيِّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالُوا:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَتَى وَجَبَتْ لَكَ النُّبُوَّةُ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ وَآدَمُ بَيْنَ الرُّوحِ وَالْجَسَدِ . قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ، ‏‏‏‏‏‏مِنْ حَدِيثِ أَبِي هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، ‏‏‏‏‏‏وَفِي الْبَابِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مَيْسَرَةَ الْفَجْرِ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৩৬১০
مناقب کا بیان
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب لوگ (قبروں سے) اٹھائے جائیں گے تو میں پہلا وہ شخص ہوں گا جس سے زمین شق ہوگی اور جب وہ دربار الٰہی میں آئیں گے تو میں ان کا خطیب ہوں گا، اور جب وہ مایوس اور ناامید ہوجائیں گے تو میں انہیں خوشخبری سنانے والا ہوں گا، حمد کا پرچم اس دن میرے ہاتھ میں ہوگا، اور میں اپنے رب کے نزدیک اولاد آدم میں سب سے بہتر ہوں اور یہ کوئی فخر کی بات نہیں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٨٣١) (ضعیف) (سند میں لیث بن ابی سلیم ضعیف راوی ہیں) قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (5765) // ضعيف الجامع الصغير (1309) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3610
حدیث نمبر: 3610 حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ يَزِيدَ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلَامِ بْنُ حَرْبٍ، عَنْ لَيْثٍ، عَنْ الرَّبِيعِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ أَنَا أَوَّلُ النَّاسِ خُرُوجًا إِذَا بُعِثُوا، ‏‏‏‏‏‏وَأَنَا خَطِيبُهُمْ إِذَا وَفَدُوا، ‏‏‏‏‏‏وَأَنَا مُبَشِّرُهُمْ إِذَا أَيِسُوا، ‏‏‏‏‏‏لِوَاءُ الْحَمْدِ يَوْمَئِذٍ بِيَدِي، ‏‏‏‏‏‏وَأَنَا أَكْرَمُ وَلَدِ آدَمَ عَلَى رَبِّي وَلَا فَخْرَ . قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَسَنٌ غَرِيبٌ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৩৬১১
مناقب کا بیان
N/A
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں پہلا وہ شخص ہوں گا جس سے زمین شق ہو گی پھر مجھے جنت کے جوڑوں میں سے ایک جوڑا پہنایا جائے گا، پھر میں عرش کے داہنی جانب کھڑا ہوں گا، میرے علاوہ وہاں مخلوق میں سے کوئی اور کھڑا نہیں ہو سکے گا“۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے۔
حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ يَزِيدَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلَامِ بْنُ حَرْبٍ، عَنْ يَزِيدَ أَبِي خَالِدٍ، عَنِ الْمِنْهَالِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ أَنَا أَوَّلُ مَنْ تَنْشَقُّ عَنْهُ الْأَرْضُ،‏‏‏‏ فَأُكْسَى الْحُلَّةً مِنْ حُلَلِ الْجَنَّةِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ أَقُومُ عَنْ يَمِينِ الْعَرْشِ لَيْسَ أَحَدٌ مِنَ الْخَلَائِقِ يَقُومُ ذَلِكَ الْمَقَامَ غَيْرِي . قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৩৬১২
مناقب کا بیان
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میں پہلا وہ شخص ہوں گا جس سے زمین شق ہوگی پھر مجھے جنت کے جوڑوں میں سے ایک جوڑا پہنایا جائے گا، پھر میں عرش کے داہنی جانب کھڑا ہوں گا، میرے علاوہ وہاں مخلوق میں سے کوئی اور کھڑا نہیں ہو سکے گا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٣٥٥٦) (ضعیف) (سند میں حسین بن یزید کوفی، لین الحدیث یعنی ضعیف راوی ہیں) قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (5766) // ضعيف الجامع الصغير (1311) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3611
حدیث نمبر: 3611 حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ يَزِيدَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلَامِ بْنُ حَرْبٍ، عَنْ يَزِيدَ أَبِي خَالِدٍ، عَنِ الْمِنْهَالِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ أَنَا أَوَّلُ مَنْ تَنْشَقُّ عَنْهُ الْأَرْضُ،‏‏‏‏ فَأُكْسَى الْحُلَّةً مِنْ حُلَلِ الْجَنَّةِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ أَقُومُ عَنْ يَمِينِ الْعَرْشِ لَيْسَ أَحَدٌ مِنَ الْخَلَائِقِ يَقُومُ ذَلِكَ الْمَقَامَ غَيْرِي . قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৩৬১২
مناقب کا بیان
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ سے میرے لیے وسیلہ کا سوال کرو، لوگوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! وسیلہ کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا : یہ جنت کا سب سے اونچا درجہ ہے جسے صرف ایک ہی شخص پاسکتا ہے اور مجھے امید ہے کہ وہ میں ہوں گا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث غریب ہے، اس کی سند زیادہ قوی نہیں ہے، ٢- کعب غیر معروف شخص ہیں، ہم لیث بن سلیم کے علاوہ کسی اور کو نہیں جانتے ہیں جس نے ان سے روایت کی ہو۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٤٢٩٥) (صحیح) (سند میں لیث بن ابی سلیم ضعیف، اور کعب مدنی مجہول راوی ہیں، لیکن حدیث نمبر ٣٦١٤ سے تقویت پا کر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث میں مذکورہ وسیلہ سے وہی وسیلہ مراد ہے ، جس کی دعا ایک امتی نبی کریم ﷺ کے لیے ہر اذان کے بعد کرتا ہے ،«اللہم آت محمد الوسیلۃ» اے اللہ ! محمد ﷺ کو وسیلہ عطا فرما اس حدیث میں آپ نے جو امت کو اپنے لیے وسیلہ طلب کرنے کے لیے فرمایا خود ہی اس طلب کو اذان کی بعد والی دعا میں کردیا ، اذان سے باہر بھی آدمی نہ دعا کرسکتا ہے ، یہ دعا کرنے سے خود آدمی کو دعا کا ثواب ملا کرے گا ، آپ کو تو وسیلہ عطا کیا جانے والا ہی ہے ، اسی لیے آپ نے فرمایا کہ مجھے امید ہے کہ اس سے سرفراز ہونے والا میں ہی ہوں گا تو یقیناً آپ ہی ہوں گے ، اس حدیث سے آپ کی فضیلت واضح طور پر ظاہر ہو رہی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، المشکاة (5767) ، وهو الآتی (3876) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3612
حدیث نمبر: 3612 حَدَّثَنَا بُنْدَارٌ، حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ الْثَّوْرِيُّ، عَنْ لَيْثٍ وَهُوَ ابْنُ أَبِي سُلَيْمٍ، حَدَّثَنِي كَعْبٌ، حَدَّثَنِي أَبُو هُرَيْرَةَ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ سَلُوا اللَّهَ لِيَ الْوَسِيلَةَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالُوا:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَمَا الْوَسِيلَةُ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ أَعْلَى دَرَجَةٍ فِي الْجَنَّةِ لَا يَنَالُهَا إِلَّا رَجُلٌ وَاحِدٌ أَرْجُو أَنْ أَكُونَ أَنَا هُوَ . قَالَ:‏‏‏‏ هَذَا غَرِيبٌ إِسْنَادُهُ لَيْسَ بِالْقَوِيِّ، ‏‏‏‏‏‏وَكَعْبٌ لَيْسَ هُوَ بِمَعْرُوفٍ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا نَعْلَمُ أَحَدًا رَوَى عَنْهُ غَيْرَ لَيْثِ بْنِ أَبِي سُلَيْمٍ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৩৬১৩
مناقب کا بیان
ابی بن کعب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : انبیاء میں میری مثال ایک ایسے آدمی کی ہے جس نے ایک گھر بنایا اور اسے بہت اچھا بنایا، مکمل اور نہایت خوبصورت بنایا، لیکن اس میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی، لوگ اس میں پھرتے تھے اور اس کی خوبصورتی کو دیکھ کر تعجب کرتے تھے اور کہتے تھے، کاش اس اینٹ کی جگہ بھی پوری ہوجاتی، تو میں نبیوں میں ایسے ہی ہوں جیسی خالی جگہ کی یہ اینٹ ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٣٢) ، و مسند احمد (٥/١٣٧) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح تخريج فقه السيرة (141) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3613 اور اسی سند سے نبی اکرم ﷺ سے مروی ہے آپ نے فرمایا : جب قیامت کا دن ہوگا تو میں نبیوں کا امام اور ان کا خطیب ہوں گا اور ان کی شفاعت کرنے والا ہوں گا اور (اور اس پر مجھے) کوئی گھمنڈ نہیں ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یہ حدیث منجملہ ان احادیث کے ہے جن سے قطعی طور پر ثابت ہوتا ہے کہ آپ ہی آخری نبی ہیں ، آپ کے بعد نبوت کا سلسلہ ختم ہے ، تو فرمایا کہ میں وہ آخری اینٹ ہوں اب اس اینٹ کے جگہ پر جانے کے بعد کسی اور اینٹ کی ضرورت ہی کیا رہ گئے شاعر نے اس حدیث کی کیا خوب ترجمانی کی ہے : قصر ہدیٰ کے آخری پتھر ہیں مصطفی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح تخريج فقه السيرة (141) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3613
حدیث نمبر: 3613 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ الْعَقَدِيُّ، حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ، عَنْالطُّفَيْلِ بْنِ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:‏‏‏‏ مَثَلِي فِي النَّبِيِّينَ كَمَثَلِ رَجُلٍ بَنَى دَارًا فَأَحْسَنَهَا وَأَكْمَلَهَا وَأَجْمَلَهَا وَتَرَكَ مِنْهَا مَوْضِعَ لَبِنَةٍ، ‏‏‏‏‏‏فَجَعَلَ النَّاسُ يَطُوفُونَ بِالْبِنَاءِ وَيَعْجَبُونَ مِنْهُ،‏‏‏‏ وَيَقُولُونَ:‏‏‏‏ لَوْ تَمَّ مَوْضِعُ تِلْكَ اللَّبِنَةِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنَا فِي النَّبِيِّينَ مَوْضِعُ تِلْكَ اللَّبِنَةِ .وَبِهَذَا الْإِسْنَادِ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:‏‏‏‏ إِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ كُنْتُ إِمَامَ النَّبِيِّينَ وَخَطِيبَهُمْ وَصَاحِبَ شَفَاعَتِهِمْ غَيْرُ فَخْرٍ . قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৩৬১৪
مناقب کا بیان
عبداللہ بن عمرو (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : جب تم مؤذن کی آواز سنو تو وہی کہو جو مؤذن کہتا ہے ١ ؎ پھر میرے اوپر صلاۃ (درود) بھیجو کیونکہ جس نے میرے اوپر ایک بار درود بھیجا تو اللہ اس پر دس بار اپنی رحمتیں نازل فرمائے گا، پھر میرے لیے وسیلہ مانگو کیونکہ وہ جنت میں ایک (ایسا بلند) درجہ ہے جس کے لائق اللہ کے بندوں میں سے صرف ایک بندہ ہے اور میں امید کرتا ہوں کہ وہ بندہ میں ہی ہوں اور جس نے میرے لیے (اللہ سے) وسیلہ مانگا تو اس کے لیے میری شفاعت حلال ہوگئی ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں : اس سند میں مذکور عبدالرحمٰن بن جبیر قرشی، مصری اور مدنی ہیں اور نفیر کے پوتے عبدالرحمٰن بن جبیر شامی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ٧ (٣٤٨) ، سنن ابی داود/ الصلاة ٣٦ (٥٢٣) ، سنن النسائی/الأذان ٣٧ (٦٧٩) (تحفة الأشراف : ٨٨٧١) ، و مسند احمد (٢/١٦٨) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : سوائے «حي علی الصلاة ، حي علی الفلاح» کے اس جواب میں کہا جائے گا ، «لا حول ولا قوة إلا بالله» مطلب یہ ہے کہ مؤذن جو صلاۃ و فلاح کے لیے پکار رہا ہے ، تو اس پکار کا جواب ہم بندے بغیر اللہ کے عطا کردہ طاقت و توفیق کے نہیں دے سکتے ، یعنی صلاۃ میں نہیں حاضر ہوسکتے جب تک کہ اللہ کی مدد اور توفیق نہ ہو۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الإرواء (242) ، التعليق علی بداية السول (20 / 52) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3614
حدیث نمبر: 3614 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ الْمُقْرِئُّ، حَدَّثَنَا حَيْوَةُ، أَخْبَرَنَا كَعْبُ بْنُ عَلْقَمَةَ، سَمِعَ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ جُبَيْرٍ، أَنَّهُ سَمِعَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو، أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:‏‏‏‏ إِذَا سَمِعْتُمُ الْمُؤَذِّنَ فَقُولُوا مِثْلَ مَا يَقُولُ ثُمَّ صَلُّوا عَلَيَّ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّهُ مَنْ صَلَّى عَلَيَّ صَلَاةً صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ بِهَا عَشْرًا، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ سَلُوا لِيَ الْوَسِيلَةَ فَإِنَّهَا مَنْزِلَةٌ فِي الْجَنَّةِ لَا تَنْبَغِي إِلَّا لِعَبْدٍ مِنْ عِبَادِ اللَّهِ وَأَرْجُو أَنْ أَكُونَ أَنَا هُوَ، ‏‏‏‏‏‏وَمَنْ سَأَلَ لِيَ الْوَسِيلَةَ حَلَّتْ عَلَيْهِ الشَّفَاعَةُ . قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ مُحَمَّدٌ:‏‏‏‏ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ جُبَيْرٍ هَذَا قُرَشِيٌّ مِصْرِيٌّ مَدَنِيٌّ، ‏‏‏‏‏‏وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ شَامِيٌّ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৩৬১৫
مناقب کا بیان
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میں قیامت کے دن اولاد آدم کا سردار ہوں گا اور میرے ہاتھ میں حمد کا پرچم ہوگا اور اس پر مجھے گھمنڈ نہیں، اور آدم اور آدم کے علاوہ جتنے بھی نبی ہوں گے سب میرے پرچم کے نیچے ہوں گے، اور میں پہلا وہ شخص ہوں گا جس کے لیے زمین شق ہوگی، اور سب سے پہلے قبر سے میں اٹھوں گا اور اس پر مجھے گھمنڈ نہیں ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- اس حدیث میں ایک واقعہ مذکور ہے، ٢- اسے اسی سند سے ابونضرہ سے روایت ہے، وہ اسے ابن عباس (رض) کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ٣١٤٨ (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یہ تمام باتیں نبی اکرم ﷺ کی دیگر انبیاء پر فضیلت پر دلالت کرتی ہیں۔ گھمنڈ اس لیے نہیں کہ یہ سب کچھ اللہ عزوجل کے خاص فضل و انعام سے ہوگا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (4308) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3615
حدیث نمبر: 3615 حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ ابْنِ جُدْعَانَ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ أَنَا سَيِّدُ وَلَدِ آدَمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا فَخْرَ، ‏‏‏‏‏‏وَبِيَدِي لِوَاءُ الْحَمْدِ وَلَا فَخْرَ، ‏‏‏‏‏‏وَمَا مِنْ نَبِيٍّ يَوْمَئِذٍ آدَمُ فَمَنْ سِوَاهُ إِلَّا تَحْتَ لِوَائِي، ‏‏‏‏‏‏وَأَنَا أَوَّلُ مَنْ تَنْشَقُّ عَنْهُ الْأَرْضُ وَلَا فَخْرَ . قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ وَفِي الْحَدِيثِ قِصَّةٌ وَهَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ رُوِيَ بِهَذَا الْإِسْنَادِ عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৩৬১৬
مناقب کا بیان
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے اصحاب میں سے کچھ لوگ بیٹھے آپ کے حجرے سے نکلنے کا انتظار کر رہے تھے، کہتے ہیں : پھر آپ نکلے یہاں تک کہ جب آپ ان کے قریب آئے تو انہیں آپس میں بحث کرتے سنا، آپ نے ان کی باتیں سنیں، کوئی کہہ رہا تھا، تعجب ہے اللہ نے اپنی مخلوق میں سے ابراہیم (علیہ السلام) کو اپنا دوست بنایا، دوسرے نے کہا : موسیٰ سے اس کا کلام کرنا کتنا زیادہ تعجب خیز معاملہ ہے، اور ایک نے کہا : عیسیٰ (علیہ السلام) اللہ کا کلمہ اور اس کی روح ہیں، اور ایک دوسرے نے کہا : آدم کو اللہ نے تو چن لیا ہے، تو آپ نکل کر ان کے سامنے آئے اور انہیں سلام کیا اور فرمایا : میں نے تمہاری باتیں سن لی ہیں اور ابراہیم (علیہ السلام) کے خلیل اللہ ہونے پر تعجب میں پڑنے کو بھی، واقعی وہ ایسے ہی ہیں اور موسیٰ (علیہ السلام) کے اللہ کے نجی اللہ ہونے پر، اور وہ بھی واقعی ایسے ہی ہیں اور عیسیٰ (علیہ السلام) کے کلمۃ اللہ اور روح اللہ ہونے پر، اور وہ بھی واقعی ایسے ہی ہیں اور آدم کے اللہ کا برگزیدہ ہونے پر، اور وہ بھی واقعی ایسے ہی ہیں، سن لو ! میں اللہ کا حبیب ہوں اور اس پر مجھے گھمنڈ نہیں، قیامت کے دن حمد کا پرچم میرے ہاتھ میں ہوگا اور اس پر مجھے گھمنڈ نہیں اور قیامت کے دن میں پہلا وہ شخص ہوں گا جو شفاعت (سفارش) کرے گا اور جس کی شفاعت (سفارش) سب سے پہلے قبول کی جائے گی اور اس پر مجھے گھمنڈ نہیں اور میں پہلا وہ شخص ہوں گا جو جنت کی کنڈی ہلائے گا تو اللہ میرے لیے جنت کو کھول دے گا، پھر وہ مجھے اس میں داخل کرے گا اور میرے ساتھ فقراء مومنین ہوں گے اور اس پر مجھے گھمنڈ نہیں اور میں اگلوں اور پچھلوں میں سب سے زیادہ معزز ہوں اور اس پر مجھے گھمنڈ نہیں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٦٠٩٥) (ضعیف) (سند میں زمعہ بن صالح ضعیف راوی ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (5762) // ضعيف الجامع الصغير (4077) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3616
حدیث نمبر: 3616 حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ نَصْرِ بْنِ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الْمَجِيدِ، حَدَّثَنَا زَمْعَةُ بْنُ صَالِحٍ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ وَهْرَامٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:‏‏‏‏ جَلَسَ نَاسٌ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْتَظِرُونَهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَخَرَجَ حَتَّى إِذَا دَنَا مِنْهُمْ سَمِعَهُمْ يَتَذَاكَرُونَ فَسَمِعَ حَدِيثَهُمْ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ بَعْضُهُمْ:‏‏‏‏ عَجَبًا إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ اتَّخَذَ مِنْ خَلْقِهِ خَلِيلًا اتَّخَذَ إِبْرَاهِيمَ خَلِيلًا، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ آخَرُ:‏‏‏‏ مَاذَا بِأَعْجَبَ مِنْ كَلَامِ مُوسَى كَلَّمَهُ تَكْلِيمًا، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ آخَرُ:‏‏‏‏ فَعِيسَى كَلِمَةُ اللَّهِ وَرُوحُهُ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ آخَرُ:‏‏‏‏ آدَمُ اصْطَفَاهُ اللَّهُ، ‏‏‏‏‏‏فَخَرَجَ عَلَيْهِمْ، ‏‏‏‏‏‏فَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ:‏‏‏‏ قَدْ سَمِعْتُ كَلَامَكُمْ وَعَجَبَكُمْ:‏‏‏‏ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ خَلِيلُ اللَّهِ وَهُوَ كَذَلِكَ، ‏‏‏‏‏‏وَمُوسَى نَجِيُّ اللَّهِ وَهُوَ كَذَلِكَ، ‏‏‏‏‏‏وَعِيسَى رُوحُ اللَّهِ وَكَلِمَتُهُ وَهُوَ كَذَلِكَ، ‏‏‏‏‏‏وَآدَمُ اصْطَفَاهُ اللَّهُ وَهُوَ كَذَلِكَ، ‏‏‏‏‏‏أَلَا وَأَنَا حَبِيبُ اللَّهِ وَلَا فَخْرَ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنَا حَامِلُ لِوَاءِ الْحَمْدِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا فَخْرَ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنَا أَوَّلُ شَافِعٍ وَأَوَّلُ مُشَفَّعٍ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا فَخْرَ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنَا أَوَّلُ مَنْ يُحَرِّكُ حِلَقَ الْجَنَّةِ فَيَفْتَحُ اللَّهُ لِي فَيُدْخِلُنِيهَا وَمَعِي فُقَرَاءُ الْمُؤْمِنِينَ وَلَا فَخْرَ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنَا أَكْرَمُ الْأَوَّلِينَ وَالْآخِرِينَ وَلَا فَخْرَ . قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৩৬১৭
مناقب کا بیان
عبداللہ بن سلام (رض) سے روایت ہے کہ تورات میں محمد ﷺ کے احوال لکھے ہوئے ہیں اور یہ بھی کہ عیسیٰ بن مریم انہیں کے ساتھ دفن کئے جائیں گے۔ ابوقتیبہ کہتے ہیں کہ ابومودود نے کہا : حجرہ مبارک میں ایک قبر کی جگہ باقی ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے، سند میں راوی نے عثمان بن ضحاک کہا اور مشہور ضحاک بن عثمان مدنی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٥٣٣٦) (ضعیف) (سند میں عثمان بن ضحاک ضعیف راوی ہیں) وضاحت : ١ ؎ : اس معنی کی کئی احادیث وارد ہیں ، مگر سب پر کلام ہے ، اور مطلب یہ ہے کہ قرب قیامت میں جب عیسیٰ (علیہ السلام) نازل ہوں گے ، تو پینتالیس زندہ رہ کر جب وفات پائیں گے تو قبر نبوی کے پاس دفن ہوں گے ، «واللہ اعلم»۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (5772) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3617
حدیث نمبر: 3617 حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ أَخْزَمَ الطَّائِيُّ الْبَصْرِيُّ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَبُو قُتَيْبَةَ سَلْمُ بْنُ قُتَيْبَةَ، حَدَّثَنِي أَبُو مَوْدُودٍ الْمَدَنِيُّ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ الضَّحَّاكِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يُوسُفَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ:‏‏‏‏ مَكْتُوبٌ فِي التَّوْرَاةِ صِفَةُ مُحَمَّدٍ،‏‏‏‏ وَصِفَةُ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ يُدْفَنُ مَعَهُ ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ أَبُو مَوْدُودٍ:‏‏‏‏ وَقَدْ بَقِيَ فِي الْبَيْتِ مَوْضِعُ قَبْرٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَسَنٌ غَرِيبٌ، ‏‏‏‏‏‏هَكَذَا قَالَ عُثْمَانُ بْنُ الضَّحَّاكِ، ‏‏‏‏‏‏وَالْمَعْرُوفُ الضَّحَّاكُ بْنُ عُثْمَانَ الْمَدَنِيُّ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৩৬১৮
مناقب کا بیان
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ جب وہ دن ہوا جس میں رسول اللہ ﷺ (پہلے پہل) مدینہ میں داخل ہوئے تو اس کی ہر چیز پرنور ہوگئی، پھر جب وہ دن آیا جس میں آپ کی وفات ہوئی تو اس کی ہر چیز تاریک ہوگئی اور ابھی ہم نے آپ کے دفن سے ہاتھ بھی نہیں جھاڑے تھے کہ ہمارے دل بدل گئے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث غریب صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الجنائز ٦٥ (١٦٣١) (تحفة الأشراف : ٢٦٨) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یعنی ان میں وہ نور ایمان باقی نہیں رہا جو آپ کی زندگی میں تھا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1631) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3618
حدیث نمبر: 3618 حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ هِلَالٍ الصَّوَّافُ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ الضُّبَعِيُّ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ:‏‏‏‏ لَمَّا كَانَ الْيَوْمُ الَّذِي دَخَلَ فِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ أَضَاءَ مِنْهَا كُلُّ شَيْءٍ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا كَانَ الْيَوْمُ الَّذِي مَاتَ فِيهِ أَظْلَمَ مِنْهَا كُلُّ شَيْءٍ، ‏‏‏‏‏‏وَلَمَّا نَفَضْنَا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْأَيْدِي وَإِنَّا لَفِي دَفْنِهِ حَتَّى أَنْكَرْنَا قُلُوبَنَا . قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا غَرِيبٌ صَحِيحٌ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৩৬১৯
مناقب کا بیان
نبی اکرم ﷺ کی پیدائش کے بارے میں
قیس بن مخرمہ (رض) کہتے ہیں کہ میں اور رسول اللہ ﷺ دونوں واقعہ فیل ١ ؎ کے سال پیدا ہوئے، وہ کہتے ہیں : عثمان بن عفان نے قباث بن اشیم (جو قبیلہ بنی یعمر بن لیث کے ایک فرد ہیں) سے پوچھا کہ آپ بڑے ہیں یا رسول اللہ ﷺ ؟ تو انہوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ مجھ سے بڑے ہیں اور پیدائش میں، میں آپ سے پہلے ہوں ٢ ؎، رسول اللہ ﷺ ہاتھی والے سال میں پیدا ہوئے، میری ماں مجھے اس جگہ پر لے گئیں (جہاں ابرہہ کے ہاتھیوں پر پرندوں نے کنکریاں برسائی تھیں) تو میں نے دیکھا کہ ہاتھیوں کی لید بدلی ہوئی ہے اور سبز رنگ کی ہوگئی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف محمد بن اسحاق کی روایت سے جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١١٠٦٤) (ضعیف الإسناد) (سند میں مطلب لین الحدیث راوی ہیں) وضاحت : ١ ؎ : یعنی جس سال ابرہہ اپنے ہاتھیوں کے ساتھ خانہ کعبہ ڈھانے آیا تھا۔ ٢ ؎ : کیا ہی مہذب انداز ہے کہ بےادبی کا لفظ بھی استعمال نہ ہو اور مدعا بھی بیان ہوجائے۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3619
حدیث نمبر: 3619 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ الْعَبْدِيُّ، حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، قَال:‏‏‏‏ سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ إِسْحَاق يُحَدِّثُ، ‏‏‏‏‏‏عَنِالْمُطَّلِبِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قَيْسِ بْنِ مَخْرَمَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ:‏‏‏‏ وُلِدْتُ أَنَا وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ الْفِيلِ، ‏‏‏‏‏‏وَسَأَلَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ قُبَاثَ بْنَ أَشْيَمَ أَخَا بَنِي يَعْمَرَ بْنِ لَيْثٍ:‏‏‏‏ أَأَنْتَ أَكْبَرُ أَمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؟ فَقَالَ:‏‏‏‏ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَكْبَرُ مِنِّي، ‏‏‏‏‏‏وَأَنَا أَقْدَمُ مِنْهُ فِي الْمِيلَادِ، ‏‏‏‏‏‏وُلِدَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ الْفِيلِ، ‏‏‏‏‏‏وَرَفَعَتْ بِي أُمِّي عَلَى الْمَوْضِعِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَرَأَيْتُ خَذْقَ الْفِيلِ أَخْضَرَ مُحِيلًا . قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَسَنٌ غَرِيبٌ، ‏‏‏‏‏‏لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৩৬২০
مناقب کا بیان
نبوت کی ابتداء کے متعلق
ابوموسیٰ اشعری (رض) کہتے ہیں کہ ابوطالب شام کی طرف (تجارت کی غرض سے) نکلے، نبی اکرم ﷺ بھی قریش کے بوڑھوں میں ان کے ساتھ نکلے، جب یہ لوگ بحیرہ راہب کے پاس پہنچے تو وہیں پڑاؤ ڈال دیا اور اپنی سواریوں کے کجاوے کھول دیے، تو راہب اپنے گرجا گھر سے نکل کر ان کے پاس آیا حالانکہ اس سے پہلے یہ لوگ اس کے پاس سے گزرتے تھے، لیکن وہ کبھی ان کی طرف متوجہ نہیں ہوتا تھا، اور نہ ان کے پاس آتا تھا، کہتے ہیں : تو یہ لوگ اپنی سواریاں ابھی کھول ہی رہے تھے کہ راہب نے ان کے بیچ سے گھستے ہوئے آ کر رسول اللہ ﷺ کا ہاتھ پکڑ لیا اور بولا : یہ سارے جہان کے سردار ہیں، یہ سارے جہان کے سردار ہیں، یہ سارے جہان کے رب کے رسول ہیں، اللہ انہیں سارے جہان کے لیے رحمت بنا کر بھیجے گا، تو اس سے قریش کے بوڑھوں نے پوچھا : تمہیں یہ کیسے معلوم ہوا ؟ تو اس نے کہا : جب تم لوگ اس ٹیلے سے اترے تو کوئی درخت اور پتھر ایسا نہیں رہا جو سجدہ میں نہ گرپڑا ہو، اور یہ دونوں صرف نبی ہی کو سجدہ کیا کرتے ہیں، اور میں انہیں مہر نبوت سے پہچانتا ہوں جو شانہ کی ہڈی کے سرے کے نیچے سیب کے مانند ہے، پھر وہ واپس گیا اور ان کے لیے کھانا تیار کیا، جب وہ کھانا لے کر ان کے پاس آیا تو آپ ﷺ اونٹ چرانے گئے تھے تو اس نے کہا : کسی کو بھیج دو کہ ان کو بلا کر لائے، چناچہ آپ آئے اور ایک بدلی آپ پر سایہ کئے ہوئے تھی، جب آپ لوگوں کے قریب ہوئے تو انہیں درخت کے سایہ میں پہلے ہی سے بیٹھے پایا، پھر جب آپ بیٹھ گئے تو درخت کا سایہ آپ پر جھک گیا اس پر راہب بول اٹھا : دیکھو ! درخت کا سایہ آپ پر جھک گیا ہے، پھر راہب ان کے سامنے کھڑا رہا اور ان سے قسم دے کر کہہ رہا تھا کہ انہیں روم نہ لے جاؤ اس لیے کہ روم کے لوگ دیکھتے ہی انہیں ان کے اوصاف سے پہچان لیں گے اور انہیں قتل کر ڈالیں گے، پھر وہ مڑا تو دیکھا کہ سات آدمی ہیں جو روم سے آئے ہوئے ہیں تو اس نے بڑھ کر ان سب کا استقبال کیا اور پوچھا آپ لوگ کیوں آئے ہیں ؟ ان لوگوں نے کہا : ہم اس نبی کے لیے آئے ہیں جو اس مہینہ میں آنے والا ہے، اور کوئی راستہ ایسا باقی نہیں بچا ہے جس کی طرف کچھ نہ کچھ لوگ نہ بھیجے گئے ہوں، اور جب ہمیں تمہارے اس راستہ پر اس کی خبر لگی تو ہم تمہاری اس راہ پر بھیجے گئے، تو اس نے پوچھا : کیا تمہارے پیچھے کوئی اور ہے جو تم سے بہتر ہو ؟ ان لوگوں نے کہا : ہمیں تو تمہارے اس راستہ پر اس کی خبر لگی تو ہم اس پر ہو لیے اس نے کہا : اچھا یہ بتاؤ کہ اللہ جس امر کا فیصلہ فرما لے کیا لوگوں میں سے اسے کوئی ٹال سکتا ہے ؟ ان لوگوں نے کہا : نہیں، اس نے کہا : پھر تم اس سے بیعت کرو، اور اس کے ساتھ رہو، پھر وہ عربوں کی طرف متوجہ ہو کر بولا : میں تم سے اللہ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں کہ تم میں سے اس کا ولی کون ہے ؟ لوگوں نے کہا : ابوطالب، تو وہ انہیں برابر قسم دلاتا رہا یہاں تک کہ ابوطالب نے انہیں واپس مکہ لوٹا دیا اور ابوبکر (رض) نے آپ کے ساتھ بلال (رض) کو بھی بھیج دیا اور راہب نے آپ کو کیک اور زیتون کا توشہ دیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٩١٤١) (صحیح) (لیکن اس واقعہ میں بلال کا تذکرہ صحیح نہیں ہے) قال الشيخ الألباني : صحيح فقه السيرة، دفاع عن الحديث النبوی (62 - 72) ، المشکاة (5918) ، لکن ذکر بلال فيه منکر كما قيل صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3620
حدیث نمبر: 3620 حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ سَهْلٍ أَبُو الْعَبَّاسِ الْأَعْرَجُ الْبَغْدَادِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ غَزْوَانَ أَبُو نُوحٍ، أَخْبَرَنَا يُونُسُ بْنُ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَبِي مُوسَى،‏‏‏‏ عَنْ أَبِيهِ، قَالَ:‏‏‏‏ خَرَجَ أَبُو طَالِبٍ إِلَى الشَّامِ، ‏‏‏‏‏‏وَخَرَجَ مَعَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي أَشْيَاخٍ مِنْ قُرَيْشٍ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا أَشْرَفُوا عَلَى الرَّاهِبِ هَبَطُوا، ‏‏‏‏‏‏فَحَلُّوا رِحَالَهُمْ،‏‏‏‏ فَخَرَجَ إِلَيْهِمُ الرَّاهِبُ وَكَانُوا قَبْلَ ذَلِكَ يَمُرُّونَ بِهِ،‏‏‏‏ فَلَا يَخْرُجُ إِلَيْهِمْ وَلَا يَلْتَفِتُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَهُمْ يَحُلُّونَ رِحَالَهُمْ فَجَعَلَ يَتَخَلَّلُهُمُ الرَّاهِبُ حَتَّى جَاءَ فَأَخَذَ بِيَدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:‏‏‏‏ هَذَا سَيِّدُ الْعَالَمِينَ،‏‏‏‏ هَذَا رَسُولُ رَبِّ الْعَالَمِينَ يَبْعَثُهُ اللَّهُ رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ لَهُ أَشْيَاخٌ مِنْ قُرَيْشٍ:‏‏‏‏ مَا عِلْمُكَ ؟ فَقَالَ:‏‏‏‏ إِنَّكُمْ حِينَ أَشْرَفْتُمْ مِنَ الْعَقَبَةِ لَمْ يَبْقَ شَجَرٌ وَلَا حَجَرٌ إِلَّا خَرَّ سَاجِدًا، ‏‏‏‏‏‏وَلَا يَسْجُدَانِ إِلَّا لِنَبِيٍّ،‏‏‏‏ وَإِنِّي أَعْرِفُهُ بِخَاتَمِ النُّبُوَّةِ أَسْفَلَ مِنْ غُضْرُوفِ كَتِفِهِ مِثْلَ التُّفَّاحَةِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ رَجَعَ فَصَنَعَ لَهُمْ طَعَامًا فَلَمَّا أَتَاهُمْ بِهِ وَكَانَ هُوَ فِي رِعْيَةِ الْإِبِلِ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ أَرْسِلُوا إِلَيْهِ،‏‏‏‏ فَأَقْبَلَ وَعَلَيْهِ غَمَامَةٌ تُظِلُّهُ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا دَنَا مِنَ الْقَوْمِ وَجَدَهُمْ قَدْ سَبَقُوهُ إِلَى فَيْءِ الشَّجَرَةِ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا جَلَسَ مَالَ فَيْءُ الشَّجَرَةِ عَلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ انْظُرُوا إِلَى فَيْءِ الشَّجَرَةِ مَالَ عَلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَبَيْنَمَا هُوَ قَائِمٌ عَلَيْهِمْ وَهُوَ يُنَاشِدُهُمْ أَنْ لَا يَذْهَبُوا بِهِ إِلَى الرُّومِ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّ الرُّومَ إِذَا رَأَوْهُ عَرَفُوهُ بِالصِّفَةِ فَيَقْتُلُونَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَالْتَفَتَ،‏‏‏‏ فَإِذَا بِسَبْعَةٍ قَدْ أَقْبَلُوا مِنَ الرُّومِ فَاسْتَقْبَلَهُمْ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ مَا جَاءَ بِكُمْ ؟ قَالُوا:‏‏‏‏ جِئْنَا إِنَّ هَذَا النَّبِيَّ خَارِجٌ فِي هَذَا الشَّهْرِ،‏‏‏‏ فَلَمْ يَبْقَ طَرِيقٌ إِلَّا بُعِثَ إِلَيْهِ بِأُنَاسٍ،‏‏‏‏ وَإِنَّا قَدْ أُخْبِرْنَا خَبَرَهُ بُعِثْنَا إِلَى طَرِيقِكَ هَذَا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ هَلْ خَلْفَكُمْ أَحَدٌ هُوَ خَيْرٌ مِنْكُمْ ؟ قَالُوا:‏‏‏‏ إِنَّمَا أُخْبِرْنَا خَبَرَهُ بِطَرِيقِكَ هَذَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَفَرَأَيْتُمْ أَمْرًا أَرَادَ اللَّهُ أَنْ يَقْضِيَهُ هَلْ يَسْتَطِيعُ أَحَدٌ مِنَ النَّاسِ رَدَّهُ ؟ قَالُوا:‏‏‏‏ لَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَبَايَعُوهُ وَأَقَامُوا مَعَهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَنْشُدُكُمْ بِاللَّهِ أَيُّكُمْ وَلِيُّهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالُوا:‏‏‏‏ أَبُو طَالِبٍ فَلَمْ يَزَلْ يُنَاشِدُهُ حَتَّى رَدَّهُ أَبُو طَالِبٍ، ‏‏‏‏‏‏وَبَعَثَ مَعَهُ أَبُو بَكْرٍ بِلَالًا وَزَوَّدَهُ الرَّاهِبُ مِنَ الْكَعْكِ وَالزَّيْتِ . قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَسَنٌ غَرِيبٌ، ‏‏‏‏‏‏لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৩৬২১
مناقب کا بیان
نبی اکرم ﷺ کی بعثت اور عمر مبارک کے متعلق
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ پر وحی نازل کی گئی تو آپ چالیس سال کے تھے، پھر آپ مکہ میں تیرہ سال تک رہے اور مدینہ میں دس سال تک، اور آپ کی وفات ہوئی تو آپ ترسٹھ ( ٦٣) سال کے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/مناقب الأنصار ٢٨ (٣٨٥١) ، ٤٥ (٣٩٠٢، ٣٩٠٣) (تحفة الأشراف : ٦٢٢٧) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح مختصر الشمائل (317) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3621
حدیث نمبر: 3621 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ هِشَامِ بْنِ حَسَّانَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:‏‏‏‏ أُنْزِلَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ ابْنُ أَرْبَعِينَ،‏‏‏‏ فَأَقَامَ بِمَكَّةَ ثَلَاثَ عَشْرَةَ،‏‏‏‏ وَبِالْمَدِينَةِ عَشْرًا،‏‏‏‏ وَتُوُفِّيَ وَهُوَ ابْنُ ثَلَاثٍ وَسِتِّينَ . قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৩৬২২
مناقب کا بیان
نبی اکرم ﷺ کی بعثت اور عمر مبارک کے متعلق
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کی وفات ہوئی تو آپ پینسٹھ ( ٦٥) سال کے تھے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : اسی طرح سے ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا ہے اور ان سے محمد بن اسماعیل بخاری نے اسی کے مثل روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٦٢٢٧) (شاذ) وضاحت : ١ ؎ : یہی بات شاذ ہے ، محفوظ بات یہ ہے کہ آپ ترسٹھ سال کے تھے جیسا کہ پچھلی حدیث میں ہے ، ممکن ہے کسی نے پیدائش کے سال اور وفات کے سال کو پورا پورا ایک سال جوڑ لیا ہو ، اور اس طرح پینسٹھ بتادیا ہو ؟ قال الشيخ الألباني : شاذ المصدر نفسه // مختصر الشمائل (320) ، وسيأتي (751 / 3912) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3622
حدیث نمبر: 3622 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:‏‏‏‏ قُبِضَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ ابْنُ خَمْسٍ وَسِتِّينَ سَنَةً . قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ وَهَكَذَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، ‏‏‏‏‏‏وَرَوَى عَنْهُ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل مِثْلَ ذَلِكَ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৩৬২৩
مناقب کا بیان
نبی اکرم ﷺ کی بعثت اور عمر مبارک کے متعلق
انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نہ بہت لمبے قد والے تھے نہ بہت ناٹے اور نہ نہایت سفید، نہ بالکل گندم گوں، آپ کے سر کے بال نہ گھنگرالے تھے نہ بالکل سیدھے، اللہ تعالیٰ نے آپ کو چالیسویں سال کے شروع میں مبعوث فرمایا، پھر مکہ میں آپ دس برس رہے اور مدینہ میں دس برس اور ساٹھویں برس ١ ؎ کے شروع میں اللہ نے آپ کو وفات دی اور آپ کے سر اور داڑھی میں بیس بال بھی سفید نہیں رہے ہوں گے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المناقب ٢٣ (٣٥٤٧، و ٣٥٤٨) ، واللباس ٦٨ (٥٩٠٠) ، صحیح مسلم/الفضائل ٣١ (٢٣٤٧) (تحفة الأشراف : ٨٣٣) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : جن لوگوں نے یہ کہا ہے کہ آپ ساٹھ ( ٦٠) برس کے تھے ان لوگوں نے کسور عدد کو چھوڑ کر صرف دہائیوں کے شمار پر اکتفا کیا ہے ، اور جن لوگوں نے یہ کہا ہے کہ آپ پینسٹھ سال کے تھے تو ان لوگوں نے سن وفات اور سن پیدائش کو بھی شمار کرلیا ہے ، لیکن سب سے صحیح قول ان لوگوں کا ہے جو ترسٹھ ( ٦٣) برس کے قائل ہیں ، کیونکہ ترسٹھ برس والی روایت زیادہ صحیح ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح مختصر الشمائل رقم (1) ، وقد مضی شطره الأول (1823) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3623
حدیث نمبر: 3623 حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ. ح وَحَدَّثَنَا الْأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ،‏‏‏‏ أَنَّهُ سَمِعَ أنَسًا يَقُولُ:‏‏‏‏ لَمْ يَكُنْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالطَّوِيلِ الْبَائِنِ وَلَا بِالْقَصِيرِ الْمُتَرَدِّدِ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا بِالْأَبْيَضِ الْأَمْهَقِ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا بِالْآدَمِ، ‏‏‏‏‏‏وَلَيْسَ بِالْجَعْدِ الْقَطَطِ وَلَا بِالسَّبِطِ، ‏‏‏‏‏‏بَعَثَهُ اللَّهُ عَلَى رَأْسِ أَرْبَعِينَ سَنَةً، ‏‏‏‏‏‏فَأَقَامَ بِمَكَّةَ عَشْرَ سِنِينَ، ‏‏‏‏‏‏وَبِالْمَدِينَةِ عَشْرَ سِنِينَ، ‏‏‏‏‏‏وَتَوَفَّاهُ اللَّهُ عَلَى رَأْسِ سِتِّينَ سَنَةً وَلَيْسَ فِي رَأْسِهِ وَلِحْيَتِهِ عِشْرُونَ شَعْرَةً بَيْضَاءَ . قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ.
tahqiq

তাহকীক: