কিতাবুস সুনান (আলমুজতাবা) - ইমাম নাসায়ী রহঃ (উর্দু)
المجتبى من السنن للنسائي
جہاد سے متعلقہ احادیث - এর পরিচ্ছেদসমূহ
মোট হাদীস ২০ টি
হাদীস নং: ৩০৮৮
جہاد سے متعلقہ احادیث
جہاد کی فرضیت
 عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ  نبی اکرم  ﷺ  جب مکہ سے نکالے گئے تو ابوبکر (رض) نے کہا : انہوں نے اپنے نبی کو نکال دیا إنا لله وإنا إليه راجعون یہ لوگ ضرور ہلاک ہوجائیں گے۔ تو یہ آیت نازل ہوئی أذن للذين يقاتلون بأنهم ظلموا وإن اللہ على نصرهم لقدير جن  (مسلمانوں)  سے  (کافر)  جنگ کر رہے ہیں، انہیں بھی مقابلے کی اجازت دی جاتی ہے کیونکہ وہ بھی مظلوم ہیں۔ بیشک ان کی مدد پر اللہ قادر ہے ۔  (الحج :  ٣٩  )  تو میں نے سمجھ لیا کہ اب جنگ ہوگی۔ ابن عباس (رض) کہتے ہیں :  یہ پہلی آیت ہے جو جنگ کے بارے میں اتری ہے ۔    تخریج دارالدعوہ :  سنن الترمذی/تفسیرالحج (٣١٧١) ، (تحفة الأشراف : ٥٦١٨) ، مسند احمد (١/٢١٦) (صحیح  )    قال الشيخ الألباني :  صحيح الإسناد    صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3085  
أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ سَلَّامٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْحَاق الْأَزْرَقُ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْمُسْلِمٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: لَمَّا أُخْرِجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ مَكَّةَ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: أَخْرَجُوا نَبِيَّهُمْ إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ لَيَهْلِكُنَّ، فَنَزَلَتْ: أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللَّهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ سورة الحج آية 39، فَعَرَفْتُ أَنَّهُ سَيَكُونُ قِتَالٌ، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: فَهِيَ أَوَّلُ آيَةٍ نَزَلَتْ فِي الْقِتَالِ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৩০৮৯
جہاد سے متعلقہ احادیث
جہاد کی فرضیت
 عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ  عبدالرحمٰن بن عوف (رض) اور ان کے کچھ دوست نبی اکرم  ﷺ  کے پاس جب آپ مکہ میں تشریف فرما تھے آئے، اور انہوں نے کہا : اللہ کے رسول ! جب ہم مشرک تھے عزت سے تھے، اور جب سے ایمان لے آئے ذلیل و حقیر ہوگئے۔ آپ نے فرمایا : مجھے عفو و درگزر کا حکم ملا ہوا ہے۔ تو  (جب تک لڑائی کا حکم نہ مل جائے)  لڑائی نہ کرو ، پھر جب اللہ تعالیٰ نے ہمیں مدینہ بھیج دیا، اور ہمیں جنگ کا حکم دے دیا۔ تو لوگ  (بجائے اس کے کہ خوش ہوتے)  باز رہے  (ہچکچائے، ڈرے)  تب اللہ تعالیٰ نے آیت : ألم تر إلى الذين قيل لهم کفوا أيديكم وأقيموا الصلاة  کیا تم نے انہیں نہیں دیکھا جنہیں حکم کیا گیا تھا کہ اپنے ہاتھوں کو روکے رکھو، اور نمازیں پڑھتے رہو، اور زکاۃ ادا کرتے رہو۔ پھر جب انہیں جہاد کا حکم دیا گیا تو اسی وقت ان کی ایک جماعت لوگوں سے اس قدر ڈرنے لگی جیسے اللہ تعالیٰ کا ڈر ہو، بلکہ اس سے بھی زیادہ اور کہنے لگے : اے ہمارے رب ! تو نے ہم پر جہاد کیوں فرض کردیا ؟ کیوں ہمیں تھوڑی سی زندگی اور نہ جینے دی ؟ آپ کہہ دیجئیے کہ دنیا کی سود مندی تو بہت ہی کم ہے اور پرہیزگاروں کے لیے تو آخرت ہی بہتر ہے اور تم پر ایک دھاگے کے برابر بھی ستم روا نہ رکھا جائے گا  (النساء :  ٧٧  )  اخیر تک نازل فرمائی۔    تخریج دارالدعوہ :  تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٦١٧١) (صحیح الإسناد  )    قال الشيخ الألباني :  صحيح الإسناد    صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3086  
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ الْحَسَنِ بْنِ شَقِيقٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا أَبِي، قَالَ: أَنْبَأَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ وَاقِدٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْعِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ عَوْفٍ، وَأَصْحَابًا لَهُ أَتَوْا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَكَّةَ، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّا كُنَّا فِي عِزٍّ وَنَحْنُ مُشْرِكُونَ، فَلَمَّا آمَنَّا صِرْنَا أَذِلَّةً فَقَالَ: إِنِّي أُمِرْتُ بِالْعَفْوِ فَلَا تُقَاتِلُوا، فَلَمَّا حَوَّلَنَا اللَّهُ إِلَى الْمَدِينَةِ أَمَرَنَا بِالْقِتَالِ فَكَفُّوا، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ قِيلَ لَهُمْ كُفُّوا أَيْدِيَكُمْ وَأَقِيمُوا الصَّلاةَ سورة النساء آية 77.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৩০৯০
جہاد سے متعلقہ احادیث
جہاد کی فرضیت
 ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا :  مجھے جامع کلمات  ١ ؎ دے کر بھیجا گیا ہے اور میری مدد رعب  ٢ ؎ سے کی گئی ہے۔ اس دوران کہ میں سو رہا تھا کہ زمین کے خزانوں کی کنجیاں مجھے دی گئیں، اور میرے ہاتھوں میں تھما دی گئیں ، ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ  ﷺ  (اس دنیا سے)  رخصت ہوگئے لیکن تم ان خزانوں کو نکال کر خرچ کر رہے ہو  ٣ ؎۔    تخریج دارالدعوہ :  صحیح مسلم/المساجد (٥٢٣) ، (تحفة الأشراف : ١٣٢٨١، ١٣٣٤٢) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الجہاد ١٢٢ (٢٩٧٧) ، والتعبیر ١١ (٦٩٩٨) ، ٢٢ (٧٠١٣) ، والاعتصام ١ (٧٢٧٣) ، مسند احمد (٢/٢٦٨) (صحیح  )    وضاحت :  ١ ؎: جامع کلمات یعنی قرآن و حدیث جن کے الفاظ مختصر ہیں مگر معانی بہت، جوامع الکلم میں صفت کی اضافت موصوف کی طرف ہے، اس سے مراد الکلم الجامع  ۃ  ہے۔  ٢ ؎: یعنی ایسے دبدبہ و دھاک سے کی گئی ہے جس سے بلا کسی عادی سبب کے دشمنوں کے دلوں میں خوف طاری ہوجاتا ہے۔  ٣ ؎: خزانوں سے مراد روم و ایران اور مصر و شام وغیرہ کی فتوحات اور وہاں کی دولت پر مسلمانوں کا تصرف ہے۔    قال الشيخ الألباني :  صحيح    صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3087  
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، قَالَ: حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ، قَالَ: سَمِعْتُ مَعْمَرًا، عَنْ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: قُلْتُ: عَنْ سَعِيدٍ ؟ قَالَ: نَعَمْ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ. ح وَأَنْبَأَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ السَّرْحِ، وَالْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ قراءة عليه وأنا أسمع وَاللَّفْظُ لأَحْمَدَ، قَالَا: حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ يُونُسَ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ ابْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: بُعِثْتُ بِجَوَامِعِ الْكَلِمِ، وَنُصِرْتُ بِالرُّعْبِ وَبَيْنَا أَنَا نَائِمٌ أُتِيتُ بِمَفَاتِيحِ خَزَائِنِ الْأَرْضِ، فَوُضِعَتْ فِي يَدِي، قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: فَذَهَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنْتُمْ تَنْتَثِلُونَهَا،  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৩০৯১
جہاد سے متعلقہ احادیث
جہاد کی فرضیت
 ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ  میں نے رسول اللہ  ﷺ  کو فرماتے ہوئے سنا میں جامع کلمات دے کر بھیجا گیا ہوں  ١ ؎ اور میری مدد رعب و دبدبہ سے کی گئی ہے، مجھے سوتے میں زمین کے خزانوں کی کنجیاں پیش کی گئیں  (اور پیش کرتے ہوئے)  میرے ہاتھ میں رکھ دی گئیں۔ ابوہریرہ (رض)  (اس کی وضاحت کرتے ہوئے)  کہتے ہیں کہ رسول اللہ  ﷺ  (اس دنیا سے)  چلے گئے اور تم ان  (خزانوں)  سے فیض اٹھا رہے ہو۔  (انہیں نکال رہے اور خرچ کر رہے ہو  )    تخریج دارالدعوہ :  صحیح مسلم/المساجد (٥٢٣) ، (تحفة الأشراف : ١٣٢٥٦) (صحیح  )    وضاحت :  ١ ؎: یعنی مختصر فصیح و بلیغ کلمے جن میں الفاظ تو تھوڑے ہوں لیکن مفہوم و معانی سے بھرے ہوئے ہوں۔    قال الشيخ الألباني :  صحيح    صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3089  
أَخْبَرَنَا كَثِيرُ بْنُ عُبَيْدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَرْبٍ، عَنْ الزُّبَيْدِيِّ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: بُعِثْتُ بِجَوَامِعِ الْكَلِمِ، وَنُصِرْتُ بِالرُّعْبِ، وَبَيْنَا أَنَا نَائِمٌ أُتِيتُ بِمَفَاتِيحِ خَزَائِنِ الْأَرْضِ، فَوُضِعَتْ فِي يَدِي، فَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: فَقَدْ ذَهَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنْتُمْ تَنْتَثِلُونَهَا.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৩০৯২
جہاد سے متعلقہ احادیث
جہاد کی فرضیت
 ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا :  مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں اس وقت تک لوگوں سے لڑتا رہوں جب تک کہ لوگ لا إله إلا اللہ کہنے نہ لگ جائیں۔ تو جس نے لا إله إلا اللہ کہہ لیا، اس نے اپنے مال اور اپنی جان کو ہم  (مسلمانوں)  سے محفوظ کرلیا  (اب اس کی جان و مال کو مسلمانوں سے کوئی خطرہ نہیں)  سوائے اس کے کہ وہ خود ہی  (اپنی غلط روی سے)  اس کا حق فراہم کر دے  ١ ؎، اور اس کا  (آخری)  حساب اللہ کے ذمہ ہے  ٢ ؎۔    تخریج دارالدعوہ :  صحیح مسلم/الإیمان ٨ (٢١) ، (تحفة الأشراف : ١٣٣٤٤) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الجہاد ١٠٢ (٢٩٤٦) ، مسند احمد (٢/٣١٤، ٤٢٣، ٤٣٩، ٤٧٥، ٤٨٢، ٥٠٢) (صحیح  )    وضاحت :  ١ ؎: ایسی صورت میں اس کی گردن ماری بھی جاسکتی ہے اور اس کا مال ضبط بھی کیا جاسکتا ہے۔  ٢ ؎: کس نے دکھانے کے لیے اسلام قبول کیا ہے اور کون سچے دل سے اسلام لایا ہے، یہ اللہ ہی فیصلہ کرے گا، یہاں صرف ظاہر کا اعتبار ہوگا۔    قال الشيخ الألباني :  صحيح متواتر    صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3090  
أَخْبَرَنَا يُونُسُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، وَالْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ قراءة عليه وأنا أسمع، عَنْ ابْنِ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ أَخْبَرَهُ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَقُولُوا لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، فَمَنْ قَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ عَصَمَ مِنِّي مَالَهُ، وَنَفْسَهُ، إِلَّا بِحَقِّهِ وَحِسَابُهُ عَلَى اللَّهِ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৩০৯৩
جہاد سے متعلقہ احادیث
جہاد کی فرضیت
 ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ  جب رسول اللہ  ﷺ  کی وفات ہوئی اور ابوبکر (رض) خلیفہ بنا دیئے گئے، اور عربوں میں سے جن کو کافر ہونا تھا وہ کافر ہوگئے  ١ ؎، تو عمر (رض) نے کہا : ابوبکر ! آپ لوگوں سے کیسے جنگ کریں گے جب کہ رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا ہے :  مجھے تو لوگوں سے لڑنے کا اس وقت تک حکم دیا گیا ہے جب تک کہ لوگ لا إله إلا اللہ کے قائل نہ ہوجائیں، تو جس نے لا إله إلا اللہ کہہ لیا، اس نے اپنے مال اور اپنی جان کو ہم  (مسلمانوں)  سے محفوظ کرلیا  (اب اس کی جان و مال کو مسلمانوں سے کوئی خطرہ نہیں)  سوائے اس کے کہ وہ خود ہی  (اپنی غلط روی سے)  اس کا حق فراہم کر دے اور اس کا  (آخری)  حساب اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے ،  (اور یہ زکاۃ نہ دینے والے لا إله إلا اللہ کے قائل ہیں)  ابوبکر (رض) نے کہا : قسم اللہ کی میں ہر اس شخص سے لڑوں گا جو نماز اور زکاۃ میں فرق کرے گا،  (یعنی نماز پڑھے گا اور زکاۃ دینے سے انکار کرے گا)  کیونکہ زکاۃ مال کا حق ہے،  (جس طرح نماز بدن کا حق ہے)  قسم اللہ کی، اگر لوگوں نے مجھے بکری کا سال بھر سے چھوٹا بچہ بھی دینے سے روکا جسے وہ زکاۃ میں رسول اللہ  ﷺ  کو دیا کرتے تھے۔ تو اس روکنے پر بھی میں ان سے ضرور لڑوں گا۔  (عمر کہتے ہیں :)  قسم اللہ کی اس معاملے کو تو میں نے ایسا پایا کہ اللہ تعالیٰ نے ابوبکر (رض) کو قتال کے لیے شرح صدر بخشا ہے، اور میں نے سمجھ لیا کہ حق یہی ہے۔    تخریج دارالدعوہ :  انظر حدیث رقم : ٢٤٤٥ (صحیح  )    وضاحت :  ١ ؎: یعنی دین حق سے مرتد ہوگیا، اور زکاۃ جو اس پر واجب تھی اس کی ادائیگی کا منکر ہو بیٹھا۔    قال الشيخ الألباني :  صحيح    صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3091  
أَخْبَرَنَا كَثِيرُ بْنُ عُبَيْدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ الزُّبَيْدِيِّ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: لَمَّا تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاسْتُخْلِفَ أَبُو بَكْرٍ، وَكَفَرَ مَنْ كَفَرَ مِنْ الْعَرَبِ، قَالَ عُمَرُ: يَا أَبَا بَكْرٍ، كَيْفَ تُقَاتِلُ النَّاسَ وَقَدْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَقُولُوا لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، فَمَنْ قَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ عَصَمَ مِنِّي نَفْسَهُ وَمَالَهُ إِلَّا بِحَقِّهِ وَحِسَابُهُ عَلَى اللَّهِ؟ قَالَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: وَاللَّهِ لَأُقَاتِلَنَّ مَنْ فَرَّقَ بَيْنَ الصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ، فَإِنَّ الزَّكَاةَ حَقُّ الْمَالِ، وَاللَّهِ لَوْ مَنَعُونِي عَنَاقًا كَانُوا يُؤَدُّونَهَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، لَقَاتَلْتُهُمْ عَلَى مَنْعِهَا، فَوَاللَّهِ مَا هُوَ إِلَّا أَنْ رَأَيْتُ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ شَرَحَ صَدْرَ أَبِي بَكْرٍ لِلْقِتَالِ، وَعَرَفْتُ أَنَّهُ الْحَقُّ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৩০৯৪
جہاد سے متعلقہ احادیث
جہاد کی فرضیت
 ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ  جب رسول اللہ  ﷺ  انتقال فرما گئے اور ابوبکر (رض) آپ کے بعد آپ کے خلیفہ ہوئے اور عربوں میں جن کو کافر ہونا تھا وہ کافر ہوگئے، عمر (رض) نے کہا : ابوبکر ! آپ لوگوں سے کیسے جنگ کریں گے جب کہ رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا ہے : مجھے تو لوگوں سے لڑنے کا اس وقت تک حکم دیا گیا ہے جب تک کہ لوگ لا إله إلا اللہ کے قائل نہ ہوجائیں تو جس نے لا إله إلا اللہ کہہ لیا اس نے اپنے مال اور اپنی جان کو ہم  (مسلمانوں)  سے محفوظ کرلیا  (اب اس کی جان و مال کو مسلمانوں سے کوئی خطرہ نہیں)  سوائے اس کے کہ وہ خود ہی  (اپنی غلط روی سے)  اس کا حق فراہم کر دے اور اس کا  (آخری)  حساب اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے۔  (اور یہ زکاۃ نہ دینے والے لا إله إلا اللہ کے قائل ہیں)  تو ابوبکر (رض) نے کہا : قسم اللہ کی، میں ہر اس شخص سے لڑوں گا جو نماز اور زکاۃ میں فرق کرے گا،  (یعنی نماز پڑھے گا اور زکاۃ دینے سے انکار کرے گا)  کیونکہ زکاۃ مال کا حق ہے  (جس طرح نماز بدن کا)  قسم اللہ کی، اگر لوگوں نے مجھے بکری کا سال بھر سے چھوٹا بچہ بھی دینے سے روکا جسے وہ زکاۃ میں رسول اللہ  ﷺ  کو دیا کرتے تھے۔ تو اس روکنے پر بھی میں ان سے ضرور لڑوں گا۔  (عمر (رض) کہتے ہیں :)  قسم اللہ کی، اس معاملے کو تو میں نے ایسا پایا کہ اللہ تعالیٰ نے ابوبکر (رض) کو قتال کے لیے شرح صدر بخشا ہے اور میں نے سمجھ لیا کہ حق یہی ہے۔ اس حدیث کے الفاظ احمد کے ہیں۔    تخریج دارالدعوہ :  انظر حدیث رقم : ٢٤٤٥ (صحیح  )    قال الشيخ الألباني :  صحيح    صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3092  
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ مُغِيرَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ شُعَيْبٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ. ح وَأَنْبَأَنَا كَثِيرُ بْنُ عُبَيْدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ، عَنْ شُعَيْبٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي الزُّهْرِيُّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ، قَالَ: لَمَّا تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانَ أَبُو بَكْرٍ بَعْدَهُ، وَكَفَرَ مَنْ كَفَرَ مِنْ الْعَرَبِ، قَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: يَا أَبَا بَكْرٍ كَيْفَ تُقَاتِلُ النَّاسَ وَقَدْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَقُولُوا لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، فَمَنْ قَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، فَقَدْ عَصَمَ مِنِّي مَالَهُ وَنَفْسَهُ إِلَّا بِحَقِّهِ وَحِسَابُهُ عَلَى اللَّهِ؟ قَالَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: لَأُقَاتِلَنَّ مَنْ فَرَّقَ بَيْنَ الصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ، فَإِنَّ الزَّكَاةَ حَقُّ الْمَالِ وَاللَّهِ لَوْ مَنَعُونِي عَنَاقًا كَانُوا يُؤَدُّونَهَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَقَاتَلْتُهُمْ عَلَى مَنْعِهَا، قَالَ عُمَرُ: فَوَاللَّهِ مَا هُوَ إِلَّا أَنْ رَأَيْتُ أَنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ شَرَحَ صَدْرَ أَبِي بَكْرٍ لِلْقِتَالِ فَعَرَفْتُ أَنَّهُ الْحَقُّ، وَاللَّفْظُ لِأَحْمَدَ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৩০৯৫
جہاد سے متعلقہ احادیث
جہاد کی فرضیت
 ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ  جب ابوبکر (رض) نے  (لوگوں کو)  ان  (منکرین زکاۃ و مرتدین دین)  سے جنگ کے لیے اکٹھا کیا۔ تو عمر (رض) نے کہا : آپ لوگوں سے کیسے لڑیں گے ؟ جب کہ رسول اللہ  ﷺ  فرما چکے ہیں :  مجھے تو لوگوں سے لڑنے کا اس وقت تک حکم دیا گیا ہے جب تک کہ لوگ لا إله إلا اللہ کے قائل نہ ہوجائیں، اور جب انہوں نے یہ کلمہ کہہ لیا تو اپنے خون اور اپنے مال کو مجھ سے بچا لیا۔ مگر اس کے حق کے بدلے  (جان و مال پر جو حقوق لگا دیئے گئے ہیں اگر ان کی پاسداری نہ کرے گا تو سزا کا حقدار ہوگا۔ مثلاً قصاص و حدود ضمانت وغیرہ میں)  ابوبکر (رض) نے فرمایا : میں تو ہر اس شخص سے لڑوں گا جو نماز اور زکاۃ  (دونوں فریضوں)  میں فرق کرے گا۔ اور قسم اللہ کی اگر انہوں نے مجھے بکری کا ایک چھوٹا بچہ بھی دینے سے انکار کیا جسے وہ رسول اللہ  ﷺ  کو دیا کرتے تھے۔ تو میں ان کے اس انکار پر بھی ان سے جنگ کروں گا۔ عمر (رض) کہتے ہیں : قسم اللہ کی میں نے اچھی طرح جان لیا کہ ان  (منحرفین)  سے جنگ کے معاملہ میں ابوبکر (رض) کو پورے طور پر شرح صدر حاصل ہے۔  (تبھی وہ اتنے مستحکم اور فیصلہ کن انداز میں بات کر رہے ہیں)  اور مجھے یقین آگیا کہ وہ حق پر ہیں۔    تخریج دارالدعوہ :  انظر حدیث رقم : ٢٤٤٥ (صحیح  )    قال الشيخ الألباني :  صحيح    صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3093  
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُؤَمَّلُ بْنُ الْفَضْلِ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ، قَالَ: حَدَّثَنِي شُعَيْبُ بْنُ أَبِي حَمْزَةَ، وَسُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، وَذَكَرَ آخَرَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: لَمَّا جَمَعَ أَبُو بَكْرٍ لِقِتَالِهِمْ، فَقَالَ عُمَرُ: يَا أَبَا بَكْرٍ، كَيْفَ تُقَاتِلُ النَّاسَ وَقَدْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَقُولُوا لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، فَإِذَا قَالُوهَا عَصَمُوا مِنِّي دِمَاءَهُمْ، وَأَمْوَالَهُمْ إِلَّا بِحَقِّهَا؟ قَالَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: لَأُقَاتِلَنَّ مَنْ فَرَّقَ بَيْنَ الصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ، وَاللَّهِ لَوْ مَنَعُونِي عَنَاقًا، كَانُوا يُؤَدُّونَهَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَقَاتَلْتُهُمْ عَلَى مَنْعِهَا، قَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: فَوَاللَّهِ مَا هُوَ إِلَّا أَنْ رَأَيْتُ أَنَّ اللَّهَ تَعَالَى قَدْ شَرَحَ صَدْرَ أَبِي بَكْرٍ لِقِتَالِهِمْ، فَعَرَفْتُ أَنَّهُ الْحَقُّ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৩০৯৬
جہاد سے متعلقہ احادیث
جہاد کی فرضیت
 انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ  جب رسول اللہ  ﷺ  رحلت فرما گئے، تو عرب  (دین اسلام سے)  مرتد ہوگئے، عمر (رض) نے کہا : ابوبکر ! آپ عربوں سے کیسے لڑائی لڑیں گے۔ ابوبکر (رض) نے کہا : رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا :  مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے لڑوں یہاں تک کہ لوگ گواہی دینے لگیں کہ کوئی معبود برحق نہیں ہے سوائے اللہ کے اور میں اللہ کا رسول ہوں، اور نماز قائم کرنے لگیں، اور زکاۃ دینے لگیں، قسم اللہ کی، اگر انہوں نے ایک بکری کا چھوٹا بچہ دینے سے انکار کیا جسے وہ رسول اللہ  ﷺ  کو  (زکاۃ میں)  دیا کرتے تھے تو میں اس کی خاطر بھی ان سے لڑائی لڑوں گا۔ عمر (رض) کہتے ہیں : جب میں نے ابوبکر (رض) کی رائے دیکھی کہ انہیں اس پر شرح صدر حاصل ہے تو مجھے یقین ہوگیا کہ وہ حق پر ہیں ۔ ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں : عمران بن قطان حدیث میں قوی نہیں ہیں۔ یہ حدیث صحیح نہیں ہے، اس سے پہلے والی حدیث صحیح و درست ہے، زہری کی حدیث کا سلسلہ عن عبيد اللہ بن عبداللہ بن عتبة عن أبي هريرة ہے۔    تخریج دارالدعوہ :  تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٣٩٧٩) ، ویأتي عند المؤلف : ٣٩٧٤ (حسن صحیح  )    قال الشيخ الألباني :  حسن صحيح    صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3094  
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَاصِمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عِمْرَانُ أَبُو الْعَوَّامِ الْقَطَّانُ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: لَمَّا تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ارْتَدَّتْ الْعَرَبُ، قَالَ عُمَرُ: يَا أَبَا بَكْرٍ كَيْفَ تُقَاتِلُ الْعَرَبَ ؟ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: إِنَّمَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَشْهَدُوا أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنِّي رَسُولُ اللَّهِ، وَيُقِيمُوا الصَّلَاةَ وَيُؤْتُوا الزَّكَاةَ، وَاللَّهِ لَوْ مَنَعُونِي عَنَاقًا مِمَّا كَانُوا يُعْطُونَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَقَاتَلْتُهُمْ عَلَيْهِ، قَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: فَلَمَّا رَأَيْتُ رَأْيَ أَبِي بَكْرٍ قَدْ شُرِحَ، عَلِمْتُ أَنَّهُ الْحَقُّ، قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: عِمْرَانُ الْقَطَّانُ لَيْسَ بِالْقَوِيِّ فِي الْحَدِيثِ، وَهَذَا الْحَدِيثُ خَطَأٌ، وَالَّذِي قَبْلَهُ الصَّوَابُ حَدِيثُ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৩০৯৭
جہاد سے متعلقہ احادیث
جہاد کی فرضیت
 اس سند سے بھی ابوہریرہ رضی الله عنہ سے  اسی طرح مروی ہے وہ کہتے ہیں : میں نے رسول اللہ  ﷺ  کو فرماتے ہوئے سنا ہے۔    تخریج دارالدعوہ :  تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٥٣٤٦) ، مسند احمد (٢/٢٥٠، ٤٤٢) (صحیح) (سابقہ حدیث سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح ہے  )    صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3088  
أَخْبَرَنَا هَارُونُ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ خَالِدِ بْنِ نِزَارٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي الْقَاسِمُ بْنُ مَبْرُورٍ، عَنْ يُونُسَ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، نَحْوَهُ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৩০৯৮
جہاد سے متعلقہ احادیث
جہاد کی فرضیت

তাহকীক:
হাদীস নং: ৩০৯৯
جہاد سے متعلقہ احادیث
جہاد کی فرضیت
 ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا : مجھے حکم ملا ہے کہ جب تک لوگ لا إله إلا اللہ کے قائل نہ ہوجائیں میں ان سے لڑوں تو جس نے اسے کہہ لیا  (قبول کرلیا)  تو اس نے مجھ سے اپنی جان و مال محفوظ کرلیا۔ اب ان پر صرف اسی وقت ہاتھ ڈالا جاسکے گا جب اس کا حق  (وقت و نوبت)  آجائے  ١ ؎۔ اور اس کا حساب اللہ تعالیٰ کرے گا  ٢ ؎۔    تخریج دارالدعوہ :  صحیح البخاری/الجہاد ١٠٢ (٢٩٤٦) ، (تحفة الأشراف : ١٣١٥٢) ، و یأتي عند المؤلف : ٣٠٩٧ (صحیح  )    وضاحت :  ١ ؎: مثلاً حد و قصاص و ضمان میں تو اس پر حد جاری کی جائے گی، قصاص لیا جائے گا اور اس سے مال دلایا جائے گا۔  ٢ ؎: کہ وہ ایمان خلوص دل سے لایا تھا یا صرف دکھاوے کے لیے۔    قال الشيخ الألباني :  صحيح    صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3095  
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُغِيرَةِ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُثْمَانُ، عَنْ شُعَيْبٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ. ح وَأَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ بْنِ سَعِيدِ بْنِ كَثِيرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعَيْبٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَأَخْبَرَهُ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَقُولُوا لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، فَمَنْ قَالَهَا فَقَدْ عَصَمَ مِنِّي نَفْسَهُ، وَمَالَهُ إِلَّا بِحَقِّهِ وَحِسَابُهُ عَلَى اللَّهِ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৩১০০
جہاد سے متعلقہ احادیث
جہاد کی فرضیت
 انس رضی الله عنہ روایت کرتے ہیں کہ  نبی اکرم  ﷺ  نے فرمایا :  مشرکین سے جہاد کرو اپنے مالوں، اپنے ہاتھوں، اور اپنی زبانوں کے ذریعہ   ١ ؎۔    تخریج دارالدعوہ :  سنن ابی داود/الجہاد ١٨ (٢٥٠٤) ، (تحفة الأشراف : مسند احمد (٣/١٢٤، ١٥٣، ٢٥١) ، سنن الدارمی/الجہاد ٣٨ (٢٤٧٥) ، ویأتی عند المؤلف برقم : ٣١٩٤ (صحیح  )    وضاحت :  ١ ؎: مال اور ہاتھ سے جہاد کا مطلب بالکل واضح ہے، زبان سے جہاد کا مطلب یہ ہے کہ زبان سے جہاد کے فضائل بیان کئے جائیں، اور لوگوں کو اس پر ابھارنے کے ساتھ انہیں اس کی رغبت دلائی جائے۔ اور کفار کو اسلام کی زبان سے دعوت دی جائے۔    قال الشيخ الألباني :  صحيح    صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3096  
أَخْبَرَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، وَمُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل بْنِ إِبْرَاهِيمَ، قَالَا: حَدَّثَنَا يَزِيدُ، قَالَ: أَنْبَأَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْحُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: جَاهِدُوا الْمُشْرِكِينَ بِأَمْوَالِكُمْ، وَأَيْدِيكُمْ، وَأَلْسِنَتِكُمْ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৩১০১
جہاد سے متعلقہ احادیث
جہاد چھوڑ دینے پر وعید
 ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ  نبی اکرم  ﷺ  نے فرمایا :  جو شخص مرگیا، اور اس نے جہاد نہیں کیا، اور نہ ہی جہاد کے بارے میں اس نے اپنے دل میں سوچا و ارادہ کیا  ١ ؎، تو وہ ایک طرح سے نفاق پر مرا  ٢ ؎۔    تخریج دارالدعوہ :  صحیح مسلم/الإمارة (٩١٠) ، سنن ابی داود/الجہاد ١٨ (٢٥٠٢) ، (تحفة الأشراف : ١٢٥٦٧) ، مسند احمد (٢/٣٧٤) (صحیح  )    وضاحت :  ١ ؎: دل میں سوچنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے دل میں مجاہد بننے کی تمنا کرے، اور ارادہ کا مطلب یہ ہے کہ جہاد سے متعلق ساز و سامان کے حصول کی کوشش اور اس کے لیے تیاری کرے۔  ٢ ؎: گویا وہ جہاد سے پیچھے رہ جانے والے منافقین کے مشابہ ہوگیا۔    قال الشيخ الألباني :  صحيح    صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3097  
أَخْبَرَنَا عَبْدَةُ بْنُ عَبْدِ الرَّحِيمِ، قَالَ: حَدَّثَنَا سَلَمَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ، قَالَ: أَنْبَأَنَا وُهَيْبٌ يَعْنِي ابْنَ الْوَرْدِ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُمَرُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، عَنْ سُمَيٍّ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: مَنْ مَاتَ وَلَمْ يَغْزُ، وَلَمْ يُحَدِّثْ نَفْسَهُ بِغَزْوٍ، مَاتَ عَلَى شُعْبَةِ نِفَاقٍ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৩১০২
جہاد سے متعلقہ احادیث
لشکر کے ساتھ نہ جانے کی اجازت
 ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ  میں نے رسول اللہ  ﷺ  کو فرماتے ہوئے سنا ہے :  قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ اگر بہت سے مسلمانوں کو مجھ سے پیچھے رہنا ناگوار نہ ہوتا اور میں ایسی چیز نہ پاتا جس پر انہیں سوار کر کے لے جاتا تو کسی ایسے فوجی دستے سے جو اللہ عزوجل کے راستے میں جہاد کے لیے نکلا ہو پیچھے نہ رہتا،  (لیکن چونکہ مجبوری ہے اس لیے ایسے مجبور کے لیے فوجی دستے کے ساتھ نہ جانے کی رخصت ہے)  اور قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے مجھے پسند ہے کہ میں اللہ کے راستے میں قتل کیا جاؤں، پھر زندہ کیا جاؤں، پھر قتل کیا جاؤں، پھر زندہ کیا جاؤں، پھر قتل کیا جاؤں، پھر زندہ کیا جاؤں، پھر قتل کیا جاؤں۔    تخریج دارالدعوہ :  صحیح البخاری/الجہاد ٧ (٢٧٩٧) ، ١١٩ (٢٩٧٢) ، التمنی ١ (٧٢٢٦) ، (تحفة الأشراف : ٣١٨٦) ، صحیح مسلم/الإمارة ٢٨ (١٨٧٦) ، سنن ابن ماجہ/الجہاد ١ (٢٧٥٣) ، مسند احمد (٢/٢٣١، ٢٤٥، ٣٨٤، ٤٢٤، ٤٧٣، ٥٠٢) ویأتي عند المؤلف برقم ٣١٥٣ (صحیح  )    قال الشيخ الألباني :  صحيح    صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3098  
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ الْوَزِيرِ بْنِ سُلَيْمَانَ، عَنْ ابْنِ عُفَيْرٍ، عَنْ اللَّيْثِ، عَنْ ابْنِ مُسَافِرٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، وَسَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَوْلَا أَنَّ رِجَالًا مِنَ الْمُؤْمِنِينَ لَا تَطِيبُ أَنْفُسُهُمْ أَنْ يَتَخَلَّفُوا عَنِّي، وَلَا أَجِدُ مَا أَحْمِلُهُمْ عَلَيْهِ مَا تَخَلَّفْتُ عَنْ سَرِيَّةٍ تَغْزُو فِي سَبِيلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَوَدِدْتُ أَفنِّي، أُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ثُمَّ أُحْيَا، ثُمَّ أُقْتَلُ، ثُمَّ أُحْيَا، ثُمَّ أُقْتَلُ، ثُمَّ أُحْيَا، ثُمَّ أُقْتَلُ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৩১০৩
جہاد سے متعلقہ احادیث
جہاد نہ کرنے والے مجاہدین کے برابر نہیں ہو سکتے
 سہل بن سعد رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ  میں نے مروان بن حکم کو بیٹھے دیکھا تو ان کے پاس آ کر بیٹھ گیا، تو انہوں نے ہم سے بیان کیا کہ زید بن ثابت (رض) کا بیان ہے کہ رسول اللہ  ﷺ  پر آیت : لا يستوي القاعدون من المؤمنين والمجاهدون في سبيل اللہ  اپنی جانوں اور مالوں سے اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والے مومن اور بغیر عذر کے بیٹھ رہنے والے مومن برابر نہیں ۔  (النساء :  ٩٥  )  نازل ہوئی اور آپ اسے بول کر مجھ سے لکھوا رہے تھے کہ اسی دوران ابن ام مکتوم (رض) آگئے  (وہ ایک نابینا صحابی تھے)  انہوں نے  (حسرت بھرے انداز میں)  کہا : اگر میں جہاد کرسکتا تو ضرور کرتا  (مگر میں اپنی آنکھوں سے مجبور ہوں)  تو اس وقت اللہ تعالیٰ ٰ نے  (کلام پاک کا یہ ٹکڑا)  غير أولي الضرر نازل فرمایا۔  ضرر والے یعنی مجبور لوگ اس سے مستثنیٰ ہیں  اور  (اس ٹکڑے کے نزول کے وقت کی صورت و کیفیت یہ تھی)  کہ آپ  ﷺ  کی ران میری ران پر ٹکی ہوئی تھی۔ اس آیت کے نزول کا بوجھ مجھ پر  (بھی)  پڑا اور اتنا پڑا کہ مجھے خیال ہوا کہ میری ران ٹوٹ ہی جائے گی، پھر یہ کیفیت موقوف ہوگئی۔ ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں : اس روایت میں عبدالرحمٰن بن اسحاق ہیں ان سے روایت کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے اور وہ عبدالرحمٰن بن اسحاق جو نعمان بن سعد سے روایت کرتے ہیں ثقہ نہیں ہیں، اور عبدالرحمٰن بن اسحاق سے روایت کی ہے، علی بن مسہر، ابومعاویہ اور عبدالواحد بن زیاد روایت کرتے ہیں بواسطہ نعمان بن سعد جو ثقہ نہیں ہیں۔    تخریج دارالدعوہ :  صحیح البخاری/الجہاد ٣١ (٢٨٣٢) ، وتفسیرسورة النساء ١٨ (٤٥٩٢) ، سنن ابی داود/الجہاد ٢٠ (٢٥٠٧) ، سنن الترمذی/تفسیرسورة النساء (٣٠٣٣) ، مسند احمد (٥/١٨٤، ١٩١) (صحیح  )    قال الشيخ الألباني :  صحيح    صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3099  
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بَزِيعٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا بِشْرٌ يَعْنِي ابْنَ الْمُفَضَّلِ، قَالَ: أَنْبَأَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ إِسْحَاق، عَنْالزُّهْرِيِّ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ: رَأَيْتُ مَرْوَانَ بْنَ الْحَكَمِ جَالِسًا، فَجِئْتُ حَتَّى جَلَسْتُ إِلَيْهِ فَحَدَّثَنَا، أَنَّ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ حَدَّثَهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُنْزِلَ عَلَيْهِ: لَا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، فَجَاءَ ابْنُ أُمِّ مَكْتُومٍ وَهُوَ يُمِلُّهَا عَلَيَّ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ لَوْ أَسْتَطِيعُ الْجِهَادَ لَجَاهَدْتُ فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ وَفَخِذُهُ عَلَى فَخِذِي، فَثَقُلَتْ عَلَيَّ حَتَّى ظَنَنْتُ أَنْ سَتُرَضُّ فَخِذِي، ثُمَّ سُرِّيَ عَنْهُ، غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ سورة النساء آية 95، قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ إِسْحَاق هَذَا لَيْسَ بِهِ بَأْسٌ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ إِسْحَاق يَرْوِي عَنْهُ عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، وَأَبُو مُعَاوِيَةَ، وَعَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ، عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ سَعْدٍ لَيْسَ بِثِقَةٍ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৩১০৪
جہاد سے متعلقہ احادیث
جہاد نہ کرنے والے مجاہدین کے برابر نہیں ہو سکتے
 زید بن ثابت رضی الله عنہ نے خبر دی ہے کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے انہیں بول کر لکھایا لا يستوي القاعدون من المؤمنين والمجاهدون في سبيل اللہ  (النساء :  ٩٥  )  کہ اسی دوران ابن ام مکتوم (رض) آگئے، انہوں نے کہا : اللہ کے رسول ! اگر میں جہاد کی استطاعت رکھتا تو ضرور جہاد کرتا اور وہ ایک اندھے شخص تھے۔ تو اللہ نے اپنے رسول  ﷺ  پر آیت کا یہ حصہ غير أولي الضرر نازل فرمایا،  (اس آیت کے اترتے وقت)  آپ کی ران میری ران پر چڑھی ہوئی تھی اور  (نبی اکرم ﷺ پر وحی کے نزول کے سبب)  ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ میری ران چور چور ہوجائے گی، پھر وحی موقوف ہوگئی  (تو وحی کا دباؤ و بوجھ بھی ختم ہوگیا) ۔    تخریج دارالدعوہ :  انظر ماقبلہ (صحیح  )    قال الشيخ الألباني :  صحيح    صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3100  
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ صَالِحٍ، عَنْابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي سَهْلُ بْنُ سَعْدٍ، قَالَ: رَأَيْتُ مَرْوَانَ جَالِسًا فِي الْمَسْجِدِ، فَأَقْبَلْتُ حَتَّى جَلَسْتُ إِلَى جَنْبِهِ فَأَخْبَرَنَا، أَنَّ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ أَخْبَرَهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَأَمْلَى عَلَيْهِ: لَا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، قَالَ: فَجَاءَهُ ابْنُ أُمِّ مَكْتُومٍ وَهُوَ يُمِلُّهَا عَلَيَّ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ لَوْ أَسْتَطِيعُ الْجِهَادَ لَجَاهَدْتُ، وَكَانَ رَجُلًا أَعْمَى، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَفَخِذُهُ عَلَى فَخِذِي حَتَّى هَمَّتْ تَرُضُّ فَخِذِي ثُمَّ سُرِّيَ عَنْهُ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ سورة النساء آية 95.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৩১০৫
جہاد سے متعلقہ احادیث
جہاد نہ کرنے والے مجاہدین کے برابر نہیں ہو سکتے
 براء رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ  نبی اکرم  ﷺ  نے  (فرمایا : کیا فرمایا ؟ وہ الفاظ راوی کو یاد نہیں رہے لیکن)  وہ کچھ ایسے الفاظ تھے جن کے معنی یہ نکلتے تھے : شانے کی ہڈی، تختی  (کچھ)  لاؤ۔  (جب وہ آگئی تو اس پر لکھا یا)  چناچہ  (زید بن ثابت (رض) نے)  لکھا : لا يستوي القاعدون من المؤمنين اور عمرو بن ام مکتوم (رض) آپ کے پیچھے موجود تھے۔  (وہ اندھے تھے۔ اسی مناسبت سے)  انہوں نے کہا : کیا میرے لیے رخصت ہے ؟  (میں معذور ہوں، جہاد نہیں کر پاؤں گا)  تب یہ آیت غير أولي الضرر  ضرر، نقصان و کمی والے کو یعنی مجبور، معذور کو چھوڑ کر ۔    تخریج دارالدعوہ :  سنن الترمذی/الجہاد ١ (١٦٧٠) ، (تحفة الأشراف : ١٨٥٩) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الجہاد ٣١ (٢٨٣١) ، وتفسیرسورة النساء ١٨ (٤٥٩٣) ، و فضائل القرآن ٤ (٤٩٩٠) ، صحیح مسلم/الإمارة ٤٠ (١٨٩٨) ، مسند احمد (٤/٢٨٣، ٢٩٠، ٣٣٠) ، سنن الدارمی/المناسک والجہاد ٢٨ (٢٤٦٤) (صحیح  )    قال الشيخ الألباني :  صحيح    صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3101  
أَخْبَرَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ الْبَرَاءِ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ ذَكَرَ كَلِمَةً مَعْنَاهَا قَالَ: ائْتُونِي بِالْكَتِفِ وَاللَّوْحِ، فَكَتَبَ لا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ سورة النساء آية 95 وَعَمْرُو بْنُ أُمِّ مَكْتُومٍ، خَلْفَهُ، فَقَالَ: هَلْ لِي رُخْصَةٌ فَنَزَلَتْ: غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ سورة النساء آية 95.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৩১০৬
جہاد سے متعلقہ احادیث
جہاد نہ کرنے والے مجاہدین کے برابر نہیں ہو سکتے۔
 براء رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ  جب یہ آیت : لا يستوي القاعدون من المؤمنين اتری تو ابن ام مکتوم (رض) جو اندھے تھے آئے اور کہا : اللہ کے رسول ! میرے متعلق کیا حکم ہے ؟  (میں بیٹھا رہنا تو نہیں چاہتا)  اور آنکھوں سے مجبور ہوں،  (جہاد بھی نہیں کرسکتا)  پھر تھوڑا ہی وقت گذرا تھا کہ یہ آیت : غير أولي الضرر نازل ہوئی  (یعنی معذور لوگ اس سے مستثنیٰ ہیں) ۔    تخریج دارالدعوہ :  تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٩٠٩) (صحیح  )    قال الشيخ الألباني :  صحيح    صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3102  
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ الْبَرَاءِ، قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ لا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ سورة النساء آية 95، جَاءَ ابْنُ أُمِّ مَكْتُومٍ، وَكَانَ أَعْمَى، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ: فَكَيْفَ فِيَّ وَأَنَا أَعْمَى ؟ قَالَ: فَمَا بَرِحَ حَتَّى نَزَلَتْ: غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ سورة النساء آية 95.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৩১০৭
جہاد سے متعلقہ احادیث
جس شخص کے والدین حیات ہوں اس کو گھر رہنے کی اجازت
 عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ  ایک شخص رسول اللہ  ﷺ  کے پاس جہاد میں شرکت کی اجازت لینے کے لیے آیا۔ آپ نے اس سے پوچھا : کیا تمہارے ماں باپ زندہ ہیں ؟  اس نے کہا : جی ہاں، تو آپ نے فرمایا :  پھر تو تم انہیں دونوں کی خدمت کا ثواب حاصل کرو   ١ ؎۔    تخریج دارالدعوہ :  صحیح البخاری/الجہاد ١٣٨ (٣٠٠٤) ، الأدب ٣ (٥٩٧٢) ، صحیح مسلم/البر ١ (٢٥٤٩) ، سنن ابی داود/الجہاد ٣٣ (٢٥٢٩) ، سنن الترمذی/الجہاد ٢ (١٦٧١) ، (تحفة الأشراف : ٨٦٣٤) ، مسند احمد (٢/١٦٥، ١٧٢، ١٨٨، ١٩٧، ٢٢١) (صحیح  )    وضاحت :  ١ ؎: یعنی ان دونوں کی خدمت کر کے ان کی رضا مندی اور خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کرو تمہارے لیے یہی جہاد ہے۔    قال الشيخ الألباني :  صحيح    صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3103  
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ سُفْيَانَ، وَشُعْبَةَ، قَالَا: حَدَّثَنَا حَبِيبُ بْنُ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ أَبِي الْعَبَّاسِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْتَأْذِنُهُ فِي الْجِهَادِ فَقَالَ: أَحَيٌّ وَالِدَاكَ ؟قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَفِيهِمَا فَجَاهِدْ.  

তাহকীক: