কিতাবুস সুনান (আলমুজতাবা) - ইমাম নাসায়ী রহঃ (উর্দু)
المجتبى من السنن للنسائي
قسامت کے متعلق - এর পরিচ্ছেদসমূহ
মোট হাদীস ২০ টি
হাদীস নং: ৪৭১০
قسامت کے متعلق
دور جاہلیت کی قسامت سے متعلق
 عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ  جاہلیت کے زمانے کا پہلا قسامہ یہ تھا کہ بنی ہاشم کا ایک شخص تھا، قریش یعنی اس کی شاخ میں سے کسی قبیلے کے ایک شخص نے اسے نوکری پر رکھا، وہ اس کے ساتھ اس کے اونٹوں میں گیا، اس کے پاس سے بنی ہاشم کے ایک شخص کا گزر ہوا جس کے توش دان کی رسی ٹوٹ گئی تھی، وہ بولا : میری مدد کرو ایک رسی سے جس سے میں اپنے توش دان کا منہ باندھ سکوں تاکہ   (اس میں سے سامان گرنے سے)   اونٹ نہ بدکے، چناچہ اس نے اسے توش دان کا منہ باندھنے کے لیے رسی دی، جب انہوں نے قیام کیا اور ایک اونٹ کے علاوہ سبھی اونٹ باندھ دیے گئے تو جس نے نوکر رکھا تھا، اس نے کہا : اس اونٹ کا کیا معاملہ ہے، تمام اونٹوں میں اسے کیوں نہیں باندھا گیا ؟ اس نے کہا : اس کے لیے کوئی رسی نہیں ہے، اس نے کہا : اس کی رسی کہاں گئی ؟ وہ بولا : میرے پاس سے بنی ہاشم کا ایک شخص گزرا جس کے توش دان کا منہ باندھنے کی رسی ٹوٹ گئی تھی، اس نے مجھ سے مدد چاہی اور کہا : مجھے توش دان کا منہ باندھنے کے لیے ایک رسی دے دو تاکہ اونٹ نہ بدکے، میں نے اسے رسی دے دی، یہ سن کر اس نے ایک لاٹھی نوکر کو ماری، اسی میں اس کی موت تھی   (یعنی یہی چیز بعد میں اس کے مرنے کا سبب بنی)   اس کے پاس سے یمن والوں میں سے ایک شخص کا گزر ہوا، اس نے کہا : کیا تم حج کو جا رہے ہو ؟ اس نے کہا : جا نہیں رہا ہوں لیکن شاید جاؤں، اس نے کہا : کیا تم   (اس موقع سے)   کسی بھی وقت میرا یہ پیغام پہنچا دو گے ؟ اس نے کہا : ہاں، کہا : جب تم حج کو جاؤ تو پکار کر کہنا : اے قریش کے لوگو ! جب وہ آجائیں تو پکارنا ! اے ہاشم کے لوگو ! جب وہ آجائیں تو ابوطالب کے بارے میں پوچھنا پھر انہیں بتانا کہ فلاں شخص نے مجھے ایک رسی کے سلسلے میں مار ڈالا ہے اور   (یہ کہہ کر)   نوکر مرگیا، پھر جب وہ شخص آیا جس نے نوکری پر اسے رکھا تھا تو اس کے پاس ابوطالب گئے اور بولے : ہمارے آدمی کا کیا ہوا ؟ وہ بولا : وہ بیمار ہوگیا، میں نے اس کی اچھی طرح خدمت کی پھر وہ مرگیا، میں راستے میں اترا اور اسے دفن کردیا۔ ابوطالب بولے : تمہاری طرف سے وہ اس چیز کا حقدار تھا، وہ کچھ عرصے تک رکے رہے پھر وہ یمنی آیا جسے اس نے وصیت کی تھی کہ جب موسم حج آیا تو وہ اس کا پیغام پہنچا دے۔ اس نے کہا : اے قریش کے لوگو ! لوگوں نے کہا : یہ قریش ہیں، اس نے کہا : اے بنی ہاشم کے لوگو ! لوگوں نے کہا : یہ بنی ہاشم ہیں، اس نے کہا : ابوطالب کہاں ہیں ؟ کسی نے کہا : ابوطالب یہ ہیں۔ وہ بولا : مجھ سے فلاں نے کہا ہے کہ میں آپ تک یہ پیغام پہنچا دوں کہ فلاں نے اسے ایک رسی کی وجہ سے مار ڈالا، چناچہ ابوطالب اس کے پاس آئے اور بولے : تم تین میں سے کوئی ایک کام کرو، اگر تم چاہو تو سو اونٹ دے دو ، اس لیے کہ تم نے ہمارے آدمی کو غلطی سے مار ڈالا ہے   ١ ؎  اور اگر چاہو تو تمہاری قوم کے پچاس آدمی قسم کھائیں کہ تم نے اسے نہیں مارا، اگر تم ان دونوں باتوں سے انکار کرتے ہو تو ہم تمہیں اس کے بدلے قتل کریں گے، وہ اپنی قوم کے پاس آیا اور ان سے اس کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا : ہم قسم کھائیں گے، پھر بنی ہاشم کی ایک عورت ابوطالب کے پاس آئی جو اس قبیلے کے ایک شخص کی زوجیت میں تھی، اس شخص سے اس کا ایک لڑکا تھا، وہ بولی : ابوطالب ! میں چاہتی ہوں کہ آپ ان پچاس میں سے میرے اس بیٹے کو بخش دیں اور اس سے قسم نہ لیں، ابوطالب نے ایسا ہی کیا، پھر ان کے پاس ان میں کا ایک شخص آیا اور بولا : ابوطالب ! آپ سو اونٹوں کی جگہ پچاس آدمیوں سے قسم لینا چاہتے ہو ؟ ہر شخص کے حصے میں دو اونٹ پڑیں گے، تو لیجئیے دو اونٹ اور مجھ سے قسم مت لیجئیے جیسا کہ آپ اوروں سے قسم لیں گے، ابوطالب نے دونوں اونٹ قبول کرلیے، پھر اڑتالیس آدمی آئے اور انہوں نے قسم کھائی۔ ابن عباس (رض) کہتے ہیں : قسم اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے ! ابھی سال بھی نہ گزرا تھا کہ ان اڑتالیس میں سے ایک بھی آنکھ جھپکنے والی نہیں رہی   (یعنی سب مرگئے)   ٢ ؎۔    تخریج دارالدعوہ :  صحیح البخاری/مناقب الأنصار ٢٧ (المناقب ٨٧) (٣٨٤٥) ، (تحفة الأشراف : ٦٢٨٠) (صحیح  )    وضاحت : ١ ؎: نامعلوم قتل کی صورت میں مشتبہ افراد یا بستی والوں سے قسم لینے کو قسامہ کہا جاتا ہے۔  ٢ ؎: ابن عباس (رض) نے ان سب کے مرجانے کی خبر قسم کھا کردی باوجود یہ کہ یہ اس وقت پیدا ہی نہیں ہوئے تھے۔ اس سلسلہ میں تین باتیں کہی جاتی ہیں : یہ خبر ان تک تواتر کے ساتھ پہنچی ہوگی، کسی ثقہ شخص کے ذریعہ پہنچی ہوگی، یہ بھی احتمال ہے کہ اس واقعہ کی خبر انہیں نبی اکرم ﷺ نے دی ہوگی۔    قال الشيخ الألباني :  صحيح    صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4706  
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ، قَالَ: حَدَّثَنَا قَطَنٌ أَبُو الْهَيْثَمِ، قَالَ: حَدَّثَنَاأَبُو يَزِيدَ الْمَدَنِيُّ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: أَوَّلُ قَسَامَةٍ كَانَتْ فِي الْجَاهِلِيَّةِ كَانَ رَجُلٌ مِنْ بَنِي هَاشِمٍ اسْتَأْجَرَ رَجُلًا مِنْ قُرَيْشٍ مِنْ فَخِذِ أَحَدِهِمْ، قَالَ: فَانْطَلَقَ مَعَهُ فِي إِبِلِهِ فَمَرَّ بِهِ رَجُلٌ مِنْ بَنِي هَاشِمٍ قَدِ انْقَطَعَتْ عُرْوَةُ جُوَالِقِهِ، فَقَالَ: أَغِثْنِي بِعِقَالٍ أَشُدُّ بِهِ عُرْوَةَ جُوَالِقِي لَا تَنْفِرُ الْإِبِلُ، فَأَعْطَاهُ عِقَالًا يَشُدُّ بِهِ عُرْوَةَ جُوَالِقِهِ، فَلَمَّا نَزَلُوا وَعُقِلَتِ الْإِبِلُ إِلَّا بَعِيرًا وَاحِدًا، فَقَالَ الَّذِي اسْتَأْجَرَهُ: مَا شَأْنُ هَذَا الْبَعِيرِ لَمْ يُعْقَلْ مِنْ بَيْنِ الْإِبِلِ، قَالَ: لَيْسَ لَهُ عِقَالٌ، قَالَ: فَأَيْنَ عِقَالُهُ ؟ قَالَ: مَرَّ بِي رَجُلٌ مِنْ بَنِي هَاشِمٍ قَدِ انْقَطَعَتْ عُرْوَةُ جُوَالِقِهِ فَاسْتَغَاثَنِي، فَقَالَ: أَغِثْنِي بِعِقَالٍ أَشُدُّ بِهِ عُرْوَةَ جُوَالِقِي لَا تَنْفِرُ الْإِبِلُ فَأَعْطَيْتُهُ عِقَالًا فَحَذَفَهُ بِعَصًا كَانَ فِيهَا أَجَلُهُ فَمَرَّ بِهِ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْيَمَنِ، فَقَالَ: أَتَشْهَدُ الْمَوْسِمَ، قَالَ: مَا أَشْهَدُ وَرُبَّمَا شَهِدْتُ، قَالَ: هَلْ أَنْتَ مُبَلِّغٌ عَنِّي رِسَالَةً مَرَّةً مِنَ الدَّهْرِ ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: إِذَا شَهِدْتَ الْمَوْسِمَ فَنَادِ يَا آلَ قُرَيْشٍ، فَإِذَا أَجَابُوكَ فَنَادِ يَا آلَ هَاشِمٍ، فَإِذَا أَجَابُوكَ فَسَلْ عَنْ أَبِي طَالِبٍ، فَأَخْبِرْهُ أَنَّ فُلَانًا قَتَلَنِي فِي عِقَالٍ وَمَاتَ الْمُسْتَأْجَرُ، فَلَمَّا قَدِمَ الَّذِي اسْتَأْجَرَهُ أَتَاهُ أَبُو طَالِبٍ، فَقَالَ: مَا فَعَلَ صَاحِبُنَا ؟ قَالَ: مَرِضَ فَأَحْسَنْتُ الْقِيَامَ عَلَيْهِ، ثُمَّ مَاتَ فَنَزَلْتُ فَدَفَنْتُهُ، فَقَالَ: كَانَ ذَا أَهْلَ ذَاكَ مِنْكَ فَمَكُثَ حِينًا، ثُمَّ إِنَّ الرَّجُلَ الْيَمَانِيَّ الَّذِي كَانَ أَوْصَى إِلَيْهِ أَنْ يُبَلِّغَ عَنْهُ وَافَى الْمَوْسِمَ، قَالَ: يَا آلَ قُرَيْشٍ، قَالُوا: هَذِهِ قُرَيْشٌ، قَالَ: يَا آلَ بَنِي هَاشِمٍ، قَالُوا: هَذِهِ بَنُو هَاشِمٍ، قَالَ: أَيْنَ أَبُو طَالِبٍ ؟ قَالَ: هَذَا أَبُو طَالِبٍ، قَالَ: أَمَرَنِي فُلَانٌ أَنْ أُبَلِّغَكَ رِسَالَةً أَنَّ فُلَانًا قَتَلَهُ فِي عِقَالٍ فَأَتَاهُ أَبُو طَالِبٍ، فَقَالَ: اخْتَرْ مِنَّا إِحْدَى ثَلَاثٍ إِنْ شِئْتَ أَنْ تُؤَدِّيَ مِائَةً مِنَ الْإِبِلِ، فَإِنَّكَ قَتَلْتَ صَاحِبَنَا خَطَأً، وَإِنْ شِئْتَ يَحْلِفْ خَمْسُونَ مِنْ قَوْمِكَ أَنَّكَ لَمْ تَقْتُلْهُ، فَإِنْ أَبَيْتَ قَتَلْنَاكَ بِهِ، فَأَتَى قَوْمَهُ فَذَكَرَ ذَلِكَ لَهُمْ، فَقَالُوا: نَحْلِفُ، فَأَتَتْهُ امْرَأَةٌ مِنْ بَنِي هَاشِمٍ كَانَتْ تَحْتَ رَجُلٍ مِنْهُمْ قَدْ وَلَدَتْ لَهُ، فَقَالَتْ: يَا أَبَا طَالِبٍ أُحِبُّ أَنْ تُجِيزَ ابْنِي هَذَا بِرَجُلٍ مِنَ الْخَمْسِينَ، وَلَا تُصْبِرْ يَمِينَهُ فَفَعَلَ فَأَتَاهُ رَجُلٌ مِنْهُمْ، فَقَالَ: يَا أَبَا طَالِبٍ أَرَدْتَ خَمْسِينَ رَجُلًا أَنْ يَحْلِفُوا مَكَانَ مِائَةٍ مِنَ الْإِبِلِ يُصِيبُ كُلَّ رَجُلٍ بَعِيرَانِ فَهَذَانِ بَعِيرَانِ فَاقْبَلْهُمَا عَنِّي، وَلَا تُصْبِرْ يَمِينِي حَيْثُ تُصْبَرُ الْأَيْمَانُ فَقَبِلَهُمَا وَجَاءَ ثَمَانِيَةٌ وَأَرْبَعُونَ رَجُلًا حَلَفُوا، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مَا حَالَ الْحَوْلُ وَمِنَ الثَّمَانِيَةِ وَالْأَرْبَعِينَ عَيْنٌ تَطْرِفُ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৪৭১১
قسامت کے متعلق
قسا مت سے متعلق احادیث
 ایک انصاری صحابی رسول (رض) سے روایت ہے کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے قسامہ کو اسی حالت پر باقی رکھا جس پر وہ جاہلیت میں تھا۔    تخریج دارالدعوہ :  صحیح مسلم/القسامة ١ (الحدود ١) (١٦٧٠) ، (تحفة الأشراف : ١٥٥٨٧، ١٨٧٤٧) ، مسند احمد (٤/٦٢، و ٥/٣٧٥، ٤٣٢، ویأتي عند المؤلف بأرقام : ٤٧١٢، ٤٧١٣) (صحیح  )    قال الشيخ الألباني :  صحيح الإسناد    صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4707  
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ السَّرْحِ، وَيُونُسُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، قَالَ: أَنْبَأَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ أَحْمَدُ بْنُ عَمْرٍو، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ، وَسُلَيْمَانُ بْنُ يَسَارٍ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ الْأَنْصَارِ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَقَرَّ الْقَسَامَةَ عَلَى مَا كَانَتْ عَلَيْهِ فِي الْجَاهِلِيَّةِ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৪৭১২
قسامت کے متعلق
قسا مت سے متعلق احادیث
 کچھ صحابہ سے روایت ہے کہ  قسامہ جاہلیت میں جاری تھا تو رسول اللہ  ﷺ  نے اسے اسی حالت پر باقی رکھا جس پر وہ جاہلیت میں تھا، اور انصار کے کچھ لوگوں کے درمیان ایک مقتول کے سلسلے میں اسی کا فیصلہ کیا جس کے بارے میں ان کا دعویٰ تھا کہ اس کا خون خیبر کے یہودیوں پر ہے۔   (ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں :)   معمر نے ان دونوں   (یونس اور اوزاعی)   کے برخلاف یہ حدیث   (مرسلاً )   روایت کی ہے۔    تخریج دارالدعوہ :  انظر ما قبلہ (صحیح  )    قال الشيخ الألباني :  صحيح الإسناد    صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4708  
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ هَاشِمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، وَسُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أُنَاسٍ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَنَّ الْقَسَامَةَ كَانَتْ فِي الْجَاهِلِيَّةِ، فَأَقَرَّهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى مَا كَانَتْ عَلَيْهِ فِي الْجَاهِلِيَّةِ، وَقَضَى بِهَا بَيْنَ أُنَاسٍ مِنْ الْأَنْصَارِ فِي قَتِيلٍ ادَّعَوْهُ عَلَى يَهُودِ خَيْبَرَ. خَالَفَهُمَا مَعْمَرٌ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৪৭১৩
قسامت کے متعلق
قسا مت سے متعلق احادیث
 سعید بن مسیب کہتے ہیں کہ  قسامہ جاہلیت میں رائج تھا، پھر اسے رسول اللہ  ﷺ  نے اس انصاری کے سلسلے میں باقی رکھا جو یہودیوں کے کنویں میں مرا ہوا پایا گیا تو انصار نے کہا : ہمارے آدمیوں کا قتل یہودیوں نے کیا ہے۔    تخریج دارالدعوہ :  انظر حدیث رقم : ٤٧١١ (صحیح) (یہ روایت مرسل ہے، لیکن پچھلی سند سے تقویت پاکر مرفوع متصل ہے  )    قال الشيخ الألباني :  صحيح لغيره    صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4709  
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، قَالَ: أَنْبَأَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ ابْنِ الْمُسَيَّبِ، قَالَ: كَانَتِ الْقَسَامَةُ فِي الْجَاهِلِيَّةِ، ثُمَّ أَقَرَّهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْأَنْصَارِيِّ الَّذِي وُجِدَ مَقْتُولًا فِي جُبِّ الْيَهُودِ، فَقَالَتْ الْأَنْصَارُ: الْيَهُودُ قَتَلُوا صَاحِبَنَا.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৪৭১৪
قسامت کے متعلق
قسامت میں پہلے مقتول کے ورثاء کو قسم دی جائے گی
 سہل بن ابی حثمہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ  عبداللہ بن سہل اور محیصہ (رض)   (رزق کی)   تنگی کی وجہ سے خیبر کی طرف نکلے تو محیصہ کے پاس کسی نے آ کر بتایا کہ عبداللہ بن سہل کا قتل ہوگیا ہے، اور انہیں ایک کنویں میں یا چشمے میں ڈال دیا گیا ہے، یہ سن کر وہ   (محیصہ)   یہودیوں کے پاس گئے اور کہا : اللہ کی قسم ! تم ہی نے انہیں قتل کیا ہے۔ وہ بولے : اللہ کی قسم ! انہیں ہم نے قتل نہیں کیا۔ پھر وہ رسول اللہ  ﷺ  کے پاس آئے اور آپ سے اس کا ذکر کیا، پھر وہ، حویصہ   (ان کے بڑے بھائی)   اور عبدالرحمٰن بن سہل (رض) ساتھ آئے تو محیصہ (رض) نے گفتگو کرنا چاہی   (وہی خیبر میں ان کے ساتھ تھے)   تو رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا :  بڑے کا لحاظ کرو، بڑے کا لحاظ کرو ، اور حویصہ (رض) نے گفتگو کی پھر محیصہ (رض) نے کی، رسول اللہ  ﷺ  نے   (اس سلسلے میں)   فرمایا :  یا تو وہ تمہارے ساتھی کی دیت ادا کریں یا، پھر ان سے جنگ کے لیے کہہ دیا جائے ، اور یہ بات رسول اللہ  ﷺ  نے انہیں لکھ بھیجی، تو انہوں نے لکھا : اللہ کی قسم ! ہم نے انہیں قتل نہیں کیا، رسول اللہ  ﷺ  نے حویصہ، محیصہ اور عبدالرحمٰن   (رضی اللہ عنہم)   سے فرمایا :  تمہیں قسم کھانا ہوگی   ٢ ؎  اور پھر تمہیں اپنے آدمی کے خون کا حق ہوگا ، وہ بولے : نہیں، آپ نے فرمایا :  تو پھر یہودی قسم کھائیں گے ، وہ بولے : وہ تو مسلمان نہیں ہیں، تو رسول اللہ  ﷺ  نے اپنے پاس   (یعنی بیت المال)   سے ان کی دیت ادا کی اور ان کے پاس سو اونٹ بھیجے یہاں تک کہ وہ ان کے گھر میں داخل ہوگئے، سہل (رض) نے کہا : ان میں سے ایک سرخ اونٹنی نے مجھے لات ماری تھی۔    تخریج دارالدعوہ :  صحیح البخاری/الصلح ٧ (٢٧٠٢) ، الجزیة ١٢ (٣١٧٣) ، الأدب ٨٩ (٦١٤٣) ، الدیات ٢٢ (٦٨٩٨) ، الأحکام ٣٨ (٧١٩٢) ، صحیح مسلم/القسامة ١ (الحدود ١) (١٦٦٩) ، سنن ابی داود/الدیات ٨ (٢٥٢٠، ٢٥٢١) ، ٩ (٢٥٢٣) ، سنن الترمذی/الدیات ٢٣ (١٤٤٢) ، سنن ابن ماجہ/الدیات ٢٨(٢٦٧٧) ، (تحفة الأشراف : ٤٦٤٤) ، مسند احمد (٤/٢، ٣) ، سنن الدارمی/الدیات ٢ (٢٣٩٨) ، انظرالأرقام التالیة ٤٧١٥-٤٧٢٣ (صحیح  )    وضاحت : ١ ؎: یعنی : قسامہ میں پہلے مقتول کے ورثاء سے کہا جائے گا کہ تم لوگ قسم کھالو تو تم کو قتل کی دیت دے دی جائے گی، اور جب ورثاء قسم سے انکار کردیں گے تب مدعا علیہم سے قسم کھانے کو کہا جائے گا اب اگر وہ بھی قسم کھا لیں گے تو دیت بیت المال سے دلائی جائے گی جیسا کہ آپ ﷺ نے اس معاملہ میں کیا تھا۔  ٢ ؎: اسی جملہ کی باب سے مناسبت ہے۔    قال الشيخ الألباني :  صحيح    صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4710  
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ السَّرْحِ، قَالَ: أَنْبَأَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ أَبِي لَيْلَى بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْأَنْصَارِيِّ، أَنَّ سَهْلَ بْنَ أَبِي حَثْمَةَ أَخْبَرَهُ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ سَهْلٍ، وَمُحَيِّصَةَ خَرَجَا إِلَى خَيْبَرَ مِنْ جَهْدٍ أَصَابَهُمَا، فَأُتِيَ مُحَيِّصَةُ، فَأُخْبِرَ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ سَهْلٍ قَدْ قُتِلَ وَطُرِحَ فِي فَقِيرٍ أَوْ عَيْنٍ فَأَتَى يَهُودَ، فَقَالَ: أَنْتُمْ وَاللَّهِ قَتَلْتُمُوهُ، فَقَالُوا: وَاللَّهِ مَا قَتَلْنَاهُ، ثُمَّ أَقْبَلَ حَتَّى قَدِمَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَ ذَلِكَ لَهُ، ثُمَّ أَقْبَلَ هُوَ وَحُوَيِّصَةُ وَهُوَ أَخُوهُ أَكْبَرُ مِنْهُ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سَهْلٍ فَذَهَبَ مُحَيِّصَةُ لِيَتَكَلَّمَ وَهُوَ الَّذِي كَانَ بِخَيْبَرَ، فَقَالَ: رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: كَبِّرْ كَبِّرْ، وَتَكَلَّمَ حُوَيِّصَةُ، ثُمَّ تَكَلَّمَ مُحَيِّصَةُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِمَّا أَنْ يَدُوا صَاحِبَكُمْ، وَإِمَّا أَنْ يُؤْذَنُوا بِحَرْبٍ، فَكَتَبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي ذَلِكَ، فَكَتَبُوا: إِنَّا وَاللَّهِ مَا قَتَلْنَاهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِحُوَيِّصَةَ، وَمُحَيِّصَةَ، وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ: تَحْلِفُونَ وَتَسْتَحِقُّونَ دَمَ صَاحِبِكُمْ ؟، قَالُوا: لَا، قَالَ: فَتَحْلِفُ لَكُمْ يَهُودُ، قَالُوا: لَيْسُوا مُسْلِمِينَ، فَوَدَاهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ عِنْدِهِ فَبَعَثَ إِلَيْهِمْ بِمِائَةِ نَاقَةٍ حَتَّى أُدْخِلَتْ عَلَيْهِمُ الدَّارَ، قَالَ سَهْلٌ: لَقَدْ رَكَضَتْنِي مِنْهَا نَاقَةٌ حَمْرَاءُ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৪৭১৫
قسامت کے متعلق
قسامت میں پہلے مقتول کے ورثاء کو قسم دی جائے گی
 سہل بن ابی حثمہ (رض) کہتے ہیں کہ  ان سے ان کے قبیلہ کے کچھ بڑوں نے بیان کیا کہ عبداللہ بن سہل اور محیصہ (رض) تنگ حالی کی وجہ سے خیبر کی طرف نکلے، محیصہ (رض) کے پاس کسی نے آ کر بتایا کہ عبداللہ بن سہل (رض) مارے گئے، انہیں ایک کنویں یا چشمے میں پھینک دیا گیا ہے۔ محیصہ یہودیوں کے پاس آئے اور کہا : اللہ کی قسم ! تم لوگوں نے اسے قتل کیا ہے، انہوں نے کہا : اللہ کی قسم ! ہم نے انہیں قتل نہیں کیا، پھر وہ اپنے قبیلے کے پاس آئے اور ان سے اس کا تذکرہ کیا۔ پھر وہ، ان کے بھائی حویصہ   (حویصہ ان سے بڑے تھے)   اور عبدالرحمٰن بن سہل چلے۔   (اور رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے)   تو محیصہ نے بات کرنی چاہی   (وہی خیبر میں گئے)   تھے تو رسول اللہ  ﷺ  نے محیصہ سے فرمایا :  بڑے کا لحاظ کرو، بڑے کا لحاظ کرو ۔ آپ کی مراد عمر میں بڑے ہونے سے تھی، چناچہ حویصہ نے گفتگو کی پھر محیصہ نے، تو رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا :  یا تو وہ تمہارے آدمی کی دیت دیں یا پھر ان سے جنگ کے لیے کہہ دیا جائے ، رسول اللہ  ﷺ  نے انہیں اس بارے میں لکھ بھیجا تو ان لوگوں نے لکھا : اللہ کی قسم ! ہم نے انہیں قتل نہیں کیا۔ رسول اللہ  ﷺ  نے حویصہ، محیصہ اور عبدالرحمٰن   (رضی اللہ عنہم  )   سے کہا :  کیا تم قسم کھاؤ گے اور اپنے آدمی کے خون کے حقدار بنو گے ؟   وہ بولے : نہیں، آپ نے فرمایا :  تو پھر یہودی قسم کھائیں گے ۔ وہ بولے : وہ تو مسلمان نہیں ہیں۔ تو رسول اللہ  ﷺ  نے اپنے پاس سے ان کی دیت ادا کی اور سو اونٹنیاں ان کے پاس بھیجیں یہاں تک کہ وہ ان کے گھروں میں داخل ہوگئیں۔ سہل کہتے ہیں : ان میں سے ایک سرخ اونٹنی نے مجھے لات مار دی۔    تخریج دارالدعوہ :  انظر ما قبلہ (صحیح  )    قال الشيخ الألباني :  صحيح    صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4711  
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا ابْنُ الْقَاسِمِ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ أَبِي لَيْلَى بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَهْلٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ أَبِي حَثْمَةَ أَنَّهُ أَخْبَرَهُ، وَرِجَالٌ كُبَرَاءُ مِنْ قَوْمِهِ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ سَهْلٍ، وَمُحَيِّصَةَ خَرَجَا إِلَى خَيْبَرَ مِنْ جَهْدٍ أَصَابَهُمْ، فَأَتَى مُحَيِّصَةُ فَأَخْبَرَ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ سَهْلٍ قَدْ قُتِلَ وَطُرِحَ فِي فَقِيرٍ أَوْ عَيْنٍ فَأَتَى يَهُودَ، وَقَالَ: أَنْتُمْ وَاللَّهِ قَتَلْتُمُوهُ، قَالُوا: وَاللَّهِ مَا قَتَلْنَاهُ فَأَقْبَلَ حَتَّى قَدِمَ عَلَى قَوْمِهِ فَذَكَرَ لَهُمْ، ثُمَّ أَقْبَلَ هُوَ وَأَخُوهُ حُوَيِّصَةُ، وَهُوَ أَكْبَرُ مِنْهُ وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سَهْلٍ فَذَهَبَ مُحَيِّصَةُ لِيَتَكَلَّمَ، وَهُوَ الَّذِي كَانَ بِخَيْبَرَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِمُحَيِّصَةَ: كَبِّرْ كَبِّرْ، يُرِيدُ السِّنَّ، فَتَكَلَّمَ حُوَيِّصَةُ، ثُمَّ تَكَلَّمَ مُحَيِّصَةُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِمَّا أَنْ يَدُوا صَاحِبَكُمْ وَإِمَّا أَنْ يُؤْذَنُوا بِحَرْبٍ فَكَتَبَ إِلَيْهِمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي ذَلِكَ، فَكَتَبُوا: إِنَّا، وَاللَّهِ مَا قَتَلْنَاهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِحُوَيِّصَةَ، وَمُحَيِّصَةَ، وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ: أَتَحْلِفُونَ وَتَسْتَحِقُّونَ دَمَ صَاحِبِكُمْ ؟، قَالُوا: لَا، قَالَ: فَتَحْلِفُ لَكُمْ يَهُودُ، قَالُوا: لَيْسُوا بِمُسْلِمِينَ، فَوَدَاهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ عِنْدِهِ، فَبَعَثَ إِلَيْهِمْ بِمِائَةِ نَاقَةٍ حَتَّى أُدْخِلَتْ عَلَيْهِمُ الدَّارَ، قَالَ سَهْلٌ: لَقَدْ رَكَضَتْنِي مِنْهَا نَاقَةٌ حَمْرَاءُ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৪৭১৬
قسامت کے متعلق
راویوں کے اس حدیث سے متعلق اختلاف
 سہل بن ابی حثمہ (رض) اور رافع بن خدیج (رض) کہتے ہیں کہ  عبداللہ بن سہل بن زید اور محیصہ بن مسعود (رض) نکلے، جب خیبر پہنچے تو کسی مقام پر وہ الگ الگ ہوگئے، پھر اچانک محیصہ کو عبداللہ بن سہل مقتول ملے، انہوں نے عبداللہ کو دفن کیا، پھر وہ، حویصہ بن مسعود اور عبدالرحمٰن بن سہل رسول اللہ  ﷺ  کے پاس آئے، عبدالرحمٰن ان میں سب سے چھوٹے تھے، پھر اپنے دونوں ساتھیوں سے پہلے عبدالرحمٰن بولنے لگے، تو رسول اللہ  ﷺ  نے ان سے فرمایا :  عمر میں جو بڑا ہے اس کا لحاظ کرو   تو وہ خاموش ہوگئے اور ان کے دونوں ساتھی گفتگو کرنے لگے، پھر عبدالرحمٰن نے بھی ان کے ساتھ گفتگو کی، چناچہ ان لوگوں نے رسول اللہ  ﷺ  سے عبداللہ بن سہل کے قتل کا تذکرہ کیا، تو آپ نے ان سے فرمایا :  کیا تم پچاس قسمیں کھاؤ گے، پھر اپنے ساتھی کے خون کے حقدار بنو گے   (یا کہا : اپنے قاتل کے)   انہوں نے کہا : ہم کیوں کر قسم کھائیں گے جب کہ ہم وہاں موجود نہیں تھے، آپ نے فرمایا :  تو پھر یہودی پچاس قسمیں کھا کر تمہارا شک دور کریں گے ، انہوں نے کہا : ان کی قسمیں ہم کیوں کر قبول کرسکتے ہیں وہ تو کافر لوگ ہیں، جب یہ چیز رسول اللہ  ﷺ  نے دیکھی تو آپ نے ان کی دیت خود سے انہیں دے دی۔    تخریج دارالدعوہ :  انظر حدیث رقم : ٤٧١٤ (صحیح  )    قال الشيخ الألباني :  صحيح    صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4712  
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ يَحْيَى، عَنْ بُشَيْرِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ أَبِي حَثْمَةَ، قَالَ: وَحَسِبْتُ، قَالَ: وَعَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ أَنَّهُمَا، قَالَا: خَرَجَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَهْلِ بْنِ زَيْدٍ، وَمُحَيِّصَةُ بْنُ مَسْعُودٍ حَتَّى إِذَا كَانَا بِخَيْبَرَ تَفَرَّقَا فِي بَعْضِ مَا هُنَالِكَ، ثُمَّ إِذَا بِمُحَيِّصَةَ يَجِدُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ سَهْلٍ قَتِيلًا فَدَفَنَهُ، ثُمَّ أَقْبَلَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هُوَ، وَحُوَيِّصَةُ بْنُ مَسْعُودٍ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سَهْلٍ وَكَانَ أَصْغَرَ الْقَوْمِ، فَذَهَبَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ يَتَكَلَّمُ قَبْلَ صَاحِبَيْهِ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: كَبِّرِ الْكُبْرَ فِي السِّنِّ، فَصَمَتَ وَتَكَلَّمَ صَاحِبَاهُ، ثُمَّ تَكَلَّمَ مَعَهُمَا فَذَكَرُوا لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَقْتَلَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَهْلٍ، فَقَالَ لَهُمْ: أَتَحْلِفُونَ خَمْسِينَ يَمِينًا، وَتَسْتَحِقُّونَ صَاحِبَكُمْ، أَوْ قَاتِلَكُمْ ؟، قَالُوا: كَيْفَ نَحْلِفُ وَلَمْ نَشْهَدْ ؟ قَالَ: فَتُبَرِّئُكُمْ يَهُودُ بِخَمْسِينَ يَمِينًا، قَالُوا: وَكَيْفَ نَقْبَلُ أَيْمَانَ قَوْمٍ كُفَّارٍ ؟ فَلَمَّا رَأَى ذَلِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْطَاهُ عَقْلَهُ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৪৭১৭
قسامت کے متعلق
راویوں کے اس حدیث سے متعلق اختلاف
 سہل بن ابی حثمہ اور رافع بن خدیج (رض) کہتے ہیں کہ  محیصہ بن مسعود اور عبداللہ بن سہل (رض) اپنی کسی ضرورت کے پیش نظر خیبر آئے، پھر وہ باغ میں الگ الگ ہوگئے، عبداللہ بن سہل کا قتل ہوگیا، تو ان کے بھائی عبدالرحمٰن بن سہل اور چچا زاد بھائی حویصہ اور محیصہ   (رضی اللہ عنہم)   رسول اللہ  ﷺ  کے پاس آئے، عبدالرحمٰن نے اپنے بھائی کے معاملے میں گفتگو کی حالانکہ وہ ان میں سب سے چھوٹے تھے، تو رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا :  بڑوں کا لحاظ کرو، سب سے بڑا پہلے بات شروع کرے ، چناچہ ان دونوں نے اپنے آدمی کے بارے میں بات کی تو رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا، آپ نے ایک ایسی بات کہی جس کا مفہوم یوں تھا :  تم میں سے پچاس لوگ قسم کھائیں گے ، انہوں نے کہا : اللہ کے رسول ! ایک ایسا معاملہ جہاں ہم موجود نہ تھے، اس کے بارے میں کیوں کر قسم کھائیں ؟ آپ نے فرمایا :  تو پھر یہودی اپنے پچاس لوگوں کو قسم کھلا کر تمہارے شک کو دور کریں گے ، وہ بولے : اللہ کے رسول ! وہ تو کافر لوگ ہیں، تو رسول اللہ  ﷺ  نے اپنی طرف سے ان کی دیت ادا کی۔ سہل (رض) کہتے ہیں : جب میں ان کے  مربد  (باڑھ)   میں داخل ہوا تو ان اونٹوں میں سے ایک اونٹنی نے مجھے لات مار دی۔    تخریج دارالدعوہ :  انظر حدیث رقم : ٤٧١٤ (صحیح  )    قال الشيخ الألباني :  صحيح    صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4713  
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا حَمَّادٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ بُشَيْرِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ أَبِي حَثْمَةَ، وَرَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، أَنَّهُمَا حَدَّثَاهُ: أَنَّ مُحَيِّصَةَ بْنَ مَسْعُودٍ، وَعَبْدَ اللَّهِ بْنَ سَهْلٍ، أَتَيَا خَيْبَرَ فِي حَاجَةٍ لَهُمَا، فَتَفَرَّقَا فِي النَّخْلِ فَقُتِلَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَهْلٍ، فَجَاءَ أَخُوهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سَهْلٍ، وَحُوَيِّصَةُ، وَمُحَيِّصَةُ ابْنَا عَمِّهِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَكَلَّمَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ فِي أَمْرِ أَخِيهِ وَهُوَ أَصْغَرُ مِنْهُمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الْكُبْرَ لِيَبْدَأْ الْأَكْبَرُ، فَتَكَلَّمَا فِي أَمْرِ صَاحِبِهِمَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَذَكَرَ كَلِمَةً مَعْنَاهَا: يُقْسِمُ خَمْسُونَ مِنْكُمْ، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَمْرٌ لَمْ نَشْهَدْهُ كَيْفَ نَحْلِفُ ؟ قَالَ: فَتُبَرِّئُكُمْ يَهُودُ بِأَيْمَانِ خَمْسِينَ مِنْهُمْ، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَوْمٌ كُفَّارٌ، فَوَدَاهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ قِبَلِهِ، قَالَ سَهْلٌ: فَدَخَلْتُ مِرْبَدًا لَهُمْ، فَرَكَضَتْنِي نَاقَةٌ مِنْ تِلْكَ الْإِبِلِ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৪৭১৮
قسامت کے متعلق
راویوں کے اس حدیث سے متعلق اختلاف
 سہل بن ابی حثمہ (رض) سے روایت ہے کہ  عبداللہ بن سہل، محیصہ بن مسعود بن زید خیبر (رض) گئے، ان دنوں صلح چل رہی تھی، وہ اپنی ضرورتوں کے لیے الگ الگ ہوگئے، پھر محیصہ (رض) عبداللہ بن سہل (رض) کے پاس آئے   (دیکھا کہ)   وہ مقتول ہو کر اپنے خون میں لوٹ رہے تھے، تو انہیں دفن کیا اور مدینے آئے، پھر عبدالرحمٰن بن سہل، حویصہ اور محیصہ رسول اللہ  ﷺ  کے پاس آئے، تو عبدالرحمٰن نے بات کی وہ عمر میں سب سے چھوٹے تھے، تو رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا :  بڑے کا لحاظ کرو ، چناچہ وہ خاموش ہوگئے، پھر ان دونوں نے بات کی تو رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا :  کیا تم اپنے پچاس آدمیوں کو قسم کھلاؤ گے تاکہ اپنے آدمی   (کے خون بہا)   یا اپنے قاتل   (خون)   کے حقدار بنو ؟   انہوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! ہم کیوں کر قسم کھائیں گے حالانکہ نہ ہم وہاں موجود تھے اور نہ ہی ہم نے دیکھا۔ آپ نے فرمایا :  یہودی پچاس قسمیں کھا کر تمہارا شک دور کریں گے ، وہ بولے : اللہ کے رسول ! ہم کافروں کی قسم کا اعتبار کیوں کر کریں گے، تو رسول اللہ  ﷺ  نے اپنے پاس سے ان کی دیت ادا کی۔    تخریج دارالدعوہ :  انظر حدیث رقم : ٤٧١٤ (صحیح  )    قال الشيخ الألباني :  صحيح    صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4714  
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا بِشْرٌ وَهُوَ ابْنُ الْمُفَضَّلِ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ بُشَيْرِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْسَهْلِ بْنِ أَبِي حَثْمَةَ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ سَهْلٍ، وَمُحَيِّصَةَ بْنَ مَسْعُودِ بْنِ زَيْدٍ أَنَّهُمَا أَتَيَا خَيْبَرَ، وَهُوَ يَوْمَئِذٍ صُلْحٌ فَتَفَرَّقَا لِحَوَائِجِهِمَا، فَأَتَى مُحَيِّصَةُ عَلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَهْلٍ وَهُوَ يَتَشَحَّطُ فِي دَمِهِ قَتِيلًا فَدَفَنَهُ، ثُمَّ قَدِمَ الْمَدِينَةَ فَانْطَلَقَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سَهْلٍ، وَحُوَيِّصَةُ، وَمُحَيِّصَةُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَهَبَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ يَتَكَلَّمُ وَهُوَ أَحْدَثُ الْقَوْمِ سِنًّا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: كَبِّرِ الْكُبْرَ، فَسَكَتَ فَتَكَلَّمَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَتَحْلِفُونَ بِخَمْسِينَ يَمِينًا مِنْكُمْ فَتَسْتَحِقُّونَ دَمَ صَاحِبِكُمْ أَوْ قَاتِلِكُمْ ؟، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَيْفَ نَحْلِفُ وَلَمْ نَشْهَدْ وَلَمْ نَرَ ؟ قَالَ: تُبَرِّئُكُمْ يَهُودُ بِخَمْسِينَ يَمِينًا، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَيْفَ نَأْخُذُ أَيْمَانَ قَوْمٍ كُفَّارٍ ؟ فَعَقَلَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ عِنْدِهِ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৪৭১৯
قسامت کے متعلق
راویوں کے اس حدیث سے متعلق اختلاف
 سہل بن ابی حثمہ (رض) کہتے ہیں کہ  عبداللہ بن سہل اور محیصہ بن مسعود بن زید (رض) خیبر کی طرف چلے، اس وقت صلح چل رہی تھی، محیصہ اپنے کام کے لیے جدا ہوگئے، پھر وہ عبداللہ بن سہل (رض) کے پاس آئے تو دیکھا کہ ان کا قتل ہوگیا ہے اور وہ مقتول ہو کر اپنے خون میں لوٹ پوٹ رہے تھے، انہیں دفن کیا اور مدینے آئے، عبدالرحمٰن بن سہل اور مسعود کے بیٹے حویصہ اور محیصہ   (رضی اللہ عنہم)   رسول اللہ  ﷺ  کے پاس گئے، عبدالرحمٰن بن سہل (رض) بات کرنے لگے تو رسول اللہ  ﷺ  نے ان سے فرمایا :  بڑوں کا لحاظ کرو ، وہ لوگوں میں سب سے چھوٹے تھے، تو وہ چپ ہوگئے، پھر انہوں  (حویصہ اور محیصہ)   نے بات کی، تو رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا :  کیا تم اپنے پچاس آدمیوں کو قسم کھلاؤ گے تاکہ تم اپنے قاتل   (کے خون) ، یا اپنے آدمی کے خون   (بہا)   کے حقدار بنو ، ان لوگوں نے کہا : اللہ کے رسول ! ہم قسم کیوں کر کھائیں گے، نہ تو ہم وہاں موجود تھے اور نہ ہم نے انہیں دیکھا، آپ نے فرمایا :  تو کیا پچاس یہودیوں کی قسموں سے تمہارا شک دور ہوجائے گا ؟   وہ بولے : اللہ کے رسول ! ہم کافروں کی قسم کا اعتبار کیوں کر کریں، تو رسول اللہ  ﷺ  نے اپنے پاس سے ان کی دیت ادا کی۔    تخریج دارالدعوہ :  انظر حدیث رقم : ٤٧١٤ (صحیح  )    قال الشيخ الألباني :  صحيح    صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4715  
أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ مَسْعُودٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ بُشَيْرِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْسَهْلِ بْنِ أَبِي حَثْمَةَ، قَالَ: انْطَلَقَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَهْلٍ، وَمُحَيِّصَةُ بْنُ مَسْعُودِ بْنِ زَيْدٍ إِلَى خَيْبَرَ وَهِيَ يَوْمَئِذٍ صُلْحٌ، فَتَفَرَّقَا فِي حَوَائِجِهِمَا، فَأَتَى مُحَيِّصَةُ عَلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَهْلٍ وَهُوَ يَتَشَحَّطُ فِي دَمِهِ قَتِيلًا، فَدَفَنَهُ، ثُمَّ قَدِمَ الْمَدِينَةَ، فَانْطَلَقَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سَهْلٍ، وَحُوَيِّصَةُ، وَمُحَيِّصَةُ ابْنَا مَسْعُودٍ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَهَبَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ يَتَكَلَّمُ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: كَبِّرِ الْكُبْرَ، وَهُوَ أَحْدَثُ الْقَوْمِ، فَسَكَتَ فَتَكَلَّمَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَتَحْلِفُونَ بِخَمْسِينَ يَمِينًا مِنْكُمْ وَتَسْتَحِقُّونَ قَاتِلَكُمْ أَوْ صَاحِبَكُمْ ؟، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَيْفَ نَحْلِفُ وَلَمْ نَشْهَدْ وَلَمْ نَرَ ؟ فَقَالَ: أَتُبَرِّئُكُمْ يَهُودُ بِخَمْسِينَ، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَيْفَ نَأْخُذُ أَيْمَانَ قَوْمٍ كُفَّارٍ ؟ فَعَقَلَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ عِنْدِهِ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৪৭২০
قسامت کے متعلق
راویوں کے اس حدیث سے متعلق اختلاف
 سہل بن ابی حثمہ (رض) سے روایت ہے کہ  عبداللہ بن سہل انصاری اور محیصہ بن مسعود (رض) خیبر کی طرف نکلے پھر اپنی ضرورتوں کے لیے الگ الگ ہوگئے اور عبداللہ بن سہل انصاری (رض) کا قتل ہوگیا۔ چناچہ محیصہ، مقتول کے بھائی عبدالرحمٰن اور حویصہ بن مسعود رسول اللہ  ﷺ  کے پاس آئے تو عبدالرحمٰن بات کرنے لگے۔ تو نبی اکرم  ﷺ  نے ان سے فرمایا :  بڑوں کا لحاظ کرو، بڑوں کا لحاظ کرو ۔ پھر محیصہ اور حویصہ (رض) نے گفتگو کی اور عبداللہ بن سہل (رض) کا معاملہ بیان کیا تو رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا :  تمہیں پچاس قسمیں کھانی ہوں گی، پھر تم اپنے قاتل کے   (خون کے)   حقدار بنو گے ، وہ بولے : ہم قسم کیوں کر کھائیں، نہ ہم موجود تھے اور نہ ہم نے دیکھا۔ رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا :  تو پھر یہودی پچاس قسمیں کھا کر تمہارے شک کو دور کریں گے ۔ وہ بولے : ہم کافروں کی قسمیں کیسے قبول کریں۔ تو رسول اللہ  ﷺ  نے ان کی دیت ادا کی۔ بشیر کہتے ہیں : مجھ سے سہل بن ابی حثمہ (رض) نے کہا : دیت میں دی گئی ان اونٹنیوں میں سے ایک اونٹنی نے ہمارے  مربد  (باڑھ)   میں مجھے لات ماری۔    تخریج دارالدعوہ :  انظر حدیث رقم : ٤٧١٤ (صحیح  )    قال الشيخ الألباني :  صحيح    صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4716  
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ، قَالَ: سَمِعْتُ يَحْيَى بْنَ سَعِيدٍ، يَقُولُ: أَخْبَرَنِي بُشَيْرُ بْنُ يَسَارٍ، عَنْسَهْلِ بْنِ أَبِي حَثْمَةَ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ سَهْلٍ الْأَنْصَارِيَّ، وَمُحَيِّصَةَ بْنَ مَسْعُودٍ خَرَجَا إِلَى خَيْبَرَ، فَتَفَرَّقَا فِي حَاجَتِهِمَا، فَقُتِلَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَهْلٍ الْأَنْصَارِيُّ، فَجَاءَ مُحَيِّصَةُ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ أَخُو الْمَقْتُولِ، وَحُوَيِّصَةُ بْنُ مَسْعُودٍ حَتَّى أَتَوْا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَهَبَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ يَتَكَلَّمُ، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الْكُبْرَ الْكُبْرَ، فَتَكَلَّمَ مُحَيِّصَةُ، وَحُوَيِّصَةُ، فَذَكَرُوا شَأْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَهْلٍ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: تَحْلِفُونَ خَمْسِينَ يَمِينًا فَتَسْتَحِقُّونَ قَاتِلَكُمْ ؟، قَالُوا: كَيْفَ نَحْلِفُ وَلَمْ نَشْهَدْ وَلَمْ نَحْضُرْ ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَتُبَرِّئُكُمْ يَهُودُ بِخَمْسِينَ يَمِينًا، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَيْفَ نَقْبَلُ أَيْمَانَ قَوْمٍ كُفَّارٍ ؟ قَالَ: فَوَدَاهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ بُشَيْرٌ: قَالَ لِي سَهْلُ بْنُ أَبِي حَثْمَةَ: لَقَدْ رَكَضَتْنِي فَرِيضَةٌ مِنْ تِلْكَ الْفَرَائِضِ فِي مِرْبَدٍ لَنَا.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৪৭২১
قسامت کے متعلق
راویوں کے اس حدیث سے متعلق اختلاف
 سہل بن ابی حثمہ (رض) کہتے ہیں کہ  عبداللہ بن سہل (رض) مقتول پائے گئے، تو ان کے بھائی اور ان کے چچا حویصہ اور محیصہ رضی اللہ عنہم رسول اللہ  ﷺ  کے پاس آئے، عبدالرحمٰن (رض) بات کرنے لگے، تو رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا :  بڑوں کا لحاظ کرو، بڑوں کا لحاظ کرو ، ان دونوں نے کہا : اللہ کے رسول ! ہم نے خیبر کے ایک کنویں میں عبداللہ بن سہل کو مقتول پایا ہے، آپ نے فرمایا :  تمہارا شک کس پر ہے ؟   انہوں نے کہا : ہمارا شک یہودیوں پر ہے، آپ نے فرمایا :  کیا تم پچاس قسمیں کھاؤ گے کہ یہودیوں نے ہی انہیں قتل کیا ہے ؟ ، انہوں نے کہا : جسے ہم نے دیکھا نہیں، اس پر قسم کیسے کھائیں ؟ آپ نے فرمایا :  تو پھر یہودیوں کی پچاس قسمیں کہ انہوں نے عبداللہ بن سہل کو قتل نہیں کیا ہے، تمہارے شک کو دور کریں گی ؟   وہ بولے : ہم ان کی قسموں پر کیسے رضامند ہوں جبکہ وہ مشرک ہیں، تو رسول اللہ  ﷺ  نے اپنے پاس سے ان کی دیت ادا کی۔ مالک بن انس نے اسے مرسلاً روایت کیا ہے   (یعنی سہل بن ابی حثمہ کا ذکر نہیں کیا ہے) ۔    تخریج دارالدعوہ :  انظر حدیث رقم : ٤٧١٤ (صحیح  )    قال الشيخ الألباني :  صحيح    صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4717  
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ بُشَيْرِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ أَبِي حَثْمَةَ، قَالَ: وُجِدَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَهْلٍ قَتِيلًا، فَجَاءَ أَخُوهُ وَعَمَّاهُ حُوَيِّصَةُ، وَمُحَيِّصَةُ وَهُمَا عَمَّا عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَهْلٍ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَهَبَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ يَتَكَلَّمُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الْكُبْرَ الْكُبْرَ، قَالَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّا وَجَدْنَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ سَهْلٍ قَتِيلًا فِي قَلِيبٍ مِنْ بَعْضِ قُلُبِ خَيْبَرَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ تَتَّهِمُونَ ؟، قَالُوا: نَتَّهِمُ الْيَهُودَ، قَالَ: أَفَتُقْسِمُونَ خَمْسِينَ يَمِينًا أَنَّ الْيَهُودَ قَتَلَتْهُ ؟، قَالُوا: وَكَيْفَ نُقْسِمُ عَلَى مَا لَمْ نَرَ ؟ قَالَ: فَتُبَرِّئُكُمْ الْيَهُودُ بِخَمْسِينَ أَنَّهُمْ لَمْ يَقْتُلُوهُ، قَالُوا: وَكَيْفَ نَرْضَى بِأَيْمَانِهِمْ وَهُمْ مُشْرِكُونَ ؟ فَوَدَاهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ عِنْدِهِ. أَرْسَلَهُ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৪৭২২
قسامت کے متعلق
راویوں کے اس حدیث سے متعلق اختلاف
 بشیر بن یسار بیان کرتے ہیں کہ  عبداللہ بن سہل انصاری اور محیصہ بن مسعود (رض) خیبر کی طرف نکلے، پھر وہ اپنی ضرورتوں کے لیے الگ الگ ہوگئے اور عبداللہ بن سہل (رض) کا قتل ہوگیا، محیصہ (رض) آئے تو وہ اور ان کے بھائی حویصہ اور عبدالرحمٰن بن سہل رسول اللہ  ﷺ  کے پاس گئے، عبدالرحمٰن (رض) مقتول کے بھائی ہونے کی وجہ سے بات کرنے لگے، تو رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا :  بڑوں کا لحاظ کرو، بڑوں کا لحاظ کرو ، چناچہ حویصہ اور محیصہ (رض) نے بات کی اور عبداللہ بن سہل کا واقعہ بیان کیا تو رسول اللہ  ﷺ  نے ان سے فرمایا :  کیا تم پچاس قسمیں کھاؤ گے کہ اپنے آدمی یا اپنے قاتل کے خون کے حقدار بنو ؟ ۔ مالک کہتے ہیں : یحییٰ نے کہا : بشیر نے یہ بھی بتایا کہ رسول اللہ  ﷺ  نے اپنے پاس سے ان کی دیت ادا کی۔ سعید بن طائی نے ان راویوں کے برعکس بیان کیا ہے   ١ ؎۔    تخریج دارالدعوہ :  انظر حدیث رقم : ٤٧١٤ (صحیح  )    وضاحت : ١ ؎: سعید بن طائی کی روایت میں مقتول کے اولیاء سے قسم کھانے کے بجائے گواہ پیش کرنے، پھر مدعی علیہم سے قسم کھلانے کا ذکر ہے۔ امام بخاری نے اسی روایت کو ترجیح دی ہے، (دیات  ٢٢  )  بقول امام ابن حجر : بعض رواۃ نے گواہی کا تذکرہ نہیں کیا ہے اور بعض نے کیا ہے، بس اتنی سی بات ہے، حقیقت میں نبی اکرم ﷺ نے پہلے گواہی طلب کی اور گواہی نہ ہونے پر قسم کی بات کہی، اور جب مدعی یہ بھی نہیں پیش کرسکے تو مدعا علیہم سے قسم کی بات کی، اس بات کی تائید عبداللہ بن عمرو (رض) کی اگلی روایت سے بھی ہو رہی ہے۔    قال الشيخ الألباني :  صحيح لغيره    صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4718  
قَالَ الْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ، قِرَاءَةً عَلَيْهِ وَأَنَا أَسْمَعُ: عَنْ ابْنِ الْقَاسِمِ، حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ بُشَيْرِ بْنِ يَسَارٍ أَنَّهُ أَخْبَرَهُ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ سَهْلٍ الْأَنْصَارِيَّ، وَمُحَيِّصَةَ بْنَ مَسْعُودٍ خَرَجَا إِلَى خَيْبَرَ، فَتَفَرَّقَا فِي حَوَائِجِهِمَا، فَقُتِلَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَهْلٍ، فَقَدِمَ مُحَيِّصَةُ، فَأَتَى هُوَ وَأَخُوهُ حُوَيِّصَةُ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سَهْلٍ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَهَبَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ لِيَتَكَلَّمَ لِمَكَانِهِ مِنْ أَخِيهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: كَبِّرْ كَبِّرْ، فَتَكَلَّمَ حُوَيِّصَةُ، وَمُحَيِّصَةُ، فَذَكَرُوا شَأْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَهْلٍ، فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَتَحْلِفُونَ خَمْسِينَ يَمِينًا وَتَسْتَحِقُّونَ دَمَ صَاحِبِكُمْ أَوْ قَاتِلِكُمْ ؟، قَالَ مَالِكٌ: قَالَ يَحْيَى: فَزَعَمَ بُشَيْرٌ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَدَاهُ مِنْ عِنْدِهِ، خَالَفَهُمْ سَعِيدُ بْنُ عُبَيْدٍ الطَّائِيُّ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৪৭২৩
قسامت کے متعلق
راویوں کے اس حدیث سے متعلق اختلاف
 بشیر بن یسار سے روایت ہے کہ  سہل بن ابی حثمہ نامی ایک انصاری شخص نے ان سے بیان کیا کہ ان کے قبیلہ کے کچھ لوگ خیبر کی طرف چلے، پھر وہ الگ الگ ہوگئے، تو انہیں اپنا ایک آدمی مرا ہوا ملا، انہوں نے ان لوگوں سے جن کے پاس مقتول کو پایا، کہا : ہمارے آدمی کو تم نے قتل کیا ہے، انہوں نے کہا : نہ تو ہم نے قتل کیا ہے اور نہ ہمیں قاتل کا پتا ہے، تو وہ لوگ نبی اکرم  ﷺ  کے پاس گئے اور عرض کیا : اللہ کے نبی ! ہم خیبر گئے تھے، وہاں ہم نے اپنا ایک آدمی مقتول پایا، رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا :  بڑوں کا لحاظ کرو، بڑوں کا لحاظ کرو   ١ ؎، پھر آپ نے ان سے فرمایا :  تمہیں قاتل کے خلاف گواہ پیش کرنا ہوگا ، وہ بولے : ہمارے پاس گواہ تو نہیں ہے، آپ  ﷺ  نے فرمایا :  تو وہ قسم کھائیں گے ، وہ بولے : ہمیں یہودیوں کی قسمیں منظور نہیں، پھر رسول اللہ  ﷺ  کو گراں گزرا کہ ان کا خون بیکار جائے، تو آپ نے انہیں صدقے کے سو اونٹ کی دیت ادا کی۔   (ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں :)   عمرو بن شعیب نے ان   (یعنی اوپر مذکور رواۃ)   کی مخالفت کی ہے   ٢ ؎۔    تخریج دارالدعوہ :  انظر حدیث رقم : ٤٧١٤ (صحیح  )    وضاحت : ١ ؎: یہاں پر یہ ذکر نہیں ہے کہ عمر میں چھوٹے آدمی  ( عبدالرحمٰن مقتول کے بھائی  )  نے رسول اللہ ﷺ سے بات شروع کی تو آپ نے ادب سکھایا کہ بڑوں کو بات کرنی چاہیئے اور چھوٹوں کو خاموش رہنا چاہیئے۔ ملاحظہ ہو : سابقہ احادیث۔  ٢ ؎: عمرو بن شعیب نے اپنی روایت میں عبداللہ بن سہل کے بجائے ابن محیصہ الاصغر کو مقتول کہا ہے، اور یہ کہا ہے کہ مدعیان سے شہادت طلب کرنے کے بعد اسے نہ پیش کر پانے کی صورت میں ان سے قسم کھانے کو کہا گیا۔    قال الشيخ الألباني :  صحيح    صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4719  
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عُبَيْدٍ الطَّائِيُّ، عَنْ بُشَيْرِ بْنِ يَسَارٍ زَعَمَ، أَنَّ رَجُلًا مِنْ الْأَنْصَارِ، يُقَالُ لَهُ: سَهْلُ بْنُ أَبِي حَثْمَةَ أَخْبَرَهُ، أَنَّ نَفَرًا مِنْ قَوْمِهِ انْطَلَقُوا إِلَى خَيْبَرَ فَتَفَرَّقُوا فِيهَا، فَوَجَدُوا أَحَدَهُمْ قَتِيلًا، فَقَالُوا لِلَّذِينَ وَجَدُوهُ عِنْدَهُمْ: قَتَلْتُمْ صَاحِبَنَا، قَالُوا: مَا قَتَلْنَاهُ وَلَا عَلِمْنَا قَاتِلًا، فَانْطَلَقُوا إِلَى نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالُوا: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، انْطَلَقْنَا إِلَى خَيْبَرَ فَوَجَدْنَا أَحَدَنَا قَتِيلًا، رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الْكُبْرَ الْكُبْرَ، فَقَالَ لَهُمْ: تَأْتُونَ بِالْبَيِّنَةِ عَلَى مَنْ قَتَلَ ؟، قَالُوا: مَا لَنَا بَيِّنَةٌ، قَالَ: فَيَحْلِفُونَ لَكُمْ، قَالُوا: لَا نَرْضَى بِأَيْمَانِ الْيَهُودِ، وَكَرِهَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَبْطُلَ دَمُهُ فَوَدَاهُ مِائَةً مِنْ إِبِلِ الصَّدَقَةِ، خَالَفَهُمْ عَمْرُو بْنُ شُعَيْبٍ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৪৭২৪
قسامت کے متعلق
راویوں کے اس حدیث سے متعلق اختلاف
 عبداللہ بن عمرو بن عاص (رض) سے روایت ہے کہ  محیصہ کے چھوٹے بیٹے کا خیبر کے دروازوں کے پاس قتل ہوگیا، رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا : دو گواہ لاؤ کہ کس نے قتل کیا ہے، میں اسے اس کی رسی سمیت تمہارے حوالے کروں گا ، وہ بولے : اللہ کے رسول ! ہمیں گواہ کہاں سے ملیں گے ؟ وہ تو انہیں کے دروازے پر قتل ہوا ہے، آپ نے فرمایا :  تو پھر تمہیں پچاس قسمیں کھانی ہوں گی ، وہ بولے : اللہ کے رسول ! جسے میں نہیں جانتا اس پر قسم کیوں کر کھاؤں ؟ تو رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا :  تو تم ان سے پچاس قسمیں لے لو ، وہ بولے : اللہ کے رسول ! ہم ان سے قسمیں کیسے لے سکتے ہیں وہ تو یہودی ہیں، تو آپ نے اس کی دیت یہودیوں پر تقسیم کی اور آدھی دیت دے کر ان کی مدد کی۔    تخریج دارالدعوہ :  تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٨٧٥٩) (شاذ  )    وضاحت : ١ ؎: امام نسائی نے اس روایت پر نقد یہ کہہ کر کیا کہ عمرو بن شعیب نے ان رواة کی مخالفت کی، اس کی تفصیل یہ ہے کہ اوپر گزری روایتوں سے اس روایت میں تین جگہ مخالفت ہے : اس میں مقتول کا نام عبداللہ بن سہل کے بجائے ابن محیصہ ہے، اور مدعی سے قسم سے پہلے گواہ پیش کرنے کی بات ہے، ، نیز اس میں یہ ہے کہ آدھی دیت یہودیوں پر مقرر کی، دوسری شق کی تائید کہیں نہ کہیں سے ہوجاتی ہے لیکن بقیہ دو باتیں بالکل شاذ ہیں۔ اس حدیث کے راوی عبید اللہ بن اخنس، بقول ابن حبان : روایت میں بہت غلطیاں کرتے تھے۔    قال الشيخ الألباني :  شاذ    صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4720  
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَعْمَرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ الْأَخْنَسِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنَّ ابْنَ مُحَيِّصَةَ الْأَصْغَرَ أَصْبَحَ قَتِيلًا عَلَى أَبْوَابِ خَيْبَرَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَقِمْ شَاهِدَيْنِ عَلَى مَنْ قَتَلَهُ أَدْفَعْهُ إِلَيْكُمْ بِرُمَّتِهِ، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَمِنْ أَيْنَ أُصِيبُ شَاهِدَيْنِ وَإِنَّمَا أَصْبَحَ قَتِيلًا عَلَى أَبْوَابِهِمْ ؟ قَالَ: فَتَحْلِفُ خَمْسِينَ قَسَامَةً ؟، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَكَيْفَ أَحْلِفُ عَلَى مَا لَا أَعْلَمُ ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَنَسْتَحْلِفُ مِنْهُمْ خَمْسِينَ قَسَامَةً، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَيْفَ نَسْتَحْلِفُهُمْ وَهُمْ الْيَهُودُ ؟ فَقَسَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دِيَتَهُ عَلَيْهِمْ، وَأَعَانَهُمْ بِنِصْفِهَا.    

তাহকীক:
হাদীস নং: ৪৭২৫
قسامت کے متعلق
قصاص سے متعلق احادیث
 عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا :  کسی مسلمان کا خون بہانا جائز تین صورتوں کے علاوہ جائز نہیں ہے : جان کے بدلے جان   ١ ؎، جس کا نکاح ہوچکا ہو وہ زنا کرے، جو دین چھوڑ دے اور اس سے پھر جائے ۔    تخریج دارالدعوہ :  انظر حدیث رقم : ٤٠٢١ (صحیح  )    وضاحت : ١ ؎: اسی لفظ سے  قصاص  کا حکم ثابت ہوتا ہے۔ شرط یہ ہے کہ جان ناحق لی گئی ہو۔    قال الشيخ الألباني :  صحيح    صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4721  
أَخْبَرَنَا بِشْرُ بْنُ خَالِدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ سُلَيْمَانَ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مُرَّةَ، عَنْمَسْرُوقٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: لَا يَحِلُّ دَمُ امْرِئٍ مُسْلِمٍ إِلَّا بِإِحْدَى ثَلَاثٍ: النَّفْسُ بِالنَّفْسِ، وَالثَّيِّبُ الزَّانِي، وَالتَّارِكُ دِينَهُ الْمُفَارِقُ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৪৭২৬
قسامت کے متعلق
قصاص سے متعلق احادیث
 ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ  ایک شخص رسول اللہ  ﷺ  کے زمانے میں قتل کردیا گیا، قاتل کو نبی اکرم  ﷺ  کے پاس لایا گیا، تو آپ نے اسے مقتول کے ولی کے حوالے کردیا   ١ ؎، قاتل نے کہا : اللہ کے رسول ! میرا ارادہ قتل کا نہ تھا، آپ نے مقتول کے ولی سے فرمایا :  سنو ! اگر وہ سچ کہہ رہا ہے اور تم نے اسے قتل کردیا تو تم بھی جہنم میں جاؤ گے ، تو اس نے اسے چھوڑ دیا۔ وہ شخص رسی سے بندھا ہوا تھا، وہ اپنی رسی گھسیٹتا ہوا نکلا تو اس کا نام ذوالنسعۃ   (رسی والا)   پڑگیا۔    تخریج دارالدعوہ :  سنن ابی داود/الدیات ٣ (٤٤٩٨) ، سنن الترمذی/الدیات ١٣ (١٤٠٧) ، سنن ابن ماجہ/الدیات ٣٤ (٢٦٩٠) ، (تحفة الأشراف : ١٢٥٠٧) (صحیح الإسناد  )    وضاحت : ١ ؎: اس لیے حوالہ کردیا کہ وہ اس کو قصاص میں قتل کردیں، اسی سے قصاص کی مشروعیت ثابت ہوتی ہے۔    قال الشيخ الألباني :  صحيح الإسناد    صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4722  
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، وَأَحْمَدُ بْنُ حَرْبٍ، وَاللَّفْظُ لِأَحْمَدَ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قُتِلَ رَجُلٌ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَرُفِعَ الْقَاتِلُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَدَفَعَهُ إِلَى وَلِيِّ الْمَقْتُولِ، فَقَالَ الْقَاتِلُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَا وَاللَّهِ مَا أَرَدْتُ قَتْلَهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِوَلِيِّ الْمَقْتُولِ: أَمَا إِنَّهُ إِنْ كَانَ صَادِقًا ثُمَّ قَتَلْتَهُ دَخَلْتَ النَّارَ، فَخَلَّى سَبِيلَهُ، قَالَ: وَكَانَ مَكْتُوفًا بِنِسْعَةٍ، فَخَرَجَ يَجُرُّ نِسْعَتَهُ فَسُمِّيَ ذَا النِّسْعَةِ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৪৭২৭
قسامت کے متعلق
قصاص سے متعلق احادیث
 وائل حضرمی (رض) کہتے ہیں کہ  اس قاتل کو جس نے قتل کیا تھا، رسول اللہ  ﷺ  کے پاس لایا گیا، اسے مقتول کا ولی پکڑ کر لایا، تو رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا :  کیا تم معاف کرو گے ؟   اس نے کہا : نہیں، آپ نے فرمایا :  کیا قتل کرو گے ؟   اس نے کہا : ہاں، آپ نے فرمایا :  جاؤ  (قتل کرو) ، جب وہ  (قتل کرنے)   چلا تو آپ نے اسے بلا کر کہا :  کیا تم معاف کرو گے ؟   اس نے کہا : نہیں، آپ نے فرمایا :  کیا دیت لو گے ؟   اس نے کہا : نہیں، آپ نے فرمایا :  تو کیا قتل کرو گے ؟   اس نے کہا : ہاں، آپ نے فرمایا :  جاؤ  (قتل کرو) ، جب وہ   (قتل کرنے)   چلا، تو آپ نے فرمایا :  اگر تم اسے معاف کر دو تو تمہارا گناہ اور تمہارے   (مقتول)   آدمی کا گناہ اسی پر ہوگا   ١ ؎، چناچہ اس نے اسے معاف کردیا اور اسے چھوڑ دیا، میں نے اسے دیکھا کہ وہ اپنی رسی گھسیٹتا جا رہا تھا   ٢ ؎۔    تخریج دارالدعوہ :  صحیح مسلم/القسامة ١٠ (الحدود ١٠) (١٦٨٠) ، سنن ابی داود/الدیات ٣ (٤٤٩٩، ٤٥٠٠، ٤٥٠١) ، (تحفة الأشراف : ١١٧٦٩) ، سنن الدارمی/الدیات ٨ (٢٤٠٤) وأعادہ المؤلف في القضاء ٢٦ (برقم ٥٤١٧) ، وانظرالأرقام التالیة : ٤٧٢٨-٤٧٣٣ (صحیح  )    وضاحت : ١ ؎: حدیث کا ظاہری مفہوم یہ ہے کہ بلا کچھ لیے دئیے ولی کے معاف کردینے کی صورت میں ولی اور مقتول دونوں کے گناہ کا حامل قاتل ہوگا، لیکن اس میں اشکال ہے کہ ولی کے گناہ کا حامل کیونکر ہوگا، اس لیے حدیث کے اس ظاہری مفہوم کی توجیہ کچھ اس طرح کی گئی ہے کہ ولی کے معاف کردینے کے سبب رب العالمین ولی اور مقتول دونوں کو مغفرت سے نوازے گا اور قاتل اس حال میں لوٹے گا کہ مغفرت کے سبب ان دونوں کے گناہ زائل ہوچکے ہوں گے۔  ٢ ؎: یہ وہی آدمی ہے جس کا تذکرہ پچھلی حدیث میں گزرا۔    قال الشيخ الألباني :  صحيح الإسناد    صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4723  
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل بْنِ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْحَاق، عَنْ عَوْفٍ الْأَعْرَابِيِّ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ وَائِلٍ الْحَضْرَمِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: جِيءَ بِالْقَاتِلِ الَّذِي قَتَلَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَاءَ بِهِ وَلِيُّ الْمَقْتُولِ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَتَعْفُو ؟، قَالَ: لَا، قَالَ: أَتَقْتُلُ ؟، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: اذْهَبْ، فَلَمَّا ذَهَبَ دَعَاهُ، قَالَ: أَتَعْفُو ؟، قَالَ: لَا، قَالَ: أَتَأْخُذُ الدِّيَةَ ؟، قَالَ: لَا، قَالَ: أَتَقْتُلُ ؟، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: اذْهَبْ، فَلَمَّا ذَهَبَ، قَالَ: أَمَا إِنَّكَ إِنْ عَفَوْتَ عَنْهُ فَإِنَّهُ يَبُوءُ بِإِثْمِكَ وَإِثْمِ صَاحِبِكَ، فَعَفَا عَنْهُ فَأَرْسَلَهُ، قَالَ: فَرَأَيْتُهُ يَجُرُّ نِسْعَتَهُ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৪৭২৮
قسامت کے متعلق
حضرت علقمہ بن وائل کی روایت میں راویوں کا اختلاف
 وائل (رض) کہتے ہیں کہ  جب قاتل کو لایا گیا تو میں رسول اللہ  ﷺ  کے پاس موجود تھا، مقتول کا ولی اسے رسی میں کھینچ کر لا رہا تھا، تو رسول اللہ  ﷺ  نے مقتول کے ولی سے فرمایا :  کیا تم معاف کرو گے ؟   وہ بولا : نہیں، آپ نے فرمایا :  کیا دیت لو گے ؟   وہ بولا : نہیں، آپ نے فرمایا :  تو کیا تم قتل کرو گے ؟   اس نے کہا : ہاں، آپ نے فرمایا :  لے جاؤ اسے ، چناچہ جب وہ لے کر چلا اور رخ پھیرا تو آپ نے اسے بلایا اور فرمایا :  کیا تم معاف کرو گے ؟   اس نے کہا : نہیں، آپ نے فرمایا :  کیا دیت لو گے ؟   اس نے کہا : نہیں، آپ نے فرمایا :  تو قتل ہی کرو گے ؟   اس نے کہا : ہاں، آپ نے فرمایا :  لے جاؤ اسے ، اسی وقت رسول اللہ  ﷺ  نے یہ بھی فرمایا :  سنو ! اگر اسے معاف کرتے ہو تو وہ اپنا گناہ اور تمہارے   (مقتول)   آدمی کا گناہ سمیٹ لے گا   ١ ؎، چناچہ اس نے اسے معاف کردیا، اور اسے چھوڑ دیا، پھر میں نے اسے دیکھا کہ وہ اپنی رسی گھسیٹ رہا تھا۔    تخریج دارالدعوہ :  انظر ما قبلہ (صحیح  )    وضاحت : ١ ؎: مطلب یہ ہے کہ قتل سے پہلے جو گناہ اس کے سر تھا اور قتل کے بعد جس گناہ کا وہ مرتکب ہوا ہے ان دونوں کو وہ سمیٹ لے گا۔    قال الشيخ الألباني :  صحيح الإسناد    صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4724  
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ عَوْفِ بْنِ أَبِي جَمِيلَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي حَمْزَةُ أَبُو عُمَرَ الْعَائِذِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَلْقَمَةُ بْنُ وَائِلٍ، عَنْ وَائِلٍ، قَالَ: شَهِدْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ جِيءَ بِالْقَاتِلِ يَقُودُهُ وَلِيُّ الْمَقْتُولِ فِي نِسْعَةٍ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِوَلِيِّ الْمَقْتُولِ: أَتَعْفُو ؟، قَالَ: لَا، قَالَ: أَتَأْخُذُ الدِّيَةَ ؟، قَالَ: لَا، قَالَ: فَتَقْتُلُهُ ؟، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: اذْهَبْ بِهِ، فَلَمَّا ذَهَبَ بِهِ، فَوَلَّى مِنْ عِنْدِهِ دَعَاهُ، فَقَالَ لَهُ: أَتَعْفُو ؟، قَالَ: لَا، قَالَ: أَتَأْخُذُ الدِّيَةَ ؟، قَالَ: لَا، قَالَ: فَتَقْتُلُهُ ؟، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: اذْهَبْ بِهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ ذَلِكَ: أَمَا إِنَّكَ إِنْ عَفَوْتَ عَنْهُ يَبُوءُ بِإِثْمِهِ وَإِثْمِ صَاحِبِكَ، فَعَفَا عَنْهُ وَتَرَكَهُ، فَأَنَا رَأَيْتُهُ يَجُرُّ نِسْعَتَهُ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৪৭২৯
قسامت کے متعلق
حضرت علقمہ بن وائل کی روایت میں راویوں کا اختلاف
 اس سند سے بھی  وائل (رض) نبی اکرم  ﷺ  سے اسی جیسی روایت کرتے ہیں۔ یحییٰ   ١ ؎  کہتے ہیں : یہ اس سے بہتر ہے۔    تخریج دارالدعوہ :  انظر حدیث رقم : ٤٧٢٧ (صحیح  )    وضاحت : ١ ؎:  یحییٰ  یعنی القطان  ( جو راوی بھی ہیں، اور امام جرح و تعدیل بھی، وہ  )  فرماتے ہیں : اس حدیث کی یہ سند پچھلی سند سے بہتر ہے۔    قال الشيخ الألباني :  صحيح الإسناد    صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4725  
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنَا جَامِعُ بْنُ مَطَرٍ الْحَبَطِيُّ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ وَائِلٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمِثْلِهِ، قَالَ يَحْيَى: وَهُوَ أَحْسَنُ مِنْهُ.  

তাহকীক: