কিতাবুস সুনান - ইমাম ইবনে মাজা' রহঃ (উর্দু)
كتاب السنن للإمام ابن ماجة
طلاق کا بیان - এর পরিচ্ছেদসমূহ
মোট হাদীস ২০ টি
হাদীস নং: ২০১৬
طلاق کا بیان
طلاق کا بیان۔
 عمر بن خطاب (رض) سے روایت ہے کہ  رسول اللہ ﷺ نے ام المؤمنین حفصہ (رض) کو طلاق دے دی پھر رجوع کرلیا۔    تخریج دارالدعوہ :  سنن ابی داود/الطلاق ٣٨ (٢٢٨٣) ، سنن النسائی/الطلاق ٧٦ (٣٥٩٠) ، (تحفة الأشراف : ١٠٤٩٣) ، وقد أخرجہ : سنن الدارمی/الطلاق ٢ (٢٣١٠) (صحیح  )   
حدیث نمبر: 2016  حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ،  وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَامِرِ بْنِ زُرَارَةَ،  وَمَسْرُوقُ بْنُ الْمَرْزُبَانِ، قَالُوا: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ زَكَرِيَّا بْنِ أَبِي زَائِدَةَ، عَنْ صَالِحِ بْنِ صَالِحِ بْنِ حَيٍّ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَلَّقَ حَفْصَةَ، ثُمَّ رَاجَعَهَا.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ২০১৭
طلاق کا بیان
طلاق کا بیان۔
 ابوموسیٰ اشعری (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :  ان لوگوں کا کیا حال ہے جو اللہ کے حدود سے کھیل کرتے ہیں، ان میں سے ایک اپنی بیوی سے کہتا ہے : میں نے تجھے طلاق دے دی پھر تجھ سے رجعت کرلی، پھر تجھے طلاق دے دی ۔    تخریج دارالدعوہ :  تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٩١٢٠، ومصباح الزجاجة : ٧١٦) (ضعیف)  (سند میں مؤمل بن اسماعیل مختلف فیہ راوی ہیں  )   
حدیث نمبر: 2017  حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُؤَمَّلٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا بَالُ أَقْوَامٍ يَلْعَبُونَ بِحُدُودِ اللَّهِ، يَقُولُ أَحَدُهُمْ: قَدْ طَلَّقْتُكِ قَدْ رَاجَعْتُكِ قَدْ طَلَّقْتُكِ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ২০১৮
طلاق کا بیان
طلاق کا بیان۔
 عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :  حلال چیزوں میں اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ ناپسندیدہ اور مبغوض چیز طلاق ہے ۔    تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطلاق ٣ (١٢٧٧، ١٢٧٨) ، (تحفة الأشراف : ٧٤١١) (ضعیف)  (سند میں عبید اللہ بن الولید ضعیف راوی ہیں، صواب اس حدیث کا مرسل ہونا ہے اور ثقات نے اسے مرسلاً ہی روایت کیا ہے  )   
حدیث نمبر: 2018  حَدَّثَنَا كَثِيرُ بْنُ عُبَيْدٍ الْحِمْصِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خَالِدٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ الْوَلِيدِ الْوَصَّافِيِّ، عَنْ مُحَارِبِ بْنِ دِثَارٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَبْغَضُ الْحَلَالِ إِلَى اللَّهِ الطَّلَاقُ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ২০১৯
طلاق کا بیان
سنت طلاق کا بیان۔
 عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ  میں نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دے دی، عمر (رض) نے رسول اللہ ﷺ سے اس کا ذکر کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا :  انہیں حکم دو کہ اپنی بیوی سے رجوع کرلیں یہاں تک کہ وہ عورت حیض سے پاک ہوجائے پھر اسے حیض آئے، اور اس سے بھی پاک ہوجائے، پھر ابن عمر اگر چاہیں تو جماع سے پہلے اسے طلاق دے دیں، اور اگر چاہیں تو روکے رکھیں یہی عورتوں کی عدت ہے جس کا اللہ نے حکم دیا ہے   ١ ؎۔    تخریج دارالدعوہ :  صحیح مسلم/الطلاق ١ (١٤٧١) ، سنن النسائی/الطلاق ١ (٣٤١٩) ، ٥ (٣٤٢٩) ، ٧٦ (٣٥٨٥) ، (تحفة الأشراف : ٧٩٢٢) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/ تفسیر الطلاق ١٣ (٤٩٠٨) ، الطلاق ٢ (٥٢٥٢) ، ٣ (٥٢٥٨) ، ٤٥ (٥٣٣٣) ، الأحکام ١٣ (٧١٦٠) ، سنن ابی داود/الطلاق ٤ (٢١٧٩) ، سنن الترمذی/الطلاق ١ (١١٧٥) ، موطا امام مالک/الطلاق ٢٠ (٥٢) ، مسند احمد (٢/٤٣، ٥١، ٧٩) ، سنن الدارمی/الطلاق ١ (٢٣٠٨) (صحیح  )    وضاحت :  ١ ؎: اس سے مراد یہ آیت کریمہ ہے : يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاء فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ وَأَحْصُوا الْعِدَّةَ (سورة الطلاق : 1) یعنی طلاق دو عورتوں کو ان کی عدت کے یعنی طہر کی حالت میں۔   
حدیث نمبر: 2019  حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: طَلَّقْتُ امْرَأَتِي وَهِيَ حَائِضٌ، فَذَكَرَ ذَلِكَ عُمَرُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: مُرْهُ فَلْيُرَاجِعْهَا حَتَّى تَطْهُرَ، ثُمَّ تَحِيضَ، ثُمَّ تَطْهُرَ، ثُمَّ إِنْ شَاءَ طَلَّقَهَا قَبْلَ أَنْ يُجَامِعَهَا، وَإِنْ شَاءَ أَمْسَكَهَا، فَإِنَّهَا الْعِدَّةُ الَّتِي أَمَرَ اللَّهُ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ২০২০
طلاق کا بیان
سنت طلاق کا بیان۔
 عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ  طلاق سنی یہ ہے کہ عورت کو اس طہر میں ایک طلاق دے جس میں اس سے جماع نہ کیا ہو  ١ ؎۔    تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الطلاق ٢ (٣٤٢٣) ، (تحفة الأشراف : ٩٥١١) (صحیح  )    وضاحت :  ١ ؎: تاکہ عورت کو عدت کے حساب میں آسانی ہو، اور اسی طہر سے عدت شروع ہوجائے، تین طہر کے بعد وہ مطلقہ بائنہ ہوجائے گی، عدت ختم ہونے کے بعد وہ دوسرے سے شادی کرسکتی ہے، طلاق سنت یہ ہے کہ عورت کو ایسے طہر میں طلاق دے جس میں جماع نہ کیا ہو، اور شرط یہ ہے کہ اس طہر سے پہلے جو حیض تھا اس میں طلاق نہ دی ہو، یا حمل کی حالت میں جب حمل ظاہر ہوگیا ہو اور اس کے سوا دوسری طرح طلاق دینا (مثلاً حیض کی حالت میں یا طہر کی حالت میں جب جماع کرچکا ہو یا حمل کی حالت میں جب وہ ظاہر نہ ہوا ہو، لیکن شبہ ہو، اسی طرح تین طلاق ایک بار دینا حرام ہے اور اس کا ذکر آگے آئے گا) اور حدیث میں جو ابن عمر (رض) کو حکم ہوا کہ اس طہر کے بعد دوسرے طہر میں طلاق دیں، تو اس میں یہ حکمت تھی کہ طلاق سے رجعت کا علم نہ ہو تو ایک طہر تک عورت کو رہنے دے، اور بعضوں نے کہا کہ یہ سزا ان کے ناجائز فعل کی دی، اور بعضوں نے کہا یہ طہر اسی حیض سے متعلق تھا جس میں طلاق دی گئی تھی اس لئے دوسرے طہر کا انتظار کرے۔   
حدیث نمبر: 2020  حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ أَبِي الْأَحْوَصِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: طَلَاقُ السُّنَّةِ أَنْ يُطَلِّقَهَا طَاهِرًا مِنْ غَيْرِ جِمَاعٍ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ২০২১
طلاق کا بیان
سنت طلاق کا بیان۔
 عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں  طلاق سنی یہ ہے کہ عورت کو ہر طہر میں ایک طلاق دے، جب تیسری بار پاک ہو تو آخری طلاق دیدے، اور اس کے بعد عدت ایک حیض ہوگی  ١ ؎۔    تخریج دارالدعوہ :  انظر ما قبلہ (صحیح  )    وضاحت :  ١ ؎: اس لئے کہ پہلی اور دوسری طلاق کے بعد دو حیض پہلے گزر چکے ہیں، یہ صورت اس وقت ہے، جب کہ عورت کو تین طلاق دینی ہو، اور بہتر یہ ہے کہ جب عورت حیض سے پاک ہو تو ایک ہی طلاق پر قناعت کرے، تین حیض یا تین طہر گزر جانے کے بعد وہ مطلقہ بائنہ ہوجائے گی۔ اس میں یہ فائدہ ہے کہ اگر مرد عدت گزر جانے کے بعد بھی چاہے تو اس عورت سے نکاح کرسکتا ہے، لیکن تین طلاق دینے کے بعد وہ اس سے اس وقت تک شادی نہیں کرسکتا، جب تک کہ وہ عورت کسی دوسرے سے شادی نہ کرلے، پھر وہ اسے طلاق دے دے۔   
حدیث نمبر: 2021  حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مَيْمُونٍ الرَّقِّيُّ، حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ أَبِي الْأَحْوَصِ، عَنْعَبْدِ اللَّهِ، قَالَ فِي طَلَاقِ السُّنَّةِ: يُطَلِّقُهَا عِنْدَ كُلِّ طُهْرٍ تَطْلِيقَةً، فَإِذَا طَهُرَتِ الثَّالِثَةَ طَلَّقَهَا، وَعَلَيْهَا بَعْدَ ذَلِكَ حَيْضَةٌ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ২০২২
طلاق کا بیان
سنت طلاق کا بیان۔
 ابو غلاب یونس بن جبیر کہتے ہیں کہ  میں نے ابن عمر (رض) سے اس شخص کے بارے میں پوچھا جس نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دے دی تو انہوں نے کہا : کیا تم عبداللہ بن عمر (رض) کو پہچانتے ہو ؟ انہوں نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دے دی تھی تو عمر (رض) نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے تو آپ ﷺ نے انہیں حکم دیا تھا کہ ابن عمر رجوع کرلیں، میں نے پوچھا : کیا اس طلاق کا شمار ہوگا ؟ انہوں نے کہا : تم کیا سمجھتے ہو، اگر وہ عاجز ہوجائے یا دیوانہ ہوجائے  (تو کیا وہ شمار نہ ہوگی یعنی ضرور ہوگی) ۔    تخریج دارالدعوہ :  صحیح البخاری/ الطلاق ٢ (٥٢٥٢) ، صحیح مسلم/الطلاق ١ (١٤٧١) ، سنن ابی داود/الطلاق ٤ (٢١٨٣) ، سنن النسائی/الطلاق ٥ (٣٤٢٨) ، (تحفة الأشراف : ٨٥٧٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٤٣، ٥١، ٧٤، ٧٩) (صحیح  )   
حدیث نمبر: 2022  حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى، قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ مُحَمَّدٍ، عَنْ يُونُسَ بْنِ جُبَيْرٍ أَبِي غَلَّابٍ، قَالَ: سَأَلْتُ ابْنَ عُمَرَ، عَنْ رَجُلٍ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ وَهِيَ حَائِضٌ، فَقَالَ: تَعْرِفُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ وَهِيَ حَائِضٌ، فَأَتَى عُمَرُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَمَرَهُ أَنْ يُرَاجِعَهَا، قُلْتُ: أَيُعْتَدُّ بِتِلْكَ؟، قَالَ: أَرَأَيْتَ إِنْ عَجَزَ وَاسْتَحْمَقَ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ২০২৩
طلاق کا بیان
حاملہ عورت کا طلاق دینے کا طریقہ۔
 عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ  انہوں نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دے دی، تو عمر (رض) نے نبی اکرم ﷺ سے اس کا ذکر کیا، تو آپ ﷺ نے فرمایا :  انہیں حکم دو کہ رجوع کرلیں، پھر طہر کی یا حمل کی حالت میں طلاق دیں   ١ ؎۔    تخریج دارالدعوہ :  صحیح مسلم/الطلاق ١ (١٤٧١) ، سنن ابی داود/الطلاق ٤ (٢١٨١) ، سنن الترمذی/الطلاق ١ (١١٧٦) ، سنن النسائی/الطلاق ٣ (٣٤٢٦) ، (تحفة الأشراف : ٦٩٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٦، ٥٨) (صحیح  )    وضاحت :  ١ ؎: کیونکہ اس میں عدت کی آسانی ہے اگر طہر میں طلاق دے اور حاملہ نہ ہو تو تین طہر یا حیض کے بعد مدت گزر جائے گی، اگر حاملہ ہو تو وضع حمل ہوتے ہی عدت ختم جائے گی، عدت کا مقصد یہ ہے کہ حمل کی حالت میں عورت دوسرے شوہر سے جماع نہ کرائے ورنہ بچہ میں دوسرے مرد کا پانی بھی شریک ہوگا، اور یہ معیوب ہے، اس وہم کو دور کرنے کے لئے یہ طریقہ ٹھہرا کہ جس طہر میں جماع نہ کیا جائے اس میں طلاق دے، اور تین حیض تک انتظار اس لئے ہوا کہ کبھی حمل کی حالت میں بھی ایک آدھ بار تھوڑا سا حیض آجاتا ہے، لیکن جب تک تین حیض برابر آئے تو یقین ہوا کہ وہ حاملہ نہیں ہے، اب دوسرے مرد سے نکاح کرے، یا اگر حاملہ ہو تو وضع حمل ہوتے ہی نکاح کرسکتی ہے اگرچہ طلاق یا شوہر کی موت سے متصل ہی وضع حمل ہو۔   
حدیث نمبر: 2023  حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ،  وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ مَوْلَى آلِ طَلْحَةَ، عَنْ سَالِمٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّهُ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ وَهِيَ حَائِضٌ، فَذَكَرَ ذَلِكَ عُمَرُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: مُرْهُ فَلْيُرَاجِعْهَا، ثُمَّ يُطَلِّقْهَا وَهِيَ طَاهِرٌ، أَوْ حَامِلٌ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ২০২৪
طلاق کا بیان
ایسا شخص جو اپنی بیوی کو ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دیدے۔
 عامر شعبی کہتے ہیں کہ  میں نے فاطمہ بنت قیس (رض) سے کہا : آپ مجھ سے اپنی طلاق کے بارے میں بیان کریں، تو انہوں نے کہا : میرے شوہر نے یمن کے سفر پر نکلتے وقت مجھے تین طلاق دی تو رسول اللہ ﷺ نے اس کو جائز رکھا  ١ ؎۔    تخریج دارالدعوہ :  صحیح مسلم/الطلاق ٦ (١٤٨٠) ، سنن ابی داود/الطلاق) ٣٩ (٢٢٩١) ، سنن الترمذی/الطلاق ٥ (١١٨٠) ، سنن النسائی/الطلاق ٧ (٣٤٣٢) ، (تحفة الأشراف : ١٨٠٢٥) (صحیح  )    وضاحت :  ١ ؎: اس حدیث سے جمہور علماء و فقہاء نے دلیل لی ہے کہ اگر کوئی ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دے دے تو تینوں پڑجائیں گی، اس مسئلہ میں تین مذہب اور ہیں، ایک یہ کہ کچھ نہیں پڑے گا، نہ ایک نہ تین، کیونکہ اس طرح طلاق دینا بدعت اور حرام ہے، اس مذہب کو ابن حزم نے امام احمد سے بھی نقل کیا ہے، اور کہا کہ روافض کا بھی یہی مذہب ہے، واضح رہے کہ تابعین کی ایک جماعت کا یہی مذہب ہے۔ اور اہل بیت سے امام باقر، امام صادق اور ناصر کا بھی یہی مذہب ہے، اور ابوعبید اور بعض ظاہریہ بھی اسی کے قائل ہیں، کیونکہ یہ لوگ کہتے ہیں کہ طلاق بدعی نہیں پڑتی اور یہ بھی بدعی ہے۔ دوسرے یہ کہ اگر عورت مدخولہ ہے تو تینوں پڑجائیں گی اور مدخولہ نہیں ہے تو ایک پڑے گی، ایک جماعت کا یہ قول ہے جیسے ابن عباس اور اسحاق بن راہویہ وغیرہ۔ تیسرے یہ کہ ایک طلاق رجعی پڑے گی خواہ عورت مدخولہ ہو یا نہ ہو، اور ابن عباس (رض) کا صحیح ترین مذہب یہی ہے، اور ابن اسحاق، عطاء، عکرمہ اور اکثر اہل بیت اسی کے قائل ہیں، سارے مذاہب میں یہ صحیح ہے، امام شوکانی نے اس مسئلے پر ایک مستقل رسالہ لکھا ہے، اور چاروں مذاہب کے دلائل بیان کر کے اخیر قول کو ترجیح دی ہے، اور اس دور میں اس مسئلہ کو اختلافی قرار دیا ہے۔ علامہ ابن القیم (رح) فرماتے ہیں کہ نبی کریم  ﷺ سے یہ صحیح اور ثابت ہے کہ تین طلاق ایک ہی بار دینے سے ایک ہی طلاق پڑتی تھی عہد نبوت میں، اور ابوبکر (رض) کے عہد میں، اور شروع خلافت عمر (رض) میں، اور عمر (رض) نے لوگوں کو سزا دینے کے لئے یہ فتوی دیا کہ تینوں طلاقیں پڑجائیں گی، اور یہ ان کا اجتہاد ہے، جو اوروں پر حجت نہیں ہوسکتا، خصوصاً نبی کریم  ﷺ اور ابوبکر صدیق (رض) کا فتوی ان کے اجتہاد سے رد نہیں ہوسکتا، اور ابن القیم نے اغاثۃ اللہ فان میں اس مسئلہ میں طویل کلام کیا ہے، اور ثابت کیا ہے کہ اس صورت میں ایک ہی طلاق پڑے گی، امام شوکانی کہتے ہیں : ابوموسی اشعری، ابن عباس، طاؤس، عطاء، جابر بن زید، احمد بن عیسی، عبد اللہ بن موسی، علی اور زید بن علی سے ایسا ہی منقول ہے، اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور امام ابن القیم دونوں اسی طرف گئے ہیں، اور ابن مغیث نے کتاب الوثائق میں علی، ابن مسعود، عبدالرحمن بن عوف اور زبیر رضی اللہ عنہم اور مشائخ قرطبہ کی جماعت سے ایسا ہی نقل کیا ہے، اور ابن منذر نے اصحاب ابن عباس (رض) سے ایسا ہی روایت کیا ہے کہ اس باب میں جو حدیثیں آئی ہیں ان سب میں ابن عباس (رض) کی یہ حدیث زیادہ صحیح ہے، جو صحیح مسلم میں ہے کہ تین طلاقیں نبی کریم  ﷺ اور ابوبکر (رض) کی خلافت اور شروع عمر (رض) کی خلافت میں ایک طلاق شمار ہوتی تھیں، جب عمر (رض) کا زمانہ آیا اور لوگوں نے پے در پے طلاق دینا شروع کی تو عمر (رض) نے تینوں طلاق کو ان پر نافذ کردیا۔ علامہ ابن القیم نے اس مسئلہ کی تحقیق میں کتاب و سنت اور لغت اور صحابہ کے عمل سے دلیل لی، پھر کہا کہ اللہ کی کتاب اور سنت رسول اللہ اور لغت اور عرف اسی پر دلالت کرتے ہیں، نبی کریم  ﷺ کے خلیفہ اور صحابہ اور عمر (رض) کی خلافت میں بھی تین برس تک لوگ اسی پر چلتے رہے، اگر کوئی ان کا شمار کرے تو ہزار سے زیادہ ان کی تعداد ہوگی، کسی نے اقرار کیا، کسی نے سکوت اختیار کیا، اور بعضوں نے جو کہا کہ عمر (رض) کے زمانہ سے پھر لوگوں نے انہی کے فتوی پر اجماع کرلیا، تو یہ ثابت نہیں، ہر زمانہ میں علماء اسی عہد اول کے فتوی پر فتوی دیتے رہے، امت کے عالم عبداللہ بن عباس (رض) نے مروی حدیث کے مطابق فتوی دیا، اس کو حماد بن زید نے ایوب سے، انہوں نے عکرمہ سے، انہوں نے ابن عباس (رض) سے نقل کیا کہ جب کسی نے ایک ہی دفعہ میں کہا : تجھ کو تین طلاق ہیں، تو ایک ہی طلاق پڑے گی، اور زبیر بن عوام، عبدالرحمن بن عوف (رض) نے بھی ایسا ہی فتوی دیا، یہ ابن وضاح نے نقل کیا ہے، اور تابعین میں سے عکرمہ، طاؤس نے ایسا ہی فتوی دیا اور تبع تابعین میں سے محمد بن اسحاق اور خلاس بن عمرو الہجری نے ایسا ہی فتوی دیا اور اتباع تبع تابعین میں داود بن علی اور ان کے اکثر اصحاب نے ایسا ہی فتوی دیا ہے، غرض یہ کہ ہر زمانہ میں علماء اور ائمہ اس قول کے موافق فتویٰ دیتے رہے، اور یہ قول بالاجماع متروک نہیں ہوا، اور کیونکر ہوسکتا ہے جب کتاب و سنت اور قیاس اور اجماع قدیم سے یہی ثابت ہے، اور اس کے بعد کسی اجماع نے اس کو باطل نہیں کیا، لیکن عمر (رض) نے ایک مصلحت سے اس کے خلاف رائے تجویز کی اور ان کا یہ فیصلہ کسی دوسرے پر حجت نہیں ہوسکتا، ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے کہ جب صحیح حدیث مل جائے تو اس پر عمل کرے اور اس کے خلاف کسی کے فتوی اور کسی کا قیاس قبول نہ کرے، خواہ وہ کوئی ہو، اور اس مسئلہ کی مزید تفصیل کے لیے  إعلام الموقعين، إغاثة اللهفان، رسالہ شوکانی، نیل الاوطار، مسک الختام، سنن ابن ماجہ مع حاشیہ مولانا وحیدالزمان حیدرآبادی  کی طرف رجوع کیجئے، نیز  تسمية المفتين  کے نام سے ایک رسالہ اردو میں ترجمہ کر کے شائع کیا ہے جس میں قدیم و جدید علماء کی ایک بڑی تعداد کا ذکر ہے جو تین طلاقوں کو ایک قرار دیتی ہے۔ (فریوائی  )   
حدیث نمبر: 2024  حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ إِسْحَاق بْنِ أَبِي فَرْوَةَ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ عَامِرٍ الشَّعْبِيِّ، قَالَ: قُلْتُ لِفَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ: حَدِّثِينِي عَنْ طَلَاقِكِ، قَالَتْ: طَلَّقَنِي زَوْجِي ثَلَاثًا وَهُوَ خَارِجٌ إِلَى الْيَمَنِ، فَأَجَازَ ذَلِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ২০২৫
طلاق کا بیان
رجوع (بعداز طلاق) کا بیان۔
 مطرف بن عبداللہ بن شخیر سے روایت ہے کہ  عمران بن حصین (رض) سے اس شخص کے بارے میں پوچھا گیا جو اپنی بیوی کو طلاق دیدے پھر اس سے جماع کرے، اور اپنی طلاق اور رجعت پہ کسی کو گواہ نہ بنائے ؟ تو عمران (رض) نے کہا : تم نے سنت کے خلاف طلاق دی، اور سنت کے خلاف رجعت کی، اپنی طلاق اور رجعت پہ گواہ بناؤ  ١ ؎۔    تخریج دارالدعوہ :  سنن ابی داود/الطلاق ٥ (٢١٨٦) ، (تحفة الأشراف : ١٠٨٦٠) (صحیح  )    وضاحت :  ١ ؎: گواہی ان دونوں کے لئے شرط نہیں، ہاں مسنون ہے۔   
حدیث نمبر: 2025  حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ هِلَالٍ الصَّوَّافُ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ الضُّبَعِيُّ، عَنْ يَزِيدَ الرِّشْكِ، عَنْ مُطَرِّفِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الشِّخِّيرِ، أَنَّ عِمْرَانَ بْنَ الْحُصَيْنِ سُئِلَ عَنْ رَجُلٍ يُطَلِّقُ امْرَأَتَهُ، ثُمَّ يَقَعُ بِهَا وَلَمْ يُشْهِدْ عَلَى طَلَاقِهَا وَلَا عَلَى رَجْعَتِهَا؟، فَقَالَ عِمْرَانُ: طَلَّقْتَ بِغَيْرِ سُنَّةٍ، وَرَاجَعْتَ بِغَيْرِ سُنَّةٍ، أَشْهِدْ عَلَى طَلَاقِهَا وَعَلَى رَجْعَتِهَا.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ২০২৬
طلاق کا بیان
بچہ کی پیدائش کیساتھ ہی حاملہ خاتون بائنہ ہوجائے گی۔
 زبیر بن عوام (رض) سے روایت ہے کہ  ان کی زوجیت میں ام کلثوم بنت عقبہ تھیں، انہوں نے حمل کی حالت میں زبیر (رض) سے کہا : مجھے ایک طلاق دے کر میرا دل خوش کر دو ، لہٰذا انہوں نے ایک طلاق دے دی، پھر وہ نماز کے لیے نکلے جب واپس آئے تو وہ بچہ جن چکی تھیں تو زبیر (رض) نے کہا : اسے کیا ہوگیا ؟ اس نے مجھ سے مکر کیا ہے، اللہ اس سے مکر کرے، پھر وہ نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے تو آپ ﷺ نے فرمایا :  کتاب کی میعاد گزر گئی  (اب رجوع کا اختیار نہیں رہا)  لیکن اسے نکاح کا پیغام دے دو   ١ ؎۔    تخریج دارالدعوہ :  تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٣٦٤٥، ومصباح الزجاجة : ٧١٧) (صحیح)  (حدیث کے شواہد ہیں، ملاحظہ ہو : الإرواء :  ٢١١٧  )    وضاحت :  ١ ؎: اگر وہ منظور کرے تو نیا نکاح ہوسکتا ہے، اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حاملہ کی عدت طلاق میں بھی وضع حمل ہے، جیسے شوہر کے انتقال کے بعد بھی حاملہ کی عدت وضع حمل ہے، جیسا کہ قرآن کریم میں ہے : وَأُوْلاتُ الأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ (الطلاق : 4 )   
حدیث نمبر: 2026  حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ بْنِ هَيَّاجٍ، حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ بْنُ عُقْبَةَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْالزُّبَيْرِ بْنِ الْعَوَّامِ، أَنَّهُ كَانَتْ عِنْدَهُ أُمُّ كُلْثُومٍ بِنْتُ عُقْبَةَ، فَقَالَتْ لَهُ وَهِيَ حَامِلٌ: طَيِّبْ نَفْسِي بِتَطْلِيقَةٍ، فَطَلَّقَهَا تَطْلِيقَةً، ثُمَّ خَرَجَ إِلَى الصَّلَاةِ، فَرَجَعَ وَقَدْ وَضَعَتْ، فَقَالَ: مَا لَهَا خَدَعَتْنِي خَدَعَهَا اللَّهُ، ثُمَّ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: سَبَقَ الْكِتَابُ أَجَلَهُ اخْطُبْهَا إِلَى نَفْسِهَا.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ২০২৭
طلاق کا بیان
وفات پا جانے والے شخص کی حاملہ بیوی کی عدت بچہ جنتے ساتھ ہی پوری ہوجائیگی۔
 ابوسنابل کہتے ہیں کہ  سبیعہ اسلمیہ بنت حارث (رض) نے اپنے شوہر کی وفات کے بیس سے کچھ زائد دنوں بعد بچہ جنا، جب وہ نفاس سے پاک ہوگئیں تو شادی کی خواہشمند ہوئیں، تو یہ معیوب سمجھا گیا، اور اس کی خبر نبی اکرم ﷺ کو دی گئی تو آپ ﷺ نے فرمایا :  اگر چاہے تو وہ ایسا کرسکتی ہے کیونکہ اس کی عدت گزر گئی ہے ۔    تخریج دارالدعوہ :  سنن الترمذی/الطلاق ١٧ (١١٩٣) ، سنن النسائی/الطلاق ٥٦ (٣٥٤٩) ، (تحفة الأشراف : ١٢٠٥٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٠٥) ، سنن الدارمی/الطلاق ١١ (٢٣٢٧) (صحیح  )   
حدیث نمبر: 2027  حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ الْأَسْوَدِ، عَنْ أَبِي السَّنَابِلِ، قَالَ: وَضَعَتْ سُبَيْعَةُ الْأَسْلَمِيَّةُ بِنْتُ الْحَارِثِ حَمْلَهَا بَعْدَ وَفَاةِ زَوْجِهَا بِبِضْعٍ وَعِشْرِينَ لَيْلَةً، فَلَمَّا تَعَلَّتْ مِنْ نِفَاسِهَا تَشَوَّفَتْ، فَعِيبَ ذَلِكَ عَلَيْهَا، وَذُكِرَ أَمْرُهَا لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: إِنْ تَفْعَلْ فَقَدْ مَضَى أَجَلُهَا.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ২০২৮
طلاق کا بیان
وفات پا جانے والے شخص کی حاملہ بیوی کی عدت بچہ جنتے ساتھ ہی پوری ہوجائیگی۔
 مسروق اور عمرو بن عتبہ سے روایت ہے کہ  ان دونوں نے سبیعہ بنت حارث (رض) کو خط لکھا، وہ ان سے پوچھ رہے تھے کہ ان کا کیا معاملہ تھا ؟ سبیعہ (رض) نے ان کو جواب لکھا کہ ان کے شوہر کی وفات کے پچیس دن بعد ان کے یہاں بچہ پیدا ہوا، پھر وہ خیر یعنی شوہر کی تلاش میں متحرک ہوئیں، تو ان کے پاس ابوسنابل بن بعکک گزرے تو انہوں نے کہا کہ تم نے جلدی کردی، دونوں میعادوں میں سے آخری میعاد چار ماہ دس دن عدت گزارو، یہ سن کر میں نبی اکرم ﷺ کے پاس آئی، اور عرض کیا : اللہ کے رسول ! میرے لیے دعائے مغفرت کر دیجئیے، آپ ﷺ نے فرمایا :  یہ کس لیے ؟ میں نے صورت حال بتائی تو آپ ﷺ نے فرمایا :  اگر کوئی نیک اور دیندار شوہر ملے تو شادی کرلو ۔    تخریج دارالدعوہ :  صحیح البخاری/المغازي ١٠ تعلیقاً (٣٩٩١) ، الطلاق ٣٩ (٥٣١٩) ، صحیح مسلم/الطلاق ٨ (١٤٨٤) ، سنن ابی داود/الطلاق ٤٧ (٢٣٠٦) ، سنن النسائی/الطلاق ٥٦ (٣٥٤٨) ، (تحفة الأشراف : ١٥٨٩٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٤٣٢) (صحیح  )   
حدیث نمبر: 2028  حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي هِنْدٍ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ مَسْرُوقٍ،  وَعَمْرِو بْنِ عُتْبَةَ، أنهما كتبا إلى سبيعة بنت الحارث يسألانها عَنْ أَمْرِهَا، فَكَتَبَتْ إِلَيْهِمَا إِنَّهَا وَضَعَتْ بَعْدَ وَفَاةِ زَوْجِهَا بِخَمْسَةٍ وَعِشْرِينَ، فَتَهَيَّأَتْ تَطْلُبُ الْخَيْرَ، فَمَرَّ بِهَا أَبُو السَّنَابِلِ بْنُ بَعْكَكٍ، فَقَالَ: قَدْ أَسْرَعْتِ اعْتَدِّي آخِرَ الْأَجَلَيْنِ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا، فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، اسْتَغْفِرْ لِي، قَالَ: وَفِيمَ ذَاكَ، فَأَخْبَرْتُهُ، فَقَالَ: إِنْ وَجَدْتِ زَوْجًا صَالِحًا، فَتَزَوَّجِي.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ২০২৯
طلاق کا بیان
وفات پا جانے والے شخص کی حاملہ بیوی کی عدت بچہ جنتے ساتھ ہی پوری ہوجائیگی۔
 مسور بن مخرمہ (رض) سے روایت ہے کہ  نبی اکرم ﷺ نے سبیعہ (رض) کو حکم دیا کہ نفاس سے پاک ہونے کے بعد شادی کرلیں  ١ ؎۔    تخریج دارالدعوہ :  صحیح البخاری/الطلاق ٣٩ (٥٣٢٠) ، سنن النسائی/الطلاق ٥٦ (٣٥٣٦) ، (تحفة الأشراف : ١١٢٧٢) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الطلاق ٣٠ (٨٥) ، مسند احمد (٤/٣٢٧) (صحیح  )    وضاحت :  ١ ؎: یہی حدیث صحیح بخاری و صحیح مسلم میں ام سلمہ (رض) سے مروی ہے، جس میں شوہر کے موت کے دس دن بعد بچہ جننے کا ذکر ہے، اور نبی اکرم  ﷺ نے فرمایا :  وہ نکاح کرے  اور احمد اور دارقطنی نے ابن مسعود (رض) سے روایت کی کہ میں نے کہا : اللہ کے رسول ! آیت کریمہ : وَأُوْلاتُ الأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَن يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ (سورة الطلاق : 4) کا حکم مطلقہ اور جس کا شوہر مرجائے دونوں کے لیے ہے ؟ تو آپ  ﷺ نے فرمایا :  دونوں کے لیے ہے ، اس کو ابویعلی نے مسند میں، ضیاء مقدسی نے مختارہ میں اور ابن مردویہ نے تفسیر میں روایت کیا ہے، اس کی سند میں مثنی بن صباح کو ابن مردویہ نے ثقہ کہا ہے، اور ابن معین نے بھی ثقہ کہا جب کہ اکثر نے ان کو ضعیف کہا ہے۔   
حدیث نمبر: 2029  حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ،  وَمُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دَاوُدَ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْالْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَأَمَرَ سُبَيْعَةَ أَنْ تَنْكِحَ إِذَا تَعَلَّتْ مِنْ نِفَاسِهَا.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ২০৩০
طلاق کا بیان
وفات پا جانے والے شخص کی حاملہ بیوی کی عدت بچہ جنتے ساتھ ہی پوری ہوجائیگی۔
 عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ  اللہ کی قسم ! جو کوئی چاہے ہم اس سے لعان کرلیں کہ چھوٹی سورة نساء  (سورۃ الطلاق)  اس آیت کے بعد اتری ہے جس میں چار ماہ دس دن کی عدت کا حکم ہے  ١ ؎۔    تخریج دارالدعوہ :  سنن ابی داود/الطلاق ٤٧ (٢٣٠٧) ، سنن النسائی/الطلاق ٥٦ (٣٥٥٢) ، (تحفة الأشراف : ٩٥٧٨) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/تفسیر سورة الطلاق ٢ (٤٩٠٩) (صحیح  )    وضاحت :  ١ ؎: اور سورة طلاق میں یہ آیت وَأُوْلاتُ الأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَن يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ (سورة الطلاق : 4) حاملہ عورتوں کے باب میں ناسخ ہوگی پہلی آیت کی البتہ غیر حاملہ وفات کی عدت چار مہنیے دس دن گزارے۔   
حدیث نمبر: 2030  حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ مُسْلِمٍ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: وَاللَّهِ لَمَنْ شَاءَ لَاعَنَّاهُ لَأُنْزِلَتْ سُورَةُ النِّسَاءِ الْقُصْرَى بَعْدَ أَرْبَعَةِ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ২০৩১
طلاق کا بیان
بیوہ عدت کہاں پوری کرے؟
 زینب بنت کعب بن عجرہ (رض) جو ابو سعید خدری (رض) کے نکاح میں تھیں سے روایت ہے کہ  ابو سعید خدری (رض) کی بہن فریعہ بنت مالک (رض) نے کہا : میرے شوہر اپنے کچھ غلاموں کی تلاش میں نکلے اور ان کو قدوم کے کنارے پا لیا، ان غلاموں نے انہیں مار ڈالا، میرے شوہر کے انتقال کی خبر آئی تو اس وقت میں انصار کے ایک گھر میں تھی، جو میرے کنبہ والوں کے گھر سے دور تھا، میں نبی اکرم ﷺ کے پاس آئی اور میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میرے شوہر کی موت کی خبر آئی ہے اور میں اپنے کنبہ والوں اور بھائیوں کے گھروں سے دور ایک گھر میں ہوں، اور میرے شوہر نے کوئی مال نہیں چھوڑا جسے میں خرچ کروں یا میں اس کی وارث ہوں، اور نہ اپنا ذاتی کوئی گھر چھوڑا جس کے وہ مالک ہوتے، اب اگر آپ اجازت دیں تو میں اپنے خاندان کے گھر اور بھائیوں کے گھر میں آ جاؤں ؟ یہ مجھے زیادہ پسند ہے، اس میں میرے بعض کام زیادہ چل جائیں گے، آپ ﷺ نے فرمایا :  اگر تم چاہتی ہو تو ایسا کرلو ۔ فریعہ (رض) نے کہا کہ میں یہ سن کر ٹھنڈی آنکھوں کے ساتھ خوش خوش نکلی کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ کی زبان پہ مجھے حکم دیا تھا، یہاں تک کہ میں ابھی مسجد میں یا حجرہ ہی میں تھی کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے بلایا اور فرمایا :  کیا کہتی ہو ؟ میں نے سارا قصہ پھر بیان کیا، تو آپ ﷺ نے فرمایا :  اسی گھر میں جہاں تمہارے شوہر کے انتقال کی خبر آئی ہے ٹھہری رہو یہاں تک کہ کتاب  (قرآن)  میں لکھی ہوئی عدت  (چار ماہ دس دن)  پوری ہوجائے، فریعہ (رض) کہتی ہیں : پھر میں نے اسی گھر میں چار ماہ دس دن عدت کے گزارے ۔    تخریج دارالدعوہ :  سنن ابی داود/الطلاق ٤٤ (٢٣٠٠) ، سنن الترمذی/الطلاق ٢٣ (١٢٠٤) ، سنن النسائی/الطلاق ٦٠ (٣٥٥٨) ، (تحفة الأشراف : ١٨٠٤٥) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الطلاق ٣١ (٨٧) ، مسند احمد (٦/٣٧٠، ٤٢١) (صحیح  )   
حدیث نمبر: 2031  حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الْأَحْمَرُ سُلَيْمَانُ بْنُ حَيَّانَ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِسْحَاق بْنِ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ، عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ، وَكَانَتْ تَحْتَ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ أَنَّ أُخْتَهُ الْفُرَيْعَةَ بِنْتَ مَالِكٍ، قَالَتْ: خَرَجَ زَوْجِي فِي طَلَبِ أَعْلَاجٍ لَهُ، فَأَدْرَكَهُمْ بِطَرَفِ الْقَدُومِ فَقَتَلُوهُ، فَجَاءَ نَعْيُ زَوْجِي وَأَنَا فِي دَارٍ مِنْ دُورِ الْأَنْصَارِ شَاسِعَةٍ، عَنْ دَارِ أَهْلِي، فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، جَاءَ نَعْيُ زَوْجِي، وَأَنَا فِي دَارٍ شَاسِعَةٍ عَنْ دَارِ أَهْلِي وَدَارِ إِخْوَتِي وَلَمْ يَدَعْ مَالًا يُنْفِقُ عَلَيَّ، وَلَا مَالًا وَرِثْتُهُ وَلَا دَارًا يَمْلِكُهَا، فَإِنْ رَأَيْتَ أَنْ تَأْذَنَ لِي، فَأَلْحَقَ بِدَارِ أَهْلِي وَدَارِ إِخْوَتِي، فَإِنَّهُ أَحَبُّ إِلَيَّ وَأَجْمَعُ لِي فِي بَعْضِ أَمْرِي، قَالَ: فَافْعَلِي إِنْ شِئْتِ، قَالَتْ: فَخَرَجْتُ قَرِيرَةً عَيْنِي، لِمَا قَضَى اللَّهُ لِي عَلَى لِسَانِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى إِذَا كُنْتُ فِي الْمَسْجِدِ، أَوْ فِي بَعْضِ الْحُجْرَةِ دَعَانِي، فَقَالَ: كَيْفَ زَعَمْتِ؟، قَالَتْ: فَقَصَصْتُ عَلَيْهِ، فَقَالَ: امْكُثِي فِي بَيْتِكِ الَّذِي جَاءَ فِيهِ نَعْيُ زَوْجِكِ، حَتَّى يَبْلُغَ الْكِتَابُ أَجَلَهُ، قَالَتْ: فَاعْتَدَدْتُ فِيهِ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ২০৩২
طلاق کا بیان
دوران عدت خاتون گھر سے باہر جاسکتی ہے یا نہیں ؟
 عروہ کہتے ہیں کہ  میں نے مروان کے پاس جا کر کہا کہ آپ کے خاندان کی ایک عورت کو طلاق دے دی گئی، میرا اس کے پاس سے گزر ہوا تو دیکھا کہ وہ گھر سے منتقل ہو رہی ہے، اور کہتی ہے : فاطمہ بنت قیس (رض) نے ہمیں حکم دیا ہے اور ہمیں بتایا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے انہیں گھر بدلنے کا حکم دیا تھا، مروان نے کہا : اسی نے اسے حکم دیا ہے۔ عروہ کہتے ہیں کہ تو میں نے کہا : اللہ کی قسم، عائشہ (رض) نے اس چیز کو ناپسند کیا ہے، اور کہا ہے کہ فاطمہ (رض) ایک خالی ویران مکان میں تھیں جس کی وجہ سے ان کے بارے میں ڈر پیدا ہوا، اسی لیے رسول اللہ ﷺ نے ان کو مکان بدلنے کی اجازت دی  ١ ؎۔    تخریج دارالدعوہ :  صحیح البخاری/الطلاق ١٤ (٥٣٢١، ٥٣٢٦، تعلیقاً ) ، سنن ابی داود/الطلاق ٤٠ (٢٢٩٢) ، (تحفة الأشراف : ١٧٠١٨) (حسن) (سند میں عبد العزیز بن عبد اللہ اور عبد الرحمن بن ابی الزناد ضعیف ہیں، لیکن شواہد کی بناء پر یہ حدیث حسن ہے، نیز ملاحظہ ہو : صحیح ابی داود : ١٩٨٤ و فتح الباری : ٩ /٤٢٩- ٤٨٠  )    وضاحت :  ١ ؎: دوسری روایت میں ہے کہ زبان درازی کی وجہ سے آپ  ﷺ نے ان کو اجازت دی تاکہ لڑائی نہ ہو، مروان نے کہا : اس بیوی اور شوہر میں بھی ایسی لڑائی ہے، لہٰذا اس کا ہٹا دینا بجا ہے، غرض مروان نے یہ قیاس کیا۔   
حدیث نمبر: 2032  حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى مَرْوَانَ، فَقُلْتُ لَهُ: امْرَأَةٌ مِنْ أَهْلِكَ طُلِّقَتْ، فَمَرَرْتُ عَلَيْهَا وَهِيَ تَنْتَقِلُ، فَقَالَتْ: أَمَرَتْنَا فَاطِمَةُ بِنْتُ قَيْسٍ وَأَخْبَرَتْنَا، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَهَا أَنْ تَنْتَقِلَ، فَقَالَ مَرْوَانُ: هِيَ أَمَرَتْهُمْ بِذَلِكَ، قَالَ عُرْوَةُ: فَقُلْتُ: أَمَا وَاللَّهِ لَقَدْ عَابَتْ ذَلِكَ عَائِشَةُ، وَقَالَتْ: إِنَّ فَاطِمَةَ كَانَتْ فِي مَسْكَنٍ وَحْشٍ، فَخِيفَ عَلَيْهَا، فَلِذَلِكَ أَرْخَصَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ২০৩৩
طلاق کا بیان
دوران عدت خاتون گھر سے باہر جاسکتی ہے یا نہیں ؟
 ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ  فاطمہ بنت قیس (رض) نے کہا : اللہ کے رسول ! میں ڈرتی ہوں کہ کوئی میرے پاس گھس آئے، تو آپ نے انہیں وہاں سے منتقل ہوجانے کا حکم دیا۔    تخریج دارالدعوہ :  صحیح مسلم/الطلاق ٦ (١٤٨٢) ، سنن النسائی/الطلاق ٧٠ (٣٥٧٧) ، (تحفة الأشراف : ١٨٠٣٢) (صحیح  )   
حدیث نمبر: 2033  حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: قَالَتْ فَاطِمَةُ بِنْتُ قَيْسٍ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي أَخَافُ أَنْ يُقْتَحَمَ عَلَيَّ فَأَمَرَهَا، أَنْ تَتَحَوَّلَ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ২০৩৪
طلاق کا بیان
دوران عدت خاتون گھر سے باہر جاسکتی ہے یا نہیں ؟
 جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ  میری خالہ کو طلاق دے دی گئی، پھر انہوں نے اپنی کھجوریں توڑنے کا ارادہ کیا، تو ایک شخص نے انہیں گھر سے نکل کر باغ جانے پر ڈانٹا تو وہ نبی اکرم ﷺ کے پاس آئیں، آپ ﷺ نے فرمایا :  ٹھیک ہے، تم اپنی کھجوریں توڑو، ممکن ہے تم صدقہ کرو یا کوئی کار خیر انجام دو   ١ ؎۔    تخریج دارالدعوہ :  صحیح مسلم/الطلاق ٧ (١٤٨١) ، سنن ابی داود/الطلاق ٤١ (٢٢٩٧) ، سنن النسائی/الطلاق ٧١ (٣٥٨٠) ، (تحفة الأشراف : ٢٧٩٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣٢١) ، سنن الدارمی/الطلاق ١٤ (٢٣٣٤) (صحیح  )    وضاحت :  ١ ؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جو عورت طلاق کی عدت میں ہو اس کا گھر سے نکلنا جائز ہے۔   
حدیث نمبر: 2034  حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ، حَدَّثَنَا رَوْحٌ . ح وحَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ جَمِيعًا، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، أَخْبَرَنِي أَبُو الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: طُلِّقَتْ خَالَتِي، فَأَرَادَتْ أَنْ تَجُدَّ نَخْلَهَا فَزَجَرَهَا رَجُلٌ، أَنْ تَخْرُجَ إِلَيْهِ، فَأَتَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: بَلَى، فَجُدِّي نَخْلَكِ، فَإِنَّكِ عَسَى أَنْ تَصَدَّقِي، أَوْ تَفْعَلِي مَعْرُوفًا.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ২০৩৫
طلاق کا بیان
جس عورت کو طلاق دی جائے تو عدت تک شوہر پر رہائش ونفقہ دینا واجب ہے یا نہیں ؟
 ابوبکر بن ابی جہم بن صخیر عدوی کہتے ہیں کہ  میں نے فاطمہ بنت قیس (رض) کو کہتے سنا کہ ان کے شوہر نے انہیں تین طلاقیں دے دیں، تو رسول اللہ ﷺ نے انہیں سکنیٰ  (جائے رہائش)  اور نفقہ کا حقدار نہیں قرار دیا  ١ ؎۔    تخریج دارالدعوہ :  صحیح مسلم/الطلاق ٦ (١٤٨٠) ، سنن الترمذی/النکاح ٣٨ (١١٣٥) ، سنن النسائی/الطلاق ١٥ (٣٤٤٧) ، ٧٢ (٣٥٨١) ، (تحفة الأشراف : ١٨٠٣٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٤١١) (صحیح  )    وضاحت :  ١ ؎: اہلحدیث کے نزدیک طلاق رجعی والی عورت کا نفقہ (خرچ) اور سکنی (رہائش) شوہر پر واجب ہے، اور جس کو طلاق بائنہ یعنی تین طلاق دی جائیں اس کے لئے نہ نفقہ ہے نہ سکنی، امام احمد، اسحاق، ابو ثور، ابو داود اور ان کے اتباع کا یہی مذہب ہے، اور بحر میں ابن عباس رضی اللہ عنہما، حسن بصری، عطاء، شعبی، ابن ابی لیلیٰ ، اوزاعی اور امامیہ کا قول بھی یہی نقل کیا گیا ہے، اسی طرح جس عورت کا شوہر وفات پا گیا ہو اس کے لئے بھی عدت میں نفقہ اور سکنی نہیں ہے، اہلحدیث کے نزدیک البتہ حاملہ ہو تو وضع حمل تک نفقہ اور سکنی واجب ہے خواہ وفات پائے ہوئے شوہر والی ہو یا طلاق بائن والی کیونکہ قرآن میں ہے : وَإِن كُنَّ أُولاتِ حَمْلٍ فَأَنفِقُوا عَلَيْهِنَّ حَتَّى يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ (سورة الطلاق : 6) ۔   
حدیث نمبر: 2035  حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ،  وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَبِي الْجَهْمِ بْنِ صُخَيْرٍ الْعَدَوِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ فَاطِمَةَ بِنْتَ قَيْسٍ، تَقُولُ: إِنَّ زَوْجَهَا طَلَّقَهَا ثَلَاثًا، فَلَمْ يَجْعَلْ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُكْنَى وَلَا نَفَقَةً.  

তাহকীক: