কিতাবুস সুনান - ইমাম ইবনে মাজা' রহঃ (উর্দু)
كتاب السنن للإمام ابن ماجة
کفاروں کا بیان۔ - এর পরিচ্ছেদসমূহ
মোট হাদীস ২০ টি
হাদীস নং: ২০৯০
کفاروں کا بیان۔
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کس چیز کی قسم کھاتے ؟
 رفاعہ جہنی (رض) کہتے ہیں کہ  نبی اکرم ﷺ جب قسم کھاتے تو یہ فرماتے : والذي نفس محمد بيده  قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے   ١ ؎۔    تخریج دارالدعوہ :  تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٣٦١٢، ومصباح الزجاجة : ٧٣٥) (صحیح) (اس سند میں محمد بن مصعب ضعیف راوی ہیں، لیکن یہ شواہد کی بناء پر صحیح ہے  )    وضاحت :  ١ ؎: اس سے معلوم ہوا کہ قسم کھانی جائز ہے، بشرطیکہ سچ بات پر کھائے، لیکن یہ ضروری ہے کہ سوائے اللہ کے نام یا اس کی صفت کے دوسرے کسی کی قسم نہ کھائے۔   
حدیث نمبر: 2090  حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُصْعَبٍ، عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ هِلَالِ بْنِ أَبِي مَيْمُونَةَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ رِفَاعَةَ الْجُهَنِيِّ، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا حَلَفَ قَالَ: وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ২০৯১
کفاروں کا بیان۔
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کس چیز کی قسم کھاتے ؟
 رفاعہ بن عرابہ جہنی (رض) کہتے ہیں کہ  میں اللہ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ رسول اللہ ﷺ کی قسم جو آپ کھایا کرتے تھے، یوں ہوتی تھی : والذي نفسي بيده  قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ۔    تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٣٦١٢، ومصباح الزجاجة : ٧٣٦) (صحیح)  (سند میں عبد الملک صنعانی ضعیف راوی ہے، لیکن حدیث شواہد کی بناء پر صحیح ہے  )   
حدیث نمبر: 2091  حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ مُحَمَّدٍ الصَّنْعَانِيُّ، حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْهِلَالِ بْنِ أَبِي مَيْمُونَةَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ رِفَاعَةَ بْنِ عَرَابَةَ الْجُهَنِيِّ، قَالَ: كَانَتْ يَمِينُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّتِي يَحْلِفُ بِهَا أَشْهَدُ عِنْدَ اللَّهِ، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ২০৯২
کفاروں کا بیان۔
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کس چیز کی قسم کھاتے ؟
 عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ ﷺ کی قسم اکثر یوں ہوتی تھی : لا ومصرف القلوب  قسم ہے اس ذات کی جو دلوں کو پھیرنے والا ہے ۔    تخریج دارالدعوہ :  سنن النسائی/الأیمان والنذور ١ (٣٧٩٣) ، (تحفة الأشراف : ٦٨٦٥) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/القدر ١٤ (٦٦١٧) ، الأیمان ٣ (٦٦٢٨) ، التوحید ١١ (٧٣٩١) ، سنن ابی داود/الأیمان والنذور ١٢ (٣٢٦٣) ، سنن الترمذی/الأیمان ١٢ (١٥٤٠) ، مسند احمد (٢/٢٦، ٦٧، ١٢٧) ، سنن الدارمی/الأیمان والنذور ١٢ (٢٣٩٥) (حسن  )   
حدیث نمبر: 2092  حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاق الشَّافِعِيُّ إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْعَبَّاسِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ رَجَاءٍ الْمَكِّيُّ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ إِسْحَاق، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: كَانَتْ أَكْثَرُ أَيْمَانِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا وَمُصَرِّفِ الْقُلُوبِ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ২০৯৩
کفاروں کا بیان۔
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کس چیز کی قسم کھاتے ؟
 ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ ﷺ کی قسم یوں ہوتی تھی : لا وأستغفر الله  ایسا نہیں ہے، اور میں اللہ تعالیٰ سے استغفار کرتا ہوں   ١ ؎۔    تخریج دارالدعوہ :  سنن ابی داود/الأیمان والنذور ١٢ (٣٢٦٥) ، (تحفة الأشراف : ١٤٨٠٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٨٨) (ضعیف)  (سند میں محمد بن ہلال اور ان کے والد دونوں مجہول ہیں، نیز ملاحظہ ہو : المشکاة :  ٣٤٢٣  )    وضاحت :  ١ ؎: لغو وہ قسم ہے جو آدمی کی زبان پر بےقصد و ارادہ جاری ہوجائے، اس سے کوئی کفارہ لازم نہیں آتا، یہ قسمیں آپ کی اسی قبیل سے ہوتیں مگر اس سے بھی آپ  ﷺ نے استغفار کیا تاکہ امت کے لوگ اس سے بھی پرہیز کریں، صحیح بخاری میں ہے کہ اکثر آپ  ﷺ یوں قسم کھاتے تھے : لا ومقلب القلوب اور صحیحین میں ہے کہ آپ  ﷺ نے ارشاد فرمایا : وأيم الله إن کان لخليقاً للإمارة یعنی، اللہ کی قسم ! زید بن حارثہ امیر ہونے کے لائق تھا، اور جبریل (علیہ السلام) نے اللہ سے کہا : رب تیری عزت کی قسم، جو کوئی اس کو سن پائے گا، وہ جنت میں جائے گا۔   
حدیث نمبر: 2093  حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ خَالِدٍ . ح وحَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ حُمَيْدِ بْنِ كَاسِبٍ، حَدَّثَنَا مَعْنُ بْنُ عِيسَى جَمِيعًا، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ هِلَالٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: كَانَتْ يَمِينُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا وَأَسْتَغْفِرُ اللَّهَ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ২০৯৪
کفاروں کا بیان۔
ماسوا اللہ (کی ذات کے) کے قسم کھانے کی ممانعت۔
 عمر (رض) سے روایت ہے کہ  رسول اللہ ﷺ نے انہیں باپ کی قسم کھاتے ہوئے سنا تو فرمایا :  اللہ تمہیں باپ دادا کی قسم کھانے سے منع کرتا ہے ، اس کے بعد میں نے کبھی باپ دادا کی قسم نہیں کھائی، نہ اپنی طرف سے، اور نہ دوسرے کی نقل کر کے  ١ ؎۔    تخریج دارالدعوہ :  صحیح البخاری/الأیمان ٤ (٦٦٤٧) ، صحیح مسلم/الأیمان والنذور ٥ (١٦٤٦) ، سنن النسائی/الأیمان والنذور ٤ (٣٧٩٨) ، سنن ابی داود/الأیمان والنذور ٥ (٣٢٥٠) ، (تحفة الأشراف : ١٠٥١٨) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الأیمان ٨ (١٥٣٣) ، مسند احمد (٢/١١، ٣٤، ٦٩، ٨٧، ١٢٥، ١٤٢) (صحیح  )    وضاحت :  ١ ؎: امام مسلم کی روایت میں اتنا زیادہ ہے کہ آپ  ﷺ نے فرمایا : پھر جو کوئی قسم کھانا چاہے تو اللہ کی قسم کھائے یا چپ رہے۔   
حدیث نمبر: 2094  حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عُمَرَ الْعَدَنِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْأَبِيهِ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الَخَطَّابِ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَمِعَهُ يَحْلِفُ بِأَبِيهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ اللَّهَ يَنْهَاكُمْ، أَنْ تَحْلِفُوا بِآبَائِكُمْ، قَالَ عُمَرُ: فَمَا حَلَفْتُ بِهَا ذَاكِرًا، وَلَا آثِرًا.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ২০৯৫
کفاروں کا بیان۔
ماسوا اللہ (کی ذات کے) کے قسم کھانے کی ممانعت۔
 عبدالرحمٰن بن سمرہ (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :  نہ طاغوتوں  (بتوں)  کی، اور نہ اپنے باپ دادا کی قسم کھاؤ ۔    تخریج دارالدعوہ :  صحیح مسلم/الایمان ٢ (١٦٤٨) ، سنن النسائی/الأیمان ٩ (٣٨٠٥) ، (تحفة الأشراف : ٩٦٩٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٦٢) (صحیح  )   
حدیث نمبر: 2095  حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَمُرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا تَحْلِفُوا بِالطَّوَاغِي وَلَا بِآبَائِكُمْ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ২০৯৬
کفاروں کا بیان۔
ماسوا اللہ (کی ذات کے) کے قسم کھانے کی ممانعت۔
 ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :  جس نے قسم کھائی، اور اپنی قسم میں لات اور عزیٰ کی قسم کھائی، تو اسے چاہیئے کہ وہ لا إله إلا الله کہے :  اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں   ١ ؎۔    تخریج دارالدعوہ :  صحیح البخاری/تفسیر سورة النجم ٢ (٤٨٦٠) ، الادب ٧٤ (٦١٠٧) ، الاستئذان ٥٢ (٦٣٠١) ، الأیمان ٥ (٦٦٥٠) ، صحیح مسلم/الأیمان ٢ (١٦٤٧) ، سنن ابی داود/الایمان ٤ (٢٣٤٧) ، سنن الترمذی/الأیمان ١٧ (١٥٤٥) ، سنن النسائی/الأیمان ١٠ (٣٨٠٦) ، (تحفة الأشراف : ١٢٢٧٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣٠٩) (صحیح  )    وضاحت :  ١ ؎:  لات  اور  عزی  دو بڑے بت تھے جن کی زمانہ جاہلیت میں عرب عبادت کرتے تھے، واضح رہے اگر بےاختیار عادت کے طور پر ان کا نام نکل جائے اور دل میں ان کی کوئی تعظیم نہ ہو تو آدمی کافر نہ ہوگا، اگر تعظیم کی نیت سے کہا تو وہ کافر و مرتد ہے، اس پر دوبارہ اسلام لانا واجب ہے (لمعات التنقیح) ۔   
حدیث نمبر: 2096  حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدِّمَشْقِيُّ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْوَاحِدِ، عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنْ حَلَفَ، فَقَالَ فِي يَمِينِهِ: بِاللَّاتِ وَالْعُزَّى، فَلْيَقُلْ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ২০৯৭
کفاروں کا بیان۔
ماسوا اللہ (کی ذات کے) کے قسم کھانے کی ممانعت۔
 سعد (رض) کہتے ہیں کہ  میں نے لات اور عزیٰ کی قسم کھالی، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :  تم  لا إله إلا الله وحده لا شريك له  اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں اس کا کوئی شریک نہیں ، پھر اپنے بائیں طرف تین بار تھو تھو کرو، اور  اعوذ باللہ  کہو   میں شیطان سے اللہ تعالیٰ کی پناہ چاہتا ہوں   پھر ایسی قسم نہ کھانا   ١ ؎۔    تخریج دارالدعوہ :  سنن النسائی/الأیمان والنذور ١١ (٣٨٠٧) ، (تحفة الأشراف : ٣٩٣٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/١٨٣) (ضعیف) (سند میں ابو اسحاق مختلط ومدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، ملاحظہ ہو : إلارواء : ٨/١٩٢  )    وضاحت : ١ ؎: اس حدیث سے اور اوپر کی حدیث سے یہ نکلتا ہے کہ اگر غیر اللہ کی قسم اس کو معظم سمجھ کر کھائے تو آدمی کافر ہوجاتا ہے، لیکن معظم سمجھنے سے کیا مراد ہے ؟ اس میں علماء کا اختلاف ہے، بعضوں نے کہا : ان کو اللہ تعالیٰ کے برابر اور ہمسر سمجھے، لیکن ایسا تو کفار و مشرکین بھی نہیں سمجھتے تھے، وہ بھی جانتے تھے کہ اللہ سب سے بڑا ہے، اور آسمان اور زمین کا وہی خالق ہے جیسے اس آیت میں ہے : وَلَئِن سَأَلْتَهُم مَّنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضَ لَيَقُولُنَّ اللَّهُ  ( سورة لقمان : 25 )  اور اس آیت میں : مَا نَعْبُدُهُمْ إِلا لِيُقَرِّبُونَا إِلَى اللَّهِ زُلْفَى  ( سورة الزمر :3 )  یعنی ہم بتوں کو اس لئے پوجتے ہیں تاکہ وہ ہم کو اللہ کے نزدیک کردیں، اور یہ مسئلہ بڑا نازک ہے اور شرک کا معاملہ بہت بڑا ہے، شرک ایسا گناہ ہے جو کبھی نہیں بخشا جائے گا، پس ہر مسلمان کو اس سے پرہیز کرنا چاہیے، شرک یہ ہے کہ جب اللہ کے علاوہ کسی کو کوئی اس لائق سمجھے کہ وہ بغیر اللہ کی مشیت اور ارادے کے کوئی برائی یا بھلائی کا کام کرسکتا ہے، یا اس کا کچھ زور اللہ تعالیٰ پر ہے، معاذ اللہ، دنیا کے بادشاہوں کی طرح جیسے وہ اپنے نائبوں کا لحاظ رکھتے ہیں، یہ ڈر کر کہ اگر وہ ناراض ہوجائیں گے تو ان کے کارخانہ میں خلل ہوجائے گا۔ یا وہ اللہ کی طرح ہر پکارنے والے کی پکار سن لیتا ہے، یا نزدیک ہو یا دور، یا ہر مشکل کے وقت نزدیک ہو یا دور کام آسکتا ہے، یا ہر بات دیکھتا اور سنتا ہے، تو اس نے شرک کیا، گو وہ اس کو اللہ کے برابر نہ سمجھے، معظم سمجھنے کے یہی معنی ہیں، یہ مطلب نہیں ہے کہ غیر اللہ کی عظمت بالکل نہ کرے، انبیاء ورسل، فرشتوں اور اولیاء وصلحاء کی تعظیم ہماری شریعت میں ہے، مگر یہ تعظیم یہی ہے کہ ان سے محبت کی جائے، ان کو اللہ کا نیک بندہ سمجھا جائے، مگر یہ نہیں ہوسکتا کہ وہ اللہ کی مشیت کے بغیر کسی کا رتی بھر کام نکال سکتے ہیں، یا اللہ تعالیٰ کے حکم میں کچھ چوں چرا کرسکتے ہیں، یا ان کا کچھ زور۔ معاذ اللہ۔ اللہ تعالیٰ پر ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کو کسی سے رتی برابر بھی ڈر و خوف نہیں ہے۔ اور یہ سب اگر اللہ تعالیٰ کے حکم کے خلاف متحد ہوجائیں تو وہ ایک لحظہ میں ان سب کو تباہ و برباد کرسکتا ہے، اور ان سب کے خلاف ہوجانے سے اس کا ذرہ برابر بھی کوئی کام متاثر نہیں ہوسکتا، یہ موحدوں کا اعتقاد ہے، پس موحد جب غیر اللہ کی قسم کھائے گا تو یقینا کہا جائے گا کہ اس کی قسم لغو اور عادت کے طور پر ہے کیونکہ ممکن نہیں کہ موحد غیر اللہ میں سے کسی میں کچھ بالاستقلال قدرت یا اختیار سمجھے۔ جو شرکیہ افعال کیا کرتا ہے لیکن نام کا مسلمان ہے وہ جب غیر اللہ کی قسم کھائے گا تو شرک کا گمان اس کی طرف اور زیادہ قوی ہوگا، اور بہت مسلمان ایسے ہیں کہ اللہ کی قسم کہو تو وہ سو کھا ڈالیں لیکن کیا ممکن ہے کہ اپنے پیر مرشد یا مدار یا سالار یا غوث کی جھوٹی قسم کھائیں، ان کے مشرک ہونے میں تو کوئی شبہ نہیں ہے، اب یہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ جو چیزیں ہماری شریعت میں بالکل لائق تعظیم نہیں ہیں بلکہ ان کی تحقیر اور توڑ ڈالنے کا حکم ہے، جیسے بت، اور تعزیہ والے جھنڈے وغیرہ ان کی تو ذرا سی تعظیم بھی کفر ہے، اس لیے کہ ان کی تعظیم مشرکین کی خاص نشانی ہے مثلاً ایک شخص رسول اللہ  ﷺ کی قبر یا کسی ولی یا نبی کی قبر پر ہاتھ باندھ کر کھڑا ہو، اور دوسرا شخص کسی بت کے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑا ہو تو دوسرے شخص کے کفر میں کوئی شبہ نہ رہے گا، لیکن پہلے شخص کی نیت معلوم کی جائے گی، اگر عبادت کی نیت سے اس نے ایسا کیا تو وہ بھی کافر ہوجائے گا، اور جو صرف ادب اور تعظیم میں ایسا کیا لیکن عقیدہ اس کا توحید کا ہے، تو وہ کافر نہ ہوگا مگر شرع کے خلاف کرنے پر اس کو اس سے منع کیا جائے گا۔ اکثر علماء محققین نے اس فرق کو مانا ہے، اور بعضوں نے اس باب میں دونوں کا حکم ایک سا رکھا ہے جو فعل ایک کے ساتھ کفر ہے وہ دوسرے کے ساتھ بھی کفر ہے، مثلاً بت کا سجدہ بھی کفر ہے اور قبر کا سجدہ بھی کفر ہے البتہ فرق یہ ہے کہ بت کی اہانت و تذلیل اور اس کے توڑنے کا حکم ہے، اور مومنین صالحین کی قبریں کھودنے کا حکم نہیں ہے اور یہ فرقہ کہتا ہے کہ انبیاء، اولیاء، ملائکہ اور شعائر اللہ کی تعظیم درحقیقت اللہ کی ہی تعظیم ہے کیونکہ اللہ ہی کے حکم سے اللہ کا مقبول بندہ سمجھ کر اس کی تعظیم کرتے ہیں، پس یہ غیر اللہ کی تعظیم نہیں ہوئی بلکہ صلحاء کی تعظیم ہوئی، وہ اس میں مستثنیٰ رہے گی، اس لیے کہ وہ اللہ ہی کی تعظیم ہے۔ اس فائدہ کو یاد رکھنا چاہیے اور ممکنہ حد تک جس کام میں شرک شک و شبہ بھی ہو اسے باز رہنا چاہیے۔   
حدیث نمبر: 2097  حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ،  وَالْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ، قَالَا: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْمُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ سَعْدٍ، قَالَ: حَلَفْتُ بِاللَّاتِ وَالْعُزَّى، فقال رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: قُلْ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، ثُمَّ انْفُثْ عَنْ يَسَارِكَ ثَلَاثًا وَتَعَوَّذْ وَلَا تَعُدْ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ২০৯৮
کفاروں کا بیان۔
جس نے ماسوا اسلام کے کسی دین میں چلے جانے کی قسم کھائی۔
 ثابت بن ضحاک (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :  جس نے اسلام کے سوا کسی اور دین میں چلے جانے کی جھوٹی قسم جان بوجھ کر کھائی، تو وہ ویسے ہی ہوگا جیسا اس نے کہا   ١ ؎۔    تخریج دارالدعوہ :  صحیح البخاری/الجنائز ٨٣ (١٣٦٣) ، الأدب ٤٤ (٦٠٤٧) ، ٧٣ (٦١٠٥) ، الأیمان ٧ (٦٦٥٢) ، صحیح مسلم/الإیمان ٤٧ (١١٠) ، سنن ابی داود/الأیمان ٩ (٣٢٥٧) ، سنن الترمذی/الأیمان ١٥ (١٥٤٣) ، سنن النسائی/الأیمان ٦ (٣٨٠١) ، ٣١ (٣٨٢٢) ، (تحفة الأشراف : ٢٠٦٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٣، ٣٤) (صحیح  )    وضاحت : ١ ؎: مثلاً یوں کہا : اگر میں فلاں کام کروں تو یہودی ہوں، یا نصرانی ہوں، یا اسلام سے یا نبی سے بری ہوں۔ اور اس کی طرح ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ کافر ہوجائے گا، اور اسلام سے نکل جائے گا، ظاہر حدیث کا یہی مطلب ہے، واضح رہے کہ نبی اکرم  ﷺ نے اتنی سختی سے یہ بات اس لیے فرمائی کہ لوگ ایسا کہنے سے بچیں، ورنہ اگر اس کا عقیدہ اسلام کا ہے تو کافر نہ ہوگا۔   
حدیث نمبر: 2098  حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ ثَابِتِ بْنِ الضَّحَّاكِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ حَلَفَ بِمِلَّةٍ سِوَى الْإِسْلَامِ كَاذِبًا مُتَعَمِّدًا فَهُوَ كَمَا قَالَ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ২০৯৯
کفاروں کا بیان۔
جس نے ماسوا اسلام کے کسی دین میں چلے جانے کی قسم کھائی۔
 انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ  نبی اکرم ﷺ نے ایک آدمی کو کہتے ہوئے سنا کہ اگر میں ایسا کروں تو یہودی ہوں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :  اس پر یہ قسم واجب ہوگئی ۔    تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٣١٠، ومصباح الزجاجة : ٧٣٧) (ضعیف جدا)   ( سند میں بقیہ بن ولید مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، اور عبد اللہ بن محرر منکر الحدیث اور متروک ہے  )   
حدیث نمبر: 2099  حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَرَّرٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: سَمِعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلًا يَقُولُ: أَنَا إِذًا لَيَهُودِيٌّ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَجَبَتْ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ২১০০
کفاروں کا بیان۔
جس نے ماسوا اسلام کے کسی دین میں چلے جانے کی قسم کھائی۔
 بریدہ (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :  جو شخص کہے اگر ایسا کروں تو اسلام سے بری ہوں، اگر وہ جھوٹا ہے تو ویسا ہی ہے جیسا اس نے کہا، اور اگر وہ اپنی بات میں سچا ہے تو بھی اسلام کی جانب صحیح سالم سے نہیں لوٹے گا   ١ ؎۔    تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الأیمان ٩ (٣٢٥٨) ، سنن النسائی/الأیمان ٧ (٣٨٠٣) ، (تحفة الأشراف : ١٩٥٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٣٥٥، ٣٥٦) (صحیح  )    وضاحت : ١ ؎: کیونکہ اس نے اسلام کی عظمت تسلیم نہیں کی، اور دین کو ایسا حقیر سمجھا کہ بات بات پر اس سے جدا ہوجانے کی شرط لگاتا ہے، مسلمان کو ہرگز ایسی شرط نہ لگانی چاہیے، گو وہ کتنا ہی بڑا کام ہو، اپنا دین سب سے زیادہ پیارا ہے، اور سب پر مقدم ہے، کوئی کام ہو یا نہ ہو، دین کی شرط لگانے سے کیا فائدہ ؟ اور حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ جو کوئی ایسی شرط لگائے، پھر اس میں سچا بھی ہو جب بھی گنہگار ہوگا، اور اس کے دین میں خلل آئے گا۔   
حدیث نمبر: 2100  حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ رَافِعٍ الْبَجَلِيُّ، حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى، عَنْ الْحُسَيْنِ بْنِ وَاقِدٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْأَبِيهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ قَالَ: إِنِّي بَرِيءٌ مِنَ الْإِسْلَامِ، فَإِنْ كَانَ كَاذِبًا، فَهُوَ كَمَا قَالَ، وَإِنْ كَانَ صَادِقًا لَمْ يَعُدْ إِلَى الْإِسْلَامِ سَالِمًا.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ২১০১
کفاروں کا بیان۔
جس کے سامنے اللہ کی قسم کھائی جائے اس کو راضی بہ رضا ہوجانا چاہئے۔
 عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ  نبی اکرم ﷺ نے ایک آدمی کو باپ کی قسم کھاتے ہوئے سنا تو فرمایا :  اپنے باپ دادا کی قسمیں نہ کھاؤ، جو شخص اللہ کی قسم کھائے تو چاہیئے کہ وہ سچ کہے، اور جس سے اللہ کی قسم کھا کر کوئی بات کہی جائے تو اس کو راضی ہونا چاہیئے، اور جو شخص اللہ تعالیٰ کے نام پہ راضی نہ ہو وہ اللہ سے کچھ تعلق نہیں رکھتا   ١ ؎۔    تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٨٤٣٩، ومصباح الزجاجة : ٧٣٨) (صحیح  )    وضاحت :  ١ ؎: مطلب یہ ہے کہ جب مسلمان نے اللہ کی قسم کھائی، تو اب اس کے بیان کو مان لینا اور اس پر رضا مند ہوجانا چاہیے، اب اس سے یوں نہ کہنا چاہیے کہ تمہاری قسم جھوٹی ہے، یا اللہ کے سوا اب کسی اور شخص کی اس کو قسم نہ کھلانی چاہیے، جیسے جاہلوں کا ہمارے زمانہ میں حال ہے کہ اللہ کی قسم کھانے پر ان کی تسلی نہیں ہوتی، اور اس کے بعد پیر و مرشد یا نبی و رسول یا کعبہ یا ماں باپ کی قسم کھلاتے ہیں، یہ نری حماقت اور سراسر جہالت ہے، اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر کسی کا درجہ نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کے برابر بھی کوئی نہیں ہے، سب سے زیادہ مومن کو اللہ کے نام کی حرمت و عزت اور عظمت کرنی چاہیے، اور احتیاط رکھنی چاہیے کہ اول تو اللہ کے سوا اور کسی کی قسم ہی نہ کھائے، اور اگر عادت کے طور پر اور کسی کے نام کی قسم نکل جائے اور جھوٹ اور غلط ہوجائے تو فوراً لا إِلَهَ إِلا الله کہے یعنی میں اللہ رب العالمین کے سوا کسی اور کو اس معاملے میں عظمت و احترام کے لائق نہیں جانتا غیر کے الفاظ تو یونہی سہواً یا عادتاً میرے زبان سے نکل گئے تھے، مگر ایک بات یاد رہے کہ اللہ کے نام کی کبھی جھوٹی قسم نہ کھائے، اگر پیر، رسول، نبی، مرشد، ولی، غوث اور قطب وغیرہ کے نام پر لاکھوں قسمیں جھوٹ ہوجائیں تو اتنا ڈر نہیں ہے جتنا اللہ تعالیٰ کے نام کی ایک قسم جھوٹ ہونے سے ہے، یہ حکم مسلمانوں کے لئے ہے کہ جب وہ اللہ کی قسم کھا لیں تو اب زیادہ تکلیف ان کو نہ دی جائے کہ وہ کسی اور کے نام کی بھی قسم کھائیں۔   
حدیث نمبر: 2101  حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل بْنِ سَمُرَةَ، حَدَّثَنَا أَسْبَاطُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَجْلَانَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: سَمِعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلًا يَحْلِفُ بِأَبِيهِ، فَقَالَ: لَا تَحْلِفُوا بِآبَائِكُمْ مَنْ حَلَفَ بِاللَّهِ فَلْيَصْدُقْ، وَمَنْ حُلِفَ لَهُ بِاللَّهِ فَلْيَرْضَ، وَمَنْ لَمْ يَرْضَ بِاللَّهِ فَلَيْسَ مِنَ اللَّهِ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ২১০২
کفاروں کا بیان۔
جس کے سامنے اللہ کی قسم کھائی جائے اس کو راضی بہ رضا ہوجانا چاہئے۔
 ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ  نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :  عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) نے ایک شخص کو چوری کرتے ہوئے دیکھا تو فرمایا :  تم نے چوری کی ہے ؟ اس نے کہا : نہیں، قسم ہے اس ذات کی جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، عیسیٰ (علیہ السلام) نے کہا : میں اللہ پر ایمان لایا، اور میں نے اپنی آنکھ کو جھٹلا دیا   ١ ؎۔    تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : (١٤٨١٦) )، وقد آخرجہ : صحیح البخاری/الأنبیاء ٤٨ (٣٤٤٣ تعلیقاً ) ، صحیح مسلم/الفضائل ٤٠ (٢٣٦٨) ، سنن النسائی/آداب القضاة ٣٦ (٥٤٢٩) ، مسند احمد (٢/٣١٤، ٣٨٣) (صحیح  )    وضاحت :  ١ ؎: یعنی اللہ کی عظمت کے سامنے میری آنکھ کی کوئی حقیقت نہیں ہے، ممکن ہے کہ مجھ کو دھوکا ہوا ہو، آنکھ نے دیکھنے میں غلطی کی ہو، لیکن یہ مجھ سے نہیں ہوسکتا کہ مسلمان کی قسم کو جھٹلاؤں، ہمیشہ صالح، نیک اور بزرگ لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ جب مسلمان ان کے سامنے قسم کھا لیتا ہے تو ان کو یقین آجاتا ہے، اور وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ مسلمان کبھی جھوٹی قسم نہیں کھائے گا۔   
حدیث نمبر: 2102  حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ حُمَيْدِ بْنِ كَاسِبٍ، حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيل، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ يَحْيَى بْنِ النَّضْرِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْأَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: رَأَى عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ رَجُلًا يَسْرِقُ، فَقَالَ: أَسَرَقْتَ، قَالَ: لَا وَالَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ، فَقَالَ عِيسَى: آمَنْتُ بِاللَّهِ وَكَذَّبْتُ بَصَرِي.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ২১০৩
کفاروں کا بیان۔
قسم کھانے میں یا قسم توڑنا ہوتا ہے یا شرمندگی۔
 عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :  قسم یا تو حنث  (قسم توڑنا)  ہے یا ندامت  (شرمندگی)  ہے   ١ ؎۔    تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٧٤٣٤، ومصباح الزجاجة : ٧٣٩) (ضعیف)  (سند میں بشار بن کدام ضعیف راوی ہے  )    وضاحت :  ١ ؎: مطلب یہ ہے کہ قسم اکثر ان دونوں باتوں سے خالی نہیں ہوتی، آدمی اکثر غصے میں بےسوچے سمجھے قسم کھا بیٹھتا ہے کہ فلانی چیز نہ کھائیں گے، یا فلانے سے بات نہ کریں گے، پھر ایسی ضرورت پیش آتی ہے کہ قسم توڑنی پڑتی ہے، اور جب توڑے تو کفارہ دینا پڑا، مال بےفائدہ خرچ ہوا، اور ندامت اور شرمندگی بھی ہوئی، اگر نہ توڑا تو بھی ندامت ہوئی کہ قسم کی وجہ سے ایک لذت سے محروم رہے۔   
حدیث نمبر: 2103  حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ بَشَّارِ بْنِ كِدَامٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّمَا الْحَلِفُ حِنْثٌ أَوْ نَدَمٌ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ২১০৪
کفاروں کا بیان۔
قسم میں انشاء اللہ (اگر اللہ نے چاہا) کہہ دیا تو ؟
 ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :  جس نے قسم کھائی، اور إن شاء الله کہا، تو اس کا إن شاء الله کہنا اسے فائدہ دے گا   ١ ؎۔    تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الأیمان والنذور ٧ (١٥٣٢) ، سنن النسائی/الإیمان والنذور ٤٢ (٣٨٨٦) ، (تحفة الأشراف : ١٣٥٢٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣٠٩) (صحیح  )    وضاحت :  ١ ؎: فائدہ یہ ہوگا کہ اگر قسم کے خلاف بھی کرے تو کفارہ لازم نہ ہوگا، اور آدمی جھوٹا نہ ہوگا، اس لئے کہ اس کی قسم اللہ تعالیٰ ہی کی مشیت پر معلق تھی، معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے ایسا نہ چاہا تو اس نے قسم کے خلاف عمل کیا، یہ قسم کے کفارے سے بچنے کا عمدہ طریقہ ہے، صحیحین میں ہے کہ سلیمان بن داود (علیہما الصلاۃ والسلام) نے فرمایا : میں آج کی رات ستر عورتوں کے پاس جاؤں گا، اخیر حدیث تک، اس میں یہ ہے کہ نبی اکرم  ﷺ نے فرمایا :  اگر وہ انشاء اللہ کہتے تو ان کی بات غلط نہ ہوتی ، اور جمہور کا مذہب ہے کہ جب قسم میں إن شاء الله لگا دے تو وہ منعقد نہ ہوگی، یعنی توڑنے میں کفارہ واجب نہ ہوگا، لیکن شرط یہ ہے کہ إن شاء الله قسم کے ساتھ ہی کہے۔   
حدیث نمبر: 2104  حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْعَظِيمِ الْعَنْبَرِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَنْبَأَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ ابْنِ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ حَلَفَ، فَقَالَ: إِنْ شَاءَ اللَّهُ فَلَهُ ثُنْيَاهُ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ২১০৫
کفاروں کا بیان۔
قسم میں انشاء اللہ (اگر اللہ نے چاہا) کہہ دیا تو ؟
 عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :  جس نے قسم کھائی، اور إن شاء الله کہا، تو وہ چاہے قسم کے خلاف کرے، یا قسم کے موافق، حانث یعنی قسم توڑنے والا نہ ہوگا ۔    تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الأیمان والنذور ١١ (٣٢٦١، ٣٢٦٢) ، سنن الترمذی/الأیمان والنذور ٧ (١٥٣١) ، سنن النسائی/الأیمان ١٨ (٣٨٢٤) ، ٣٩ (٣٨٥٩) ، (تحفة الأشراف : ٧٥١٧) ، موطا امام مالک/النذ ور ٦ (١٠) ، مسند احمد (٢/٦، ١٠، ٤٨، ١٥٣) ، سنن الدارمی/النذور ٧ (٢٣٨٨) (صحیح  )   
حدیث نمبر: 2105  حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ زِيَادٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ حَلَفَ وَاسْتَثْنَى إِنْ شَاءَ رَجَعَ، وَإِنْ شَاءَ تَرَكَ غَيْرُ حَانِثٍ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ২১০৬
کفاروں کا بیان۔
قسم میں انشاء اللہ (اگر اللہ نے چاہا) کہہ دیا تو ؟
 عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ  جس نے قسم کھائی اور إن شاء الله کہا، وہ حانث یعنی قسم توڑنے والا نہ ہوگا۔    تخریج دارالدعوہ : أنظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ٧٥١٧) (صحیح  )   
حدیث نمبر: 2106  حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ الزُّهْرِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ رِوَايَةً، قَالَ: مَنْ حَلَفَ وَاسْتَثْنَى، فَلَنْ يَحْنَثْ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ২১০৭
کفاروں کا بیان۔
قسم اٹھالی پھر خیال ہوا کہ اس کے خلاف کرنابہتر ہے تو۔
 ابوموسیٰ اشعری (رض) کہتے ہیں کہ  میں رسول اللہ ﷺ کے پاس اشعری قبیلہ کے چند لوگوں کے ہمراہ آپ سے سواری مانگنے کے لیے حاضر ہوا، تو آپ ﷺ نے فرمایا :  اللہ کی قسم ! میں تم کو سواری نہیں دوں گا، اور میرے پاس سواری ہے بھی نہیں کہ تم کو دوں ، پھر ہم جب تک اللہ نے چاہا ٹھہرے رہے، پھر آپ کے پاس زکاۃ کے اونٹ آگئے، تو آپ ﷺ نے ہمارے لیے سفید کوہان والے تین اونٹ دینے کا حکم دیا، جب ہم انہیں لے کر چلے تو ہم میں سے ایک نے دوسرے سے کہا : ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس سواری مانگنے گئے تو آپ نے قسم کھالی کہ ہم کو سواری نہ دیں گے، پھر ہم کو سواری دی ؟ چلو واپس آپ کے پاس لوٹ چلو، آخر ہم آپ کے پاس آئے اور ہم نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! ہم آپ کے پاس سواری مانگنے آئے تھے تو آپ نے قسم کھالی تھی کہ ہم کو سواری نہ دیں گے، پھر آپ نے ہم کو سواری دے دی، آپ ﷺ نے فرمایا :  اللہ کی قسم ! میں نے تم کو سواری نہیں دی ہے بلکہ اللہ نے دی ہے، اللہ کی قسم ! انشاء اللہ میں جب کوئی قسم کھاتا ہوں، پھر اس کے خلاف کرنا بہتر سمجھتا ہوں، تو اپنی قسم کا کفارہ دے دیتا ہوں اور جو کام بہتر ہوتا ہے اس کو کرتا ہوں  یا یوں فرمایا :  جو کام بہتر ہوتا ہے اس کو کرتا ہوں، اور قسم کا کفارہ دے دیتا ہوں ۔    تخریج دارالدعوہ :  صحیح البخاری/الخمس ١٥ (٣١٣٣) ، المغازي ٧٤ (٤٣٨٥) ، الصید ٢٦ (٥٥١٧، ٥٥١٨) ، ا لأیمان ١ (٦٦٢٣) ، ٤ (٦٦٤٩) ، ١٨ (٦٦٨٠) ، کفارات الأیمان ٩ (٦٧١٨) ، ١٠ (٦٧١٩) ، التوحید ٥٦ (٧٥٥٥) ، صحیح مسلم/الأیمان ٣ (١٦٤٩) ، سنن ابی داود/الأیمان والنذور ١٧ (٢٢٧٦) ، سنن النسائی/الأیمان والنذور ١٤ (٣٨١١) ، (تحفة الأشراف : ٩١٢٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٩٨، ٤٠١، ٤٠٤، ٤١٨) (صحیح  )   
حدیث نمبر: 2107  حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ، أَنْبَأَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، حَدَّثَنَا غَيْلَانُ بْنُ جَرِيرٍ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ أَبِي مُوسَى، قَالَ: أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَهْطٍ مِنَ الْأَشْعَرِيِّينَ نَسْتَحْمِلُهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَاللَّهِ مَا أَحْمِلُكُمْ وَمَا عِنْدِي مَا أَحْمِلُكُمْ عَلَيْهِ، قَالَ: فَلَبِثْنَا مَا شَاءَ اللَّهُ، ثُمَّ أُتِيَ بِإِبِلٍ فَأَمَرَ لَنَا بِثَلَاثَةِ إِبِلٍ ذَوْدٍ غُرِّ الذُّرَى فَلَمَّا انْطَلَقْنَا، قَالَ: بَعْضُنَا لِبَعْضٍ أَتَيْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَسْتَحْمِلُهُ فَحَلَفَ أَلَّا يَحْمِلَنَا ثُمَّ حَمَلَنَا ارْجِعُوا بِنَا، فَأَتَيْنَاهُ، فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّا أَتَيْنَاكَ نَسْتَحْمِلُكَ، فَحَلَفْتَ أَنْ لَا تَحْمِلَنَا ثُمَّ حَمَلْتَنَا، فَقَالَ: وَاللَّهِ مَا أَنَا حَمَلْتُكُمْ فَإِنَّ اللَّهُ حَمَلَكُمْ وَاللَّهِ إِنَّا حَمِلْتَكُمْ بَلِ اللَّهُ حَمَلَكُمْ، إِنِّي وَاللَّهِ إِنْ شَاءَ اللَّهُ لَا أَحْلِفُ عَلَى يَمِينٍ، فَأَرَى خَيْرًا مِنْهَا إِلَّا كَفَّرْتُ عَنْ يَمِينِي وَأَتَيْتُ الَّذِي هُوَ خَيْرٌ، أَوْ قَالَ: أَتَيْتُ الَّذِي هُوَ خَيْرٌ وَكَفَّرْتُ عَنْ يَمِينِي.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ২১০৮
کفاروں کا بیان۔
قسم اٹھالی پھر خیال ہوا کہ اس کے خلاف کرنابہتر ہے تو۔
 عدی بن حاتم (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :  جس شخص نے قسم کھائی، اور اس کے خلاف کرنے کو بہتر سمجھا تو جو بہتر ہو اس کو کرے، اور اپنی قسم کا کفارہ دیدے ۔    تخریج دارالدعوہ :  صحیح مسلم/الأیمان ٣ (١٦٥١) ، سنن النسائی/الأیمان ١٥ (٣٨١٧) ، (تحفة الأشراف : ٩٨٥١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٢٥٦، ٢٥٧، ٢٥٨، ٢٥٩) ، سنن الدارمی/النذور ٩ (٢٣٩٠) (صحیح  )   
حدیث نمبر: 2108  حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ،  وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَامِرِ بْنِ زُرَارَةَ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ رُفَيْعٍ، عَنْ تَمِيمِ بْنِ طَرَفَةَ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ حَلَفَ عَلَى يَمِينٍ فَرَأَى غَيْرَهَا خَيْرًا مِنْهَا، فَلْيَأْتِ الَّذِي هُوَ خَيْرٌ وَلْيُكَفِّرْ عَنْ يَمِينِهِ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ২১০৯
کفاروں کا بیان۔
قسم اٹھالی پھر خیال ہوا کہ اس کے خلاف کرنابہتر ہے تو۔
 مالک جشمی (رض) کہتے ہیں کہ  میں نے کہا : اللہ کے رسول ! میرا چچا زاد بھائی میرے پاس آتا ہے، اور میں قسم کھا لیتا ہوں کہ اس کو کچھ نہ دوں گا، اور نہ ہی اس کے ساتھ صلہ رحمی کروں گا، آپ ﷺ نے فرمایا :  اپنی قسم کا کفارہ ادا کرو   ١ ؎۔    تخریج دارالدعوہ :  سنن النسائی/الأیمان والنذور ١٥ (٣٨١٩) ، (تحفة الأشراف : ١١٢٠٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٣٦، ١٣٧) (صحیح  )    وضاحت :  ١ ؎: یعنی اس کے ساتھ صلہ رحمی کرو، اور یہ قسم کے خلاف بہتر کام ہے لہذا قسم کو توڑ دو ، اور اس کا کفارہ ادا کرو۔   
حدیث نمبر: 2109  حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عُمَرَ الْعَدَنِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو الزَّعْرَاءِ عَمْرُو بْنُ عَمْرٍو، عَنْ عَمِّهِ أَبِي الْأَحْوَصِ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ الْجُشَمِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، يَأْتِينِي ابْنُ عَمِّي، فَأَحْلِفُ أَنْ لَا أُعْطِيَهُ وَلَا أَصِلَهُ، قَالَ: كَفِّرْ عَنْ يَمِينِكَ.  

তাহকীক: