কিতাবুস সুনান - ইমাম ইবনে মাজা' রহঃ (উর্দু)
كتاب السنن للإمام ابن ماجة
آداب کا بیان۔ - এর পরিচ্ছেদসমূহ
মোট হাদীস ২০ টি
হাদীস নং: ৩৬৫৭
آداب کا بیان۔
والدین کی فرمانبرداری اور ان کے ساتھ حسن سلوک۔
 ابن سلامہ سلمی (رض) کہتے ہیں کہ  نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :  میں آدمی کو اپنی ماں کے ساتھ اچھے سلوک اور برتاؤ کرنے کی وصیت کرتا ہوں، میں آدمی کو اپنی ماں کے ساتھ اچھے سلوک اور برتاؤ کرنے کی وصیت کرتا ہوں، میں آدمی کو اپنی ماں کے ساتھ اچھے سلوک اور برتاؤ کرنے کی وصیت کرتا ہوں، میں آدمی کو اپنے باپ کے ساتھ اچھے سلوک اور برتاؤ کرنے کی وصیت کرتا ہوں، میں آدمی کو اپنے مولیٰ  ١ ؎ کے ساتھ جس کا وہ والی ہو اچھے سلوک اور برتاؤ کرنے کی وصیت کرتا ہوں، خواہ اس کو اس سے تکلیف ہی کیوں نہ پہنچی ہو  ٢ ؎۔    تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٢٠٥٤، ومصباح الزجاجة : ١٢٦٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣١١) (ضعیف)  (سند میں شریک بن عبد اللہ القاضی اور عبیداللہ بن علی دونوں ضعیف ہیں  )    وضاحت :  ١ ؎: عربی میں مولیٰ کا لفظ آزاد کردہ غلام یا دوست یا رشتے دار یا حلیف سبھی معنوں میں مستعمل ہے، یہاں کوئی بھی معنی مراد لے سکتے ہیں۔  ٢ ؎: اگرچہ اس سے تکلیف پہنچے لیکن اس کے عوض میں تکلیف نہ دے جواں مردی یہی ہے کہ برائی کے بدلے نیکی کرے، اور جو اپنے سے رشتہ توڑے اس سے رشتہ جوڑے جیسے دوسری حدیث میں ہے۔   
حدیث نمبر: 3657  حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا شَرِيكُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَلِيٍّ، عَنْ ابْنِ سَلَامَةَ السُّلَمِيِّ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أُوصِي امْرءًا بِأُمِّهِ، أُوصِي امْرءًا بِأُمِّهِ، أُوصِي امْرءًا بِأُمِّهِ ثَلَاثًا، أُوصِي امْرءًا بِأَبِيهِ، أُوصِي امْرءًا بِمَوْلَاهُ الَّذِي يَلِيهِ، وَإِنْ كَانَ عَلَيْهِ مِنْهُ أَذًى يُؤْذِيهِ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৬৫৮
آداب کا بیان۔
والدین کی فرمانبرداری اور ان کے ساتھ حسن سلوک۔
 ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ  لوگوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! حسن سلوک  (اچھے برتاؤ)  کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :  تمہاری ماں ، پھر پوچھا : اس کے بعد کون ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :  تمہاری ماں ، پھر پوچھا اس کے بعد کون ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : تمہارا باپ ، پھر پوچھا : اس کے بعد کون حسن سلوک  (اچھے برتاؤ)  کا سب سے زیادہ مستحق ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :  پھر جو ان کے بعد تمہارے زیادہ قریبی رشتے دار ہوں، پھر اس کے بعد جو قریبی ہوں ۔    تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٤٩٢٠، ومصباح الزجاجة : ١٢٧٠) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الأدب ٢ (٥٩٧١ تعلیقاً ) ، صحیح مسلم/البر والصلة ١ (٢٥٤٨) ، مسند احمد (٢/٣٩١) (صحیح  )   
حدیث نمبر: 3658  حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَيْمُونٍ الْمَكِّيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ الْقَعْقَاعِ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَنْ أَبَرُّ؟ قَالَ: أُمَّكَ، قَالَ: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ: أُمَّكَ، قَالَ: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ: أَبَاكَ، قَالَ: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ: الْأَدْنَى فَالْأَدْنَى.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৬৫৯
آداب کا بیان۔
والدین کی فرمانبرداری اور ان کے ساتھ حسن سلوک۔
 ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :  کوئی بھی اولاد اپنے باپ کا حق ادا نہیں کرسکتی مگر اسی صورت میں کہ وہ اپنے باپ کو غلامی کی حالت میں پائے پھر اسے خرید کر آزاد کر دے ۔    تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/العتق ٦ (١٥١٠) ، سنن الترمذی/البر والصلة ٨ (١٩٠٦) ، (تحفة الأشراف : ١٢٥٩٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٦٣) (صحیح  )   
حدیث نمبر: 3659  حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ سُهَيْلٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا يَجْزِي وَلَدٌ وَالِدَهُ، إِلَّا أَنْ يَجِدَهُ مَمْلُوكًا فَيَشْتَرِيَهُ، فَيُعْتِقَهُ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৬৬০
آداب کا بیان۔
والدین کی فرمانبرداری اور ان کے ساتھ حسن سلوک۔
 ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ  نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :  قنطار بارہ ہزار اوقیہ کا ہوتا ہے، اور ہر اوقیہ آسمان و زمین کے درمیان پائی جانے والی چیزوں سے بہتر ہے ۔ اور رسول اللہ ﷺ کا یہ بھی فرمان ہے :  آدمی کا درجہ جنت میں بلند کیا جائے گا، پھر وہ کہتا ہے کہ میرا درجہ کیسے بلند ہوگیا  (حالانکہ ہمیں عمل کا کوئی موقع نہیں رہا)  اس کو جواب دیا جائے گا :  تیرے لیے تیری اولاد کے دعا و استغفار کرنے کے سبب سے ۔    تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٢٨١٥، ومصباح الزجاجة : ١٢٧١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣٦٣، ٥٠٩) ، سنن الدارمی/فضائل القرآن ٣٢ (٣٥٠٧) (ضعیف)  (سند میں عاصم بن بھدلة ضعیف ہیں، اور ابوہریرہ (رض) کے قول سے معروف ہے  )   
حدیث نمبر: 3660  حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: الْقِنْطَارُ اثْنَا عَشَرَ أَلْفَ أُوقِيَّةٍ، كُلُّ أُوقِيَّةٍ خَيْرٌ مِمَّا بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ، وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ الرَّجُلَ لَتُرْفَعُ دَرَجَتُهُ فِي الْجَنَّةِ، فَيَقُولُ: أَنَّى هَذَا، فَيُقَالُ: بِاسْتِغْفَارِ وَلَدِكَ لَكَ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৬৬১
آداب کا بیان۔
والدین کی فرمانبرداری اور ان کے ساتھ حسن سلوک۔
 مقدام بن معدیکرب (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :  بیشک اللہ تعالیٰ تم کو اپنی ماؤں کے ساتھ حسن سلوک  (اچھے برتاؤ)  کی وصیت کرتا ہے  یہ جملہ آپ ﷺ نے تین بار فرمایا  بیشک اللہ تعالیٰ تم کو اپنے باپوں کے ساتھ حسن سلوک کی وصیت کرتا ہے، پھر جو تمہارے زیادہ قریب ہوں، پھر ان کے بعد جو قریب ہوں ان کے ساتھ حسن سلوک کی وصیت کرتا ہے ۔    تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١١٥٦٢، ومصباح الزجاجة : ١٢٧٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٣١، ١٣٢) (صحیح  )   
حدیث نمبر: 3661  حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ بَحِيرِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ، عَنْ الْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِ يكَرِبَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: إِنَّ اللَّهَ يُوصِيكُمْ بِأُمَّهَاتِكُمْ ثَلَاثًا، إِنَّ اللَّهَ يُوصِيكُمْ بِآبَائِكُمْ، إِنَّ اللَّهَ يُوصِيكُمْ بِالْأَقْرَبِ فَالْأَقْرَبِ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৬৬২
آداب کا بیان۔
والدین کی فرمانبرداری اور ان کے ساتھ حسن سلوک۔
 ابوامامہ (رض) سے روایت ہے کہ  ایک شخص نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! والدین کا حق ان کی اولاد پر کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :  وہی دونوں تیری جنت اور جہنم ہیں ۔    تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤٩٢٠، ومصباح الزجاجة : ١٢٧٣) (ضعیف)  (سند میں علی بن یزید ضعیف راوی ہیں  )   
حدیث نمبر: 3662  حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا صَدَقَةُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي الْعَاتِكَةِ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، أَنَّ رَجُلًا، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا حَقُّ الْوَالِدَيْنِ عَلَى وَلَدِهِمَا؟ قَالَ: هُمَا جَنَّتُكَ وَنَارُكَ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৬৬৩
آداب کا بیان۔
والدین کی فرمانبرداری اور ان کے ساتھ حسن سلوک۔
 ابوالدرداء (رض) کہتے ہیں کہ  انہوں نے نبی اکرم ﷺ کو فرماتے سنا :  باپ جنت کا درمیانی دروازہ ہے، چاہے تم اس دروازے کو ضائع کر دو ، یا اس کی حفاظت کرو   ١ ؎۔    تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/البر والصلة ٣ (١٩٠٠) ، (تحفة الأشراف : ١٠٩٤٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/١٩٦، ١٩٧، ٦/٤٤٥، ٤٤٨، ٤٥١) (صحیح  )    وضاحت :  ١ ؎: درمیان میں جو دروازہ ہوتا ہے اس میں سے مکان میں جلدی پہنچ جاتے ہیں، تو والدین کو جنت میں جانے کا قریب اور آسان راستہ قرار دیا اگر آدمی اپنے والدین کو خوش رکھے جو کچھ مشکل نہیں تو آسانی سے جنت مل سکتی ہے۔   
حدیث نمبر: 3663  حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ، سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: الْوَالِدُ أَوْسَطُ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ، فَأَضِعْ ذَلِكَ الْبَابَ أَوِ احْفَظْهُ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৬৬৪
آداب کا بیان۔
ان لوگو سے تعلقات اور حسن سلوک جاری رکھو جن سے تمہارے والد صاحب کے تعلقات تھے۔
 ابواسید مالک بن ربیعہ (رض) کہتے ہیں کہ  ہم نبی اکرم ﷺ کے پاس موجود تھے، اتنے میں قبیلہ بنی سلمہ کا ایک شخص حاضر ہوا، اور اس نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کیا میرے والدین کی نیکیوں میں سے کوئی نیکی ایسی باقی ہے کہ ان کی وفات کے بعد میں ان کے لیے کرسکوں ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں، ان کے لیے دعا اور استغفار کرنا، اور ان کے انتقال کے بعد ان کے وعدوں کو پورا کرنا، اور ان کے دوستوں کی عزت و تکریم کرنا، اور ان رشتوں کو جوڑنا جن کا تعلق انہیں کی وجہ سے ہے ۔    تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الأدب ١٢٩ (٥١٤٢) ، (تحفة الأشراف : ١١١٩٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٩٧، ٤٩٨) (ضعیف)  (سند میں عبد الرحمن بن سلیمان لین (ضعیف) ، اور علی بن عبید مجہول ہیں  )   
حدیث نمبر: 3664  حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سُلَيْمَانَ، عَنْ أَسِيدِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ عُبَيْدٍمَوْلَى بَنِي سَاعِدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي أُسَيْدٍ مَالِكِ بْنِ رَبِيعَةَ، قَالَ: بَيْنَمَا نَحْنُ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ جَاءَهُ رَجُلٌ مِنْ بَنِي سُلَيْمٍ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَبَقِيَ مِنْ بِرِّ أَبَوَيَّ شَيْءٌ أَبَرُّهُمَا بِهِ مِنْ بَعْدِ مَوْتِهِمَا، قَالَ: نَعَمْ، الصَّلَاةُ عَلَيْهِمَا، وَالِاسْتِغْفَارُ لَهُمَا، وَإِيفَاءٌ بِعُهُودِهِمَا مِنْ بَعْدِ مَوْتِهِمَا، وَإِكْرَامُ صَدِيقِهِمَا، وَصِلَةُ الرَّحِمِ الَّتِي لَا تُوصَلُ إِلَّا بِهِمَا.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৬৬৫
آداب کا بیان۔
والد کو اولاد کے ساتھ حسن سلوک کرنا خصوصاً بیٹیوں سے اچھا برتاؤ کرنا۔
 ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ  کچھ اعرابی نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے، اور کہا : کیا آپ لوگ اپنے بچوں کا بوسہ لیتے ہیں ؟ لوگوں نے کہا : ہاں، تو ان اعرابیوں  (خانہ بدوشوں)  نے کہا : لیکن ہم تو اللہ کی قسم !  (اپنے بچوں کا)  بوسہ نہیں لیتے،  (یہ سن کر)  نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :  مجھے کیا اختیار ہے جب کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے دلوں سے رحمت اور شفقت نکال دی ہے ۔    تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الفضائل ١٥ (٢٣١٧) ، (تحفة الأشراف : ١٦٨٢٢) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الأدب ١٧ (٥٩٩٣) ، مسند احمد (٦/٧٠) (صحیح  )   
حدیث نمبر: 3665  حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: قَدِمَ نَاسٌ مِنْ الْأَعْرَابِ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالُوا: أَتُقَبِّلُونَ صِبْيَانَكُمْ؟ قَالُوا: نَعَمْ، فَقَالُوا: لَكِنَّا وَاللَّهِ مَا نُقَبِّلُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَأَمْلِكُ أَنْ كَانَ اللَّهُ قَدْ نَزَعَ مِنْكُمُ الرَّحْمَةَ؟.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৬৬৬
آداب کا بیان۔
والد کو اولاد کے ساتھ حسن سلوک کرنا خصوصاً بیٹیوں سے اچھا برتاؤ کرنا۔
 یعلیٰ عامری (رض) کہتے ہیں کہ  حسن اور حسین  (رضی اللہ عنہما)  دونوں دوڑتے ہوئے نبی اکرم ﷺ کے پاس آے تو آپ ﷺ نے ان دونوں کو اپنے سینے سے چمٹا لیا، اور فرمایا :  یقیناً اولاد بزدلی اور بخیلی کا سبب ہوتی ہے   ١ ؎۔    تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١١٨٥٣، ومصباح الزجاجة : ١٢٧٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٧٢) (صحیح  )    وضاحت :  ١ ؎: یعنی آدمی اولاد کی محبت میں مال خرچ کرنے میں بخل کرتا ہے، اور اولاد کے لئے مال چھوڑ جانا چاہتا ہے، اور جہاد سے سستی کرتا ہے۔   
حدیث نمبر: 3666  حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَفَّانُ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ خُثَيْمٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي رَاشِدٍ، عَنْ يَعْلَى الْعَامِرِيِّ، أَنَّهُ قَالَ: جَاءَ الْحَسَنُ، وَالْحُسَيْنُ يَسْعَيَانِ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَضَمَّهُمَا إِلَيْهِ، وَقَالَ: إِنَّ الْوَلَدَ مَبْخَلَةٌ مَجْبَنَةٌ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৬৬৭
آداب کا بیان۔
والد کو اولاد کے ساتھ حسن سلوک کرنا خصوصاً بیٹیوں سے اچھا برتاؤ کرنا۔
 سراقہ بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ  نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :  کیا میں تم کو افضل صدقہ نہ بتادوں ؟ اپنی بیٹی کو صدقہ دو ، جو تمہارے پاس آگئی ہو  ١ ؎، اور تمہارے علاوہ اس کا کوئی کمانے والا بھی نہ ہو ۔    تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٣٨٢١، ومصباح الزجاجة : ١٢٧٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٧٥) (ضعیف)  (علی بن رباح کا سماع سراقہ (رض) سے نہیں ہے اس لئے سند میں انقطاع ہے  )    وضاحت :  ١ ؎: یعنی شوہر کی موت یا طلاق کی وجہ سے۔   
حدیث نمبر: 3667  حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُلَيٍّ، سَمِعْتُ أَبِي يَذْكُرُ، عَنْ سُرَاقَةَ بْنِ مَالِكٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: أَلَا أَدُلُّكُمْ عَلَى أَفْضَلِ الصَّدَقَةِ؟ ابْنَتُكَ مَرْدُودَةً إِلَيْكَ لَيْسَ لَهَا كَاسِبٌ غَيْرُكَ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৬৬৮
آداب کا بیان۔
والد کو اولاد کے ساتھ حسن سلوک کرنا خصوصاً بیٹیوں سے اچھا برتاؤ کرنا۔
 احنف کے چچا صعصعہ (رض) کہتے ہیں کہ  ایک عورت اپنی دو بیٹیوں کو ساتھ لے کر ام المؤمنین عائشہ (رض) کی خدمت میں آئی، تو انہوں نے اس کو تین کھجوریں دیں، اس عورت نے ایک ایک کھجور دونوں کو دی، اور تیسری کھجور کے دو ٹکڑے کر کے دونوں کے درمیان تقسیم کردی، عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ اس کے بعد نبی اکرم ﷺ تشریف لائے تو میں نے آپ سے اس کا ذکر کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا :  تمہیں تعجب کیوں ہے ؟ وہ تو اس کام کی وجہ سے جنت میں داخل ہوگئی   ١ ؎۔    تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٦١٥٧، ومصباح الزجاجة : ١٢٧٦) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الزکاة ١٠ (١٤١٨) ، الأدب ١٨ (٥٩٩٥) ، صحیح مسلم/البر والصلة ٤٦ (٢٦٢٩) ، سنن الترمذی/البر والصلة ١٣ (١٩١٥) ، مسند احمد (٦/٣٣، ١٦٦) (صحیح  )    وضاحت :  ١ ؎: یعنی اپنے بیٹوں کو پالنے، ان کو کھلانے پلانے اور اپنے کو بھوکے رہنے سے، وہ جنت کی حقدار ہوگئی، اکثر دیکھا گیا ہے کہ جب شوہر مرجاتا ہے، اور عورت صاحب اولاد ہوتی ہے تو بیچاری عمر بھر محنت مزدوری کرتی ہے، اور جو ملتا ہے وہ اپنی اولاد کو کھلاتی ہے، اور وہ خود اکثر بھوکی رہتی ہے۔   
حدیث نمبر: 3668  حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ، عَنْ مِسْعَرٍ، أَخْبَرَنِي سَعْدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْصَعْصَعَةَ عَمِّ الْأَحْنَفِ، قَالَ: دَخَلَتْ عَلَى عَائِشَةَ امْرَأَةٌ مَعَهَا ابْنَتَانِ لَهَا، فَأَعْطَتْهَا ثَلَاثَ تَمَرَاتٍ، فَأَعْطَتْ كُلَّ وَاحِدَةٍ مِنْهُمَا تَمْرَةً، ثُمَّ صَدَعَتِ الْبَاقِيَةَ بَيْنَهُمَا، قَالَتْ: فَأَتَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَحَدَّثَتْهُ، فَقَالَ: مَا عَجَبُكِ، لَقَدْ دَخَلَتْ بِهِ الْجَنَّةَ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৬৬৯
آداب کا بیان۔
والد کو اولاد کے ساتھ حسن سلوک کرنا خصوصاً بیٹیوں سے اچھا برتاؤ کرنا۔
 عقبہ بن عامر (رض) کہتے ہیں کہ  میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا :  جس کے پاس تین لڑکیاں ہوں، اور وہ ان کے ہونے پر صبر کرے، ان کو اپنی کمائی سے کھلائے پلائے اور پہنائے، تو وہ اس شخص کے لیے قیامت کے دن جہنم سے آڑ ہوں گی ۔    تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٩٩٢١، ومصباح الزجاجة : ١٢٧٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٥٤) (صحیح  )   
حدیث نمبر: 3669  حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ الْحَسَنِ الْمَرْوَزِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ حَرْمَلَةَ بْنِ عِمْرَانَ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا عُشَانَةَ الْمُعَافِرِيَّ، قَالَ: سَمِعْتُ عُقْبَةَ بْنَ عَامِرٍ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: مَنْ كَانَ لَهُ ثَلَاثُ بَنَاتٍ فَصَبَرَ عَلَيْهِنَّ، وَأَطْعَمَهُنَّ، وَسَقَاهُنَّ، وَكَسَاهُنَّ مِنْ جِدَتِهِ، كُنَّ لَهُ حِجَابًا مِنَ النَّارِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৬৭০
آداب کا بیان۔
والد کو اولاد کے ساتھ حسن سلوک کرنا خصوصاً بیٹیوں سے اچھا برتاؤ کرنا۔
 عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :  جس شخص کے پاس دو لڑکیاں ہوں اور وہ ان کے ساتھ حسن سلوک  (اچھا برتاؤ)  کرے جب تک کہ وہ دونوں اس کے ساتھ رہیں، یا وہ ان دونوں کے ساتھ رہے تو وہ دونوں لڑکیاں اسے جنت میں پہنچائیں گی ۔    تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٥٦٨١، ومصباح الزجاجة : ١٢٧٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٣٥، ٣٦٣) (حسن)  (سند میں ابو سعید ضعیف راوی ہیں، لیکن شاہد کی وجہ سے یہ حسن ہے، نیز ملاحظہ ہو : تراجع الألبانی : رقم :  ٣٨٢  )   
حدیث نمبر: 3670  حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ الْحَسَنِ، حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ فِطْرٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا مِنْ رَجُلٍ تُدْرِكُ لَهُ ابْنَتَانِ، فَيُحْسِنُ إِلَيْهِمَا مَا صَحِبَتَاهُ أَوْ صَحِبَهُمَا، إِلَّا أَدْخَلَتَاهُ الْجَنَّةَ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৬৭১
آداب کا بیان۔
والد کو اولاد کے ساتھ حسن سلوک کرنا خصوصاً بیٹیوں سے اچھا برتاؤ کرنا۔
 انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :  تم لوگ اپنی اولاد کے ساتھ حسن سلوک کرو، اور انہیں بہترین ادب سکھاؤ۔    تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٥٢٠، ومصباح الزجاجة : ١٢٧٩) (ضعیف جداً )  (سند میں حارث بن نعمان منکر الحدیث اور سعید بن عمارہ ضعیف ہے  )   
حدیث نمبر: 3671  حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ الْوَلِيدِ الدِّمَشْقِيُّ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَيَّاشٍ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عُمَارَةَ، أَخْبَرَنِي الْحَارِثُ بْنُ النُّعْمَانِ، سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ يُحَدِّثُ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: أَكْرِمُوا أَوْلَادَكُمْ، وَأَحْسِنُوا أَدَبَهُمْ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৬৭২
آداب کا بیان۔
پڑوس کا حق۔
 ابوشریح خزاعی (رض) سے روایت ہے کہ  نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :  جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اسے چاہیئے کہ وہ اپنے پڑوسی کے ساتھ نیک سلوک کرے، اور جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اسے چاہیئے کہ وہ اپنے مہمان کا احترام اور اس کی خاطرداری کرے، اور جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اسے چاہیئے کہ اچھی بات کہے یا خاموش رہے ۔    تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأدب ٣١ (٦٠١٩) ، الرقاق ٢٣ (٦٤٧٦) ، صحیح مسلم/الإیمان ١٩ (٤٨) ، سنن ابی داود/الأطعمة ٥ (٣٧٤٨) ، سنن الترمذی/البر الصلة ٤٣ (١٩٦٧، ١٩٦٨) ، (تحفة الأشراف : ١٢٠٥٦) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/صفة النبی  ﷺ ١٠ (٢٢) ، مسند احمد (٤/٣١، ٦/٣٨٤، ٣٨٥) ، سنن الدارمی/الأطعمة ١١ (٢٠٧٨) (صحیح  )    وضاحت :  ١ ؎: صرف اچھی بات کہنے یا خاموش رہنے کی اس عمدہ نصیحت نبوی پر عمل کے سلسلے میں اکثر لوگ کوتاہی کا شکار ہیں، لوگوں کے جو جی میں آتا ہے کہہ ڈالتے ہیں، پھر پچھتاتے ہیں، آدمی کو چاہیے کہ اگر اچھی بات ہو تو منہ سے نکالے، اور بری بات جیسے جھوٹ، غیبت، بہتان، فضول اور بیکار باتوں سے ہمیشہ بچتا رہے، عقلاء کے نزدیک کثرت کلام بہت معیوب ہے، تمام حکیموں اور داناوں کا اس پر اتقاق ہے کہ آدمی کی عقل مندی اس کے بات کرنے سے معلوم ہوجاتی ہے، لہذا ضروری ہے کہ خوب سوچ سمجھ کر بولے کہ اس کی بات سے کوئی نقصان تو پیدا نہ ہوگا، پھر یہ سوچے کہ اس بات میں کوئی فائدہ بھی ہے یا نہیں، اس کے بعد اگر اس بات میں فائدہ ہو تو منہ سے نکالے ورنہ خاموش رہے، اگر خاموشی سے تھک جائے تو ذکر الہٰی یا تلاوت قرآن کرے، یا دینی علوم کو حاصل کرے۔   
حدیث نمبر: 3672  حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، سَمِعَ نَافِعَ بْنَ جُبَيْرٍ يُخْبِرُ، عَنْ أَبِي شُرَيْحٍ الْخُزَاعِيِّ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، فَلْيُحْسِنْ إِلَى جَارِهِ، وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، فَلْيُكْرِمْ ضَيْفَهُ، وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، فَلْيَقُلْ خَيْرًا أَوْ لِيَسْكُتْ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৬৭৩
آداب کا بیان۔
پڑوس کا حق۔
 ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ  رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :  مجھے جبرائیل (علیہ السلام) برابر پڑوس کے ساتھ نیک سلوک کرنے کی وصیت کرتے رہے، یہاں تک کہ مجھے یہ خیال ہونے لگا کہ وہ پڑوسی کو وارث بنادیں گے   ١ ؎۔    تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأدب ٢٨ (٦٠١٤) ، صحیح مسلم/البر والصلة ٤٢ (٢٦٢٤) ، سنن ابی داود/الأدب ١٣٢ (٥١٥١) ، سنن الترمذی/البروالصلة ٢٨ (١٩٤٢) ، (تحفة الأشراف : ١٧٩٤٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٩١، ١٢٥، ٢٣٨) (صحیح  )    وضاحت :  ١ ؎: پڑوس کا حق بہت ہے، اگرچہ کافر ہو لیکن اس کے ساتھ اچھا سلوک ضروری ہے، اگر وہ کوئی چیز عاریتاً مانگے تو اس کو دے، اگر بھوکا ہو تو اپنے کھانے میں سے اس کو کھلائے، اگر اس کو قرض کی ضرورت ہو تو دے، بہر حال خوشی اور مصیبت دونوں میں اس کا شریک رہے، اور اس کی ہمدردی کرتا رہے اس میں دین اور دنیا دونوں کے فائدے ہیں۔   
حدیث نمبر: 3673  حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، وَعَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ . ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ، أَنْبَأَنَااللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ جَمِيعًا، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ، عَنْ عَمْرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: مَا زَالَ جِبْرِيلُ يُوصِينِي بِالْجَارِ، حَتَّى ظَنَنْتُ أَنَّهُ سَيُوَرِّثُهُ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৬৭৪
آداب کا بیان۔
پڑوس کا حق۔
 ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :  جبرائیل برابر پڑوسی کے بارے میں وصیت و تلقین کرتے رہے، یہاں تک کہ مجھے یہ خیال ہونے لگا کہ وہ ہمسایہ کو وارث بنادیں گے ۔    تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٤٣٥٢، ومصباح الزجاجة : ١٢٨٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٥٩، ٣٠٥، ٤٤٥، ٥١٤) (صحیح  )   
حدیث نمبر: 3674  حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا زَالَ جِبْرَائِيلُ يُوصِينِي بِالْجَارِ، حَتَّى ظَنَنْتُ أَنَّهُ سَيُوَرِّثُهُ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৬৭৫
آداب کا بیان۔
مہمان کا حق۔
 ابوشریح خزاعی (رض) کہتے ہیں کہ  نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :  جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے مہمان کی عزت و تکریم کرے، اور یہ واجبی مہمان نوازی ایک دن اور ایک رات کی ہے، مہمان کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنے میزبان کے یہاں اتنا ٹھہرے کہ اسے حرج میں ڈال دے، مہمان داری  (ضیافت)  تین دن تک ہے اور تین دن کے بعد میزبان جو اس پر خرچ کرے گا وہ صدقہ ہوگا ۔    تخریج دارالدعوہ : أنظر حدیث رقم : (٣٦٧٢) (صحیح  )   
حدیث نمبر: 3675  حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ ابْنِ عَجْلَانَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي شُرَيْحٍ الْخُزَاعِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، فَلْيُكْرِمْ ضَيْفَهُ، وَجَائِزَتُهُ يَوْمٌ وَلَيْلَةٌ، وَلَا يَحِلُّ لَهُ أَنْ يَثْوِيَ عِنْدَ صَاحِبِهِ، حَتَّى يُحْرِجَهُ الضِّيَافَةُ ثَلَاثَةُ أَيَّامٍ، وَمَا أَنْفَقَ عَلَيْهِ بَعْدَ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ فَهُوَ صَدَقَةٌ.  

তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৬৭৬
آداب کا بیان۔
مہمان کا حق۔
 عقبہ بن عامر (رض) کہتے ہیں کہ  ہم نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا : آپ ہم کو لوگوں کے پاس بھیجتے ہیں، اور ہم ان کے پاس اترتے ہیں تو وہ ہماری مہمان نوازی نہیں کرتے، ایسی صورت میں آپ کیا فرماتے ہیں ؟ تو آپ ﷺ نے ہم سے فرمایا :  جب تم کسی قوم کے پاس اترو اور وہ تمہارے لیے ان چیزوں کے لینے کا حکم دیں جو مہمان کو درکار ہوتی ہیں، تو انہیں لے لو، اور اگر نہ دیں تو اپنی مہمان نوازی کا حق جو ان کے لیے مناسب ہو ان سے وصول کرلو   ١ ؎۔    تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المظالم ١٨ (٢٤٦١) ، الأدب ٨٥ (٦١٣٧) ، صحیح مسلم/اللقطة ٣ (١٧٢٧) ، سنن الترمذی/السیر ٣٢ (١٥٨٩) ، سنن ابی داود/الأطعمة ٥ (٣٧٥٢) ، (تحفة الأشراف : ٩٩٥٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٤٩) (صحیح  )    وضاحت :  ١ ؎: جب میزبان مہمان کی مہمانی نہ کرے تو اس کے عوض میں بقدر مہمانی کے میزبان سے نقد وصول کرسکتا ہے، اور یہ واجب مہمانی پہلی رات میں ہے کیونکہ رات میں مسافر کو نہ کھانا مل سکتا ہے نہ بازار معلوم ہوتا ہے، تو صاحب خانہ پر اس کے کھانے پینے کا انتظام کردینا واجب ہے، بعض علماء کے نزدیک یہ وجوب اب بھی باقی ہے، جمہور کہتے ہیں کہ وجوب منسوخ ہوگیا، لیکن سنت ہونا اب بھی باقی ہے، تو ایک دن رات مہمانی کرنا سنت مؤکدہ ہے، یعنی ضروری ہے اور تین دن مستحب ہے، اور تین دن بعد پھر مہمانی نہیں، اب مہمان کو چاہیے کہ وہاں سے چلا جائے یا اپنے کھانے پینے کا انتظام خود کرے، اور میزبان پر بوجھ نہ بنے۔   
حدیث نمبر: 3676  حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ، أَنْبَأَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ أَبِي الْخَيْرِ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ، أَنَّهُ قَالَ: قُلْنَا لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّكَ تَبْعَثُنَا فَنَنْزِلُ بِقَوْمٍ، فَلَا يَقْرُونَا فَمَا تَرَى فِي ذَلِكَ، قَالَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنْ نَزَلْتُمْ بِقَوْمٍ، فَأَمَرُوا لَكُمْ بِمَا يَنْبَغِي لِلضَّيْفِ فَاقْبَلُوا، وَإِنْ لَمْ يَفْعَلُوا، فَخُذُوا مِنْهُمْ حَقَّ الضَّيْفِ الَّذِي يَنْبَغِي لَهُمْ.  

তাহকীক: