আল মুওয়াত্তা - ইমাম মালিক রহঃ (উর্দু)

كتاب الموطأ للإمام مالك

کتاب بیع کے بیان میں - এর পরিচ্ছেদসমূহ

মোট হাদীস ২০ টি

হাদীস নং: ১১৯২
کتاب بیع کے بیان میں
عربان کے بیان میں
عمرو بن شعیب سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے منع کیا عربان کی بیع سے۔ کہا مالک نے ہمارے نزدیک اس کے معنی یہ ہیں کہ آدمی ایک غلام یا لونڈی خریدے یا جانور کو کرایہ پر لے پھر بائع (بچنے والا) سے یا جانور والے سے کہہ دے کہ میں تجھے ایک دینار یا کم زیادہ دیتا ہوں اس شرط پر کہ اگر میں اس غلام یا لونڈی کو خرید لوں گا تو وہ دینار اس کی قیمت میں سے سمجھنا یا جانور پر سواری کروں گا تو کرایہ میں سے خیال کرنا ورنہ میں اگر غلام یا لونڈی تجھے پھیر دوں یا جانور پر سوار نہ ہوں تو دینار مفت تیرا مال ہوجائے گا اس کو واپس نہ لوں گا۔ کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم ہے جو غلام تجارت کا فن خوب جانتا ہو زبان اچھی بولتا ہو اس کا بدلنا حبشی جاہل غلام سے درست ہے اسی طرح اور اسباب کا جو دوسرے اسباب کی مثل نہ ہو بلکہ اس سے زیادہ کھرا ہو اور ایک غلام کا دو غلاموں کے عوض میں یا کئی غلاموں کے بدلے میں درست ہے جب وہ دونوں چیزیں ایک دوسرے سے کھلا کھلا فرق رکھتی ہوں اور جو ایک دوسرے کے مشابہ ہوں تو دو چیزوں کا ایک کے بدلے میں لینا درست نہیں۔ کہا مالک نے سوا کھانے کی چیزوں کے اور اسباب کا بیچنا قبضہ سے پہلے درست ہے مگر اور کسی کے ہاتھ نہ اسی بائع (بچنے والا) کے ہاتھ بشرطیکہ قیمت دے چکا ہو۔ کہا مالک نے اگر کوئی شخص حاملہ لونڈی کو بیچے مگر اس کے حمل کو نہ بیچے تو درست نہیں کس واسطے کیا معلوم ہے کہ وہ حمل مرد ہے یا عورت خوبصورت ہے یا بدصورت پورا ہے یا لنڈور زندہ ہے یا مردہ تو کس طور سے اس کی قیمت لونڈی کی قیمت میں سے وضع کرے گا۔ کہا مالک نے اگر ایک شخص ایک لونڈی یا غلام سو دینار کو خریدے اور قیمت ادا کرنے کی ایک میعاد مقرر کرے (مثلا ایک مہینے کے وعدے پر) پھر بائع (بچنے والا) شرمندہ ہو کر خریدار سے کہے کہ اس بیع کو فسخ کر ڈال اور دس دینار مجھ سے نقد یا اس قدر میعاد میں لے لے تو درست ہے اور اگر مشتری (خریدنے والا) شرمندہ ہو کر بائع (بچنے والا) سے کہے کہ بیع فسح کر ڈال اور دس دینار مجھ سے نقد لے لے یا اس میعاد کے بعد جو ٹھہری تھی تو درست نہیں کیونکہ یہ ایسا ہوا گویا بائع (بچنے والا) نے اپنے میعاد سے سو دینار کو ایک لونڈی اور دس دینار نقد یا میعادی پر بیع کیا تو سونے کی بیع سونے سے ہوئی میعاد پر اور یہ درست نہیں۔
بَاب مَا جَاءَ فِي بَيْعِ الْعُرْبَانِ حَدَّثَنِي يَحْيَى عَنْ مَالِك عَنْ الثِّقَةِ عِنْدَهُ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ بَيْعِ الْعُرْبَانِ قَالَ مَالِك وَذَلِكَ فِيمَا نُرَى وَاللَّهُ أَعْلَمُ أَنْ يَشْتَرِيَ الرَّجُلُ الْعَبْدَ أَوْ الْوَلِيدَةَ أَوْ يَتَكَارَى الدَّابَّةَ ثُمَّ يَقُولُ لِلَّذِي اشْتَرَى مِنْهُ أَوْ تَكَارَى مِنْهُ أُعْطِيكَ دِينَارًا أَوْ دِرْهَمًا أَوْ أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ أَوْ أَقَلَّ عَلَى أَنِّي إِنْ أَخَذْتُ السِّلْعَةَ أَوْ رَكِبْتُ مَا تَكَارَيْتُ مِنْكَ فَالَّذِي أَعْطَيْتُكَ هُوَ مِنْ ثَمَنِ السِّلْعَةِ أَوْ مِنْ كِرَاءِ الدَّابَّةِ وَإِنْ تَرَكْتُ ابْتِيَاعَ السِّلْعَةِ أَوْ كِرَاءَ الدَّابَّةِ فَمَا أَعْطَيْتُكَ لَكَ بَاطِلٌ بِغَيْرِ شَيْءٍ قَالَ مَالِك وَالْأَمْرُ عِنْدَنَا أَنَّهُ لَا بَأْسَ بِأَنْ يَبْتَاعَ الْعَبْدَ التَّاجِرَ الْفَصِيحَ بِالْأَعْبُدِ مِنْ الْحَبَشَةِ أَوْ مِنْ جِنْسٍ مِنْ الْأَجْنَاسِ لَيْسُوا مِثْلَهُ فِي الْفَصَاحَةِ وَلَا فِي التِّجَارَةِ وَالنَّفَاذِ وَالْمَعْرِفَةِ لَا بَأْسَ بِهَذَا أَنْ تَشْتَرِيَ مِنْهُ الْعَبْدَ بِالْعَبْدَيْنِ أَوْ بِالْأَعْبُدِ إِلَى أَجَلٍ مَعْلُومٍ إِذَا اخْتَلَفَ فَبَانَ اخْتِلَافُهُ فَإِنْ أَشْبَهَ بَعْضُ ذَلِكَ بَعْضًا حَتَّى يَتَقَارَبَ فَلَا يَأْخُذْ مِنْهُ اثْنَيْنِ بِوَاحِدٍ إِلَى أَجَلٍ وَإِنْ اخْتَلَفَتْ أَجْنَاسُهُمْ قَالَ مَالِك وَلَا بَأْسَ بِأَنْ تَبِيعَ مَا اشْتَرَيْتَ مِنْ ذَلِكَ قَبْلَ أَنْ تَسْتَوْفِيَهُ إِذَا انْتَقَدْتَ ثَمَنَهُ مِنْ غَيْرِ صَاحِبِهِ الَّذِي اشْتَرَيْتَهُ مِنْهُ قَالَ مَالِك لَا يَنْبَغِي أَنْ يُسْتَثْنَى جَنِينٌ فِي بَطْنِ أُمِّهِ إِذَا بِيعَتْ لِأَنَّ ذَلِكَ غَرَرٌ لَا يُدْرَى أَذَكَرٌ هُوَ أَمْ أُنْثَى أَحَسَنٌ أَمْ قَبِيحٌ أَوْ نَاقِصٌ أَوْ تَامٌّ أَوْ حَيٌّ أَوْ مَيْتٌ وَذَلِكَ يَضَعُ مِنْ ثَمَنِهَا قَالَ مَالِك فِي الرَّجُلِ يَبْتَاعُ الْعَبْدَ أَوْ الْوَلِيدَةَ بِمِائَةِ دِينَارٍ إِلَى أَجَلٍ ثُمَّ يَنْدَمُ الْبَائِعُ فَيَسْأَلُ الْمُبْتَاعَ أَنْ يُقِيلَهُ بِعَشَرَةِ دَنَانِيرَ يَدْفَعُهَا إِلَيْهِ نَقْدًا أَوْ إِلَى أَجَلٍ وَيَمْحُو عَنْهُ الْمِائَةَ دِينَارٍ الَّتِي لَهُ قَالَ مَالِك لَا بَأْسَ بِذَلِكَ وَإِنْ نَدِمَ الْمُبْتَاعُ فَسَأَلَ الْبَائِعَ أَنْ يُقِيلَهُ فِي الْجَارِيَةِ أَوْ الْعَبْدِ وَيَزِيدَهُ عَشَرَةَ دَنَانِيرَ نَقْدًا أَوْ إِلَى أَجَلٍ أَبْعَدَ مِنْ الْأَجَلِ الَّذِي اشْتَرَى إِلَيْهِ الْعَبْدَ أَوْ الْوَلِيدَةَ فَإِنَّ ذَلِكَ لَا يَنْبَغِي وَإِنَّمَا كَرِهَ ذَلِكَ لِأَنَّ الْبَائِعَ كَأَنَّهُ بَاعَ مِنْهُ مِائَةَ دِينَارٍ لَهُ إِلَى سَنَةٍ قَبْلَ أَنْ تَحِلَّ بِجَارِيَةٍ وَبِعَشَرَةِ دَنَانِيرَ نَقْدًا أَوْ إِلَى أَجَلٍ أَبْعَدَ مِنْ السَّنَةٍ فَدَخَلَ فِي ذَلِكَ بَيْعُ الذَّهَبِ بِالذَّهَبِ إِلَى أَجَلٍ قَالَ مَالِك فِي الرَّجُلِ يَبِيعُ مِنْ الرَّجُلِ الْجَارِيَةَ بِمِائَةِ دِينَارٍ إِلَى أَجَلٍ ثُمَّ يَشْتَرِيهَا بِأَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ الثَّمَنِ الَّذِي بَاعَهَا بِهِ إِلَى أَبْعَدَ مِنْ ذَلِكَ الْأَجَلِ الَّذِي بَاعَهَا إِلَيْهِ إِنَّ ذَلِكَ لَا يَصْلُحُ وَتَفْسِيرُ مَا كَرِهَ مِنْ ذَلِكَ أَنْ يَبِيعَ الرَّجُلُ الْجَارِيَةَ إِلَى أَجَلٍ ثُمَّ يَبْتَاعُهَا إِلَى أَجَلٍ أَبْعَدَ مِنْهُ يَبِيعُهَا بِثَلَاثِينَ دِينَارًا إِلَى شَهْرٍ ثُمَّ يَبْتَاعُهَا بِسِتِّينَ دِينَارًا إِلَى سَنَةٍ أَوْ إِلَى نِصْفِ سَنَةٍ فَصَارَ إِنْ رَجَعَتْ إِلَيْهِ سِلْعَتُهُ بِعَيْنِهَا وَأَعْطَاهُ صَاحِبُهُ ثَلَاثِينَ دِينَارًا إِلَى شَهْرٍ بِسِتِّينَ دِينَارًا إِلَى سَنَةٍ أَوْ إِلَى نِصْفِ سَنَةٍ فَهَذَا لَا يَنْبَغِي
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১১৯৩
کتاب بیع کے بیان میں
جب غلام یا لونڈی بکے تو اس کا مال کس کو ملے۔
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے حضرت عمر نے فرمایا جو شخص غلام کو بیچے اور اس کے پاس مال ہو تو وہ مال بائع (بچنے والا) کو ملے گا مگر جب خریدار شرط کرلے کہ وہ مال میں لوں گا۔ کہا مالک نے ہمارے نزدیک اس پر اجماع ہے کہ خریدار اگر شرط کرلے گا اس مال کے لینے کی تو وہ مال اسی کو ملے گا نقد ہو یا کسی پر قرض ہو یا اسباب ہو معلوم ہو یا نہ معلوم ہو اگرچہ وہ مال اس زر ثمن سے زیادہ ہو۔ جس کے عوض میں وہ غلام بکا ہے کیونکہ غلام کے مال میں مولیٰ پر زکوٰۃ نہیں ہے وہ غلام ہی کا سمجھا جائے گا اور اس غلام کی اگر کوئی لونڈی ہوگی تو مولیٰ کو اس سے وطی کرنا درست ہوجائے گا اور اگر یہ غلام آزاد ہوجاتا یا مکاتب تو اس کا مال اسی کو ملتا اگر مفلس ہوجاتا تو قرض خواہوں کو مل جاتا اس کے مولیٰ سے مؤ اخذہ نہ ہوتا۔
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ قَالَ مَنْ بَاعَ عَبْدًا وَلَهُ مَالٌ فَمَالُهُ لِلْبَائِعِ إِلَّا أَنْ يَشْتَرِطَهُ الْمُبْتَاعُ قَالَ مَالِک الْأَمْرُ الْمُجْتَمَعُ عَلَيْهِ عِنْدَنَا أَنَّ الْمُبْتَاعَ إِنْ اشْتَرَطَ مَالَ الْعَبْدِ فَهُوَ لَهُ نَقْدًا کَانَ أَوْ دَيْنًا أَوْ عَرْضًا يُعْلَمُ أَوْ لَا يُعْلَمُ وَإِنْ کَانَ لِلْعَبْدِ مِنْ الْمَالِ أَکْثَرُ مِمَّا اشْتَرَی بِهِ کَانَ ثَمَنُهُ نَقْدًا أَوْ دَيْنًا أَوْ عَرْضًا وَذَلِکَ أَنَّ مَالَ الْعَبْدِ لَيْسَ عَلَی سَيِّدِهِ فِيهِ زَکَاةٌ وَإِنْ کَانَتْ لِلْعَبْدِ جَارِيَةٌ اسْتَحَلَّ فَرْجَهَا بِمِلْکِهِ إِيَّاهَا وَإِنْ عَتَقَ الْعَبْدُ أَوْ کَاتَبَ تَبِعَهُ مَالُهُ وَإِنْ أَفْلَسَ أَخَذَ الْغُرَمَائُ مَالَهُ وَلَمْ يُتَّبَعْ سَيِّدُهُ بِشَيْئٍ مِنْ دَيْنِهِ
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১১৯৪
کتاب بیع کے بیان میں
غلام یا لونڈی کی بیع میں بائع سے کب تک مواخذہ ہوسکتا ہے۔
عبداللہ بن ابی بکر سے روایت ہے کہ ابان بن عثمان اور ہشام بن اسماعیل دونوں نے خطبے میں بیان کیا کہ غلام اور لونڈی کے عیب کی جواب دہی بائع (بچنے والا) پر تین روز تک ہے خریدنے کے وقت سے اور ایک جواب دہی سال بھر تک ہے۔ کہا مالک نے غلام اور لونڈی کو جو عارضہ لاحق ہو تین دن کے اندر وہ بائع (بچنے والا) کی طرف سے سمجھا جائے گا اور مشتری (خریدنے والا) کو اس کے پھیر دینے کا اختیار ہوگا اور اگر جنون یا جذام یا برص نکلے تو ایک برس کے اندر پھیر دینے کا اختیار ہوگا بعد ایک سال کے پھر بائع (بچنے والا) سب باتوں سے بری ہوجائے اس کو کسی عیب کی جواب دہی لازم نہ ہوگی اگر کسی نے وارثوں میں سے یا اور لوگوں میں سے ایک غلام یا لونڈی کو پیچا اس شرط سے کہ بائع (بچنے والا) عیب کی جواب دہی سے بری ہے تو پھر بائع (بچنے والا) پر جواب دہی لازم نہ ہوگی البتہ اگر جان بوجھ کر اس نے کوئی عیب چھپایا ہوگا تو جواب دہی اس پر لازم ہوگی اور مشتری (خریدنے والا) کو پھیر دینے کا اختیار ہوگا۔ یہ جواب دہی خاص غلام یا لونڈی میں ہے اور چیزوں میں نہیں۔
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَکْرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ أَنَّ أَبَانَ بْنَ عُثْمَانَ وَهِشَامَ بْنَ إِسْمَعِيلَ کَانَا يَذْکُرَانِ فِي خُطْبَتِهِمَا عُهْدَةَ الرَّقِيقِ فِي الْأَيَّامِ الثَّلَاثَةِ مِنْ حِينِ يُشْتَرَی الْعَبْدُ أَوْ الْوَلِيدَةُ وَعُهْدَةَ السَّنَةِ قَالَ مَالِک مَا أَصَابَ الْعَبْدُ أَوْ الْوَلِيدَةُ فِي الْأَيَّامِ الثَّلَاثَةِ مِنْ حِينِ يُشْتَرَيَانِ حَتَّی تَنْقَضِيَ الْأَيَّامُ الثَّلَاثَةُ فَهُوَ مِنْ الْبَائِعِ وَإِنَّ عُهْدَةَ السَّنَةِ مِنْ الْجُنُونِ وَالْجُذَامِ وَالْبَرَصِ فَإِذَا مَضَتْ السَّنَةُ فَقَدْ بَرِئَ الْبَائِعُ مِنْ الْعُهْدَةِ کُلِّهَا قَالَ مَالِک وَمَنْ بَاعَ عَبْدًا أَوْ وَلِيدَةً مِنْ أَهْلِ الْمِيرَاثِ أَوْ غَيْرِهِمْ بِالْبَرَائَةِ فَقَدْ بَرِئَ مِنْ کُلِّ عَيْبٍ وَلَا عُهْدَةَ عَلَيْهِ إِلَّا أَنْ يَکُونَ عَلِمَ عَيْبًا فَکَتَمَهُ فَإِنْ کَانَ عَلِمَ عَيْبًا فَکَتَمَهُ لَمْ تَنْفَعْهُ الْبَرَائَةُ وَکَانَ ذَلِکَ الْبَيْعُ مَرْدُودًا وَلَا عُهْدَةَ عِنْدَنَا إِلَّا فِي الرَّقِيقِ
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১১৯৫
کتاب بیع کے بیان میں
غلام لونڈی میں عیب نکالنے کا بیان
سالم بن عبداللہ سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر نے ایک غلام بیچا آٹھ سو درہم کو اور مشتری (خریدنے والا) سے شرط کرلی کہ عیب کی جواب دہی سے میں بری ہوا بعد اس کے مشتری (خریدنے والا) نے کہا غلام کو ایک بیماری ہے تم نے مجھ سے اس کا بیان نہیں کیا تھا پھر دونوں میں جھگڑا ہوا اور گئے عثمان بن عفان کے پاس مشتری (خریدنے والا) بولا کہ انہوں نے ایک غلام میرے ہاتھ بیچا اور اس کو ایک بیماری تھی انہوں نے بیان نہیں کیا عبداللہ بن عمر نے کہا کہ میں نے شرط کرلی تھی عیب کی جواب دہی میں نہ کروں گا حضرت عثمان نے حکم کیا کہ عبداللہ بن عمر حلف کریں میں نے یہ غلام بیچا اور میرے علم میں اس کو کوئی بیماری نہ تھی عبداللہ نے قسم کھالے سے انکار کیا تو وہ غلام پھر آیا عبداللہ پاس اور اس بیماری سے اچھا ہوگیا پھر عبداللہ نے اس کو ایک ہزار پانچ سو درہم کا بیچا۔ کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ مسئلہ اتفاقی ہے کہ جو شخص خریدے ایک لونڈی کو پھر وہ حاملہ ہوجائے خریدار سے یا غلام خرید لے پھر اس کو آزاد کر دے یا کوئی اور امر ایسا کرے جس کے سبب سے اس غلام یا لونڈی کا پھیرنا نہ ہو سکے بعد اس کے گواہ گواہی دیں کہ اس غلام یا لونڈی میں بائع (بچنے والا) کے پاس سے کوئی عیب تھا یا بائع (بچنے والا) خود اقرار کرلے کہ میرے پاس یہ عیب تھا یا اور کسی صورت سے معلوم ہوجائے کہ عیب بائع (بچنے والا) کے پاس ہی تھا تو اس غلام اور لونڈی کی خرید کے روز کے عیب سمیت قیمت لگا کر بےعیب کی بھی قیمت لگا دیں دونوں قیمتوں میں جس قدر فرق ہو اس قدرت مشتری (خریدنے والا) بائع (بچنے والا) سے پھیر لے۔ کہا مالک نے اگر کسی شخص نے ایک غلام خریدا پھر اس میں ایسا عیب پایا جس کی وجہ سے وہ غلام بائع (بچنے والا) کو بھیر سکتا ہے مگر مشتری (خریدنے والا) کے پاس جب وہ غلام آیا اس میں دوسرا عیب ہوگیا مثلا اس کا کوئی عضو کٹ گیا یا کانا ہوگیا تو مشتری (خریدنے والا) کو اختیار ہے چاہے اس غلام کو رکھ لے اور بائع (بچنے والا) سے عیب کا نقصان لے لے چاہے غلام کو واپس کر دے اور عیب کا تاوان دے اگر وہ غلام مشتری (خریدنے والا) کے پاس مرگیا تو عیب سمیت قیمت لگا دیں گے خرید کے روز کی مثلا جس دن خریدا تھا اس روز عیب سمیت اس غلام کی قیمت اسی دینار تھی اور بےعیب سو دینار تو مشتری (خریدنے والا) بیس دینار بائع (بچنے والا) سے مجرا لے گا مگر قیمت اس کی لفائی جائے گی جس دن خریدا تھا۔ کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم اتفاقی ہے کہ اگر ایک شخص نے لونڈی خریدی پھر عیب کی وجہ سے اسے واپس کردیا مگر اس سے جماع کرچکا تھا تو اگر وہ لونڈی باکرہ تھی تو جس قدر اس کی قیمت میں نقصان ہوگیا مشتری (خریدنے والا) کو دینا ہوگا اور اگر ثییبہ تھی تو مشتری (خریدنے والا) کو کچھ دینا نہ ہوگا۔ کہا مالک نے ہمارے نزدیک اس پر اجماع ہے کہ اگر کوئی شخص غلام یا لونڈی یا اور کوئی جانور بیچے یہ شرط لگا کر کہ اگر کوئی عیب نکلے گا تو میں بری ہوں یا بائع (بچنے والا) عیب کی جواب دہی سے بری ہوجائے گا مگر جب جان بوجھ کر کوئی عیب اس میں ہو اور وہ اس کو چھپائے اگر ایسا کرے گا تو یہ شرط مفید نہ ہوگی اور وہ چیز بائع (بچنے والا) کو واپس کی جائے گی۔ کہا مالک نے اگر ایک لونڈی کو دو لونڈیوں کے بدلے میں بیچا پھر ان دو لونڈیوں میں سے ایک لونڈی میں کچھ عیب نکل جس کی وجہ سے وہ پھر سکتی ہے تو پہلے اس لونڈی کی قیمت لگائی جائے گی جس کے بدلے میں یہ دونوں لونڈیاں آئی ہیں پھر ان دونوں لونڈیوں کی بےعیب سمجھ کر قیمت لگا دیں گے پھر اس لونڈی کے زر ثمن کو ان دونوں لونڈیوں کی قیمت پر تقسیم کریں گے ہر ایک کا حصہ جدا ہوگا بےعیب لونڈی کا اس کے موافق اور عیب دار کا اس کے موافق پھر عیب دار لونڈی اس حصہ ثمن کے بدلے میں واپس کی جائے گی قلیل ہو یا کثیر مگر قیمت دو لونڈیوں کی اسی روز کی نگائی جائے گی جس دن وہ لونڈیاں مشتری (خریدنے والا) کے قبضے میں آئی ہیں۔ کہا مالک نے اگر ایک شخص نے ایک غلام خریدا اور اس سے مزدوری کرائی اور مزدوری کے دام حاصل کئے قلیل ہوں یا کثیر بعد اس کے اس غلام میں عیب نکلا جس کی وجہ سے وہ غلام پھیر سکتا ہے تو وہ اس غلام کو پھیر دے اور مزدوری کے پیسے رکھ لے اس کا واپس کرنا ضروری نہیں ہمارے نزدیک جماعت علماء کا یہی مذہب ہے اس کی نظیر یہ ہے کہ اگر ایک شخص نے ایک غلام خریدا اور اس کے ہاتھ سے ایک گھر بنوایا جس کی بنوائی اس کی قیمت سے دوچند سہ چند ہے پھر عیب کی وجہ سے اسے واپس کردیا تو غلام واپس ہوجائے گا اور بائع (بچنے والا) کو یہ اختیار نہ ہوگا کہ مشتری (خریدنے والا) سے گھر بنوانے کی مزدوری لے اسی طرح سے غلام کی کمائی بھی مشتری (خریدنے والا) کی رہے گی۔ کہا ملک نے اگر ایک شخص نے کئی غلام ایک ہی دفعہ (یعنی ایک ہی عقد میں) خریدے اب ان میں سے ایک غلام چوری کا نکلا یا اس میں کچھ عیب نکلا تو اگر وہی غلام سب غلاموں میں عمدہ اور ممتاز ہوگا اور اسی کی وجہ سے باقی غلام خریدے گئے ہوں تو ساری بیع فسخ ہوجائے گی اور سب غلام پھر واپس دیئے جائیں گے۔ اگر ایسا نہ ہو تو صرف اس غلام کو پھیر دے گا اور زر ثمن میں سے بقدر اس کی قیمت کے حصہ لگا کر بائع (بچنے والا) سے واپس لے گا۔
عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ بَاعَ غُلَامًا لَهُ بِثَمَانِ مِائَةِ دِرْهَمٍ وَبَاعَهُ بِالْبَرَائَةِ فَقَالَ الَّذِي ابْتَاعَهُ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ بِالْغُلَامِ دَائٌ لَمْ تُسَمِّهِ لِي فَاخْتَصَمَا إِلَی عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ فَقَالَ الرَّجُلُ بَاعَنِي عَبْدًا وَبِهِ دَائٌ لَمْ يُسَمِّهِ وَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بِعْتُهُ بِالْبَرَائَةِ فَقَضَی عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ عَلَی عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ أَنْ يَحْلِفَ لَهُ لَقَدْ بَاعَهُ الْعَبْدَ وَمَا بِهِ دَائٌ يَعْلَمُهُ فَأَبَی عَبْدُ اللَّهِ أَنْ يَحْلِفَ وَارْتَجَعَ الْعَبْدَ فَصَحَّ عِنْدَهُ فَبَاعَهُ عَبْدُ اللَّهِ بَعْدَ ذَلِکَ بِأَلْفٍ وَخَمْسِ مِائَةِ دِرْهَمٍ قَالَ مَالِك الْأَمْرُ الْمُجْتَمَعُ عَلَيْهِ عِنْدَنَا أَنَّ كُلَّ مَنْ ابْتَاعَ وَلِيدَةً فَحَمَلَتْ أَوْ عَبْدًا فَأَعْتَقَهُ وَكُلَّ أَمْرٍ دَخَلَهُ الْفَوْتُ حَتَّى لَا يُسْتَطَاعَ رَدُّهُ فَقَامَتْ الْبَيِّنَةُ إِنَّهُ قَدْ كَانَ بِهِ عَيْبٌ عِنْدَ الَّذِي بَاعَهُ أَوْ عُلِمَ ذَلِكَ بِاعْتِرَافٍ مِنْ الْبَائِعِ أَوْ غَيْرِهِ فَإِنَّ الْعَبْدَ أَوْ الْوَلِيدَةَ يُقَوَّمُ وَبِهِ الْعَيْبُ الَّذِي كَانَ بِهِ يَوْمَ اشْتَرَاهُ فَيُرَدُّ مِنْ الثَّمَنِ قَدْرُ مَا بَيْنَ قِيمَتِهِ صَحِيحًا وَقِيمَتِهِ وَبِهِ ذَلِكَ الْعَيْبُ قَالَ مَالِك الْأَمْرُ الْمُجْتَمَعُ عَلَيْهِ عِنْدَنَا فِي الرَّجُلِ يَشْتَرِي الْعَبْدَ ثُمَّ يَظْهَرُ مِنْهُ عَلَى عَيْبٍ يَرُدُّهُ مِنْهُ وَقَدْ حَدَثَ بِهِ عِنْدَ الْمُشْتَرِي عَيْبٌ آخَرُ إِنَّهُ إِذَا كَانَ الْعَيْبُ الَّذِي حَدَثَ بِهِ مُفْسِدًا مِثْلُ الْقَطْعِ أَوْ الْعَوَرِ أَوْ مَا أَشْبَهَ ذَلِكَ مِنْ الْعُيُوبِ الْمُفْسِدَةِ فَإِنَّ الَّذِي اشْتَرَى الْعَبْدَ بِخَيْرِ النَّظَرَيْنِ إِنْ أَحَبَّ أَنْ يُوضَعَ عَنْهُ مِنْ ثَمَنِ الْعَبْدِ بِقَدْرِ الْعَيْبِ الَّذِي كَانَ بِالْعَبْدِ يَوْمَ اشْتَرَاهُ وُضِعَ عَنْهُ وَإِنْ أَحَبَّ أَنْ يَغْرَمَ قَدْرَ مَا أَصَابَ الْعَبْدَ مِنْ الْعَيْبِ عِنْدَهُ ثُمَّ يَرُدُّ الْعَبْدَ فَذَلِكَ لَهُ وَإِنْ مَاتَ الْعَبْدُ عِنْدَ الَّذِي اشْتَرَاهُ أُقِيمَ الْعَبْدُ وَبِهِ الْعَيْبُ الَّذِي كَانَ بِهِ يَوْمَ اشْتَرَاهُ فَيُنْظَرُ كَمْ ثَمَنُهُ فَإِنْ كَانَتْ قِيمَةُ الْعَبْدِ يَوْمَ اشْتَرَاهُ بِغَيْرِ عَيْبٍ مِائَةَ دِينَارٍ وَقِيمَتُهُ يَوْمَ اشْتَرَاهُ وَبِهِ الْعَيْبُ ثَمَانُونَ دِينَارًا وُضِعَ عَنْ الْمُشْتَرِي مَا بَيْنَ الْقِيمَتَيْنِ وَإِنَّمَا تَكُونُ الْقِيمَةُ يَوْمَ اشْتُرِيَ الْعَبْدُ قَالَ مَالِك الْأَمْرُ الْمُجْتَمَعُ عَلَيْهِ عِنْدَنَا أَنَّ مَنْ رَدَّ وَلِيدَةً مِنْ عَيْبٍ وَجَدَهُ بِهَا وَكَانَ قَدْ أَصَابَهَا أَنَّهَا إِنْ كَانَتْ بِكْرًا فَعَلَيْهِ مَا نَقَصَ مِنْ ثَمَنِهَا وَإِنْ كَانَتْ ثَيِّبًا فَلَيْسَ عَلَيْهِ فِي إِصَابَتِهِ إِيَّاهَا شَيْءٌ لِأَنَّهُ كَانَ ضَامِنًا لَهَا قَالَ مَالِك الْأَمْرُ الْمُجْتَمَعُ عَلَيْهِ عِنْدَنَا فِيمَنْ بَاعَ عَبْدًا أَوْ وَلِيدَةً أَوْ حَيَوَانًا بِالْبَرَاءَةِ مِنْ أَهْلِ الْمِيرَاثِ أَوْ غَيْرِهِمْ فَقَدْ بَرِئَ مِنْ كُلِّ عَيْبٍ فِيمَا بَاعَ إِلَّا أَنْ يَكُونَ عَلِمَ فِي ذَلِكَ عَيْبًا فَكَتَمَهُ فَإِنْ كَانَ عَلِمَ عَيْبًا فَكَتَمَهُ لَمْ تَنْفَعْهُ تَبْرِئَتُهُ وَكَانَ مَا بَاعَ مَرْدُودًا عَلَيْهِ قَالَ مَالِك فِي الْجَارِيَةِ تُبَاعُ بِالْجَارِيتَيْنِ ثُمَّ يُوجَدُ بِإِحْدَى الْجَارِيَتَيْنِ عَيْبٌ تُرَدُّ مِنْهُ قَالَ تُقَامُ الْجَارِيَةُ الَّتِي كَانَتْ قِيمَةَ الْجَارِيَتَيْنِ فَيُنْظَرُ كَمْ ثَمَنُهَا ثُمَّ تُقَامُ الْجَارِيتَانِ بِغَيْرِ الْعَيْبِ الَّذِي وُجِدَ بِإِحْدَاهُمَا تُقَامَانِ صَحِيحَتَيْنِ سَالِمَتَيْنِ ثُمَّ يُقْسَمُ ثَمَنُ الْجَارِيَةِ الَّتِي بِيعَتْ بِالْجَارِيتَيْنِ عَلَيْهِمَا بِقَدْرِ ثَمَنِهِمَا حَتَّى يَقَعَ عَلَى كُلِّ وَاحِدَةٍ مِنْهُمَا حِصَّتُهَا مِنْ ذَلِكَ عَلَى الْمُرْتَفِعَةِ بِقَدْرِ ارْتِفَاعِهَا وَعَلَى الْأُخْرَى بِقَدْرِهَا ثُمَّ يُنْظَرُ إِلَى الَّتِي بِهَا الْعَيْبُ فَيُرَدُّ بِقَدْرِ الَّذِي وَقَعَ عَلَيْهَا مِنْ تِلْكَ الْحِصَّةِ إِنْ كَانَتْ كَثِيرَةً أَوْ قَلِيلَةً وَإِنَّمَا تَكُونُ قِيمَةُ الْجَارِيَتَيْنِ عَلَيْهِ يَوْمَ قَبْضِهِمَا قَالَ مَالِك فِي الرَّجُلِ يَشْتَرِي الْعَبْدَ فَيُؤَاجِرُهُ بِالْإِجَارَةِ الْعَظِيمَةِ أَوْ الْغَلَّةِ الْقَلِيلَةِ ثُمَّ يَجِدُ بِهِ عَيْبًا يُرَدُّ مِنْهُ إِنَّهُ يَرُدُّهُ بِذَلِكَ الْعَيْبِ وَتَكُونُ لَهُ إِجَارَتُهُ وَغَلَّتُهُ وَهَذَا الْأَمْرُ الَّذِي كَانَتْ عَلَيْهِ الْجَمَاعَةُ بِبَلَدِنَا وَذَلِكَ لَوْ أَنَّ رَجُلًا ابْتَاعَ عَبْدًا فَبَنَى لَهُ دَارًا قِيمَةُ بِنَائِهَا ثَمَنُ الْعَبْدِ أَضْعَافًا ثُمَّ وَجَدَ بِهِ عَيْبًا يُرَدُّ مِنْهُ رَدَّهُ وَلَا يُحْسَبُ لِلْعَبْدِ عَلَيْهِ إِجَارَةٌ فِيمَا عَمِلَ لَهُ فَكَذَلِكَ تَكُونُ لَهُ إِجَارَتُهُ إِذَا آجَرَهُ مِنْ غَيْرِهِ لِأَنَّهُ ضَامِنٌ لَهُ وَهَذَا الْأَمْرُ عِنْدَنَا قَالَ مَالِك الْأَمْرُ عِنْدَنَا فِيمَنْ ابْتَاعَ رَقِيقًا فِي صَفْقَةٍ وَاحِدَةٍ فَوَجَدَ فِي ذَلِكَ الرَّقِيقِ عَبْدًا مَسْرُوقًا أَوْ وَجَدَ بِعَبْدٍ مِنْهُمْ عَيْبًا إِنَّهُ يُنْظَرُ فِيمَا وُجِدَ مَسْرُوقًا أَوْ وَجَدَ بِهِ عَيْبًا فَإِنْ كَانَ هُوَ وَجْهَ ذَلِكَ الرَّقِيقِ أَوْ أَكْثَرَهُ ثَمَنًا أَوْ مِنْ أَجْلِهِ اشْتَرَى وَهُوَ الَّذِي فِيهِ الْفَضْلُ فِيمَا يَرَى النَّاسُ كَانَ ذَلِكَ الْبَيْعُ مَرْدُودًا كُلُّهُ وَإِنْ كَانَ الَّذِي وُجِدَ مَسْرُوقًا أَوْ وُجِدَ بِهِ الْعَيْبُ مِنْ ذَلِكَ الرَّقِيقِ فِي الشَّيْءِ الْيَسِيرِ مِنْهُ لَيْسَ هُوَ وَجْهَ ذَلِكَ الرَّقِيقِ وَلَا مِنْ أَجْلِهِ اشْتُرِيَ وَلَا فِيهِ الْفَضْلُ فِيمَا يَرَى النَّاسُ رُدَّ ذَلِكَ الَّذِي وُجِدَ بِهِ الْعَيْبُ أَوْ وُجِدَ مَسْرُوقًا بِعَيْنِهِ بِقَدْرِ قِيمَتِهِ مِنْ الثَّمَنِ الَّذِي اشْتَرَى بِهِ أُولَئِكَ الرَّقِيقَ
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১১৯৬
کتاب بیع کے بیان میں
لونڈی کو شرط لگا کر بیچنے کا بیان
عبداللہ بن مسعود نے ایک لونڈی خریدی اپنی بی بی زینب ثقفیہ سے ان کی بی بی نے اس شرط سے بیچی کہ جب تم اس لونڈی کو بیچنا عبداللہ بن مسعود اس امر کو حضرت عمر سے بیان کیا انہوں نے کہا تو اس لونڈی سے صحبت مت کر جس میں کسی کی شرط لگی ہو۔
عَنْ عُبَيْدَ اللَّهِ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ أَخْبَرَهُ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعَودٍ ابْتَاعَ جَارِيَةً مِنْ امْرَأَتِهِ زَيْنَبَ الثَّقَفِيَّةِ وَاشْتَرَطَتْ عَلَيْهِ أَنَّکَ إِنْ بِعْتَهَا فَهِيَ لِي بِالثَّمَنِ الَّذِي تَبِيعُهَا بِهِ فَسَأَلَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ عَنْ ذَلِکَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ لَا تَقْرَبْهَا وَفِيهَا شَرْطٌ لِأَحَدٍ
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১১৯৭
کتاب بیع کے بیان میں
لونڈی کو شرط لگا کر بیچنے کا بیان
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ وہ کہتے تھے آدمی کو اس لونڈی سے وطی کرنا درست ہے جس پر سب طرح کا اختیار ہو اگر چاہے اس کو بیچ ڈالے چاہے ہبہ کر دے چاہے رکھ چھوڑے جو چاہے سو کرسکے۔ کہا مالک نے جو شخص کسی لونڈی کو اس شرط پر خریدے کہ اس کو بیچوں گا نہیں یا ہبہ نہ کروں گا یا اس کی مثل اور کوئی شرط لگا دی تو اس لونڈی سے وطی کرنا درست نہیں کیونکہ جب اس کو اس لونڈی کے بیچنے یا ہبہ کرنے کا اختیار نہیں ہے تو اس کی ملک پوری نہیں ہوئی اور جو لوازم تھے اس کی ملک کے وہ غیر کے اختیار میں رہے اور اس طرح کی بیع مکروہ ہے۔
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ أَنَّهُ کَانَ يَقُولُ لَا يَطَأُ الرَّجُلُ وَلِيدَةً إِلَّا وَلِيدَةً إِنْ شَائَ بَاعَهَا وَإِنْ شَائَ وَهَبَهَا وَإِنْ شَائَ أَمْسَکَهَا وَإِنْ شَائَ صَنَعَ بِهَا مَا شَائَ قَالَ مَالِک فِيمَنْ اشْتَرَی جَارِيَةً عَلَی شَرْطِ أَنْ لَا يَبِيعَهَا وَلَا يَهَبَهَا أَوْ مَا أَشْبَهَ ذَلِکَ مِنْ الشُّرُوطِ فَإِنَّهُ لَا يَنْبَغِي لِلْمُشْتَرِي أَنْ يَطَأَهَا وَذَلِکَ أَنَّهُ لَا يَجُوزُ لَهُ أَنْ يَبِيعَهَا وَلَا أَنْ يَهَبَهَا فَإِنْ کَانَ لَا يَمْلِکُ ذَلِکَ مِنْهَا فَلَمْ يَمْلِکْهَا مِلْکًا تَامًّا لِأَنَّهُ قَدْ اسْتُثْنِيَ عَلَيْهِ فِيهَا مَا مَلَکَهُ بِيَدِ غَيْرِهِ فَإِذَا دَخَلَ هَذَا الشَّرْطُ لَمْ يَصْلُحْ وَکَانَ بَيْعًا مَکْرُوهًا
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১১৯৮
کتاب بیع کے بیان میں
خاوند والی لونڈی سے وطی کرنا منع ہے۔
ابن شہاب سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر نے عثمان بن عفان کو ایک لونڈی ہدیہ دی مگر اس کا ایک خاوند تھا اور عبداللہ نے اس لونڈی کو بصرے میں خریدا تھا تو عثمان نے کہا میں اس لونڈی سے وطی نہ کروں گا جب تک اس کا خاوند اس کو چھوڑ نہ دے عبداللہ نے اس خاوند کو راضی کردیا تو اس نے چھوڑ دیا۔
عَنْ ابْنِ شِهَابٍ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَامِرٍ أَهْدَی لِعُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ جَارِيَةً وَلَهَا زَوْجٌ ابْتَاعَهَا بِالْبَصْرَةِ فَقَالَ عُثْمَانُ لَا أَقْرَبُهَا حَتَّی يُفَارِقَهَا زَوْجُهَا فَأَرْضَی ابْنُ عَامِرٍ زَوْجَهَا فَفَارَقَهَا
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১১৯৯
کتاب بیع کے بیان میں
خاوند والی لونڈی سے وطی کرنا منع ہے۔
ابی سلمہ بن عبدالرحمن (رض) روایت ہے کہ عبدالرحمن بن عوف نے ایک لونڈی خریدی بعد اس کے معلوم ہوا وہ خاوند رکھتی ہے تو اس کو واپس کردیا۔
عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ عَوْفٍ ابْتَاعَ وَلِيدَةً فَوَجَدَهَا ذَاتَ زَوْجٍ فَرَدَّهَا
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১২০০
کتاب بیع کے بیان میں
جب درخت بیچا جائے تو اس کے پھل اس میں شامل نہ ہوں گے
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو شخص کھجور کا درخت تابیر کیا ہو بیچ تو اس کے پھل بائع (بچنے والا) کے ہوں گے مگر جس صورت میں مشتری (خریدنے والا) شرط کرلے کہ بھل میرے ہیں۔
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ بَاعَ نَخْلًا قَدْ أُبِّرَتْ فَثَمَرُهَا لِلْبَائِعِ إِلَّا أَنْ يَشْتَرِطَ الْمُبْتَاعُ
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১২০১
کتاب بیع کے بیان میں
جب تک پھلوں کی پختگی معلوم نہ ہو اس کے بیچنے کی ممانعت
ابن عمر سے روایت ہے کہ منع کیا رسول اللہ ﷺ نے پھلوں کے بیچنے سے یہاں تک کہ ان کی پختگی اور بہتری کا یقین ہوجائے منع کیا بائع (بچنے والا) کو اور مشتری (خریدنے والا) کو۔
عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَی عَنْ بَيْعِ الثِّمَارِ حَتَّی يَبْدُوَ صَلَاحُهَا نَهَی الْبَائِعَ وَالْمُشْتَرِيَ
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১২০২
کتاب بیع کے بیان میں
جب تک پھلوں کی پختگی معلوم نہ ہو اس کے بیچنے کی ممانعت
حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے منع کیا پھلوں کے بیچنے سے یہاں تک کہ خوش رنگ ہوجائیں لوگوں نے کہا اس سے کیا مراد ہے یا رسول اللہ ﷺ آپ ﷺ نے فرمایا سرخ یا زرد ہوجائیں اور آپ ﷺ نے فرمایا کیا اگر اللہ ان پھلوں کو پکنے نہ دے تو کس چیز کے بدلے میں تم میں سے کوئی اپنی بھائی کا مال لے گا۔
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَی عَنْ بَيْعِ الثِّمَارِ حَتَّی تُزْهِيَ فَقِيلَ لَهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَمَا تُزْهِيَ فَقَالَ حِينَ تَحْمَرُّ وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرَأَيْتَ إِذَا مَنَعَ اللَّهُ الثَّمَرَةَ فَبِمَ يَأْخُذُ أَحَدُکُمْ مَالَ أَخِيهِ
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১২০৩
کتاب بیع کے بیان میں
جب تک پھلوں کی پختگی معلوم نہ ہو اس کے بیچنے کی ممانعت
عمرہ بنت عبدالرحمن (رض) روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے منع کیا پھلوں کی بیع سے یہاں تک کہ آفت کا خوف جاتا رہے۔
عَنْ عَمْرَةَ بِنْتِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَی عَنْ بَيْعِ الثِّمَارِ حَتَّی تَنْجُوَ مِنْ الْعَاهَةِ
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১২০৪
کتاب بیع کے بیان میں
جب تک پھلوں کی پختگی معلوم نہ ہو اس کے بیچنے کی ممانعت
زید بن ثابت اپنے پھلوں کو اس وقت بیچتے جب ثریا کے تارے نکل آتے۔ کہا مالک نے خربوزہ اور ککڑی اور گا جر کا بیچنا درست ہے جب ان کو بہتری کا حال معلوم ہوجائے پھر جو کچھ اگیں وہ فصل کے تمام ہونے تک مشتری (خریدنے والا) کے ہوں گے اس کا کوئی وقت مقرر نہیں ہر جگہ کے دستور اور رواج کے موافق حکم ہوگا اگر قبل اس وقت کے کسی آفت کے سبب نقصان ہو تہائی مال تک تو مشتری (خریدنے والا) کو وہ نقصان مجرادیا جائے گا تہائی سے کم اگر نقصان ہو تو مجرانہ دیا جائے گا۔
عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ أَنَّهُ کَانَ لَا يَبِيعُ ثِمَارَهُ حَتَّی تَطْلُعَ الثُّرَيَّا قَالَ مَالِک وَالْأَمْرُ عِنْدَنَا فِي بَيْعِ الْبِطِّيخِ وَالْقِثَّائِ وَالْخِرْبِزِ وَالْجَزَرِ إِنَّ بَيْعَهُ إِذَا بَدَا صَلَاحُهُ حَلَالٌ جَائِزٌ ثُمَّ يَکُونُ لِلْمُشْتَرِي مَا يَنْبُتُ حَتَّی يَنْقَطِعَ ثَمَرُهُ وَيَهْلِکَ وَلَيْسَ فِي ذَلِکَ وَقْتٌ يُؤَقَّتُ وَذَلِکَ أَنَّ وَقْتَهُ مَعْرُوفٌ عِنْدَ النَّاسِ وَرُبَّمَا دَخَلَتْهُ الْعَاهَةُ فَقَطَعَتْ ثَمَرَتَهُ قَبْلَ أَنْ يَأْتِيَ ذَلِکَ الْوَقْتُ فَإِذَا دَخَلَتْهُ الْعَاهَةُ بِجَائِحَةٍ تَبْلُغُ الثُّلُثَ فَصَاعِدًا کَانَ ذَلِکَ مَوْضُوعًا عَنْ الَّذِي ابْتَاعَهُ
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১২০৫
کتاب بیع کے بیان میں
عریہ کے بیان میں
زید بن ثابت سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے رخصت دی عریہ والے اپنا میوہ بیچنے کی اٹکل سے۔
عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْخَصَ لِصَاحِبِ الْعَرِيَّةِ أَنْ يَبِيعَهَا بِخَرْصِهَا
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১২০৬
کتاب بیع کے بیان میں
عریہ کے بیان میں
ابوہریرہ (رض) روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے رخصت دی عریوں کے بیچنے کی اٹکل سے بشرطیکہ پانچ وسق سے کم ہوں یا پانچ وسق کے اندر ہوں۔ کہا مالک نے عریہ کا اندازہ درختوں پر کرلیا جائے گا اور آنحضرت ﷺ نے اس کو جائز رکھا یہ تولیہ یا اقالہ یا شرکت کے مثل ہے اگر یہ اور بیعوں کے مثل ہوتا تو کھانے کی چیزوں کا تولیہ یا اقالہ یا شرکت قبل قبضے کے نا درست ہے یہ بھی درست نہ ہوتا۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْخَصَ فِي بَيْعِ الْعَرَايَا بِخَرْصِهَا فِيمَا دُونَ خَمْسَةِ أَوْسُقٍ أَوْ فِي خَمْسَةِ أَوْسُقٍ يَشُکُّ دَاوُدُ قَالَ خَمْسَةِ أَوْسُقٍ أَوْ دُونَ خَمْسَةِ أَوْسُقٍ قَالَ مَالِک وَإِنَّمَا تُبَاعُ الْعَرَايَا بِخَرْصِهَا مِنْ التَّمْرِ يُتَحَرَّی ذَلِکَ وَيُخْرَصُ فِي رُئُوسِ النَّخْلِ وَإِنَّمَا أُرْخِصَ فِيهِ لِأَنَّهُ أُنْزِلَ بِمَنْزِلَةِ التَّوْلِيَةِ وَالْإِقَالَةِ وَالشِّرْکِ وَلَوْ کَانَ بِمَنْزِلَةِ غَيْرِهِ مِنْ الْبُيُوعِ مَا أَشْرَکَ أَحَدٌ أَحَدًا فِي طَعَامِهِ حَتَّی يَسْتَوْفِيَهُ وَلَا أَقَالَهُ مِنْهُ وَلَا وَلَّاهُ أَحَدًا حَتَّی يَقْبِضَهُ الْمُبْتَاعُ
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১২০৭
کتاب بیع کے بیان میں
پھلوں اور کھیتوں کی بیع میں آفت کا بیان
عمرہ بنت عبدالرحمن (رض) روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں ایک شخص نے باغ کے پھل خریدے اور اس کی درستی میں مصروف ہوا مگر ایسی آفت آئی جس سے نقصان معلوم ہوا تو باغ کے مالک سے کہا یا تو پھلوں کی قیمت کچھ کم کردو یا اس بیع کو فسخ کر ڈالو اس نے قسم کھالی میں ہرگز نہ کروں گا تب خریداری کر ڈالو اس نے قسم کھالی میں ہرگز نہ کروں گا تب خریدار کی ماں نے رسول اللہ ﷺ سے آن کر یہ سب قصہ بیان کیا آپ ﷺ نے فرمایا کیا قسم کھالی اس نے کہ میں یہ بہتری کا کام نہ کروں گا جب مالک باغ کو یہ خبر پہنچی وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ جیسا خریدار کہے وہ مجھ کو منظور ہے۔ عمر بن عبدالعزیز نے حکم کیا مشتری (خریدنے والا) کو نقصان دلانے کا جب کھیت یا میوے کو آفت پہنچے۔ کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہی حکم ہے لیکن یہ ضرور ہے کہ اس آفت سے تہائی مال یا زیادہ نقصان ہوا ہو اگر اس سے کم نقصان ہوگا اس کا شمار نہیں۔
عَنْ عَمْرَةَ بِنْتِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَنَّهُ سَمِعَهَا تَقُولُ ابْتَاعَ رَجُلٌ ثَمَرَ حَائِطٍ فِي زَمَانِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَعَالَجَهُ وَقَامَ فِيهِ حَتَّی تَبَيَّنَ لَهُ النُّقْصَانُ فَسَأَلَ رَبَّ الْحَائِطِ أَنْ يَضَعَ لَهُ أَوْ أَنْ يُقِيلَهُ فَحَلَفَ أَنْ لَا يَفْعَلَ فَذَهَبَتْ أُمُّ الْمُشْتَرِي إِلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَکَرَتْ ذَلِکَ لَهُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَأَلَّی أَنْ لَا يَفْعَلَ خَيْرًا فَسَمِعَ بِذَلِکَ رَبُّ الْحَائِطِ فَأَتَی رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ هُوَ لَهُ عَنْ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِيزِ قَضَی بِوَضْعِ الْجَائِحَةِ قَالَ مَالِک وَعَلَی ذَلِکَ الْأَمْرُ عِنْدَنَا قَالَ مَالِک وَالْجَائِحَةُ الَّتِي تُوضَعُ عَنْ الْمُشْتَرِي الثُّلُثُ فَصَاعِدًا وَلَا يَکُونُ مَا دُونَ ذَلِکَ جَائِحَةً
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১২০৮
کتاب بیع کے بیان میں
کچھ پھل یا میوے کا بیع سے مستثنی کر نیکا بیان
قاسم بن محمد اپنے باغ کے میووں کو بیچتے پھر اس میں سے کچھ مستثنی کرلیتے۔
عَنْ الْقَاسِمَ بْنَ مُحَمَّدٍ کَانَ يَبِيعُ ثَمَرَ حَائِطِهِ وَيَسْتَثْنِي مِنْهُ
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১২০৯
کتاب بیع کے بیان میں
کچھ پھل یا میوے کا بیع سے مستثنی کر نیکا بیان
عبداللہ بن ابی بکر سے روایت ہے کہ ان کے دادا محمد بن عمرہ بن حزم نے اپنے باغ کا میوہ بیچا چار ہزار درہم کو اس میں سے آٹھ سو درہم کے کھجور مستثنی کر لئے اس باغ کا نام افرق تھا۔
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَکْرٍ أَنَّ جَدَّهُ مُحَمَّدَ بْنَ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ بَاعَ ثَمَرَ حَائِطٍ لَهُ يُقَالُ لَهُ الْأَفْرَقُ بِأَرْبَعَةِ آلَافِ دِرْهَمٍ وَاسْتَثْنَی مِنْهُ بِثَمَانِ مِائَةِ دِرْهَمٍ تَمْرًا
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১২১০
کتاب بیع کے بیان میں
کچھ پھل یا میوے کا بیع سے مستثنی کر نیکا بیان
عمرہ بنت عبدالرحمن اپنے پھلوں کو بیچتیں اور اس میں سے کچھ نکال لیتیں۔ کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم اتفاقی ہے کہ جو آدمی اپنے باغ کا میوہ بچے اس کو اختیار ہے کہ تہائی مال تک مستثنیٰ کرے اس سے زیادہ درست نہیں اور جو سارے باغ میں سے ایک درخت یا درخت کے پھل مستثنی کرلے اور اس کو معین کر دے تو بھی کچھ قباحت نہیں ہے کیونکہ گویا مالک نے سوائے ان درختوں کے باقی کو بیچا اور ان کو نہ بیچا اس امر کا مالک کو اختیار ہے۔
عَنْ عَمْرَةَ بِنْتَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ کَانَتْ تَبِيعُ ثِمَارَهَا وَتَسْتَثْنِي مِنْهَا قَالَ مَالِک الْأَمْرُ الْمُجْتَمَعُ عَلَيْهِ عِنْدَنَا أَنَّ الرَّجُلَ إِذَا بَاعَ ثَمَرَ حَائِطِهِ أَنَّ لَهُ أَنْ يَسْتَثْنِيَ مِنْ ثَمَرِ حَائِطِهِ مَا بَيْنَهُ وَبَيْنَ ثُلُثِ الثَّمَرِ لَا يُجَاوِزُ ذَلِکَ وَمَا کَانَ دُونَ الثُّلُثِ فَلَا بَأْسَ بِذَلِکَ قَالَ مَالِک فَأَمَّا الرَّجُلُ يَبِيعُ ثَمَرَ حَائِطِهِ وَيَسْتَثْنِي مِنْ ثَمَرِ حَائِطِهِ ثَمَرَ نَخْلَةٍ أَوْ نَخَلَاتٍ يَخْتَارُهَا وَيُسَمِّي عَدَدَهَا فَلَا أَرَی بِذَلِکَ بَأْسًا لِأَنَّ رَبَّ الْحَائِطِ إِنَّمَا اسْتَثْنَی شَيْئًا مِنْ ثَمَرِ حَائِطِ نَفْسِهِ وَإِنَّمَا ذَلِکَ شَيْئٌ احْتَبَسَهُ مِنْ حَائِطِهِ وَأَمْسَکَهُ لَمْ يَبِعْهُ وَبَاعَ مِنْ حَائِطِهِ مَا سِوَی ذَلِکَ
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১২১১
کتاب بیع کے بیان میں
جو بیع کھجوروں کی مکروہ ہے اس کا بیان
عطاء بن یسار سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ کھجور کو کھجور کے بدلے میں برابر برابر بیچو ایک شخص بولا یا رسول اللہ ﷺ آپ کو عامل خبری پر ایک صاع کھجور لے کردو صاع دیتا ہے کھجور دے کر ایک صاع لیتا ہے وہ بولا یا رسول اللہ ﷺ ایک صاع بہتر کھجور اور ایک صاع بری کھجور کے بدلے میں نہیں آتی آپ ﷺ نے فرمایا پہلے بری کھجور کو روپوں کے بدلے میں بیچ کر پھر عمدہ کھجور کو خرید کرلے۔
عَنْ عَطَائِ بْنِ يَسَارٍ أَنَّهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ التَّمْرُ بِالتَّمْرِ مِثْلًا بِمِثْلٍ فَقِيلَ لَهُ إِنَّ عَامِلَکَ عَلَی خَيْبَرَ يَأْخُذُ الصَّاعَ بِالصَّاعَيْنِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ادْعُوهُ لِي فَدُعِيَ لَهُ فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَتَأْخُذُ الصَّاعَ بِالصَّاعَيْنِ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ لَا يَبِيعُونَنِي الْجَنِيبَ بِالْجَمْعِ صَاعًا بِصَاعٍ فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعْ الْجَمْعَ بِالدَّرَاهِمِ ثُمَّ ابْتَعْ بِالدَّرَاهِمِ جَنِيبًا
tahqiq

তাহকীক: